نبی کریم ﷺ کا اپنے اُمتیوں سے پیار

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص کا نام زاہر تھا اور وہ دیہات سے نبی ﷺ کے لئے تحفہ لاتا تھا، جب وہ واپس جانے کا ارادہ کرتا تو نبی ﷺ بھی اسے تحفے تحائف دیتے تھے۔

نبی ﷺ نے فرمایا: زاہر ہمارا بادیہ (دیہاتی) ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔

رسول اللہ ﷺ اس سے محبت کرتے تھے، حالانکہ وہ شخص خوبصورت نہیں تھا۔

ایک دن وہ اپنا سامان بیچ رہا تھا کہ نبی ﷺ تشریف لائے تو اس کے پیچھے سے اس کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔

وہ آپ کو دیکھ نہیں رہا تھا، لہٰذا کہنے لگا: یہ کون ہے؟ مجھے چھوڑ دے۔

پھر جب اس نے چہرہ پھیرا تو نبی ﷺ کو پہچان لیا اوراپنی پشت نبی ﷺ کے سینے سے ملانے لگا۔

نبی ﷺ فرمانے لگے: اس بندے کو کون خریدتا ہے؟

تو اس آدمی نے کہا: یارسول اللہ! آپ مجھے بہت کم قیمت پائیں گے۔

تو نبی ﷺ نے فرمایا: لیکن تو اللہ کے نزدیک کم قیمت نہیں، یا فرمایا: تُو اللہ کے نزدیک بہت قیمتی ہے۔

تحقیق و تخریج: سندہ صحیح

شمائل ترمذی (238) صحیح ابن حبان (2276) نیز دیکھئے اضواء المصابیح (4889)

شرح و فوائد:

1- بعض محدثین نے اس روایت کو معلول قرار دیا، لیکن ان کی بیان کردہ علت علتِ قادحہ نہیں، لہٰذا یہ سند صحیح ہے۔

2- اپنے پیارے دوست کے ساتھ پیار و محبت والا مزاح جائز ہے بشرطیکہ وہ ناراض نہ ہو، مثلاً پیچھے سے آکر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دینا کہ وہ پہچانتا ہے یا نہیں؟ وغیرہ۔

3- ایک دوسرے کو تحفے تحائف دینا مسنون ہے۔

4- نیکی کا بدلہ نیکی سے دینا چاہئے۔

اللہ رب العزت کے ہاں شکل و صورت کی بجائے تقویٰ و اخلاص کی قیمت ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 109 صفحہ نمبر 49)

نیز دیکھئے شمائل ترمذی بتحقیق حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (ح 238 ص 255 تا 257)