وحدت الوجود کے ایک پیروکار ’’حسین بن منصور الحلاج‘‘ کے بارے میں تحقیق

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


حسین بن منصور الحلاج، جسے جاہل لوگ منصور الحلاج کے نام سے یادکرتے ہیں، کا مختصر و جامع تعارف درج ذیل ہے:

1- حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’المقتول علی الزندقۃ، ماروی وللّٰہ الحمد شیئًا من العلم، وکانت لہ بدایۃ جیّدۃ وتألّہ وتصوّف، ثم انسلخ من الدین، وتعلم السحر وأراھم المخاریق، أباح العلماء دمہ فقتل سنۃ احدی عشرۃ و ثلا ثمائۃ‘‘

اسے زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے علم کی کوئی چیز روایت نہیں کی۔ اُس کی ابتدائی حالت (بظاہر) اچھی تھی، عبادت گزاری اور تصوف (کا اظہار کرتا تھا) پھر وہ دین (اسلام) سے نکل گیا، جادو سیکھا اور (استدراج کرتے ہوئے) خرق عادت چیزیں لوگوں کو دکھائیں، علماء کرام نے فتویٰ دیا کہ اس کا خون (بہانا) جائز ہے لہٰذا اُسے 311ھ میں قتل کیا گیا۔

(میزان الاعتدال ج 1 ص 548)

2- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’والناس مختلفون فیہ، وأکثرھم علی أنہ زندیق ضال‘‘

لوگوں کا اس (حسین بن منصور الحلاج) کے بارے میں اختلاف ہے، اکثریت کے نزدیک وہ زندیق گمراہ (تھا) ہے۔

(لسان المیزان ج 2 ص 314 والنسخۃ المحققۃ 2/ 582)

دورِ متاخرین میں اسماء الرجال کے ان دو جلیل القدر اماموں اور اسماء الرجال کی دو مشہور ترین کتابوں سے جمہور علماء کے نزدیک حلاج مذکور کا زندیق و گمراہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔

3- جلیل القدر امام ابوعمر محمد بن العباس بن محمد بن زکریا بن یحییٰ البغدادی (ابن حیویہ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’لما أخرج حسین الحلاج لیقتل مضیت في جملۃ النّاس، ولم أزل أزاحم حتی رأیتہ، فقال لأصحابہ: لا یھولنم ھذا، فإني عائد إلیکم بعد ثلاثین یومًا، ثم قتل‘‘

جب حسین (بن منصور) حلاج کو قتل کے لئے (جیل سے) نکالا گیا تو میں بھی لوگوں کے ساتھ (اُسے دیکھنے کے لئے) گیا، میں نے لوگوں کے رش کے باوجود اُسے دیکھ لیا، وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا: ’’تم اس سے نہ ڈرنا، میں تیس (30) دنوں کے بعد تمھارے پاس دوبارہ (زندہ ہو کر) آجاؤں گا‘‘ پھر وہ قتل کر دیا گیا۔

(تاریخ بغداد ج 8 ص 131 ت 4232 وسندہ صحیح، المنتظم لابن الجوزی 13/ 406 وقال: ’’وھذا الإسناد صحیح لاشک فیہ‘‘ لسان المیزان 2/ 315 وقال: ’’وإسناد ھا صحیح‘‘)

اس صحیح سند سے معلوم ہوا کہ حسین بن منصور حلاج جھوٹا شخص تھا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’وعند جماھیر المشائخ الصوفیۃ وأھل العلم أن الحلاج لم یکن من المشائخ الصالحین، بل کان زندیقًا‘‘

جمہور مشائخِ تصوف اور اہلِ علم (علمائے حق) کے نزدیک حلاج نیک لوگوں میں سے نہیں تھا بلکہ زندیق (بہت بڑا ملحد وگمراہ) تھا۔

(مجموع فتاویٰ ج 8 ص 318)

شیخ الاسلام (ابن تیمیہ) نے فرمایا:

’’الحمدللّٰہ رب العالمین، الحلاج قتل علی الزندقۃ‘‘

اللہ رب العالمین کا شکر ہے، حلاج کو زندیق ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔

(مجموع فتاویٰ 35/ 108)

شیخ الاسلام (ابن تیمیہ) نے مزید فرمایا:

’’وکذلک من لم یجوز قتل مثلہ فھو مارق من دین الإسلام‘‘

اور اسی طرح جو شخص حلاج کے قتل کو جائز نہیں سمجھتا تو وہ (شخص) دین اسلام سے خارج ہے۔

(مجموع فتاویٰ ج 2 ص 486)

4- حافظ ابن الجوزی نے اس (حسین بن منصور) کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ’’القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج‘‘ (المنتطم 13/ 204)

ابن جوزی فرماتے ہیں:

’’أنہ کان مُمَخْرِقًا‘‘

بے شک وہ جھوٹا باطل پرست تھا۔

(القاطع المحال اللجاج القاطع بمحال الحلاج 13/ 206)

ان شدید جرحوں کے مقابلے میں حلاج مذکور کی تعریف و توثیق ثابت نہیں ہے۔

ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی صاحب نے اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کی زیرِ نگرانی ایک کتاب لکھی ہے ’’القول المنصور فی ابن منصور، سیرت منصور حلاج‘‘ یہ کتاب مکتبہ دارالعلوم کراچی نمبر 14 سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں تھانوی صاحب نے موضوع، بے اصل اور مردود روایات جمع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ (دیوبندیوں کے نزدیک) حسین بن منصور حلاج اچھا آدمی تھا۔(!)

مثال نمبر 1: تھانوی صاحب نے لکھا ہے:’’لوگوں کے اسرار بیان کر دیتے، ان کے دلوں کی باتیں بتلا دیتے (یعنی کشف ضمائر بھی حاصل تھا) اسی وجہ سے ان کو حلاج الاسرار کہنے لگے، پھر حلاج لقب پڑ گیا‘‘ (سیرت منصور حلاج ص 31)

تبصرہ: اس قول کی بنیاد تاریخ بغداد کی ایک روایت ہے جسے احمد بن الحسین بن منصور نے تستر میں بیان کیا تھا (ج 8 ص 113) احمد بن الحسین بن منصور کے حالات معلوم نہیں ہیں لہٰذا یہ شخص مجہول ہے۔

مثال نمبر 2: تھانوی صاحب نے لکھا ہے:’’حسین بن منصور نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے حدوث کو لازم کر دیا ہے……‘‘ (سیرت منصور حلاج ص 47 بحوالہ رسالہ قشیریہ)

عبدالکریم بن ہوازن القشیری کے الرسالۃ القشیریۃ میں یہ عبارت بحوالہ ابو عبدالرحمٰن (محمد بن الحسین) السلمی النیسابوری لکھی ہوئی ہے۔ (ص 13 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

ابو عبدالرحمٰن السلمی اگرچہ اپنے عام شہر والوں اور اپنے مریدوں کے نزدیک جلیل القدر تھا مگر اسی شہر کے محدث محمد بن یوسف القطان النیسابوری (وکان صدوقًا، لہ معرفۃ بالحدیث وقد درس شیئًا من فقہ الشافعي، ولہ مذھب مستقیم وطریقۃ جمیلۃ / تاریخ بغداد 3/ 411) فرماتے ہیں:

’’کان أبو عبدالرحمٰن السلمي غیرثقۃ…… وکان یضع للصوفیۃ الأحادیث‘‘

ابو عبدالرحمٰن السلمی غیر ثقہ تھا…… اور وہ صوفیوں کے لئے احادیث گھڑتا تھا۔

(تاریخ بغداد ج 2 ص 248 وسندہ صحیح)

اس شدید جرح کے مقابلے میں سلمی مذکور کی تعدیل بطریقۂ محدثین ثابت نہیں ہے۔

سلمی کے استاد محمد بن محمد بن غالب اور اس کے استاد ابو نصر احمد بن سعید الاسفنجانی کی توثیق بھی مطلوب ہے۔

خلاصہ یہ کہ اس موضوع سند کو تھانوی صاحب نے فخریہ پیش کیا ہے۔

تنبیہ بلیغ: عبدالکریم بن ہوازن نے رسالہ قشیریہ میں حسین الحلاج کو بطورِ ولی ذکر نہیں کیا۔ رسالہ قشیریہ اس کے ترجمہ سے خالی ہے۔ کسی دوسرے شخص کے حالات میں ذیلی طور پر اگر ایک موضوع روایت میں اُس کا نام آگیا ہے تو اس پر خوشی نہیں منانی چاہئے۔

خلاصۃ التحقیق: حسین بن منصور الحلاج اولیاء اللہ میں سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک گمراہ و زندیق صوفی تھا جسے جلیل القدر فقہاء اسلام کے متفقہ فتوے کی بنیاد پر چوتھی صدی ہجری کے شروع میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کی کرامتوں کے بارے میں سارے قصے موضوع و بے اصل ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ولا أری یتعصب للحلاج إلا من قال بقولہ الّذي ذکر أنہ عین الجمع فھذا ھو قول أھل الوحدۃ المطلقۃ ولھذا تری ابن عربي صاحب الفصوص یعظمہ ویقع فی الجنید واللہ الموفق‘‘

میری رائے میں حلاج کی حمایت ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں کرتا جو اس کی اس بات کے قائل ہیں جس کو وہ عین جمع کہتے ہیں اور یہی اہل وحدت مطلقہ کا قول ہے اس لئے تم ابن عربی صاحب فصوص کو دیکھو گے کہ وہ حلاج کی تو تعظیم کرتے ہیں اور جنید کی تحقیر کرتے ہیں۔

(لسان المیزان ج 2 ص 315، وسیرت منصورحلاج ص 45 حاشیہ)

اہلِ وحدت مطلقہ سے مراد وہ صوفی حضرات ہیں جو وحدت الوجود اور حلولیت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ تعالی اللہ عمّا یقولون علوًا کبیرًا

اس قول کا رد ظفر احمد تھانوی صاحب نے رسالہ قشیریہ کی موضوع روایت سے کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ رد تحقیقی میدان میں بذاتِ خود مردود ہے۔ تھانوی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’’ابن منصور اور جنید کا عقیدہ توحید ایک ہی تھا‘‘ [ص46] مگر انھوں نے اس دعویٰ پر کوئی صحیح دلیل پیش نہیں کی۔ علمی میدان میں عبدالوہاب الشعرانی، خرافی صوفی بدعتی کے بے سند حوالوں سے کام نہیں چلتا بلکہ صحیح و ثابت سندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

’’الحدیث‘‘ حضرو کا یہ امتیاز ہے کہ ’’الحدیث‘‘ میں صرف صحیح و ثابت حوالہ ہی بطورِ استدلال لکھا جاتا ہے۔ اسماء الرجال کے حوالے بھی اصل کتابوں سے صحیح و ثابت سندوں کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔ ضعیف روایات اور ضعیف حوالوں کی ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے۔ والحمدللّٰہ علٰی ذلک

رسول اللہ ﷺ کی احادیث ہوں یا سلف صالحین کے آثار و اسماء الرجال کے حوالے، سب کے لئے صحیح و حسن لذاتہ اسانید کی ضرورت ہے۔

شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ (متوفی 181ھ) فرماتے ہیں:

’’الإسناد من الدّین، ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء‘‘

سند دین میں سے ہے، اگر سند نہ ہوتی تو جو شخص جو چاہتا کہہ دیتا۔

(مقدمہ صحیح مسلم ترقیم دارالسلام: 32 وسندہ صحیح)

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 159 تا 163) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ