خطبۂ جمعہ کے چالیس مسائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


اس مختصر مضمون میں خطبۂ جمعہ کے بعض مسائل پیشِ خدمت ہیں:

نمبر 1:

رسول اللہ ﷺ منبر پر خطبۂ جمعہ ارشاد فرماتے تھے۔

دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (1/ 140 ح1777، وسندہ حسن)صحیح بخاری (1033) اور صحیح مسلم (897، دارالسلام: 2082)

نمبر 2:

آپ ﷺ کے منبر کے تین درجے یعنی تین زینے تھے۔

دیکھئے المستدرک للحاکم (4/ 153۔ 154ح 7656، وسندہ حسن) اور میری کتاب: فضائلِ درود و سلام (ص 60۔ 62)

نمبر 3:

رسول اللہ ﷺ کے منبر اور قبلے (کی دیوار) کے درمیان بکری کے گزرنے جتنی جگہ تھی۔

دیکھئے صحیح مسلم (509) صحیح بخاری (497) اور سنن ابی داود (1082، وسندہ صحیح)

نمبر 4:

آپ ﷺ کا منبر لکڑی کا بنا ہوا تھا۔

دیکھئے صحیح بخاری (917) اور صحیح مسلم (544)

نمبر 5:

رسول اللہ ﷺ منبر کے تیسرے زینے پر بیٹھتے تھے۔

(صحیح ابن خزیمہ 1/ 140 ح 1777، وسندہ حسن، نیز دیکھئے فقرہ نمبر1)

نمبر 6:

کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ خطیب منبر پر بیٹھ کر لوگوں کو السلام علیکم کہے۔ اس سلسلے میں سنن ابن ماجہ (1109) وغیرہ والی روایت عبداللہ بن لہیعہ کے ضعف (بوجۂ اختلاط) اور تدلیس (عن) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق وغیرہما میں اس کے ضعیف شواہد بھی ہیں، جن کے ساتھ مل کر یہ روایت ضعیف ہی ہے۔

اگر امام مسجد میں پہلے سے موجود ہو تو بغیر سلام کے منبر پر چڑھ جائے اور اذان کے بعد خطبہ شروع کر دے اور اگر باہر سے مسجد میں آئے تو مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کہہ دے۔

عمرو بن مہاجر سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز (رحمہ اللہ) جب منبر پر چڑھ جاتے تو لوگوں کو سلام کہتے اور لوگ اُن کا جواب دیتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 114ح 5197 وسندہ حسن)

نمبر 7:

خطبۂ جمعہ میں عصا (لاٹھی) یا کمان پکڑنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ دیکھئے سنن ابی داود (1096، وسندہ حسن وصححہ ابن خزیمۃ: 1452)

عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہاتھ میں عصا لے کر منبر پر خطبہ دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 115 ح 5207 وسندہ حسن)

یاد رہے کہ خطبۂ جمعہ میں عصا یا کمان پکڑنا ضروری نہیں لہٰذا ان کے بغیر بھی خطبہ جائز ہے۔

فائدہ: خطبے کے علاوہ بھی رسول اللہ ﷺ سے عصا پکڑنا ثابت ہے۔ دیکھئے مسند احمد (6/23 وسندہ حسن) وصححہ ابن حبان (6774) والحاکم (2/285، 4/425۔ 426) ووافقہ الذہبی۔

نمبر 8:

سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جب امام جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتا تو پہلی اذان ہوتی تھی۔ الخ (صحیح بخاری: 916)

امام سلیمان بن طرخان التیمی رحمہ اللہ اہلِ حدیث (مدلس من الطبقۃ الثانیہ عند الحافظ ابن حجر، و من الثالثہ عندنا) نے امام ابن شہاب سے یہی حدیث درج ذیل الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے: ’’کان النداء علٰی عھد رسول اللہ ﷺ و أبي بکر و عمر رضي اللہ عنھما عند المنبر‘‘ إلخ رسول اللہ ﷺ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اذان منبر کے پاس ہوتی تھی۔ الخ (المعجم الکبیر للطبرانی ج7ص 146۔ 147 ح 6646)

اس روایت کی سند امام سلیمان التیمی تک صحیح ہے لیکن یہ روایت تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

دو قسم کے لوگوں کے نزدیک یہ روایت بالکل صحیح ہے:

i: جو لوگ حافظ ابن حجر کی تقسیمِ طبقات پر اندھا دھند اعتماد کرتے ہیں۔

ii: جو لوگ ثقہ راویوں کے مدلس ہونے کے سرے سے منکر ہیں یعنی جماعت المسعودیین جو کہ جدید دور کے خوارج میں سے ایک خارجی فرقہ ہے۔

تنبیہ: مسجد کے دروازے کے پاس اذان دینے والی روایت (سنن ابی داود: 1088) محمد بن اسحاق بن یسار مدلس کے عن کی وجہ سے ضعیف اور سلیمان التیمی کی روایت کے خلاف ہونے کی وجہ سے منکر و مردود ہے۔

نمبر 9:

ہر خطبۂ جمعہ میں سورۃ قٓ کی تلاوت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم (873، ترقیم دارالسلام: 2014)

علامہ نووی نے کہا: ’’و فیہ استحباب قراءۃ قٓ أو بعضھا في کلّ خطبۃ‘‘ اور اس (حدیث) میں (اس کا) ثبوت ہے کہ سورۃ قٓ یا بعض سورۃ قٓ کی قراءت ہر خطبے میں مستحب ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی 6/161 تحت ح 873)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خطبۂ جمعہ میں سورۃ آل عمران کی قراءت پسند کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 115 ح 5203 وسندہ حسن)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبے میں سورۃ النحل کی تلاوت کی اور بعد میں لوگوں کو یہ مسئلہ سمجھایا کہ اگر کوئی سجدۂ تلاوت نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری: 1077، یعنی سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے۔)

معلوم ہوا کہ خطبۂ جمعہ میں سورۃ قٓ کا پڑھنا فرض، واجب یا ضروری نہیں بلکہ مسنون ہے۔

نمبر 10:

رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر جمعہ کا خطبہ دیتے پھر آپ بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے (اور دوسرا خطبہ دیتے) تھے۔ الخ (صحیح بخاری: 920، صحیح مسلم: 861)

آپ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، پس تمھیں جو بتائے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو اُس شخص نے جھوٹ کہا۔ (صحیح مسلم: 862، دارالسلام: 1996)

معلوم ہوا کہ (بغیر شرعی عذر کے) جمعہ کے دن بیٹھ کر خطبہ یا تقریر ثابت نہیں ہے۔

نمبر 11:

رسول اللہ ﷺ کی نماز درمیانی ہوتی تھی اور آپ کا خطبہ بھی درمیانہ ہوتا تھا۔ دیکھئے صحیح مسلم (866)

ایک دفعہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بہت مختصر اور فصیح و بلیغ خطبہ دیا پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ((إن طول صلاۃ الرجل و قصر خطبتہ مئنۃ من فقھہ فأ طیلوا الصلوۃ وأقصروا الخطبۃ و إن من البیان سحرًا ۔)) بے شک آدمی کی لمبی نماز اور مختصر خطبہ اس کے فقیہ ہونے کی نشانی ہے لہٰذا نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر دو اور بے شک بعض بیان میں جادو ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم: 869)

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:

i: جمعہ کی نماز عام نمازوں سے لمبی اور خطبہ عام خطبوں سے مختصر ہونا چاہئے۔

ii: جو لوگ جمعہ کے دن بہت لمبے خطبے اور بغیر شرعی عذر کے بیٹھ کر خطبہ دیتے ہیں وہ فقیہ نہیں ہیں۔

نمبر 12:

رسول اللہ ﷺ سے درج ذیل خطبہ مطلقاً ثابت ہے: ((إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہُ وَ نَسْتَعِیْنُہُ، مَنْ یَّھْدِہِ اللہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلاَ ھَادِيَ لَہُ، وَ أَشْھَدُ أَن لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ [أَشْھَدُ] أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، أَمَّا بَعْدُ:)) (صحیح مسلم: 868، سنن النسائی 6/ 89۔ 90 ح 3280 وسندہ صحیح والزیادۃ منہ)

((فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللہِ، وَ خَیْرَ الْھَدْيِ ھَدْيُ مُحَمَّدٍ (ﷺ) وَ شَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ)) (صحیح مسلم: 867)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر وہ خطبہ جس میں تشہد نہ ہو، اُس ہاتھ کی طرح ہے جو جذام زدہ (یعنی عیب دار اور ناقص) ہے۔ (سنن ابی داود: 4841، وسندہ صحیح وصححہ الترمذی: 1106، و ابن حبان: 1994، 579)

تشہد سے مراد کلمۂ شہادت ہے۔ دیکھئے عون المعبود (4/ 409)

تنبیہ: سنن ابی داود (2118) سنن الترمذی (1105) سنن النسائی (1405) اور سنن ابن ماجہ (1892) میں خطبۃ الحاجہ کے نام سے خطبۂ نکاح مذکور ہے، جس میں تین آیات کی تلاوت کا بھی ذکر ہے: النساء (1) آل عمران (102) اور الاحزاب (70۔ 71)

اس خطبے کی دو سندیں ہیں:

i: شعبہ وغیرہ عن أبي إسحاق عن أبي عبیدۃ عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ (یہ سند منقطع ہے۔)

ii: شعبہ کے علاوہ دیگر راوی: عن أبي إسحاق السبیعي عن أبی الأحوص عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ (اس کی سند ابو اسحاق مدلس کی تدلیس یعنی عن کی وجہ سے ضعیف ہے۔)

مسند احمد (1/ 393 ح 3721) میں شعبہ کی ابو اسحاق عن ابی الاحوص کی سند سے ایک مبتور (کٹی ہوئی، بغیر مکمل سند و متن کے) روایت ہے لیکن اس میں ابو الاحوص کے بعد کی سند مذکور نہیں لہٰذا یہ روایت منقطع ہے۔

امام بیہقی (7/ 146) نے صحیح سند کے ساتھ شعبہ سے روایت کیا: ’’عن أبي إسحاق عن أبي عبیدۃ قال: و أراہ عن أبي الأحوص عن عبداللہ عن النبي ﷺ‘‘ معلوم ہوا کہ یہ سند ’’أراہ‘‘ کی وجہ سے مشکوک یعنی ضعیف ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے سورۃ النساء کی پہلی آیت اور سورۃ الحشر کی اٹھارھویں (18) آیت خطبے میں پڑھنا ثابت ہے۔

نمبر 13:

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’کان للنبي ﷺ خطبتان یجلس بینھما، یقرأ القرآن و یذکرّ الناس ۔‘‘ نبی ﷺ کے دو خطبے ہوتے تھے، آپ ان میں بیٹھتے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ (صحیح مسلم: 862، دارالسلام: 1995)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبۂ جمعہ کے دو اہم ترین مقاصد ہیں:

i: قراءت ِ قرآن

ii: لوگوں کو نصیحت یعنی خطبۂ جمعہ ذکر بھی ہے اور تذکیر بھی ہے۔

خطبۂ جمعہ نماز کی طرح ذکر نہیں کہ اس میں لوگوں کو نصیحت نہ ہو اور کسی قسم کی گفتگو نہ ہو بلکہ احادیثِ صحیحہ سے رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کا عند الضرورت ایک دوسرے سے کلام اور باتیں کرنا ثابت ہے۔ مثلاً

i: آپ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا: ((أصلّیتَ یا فلان؟ ۔)) اے فلاں! کیا تم نے (دو رکعتیں) نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ((قم فارکع۔)) اُٹھو اور نماز پڑھو۔ (صحیح بخاری: 930، صحیح مسلم: 875)

ii: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبۂ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! مویشی اور بکریاں ہلاک ہو گئیں، لہٰذا آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ بارش برسائے۔ الخ (صحیح بخاری: 933، واللفظ لہ، صحیح مسلم: 897)

iii: ایک دفعہ جمعہ کے دن نبی ﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ لوگ کھڑے ہوگئے اور اونچی آواز سے کہا: یا نبی اللہ! بارش کا قحط ہو گیا، درخت سرخ ہو گئے اور مویشی ہلاک ہو گئے۔ الخ (صحیح بخاری: 1021، صحیح مسلم: 932)

iv: ایک آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آ رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اُسے فرمایا: ((اجلس فقد آذیت۔)) بیٹھ جا، پس تو نے (لوگوں کو) تکلیف دی ہے۔ (سنن ابی داود: 1118، وسندہ صحیح وصححہ ابن خزیمہ [1811] و ابن حبان [572] والحاکم علیٰ شرط مسلم [1/ 288 ح 1061] ووافقہ الذہبی)

v: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن (منبر پر) چڑھنے کے بعد فرمایا: ((اجلسوا)) بیٹھ جاؤ۔ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے یہ بات سُنی تو (اتباعِ سنت کے جذبے سے) مسجد کے دروازے پر ہی بیٹھ گئے، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے انھیں دیکھا تو فرمایا: ((تعال یا عبداللہ بن مسعود!)) اے عبداللہ بن مسعود! آ جاؤ۔ الخ (سنن ابی داود: 1091، وسندہ حسن، حدیث ابن جریج عن عطاء بن ابی رباح قوی و صححہ ابن خزیمہ: 1780، والحاکم علیٰ شرط الشیخین 1/283۔ 284 ووافقہ الذہبی)

vi: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ خطبۂ جمعہ میں ایک آدمی (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ) سے باتیں کی تھیں اور انھوں نے بھی جواب میں کلام کیا تھا۔ رضی اللہ عنہما۔ دیکھئے صحیح بخاری (878) وصحیح مسلم (845)

معلوم ہوا کہ خطبہ میں وعظ و نصیحت کے ساتھ خطیب اور سامعین کا شرعی عذر کے ساتھ باہم دینی اور ضروری باتیں کرنا بھی جائز ہے لہٰذا جو لوگ خطبہ کو نماز پر قیاس کرتے ہیں، اُن کا قیاس باطل ہے۔

درج بالا دو دلیلوں: یذکر الناس (لوگوں کو نصیحت) اور خطیب و سامعین کے کلام سے معلوم ہوا کہ مسنون خطبۂ جمعہ اور قراءتِ قرآن کے بعد قرآن و حدیث کا سامعین کی زبان میں ترجمہ اور تشریح بیان کرنا جائز ہے۔

چوتھی صدی ہجری کے حنفی فقیہ ابو اللیث السمرقندی نے کہا: ’’قال أبو حنیفۃ: ۔۔۔۔ أو خطب للجمعۃ بالفارسیۃ ۔۔۔ جاز‘‘ ابو حنیفہ نے کہا: یا اگر فارسی میں خطبۂ جمعہ دے تو جائز ہے۔ (مختلف الروایۃ ج1ص 80۔ 81 فقرہ 4)

برہان الدین محمود بن احمد الحنفی نے کہا: ’’ولو خطب بالفارسیۃ جاز عند أبي حنیفۃ علٰی کل حال۔‘‘ اور اگر فارسی میں خطبہ دے تو ابو حنیفہ کے نزدیک ہر حال میں جائز ہے۔ (المحیط البرہانی ج2ص 450 فقرہ: 2166)

تنبیہ: اس قسم کے بے سند حوالے حنفیہ کے ہاں ’’فقۂ حنفی‘‘ میں حجت ہوتے ہیں لہٰذا ان حوالوں کو بطورِ الزامی دلیل پیش کیا گیا ہے۔

اس فتوے سے امام ابو حنیفہ کا رجوع کسی صحیح یا حسن سند سے ثابت نہیں اور نہ غیر عربی میں خطبۂ جمعہ کی کراہت آپ سے یا سلف صالحین میں سے کسی ایک سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں آلِ دیوبند و آلِ بریلی جو کچھ بیان کرتے ہیں، سب غلط اور باطل ہے۔

خلاصۃ التحقیق: جمعہ کے دن عربی زبان میں خطبۂ مسنونہ اور قراءتِ قرآن (مثلاً سورۃ قٓ) کے بعد سامعین کی زبان (مثلاً اردو، پشتو، پنجابی وغیرہ) میں وعظ و نصیحت جائز ہے اور مکروہ یا حرام قطعاً نہیں ہے۔

نمبر 14:

خطبۂ جمعہ کے دوران میں اگر کوئی شخص باہر سے آئے تو اس کے لئے یہ حکم ہے کہ دو مختصر رکعتیں پڑھ کر بیٹھ جائے۔ دیکھئے صحیح بخاری (1166) اور صحیح مسلم (875)

نمبر 15:

حالتِ خطبہ میں لوگوں (سامعین) کا تشہد کی طرح بیٹھنا ثابت نہیں ہے۔

نمبر 16:

جمعہ کے دن خطبۂ جمعہ سے پہلے مسجد پہنچ جانا چاہئے کیونکہ خطبہ شروع ہوتے ہی فرشتے اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر یعنی خطبہ سننا شروع کر دیتے ہیں۔

دیکھئے صحیح بخاری (881) وصحیح مسلم (850)

نمبر 17:

خطبہ میں (استسقاء کے علاوہ) دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا نہ کرے بلکہ صرف شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے۔ دیکھئے صحیح مسلم (874)

نمبر 18:

اگر شرعی ضرورت ہو تو خطبۂ جمعہ میں چندے اور صدقات کی اپیل کرنا جائز ہے۔

دیکھئے مسند الحمیدی بتحقیقی (741 وسندہ حسن) اور سنن الترمذی (511 وقال: ’’حسن صحیح‘‘و صححہ ابن خزیمہ: 1799، 1830، 2481)

نمبر 19:

خطبۂ جمعہ میں خطیب کا دونوں ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارے کرنا اور (دھواں دھار انداز میں) ہوا میں ہاتھ لہرانا وغیرہ ثابت نہیں ہے۔

نمبر 20:

خطبۂ جمعہ کی حالت میں خطیب (کی اجازت) کے ساتھ شرعی و مودبانہ سوال جواب کے علاوہ سامعین کے لئے ہر قسم کی گفتگو منع اور حرام ہے۔

ممانعت کے لئے دیکھئے صحیح بخاری (910، 934) اور صحیح مسلم (851، 857)

نمبر 21:

خطبۂ جمعہ میں امام یعنی خطیب کی طرف رُخ کرنا چاہئے۔ جیسا کہ قاضی شریح، عامر الشعبی اور نضر بن انس وغیرہم تابعین سے ثابت ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (2/ 118 ح 5227 وسندہ صحیح، ح 5229 وسندہ صحیح، ح 5230 وسندہ صحیح)

بلکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انھوں نے جمعہ کے دن منبر (یعنی خطیب) کی طرف رُخ کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 118 ح 5233 وسندہ صحیح، نیز دیکھئے الاوسط لابن المنذر 4/74۔ 75)

نمبر 22:

خطبۂ جمعہ کی حالت میں سامعین کا گوٹھ مار کر بیٹھنا ممنوع ہے۔

دیکھئے سنن ابی داود (1110، وسندہ حسن و حسنہ الترمذی: 514)

نمبر 23:

جمعہ کے دن اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہو (یعنی مسجد میں پاؤں رکھے) تو وہاں قریب کے لوگوں کو (آہستہ سے) سلام کہنا جائز ہے، جیسا کہ حکم بن عتیبہ اور حماد بن ابی سلیمان سے ثابت ہے اور وہ لوگ اس کا جواب دیں گے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 2/ 120 ح 5260 وسندہ صحیح)

اور اس حالت میں سلام نہ کہنا اور جواب نہ دینا بھی جائز ہے جیسا کہ ابراہیم نخعی کے اثر سے معلوم ہوتا ہے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (2/ 121 ح 5264 وسندہ صحیح، ح 5268 وسندہ صحیح)اور فقرہ:6

نمبر 24:

ہر خطبے میں نبی ﷺ پر درود پڑھنا چاہئے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور نبی ﷺ پر درود پڑھا۔ الخ (زوائد عبداللہ بن احمد علیٰ مسند الامام احمد 1/106 ح 837 وسندہ صحیح)

نیز دیکھئے جلا ء الافہام فی فضل الصلوٰۃ والسلام علیٰ محمد خیر الانام ﷺ (ص 368۔ 371، اور نسخہ محققہ بتحقیق الشیخ مشہور حسن ص 438۔ 442) اور کتاب الام للشافعی (1/200، مختصر المزنی ص27)

نمبر 25:

محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر بن الخطاب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) منبر کی ایک طرف کھڑے ہو جاتے تو اپنے جوتوں کے تلوے اپنے بازوؤں پر رکھتے پھر منبر کی لکڑی (رُمانہ) پکڑ کر فرماتے: ’’ابو القاسم ﷺ نے فرمایا، محمد ﷺ نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، الصادق المصدوق ﷺ نے فرمایا۔ پھر بعد میں فرماتے: ’’عربوں کے لئے تباہی ہے اُس شر سے جو قریب ہے۔‘‘ پھر جب مقصورہ کے دروازے کی طرف سے امام کے خروج کی آواز سنتے تو بیٹھ جاتے تھے۔ (المستدرک للحاکم 1/ 108 ح 367 وصححہ علیٰ شرط الشیخین و قال الذہبی: ’’فیہ انقطاع‘‘ یعنی یہ روایت منقطع ہے۔ 3/512 ح 6173 و صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی!!)

حافظ ذہبی کو دوسری موافقت میں تو نسیان ہوا لیکن اُن کے پہلے قول سے صاف ظاہر ہے کہ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر کی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔

اس ضعیف اثر کو سرفراز خان صفدر دیوبندی نے اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ ’’جمعہ کے خطبہ سے پہلے تقریر کا متعدد صحابۂ کرام سے ثبوت ہے۔‘‘ (راہِ سنت ص 301)

اس سلسلے میں سرفراز خان صفدر نے الاصابہ (ج1ص 184) کے ذریعے سے سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک بے سند قصہ بھی ذکر کیا ہے جو کہ بے سند ہونے کی وجہ سے غیر ثابت اور مردود ہے۔

سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن امام کے خروج سے پہلے بیٹھ کر حدیثیں سناتے رہے۔ دیکھئے المستدرک (1/ 288 ح 1061، صحیح ابن خزیمہ 3/ 156ح 1811، وسندہ صحیح) اور یہی مضمون فقرہ نمبر 13، ذیلی نمبر4

سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے اس واقعے سے دیوبندیوں و بریلویوں کی مروجہ اردو، پشتواور پنجابی وغیرہ تقریروں کا ثبوت کشید کرنا غلط ہے۔ کیونکہ سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ تو عربی زبان میں حدیثیں سناتے تھے، نہ کہ اردو یا پشتو، پنجابی میں تقریر کرتے تھے (!)

لہٰذا بریلوی کا دیوبندیوں پر دوسرا اعتراض: ’’جمعہ کے دن خطبہ سے قبل تقریر کرنا بدعت ہے مگر تم بھی کرتے ہو۔‘‘ جیسا کہ راہِ سنت میں مذکور ہے (دیکھئے ص 301) بالکل صحیح اور بجا ہے۔

اس اعتراض کا جواب صرف اُس وقت ممکن ہے جب آلِ دیوبند اور آلِ بریلی دونوں مل کر یہ ثابت کر دیں کہ فلاں صحابی پہلے فارسی میں تقریر کرتے تھے اور بعد میں جمعہ کے دو خطبے صرف عربی میں پڑھتے تھے۔ اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر اُن کا عربی مسنون خطبۂ جمعہ اور قراءتِ قرآن کے بعد اُردو وغیرہ غیر عربی زبانوں میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے کتاب و سنت کے ترجمہ و تشریح پر اعتراض باطل ہے۔

نمبر 26:

خطبۂ جمعہ کے علاوہ دوسرا خطبہ (تقریر) بیٹھ کر بھی جائز ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری:921)

نمبر 27:

اگر کوئی عذر ہو تو خطیب کسی دوسرے شخص کو نماز پڑھانے کے لئے آگے مصلے پر کھڑا کر سکتا ہے۔ دیکھئے مسائل الامام احمد و اسحاق بن راہویہ (1/ 229 فقرہ: 526)

لیکن بہتر یہی ہے کہ خطیب ہی نماز پڑھائے۔

نمبر 28:

خطبہ میں دینِ اسلام اور مسلمانوں کے لئے دعا کرنی چاہئے۔

نمبر 29:

جب خطیب خطبۂ جمعہ کے لئے عین خطبے کے وقت آئے تو منبر پر بیٹھ جائے، یعنی دو رکعتیں نہ پڑھے، جیسا کہ ابو الولید الباجی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح واقعے سے ثابت کیا ہے: ’’فإذا خرج عمر و جلس علی المنبر و أذن المؤذنون‘‘ إلخ پھر جب عمر (رضی اللہ عنہ) تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھ جاتے اور موذنین اذان دیتے۔ الخ (المنتقیٰ شرح الموطأ ج2 ص 113)

نمبر 30:

جمعہ کے دن (خطیب ہوں یا عام نمازی، سب کو) اچھا لباس پہننا چاہئے۔

دیکھئے سنن ابی داود (343) اور مسند احمد (3/ 81 وسندہ حسن)

نمبر 31:

سب سے بہتر لباس سفید لباس ہے۔

دیکھئے سنن ابی داود (4061 وسندہ حسن) و صححہ الترمذی (994) و ابن حبان (1439۔ 1441)والحاکم علیٰ شرط مسلم (1/354) ووافقہ الذہبی

دوسرا لباس بھی جائز ہے، بشرطیکہ کسی شرعی دلیل کے خلاف نہ ہو۔ (دیکھئے سورۃ الاعراف:32)

نمبر 32:

سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور آپ نے کالا عمامہ باندھا ہوا تھا۔ (صحیح مسلم: 1359، دارالسلام: 3311)

تنبیہ: سفید عمامہ بھی جائز ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سر پر سفید عمامہ باندھا تھا۔ دیکھئے المستدرک (ج4 ص 540 ح 8623، اتحاف المہرۃ 8/590ح 10015، وھو حدیث حسن لذاتہ) اور ص598

نمبر 33:

ٹوپی پہننا بھی جائز ہے۔

دیکھئے التاریخ الکبیر للبخاری (1/ 428 عن ابی موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ موقوفاً علیہ وسندہ صحیح)

نمبر 34:

رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں خطبہ دیا اور آپ پر دھاری دار سرخ چادر تھی۔

(مسند احمد 3/ 477 وسندہ صحیح، سنن ابی داود:4073)

نمبر 35:

خطبۂ جمعہ منبر پر ہی ہونا چاہئے۔

دیکھئے فقرہ نمبر1، اور مجموع شرح المہذب (4/527)

نمبر 36:

منبر دائیں طرف ہونا چاہئے، جیسا کہ مسجد نبوی میں ہے۔

نمبر 37:

دورانِ خطبہ نعرۂ تکبیر یا کسی قسم کے نعرے بلند کرنا ثابت نہیں ہے۔

نمبر 38:

دورانِ خطبہ خطیب کا مقتدیوں سے بار بار سبحان اللہ پڑھانا ثابت نہیں ہے۔

نمبر 39:

عوام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ صرف صحیح العقیدہ علماء کے خطبے سنیں اور اہلِ بدعت کے ہر قسم کے خطبے سے دور رہیں، جیسا کہ حدیث: ’’من وقرصاحب بدعۃ فقد أعان علٰی ھدم الإسلام‘‘ جس نے بدعتی کی عزت کی تو اس نے اسلام کے گرانے میں مدد کی۔ (کتاب الشریعۃ للآجری ص 962 ح 2040 وسندہ صحیح، علمی مقالات ج2ص 556) اور عام دلائلِ شرعیہ سے ثابت ہے۔

نمبر 40:

خطبہ کے آخر میں استغفار کرنا چاہئے، جیسا کہ کفارۃ المجلس والی حدیث کے عموم سے ثابت ہے۔ دیکھے سنن ابی داود (4857 وسندہ صحیح، 4859 وسندہ حسن)

اصل مضمون کے لئے دیکھیں ماہنامہ الحدیث شمارہ 75 صفحہ 17 اور علمی مقالات جلد 3 صفحہ 157