امام ابو بکر عبداللہ بن ابی داود رحمہ اللہ کے اشعار

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


امام ابن شاہین نے فرمایا: ہمارے استاذ (امام) ابو بکر بن ابی داود السجستانی (متوفی 316ھ) نے فرمایا:

1: تمسک بحبل اللہ واتبع الھدی --- ولا تک بدعیًا لعلک تفلح

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ اور ہدایت کی اتباع کر اور بدعتی نہ بننا، تاکہ تو فلاح پا جائے۔

2: ودن بکتاب اللہ والسنن التي --- أتت عن رسول اللہ تنجو وتربح

کتاب اللہ (قرآن) اور رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ سنتوں (حدیثوں) کو اپنا دین بنا، نجات پا جائے گا اور نفع میں رہے گا۔

3: وقل: غیر مخلوق کلام ملیکنا --- بذلک دان الأتقیاء وأفصحوا

اور کہہ: ہمارے مالک (اللہ) کا کلام غیر مخلوق ہے، یہی عقیدہ متقین کا ہے اور انھوں نے اسے صاف طور پر بیان کر دیا ہے۔

15: وقل: إن خیر الناس بعد محمد --- وزیراہ قدمًا ثم عثمان أرجح

اور کہہ: محمد (ﷺ) کے بعد لوگوں میں سے سب سے بہتر آپ کے دونوں قدیم وزیر (ابو بکر الصدیق اور عمرالفاروق رضی اللہ عنہما) ہیں، پھر (تیسرے نمبر پر) عثمان راجح ہیں۔

16: ورابعھم خیر البریۃ بعدھم --- علي حلیف الخیر بالخیر منجح

اور چوتھے نمبر پر خیر البریہ (پوری جماعت میں سب سے بہتر) علی ہیں۔ (رضی اللہ عنہ)

خیر کا دوست خیر کے ساتھ کامیاب ہوتا ہے۔

17: و أنھم والرھط لا ریب فیھم --- علٰی نجب الفردوس فی الخلد یسرح

یہ ایسی جماعت ہے جس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ جنت کی خوبصورت سواریوں پر ہمیشہ سیر کریں گے۔

24: ومن بعدھم فالشافعي وأحمد --- إماما الھدی من یتبع الحق یفصح

اور ان کے بعد پھر شافعی اور احمد دونوں ہدایت کے امام ہیں، جو حق کی پیروی کرتا ہے صاف اور فصیح کلام کرتا ہے۔

26: و قل خیر قول فی الصحابۃ کلھم --- ولا تک طعانًا بعیب وتجرح

تمام صحابہ کے بارے میں اچھی بات ہی کہنا، عیب جوئی اور طعن نہ کرنا (ورنہ) تو (صحابہ کے بارے میں) جرح کرنے والا (بلکہ مجروح) ہو جائے گا۔

38: ودع عنک آراء الرجال و قولھم --- فقول رسول اللہ أزکی وأسرج

لوگوں کی آراء واقوال (اگر کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو) چھوڑ دے، پس رسول اللہ (ﷺ) کا قول سب سے بہتر اور سب سے روشن ہے۔

39: ولاتک من قوم تلھّوا بدینھم --- فتطعن (صح) في أھل الحدیث ویقدح

ان لوگوں میں سے نہ ہونا جو اپنے دین کے ساتھ کھیلتے ہیں، پس تُو اہلِ حدیث کے بارے میں طعن اور جرح کرنے والا بن جائے گا (اور بذاتِ خود مجروح ہو جائے گا)

تنبیہ: اصل میں ’’فیطعن‘‘ ہے جبکہ زیادہ راجح ’’فتطعن‘‘ ہے۔ (دیکھئے سیر اعلام النبلاء للذہبی 13/ 236)

40: إذا ما اعتقدت الدھر یا صاح ھذہ --- فأنت علٰی خیر تبیت وتصبح

اے میرے دوست! اگر تو یہ عقیدہ ہمیشہ رکھے گا تو پھر تیرے دن اور رات خیر پرر ہیں گے۔

(شرح مذاہب اہل السنہ لابن شاہین ص 321۔323)

امام ابو بکر بن ابی داود نے ان اشعار کے بعد فرمایا:

یہ میرا قول ہے، میرے والد (امام ابو داود) اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے، ہم نے جن علماء کو دیکھا ہے اور جنھیں نہیں دیکھا ان سے یہی عقیدہ پہنچا ہے، جو شخص اس کے علاوہ میری طرف کچھ اور منسوب کرے تو اس نے جھوٹ بولا ہے۔

(شرح مذاہب اہل السنہ ص 323)

نیز دیکھئے کتاب الشریعہ للآجری (نسخہ مرقمہ ص 973۔975، نسخہ محققہ 5/ 2563۔2565) سیر اعلام النبلاء (13/ 233۔236 وسندہ صحیح) العلو للعلی الغفار (نسخہ محققہ 2/ 1220۔1223 ح 488 وقال الذہبی: ’’ھذہ القصیدۃ متواترۃ عن ناظمھا، رواھا الآجري وصنف لھا شرحًا‘‘) اور شیخ عبدالرزاق بن عبدالمحسن بن حمد البدر المدنی (من المعاصرین وھو ثقۃ ابن ثقۃ) کی کتاب: التحفۃ السنیہ شرح منظومہ ابن ابی داود الحائیہ (ص9۔124)

فائدہ: اس قصیدے سے ثابت ہوا کہ امام ابن ابی داود مقلد نہیں بلکہ اہلِ حدیث میں سے تھے، لہٰذا اُنھیں حنبلی کہنے کا مطلب مقلد ہونا نہیں بلکہ امام احمد بن حنبل کے عقیدے پر ہونا ہے۔ رحمہما اللہ

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 389 تا 391)