شریعتِ اسلامیہ میں شاتمِ رسول کی سزا

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک صحابی نے اپنی لونڈی (جس سے ان کی اولا د بھی تھی) کو نبی کریم ﷺ کی گستاخی پر قتل کر دیا تھا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ((ألا اشھدوا إن دمھا ھدر)) سنو (اور) گواہ رہو! بے شک اس (عورت) کا خون ضا ئع ہو گیا ہے۔ (سنن ابی داود:4361 وسندہ صحیح)

سیدنا ابوبرزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے (سیدنا) ابوبکر الصدیق (رضی اللہ عنہ)کے بارے میں غلیظ الفاظ استعمال کئے (یعنی ان کی گستا خی کی) تو انھوں (ابوبرزہ رضی اللہ عنہ)نے کہا: کیا میں اس آدمی کی گردن نہ کاٹ دوں؟ ابوبکر (رضی اللہ عنہ)نے انھیں سختی سے منع کیا اور فرما یا: ’’ما ھی لأحد بعد رسول اللہ ﷺ‘‘ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کو یہ حق حا صل نہیں ہے۔ (مسند احمد: 1/ 9 ح 45، سنن النسائی: 7/ 108 ح 4076 وسندہ صحیح)

ان روایات اور دیگر دلائل سے ثابت ہے کہ جو شخص سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرے یعنی آپ ﷺ کو گا لی دے (اور یہ بات وا ضح دلیل سے ثابت ہو جا ئے) تو شریعت ِاسلامیہ میں ایسے شخص کو قتل کیا جائے گا، چا ہے وہ پہلے مسلما ن بنا ہوا تھا یا کہ صریح کا فر وغیرمسلم تھا۔

جو شخص نبی کریم ﷺ کو گالی دے، اس کے بارے میں اہلِ سنت کے مشہور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’تضرب عنقہ‘‘ اس کی گردن مار دی جا ئے یعنی اسے قتل کر دیا جائے۔ پھر انھوں نے مذکورہ بالا حدیث ِابی برزہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کیا۔ (دیکھئے مسائل عبد اللہ بن احمد بن حنبل: ج 3 ص 1292۔1293 فقرہ: 1794۔1795)

شیخ الاسلام حا فظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر ایک عظیم الشان کتاب لکھی ہے: ’’الصارم المسلول علٰی شاتم الرسول ﷺ‘‘

اصل مضمون کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 83 صفحہ 50 ’’لاسٹ اِن ٹائٹل‘‘)