امام مالک اور نماز میں فرض، سنت و نفل کا مسئلہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


حافظ ذہبی نے فرمایا:

’’قال أبو عبد اللہ محمد بن إبراہیم البوشنجی: سمعت عبد اللہ بن عمر بن الرماح قال: دخلت علٰی مالک فقلت: یا أبا عبد اللہ ما فی الصلوۃ من فریضۃ و ما فیھا من سنۃ؟ أو قال نافلۃ؟ فقال مالک۔ کلام الزنادقۃ أخرجوہ‘‘

ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم (بن سعید بن عبدالرحمٰن) البوشنجی (ثقہ حافظ فقیہ) نے کہا: میں نے عبداللہ بن عمر بن (میمون بن) الرماح (بلخ کے قاضی) سے سنا، انھوں نے کہا:

میں (امام) مالک (بن انس المدنی) کے پاس گیا تو پوچھا: اے ابو عبداللہ! نماز میں کیا فرض ہیں اور کیا سنت ہیں؟یا کہا: کیا نفل ہیں؟

تو (امام) مالک نے فرمایا: زندیقوں کا کلام ہے۔ اسے باہر نکال دو۔

(سیر اعلام النبلاء ح 8ص 113۔114، تاریخ الاسلام للذہبی 11/ 327)

بلخ اور نیشا پور کے قاضی عبداللہ بن عمر بن الرماح رحمہ اللہ (متوفی 234ھ) کے بارے میں حافظ ذہبی نے فرمایا:

’’و کان صاحب سنۃ و صدع بالحق، و ثقہ الذہلي، و امتنع من القول بخلق القرآن و کفر الجہمیۃ‘‘

وہ صاحبِ سنت (سنی) اور حق بیان کرنے والے تھے، (امام) ذہلی نے انھیں ثقہ قرار دیا، انھوں نے قرآن کو مخلوق کہنے سے انکار کردیا تھا اور جہمیہ (فرقے) کو کافر کہا۔

(سیر اعلام النبلاء 11/ 13)

’’قال محمد بن یحیی الذہلي: ھو ثقۃ‘‘ محمد بن یحییٰ الذہلی نے کہا: وہ ثقہ ہیں۔ (تاریخ الاسلام للذہبی 17/ 220)

حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کیا اور کہا:

’’مستقیم الحدیث إذا حدّث عن الثقات …… و کان مرجئًا‘‘

وہ جب ثقہ راویوں سے حدیث بیان کرتے تو مستقیم الحدیث (ثقہ) تھے…… اور وہ مرجی تھے۔

(ج 8 ص 357)

یاد رہے کہ جمہور کی توثیق کے بعد مرجی والی جرح مردود ہے۔

محدث خلیلی نے کہا:

’’قال ابن معین: ھو من الثقات …… سمع مالکًا و سألہ عن مسائل فقال: ھذا کلام الزنادقۃ، فأخرجہ من المجلس، ثم شفّع إلیہ فأکرمہ و روی لہ و رضیہ الحفاظ‘‘

ابن معین نے کہا: وہ ثقہ راویوں میں سے ہیں …… انھوں نے مالک سے سنا اور مسائل کے بارے میں پوچھا تو انھوں (امام مالک) نے فرمایا: یہ زندیقوں کا کلام ہے، پھر انھیں اپنی مجلس سے نکال دیا۔ اس کے بعد اُن کے سامنے ان کی سفارش کی گئی تو انھوں (مالک) نے ان کی عزت کی اور ان کے سامنے روایتیں بیان کیں، اور حفاظِ حدیث اُن پر راضی ہوئے۔

(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث 3/ 943)

عبدالقادر قرشی حنفی نے انھیں حنفی علماء میں ذکر کیا۔ دیکھئے الجواہر المضیہ فی طبقات الحنفیہ (ج1ص 279 ت 743)

محمد بن ابراہیم البو شنجی رحمہ اللہ صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ حافظ فقیہ تھے۔ دیکھئے تقریب التہذیب (5693)

آپ 290 ھ یا 291 ھ میں فوت ہوئے۔

یہ واقعہ امام بو شنجی سے شیخ الاسلام امام ابو بکر عبداللہ بن محمد بن زیاد النیسابوری رحمہ اللہ (متوفی 324ھ) نے اپنی کتاب ’’مناقب مالک‘‘میں بیان کیا ہے۔ دیکھئے جامع العلوم والحکم لابن رجب (ص 375 حدیث 30)

آپ 238 ھ میں پیدا ہوئے تھے۔ دیکھئے تاریخ بغداد (ج 10ص 122 ت 5248)

آپ بو شنجی کے زبردست معاصر ہیں اور آپ کا مدلس ہونا ثابت نہیں، لہٰذا یہ روایت اتصال پر محمول ہونے کی وجہ سے صحیح ہے۔ والحمد للہ

اس واقعے سے معلوم ہوا کہ نماز کے ہر مسئلے کے بارے میں فرض، سنت اور واجب وغیرہ کا سوال کرنا اہلِ سنت کا منہج نہیں بلکہ اہلِ بدعت کا طریقہ ہے۔ نیز دیکھئے مسائل امام احمد و اسحاق (روایۃ الکوسج 1/ 132۔133ت 189) اور ماہنامہ الحدیث حضرو (13 ص 49)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (ج 4 ص 133۔134) نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 78 ص 35۔36)