کلمۂ طیبہ کا ثبوت

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال: کیا کلمۂ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کا ثبوت کسی صحیح حدیث میں ملتا ہے؟

الجواب:

امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی رحمہ اللہ (متوفی 458ھ) نے فرمایا:

’’أخبرنا أبو عبداللہ الحافظ: ثنا أبو العباس محمد بن یعقوب: ثنا محمد ابن إسحاق: ثنا یحیی بن صالح الوحاظي: ثنا إسحاق بن یحیی الکلبي: ثنا الزھري: حدثني سعید بن المسیب أن أبا ھریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي ﷺ قال: ((أنزل اللہ تعالٰی في کتابہ فذکر قومًا استکبروا فقال: ﴿اِنَّھُمْ کَانُوْآ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ﴾ وقال تعالٰی: ﴿اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ فَاَنْزَلَ اللہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْآ اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَھَا﴾ وھي: لاإلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ)) استکبر عنھا المشرکون یوم الحدیبیۃ یوم کاتبھم رسول اللہ ﷺ في قضیۃ المدۃ‘‘

ہمیں ابو عبداللہ الحافظ (امام حاکم، صاحب المستدرک) نے خبر دی (کہا): ہمیں ابو العباس محمد بن یعقوب (الاصم) نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں محمد بن اسحاق (بن جعفر، ابوبکر الصغانی) نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں یحییٰ بن صالح الوحاظی نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں اسحاق بن یحییٰ الکلبی نے حدیث بیان کی (کہا): ہمیں (ابن شہاب) الزہری نے حدیث بیان کی (کہا): مجھے سعید بن المسیب نے حدیث بیان کی، بے شک انھیں (سیدنا) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے حدیث بیان کی (آپ ﷺ نے) فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا تو تکبر کرنے والی ایک قوم کا ذکر کر کے فرمایا: یقینا جب انھیں لا الٰہ الا اللہ کہا جاتا ہے تو تکبر کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت: 35)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب کفر کرنے والوں نے اپنے دلوں میں جاہلیت والی ضد رکھی تو اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول اور مومنوں پر اتارا اوران کے لئے کلمۃ التقویٰ کو لازم قرار دیا اور وہ اس کے زیادہ مستحق اور اہل تھے۔ (الفتح: 26)

اور وہ (کلمۃ التقویٰ) لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔

(صلح) حدیبیہ والے دن جب رسول اللہ ﷺ نے مدت (مقرر کرنے) والے فیصلے میں مشرکین سے معاہدہ کیا تو مشرکوں نے اس کلمے سے تکبر کیا تھا۔

(کتاب الاسماء والصفات ص 105، 106، دوسرا نسخہ ص 131، تیسرا نسخہ مطبوعہ انوار محمدی الہ آباد 1313ھ ص 81 باب ماجاء فی فضل الکلمۃ الباقیۃ فی عقب ابراہیم علیہ السلام)

اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔

حاکم، اصم، محمد بن اسحاق الصغانی، زہری اور سعید بن المسیب سب اعلیٰ درجے کے ثقہ ہیں۔

1: یحییٰ بن صالح الوحاظی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ تھے۔ امام ابو حاتم الرازی نے کہا: صدوق، امام یحییٰ بن معین نے کہا: ’’ثقۃ‘‘ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم 9/ 158 وسندہ صحیح)

امام بخاری نے فرمایا: ویحي ثقۃ (کتاب الضعفاء الصغیر: 145، طبع ہندیہ)

یحییٰ بن صالح پر درج ذیل علماء کی جرح ملتی ہے: 1) احمد بن حنبل 2) اسحاق بن منصور 3) عقیلی 4) ابو احمد الحاکم

امام احمد کی جرح کی بنیاد ایک مجہول انسان ہے۔ دیکھئے الضعفاء للعقیلی (4/ 408)

یہ جرح امام احمد کی توثیق سے معارض ہے۔

ابو زرعہ الدمشقی نے کہا:

’’لم یقل یعني أحمد بن حنبل في یحیی بن صالح إلا خیرًا‘‘

احمد بن حنبل نے یحییٰ بن صالح کے بارے میں صرف خیر ہی کہا ہے۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر 68 / 78 وسندہ صحیح)

اسحاق بن منصور کی جرح کا راوی عبداللہ بن علی ہے۔ (الضعفاء للعقیلی 4/ 409)

عبداللہ بن علی کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت نہیں ہے، لہٰذا یہ جرح ثابت ہی نہیں ہے۔

عقیلی کی جرح الضعفاء الکبیر میں نہیں ملی البتہ تاریخ دمشق (68/ 79) میں یہ جرح ضرور موجود ہے لیکن اس جرح کا راوی یوسف بن احمد غیر موثق (مجہول الحال) ہے لہٰذا یہ جرح بھی ثابت نہیں ہے۔

ابو احمد الحاکم (اور بشرطِ صحت احمد، اسحاق بن منصور اور عقیلی) کی جرح جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔

حافظ ذہبی نے کہا:

’’ثقۃ في نفسہ، تکلم فیہ لرأیہ‘‘

وہ بذاتِ خود ثقہ تھے، ان کی رائے کی وجہ سے (ابو احمد الحاکم وغیرہ کی طرف سے) ان میں کلام کیا گیا ہے۔

(معرفۃ الرواۃ المتکلم فیھم بما لا یوجب الرد: 367)

حافظ ابن حجر نے کہا: خالد (بن مخلد) اور یحییٰ بن صالح دونوں ثقہ ہیں۔ (فتح الباری ج 9 ص 524 تحت ح 5378 کتاب الأطعمۃ باب الأکل ممایلیہ)

اور کہا: صدوق من أھل الرأي (تقریب التہذیب: 7568)

تقریب التہذیب کے محققین نے لکھا ہے: ’’بل ثقۃ‘‘ بلکہ وہ ثقہ تھے۔ (التحریر ج 4 ص 88)

خلاصۃ التحقیق: یحییٰ بن صالح ثقہ و صحیح الحدیث ہیں۔

2: اسحاق بن یحییٰ بن علقمہ الکلبی الحمصی العوصی صحیح بخاری کے (شواہد کے) راوی ہیں۔ دیکھئے صحیح البخاری (682، 1355، 3299، 3443، 3927، 6647، 7000، 7171، 7382)

حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات (ج 6 ص 49) میں ذکر کیا اور صحیح ابن حبان (الاحسان: 6074) میں ان سے روایت لی ہے۔

دارقطنی نے کہا: ’’أحادیثہ صالحۃ والبخاري یستشھدہ ولا یعتمدہ فی الأصول‘‘ ان کی حدیثیں صالح (اچھی) ہیں، بخاری شواہد میں ان سے روایت لیتے ہیں اور اصول میں ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی: 280)

تنبیہ: امام بخاری شواہد میں جس راوی سے روایت لیتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔ (اِلایہ کہ کسی خاص راوی کی تخصیص ثابت ہو جائے) دیکھئے شروط الأئمۃ الستۃ لمحمد بن طاہر المقدسی (ص 18دوسرا نسخہ ص 14)

ابو عوانہ نے صحیح ابی عوانہ (المستخرج علیٰ صحیح مسلم) میں ان سے روایت لی ہے۔ (ج 2 ص 293)

حافظ ابن حجر نے کہا: ’’صدوق، قیل: إنہ قتل أباہ‘‘ سچا ہے، کہا گیا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو قتل کیا تھا۔ (تقریب التہذیب: 391)

باپ کو قتل کرنے والا قصہ تہذیب الکمال (طبع مؤسستہ الرسالہ ج 1 ص 202) میں ادھوری (غیر مکمل) سند ’’أبو عوانۃ الأسفرائني عن أبي بکر الجذامي عن ابن عوف قال: یقال‘‘ سے مروی ہے۔ یہ قصہ کئی لحاظ سے مردود ہے:

1- ابو عوانہ تک سند غائب ہے۔

2- ابوبکر الجذامی نامعلوم ہے۔

3- یقال (کہا جاتا ہے) کا قائل نامعلوم ہے۔

صاحبِ تہذیب الکمال نے بغیر کسی سند کے محمد بن یحییٰ الذہلی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اسحاق بن یحییٰ کو طبقۂ ثانیہ میں ذکر کیا اور کہا: ’’مجہول: لم أعلم لہ روایۃً غیر یحیی بن صالح الوحاظي فإنہ أخرج إليّ لہ أجزاء من حدیث الزہري فوجد تھا مقاربۃ فلم أکتب منھا إلا شیئًا یسیرًا‘‘ مجہول ہے، میرے علم میں یحییٰ بن صالح الوحاظی کے سوا کسی نے اس سے روایت بیان نہیں کی۔ انھوں نے میرے سامنے اس کی زہری سے حدیثوں کے اجزاء پیش کئے تو میں نے دیکھا کہ یہ روایات مقارب (صحیح و مقبول اور ثقہ راویوں کے قریب قریب) ہیں۔ میں نے ان میں سے تھوڑی روایتیں ہی لکھی ہیں۔ (ج 1 ص 202)

حافظ ابو بکر محمد بن موسیٰ الحازمی (متوفی 591ھ) نے امام زہری کے شاگردوں کے طبقۂ ثانیہ کے بارے میں کہا کہ وہ مسلم کی شرط پر ہیں۔ (شروط الائمۃ الخمسہ ص 57)

معلوم ہوا کہ یہ راوی امام محمد بن یحییٰ الذہلی کے نزدیک مجہول ہونے کے ساتھ ثقہ و صدوق اور مقارب الحدیث ہے(!) بصورتِ دیگر یہ جرح جمہور محدثین کے مقابلے میں مردود ہے۔

خلاصۃ التحقیق: اسحاق بن یحییٰ الکلبی حسن الحدیث ہیں۔

فائدہ: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ والی یہی روایت شعیب بن ابی حمزہ نے ’’عن الزہري عن سعید بن المسیب عن أبي ھریرۃ‘‘ کی سند سے بیان کر رکھی ہے۔ (کتاب الایمان لابن مندہ ج 1 ص 359 ح 99 وسندہ صحیح إلی شعیب بن ابی حمزہ)

اس شاہد کے ساتھ اسحاق بن یحییٰ کی روایت مزید قوی ہو جاتی ہے۔ والحمد للہ

دوسری دلیل: لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔

حافظ ابن حزم لکھتے ہیں:

’’فھذا إجماع صحیح کا لإجماع علٰی قول لا إلٰہ إلا اللہ محمد رسول اللہ‘‘

پس یہ اجماع صحیح ہے جیسا کہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کلمے پر اجماع ہے۔

(المحلیٰ ج 10 ص 423، العین، مسئلہ: 3025)

حافظ ابن حزم مزید لکھتے ہیں:

’’وکذلک ما اتفق علیہ جمیع أھل الإسلام بلاخلاف من أحد منھم من تلقین موتاھم: لا إلٰہ إلا اللہ محمدرسول اللہ‘‘

اور اسی طرح تمام اہلِ اسلام بغیر کسی اختلاف کے اس پر متفق ہیں کہ مرنے والوں کو (موت کے وقت) لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ (پڑھنے) کی تلقین کرنی چاہئے۔

(الفصل فی الملل والاھواء والنحل ج 1 ص 621، الرد علی من زعم أن الانبیاء علیہم السلام لیسوا أنبیاء الیوم)

معلوم ہوا کہ کلمۂ اخلاص: کلمۂ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا صحیح حدیث اور اجماع سے ثبوت موجود ہے۔ والحمدللّٰہ وصلی اللہ علٰی نبیہ وسلم

تنبیہ: ’’مفتی‘‘ محمد اسماعیل طُورو دیوبندی نے ’’شش کلمے‘‘ کے تحت لکھا ہے:

’’کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

(ترجمہ) نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

(البخاری، مسلم ج1ص 73)‘‘

(مختصر نصاب ص 24 طبع 2005ء دارالافتاء جامعہ اسلامیہ، صدر کامران مارکیٹ راولپنڈی)

یہ مکمل کلمہ نہ تو صحیح بخاری کی کسی حدیث میں لکھا ہوا ہے اور نہ صحیح مسلم کی کسی حدیث میں اس طرح موجود ہے۔

مفتی بنے ہوئے علماء کو اپنی تحریروں میں احتیاط کرنی چاہئے اور غلط حوالوں سے کلی اجتناب کرنا چاہئے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 75 تا 80) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ