قیامِ رمضان مستحب ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم، حدیث نمبر: 36

وَبِہٖ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ صَلَّی فِیْ المَسْجِدِ فَصَلَّی بِصَلَاتِہٖ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّی مِنَ القَابِلَۃِ فَکَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّیْلَۃِ الثَالِثَۃِ أَوِ الرَّابِعَۃِ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْھِمْ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: ((قَدْ رَأَیْتُ الّذِيْ صَنَعْتُمْ فَلَمْ یَمْنَعْنِي مِنَ الْخُروْجِ إِلَیْکُمْ إِلَّا أَنِّيْ خَشِیْتُ أَنْ یُفْرَضَ عَلَیْکُمْ)) ذَلِکَ فِي رَمَضَانَ۔

ترجمہ: اور اسی (سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں (رات کی) نماز (تراویح) پڑھی تو (بعض) لوگوں نے آپ کے ساتھ (آپ کے پیچھے) نماز پڑھی پھر آنے والی رات جب آپ نے نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہو گئے پھر تیسری یا چوتھی رات کو (بہت) لوگ اکٹھے ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: تم نے (رات کو) جو کیا وہ میں نے دیکھا تھا لیکن میں صرف اس وجہ سے تمھارے پاس نہ آیا کیونکہ مجھے خوف ہو گیا تھا کہ یہ (قیام) تم پر فرض نہ ہو جائے۔ یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔

تحقیق: صحیح

صرح ابن شہاب بالسماع عند البخاري (924)

تخریج: متفق علیہ

الموطأ (روایۃ یحییٰ 1/ 113 ح 246، ک 6 ب 1 ح 1) التمہید 8/ 108، الاستذکار: 217

٭ وأخرجہ البخاری (1129) ومسلم (761) من حدیث مالک بہ

فوائد:

1- نمازِ تراویح سنت ہے واجب یا فرض نہیں ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم 174/759 والموطأ روایۃ یحییٰ 1/ 113 ح 247)

2- چونکہ اب فرضیت کا خوف زائل ہو گیا ہے لہٰذا نمازِ تراویح باجماعت افضل ہے۔

3- اس پر اجماع ہے کہ نوافل (تراویح وغیرہ) میں نہ اذان ہے اور نہ اقامت۔ (التمہید 8/ 108)

4- رسول اللہ ﷺ اپنی امت پر بہت زیادہ مہربان اور شفیق تھے۔

5- علمائے کرام کا تراویح کی تعداد میں بہت اختلاف ہے۔ دیکھئے التمہید (8/ 113) وعمدۃ القاری للعینی (11/ 126) والحاوی للفتاوی (1/ 348) والمفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم (2/ 389) وسنن الترمذی (806)

قرطبی (متوفی 656ھ) نے کہا: ’’اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ رکعات پڑھنی چاہئے، انھوں نے اس (مسئلے) میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی حدیثِ سابق سے استدلال کیا ہے۔‘‘ (المفہم 2/ 390)

6- بیس تراویح پر اجماع کا دعویٰ باطل ہے۔

امام شافعی نے فرمایا: اگر رکعتیں کم اور قیام لمبا ہو تو بہتر ہے اور (یہ) مجھے زیادہ پسند ہے۔ (ملخصاً / مقریزی کی مختصر قیام اللیل للمروزی ص202، 203، تعدادِ رکعات قیامِ رمضان کاجائزہ ص 85)

7- اس حدیث سے صحابۂ کرام کا شوقِ عبادت ظاہر ہوتا ہے۔

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے الاتحاف الباسم شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم (ح 36 ص 103 اور 104) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

……………… موطا روایۃ ابن القاسم، حدیث 29، تفقہ ………………

نبی کریم ﷺ نے قیام رمضان کے بارے میں فرمایا:

((إِنَّہُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّی یَنْصَرِفَ کُتِبَ لَہُ قِیَامُ لَیْلَۃٍ))

بے شک جو شخص امام کے ساتھ نماز ختم ہونے تک قیام کرتا ہے تو اسے ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔

(سنن الترمذی: 806 وإسنادہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ: 2206 وابن حبان، الموارد: 919 وابن الجارود: 403 وقال الترمذی: ھٰذا حدیث حسن صحیح)