جریج راہب کا قصہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


بنی اسرائیل کے راہب جریج اور ان کی ماں والا قصہ صحیح سند سے ثابت ہے۔

سید نا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جریج اپنی کوٹھڑی نما عبادت خانے میں عبادت کر رہے تھے کہ اُن کی والدہ تشریف لائیں۔

حمید (بن ہلال، راوئ حدیث) نے کہا کہ ابو رافع (راوئ حدیث) نے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے جریج کی والدہ کی حالت بیان کی کہ کس طرح اُس نے اپنی پلکوں پر ہتھیلی رکھ کر، پھر سر اُ ٹھا کر اَپنے بچے کو آواز دی تھی۔

اس نے کہا: اے جریج! میں تیری ماں ہوں، مجھ سے بات کر۔

جریج نماز پڑھ رہے تھے۔ جریج نے (اپنے دل میں) کہا: اے میرے اللہ! ایک طرف میری ماں ہے اور دوسری طرف میر ی نماز ہے؟!

پس جریج نے نماز پڑھنی جاری رکھی تو ان کی والدہ واپس لوٹ گئیں۔

پھر وہ دوسری دفعہ آئیں اور کہا: اے جریج! میں تیری ماں ہوں مجھ سے بات کر۔

جریج نے کہا: اے میرے اللہ! ایک طرف میر ی ماں ہے اور دوسری طرف میری نماز ہے؟! پھر وہ نماز پڑھتے رہے۔

تو ان کی ماں نے کہا: اے میرے اللہ!یہ جریج میرا بیٹا ہے، میں اس سے بات کرتی ہوں مگر یہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔

اے اللہ! اس کو اس کے مرنے سے پہلے بدکار عورتوں کا چہرہ دکھا دے۔

(راوی نے) کہا: اگر وہ جریج کے فتنے میں مبتلا ہونے کی دعا کرتیں تو وہ فتنے میں مبتلا ہو جاتے۔

فرمایا کہ: بھیڑوں کا ایک چرواہا، جریج کے عبادت خانے کے قریب رہتا تھا، اُس نے (ایک دن) اس گاؤں کی ایک عورت کے ساتھ زنا کرلیا جس سے اسے حمل ہوگیا۔ پھر جب اس کا بچہ پیدا ہوا تو لوگوں نے پوچھا: یہ کس کا بچہ ہے؟ اُس عورت نے کہا: اس عبادت خانے والے (جریج) کا بچہ ہے۔

لوگ کدالیں اور پھاوڑے لے آئے اور جریج کو آواز دی۔

وہ نماز پڑھ رہے تھے۔

جریج نے لوگوں سے کوئی بات نہیں کی تو لوگ اس کے عبادت خانے کو گرانے لگے۔

جب جریج نے یہ معاملہ دیکھا تو اُتر کر لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟

لوگوں نے کہا: اس عورت سے پوچھو۔

جریج مسکرائے پھر اس عورت کے (دوتین دن کے) چھوٹے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پوچھا: تیرا باپ کون ہے؟

اس نے جواب دیا: بھیڑوں کا چرواہا ہے۔

جب لوگوں نے (باتیں نہ کر سکنے والے بچے سے) یہ سُن لیا تو (جریج سے) کہا: ہم آپ کے لئے سونے چاندی کا عبادت خانہ بنا دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا: نہیں، جس طرح پہلے یہ مٹی کا تھا اسی طرح بنا دو۔

پھر وہ اپنے عبادت خانے پر چڑھ گئے۔

(صحیح بخاری: 3436 وصحیح مسلم: 2550 وترقیم دارالسلام: 6508 واللفظ لہ)

یہ قصہ بالکل سچا ہے اور زمانۂ اسلام سے پہلے، بنی اسرائیل کے دَور کا ہے، اس کے سارے راوی اعلیٰ درجے کے ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔

……… اصل مضمون ………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 2 صفحہ 458 تا 460) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ