مونچھوں کے احکام و مسائل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


شمائل ترمذی حدیث نمبر 165:

مغیرہ بن شعبہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میں بھی مہمان تھا، آپ کے پاس بھنے ہوئے پہلو کا گوشت لایا گیا، آپ نے چھری لے کر اسے کاٹنا شروع کیا اور میرے لئے بھی ایک ٹکڑا اس میں سے کاٹا، پھر بلال (رضی اللہ عنہ) آئے تاکہ آپ کو نماز کی اطلاع دیں تو آپ ﷺ نے چھری رکھ دی اور فرمایا: اسے کیا ہوا ہے؟ اس کے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ اور اس (مغیرہ رضی اللہ عنہ) کی مونچھیں لمبی تھیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں مسواک رکھ کر تراش دوں؟ یا فرمایا: انھیں مسواک پر رکھ کر تراش لو۔

تحقیق و تخریج: سندہ صحیح

سنن ابی داود (188) مسند احمد (4/ 252، 255)

شرح و فوائد:

لمبی لمبی مونچھیں نہیں رکھنی چاہئیں، بلکہ چالیس دنوں میں ان کا کچھ حصہ کاٹنا ضروری ہے۔

اسحاق بن عیسیٰ الطباع (ثقہ راوی) سے روایت ہے کہ میں نے (امام) مالک بن انس (رحمہ اللہ) کو دیکھا، ان کی مونچھیں بھر پور اور زیادہ تھیں، ان کی دونوں مونچھوں کے باریک سرے تھے، پھر میں نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: مجھے زید بن اسلم نے عامر بن عبد اللہ بن زبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد اللہ بن زبیر (رضی اللہ عنہ) سے کہ کوئی اہم معاملہ ہوتا تو عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے اور منہ سے پھونکیں مارتے تھے، پس انھوں نے مجھے حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔ (کتاب العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد 2/ 1589، وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ 1/ 261 ح 1507، نیز دیکھئے طبقات ابن سعد 3/ 326 وسندہ صحیح)

ابو سلمہ (تابعی رحمہ اللہ) سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، وہ اپنی مونچھیں کترواتے تھے حتی کہ ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑتے تھے۔ (الاثرم بحوالہ تغلیق التعلیق 72/5 وسندہ حسن، و علقہ البخاری فی صحیح قبل ح 5888)

امام سفیان بن عیینہ المکی رحمہ اللہ مونچھوں کو اُسترے سے مونڈتے تھے۔ (التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمہ ص 378۔ 379 ح 387 وسندہ صحیح)

جبکہ اس کے سراسر برعکس امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یؤخذ من الشارب حتی یبدو طرف الشفۃ وھو الإطار ولا یجزّہ فیمثّل بنفسہ‘‘ مونچھوں میں سے کچھ کاٹنا چاہئے تاکہ ہونٹ کا کنارہ ظاہر ہو جائے اور یہ وہ کنارہ ہے جو منہ کی طرف سے ہونٹوں کو گھیرے ہوتا ہے اور انھیں پورا کاٹ نہ دے (یعنی استرے سے نہ مونڈوائے) ورنہ پھر وہ اپنا مثلہ کرنے والا بن جائے گا۔ (موطأ امام مالک 922/2 ح 1775)

یہ مسئلہ اجتہادی ہے اور راجح یہی ہے کہ مونچھیں استرے سے نہ مونڈوائے بلکہ قینچی وغیرہ سے کاٹے، حتی کہ چمڑا نظر آنے لگے اور اگر ہونٹوں کے اوپر سے کاٹ کر باقی مونچھیں بڑھا لے تو بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم

اصل تحریر کے لئے دیکھیں: شمائل ترمذی حدیث نمبر 165

تحقیقی مقالات جلد 6 صفحہ 68:

آپ ﷺ مونچھیں کاٹ کر انتہائی پست کر دیتے تھے۔

[فقرہ نمبر 15] عبید بن جریج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے (سیدنا) عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ آپ مونچھیں کاٹ کر (بالکل) صاف کر دیتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’رأیت النبي ﷺ یحفی شاربہ‘‘ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا ہے، آپ مونچھیں کاٹ (کر صاف کر) دیتے تھے۔ (طبقات ابن سعد 1/ 449 وسندہ صحیح)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ہونٹوں سے اوپر، مونچھیں کاٹنے کے بعد جلد کی سفیدی نظر آتی تھی۔ (صحیح بخاری تعلیقاً قبل ح 5888، ولہ شاھد حسن فی تغلیق التعلیق 5/ 72)

رسول اللہ ﷺ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی لمبی مونچھوں کو اُن کے نیچے مسواک رکھ کر کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ (دیکھئے سنن ابی داود: 188، وسندہ صحیح، شمائل ترمذی بتحقیقی: 165)

اس سے معلوم ہو اکہ مونچھیں انتہائی پست نہ کرنا بھی جائز ہے، نیز سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ اپنی مونچھوں کو (بعض اوقات) تاؤ بھی دیتے تھے۔ (دیکھئے شمائل ترمذی بتحقیقی ص 195۔ 196 تحت ح 165)

تفصیل کے لئے دیکھیں: تحقیقی مقالات جلد 6 صفحہ 68