قرآن مجید کے سات قراءتوں پر نازل ہونے والی حدیث متواتر ہے

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ ھٰذَا القُرْآنَ أُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ))

یہ قرآن سات حرفوں (قراءتوں) پر نازل ہوا ہے لہٰذا اس میں سے جو میسر ہو پڑھو۔

(صحیح بخاری: 2419، صحیح مسلم: 818، موطا روایۃ ابن القاسم: 47)

قرآنِ مجید کے سات قراءتوں پر نازل ہونے والی حدیث متواتر ہے۔ (قطف الازہار:۶۰، نظم المتناثر:۱۹۷)

سات حرفوں (قراءتوں) سے مراد بعض الفاظ کی قراءت کا اختلاف ہے جس کی وضاحت کے لئے چند مثالیں درج ذیل ہیں:

………… پہلی مثال …………

قاری عاصم بن ابی النجود الکوفی وغیرہ نے

(( مَالِکِ یَوْمِ الدِّ یْنِ))

پڑھا۔

جب کہ قاری نافع بن عبدالرحمن بن ابی نعیم المدنی نے

((مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ))

پڑھا۔

پہلی قراءت برصغیر وغیرہ میں متواتر ہے اور دوسری قراءت افریقہ وغیرہ میں متواتر ہے۔

………… دوسری مثال …………

قاری حفص بن سلیمان الاسدی (عن عاصم بن ابی النجود) نے

((فَمَا تَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا وَّلَا نَصْرًا))

پڑھا۔ (دیکھئے سورۃ الفرقان:۱۹)

جب کہ قاری نافع المدنی نے

((فَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا وَّلَا نَصْرًا))

پڑھا ۔ دیکھئے قرآن مجید (روایۃ قالون ص ۳۰۹، روایۃ ورش ص ۲۹۳)

………… تیسری مثال …………

قاری عاصم، قاری قالون اور دیگر قاریوں نے

((قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ))

پڑھا۔

جبکہ قاری ورش کی قراءت میں

((قُلَ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ))

ہے۔

دیکھئے قرآن مجید (قراءۃ ورش ص ۷۱۲ مطبوعۃ الجزائر، دوسرا نسخہ، مطبوعۃ مصر)

قرآنِ مجید سات قراءتوں پر پڑھنا جائز ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اپنے علاقے کی مشہور قراءت میں پڑھا جائے تاکہ عوام الناس غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔

………… اصل مضمون …………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے الاتحاف الباسم (ص 121) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ