شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


بعض لوگ مخالفت برائے مخالفت کے عادی ہوتے ہیں یا بغض کی آگ میں جل رہے ہوتے اور یہ آگ اس وقت خوب بھڑکتی ہے جب ان کے مخالف کی کوئی بات ان کے ہتھے چڑھ جائے خواہ جھوٹ ہی ہو۔

اس کی ایک جھلک اس وقت دیکھنے کو ملی جب مرزا جہلمی نے شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی تو یار لوگوں نے اس پر مرزا صاحب کی گرفت تو نہ کی، البتہ حسبِ عادت محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور سینے کا سارا کینہ زبان و قلم کے ذریعے سے باہر کیا۔

باوجود یکہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کئی مواقع اور انداز سے مرزا جہلمی سے برأت کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر حافظ عبد الباسط فہیم حفظہ اللہ مدرس مسجد نبوی نے ایک وٹس اپ گروپ میں واضح بھی کیا کہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اپنی وفات سے تقریباً دو ماہ قبل جب عمرے کی سعادت کے لیے گئے تو وہاں شیخ رحمہ اللہ نے مرزا جہلمی سے برات کا اعلان کیا۔

وقتاً فوقتاً اپنے تلامذہ سے بھی اس بات کا اظہار کرتے رہتے تھے۔

ہم یہاں دو عمومی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا بھی مناسب سمجھتے ہیں:

  1. مرزا محمد علی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ میں حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا شاگرد ہوں اور کئی عام و خاص اس تاثر کو قبول بھی کر لیتے ہیں۔

    حالانکہ یہ بالکل غلط ہے کہ مرزا موصوف، شیخ رحمہ اللہ کا شاگرد ہے۔

    اس عارضی تعلق کا پس منظر یہ ہے کہ مرزا صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شیخ رحمہ اللہ کی خدمت میں حضرو پہنچا، آپ سے بہت سے سوالات کیے جن کے جوابات سے مطمئن ہو کر مرزا صاحب نے اہل حدیث ہونے کا اعلان کیا۔

    جو اس راہ کے راہی ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ نئے راہ حق قبول کرنے والے ساتھیوں کو کس قدر توجہ دی جاتی ہے، اسی بنا پر شیخ رحمہ اللہ نے بھی خصوصی توجہ دی اور یاد رہے کہ مرزا ہمیشہ اسی طرح ایک سائل ہی ہوتا جس طرح سینکڑوں لوگ روزانہ فون پر یا ملاقات کر کے اپنے سوالات کے جوابات حاصل کرتے تھے اور ان میں سے کبھی کسی نے شاگرد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔

    واضح رہے کہ جب تک مرزا محمد علی خود کو اہل حدیث کہتا رہا اور سلف صالحین کا قدر دان رہا، شیخ رحمہ اللہ نے اس کی اصلاح کی غرض سے رابطہ برقرار رکھا لیکن جب یہ اہل حدیث اور اس کے منہج سے منحرف ہو گیا اور اصلاح کے پہلو معدوم ہوتے چلے گئے تو محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے نہ صرف رابطہ ختم کر دیا بلکہ برات کا اعلان بھی کر دیا، کیونکہ شیخ رحمہ اللہ غیور اہل حدیث تھے۔ وللہ الحمد

    مدارس میں اساتذہ سے باقاعدہ پڑھنے والے اور فارغ التحصیل بھی بغاوت کی راہ اختیار کر لیتے اور منہج سلف سے منہ موڑ لیتے ہیں، سر سے پاؤں تک غیر اسلامی حلیہ بنا لیتے ہیں تو کیا ایسے میں ان مدارس یا اساتذہ کو مطعون کیا جا سکتا ہے؟

    بالکل نہیں تو پھر مرزا محمد علی تو فقط ایک سائل تھا، اس کی نسبت محدث العصر کی طرف کر کے انھیں کس طرح مطعون کیا جا سکتا ہے؟

    جبکہ شیخ رحمہ اللہ اس سے برأت کا اعلان بھی کر چکے ہوں۔ امید واثق ہے کہ اس وضاحت کے بعد یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ مرزا محمد علی، شیخ رحمہ اللہ کا شاگرد ہے، مزید براں بعد از برأت آپ کا اس سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رہا۔

  2. اسے غلط فہمی کے بجائے بہتان کہنا ہی درست ہو گا کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی توہین کی ، والعیاذ باللہ۔

    ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ حضرو کے صفحات شاہد ہیں کہ جب بھی کسی غیر اہل حدیث نے شیخ الاسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی کوشش کی تو محدث العصر نے اسے دندان شکن جواب دیا۔

    شیخ الاسلام کی اربعین کو اردو ترجمے، عمدہ تحقیق اور علمی فوائد کے ساتھ شائع کیا جو مذکورہ بہتان لگانے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

    کتاب کے آغاز میں بھرپور محنت اور محبت سے شیخ الاسلام کے حالات و خدمات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیا، جسے ہم موجودہ صورت حال کے پیش نظر ماہنامہ اشاعۃ الحدیث کے صفحات کی زینت بنا رہے ہیں۔ (الشیخ ابو ظفیر محمد ندیم ظہیر حفظہ اللہ )


حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحریر یہاں سے شروع ہوتی ہے:

تحریر: محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

شائع ہوا: ماہنامہ اشاعۃ الحدیث شمارہ نمبر 141 صفحہ نمبر 39

شیخ الاسلام حافظ ابو العباس تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مختصر و جامع تذکرہ درج ذیل ہے:

نام و نسب: تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن ابی القاسم الخضر بن محمد بن الخضر بن علی بن عبد اللہ ابن تیمیہ الحرانی الشامی رحمہ اللہ

آپ کے والد مفتی شہاب الدین عبد الحلیم رحمہ اللہ بہت بڑے عالم تھے اور دادا شیخ الاسلام مجد الدین ابو البرکات عبد السلام رحمہ اللہ (م ۶۵۲ھ) نے بہت سی مفید کتابیں لکھیں مثلاً منتقی الاخبار یعنی المنتقیٰ من احادیث الاحکام وغیرہ۔

ولادت: ۱۰ یا ۱۲/ ربیع الاول ۶۶۱ھ بروز سوموار

اساتذہ: اسماعیل بن ابراہیم ابن ابی الیسر، احمد بن عبد الدائم المقدسی، الکمال ابن عبد، احمد بن ابی الخیر سلامہ بن ابراہیم، المجدمحمد بن اسماعیل بن عثمان عرف ابن عساکر، برکات بن ابراہیم بن طاہر الخشوعی، یحییٰ بن منصور الصیرفی، قاسم بن ابی بکر بن قاسم بن غنیمہ الاربلی، ابو الغنائم مسلم بن محمد عرف ابن علان، فخر الدین ابن البخاری، مومل بن محمد البالسی اور احمد بن شیبان وغیرہم۔ رحمہم اللہ

تلامذہ: حافظ ذہبی ، حافظ ابن کثیر ، حافظ ابن القیم، حافظ ابن عبد الہادی، ابن الوردی، شمس الدین محمد بن احمد الاباہی اور ابو العباس احمد بن حسن بن عبد اللہ بن محمد بن احمد بن قدامہ المقدسی وغیرہم ۔ رحمہم اللہ

تصانیف: آپ کی تصانیف بہت زیادہ ہیں، جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

  1. الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول (ط یعنی مطبوع)
  2. منہاج السنۃ (ط)
  3. درء تعارض العقل والنقل (ط)
  4. الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح (ط)
  5. کتاب الایمان(ط)
  6. کتاب النبوات (ط)
  7. العقیدۃ الواسطیہ (ط)
  8. اقتضاء الصراط المستقیم (ط)
  9. قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل و الوسیلہ (ط)
  10. الاستقامہ (ط)
  11. ابطال وحدۃ الوجود والرد علی القائلین بھا (ط)
  12. مسئلۃ صفات اللہ تعالیٰ و علوہ علیٰ خلقہ (ط)
  13. کتاب الرد علی المنطقیین (ط)
  14. السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی والرعیۃ (ط)
  15. الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان (ط)
  16. الکلم الطیب (ط)
  17. الرد علی الاخنائی (ط)
  18. الرد علی البکری (ط)
  19. فتاویٰ (ط)
  20. کتاب الاربعین ، وغیر ذلک من الکتب المفیدۃ

کتاب الاربعین: حافظ ابن تیمیہ نے اپنے مختلف اساتذہ سے چالیس حدیثوں کا ایک گلدستہ مکمل اسانید و متون کے ساتھ پیش کیا ہے جو علیحدہ بھی چھپا ہوا ہے اور فتاویٰ میں بھی مطبوع ہے۔

راقم الحروف نے اس کتاب کی عربی زبان میں مطول تخریج و تحقیق کافی عرصہ پہلی لکھی تھی اور اب اسے مختصر کر کے مع ترجمہ و فوائد قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس عمل کو قبول فرمائے ۔ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ، استاذ محترم حافظ عبد الحمید ازہر المدنی حفظہ اللہ ، راقم الحروف، حافظ ندیم ظہیر اور محترم سرور عاصم حفظہم اللہ کے لئے ذخیرۂ آخرت بنائے۔ آمین

فضائل: جمہور محدثین و صحیح العقیدہ علمائے حق نے آپ کی تعریف و توثیق کی ہے اور آپ کے فضائل بے حد و بے شمار ہیں، بلکہ بہت سے کبار علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کے لقب سے ملقب کیا ہے۔ مثلاً:

  1. حافظ ابن تیمیہ ( متوفی ۷۲۸ھ) کے شاگرد حافظ ذہبی ( متوفی ۷۴۸ ھ) نے ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا:

    ’’ الشیخ الإمام العلامۃ الحافظ الناقد ( الفقیہ ) المجتھد المفسر البارع شیخ الإسلام علم الزھاد نادرۃ العصر ۔۔۔ ‘‘ ( تذکرۃ الحفاظ ۴؍ ۱۴۹۶ت ۱۱۷۵)

    اور لکھا:

    ’’ الإمام العالم المفسر الفقیہ المجتہد الحافظ المحدث شیخ الإسلام نادرۃ العصر ، ذوالتصانیف الباھرۃ والذکاء المفرط ‘‘ ( ذیل تاریخ الاسلام للذہبی ص ۳۲۴)

    اور لکھا:

    ’’ شیخنا الإمام ‘‘ ( معجم الشیوخ ۱؍ ۵۶ ت ۴۰)

    معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی انھیں امام اور شیخ الاسلام سمجھتے تھے۔

  2. حافظ ابن تیمیہ کے شاگرد حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ( متوفی ۷۷۴ھ) نے لکھا:

    ’’ وفاۃ شیخ الإسلام أبی العباس تقي الدین أحمد بن تیمیۃ ‘‘ ( البدایہ والنہایہ ۱۴؍۱۴۱ وفیات ۷۲۸ ھ)

  3. شیخ علم الدین ابو محمد القاسم بن محمد بن البرزا لی الشافعی رحمہ اللہ ( متوفی ۷۳۹ھ) نے اپنی تاریخ میں کہا:

    ’’ الشیخ الإمام العالم العلم العلامۃ الفقیہ الحافظ الزاھد العابد المجاہد القدوۃ شیخ الإسلام ‘‘ ( البدایہ والنہایہ ۱۴؍۱۴۱)

    نیز دیکھئے العقود الدریۃ ص ۲۴۶

  4. حافظ ابن تیمیہ کے شاگرد حافظ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عبدالہادی المقدسی الحنبلی رحمہ اللہ ( متوفی ۷۴۴ ھ) نے ’’ العقود الدریۃ من مناقب شیخ الإسلام أحمد بن تیمیۃ ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو ۳۵۳ صفحات پر مطبعۃ المدنی قاہرہ مصر سے مطبوع ہے اور ہمارے پاس موجود ہے۔ والحمدللہ

    اس کتاب میں ابن عبدالہادی نے کہا:

    ’’ ھو الشیخ الإمام الرباني، إمام الأئمۃ ومفتی الأمۃ وبحر العلوم ، سید الحفاظ و فارس المعاني و الألفاظ ، فرید العصر و قریع الدھر ، شیخ الإسلام برکۃ الأنام وعلامۃ الزمان و ترجمان القرآن ، علم الزھاد و أوحد العباد، قامع المبتدعین و آخر المجتھدین ‘‘ ( العقود الدریہ ص ۳)

  5. حافظ ابو الفتح ابن سید الناس الیعمری المصری رحمہ اللہ ( متوفی ۷۳۴ھ) نے حافظ جمال الدین ابو الحجاج المزی رحمہ اللہ کے تذکرے میں کہا:

    ’’ وھو الذي حداني علٰی رؤیۃ الشیخ الإمام شیخ الإسلام تقی الدین أبي العباس أحمد۔۔۔ ‘‘ ( العقود الدریہ ص ۹)

  6. کمال الدین ابو المعالی محمد بن ابی الحسن الز ملکانی ( متوفی ۷۲۷ھ) نے حافظ ابن تیمیہ کی کتاب : ’’ بیان الدلیل علٰی بطلان التحلیل ‘‘ پر اپنے ہاتھ سے لکھا:

    ’’ الشیخ السید الإمام العالم العلامۃ الأوحد البارع الحافظ الزاھد الورع القدوۃ الکامل العارف تقی الدین ، شیخ الإسلام مفتی الأنام سید العلماء ، قدوۃ الأئمۃ الفضلاء ناصر السنۃ قامع البدعۃ حجۃ اللّٰہ علی العباد في عصرہ ، رادّ أھل الزیغ والعناد ، أوحدالعلماء العاملین آخر المجتھدین ‘‘ ( العقود الدریہ ص ۸، الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقی ص ۱۰۴، واللفظ لہ )

  7. ابو عبداللہ محمد بن الصفی عثمان بن الحریری الانصاری الحنفی ( متوفی ۷۲۸ھ) فرماتے تھے:

    ’’ إن لم یکن ابن تیمیۃ شیخ الإسلام فمن ؟ ‘‘

    اگر ابن تیمیہ شیخ الاسلام نہیں تو پھر کون ہے؟ ( الرد الوافر لابن ناصر الدین ص ۹۸، ۵۶)

  8. ابو عبداللہ محمد بن محمد بن ابی بکر بن ابی العباس احمد بن عبدالدائم المعروف بابن عبدالدائم المقدسی الصالحی ( متوفی ۷۷۵ھ) نے حافظ ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہا۔

    دیکھئے الرد الوافر ( ص ۶۱)

  9. شمس الدین ابو بکر محمد بن محب الدین ابی محمد عبداللہ بن المحب عبداللہ الصالحی الحنبلی المعروف بابن المحب الصامت نے اپنے ہاتھ سے لکھا:

    ’’شیخنا الإمام الربانی شیخ الإسلام إمام الأعلام بحرالعلوم والمعارف ‘‘ ( الرد الوافر ص ۹۱)

  10. حافظ ابن تیمیہ کے مشہور شاگرد حافظ ابن القیم الجوزیہ ( متوفی ۷۵۱ھ) نے اُن کے بارے میں کہا:

    ’’ شیخ الإسلام ‘‘ ( اعلام الموقعین ج۲ص ۲۴۱ طبع دار الجیل بیروت)

ان دس حوالوں کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالے ہیں جن میں حافظ ابن تیمیہ کی بیحد تعریف کی گئی ہے یا انھیں شیخ الاسلام کے عظیم الشان لقب سے یاد کیا گیا ہے مثلاً:

حافظ ابن رجب الحنبلی (متوفی ۷۹۵ھ) نے کہا:

’’ الإمام الفقیہ المجتھد المحدث الحافظ المفسر الأصولی الزاھد تقي الدین أبوالعباس شیخ الإسلام وعلم الأعلام ۔۔۔‘‘ ( الذیل علیٰ طبقات الحنابلۃ ۲؍ ۳۸۷ ت ۳۹۵)

ابن العماد الحنبلی نے کہا:

’’ شیخ الإسلام ۔۔۔ الحنبلی بل المجتھد المطلق ‘‘ (شذرات الذہب ۶؍ ۸۱)

تہذیب الکمال اور تحفۃ الاشراف کے مصنف حافظ ابو الحجاج المزی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ ما رأیت مثلہ، ولا رأی ھو مثل نفسہ و ما رأیت أحدًا أعلم الکتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہ ولا أتبع لھما منہ ‘‘

میں نے اُن جیسا کوئی نہیں دیکھا اور نہ انھوں نے اپنے جیسا کوئی دیکھا، میں نے کتاب اللہ اور رسول اللہ (ا) کی سنت کا اُن سے بڑا عالم نہیں دیکھا اور نہ اُن سے زیادہ کتاب و سنت کی اتباع کرنے والا کوئی دیکھا ہے۔ ( العقود الدریہ ص ۷ تصنیف الامام ابن عبدالہادی تلمیذ الحافظ المزی رحمہما اللہ)

ان گواہیوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ابن تیمیہ اہلِ سنت و جماعت کے کبار علماء میں سے تھے اور شیخ الاسلام تھے۔

نیز ملا علی قاری حنفی نے لکھا ہے:

’’و من طالع شرح منازل السائرین تبین لہ أنھما من أکابر أھل السنۃ والجماعۃ و من أولیاء ھذہ الأمۃ۔‘‘

جس نے منازل السائرین کی شرح کا مطالعہ کیا تو اس پر واضح ہو گیا کہ وہ دونوں (حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن القیم رحمہما اللہ ) اہلِ سنت والجماعت کے اکابر میں سے اور اس اُمت کے اولیاء میں سے تھے۔ (جمع الوسائل فی شرح الشمائل ج۱ص ۲۰۷)

آپ کے مفصل حالات اور سیرتِ طیبہ کے لئے دیکھئے:

  1. تذکرۃ الحفاظ للذہبی (۴/ ۱۴۹۶۔ ۱۴۹۸) و تاریخ الاسلام لہ (۲۲۳/۵۳۔۲۲۶)
  2. العقود الدریہ لابن عبد الہادی
  3. البدایہ والنہایہ لابن کثیر
  4. القول الجلی لمحمد بن احمد البخاری
  5. الکواکب الدریہ لمرعی بن یوسف
  6. الاعلام العلیہ لعمر بن علی البزار
  7. الرد الوافر لابن ناصر الدین والتبیان لبدیعۃ البیان لہ ( ۳/ ۱۴۶۱۔ ۱۴۶۶)
  8. الذیل علیٰ طبقات الحنابلہ لابن رجب (۲/ ۳۸۷)
  9. فوات الوفیات والذیل علیہا لمحمد بن شاکر الکتبی( ۱/ ۷۴ ت ۳۴ )

    وقال: ’’شیخ الاسلام‘‘

  10. امام ابن تیمیہ ، تصنیف : محمد یوسف کوکن عمری وغیر ذلک

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو حافظ ذہبی وغیرہ نے ’’المجتھد‘‘ قرار دیا اور خود حافظ ابن تیمیہ نے فرمایا:

’’إنما أتناول ما أتناول منھا علٰی معرفتي بمذہب أحمد، لا علٰی تقلیدي لہ۔‘‘

میں احمد (بن حنبل) کے مسلک میں سے وہی لیتا ہوں جسے میں (دلائل کی رُو سے) جانتا ہوں، میں آپ کی تقلید نہیں کرتا۔ (اعلام الموقعین لابن القیم ۲/ ۲۴۱۔ ۲۴۲)

وفات: ۲۰/ ذوالقعدہ ۷۲۸ھ بمقام قلعہ دمشق بحالت قید۔

یعنی آپ کا جنازہ جیل ہی سے جائے تدفین تک گیا۔ رحمہ اللّٰہ و أدخلہ الجنۃ


یہی مضمون ماہنامہ الحدیث شمارہ 58 میں بھی شائع ہوا تھا:

تحریر: محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

شائع ہوا: ماہنامہ اشاعۃ الحدیث شمارہ نمبر 58 صفحہ نمبر 9