جہنم سانس باہر نکالتی ہے تو گرمی زیادہ ہو جاتی ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

شائع ہوا: ماہنامہ الحدیث شمارہ 16 صفحہ نمبر 25 تا 26

سوال: کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ چھ ماہ کے بعد جہنم سانس باہر نکالتی ہے تو گرمی زیادہ ہو جاتی ہے؟

جس حدیث میں آیا ہے کہ جہنم سانس باہر نکالتی ہے تو گرمی زیادہ ہو جاتی ہے بالکل صحیح حدیث ہے۔

اسے امام بخاری (۵۳۷) امام مسلم(۶۱۷) امام مالک(المؤطا ۱/۱۶ح۲۷)امام شافعی ( کتاب الأم ص۵۸ ح۱۱۳) اور امام احمد بن حنبل (المسند۲/۲۳۸ ح۷۲۴۶) وغیرہم نے متعدد سندوں کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اس کے شواہد صحیفہ ہمام بن منبہ (ح ۱۰۸) وغیرہ میں بھی موجود ہیں۔

گرمی کی شدت کا جہنم میں سے ہونا دیگر صحابہ کرام مثلاً سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ (صحیح البخاری:۵۳۸) سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری:۵۳۵ وصحیح مسلم:۶۱۶) اور سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ (السنن الکبر ی للنسائی ۱/۴۶۵ ح ۱۴۹۰) وغیرہم سے مروی ہے۔

بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مجاز پر محمول ہے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث حقیقت پر محمول ہے۔

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (متوفی۴۶۵ھ) لکھتے ہیں کہ:

ولکلا القولین وجہ یطول الاعتلال لہ. واللہ الموفق للصواب

یعنی یہ دونوں اقوال واضح مفہوم رکھتے ہیں جن پر بحث طوالت کا باعث ہے اور اللہ حق (ماننے) کی توفیق دینے والاہے۔ (التمہید ج ۱۹ ص ۱۱۷)

اگر اس حدیث کا حقیقی معنی مراد لیا جائے تو زمین پر شدیدگرمی (جہنم کی) آگ کے تنفس کی وجہ سے ہوتی ہے جس کی کیفیت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ باقی رہے وہ علاقے جہاں اس دوران بھی سردی ہوتی ہے تو یہ استثنائی صورتیں اورموانع موجودہیں ۔مثلاً سخت گرمی کے دوران جب بارش ہو جائے تو موسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے اسی طرح اونچے پہاڑ ،گھنے درخت اور برف ان موانع میں سے ہیں جن کی وجہ سے گرمی کی شدت کم ہو جاتی ہے۔

استثنائی صورتوں کی وجہ سے اصول نہیں بدلتے ۔مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا

بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا، ہم اسے آزمانا چاہتے ہیں ۔ پس ہم نے اسے سننے والا (اور) دیکھنے والا بنایا ہے۔ (سورۃ الدھر:۲)

حالانکہ بہت سے لوگ بہرے یا اندھے بھی پیدا ہوتے ہیں اور ساری زندگی بہرے یا اندھے ہی رہتے ہیں۔

جس طرح اس آیت کریمہ میں تخصیص اور استثنائی صورت موجود ہے ، اسی طرح آگ کے سانس والی حدیث میں استثناء اور تخصیص موجود ہے ۔ واللہ اعلم

مکمل (یعنی اصلی) مضمون کے لئے دیکھیں: ماہنامہ الحدیث شمارہ 16 صفحہ نمبر 25 تا 26