محدثین کے ابواب ’’پہلے اور بعد؟!‘‘

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

الیاس گھمن صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ اہلحدیث جو ہیں وہ منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم دیوبندی ناسخ روایات پر عمل کرتے ہیں۔

اور وہ ایک قاعدہ و قانون بتاتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین اپنی احادیث کی کتابوں میں پہلے منسوخ روایات کو یا اعمال کو لائے ہیں پھر اُنھوں نے ناسخ روایات کو جمع کیا ہے۔

کیا واقعی یہ بات درست ہے؟

اور وہ مثال دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ محدثین نے اپنی کتابوں میں پہلے رفع یدین کرنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر نہ کرنے کی روایات ذکر کی ہیں یعنی رفع الیدین منسوخ ہے اور رفع الیدین نہ کرنا ناسخ ہے، اسی طرح محدثین نے پہلے فاتحہ خلف الامام پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں پھر امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کی روایات ذکر کی ہیں، اہلِ حدیث منسوخ روایات پر عمل کرتے ہیں اور ہم ناسخ پر۔

کیا …… الیاس گھمن صاحب نے جو قاعدہ و قانون بیان کیا ہے وہ واقعی محدثینِ جمہور کا قاعدہ ہے اور دیوبندیوں کا اس قانون پر عمل ہے اور اہل حدیث اس قانون کے مخالف ہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔

الجواب:

گھمن صاحب کی مذکورہ بات کئی وجہ سے غلط ہے، تاہم سب سے پہلے تبویبِ محدثین کے سلسلے میں دس (10) حوالے پیشِ خدمت ہیں:

1) امام ابو داود نے باب باندھا:

’’بَابُ مَنْ لَمْ یَرَ الْجَہْرَ بِبِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ‘‘

(سنن ابی داود ص 122، قبل ح 782)

اس کے بعد امام ابو داود نے دوسرا باب باندھا:

’’بَابُ مَنْ جَہَرَ بِہَا‘‘

(سنن ابی داود ص 122، قبل ح 786)

یعنی امام ابو داود نے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم عدمِ جہر (سراً فی الصلوٰۃ) والا باب لکھا اور بعد میں بسم اللہ بالجہر والا باب باندھا تو کیا گھمن صاحب اور اُن کے ساتھی اس بات کے لئے تیار ہیں کہ سراً بسم اللہ کو منسوخ اور جہراً بسم اللہ کو ناسخ قرار دیں؟ اور اگر نہیں تو پھر اُن کا اُصول کہاں گیا؟!

تنبیہ: امام ترمذی نے بھی ترکِ جہر کا پہلے اور جہر کا باب بعد میں باندھا ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی (ص 67۔68 قبل ح 244، 245)

2) امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب باندھا:

’’بَابُ مَا جَاءَ فِی الوِتْرِ بِثَلَاثٍ‘‘

(سنن الترمذی ص 122، قبل ح 459)

پھر بعد میں باب باندھا:

’’بَابُ مَا جَاء َ فِی الوِتْرِ بِرَکْعَۃٍ‘‘

(سنن الترمذی قبل ح 461)

کیا گھمن صاحب اپنے خود ساختہ قاعدے و قانون کی رُو سے تین وتر کو منسوخ اور ایک وتر کو ناسخ سمجھ کر ایک وتر پڑھنے کے قائل و فاعل ہو جائیں گے؟!

3) امام ابن ماجہ نے پہلے کعبہ کی طرف پیشاب کرنے کی ممانعت والا باب باندھا:

’’بَابُ النَّہْیِ عَنِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَۃِ بِالْغَائِطِ وَالْبَوْلِ‘‘

(سنن ابن ماجہ ص 48 قبل ح 317)

اور بعد میں باب باندھا:

’’بَابُ الرُّخْصَۃِ فِی ذَلِکَ فِی الْکَنِیفِ، وَإِبَاحَتِہِ دُونَ الصَّحَارِي‘‘

یعنی صحراء کے بجائے بیت الخلاء میں قبلۂ رخ ہو نے کے جواز کا باب۔

(سنن ابن ماجہ ص 49 قبل ح 322)

کیا گھمن صاحب! قبلہ رخ پیشاب کرنے کی ممانعت کو اپنے اصول کی وجہ سے منسوخ سمجھتے ہیں؟!

4) امام نسائی نے رکوع میں ذکر (یعنی تسبیحات) کے کئی باب باندھے۔ مثلاً:

’’بَابُ الذِّکْرِ فِی الرُّکُوعِ‘‘

(سنن النسائی ص 144، قبل ح 1047)

اور بعد میں باب باندھا:

’’بَابُ الرُّخْصَۃِ فِيْ تَرْکِ الذِّکْرِ فِی الرُّکُوعِ‘‘

(سنن النسائی ص 145، قبل ح 1054)

کیا گھمنی قاعدے کی رُو سے رکوع کی تسبیحات پڑھنا بھی منسوخ ہے؟!

5) امام ابن ابی شیبہ نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا باب درج ذیل الفاظ میں لکھا:

’’وَضْعُ الْیَمِینِ عَلَی الشِّمَالِ‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 390 قبل ح 3933)

اور بعد میں نماز میں ہاتھ چھوڑنے کا باب باندھا:

’’مَنْ کَانَ یُرْسِلُ یَدَیْہِ فِی الصَّلَاۃِ‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص 391 قبل ح 3949)

ان دونوں بابوں میں سے کون سا باب گھمن صاحب کے نزدیک منسوخ ہے؟

پہلا یا بعد والا؟

کیا خیال ہے، اب دیوبندی حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھا کریں گے یا پھر الیاس گھمن صاحب کے اصول کو ہی دریا میں پھینک دیں گے؟!

6) امام نسائی نے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے منع والا باب باندھا:

’’النَّہْيُ عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ‘‘

(سنن النسائی ص 78 قبل ح 567)

اور بعد میں عصر کے بعد نماز (نوافل) کی اجازت، کا باب باندھا:

’’الرُّخْصَۃُ فِی الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْعَصْرِ‘‘

(سنن النسائی ص 79 قبل ح 574)

کیا گھمن صاحب کے اصول سے نمازِ عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے ممانعت والی حدیث منسوخ ہے؟!

7) امام ابو داود نے تین تین دفعہ اعضائے وضوء دھونے کا باب باندھا:

’’بَابُ الْوُضُوْءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا‘‘

(سنن ابی داود ص 29 قبل ح 135)

اور بعد میں ایک دفعہ اعضائے وضوء دھونے کا باب باندھا:

’’بَابُ الْوُضُوءِ مَرَّۃً مَرَّۃً‘‘

(سنن ابی داود ص 30 قبل ح 138)

کیا وضوء کرتے وقت تین تین دفعہ اعضائے وضوء دھونا منسوخ ہے؟ اگر نہیں تو پھر گھمن صاحب کا قاعدہ کہاں گیا؟!

8) امام نسائی نے سجدوں کی دعا (تسبیحات) کے کئی باب باندھے۔ مثلاً:

’’عَدَدُ التَّسْبِیحِ فِی السُّجُودِ‘‘

(سنن النسائی ص 157، قبل ح 1136)

اور بعد میں باب باندھا:

’’بَابُ الرُّخْصَۃِ فِی تَرْکِ الذِّکْرِ فِی السُّجُودِ‘‘

یعنی سجدوں میں ترکِ ذکر (ترکِ تسبیحات) کی رخصت (اجازت) کا باب۔

(سنن النسائی ص 157، قبل ح 137)

کیا گھمنی قاعدے و قانون کی رُو سے سجدوں کی تسبیحات بھی منسوخ ہیں؟!

9) امام ابن ابی شیبہ نے ایک باب باندھ کر وہ روایات پیش کیں، جن سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ گاؤں میں جمعہ نہیں پڑھنا چاہئے۔

’’مَنْ قَالَ: لَا جُمُعَۃَ، وَلَا تَشْرِیقَ إِلَّا فِيْ مِصْرٍ جَامِعٍ‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ: 2/ 101، قبل ح 5059)

اور انھوں نے بعد میں دوسرا باب باندھ کر وہ صحیح روایات پیش کیں، جن سے گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔

’’مَنْ کَانَ یَرَی الْجُمُعَۃَ فِی الْقُرَی وَغَیْرِہَا‘‘

جو شخص گاؤں وغیرہ میں جمعہ کا قائل ہے

(مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 101۔102 قبل ح 5068)

کیا گھمن صاحب اور اُن کے ساتھی اپنے نرالے قاعدے کی ’’لاج‘‘ رکھتے ہوئے گاؤں میں نمازِ جمعہ کی مخالف تمام روایات کو منسوخ سمجھتے ہیں؟! اگرنہیں تو کیوں اور اُن کا قاعدہ کہاں گیا؟

10) امام ابن ابی شیبہ نے نمازِ جنازہ میں چار تکبیروں کا باب باندھا:

’’مَا قَالُوا فِی التَّکْبِیرِ عَلَی الْجِنَازَۃِ مَنْ کَبَّرَ أَرْبَعًا‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ 3/ 299 قبل ح 11416)

اور اس کے فوراً بعد پانچ تکبیروں کا باب باندھا:

’’مَنْ کَانَ یُکَبِّرُ عَلَی الْجِنَازَۃِ خَمْسًا‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ 3/ 302 قبل ح 11447)

کیا گھمن صاحب کی پارٹی میں کسی ایک آدمی میں بھی یہ جرأت ہے کہ وہ اپنے اس گھمنی قاعدے، قانون اور اصول کی لاج رکھتے ہوئے جنازے کی چار تکبیروں کو منسوخ اور پانچ کو ناسخ کہہ دے؟!

اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔

مثلاً امام نسائی نے ایک باب میں: سجدہ کرنے سے پہلے گھٹنے زمین پر لگانے والی (ضعیف) حدیث لکھی اور پھر اس کے فوراً بعد دو حدیثیں لکھیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے دونوں ہاتھ لگائے جائیں۔ دیکھئے سنن النسائی (ص150۔151، قبل ح 1090، 1091، 1092)

امام ابو داود نے آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کے ترک کا باب پہلے باندھا ہے اور پھر دوسرے باب میں آگ پر پکا ہوا کھانا کھانے سے وضوء ٹوٹنے کی حدیثیں لائے ہیں۔ (دیکھئے سنن ابی داود ح 187۔193، اور ح 194۔195)

معلوم ہوا کہ گھمن صاحب کا مزعومہ قاعدہ، قانون اور اصول باطل ہے، جس کی تردید کے لئے ہمارے مذکورہ حوالے ہی کافی ہیں اور دیوبندی حضرات میں سے کوئی بھی اس اصول کو من و عن تسلیم کر کے دوسرے ابواب والی مذکورہ روایات کو منسوخ نہیں سمجھتا، لہٰذا اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت کے خلاف یہ خود ساختہ قاعدہ و اصول پیش کر کے پروپیگنڈا کرنا غلط اور مردود ہے۔

بطورِ لطیفہ اور بطورِ عبرت و نصیحت عرض ہے کہ نیموی حنفی صاحب نے مسجد میں دوسری نماز باجماعت کے مکروہ ہونے کا باب باندھا:

’’بَابُ مَا اسْتُدِلَّ بِہِ عَلَی کَرَاھَۃِ تَکْرَارِ الْجَمَاعَۃِ فِيْ مَسْجِدٍ‘‘

(آثار السنن قبل ح 526)

اور اس کے فوراً بعد دوسری جماعت کرانے کے جواز کا باب باندھا:

’’بَابُ مَاجَاءَ فِيْ جَوَازِ تَکْرَارِ الْجَمَاعَۃِ فِيْ مَسْجِدٍ‘‘

(آثار السنن قبل ح 527)

کیا یہاں بھی گھمن صاحب اور آلِ گھمن جماعتِ ثانیہ کی تکرار کے بارے میں دعوئ کراہت منسوخ اور جواز کو ناسخ سمجھ کر جائز ہونے کا فتوی دیں گے۔؟!

ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ایک اصول و قاعدہ خود بنا کر پھر خود ہی اُسے توڑ دیا جائے، پاش پاش کر دیا جائے بلکہ ھَبآءً مَنْثُوْرًا بنا کر ہوا میں اُڑا دیا جائے۔ اس طرح سے تو بڑی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔

کیا آلِ دیوبند میں کوئی بھی ایسا نہیں جو گھمن صاحب کو سمجھائے کہ اپنی اوقات سے پاؤں باہر نہ پھیلائیں اور اپنے خود ساختہ اصولوں کی بذاتِ خودتو مخالفت نہ کریں۔!؟

ثابت ہوا کہ اہلِ حدیث (یعنی اہلِ سنت) منسوخ روایات پر عمل نہیں کرتے، لہٰذا گھمن صاحب نے اپنی مذکورہ تقریر میں خطیبانہ جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہلِ حدیث کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے، جسے دوسرے الفاظ میں دروغ گوئی کہا جاتا ہے اور ایسا کرنا شریعتِ اسلامیہ میں ممنوع ہے۔

منسوخ روایات پر دیوبندی علماء و عوام کے عمل کی دو مثالیں درج ذیل ہیں:

1: صبح کی نماز روشنی میں پڑھنا بھی ثابت ہے اور اندھیرے میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ’’مَا صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ الصَّلَاۃَ لِوَقْتِہَا الْآخِرِ حَتَّی قَبَضَہُ اللہُ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے وفات تک آخری وقت میں کبھی نماز نہیں پڑھی۔ (المستدرک للحاکم 1/ 190 ح 682 وسندہ حسن، وصححہ الحاکم علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ صبح کی نماز روشنی میں پڑھنا منسوخ ہے۔ نیز دیکھئے الناسخ والمنسوخ للحازمی (ص 77) اور میری کتاب ہدیۃ المسلمین (حدیث نمبر 8 ص 29۔31 جدید ایڈیشن)

عام دیوبندیوں کا عمل یہ ہے کہ وہ رمضان کے علاوہ باقی مہینوں میں نمازِ فجر خوب روشنی کر کے یعنی منسوخ وقت میں پڑھتے ہیں۔

2: ایک روایت میں ’’وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا‘‘ یعنی جب امام قراءت کرے تو تم خاموش ہو جاؤ، کے الفاظ آئے ہیں۔ دیکھئے صحیح مسلم (404، ترقیم دارالسلام: 905)

چونکہ اس حدیث کے ایک راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تھے۔ (صحیح مسلم: 404، دارالسلام: 905)

اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فاتحہ خلف الامام کا حکم ثابت ہے۔ دیکھئے جزء القراءۃ للبخاری (153، وسندہ صحیح) آثار السنن (358 وقال: و اسنادہ حسن) اور میری کتاب: علمی مقالات (ج 2 ص 263)

حنفیوں کا مشہور اُصول ہے کہ اگر راوی اپنی روایت کے خلاف فتویٰ دے تو وہ روایت منسوخ ہوتی ہے، لہٰذا اس فتوے کی رُو سے ’’وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوْا‘‘ والی روایت منسوخ ہے، لیکن دیوبندی حضرات فاتحہ خلف الامام کے مسئلے پر اپنی کتابوں اور مناظروں میں اس منسوخ حدیث کو بطورِ حجت پیش کرتے ہیں۔

اپنے ہی اصول خود توڑ کر پاش پاش کر دینا مذہبی خود کُشی کی بدترین مثال ہے۔

٭ فاتحہ خلف الامام کا منسوخ ہونا تو بہت دُور کی بات ہے، کسی ایک بھی صحیح حدیث میں صراحت کے ساتھ فاتحہ خلف الامام کی مخالفت ثابت نہیں۔ دیوبندیوں کے پیارے عبدالحئ لکھنوی صاحب نے علانیہ لکھا ہے:

’’انہ لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النھي عن قراءۃ الفاتحۃ خلف الإمام و کل ما ذکروہ مرفوعًا فیہ اما لا اصل لہ و اما لا یصح ……‘‘

کسی مرفوع صحیح حدیث میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت نہیں آئی، لوگوں نے اس بارے میں جو مرفوع روایتیں ذکر کی ہیں اُن کی یا تو کوئی اصل نہیں یا وہ صحیح نہیں ہیں۔

(التعلیق الممجد ص 101، حاشیہ نمبر 1)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابۂ کرام فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے۔ دیکھئے میری کتاب الکواکب الدریہ (ص 24۔27)

کیا یہ جلیل القدر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین منسوخ پر عمل پیرا تھے؟

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا:

اور یقینا علماء کا اجماع ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ) پڑھتا ہے، اس کی نماز مکمل ہے، اس پر کوئی اعادہ نہیں ہے۔

(الاستذکار 2/ 193، الکواکب الدریہ ص 31، نیز دیکھئے میری کتاب: نصر الباری فی تحقیق جزء القراءۃ للبخاری)

٭ نماز میں رفع یدین قبل الرکوع و بعدہ کو منسوخ کہنا کئی وجہ سے باطل ہے، جس کی تفصیل میری کتاب نور العینین فی اثبات رفع الیدینمیں دیکھی جا سکتی ہے، فی الحال گھمن صاحب کے دعوئ منسوخیت کے ابطال کے لئے دس دلیلیں اور حوالے پیشِ خدمت ہیں:

1: رفع یدین کا متروک یا منسوخ ہونا نبی کریم ﷺ سے، آپ کی ساری زندگی میں کسی ایک نماز کی کسی ایک رکعت میں بھی باسند صحیح و مقبول ثابت نہیں ہے۔

تنبیہ: اس سلسلے میں امام سفیان ثوری (مدلس) کی عاصم بن کلیب سے روایت اُن کے ’’عن‘‘ یعنی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے نور العینین اور الحدیث حضرو: ص 67

2: رفع یدین کا منسوخ یا متروک ہونا کسی ایک صحابی سے بھی با سند صحیح و مقبول ثابت نہیں ہے۔

تنبیہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تینوں صحابیوں میں سے کسی ایک سے بھی ترکِ رفع یدین ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے میری کتاب: نور العینین فی اثبات رفع الیدین

اب آلِ دیوبند کے پسندیدہ علماء کے حوالے پیشِ خدمت ہیں:

3: عبدالحئ لکھنوی نے دعوئ منسوخیت کو بے دلیل قرار دیا ہے۔ (دیکھئے التعلیق الممجد ص 91)

4: انور شاہ کشمیری دیوبندی نے کہا:

’’ولیعلم أن الرفع متواتر إسنادًا وعملاً لا یشک فیہ ولم ینسخ ولا حرف منہ‘‘

اور جان لینا چاہئے کہ رفع یدین بلحاظِ سند و بلحاظِ عمل متواتر ہے، اس میں کوئی شک نہیں، یہ منسوخ نہیں ہوا اور اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوا۔

(نیل الفرقدین ص 22)

یاد رہے کہ یہ قول بطورِ الزامی دلیل پیش کیا گیا ہے، ترکِ رفع یدین کے سلسلے میں انور شاہ صاحب وغیرہ کے نظریات سے ہم پر رد کرنا غلط ہے۔

5: ابو الحسن سندھی حنفی نے رفع یدین کے منسوخ ہونے کا انکار کیا ہے۔ دیکھئے شرح سنن ابن ماجہ (ج 1 ص 282 تحت ح 858)

6: بدر عالم میرٹھی نے بھی یہی کہا کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہے۔ (البدر الساری 2/ 255)

7: شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب نے رفع یدین کے بارے میں فرمایا:’’اور جو شخص رفع یدین کرتا ہے میرے نزدیک اس شخص سے جو رفع یدین نہیں کرتا اچھا ہے……‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ اردو ج 1 ص 361، عربی ج 2 ص 10)

معلوم ہوا کہ شاہ ولی اللہ صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔

سرفراز خان صفدر صاحب نے ایک بریلوی کو مخاطب کر کے لکھا ہے:

’مفتی صاحب کیا آپ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کو مسلمان اور عالم دین اور اپنا بزرگ تسلیم کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو حضرت شاہ صاحبؒ کی بات تسلیم کرنا پڑے گی اور اگر آپ اُن کی بات تسلیم نہیں کرتے تو آپ کو ان کی عبارت کا صحیح محمل بیان کرنا ضروری ہے کیونکہ جیسے وہ ہمارے بزرگ ہیں ویسے ہی وہ آپ کے بھی بزرگ ہیں۔۔۔‘‘

(بابِ جنت بجواب راہِ جنت ص 49)

عرض ہے کہ دیوبندی حضرات اپنے تسلیم کردہ بزرگ کی بات تو مان لیں۔!

8: صوفی عبدالحمید سواتی صاحب نے کہا: ’’رکوع جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا زیادہ بہتر اور کر لے تو جائز ہے۔‘‘ (نمازمسنون ص 349)

معلوم ہوا صوفی عبدالحمید صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے۔

رہا اُن کا ترکِ رفع یدین کو زیادہ بہتر کہنا تو یہ اُن کی دیوبندیت ہے اور اس پر کوئی صحیح دلیل وارد نہیں ہے، لہٰذا زیادہ بہتر والی بات مردود ہے۔

9: اشرفعلی تھانوی صاحب سے پوچھا گیا: ’’رفع الیدین فی الصلوٰۃ جائز ہے یا نہیں۔؟‘‘

تو انھوں نے جواب دیا: ’’جائز ہے جیسا کہ عدم رفع بھی جائز ہے…‘‘ (امداد الفتاویٰ ج1ص 148، سوال نمبر 208)

معلوم ہوا کہ تھانوی صاحب رفع یدین کو منسوخ نہیں سمجھتے تھے، ورنہ کبھی جواز کا فتویٰ نہ دیتے۔

10: رفع یدین اور ترک رفع یدین کے بارے میں محمد منظور نعمانی دیوبندی نے کہا: ’’دونوں طریقوں کے جائز اور ثابت ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ (معارف الحدیث ج 3 ص 265)

عرض ہے کہ ترک تو ثابت نہیں، لہٰذا جائز کس طرح ہوا؟ تاہم اس عبارت سے ظاہر ہے کہ نعمانی صاحب کے نزدیک رفع یدین منسوخ نہیں ہے۔

احادیثِ صحیحہ، آثارِ صحابہ اور اپنے تسلیم کردہ اکابر کے مذکورہ حوالوں کے مقابلے میں محمد الیاس گھمن صاحب کا رفع یدین کو منسوخ قرار دینا غلط و مردود بھی ہے اور دیوبندی اکابر کے خلاف بغاوت بھی ہے۔

اُمید ہے کہ آلِ دیوبند انھیں سمجھانے کی کوشش کریں گے۔ واللہ اعلم

تنبیہ: ابواب (پہلے یا بعد)کے سلسلے میں ہمارے شاگرد سلیم اختر صاحب حفظہ اللہ (کراچی) نے بھی آلِ دیوبند(کے عبدالغفار…) کا بہترین رد لکھا ہے۔

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 250 تا 259) تحقیقی و علمی مقالات (جلد 4 صفحہ 482 تا 488) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ