موجودہ حالات صحیح حدیث کی روشنی میں

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


مشہور تابعی امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، پھر ایک نوجوان نے اُن سے عمامہ (پگڑی) لٹکانے کے بارے میں پوچھا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان شاء اللہ تعالیٰ میں تجھے علم کے ساتھ جواب دوں گا، رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں ہم دس (افراد): ابوبکر، عمر، عثمان، علی، ابن مسعود، حذیفہ، ابن عوف، ابو سعید الخدری (رسول اللہ ﷺ اور میں) موجود تھے کہ ایک انصاری نوجوان نے آکر رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور بیٹھ گیا۔

پھر (انصاری نوجوان نے) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مومنوں میں افضل کون ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔

اس (نوجوان) نے کہا: مومنوں میں سب سے زیادہ سمجھدار کون ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: جو موت کو زیادہ یاد کرتاہے اور موت آنے سے پہلے سب سے زیادہ اُس کی تیاری کرتا ہے، یہی لوگ سمجھدار (عقل مند) ہیں۔

پھر وہ نوجوان خاموش ہوگیا اور نبی ﷺ نے اُس کی طرف رُخ کرکے فرمایا: اے جماعت مہاجرین! اگرتم پانچ چیزوں کے ساتھ آزمائے گئے اور یہ چیزیں تمھارے درمیان واقع ہو گئیں (تو) میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں (کہ یہ چیزیں تمھارے درمیان پائی جائیں):

1- جس قوم میں بھی فحاشی ظاہر ہوگی، پھر وہ اسے (علانیہ) کریں گے تو اس قوم میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جائیں گی، جو اُن کے آباء واجداد میں نہیں تھیں۔

2- جو لوگ ماپ تول میں کمی کریں گے تو اُنھیں قحط سالی، رزق کی تنگی اور حکمرانوں کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جائے گا۔

3- اور جو لوگ زکوٰۃ نہیں دیں گے تو آسمان سے بارش کے قطروں کو روک لیا جائے گا اور اگر جانور نہ ہوتے تو بارش ہی نہ ہوتی۔

4- اور جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ معاہدہ توڑ دیں گے (یعنی لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ پر عمل نہیں کریں گے) تو اللہ غیروں سے اُن کے دشمن (یعنی کفار) اُن پر مسلط کر دے گا اور وہ اُن کے ہاتھوں سے بعض چیزیں (مثلاً علاقے، مال وغیرہ) لے لیں گے۔

5- اور جب اُن کے حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے، تو اللہ انھیں آپس میں لڑا دے گا۔

پھر آپ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ایک فوجی گروہ تیار کریں، جس پر آپ نے انھیں امیر بنایا۔

صبح کو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کالے رنگ کے موٹے سوتی کپڑے کا عمامہ باندھ کر آئے تو نبی ﷺ نے انھیں اپنے قریب بلایا اور عمامہ کھول دیا، آپ نے انھیں سفید عمامہ بندھوایا اور چار انگلیاں یا اس کے قریب اُن کی پیٹھ پر لٹکادیا اور فرمایا: اے ابن عوف! اس طرح عمامہ باندھو کیونکہ یہ اچھا اور بہترین ہے۔

پھر نبی ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ جھنڈا اُن کے حوالے کر دیں۔ تو انھوں نے اللہ کی حمد بیان کی اور نبی ﷺ پر درود پڑھا، پھر فرمایا: ابن عوف! اسے پکڑ لو پھر اکٹھے ہو کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو، اُن سے لڑو جو اللہ کو نہیں مانتے، خیانت نہ کرو، غداری اور بے وفائی نہ کرو، مُثلہ نہ کرو (یعنی دشمن کے ہاتھ پاؤں اور ناک وغیرہ نہ کاٹو) بچوں کو قتل نہ کرو۔ یہ ہے اللہ کا معاہدہ اور اس کے نبی ﷺ کی سیرت۔

(المستدرک للحاکم ج 4 ص 540 ح 8623 وصححہ ووافقہ الذہبی، و سندہ حسن، المخطوط المصور 4/ 240۔241)

تنبیہ: المستدرک کے مطبوعہ نسخے (اور مخطوطے) میں علی بن حمشاذ اور ابو الجماہر کے درمیان عبید (بن محمد الغازی العسقلانی) کا واسطہ رہ گیا ہے۔ دیکھئے اتحاف المھرہ (8/ 590 ح 10015)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (ج 3 ص 597 اور 598)