نمازِ عید کے بعد ’’تقبل اللہ منا و منک‘‘ کہنا

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


………… سوال …………

کیا نمازِ عید کے بعد ایک دوسرے کو ’’تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَمِنْکَ‘‘ کہنا ثابت ہے؟

………… الجواب …………

اس بارے میں دو مرفوع روایتیں مروی ہیں:

1- سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت

(الکامل لابن عدی ج 6 ص 2274، دوسرا نسخہ 7/ 524 وقال: ’’ھذا منکر …‘‘ المجروحین لابن حبان 2/ 301، دوسرا نسخہ 2/ 319، السنن الکبریٰ للبیہقی 3/ 319، العلل المتناہیہ لابن الجوزی 1/ 476 ح 811 وقال: ’’ھذا حدیث لایصح …‘‘ التدوین فی اخبار قزوین 1/ 342، ابوبکر الازدی الموصلی فی حدیثہ ق 3/2 بحوالہ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعہ للالبانی 12/ 385۔386 ح 5666)

یہ روایت محمد بن ابراہیم بن العلاء الشامی کی وجہ سے موضوع ہے۔

محمد بن ابراہیم: مذکور کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: ’’ کذاب‘‘ (سوالات البرقانی للدارقطنی: 423)

حافظ ابن حبان نے کہا: و ہ شامیوں پر حدیث گھڑتا تھا۔ (المجروحین 2/ 301، دوسرا نسخہ 2/ 319)

صاحبِ مستدرک حافظ حاکم نے کہا: اس نے ولید بن مسلم اور سوید بن عبدالعزیز سے موضوع حدیثیں بیان کیں۔ (المدخل الی الصحیح ص 208 ت 191)

2- سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت

(السنن الکبریٰ للبیہقی 3/ 319، 320، امالی ابن شمعون: 277، المجروحین لابن حبان 2/ 149، دوسرا نسخہ 2/ 133، العلل المتناہیہ 2/ 57۔58 ح 900 وقال: ’’ھذا حدیث لیس بصحیح‘‘ تاریخ دمشق لابن عساکر 36/ 69)

اس کے راوی عبدالخالق بن زید بن واقد کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا: ’’منکر الحدیث‘‘ (کتاب الضعفاء للبخاری بتحقیقی: 244)

امام بخاری نے فرمایا: میں جسے منکر الحدیث کہوں تو اُس سے روایت بیان کرنے کا قائل نہیں ہوں۔ (التاریخ الاوسط 2/ 107، دوسرا نسخہ: ہامش التاریخ الاوسط 3/ 582)

معلوم ہوا کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے۔

دوسرے یہ کہ یہ مکحول اور سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واسطہ نہ ہونے کی وجہ سے منقطع بھی ہے۔

حافظ ابن حجر نے اس روایت کو سند کے لحاظ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیکھئے فتح الباری 2/ 446 تحت ح 952)

ان مردود روایات کے بعد اب بعض آثار کی تحقیق درج ذیل ہے:

1- طحاوی نے کہا:

’’وَحدثنَا یحیی بن عُثْمَان قَالَ حَدثنَا نعیم قَالَ حَدثنَا مُحَمَّد بن حَرْب عَن مُحَمَّد بن زِیَاد الْأَلْہَانِيْ قَالَ کُنَّا نأتيْ أَبَا أُمَامَۃ وواثلۃ بن الْأَسْقَع فِی الْفطر والأضحی ونقول لَہما قبل اللہ منا ومنکم فَیَقُولَانِ ومنکم ومنکم‘‘

محمد بن زیاد الالہانی (ابو سفیان الحمصی: ثقہ) سے روایت ہے کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی میں ابو امامہ اور واثلہ بن اسقع (رضی اللہ عنہما) کے پاس جاتے تو کہتے:

’’تَقَبَّلَ اللہُ مِنَّا وَمِنْکُمْ‘‘ اللہ ہمارے اور تمھارے (اعمال) قبول فرمائے،

پھر وہ دونوں جواب دیتے: اور تمھارے بھی، اور تمھارے بھی۔

(مختصر اختلاف الفقہاء للطحاوی / اختصار الجصاص 4/ 385 وسندہ حسن)

اس سند میں یحییٰ بن عثمان بن صالح اور نعیم بن حماد دونوں جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے اور باقی سند صحیح ہے۔

اس روایت کو بھی ابن الترکمانی نے بغیر کسی حوالے کے نقل کر کے ’’حدیث جید‘‘ کہا اور احمد بن حنبل سے اس کی سند کا جید ہونا نقل کیا۔ دیکھئے الجوہر النقی (3/ 319۔320)

2- قاضی حسین بن اسماعیل المحاملی نے کہا:

’’حدثنا المھنی بن یحیی قال: حدثنا مبشر بن إسماعیل الحلبی عن إسماعیل بن عیاش عن صفوان بن عمرو عن عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر عن أبیہ قال: کان أصحاب النبي ﷺ إذا التقوا یوم العید یقول بعضھم لبعض: تقبل اللہ منا و منک‘‘

جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ / تابعی) سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ کے صحابہ عید کے دن ایک دوسرے سے ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے تھے۔

(الجزء الثانی من کتاب صلوٰۃ العیدین مخطوط مصور ص 22ب وسندہ حسن)

اس روایت کی سند حسن ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔ (دیکھئے فتح الباری 2/ 446 تحت ح 952)

3- صفوان بن عمرو السکسکی (ثقہ) سے روایت ہے کہ:

میں نے عبداللہ بن بسر المازنی (رضی اللہ عنہ) خالد بن معدان (رحمہ اللہ) راشد بن سعد (رحمہ اللہ) عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر (رحمہ اللہ) اور عبدالرحمٰن بن عائذ (رحمہ اللہ) وغیرہم شیوخ کو دیکھا وہ عید میں ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منک کہتے تھے۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر 26/ 106، ترجمہ: صفوان بن عمرو، وسندہ حسن)

4- علی بن ثابت الجزری رحمہ اللہ (صدوق حسن الحدیث) نے کہا:

میں نے (امام) مالک بن انس (رحمہ اللہ) سے عید کے دن لوگوں کے ’’تقبل اللہ منا و منک‘‘ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ہمارے ہاں (مدینے میں) اسی پر عمل جاری ہے، ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔

(کتاب الثقات لابن حبان ج 9 ص 90 وسندہ حسن)

5- امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:

مجھے عید کے دن یونس بن عبید ملے تو کہا: ’’تقبل اللہ منا و منک‘‘۔

(کتاب الدعاء للطبرانی ج 2 ص 1234 ح 929 وسندہ حسن)

اس روایت کے راوی حسن بن علی المعمری اُن روایات میں صدوق حسن الحدیث تھے، جن میں اُن پر انکار نہیں کیا گیا تھا اور اس روایت میں بھی اُن پر انکار ثابت نہیں ہے۔ نیز دیکھئے لسان المیزان بحاشیتی (ج 2 ص 414۔415)

6- طحاوی نے اپنے استاذوں اور معاصرین بکار بن قتیبہ، امام مزنی، یونس بن عبدالاعلیٰ اور ابو جعفر بن ابی عمران کے بارے میں کہا کہ جب انھیں عید کی مبارکباد دی جاتی تو وہ اسی طرح جواب دیتے تھے۔ (مختصر اختلاف العلماء ج 4 ص 385)

ان آثار سے معلوم ہوا کہ عید کے دن ایک دوسرے کو ’’تقبل اللہ منا و منک‘‘ کہنا (اور مبارکباد دینا) جائز ہے۔

………… اصل مضمون …………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 2 صفحہ 131 تا 134) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ