باجماعت نماز میں صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سوال:

فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:

ماہنامہ شہادت میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا کہ صف میں پیچھے رہ جانے والے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی لہذا اسے دوبارہ نماز پڑھ لینی چاہئے جبکہ اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے مبشر احمد ربانی صاحب نے لکھا کہ یہ اضطراری کیفیت ہے اس صورت میں اکیلے آدمی کی نماز ہو جائے گی اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ اگلی صف سے آدمی کوبھی نہ کھینچا جائے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جو صف کو ملاتا ہے اللہ اسے ملاتا ہے اور جو صف کو توڑتا ہے اللہ اسے توڑتا ہے‘‘

س حدیث کی وجہ سے صف سے آدمی کو نہ کھینچا جائے اکیلے نماز پڑھ لی جائے تو نماز ہو جائے گی، کیونکہ یہ اضطراری کیفیت ہے۔

آپ آگاہ فرمائیں کہ کیا جائے علماء کی دو قسم کی آراء ہیں طلباء اور عوام کس رائے پر عمل کریں۔ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب ارشاد فرمائیں۔

الجواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

  1. وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

    ان رسول اللہ ﷺ رأی رجلاً یصلي خلف الصف وحدہ فأمرہ أن یعید۔

    بے شک رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی دیکھا (جو) صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے (نماز) لوٹانے کا حکم دیا۔

    (سنن ابی داود:۶۸۲، الترمذی:۲۳۰ وقال:’’ حسن‘‘ ابن ماجہ:۱۰۰۴، وصححہ ابن حبان، الموارد:۴۰۳ وللحدیث طرق عند ابن خزیمہ: ۱۵۶۹ وابن حبان:۴۰۱ وغیرھما)

    اس روایت کی سند صحیح ہے۔ (نیل المقصود)

    شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی فرمایا:’’صحیح‘‘ (سنن ابی داود، تحقیق الشیخ الالبانی ص ۰ا۱)

  2. علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    ’’فانہ لا صلوۃ لرجل فرد خلف الصف‘‘

    بے شک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی۔

    (مسند احمد: ۴/ ۲۳ح ۱۶۴۰۶ ، ابن ماجہ: ۱۰۰۳ وصححہ ابن خزیمہ: ۱۵۶۹ وابن حبان: ۴۰۱)

    اس روایت کی سند صحیح ہے۔ (تسہیل الحاجہ ص ۶۸) بوصیری نے کہا: ’’ھذا إسناد صحیح، رجالہ ثقات‘‘ (زوائد ابن ماجہ)

  3. حدیث وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کے مطابق امام احمد اور امام اسحاق (بن راہویہ) فرماتے ہیں کہ صف کے پیچھے اکیلا آدمی (نماز پڑھنے والا) اپنی نماز دوبارہ پڑھے گا، اور یہی قول حماد بن ابی سلیمان (محمد) ابن ابی لیلی (الفقیہ) اور وکیع کا ہے۔ (الترمذی: ۲۳۰)

  4. ابن ابی شیبہ نے حفص (بن غیاث) سے عن عمرو بن مروان (ثقہ) عن ابراہیم (النخعی) کی سند سے نقل کیا ہے کہ: ’’یعید‘‘ یعنی نماز دہرائے گا۔ (۲/ ۱۹۳ ح ۵۸۸۸) حفص بن غیاث مدلس ہے لہذا یہ سند ضعیف ہے، مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کے برعکس روایات بھی ہیں جو بلحاظ تدلیس وغیرہ ضعیف ہیں۔

  5. ابن حزم کے نزدیک صف کے پیچھے اکیلے مقتدی کی نماز باطل ہے۔ (المحلی: ۴/ ۵۲مسئلہ ۴۱۵)

  6. وابصہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بعد عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ:

    ’’وکان أبي یقول بھذا الحدیث‘‘

    اور میرے ابا جان یا والد ماجد اس حدیث کے مطابق فتوی دیتے تھے۔ (مسند احمد: ۴/ ۲۲۸ ح ۱۸۱۷۰)

  7. ابراہیم النخعی کا قول یہ ہے کہ صف کے پیچھے اکیلا آدمی رکوع نہ کرے۔ (ابن ابی شیبہ: ۱/ ۲۵۷ ح ۲۶۳۵) یہی تحقیق ابن ابی شیبہ کی ہے (ایضاً: ۲۶۳۶) بلکہ امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ پر رد لکھا ہے۔ (مصنف: ۱۴/ ۱۵۶، ۱۵۷ ح ۳۶۹۶، ۳۶۰۷۰)

    ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری (متوفی ۳۱۸ ھ) فرماتے ہیں:

    ’’صلوۃ الفرد خلف الصف باطل لثبوت خبر وابصۃ‘‘ الخ

    یعنی صف کے پیچھے اکیلے کی نماز، وابصہ (رضی اللہ عنہ) کی حدیث کی وجہ سے باطل ہے۔

    (الاوسط فی السنن والاجماع والاختلاف: ۴/ ۱۸۴ ت ۱۹۹۴)

  8. مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    ’’اگر کوئی شخص مصلی بعد اتمام صف صلوۃ مسجد میں آیا اور صف میں اس نے کوئی جگہ نہیں پائی تو وہ اکیلا صف کے پیچھے نماز نہ پڑھے بلکہ کسی شخص کو اطراف صف سے کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے‘‘ الخ (فتاوی علمائے حدیث ج ۳ ص ۷۷)

    اطراف ِ صف کا مطلب یہ ہے کہ: ’’صف کے کنارے سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ شامل کرے‘‘ (فتاوی علمائے حدیث: ۳/ ۲۴۸۶)

  9. جمہور علماء کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے کی نماز، عذر کی صورت میں ہو جاتی ہے (صلوۃ الجماعۃ، تالیف: صالح بن غانم السدلان ص ۱۱۲)

    امام عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ: ’’لا یعید‘‘ وہ اعادہ نہیں کرے گا۔ (مصنف عبدالرزاق ۲/ ۵۹ ح ۲۴۸۶)

    اسماء الرجال اور حدیث کی تصحیح و تضعیف میں ہمیشہ جمہورمحدثین کو ترجیح ہوتی ہے الا یہ کہ جرح مفسر ہو۔ جبکہ فقہی مسائل وغیرھا میں دلیل صریح کے مقابلے میں جمہور کا قول مرجوح ہوتا ہے۔ والحق أحق أن یتبع

    صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہ ہونے والا قول راجح ہے اگر چہ اس کے قائلین جمہور کے مقابلے میں کم ہیں۔

  10. صف سے آدمی کھینچنے کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ آئے اور آپ ﷺ کے بائیں طرف کھڑے ہوگئے۔ آپ ﷺ نے انہیں پکڑ کر دائیں طرف کھڑاکر دیا، پھر جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے تونبی ﷺ کے بائیں طرف کھڑے ہوگئے، آپ ﷺ نے جابر بن عبداللہ اور جبار بن صخر رضی اللہ عنہما دونوں کو دھکیل کر پیچھے کھڑا کر دیا۔

    دیکھئے صحیح مسلم (۳۰۱۰، وترقیم دارالسلام: ۷۵۱۶، باب حدیث جابر الطویل وقصۃ أبي الیسر)

اب چند اہم تنبیہات پیش خدمت ہیں:

  1. عورت اگر اکیلی بھی ہو تو اس کی نماز ہوجاتی ہے وہ اس حکم سے مستثنی ہے۔

  2. ایک حدیث میں آیا ہے کہ: ’’وسطوا الإمام‘‘ امام کو درمیان میں کرو (فتاوی اہل حدیث ج ۱ ص ۶۱۷)

    یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے، اس میں امۃ الواحد: مجہولہ ہے (تقریب: ۸۵۳۴) یحیی بن بشیر بن خلاد: مستور ہے۔ (ایضاً: ۷۵۱۵) نیز دیکھئے أنوار الصحیفۃ في الأحادیث الضعیفۃ (ص ۲۰،ابو داود: ۶۸۱)

  3. صف کے پیچھے اکیلے نمازی کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں۔

    1. نماز نہیں ہوتی۔
    2. نماز ہو جاتی ہے۔
    3. عذر ہو مثلاً (اگلی صف بھری ہوئی ہو) تو نماز ہوجاتی ہے۔

    ان اقوال میں اول قول ہی راجح ہے، جبکہ محترم مبشر احمد ربانی صاحب کی تحقیق و اجتہاد میں ثالث الذکر (ج) قول راجح ہے۔

  4. علماء کے درمیان اگر اجتہادی امور میں اختلاف ہو تو راجح لے کر مرجوح چھوڑ دیں اور علماء کا مکمل احترام کریں۔

یہ تحریر لی گئی ہے: ماہنامہ الحدیث شمارہ 3 صفحہ 28 تا 30