نمازِ باجماعت کے لئے کس وقت کھڑے ہونا چاہیے؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

مولانا محمد منیر سیالکوٹی صاحب حفظہ اللہ نے فرمایاہے کہ

’’اور اقامت کے وقت مقتدیوں کے کھڑے ہونے کے بارے میں کوئی وقت مقرر نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے قد قامت الصلوٰۃ کے وقت کھڑے ہونے کی روایت ہے۔ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ مؤذن کے اللہ اکبر کہتے ہی کھڑے ہونے کے قائل تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حیّ علی الفلاح کے الفاظ پر، اور امام مالک رحمہ اللہ لوگوں کی طاقت پر چھوڑتے ہیں کہ جو جب اُٹھ سکے۔ اُٹھ جائے۔ کیونکہ ان میں کوئی ضعیف ہو گا۔ اور کوئی ثقیل۔ اور کھڑے ہونے کا وقت بھی مقرر نہیں ہے۔ حنابلہ قد قامت الصلوٰۃ کے وقت اور شافعیہ ختم ہونے پر کھڑے ہونے کے قائل ہیں۔ (فتح الباری 2/ 120، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ 1/ 325) اور بظاہر امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہی اقرب الی السنۃ ہے۔‘‘

(فقہ الصلوٰۃ ج 2 ص 179)

آپ براہِ کرم راجح بات واضح فرمائیں کہ نمازی (مقتدی) اقامت سے قبل کھڑے ہوں (صف بندی کے لئے) یا اقامت کے بعد؟ (ایک سائل)

الجواب:

سوال میں مذکورہ روایات کی تحقیق علی الترتیب درج ذیل ہے:

1: حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر امام ابن المنذر وغیرہ سے نقل کیا ہے۔ (فتح الباری 2/ 120 تحت ح 637)

امام ابن المنذر کی کتاب: الاوسط میں یہ اثر درج ذیل سند و متن کے ساتھ موجود ہے:

’’وَحَدَّثُونَا عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عِیسَی، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو یَعْلَی، قَالَ: رَأَیْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ إِذَا قِیلَ: قِدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ وَثَبَ فَقَامَ‘‘

(4/ 166ث 1958، دوسرا نسخہ 4/ 187 ح 1947)

اس روایت میں ’’وَحَدَّثُونَا‘‘ کے قائلین نامعلوم ہیں، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔

اور ’’وغیرہ‘‘ کا قائل معلوم نہیں، السنن الکبریٰ (2/ 21) میں یہ اثر بے سند ہے، لیکن حافظ ابن عبدالبر نے اسے اپنی سند کے ساتھ ابو بکر الاثرم کی کتاب سے ’’وَحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ أَبِی یَعْلَی قَالَ: رَأَیْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ إِذَا قِیلَ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ، قَامَ فَوَثَبَ‘‘ کی سند ومتن سے روایت کیا ہے۔ (التمہید ج 9 ص 193، دوسرا نسخہ ج 3 ص 102)

اثرم تک ابن عبدالبر کی سند میں نظر ہے اور اگر یہ امام ابن المبارک سے ثابت ہو جائے تو عرض ہے کہ اس کا راوی ابو یعلیٰ سلمہ بن وردان اللیثی المدنی ضعیف ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: 2514)

مختصر یہ کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ روایت ضعیف ہے۔

2: امام سعید بن المسیب بن حزن رحمہ اللہ والی روایت تمہید (لابن عبدالبر) میں ہے۔ (ج 9 ص 193، دوسرانسخہ 3/ 102)

اس کی سند کئی وجہ سے ضعیف ہے، مثلاً کلثوم بن زیاد المحاربی قاضی دمشق جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔ (دیکھئے لسان المیزان بحاشیتی 4/ 489، دوسرا نسخہ 5/ 557)

3: امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب قول اُن سے ثابت نہیں ہے اور غیر ثابت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا راوی ابن فرقد (صاحبِ کتاب الاصل 1/ 18۔19) بذاتِ خود جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے۔

4: امام مالک رحمہ اللہ کاقول ان کی مشہور کتاب موطأ امام مالک (روایۃ یحییٰ 1/ 71، روایۃ ابی مصعب زہری: 186) میں موجود ہے۔

حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:

’’وَذَہَبَ الْأَکْثَرُونَ إِلَی أَنَّہُمْ إِذَا کَانَ الْإِمَامُ مَعَہُمْ فِی الْمَسْجِدِ لَمْ یَقُوْمُوْا حَتَّی تَفْرُغَ الْإِقَامَۃُ‘‘

اکثر کا یہ مذہب ہے کہ اگر امام مسجد میں موجود ہو تو لوگ اقامت ختم ہونے سے پہلے کھڑے نہ ہوں۔

(فتح الباری 2/ 120)

امام ترمذی نے فرمایا:

’’وقَالَ بَعْضُہُمْ: إِذَا کَانَ الإِمَامُ فِی المَسْجِدِ فَأُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ فَإِنَّمَا یَقُومُونَ إِذَا قَالَ المُؤَذِّنُ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ، وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ المُبَارَکِ‘‘

اور بعض نے کہا: جب امام مسجد میں ہو اور نماز کی اقامت ہو جائے تو لوگ اس وقت کھڑے ہوں گے جب اقامت کہنے والا قد قامت الصلوٰۃ کہے اور یہی قول عبداللہ بن المبارک کا ہے۔

(سنن الترمذی: 592)

امام ترمذی نے عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کے جو اقوال سنن ترمذی میں نقل کئے ہیں، ان کی صحیح سندیں اپنی کتاب العلل (الصغیر) میں ذکر کردی ہیں۔ (دیکھئے ص 1، دوسرا نسخہ ص 889 مطبوعہ دارالسلام مع سنن الترمذی)

امام احمد بن حنبل نے فرمایا:

اگر امام مسجد میں ہو تو لوگ اس وقت کھڑے ہوں جب وہ (اقامت کہنے والا) قد قامت الصلوٰۃ کہے۔ امام اسحاق بن راہویہ نے اس کی مکمل تائید فرمائی ہے۔

(مسائل احمد و اسحاق، روایۃ اسحاق بن منصور الکوسج 1/ 127۔128 فقرہ: 179)

امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’إِنْ کَانَ الْإِمَامُ مَعَہُمْ فِی الْمَسْجِدِ قَامُوا إِذَا قَامَ، وَإِنْ کَانُوا یَنْتَظِرُونَ خُرُوْجَہُ وَمَجِیْئَہُ قَامُوْا إِذَا رَأَوْہُ وَلَا یَقُومُوْا حَتَّی یَرَوْہُ لِحَدِیثِ أَبِيْ قَتَادَۃَ……‘‘

اگر امام مسجد میں ان کے ساتھ ہو تو جب وہ کھڑا ہو لوگ کھڑے ہو جائیں اور اگر وہ امام کے باہر آنے کا انتظار کر رہے ہیں توجب اسے دیکھیں کھڑے ہو جائیں اور اگر اسے نہ دیکھیں تو کھڑے نہ ہوں، اس کی دلیل (سیدنا) ابو قتادہ (رضی اللہ عنہ) کی حدیث سے ہے………

(الاوسط نسخہ جدیدہ ج 4 ص 188)

ان آثار کو مد نظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ جب اقامت کہی جائے یعنی قد قامت الصلوٰۃ کے الفاظ پڑھے جائیں تو لوگ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو جائیں، اور اگر امام یا اقامت کہنے والے کے ساتھ ہی کھڑے ہو جائیں (بشرطیکہ امام مسجد میں موجود ہو) تو یہ بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم

اصل مضمون کے لئے دیکھئے توضیح الاحکام (جلد 3 صفحہ 97 تا 100) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ