محمد رسول اللہ ﷺ کا سایہ مبارک

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


صحیح سند سے ثابت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: پھر ایک دن دوپہر کے وقت، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ آ رہا ہے۔ (مسند احمد ۶/ ۱۳۲ ح ۲۵۰۰۲ وسندہ صحیح)

تنبیہ:یہ دعویٰ کہ ’’نبی ﷺ کا سایہ نہیں تھا‘‘ درج ذیل دلائل میں سے کسی ایک دلیل سے بھی ثابت نہیں ہے:

  1. قرآن مجید

  2. صحیح و حسن لذاتہ حدیث

  3. اجماع

  4. اجتہاد مثلاً آثارِ صحابہ، آثارِ تابعین، آثارِ تبع تابعین، آثارِ ائمہ اربعہ اور آثارِ خیر القرون وغیرہ۔

ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یہ قول ثابت نہیں اور خیر القرون کے صدیوں بعد سیوطی، قسطلانی، زرقانی اور ملا علی قاری وغیرہم کے بے سند حوالہ جات کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے۔

آپ ﷺ کا سایہ نہ ہونے کے بارے میں قسطلانی، زرقانی، ابن سبع (؟) اور مناوی وغیرہم کی تمام روایات بے سند ہیں اور حکیم ترمذی کی طرف منسوب جس روایت کو سیوطی نے الخصائص الکبریٰ (۱/ ۶۸) میں ذکر کیا ہے، اس کی سند میں عبد الرحمن بن قیس الزعفرانی راوی ہے۔ (الخصائص الکبریٰ ۱/ ۷۱)

عبد الرحمن بن قیس کے بارے میں امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’کان کذابًا‘‘ وہ کذاب (بہت جھوٹا) تھا۔ ( کتاب الجرح و التعدیل ۵/ ۲۷۸)

اس کا دوسرا راوی عبد الملک بن عبد اللہ بن الولید نامعلوم ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ روایت موضوع ہے۔

تفصیل کے لئے دیکھئے محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق میں ’’شمائل ترمذی‘‘ حدیث 10 صفحہ 55 ’’شرح و فوائد‘‘۔

اس بارے میں ماہنامہ الحدیث شمارہ 40 صفحہ 10 پر توضیح الاحکام کا ایک سوال بھی شائع ہوا ہے:

کیاکسی حد یث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ تھا؟

الجواب

جی ہاں! رسول اللہ ﷺ کے سایہ کا ثبوت کئی احادیثِ صحیحہ میں ہے اور اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔

طبقات ابن سعد (126/8،127، واللفظ لہ) اور مسند احمد (6/131، 132، 261) میں امام مسلم کی شرط پر شمیسہ رحمہا اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’فبینما أنا یومًافي منصف النھا ر، إذا أنا بظل رسو ل اللہ ﷺ مقبلاً‘‘ دوپہر کا وقت تھاکہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ آرہا ہے۔

شمیسہ کو امام ابن معین نے ثقہ کہاہے۔ (تاریخ عثمان بن سعید الدارمی:418)

اور ان سے شعبہ نے بھی روایت کی ہے اور شعبہ (حتی الامکان) اپنے نزدیک عام طور پر صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔

’’ کما ھوالأغلب ‘‘ [دیکھئے :تہذیب التہذیب 1 / 4،5]

لہٰذا یہ سند صحیح ہے۔

اسی طرح کی ایک طویل روایت سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔ جس کا ایک حصہ کچھ یوں ہے: ’’فلما کان شھر ربیع الأول ، دخل علیھا ، فرأت ظلہ ۔۔۔۔ ‘‘ إلخ جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو آپ (ﷺ) اُن کے پاس تشریف لائے، انھوں نے آپ کا سایہ دیکھا ۔۔۔ الخ [مسند احمد338/6]

اس کی سند صحیح ہے اور جو اسے ضعیف کہتا ہے وہ خطا پر ہے کیونکہ شمیسہ کا ثقہ ہونا ثابت ہو چکا ہے۔

صحیح ابن خزیمہ (51/2ح 892) میں بھی صحیح سند کے ساتھ سیدناانس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حتی رأیت ظلي وظلکم……‘‘ إلخ یہاں تک کہ میں نے اپنا اورتمھارا سایہ دیکھا……الخ

اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہاہے۔ [المستدرک للحاکم 456/4]

کسی صحیح یا حسن روایت سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ نبی ﷺ کاسایہ نہیں تھا۔ علامہ سیوطی نے خصائص کبریٰ میں جو روایت نقل کی ہے وہ اصول حد یث کی رُو سے باطل ہے۔

آئینہ دیوبندیت صفحہ 515:

عاشق الٰہی میرٹھی اور زکریا دیوبندی وغیرہ کا عقیدہ یہ تھا کہ نبی ﷺ کا سایہ نہیں تھا۔ (امداد السلوک ص 201، فضائل درود ص 115)

لیکن دوسری طرف نور محمد تونسوی دیوبندی نے عدم سایہ کی روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’بعض روایتوں سے حضور اکرم ﷺ کے سایہ کا ثبوت ملتا ہے‘‘ (حقیقی نظریات صحابہ ص 217)

اس کے بعد تونسوی صاحب نے تین احادیث نبی ﷺ کے سایہ کے متعلق نقل کی ہیں۔ دیکھئے حقیقی نظریات صحابہؓ (ص 217 تا 219)

سرفراز صفدر نے بھی سایہ کے متعلق دو احادیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔ (دیکھئے تنقید متین ص 95)