’’ماں کی نافرمانی کی سزا دُنیا میں‘‘ … ایک من گھڑت روایت کی تحقیق

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

عام واعظین و خطباء حضرات ایک شخص کا واقعہ تفصیل سے بیان کرتے رہتے ہیں جس سے اُس کی والدہ ناراض تھی۔ یہ واقعہ خواجہ محمد اسلام صاحب کی کتاب ’’موت کا منظر‘‘ میں بھی اس طرح لکھا ہوا ہے:

’’ماں کی نافرمانی کی دُنیا میں سزا: حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’علقمہ‘‘ نامی ایک شخص جو نمازروزہ کا بہت پابند تھا جب اس کے انتقال کا وقت قریب آیا، تو اس کے منہ سے باوجود تلقین کے کلمہ شہادت جاری نہ ہوتا تھا۔ علقمہ کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک آدمی بھیج کر اس واقعہ کی اطلاع کرائی۔ آپ نے دریافت کیا: علقمہ کے والدین زندہ ہیں یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ صرف والدہ زندہ ہے اور وہ علقمہ سے ناراض ہے۔ آپ ﷺ نے علقمہ کی ماں کو اطلاع کرائی کہ میں تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، تم میرے پاس آتی ہو یا میں تمھارے پاس آؤں۔ علقمہ کی والدہ نے عرض کی، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتی، بلکہ میں خود ہی حاضر ہوتی ہوں۔ چنانچہ بڑھیا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے علقمہ کے متعلق کچھ دریافت فرمایا، تو اس نے کہا علقمہ نہایت نیک آدمی ہے، لیکن وہ اپنی بیوی کے مقابلہ میں ہمیشہ میری نافرمانی کرتا ہے۔ اس لیے میں اس سے ناراض ہوں۔ آپ نے فرمایا: اگر تو اس کی خطا معاف کر دے، تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، لیکن اس نے انکار کیا۔ تب آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ لکڑیاں جمع کرو اور علقمہ کو جلا دو۔ بڑھیا یہ سن کر گھبرا گئی۔ اور اس نے حیرت سے دریافت کیا کہ کیامیرے بچے کو آگ میں جلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اللہ کے عذاب کے مقابلہ میں یہ ہمارا عذاب ہلکا ہے۔ خدا کی قسم جب تک تو اس سے ناراض ہے، نہ اس کی نماز قبول ہے نہ کوئی صدقہ قبول ہے۔ بڑھیا نے کہا: میں آپ کو اور لوگوں کو گواہ کرتی ہوں کہ میں نے علقمہ کے قصور معاف کر دیا۔ آپ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’دیکھو، علقمہ کی زبان پر کلمہ شہادت جاری ہوا یا نہیں؟ لوگوں نے بیان کیا یا رسول اللہ ﷺ علقمہ کی زبان پر کلمۂ شہادت جاری ہو گیا اور کلمۂ شہادت کے ساتھ اس نے انتقال کیا۔ آپ نے علقمہ کے غسل و کفن کا حکم دیا اور خود جنازے کے ساتھ تشریف لے گئے۔ علقمہ کو دفن کرنے کے بعد فرمایا: ’’مہاجرین و انصار میں سے جس شخص نے اپنی ماں کی نافرمانی کی یا اس کو تکلیف پہنچائی، تو اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور سب لوگوں کی لعنت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرتا ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ اللہ سے توبہ کرے اور اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اور جس طرح ممکن ہو اس کو راضی کرے، اس کی رضا ماں کی رضا مندی پر موقوف ہے اور خدا تعالیٰ کا غصہ اس کے غصہ میں پوشیدہ ہے۔ (طبرانی)‘‘

اس واقعہ کے بارے میں اصول حدیث کی روشنی میں تخریج و تحقیق کر کے اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ فرمائیں، جزاکم اللہ خیراً۔

الجواب:

یہ واقعہ طبرانی (جامع المسانید والسنن لابن کثیر 7/ 307، 308 ح 5169) بزار (کشف الأستار 2/ 385، 386 ح 1911) عقیلی (الضعفاء الکبیر 3/ 461) خرائطی (مساوی الأخلاق ح 251) بیہقی (شعب الایمان 6/ 198 ح 7892، دلائل النبوۃ 6/ 206، 206) رافعی (تاریخ قزوین 2/ 369، 370، الضعیفۃ للالبانی 7/ 167 ح 3183، وقال: ’’موضوع‘‘) اور ابن جوزی نے کتاب الموضوعات (من گھڑت حدیثوں والی کتاب ج 3 ص 87) میں ابو الورقاء فائد بن عبدالرحمٰن عن عبد اللہ بن ابی اوفیٰ کی سند سے روایت کیا ہے۔

امام احمد بن حنبل نے فائد کی اس حدیث کو اپنی کاپی (کتاب) سے کاٹ دیا تھا، کیونکہ فائد العطار اُن کے نزدیک متروک الحدیث تھا۔ (مسند أحمد ج 4ص 382)

یہ روایت بلحاظِ سند موضوع ہے۔ اس کا راوی ابو الورقاء فائد العطار سخت مجروح ہے۔ اس راوی کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے یہ روایت مروی نہیں ہے۔ اس راوی کے بارے میں (امام) ابن معین نے کہا: ’’ضعیف‘‘ (تاریخ الدوری 3/ 163 ت 704)

ابو حاتم الرازی نے کہا:

’’و أحادیثہ عن ابن أبی أوفی بواطیل، لاتکاد تری لھا اصلاً کأنہ لا یشبہ حدیث ابن أبی أوفی و لو أن رجلاً حلف ان عامۃ حدیثہ کذب لم یحنث‘‘

اور اس کی ابن ابی اوفیٰ سے حدیثیں باطل ہیں۔ تو ان کی اصل نہیں پائے گا گویا کہ یہ روایتیں ابن ابی اوفی کی حدیثوں سے مشابہ نہیں ہیں اور اگر کوئی آدمی قسم کھائے کہ اس کی عام حدیثیں جھوٹی ہیں تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔

(الجرح والتعدیل ج 7 ص 84)

امام بخاری نے کہا: ’’منکر الحدیث‘‘ یعنی وہ منکر حدیثیں بیان کرتا تھا۔ (کتاب الضعفاء: 299 وبتحقیقی: 309)

امام بخاری فرماتے ہیں: میں جسے منکر الحدیث کہہ دوں اُس سے (میرے نزدیک) روایت کرنا حلال نہیں ہے۔ (میزان الاعتدال ج 1 ص 6 ولسان المیزان ج 1 ص 5 ترجمۃ ابان بن جبلہ)

حافظ نسائی نے کہا: ’’متروک الحدیث‘‘اس کی حدیث متروک ہے۔ (کتاب الضعفاء: 487)

اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ متروک کی روایت متابعات میں بھی جائز نہیں ہے۔ دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (ص 38، النوع الثانی: الحسن) تیسر مصطلع الحدیث (ص 154، وغیرہما)

حاکم نیسا بوری نے اس راوی کے بارے میں کہا: ’’یروی عن ابن أبی أوفی أحادیث موضوعۃ‘‘ یہ ابن ابی اوفیٰ سے موضوع حدیثیں بیان کرتا ہے۔ (المدخل الی الصحیح ص 184 ت 155)

حافظ ابن حبان نے کہا: ’’کان ممن یروی المناکیر عن المشاھیر‘‘ وہ مشہور لوگوں سے منکر روایتیں بیان کرتا تھا۔ (المجروحین ج 2 ص 203)

حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب (5393)میں لکھاہے: ’’متروک، اتھموہ‘‘ متروک ہے، انھوں (محدثین) نے اس کو متہم (کذاب) کہا ہے۔

دیوبندیوں کی کتاب تبلیغی نصاب (ص 599) و فضائل اعمال و فضائل ذکر (ص 121 حدیث نمبر 35) پر فائد مذکور کو بحوالہ مجمع الزوائد: متروک لکھا ہوا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت اس متروک و متہم اور صاحب احادیث موضوعہ کی وجہ سے موضوع و من گھڑت ہے، لہٰذا ایسی روایت کا بغیر تنبیہ اور انکار کے بیان کرنا حلال نہیں ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 120 صفحہ 11 تا 14)