کیا ’’شرح السنۃ‘‘ کا مطبوعہ نسخہ امام حسن بن علی البربہاری سے ثابت ہے؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال: کیا امام الحسن بن علی البربہاری کی ’’شر ح السنۃ‘‘ نامی کوئی کتاب ہے؟

الجواب للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ:

اس میں کوئی شک نہیں کہ امام ابومحمدالحسن بن علی بن خلف البربہاری (متوفی 329ھ) حنابلہ کے بڑے اماموں میں سے تھے، حافظ ذہبی فرماتے ہیں: ’’شَیْخُ الحَنَابِلَۃ القُدْوَۃ الإِمَامُ …… الفَقِیْہ، کَانَ قوَّالاً بِالْحَقِّ، دَاعِیَۃً إِلَی الأَثر، لَایَخَافُ فِی اللہ لومَۃَ لاَئِم‘‘ (سیر اعلام النبلاء: 15/ 90)

لیکن ’’شرح السنہ‘‘ کے نام سے جو کتاب مطبوع ہے وہ امام بربہاری سے ثابت نہیں ہے، یہ کتاب جس قلمی نسخے سے شائع کی گئی ہے اس کے ٹائٹل پر لکھا ہواہے: ’’کتاب شرح السنۃ عن أبي عبداللہ أحمد بن محمد بن غالب الباہلي غلام خلیل رحمہ اللہ، روایۃ أبي بکر أحمد بن کامل بن خلف بن شجرۃ القاضي‘‘

مخطوطے کے صفحۂ اُولیٰ پر اس کتاب کی سند درج ذیل ہے:

’’أخبرنا الشیخ الإمام الثقۃ أبو الحسن عبدالحق بن عبدالخالق، قیل لہ: أخبرکم أبو طالب عبدالقادر بن محمد بن عبدالقادر بن محمد بن یوسف بالمسجد الجامع وھو یسمع، قیل لہ: أخبرکم الشیخ أبو إسحاق إبراھیم ابن عمر بن أحمد البرمکي فیما أذن لکم في روایتہ عنہ وأجازہ لکم، فاعرف بذلک وقال: نعم، قال: أنبأ أبو الحسن محمد بن العباس بن أحمد ابن الفرات رحمہ اللہ في کتابہ ومن کتابہ قرئ، قال: أخبرنا أبو بکر أحمد ابن کامل بن خلف بن شجرۃ القاضي قرأۃ علیہ قال: دفع إلي أبو عبداللہ أحمد ابن محمد بن غالب الباھلي ھذا الکتاب وقال لي: اروعني ھذا الکتاب من أولہ إلی آخرہ، قال أبو عبداللہ أحمد بن محمد بن غالب الباھلي ……‘‘

کتاب کے آخری صفحے پر لکھا ہوا ہے: ’’قال أبو عبداللہ غلام خلیل‘‘ إلخ

معلوم ہوا کہ یہ کتاب غلام خلیل کی ہے جسے قاضی احمد بن کامل نے اس سے روایت کیا ہے۔

اب اس کتاب کے بنیادی راویوں کا تعارف درج کیا جاتا ہے تاکہ حقیقتِ حال واضح اور شبہات کا ازالہ ہو سکے:

غلام خلیل کا تعارف:

امام دارقطنی نے کہا: ’’متروک‘‘ (کتاب الضعفاء و المتروکین للدارقطنی: 58)

ابن عدی نے کہا: ’’أحادیثہ مناکیر، لا تحصی کثرۃ وھو بین الأمر بالضعف‘‘ (الکامل 1/ 199)

اسماعیل بن اسحاق القاضی نے غلام خلیل کو کہا: ’’قلیلاً قلیلاً، تکذب‘‘ (المجروحین لابن حبان 1/ 151 وسندہ حسن)

حافظ ذہبی نے کہا: ’’معروف بالوضع‘‘ یعنی یہ شخص وضع حدیث کے ساتھ معروف ہے۔ (دیوان الضعفاء: 92)

شیخ خالد بن قاسم الردادی حنبلی سلفیوں میں بہترین اخلاق کے حامل عالم ہیں، سلفی شیوخ ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، ان سے میری ملاقات مدینہ طیبہ میں اُن کے گھر میں ہوئی تھی۔ شیخ خالد حفظہ اللہ غلام خلیل کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’إنّ غلام خلیل ھذا: کذاب وضاع‘‘ بے شک یہ غلام خلیل کذاب وضاع ہے۔ (مقدمہ شرح السنہ ص 42)

(شیخ خالد کے شبہات کا جواب آگے آرہا ہے۔ ان شاء اللہ)

قاضی احمد بن کامل کا تعارف:

قاضی صاحب کی واضح توثیق کسی محدث سے ثابت نہیں ہے، جبکہ امام دارقطنی فرماتے ہیں:

’’کان متساھلاً، ربما حدث من حفظہ ما لیس عندہ في کتابہ وأھلکہ العجب‘‘

وہ متساہل تھا بعض اوقات اپنے حافظے سے ایسی حدیث بیان کر دیتا جو کہ اس کی کتاب میں نہیں ہوتی تھی، اسے تکبر نے ہلاک کر دیا۔

(سوالات السہمی: 176)

تنبیہ: بعد میں قاضی احمد بن کامل کی توثیق مل گئی لہٰذا قولِ راجح میں وہ جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث راوی ہیں۔ دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 55 ص 30

قاضی احمد کی توثیق ثابت ہونے کے باوجود ’’شرح السنۃ للبربہاری‘‘ غیر ثابت ہی ہے کیونکہ غلام خلیل بذاتِ خود کذاب ہے لہٰذا امام بربہاری اس کتاب سے بَری ہیں۔

شیخ خالد ردادی کے شبہات کا ازالہ:

شیخ خالد ردادی مدنی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’’شرح السنہ للبربہاری‘‘ کے مخطوطے میں تحریف و تبدیلی ہو گئی ہے۔

1: مخطوطے میں ’’عن القرن الثالث إلی القرن الرابع‘‘ (112) ہے جس سے ردادی صاحب تاریخی قرن (صدی) یعنی 301ھ سے 399ھ مراد لے رہے ہیں حالانکہ اس سے وہ قرن مراد ہے جن کا ذکر حدیث ’’خیر الناس قرني‘‘ إلخ میں آیا ہے۔ علامہ نووی نے فرمایا: ’’والصحیح أن قرنہ ﷺ: الصحابۃ والثاني التابعون والثالث تابعوھم‘‘ اور صحیح یہ ہے کہ آپ ﷺ کا قرن صحابہ ہے پھر تابعین ہے اور پھر تبع تابعین۔ (شرح النووی لصحیح مسلم: 16/ 85 ح 2533)

آخری صحابی ابو الطفیل رضی اللہ عنہ …… 110ھ …… میں فوت ہوئے۔ (التقریب: 3111)

آخری تابعی …… 170ھ …… میں فوت ہوئے اور آخری تبع تابعی 220ھ میں فوت ہوئے۔ (فتح الباری 7/6 ح 3650)

اس حساب سے چوتھا قرن 220ھ سے لے کر 270ھ یا 280ھ تک ہے، غلام خلیل 275ھ میں مرا تھا لہٰذا بشرط ِصحت اس کا یہ کہنا کہ ’’إلی القرن الرابع‘‘ بالکل صحیح ہے کیونکہ قرن رابع اس نے پوری طرح پایا ہے! اور اس سے 301ھ سے 399ھ تک مراد لینا غلط ہے۔

2: احمد بن کامل القاضی، غلام خلیل کے مشہور شاگردوں میں سے ہے، خطیب بغدادی لکھتے ہیں: ’’روی عنہ …… وأحمد بن کامل القاضي‘‘ یعنی غلام خلیل سے احمد بن کامل القاضی نے روایت بیان کی ہے۔ (تاریخ بغداد 5/ 78)

احمد بن کامل ہی نے بتایا ہے کہ غلام خلیل …… 275ھ …… میں فوت ہوا تھا۔ (تاریخ بغداد 5/ 80)

حافظ الذہبی نے کہا: ’’غلام خلیل …… وعنہ ابن کامل‘‘ (میزان الاعتدال 1/ 141)

امام حاکم النیسابوری نے غلام خلیل کے ذکر میں کہا ہے: ’’روی عن جماعۃ من الثقات أحادیث موضوعۃ علی ما ذکرہ لنا القاضي أبوبکر أحمد بن کامل بن خلف من زھدہ وورعہ ونعوذ باللہ من زھد یقیم صاحبہ ذلک المقام‘‘ (المدخل: ص 121 ت 18)

بربہاری کے شاگردوں میں احمد بن کامل اور احمد بن کامل کے شاگردوں میں بربہاری کا نام مجھے نہیں ملا۔

3: بربہاری کی طرف منسوب یہ کتاب صرف غلام خلیل اور قاضی احمد بن کامل کی سند سے ہی معلوم و معروف ہے، لہٰذا یہ ساری کتاب مشکوک ہے۔

4: جن لوگوں نے بربہاری کے حالات لکھے ہیں اور کتاب ’’شرح السنہ‘‘ ان کی طرف منسوب کی ہے ان میں سے کسی نے بھی بربہاری کو نہیں دیکھا، بے سند اقوال کی علمی میدان میں کوئی حجت نہیں ہوتی، مثلاً قاضی ابو الحسین محمد بن ابی یعلیٰ (پیدائش 451ھ وفات 526ھ) نے بغیر کسی سند کے حسن بن علی بن خلف البربہاری (متوفی 329ھ) سے نقل کیا کہ انھوں نے شرح السنہ میں یہ لکھا ہے اور یہ لکھا ہے۔ الخ (طبقات الحنابلہ 2/ 18-46)

5: اگر بطورِ تنزل یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ کتاب غلام خلیل کی نہیں بلکہ بربہاری کی ہی ہے، حالانکہ یہ محال اور باطل ہے تو بھی غلام خلیل کے کذاب اور وضاع ہونے کی وجہ سے شرح السنہ کا یہ نسخہ مردود اور غیر ثابت ہی ہے۔

6: امام ابن تیمیہ، امام ذہبی، ابن عبدالھادی، ابن مفلح الحنبلی اور متاخرین نے بغیر کسی صحیح سند سے بربہاری کے جو اقوال نقل کئے ہیں ممکن ہے ان سب کا ماخذ ابن ابی یعلیٰ کی طبقات الحنابلہ ہو، اور اگر نہ بھی ہو تو ان کا ماخذ نامعلوم ہے لہٰذا ان نقول سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ شرح السنہ کا (غلام خلیل والا) نسخہ بربہاری کا ہی لکھا ہوا ہے۔

خلاصہ یہ کہ مطبوعہ شدہ اور طبقات الحنابلہ والی ’’شرح السنہ‘‘ ایک مشکوک کتاب ہے جسے امام بربہاری کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے، حالانکہ امام بربہاری سے یہ کتاب ثابت نہیں ہے، جس شخص کو میری اس تحقیق سے اختلاف ہے اس پر لازم ہے کہ وہ شرح السنہ کا اصلی نسخہ پیش کر کے اس کی سند کا صحیح ہونا ثابت کرے، إذلیس فلیس، وما علینا إلاالبلاغ۔

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (ج 1 ص 149 تا 153) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ