نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث صحیح ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (متوفی 597ھ) نے فرمایا:

’’أخبرنا ابن الحصین قال: أنبأنا ابن المذہب قال: أنبأنا أحمد بن جعفر قال: حدثنا عبد اللہ بن أحمد قال: حدثني أبي قال: حدثنا یحیی بن سعید قال: حدثنا سفیان قال: حدثني سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن أبیہ قال: رأیت رسول اللہ ﷺ یضع ھذہ علٰی ھذہ علٰی صدرہ۔ ووصف یحیی الیمنٰی علی الیسری فوق المفصل۔‘‘

ہُلب (الطائی رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ یہ (دایاں ہاتھ) اس (بائیں ہاتھ) پر سینے پر رکھتے تھے۔

اور یحییٰ (القطان) نے دائیں (ہاتھ) کو بائیں (ہاتھ) پر جوڑ پر رکھ کر بتایا یا دکھایا۔

(التحقیق فی اختلاف الحدیث 1/ 283 ح 477، دوسرا نسخہ 1/ 338 ح 434)

اس حدیث میں ھذہ علٰی ھذہ یعنی د ودفعہ ھذہ آیا ہے جو کہ مسند احمد کے مطبوعہ نسخوں میں دو دفعہ چھپنے سے رہ گیا ہے، لیکن حافظ ابن الجوزی کی امام احمد تک سند بالکل صحیح ہے جیسا کہ راویوں کی درج ذیل تحقیق سے صاف ظاہر ہے:

1: ہبۃ اللہ بن محمد بن عبد الواحد بن احمد بن الحصین الشیبانی ثقہ صحیح السماع ہیں۔ (دیکھئے المنتظم لابن الجوزی 17/ 268، اور میری کتاب: تحقیقی مقالات 1/ 397۔398)

2: ابن المذہب جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں اور مسند احمد کے بنیادی راویوں میں سے ہیں۔ (دیکھئے تحقیقی مقالات 1/ 396۔397، تاریخ بغداد 14/ 36، میزان الاعتدال 1/ 511)

3: احمد بن جعفر القطیعی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں اور مسند احمد کے بنیادی راویوں میں سے ہیں۔ (دیکھئے تحقیقی مقالات 1/ 393۔396)

ابن المذہب نے اُن کے اختلاط سے پہلے اُن سے سنا تھا۔ (لسان المیزان 1/ 145۔146)

لہٰذا یہاں اختلاط کا اعتراض بھی مردود ہے۔

4: عبد اللہ بن احمد بن حنبل بالاجماع ثقہ ہیں۔ (دیکھئے تحقیقی مقالات 1/ 392۔393)

5: امام احمد بن حنبل بالاجماع ثقہ ہیں۔

6: امام یحییٰ بن سعید القطان بالاجماع ثقہ ہیں۔

7: امام سفیان ثوری بالاجماع ثقہ ہیں اور آپ مدلس بھی تھے لیکن اس روایت میں آپ نے سماع کی تصریح کر دی ہے، لہٰذا یہاں تدلیس کا اعتراض مردودہے۔

8: سماک بن حرب صحیح مسلم کے بنیادی راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔ (دیکھئے میرا مضمون: نصر الرب فی توثیق سماک بن حرب، اور میری کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ص 39۔49)

سماک کے شاگرد امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ما یسقط لسماک بن حرب حدیث‘‘ سماک کی کوئی حدیث ساقط نہیں ہوتی۔ (تاریخ بغداد 9/ 215 وسندہ صحیح)

یاد رہے کہ امام سفیان ثوری کا سماک سے سماع سماک کے اختلاط سے پہلے کا ہے۔ (دیکھئے نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ص 47)

9: قبیصہ بن ہلب الطائی رحمہ اللہ

قبیصہ کو درج ذیل علمائے محدثین نے صراحتاً یا تصحیحِ حدیث کے ذریعے سے ثقہ و صدوق قرار دیا۔

(1) عجلی (قال: تابعي ثقۃ / تاریخ الثقات: 1379)

(2) ابن حبان (ذکرہ فی الثقات 5/ 319)

(3) ترمذی (حسن حدیثہ: 252، 301، 1565)

(4) بغوی (شرح السنۃ 3/ 31 ح 570 وقال فی حدیثہ: ھذا حدیث حسن)

(5) ابن عبد البر (الاستیعاب فی اسماء الاصحاب 2/ 329 وقال فی حدیثہ: وھو حدیث صحیح)

جمہور کی توثیق کے مقابلے میں امام ابن المدینی اور امام نسائی کا قبیصہ بن ہلب کو مجہول کہنا صحیح نہیں، بلکہ یہاں جمہور کی ترجیح کی وجہ سے توثیق ہی مقدم ہے۔

10: ہلب الطائی رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔

تحقیق کا خلاصہ: اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث اصولِ حدیث اور اصولِ محدثین کی رُو سے بالکل حسن لذاتہ یا صحیح یعنی حجت ہے۔

ایک غالی دیوبندی محمد انور اوکاڑوی نے اس حدیث پاک پر جو اعتراضات کئے ہیں، ان کے جوابات درج ذیل ہیں:

1) انور اوکاڑوی نے اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت کو ’’غیر مقلد‘‘ کے غلط لقب سے ملقب کر کے لکھا ہے: ’’قارئین کرام! معلوم ہوا کہ جن احادیث کو غیر مقلد صحیح کہتے ہیں وہ خدا اور رسول ﷺ کے فیصلے سے نہیں کہتے بلکہ امتیوں کے فیصلے سے کہتے ہیں۔ جب درمیان میں امتیوں کا فیصلہ آ گیا تو یہ فیصلہ نبوی نہ رہا اس لئے اس کو نماز نبوی کے نام سے شائع کرنا درست نہیں۔‘‘ (ماہنامہ الخیر ملتان جلد 31 شمارہ 4 مارچ 2013ء ص 25)

اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں۔ مثلاً:

اول: آیت مبارکہ ﴿مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَاءِ﴾ اور جن گواہوں سے تم راضی ہو۔ (البقرۃ: 282)

اور حدیث ((اَلْمُؤْمِنُوْنَ شُھَدَاءُ اللہِ فِی الْأَرْضِ)) مومنین زمین میں اللہ کے گواہ ہیں۔ (صحیح بخاری: 2642)

وغیرہما دلائل کی رُو سے اہل حدیث اس کے پابند ہیں کہ سچے گواہوں کی گواہیاں قبول کریں اور خیر القرون کے زمانے سے لے کر آج تک محدثین و متبعینِ حدیث کا اسی منہج پر عمل جاری و ساری ہے۔

دوم: قرآن و حدیث سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہے۔ (دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 91)

اور اجماع سے ثابت ہے کہ جس حدیث میں درج ذیل پانچ شرطیں موجود ہوں، وہ صحیح ہوتی ہے:

(1) سند متصل ہو

(2) ہر راوی عادل ہو

(3) ہر راوی ضابط ہو

(4) شاذ نہ ہو

(5) معلول نہ ہو۔

ہماری پیش کردہ حدیث میں یہ پانچوں شرطیں موجود ہیں، لہٰذا یہ صحیح یا حسن لذاتہ ہے۔

سوم: انور اوکاڑوی اور آلِ دیوبند بہت سی احادیث پر جرح کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً

(1) سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث

(2) فاتحہ خلف الامام والی حدیث

(3) وفات تک رفع یدین والی روایت اور اس طرح کی دوسری روایات …………

کیا یہ احادیث و روایات اللہ اور رسول نے ضعیف قرار دی تھیں یا حنفیہ کے امام ابو حنیفہ نے انھیں ضعیف و مردود قرار دیا تھا؟ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ؟

اگر دیوبندیہ کے نزدیک ہر حدیث کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے اللہ یا رسول نے صحیح یا ضعیف قرار دیا ہو تو وہ اپنی تحریروں، تقریروں اور مناظرات میں اس اصول پر خود عمل کیوں نہیں کرتے؟ اس دوغلی پالیسی کا آخر جواب کیا ہے؟

اگر انور اوکاڑوی کی طرف سے یہ کہہ دیا جائے کہ اہل حدیث تو صرف دو دلیلیں مانتے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جھوٹ نہ بولو اور اللہ سے ڈرو!

کیا تم لوگوں نے مناظرِ اہل حدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا درج ذیل اعلان نہیں پڑھا؟:

’’اہلحدیث کا مذہب ہے کہ دین کے اصول چار ہیں:

(1) قرآن (2) حدیث (3) اجماعِ امت (4) قیاس مجتہد‘‘ (اہلحدیث کا مذہب ص 58)

اگر یہ بیان پڑھا ہے تو تمھارا اعتراض باطل ہوا اور اگر نہیں پڑھا تو اپنی آنکھوں کا علاج کروا لو۔!

چہارم: کیا اُمتِ مسلمہ میں کوئی ایسا مستند امام یا عالم گزرا ہے جس نے یہ لکھا یا کہا ہے کہ حدیث صرف وہی صحیح ہو گی جسے اللہ اور اس کے رسول نے صحیح قرار دیا ہو؟ حوالہ پیش کریں!

پنجم: فرقۂ دیوبندیہ کے بہت سے مصنفین نے نماز کے موضوع پر اسی مفہوم کی کتابیں لکھی ہیں۔ مثلاً:

1: نمازِ پیغمبر ﷺ (محمد الیاس فیصل)

2: رسولِ اکرم ﷺ کا طریقۂ نماز (جمیل احمد نذیری)

3: دَپیغمبر خدا ﷺ مونحٔ (محمد ولی درویش) بزبان پشتو

4: نبوی نماز مدلل (علی محمد حقانی) بزبان سندھی

5: اصلی صلوٰۃ الرسول ﷺ (نور احمد یزدانی)

کیا ان کتابوں کی تمام روایات کو اللہ یا رسول نے صحیح قرار دیا ہے؟

نیز امداد اللہ انور دیوبندی نے ’’مستند نماز حنفی‘‘ لکھی ہے۔ کیا اس کتاب کی تمام روایات کو حنفیہ کے امام ابو حنیفہ نے صحیح قرار دیا ہے؟ جب یہ لوگ اپنے باطل اصولوں پر خود عمل نہیں کرتے تو دوسروں کو ان اصولوں کا پابند کیوں بناتے ہیں؟

2) انور اوکاڑوی نے لکھا ہے:

’’مگر نہ ترمذی میں سینے کے الفاظ ہیں اور نہ شرح السنۃ للبغوی میں یہ الفاظ ہیں بلکہ صرف ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے‘‘ (ماہنامہ الخیر حوالہ مذکورہ ص 26)

نیز انور نے مزید لکھا ہے:

’’اور پھر حاشیہ میں اس کی تفصیل بھی ذکر کی تھی کہ سماک کے شاگردوں میں صرف سفیان سینے کے لفظ کو ذکر کرتے ہیں سماک کے شاگرد ابو الاحوص اور شریک اس زیادتی کو نقل نہیں کرتے اور پھر سفیان کے شاگردوں میں سے وکیع اور عبد الرحمن بن مہدی ان الفاظ کو ذکر نہیں کرتے صرف یحییٰ ان الفاظ کو نقل کرتے ہیں……‘‘ (حوالہ مذکورہ ص 27)

جب کتاب التحقیق لابن الجوزی میں یہ الفاظ موجود ہیں اور کسی صحیح یا حسن روایت کے خلاف بھی نہیں لہٰذا اگر دوسری ایک ہزار کتابوں میں یہ الفاظ موجود نہ ہوں تو بھی کوئی پروا نہیں بلکہ زیادۃ الثقۃ مقبولۃ کے اصول کی رُو سے یہ الفاظ صحیح ہیں۔ والحمدللہ

یاد رہے کہ یحییٰ بن سعید القطان مشہور ثقہ امام ہیں۔

3) انور اوکاڑوی نے لکھا ہے:

’’پھر مسند احمد کی روایت کے پورے الفاظ بھی تحریر نہیں کئے۔ کیونکہ آگے سفیان کے شاگرد یحییٰ بن سعید کی تشریح تھی جس کے الفاظ یہ ہیں ووصف یحیٰ الیمنی علی الیسری فوق المفصل یعنی ھٰذہ علی صدرہٖ کی تشریح کرتے ہوئے یحیٰ نے کہا کہ دایاں ہاتھ بائیں پر گُٹ کے اوپر رکھنا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل الفاظ ہٰذہ علی ہٰذہ تھے کسی کاتب کی غلطی سے ہٰذہ علی صدرہٖ بن گئے۔ اس غلطی کو لے کر……… نے متواتر عمل کے خلاف شور مچا دیا کیونکہ اگر صدرہ کے الفاظ ہوتے تو یحیٰ سینے پر ہاتھ رکھ کر تشریح کرتے نہ کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر تشریح کرتے۔‘‘ (الخیر حوالہ مذکورہ ص 27۔28)

قارئین کرام! آپ نے دیکھ لیا ہے کہ حافظ الجوزی کی روایت میں صاف طور پر ’’ھذہ علٰی ھذہ علٰی صدرہ‘‘ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں، نیز ابن عبد الہادی نے اپنی مشہور کتاب التنقیح میں ان الفاظ کو بالکل اسی طرح ہی نقل کیا ہے۔ (ج 1ص 284)

لہٰذا کسی کاتب کی غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مسند احمد کے تمام مطبوعہ و مخطوطہ نسخوں میں ’’علٰی صدرہ‘‘ کے الفاظ صاف لکھے ہوئے ہیں۔ (نیز دیکھئے فتح الباری 2/ 224 تحت ح 740 باب وضع الیمنیٰ علی الیسری)

انور اوکاڑوی کو شرم کرنی چاہیے کہ وہ اور ان کی پارٹی والے لوگ چودھویں صدی کے ضعیف و متروک کاتبین کی لکھی ہوئی مسند الحمیدی کی واضح غلطی سے علانیہ استدلال کرتے ہیں اور قدیم مخطوطوں مثلاً مخطوطہ ظاہریہ کو پس پشت پھینک دیتے ہیں اور خود مسند احمد کی متفق فی النسخ کلھا والی حدیث کو کاتب کی غلطی قرار دے رہے ہیں؟!

دوغلی پالیسیوں اور بے انصافی کی یہ بہت بڑی مثال ہے، جس میں انور اوکاڑوی اور آلِ دیوبند سرتاپا غرق ہیں۔

قارئین کرام! آپ نے دیکھ لیا کہ حافظ ابن الجوزی والی حدیث بذاتِ خود حسن لذاتہ یا (شواہد کے ساتھ) صحیح ہے، نیز اس کے مرسل اور مدلس شواہد بھی ہیں لہٰذا اوکاڑوی اعتراضات مردود و باطل ہیں۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 6 صفحہ 99 تا 104) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ