رمضان میں سرکش شیاطین کا باندھا جانا

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال: حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے جبکہ قرآن مجید، سورۃ الانفال (48) سے ثابت ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر (رمضان) میں شیطان اپنے پیروکاروں (مشرکین مکہ) کے ساتھ بطور مددگار آیا تھا، پھر بھاگ گیا۔ حدیث اور قرآن میں کیا تطبیق ممکن ہے؟

الجواب:

شیاطین کی تین قسمیں ہیں:

1- بڑا شیطان یعنی ابلیس: جس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تھا۔

2- مردۃ الشیاطین: انتہائی سرکش شیاطین (جو کہ دوسرے شیطانوں کے سردار ہیں)

3- عام شیاطین

٭ بڑے شیطان یعنی ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کی مہلت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے اسے یہ مہلت دے دی ہے جیسا کہ قرآن مجید سے ثابت ہے۔ (سورۃ الاعراف:14۔18)

لہٰذا ابلیس کو رمضان میں باندھا نہیں جاتا۔

ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((وَتُغَلُّ فِیْہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِینِ))

اور رمضان کے مہینے میں مردۃ الشیاطین کو باندھا جاتا ہے۔

(سنن نسائی 4/ 129، ح 2108، وسندہ ضعیف، مسند احمد ج 2 ص 230، 385، 425)

اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ مگر ابو قلابہ تابعی رحمہ اللہ کا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (دیکھئے الترغیب والترہیب ج 2 ص 98)

لیکن اس حدیث کے متعدد شواہد ہیں مثلاً: حدیث عتبۃ بن فرقد وفیہ:

((وَیُصَفَّدُ فِیْہِ کُلُّ شَیْطَانٍ مَرِیدٍ))

اور اس (رمضان) میں ہر شیطان مرید (سرکش شیطان) کو باندھ دیا جاتا ہے۔

(سنن النسائی: 2110، و مسند احمد 4/ 311، 312، واسنادہ حسن)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مردۃ الشیاطین (سرکش شیطانوں) کو رمضان میں باندھ دیا جاتا ہے۔

امام ابن خزیمہ کی بھی یہی تحقیق ہے۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ج3ص 188، قبل ح 1883)

یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ خاص عام پر اور مقید مطلق پر مقدم ہوتا ہے۔

عام شیاطین کے باندھے جانے کے بارے میں کوئی صریح دلیل میرے علم میں نہیں ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ والحمدللہ

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 2 صفحہ 137 اور 138)