جنات کا وجود ایک حقیقت ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


ایک سائل نے سوال کیا:

’’جنات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟آج کل عموماً کنواری اور خوب رو لڑکی پر جن عاشق ہو جاتے ہیں اور مختلف قسم کے بابے اور پیر ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں، کیا اس قسم کے معاملات نبی آخرالزمان کے دور میں ہوتے تھے یا صحابہ کرام کے دور ِخلافت و حیات میں ہوتے تھے، آیاتاریخ میں کوئی صحیح واقعہ موجود ہے؟‘‘

محدّث العصر زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے توضیح الاحکام میں جواب دیا:

جنات ایک مستقل مخلوق ہے جس کا وجود انسانوں کے علاوہ ہے اور ان کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے، جیسا کہ قرآن، حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’لم یخالف أحد من طوائف المسلمین في وجود الجن‘‘

مسلمانوں میں سے کوئی گروہ بھی جنات کے وجود کا مخالف نہیں ہے۔

(آکام المرجان لمحمد بن عبداللہ الشبلی ص5)

جنات کے لڑکیوں پر عاشق ہونے کے عام قصے جھوٹ و افتراء پر مبنی ہوتے ہیں، بعض عورتوں کو ہسٹریا کی بیماری ہوتی ہے جس کے ہذیان میں وہ عجیب و غریب آوازیں اور دعاوی ظاہر کرتی ہیں، مقصد صرف معاشقہ یا اپنے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔

پِیروں وغیرہ کے ٹونے ٹوٹکے بھی فراڈ اور جادو وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے کلی اجتناب واجب یعنی فرض ہے۔

ایسے معاملات کا وجود نبی آخرالزمان کے عہد مبارک میں کلیتاً نہیں ملتا اور نہ صحابہ یا تابعین کے دَور میں ایسا واقعہ ہوا ہے۔

بعض روایات میں جنات کا انسانی جسم میں داخل ہونے کا صراحتاً ذکر ہے لہٰذا ان کی اسنادی حیثیت پیشِ خدمت ہے:

فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔۔۔ إلخ

(مسند احمد 1/ 239، 254، 268، الدارمی 1/ 11، 12، ح19، الطبرانی فی الکبیر 12/ 57 ح 12460، دلائل النبوۃللبیہقی 6/ 182)

فرقد راوی ضعیف ہے۔

دیکھئے تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری (ص91ت 308) وعام کتب ضعفاء۔

ایوب السختیانی نے کہا: ’’لیس بشئ‘‘ یہ راوی کوئی چیز نہیں ہے (ایضاً)

إِسْمَاعِیلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ، عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ، عَنْ جَابِرٍ ۔۔۔ إلخ

(سنن الدارمی 1/ 10 ح 17وعبد بن حمید:1051، ابن ابی شیبہ11/ 490۔492 ح 31745، دلائل النبوۃ لابی نعیم: 281، والبیہقی فی الدلائل6/ 18، 19، التمہید1/ 223، 1224)

اسماعیل بن عبدالملک جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ (تحفۃ الاقویاء ص13ت 18)

مَعْمَرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَفْصٍ، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ الثَّقَفِي……إلخ

(احمد 4/ 173، شرح السنۃ 13/ 296 ح 3718)معمر نے عطاء کے اختلاط کے بعد ان سے حدیث سنی ہے اور عبداللہ بن حفص مجہول ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب ص171)

شواہد:

أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا یُونُسُ بْنُ بُکَیْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ أَبِیہِ۔

(صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی 2/ 617، 618 ح 4232)

سلیمان الاعمش مدلس تھے اور روایت عن سے ہے۔

عثمان بن حکیم بن عباد بن حنیف الانصاری عن عبدالرحمٰن بن عبدالعزیز عن یعلی بن مرۃ۔۔۔ إلخ

(احمد 4/ 170)

عبدالرحمٰن مذکور ’’لیس بالمشھور‘‘ تھا۔ (دیکھئے تعجیل المنفعۃ ص253)

اگر اس سے مراد عبدالرحمٰن بن عبد العزیز بن عبداللہ بن عثمان بن حنیف الانصاری الامامی ہو تو یہ سند منقطع ہے کیونکہ وہ 162ھ میں فوت ہوئے اور ان کی عمر 70 سال سے زیادہ تھی یعنی 90ھ میں پیدا ہوئے تھے، یعلیٰ بن مرۃ رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

مطر بن عبدالرحمٰن عن ہند ابنۃ الوازع إلخ

(احمد کمافی جامع المسانید لابن کثیر 12/ 246، اطراف المسند 5/ 445 ح 7519، مجمع الزوائد9/ 2، اتحاف المہرۃ لا بن حجر13/ 656)

ہند ام ابان کی توثیق نامعلوم ہے۔

المعجم الکبیر للطبرانی (ج 5 ص 275 ح 5314 عن ابی داود: 5225، واصلہ عند ابی داود 5225 ومجمع الزوائد 9/ 2، 3) میں ایک دوسری روایت بھی ہے جس کی راویہ ام ابان ہی ہے جو کہ مجہولۃ الحال ہے۔

عثمان بن أبی العاص إلخ

(مجمع الزوائد 9/ 3وقال:وفیہ عثمان بن بسر ولم أعرفہ وبقیۃرجالہ ثقات)

یہ سند عثمان بن بسر کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔

میرے پاس ان تمام روایات کی مفصل تحقیق کا وقت نہیں البتہ مختصراً عرض ہے کہ میرے علم کے مطابق اس سلسلے کی تمام روایات ضعیف ہیں تاہم یہ صحیح ہے کہ جب شیطان وسوسہ ڈالے تو ’’اُخرج عدو اللہ‘‘ اے اللہ کے دشمن! نکل جا، کہنا صحیح ہے جیسا کہ سنن ابن ماجہ (کتاب الطب باب الفزع والأرق و ما یتعوذبہ ح 3548وسندہ صحیح ولہ شاہد فی صحیح مسلم: 2203)سے ثابت ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام جلد 1 صفحہ نمبر 96 اور 97