سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ایک عورت کے بھوکے بچوں کا قصہ

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:

مصعب بن عبداللہ بن مصعب الزبیری نے کہا: میرے والد عبداللہ بن مصعب نے مجھے حدیث بیان کی۔

انھوں نے ربیعہ بن عثمان الہدیری سے۔

انھوں نے زید بن اسلم سے۔

انھوں نے اسلم (مولیٰ عمر) سے (حدیث بیان کی)۔

کہ ہم (سیدنا) عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ حرۂ واقم کی طرف نکلے حتی کہ ہم جب صرار (کے مقام) پر پہنچے تو دیکھا کہ آگ جل رہی ہے۔

تو انھوں (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اسے اسلم! میں دیکھتا ہوں یہاں کچھ سوار ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں، رات اور سردی کی وجہ سے عاجز اور بے بس معلوم ہوتے ہیں، آؤ (ان کے پاس) چلیں۔

ہم دوڑتے ہوئے گئے اور ان کے قریب پہنچ گئے۔

دیکھا کہ ایک عورت کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے ہیں اور آگ پر ہنڈیا چڑہائی ہوئی ہے۔

عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا: اے روشنی والو! السلام علیکم، اور انھوں نے اے آگ والو! کہنا ناپسند کیا۔

تو اس عورت نے جواب دیا: وعلیکم السلام۔

انھوں (عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: کیا ہم قریب آجائیں؟

وہ عورت بولی: اچھے طریقے سے قریب آجائیں یا (ہمیں) چھوڑ دیں۔

پھر جب ہم قریب ہوئے تو انھوں (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: تمھیں کیا ہوا ہے؟

اس عورت نے کہا:رات ہوچکی ہے اور سردی بھی ہے۔

انھوں نے پوچھا: یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟

اس عورت نے جواب دیا: بھوک کی وجہ۔

انھوں نے پوچھا: ہانڈی میں کیا چیز (پک رہی) ہے؟

اس عورت نے جواب دیا: اس میں وہ ہے جس کے ساتھ میں ان بچوں کو چکرا رہی ہوں تاکہ وہ سو جائیں۔ ہمارے اور عمر کے درمیان اللہ ہے۔

انھوں (عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اللہ تجھ پر رحم کرے، عمر کو تمھارے بارے میں کیا پتا ہے؟

اس عورت نے کہا: عمر ہمارا حاکم ہے اور پھر ہم سے غافل رہتا ہے؟

انھوں (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) نے میری طرف رخ کرکے فرمایا: چلو ہمارے ساتھ۔

پھر ہم بھاگتے ہوئے اس جگہ گئے جہاں آٹا رکھنے کا سٹور تھا۔

انھوں نے آٹے کی ایک بوری اور چربی کا ایک ڈبہ نکالا اور کہا: یہ مجھ پر لاد دو۔

میں نے کہا: آپ کے بجائے میں اسے اٹھا لیتا ہوں۔

انھوں نے کہا: تیری ماں نہ رہے، کیا تو قیامت کے دن میرا وزن اٹھائے گا؟

لہٰذا میں نے یہ وزن آپ پر لاد دیا اور آپ کے ساتھ چلا، آپ بھاگے بھاگے جارہے تھے، پھر آپ نے یہ سامان اس عورت کے سامنے ڈال دیا اور تھوڑا سا آٹا نکال کر کہا: میں اسے ہوا میں اچھال کر صاف کرتا ہوں، تم اس میں میرے ساتھ تعاون کرو۔

وہ ہانڈی کے نیچے پھونکیں (بھی) مار رہے تھے پھر ہانڈی کو اتار دیا اور کہا: کوئی چیز لے آؤ۔

وہ ایک برتن لے آئی تو انھوں نے اسے اس برتن میں انڈیل دیا اور پھر ان سے فرمانے لگے: تم انھیں کھلاؤ اور میں اسے بچھاتا ہوں۔

انھوں نے سیر ہو کر کھا لیا اور کچھ کھانا باقی بھی رہ گیا۔

عمر (رضی اللہ عنہ) کھڑے ہوگئے اور میں بھی کھڑا ہوگیا۔

پھر وہ عورت کہہ رہی تھی: اللہ تجھے جزائے خیر دے: امیر المومنین (عمر رضی اللہ عنہ)کے بجائے تجھے صاحبِ اقتدار (خلیفہ) ہونا چاہئے تھا۔

انھوں نے فرمایا: جب تم امیر المومنین کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہنا اور وہاں مجھ سے بات کرنا۔ ان شاء اللہ

پھر آپ پیچھے ہٹ گئے اور زانووں کے بل بیٹھ گئے۔ ہم نے کہا: ہماری تو دوسری شان ہے۔

آپ مجھ سے کوئی کلام نہیں کررہے تھے پھر میں نے بچوں کو اچھلتے کودتے اور کھیلتے ہوئے دیکھا اور بعد میں وہ سوگئے۔

تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اے اسلم! بھوک نے ان کی نید ختم کررکھی تھی اور انھیں رُلا دیا تھا، لہٰذا میں نے یہ دیکھنا پسند کیا جو میں نے دیکھ لیا ہے۔

(فضائل الصحابہ ج 1 ص 290۔291 ح 382 وسندہ حسن)

اس روایت کے رایوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:

1: اسلم العدوی مولی عمر

ثقۃ لخضرم (تقریب التہذیب:465)

2: زید بن اسلم

ثقہ عالم (تقریب التہذیب:2315)

3: ربیعہ بن عثمان بن ربیعہ بن عبداللہ بن ھدیر التیمی المدنی ابو عثمان

وثقہ الجمھور و ھو حسن الحدیث من رجال صحیح مسلم

4: عبداللہ بن مصعب بن ثابت بن عبداللہ بن الزبیر بن العوام الزبیری

آپ پر جرح کی تفصیل درج ذیل ہے:

1: امام یحییٰ بن معین نے ضعیف کہا۔ (بحوالہ تاریخ بغداد)

اس قول کی سند میں محمد بن حمید بن سہل المخزمی جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔

2: ہیثمی [مجمع الزوائد 131/4، وقال 164/8:’’ھو ثقۃ‘‘!]

3: ابن حجر العسقلانی

اس جرح کے مقابلے میں درج ذیل محدثین سے آپ کی توثیق ثابت ہے:

1: ابن حبان

2: حاکم [المستدرک 195/2 ح 2733]

3: ذہبی [وافقہ الذہبی]

4: ابن جریر الطبری [صحح لہ فی تہذیب الآثار، الجزء المفقود 443/1 ح 784]

5: الضیا ء المقدسی [روی لہ فی المختارۃ 420/3۔421 ح 125، 127]

6: خطیب بغدادی [قال: کان محمودًا فی ولدیۃ، جمیل السیرۃ مع جلالۃ قدرہ وعظم شرفہ]

٭ ابو حاتم الرازی [قال: ھو شیخ بابۃ عبدالرحمٰن بن ابی الزناد]

٭ ابو زرعۃ الرازی [قال: الوھم منہ ۔۔۔۔شیخ]

مختصر یہ کہ عبداللہ بن مصعب الزبیری رحمہ اللہ جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث راوی ہیں۔

5: مصعب بن عبداللہ بن مصعب بن ثابت الزبیری البغدادی رحمہ اللہ

جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہونے کی وجہ سے صحیح الحدیث تھے۔ (نیز دیکھئے تقریب التہذیب: 7541)

6: عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ

ثقہ ہیں۔ (دیکھئے تقریب التہذیب:3550)

آپ کا مدلس ہونا معلوم نہیں، لہٰذا آپ کا اپنے استاد سے ’’ذکر‘‘ کہنا بھی سماع پر محمول ہے۔

مصعب بن عبداللہ سے امام عبداللہ بن احمد بن حنبل کے سماع کے لئے دیکھئے فضائل الصحابہ (ح88، 395، 431، 1785، 1823)

ثابت ہوا کہ روایت مذکورہ حسن لذاتہ ہے، نیز تاریخ ابن جریر الطبری وغیرہ میں اس کی دوسری سندیں بھی ہیں۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات (ج 6 ص 250 تا 253)