صحیح الاقوال فی استحباب صیام ستۃ من شوال

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


[شوال کے چھ روزے صحیح و صریح احادیث سے ثابت ہیں لیکن حال ہی میں کراچی کے مفتی زرولی خان دیوبندی نے ’’احسن المقال فی کراہیۃ صیام ستۃ شوال‘‘ (شوال کے چھ روزوں کے مکروہ ہونے کی تحقیق) نامی کتابچہ لکھ کر عوام میں یہ تأثر پھیلانے کی ناکام کوشش کی ہے کہ یہ احادیث غیر صحیح اور غیر صریح ہیں۔ فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ (رحمہ اللہ) نے بروقت قلم اُٹھا کر مفتی صاحب کی تحریر کا زبردست محاسبہ کیا ہے بلکہ ساتھ ہی صحیح مؤقف کی وضاحت بھی فرما دی ہے۔ جزاہ اللہ خیراً / حافظ ندیم ظہیر]

الحمدللّٰہ رب العالمین والصلٰوۃ والسلام علٰی رسولہ الأمین، أمابعد:

سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ))

جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد اس نے شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب) کی طرح ہیں۔

(صحیح مسلم: 1164، دارالسلام: 2758، صحیح ابن خزیمہ:2114، صحیح ابن حبان:3626/3634، صحیح ابی عوانہ:القسم المفقود ص 94، 95، سنن الترمذی:759 وقال: ’’حدیث حسن صحیح‘‘ شرح السنۃ للبغوی 6/ 331 ح 1780، وقال: ’’ھذا حدیث صحیح‘‘)

اس حدیث کو درج ذیل اماموں نے صحیح قرار دیا ہے:

1- امام مسلم

2- امام ابن خزیمہ

3- امام ترمذی

4- حافظ ابو عوانہ

5- حافظ ابن حبان

6- حافظ حسین بن مسعود البغوی

رحمہم اللہ

میرے علم کے مطابق کسی امام سے اس روایت کو ضعیف قرار دینا ثابت نہیں ہے۔

اب اس حدیث کے راویوں کا مختصرو جامع تذکرہ پیشِ خدمت ہے:

1: سیدنا ابو ایوب خالد بن زید الانصاری رضی اللہ عنہ مشہور بدری صحابی ہیں جو (دورِ صحابہ کے آخری) غزوہ ٔ قسطنطنیہ میں 50ھ یا اس کے بعد فوت ہوئے۔

2: عمر بن ثابت بن الحارث الخزرجی الانصاری المدنی رحمہ اللہ

حافظ ابن حبان نے آپ کو کتاب الثقات (5/ 149) میں ذکر کیا۔

امام عجلی نے کہا: مدنی تابعی ثقہ (تاریخ العجلی: 1333)

ابن شاہین نے انھیں کتاب اسماء الثقات (693) میں ذکر کیا۔

امام مسلم، امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، حافظ ابو عوانہ اور حافظ بغوی نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دے کر ان کی توثیق کی ہے۔

حافظ ابن حجر نے کہا:ثقہ (تقریب التہذیب: 4780)

فائدہ: اگر کوئی محدث کسی حدیث کو (مطلقاً) صحیح کہے تو یہ اس کی طرف سے اس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔

1: ابن القطان الفاسی (متوفی628ھ) لکھتے ہیں:

’’وفي تصحیح الترمذي إیاہ توثیقھا وتوثیق سعد بن إسحاق ولایضر الثقۃ أن لایروي عنہ إلا واحد، واللہ أعلم‘‘

اس حدیث کو ترمذی کا صحیح کہنا اس (زینب بنت کعب) اور سعد بن اسحاق کی توثیق ہے۔ ثقہ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ اُس سے روایت کرنے والا صرف ایک ہے۔ واللہ اعلم

(بیان الوہم والایہام فی کتاب الاحکام ج 5 ص 395 ح 2562، نصب الرایہ للزیلعی 3/ 264)

2: تقی الدین بن دقیق العید نے کتاب الامام میں کہا:

’’وأي فرق بین أن یقول: ھو ثقۃ أو یصحح لہ حدیث انفردبہ‘‘

اس میں کیا فرق ہے کہ راوی کو ثقہ کہے یا اس کی منفردحدیث کو صحیح کہے۔

(نصب الرایہ ج 1 ص 149)

جمہور کی اس توثیق کے مقابلے میں عمر بن ثابت تابعی رحمہ اللہ پر کسی محدث کی جر ح ثابت نہیں ہے اور اگر ایک دو سے جرح ثابت بھی ہو جاتی تو جمہور کی توثیق کے مقابلے میں مردود تھی۔

تنبیہ نمبر 1: عمر بن ثابت نے یہ روایت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔ دیکھئے صحیح مسلم: 1164، ترقیم دارلسلام: 2759، 2760

تنبیہ نمبر2: محمد زرولی دیوبندی تقلیدی نے بغیر کسی دلیل کے لکھا ہے:’’اور طبرانی کی روایت میں عمر بن ثابت ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘ (احسن المقال فی کراہیۃ صیام ستۃ شوال ص 26)

زرولی تقلیدی کا یہ قول امام مسلم، امام عجلی اور امام ترمذی وغیرہم کی تو ثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔

زرولی نے روایتِ مذکورہ کے بارے میں لکھا ہے: ’’جبکہ خود امام ترمذیؒ نے اس کو صحیح کے بجائے صرف حسن درجہ کا تسلیم کیا ہے۔‘‘ (احسن المقال ص 25)

حالانکہ امام ترمذی نے ’’حدیث أبي أیوب حدیث حسن صحیح‘‘ لکھا ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی مع العرف الشذی (ج 1 ص 158) دوسرا نسخہ (ج 1 ص 94) معارف السنن (ج 5 ص 444) تحفۃ الاحوذی (ج 2 ص 59)

سنن ترمذی کے بعض نسخوں میں حسن کا لفظ بھی ہے۔ واللہ اعلم

عمر بن ثابت رحمہ اللہ سے یہ حدیث درج ذیل راویوں نے بیان کر رکھی ہے:

1: سعد بن سعید بن قیس (صحیح مسلم: 1164/2758، سنن التر مذی: 759 وقال: ’’حسن صحیح‘‘ صحیح ابن خزیمہ: 2114، صحیح ابن حبان: 3634، شرح السنۃللبغوی: 1780، وقال: ’’ھذا حدیث صحیح‘‘ وغیرہ)

2: صفوان بن سلیم (مسند الحمیدی بتحقیقی: 383، نسخہ دیوبند یہ: 380)

3: زید بن اسلم (مشکل الآثار للطحاوی: 2343)

4: یحییٰ بن سعید بن قیس الانصاری (مسند الحمیدی: 382، مشکل الآثار: 2346)

سعد بن قیس مختلف فیہ راوی ہیں، امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام نسائی وغیرہ نے اُن پر جرح کی ہے لیکن امام مسلم، امام عجلی، ابن سعد، ابن عدی، ابن حبان اور امام ابن خزیمہ وغیرہ جمہور نے اُن کی توثیق کی ہے۔

حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ’’أحد الثقات‘‘ وہ ثقہ راویوں میں سے ایک ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء 5/ 482)

ایسا راوی جس کی جمہور محدثین نے توثیق کی ہو وہ حسن الحدیث کے درجے سے کم نہیں ہوتا لہٰذا سعد بن سعید بن قیس حسن الحدیث ہیں۔

تین ثقہ راویوں نے ان کی متابعت کر رکھی ہے:

صفوان بن سلیم (ثقہ مفتی عابد، رمی بالقدر) زید بن اسلم (ثقہ عالم) اور یحییٰ بن سعید الانصاری (ثقہ ثبت)۔

لہٰذا سعد بن سعید پر تفرد کا الزام باطل ہے۔

صفوان بن سلیم کی روایت درج ذیل کتابوں میں صحیح سند سے موجود ہے:

مسند الحمیدی (بتحقیقی: 383 وسندہ صحیح) سنن ابی داود (2433) السنن الکبریٰ للنسائی (2/ 163 ح 2863) سنن الدارمی (1761) صحیح ابن خزیمہ (2114) صحیح ابن حبان (الاحسان: 3626/3634) شرح مشکل الآثار للطحاوی (6/ 123 ح 2344) المعجم الکبیر للطبرانی (4/ 135، 136 ح 3911)

صفوان بن سلیم کے شاگرد عبد العزیز بن محمد الدراوردی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق اور صحیح مسلم کے راوی ہیں۔

سنن ابی داود (353) کی ایک روایت کو حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے جس میں دراوردی ہیں۔

اور نیموی تقلیدی نے آثار السنن (908 حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ) میں اسے نقل کر کے خاموشی اختیار کی ہے۔

حافظ ابن حبان اور امام ابن معین وغیرہما نے ان کی تو ثیق کی ہے۔

معتدل امام عجلی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’مدني ثقۃ‘‘ (التاریخ للعجلی: 1114)

زید بن اسلم کی روایت درج ذیل کتاب میں صحیح سند سے موجود ہے:

شرح مشکل الآثار (2343 وسندہ صحیح)

اس میں عبد العزیز بن محمد الدراوردی ثقہ صدوق ہیں، ان کے شاگرد سعید بن منصور ثقہ حافظ ہیں اور ان کے شاگرد یوسف بن یزید بن کامل القراطیسی ثقہ ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (7893)

یحییٰ بن سعید بن قیس الانصاری کی روایت درج ذیل کتابوں میں حسن سند سے موجود ہے:

السنن الکبریٰ للنسائی (2866 وقال: ’’عتبہ ھذا لیس بالقوی‘‘) مشکل الآثار (2346) المعجم الکبیر للطبرانی (4/ 136 ح 3915) مسند الحمیدی (384)

یحییٰ بن سعید الانصاری سے یہ حدیث دو راویوں نے بیان کی ہے:

1: عبد الملک بن ابی بکر (بن عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام) ثقہ ہیں۔

(تقریب التہذیب: 4167)

دیکھئے السنن الکبریٰ للنسائی (2866 وتکلم فی عتبہ بن ابی حکیم)

عبدالملک بن ابی بکر سے یہ حدیث عتبہ بن ابی حکیم نے بیان کی ہے۔

عتبہ بن ابی حکیم مختلف فیہ راوی ہیں لیکن جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے لہٰذا ان پر امام نسائی کی جرح صحیح نہیں ہے۔

تحریر تقریب التہذیب میں لکھا ہوا ہے: ’’بل: صدوق حسن الحدیث……‘‘ بلکہ وہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔ (2/ 429 ت 4427)

لہٰذا یہ سند حسن ہے۔

2: اسماعیل بن ابراہیم (بن میمون) الصائغ

(مسند الحمیدی: 384)

حافظ ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔

لیکن صاحبِ لسان نے امام بخاری سے ’’سکتوا عنہ‘‘ (یہ متروک ہے) کی جرح نقل کی ہے۔ دیکھئے لسان المیزان (1/ 391، دوسرا نسخہ 1/ 601)

یہ جرح امام بخاری سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ مثلاً دیکھئے التاریخ الکبیر (1/ 341)

اسماعیل بن ابراہیم سے ایک جماعت نے روایت بیان کی ہے اور ابو حاتم الرازی نے کہا: ’’شیخ‘‘ (الجرح والتعدیل 2/ 152)

خلاصہ یہ ہے کہ یہ راوی مجہول الحال ہے لہٰذا یہ سند ضعیف ہے لیکن شواہد کے ساتھ حسن وصحیح ہے۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جس میں شوال کے چھ روزوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے، بلحاظِ سند صحیح ہے۔

دوسری حدیث:

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((صیام شھر بعشرۃ أشھر وستۃ أیام بعدھن بشھرین فذلک تمام سنۃ ……))

یعني شھر رمضان و ستۃ أیام بعدہ۔

رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اور اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔

(سنن الدارمی: 1762 وسندہ صحیح، سنن ابن ماجہ: 1715، صحیح ابن خزیمہ: 2115، صحیح ابن حبان: 3635، السنن الکبریٰ للنسائی: 2861، مسند احمد 5/ 280، وغیرہ)

اس حدیث کو ابن خزیمہ اور ابن حبان وغیرہما نے صحیح قرار دیا ہے۔

اب اس کے راویوں کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے:

1: سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔

2: ابو اسماء عمرو بن مرثد الرحبی صحیح مسلم کے راویوں میں سے اور ثقہ ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (5109)

3: یحییٰ بن الحارث الذماری ثقہ ہیں۔ (تقریب التہذیب 7522)

4: یحییٰ بن حمزہ بن واقد الحضرمی الدمشقی القاضی صحیحین کے راوی اور ’’ثقۃ رُمي بالقدر‘‘ ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (7536)

جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ راوی پر قولِ راجح میں رُمی بالقدر والی جرح مردود ہوتی ہے۔

5: یحییٰ بن حسان التنیسی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (7529)

معلوم ہوا کہ یہ سند صحیح ہے لہٰذا اس کے ساتھ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ والی حدیث اور بھی صحیح ہوجاتی ہے۔ والحمدللہ

ان دو حدیثوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے اور زرولی دیوبندی تقلیدی کا انھیں ضعیف قرار دینا اور شوال کے چھ روزوں کو مکروہ سمجھنا باطل و مردود ہے۔

امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’أنبا محمد بن عبداللہ بن عبد الحکم قال: حدثنا أبو عبدالرحمٰن المقرئ قال: حدثنا شعبۃ بن الحجاج عن عبدربہ بن سعید عن عمر بن ثابت عن أبي أیوب الأنصاري أنہ قال: من صام شھر رمضان ثم أتبعہ ستۃ أیام من شوال فکأنما صام السنۃ کلھا‘‘

ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ نے فر مایا: جو شخص رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سارا سال روزے رکھے۔

(السنن الکبریٰ للنسائی 2/ 163، 164 ح 2865)

اس موقوف روایت کی سند صحیح ہے۔

عبدربہ بن سعید بن قیس ثقہ اور صحیحین کے راوی ہیں۔ دیکھئے تقریب التہذیب (3786) اور ان تک سند صحیح ہے۔

معلوم ہوا کہ مرفوع حدیث کے ساتھ ان روزوں کی فضیلت آثار صحابہ سے بھی ثابت ہے۔

تنبیہ نمبر 1: سارا سال روزے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو سارا سال روزے رکھنے کا ثواب ملتاہے۔

تنبیہ نمبر 2: شوال کے چھ روزوں کو مکروہ یا ممنوع سمجھنا امام ابو حنیفہ سے باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔ زرولی دیوبندی نے فقہ کی کتابوں سے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بے سند ہو نے کی وجہ سے مردود ہے۔

تنبیہ نمبر 3: امام مالک نے موطأ امام مالک میں فرمایا ہے کہ انھوں نے علماء وفقہاء میں سے کسی کو یہ روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور …… علماء اسے مکروہ سمجھتے ہیں……الخ (ج 1 ص 311 تحت ح 699)

یہ قول اس کی دلیل ہے کہ امام مالک تک درج بالا دونوں صحیح حدیثیں اور سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کا فتویٰ نہیں پہنچا ورنہ وہ کبھی یہ الفاظ نہ بیان فرماتے۔

جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اس کے مقابلے میں ہر امام کا فتویٰ مردود ہوتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا امام ہو۔

سرفراز خان صفدر دیوبندی تقلیدی نے کیا خوب لکھا ہے کہ:

’’مسند مرفوع اور صحیح حدیث کے مقابلہ میں دس ہزار تو کیا دس لاکھ بلکہ دس ارب و کھرب حضرات کی بات بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی کیونکہ علمی قاعدہ تو یہ ہے:

کل احد یوخذ عنہ ویترک الا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم‘‘

(اتمام البرہان فی رد تو ضیح البیان ص 389)

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (جلد 2 صفحہ 322 تا 328) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ