ماہِ صفر کے بعض مسائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

شائع ہوا: ماہنامہ الحدیث شمارہ 11 صفحہ نمبر 22

۱: ایک صحیح حدیث میں آیاہے کہ:

’’ولا صفر‘‘

اور صفر ( کچھ) نہیں ہے۔ (صحیح بخاری:۵۷۰۷ وصحیح مسلم:۳۲۲۰)

اس حدیث کی تشریح میں محمد بن راشد المکحولی رحمہ اللہ (متوفی بعد ۲۶۰ھ) فرماتے ہیں:

’’سمعنا أن أھل الجاھلےۃ یستشئمون بصفر‘‘

ہم نے (اپنے استادوں سے) سنا ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ صفر کو منحوس سمجھتے تھے۔ (سنن ابی داود:۳۹۱۶ وسندہ حسن)

’’أيلما یتوھمون أن فیہ تکثر الدواھي والفتن‘‘

یعنی انہیں یہ وہم تھا کہ صفر میں مصیبتیں او ر فتنے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ (ارشاد الساری للقسطلانی ج۸ ص۳۷۴)

موجودہ دور میں بھی بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ صفر میں’’ ترہ تیزی‘‘ یعنی تیرہ تیزی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے برتن وغیرہ ٹوٹتے ہیں اور لوگوں کا نقصا ن ہوتاہے۔ حالانکہ یہ باطل عقیدہ بعینہ اہلِ جاہلیت کا عقیدہ ہے۔

۲: صفر کے آخر میں ’’چُوری‘‘کی رسم کا کوئی ثبوت کتاب و سنت میں نہیں ہے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کی کتاب’’تقویمِ تاریخی‘‘ سے صفر کے بارے میں چند معلومات درج ذیل ہیں:

27 صفر 1ھ ہجرت شروع

12 صفر 2ھ فرضیت جہاد

صفر 32ھ وفات عبد الرحمن بن عوف

صفر 35ھ وفات ابو طلحہ الالقاری

صفر 43ھ وفات محمد بن سلمہ

صفر 50ھ وفات صفیہ بن حي

صفر 52ھ وفات عمران بن حصین

صفر 56ھ وفات عبداللہ بن عمرو

صفر 66ھ وفات جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم اجمعین

صفر 157ھ وفات امام اوزاعی رحمہ اللہ


تحریر: مولانا ابو عبد الرحمٰن محمد ارشد کمال حفظہ اللہ

شائع ہوا: ماہنامہ الحدیث شمارہ 101 صفحہ نمبر 47

۱: بعض لوگ صفر کے مہینے کو بد شگونیوں والا مہینہ سمجھتے ہیں، اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، طرح طرح کی توہمات میں مبتلا رہتے ہیں اور کاروبار وغیرہ کی ابتدا کرنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ((وَ لاَ صَفَرَ)) اورصفر(کی کوئی نحوست یا بیماری)نہیں۔ (صحیح بخاری:۵۷۵۷)

نیز دیکھئے مولانا محترم محمد ارشد کمال حفظہ اللہ کی عظیم ومفید کتاب: اسلامی مہینے اور ان کا تعارف (ص۸۰۔۸۲)

۲: بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صفر میں ’’تیرہ تیزی‘‘ہوتی ہے اور سخت مصیبتوں، بلاؤں اور بیماریوں کا نزول ہوتا ہے۔

یہ سمجھنا سراسر غلط، جہالت اور توہم پرستی کا شاخسانہ ہے۔

۳: بعض لوگ خاص طور پر صفر کے مہینے میں مکڑی کے جالے صاف کرتے ہیں، حالانکہ اس خاص کام کی کوئی دلیل نہیں اور صفائی تو ہر مہینے اورہر دن رات میں بہتر ہے۔

۴: بعض لوگ صفر کے آخری بدھ میں چُوری پکاتے ہیں اور قصے کہانیاں بیان کرتے ہیں، حا لانکہ شریعت میں اس بات کی کوئی اصل موجود نہیں۔

۵: یاد رہے کہ ماہِ صفر کی خاص فضیلت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔

۶: صفر کے مہینے میں مدائن فتح ہوا، جنگِ صفین ہوئی۔

اور درج ذیل ائمہ محدثین فوت ہوئے:

امام اوزاعی، اما م یحیٰ بن سعید القطان، امام علی(بن موسیٰ) الرضا، امام طبرانی، امام ابن شاہین، امام نسائی،محدث حاکم نیشاپوری،سلطان صلاح الدین ایوبی وغیرہم رحمہم اللہ

تفصیل کے لئے دیکھئے اسلامی مہینے اور ان کا تعارف (ص۹۱۔۹۵)


تحریر: حبیب الرحمن ہزاروی

شائع ہوا: ماہنامہ الحدیث شمارہ 112 صفحہ نمبر 46 تا 47

ماہِ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ اس مہینے کو صفر اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں شہر خالی ہو جاتے اور لوگ لڑائیوں کے لئے نکل پڑتے۔

ماہِ صفر اور بد شگونی

بعض کمزور عقیدے کے لوگ اس مہینے سے بد شگونی لیتے ہیں۔ بدشگونی لینے کا مطلب ہے کہ کسی چیز کو خیر و برکت سے خالی سمجھنا، مثلاً کسی کام کی ابتداء نہ کرنا، کاروبار کا آغاز نہ کرنا، شادی بیاہ کرنے سے گریز کرنا، لڑکیوں کی رخصتی نہ کرنا۔ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جو اس مہینے میں شروع کیا جائے وہ منحوس اور خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔

بدشگونی لینے کی وجوہات

بدشگونی لینے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ ہوتا تھا کہ اس مہینے میں بلاؤں اوردیگر شر ورو فتن کا نزول ہوتا ہے اور اس کے بارے میں بعض موضوع احادیث کا سہارا لیتے ہیں۔ مثلاً دیکھئے موضوعات الکبریٰ (ح۸۸۶)

دوسری وجہ یہ ہے کہ دورِ جاہلیت میں ماہِ محرم میں جنگ و جدال کو حرام سمجھا جاتا تھا اور یہ حرمت قتال ماہِ صفر تک برقرار رہتی۔ لیکن جب صفر کا مہینہ آ جاتا تو جنگ و جدال دوبارہ شروع ہو جاتے، لہٰذا یہ مہینہ منحوس سمجھا جاتا ہے۔

ماہِ صفر سے بد شگونی لینے کی تردید

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لا عدوٰی ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفر

کوئی بیماری متعدی نہیں، نہ بد شگونی کوئی چیز ہے۔ اُلو کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی صفر میں نحوست ہے۔ (صحیح بخاری:۵۷۵۷)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((الطیرۃ شرک ، الطیرۃ شرک)) ثلاثًا ((و ما منا الا ولٰکن اللّٰہ یذھبہ بالتوکل))

بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے۔یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ اور ہم میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی وہم ہو ہی جاتا ہے مگر اللہ رب العزت اس کو توکل سے دور کر دیتا ہے۔ (سنن ابی داود:۳۹۱۰)