اللہ تعالیٰ کا احسان اور امام اسحاق بن راہویہ کا حافظہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


امام ابراہیم بن ابی طالب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

امام اسحاق بن ابراہیم الحنظلی (یعنی اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ) اپنی کتاب مسند زبانی لکھواتے تھے۔

ایک دفعہ مجھ سے مسند سننے کی ایک مجلس رہ گئی تو میں کئی دفعہ آپ کے پاس گیا تاکہ آپ وہ حصہ مجھے دوبارہ سنا دیں مگر آپ عذر بیان کر دیتے تھے۔

میں ایک دفعہ آپ کے پاس گیا تاکہ یہ رہ جانے والا حصہ دوبارہ سن لوں۔

اس دوران میں آپ کے پاس دیہات سے اندرائن کے پھل (تمبے) آئے تھے۔

آپ نے مجھے فرمایا: آپ ان لوگوں کے پاس ٹھہریں اور ان اندرائن کا وزن لکھیں پھر جب میں فارغ ہو گیا تو مسند کا فوت شدہ حصہ تمھیں دوبارہ سنا دوں گا۔

ابراہیم بن ابی طالب کہتے ہیں: میں نے یہ کام کر لیا اور فارغ ہونے کے بعد آپ کو بتا دیا۔

وہ اپنے گھر سے باہر تشریف لائے تھے۔ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا حتیٰ کہ آپ اپنے گھر کے دروازے تک پہنچ گئے۔

میں نے کہا: آپ نے فوت شدہ حصہ دوبارہ سنانے کا وعدہ کیا تھا؟

آپ نے پوچھا: اس مجلس کی پہلی حدیث کیا تھی؟

میں نے آپ کو بتایا تو آپ نے دروازے کی دونوں چوکھٹوں کے درمیان کھڑے ہو کر ساری مجلس آخر تک زبانی سنا دی۔

انھوں نے ساری مسند زبانی لکھوائی تھی اور دوبارہ بھی یہ ساری کتاب زبانی لکھوائی تھی۔

(تاریخ بغدادج 6ص 354 وسندہ صحیح)

سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ نے امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کو کتنا عظیم الشان حافظہ عطا فرمایا تھا کہ آپ اپنی کتاب مسند اسحاق بن راہویہ ساری کی ساری ہمیشہ زبانی لکھوایا کرتے تھے اور کبھی کسی روایت میں غلطی نہیں آئی۔

مسند اسحاق بن راہویہ مکمل حالت میں فی الحال تو مفقود ہے مگر اس کی چوتھی جلد قلمی حالت میں موجود ہے۔ اس قلمی نسخے کی فوٹو سٹیٹ ہمیں حاصل ہوئی ہے جس کے تین سو چھ (306) صفحات ہیں۔

غور کریں کہ کتنی بڑی مسند اسحاق بن راہویہ تھی اور امام اسحاق کا کیسا عظیم حافظہ تھا۔

اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ جس نے ایسے لوگ پیدا کر کے اپنے دین کو قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا۔

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 51 صفحہ 50 یعنی لاسٹ اِن ٹائٹل