طارق جمیل صاحب کی بیان کردہ روایتوں کی تحقیق

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


پہلی روایت:

طارق جمیل تبلیغی دیوبندی صاحب ایک مشہور واعظ ہیں، انھوں نے ایک واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

’’سعد السلیمی رضی اللہ عنہ بنو سلیم کے بدصورت، کالے رنگ والے تھے۔

نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’جاؤ عمرو (بن وہب الثقفی) سے کہو (وہ) اپنی لڑکی تیرے نکاح میں دے دے‘‘۔

جب سعد رضی اللہ عنہ وہاں (عمرو رضی اللہ عنہ کے گھر کے دروازے کے پاس) پہنچے تو معلوم ہونے کے بعد عمرو بن وھب نے انکار کر دیا: ’’بھاگ جا کہاں کی بات کرتا ہے؟‘‘

عمرو کی بیٹی جو خوبصورت اور حسن و جمال میں مشہور تھی، بولی: ’’اے ابا جان! یہ سوچ لو کیا کر رہے ہو، تم نبی کی بات کو ٹھکرا رہے ہو ہلاک ہو جاؤ گے، میں تیار ہوں، نبی کے حکم کے سامنے میں کالے گورے کو نہیں دیکھ رہی، میں نبی کے حکم کو دیکھ رہی ہوں، جاؤ میں تیار ہوں اور کہہ دو: میں شادی کروں گی‘‘۔

اس کے بعد چار سو درہم حق مہر پر شادی ہو گئی‘‘۔

یہ مفصل واقعہ جناب طارق جمیل صاحب کے بیان کردہ ’’ایمان افروز اصلاحی واقعات‘‘ کے مجموعے ’’دلچسپ اصلاحی واقعات‘‘ (ترتیب محمد ارسلان اختر) میں درج ہے۔ (ص 220 تا 223)

مہربانی فرما کر اس واقعے کی تحقیق کر کے ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ میں شائع کریں، جزاکم اللہ خیراً۔

الجواب:

طارق جمیل صاحب کا بیان کردہ یہ واقعہ ’’سوید بن سعید: ثنا محمد بن عمر الکلاعی عن الحسن و قتادہ عن انس رضی اللہ عنہ‘‘ کی سند کے ساتھ درج ذیل کتابوں میں موجود ہے: کتاب المجروحین لابن حبان (ج 2 ص 291، 292) الکامل لابن عدی (ج 6 ص 2215، 2216)۔

اس روایت کے راوی محمد بن عمر کے بارے میں امام حاکم النیسابوری فرماتے ہیں: ’’روی عن الحسن وقتادۃ حدیثاً موضوعاً، روی عنہ سوید بن سعید‘‘ (المدخل للحاکم: ص 205 ت 186 لسان المیزان: 5 ص 319 واللفظ لہ) یعنی یہ روایت، امام حاکم کے نزدیک موضوع (من گھڑت) ہے۔

اس روایت کے راوی محمد بن عمر الکلاعی کے بارے میں امام ابن عدی نے فرمایا: ’’منکر الحدیث عن ثقات الناس‘‘ وہ ثقہ راویوں سے منکر حدیثیں بیان کرتا ہے۔ (الکامل: ج 6 ص 2215)

حافظ ابن حبان نے کہا: ’’مُنْکَرُ الْحَدِیْثِ جِدًّا‘‘ یہ سخت منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے۔ (المجروحین: ج 2 ص 291)

خلاصۃ التحقیق:

یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے جسے طارق جمیل صاحب نے بیان کیاہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ ’’تخریج الروایات اور ان کا حکم‘‘ اور ماہنامہ الحدیث شمارہ 3 صفحہ 34

دوسری روایت:

طارق جمیل صاحب فرماتے ہیں:

’’نباتہ بن یزید نخعی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یمن کے علاقے سے اللہ کے راستے میں نکلے، راستے میں گدھا مر گیا، ساتھیوں نے کہا، سامان ہمیں دے دو،کہا: نہیں، چلو میں آتا ہوں، ان کو آگے روانہ کیا، خود مصلی بچھایا، اللہ اکبر، دو نفل پڑھے: اے میرے مولا، تو ہر چیز سے غنی، میں ہر چیز کا محتاج، تو مردوں کا زندہ کرنے والا، گدھے کی روح تو نے قبض کی ہے، مجھے لمبا سفر کرنا ہے، مجھے اس کی ضرورت ہے اے اللہ اسے زندہ کر دے، یہ کہہ کر اٹھے، چھڑی اٹھائی اور ایک ماری، کہا: اٹھو اللہ کے حکم سے، وہ ایک دم گدھا کود کے کھڑا ہو گیا‘‘۔ (دلچسپ اصلاحی واقعات ص 223)

الجواب:

یہ واقعہ حافظ ابن حجر نے الاصابۃ میں ابو بکر بن درید کی کتاب ’’الأخبار المنثورۃ‘‘ سے ’’ابن الکلبي عن أبیہ عن مسلم بن عبداللہ بن شریک النخعي‘‘ کی سند سے نقل کیاہے۔ (ج 3 ص 582، القسم الثالث: ت 8850)

اس کا راوی محمد بن السائب الکلبی کذاب ہے۔

سلیمان التیمی نے کہا: ’’کان بالکوفۃ کذابان أحدھما الکلبي‘‘ کوفہ میں دو کذاب (جھوٹے راوی) تھے ان میں سے ایک کلبی ہے۔ (تہذیب التہذیب 9/157)

یزید بن زریع کہتے ہیں: ’’أشھد أن الکلبي کافر‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ کلبی کافر ہے۔ (تہذیب التہذیب 9/158)

جوزجانی نے کہا: ’’کذاب ساقط‘‘ کلبی جھوٹا ساقط ہے۔ (تہذیب التہذیب 9/ 159)

اس کا دوسرا راوی ہشام بن محمد بن السائب الکلبی ہے۔

اس کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: ’’متروک‘‘ ، ابن عساکر نے کہا: ’’رافضي لیس بثقۃ‘‘ یہ رافضی ہے ثقہ نہیں ہے۔ (لسان المیزان 6/ 196)

تنبیہ: ابن الکلبی تک سند نامعلوم ہے۔

خلاصۃ التحقیق:

یہ روایت موضوع (جعلی، من گھڑت) ہے۔

اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ ’’تخریج الروایات اور ان کا حکم‘‘ اور ماہنامہ الحدیث شمارہ 3 صفحہ 34