قربانی کے چار یا تین دن؟

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


الحمدللّٰہ ربّ العالمین والصّلٰوۃ والسّلام علٰی رسولہ الأمین، أما بعد:

دولت نگر (ضلع گجرات) میں جناب خرم ارشاد محمدی صاحب مسلکِ اہلِ حدیث کی تبلیغ اور دعوت کا عظیم کام کر رہے ہیں اور اُن کی مساعی جمیلہ سے اس علاقے میں مسلکِ حق (مسلکِ اہلِ حدیث) خوب پھیل رہا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے: اُن کی محنت سے ڈیڑھ سو (150) سے زیادہ اشخاص نے تقلید کے اندھیروں سے نکل کر کتاب و سنت کا راستہ اپنایا ہے۔ والحمدللہ

خرم صاحب نے مجھے ایک مفصل خط لکھ کر قربانی کے دنوں کی تحقیق کا مطالبہ کیا تھا لہٰذا میں نے اس خط کے جواب میں ایک تحقیقی مضمون لکھا، جسے بعد میں کئی علمائے اہل حدیث (حفظہم اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں بھیج دیا۔ جب کئی مہینوں تک اُن کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو پھر 2/ مئی 2007ء والے مضمون ’’قربانی کے تین دن ہیں‘‘ کو خرم صاحب کے مسلسل مطالبۂ اشاعت کے بعد ماہنامہ الحدیث حضرو، عدد: 44 (جنوری 2008ء) میں شائع کر دیا۔ اب کافی عرصے بعد اس تحقیقی مضمون کا ردِ عمل ہفت روزہ اھلحدیث لاہور (جلد 40 شمارہ 47، 28 نومبر تا 11 دسمبر 2009ء) میں جناب ڈاکٹر (پروفیسر) حافظ محمد شریف شاکر صاحب کے قلم سے بعنوان ’’قربانی کے چاردن‘‘ شائع ہوا ہے۔ (ص 17۔ 20)

اس مضمون کے سلسلے میں چند معروضات درج ذیل ہیں:

1: ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے: ’’ایام قربانی عید الاضحی اور اس کے بعد تین دن ہیں: اس کے قائل حضرت علیؒ ہیں اور یہی مذہب ۔۔۔‘‘ (ص 17)

مؤدبانہ عرض ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ بات کس کتاب میں صحیح یا حسن سند کے ساتھ مذکور ہے؟ حوالہ پیش کریں۔ !

حافظ ابن القیم اور علامہ نووی کے اقوال پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ انھوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک اپنے اقوالِ منقولہ کی کوئی صحیح متصل یا حسن متصل سند پیش نہیں کی اور یہ عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ان دونوں کی پیدائش سے صدیوں پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تھے۔

آگے چل کر ڈاکٹر صاحب نے حافظ ابن القیم اور علامہ نووی کے بے سند حوالوں کی بنیاد پر یہ بات بھی لکھ دی ہے کہ ’’موصوف نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تین دن قربانی والا قول تو نقل کر دیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا چار دن والا درج ذیل قول کیوں کر مفقود نظر رہا؟؟‘‘ (ص 19)

عرض ہے کہ مفقود کی بات تو بعد میں ہو گی، پہلے آپ اس قول کی صحیح یا حسن سند پیش تو فرما دیں!

2: پرفیسر صاحب نے لکھا ہے: ’’۔۔۔ اور آثار میں بھی اختلاف ہے تو موصوف کو اہل حدیث کے متفق علیہ مسلک‘‘ (ص 17)

عرض ہے کہ کیا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اہلِ حدیث کے مسلک سے باہر تھے جو یہ فرماتے تھے کہ قربانی والے دن کے بعد دو دن قربانی ہے۔ (موطأ امام مالک ج 2 ص 487 وسندہ صحیح)

3: ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے: ’’قواعد حدیث کے مطابق صحیح سند کے مقابلہ میں حسن سند مرجوح ہوتی ہے نہ کہ راجح، تو موصوف صحیح سند کے مقابلے میں حسن سند کو کس اصول کے تحت راجح قرار دے رہے ہیں؟؟‘‘

مزعومہ و مبینہ قواعدِ حدیث میں نظر کے علاوہ عرض ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں۔ (وھو حسن) اگر اس کے مقابلے میں آپ کے پاس کوئی صحیح سند ہے تو وہ پیش کریں اور اگر صحیح نہیں ہے تو حسن پیش کریں اور اگر کوئی متصل سند ہے ہی نہیں تو پھر حسن سے نامعلوم صحیح (؟) کو ٹکرانا غلط ہے۔

4: پروفیسر صاحب نے علامہ قرطبی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک چار دن ہیں۔ (ص 20 ملخصاً بعنوان: ابن عمر رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول)

عرض ہے کہ یہ دوسرا قول بے سند ہونے کی وجہ سے غیر ثابت اور مردود ہے، لہٰذا معارضہ کیسا؟؟ صحیح سند کے مقابلے میں بے سند اقوال پیش کرنے کا آخر فائدہ کیا ہے؟

5: ڈاکٹر صاحب نے شوکانی یمنی کے حوالے سے لکھا ہے: ’’عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ ایام معدودات چار دن ہیں۔۔۔۔‘‘ (ص 20)

عرض ہے کہ یہ بے سند قول احکام القرآن للطحاوی (2/ 205 ح 1571، وسندہ حسن) کی اس روایت کے مقابلے مردود ہے، جس میں آیا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن کے بعد دو دن قربانی ہے اور افضل قربانی نحر والے (پہلے) دن ہے۔‘‘ (دیکھئے الحدیث حضرو: 44 ص 10)

6: بے سند اقوال والے اس مضمون کے آخر میں پروفیسر صاحب نے لکھا ہے: ’’یہ موصوف ہی بتا سکتے ہیں کہ جمہور صحابہ میں کون کون سے صحابہ کرام شامل ہیں؟‘‘ (ص 20)

عرض ہے کہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ (صحابئ صغیر) کے اثر کے مقابلے میں اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے آثار جمہور صحابہ کے آثار نہیں ہیں تو پھر جمہور سے کیا مراد ہے؟

یاد رہے کہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا اثر: ’’پھر عیدالاضحی کے بعد آخری ذوالحجہ (تک) کو ذبح کرتے‘‘ (الحدیث: 44 ص 11) کے خود جناب ڈاکٹر اور پروفیسر صاحب بھی قائل نہیں بلکہ چار دنوں کی قربانی کے قائل ہیں، دوسرے یہ کہ یہ اثر مذکورہ بالا جمہور صحابہ کے خلاف ہے۔

7: پروفیسر صاحب نے لکھا ہے: ’’حافظ زبیر علی زئی صاحب کا دعویٰ ہے کہ ’’قربانی کے تین دن ہیں‘‘ اور اپنے اس دعویٰ پر انہوں نے پہلی دلیل یہ پیش کی ہے کہ ’’نبی کریم ﷺ نے ابتداء میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا تھا۔۔۔۔‘‘ (ص 17)

عرض ہے کہ یہ میری پہلی دلیل نہیں بلکہ ذیلی اور تائیدی دلیل ہے، کیونکہ پہلی دلیل تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور جمہور صحابۂ کرام کے آثار ہیں اور یہ میرے دعوے کے بالکل مطابق ہیں۔ پروفیسر صاحب کا ذیلی دلیل کو پہلی دلیل قرار دے کر میری طرف منسوب کرنا غلط ہے۔ وما علینا إلا البلاغ (25/ نومبر 2009ء)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے مقالات جلد 3 صفحہ 261 اور ماہنامہ اشاعۃ الحدیث حضرو شمارہ 68 صفحہ 45

--------------------

ماہنامہ الحدیث شمارہ 44 صفحہ 6 پر ایک سوال کا جواب:

توضیح الاحکام: ’’قربانی کے تین دن ہیں‘‘‘

سوال (للخرم ارشاد محمدی):

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔۔۔۔کیا چوتھے دن قربانی کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟ میں نے بعض علماء سے سنا ہے کہ چوتھے دن قربانی کرنے والی جو احادیث ہیں وہ ضعیف ہیں اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ قربانی تین دن ہے۔

اس سلسلے میں ہفت روزہ اہلِ حدیث میں فضیلۃ الشیخ عبدالستار حماد حفظہ اللہ نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ قربانی چار دن ہے ان کے دلائل درج ذیل ہیں:

فضیلۃ الشیخ نے لکھا ہے کہ’’قربانی، عید کے بعد تین دن تک کیجا سکتی ہے۔ عید دسویں (10) ذوالحجہ کو ہوتی ہے، اس کے بعد تین دنوں کو ایامِ تشریق کہتے ہیں۔ ایامِ تشریق کو ذبح کے دن قرار دیا گیا ہے چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمام ایامِ تشریق ذبح کے دن ہیں (مسند امام احمد ص 82 ج4) اگرچہ اس روایت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ منقطع ہے لیکن امام ابن حبان اورامام بیہقی نے اسے موصول بیان کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر: 4537)

بعض فقہاء نے عید کے بعد صرف دو دن تک قربا نی کی اجازت دی ہے ان کی دلیل درج ذیل امر ہے:

قربانی یوم الاضحی کے بعد دو دن تک ہے (بیہقی ص 297 ج 9) لیکن یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ کی مرفوع حدیث کے مقابلہ میں پیش نہیں کیا جا سکتا لہٰذا قابل حجت نہیں۔ علامہ شوکانی نے اس کے متعلق پانچ مذاہب ذکر کئے ہیں پھر اپنا فیصلہ بایں الفاظ لکھا ہے: ’’تمام ایامِ تشریق ذبح کے دن ہیں اور وہ یوم النحر کے بعد تین دن ہیں۔‘‘ (نیل الاوطار ص 125 ج5)

واضح رہے پہلے دن قربانی کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ اسی پر عمل پیرا رہے ہیں لہٰذا بلاوجہ قربانی دیر سے نہ کی جائے اگرچہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ غرباء مساکین کو فائدہ پہنچانے کیلئے تاخیر کرنا افضل ہے لیکن یہ محض ایک خیال ہے جس کی کوئی منقول دلیل نہیں ہے۔ نیز اگر کسی نے تیرہ (13)ذوالحجہ کو قربانی کرنا ہو تو غروب آفتاب سے پہلے پہلے قربانی کردے کیونکہ غروب آفتاب کے بعد اگلا دن شروع ہو جاتا ہے۔ (ہفت روزہ اہلِ حدیث جلد 38۔ 7تا 13 ربیع الثانی 1428ھ 27 اپریل تا 3 مئی 2007ء)

یہ وہ دلائل ہیں جن کو حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ نے بیان کیا ہے۔

محترم الشیخ صاحب مندرجہ بالا دلائل اور ان کے علاوہ چوتھے دن قربانی کے جتنے دلائل ہیں ان کو بیان کریں اور ان کی اسنادی حیثیت کو واضح کریں اور اس مسئلۂ قربانی کے بارے میں صحیح ترین تحقیق بیان فرمائیں، اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (آمین)۔۔۔۔۔ ] خرم ارشاد محمدی۔ دولت نگر، گجرات 29/ اپریل 2007ء]

الجواب (للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ):

مسند احمد (4/82 ح 16752) والی روایت واقعی منقطع ہے۔

سلیمان بن موسیٰ نے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا۔ امام بیہقی نے اس روایت کے بارے میں فرمایا: ’’مرسل‘‘ یعنی منقطع ہے۔ (السنن الکبریٰ ج5ص 239، ج9 ص 295)

امام ترمذی کی طرف منسوب کتاب العلل میں امام بخاری سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’سلیمان لم یدرک أحدًا من أصحاب النبي ﷺ‘‘ سلیمان (بن موسیٰ) نے نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کسی کو بھی نہیں پایا۔ (العلل الکبیر 1/313)

اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ کسی صحیح دلیل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ سلیمان بن موسیٰ نے سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ کو پایا ہے۔ آنے والی روایت (نمبر 2) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ سلیمان بن موسیٰ نے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نہیں سنی۔

نیز دیکھئے نصب الرایہ (3/61)

روایت نمبر 2: صحیح ابن حبان (الاحسان: 3843، دوسرا نسخہ: 3854) والکامل لابن عدی (3/ 1118، دوسرا نسخہ 4/ 260) والسنن الکبریٰ للبیہقی (9/ 295، 296) اور مسند البزار (کشف الاستار 2/ 27 ح 1126) وغیرہ میں ’’سلیمان بن موسی عن عبدالرحمٰن بن أبي حسین عن جبیر بن مطعم‘‘ کی سند سے مروی ہے کہ ((وفي کلّ أیام التشریق ذبح)) اور سارے ایامِ تشریق میں ذبح ہے۔ یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:

1: حافظ البزار نے کہا: ’’وابن أبي حسین لم یلق جبیر بن مطعم‘‘ اور (عبدالرحمٰن) ابن ابی حسین کی جبیر بن مطعم سے ملاقات نہیں ہوئی۔ (البحر الزخار 8 / 364 ح 3444، نیز دیکھئے نصب الرایہ ج3ص 61 والتمہید نسخۂ جدیدہ 10 / 283)

2: عبدالرحمٰن بن ابی حسین کی توثیق ابن حبان (الثقات 5/109) کے علاوہ کسی اور سے ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ راوی مجہول الحال ہے۔

روایت نمبر 3: طبرانی (المعجم الکبیر 2/138 ح 1583) بزار (البحرالزخار 8/363 ح3443) بیہقی (السنن الکبریٰ 5/239، 9/292) اور دارقطنی (السنن 4/284 ح 4711) وغیرہم نے ’’سوید بن عبدالعزیز عن سعید بن عبدالعزیز التنوخي عن سلیمان بن موسی عن نافع بن جبیر بن مطعم عن أبیہ‘‘ کی سند سے مرفوعاً نقل کیا کہ ((أیام التشریق کلھا ذبح)) تمام ایامِ تشریق میں ذبح ہے۔

اس روایت کا بنیادی راوی سوید بن عبدالعزیز ضعیف ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: 2692)

حافظ ہیثمی نے کہا: ’’وضعفہ جمھور الأئمۃ‘‘ اور اسے جمہور اماموں نے ضعیف کہا ہے۔ (مجمع الزوائد 3/ 147)

روایت نمبر 4: ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’عن سلیمان بن موسی أن عمرو بن دینار حدثہ عن جبیر بن مطعم أن رسول اللہ ﷺ قال: کل أیام التشریق ذبح‘‘ (سنن الدارقطنی 4/ 284 ح 4713، والسنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 296)

یہ روایت دو وجہ سے مردود ہے:

1: اس کا راوی احمد بن عیسیٰ الخشاب سخت مجروح ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (ج1ص 240، 241)

2: عمرو بن دینار کی جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے الموسوعۃ الحدیثیۃ (ج27 ص 317)

تنبیہ: ایک روایت میں ’’الولید بن مسلم عن حفص بن غیلان عن سلیمان بن موسی عن محمد بن المنکدر عن جبیر بن مطعم‘‘ کی سند سے آیا ہے کہ ’’عرفات موقف وادفعوا من عرنۃ والمزدلفۃ موقف و ادفعوا عن محسر‘‘ (مسند الشامیین 2/ 389 ح 1556، ونصب الرایہ 3/ 61 مختصراً)

اس روایت کی سند ولید بن مسلم کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس میں ایامِ تشریق میں ذبح کا بھی ذکر نہیں ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

ایامِ تشریق میں ذبح والی روایت اپنی تما م سندوں کے ساتھ ضعیف ہے لہٰذا اسے صحیح یا حسن قرار دینا غلط ہے۔

آثارِ صحابہ:

روایتِ مسؤلہ کے ضعیف ہونے کے بعد آثارِ صحابہ کی تحقیق درج ذیل ہے:

1: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الأضحی یومان بعد یوم الأضحی‘‘ قربانی والے دن کے بعد (مزید) دو دن قربانی (ہوتی) ہے۔ (موطأ امام مالک ج2ص 487 ح 1071 وسندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 297)

2: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’النحر یومان بعد یوم النحر و أفضلھا یوم النحر‘‘ قربانی کے دن کے بعد دو دن قربانی ہے اور افضل قربانی نحر والے (پہلے) دن ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی 2/ 205 ح 1571، وسندہ حسن)

3: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’الأضحی یومان بعدہ‘‘ قربانی والے (اول) دن کے بعد دو دن قربانی ہوتی ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی 2/ 206 ح 1576، وھو صحیح)

4: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’النحر ثلاثۃ أیام‘‘ قربانی کے تین دن ہیں۔ (احکام القرآن للطحاوی 2/205 ح 569، وھو حسن)

تنبیہ: احکام القرآن میں ’’حماد بن سلمۃ بن کھیل عن حجتہ عن علي‘‘ ہے جبکہ صحیح ’’حماد عن سلمۃ بن کھیل عن حجیۃ عن علي‘‘ ہے جیسا کہ کتبِ اسماء الرجال سے ظاہر ہے اور حماد سے مراد حماد بن سلمہ ہے۔ والحمدللہ

ان کے مقابلے میں چند آثار درج ذیل ہیں:

1: حسن بصری نے کہا: عید الاضحی کے دن کے بعد تین دن قربانی ہے۔ (احکام القرآن للطحاوی 2/ 206 ح 1577 وسندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی 9/297 وسندہ صحیح)

2: عطاء (بن ابی رباح)نے کہا: ایامِ تشریق کے آخر تک (قربانی ہے)۔ (احکام القرآن 2/ 206 ح 1578 وسندہ حسن، السنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 296 وسندہ حسن)

3: عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: ’’الأضحی یوم النحر و ثلاثۃ أیام بعدہ‘‘ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 297 وسندہ حسن)

امام شافعی اور عام اہل حدیث علماء کا یہی فتویٰ ہے کہ قربانی کے چار دن ہیں۔ بعض علماء اس سلسلے میں سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ سابقہ صفحات پر تفصیلاً ثابت کر دیا گیا ہے۔

4: سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مسلمان اپنی قربانیاں خریدتے، پھر انھیں (کھلا کھلا کر) موٹا کرتے، پھر عید الاضحی کے بعد آخری ذوالحجہ (تک) کو ذبح کرتے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی 9/ 297، 298 وسندہ صحیح)!!

ان سب آثار میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وغیرہ کا قول راجح ہے کہ قربانی تین دن ہے: عید الاضحی اور دو دن بعد۔

ابن حزم نے ابن ابی شیبہ سے نقل کیا ہے کہ ’’نازید بن الحباب عن معاویۃ بن صالح: حدثني أبو مریم: سمعت أبا ھریرۃ یقول: الأضحی ثلاثۃ أیام‘‘ یعنی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قربانی تین دن ہے۔ (المحلیٰ ج7ص 377 مسئلہ: 982)

اس روایت کی سند حسن ہے لیکن مصنف ابن ابی شیبہ (مطبوع) میں یہ روایت نہیں ملی۔ واللہ اعلم

فائدہ:

نبی کریم ﷺ نے ابتدا میں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرمایا تھا، بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ یہ ممانعت اس کی دلیل ہے کہ قربانی تین دن ہے والا قول ہی راجح ہے۔

اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ سے صراحتاً اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور آثار میں اختلاف ہے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور جمہور صحابہ کرام کا یہی قول ہے کہ قربانی کے تین دن (عیدالاضحی اور دو دن بعد) ہیں، ہماری تحقیق میں یہی راجح ہے اور امام مالک وغیرہ نے بھی اسے ہی ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم (2 / مئی 2007ء)

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ اشاعۃ الحدیث حضرو شمارہ 44 صفحہ 6