کیا امام شافعی امام ابو حنیفہ کی قبر پر گئے تھے؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’إني لأتبرک بأبي حنیفۃ وأجئ إلٰی قبرہ في کل یوم - یعني زائرًا - فإذا عرضت لي حاجۃ صلیت رکعتین وجئت إلٰی قبرہ وسألت اللہ تعالٰی الحاجۃ عندہ فما تبعد عني حتٰی تقضی‘‘

میں ابو حنیفہ کے ساتھ برکت حاصل کرتا اور روزانہ اُن کی قبر پر زیارت کے لئے آتا۔ جب مجھے کوئی ضرورت ہوتی تو دو رکعتیں پڑھتا اور ان کی قبر پر جاتا اور وہاں اللہ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا توجلد ہی میری ضرورت پوری ہو جاتی۔ (بحوالہ تاریخ بغداد)

کیا یہ روایت صحیح ہے؟ (ایک سائل)

الجواب:

یہ روایت تاریخ بغداد (1/ 123) و اخبار ابی حنیفہ واصحابہ للصیمری (ص89) میں ’’مکرم بن أحمد قال: نبأنا عمر بن إسحاق بن إبراہیم قال: نبأنا علي بن میمون قال: سمعت الشافعي……‘‘ کی سند سے مذکور ہے۔

اس روایت میں ’’عمر بن اسحاق بن ابراہیم‘‘ نامی راوی کے حالات کسی کتاب میں نہیں ملے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’غیر معروف …‘‘ یہ غیر معروف راوی ہے … (السلسلۃ الضعیفہ 1/ 31 ح 22)

یعنی یہ راوی مجہول ہے لہٰذا یہ روایت مردود ہے۔

اس موضوع و مردود روایت کو محمد بن یوسف الصالحی الشافعی (عقود الجمان عربی ص 363 ومترجم اردو ص 440) ابن حجر ہیتمی / مبتدع (الخیرات الحسان فی مناقب النعمان عربی ص 94 ومترجم ص 255 [سرتاجِ محدثین]) وغیرہما نے اپنی اپنی کتابوں میں بطور استدلال و بطورِ حجت نقل کیا ہے مگر عمر بن اسحاق بن ابراہیم کی توثیق سے خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔

اسی ایک مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تحقیق و انصاف سے دوربھاگنے والے حضرات نے کتبِ مناقب وغیرہ میں کیا کیا گل کھلا رکھے ہیں۔

یہ حضرات دن رات سیاہ کو سفید اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں حالانکہ تحقیقی میدان میں ان کے سارے دھوکے اور سازشیں ظاہر ہو جاتی ہیں پھر باطل پرست لوگوں کو منہ چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ملتی۔

مردود روایات کی ترویج کرنے والے ایک اور روایت پیش کرتے ہیں کہ شہاب الدین الابشیطی (810 ھ وفات 883 ھ) نامی شخص نے (بغیر کسی سند کے) نقل کیا ہے: امام شافعی نے صبح کی نماز امام ابو حنیفہ کی قبر کے پاس ادا کی تو اس میں دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ جب ان سے عرض کیا گیا تو فرمایا: اس قبر والے کے ادب کی وجہ سے دعائے قنوت نہیں پڑھی۔ (عقودالجمان ص 363، الخیرات الحسان ص 94 تذکرۃ النعمان ص 440، 441 سرتاج محدثین ص 255) یہ سارا قصہ بے سند، باطل اور موضوع ہے۔

اسی طرح محی الدین القرشی کا طبقات میں بعض (مجہول) تاریخوں سے عدمِ جہر بالبسملہ کا ذکر کرنا بھی بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع اور باطل ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے امام شافعی کے امام ابو حنیفہ کی قبر پر جانے والے قصے کا موضوع اور بے اصل ہونا حدیثی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ دیکھئے ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ (ص 343، 344 دوسرا نسخہ ص 385، 386)

جو شخص ایسا کوئی قصہ ثابت سمجھتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے پیش کردہ قصے کی صحیح متصل سند پیش کرے۔ مجرّد کسی کتاب کا حوالہ کافی نہیں ہوتا۔

تنبیہ بلیغ: امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ سے اما م ابو حنیفہ کی تعریف و ثنا قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ اس کے سراسر برعکس امام شافعی رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح باسند صحیح ثابت ہے دیکھئے آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم (ص171، 172 وسندہ صحیح، 201، 202 وسندہ صحیح) تاریخ بغداد (13/ 437 وسندہ صحیح، 2/ 177، 178 وسندہ صحیح)

لہٰذا اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ امام شافعی کبھی امام ابو حنیفہ کی قبر کی زیارت کے لئے گئے ہوں۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (ج 2 ص 409 تا 411)