تمام مساجد میں اعتکاف جائز ہے


محدث العصر الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا کہ ’’کیا تین مساجد: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دوسری مساجد میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے؟‘‘

الجواب للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ

اور اپنی بیویوں سے اس وقت جماع نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہو۔

(البقرۃ: 187)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہر مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔ جمہور علماء نے اس آیت کریمہ سے استدلال کر کے ہر مسجد میں اعتکاف کو جائز قرار دیا ہے۔ دیکھئے شرح السنۃ للبغوی (ج 6 ص 394) مرعاۃ المفاتیح (ج 7 ص 165)

اس کے مقابلے میں بعض لوگوں کا یہ مؤقف ہے کہ صرف تین مساجد میں ہی اعتکاف جائز ہے: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ!

ان کے نزدیک دیگر مساجد میں اعتکاف جائز نہیں ہے۔

یہ لوگ اپنے دعویٰ کی تائید میں ایک روایت پیش کرتے ہیں:

سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِيْ رَاشِدٍ، عَنْ أَبِيْ وَائِلٍ قَالَ: قَالَ حُذَیْفَۃُ لِعَبْدِاللہِ: عُکُوفٌ بَیْنَ دَارِکَ وَدَارِ أَبِيْ مُوسَی لَاتُغَیِّرُ، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((لَا اعْتِکَافَ إِلَّا فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَۃِ))

رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: تین مساجد کے علاوہ (کسی مسجد میں) اعتکاف نہیں ہے۔

(المعجم للاسماعیلی 2/3/ 720 ح 336 واللفظ لہ، سیر اعلام النبلاء للذہبی 15/ 81، وقال:’’صحیح غریب عال‘‘ السنن الکبریٰ للبیہقی 4/ 316، مشکل الآثار 4/ 20، المحلیٰ لا بن حزم 5/ 194، مسئلہ: 633)

یہ روایت بلحاظ سند ضعیف ہے۔ اس کی تمام اسانید میں سفیان بن عیینہ راوی موجود ہیں جو کہ عن سے روایت کرتے ہیں۔ کسی ایک سند میں بھی ان کے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ حافظ اور مشہور مدلس تھے۔

حافظ ابن حبان لکھتے ہیں:

’’وھذا لیس فی الدنیا إلا لسفیان بن عیینۃ وحدہ فإنہ کان یدلس ولا یدلس إلا عن ثقۃ متقن‘‘

دنیا میں اس کی مثال صرف سفیان بن عیینہ ہی اکیلے کی ہے، کیونکہ آپ تدلیس کرتے تھے مگر ثقہ متقن کے علاوہ کسی دوسرے سے تدلیس نہیں کرتے تھے۔

(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج 1 ص 90، دوسرا نسخہ ج 1 ص 161)

امام ابن حبان کے شاگرد امام دارقطنی وغیرہ کا بھی یہی خیال ہے۔ (دیکھئے سوالات الحاکم للدارقطنی ص 175)

امام سفیان بن عیینہ درج ذیل ثقات سے بھی تدلیس کرتے تھے:

1) علی بن المدینی،

2) ابو عاصم، اور

3) ابن جریج

(دیکھئے الکفایۃ فی علم الروایہ للخطیب ص 362، نعمت الاثاثہ لتخصیص الاعتکاف بالمساجد الثلاثہ ص 79)

ایک دفعہ سفیان (بن عیینہ) نے (امام) زہری سے حدیث بیان کی بعد میں پوچھنے والوں کو بتایا کہ میں نے یہ زہری سے نہیں سنی اور نہ اس سے سنی ہے جس نے زہری سے سنا ہے۔

’’لَمْ أَسْمَعْہُ مِنَ الزُّہْرِيِّ وَلَا مِمَّنْ سَمِعَہُ مِنَ الزُّہْرِيِّ، حَدَّثَنِيْ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّہْرِيِّ‘‘

مجھے عبدالرزاق نے عن معمر عن الزہری یہ حدیث سنائی ہے۔

(علوم الحدیث للحاکم ص 105، الکفایہ ص 359، مقدمہ ابن الصلاح ص 95، 96، اختصار علوم الحدیث ص 51، تدریب الراوی ج 1 ص 224، فتح المغیث ج 1 ص 183)

[تنبیہ: اس روایت کی سند ابراہیم بن محمد السکونی السکری کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔]

ایک دفعہ آپ نے عمرو بن دینار (ثقہ) سے ایک حدیث بیان کی۔ پوچھنے پر بتایا کہ:

’’حَدَّثَنِيْ عَلِیُّ بْنُ الْمَدِینِيِّ عَنِ الضَّحَّاکِ بْنِ مَخْلَدٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ‘‘

مجھے علی بن مدینی نے عن الضحاک بن مخلد عن ابن جریج عن عمرو بن دینار کی سند سے یہ حدیث سنائی۔

(فتح المغیث 1 ص 184)

[یہ روایت صحیح سند کے ساتھ الکفایہ ص 359۔360 میں مطولاً موجود ہے۔]

حدیث اور اصول حدیث کے عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ یہ سند ابن جریج کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن جریج کا ضعفاء سے تدلیس کرنا بہت زیادہ مشہور ہے۔ (دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص 55، 56)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ابن عیینہ جن ثقہ شیوخ سے تدلیس کرتے تھے ان میں سے بعض بذاتِ خود مدلس تھے مثلاً ابن جریج وغیرہ۔ ابن عیینہ کے اساتذہ میں امام زہری، محمد بن عجلان اور سفیان ثوری وغیرہم تدلیس کرتے تھے لہٰذا امام سفیان بن عیینہ کا عنعنہ مشکوک ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ آپ صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے تھے، محل نظر ہے۔

سفیان (بن عیینہ) نے محمد بن اسحاق کے بارے میں امام زہری کا قول نقل کیا کہ:

’’أما إِنَّہ لَایزَال فِی النَّاس علم مَا بقي ہَذَا‘‘

لوگوں میں اس وقت تک علم باقی رہے گا جب تک یہ (محمد بن اسحاق بن یسار) زندہ ہیں۔

(تاریخ یحییٰ بن معین ج 1 ص 504، دوسرانسخہ 157 ت 979 من زوائد عباس الدوری، الکامل ابن عدی ج 6 ص 2119، میزان الاعتدال ج 3 ص 472)

اس روایت میں سفیان کے سماع کی تصریح نہیں ہے۔

سفیان نے یہ قول ابوبکر الہذلی سے سنا تھا۔ (الجرح والتعدیل ج 7 ص 191)

لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ سفیان بن عیینہ نے الہذلی سے تدلیس کی ہے۔

یہ الہذلی متروک الحدیث ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب 397)

سفیان بن عیینہ نے حسن بن عمارہ (متروک / تقریب التہذیب ص 71) سے بھی تدلیس کی ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ (ص 151)

خلاصہ یہ کہ امام سفیان بن عیینہ کا صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرنا محل نظر ہے، یہ اکثریتی قاعدہ تو ہو سکتا ہے کلی قاعدہ نہیں ہو سکتا۔

محدثینِ کرام نے ثقہ تابعی کی مرسل روایت اس خدشہ کی وجہ سے رد کر دی ہے کہ ہو سکتا ہے، اس نے غیر صحابی سے سنا ہو۔ اگر غیر صحابی (یعنی تابعی وغیرہ) سے سنا ہے تو ہو سکتا ہے کہ راوی ثقہ ہو یا ضعیف، لہٰذا مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے۔ بعینہ اسی طرح ’’لا اعتکاف‘‘ والی روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:

1) ہو سکتا ہے کہ سفیان عیینہ نے یہ روایت ثقہ سے سنی تھی یا غیر ثقہ سے؟ اگر غیر ثقہ سے سنی ہے تو مردود ہے۔

2) اگر ثقہ سے سنی تھی تو ہو سکتا ہے یہ ثقہ بذات خود مدلس ہوں، جیسا کہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔ جب سفیان کا استاد بذات خود مدلس ہے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس نے ضرور بالضروریہ روایت اپنے استاد سے ہی سنی تھی؟ جب اس کے سماع کی تصریح معلوم کرنا ناممکن ہے تو یہ خدشہ قوی ہے کہ اس کی بیان کردہ روایت اس کے ضعیف استاد کی وجہ سے ضعیف ہو۔ لہٰذا اس روایت کو شیخ ابو عمر عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ کا حافظ ذہبی کی پیروی کرتے ہوئے، ’’صحیح عندي‘‘ کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اصول حدیث کے سراسر خلاف ہے۔

جناب نورستانی صاحب اور جناب نجم اللہ سلفی صاحب حفظہما اللہ کی طرف راقم الحروف نے اردو زبان میں ایک خط لکھا تھا جس کا جواب کافی عرصے کے بعد عربی زبان وغیرہ میں ملا۔

اس جواب کے ملتے ہی راقم الحروف نے اس کا اردو میں جواب لکھ کر جناب نورستانی صاحب، جناب نجم اللہ صاحب اور بذریعہ خط کتابت جناب ڈاکٹر شجاع اللہ صاحب (لاہوری) کی خدمت میں ارسال کر دیا تھا۔

بعد میں شیخ نورستانی صاحب کی کتاب ’’نعمۃ الأ ثاثۃ لتخصیص الإعتکاف بالمساجد الثلاثۃ‘‘ ملی جس میں میرے پہلے خط کو ٹوٹی پھوٹی عربی میں ترجمہ کر کے مع جواب شائع کر دیا اور میرا دوسرا (تازہ) خط اس کتاب سے غائب ہے۔

میں نے لکھا تھا:

’’بسم اللہ الرحمان الرحیم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اما بعد:

جناب نورستانی صاحب اور جناب نجم اللہ صاحب کے نام!

آپ کا جواب ملا ہے، اس سلسلے میں چند معروضات پیشِ خدمت ہیں:

1- آپ اپنی مستدل سند میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کے سماع کی تصریح ثابت نہیں کر سکے ہیں اور نہ کوئی متابعت پیش کر سکے ہیں۔

2- امام ابن عیینہ رحمہ اللہ ثقہ مدلسین مثلاً امام ابن جریج رحمہ اللہ وغیرہ سے بھی تدلیس کرتے تھے لہٰذا ان کا عنعنہ مشکوک ہے۔ اس کا آپ دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

3- ابوبکر الہذلی کے سلسلے میں آپ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام ابن عیینہ رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کا قول الہذلی سے بھی سنا ہے اور امام زہری سے بھی۔ حالانکہ الجرح والتعدیل یا کسی کتاب سے یہ ثابت نہیں کہ انھوں نے خود یہ قول امام زہری سے سنا ہے۔

الہذلی کے قصہ میں درج ذیل باتیں مدنظر رکھیں:

1) سفیان نے محمد بن اسحاق کو زہری کے پاس دیکھا۔

2) ابن اسحاق نے زہری سے ان کے دربان کی شکایت کی۔

3) زہری نے دربان کو بلا کر سمجھایا۔

4) الہذلی نے زہری کا قول سفیان کو سنایا: ’’لا یزال بالمدینۃ علم…‘‘ إلخ

ان میں اول الذکر تین شقوں میں سفیان کا سماع ہے آخری شق میں نہیں، لہٰذا بعض راویوں کے اختصار سے آپ کا استدلال صحیح نہیں ہے۔

ابو قلابہ الرقاشی سے قطع نظر ’’اعلم بغزا‘‘ والی روایت اور ہے، لایزال بالمدینہ’’لایزال بالمدینہ‘‘ والی اور، اسے المزید فی متصل الاسانید سے سمجھنا صحیح نہیں ہے۔

آپ میرے سابق خط کے المشار الیہا صفحات کا دوبارہ مطالعہ کریں … … … … …

[ابو قلابہ عبدالملک بن محمد الرقاشی کے بارے میں راجح یہی ہے کہ وہ حسن الحدیث تھے کیونکہ جمہور محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔ روایتِ مذکورہ میں محمد بن جعفر بن یزید اور محمد بن ابراہیم المزنی کی توثیق مطلوب ہے۔]

امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی تدلیس کے بارے میں چند مزید فوائد پیشِ خدمت ہیں:

1- ابو حاتم الرازی نے سفیان بن عیینہ عن ابن ابی عروبہ والی ایک روایت کے بارے میں فرمایا: اگر یہ (روایت) صحیح ہوتی تو ابن ابی عروبہ کی کتابوں میں ہوتی اور ابن عیینہ نے اس حدیث میں سماع کی تصریح نہیں کی اور یہ بات اسے ضعیف قرار دے رہی ہے۔ (علل الحدیث 1/ 32 ح 60، الفتح المبین ص 41)

2- ابن ترکمانی حنفی نے کہا: ’’ثم إن ابن عیینۃ مدلس وقد عنعن فی السند‘‘ پھر اس میں ابن عیینہ مدلس ہیں اور انھوں نے عن سے سند بیان کی ہے۔ (الجوہر النقی 2/ 138)

نیز دیکھئے المستدرک للحاکم (2/ 539 ح 3985)

4- جناب نجم اللہ صاحب کا امام ذہبی و علامہ البانی کی تقلید میں صحیحین پر طعن کرنا کہ ’’اور شروط سماع نہ ہوں تو بھی روایت مردود ہو گی‘‘ غلط ومردود ہے۔

صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے بلکہ ان کی صحت پر اجماع ہے۔ صرف یہی دلیل اس بات کے لئے کافی ہے کہ صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع یا متابعت پر محمول ہیں۔

5- امام سفیان بن عیینہ کی معنعن روایت بلحاظِ سند ضعیف و بلحاظ متن منکر ہے لہٰذا اسے ’’صحیح عندي‘‘ کہنا غیر صحیح ہے۔

6- آپ دونوں حضرات سے درخواست ہے کہ اس ضعیف و معلول روایت کو لوگوں میں پھیلا کر اُمت میں فتنہ پیدا نہ کریں۔ وما علینا إلا البلاغ، زبیر علی زئی، 99۔10۔14‘‘

اس خط کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔

مختصر عرض ہے کہ سفیان بن عیینہ کی بیان کردہ روایت: ’’لَا اعْتِکَافَ إِلَّا فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَۃِ‘‘ بلحاظ سند ضعیف ہے۔

اس میں اور بھی بہت سی علتیں ہیں۔ مثلاً اس کے متن میں اختلاف وتعارض ہے، موقوف و مرفوع ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنیاد وہ نامعلوم شخص ہے جس نے سفیان بن عیینہ کو یہ حدیث سنائی ہے۔ جمہور علماءِ اسلام کے بعض اعتراضات ’’نعمت الاثاثہ‘‘ نامی کتاب میں بھی موجود ہیں۔ فاضل مولف نے ان اعتراضات کے ناکام جوابات دینے کی کوشش کی ہے لیکن حق وہی ہے جو جمہور علماء اسلام نے قرآن مجید کی آیت کریمہ: وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ سے سمجھا ہے۔

یہاں بطور نکتہ عرض ہے کہ ’’المساجد‘‘ کی تخصیص تین مساجد: (مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ) کے ساتھ کرنا تاریخی طور پر بھی غلط ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کا مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کرنا کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے، بلکہ بیت المقدس (جہاں مسجد اقصیٰ موجود ہے) اس زمانے میں صلیبی پولسی عیسائیوں کے قبضہ میں تھا۔ اسے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے 15ھ میں فتح کیا۔ (دیکھئے البدایہ والنہایہ ج 7 ص 56 وغیرہ)

لہٰذا اس آیت کریمہ کے شانِ نزول میں مسجد حرام، مسجد نبوی کے ساتھ وہ تمام مساجد شامل ہیں جو کہ عہد نبوی میں موجود تھیں۔ مساجد کا لفظ کم از کم تین (یا اس سے زیادہ) مسجدوں پر مشتمل ہے۔

شان نزول کے وقت مسجد اقصیٰ کے خروج سے یہ خود بخود ثابت ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام مساجد بشمول مساجد ثلاثہ میں اعتکاف میں بیٹھنا جائز ہے۔ [شہادت، جنوری 2000ء]

’’لا اعتکاف‘‘والی روایت ضعیف ہے:

سوال: اعتکاف کے سلسلے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟ (ایک سائل)

الجواب:

امام ابو حاتم رازی نے ’’لااعتکاف‘‘ والی روایت کے راوی امام سفیان بن عیینہ کی ایک حدیث کو اس وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس میں سفیان مذکور نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ (علل الحدیث ج 1 ص 32 ح 60 والمخطوطہ 18، وفوائد فی کتاب العلل بقلم المعلمی ص 29)

شیخ ناصر بن حمد الفہد نے لکھا ہے:

’’وھذا یفید أن ابن عیینۃ أحیانًا یدلس عن الضعفاء‘‘

اور یہ اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ ابن عیینہ بعض اوقات ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔

(منہج المتقد مین فی التدلیس ص 36)

سعودی عرب کے مشہور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد حفظہ اللہ نے اس کتاب کی تقریظ لکھی ہے۔

ان دو تازہ حوالوں سے بھی یہی ثابت ہوا کہ ’’لَا اعْتِکَافَ إِلَّا فِی الْمَسَاجِدِ الثَّلَاثَۃِ‘‘ (تین مسجدوں کے سوا اعتکاف نہیں ہے) والی حدیث ضعیف ہے۔ [شہادت، جنوری 2003ء]

……………… اصل مضمون ………………

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 2 صفحہ 147 تا 154) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ