سیرت رحمۃ للعالمین ﷺ کے چند پہلو

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


نام و نسب:

سیدنا ابو القاسم محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب (شیبہ) بن ہاشم (عمرو) بن عبدمناف (المغیرۃ) بن قصی (زید) بن کلاب بن مُرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ (عامر) بن الیاس بن مضر بن نزار بن معدّ بن عدنان من ولد اسماعیل بن ابراہیم خلیل اللہ علیہما الصلوٰۃ والسلام۔

آپ کی والدہ کا نام آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرہ ہے۔

ولادت:

ماہِ ربیع الاول (۵۷۱ء) بروز سوموار (جس سال ابرہہ کافر نے اپنے ہاتھی کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا تھا اور اللہ نے اُسے اُس کی فوج سمیت تباہ کر دیا تھا۔) آپ کی ولادت ہوئی۔

آپ کے والد عبداللہ آپ کی پیدائش سے تقریباً مہینہ یا دو مہینے پہلے فوت ہوئے۔ (دیکھئے السیرۃ النبویہ للذہبی ص ۴۹) اور جب آپ سات سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ فوت ہو گئیں پھر آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی پرورش کی اور جب آپ آٹھ سال کے ہوئے تو عبدالمطلب بھی فوت ہو گئے، ان کی وفات کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کو اپنی کفالت میں لے لیا۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((…دعوۃ أبي إبراہیم و بشارۃ عیسی بي و رؤیا أمي التي رأت۔ إلخ)) میں اپنے ابا (دادا) ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور (بھائی) عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت (خوش خبری) ہوں اور اپنی ماں کا خواب ہوں جسے انھوں نے دیکھا تھا۔ (مسند احمد ۴/ ۱۲۷ ح ۱۷۱۵۰، وسندہ حسن لذاتہ)

حلیہ مبارک:

آپ ﷺ کا چہر ہ چاند جیسا (خوبصورت، سرخی مائل سفید اور پُرنور) تھا۔آپ کا قد درمیانہ تھا اور آپ کے سر کے بال کانوں یا شانوں تک پہنچتے تھے۔

نکاح:

سیدہ خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی رضی اللہ عنہا سے آپ کی شادی ہوئی اور جب تک خدیجہ رضی اللہ عنہا زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔

اولاد:

قاسم، طیب، طاہر (اور ابراہیم) رضی اللہ عنہم

بنات:

رقیہ، زینب، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنھن

پہلی وحی:

غارِ حراء میں جبریل امین علیہ السلام تشریف لائے اور سورۃ العلق کی پہلی تین آیات کی وحی آپ کے پاس لائے۔۶۱۰ء (اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی۔)

عام الحزن:

ہجرتِ مدینہ سے تین سال قبل ابو طالب اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہوگئے۔

ہجرت:

۶۲۲ء میں آپ اپنے عظیم ساتھی سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو لے کر مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔

مکی دور:

رسول اللہ ﷺ نبوت کے بعد مکہ میں تیرہ (۱۳) سال رہے۔

مدنی دور:

آپ ﷺہجرت کے بعد مدینہ میں دس (۱۰) سال رہے اور پھر وفات کے بعد الرفیق الاعلیٰ کے پاس تشریف لے گئے۔

غزوۂ بدر:

۲ھ کو بدر میں اسلام اور کفر کا پہلا بڑا معرکہ ہوا جس میں ابو جہل مارا گیا۔

غزوۂ احد:

۳ھ، اس غزوے میں ستر کے قریب صحابۂ کرام مثلاً سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور رسول اللہ ﷺ زخمی ہوئے۔

غزوۂ خندق:

۵ھ (احزابِ کفار نے مدینہ پر حملہ کیا اور ناکام واپس گئے)

صلح حدیبیہ:

۶ھ، اس کا ذکر قرآنِ مجید میں بھی ہے۔

غزوۂ خیبر:

۷ھ، خیبر فتح ہوا۔

فتح مکہ:

۸ھ، مکہ فتح ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے اہلِ مکہ کو معاف کر دیا۔

اس سال غزوۂ حنین بھی ہوا تھا۔

غزوۂ تبوک:

۹ھ

حجۃ الوداع:

۱۰ ھ

دعوت:

قرآن، حدیث، توحید اور سنت آپ کی دعوت ہے۔ آپ نے لوگوں کو شرک و کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر توحید و سنت کے نورانی راستے پر گامزن کر دیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس پر ظلم ہونے دیتا ہے۔ (صحیح بخاری:۲۴۴۲، صحیح مسلم:۲۵۸۰)

اخلاق:

آپ ﷺ اخلاق کے سب سے اعلیٰ درجے پر فائز تھے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ اور آپ عظیم اخلاق پر ہیں۔ (سورۃ نون:۴)

آپ ﷺنے فرمایا: ((أکمل المؤمنین اِیمانًا أحسنھم خلقًا و خیارکم خیار کم لنساء ھم خلقًا۔)) مومنوں میں مکمل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی عورتوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ (سنن الترمذی: ۱۱۶۲، وقال: ھذا حدیث حسن صحیح)

معلّمِ انسانیت:

ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے آپ ﷺ سے بہترین معلّم (استاذ) اچھے طریقے سے تعلیم دینے والا کوئی نہیں دیکھا، نہ پہلے اور نہ بعد۔ اللہ کی قسم! آپ نے مجھے نہ ڈانٹا، نہ مارا اور نہ بُرا بھلا کہا۔ (صحیح مسلم:۵۳۷)

معاملات:

آپ ﷺ نے فرمایا: ((إن خیارکم أحسنکم قضاء۔)) تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو بہتر طریقے سے قرض ادا کریں۔ (صحیح بخاری: ۲۳۰۵، صحیح مسلم: ۱۶۰۱)

نیز فرمایا: ((دع ما یریبک إلٰی مالا یریبک فإن الصدق طمأنینۃ وإن الکذب ریبۃ۔)) شک والی چیز کو چھوڑ دو اور یقین والی چیز کو اختیار کرو کیونکہ یقینا سچائی اطمینان ہے اور جھوٹ شک و شبہ ہے۔ (سنن ترمذی: ۲۶۱۸ وقال: ھذا حدیث صحیح)

نبی ﷺ نے کبھی کسی کھانے میں نقص نہیں نکالا، اگر پسند فرماتے تو کھا لیتے اور اگر پسند نہ فرماتے تو چھوڑ دیتے تھے۔ (صحیح بخاری: ۵۴۰۹)

وفات:

۱۱ھ بروز سوموار، ماہِ ربیع الاول میں رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین و رحمۃ للعالمین اس دنیا سے تشریف لے گئے، اس وقت آپ کی عمر مبارک ۶۳ سال تھی۔

صلی اللہ علیہ و آلہٖ وأصحابہ وأزواجہ وسلم۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث ۶۳ صفحہ ۳۴

نیز دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (ج 2 ص 540 تا 542)