اسناد دین میں سے ہیں (اور) اگر سند نہ ہوتی تو جس کے جو دل میں آتا کہتا

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


مشہور ثقہ امام عبداللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّینِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ‘‘

اسناد دین میں سے ہیں (اور) اگر سند نہ ہوتی تو جس کے جو دل میں آتا کہتا۔

(صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام: 32، ماہنامہ منہاج القرآن لاہور ج 20 شمارہ: 11، نومبر 2006ء ص 22)

اس سنہری قول سے معلوم ہوا کہ بے سند بات مردود ہوتی ہے۔

ادارہ منہاج القرآن کے بانی محمد طاہر القادری صاحب اس کی تشریح میں ’’فرماتے‘‘ ہیں:

’’پس روایت حدیث، علم حدیث، علم تفسیر اور مکمل دین کا مدار اسناد پر ہے۔ سند کے بغیر کوئی چیز قبول نہ کی جاتی تھی۔‘‘

(ماہنامہ منہاج القرآن ج 20 شمارہ: 11 ص 23)

اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ علاء الدین محمد بن احمد بن ابی احمد السمرقندی نے تحفۃ الفقہاء نامی کتاب میں لکھا ہے:

’’والصحیح مذہبنا لما روي عن ابن عباس أنہ قال: إن العشرۃ الذین بشر لھم رسول اللہ ﷺ بالجنۃ ما کانوا یرفعون أیدیھم إلا لإ فتتاح الصلٰوۃ۔ قال السمرقندي: وخلاف ھٰؤلاء الصحابۃ قبیح‘‘

اور صحیح ہمارا (حنفی) مذہب ہے، اس وجہ سے کہ جو ابن عباس (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا گیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: بے شک عشرہ مبشرہ جنھیں رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوش خبری دی، وہ شروع نماز کے سوا رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ سمر قندی نے کہا: اور ان صحابہ کی مخالفت بُری (حرکت) ہے۔

(ج 1 ص 132، 133، دوسرا نسخہ ص 66، 67)

سمرقندی کے بعد تقریباً یہی عبارت علاء الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی (متوفی 587ھ) نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع (ج 1 ص 207) میں اور بدر الدین محمود بن احمد العینی (متوفی 855ھ) نے بحوالہ بدائع الصنائع اپنی کتاب عمدۃ القاری (ج5 ص272) میں نقل کر رکھی ہے۔ ملاکاسانی نے بدائع الصنائع کے شروع میں یہ اشارہ کر دیا ہے کہ انھوں نے اپنے استاد محمد بن احمد بن ابی احمد السمرقندی سے لے کر اپنی کتاب مرتب کی ہے۔ (ج 1 ص 2)

معلوم ہوا کہ اس روایت کا دار و مدار سمرقندی مذکور پر ہے۔ سمرقندی صاحب 553 ہجری میں فوت ہوئے۔ دیکھئے معجم المؤلفین (ج 3 ص 67 ت 11750)

یعنی وہ پانچویں یا چھٹی صدی ہجری میں پیدا ہوئے تھے۔ فقیر محمد جہلمی تقلیدی نے انھیں حدیقۂ ششم (چھٹی صدی کے فقہاء و علماء کے بیان) میں ذکر کیا ہے۔ (حدائق الحنفیہ ص 267)

سمرقندی مذکور سے لے کر صدیوں پہلے 68 ھ میں فوت ہونے والے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تک کوئی سند اور حوالہ موجود نہیں ہے، لہٰذا یہ روایت بے سند اور بے حوالہ ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

تنبیہ بلیغ: ایسی بے سند وبے حوالہ روایت کو ’’أخرجہ السمرقندي في تحفۃ الفقہاء‘‘ إلخ ، اس کی تخریج سمرقندی نے تحفۃ الفقہاء میں کی ہے الخ، کہہ کر سادہ لوح عوام کو دھوکا نہیں دینا چاہئے۔ لوگ تو یہ سمجھیں گے کہ سمرقندی کوئی بہت بڑا محدث ہوگا جس نے یہ روایت اپنی سند کے ساتھ اپنی کتاب تحفۃ الفقہاء میں نقل کر رکھی ہے۔ حالانکہ سمرقندی کا محدث ہونا ہی ثابت نہیں ہے بلکہ وہ ایک تقلیدی فقیہ تھا جس نے یہ روایت بغیر کسی سند اور حوالے کے ’’رُوي‘‘ کے گول مول لفظ سے لکھ رکھی ہے۔ اب عوام میں کس کے پاس وقت ہے کہ اصل کتاب کھول کر تحقیق کرتا پھرے۔!

عام طور پر غیر ثابت اور ضعیف روایت کے لئے صیغۂ تمریض ’’رُوِيَ‘‘ وغیرہ کے الفاظ بیان کئے جاتے ہیں، دیکھئے مقدمۃ ابن الصلاح مع شرح العراقی (ص 136 نوع 22)

لہٰذا جس روایت کی کوئی سند سرے سے موجود ہی نہ ہو اور پھر بعض الناس اسے ’’رُوي‘‘ وغیرہ الفاظ سے بیان کریں تو ایسی روایت موضوع، بے اصل اور مردود ہی ہوتی ہے۔

سمرقندی و کاسانی کی پیش کردہ یہ بے سند وبے حوالہ روایت متن اور اصولِ روایت واصولِ درایت کے لحاظ سے بھی مردود ہے۔

دلیل اول: امام ابو بکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ (متوفی 235ھ) فرماتے ہیں:

’’حدثنا ھشیم قال: أخبرنا أبو جمرۃ قال: رأیت ابن عباس یرفع یدیہ إذا افتتح الصلٰوۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع‘‘

ہمیں ہشیم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابو جمرہ نے خبر دی، کہا: میں نے ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا آپ شروع نماز اور رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 235 ح 2431)

اس روایت کی سند حسن لذاتہ یا صحیح ہے۔

معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بذاتِ خود رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین کرتے تھے لہٰذا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انھوں نے رفع یدین کے خلاف کوئی روایت بیان کر رکھی ہو۔ من ادعی خلافہ فعلیہ أن یأتي بالدلیل۔

دلیل دوم: عشرۂ مبشرہ میں سے اول صحابی سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ دیکھئے امام بیہقی کی کتاب السنن الکبریٰ (ج 2 ص 73) وقال: ’’رواتہ ثقات‘‘ اس کے راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہیں۔

تنبیہ: اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور اس پر بعض الناس کی جرح مردود ہے۔ دیکھئے میری کتاب نورالعینین فی مسئلۃ رفع الیدین (ص 119 تا 121)

دلیل سوم: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بھی رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین مروی ہے۔ دیکھئے نصب الرایہ (ج 1 ص 416) ومسند الفاروق لابن کثیر (ج 1 ص 165، 166) وشرح سنن الترمذی لابن سید الناس (قلمی ج 2 ص 217) وسندہ حسن، نیز دیکھئے نورالعینین (ص 195 تا 204) اس روایت کی سند حسن ہے اور یہ روایت شواہد کے ساتھ صحیح لغیرہ ہے۔

دلیل چہارم: سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر عشرۂ مبشرہ میں سے کسی ایک صحابی سے بھی رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کا ترک، ممانعت یا منسوخیت قطعاً ثابت نہیں ہے۔

تنبیہ: طاہر القادری صاحب نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین کی تین روایات لکھی ہیں۔ (المنہاج السوی طبع چہارم ص 228، 229 ح 258، 260، 261) یہ تینوں روایات اُصولِ حدیث کی رُو سے ضعیف ہیں۔ دیکھئے نورالعینین (ص 231، 234، 236)

ان میں سے پہلی روایت کے راوی محمد بن جابر پر خود امام دارقطنی و امام بیہقی نے جرح کر رکھی ہے۔ اہلِ سنت کے جلیل القدر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ھٰذا حدیث منکر‘‘ یہ حدیث منکر ہے۔ (المسائل: روایۃ عبداللہ بن احمد ج1ص 242 ت 327)

ابھی تک ماہنامہ الحدیث حضرو اور نورالعینین کی محولہ تنقید و جرح کا کوئی جواب ہمارے پاس نہیں آیا۔ والحمد للہ

خلاصۃ التحقیق: محمد طاہر القادری صاحب کی مسؤلہ روایتِ مذکورہ بے سند اور بے حوالہ ہونے کی وجہ سے بے اصل، باطل اور مردود ہے۔ وما علینا إلا البلاغ (9/ فروری 2007ء)

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 363 تا 366) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ