سیدنا معاویہ بن ابی سفیان کاتبِ وحی رضی اللہ عنہ کی فضیلت

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم حدیث نمبر 117:

اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے) فرمایا:

رسول اللہ ﷺ جب قُباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان (رضی اللہ عنہا) کے پاس تشریف لے جاتے، وہ آپ کو کھانا کھلاتی تھیں۔

ام حرام بنت ملحان (سیدنا) عبادہ بن الصامت (رضی اللہ عنہ) کی بیوی تھیں۔

پس اس دن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے تو انھوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر (کے بالوں) میں ٹٹولنے لگیں۔

رسول اللہ ﷺ سو گئے پھر جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔

ام حرام نے کہا: میں نے آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟

آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے (نیند میں) میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اس سمندر کے درمیان اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے تھے گویا کہ وہ تختوں پر بادشاہ بیٹھے ہیں۔

انھوں نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے اُن میں شامل کرے تو آپ نے ان کے لئے دعا فرمائی پھر سر رکھ کر سو گئے۔

پھر جب نیند سے اُٹھے تو آپ ہنس رہے تھے۔

ام حرام نے کہا کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟

آپ ﷺ نے فرمایا: میری اُمت کے کچھ لوگ مجھے (نیند میں) دکھائے گئے جو تخت نشین بادشاہوں کی طرح بیٹھے اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے پہلی دفعہ فرمایا تھا۔

تو ام حرام نے کہا کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کرے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: تم پہلے گروہ میں ہو۔

(سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: پھر وہ (سیدنا) معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت) کے زمانے میں سمندری جہاد میں شامل ہوئیں پھر جب وہ سمندر سے باہر تشریف لائیں تو سواری سے گر کر فوت ہوگئیں۔

تحقیق: سندہ صحیح

تخریج: متفق علیہ

الموطأ (روایۃ یحییٰ 2/ 464، 465 ح 1026، ک 21ب 18 ح 39) التمہید 1/ 225، الاستذکار: 963

٭ وأخرجہ البخاری (2788، 2789) ومسلم (160/ 1912) من حدیث مالک بہ

تفقہ:

نمبر 1:

اُم حرام اور اُم سلیم (رضی اللہ عنہما) دونوں بہنیں تھیں۔

ابن عبدالبر نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اُم حرام یا اُم سلیم نے رسول اللہ ﷺ کو دودھ پلایا تھا یعنی ان میں سے ایک آپ کی رضاعی والدہ اور دوسری رضاعی خالہ تھیں۔ دیکھئے التمہید (1/ 226)

یہی بات امام عبداللہ بن وہب المصری وغیرہ سے مروی ہے۔

نمبر 2:

اگر عورت اپنے خاوند کے مال میں سے کسی کو کھانا وغیرہ کھلائے اور خاوند کی ناراضی معلوم نہ ہو تو یہ کھانا حلال ہے اور عورت کے خاوند کو بھی ثواب ملتا ہے۔

نمبر 3:

کفار کے خلاف سمندری جہاد کرنا اور بحری بیڑے بنانا بڑی فضیلت والا کام ہے۔

نمبر 4:

عورتوں کا جہاد میں شریک ہونا جائز ہے۔

نمبر 5:

مردوں اور عورتوں کے لئے بحری سفر کرنا جائز ہے۔

نمبر 6:

ہر مسلمان حکمران کے ماتحت جہاد کرنا قیامت تک جائز ہے چاہے بادشاہ ہو یا خلیفہ وغیرہ۔

نمبر 7:

اس حدیث میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان کاتبِ وحی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ہے کہ جن کی زیرِ نگرانی یہ عظیم جہادی مہم روانہ ہوئی تھی اور اس پر رسول اللہ ﷺ بہت خوش تھے۔

نمبر 8:

اللہ کے راستے میں شہید ہو جانے والے یا اسی حالت میں طبعی موت مرنے والے دونوں اشخاص کا اجر برابر ہے اور بعض علماء کے نزدیک شہید کا اجر زیادہ ہے۔

نمبر 9:

بعض علماء کے نزدیک بری جہاد سے سمندری جہاد افضل ہے اور عصرِ حاضر میں یہی بات راجح نظر آتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ بہترین بحری بیڑے تیار کریں۔

نمبر 10:

اسی روایت کی دوسری صحیح سند میں آیا ہے کہ آپ ﷺ کا یہ سونا قیلولہ یعنی دوپہر کے وقت تھااور یہ کہ ام حرام نے اپنے خاوند سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہما کے ساتھ مل کر سمندری جہاد کیا تھا۔

چند مزید فوائد بھی پیشِ خدمت ہیں:

نمبر 1:

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ جنگی مہم اور بحری جہاد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں تھا اور قبرص کے مقام پر سیدہ ام حرام رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں تھیں۔

نمبر 2:

انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں۔

نمبر 3:

یہ حدیث بھی دلائلِ نبوت میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے غیب کی خبریں بیان فرمائیں جو آپ کی وفات کے بعد بعینہ پوری ہوئیں۔

نمبر 4:

جن روایات میں سمندری سفر کی ممانعت آئی ہے وہ ساری ضعیف و مردود ہیں۔

نمبر 5:

نیک کام میں شمولیت کی تمنا کرنا تقاضائے ایمان ہے۔

نمبر 6:

اچھے کام کے لئے کسی سے دعا کروانا جائز ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے الاتحاف الباسم تحقیق و شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم (ص 202 تا 204)