رمضان کے روزوں کی قضا اور تسلسل

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال: ایک خاتون کے ذمے رمضان کے کچھ روزے تھے، وہ اگلے مہینے یہ گنتی پوری کرنے لگی۔ وہ روزہ رکھ کر رشتہ داروں کے گھر گئی تو انھوں نے اس سے روزہ تڑوا دیا، اس خاتون نے لاعلمی کی بنیاد پر (اس کے ذمے جو فرض روزہ تھا) توڑ دیا۔ اب اس کے لئے کیا حکم ہے نیز یہ مسلسل رکھنے پڑیں گے؟

الجواب:

راجح تحقیق میں، شرعی عذر سے رمضان کے قضاء شدہ روزوں کے لئے تسلسل اور ترتیب ضروری نہیں ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’إن شئت فاقض رمضان متتابعًا وإن شئت متفرقًا‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ، مرقمہ نسخہ ج 1 ص 293 ح 9115، دوسرا نسخہ ج 3 ص 32 وسندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی ج 4 ص 258)

یعنی اگر تُو چاہے تو رمضان کی قضاء مسلسل اور ترتیب سے رکھ اور اگر چاہے تو بغیر تسلسل و بغیر ترتیب کے رکھ۔

اس کی سند صحیح ہے۔

سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’احص العدۃ وصم کیف شئت‘‘

تعداد کا شمار کرلو اور جس طرح چاہو روزے رکھو۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ح 9133، سنن دارقطنی ج 2 ص 192 ح 2295، السنن الکبریٰ للبیہقی ج 4 ص 258)

اس کی سند حسن ہے۔

اس مفہوم کے اقوال معاذ بن جبل، عبداللہ بن عباس، ابو ہریرہ اور جمہور صحابہ سے مروی ہیں۔ رضی اللہ عنہم اجمعین

قرآن مجید کا عموم بھی ا س کی تائید کرتا ہے۔ تاہم اگر تسلسل سے روزے رکھے تو یہ بہتر ہے مگر ضروری نہیں ہے۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ اس عورت کا ایک فرض، قضاء روزہ لاعلمی کی بنیاد پر ٹوٹ گیا تو وہ دوبارہ یہی قضاء روزہ دوسرے کسی دن رکھے گی۔ اس کے لئے اس قضاء روزے کا کوئی کفار ہ نہیں ہے۔ واللہ اعلم

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 2 صفحہ 139 اور 140)