کیا قے (یعنی اُلٹی) آنے سے روزے کی قضا ہے؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


جس شخص کو روزے کی حالت میں خود بخود قے (اُلٹی) آجائے تو اس پر روزے کی قضا نہیں ہے لیکن اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر قے کرے تو اس پر قضا ہے۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((مَنْ ذَرَعَہُ الْقَیْءُ وَھُوَ صَائِمٌ فَلَیْسَ عَلَیْہِ قَضَاءٌ‘ وَمَنِ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْیَقْضِ)) جسے خود بخود قے آجائے اور وہ روزے سے ہو تو اُس پر کوئی قضا نہیں ہے اور اگر جان بوجھ کر قے کرے تو اس پر (روزے کی) قضا ہے۔ (سنن ابی داود: ۲۳۸۰، سنن ابن ماجہ: ۱۶۷۶)

اس روایت کو امام بخاری نے ’’ضعیف‘‘ لیکن ترمذی (۷۲۰) ابن خزیمہ (۱۹۶۰، ۱۹۶۱) ابن حبان (الموارد: ۹۰۷) حاکم (۱/۴۲۶، ۴۲۷) اور ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

ہماری تحقیق میں یہ روایت ضعیف ہے اور وجۂ ضعف صرف یہ ہے کہ اس میں ہشام بن حسان ’’مدلس‘‘ ہیں۔ دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (۱۱۰/ ۳، ص ۶۵) اور کسی سند میں سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔

لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’جو شخص روزے کی حالت میں جان بوجھ کر قے (اُلٹی) کرے تو اس پر قضا ضروری ہے اور جسے خود بخود قے آ جائے تو اس پر کوئی قضا نہیں ہے۔‘‘ (موطأ امام مالک ح ۱ ص ۳۰۴ ح ۶۷۵ وسندہ صحیح)

ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’من ذرعہ القئ فلا قضاء علیہ و من استقاء فعلیہ القضاء‘‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۴/ ۲۱۹ وسندہ حسن)

اس کا مفہوم وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔

حافظ ابن المنذر نے اس مسئلے پر بھی سوائے حسن بصری کے ایک قول کے، اجماع نقل کیا ہے۔ (کتاب الاجماع ص ۱۵، فقرہ: ۱۲۵)

عرض ہے کہ اس اجماع کے خلاف حسن بصری کا قول اُن سے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے بلکہ صحیح سند کے ساتھ تو یہ ثابت ہے کہ امام حسن بصری نے فرمایا: جب روزہ دار کو خودبخود قے آ جائے تو روزہ نہ توڑے اور اگر جان بوجھ کر قے کرے تو اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۳/۳۸ح ۹۱۹۰ وسندہ صحیح)

خلاصہ یہ کہ یہ تینوں مسئلے ضعیف روایتوں سے نہیں بلکہ اجماع اور صحیح آثارِ صحابہ ومَن بعدھم سے ثابت ہیں۔ والحمد للہ

اصل مضمون کے لئے دیکھیں محدّث العَصر حَافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تحقیقی اور علمی مقالات‘‘ جلد 2 صفحہ 279 اور ماہنامہ الحدیث شمارہ 53 صفحہ 29 مضمون ’’ضعیف روایات اور اُن کا حکم‘‘