سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو (نبی کریم ﷺ کی دعا کی وجہ سے) عظیم حافظہ عطا فرمایا تھا۔

ایک دفعہ مروان بن الحکم الاموی نے ان سے کچھ حدیثیں لکھوائیں اور اگلے سال کہا: وہ کتاب گم ہو گئی ہے، وہی حدیثیں دوبارہ لکھوا دیں۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہی حدیثیں دوبارہ لکھوا دیں۔

(بعد میں جب وہ کتاب مل گئی) اور دونوں کتابوں کو آپس میں ملایا گیا تو ایک حرف کا بھی فرق نہیں تھا۔

دیکھئے المستدرک للحاکم (3 / 510 وسندہ حسن)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بہت عرصہ بعد ایک نوجوان نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی گستاخی کی تو بغداد کی جامع مسجد کی چھت سے ایک بڑا سانپ گرا اور اس نوجوان کے پیچھے دوڑنا شروع کیا اور پھر جب اس نوجوان نے توبہ کی تو سانپ غائب ہوگیا۔

یہ نوجوان اہلِ الرائے میں سے (یعنی حنفی) تھا۔

دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو (شمارہ 32 صفحہ 14)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر اُس شخص کے دشمن تھے جو اللہ اور اس کے رسول کا دشمن تھا۔

دیکھئے طبقات ابن سعد (4/ 335 وسندہ صحیح)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام ابوبکر محمد بن اسحاق الامام رحمہ اللہ نے بہترین کلام فرمایا، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

چار طرح کے آدمی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جرح کرتے ہیں:

اوّل: جہمی معطل (جو صفاتِ باری تعالیٰ کے منکر ہیں)

دوم: خارجی (تکفیری جو مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کے قائل ہیں)

سوم: قدری (معتزلی جو تقدیر اور احادیثِ صحیحہ کے منکر ہیں)

چہارم: جاہل (جو فقیہ بنے بیٹھے ہیں اور بغیر دلیل کے) تقلید کی وجہ سے صحیح احادیث کے مخالف ہیں۔

دیکھئے المستدرک للحاکم (3 / 513 ح 6176 وسندہ صحیح)

مکمل مضمون کے لئے دیکھئے کتاب الاربعین لابن تیمیہ (صفحہ 61 تا 65)