نظر کا لگ جانا برحق ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

کیا نظر برحق ہے؟

جیسا کہ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ فلاں کو فلاں کی نظر لگ گئی، اس کی کیا حقیقت ہے؟

الجواب:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((الْعَیْنُ حَقٌّ))

نظر (کا لگنا)حق ہے۔

(الصحیفۃالصحیحۃ تصنیف ہمام بن منبہ:131،صحیح بخاری:5740 وصحیح مسلم:2187 [5701]،مصنف عبد الرزاق 11/ 18ح 29778،مسند احمد 2/ 319 ح 8245 وسندہ صحیح ولہ طریق آخر عند ابن ماجہ:3507وسندہ صحیح ورواہ احمد 2/ 487)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((الْعَیْنُ حَقٌّ))

نظر (لگنا )حق ہے۔

(صحیح مسلم: 2188 [5702])

سیدنا حابس التمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((وَالْعَیْنُ حَقٌّ))

اور نظر برحق ہے۔

(سنن الترمذی:2061 وسندہ حسن، مسند احمد 4/ 67 حیۃ بن حابس صدوق وثقہ ابن حبان وابن خزیمۃ کما یظھرمن اتحاف المھرۃ 4/ 97 وروی عنہ یحییٰ بن ابی کثیر وھو لا یروی إلا عن ثقۃ عندہ)

سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بنو جعفر (طیار رضی اللہ عنہ کے بچوں) کو نظر لگ جاتی ہے تو کیا میں ان کو دم کروں؟

آپ ﷺ نے فرمایا:

((نَعَمْ، وَلَوْ کَانَ شَیْء ٌ یَسْبِقُ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْہُ الْعَیْنُ))

جی ہاں! اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جاتی تو وہ نظر ہوتی۔

(السنن الکبریٰ 9/ 348 وسندہ صحیح، سنن الترمذی: 2059 وقال:’’حسن صحیح‘‘ وللحدیث شاھد صحیح فی صحیح مسلم 2198 [5726])

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (مجھے) حکم دیا کہ نظر کا دم کرو۔ (صحیح بخاری: 5738 وصحیح مسلم :2195 [5720۔5722])

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نظرکے (علاج کے) لئے دم کی اجاز ت دی ہے۔ (صحیح مسلم: 2196[24 57])

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک لڑکی کے بارے میں فرمایا:

((اسْتَرْقُوا لَہَا، فَإِنَّ بِہَا النَّظْرَۃَ))

اسے دم کراؤ کیونکہ اسے نظر لگی ہے۔

(صحیح بخاری: 5739 وصحیح مسلم: 2197 [5725])

سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے نظر لگ جانے پر دم کی اجازت دی ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 2198 [5726])

سیدنا بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دم صرف نظر یا ڈسے جانے کی بنا پر ہے۔ (صحیح مسلم:220 [527])

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((لاَ رُقْیَۃَ إِلَّا مِنْ عَیْنٍ أَوْ حُمَۃٍ))

دم صرف نظر اور ڈسے ہوئے (کے علاج ) کے لئے ہے۔

(سنن ابی داود:3884 وسندہ صحیح، ورواہ البخاری:5705 موقوفاً وسندہ صحیح والمرفوع والموقوف صحیحان والحمدللہ)

سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد سہل بن حنیف (رضی اللہ عنہ) نے غسل کیا تو عامر بن ربیعہ (رضی اللہ عنہ)نے انھیں دیکھ لیا اور کہا: میں نے کسی کنواری کو بھی اتنی خوبصورت جلدوالی نہیں دیکھا۔سہل بن حنیف (رضی اللہ عنہ) شدید بیمار ہو گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ کومعلوم ہوا تو آپ نے فرمایا:تم اپنے بھائیوں کو کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟ تم نے برکت کی دعا کیوں نہیں کی؟ ((إِنَّ الْعَیْنَ حَقٌّ)) بے شک نظر حق ہے۔ (موطأامام مالک 2/ 938 ح 1810وسندہ صحیح وصححہ ابن حبان، الموارد:1424)

ان روایات سے معلوم ہوا کہ نظر لگنے کا برحق ہونا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔

سورۂ یوسف کی آیت نمبر (67) سے بھی نظر کا برحق ہونا اشارتاً ثابت ہے۔

نظر کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ نظر لگانے والے کے وضو (یا غسل)کے بچے ہوئے پانی سے اسے نہلایا جائے جسے نظر لگی ہے۔ دیکھئے موطأ امام مالک (2/ 938 ح 1810وسندہ صحیح)

یا درج ذیل دعا پڑھیں:

((أَعُوْذُ بِکَلِمَا تِ اللہِ التَّآمَّۃِ، مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَّھَامَّۃٍ وَّمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَّا مَّۃٍ))

اللہ کے پورے کلمات کے ساتھ اس کی پناہ چاہتا ہوں ہر ایک شیطان اورہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔ (صحیح بخاری:3371)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث شمارہ 36 صفحہ 21 اور فتاویٰ علمیہ ’’توحید و سنت کے مسائل‘‘ بعنوان ’’نظر کا لگ جانا برحق ہے‘‘۔