محرم کے بعض مسائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


نمبر 1:

بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ’’محرم میں شادی نہیں کرنی چاہیے‘‘ اس بات کی شریعت ِ اسلامیہ میں کوئی اصل نہیں ہے۔

نمبر 2:

خاص طور پر محرم ہی کے مہینے میں قبرستان جانا اور قبروں کی زیارت کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے، یاد رہے کہ آخرت و موت کی یاد اور اموات کے لئے دعا کے لئے ہر وقت بغیر کسی تخصیص کے قبروں کی زیارت کرنا جائز ہے بشرطیکہ شرکیہ اور بدعتی امور سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

نمبر 3:

عاشوراء (10 محرم) کے روزے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’وصیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ‘‘

میں سمجھتا ہوں کہ عاشوراء کے روزے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گزشتہ سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

(صحیح مسلم: 2746، 196/1162)

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ

’’أفضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم‘‘

رمضان کے بعد سب سے بہترین روزے، اللہ کے (حرام کردہ) مہینے محرم کے روزے ہیں۔

(صحیح مسلم: 2755، 20/1163)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

’’خالفوا الیھود وصوم التاسع والعاشر‘‘

یہودیوں کی مخالفت کرو اور نو اور دس (محرم) کا روزہ رکھو۔

(مصنف عبدالرزاق 4/287ح 7839 وسندہ صحیح، والسنن الکبریٰ للبیہقی 4/287)

نمبر 4:

محرم حرمت کے مہینوں میں سے ہے۔ اس میں جنگ وقتال کرنا حرام ہے اِلا یہ کہ مسلمانوں پر کافر حملہ کر دیں۔ حملے کی صورت میں مسلمان اپنا پورا دفاع کریں گے۔

نمبر 5:

محرم 6ھ میں غزوہ خیبر ہوا تھا (23مئی 627ء)۔ دیکھئے تقدیم تاریخی ص 2

نمبر 6:

10 محرم 61ھ کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کربلاء میں مظلومانہ شہید کیا گیا۔ ان کی شہادت پر شور مچا کر رونا، گریبان پھاڑنا اور منہ وغیرہ پیٹنا یہ سب حرام کا م ہیں۔ اسی طرح ’’امام زادے‘‘ وغیرہ کہہ کر افسوس کی مختلف رسومات انجام دینا اور سبیلیں وغیرہ لگانا شریعت سے ثابت نہیں ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے مقالات للشیخ محدث العصر زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 2 صفحہ 564)

نیز دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو - شمارہ 21 صفحہ 7