نماز باجماعت کا حکم

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

(( ما من ثلاثۃ في قریۃ و لا بدوٍ لا تقام فیھم الصلٰوۃ إلا قداستحوذ علیھم الشیطان فعلیک بالجماعۃ فإنما یأکل الذئب القاصیۃ ))

جس گاؤں یا بستی میں تین آدمی ہوں اور اُن میں جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے تو اُن پر شیطان کا تسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ دُور رہ جانے والی اکیلی بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے۔

اسے امام ابو داود (۵۴۷) وغیرہ نے بیان کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔

امام ابن خزیمہ (۱۴۸۶) حافظ ابن حبان (الاحسان: ۲۰۹۸، دوسرا نسخہ: ۲۱۰۱، موارد الظمآن: ۴۲۵) حاکم (۱/ ۲۴۶) اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھئے اضواء المصابیح (۱۰۶۷)

اس حدیث کے راوی سائب بن حبیش رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جماعت سے مراد باجماعت نماز ہے۔‘‘ دیکھئے سنن ابی داود (۵۷۴) اور صحیح ابن حبان (الاحسان۵/ ۴۵۹)

اس صحیح حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلاً:

  1. گاؤں ہو یا جنگل، ہر جگہ باجماعت نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔

  2. عذر کے بغیر باجماعت نماز نہ پڑھنا غلط اور قابلِ مذمت ہے۔

  3. شیطان ہر وقت کوشاں ہے کہ اہلِ ایمان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا دے۔

  4. مسئلہ سمجھانے کے لئے مثالیں بیان کرنا جائز اور صحیح ہے، بشرطیکہ کسی شرعی حکم کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔

  5. روایتِ مذکورہ سے موجودہ کاغذی جماعتوں اور تنظیموں کا جواز ثابت کرنا، راویِ حدیث کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

  6. عام کی تخصیص جائز ہے۔

  7. اجماع شرعی حجت ہے۔

  8. اگر شرعی عذر اور ضرورت ہو تو جنگل میں رہنا جائز ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے اضواء المصابیح: ۱۸۴ تفقہ