ضعیف روایات اور اُن کا حکم

تحریر: محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ


یہ مضمون یہاں اختصار کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ اصل اور مکمل مضمون کے لئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تحقیقی مقالات‘‘ جلد 2 صفحہ 266 دیکھیں۔ ماہنامہ الحدیث شمارہ 53 صفحہ 18 پر بھی یہ مضمون شائع ہوچکا ہے۔

اُصولِ حدیث کی رُو سے قبول اور رَد کے لحاظ سے حدیث کی 2 قسمیں ہیں:

  1. صحیح (مقبول)

  2. ضعیف (مردود)

دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (1/ 99 مع الباعث الحثیث والشرح للالبانی رحمہ اللہ)

اور تحفۃ اہل النظر فی مصطلح اہل الخبر لابی معاذ عبدالجلیل الاثری (ص 37) وغیرہ

مولانا سلطان محمود محدّث جلالپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’حدیث کی تقسیم مقبول اور غیر المقبول یا المردود کے اعتبار سے:

المقبول: جس حدیث پر ائمہ سنت کے نزدیک عمل واجب ہو۔

غیر المقبول یا المردود: جس حدیث کے بیان کرنے والے کا صدق راجح نہ ہو۔‘‘

(اصطلاحات المحدّثین ص 9)

ڈاکٹر محمود طحان کویتی لکھتے ہیں:

’’قوت و ضعف کے لحاظ سے خبر آحاد کی تقسیم:

خبر آحاد (مشہور، عزیز اور غریب) اپنی قوت و ضعف کے لحاظ سے دو قسموں پر مشتمل ہے:

  1. مقبول: وہ خبر ہے جو مخبر بہٖ یعنی نفس مضمون کی صداقت کے باعث ترجیح پا جائے، اس کا حکم یہ ہے کہ اسے بطورِ دلیل پیش کرنا واجب اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔

  2. مردود: وہ خبر ہے جو مخبر بہٖ یعنی نفس مضمون کی عدم صداقت کے باعث ترجیح نہ پا سکے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ نہ اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے اور نہ اس پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘

(اصطلاحاتِ حدیث اردو ص 39، واللفظ لہ، تیسیر مصطلح الحدیث ص 32)

بعض علماء نے حدیث کی تین اقسام بیان کی ہیں:

  • صحیح

  • حسن

  • ضعیف

دیکھئے علوم الحدیث لابن الصلاح عرف مقدمۃ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح للعراقی (ص 18، دوسرا نسخہ ص 79)

اور التقریب للنووی (ص 2) وغیرہ۔

چونکہ حسن بھی صحیح کی ایک قسم ہے لہٰذا اصل میں قبول اور رد کے لحاظ سے دو قسمیں ہی بنتی ہیں:

  • صحیح اور ضعیف

  • مقبول اور غیر مقبول (مردود)

صحیح حدیث حجت ہوتی ہے اور اس کی مشہور و مستند کتابیں صحیح بخاری و صحیح مسلم ہیں جنھیں امت کی تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے علاوہ صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، صحیح ابن الجارود، سنن ابی داود، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں صحیح احادیث کثرت سے موجود ہیں۔

اہل سنت کے مشہور امام اور عظیم محدّث احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی الہاشمی المطلبی رحمہ اللہ کا ذکر کیا اور فرمایا:

میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا:

جب تمھارے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو مجھے بتا دو تاکہ میں اسے اپنا مذہب قرار دوں، جس علاقے میں بھی (یہ حدیث) ہو۔

(حلیۃ الاولیاء 9/ 106، وسندہ صحیح)

امام احمد ہی سے روایت ہے کہ (امام) شافعی نے مجھے فرمایا:

تم حدیث اور رجال کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو لہٰذا اگر صحیح حدیث ہو تو مجھے بتا دینا: کوفے کی حدیث ہو یا بصرے (عراق) کی یا شام کی (حدیث ہو) تاکہ میں اس پر عمل کروں بشرطیکہ حدیث صحیح ہو۔

(مناقب الشافعی للامام ابن ابی حاتم ص 70 وسندہ صحیح)

ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:

ایک دفعہ (امام) شافعی نے ایک حدیث بیان کی تو ایک آدمی نے پوچھا: اے ابو عبداللہ! کیا آپ اس حدیث کو لیتے ہیں؟

تو انھوں نے فرمایا: جب بھی میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی صحیح حدیث بیان کروں پھر اس سے استدلال نہ پکڑوں تو اے جماعت! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میری عقل ختم ہو چکی ہے۔

(مناقب الشافعی للبیہقی 1/ 474 وسندہ صحیح)

امام شافعی رحمہ اللہ کے ان صحیح و ثابت اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ:

  1. صحیح حدیث حجت ہوتی ہے۔

  2. امام شافعی رحمہ اللہ متبعِ حدیث تھے۔

  3. ایسی حدیثیں بھی ہوتی ہیں جو صحیح نہیں ہیں۔

  4. غیر صحیح یعنی ضعیف حدیث حجت نہیں ہوتی۔

  5. صحیح حدیث حجت ہے چاہے وہ مکے مدینے کی ہو یا عراق و شام وغیرہ کی ہو۔

  6. حدیث کی جانچ پڑتال کے لئے اسماء الرجال کے ماہر محدثین کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

  7. ہر وقت حق کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

  8. یہ ضروری نہیں ہے کہ مجتہد اور ہر بڑے عالم کو ہر حدیث اور ہر دلیل معلوم ہو۔

  9. علماء کی یہ شان ہے کہ وہ ہمیشہ تواضع سے کام لیتے ہیں۔

  10. صحیح احادیث کا انکار کرنے والے لوگ قرآن و حدیث اور اجماع کے انکار کے ساتھ سلف صالحین کے بھی مخالف ہیں۔

وغیر ذلک من الفوائد

ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اللہ اُس آدمی پر رحم کرے جو مجھ سے کوئی حدیث سُنے پھر اسے یاد کر لے حتیٰ کہ اسے دوسرے تک پہنچا دے کیونکہ بعض اوقات فقہ اُٹھانے والا، اُسے اس تک پہنچا دیتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے اور بعض اوقات فقہ اُٹھانے والا فقیہ نہیں ہوتا۔

(صحیح ابن حبان: 67 وسندہ صحیح)

اس حدیث پر حافظ ابن حبان نے باب باندھا ہے:

’’ذکر رحمۃ اللہ جلّ وعلا من بلّغ أمۃ المصطفٰی ﷺ حدیثًا صحیحًا عنہ‘‘

اس شخص کے لئے اللہ جل وعلا کی رحمت کا ذکر جو مصطفی ﷺ کی اُمت تک آپ کی طرف سے صحیح حدیث پہنچا دے۔

(الاحسان ج1ص 270 قبل ح 67)

صحیح حدیث کیا ہوتی ہے؟

اصولِ حدیث میں اس کی شرائط بیان کر دی گئی ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

  1. ہر راوی عادل ہو۔

  2. ہر راوی ضابط ہو۔

    عادل اور ضابط کے مجموعے کو ثقہ کہا جاتا ہے۔

    اور اگر ضبط میں کچھ کمی یا شبہ ہو تو جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی کو حسن الحدیث کہا جاتا ہے اور اس کی حدیث حسن لذاتہ ہوتی ہے جو صحیح حدیث کی ہی ایک قسم ہے۔

  3. سند متصل ہو۔

  4. شاذ نہ ہو۔

  5. معلول نہ ہو۔

    مثلاً دیکھئے اختصار علوم الحدیث (ص 99 ج 1مع تحقیق الالبانی)

یہاں خواہشاتِ نفسانیہ اور فرقہ پرستی کا دخل نہیں بلکہ اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کو مدِّنظر رکھ کر، اللہ تعالیٰ کو عالم ناظر سمجھ کر عدل و انصاف کے ساتھ حکم لگایا جاتاہے۔ جو شخص اس کے خلاف چلتا ہے تو اس کا حکم مردود ہوتا ہے۔

ضعیف روایت:

اصولِ حدیث میں ضعیف روایت کو غیر مقبول اور مردود روایات کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً دیکھئے تیسیر مصطلح الحدیث (ص 62)

احکام و عقائد میں تو سب علماء کے نزدیک ضعیف حدیث مردود ہے لیکن بعض علماء اسے ضعیف تسلیم کر کے فضائلِ اعمال وغیرہ میں اس کی روایت یا عمل کو مستحب قرار دیتے ہیں لیکن وہ اسے بعض شرائط کے ساتھ مشروط کر دیتے ہیں:

شرط اول: ضعف شدید نہ ہو، کذابین متہمین بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے کی روایت نہ ہو، اس شرط پر اتفاق (اجماع) ہے۔

شرط دوم: کسی عام دلیل کے تحت درج ہو۔

شرط سوم:عمل کے وقت اس کے ثبوت کا عقیدہ نہ رکھا جائے۔ (دیکھئے القول البدیع فی فضل الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع ص 258)

شرط چہارم: عامل کو یہ عقیدہ رکھنا چاہئے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ (تبیین العجب بما ورد فی فضائل رجب لابن حجر ص 72)

شرط پنجم: مدح اور ذم کے لحاظ سے اس حدیث کا حکم شریعت میں ثابت ہو۔

شرط ششم: یہ ضعیف روایت صحیح حدیث کی تفصیلات وغیرہ پر مبنی نہ ہو۔ دیکھئے حکم العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال لابی الیسر اشرف بن سعید المصری (ص 55)

اتنی شرطوں پر عمل کرنے کے لئے حدیث کی تخریج اور سند کی تحقیق کرنی ضروری ہے۔

جب تحقیق آئے گی تو ضعیف روایتوں کی جگہ صحیح روایتیں لے لیں گی۔

علمائے کرام کا دوسرا گروہ ضعیف روایات پر عمل کا قائل نہیں چاہے عقائد و احکام ہوں یا فضائل و مناقب اور اسی گروہ کی تحقیق راجح ہے۔

اس گروہ کے جلیل القدر علماء کے آثار میں سے دس حوالے پیشِ خدمت ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ علماء ضعیف حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے:

  1. بُشَیر بن کعب العدوی (تابعی) رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے حدیثیں بیان کرنا شروع کردیں:

    ’’قال رسول اللہ ﷺ قال رسول اللہ ﷺ‘‘

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

    تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نہ اُن کی حدیثیں سنیں اور نہ اُن کی طرف دیکھا۔

    دیکھئے صحیح مسلم (ترقیم دارالسلام: 21)

    اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ مرسل روایات کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

    حافظ ابن حجر العسقلانی نے بھی اس واقعے سے یہی سمجھا ہے۔ دیکھئے النکت علیٰ ابن الصلاح (2/ 553، النوع التاسع: المرسل)

    جب مرسل روایت جو کہ ضعیف احادیث کی ایک قسم ہے، حجت نہیں ہے تو دوسری ضعیف روایات بدرجۂ اولیٰ حجت نہیں ہیں۔

  2. امام مسلم کے ایک طویل کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ احکام ہوں یا ترغیب و ترہیب (فضائل وغیرہ) ہر حال میں ضعیف حدیث حجت نہیں ہے۔

    (مقدمہ صحیح مسلم مطبوعہ دارالاشاعت کراچی ج1ص 185، 186، مع شرح النووی 1/123۔127، مطبوعہ دارالسلام ص 19، رقم: 92)

    ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں:

    مسلم نے اپنی کتاب (صحیح مسلم) کے مقدمے میں جو ذکر کیا ہے اس کا ظاہری معنی یہ ہے کہ ترغیب و ترہیب (فضائل وغیرہ) میں بھی انھی راویوں سے روایتیں بیان ہونی چاہئیں جن سے احکام کی روایتیں بیان کی جاتی ہیں۔

    (شرح علل الترمذی ج1ص 74)

  3. امام سعد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے فرمایا:

    ’’لا یحدّث عن رسول اللہ ﷺ إلا الثقات‘‘

    رسول اللہ ﷺ سے صرف ثقہ راوی ہی حدیث بیان کریں۔

    (مقدمہ صحیح مسلم طبع دارالسلام: 31)

    معلوم ہوا کہ امام سعد بن ا براہیم رحمہ اللہ غیر ثقہ و ضعیف راویوں کی روایات کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

  4. ابو اسحاق ابراہیم بن عیسیٰ الطالقانی رحمہ اللہ نے امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کے سامنے ایک منقطع روایت فضائل میں بیان کی تو انھوں نے اس پر کلام کر کے رد کر دیا۔

    دیکھئے مقدمہ صحیح مسلم (ص 11 رقم: 32)

  5. ابن لہیعہ نے ایک حدیث بیان کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

    جو شخص عصر کے بعد سو جائے پھر اس کی عقل زائل ہو جائے تو وہ صرف اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔

    مروان بن محمد الطاطری (ثقہ) فرماتے ہیں کہ میں نے رمضان میں دیکھا، لیث بن سعد (رحمہ اللہ) عصر کے بعد سو گئے تو میں نے پوچھا: اے ابو الحارث ! آپ عصر کے بعد کیوں سو جاتے ہیں اور ہمیں ابن لہیعہ نے عقیل عن مکحول کی سند سے حدیث بیان کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص عصر کے بعد سو جائے پھر اس کی عقل زائل ہو جائے تو وہ اپنے سوا کسی کو ملامت نہ کرے۔

    (امام) لیث نے فرمایا:

    ’’لا أدع ما ینفعني بحدیث ابن لھیعۃ عن عقیل‘‘

    مجھے جو چیز فائدہ دیتی ہے، میں اسے ابن لہیعہ کی عقیل سے روایت کی بنا پر نہیں چھوڑ سکتا۔

    (الکامل لابن عدی ج4ص 1463، وسندہ حسن، دوسرا نسخہ ج5ص 239، 240)

    معلوم ہوا کہ امام لیث بن سعد المصری رحمہ اللہ بھی ضعیف حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے چاہے مسئلہ فضائل کا ہو یا احکام وغیرہ کا۔

    نیز دیکھئے الضعیفۃ للالبانی (1/ 57ح 39)

  6. امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ امام زہری اور قتادہ رحمہمااللہ کی مرسل روایات کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے اور فرماتے: ’’ھو بمنزلۃ الریح‘‘ یہ ہوا کی طرح ہیں۔ (المراسیل لابن ابی حاتم ص 3 وسندہ صحیح)

    معلوم ہوا کہ امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ بھی ضعیف روایات کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

  7. امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا: زہری کی مرسل روایتیں کچھ چیز بھی نہیں ہیں۔

    (المراسیل لابن ابی حاتم ص 3 وسندہ صحیح، تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 1027)

    ثابت ہوا کہ امام ابن معین رحمہ اللہ بھی ضعیف روایات کو کچھ چیز نہیں سمجھتے تھے۔

  8. امام ابن حبان نے فرمایا: گویا جو ضعیف روایت بیان کرے اور جس روایت کا وجود ہی نہ ہو وہ دونوں حکم میں برابر ہیں۔

    (کتاب المجروحین 1/ 328، الحدیث حضرو:5ص15)

  9. امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ (متوفی 277ھ) نے فرمایا:

    ’’ابو زرعہ (الرازی رحمہ اللہ، متوفی 264ھ) نے مجھ سے پو چھا: کیا آپ قنوت میں ہاتھ اُٹھاتے ہیں؟

    میں نے کہا: نہیں!

    پھر میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ (قنوت میں) ہا تھ اُٹھا تے ہیں؟

    انھوں نے کہا: جی ہاں۔

    میں نے پوچھا: آپ کی دلیل کیا ہے؟

    انھوں نے کہا: حدیث ابن مسعود۔

    میں نے کہا: اسے لیث بن ابی سلیم نے روایت کیا ہے۔

    انھوں نے کہا: حدیث ابی ابوہریرہ۔

    میں نے کہا: اسے ابن لہیعہ نے روایت کیا ہے۔

    انھوں نے کہا:حدیث ابن عباس۔

    میں نے کہا: اسے عوف (الاعرابی) نے روایت کیا ہے۔

    تو انھوں نے پوچھا: آپ کے پا س (قنوت میں) ہاتھ نہ اٹھانے کی کیا دلیل ہے؟

    میں نے کہا: حدیث انس کہ بے شک رسول اللہ ﷺ کسی دعا میں ہا تھ نہیں اٹھاتے تھے سوائے استسقاء کے۔

    تو وہ (ابو زرعہ رحمہ اللہ) خاموش ہو گئے۔

    (تاریخ بغداد ج 2 ص 76 ت 455 وسندہ حسن، وذکرہ الذہبی فی سیر اعلام النبلاء 13/ 253)

    تنبیہ: اس حکایت کے راویوں کے تذکرہ کے لئے اور جو روایات پیش کی گئی ہیں اُن کی تحقیق کے لئے اس بلاگ پوسٹ کا اصل مضمون دیکھیں۔

    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ حسن لغیر ہ حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ کیونکہ امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ کی ذکر کر دہ تینو ں روایات ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں اور ان کا ضعف شدید نہیں ہے۔ جو لوگ ضعیف+ضعیف سے حسن لغیر ہ بنا دیتے ہیں، ان کے اصول پر یہ روایات باہم مل کر حسن لغیرہ بن جاتی ہیں۔

    آپ نے دیکھ لیا ہے کہ ابو حاتم رازی حسن لغیر ہ روایات کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

  10. جعفر بن ابی وحشیہ ایک ثقہ راوی ہیں لیکن امام شعبہ اُن کی حبیب بن سالم (صدوق راوی) سے روایت کو ضعیف سمجھتے تھے۔

    (دیکھئے تقدمۃ الجرح والتعدیل ص 157، وسندہ صحیح)

    وجہ یہ تھی کہ انھوں نے حبیب بن سالم سے نہیں سُنا تھا۔ (دیکھئے تہذیب الکمال 8جلدوں والا نسخہ ج1ص 454)

    معلوم ہوا کہ امام شعبہ بھی ضعیف حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔

آخر میں عرض ہے کہ ہم اپنی خواہشات یا گروہ و فرقہ پرستی کی وجہ سے روایات پر صحیح یا ضعیف کا حکم نہیں لگاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو عالم ناظر سمجھتے ہوئے، اصولِ حدیث اور اسماء الرجال کے علم کو مدِّنظر رکھتے ہوئے، جمہور محدثین کی تحقیق و اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اور آخرت کے محاسبے پر ایمان کے ساتھ حدیث پر صحیح و حسن یا ضعیف وغیرہ کا حکم لگاتے ہیں۔

اگر کوئی شخص دلیل کے ساتھ ہماری غلطی ثابت کر دے تو علانیہ رجوع کرتے ہیں۔

ہمارے منہج کی تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو:

یہ مضمون یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ اصل اور مکمل مضمون کے لئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تحقیقی مقالات‘‘ جلد 2 صفحہ 266 دیکھیں۔

ماہنامہ الحدیث شمارہ 53 صفحہ 18 پر بھی یہ مضمون شائع ہوچکا ہے۔