قربانی کے جانور کی شرائط

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


قربانی کرنے والے کا صحیح العقیدہ مسلمان و متبعِ کتاب و سنت ہونا اور شرک، کفر و بدعات سے پاک ہونا ضروری ہے اور جس کا عقیدہ خراب ہو، اس کا کوئی عمل قابلِ قبول نہیں ہے۔ قرآن، حدیث اور اجماع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر وقت اپنے ایمان و عمل کا خاص خیال رکھیں۔

قربانی کا جانور خریدتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں:

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃً اِلَّا اَنْ یعْسُرَ عَلَیکُمْ فَتَذْبَحُوْاجَذَعَۃً مِّنَ الضَّأْنِ))

دو دانتوں والے (دوندے) جانور کے علاوہ ذبح نہ کرو اِلا یہ کہ تم پر تنگی ہو جائے تو دُنبے کا جذعہ ذبح کر دو۔

(صحیح مسلم: 1963، ترقیم دارالسلام: 5082)

بکری (یا بھیڑ) کے اس بچے کو ’’جذعہ‘‘ کہتے ہیں جو آٹھ یا نو ماہ کا ہو گیا ہو۔ دیکھئے القاموس الوحید (ص 243)

حافظ ابن حجر نے فرمایا: جمہور کے نزدیک بھیڑ (دُنبے) کا جذعہ اسے کہتے ہیں جس نے ایک سال پورا کر لیا ہو۔ (فتح الباری 10/ 5 تحت ح 5547)

بہتر یہی ہے کہ ایک سال کا جذعہ بھیڑ میں سے ہو، ورنہ آٹھ نو ماہ کابھی جائز ہے۔ واللہ اعلم

تنبیہ بلیغ: صحیح مسلم کی اس حدیث پر عصرِ حاضر کے شیخ البانی رحمہ اللہ کی جرح (دیکھئے الضعیفۃ: 65، ارواء الغلیل: 1145) مردود ہے۔

مستدرک الحاکم (4/ 226 ح 7538 وسندہ صحیح) کی حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مسنہ نہ ہونے کی حالت میں جذعہ کی قربانی کافی ہے۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِی الْأَضَاحِیِّ: الْعَوْرَاءُ بَیِّنٌ عَوَرُہَا، وَالْمَرِیضَۃُ بَیِّنٌ مَرَضُہَا، وَالْعَرْجَاءُ بَیِّنٌ ظَلْعُہَا، وَالْکَسِیرُ الَّتِی لَا تَنْقَی))

چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:

1- ایسا کانا جس کا کانا پن واضح ہو،

2- ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو،

3- لنگڑا جس کا لنگڑا پن واضح ہو

4- اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔

(اس حدیث کے راوی عبید بن فیروز تابعی نے) کہا: مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو؟

تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھیں جو چیز بُری لگے اُسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔

(سنن ابی داود: 2802)

اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اسے ترمذی (1497) ابن خزیمہ (2912) ابن حبان (1046، 1047) ابن الجارود (481، 907) حاکم (1/ 467، 468) اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا کہ جس چیز کے بارے میں دل میں شبہ ہو اور اسی طرح مشکوک چیزوں سے بچنا جائز ہے۔

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔

مشہور تابعی امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔

(سنن النسائی 7/ 217، 218 ح 4382 وسندہ حسن و صححہ الترمذی: 1504)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ:

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان دیکھیں۔

(سنن النسائی 7/ 217 ح 4381 وسندہ حسن وصححہ الترمذی: 1503، وابن خزیمہ: 2914 وابن حبان، الاحسان: 5890 والحاکم 4/ 225 والذہبی)

خلاصہ:

ان احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ کانے، لنگڑے، واضح بیمار، بہت زیادہ کمزور، سینگ (ٹوٹے یا) کٹے اور کان کٹے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔

علامہ خطابی (متوفی 388ھ) نے فرمایا:

اس (سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ) حدیث میں دلیل ہے کہ قربانی میں معمولی نقص معاف ہے۔ الخ

(معالم السنن 2/ 199 تحت ح 683)

معلوم ہوا کہ اگر سینگ میں معمولی نقص ہو یا تھوڑا سا کٹا یا ٹوٹا ہوا ہو تو اس جانور کی قربانی جائز ہے۔

نووی نے کہا:

اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔

(المجموع شرح المہذب 8/ 404)

……… اصل مضمون ………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 213 اور 214) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

……… دودھ دینے والا جانور؟ ………

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے کہا: آپ کا کیا خیال ہے، اگر مجھے صرف مادہ قربانی (دودھ دینے والا جانور) ملے تو کیا میں اس کی قربانی کر دوں؟

آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، لیکن تم ناخن اور بال کاٹ لو، مونچھیں تراشو اور شرمگاہ کے بال مونڈ لو تو اللہ کے ہاں تمھاری یہ پوری قربانی ہے۔

(سنن ابی داود: 2789 وسندہ حسن، وصححہ ابن حبان، الموارد: 1043، والحاکم 4/ 223 والذہبی)

اس حدیث کے راوی عیسیٰ بن ہلال الصدفی صدوق ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (5337)

انھیں یعقوب بن سفیان الفارسی (المعرفۃ و التاریخ 2/ 515، 487) اور ابن حبان وغیرہما نے ثقہ قرار دیا ہے۔

ایسے راوی کی روایت حسن کے درجے سے کبھی نہیں گرتی۔

عیاش بن عباس القتبانی ثقہ تھے۔ دیکھئے التقریب (5269) باقی سند صحیح ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، وہ اگر ذوالحجہ کے چاند سے لے کر نمازِ عید سے فارغ ہونے تک بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ تراشے تو اسے قربانی کا ثواب ملتا ہے۔

……… اصل مضمون ………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 212 اور 213) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

……… قربانی کی شرائط؟ ………

کس قسم کے جانور کی قربانی کرنی چاہئے اور اس کی کیا شرائط ہیں؟ مختلف فقروں اور نمبروں کی صورت میں اس کی تفصیل پیشِ خدمت ہے:

1- قربانی صرف مُسنہ یعنی دوندے جانور کی ہی جائز ہے اور اگر تنگی کی وجہ سے دوندا نہ مل سکے تو پھر بھیڑ (دنبے) کا جذعہ (ایک سال کے دنبے) کی قربانی جائز ہے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 1963)

تنگی سے مراد صرف یہ ہے کہ مارکیٹ اور منڈی میں پوری کوشش اور تلاش کے باوجود دوندا جانور نہ مل سکے۔

2- حدیث سے ثابت ہے کہ چار جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:

الف: واضح طور پر کانا جانور

ب: واضح طور پر بیمار

ج: واضح طور پر لنگڑا

د: اور بہت زیادہ کمزور جانور جو کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو۔

(دیکھئے سنن ابی داود: 2802 وسندہ صحیح)

3- سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگ کٹے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔

امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسا جانور جس کا آدھا سینگ یا اس سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو۔ (سنن ترمذی: 1504، وقال: حسن صحیح)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا: (قربانی کے جانور میں) آنکھ اور کان دیکھیں۔ (سنن ترمذی: 1503، وقال: حسن صحیح)

اس پر اجماع ہے کہ اندھے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ (المجموع شرح المہذب 8/ 404)

امام خطابی رحمہ اللہ (متوفی 388 ھ) نے فرمایا: اس حدیث (جو فقرہ نمبر 2 میں گزر چکی ہے) میں یہ دلیل ہے کہ قربانی (والے جانور) میں معمولی نقص معاف ہے۔ (معالم السنن 2/ 199)

عبید بن فیروز (تابعی) نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ (صحابی) سے کہا: مجھے ایسا جانور بھی ناپسند ہے جس کے دانت میں نقص ہو۔

انھوں نے فرمایا: تمھیں جو چیز بُری لگے اسے چھوڑ دو اور دوسروں پر اُسے حرام نہ کرو۔

(سنن ابی داود: 2803 وسندہ صحیح)

تنبیہ:

اگر کسی جانور کے سینگ پر معمولی رگڑ ہو یا اس کے اوپر والی ٹوپی ٹوٹ گئی ہو تو امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی مذکورہ روایت کی رُو سے اس کی قربانی جائز ہے۔ (نیز دیکھئے متفرق مسائل فقرہ نمبر 8)

……… اصل مضمون ………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 5 صفحہ 201 اور 202) للشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ