Sheikh Zubair Alizai

Jamia al-Tirmidhi Hadith 2 (سنن الترمذي)

[2]صحیح

صحیح مسلم

تحقیق وتخریج:محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ شُعْبَةَ،عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ قَالَ: اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ-قَالَ شُعْبَةُ: وَقَدْ قَالَ مَرَّةً أُخْرَی: أَعُوذُ بِاللّہِ-مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِيثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَجَابِرٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَنَسٍ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَحَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ فِي إِسْنَادِہِ اضْطِرَابٌ: رَوَی ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ،عَنْ قَتَادَةَ،فَقَالَ سَعِيدٌ: عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَوْفٍ الشَّيْبَانِيِّ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ،وقَالَ ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ: عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. وَرَوَاہُ شُعْبَةُ وَمَعْمَرٌ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ،فَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ،وَقَالَ مَعْمَرٌ: عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَی: سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا؟ فَقَالَ: يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ قَتَادَةُ رَوَی عَنْہُمَا جَمِيعًا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺجب قضائے حاجت کے لیے پاخانہ میں داخل ہوتے تویہ دعاء پڑھتے:اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْخُبْثِ وَالْخَبِیثِ أَوْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ (اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی سے اورناپاک شخص سے،یا ناپاک جنوں سے اورناپاک جنیوں سے) ۱؎۔ شعبہ کہتے ہیں: عبدالعزیزنے دوسری باراللہم إنی أعوذبک کے بجائے أعوذ باللہ کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں علی،زیدبن ارقم،جابراورابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح اورعمدہ ہے،۳-زیدبن ارقم کی سند میں اضطراب ہے،امام بخاری کہتے ہیں: کہ ہوسکتا ہے قتادہ نے اسے (زیدبن ارقم سے اورنضربن انس عن أبیہ) دونوں سے ایک ساتھ روایت کیا ہو۔

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ،حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ قَالَ: اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ . قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔

انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو پڑھتے:اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ (اے اللہ میں تیری پناہ چاہتاہوں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ،حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ،عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ،عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَرَجَ مِنْ الْخَلاَءِ قَالَ: غُفْرَانَكَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ،لاَ نَعْرِفُہُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ. وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَی-اسْمُہُ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَيْسٍ الأشْعَرِيُّ-. وَلاَ نَعْرِفُ فِي ہَذَا الْبَابِ إِلاَّ حَدِيثَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے بعدجب پاخانہ سے نکلتے توکہتے: غفرانک (یعنی اے اللہ: میں تیری بخشش کا طلب گارہوں ۱؎)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے ۲؎،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی حدیث معروف ہے ۳؎

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی،قَالاَ: حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ،حَدَّثَنَا أَبِي،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ،عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ،عَنْ مُجَاہِدٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ: نَہَی النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِبَوْلٍ،فَرَأَيْتُہُ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ بِعَامٍ يَسْتَقْبِلُہَا. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَعَائِشَةَ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ جَابِرٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایاکہ ہم پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ کریں،پھر میں نے وفات سے ایک سال پہلے آپ کو قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوقتادہ،عائشہ،اورعمار بن یاسر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَہِيعَةَ،عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،عَنْ جَابِرٍ،عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ يَبُولُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ. وَحَدِيثُ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ،وَابْنُ لَہِيعَةَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ،ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُہُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ.

عبداللہ بن لہیعہ نے یہ حدیث ابوالزبیرسے اورابوالزبیرنے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺکو قبلہ کی طرف منہ کرکے پیشاب کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ کی نبی اکرمﷺسے یہ حدیث ابن لہیعہ کی حدیث(جس میں جابرکے بعد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کا واسطہ ہے) سے زیادہ صحیح ہے،ابن لہیعہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں،یحییٰ بن سعیدالقطان وغیرہ نے ان کی حفظ کے اعتبارسے تضعیف کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ،عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،قَالَ: رَقِيتُ يَوْمًا عَلَی بَيْتِ حَفْصَةَ،فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَلَی حَاجَتِہِ مُسْتَقْبِلَ الشَّامِ،مُسْتَدْبِرَ الْكَعْبَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک روزمیں (اپنی بہن) حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم ﷺ کو دیکھاکہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے قضائے حاجت فرمارہے ہیں ۱ ؎ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ الاَعْمَشِ،عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَتَی سُبَاطَةَ قَوْمٍ،فَبَالَ عَلَيْہَا قَائِمًا،فَأَتَيْتُہُ بِوَضُوئٍ فَذَہَبْتُ لاِتَأَخَّرَ عَنْہُ،فَدَعَانِي حَتَّی كُنْتُ عِنْدَ عَقِبَيْہِ،فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی خُفَّيْہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يُحَدِّثُ بِہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ الأعْمَشِ،ثُمَّ قَالَ وَكِيعٌ: ہَذَا أَصَحُّ حَدِيثٍ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْمَسْحِ،و سَمِعْت أَبَاعَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ،يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا،فَذَكَرَ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَكَذَا رَوَی مَنْصُورٌ وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنْ حُذَيْفَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ الأْعمَشِ. وَرَوَی حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَعَاصِمُ بْنُ بَہْدَلَةَ،عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَحَدِيثُ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ أَصَحُّ. وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَوْلِ قَائِمًا. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَعَبِيدَةُ بْنُ عَمْرٍو السَّلْمَانِيُّ رَوَی عَنْہُ إِبْرَاہِيمُ النَّخَعِيُّ،وَعَبِيدَةُ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ،يُرْوَی عَنْ عَبِيدَةَ أَنَّہُ قَالَ: أَسْلَمْتُ قَبْلَ وَفَاةِ النَّبِيِّ ﷺ بِسَنَتَيْنِ،وَعُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ،صَاحِبُ إِبْرَاہِيمَ: ہُوَ عُبَيْدَةُ بْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ وَيُكْنَی أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ۔

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پرسے ہوا تو آپ نے اس پر کھڑے ہوکر پیشاب کیا،میں آپ کے لیے وضو کا پانی لایا،اسے رکھ کرمیں پیچھے ہٹنے لگا،تو آپ نے مجھے اشارے سے بلایا،میں (آکر)آپ کی ایڑیوں کے پاس کھڑاہوگیا،آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-وکیع کہتے ہیں: یہ حدیث مسح کے سلسلہ میں نبی اکرم ﷺ سے مروی حدیثوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔۲-یہ حدیث بروایت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرمﷺ سے مروی ہے ۱؎ ابووائل کی حدیث جسے انہوں نے حذیفہ سے روایت کیا (مغیرہ کی روایت سے)زیادہ صحیح ہے ۲؎،۳-محدّثین میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے کھڑے ہوکرپیشاب کرنے کی اجازت دی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلاَئِيُّ،عَنْ الاَعْمَشِ،عَنْ أَنَسٍ،قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَہُ حَتَّی يَدْنُوَ مِنْ الأرْضِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَكَذَا رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ،عَنْ الأعْمَشِ،عَنْ أَنَسٍ ہَذَا الْحَدِيثَ. وَرَوَی وَكِيعٌ وَأَبُو يَحْيَی الْحِمَّانِيُّ عَنْ الأعْمَشِ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَرَادَ الْحَاجَةَ لَمْ يَرْفَعْ ثَوْبَہُ حَتَّی يَدْنُوَ مِنْ الأرْضِ . وَكِلاَالْحَدِيثَيْنِ مُرْسَلٌ،وَيُقَالُ: لَمْ يَسْمَعْ الأعْمَشُ مِنْ أَنَسٍ وَلاَ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ. وَقَدْ نَظَرَ إِلَی أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،قَالَ: رَأَيْتُہُ يُصَلِّي،فَذَكَرَ عَنْہُ حِكَايَةً فِي الصَّلاَةِ. وَالأَعْمَشُ اسْمُہُ-سُلَيْمَانُ بْنُ مِہْرَانَ أَبُومُحَمَّدٍ الْكَاہِلِيُّ-وَہُوَ مَوْلًی لَہُمْ. قَالَ الأَعْمَشُ: كَانَ أَبِي حَمِيلاً فَوَرَّثَہُ مَسْرُوقٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تو جب تک زمین سے بالکل قریب نہ ہوجاتے اپنے کپڑے نہیں اٹھاتے تھے۔ دوسری سندمیں اعمش سے روایت ہے،ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تواپنے کپڑے جب تک زمین سے قریب نہیں ہوجاتے نہیں اٹھاتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ دونوں احادیث مرسل ہیں،اس لیے کہ کہاجاتاہے: دونوں احادیث کے راوی سلیمان بن مہران الأعمش نے نہ ہی تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سماعت کی ہے اور نہ ہی کسی اورصحابی سے،صرف اتناہے کہ انس کوصرف انہوں نے دیکھا ہے،اعمش کہتے ہیں کہ میں نے انہیں صلاۃپڑھتے دیکھاہے پھر ان کی صلاۃ کی کیفیت بیان کی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ مَعْمَرٍ،عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ،عَنْ أَبِيہِ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ يَمَسَّ الرَّجُلُ ذَكَرَہُ بِيَمِينِہِ. وَفِي ہَذَا الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،وَسَلْمَانَ،وَأبِي ہُرَيْرَةَ،وَسَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو قَتَادَةَ الأَنْصَارِيُّ اسْمُہُ الْحَارِثُ بْنُ رِبْعِيٍّ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا الإسْتِنْجَاءَ بِالْيَمِينِ

ابوقتادۃحارث بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایاہے کہ آدمی اپنے داہنے ہاتھ سے اپناذکر (عضوتناسل)چھوئے ۱؎۔اس باب میں عائشہ،سلمان،ابوہریرہ اور سھل بن حنیف رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے،ان لوگوں نے داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے کو مکروہ جاناہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،عَنْ الأعْمَشِ،عَنْ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ،قَالَ: قِيلَ لِسَلْمَانَ قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ ﷺ كُلَّ شَيْئٍ حَتَّی الْخِرَائَةَ؟ فَقَالَ سَلْمَانُ: أَجَلْ،نَہَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ،وَأَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ،أَوْ أَنْ يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِأَقَلَّ مِنْ ثَلاَثَةِ أَحْجَارٍ،أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ،وَجَابِرٍ،وَخَلاَّدِبْنِ السَّائِبِ،عَنْ أَبِيہِ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَحَدِيثُ سَلْمَانَ-فِي ہَذَا الْبَابِ-حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ،رَأَوْا أَنَّ الأِسْتِنْجَاءَ بِالْحِجَارَةِ يُجْزِءُ،وَإِنْ لَمْ يَسْتَنْجِ بِالْمَاءِ،إِذَا أَنْقَی أَثَرَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ،وَبِہِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے بطور طنز یہ بات کہی گئی کہ تمہارے نبی نے تمہیں ساری چیزیں سکھائی ہیں حتی کہ پیشاب پاخانہ کرنابھی،توسلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بطورفخرکہا: ہاں،ایساہی ہے ہمارے نبی نے ہمیں پیشاب پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے،داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے،اورتین پتھرسے کم سے استنجا کرنے،اورگوبراورہڈی سے استنجا کرنے سے ہمیں منع فرمایاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عائشہ،خزیمہ بن ثابت جابر اور خلاد بن السائب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے،۳-صحابہ وتابعین میں سے اکثراہل علم کایہی قول ہے کہ پتھرسے استنجا کرلینا کافی ہے جب وہ پاخانہ اورپیشاب کے اثرکو زائل وپاک کردے اگرچہ پانی سے استنجا نہ کیا گیاہو،یہی قول ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ،وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ،قَالاَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ،عَنْ أَبِي ثِفَالٍ الْمُرِّيِّ،عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حُوَيْطِبٍ،عَنْ جَدَّتِہِ،عَنْ أَبِيہَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: لاَوُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ،وَأَبِي سَعِيدٍ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ،وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ،وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لاَأَعْلَمُ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثًا لَہُ إِسْنَادٌ جَيِّدٌ. و قَالَ إِسْحَاقُ: إِنْ تَرَكَ التَّسْمِيَةَ عَامِدًا أَعَادَ الْوُضُوءَ،وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا أَوْ مُتَأَوِّلاً أَجْزَأَہُ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثُ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَرَبَاحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَدَّتِہِ عَنْ أَبِيہَا،وَأَبُوہَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ. وَأَبُو ثِفَالٍ الْمُرِّيُّ اسْمُہُ ثُمَامَةُ بْنُ حُصَيْنٍ. وَرَبَاحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ-ہُوَ أَبُو بَكْرِ بْنُ حُوَيْطِبٍ-مِنْہُمْ مَنْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ،فَقَالَ: عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حُوَيْطِبٍ،فَنَسَبَہُ إِلَی جَدِّہِ.

سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا: جو بسم اللہ کرکے وضو شروع نہ کرے اس کا وضو نہیں ہوتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں عائشہ،ابوہریرہ،ابوسعیدخدری،سہل بن سعد اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھیاس باب میں کوئی ایسی حدیث نہیں معلوم جس کی سندعمدہ ہو،۳-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اگر کوئی قصداًبسم اللہ کہناچھوڑدے تو وہ دوبارہ وضوکرے اوراگربھول کرچھوڑے یا وہ اس حدیث کی تاویل کررہاہوتویہ اسے کافی ہوجائے گا،۴-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے اچھی یہی مذکورہ بالا حدیث رباح بن عبدالرحمٰن کی ہے،یعنی سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کی حدیث۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ،عَنْ يَزِيدَ بْنِ عِيَاضٍ،عَنْ أَبِي ثِفَالٍ الْمُرِّيِّ،عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حُوَيْطِبٍ،عَنْ جَدَّتِہِ بِنْتِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ،عَنْ أَبِيہَا،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ.

اس سندسے بھی سعیدبن زید رضی اللہ عنہ سے اوپروالی حدیث کے مثل مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ أَبِي أُمَيَّةَ،عَنْ حَسَّانَ بْنِ بِلاَلٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ تَوَضَّأَ فَخَلَّلَ لِحْيَتَہُ،فَقِيلَ لَہُ،أَوْ قَالَ: فَقُلْتُ لَہُ: أَتُخَلِّلُ لِحْيَتَكَ؟ قَالَ: وَمَا يَمْنَعُنِي؟ وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُخَلِّلُ لِحْيَتَہُ.

حسان بن بلال کہتے ہیں: میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کودیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تواپنی داڑھی میں خلال کیا ۱؎ ان سے کہاگیا یا راوی حدیث حسان نے کہا کہ میں نے ان سے کہا:کیاآپ اپنی داڑھی کا خلال کررہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں داڑھی کا خلال کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوداڑھی کا خلال کرتے دیکھاہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ حَسَّانَ بْنِ بِلاَلٍ،عَنْ عَمَّارٍ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ،وَعَائِشَةَ،وَأُمِّ سَلَمَةَ،وَأَنَسٍ،وَابْنِ أَبِي أَوْفَی،وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: و سَمِعْت إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ: قَالَ: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: لَمْ يَسْمَعْ عَبْدُ الْكَرِيمِ مِنْ حَسَّانَ بْنِ بِلاَلٍ حَدِيثَ التَّخْلِيلِ

اس سندسے بھی عماربن یاسرسے اوپرہی کی حدیث کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عثمان،عائشہ،ام سلمہ،انس،ابن ابی اوفی اور ابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،عَنْ إِسْرَائِيلَ،عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ،عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُخَلِّلُ لِحْيَتَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُوعِيسَی: و قَالَ بِہَذَا أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ: رَأَوْا تَخْلِيلَ اللِّحْيَةِ،وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ. و قَالَ أَحْمَدُ: إِنْ سَہَا عَنْ تَخْلِيلِ اللِّحْيَةِ فَہُوَ جَائِزٌ. و قَالَ إِسْحَاقُ: إِنْ تَرَكَہُ نَاسِيًا أَوْ مُتَأَوِّلاَ أَجْزَأَہُ،وَإِنْ تَرَكَہُ عَامِدًا أَعَادَ.

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: 1۔یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ 2۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث عامربن شقیق کی ہے،جسے انہوں نے ابووائل سے اورابووائل نے عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (جو آگے آرہی ہے)۔3-صحابہ اور تابعین میں سے اکثراہل علم اسی کے قائل ہیں،ان لوگوں کی رائے ہے کہ داڑھی کا خلال (مسنون)ہے اوراسی کے قائل شافعی بھی ہیں،احمد کہتے ہیں کہ اگرکوئی داڑھی کا خلال کرنابھول جائے تو وضو جائزہو گا،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھول کرچھوڑدے یاخلال والی حدیث کی تاویل کررہا ہوتو اسے کا فی ہوجائے گااوراگرقصداً جان بوجھ کرچھوڑے تووہ اسے(وضو کو) لوٹائے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ بِرَأْسِہِ مَرَّتَيْنِ بَدَأَ بِمُؤَخَّرِ رَأْسِہِ ثُمَّ بِمُقَدَّمِہِ وَبِأُذُنَيْہِ كِلْتَيْہِمَا ظُہُورِہِمَا وَبُطُونِہِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَحَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ مِنْ ہَذَا وَأَجْوَدُ إِسْنَادًا وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْكُوفَةِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ مِنْہُمْ وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ

ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ نے اپنے سرکا دومرتبہ ۱؎ مسح کیا،آپ نے (پہلے) اپنے سرکے پچھلے حصہ سے شروع کیا ۲؎،پھر (دوسری بار) اس کے اگلے حصہ سے اور اپنے کانوں کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کا مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے اور عبداللہ بن زید کی حدیث سندکے اعتبارسے اس سے زیادہ صحیح اور زیادہ عمدہ ہے،۲-اہل کوفہ میں سے بعض لوگ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،انہیں میں سے وکیع بن جراح بھی ہیں ۳؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ أَنَّہَا رَأَتْ النَّبِيَّ ﷺ يَتَوَضَّأُ قَالَتْ مَسَحَ رَأْسَہُ وَمَسَحَ مَا أَقْبَلَ مِنْہُ وَمَا أَدْبَرَ وَصُدْغَيْہِ وَأُذُنَيْہِ مَرَّةً وَاحِدَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَدِّ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ الرُّبَيِّعِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ مَسَحَ بِرَأْسِہِ مَرَّةً وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ وَبِہِ يَقُولُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ رَأَوْا مَسْحَ الرَّأْسِ مَرَّةً وَاحِدَةً حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَكِّيُّ قَال سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ مَسْحِ الرَّأْسِ أَيُجْزِئُ مَرَّةً فَقَالَ إِي وَاللہِ

ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا،آپ نے اپنے سرکاایک بارمسح کیا،اگلے حصہ کا بھی اورپچھلے حصہ کا بھی اوراپنی دونوں کنپٹیوں اورکانوں کابھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ربیع رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی اور طلحہ بن مصرف بن عمرو کے دادا (عمرو بن کعب یامی) رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوربھی سندوں سے یہ بات مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سرکا مسح ایک بار کیا،۴-صحابہ کرام اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اکثراہل علم کا اسی پرعمل ہے اور جعفر بن محمد،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی ۲؎ احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،۵-سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سرکے مسح کے بارے میں پوچھا:کیا ایک مرتبہ سرکا مسح کرلینا کافی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اللہ کی۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ بِرَأْسِہِ وَأُذُنَيْہِ ظَاہِرِہِمَا وَبَاطِنِہِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ الرُّبَيِّعِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مَسْحَ الْأُذُنَيْنِ ظُہُورِہِمَا وَبُطُونِہِمَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سرکا اوراپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندورنی حصوں کا مسح کیا۔ اما م ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ربیع رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-اکثر اہل علم کااسی پرعمل ہے،ان لوگوں کی رائے ہے کہ دونوں کانوں کے بالائی اوراندورنی دونوں حصوں کا مسح کیاجائے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سِنَانِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ تَوَضَّأَ النَّبِيُّ ﷺ فَغَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا وَيَدَيْہِ ثَلَاثًا وَمَسَحَ بِرَأْسِہِ وَقَالَ الْأُذُنَانِ مِنْ الرَّأْسِ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ قُتَيْبَةُ قَالَ حَمَّادٌ لَا أَدْرِي ہَذَا مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ أَوْ مِنْ قَوْلِ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاكَ الْقَائِمِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ أَنَّ الْأُذُنَيْنِ مِنْ الرَّأْسِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مَا أَقْبَلَ مِنْ الْأُذُنَيْنِ فَمِنْ الْوَجْہِ وَمَا أَدْبَرَ فَمِنْ الرَّأْسِ قَالَ إِسْحَقُ وَأَخْتَارُ أَنْ يَمْسَحَ مُقَدَّمَہُمَا مَعَ الْوَجْہِ وَمُؤَخَّرَہُمَا مَعَ رَأْسِہِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ ہُمَا سُنَّةٌ عَلَی حِيَالِہِمَا يَمْسَحُہُمَا بِمَاءٍ جَدِيدٍ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا تو اپنا چہرہ تین بار دھویا اوراپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے اور اپنے سرکا مسح کیا اور فرمایا: دونوں کان سرمیں داخل ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-قتیبہ کا کہنا ہے کہ حماد کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ یہ نبی اکرمﷺ کاقول ہے یاابوامامہ کا،۲-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے،۴-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم کا اسی پرعمل ہے اوراسی کے قائل سفیان ثوری،ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ ہیں ۱؎ اور بعض اہل علم نے کہاہے کہ کان کے سامنے کا حصہ چہرہ میں سے ہے(اس لیے اسے دھویا جائے) اور پیچھے کا حصہ سر میں سے ہے ۲؎۔(اس لیے مسح کیا جائے) اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ کان کے سامنے کے حصہ کا مسح چہرہ کے ساتھ کرے (یعنی چہرہ کے ساتھ دھوئے) اور پچھلے حصہ کا سر کے ساتھ ۳؎،شافعی کہتے ہیں کہ دونوں الگ الگ سنت ہیں(اس لیے) دونوں کا مسح نئے پانی سے کرے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَہَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ قَالُوا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ ح قَالَ و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَبُرَيْدَةَ وَأبِي رَافِعٍ وَابْنِ الْفَاكِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ وَرَوَی رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُہُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً قَالَ وَلَيْسَ ہَذَا بِشَيْءٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی ابْنُ عَجْلَانَ وَہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو ایک ایک باردھوئے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عمر،جابر،بریدۃ،ابورافع،اور ابن الفاکہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابن عباس کی یہ حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اورصحیح ہے،۳-رشد ین بن سعد وغیرہ بسند ضحاک بن شرحبیل عن زید بن اسلم عن أبیہ سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے اعضائے وضوکو ایک ایک باردھویا،یہ (روایت) کچھ بھی نہیں ہے صحیح وہی روایت ہے جسے ابن عجلان،ہشام بن سعد،سفیان ثوری اور عبدالعزیز بن محمدنے بسند زیدبن اسلم عن عطاء بن یسار عن ابن عباس عن النبیﷺ روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ أَبِي حَيَّةَ،قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا تَوَضَّأَ فَغَسَلَ كَفَّيْہِ حَتَّی أَنْقَاہُمَا،ثُمَّ مَضْمَضَ ثَلاَثًا وَاسْتَنْشَقَ ثَلاَثًا،وَغَسَلَ وَجْہَہُ ثَلاَثًا،وَذِرَاعَيْہِ ثَلاَثًا،وَمَسَحَ بِرَأْسِہِ مَرَّةً،ثُمَّ غَسَلَ قَدَمَيْہِ إِلَی الْكَعْبَيْنِ،ثُمَّ قَامَ فَأَخَذَ فَضْلَ طَہُورِہِ فَشَرِبَہُ،وَہُوَ قَائِمٌ،ثُمَّ قَالَ: أَحْبَبْتُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ كَانَ طُہُورُ رَسُولِ اللہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَعَبْدِاللہِ بْنِ زَيْدٍ،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَعَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو،وَالرُّبَيِّعِ،وَعَبْدِاللہِ بْنِ أُنَيْسٍ،وَعَائِشَةَ رِضْوَانُ اللہِ عَلَيْہِمْ۔

بوحیہ کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پہنچے دھوئے یہاں تک کہ انہیں خوب صاف کیا،پھر تین بار کلی کی،تین بار ناک میں پانی چڑھا یا،تین باراپناچہرہ دھویا اور ایک باراپنے سرکا مسح کیا،پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے،پھرکھڑے ہوئے اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا ۱؎،پھر کہا: میں نے تمہیں دکھانا چاہاکہ رسول اللہﷺ کاوضوکیسے ہوتا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عثمان،عبداللہ بن زید،ابن عباس،عبداللہ بن عمرو،ربیع،عبداللہ بن انیس اور عائشہ رضوان اللہ علیہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو الاَحْوَصِ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ: ذَكَرَ عَنْ عَلِيٍّ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي حَيَّةَ،إِلاَّ أَنَّ عَبْدَ خَيْرٍ قَالَ: كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنْ طُہُورِہِ أَخَذَ مِنْ فَضْلِ طَہُورِہِ بِكَفِّہِ فَشَرِبَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عَلِيٍّ رَوَاہُ أَبُو إِسْحَاقَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ أَبِي حَيَّةَ وَعَبْدِ خَيْرٍ وَالْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ. وَقَدْ رَوَاہُ زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ،عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ،عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ حَدِيثَ الْوُضُوءِ بِطُولِہِ. وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ،فَأَخْطَأَ فِي اسْمِہِ وَاسْمِ أَبِيہِ،فَقَالَ: مَالِكُ بْنُ عُرْفُطَةَ،عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ،عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ: وَرُوِيَ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ: عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ: وَرُوِيَ عَنْہُ: عَنْ مَالِكِ بْنِ عُرْفُطَةَ،مِثْلُ رِوَايَةِ شُعْبَةَ. وَالصَّحِيحُ خَالِدُ بْنُ عَلْقَمَةَ.

عبدخیرنے بھی علی رضی اللہ عنہ سے،ابو حیہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کی ہے،مگرعبدخیرکی روایت میں ہے کہ جب وہ اپنے وضو سے فارغ ہوئے تو بچے ہوئے پانی کوانہوں نے اپنے چلّو میں لیا اور اسے پیا۔ امام ترمذی نے اس حدیث کے مختلف طرق ذکرکرنے کے بعد فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدِ اللہِ السَّلِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْہَاشِمِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ جَاءَنِي جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَضِحْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍ الْہَاشِمِيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ سُفْيَانَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَزَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ و قَالَ بَعْضُہُمْ سُفْيَانُ بْنُ الْحَكَمِ أَوْ الْحَكَمُ بْنُ سُفْيَانَ وَاضْطَرَبُوا فِي ہَذَا الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل نے آکرکہا: اے محمد! جب آپ وضو کریں تو (شرمگاہ پر) پانی چھڑک لیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے سنا ہے کہ حسن بن علی الھاشمی منکرالحدیث راوی ہیں ۲؎،۳-اس حدیث کی سند میں لوگ اضطراب کا شکارہیں،۴-اس باب میں ابوالحکم بن سفیان،ابن عباس،زید بن حارثہ اورابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَليُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ عَنْ سَفِينَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَفِينَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو رَيْحَانَةَ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَطَرٍ وَہَكَذَا رَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ بِالْمُدِّ وَالْغُسْلَ بِالصَّاعِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَيْسَ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ عَلَی التَّوَقِّي أَنَّہُ لَا يَجُوزُ أَكْثَرُ مِنْہُ وَلَا أَقَلُّ مِنْہُ وَہُوَ قَدْرُ مَا يَكْفِي

سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ ایک مد ۱؎ پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سفینہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،جابر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کی رائے یہی ہے کہ ایک مدپانی سے وضوکیاجائے اورایک صاع پانی سے غسل،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کامقصودتحدید نہیں ہے کہ اس سے زیادہ یاکم جائزنہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ مقدارایسی ہے جوکافی ہوتی ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ صَلَّی الصَّلَوَاتِ كُلَّہَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ وَمَسَحَ عَلَی خُفَّيْہِ فَقَالَ عُمَرُ إِنَّكَ فَعَلْتَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ فَعَلْتَہُ قَالَ عَمْدًا فَعَلْتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَزَادَ فِيہِ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً قَالَ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ وَرَوَاہُ وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُحَارِبٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ وَرَوَاہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَغَيْرُہُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ يُحْدِثْ وَكَانَ بَعْضُہُمْ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ اسْتِحْبَابًا وَإِرَادَةَ الْفَضْلِ وَيُرْوَی عَنْ الْأَفْرِيقِيِّ عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ عَلَی طُہْرٍ كَتَبَ اللہُ لَہُ بِہِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ وَہَذَا إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ ہرصلاۃ کے لیے وضو کرتے تھے،اور جب فتح مکہ کا سال ہواتوآپ نے کئی صلاتیں ایک وضو سے اداکیں اوراپنے موزوں پرمسح کیا،عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے ایک ایسی چیزکی ہے جسے کبھی نہیں کیاتھا؟ آپ نے فرمایا: میں نے اسے جان بوجھ کر کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوراس حدیث کو علی بن قادم نے بھی سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اورانہوں نے اس میں اتنا اضافہ کیاہے کہ آپ نے اعضائے وضوکو ایک ایک باردھویا،۳-سفیان ثوری نے بسند محارب بن دثارعن سلیمان بن بریدہ (مرسلاًروایت کیاہے) کہ نبی اکرم ﷺہر صلاۃ کے لیے وضو کرتے تھے،۴-اوراسے وکیع نے بسند سفیان عن محارب عن سلیمان بن بریدہ عن بریدہ سے روایت کیا ہے،۵-نیز اسے عبدالرحمٰن بن مھدی وغیرہ نے بسند سفیان عن محارب بن دثارعن سلیمان بن بریدہ مرسلاً روایت کیاہے،اور یہ روایت وکیع کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،۶-اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک وضو سے کئی صلاتیں ادا کی جاسکتی ہیں،جب تک حدث نہ ہو،۷-بعض اہل علم استحباب اورفضیلت کے ارادہ سے ہرصلاۃ کے لیے وضو کرتے تھے،۸-نیز عبدالرحمٰن افریقی نے بسندابی غطیف عن ابن عمرروایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جووضو پر وضو کرے گا تواس کی وجہ سے اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا اس حدیث کی سند ضعیف ہے،۹-اس باب میں جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک وضو سے ظہراور عصر دونوں پڑھیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي حَاجِبٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي غِفَارٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ فَضْلِ طَہُورِ الْمَرْأَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَكَرِہَ بَعْضُ الْفُقَہَاءِ الْوُضُوءَ بِفَضْلِ طَہُورِ الْمَرْأَةِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ كَرِہَا فَضْلَ طَہُورِہَا وَلَمْ يَرَيَا بِفَضْلِ سُؤْرِہَا بَأْسًا

قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی (حکم بن عمرو) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے(وضو کرنے سے) منع فرمایا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۲-بعض فقہا ء نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے کو مکروہ قراردیاہے،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،ان دونوں نے عورت کے وضو سے بچے ہوے پانی کومکروہ کہا ہے لیکن اس کے جھو ٹے کے استعمال میں ان دونوں نے کوئی حرج نہیں جانا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَاصِمٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا حَاجِبٍ يُحَدِّثُ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ يَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ طَہُورِ الْمَرْأَةِ أَوْ قَالَ بِسُؤْرِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو حَاجِبٍ اسْمُہُ سَوَادَةُ بْنُ عَاصِمٍ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِہِ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ طَہُورِ الْمَرْأَةِ وَلَمْ يَشُكَّ فِيہِ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ

حکم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کومنع فرمایا ہے،یافرمایا: عورت کے جھوٹے سے وضوکرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور محمد بن بشاراپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ مرد عورت کے وضوسے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے ۱؎،اورمحمدبن بشارنے اس روایت میں-أَوْ بِسُؤْرِہَا-والا شک بیان نہیں کیا ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اغْتَسَلَ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ فِي جَفْنَةٍ فَأَرَادَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يَتَوَضَّأَ مِنْہُ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا فَقَالَ إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی ایک بیوی نے ایک لگن (ٹب) سے (پانی لے کر) غسل کیا،رسول اللہﷺ نے اس (بچے ہوئے پانی) سے وضو کرنا چاہا،توانہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!میں ناپاک تھی،آپ نے فرمایا: پانی جنبی نہیں ہوتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہی سفیان ثوری،مالک اور شافعی کاقول ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَہُوَ يُسْأَلُ عَنْ الْمَاءِ يَكُونُ فِي الْفَلَاةِ مِنْ الْأَرْضِ وَمَا يَنُوبُہُ مِنْ السِّبَاعِ وَالدَّوَابِّ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يَحْمِلْ الْخَبَثَ قَالَ عَبْدَةُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ الْقُلَّةُ ہِيَ الْجِرَارُ وَالْقُلَّةُ الَّتِي يُسْتَقَی فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا إِذَا كَانَ الْمَاءُ قُلَّتَيْنِ لَمْ يُنَجِّسْہُ شَيْءٌ مَا لَمْ يَتَغَيَّرْ رِيحُہُ أَوْ طَعْمُہُ وَقَالُوا يَكُونُ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ قِرَبٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:میں نے رسول اللہﷺ سے سنا،آپ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا جارہا تھا جومیدان میں ہوتا ہے اور جس پردرندے اور چوپائے آتے جاتے ہیں،تو آ پ نے فرمایا: جب پانی دوقلہ ۱؎ ہوتووہ گندگی کو اثر انداز ہونے نہیں دے گا،اسے دفع کردے گا ۲؎۔محمد بن اسحاق کہتے ہیں: قلہ سے مراد گھڑے ہیں اور قلہ وہ(ڈول) بھی ہے جس سے کھیتوں اور باغات کی سینچائی کی جاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں۱-یہی قول شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا ہے۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب پانی دوقلہ ہو تواسے کوئی چیزنجس نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کی بویا مزہ بدل نہ جائے،اوران لوگوں کا کہناہے کہ دوقلہ پانچ مشک کے قریب ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی ٹھہرے ہوئے پانی ۱؎ میں پیشاب نہ کرے پھر اس سے وضو کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ قَالَتْ دَخَلْتُ بِابْنٍ لِي عَلَی النَّبِيِّ ﷺ لَمْ يَأْكُلْ الطَّعَامَ فَبَالَ عَلَيْہِ فَدَعَا بِمَاءٍ فَرَشَّہُ عَلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَزَيْنَبَ وَلُبَابَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ وَہِيَ أُمُّ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبِي السَّمْحِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي لَيْلَی وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِثْلِ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا يُنْضَحُ بَوْلُ الْغُلَامِ وَيُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِيَةِ وَہَذَا مَا لَمْ يَطْعَمَا فَإِذَا طَعِمَا غُسِلَا جَمِيعًا

ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:میں اپنے بچے کولے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی،وہ ابھی تک کھانا نہیں کھاتا تھا ۱؎،اس نے آپ پر پیشاب کردیا توآپ نے پانی منگوایا اور اسے اس پرچھڑک لیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں علی،عائشہ،زینب،فضل بن عباس کی والدہ لبابہ بنت حارث،ابوالسمح،عبداللہ بن عمرو،ابولیلیٰ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-صحابہ کرام،تابعین عظام اوران کے بعدکے لوگوں کایہی قول ہے کہ بچے کے پیشاب پرپانی چھڑکاجائے اوربچی کا پیشاب دھویا جائے،اوریہ حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ دونوں کھانانہ کھانے لگ جائیں،اورجب وہ کھانا کھانے لگ جائیں توبالاتفاق دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ،قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ،عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي،عَنْ بُسْرَةَ بِنْتِ صَفْوَانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ مَسَّ ذَكَرَہُ فَلاَ يُصَلِّ حَتَّی يَتَوَضَّأَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ،وَأَبِي أَيُّوبَ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ،وأَرْوَی ابْنَةِ أُنَيْسٍ،وَعَائِشَةَ،وَجَابِرٍ،وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ،وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: ہَكَذَا رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ ہَذَا عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ بُسْرَةَ

بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جواپنی شرمگاہ(عضو تناسل) چھوئے توجب تک وضونہ کرلے صلاۃنہ پڑھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-بسرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام حبیبہ،ابوایوب،ابوہریرہ،ارویٰ بنت انیس،عائشہ،جابر،زید بن خالد اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-کئی لوگوں نے اسے اسی طرح ہشام بن عروہ سے اورہشام نے اپنے والد (عروہ) سے اورعروہ نے بسرہ سے روایت کیا ہے ۱؎۔

وَرَوَی أَبُو أُسَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ،عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ مَروَانَ،عَنْ بُسْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ . حدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ بِہَذَا.

ابو اسامہ اورکئی اور لوگوں نے اس حدیث کو بسند ہشام بن عروہ عن أبیہ عن مروان بسرۃعن النبی ﷺ روایت کیاہے۔

وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ أَبُو الزِّنَادِ،عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ بُسْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ بُسْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ. وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ،وَالتَّابِعِينَ،وَبِہِ يَقُولُ الأَوْزَاعِيُّ،وَالشَّافِعِيُّ،وَأَحْمَدُ،وَإِسْحَاقُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَصَحُّ شَيْئٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثُ بُسْرَةَ. وَ قَالَ أَبُو زُرْعَةَ: حَدِيثُ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي ہَذَا الْبَابِ صَحِيحٌ،وَہُوَ حَدِيثُ الْعَلاَءِ بْنِ الْحَارِثِ،عَنْ مَكْحُولٍ،عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ،عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ. و قَالَ مُحَمَّدٌ: لَمْ يَسْمَعْ مَكْحُولٌ مِنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ،وَرَوَی مَكْحُولٌ،عَنْ رَجُلٍ،عَنْ عَنْبَسَةَ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ. وَكَأَنَّہُ لَمْ يَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ صَحِيحًا.

نیزاسے ابوالزناد نے بسند عروہ عن النبی اکرم ﷺ اسی طرح روایت کیا ہے۔ ۱-یہی صحابہ اور تابعین میں سے کئی لوگوں کا قول ہے اور اسی کے قائل اوزاعی،شافعی،احمد،اور اسحاق بن راہویہ ہیں،۲-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ بسرہ کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے،۳-ابوزرعہ کہتے ہیں کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ۱؎ (بھی) اس باب میں صحیح ہے،۴-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مکحول کا سماع عنبسہ بن ابی سفیان سے نہیں ہے ۲؎،اورمکحول نے ایک آدمی سے اوراس آدمی نے عنبسہ سے ان کی حدیث کے علاوہ ایک دوسری حدیث روایت کی ہے،گویا امام بخاری اس حدیث کو صحیح نہیں مانتے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَدْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ ہُوَ الْحَنَفِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ وَہَلْ ہُوَ إِلَّا مُضْغَةٌ مِنْہُ أَوْ بَضْعَةٌ مِنْہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَبَعْضِ التَّابِعِينَ أَنَّہُمْ لَمْ يَرَوْا الْوُضُوءَ مِنْ مَسِّ الذَّكَرِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَہَذَا الْحَدِيثُ أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي ہَذَا الْبَابِ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ عَنْ أَبِيہِ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فِي مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ وَأَيُّوبَ بْنِ عُتْبَةَ وَحَدِيثُ مُلَازِمِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَدْرٍ أَصَحُّ وَأَحْسَنُ

طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (عضو تناسل کے سلسلے میں) فرمایا: یہ تو جسم ہی کا ایک لوتھڑا یا ٹکڑا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۲-صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے نیز بعض تابعین سے بھی مروی ہے کہ عضوتناسل کے چھونے سے وضوواجب نہیں،اوریہی اہل کوفہ اورابن مبارک کا قول ہے،۳-اس باب میں مروی احادیث میں سے یہ سب سے اچھی حدیث ہے،۴-ایوب بن عتبہ اور محمد بن جابر نے بھی اس حدیث کوقیس بن طلق نے عن أبیہ سے روایت کیا ہے۔بعض محدّثین نے محمد بن جابر اور ایوب بن عتبہ کے سلسلے میں کلام کیا ہے،۵-ملازم بن عمرو کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن بدر سے روایت کیا ہے،سب سے صحیح اوراچھی ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ بَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی خُفَّيْہِ فَقِيلَ لَہُ أَتَفْعَلُ ہَذَا قَالَ وَمَا يَمْنَعُنِي وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَفْعَلُہُ قَالَ إِبْرَاہِيمُ وَكَانَ يُعْجِبُہُمْ حَدِيثُ جَرِيرٍ لِأَنَّ إِسْلَامَہُ كَانَ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ ہَذَا قَوْلُ إِبْرَاہِيمَ يَعْنِي كَانَ يُعْجِبُہُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَحُذَيْفَةَ وَالْمُغِيرَةِ وَبِلَالٍ وَسَعْدٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَسَلْمَانَ وَبُرَيْدَةَ وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ وَأَنَسٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَيَعْلَی بْنِ مُرَّةَ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ وَأَبِي أُمَامَةِ وَجَابِرٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَابْنِ عُبَادَةَ وَيُقَالُ ابْنُ عِمَارَةَ وَأُبَيُّ بْنُ عِمَارَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ جَرِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے پیشاب کیا پھروضوکیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا،ان سے کہاگیا: کیاآپ ایساکررہے ہیں؟ توا نہوں نے کہاکہ مجھے اس کام سے کون سی چیزروک سکتی ہے جبکہ میں نے خود رسول اللہﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے،ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کوجریر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اچھی لگتی تھی کیوں کہ ان کا اسلام سورئہ مائدہ کے نزول کے بعدکاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جریر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،علی،حذیفہ،مغیرہ،بلال،ابوایوب،سلمان،بریدۃ،عمرو بن امیہ،انس،سہل بن سعد،یعلی بن مرہ،عبادہ بن صامت،اسامہ بن شریک،ابوا مامہ،جابر،اسامہ بن زید،ابن عبادۃ جنہیں ابن عمارہ اور ابی بن عمارہ بھی کہاجاتاہے رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وَيُرْوَی عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی خُفَّيْہِ فَقُلْتُ لَہُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی خُفَّيْہِ فَقُلْتُ لَہُ أَقَبْلَ الْمَائِدَةِ أَمْ بَعْدَ الْمَائِدَةِ فَقَالَ مَا أَسْلَمْتُ إِلَّا بَعْدَ الْمَائِدَةِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ زِيَادٍ التِّرْمِذِيُّ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ جَرِيرٍ قَالَ وَرَوَی بَقِيَّةُ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ أَدْہَمَ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ جَرِيرٍ وَہَذَا حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ لِأَنَّ بَعْضَ مَنْ أَنْكَرَ الْمَسْحَ عَلَی الْخُفَّيْنِ تَأَوَّلَ أَنَّ مَسْحَ النَّبِيِّ ﷺ عَلَی الْخُفَّيْنِ كَانَ قَبْلَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ وَذَكَرَ جَرِيرٌ فِي حَدِيثِہِ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ عَلَی الْخُفَّيْنِ بَعْدَ نُزُولِ الْمَائِدَةِ

شہر بن حوشب کہتے ہیں: میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھاکہ انہوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا،میں نے جب ان سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پرمسح کیا،میں نے ان سے پوچھا: آپ کایہ عمل سورہ مائدہ کے نزول سے پہلے کاہے،یا بعدکا؟ تو کہا: میں تو سورہ مائدہ اترنے کے بعد ہی اسلام لایاہوں،یہ حدیث آیت وضوکی تفسیرکررہی ہے اس لیے کہ جن لوگوں نے موزوں پرمسح کا انکار کیا ہے ان میں سے بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے موزوں پرجو مسح کیاتھاوہ آیت مائدہ کے نزول سے پہلے کا تھا،جبکہ جریر رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں ذکرکیا ہے کہ انہوں نے نزول مائدہ کے بعد نبی اکرم ﷺ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھاہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَمْسَحُ عَلَی الْخُفَّيْنِ عَلَی ظَاہِرِہِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ حَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا يَذْكُرُ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ عَلَی ظَاہِرِہِمَا غَيْرَہُ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَحْمَدُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَكَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يُشِيرُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-مغیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-عبدالرحمٰن بن ابی الزناد کے علاوہ میں کسی اور کو نہیں جانتاجس نے بسند عروہ عن مغیرہ دونوں موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کاذکرکرتا ہو ۲؎ اور یہی کئی اہل علم کا قول ہے اور یہی سفیان ثوری اور احمدبھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيِّ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ ابْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ تَوَضَّأَ النَّبِيُّ ﷺ وَمَسَحَ عَلَی الْخُفَّيْنِ وَالْعِمَامَةِ قَالَ بَكْرٌ وَقَدْ سَمِعْتُہُ مِنَ ابْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ وَذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ أَنَّہُ مَسَحَ عَلَی نَاصِيَتِہِ وَعِمَامَتِہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ذَكَرَ بَعْضُہُمْ الْمَسْحَ عَلَی النَّاصِيَةِ وَالْعِمَامَةِ وَلَمْ يَذْكُرْ بَعْضُہُمْ النَّاصِيَةَ و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةِ وَسَلْمَانَ وَثَوْبَانَ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَسٌ وَبِہِ يَقُولُ الْأَوْزَاعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالُوا يَمْسَحُ عَلَی الْعِمَامَةِ و قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ لَا يَمْسَحُ عَلَی الْعِمَامَةِ إِلَّا بِرَأْسِہِ مَعَ الْعِمَامَةِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعَ بْنَ الْجَرَّاحِ يَقُولُ إِنْ مَسَحَ عَلَی الْعِمَامَةِ يُجْزِئُہُ لِلْأَثَرِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور دونوں موزوں اور عمامے پر مسح کیا۔ محمدبن بشار نے ایک دوسری جگہ اس حدیث میں یہ ذکرکیاہے کہآپ نے اپنی پیشانی اوراپنے عمامے پر مسح کیا،یہ حدیث اوربھی کئی سندوں سے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی گئی ہے،ان میں سے بعض نے پیشانی اور عمامے پر مسح کا ذکرکیا ہے اور بعض نے پیشانی کا ذکر نہیں کیاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمرو بن امیہ،سلمان،ثوبان اور ابو امامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کابھی یہی قول ہے۔ان میں سے ابوبکر،عمر اورانس رضی اللہ عنہم ہیں اور اوزاعی،احمداور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ عمامہ پرمسح کرے،صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کاکہناہے کہ عمامہ پر مسح نہیں سوائے اس صورت کے کہ عمامہ کے ساتھ (کچھ) سرکا بھی مسح کرے۔سفیان ثوری،مالک بن انس،ابن مبارک اور شافعی اسی کے قائل ہیں،۴-وکیع بن جراح کہتے ہیں کہ اگرکوئی عمامے پر مسح کرلے تو حدیث کی روسے یہ اسے کافی ہوگا۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ بِلَالٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ عَلَی الْخُفَّيْنِ وَالْخِمَارِ

بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دونوں موزوں پر اورعمامے پر مسح کیا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ ہُوَ الْقُرَشِيُّ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ عَنْ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ فَقَالَ السُّنَّةُ يَا ابْنَ أَخِي قَالَ وَسَأَلْتُہُ عَنْ الْمَسْحِ عَلَی الْعِمَامَةِ فَقَالَ أَمِسَّ الشَّعَرَ الْمَاءَ

بوعبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے دونوں موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میرے بھتیجے!(یہ)سنت ہے۔وہ کہتے ہیں اورمیں نے عمامہ پر مسح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: بالوں کوچھوؤ۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ خَالَتِہِ مَيْمُونَةَ قَالَتْ وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ غُسْلًا فَاغْتَسَلَ مِنْ الْجَنَابَةِ فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ بِشِمَالِہِ عَلَی يَمِينِہِ فَغَسَلَ كَفَّيْہِ ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَہُ فِي الْإِنَاءِ فَأَفَاضَ عَلَی فَرْجِہِ ثُمَّ دَلَكَ بِيَدِہِ الْحَائِطَ أَوْ الْأَرْضَ ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْہَہُ وَذِرَاعَيْہِ ثُمَّ أَفَاضَ عَلَی رَأْسِہِ ثَلَاثًا ثُمَّ أَفَاضَ عَلَی سَائِرِ جَسَدِہِ ثُمَّ تَنَحَّی فَغَسَلَ رِجْلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے لیے نہانے کاپانی رکھا،آپ نے غسل جنابت کیا،تو برتن کواپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر جھکا یا اور اپنے پہو نچے دھوئے،پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور شرم گاہ پر پانی بہایا،پھراپنا ہاتھ دیوار یا زمین پر رگڑا۔پھرکلی کی اور ناک میں پانی ڈالااور اپناچہرہ دھویا اوراپنے دونوں ہاتھ دھوئے،پھر تین مرتبہ سرپر پانی بہایا،پھر پورے جسم پرپانی بہایا،پھر وہاں سے پرے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ،جابر،ابوسعید جبیر بن مطعم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَغْتَسِلَ مِنْ الْجَنَابَةِ بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْہِ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَہُمَا الْإِنَاءَ ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَہُ وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَہُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ يُشَرِّبُ شَعْرَہُ الْمَاءَ ثُمَّ يَحْثِي عَلَی رَأْسِہِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ أَنَّہُ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَہُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ يُفْرِغُ عَلَی رَأْسِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَی سَائِرِ جَسَدِہِ ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَالُوا إِنْ انْغَمَسَ الْجُنُبُ فِي الْمَاءِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ أَجْزَأَہُ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کوبرتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے،پھر شرم گاہ دھوتے،اور اپنی صلاۃ کے وضوکی طرح وضوکرتے،پھر بال پانی سے بھگوتے،پھر اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی کو اہل علم نے غسل جنابت میں اختیا رکیاہے کہ وہ صلاۃکے وضوکی طرح وضو کرے،پھر اپنے سر پرتین بار پانی ڈالے،پھراپنے پورے بدن پر پانی بہائے،پھراپنے پاؤں دھوئے،اہل علم کا اسی پر عمل ہے،نیزان لوگوں نے کہاکہ اگرجنبی پانی میں غوطہ مارے اور وضو نہ کرے تو یہ اسے کافی ہوگا۔یہی شافعی،ا حمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ وَجِيہٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ تَحْتَ كُلِّ شَعْرَةٍ جَنَابَةٌ فَاغْسِلُوا الشَّعْرَ وَأَنْقُوا الْبَشَرَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ وَجِيہٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ وَہُوَ شَيْخٌ لَيْسَ بِذَاكَ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَقَدْ تَفَرَّدَ بِہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ مَالِكِ بْنِ دِينَارٍ وَيُقَالُ الْحَارِثُ بْنُ وَجِيہٍ وَيُقَالُ ابْنُ وَجْبَةَ

بوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہربال کے نیچے جنابت کااثرہوتا ہے،اس لیے بالوں کو اچھی طرح دھویاکرو اورکھال کواچھی طرح مل کرصاف کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں علی اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-حارث بن وجیہ کی حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قوی نہیں ہیں ۱؎،وہ اس حدیث کومالک بن دینا رسے روایت کرنے میں منفرد ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لَا يَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ أَنْ لَا يَتَوَضَّأَ بَعْدَ الْغُسْلِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا قول ہے کہ غسل کے بعد وضو نہ کرے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ،أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ،عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: إِنَّمَا كَانَ الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ رُخْصَةً فِي أَوَّلِ الإسْلاَمِ،ثُمَّ نُہِيَ عَنْہَا.

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صرف منی (نکلنے) پرغسل واجب ہوتا ہے،یہ رخصت ابتدائے اسلام میں تھی،پھر اس سے روک دیاگیا۔1

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ،أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّہْرِيِّ بِہَذَا الإسْنَادِ مِثْلَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَإِنَّمَا كَانَ الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ فِي أَوَّلِ الإسْلاَمِ،ثُمَّ نُسِخَ بَعْدَ ذَلِكَ. وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ: أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ،وَرَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ: عَلَی أَنَّہُ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ فِي الْفَرْجِ وَجَبَ عَلَيْہِمَا الْغُسْلُ،وَإِنْ لَمْ يُنْزِلاَ

اس سند سے بھی زہری سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صرف منی نکلنے ہی کی صورت میں غسل واجب ہوتا ہے،یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا،بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا،۳-اسی طرح صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے جن میں ابی بن کعب اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں،مروی ہے،۴-اوراسی پراکثر اہل علم کا عمل ہے،کہ جب آدمی اپنی بیوی کی (شرمگاہ) میں جماع کرے تو دونوں(میاں بیوی) پر غسل واجب ہوجائے گا گرچہ ان دونوں کو انزال نہ ہواہو۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّمَا الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ فِي الِاحْتِلَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ لَمْ نَجِدْ ہَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا عِنْدَ شَرِيكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُہُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ وَيُرْوَی عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَالزُّبَيْرِ وَطَلْحَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ الْمَاءُ مِنْ الْمَاءِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: منی نکلنے سے ہی غسل واجب ہوتا ہے کا تعلق احتلام سے ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عثمان بن عفان،علی بن ابی طالب،زبیر،طلحہ،ابوایوب اور ابوسعید رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعاروایت کی ہے کہ آپ نے فرمایامنی نکلنے ہی پرغسل واجب ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ ہُوَ الْعُمَرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ وَلَا يَذْكُرُ احْتِلَامًا قَالَ يَغْتَسِلُ وَعَنْ الرَّجُلِ يَرَی أَنَّہُ قَدْ احْتَلَمَ وَلَمْ يَجِدْ بَلَلًا قَالَ لَا غُسْلَ عَلَيْہِ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللہِ ہَلْ عَلَی الْمَرْأَةِ تَرَی ذَلِكَ غُسْلٌ قَالَ نَعَمْ إِنَّ النِّسَاءَ شَقَائِقُ الرِّجَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ حَدِيثَ عَائِشَةَ فِي الرَّجُلِ يَجِدُ الْبَلَلَ وَلَا يَذْكُرُ احْتِلَامًا وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ فِي الْحَدِيثِ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ إِذَا اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ فَرَأَی بِلَّةً أَنَّہُ يَغْتَسِلُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَحْمَدَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ إِنَّمَا يَجِبُ عَلَيْہِ الْغُسْلُ إِذَا كَانَتْ الْبِلَّةُ بِلَّةَ نُطْفَةٍ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَقَ وَإِذَا رَأَی احْتِلَامًا وَلَمْ يَرَ بِلَّةً فَلَا غُسْلَ عَلَيْہِ عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو تری دیکھے لیکن اسے احتلام یادنہ آئے،آپ نے فرمایا: وہ غسل کرے اور اس شخص کے بارے میں (پوچھاگیا) جسے یہ یاد ہوکہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن وہ تری نہ پائے توآپ نے فرمایا: اس پر غسل نہیں ام سلمہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول! کیا عورت پر بھی جو ایسادیکھے غسل ہے؟ آپ نے فرمایا: عورتیں بھی (شرعی احکام میں) مردوں ہی کی طرح ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ کی حدیث کو جس میں ہے کہ آدمی تری دیکھے اوراسے احتلام یادنہ آئے صرف عبداللہ ابن عمرعمری ہی نے عبیداللہ سے روایت کیا ہے اورعبداللہ بن عمرعمری کی یحیی بن سعیدنے حدیث کے سلسلے میں ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے ۱؎،۲-صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جب آدمی جاگے اور تری دیکھے توغسل کرے،یہی سفیان ثوری اور احمد کابھی قول ہے۔تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس پر غسل اس وقت واجب ہوگا جب وہ تری نطفے کی تری ہو،یہ شافعی اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔اورجب وہ احتلام دیکھے اور تری نہ پائے تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس پر غسل نہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ بِنْتُ مِلْحَانَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ اللہَ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ فَہَلْ عَلَی الْمَرْأَةِ تَعْنِي غُسْلًا إِذَا ہِيَ رَأَتْ فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَی الرَّجُلُ قَالَ نَعَمْ إِذَا ہِيَ رَأَتْ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ قُلْتُ لَہَا فَضَحْتِ النِّسَاءَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَہَاءِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا رَأَتْ فِي الْمَنَامِ مِثْلَ مَا يَرَی الرَّجُلُ فَأَنْزَلَتْ أَنَّ عَلَيْہَا الْغُسْلَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ وَخَوْلَةَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم بنت ملحان نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اورکہنے لگیں: اللہ کے رسول! اللہ حق سے نہیں شرماتا ۱؎ کیا عورت پر بھی غسل ہے،جب وہ خواب میں وہی چیزدیکھے جو مرد دیکھتا ہے ۲؎ آپ نے فرمایا: ہاں،جب وہ منی دیکھے توغسل کرے ۳؎ ام سلمہ کہتی ہیں: میں نے ام سلیم سے کہا: ام سلیم! آپ نے توعورتوں کو رسوا کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بیشترفقہاء کا قول ہے کہ عورت جب خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتاہے پھر اسے انزال ہوجائے (یعنی منی نکل جائے) تو اس پر غسل واجب ہے،یہی سفیان ثوری اور شافعی بھی کہتے ہیں،۳-اس باب میں ام سلیم،خولہ،عائشہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدَةُ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْہُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ قَالَ لَا إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ فَإِذَا أَقْبَلَتْ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ فِي حَدِيثِہِ وَقَالَ تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ حَتَّی يَجِيءَ ذَلِكَ الْوَقْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكٌ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ أَنَّ الْمُسْتَحَاضَةَ إِذَا جَاوَزَتْ أَيَّامَ أَقْرَائِہَا اغْتَسَلَتْ وَتَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلَاةٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکرکہا: اللہ کے رسول! میں ایسی عورت ہوں کہ مجھے استحاضہ کاخون ۱؎ آتا ہے تو میں پاک ہی نہیں رہ پاتی،کیا میں صلاۃ چھوڑدوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں،یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں ہے،جب حیض آئے تو صلاۃ چھوڑدو۔اور جب وہ چلاجائے (یعنی حیض کے دن پورے ہوجائیں)تو خون دھوکر (غسل کرکے) صلاۃ پڑھو،ابومعاویہ کی روایت میں ہے ؛ آپﷺ نے فرمایا:ہر صلاۃ کے لیے وضو کرو یہاں تک کہ وہ وقت (حیض کاوقت) آجائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔۳-صحابہ کرام اور تابعین میں بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے،اور یہی سفیان ثوری،مالک،ابن مبارک اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں کہ جب مستحاضہ عورت کے حیض کے دن گزرجائیں تووہ غسل کرے اور ہرصلاۃ کے لئے (تازہ) وضو کرے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ اسْتَفْتَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ ابْنَةُ جَحْشٍ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَتْ إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْہُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ فَقَالَ لَا إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ فَاغْتَسِلِي ثُمَّ صَلِّي فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ قَالَ قُتَيْبَةُ قَالَ اللَّيْثُ لَمْ يَذْكُرْ ابْنُ شِہَابٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَمَرَ أُمَّ حَبِيبَةَ أَنْ تَغْتَسِلَ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَلَكِنَّہُ شَيْءٌ فَعَلَتْہُ ہِيَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَفْتَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ جَحْشٍ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْمُسْتَحَاضَةُ تَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ وَرَوَی الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت حجش نے رسول اللہﷺ سے مسئلہ پوچھا ااور کہاکہ مجھے استحاضہ کاخون آتاہے اور میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں۔توکیا میں صلاۃ چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں،یہ تومحض ایک رگ ہے،لہذا تم غسل کرو پھر صلاۃ پڑھو،تو وہ ہرصلاۃ کے لیے غسل کرتی تھیں۔ ابن شہاب زہری نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہﷺ نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ہرصلاۃ کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا،بلکہ یہ ایساعمل تھاجسے وہ اپنے طور پر کیا کرتی تھیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-نیز یہ حدیث زہری سے عن عمرۃ عن عائشہ کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش نے رسول اللہﷺ سے مسئلہ پوچھا،۲-بعض اہل علم نے کہاہے کہ مستحاضہ ہرصلاۃ کے وقت غسل کرے گی۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَقْرَأْ الْجُنُبُ وَلَا الْحَائِضُ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا لَا تَقْرَأْ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ مِنْ الْقُرْآنِ شَيْئًا إِلَّا طَرَفَ الْآيَةِ وَالْحَرْفَ وَنَحْوَ ذَلِكَ وَرَخَّصُوا لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ فِي التَّسْبِيحِ وَالتَّہْلِيلِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ إِنَّ إِسْمَعِيلَ بْنَ عَيَّاشٍ يَرْوِي عَنْ أَہْلِ الْحِجَازِ وَأَہْلِ الْعِرَاقِ أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ كَأَنَّہُ ضَعَّفَ رِوَايَتَہُ عَنْہُمْ فِيمَا يَنْفَرِدُ بِہِ وَقَالَ إِنَّمَا حَدِيثُ إِسْمَعِيلَ بْنَ عَيَّاشٍ عَنْ أَہْلِ الشَّأْمِ و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ أَصْلَحُ مِنْ بَقِيَّةَ وَلِبَقِيَّةَ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنْ الثِّقَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَال سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ ذَلِكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:حائضہ اورجنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۲-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو ہم صرف اسماعیل بن عیاش ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔جس میں ابن عمرسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنبی اور حائضہ (قرآن) نہ پڑھیں،۳-صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثر اہل علم اور ان کے بعد کے لوگ مثلاً سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ حائضہ اورجنبی آیت کے کسی ٹکڑے یا ایک آدھ حرف کے سوا قرآن سے کچھ نہ پڑھیں،ہاں ان لوگوں نے جنبی اور حائضہ کوتسبیح وتہلیل کی اجازت دی ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مِنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا حِضْتُ يَأْمُرُنِي أَنْ أَتَّزِرَ ثُمَّ يُبَاشِرُنِي قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَمَيْمُونَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے جب حیض آتا تو رسول اللہﷺ مجھے تہ بند باندھنے کا حکم دیتے پھر مجھ سے چمٹتے اور بوس وکنار کرتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے۔صحابہ کرام وتابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے اوریہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۲-اس باب میں ا م سلمہ اور میمونہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ ثابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ لِي عَائِشَةُ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنْ الْمَسْجِدِ قَالَتْ قُلْتُ إِنِّي حَائِضٌ قَالَ إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِي يَدِكِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَہُمْ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ بِأَنْ لَا بَأْسَ أَنْ تَتَنَاوَلَ الْحَائِضُ شَيْئًا مِنْ الْمَسْجِدِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: مسجد سے مجھے بوریااٹھا کر دو،تو میں نے عرض کیا: میں حائضہ ہوں،آپ نے فرمایا: تیراحیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثراہل علم کایہی قول ہے۔ہم اس مسئلہ میں کہ حائضہ کے مسجدسے کوئی چیز اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَبَہْزُ بْنُ أَسَدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَادُ بْنُ سَلَمَةِ عَنْ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الہُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَتَی حَائِضًا أَوْ امْرَأَةً فِي دُبُرِہَا أَوْ كَاہِنًا فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی لَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْہُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَإِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی التَّغْلِيظِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَتَی حَائِضًا فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ فَلَوْ كَانَ إِتْيَانُ الْحَائِضِ كُفْرًا لَمْ يُؤْمَرْ فِيہِ بِالْكَفَّارَةِ وَضَعَّفَ مُحَمَّدٌ ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِہِ وَأَبُو تَمِيمَةَ الْہُجَيْمِيِّ اسْمُہُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جوکسی حائضہ کے پاس آیایعنی اس سے جماع کیا یاکسی عورت کے پاس پیچھے کے راستے سے آیا،یاکسی کاہن نجومی کے پاس (غیب کاحال جاننے کے لیے)آیا توا س نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد (ﷺ) پر نازل کی گئی ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اہل علم کے نزدیک نبی اکرم ﷺکے اس فرمان کا مطلب تغلیظ ہے،نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے کسی حائضہ سے صحبت کی تو وہ ایک دینار صدقہ کرے،اگر حائضہ سے صحبت کا ارتکاب کفرہوتا تو اس میں کفارے کا حکم نہ دیا جاتا،۲-محمدبن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنداً ضعیف قراردیاہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَطُوفُ عَلَی نِسَائِہِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَطُوفُ عَلَی نِسَائِہِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَعُودَ قَبْلَ أَنْ يَتَوَضَّأَ وَقَدْ رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ہَذَا عَنْ سُفْيَانَ فَقَالَ عَنْ أَبِي عُرْوَةَ عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ أَنَسٍ وَأَبُو عُرْوَةَ ہُوَ مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ وَأَبُو الْخَطَّابِ قَتَادَةُ بْنُ دِعَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ أَبِي عُرْوَةَ عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ وَہُوَ خَطَأٌ وَالصَّحِيحُ عَنْ أَبِي عُرْوَةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ایک ہی غسل میں سبھی بیویوں کاچکرلگالیتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابورافع رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔۳-بہت سے اہل علم کا جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں یہی قول ہے کہ وضو کرنے سے پہلے دوبارہ جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَتْ قُلْتُ لِأُمِّ سَلَمَةَ إِنِّي امْرَأَةٌ أُطِيلُ ذَيْلِي وَأَمْشِي فِي الْمَكَانِ الْقَذِرِ فَقَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُطَہِّرُہُ مَا بَعْدَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَا نَتَوَضَّأُ مِنْ الْمَوْطَإِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا وَطِيءَ الرَّجُلُ عَلَی الْمَكَانِ الْقَذِرِ أَنَّہُ لَا يَجِبُ عَلَيْہِ غَسْلُ الْقَدَمِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَطْبًا فَيَغْسِلَ مَا أَصَابَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِہُودِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَہُوَ وَہَمٌ وَلَيْسَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ابْنٌ يُقَالَ لَہُ ہُودٌ وَإِنَّمَا ہُوَ عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِإِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَہَذَا الصَّحِيحُ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ایک ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: میں لمبا دامن رکھنے والی عورت ہوں اور میرا گندی جگہوں پربھی چلناہوتا ہے،(تو میں کیا کروں؟) انہوں نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: اس کے بعد کی (پاک) زمین اُسے پاک کردیتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ گندی جگہوں پرسے گزر نے کے بعد پاؤں نہیں دھوتے تھے،۲-اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ جب آدمی کسی گندے راستے سے ہوکر آئے تو اسے پاؤں دھونے ضروری نہیں سوائے اس کے کہ گندگی گیلی ہوتو ایسی صورت میں جو کچھ لگاہے اسے دھولے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللہِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَعُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ وَابْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلِمَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ عَلَی كُلِّ حَالٍ مَا لَمْ يَكُنْ جُنُبًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبِہِ قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ قَالُوا يَقْرَأُ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ عَلَی غَيْرِ وُضُوءٍ وَلَا يَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ إِلَّا وَہُوَ طَاہِرٌ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں قرآن پڑھاتے تھے۔خواہ کوئی بھی حالت ہو جب تک کہ آپ جنبی نہ ہوتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎،۲-صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی وضوکے بغیرقرآن پڑھ سکتا ہے،لیکن مصحف میں دیکھ کر اسی وقت پڑھے جب وہ باوضو ہو۔سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ،قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،قَالَ: دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ الْمَسْجِدَ،وَالنَّبِيُّ ﷺ جَالِسٌ،فَصَلَّی،فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: اللّہُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلاَ تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا،فَالْتَفَتَ إِلَيْہِ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا،فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ بَالَ فِي الْمَسْجِدِ،فَأَسْرَعَ إِلَيْہِ النَّاسُ،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَہْرِيقُوا عَلَيْہِ سَجْلاً مِنْ مَاء-أَوْ دَلْوًا مِنْ مَاءٍ-،ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا،نبی اکرم ﷺ بیٹھے ہوئے تھے،اس نے صلاۃ پڑھی،جب صلاۃ پڑھ چکا تو کہا:اے اللہ تومجھ پر اور محمد پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پررحم مت فرما۔نبی اکرم ﷺنے اس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: تم نے ایک کشادہ چیز (یعنی رحمت الٰہی) کو تنگ کردیا،پھر ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ مسجد میں جاکر پیشاب کرنے لگا،لوگ تیزی سے اس کی طرف بڑھے،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس پر ایک ڈول پانی بہا دو،پھرآپ نے فرمایا: تم تو آسانی کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو ناکہ سختی کرنے والے ۱؎۔

قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ سُفْيَانُ: وَحَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ نَحْوَ ہَذَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُودٍ،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَوَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ،وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ،وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رَوَی يُونُسُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ عُبَيْدِاللہِ بْنِ عَبْدِاللہِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ.

اس سند سے انس بن مالک سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،ابن عباس اور واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الظُّہْرِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ وَآخِرَ وَقْتِہَا حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُہَا وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِہَا حِينَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِہَا حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِہَا حِينَ يَنْتَصِفُ اللَّيْلُ وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِہَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حَدِيثُ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ فِي الْمَوَاقِيتِ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيہِ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ كَانَ يُقَالُ إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صلاۃ کا ایک اوّل وقت ہے اورایک آخری وقت،ظہر کااوّل وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اوراس کاآخری وقت وہ ہے جب عصرکا وقت شروع ہوجائے،اورعصرکا اوّل وقت وہ ہے جب عصرکا وقت (ایک مثل سے) شروع ہوجائے اورآخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہوجائے،اورمغرب کا اوّل وقت وہ ہے جب سورج ڈوب جائے اورآخری وقت وہ ہے جب شفق ۱؎ غائب ہوجائے،اورعشاء کا اوّل وقت وہ ہے جب شفق غائب ہوجائے اوراس کا آخروقت وہ ہے جب آدھی رات ہوجائے ۲؎،اور فجر کا اوّل وقت وہ ہے جب فجر (صادق) طلوع ہوجائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج نکل جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت آئی ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سنا کہ اوقات کے سلسلہ میں اعمش کی مجاہدسے روایت محمد بن فضیل کی أعمش سے روایت سے زیادہ صحیح ہے،محمد بن فضیل کی حدیث غلط ہے اس میں محمد بن فضیل سے چوک ہوئی ہے ۳؎،اس روایت کو ابواسحاق فزاری نے اعمش سے اوراعمش نے مجاہد سے روایت کیا ہے،مجاہد کہتے ہیں کہ کہاجاتاتھا کہ صلاۃ کا ایک اوّل وقت ہے اورایک آخر وقت ہے،پھرمحمد بن فضیل والی سابقہ حدیث کی طرح اسی کے ہم معنی کی حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَالْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ فَسَأَلَہُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ أَقِمْ مَعَنَا إِنْ شَاءَ اللہُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ فَصَلَّی الظُّہْرَ ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَقَامَ فَصَلَّی الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ ثُمَّ أَمَرَہُ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَقَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ ثُمَّ أَمَرَہُ بِالْعِشَاءِ فَأَقَامَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ أَمَرَہُ مِنْ الْغَدِ فَنَوَّرَ بِالْفَجْرِ ثُمَّ أَمَرَہُ بِالظُّہْرِ فَأَبْرَدَ وَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ ثُمَّ أَمَرَہُ بِالْعَصْرِ فَأَقَامَ وَالشَّمْسُ آخِرَ وَقْتِہَا فَوْقَ مَا كَانَتْ ثُمَّ أَمَرَہُ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ إِلَی قُبَيْلِ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ ثُمَّ أَمَرَہُ بِالْعِشَاءِ فَأَقَامَ حِينَ ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا فَقَالَ مَوَاقِيتُ الصَّلَاةِ كَمَا بَيْنَ ہَذَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ قَالَ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ أَيْضًا

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک شخص آیا،اس نے آپ سے اوقاتِ صلاۃ کے بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا: تم ہمارے ساتھ قیام کرو (تمہیں صلاۃ کے اوقات معلوم ہوجائیں گے)ان شاء اللہ،پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی جب فجر (صادق) طلوع ہوگئی پھرآپ نے حکم دیا تو انہوں نے سورج ڈھلنے کے بعد اقامت کہی تو آپ نے ظہر پڑھی،پھر آپ نے انہیں حکم دیا توانہوں نے اقامت کہی آپ نے عصر پڑھی اس وقت سورج روشن اور بلندتھا،پھرجب سورج ڈوب گیا توآپ نے انہیں مغرب کا حکم دیا،پھرجب شفق غائب ہوگئی توآپ نے انہیں عشاء کاحکم دیا توانہوں نے اقامت کہی،پھر دوسرے دن انہیں حکم دیا توانہوں نے فجرکوخوب اجالا کرکے پڑھا،پھر آپ نے انہیں ظہرکاحکم دیا توانہوں نے ٹھنڈا کیا،اورخوب ٹھنڈا کیا،پھر آپ نے انہیں عصرکا حکم دیا اورانہوں نے اقامت کہی تواس وقت سورج اس کے آخروقت میں اس سے زیادہ تھا جتنا پہلے دن تھا (یعنی دوسرے دن عصرمیں تاخیر ہوئی)،پھر آپ نے انہیں مغرب میں دیر کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے مغرب کوشفق کے ڈوبنے سے کچھ پہلے تک مؤخرکیا،پھر آپ نے انہیں عشاء کا حکم دیا توانہوں نے جب تہائی رات ختم ہوگئی تو اقامت کہی،پھر آپ نے فرمایا: صلاۃ کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟ تو اس آدمی نے عرض کیا: میں ہوں،آپ نے فرمایا:صلاۃ کے اوقات انہیں دونوں کے بیچ میں ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن،غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَتَوَارَتْ بِالْحِجَابِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَالصُّنَابِحِيِّ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَأَنَسٍ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحَدِيثُ الْعَبَّاسِ قَدْ رُوِيَ مَوْقُوفًا عَنْہُ وَہُوَ أَصَحُّ وَالصُّنَابِحِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ صَاحِبُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ اخْتَارُوا تَعْجِيلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ وَكَرِہُوا تَأْخِيرَہَا حَتَّی قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا وَقْتٌ وَاحِدٌ وَذَہَبُوا إِلَی حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ حَيْثُ صَلَّی بِہِ جِبْرِيلُ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور پردے میں چھپ جاتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سلمہ بن الاکوع والی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،صنابحی،زید بن خالد،انس،رافع بن خدیج،ابوایوب،ام حبیبہ،عباس بن عبدالمطلب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ان سے موقوفاً روایت کی گئی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے،۴-اور صنابحی نے نبی اکرمﷺ سے نہیں سناہے،وہ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور کے ہیں،۵-اور یہی قول صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا ہے،ان لوگوں نے صلاۃِ مغرب جلدی پڑھنے کو پسند کیا ہے اور اسے مؤخر کرنے کو مکروہ سمجھاہے،یہاں تک کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب کاایک ہی وقت ہے ۲؎،یہ تمام حضرات نبی اکرمﷺ کی اس حدیث کی طرف گئے ہیں جس میں ہے کہ جبرئیل نے آپ کو صلاۃ پڑھائی اوریہی ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَسْمُرُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنَا مَعَہُمَا وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَوْسِ بْنِ حُذَيْفَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ يُقَالُ لَہُ قَيْسٌ أَوْ ابْنُ قَيْسٍ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثَ فِي قِصَّةٍ طَوِيلَةٍ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ فِي السَّمَرِ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ فَكَرِہَ قَوْمٌ مِنْہُمْ السَّمَرَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَرَخَّصَ بَعْضُہُمْ إِذَا كَانَ فِي مَعْنَی الْعِلْمِ وَمَا لَا بُدَّ مِنْہُ مِنْ الْحَوَائِجِ وَأَكْثَرُ الْحَدِيثِ عَلَی الرُّخْصَةِ قَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا سَمَرَ إِلَّا لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسلمانوں کے بعض معاملات میں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رات میں گفتگوکرتے اور میں ان دونوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو،اوس بن حذیفہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم نے عشاء کے بعد بات کرنے کے سلسلہ میں اختلاف کیاہے۔کچھ لوگوں نے عشاء کے بعد بات کرنے کو مکروہ جانا ہے اورکچھ لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے،بشرطیکہ یہ کوئی علمی گفتگو ہو یاکوئی ایسی ضرورت ہوجس کے بغیرچارہ نہ ہو ۱؎ اور اکثر احادیث رخصت کے بیان میں ہیں،نیزنبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: بات صرف وہ کرسکتا ہے جوصلاۃِعشاء کا منتظرہویا مسافر ہو۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الَّذِي تَفُوتُہُ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَہْلَہُ وَمَالَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَنَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ الزُّہْرِيُّ أَيْضًا عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس سے عصر فوت ہوگئی گویا اس کا گھر اور مال لٹ گیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں بریدہ اور نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ ذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ ﷺ نَوْمَہُمْ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ إِنَّہُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلَاةً أَوْ نَامَ عَنْہَا فَلْيُصَلِّہَا إِذَا ذَكَرَہَا وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي مَرْيَمَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ وَذِي مِخْبَرٍ وَيُقَالُ ذِي مِخْمَرٍ وَہُوَ ابْنُ أَخِي النَّجَاشِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ أَوْ يَنْسَاہَا فَيَسْتَيْقِظُ أَوْ يَذْكُرُ وَہُوَ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلَاةٍ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوْ عِنْدَ غُرُوبِہَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ يُصَلِّيہَا إِذَا اسْتَيْقَظَ أَوْ ذَكَرَ وَإِنْ كَانَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوْ عِنْدَ غُرُوبِہَا وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَالشَّافِعِيِّ وَمَالِكٍ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَا يُصَلِّي حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ أَوْ تَغْرُبَ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی اکرمﷺ سے صلاۃ سے اپنے سوجانے کا ذکر کیاتو آپ نے فرمایا: سوجانے میں قصور اورکمی نہیں۔قصوراورکمی تو جاگنے میں ہے،(کہ جاگتارہے اورنہ پڑھے) لہذا تم میں سے کوئی جب صلاۃ بھول جائے،یاصلاۃ سے سوجائے،تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،ابومریم،عمران بن حصین،جبیر بن مطعم،ابو جحیفہ،ابوسعید،عمروبن امیہ ضمری اور ذو مخمر(جنہیں ذومخبربھی کہاجاتاہے،اور یہ نجاشی کے بھتیجے ہیں) رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کے درمیان اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو صلاۃ سے سوجائے یااسے بھول جائے اورایسے وقت میں جاگے یا اسے یادآئے جوصلاۃ کا وقت نہیں مثلاً سورج نکل رہاہویاڈوب رہاہوتو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے پڑھ لے جب جاگے یایادآئے گو سورج نکلنے کا یا ڈوبنے کاوقت ہو،یہی احمد،اسحاق بن راہویہ،شافعی اور مالک کا قول ہے۔اوربعض کہتے ہیں کہ جب تک سورج نکل نہ جائے یا ڈوب نہ جائے نہ پڑھے۔پہلا قول ہی راجح ہے،کیونکہ یہ صلاۃ سبب والی (قضا)ہے اورسبب والی میں وقت کی پابندی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّہَا إِذَا ذَكَرَہَا وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّہُ قَالَ فِي الرَّجُلِ يَنْسَی الصَّلَاةَ قَالَ يُصَلِّيہَا مَتَی مَا ذَكَرَہَا فِي وَقْتٍ أَوْ فِي غَيْرِ وَقْتٍ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَإِسْحَقَ وَيُرْوَی عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّہُ نَامَ عَنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ فَاسْتَيْقَظَ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ فَلَمْ يُصَلِّ حَتَّی غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ إِلَی ہَذَا وَأَمَّا أَصْحَابُنَا فَذَہَبُوا إِلَی قَوْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوشخص صلاۃ بھول جائے تو چاہئے کہ جب یاد آئے پڑھ لے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سمرہ اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں جو صلاۃ بھول جائے کہا کہ وہ پڑھ لے جب بھی اسے یادآئے خواہ وقت ہویانہ ہو۔یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عصر میں سوگئے اورسورج ڈوبنے کے وقت اٹھے،تو انہوں نے صلاۃ نہیں پڑھی جب تک کہ سورج ڈوب نہیں گیا۔اہل کوفہ کے کچھ لوگ اسی طرف گئے ہیں۔رہے ہمارے اصحاب یعنی محدثین تووہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہی کے قول کی طرف گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ وَثَّابٍ عَنْ مَسْرُوقٍ أَنَّہُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَتْ مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ أَوَّلَہُ وَأَوْسَطَہُ وَآخِرَہُ فَانْتَہَی وِتْرُہُ حِينَ مَاتَ إِلَی السَّحَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی أَبُو حَصِينٍ اسْمُہُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ وَأَبِي قَتَادَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْوِتْرُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ

مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کے وتر کے بارے میں پوچھا،توانہوں نے کہا: آپﷺ نے رات کے ہرحصے میں وتر پڑھا ہے۔شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی توآپ کا وترسحرتک پہنچ گیا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،جابر،ابومسعود انصاری اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-بعض اہل علم کے نزدیک یہی پسندیدہ ہے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھی جائے ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكَوْسَجُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْہُنَّ إِلَّا فِي آخِرِہِنَّ فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ الْوِتْرَ بِخَمْسٍ وَقَالُوا لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ مِنْہُنَّ إِلَّا فِي آخِرِہِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَسَأَلْتُ أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدِينِيَّ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ قُلْتُ كَيْفَ يُوتِرُ بِالتِّسْعِ وَالسَّبْعِ قَالَ يُصَلِّي مَثْنَی مَثْنَی وَيُسَلِّمُ وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:ـ نبی اکرمﷺ کی قیام اللیل(تہجد) تیرہ رکعت ہوتی تھی۔ان میں پانچ رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں،ان (پانچ) میں آپ صرف آخری رکعت ہی میں قعدہ کرتے تھے،پھرجب مؤذن اذان دیتا توآپ کھڑے ہوجاتے اور دوہلکی رکعتیں پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوایوب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ (جس) وتر کی پانچ رکعتیں ہیں،ان میں وہ صرف آخری رکعت میں قعدہ کرے گا،۴-میں نے اس حدیث کے بارے میں کہ نبی اکرمﷺ نو اور سات رکعت وتر پڑھتے تھے ابومصعب مدینی سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ نو اور سات رکعتیں کیسے پڑھتے تھے؟ توانہوں نے کہا: آپ ﷺدو دو رکعت پڑھتے اور سلام پھیر تے جاتے،پھر ایک رکعت وتر پڑھ لیتے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ فَقُلْتُ أُطِيلُ فِي رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَقَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ وَكَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ وَالْأَذَانُ فِي أُذُنِہِ يَعْنِي يُخَفِّفُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ رَأَوْا أَنْ يَفْصِلَ الرَّجُلُ بَيْنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَالثَّالِثَةِ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا میں فجر کی دورکعت سنت لمبی پڑھوں؟ توانہوں نے کہا: نبی اکرمﷺ تہجد دو دو رکعت پڑھتے تھے،اور وتر ایک رکعت،اورفجرکی دورکعت سنت پڑھتے (گویاکہ) تکبیر آپ کے کانوں میں ہورہی ہوتی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،جابر،فضل بن عباس،ابوایوب انصاری اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ وتابعین میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،ان کا خیال ہے کہ آدمی دو رکعتوں اور تیسری رکعت کے درمیان (سلام کے ذریعہ)فصل کرے،ایک رکعت سے وتر کرے۔مالک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ قَالَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا عَلَّمَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ كَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِي الْوِتْرِ اللہُمَّ اہْدِنِي فِيمَنْ ہَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَی عَلَيْكَ وَإِنَّہُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ وَاسْمُہُ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ وَلَا نَعْرِفُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ ہَذَا وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ فَرَأَی عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ الْقُنُوتَ فِي الْوِتْرِ فِي السَّنَةِ كُلِّہَا وَاخْتَارَ الْقُنُوتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَإِسْحَقُ وَأَہْلُ الْكُوفَةِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّہُ كَانَ لَا يَقْنُتُ إِلَّا فِي النِّصْفِ الْآخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَكَانَ يَقْنُتُ بَعْدَ الرُّكُوعِ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ

حسن بن علی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺنے یہ کلمات سکھائے جنہیں میں وتر میں پڑھاکروں،وہ کلمات یہ ہیں: اللہُمَّ اہْدِنِی فِیمَنْ ہَدَیْتَ،وَعَافِنِی فِیمَنْ عَافَیْتَ،وَتَوَلَّنِی فِیمَنْ تَوَلَّیْتَ،وَبَارِکْ لِی فِیمَا أَعْطَیْتَ،وَقِنِی شَرَّ مَا قَضَیْتَ،فَإِنَّکَ تَقْضِی وَلاَ یُقْضَی عَلَیْکَ،وَإِنَّہُ لاَیَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ،تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ (اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کے زمرہ میں شامل فرماجنہیں تونے ہدایت سے نوازاہے،مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرماجنہیں تو نے عافیت بخشی ہے،میری سرپرستی فرماکر،ان لوگوں میں شامل فرماجن کی تونے سرپرستی کی ہے،اورجوکچھ تو نے مجھے عطافرمایا ہے اس میں برکت عطافرما،اورجس شرکا تونے فیصلہ فرمادیا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ،یقینا فیصلہ توہی صادرفرماتا ہے،تیرے خلاف فیصلہ صادرنہیں کیا جاسکتا،اورجس کا تووالی ہووہ کبھی ذلیل وخوارنہیں ہوسکتا،اے ہمارے رب! توبہت برکت والا اور بہت بلند وبالاہے۔) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسے ہم صرف اسی سند سے یعنی ابوالحوراء سعدی کی روایت سے جانتے ہیں،ان کا نام ربیعہ بن شیبان ہے،۳-میرے علم میں وتر کے قنوت کے سلسلے میں اس سے بہتر کوئی اور چیز نبی اکرمﷺسے مروی ہو معلوم نہیں،۴-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۵-اہل علم کا وتر کے قنوت میں اختلاف ہے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ وتر میں قنوت پورے سال ہے،اور انہوں نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا پسند کیاہے،اوریہی بعض اہل علم کا قول ہے سفیان ثوری،ابن مبارک،اسحاق اور اہل کوفہ بھی یہی کہتے ہیں،۶-علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ صرف رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے،اور رکوع کے بعد پڑھتے تھے،۷-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں،شافعی اور احمدبھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ بَادِرُوا الصُّبْحَ بِالْوِتْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

-عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیاکرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَوْتِرُوا قَبْلَ أَنْ تُصْبِحُوا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیاکرو۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ فَقَدْ ذَہَبَ كُلُّ صَلَاةِ اللَّيْلِ وَالْوِتْرُ فَأَوْتِرُوا قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَی قَدْ تَفَرَّدَ بِہِ عَلَی ہَذَا اللَّفْظِ وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَا وِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ الْوِتْرَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جب فجر طلوع ہوگئی تو تہجد(قیام اللیل) اور وتر کا سارا وقت ختم ہوگیا،لہذا فجرکے طلوع ہونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سلیمان بن موسیٰ ان الفاظ کے ساتھ منفردہیں،۲-نیزنبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: فجر کے بعد وتر نہیں،۳-بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے۔اور شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں: یہ لوگ صلاۃِفجر کے بعد وتر پڑھنے کودرست نہیں سمجھتے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ بَدْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ ثُمَّ يَقُومُ مِنْ آخِرِہِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ نَقْضَ الْوِتْرِ وَقَالُوا يُضِيفُ إِلَيْہَا رَكْعَةً وَيُصَلِّي مَا بَدَا لَہُ ثُمَّ يُوتِرُ فِي آخِرِ صَلَاتِہِ لِأَنَّہُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ وَہُوَ الَّذِي ذَہَبَ إِلَيْہِ إِسْحَقُ وَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِذَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ ثُمَّ نَامَ ثُمَّ قَامَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَإِنَّہُ يُصَلِّي مَا بَدَا لَہُ وَلَا يَنْقُضُ وِتْرَہُ وَيَدَعُ وِتْرَہُ عَلَی مَا كَانَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَأَحْمَدَ وَہَذَا أَصَحُّ لِأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدْ صَلَّی بَعْدَ الْوِتْرِ

طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ایک رات میں دوباروتر نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس شخص کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے جورات کے شروع حصہ میں وترپڑھ لیتاہوپھر رات کے آخری حصہ میں قیام اللیل(تہجد)کے لیے اٹھتاہو،توصحابہ کرام اور ان کے بعدکے لوگوں میں سے بعض اہل علم کی رائے وترکو توڑدینے کی ہے،ان کا کہناہے کہ وہ اس میں ایک رکعت اور ملالے تاکہ (وہ جفت ہوجائے) پھر جتنا چاہے پڑھے اور صلاۃ کے آخر میں وتر پڑھ لے۔اس لیے کہ ایک رات میں دوبار وتر نہیں،اسحاق بن راہویہ اسی طرف گئے ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب اس نے رات کے شروع حصہ میں وتر پڑھ لی پھر سوگیا،پھر رات کے آخری میں بیدار ہوا تووہ جتنی صلاۃ چاہے پڑھے،وتر کو نہ توڑے بلکہ وتر کو اس کے اپنے حال ہی پررہنے دے۔سفیان ثوری،مالک بن انس،ابن مبارک،شافعی اور اہل کوفہ اور احمدکایہی قول ہے۔اوریہی زیادہ صحیح ہے،اس لیے کہ کئی دوسری روایتوں میں مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے وتر کے بعد صلاۃ پڑھی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مُوسَی الْمَرَئِيِّ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْوِتْرِ رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ ہَذَا عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَعَائِشَةَ وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ وتر کے بعد دورکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابوامامہ،عائشہ رضی اللہ عنہما اوردیگرکئی لوگوں سے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنِي مُوسَی بْنُ فُلَانِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَمِّہِ ثُمَامَةَ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی الضُّحَی ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بَنَی اللہُ لَہُ قَصْرًا مِنْ ذَہَبٍ فِي الْجَنَّةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَنُعَيْمِ بْنِ ہَمَّارٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَعَائِشَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی وَأَبِي سَعِيدٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھیں،اللہ اس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیرفرمائے گا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس کی حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ام ہانی،ابوہریرہ،نعیم بن ہماّر،ابوذر،عائشہ،ابوامامہ،عتبہ بن عبدسُلمی،ابن ابی اوفیٰ،ابوسعیدخدری،زید بن ارقم اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ مَا أَخْبَرَنِي أَحَدٌ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ يُصَلِّي الضُّحَی إِلَّا أُمَّ ہَانِئٍ فَإِنَّہَا حَدَّثَتْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ دَخَلَ بَيْتَہَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَاغْتَسَلَ فَسَبَّحَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ مَا رَأَيْتُہُ صَلَّی صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْہَا غَيْرَ أَنَّہُ كَانَ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَكَأَنَّ أَحْمَدَ رَأَی أَصَحَّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثَ أُمِّ ہَانِئٍ وَاخْتَلَفُوا فِي نُعَيْمٍ فَقَالَ بَعْضُہُمْ نُعَيْمُ بْنُ خَمَّارٍ و قَالَ بَعْضُہُمْ ابْنُ ہَمَّارٍ وَيُقَالُ ابْنُ ہَبَّارٍ وَيُقَالُ ابْنُ ہَمَّامٍ وَالصَّحِيحُ ابْنُ ہَمَّارٍ وَأَبُو نُعَيْمٍ وَہِمَ فِيہِ فَقَالَ ابْنُ حِمَازٍ وَأَخْطَأَ فِيہِ ثُمَّ تَرَكَ فَقَالَ نُعَيْمٌ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی و أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ مجھے صرف ام ہانی رضی اللہ عنہا نے خبردی کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو چاشت کی صلاۃ پڑھتے دیکھاہے،ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ ان کے گھر میں داخل ہوئے تو غسل کیا اور آٹھ رکعتیں پڑھیں،میں نے آپ کونہیں دیکھا کہ آپ نے اس سے بھی ہلکی صلاۃ کبھی پڑھی ہو،البتہ آپ رکوع اورسجدے پورے پورے کررہے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-احمد بن حنبل کی نظر میں اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ام ہانی رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ السِّمْنَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُسْہِرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَوْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَنْ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّہُ قَالَ ابْنَ آدَمَ ارْكَعْ لِي مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ أَكْفِكَ آخِرَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ یا أبوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے ابن آدم! تم دن کے شروع میں میری رضاکے لیے چار رکعتیں پڑھاکرو،میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ نَہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ عَنْ شَدَّادٍ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ حَافَظَ عَلَی شُفْعَةِ الضُّحَی غُفِرَ لَہُ ذُنُوبُہُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی وَكِيعٌ وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے چاشت کی دو رکعتوں کی محافظت کی،اس کے گناہ بخش دئے جائیں گے،اگرچہ وہ سمند ر کے جھاگ کے برابرہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع،نضربن شمیل اوردوسرے کئی ائمہ نے یہ حدیث نہاس بن قہم سے روایت کی ہے۔اور ہم نہاس کو صرف ان کی اسی حدیث سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ يُصَلِّي الضُّحَی حَتَّی نَقُولَ لَا يَدَعُ وَيَدَعُہَا حَتَّی نَقُولَ لَا يُصَلِّي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ چاشت کی صلاۃ پڑھتے تھے۔یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ اسے نہیں چھوڑیں گے،اور آپ اسے چھوڑدیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب اسے نہیں پڑھیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ ہُوَ أَبُو سَعِيدٍ الْمُؤَدِّبُ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي أَرْبَعًا بَعْدَ أَنْ تَزُولَ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّہْرِ وَقَالَ إِنَّہَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيہَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَأُحِبُّ أَنْ يَصْعَدَ لِي فِيہَا عَمَلٌ صَالِحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ بَعْدَ الزَّوَالِ لَا يُسَلِّمُ إِلَّا فِي آخِرِہِنَّ

عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے،اورفرماتے: یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور میں چاہتاہوں کہ میرا نیک عمل اس میں اوپر چڑھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں علی اور ابوایوب رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ زوال کے بعد چار رکعتیں پڑھتے اور ان کے آخر میں ہی سلام پھیرتے ۲؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي إِسْحَقُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ غَدَتْ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ عَلِّمْنِي كَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِي صَلَاتِي فَقَالَ كَبِّرِي اللہَ عَشْرًا وَسَبِّحِي اللہَ عَشْرًا وَاحْمَدِيہِ عَشْرًا ثُمَّ سَلِي مَا شِئْتِ يَقُولُ نَعَمْ نَعَمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرُ حَدِيثٍ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ وَلَا يَصِحُّ مِنْہُ كَبِيرُ شَيْءٍ وَقَدْ رَأَی ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ صَلَاةَ التَّسْبِيحِ وَذَكَرُوا الْفَضْلَ فِيہِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ حَدَّثَنَا أَبُو وَہْبٍ قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَنْ الصَّلَاةِ الَّتِي يُسَبَّحُ فِيہَا فَقَالَ يُكَبِّرُ ثُمَّ يَقُولُ سُبْحَانَكَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَی جَدُّكَ وَلَا إِلَہَ غَيْرُكَ ثُمَّ يَقُولُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَتَعَوَّذُ وَيَقْرَأُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَفَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً ثُمَّ يَقُولُ عَشْرَ مَرَّاتٍ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَرْكَعُ فَيَقُولُہَا عَشْرًا ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَہُ مِنْ الرُّكُوعِ فَيَقُولُہَا عَشْرًا ثُمَّ يَسْجُدُ فَيَقُولُہَا عَشْرًا ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَہُ فَيَقُولُہَا عَشْرًا ثُمَّ يَسْجُدُ الثَّانِيَةَ فَيَقُولُہَا عَشْرًا يُصَلِّي أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ عَلَی ہَذَا فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ تَسْبِيحَةً فِي كُلِّ رَكْعَةٍ يَبْدَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِخَمْسَ عَشْرَةَ تَسْبِيحَةً ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُسَبِّحُ عَشْرًا فَإِنْ صَلَّی لَيْلًا فَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُسَلِّمَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ وَإِنْ صَلَّی نَہَارًا فَإِنْ شَاءَ سَلَّمَ وَإِنْ شَاءَ لَمْ يُسَلِّمْ قَالَ أَبُو وَہْبٍ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ قَالَ يَبْدَأُ فِي الرُّكُوعِ بِسُبْحَانَ رَبِيَ الْعَظِيمِ وَفِي السُّجُودِ بِسُبْحَانَ رَبِيَ الْأَعْلَی ثَلَاثًا ثُمَّ يُسَبِّحُ التَّسْبِيحَاتِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ وَحَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ زَمْعَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ وَہُوَ ابْنُ أَبِي رِزْمَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ إِنْ سَہَا فِيہَا يُسَبِّحُ فِي سَجْدَتَيْ السَّہْوِ عَشْرًا عَشْرًا قَالَ لَا إِنَّمَا ہِيَ ثَلَاثُ مِائَةِ تَسْبِيحَةٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرعرض کیاکہ مجھے کچھ ایسے کلمات سکھادیجئے جنہیں میں صلاۃ ۱؎ میں کہاکروں،آپ نے فرمایا: دس باراللہ أکبرکہو،دس بار سبحان اللہ کہو،دس بار الحمد للہکہو،پھر جو چاہو مانگو،وہ (اللہ) ہرچیز پرہاں،ہاں کہتاہے،(یعنی قبول کرتاہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،عبداللہ بن عمرو،فضل بن عباس اور ابورافع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صلاۃ التسبیح کے سلسلے میں نبی اکرمﷺ سے اور بھی کئی حدیثیں مروی ہیں لیکن کوئی زیادہ صحیح نہیں ہیں،۴-ابن مبارک اوردیگر کئی اہل علم صلاۃ التسبیح کے قائل ہیں اور انہوں نے اس کی فضیلت کاذکرکیا ہے،۵-ابووہب محمدبن مزاحم العامری نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے صلاۃ التسبیح کے بارے میں پوچھاکہ جس میں تسبیح پڑھی جاتی ہے،توانہوں نے کہا:پہلے تکبیرتحریمہ کہے،پھر سُبْحَانَکَ اللّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ،وَتَبَارَکَ اسْمُکَ،وَتَعَالَی جَدُّکَ،وَلاَ إِلَہَ غَیْرُکَ (اے اللہ! تیری ذات پاک ہے،اے اللہ توہرعیب اورہرنقص سے پاک ہے سب تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں،بابرکت ہے تیرا نام،بلند ہے تیری شان اور تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں)کہے،پھر پندرہ مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ،وَالْحَمْدُ لِلّہِ،وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ،وَاللہُ أَکْبَرُ کہے،پھر أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے،پھر سورئہ فاتحہ اور کوئی سورہ پڑھے،پھردس مرتبہ سُبْحَانَ اللہِ،وَالْحَمْدُ لِلّہِ،وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ،وَاللہُ أَکْبَرُ کہے،پھر رکوع میں جائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے،پھر سراٹھائے اور دس مرتبہ یہی کلمات کہے،پھر سجدہ کرے دس باریہی کلمات کہے پھرسجدے سے اپناسراٹھائے اور دس باریہی کلمات کہے،پھردوسرا سجدہ کرے اوردس باریہی کلمات کہے،اس طرح سے وہ چاروں رکعتیں پڑھے،تو ہر رکعت میں یہ کل ۷۵ تسبیحات ہوں گی۔ہررکعت کے شروع میں پندرہ تسبیحیں کہے گا،پھر دس دس کہے گا،اور اگروہ رات کو صلاۃ پڑھ رہاہو تو میرے نزدیک مستحب ہے کہ و ہ ہردورکعت کے بعد سلام پھیرے اور اگر دن میں پڑھے تو چاہے تو (دورکعت کے بعد)سلام پھیرے اور چاہے تو نہ پھیرے۔ ابووہب وہب بن زمعہ سے روایت ہے کہ عبدالعزیز بن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک نے کہا: رکوع میں پہلے سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں پہلے سبحان ربی الأعلی تین تین بار کہے،پھر تسبیحات پڑھے۔عبدالعزیزہی ابن ابی رزمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: اگر اس صلاۃ میں سہو ہوجائے تو کیا وہ سجدۂ سہو میں دس دس تسبیحیں کہے گا؟ انہوں نے کہا: نہیں یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ الْعُكْلِيُّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَی أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلْعَبَّاسِ يَا عَمِّ أَلَا أَصِلُكَ أَلَا أَحْبُوكَ أَلَا أَنْفَعُكَ قَالَ بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ يَا عَمِّ صَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ فَإِذَا انْقَضَتْ الْقِرَاءَةُ فَقُلْ اللہُ أَكْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً قَبْلَ أَنْ تَرْكَعَ ثُمَّ ارْكَعْ فَقُلْہَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْہَا عَشْرًا ثُمَّ اسْجُدْ فَقُلْہَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْہَا عَشْرًا ثُمَّ اسْجُدْ الثَّانِيَةَ فَقُلْہَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْہَا عَشْرًا قَبْلَ أَنْ تَقُومَ فَتِلْكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ہِيَ ثَلَاثُ مِائَةٍ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ فَلَوْ كَانَتْ ذُنُوبُكَ مِثْلَ رَمْلِ عَالِجٍ لَغَفَرَہَا اللہُ لَكَ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ وَمَنْ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَہَا فِي كُلِّ يَوْمٍ قَالَ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَہَا فِي كُلِّ يَوْمٍ فَقُلْہَا فِي جُمْعَةٍ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَہَا فِي جُمُعَةٍ فَقُلْہَا فِي شَہْرٍ فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ لَہُ حَتَّی قَالَ فَقُلْہَا فِي سَنَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ

ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (اپنے چچا) عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں آپ کے ساتھ صلہ رحمی نہ کروں،کیا میں آپ کو نہ دوں؟ کیا میں آپ کونفع نہ پہنچاؤں؟ وہ بولے: کیوں نہیں،اللہ کے رسول! آپﷺنے فرمایا: آپ چار رکعت صلاۃ پڑھیں،ہررکعت میں سورئہ فاتحہ اور کوئی سو رت پڑھیں،جب قرأت پوری ہوجائے تواللہ اکبر،الحمد للہ،سبحان اللہ،لا إلہ إلا اللہ پندرہ مرتبہ رکوع کرنے سے پہلے کہیں،پھر رکوع میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات رکوع میں کہیں،پھر اپنا سر اٹھائیں اوریہی کلمات دس مرتبہ رکوع سے کھڑے ہوکر کہیں۔پھر سجدے میں جائیں تویہی کلمات دس مرتبہ کہیں،پھرسراٹھائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔پھر دوسرے سجدے میں جائیں تودس مرتبہ یہی کلمات کہیں،پھر سجدے سے اپنا سراٹھائیں تو کھڑے ہونے سے پہلے دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔اسی طرح ہررکعت میں کہیں،یہ کل۷۵کلمات ہوئے اور چاروں رکعتوں میں تین سوکلمات ہوئے۔تواگر آپ کے گناہ بہت زیادہ ریت والے بادلوں کے برابر بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمادیگا۔توانہوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! روزانہ یہ کلمات کہنے کی قدرت کس میں ہے؟ آپ نے فرمایا: آپ روزانہ یہ کلمات نہیں کہہ سکتے تو ہرجمعہ کو کہیں اور اگرہرجمعہ کو بھی نہیں کہہ سکتے تو ہرماہ میں کہیں،وہ برابر یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: تو ایک سال میں آپ اِسے کہہ لیں ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابورافع رضی اللہ عنہ کی روایت سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَيَحْيَی بْنُ مُوسَی قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَارِظٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَعْدٍ وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ وَثَوْبَانَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَعَائِشَةَ وَمَعْقِلِ بْنِ سِنَانٍ وَيُقَالُ ابْنُ يَسَارٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي مُوسَی وَبِلَالٍ وَسَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَذُكِرَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ أَنَّہُ قَالَ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَذُكِرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ قَالَ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثُ ثَوْبَانَ وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ لِأَنَّ يَحْيَی بْنَ أَبِي كَثِيرٍ رَوَی عَنْ أَبِي قِلَابَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا حَدِيثَ ثَوْبَانَ وَحَدِيثَ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ الْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ حَتَّی أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ احْتَجَمَ بِاللَّيْلِ مِنْہُمْ أَبُو مُوسَی الْأَشْعَرِيُّ وَابْنُ عُمَرَ وَبِہَذَا يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت إِسْحَقَ بْنَ مَنْصُورٍ يَقُولُ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ مَنْ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ فَعَلَيْہِ الْقَضَاءُ قَالَ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَہَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ و قَالَ الشَّافِعِيُّ قَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ وَلَا أَعْلَمُ وَاحِدًا مِنْ ہَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ ثَابِتًا وَلَوْ تَوَقَّی رَجُلٌ الْحِجَامَةَ وَہُوَ صَائِمٌ كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ وَلَوْ احْتَجَمَ صَائِمٌ لَمْ أَرَ ذَلِكَ أَنْ يُفْطِرَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا كَانَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ بِبَغْدَادَ وَأَمَّا بِمِصْرَ فَمَالَ إِلَی الرُّخْصَةِ وَلَمْ يَرَ بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَہُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:سینگی (پچھنا) لگانے اورلگوانے والے دونوں کاصوم نہیں رہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح رافع بن خدیج کی روایت ہے،۳-اورعلی بن عبداللہ(ابن المدینی) کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح ثوبان اور شداد بن اوس کی حدیثیں ہیں،اس لیے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ سے ثوبان اور شداد بن اوس دونوں کی حدیثوں کی ایک ساتھ روایت کی ہے،۴-اس باب میں علی،سعد،شداد بن اوس،ثوبان،اسامہ بن زید،عائشہ،معقل بن سنان (ابن یسار بھی کہاجاتاہے)،ابوہریرہ،ابن عباس،ابوموسیٰ،بلال اور سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۵-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے صائم کے لیے پچھنا لگوانے کومکروہ قراردیا ہے،یہاں تک کہ بعض صحابہ نے رات کو پچھنا لگوایا۔ان میں موسیٰ اشعری،اور ابن عمربھی ہیں۔ابن مبارک بھی یہی کہتے ہیں: ۶-عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ جس نے صوم کی حالت میں پچھنا لگوایا،اس پر اس کی قضا ہے،اسحاق بن منصور کہتے ہیں: اسی طرح احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کہا ہے،۷-شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے صوم کی حالت میں پچھنا لگوایا۔اور نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے صوم توڑدیا،اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا،لیکن اگر کوئی صوم کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تویہ مجھے زیادہ محبوب ہے،اور اگر کوئی صائم پچھنا لگوالے تومیں نہیں سمجھتاکہ اس سے اس کا صوم ٹوٹ گیا،۸-بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے صوم ٹوٹ جاتاہے۔البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہوگئے تھے اورصائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ان کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرمﷺ نے حجۃ الوداع میں احرام کی حالت میں پچھنا لگوایاتھا ۱؎۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ ہِلَالٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ احْتَجَمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رَوَی وَہِيبٌ نَحْوَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْوَارِثِ وَرَوَی إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے پچھنا لگوایا،آپ محرم تھے اورصوم سے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اسی طرح وہیب نے بھی عبدالوارث کی طرح روایت کی ہے،۳-اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے ایوب سے اورایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور،عکرمہ نے ا س میں ابن عباس کاذکرنہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ وَہُوَ صَائِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے پچھنا لگوایا،آپ صوم سے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ فِيمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ وَہُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرَوْا بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایسے وقت میں پچھنا لگوایا جس میں آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے،آپ احرام باندھے ہوے تھے اور صوم کی حالت میں تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری،جابر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،وہ صائم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔سفیان ثوری،مالک بن انس،اور شافعی کابھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ قَالَ أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ وَأُمُّ سَلَمَةَ زَوْجَا النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُدْرِكُہُ الْفَجْرُ وَہُوَ جُنُبٌ مِنْ أَہْلِہِ ثُمَّ يَغْتَسِلُ فَيَصُومُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ التَّابِعِينَ إِذَا أَصْبَحَ جُنُبًا يَقْضِي ذَلِكَ الْيَوْمَ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

ام المومنین عائشہ اورا م المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کو فجر پالیتی اور اپنی بیویوں سے صحبت کی وجہ سے حالت جنابت میں ہوتے پھر آپ غسل فرماتے اور صوم رکھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیںـ: ۱-عائشہ اور ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثراہل علم کا اسی پرعمل ہے۔سفیان،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہیـ کہ جب کوئی حالت جنابت میں صبح کرے تو وہ اس دن کی قضاکرے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَزْہَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَی طَعَامٍ فَلْيُجِبْ فَإِنْ كَانَ صَائِمًا فَلْيُصَلِّ يَعْنِي الدُّعَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت ملے تو اسے قبول کرے،اوراگروہ صوم سے ہوتوچاہئے کہ دعاکرے ۱؎۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ وَہُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے اور وہ صوم سے ہوتو چاہئے کہ وہ کہے میں صوم سے ہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیںـ: اس باب میں ابوہریرہ سے مروی دونوں حدیثیں حسن صحیح ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَيَقُولُ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَابْنِ عُمَرَ وَالْفَلَتَانِ بْنِ عَاصِمٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ أُنَيْسٍ وَأَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَبِلَالٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَوْلُہَا يُجَاوِرُ يَعْنِي يَعْتَكِفُ وَأَكْثَرُ الرِّوَايَاتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ الْتَمِسُوہَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي كُلِّ وِتْرٍ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ أَنَّہَا لَيْلَةُ إِحْدَی وَعِشْرِينَ وَلَيْلَةُ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ وَخَمْسٍ وَعِشْرِينَ وَسَبْعٍ وَعِشْرِينَ وَتِسْعٍ وَعِشْرِينَ وَآخِرُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ الشَّافِعِيُّ كَأَنَّ ہَذَا عِنْدِي وَاللہُ أَعْلَمُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُجِيبُ عَلَی نَحْوِ مَا يُسْأَلُ عَنْہُ يُقَالُ لَہُ نَلْتَمِسُہَا فِي لَيْلَةِ كَذَا فَيَقُولُ الْتَمِسُوہَا فِي لَيْلَةِ كَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَقْوَی الرِّوَايَاتِ عِنْدِي فِيہَا لَيْلَةُ إِحْدَی وَعِشْرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّہُ كَانَ يَحْلِفُ أَنَّہَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ وَيَقُولُ أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ بِعَلَامَتِہَا فَعَدَدْنَا وَحَفِظْنَا وَرُوِيَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّہُ قَالَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ تَنْتَقِلُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَيُوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ بِہَذَ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ أَنَّہُ قَالَ: لَيْلَةُ الْقَدْرِ تَنْتَقِلُ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ،أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،عَنْ مَعْمَرٍ،عَنْ أَيُوبَ،عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ بِہَذَاا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے اور فرماتے: شب قدرکو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،ابی،جابر بن سمرہ،جابر بن عبداللہ،ابن عمر،فلتان بن عاصم،انس،ابوسعیدخدری،عبداللہ بن انیس،ابوبکرہ،ابن عباس،بلال اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-یُجَاوِرُ کے معنی یَعْتَکِفُ (اعتکاف کرتے تھے) کے ہیں،۴-نبی اکرم ﷺ سے مروی اکثر روایات یہی ہیں کہ آپ نے فرمایا: اسے آخری عشرے کی تمام طاق راتوں میں تلاش کرو،اور شب قدر کے سلسلے میں نبی اکرمﷺسے اکیسویں،تئیسویں،پچیسویں،ستائیسویں،انتیسویں،اور رمضان کی آخری رات کے اقوال مروی ہیں،شافعی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کامفہوم-واللہ اعلم-یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ ہرسائل کو اس کے سوال کے مطابق جواب دیتے تھے۔آپ سے کہا جاتا: ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے: ہاں فلاں رات میں تلاش کرو،۵-شافعی کہتے ہیں: میرے نزدیک سب سے قوی روایت اکیسویں رات کی ہے،۶-ابی بن کعب سے مروی ہے وہ قسم کھاکر کہتے کہ یہ ستائیسویں رات ہے۔کہتے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے اس کی علامتیں بتائیں،ہم نے اُسے گن کر یادرکھا۔ابوقلابہ سے مروی ہے کہ شب قدر آخری عشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّی عَلِمْتَ أَبَا الْمُنْذِرِ أَنَّہَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ قَالَ بَلَی أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَّہَا لَيْلَةٌ صَبِيحَتُہَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ لَيْسَ لَہَا شُعَاعٌ فَعَدَدْنَا وَحَفِظْنَا وَاللہِ لَقَدْ عَلِمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّہَا فِي رَمَضَانَ وَأَنَّہَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ وَلَكِنْ كَرِہَ أَنْ يُخْبِرَكُمْ فَتَتَّكِلُوا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زرّ بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ابوالمنذر! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ ستائیسویں رات ہے؟ توانہوں نے کہا: کیوں نہیں،ہمیں رسول اللہﷺنے خبردی ہے کہ یہ ایک ایسی رات ہے جس کی صبح جب سورج نکلے گا تو اس میں شعاع نہیں ہوگی،تو ہم نے گنتی کی اورہم نے یاد رکھا،(زرّ کہتے ہیں) اللہ کی قسم! ابن مسعود کوبھی معلوم ہے کہ وہ رمضان میں ہے اورو ہ ستائیسویں رات ہے۔لیکن وہ یہ ناپسند کرتے ہیں کہ تمہیں (اسے مسلمانو!) بتادیں اورتم تکیہ کرکے بیٹھ جاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ ذُكِرَتْ لَيْلَةُ الْقَدْرِ عِنْدَ أَبِي بَكْرَةَ فَقَالَ مَا أَنَا مُلْتَمِسُہَا لِشَيْءٍ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِلَّا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَإِنِّي سَمِعْتُہُ يَقُولُ الْتَمِسُوہَا فِي تِسْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ فِي سَبْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ فِي خَمْسٍ يَبْقَيْنَ أَوْ فِي ثَلَاثِ أَوَاخِرِ لَيْلَةٍ قَالَ وَكَانَ أَبُو بَكْرَةَ يُصَلِّي فِي الْعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ كَصَلَاتِہِ فِي سَائِرِ السَّنَةِ فَإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ اجْتَہَدَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عیینہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیاکہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے پاس شب قدر کا ذکر کیاگیا تو انہوں نے کہا: جس چیز کی وجہ سے میں اسے صرف آخری عشرے ہی میں تلاش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ایک بات سنی ہے،میں نے آپ کو فرماتے سناہے: تلاش کرو جب (مہینہ پورا ہونے میں) نودن باقی رہ جائیں،یا جب سات دن باقی رہ جائیں،یا جب پانچ دن رہ جائیں،یاجب تین دن رہ جائیں۔ابوبکرہ رضی اللہ عنہ رمضان کے بیس دن صلاۃ پڑھتے تھے جیسے پورے سال پڑھتے تھے لیکن جب آخری عشرہ آتا تو عبادت میں خوب محنت کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَی سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَعَلَی الَّذِينَ يُطِيقُونَہُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ كَانَ مَنْ أَرَادَ مِنَّا أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ حَتَّی نَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي بَعْدَہَا فَنَسَخَتْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَيَزِيدُ ہُوَ ابْنُ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَی سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ (البقرۃ: ۱۸۴) (اور ان لوگوں پرجو صوم کی طاقت رکھتے ہیں ایک مسکین کوکھانا کھلانے کا فدیہ ہے) اتری توہم میں سے جو چاہتا کہ صوم نہ رکھے وہ فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد والی ۱؎ آیت نازل ہوئی اوراس نے اسے منسوخ کردیا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْفِطْرُ يَوْمَ يُفْطِرُ النَّاسُ وَالْأَضْحَی يَوْمَ يُضَحِّي النَّاسُ قَالَ أَبُو عِيسَی سَأَلْتُ مُحَمَّدًا قُلْتُ لَہُ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ قَالَ نَعَمْ يَقُولُ فِي حَدِيثِہِ سَمِعْتُ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عید الفطرکا دن وہ ہے جب لوگ عیدمنائیں،اور عیدالا ٔضحی کادن وہ ہے جس دن لوگ قربانی کریں ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث،اس سند سے حسن غریب صحیح ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے پوچھا:کیا محمد بن منکدر نے عائشہ سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں،وہ اپنی روایت میں کہتے ہیں: میں نے عائشہ سے سنا۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قِرَائَةً عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ،عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ،عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اعْتَكَفَ أَدْنَی إِلَيَّ رَأْسَہُ فَأُرَجِّلُہُ وَكَانَ لاَ يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلاَّ لِحَاجَةِ الإِنْسَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. ہَكَذَا رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مَالِكٍ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ،عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ،عَنْ عَائِشَةَ. وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ،عَنْ مَالِكٍ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ. وَالصَّحِيحُ عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺجب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میرے قریب کردیتے میں اس میں کنگھی کردیتی ۱؎ اور آپ گھر میں کسی انسانی ضرورت کے علاوہ ۲؎ داخل نہیں ہوتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح اسے دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق: مالک،عن ابن شہاب،عن عروۃ و عمرۃ،عن عائشۃ روایت کیا ہے،بعض لوگوں نے اسے بطریق: مالک،عن ابن شہاب،عن عروۃ،عن عمرۃ،عن عائشۃ روایت کیا ہے،اورصحیح یہ ہے کہ ابن شہاب زہری نے اسے عروہ اورعمرہ دونوں سے اوران دونوں نے عائشہ سے روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ،عَنْ عُرْوَةَ وَعَمْرَةَ،عَنْ عَائِشَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ. إِذَا اعْتَكَفَ الرَّجُلُ،أَنْ لاَ يَخْرُجَ مِنْ اعْتِكَافِہِ إِلاَّ لِحَاجَةِ الإِنْسَانِ،وَاجْتَمَعُوا عَلَی ہَذَا أَنَّہُ يَخْرُجُ لِقَضَاءِ حَاجَتِہِ لِلْغَائِطِ وَالْبَوْلِ. ثُمَّ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَشُہُودِ الْجُمُعَةِ وَالْجَنَازَةِ لِلْمُعْتَكِفِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنْ يَعُودَ الْمَرِيضَ وَيُشَيِّعَ الْجَنَازَةَ وَيَشْہَدَ الْجُمُعَةَ إِذَا اشْتَرَطَ ذَلِكَ. وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ. و قَالَ بَعْضُہُمْ لَيْسَ لَہُ أَنْ يَفْعَلَ شَيْئًا مِنْ ہَذَا وَرَأَوْا لِلْمُعْتَكِفِ. إِذَا كَانَ فِي مِصْرٍ يُجَمَّعُ فِيہِ أَنْ لاَ يَعْتَكِفَ إِلاَّ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ لأَنَّہُمْ كَرِہُوا الْخُرُوجَ لَہُ مِنْ مُعْتَكَفِہِ إِلَی الْجُمُعَةِ وَلَمْ يَرَوْا لَہُ أَنْ يَتْرُكَ الْجُمُعَةَ فَقَالُوا: لاَ يَعْتَكِفُ إِلاَّ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ. حَتَّی لاَ يَحْتَاجَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ مُعْتَكَفِہِ لِغَيْرِ قَضَاءِ حَاجَةِ الإِنْسَانِ لأَنَّ خُرُوجَہُ لِغَيْرِ حَاجَةِ الإِنْسَانِ قَطْعٌ عِنْدَہُمْ لِلاِعْتِكَافِ،وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ. و قَالَ أَحْمَدُ: لاَ يَعُودُ الْمَرِيضَ وَلاَ يَتْبَعُ الْجَنَازَةَ عَلَی حَدِيثِ عَائِشَةَ و قَالَ إِسْحَاقُ إِنْ اشْتَرَطَ ذَلِكَ فَلَہُ أَنْ يَتْبَعَ الْجَنَازَةَ وَيَعُودَ الْمَرِيضَ.

ہم سے اسے قتیبہ نے بسند لیث بن سعدعن ابن شہاب الزہری عن عروہ عن عمرہ عن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اور اہل علم کے نزدیک اسی پرعمل ہے کہ جب آدمی اعتکاف کرے تو انسانی ضرورت کے بغیراپنے معتکف سے نہ نکلے،اور ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ پاخانہ پیشاب جیسی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نکل سکتا ہے،۲-پھرمعتکف کے لیے مریض کی عیادت کرنے،جمعہ اور جنازہ میں شریک ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے،صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ وہ مریض کی عیادت کرسکتاہے،جنازہ کے ساتھ جاسکتاہے اور جمعہ میں شریک ہوسکتاہے جب کہ اس نے اس کی شرط لگالی ہو۔یہ سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے،۳-اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے ان میں سے کوئی بھی چیزکرنے کی اجازت نہیں،ان کا خیال ہے کہ معتکف کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شہر میں ہوجہاں جمعہ ہوتاہوتو مسجدجامع میں ہی اعتکاف کرے۔اس لیے کہ یہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے معتکف سے نکلنا اس کے لیے مکروہ قرار دیتے ہیں اوراس کے لیے جمعہ چھوڑنے کو بھی جائزنہیں سمجھتے،اس لیے ان کا کہنا ہے کہ وہ جامع مسجدہی میں اعتکاف کرے تاکہ اسے انسانی حاجتوں کے علاوہ کسی اور حاجت سے باہر نکلنے کی ضرورت نہ باقی رہے،اس لیے کہ بغیرکسی انسانی ضرورت کے مسجدسے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتاہے،یہی مالک اور شافعی کا قول ہے۔۴-اوراحمد کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی روسے نہ وہ مریض کی عیادت کرے گا،نہ جنازہ کے ساتھ جائے گا۔۵-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اگروہ ان چیزوں کی شرط کرلے تو اسے جنارے کے ساتھ جانے اور مریض کی عیادت کرنے کی اجازت ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّی بَقِيَ سَبْعٌ مِنْ الشَّہْرِ فَقَامَ بِنَا حَتَّی ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّی ذَہَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْنَا لَہُ يَا رَسُولَ اللہِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا ہَذِہِ فَقَالَ إِنَّہُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّی يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَہُ قِيَامُ لَيْلَةٍ ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّی بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنْ الشَّہْرِ وَصَلَّی بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَہْلَہُ وَنِسَاءَہُ فَقَامَ بِنَا حَتَّی تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ قُلْتُ لَہُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ فَرَأَی بَعْضُہُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَی وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْمَدِينَةِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَہُمْ بِالْمَدِينَةِ وَأَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِہِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَہَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً و قَالَ أَحْمَدُ رُوِيَ فِي ہَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيہِ بِشَيْءٍ و قَالَ إِسْحَقُ بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَی وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَی مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَہْرِ رَمَضَانَ وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَہُ إِذَا كَانَ قَارِئًا وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ صیام رمضان رکھے توآپ نے ہمیں صلاۃ (تراویح) نہیں پڑھائی،یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے توآپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا(یعنی تہجدپڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزرگئی۔پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا،(یعنی تہجدنہیں پڑھی)اورجب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا(یعنی تہجدپڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہوگئی۔توہم نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے (توبہترہوتا)؟آ پ نے فرمایا: جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجائے تو اس کے لیے پوری رات کاقیام لکھا جائے گا،پھر آپ نے ہمیں صلاۃ نہیں پڑھائی،یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے،پھرآپ نے ہمیں ۲۷ویں رات کو صلاۃ پڑھائی۔اوراپنے گھروالوں اورا پنی عورتوں کوبھی بلایا،آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیایہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔(راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: فلاح کیاچیز ہے؟ توانہوں نے کہا: سحری ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،نعمان بن بشیر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وترکے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا،یہ اہل مدینہ کا قول ہے،ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،۴-اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بناپر جو عمر،علی اوردوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔یہ سفیان ثوری،ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایاہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،۵-احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ۱؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،۶-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،۷-ابن مبارک،احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ صلاۃ پڑھنے کو پسندکیا ہے،۸-شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسندکیا ہے جب وہ قاری ہو۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَہُمْ بِعَزِيمَةٍ وَيَقُولُ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ كَذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَی ذَلِكَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺرمضان کے قیام(تہجدپڑھنے) کی ترغیب دلاتے،بغیرا س کے کہ انہیں تاکیدی حکم دیں اورفرماتے: جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئے جائیں گے،چنانچہ رسول اللہﷺ کی وفات ہوگئی اورمعاملہ اسی پر قائم رہا،پھر ابوبکر کے عہد خلافت میں اور عمر کے عہد خلافت کے ابتدائی دور میں بھی معاملہ اسی پر رہا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی سے حدیث آئی ہے،۳-یہ حدیث بطریق: الزہری،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّہُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَہُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَی مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّہَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْہُ أُذُنَايَ وَوَعَاہُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْہُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِہِ أَنَّہُ حَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَہَا اللہُ وَلَمْ يُحَرِّمْہَا النَّاسُ وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيہَا دَمًا أَوْ يَعْضِدَ بِہَا شَجَرَةً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِيہَا فَقُولُوا لَہُ إِنَّ اللہَ أَذِنَ لِرَسُولِہِ ﷺ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكَ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيہِ سَاعَةً مِنْ النَّہَارِ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُہَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِہَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو قَالَ أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ بِذَلِكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُرْوَی وَلَا فَارًّا بِخِزْيَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي شُرَيْحٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ اسْمُہُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو وَہُوَ الْعَدَوِيُّ وَہُوَ الْكَعْبِيُّ وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ يَعْنِي الْجِنَايَةَ يَقُولُ مَنْ جَنَی جِنَايَةً أَوْ أَصَابَ دَمًا ثُمَّ لَجَأَ إِلَی الْحَرَمِ فَإِنَّہُ يُقَامُ عَلَيْہِ الْحَدُّ

ابو شریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمروبن سعید ۲؎ سے-جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا،میرے کانوں نے اسے سنا،میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا،جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا: ’’مکہ (میں جنگ وجدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے،لہذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو،یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے،یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔اگر کوئی اس میں رسول اللہ ﷺ کے قتال کو دلیل بنا کر (قتال کا) جواز نکالے تو اس سے کہو: اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو اس کی اجازت دی تھی،تمہیں نہیں دی ہے۔تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی،آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں‘‘،ابو شریح سے پوچھا گیا: اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا؟ کہا: اُس نے مجھ سے کہا: ابو شریح! میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں،حرم مکہ کسی نافرمان (یعنی باغی) کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابو شریح رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابو شریح خزاعی کا نام خویلد بن عمرو ہے۔اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں،۳-اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-’’ولا فارا بخربۃ‘‘ کی بجائے ’’ولا فارا بخزیۃ‘‘ (زائے منقوطہ اور یاء کے ساتھ بھی مروی ہے،۵-اور ’’ولا فارا بخربۃ‘‘ میں خربہ کے معنی گناہ اور جرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیا یا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ذَكَرَ الطَّاعُونَ فَقَالَ بَقِيَّةُ رِجْزٍ أَوْ عَذَابٍ أُرْسِلَ عَلَی طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِہَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْہَا وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَلَسْتُمْ بِہَا فَلَا تَہْبِطُوا عَلَيْہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے طاعون کا ذکر کیا،توفرمایا: یہ اس عذاب کا بچا ہواحصہ ہے،جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ ۱؎ پربھیجاگیاتھا جب کسی زمین (ملک یا شہر) میں طاعون ہو جہاں پرتم رہ رہے ہو تو وہاں سے نہ نکلو ۲؎ اور جب وہ کسی ایسی سر زمین میں پھیلاہو جہاں تم نہ رہتے ہوتو وہاں نہ جاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اسامہ بن زید کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد،خزیمہ بن ثابت،عبدالرحمٰن بن عوف،جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِقْدَامٍ أَبُو الْأَشْعَثِ الْعِجْلِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللہِ أَحَبَّ اللہُ لِقَاءَہُ وَمَنْ كَرِہَ لِقَاءَ اللہِ كَرِہَ اللہُ لِقَاءَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَی وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو اللہ سے ملناچاہتاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتاہے اور جو اللہ سے ملنے کوناپسند کرتاہو اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوموسیٰ اشعری،ابوہریرہ،اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ قَالَ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا ذَكَرَتْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللہِ أَحَبَّ اللہُ لِقَاءَہُ وَمَنْ كَرِہَ لِقَاءَ اللہِ كَرِہَ اللہُ لِقَاءَہُ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ كُلُّنَا نَكْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَيْسَ ذَلِكَ وَلَكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا بُشِّرَ بِرَحْمَةِ اللہِ وَرِضْوَانِہِ وَجَنَّتِہِ أَحَبَّ لِقَاءَ اللہِ وَأَحَبَّ اللہُ لِقَاءَہُ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا بُشِّرَ بِعَذَابِ اللہِ وَسَخَطِہِ كَرِہَ لِقَاءَ اللہِ وَكَرِہَ اللہُ لِقَاءَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جواللہ سے ملنا چاہتاہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتاہے،اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتاہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتاہے۔تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سبھی کو موت ناپسند ہے؟تو آپ نے فرمایا: یہ مرادنہیں ہے،بلکہ مرادیہ ہے کہ مومن کو جب اللہ کی رحمت،اس کی خوشنودی اوراس کے جنت کی بشارت دی جاتی ہے تووہ اللہ سے ملنا چاہتاہے اور اللہ اس سے ملنا چاہتاہے،اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کی غصے کی خبر دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتاہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوْہَبٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِي قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِرَجُلٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ صَلُّوا عَلَی صَاحِبِكُمْ فَإِنَّ عَلَيْہِ دَيْنًا قَالَ أَبُو قَتَادَةَ ہُوَ عَلَيَّ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالْوَفَاءِ قَالَ بِالْوَفَاءِ فَصَلَّی عَلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک شخص لایاگیا تاکہ آپ اس کی صلاۃِجنازہ پڑھائیں تو آپﷺ نے فرمایا: تم اپنے ساتھی کی صلاۃ پڑھ لوکیونکہ اس پر قرض ہے۔(میں نہیں پڑھوں گا) اس پرابوقتادہ نے عرض کیا: اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے،رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:پورا پورا اداکروگے؟ تو انہوں نے کہا: (ہاں)پوراپورا اداکریں گے توآپ نے اس کی صلاۃِجنازہ پڑھائی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،سلمہ بن الاکوع،اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنِي أَبُو الْفَضْلِ مَكْتُومُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يُؤْتَی بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّی عَلَيْہِ الدَّيْنُ فَيَقُولُ ہَلْ تَرَكَ لِدَيْنِہِ مِنْ قَضَاءٍ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّہُ تَرَكَ وَفَاءً صَلَّی عَلَيْہِ وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ صَلُّوا عَلَی صَاحِبِكُمْ فَلَمَّا فَتَحَ اللہُ عَلَيْہِ الْفُتُوحَ قَامَ فَقَالَ أَنَا أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا عَلَيَّ قَضَاؤُہُ وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَہُوَ لِوَرَثَتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ يَحْيَی بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَالِحٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی فوت شدہ شخص جس پر قرض ہولایاجاتا تو آپ پوچھتے: کیا اس نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ اگر آپ کو بتایاجاتا کہ اس نے اتنا مال چھوڑاہے جس سے اس کے قرض کی مکمل ادائیگی ہوجائے گی تو آپ اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھاتے،ورنہ مسلمانوں سے فرماتے: تم لوگ اپنے ساتھی کی صلاۃِجنازہ پڑھ لو(میں نہیں پڑھ سکتا)،پھرجب اللہ نے آپ کے لیے فتوحات کادروازہ کھولا تو آپ کھڑے ہوئے اورآپ نے فرمایا: میں مسلمانوں کا ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حق دار ہوں۔تو مسلمانوں میں سے جس کی موت ہوجائے اور وہ قرض چھوڑ جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ کرجائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے یحییٰ بن بکیر اوردیگر کئی لوگوں نے لیث بن سعد سے عبداللہ بن صالح کی حدیث کی طرح روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ أَتَاہُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِہِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي ہَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ ہُوَ عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ہَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَہُ فِي قَبْرِہِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَہُ فِيہِ ثُمَّ يُقَالُ لَہُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَی أَہْلِي فَأُخْبِرُہُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُہُ إِلَّا أَحَبُّ أَہْلِہِ إِلَيْہِ حَتَّی يَبْعَثَہُ اللہُ مِنْ مَضْجَعِہِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَہُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْہِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْہِ فَتَخْتَلِفُ فِيہَا أَضْلَاعُہُ فَلَا يَزَالُ فِيہَا مُعَذَّبًا حَتَّی يَبْعَثَہُ اللہُ مِنْ مَضْجَعِہِ ذَلِكَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ كُلُّہُمْ رَوَوْا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب میت کویاتم میں سے کسی کودفنا دیاجاتاہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دوفرشتے آتے ہیں،ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کونکیر کہاجاتاہے۔اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیاکہتا تھا۔وہ (میت) کہتاہے: وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں،اور میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول وعرض میں سترستر گز کشادہ کردی جاتی ہے،پھر اس میں روشنی کردی جاتی ہے۔پھر اس سے کہاجاتاہے: سوجا،وہ کہتاہے: مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچادو کہ میں انہیں یہ بتاسکوں،تووہ دونوں کہتے ہیں: توسوجااس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگا تاہے جو اس کے گھروالوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتاہے،یہاں تک کہ اللہ اُسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے،اور اگر وہ منافق ہے،تو کہتاہے: میں لوگوں کوجو کہتے سنتا تھا،وہی میں بھی کہتاتھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔تووہ دونوں اس سے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہاجاتاہے: تو اسے دبوچ لے تووہ اسے دبوچ لیتی ہے اورپھراس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۔وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتاہے۔یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں علی،زیدبن ثابت،ابن عباس،براء بن عازب،ابوایوب،انس،جابر،ام المومنین عائشہ اور ابوسفیان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ان سبھوں نے نبی اکرمﷺ سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ عُرِضَ عَلَيْہِ مَقْعَدُہُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ فَإِنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَہْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ فَمِنْ أَہْلِ النَّارِ ثُمَّ يُقَالُ ہَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّی يَبْعَثَكَ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی آدمی مرتاہے تو اس پر صبح وشام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتاہے،اگرو ہ جنتیوں میں سے ہے تو جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتاہے اور اگر وہ جہنمیوں میں سے ہے تووہ جہنم میں اپناٹھکانا دیکھتاہے،پھر اس سے کہاجاتاہے: یہ تیرا ٹھکانا ہے،یہاں تک کہ اللہ تجھے قیامت کے دن اٹھائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْجُہَنِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَہُ يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْہَا الصَّلَاةُ إِذَا أَتَتْ وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَہَا كُفْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَمَا أَرَی إِسْنَادَہُ بِمُتَّصِلٍ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: صلاۃکو جب اس کا وقت ہوجائے،جنازہ کو جب آجائے،اور بیوہ (کے نکاح)کو جب تم اس کا کفو (مناسب ہمسر) پالو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-میں اس کی سند متصل نہیں جانتا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ الْمَرْأَةَ تُنْكَحُ عَلَی دِينِہَا وَمَالِہَا وَجَمَالِہَا فَعَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: عورت سے نکاح اس کی دین داری،اس کے مال اور اس کی خوب صورتی کی وجہ سے کیاجاتا ہے ۱؎ لیکن تو دین دار(عورت)سے نکاح کولازم پکڑلو ۲؎ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عوف بن مالک،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا،عبداللہ بن عمرو،اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا أَبُو بَلْجٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ الْجُمَحِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَرَامِ وَالْحَلَالِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَالرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ وَيُقَالُ ابْنُ سُلَيْمٍ أَيْضًا وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاطِبٍ قَدْ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ وَہُوَ غُلَامٌ صَغِيرٌ

محمد بن حاطب جمحی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حرام اور حلال(نکاح) کے درمیان فرق صرف دف بجانے اور اعلان کرنے کاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-محمد بن حاطب کی حدیث حسن ہے،۲-محمد بن حاطب نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے،لیکن وہ کم سن بچے تھے،۳-اس باب میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا،جابر اور ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَعْلِنُوا ہَذَا النِّكَاحَ وَاجْعَلُوہُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْہِ بِالدُّفُوفِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ فِي ہَذَا الْبَابِ وَعِيسَی بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَعِيسَی بْنُ مَيْمُونٍ الَّذِي يَرْوِي عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ التَّفْسِيرَ ہُوَ ثِقَةٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس نکاح کا اعلان کرو،اسے مسجدوں میں کرو اور اس پردف بجاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں یہ حدیث غریب حسن ہے،۲-عیسیٰ بن میمون انصاری حدیث میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں،۳-عیسیٰ بن میمون جو ابن ابی نجیح سے تفسیرروایت کرتے ہیں،ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَتْ جَاءَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَدَخَلَ عَلَيَّ غَدَاةَ بُنِيَ بِي فَجَلَسَ عَلَی فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي وَجُوَيْرِيَاتٌ لَنَا يَضْرِبْنَ بِدُفُوفِہِنَّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ إِلَی أَنْ قَالَتْ إِحْدَاہُنَّ وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ اسْكُتِي عَنْ ہَذِہِ وَقُولِي الَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ قَبْلَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:جس رات میری شادی اس کی صبح رسول اللہ ﷺ میرے ہاں تشریف لائے۔آپ میرے بستر پر ایسے ہی بیٹھے،جیسے تم (خالد بن ذکوان) میرے پاس بیٹھے ہو۔اور چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجارہی تھیں اور جو ہمارے باپ دادا میں سے جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے ان کا مرثیہ گارہی تھیں،یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا: ہمارے درمیان ایک نبی ہے جوان چیزوں کو جانتاہے جوکل ہوں گی،تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:یہ نہ کہہ۔وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي شَوَّالٍ وَبَنَی بِي فِي شَوَّالٍ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ يُبْنَی بِنِسَائِہَا فِي شَوَّالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شوال میں مجھ سے شادی کی اور شوال ہی میں میرے ساتھ آپ نے شب زفاف منائی،عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے خاندان کی عورتوں کی رخصتی شوال میں کی جانے کو مستحب سمجھتی تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے ہم صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں،اورثوری اسماعیل بن امیہ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ائْتُوا الدَّعْوَةَ إِذَا دُعِيتُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَالْبَرَاءِ وَأَنَسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں دعوت دی جائے تو تم دعوت میں آؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوہریرہ،براء،انس اور ابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ أَتَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا فَقُلْتُ لَا بَلْ ثَيِّبًا فَقَالَ ہَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُہَا وَتُلَاعِبُكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ عَبْدَ اللہِ مَاتَ وَتَرَكَ سَبْعَ بَنَاتٍ أَوْ تِسْعًا فَجِئْتُ بِمَنْ يَقُومُ عَلَيْہِنَّ قَالَ فَدَعَا لِي قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے ایک عورت سے شادی کی پھرمیں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،توآپ نے پوچھا: جابر! کیاتم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں کی ہے،آپ نے فرمایا:کسی کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا:نہیں،غیرکنواری سے۔آپ نے فرمایا: کسی (کنواری) لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی،تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی؟میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!(میر ے والد) عبداللہ کا انتقال ہوگیاہے،اور انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں،میں ایسی عورت کو بیاہ کرلایا ہوں جو ان کی دیکھ بھال کرسکے۔چنانچہ تو آپ نے میرے لیے دعافرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابی بن کعب اور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَنَسٍ

بوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ،ابن عباس،ابوہریرہ،عمران بن حصین اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔(ابوموسیٰ اشعری کی حدیث پر مولف کا مفصل کلام اگلے باب میں آرہاہے۔)

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّہَا فَنِكَاحُہَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُہَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُہَا بَاطِلٌ فَإِنْ دَخَلَ بِہَا فَلَہَا الْمَہْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِہَا فَإِنْ اشْتَجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ وَيَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ نَحْوَ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي مُوسَی حَدِيثٌ فِيہِ اخْتِلَافٌ رَوَاہُ إِسْرَائِيلُ وَشَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَأَبُو عَوَانَةَ وَزُہَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَزَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا وَرَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَقَدْ ذَكَرَ بَعْضُ أَصْحَابِ سُفْيَانَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی وَلَا يَصِحُّ وَرِوَايَةُ ہَؤُلَاءِ الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ عِنْدِي أَصَحُّ لِأَنَّ سَمَاعَہُمْ مِنْ أَبِي إِسْحَقَ فِي أَوْقَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ وَإِنْ كَانَ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ أَحْفَظَ وَأَثْبَتَ مِنْ جَمِيعِ ہَؤُلَاءِ الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ہَذَا الْحَدِيثَ فَإِنَّ رِوَايَةَ ہَؤُلَاءِ عِنْدِي أَشْبَہُ لِأَنَّ شُعْبَةَ وَالثَّوْرِيَّ سَمِعَا ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَبِي إِسْحَقَ فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَی ذَلِكَ مَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ قَال سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يَسْأَلُ أَبَا إِسْحَقَ أَسَمِعْتَ أَبَا بُرْدَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ فَقَالَ نَعَمْ فَدَلَّ ہَذَا الْحَدِيثُ عَلَی أَنَّ سَمَاعَ شُعْبَةَ وَالثَّوْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ فِي وَقْتٍ وَاحِدٍ وَإِسْرَائِيلُ ہُوَ ثِقَةٌ ثَبْتٌ فِي أَبِي إِسْحَقَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّی يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَہْدِيٍّ يَقُولُ مَا فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الَّذِي فَاتَنِي إِلَّا لَمَّا اتَّكَلْتُ بِہِ عَلَی إِسْرَائِيلَ لِأَنَّہُ كَانَ يَأْتِي بِہِ أَتَمَّ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ ہُوَ حَدِيثٌ عِنْدِي حَسَنٌ رَوَاہُ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَجَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ فِي حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ ثُمَّ لَقِيتُ الزُّہْرِيَّ فَسَأَلْتُہُ فَأَنْكَرَہُ فَضَعَّفُوا ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَجْلِ ہَذَا وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَی بْنِ مَعِينٍ أَنَّہُ قَالَ لَمْ يَذْكُرْ ہَذَا الْحَرْفَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ إِلَّا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ قَالَ يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ وَسَمَاعُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ لَيْسَ بِذَاكَ إِنَّمَا صَحَّحَ كُتُبَہُ عَلَی كُتُبِ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ مَا سَمِعَ مِنْ ابْنِ جُرَيْجٍ وَضَعَّفَ يَحْيَی رِوَايَةَ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ وَالْعَمَلُ فِي ہَذَا الْبَابِ عَلَی حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَبَّاسٍ وَأَبُو ہُرَيْرَةَ وَغَيْرُہُمْ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ فُقَہَاءِ التَّابِعِينَ أَنَّہُمْ قَالُوا لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ مِنْہُمْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَالْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَشُرَيْحٌ وَإِبْرَاہِيمُ النَّخَعِيُّ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَغَيْرُہُمْ وَبِہَذَا يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَمَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیاتو اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے،اگر اس نے اس سے دخول کرلیا ہے تو اس کی شرمگاہ حلال کرلینے کے عوض اس کے لیے مہرہے،اور اگر اولیاء میں جھگڑاہوجائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہواس کا ولی حاکم ہوگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یحییٰ بن سعید انصاری،یحییٰ بن ایوب،سفیان ثوری،اور کئی حفاظ حدیث نے اسی طرح ابن جریج سے روایت کی ہے،۳-ابوموسیٰاشعری رضی اللہ عنہ کی (پچھلی) حدیث میں اختلاف ہے،اسے اسرائیل،شریک بن عبداللہ،ابوعوانہ،زہیر بن معاویہ اور قیس بن ربیع نے بسند ابی اسحاق السبیعی عن ابی بردۃعن ابی موسیٰعن النبی ﷺ روایت کی ہے،۴-اوراسباط بن محمد اور زید بن حباب نے بسند یونس بن ابی اسحاق عن ابی اسحاق السبیعی عن ابی بردۃ عن ابی موسیٰ عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۵-اورابوعبیدہ حداد نے بسند یونس بن ابی اسحاق عن ابی بردۃ عن ابی موسیٰ عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے،اس میں انہوں نے ابواسحاق کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے،۶-نیزیہ حدیث یونس بن ابی اسحاق سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے بسندابی اسحاق السبیعی عن ابی بُردۃ عن ابی موسیٰ عن النبیﷺ روایت کی ہے،۷-اور شعبہ اور سفیان ثوری بسند ابی اسحاق السبیعی عن ابی بُردۃ عن النبی ﷺ روایت کی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے،اورسفیان ثوری کے بعض تلامذہ نے بسند سفیان الثوری عن ابی اسحاق السبیعی عن ابی بُردۃعن ابی موسیٰ روایت کی ہے،لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ان لوگوں کی روایت،جنہوں نے بطریق: أبی إسحاق،عن أبی بردۃ،عن أبی موسی،عن النبی ﷺ روایت کی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیںمیرے نزدیک زیادہ صحیح ہے،کیوں کہ ابواسحاق سبیعی سے ان لوگوں کاسماع مختلف اوقات میں ہے اگر چہ شعبہ اور ثوری ابواسحاق سے روایت کرنے والے تمام لوگوں سے زیادہ پختہ اورمضبوط حافظہ والے ہیں پھربھی ان لوگوں (یعنی شعبہ و ثوری کے علاوہ دوسرے رواۃ) کی روایت اشبہ (قریب تر) ہے۔اس لیے کہ شعبہ اور ثوری دونوں نے یہ حدیث ابواسحاق سے ایک ہی مجلس میں سنی ہے،(اور ان کے علاوہ رواۃ نے مختلف اوقات میں) اس کی دلیل شعبہ کا یہ بیان ہے کہ میں نے سفیان ثوری کوابو اسحاق سے پوچھتے سناکہ کیا آپ نے ابوبردہ کو کہتے سناہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں(سُناہے)۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شعبہ اور ثوری کامکحول سے اس حدیث کا سماع ایک ہی وقت میں ہے۔اور ابواسحاق سبیعی سے روایت کرنے میں اسرائیل بہت ہی ثقہ راوی ہیں۔عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ مجھ سے ثوری کی روایتوں میں سے جنہیں وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں،کوئی روایت نہیں چھوٹی،مگر جوچھوٹی ہیں وہ صرف اس لیے چھوٹی ہیں کہ میں نے اس سلسلے میں اسرائیل پربھروسہ کرلیاتھا،اس لیے کہ وہ ابواسحاق کی حدیثوں کوبطریق اتم بیان کرتے تھے۔ اور اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی نبی اکرمﷺ سے حدیث: بغیرولی کے نکاح نہیں میرے نزدیک حسن ہے۔یہ حدیث ابن جریج نے بطریق: سلیمان بن موسی،عن الزہری،عن عروۃ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ ،نیزاسے حجاج بن ارطاۃ اور جعفر بن ربیعہ نے بھی بطریق: الزہری،عن عروۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے۔نیز زہری نے بطریق: ہشام بن عروۃ،عن أبیہ عروۃ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ اسی کے مثل روایت کی ہے۔ بعض محدّثین نے زہری کی روایت میں(جسے انہوں نے بطریق: عروۃ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے) کلام کیا ہے،ابن جریج کہتے ہیں: پھر میں زہری سے ملا اورمیں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے اس کا انکارکیا اس کی وجہ سے ان لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف قراردیا۔یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ ابن جریج سے اس بات کو اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کے علاوہ کسی اور نے نہیں نقل کیا ہے،یحیی بن معین کہتے ہیں: اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کا سماع ابن جریج سے نہیں ہے،انہوں نے اپنی کتابوں کی تصحیح عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی روّاد کی ان کتابوں سے کی ہے جنہیں عبدالمجیدنے ابن جریج سے سنی ہیں۔یحیی بن معین نے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ کی روایت کوجسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے ضعیف قراردیا ہے۔۸-صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل اس باب میں نبی اکرمﷺ کی حدیث لا نکاح إلا بولی (ولی کے بغیر نکاح نہیں) پرہے جن میں عمر،علی،عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی شامل ہیں،اسی طرح بعض فقہائے تابعین سے مروی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں۔ان میں سعید بن مسیب،حسن بصری،شریح،ابراہیم نخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ ہیں۔یہی سفیان ثوری،اوزاعی،عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَامَلَ أَہْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْہَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَمْ يَرَوْا بِالْمُزَارَعَةِ بَأْسًا عَلَی النِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتَارَ بَعْضُہُمْ أَنْ يَكُونَ الْبَذْرُ مِنْ رَبِّ الْأَرْضِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَكَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْمُزَارَعَةَ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَلَمْ يَرَوْا بِمُسَاقَاةِ النَّخِيلِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَلَمْ يَرَ بَعْضُہُمْ أَنْ يَصِحَّ شَيْءٌ مِنْ الْمُزَارَعَةِ إِلَّا أَنْ يَسْتَأْجِرَ الْأَرْضَ بِالذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:نبی اکرمﷺنے خیبر والوں کے ساتھ خیبرکی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہوگااس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،ابن عباس،زید بن ثابت اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔یہ لوگ آدھے،تہائی یاچوتھائی کی شرط پر مزارعت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،۴-اور بعض اہل علم نے یہ اختیار کیا ہے کہ بیج زمین والا دے گا،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے،۵-بعض اہل علم نے تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کو مکروہ سمجھا ہے،لیکن وہ تہائی یاچوتھائی کی شرط پر کھجورکے درختوں کی سینچائی کرانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔مالک بن انس اور شافعی کایہی قول ہے،۶-بعض لوگ مطلقًا مزارعت کودرست نہیں سمجھتے البتہ سونے یا چاندی (نقدی) کے عوض کرایہ پر زمین لینے کودرست سمجھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ نَہَانَا رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا إِذَا كَانَتْ لِأَحَدِنَا أَرْضٌ أَنْ يُعْطِيَہَا بِبَعْضِ خَرَاجِہَا أَوْ بِدَرَاہِمَ وَقَالَ إِذَا كَانَتْ لِأَحَدِكُمْ أَرْضٌ فَلْيَمْنَحْہَا أَخَاہُ أَوْ لِيَزْرَعْہَا

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرمادیا جو ہمارے لیے مفیدتھا،وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تووہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتو وہ اپنے بھائی کو(مفت) دے دے۔یا خود زراعت کرے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی السِّينَانِيُّ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَمْ يُحَرِّمْ الْمُزَارَعَةَ وَلَكِنْ أَمَرَ أَنْ يَرْفُقَ بَعْضُہُمْ بِبَعْضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ رَافِعٍ فِيہِ اضْطِرَابٌ يُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ عُمُومَتِہِ وَيُرْوَی عَنْہُ عَنْ ظُہَيْرِ بْنِ رَافِعٍ وَہُوَ أَحَدُ عُمُومَتِہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْہُ عَلَی رِوَايَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَجَابِرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مزارعت کو حرام نہیں کیا،لیکن آپ نے ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کاحکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-رافع کی حدیث میں (جو اوپر مذکور ہوئی) اضطراب ہے۔کبھی یہ حدیث بواسطہ ٔ رافع بن خدیج ان کے چچاؤں سے روایت کی جاتی ہے اورکبھی بواسطہ ٔ رافع بن خدیج ظہیر بن رافع سے روایت کی جاتی ہے،یہ بھی ان کے ایک چچا ہیں،۳-اور ان سے یہ حدیث مختلف طریقے پر روایت کی گئی ہے،۴-اس باب میں زید بن ثابت اور جابر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحْكَمُ بَيْنَ الْعِبَادِ فِي الدِّمَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ مَرْفُوعًا وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (آخرت میں) بندوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے،اسی طرح کئی لوگوں نے اعمش سے مرفوعاروایت کی ہے،۲-اوربعض نے اعمش سے روایت کی ہے ان لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کہاہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُقْضَی بَيْنَ الْعِبَادِ فِي الدِّمَاءِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (آخرت میں)بندوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا ۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَكَمِ الْبَجَلِيُّ قَال سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ وَأَبَا ہُرَيْرَةَ يَذْكُرَانِ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ لَوْ أَنَّ أَہْلَ السَّمَاءِ وَأَہْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَكَبَّہُمْ اللہُ فِي النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَأَبُو الْحَكَمِ الْبَجَلِيُّ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ الْكُوفِيُّ

ابوسعید خدری اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر آسمان اور زمین والے (سارے کے سارے) ایک مومن کے خون میں ملوث ہوجائیں تواللہ ان (سب) کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا الْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشَمٍ قَالَ حَضَرْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُقِيدُ الْأَبَ مِنْ ابْنِہِ وَلَا يُقِيدُ الِابْنَ مِنْ أَبِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُرَاقَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِصَحِيحٍ رَوَاہُ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ الْمُثَنَّی بْنِ الصَّبَّاحِ وَالْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ مُرْسَلًا وَہَذَا حَدِيثٌ فِيہِ اضْطِرَابٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْأَبَ إِذَا قَتَلَ ابْنَہُ لَا يُقْتَلُ بِہِ وَإِذَا قَذَفَ ابْنَہُ لَا يُحَدُّ

سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا،(تودیکھا)کہ آپ باپ کو بیٹے سے قصاص دلواتے تھے اوربیٹے کو باپ سے قصاص نہیں دلواتے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سراقہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔اس کی سند صحیح نہیں ہے،اسے اسماعیل بن عیاش نے مثنیٰ بن صباح سے روایت کی ہے اورمثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔۲-اس حدیث کو ابوخالداُحمرنے بطریق: حجاج بن أرطاۃ،عن عمرو بن شعیب،عن أبیہ،عن جدہ،عن عمر رضی اللہ عنہ،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،۴-یہ حدیث عمروبن شعیب سے مرسلاً بھی مروی ہے،اس حدیث میں اضطراب ہے،۴-اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کو قتل کردے تو بدلے میں (قصاصاً) اسے قتل نہیں کیاجائے گااورجب باپ اپنے بیٹے پر(زناکی)تہمت لگائے تو اس پر حد قذف نافذ نہیں ہوگی۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا يُقَادُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تُقَامُ الْحُدُودُ فِي الْمَسَاجِدِ وَلَا يُقْتَلُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْمَكِّيُّ قَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مسجدوں میں حدودنہیں قائم کی جائیں گی اوربیٹے کے بدلے باپ کو(قصاص میں)قتل نہیں کیاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے اس حدیث کو ہم صرف اسماعیل بن مسلم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور اسماعیل بن مسلم مکی کے حفظ کے سلسلے میں بعض اہل علم نے کلام کیا ہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْہِ أَيُعْطَی مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَكَلَ وَلَا صَاحَ فَاسْتَہَلَّ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ ہَذَا لَيَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ بَلْ فِيہِ غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ و قَالَ بَعْضُہُمْ الْغُرَّةُ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ أَوْ خَمْسُ مِائَةِ دِرْہَمٍ و قَالَ بَعْضُہُمْ أَوْ فَرَسٌ أَوْ بَغْلٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنین(حمل) کی دیت میں غرہ یعنی غلام یالونڈی (دینے) کا فیصلہ کیا،جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا: کیا ایسے کی دیت دی جائے گی،جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا،نہ چیخا،نہ آواز نکالی،اس طرح کا خون توضائع اورباطل ہوجاتاہے،(یہ سن کر) نبی اکرمﷺ نے فرمایا: یہ شاعروں والی بات کررہا ہے ۱؎،جنین (حمل گرادینے) کی دیت میں غرہ یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں حمل بن مالک بن نابغہ اورمغیرہ بن شعبہ سے احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۴-غرہ کی تفسیربعض اہل علم نے،غلام،لونڈی یاپانچ سودرہم سے کی ہے،۵-اوربعض اہل علم کہتے ہیں: غرہ سے مراد گھوڑایاخچرہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نَضْلَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا ضَرَّتَيْنِ فَرَمَتْ إِحْدَاہُمَا الْأُخْرَی بِحَجَرٍ أَوْ عَمُودِ فُسْطَاطٍ فَأَلْقَتْ جَنِينَہَا فَقَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي الْجَنِينِ غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ وَجَعَلَہُ عَلَی عَصَبَةِ الْمَرْأَةِ قَالَ الْحَسَنُ وَأَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ بِہَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَہُ و قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دو عورتیں سوکن تھیں،ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھریا خیمے کی میخ (گھونٹی) سے مارا،تواس کا حمل ساقط ہوگیا،رسول اللہ ﷺ نے اس حمل کی دیت میں غرہ یعنی غلام یالونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا اور دیت کی ادائیگی اس عورت کے عصبہ کے ذمہ ٹھہرائی ۱ ؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: زیدبن حباب نے سفیان ثوری سے روایت کی،اورسفیان ثوری نے منصورسے اس حدیث کواسی طرح روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَتَلَ عَبْدَہُ قَتَلْنَاہُ وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَہُ جَدَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ مِنْہُمْ إِبْرَاہِيمُ النَّخَعِيُّ إِلَی ہَذَا و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ لَيْسَ بَيْنَ الْحُرِّ وَالْعَبْدِ قِصَاصٌ فِي النَّفْسِ وَلَا فِيمَا دُونَ النَّفْسِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا قَتَلَ عَبْدَہُ لَا يُقْتَلُ بِہِ وَإِذَا قَتَلَ عَبْدَ غَيْرِہِ قُتِلَ بِہِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اپنے غلام کو قتل کر ے گا ہم بھی اسے قتل کردیں گے اور جو اپنے غلا م کاکان،ناک کاٹے گا ہم بھی اس کاکان،ناک کاٹیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے،ابراہیم نخعی اسی کے قائل ہیں،۳-بعض اہل علم مثلا حسن بصری اورعطا بن ابی رباح وغیرہ کہتے ہیں: آزاد اورغلام کے درمیان قصاص نہیں ہے،(نہ قتل کرنے میں،نہ ہی قتل سے کم زخم پہنچانے) میں،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی اپنے غلام کو قتل کردے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جائے گا،اورجب دوسرے کے غلام کوقتل کرے گا تو اسے اس کے بدلے میں قتل کیاجائے گا،سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَنْبَأَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ قَال سَمِعْتُ زُرَارَةَ بْنَ أَوْفَی يُحَدِّثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ فَنَزَعَ يَدَہُ فَوَقَعَتْ ثَنِيَّتَاہُ فَاخْتَصَمَا إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاہُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ لَا دِيَةَ لَكَ فَأَنْزَلَ اللہُ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ وَسَلَمَةَ بْنِ أُمَيَّةَ وَہُمَا أَخَوَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ کھایا،اس نے اپنا ہاتھ کھینچاتو دانت کاٹنے والے کے دونوں اگلے دانت ٹوٹ گئے،وہ دونوں نبی اکرمﷺ کے پاس اپنا معاملہ لے گئے توآپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اونٹ کے کاٹنے کی طرح کاٹ کھاتاہے،تمہارے لیے کوئی دیت نہیں،پھر اللہ نے یہ آیت نازل کی: وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں یعلی بن امیہ اورسلمہ بن امیہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں اوریہ دونوں بھائی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَبَسَ رَجُلًا فِي تُہْمَةٍ ثُمَّ خَلَّی عَنْہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بَہْزٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ أَتَمَّ مِنْ ہَذَا وَأَطْوَلَ

معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک آدمی کوتہمت ۱؎ کی بناپر قید کیا،پھر (الزام ثابت نہ ہونے پر)اس کو رہاکردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۲-بہز بن حکیم بن معاویہ بن حیدۃ قشیری کی حدیث جسے وہ اپنے باپ سے اوروہ ان کے داداسے روایت کرتے ہیں،حسن ہے،۳-اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ نے بہزبن حکیم سے یہ حدیث اس سے زیادہ مکمل اورمطول روایت کی ہے۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ قَالَ يَحْيَی وَحَسِبْتُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّہُمَا قَالَا خَرَجَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَہْلِ بْنِ زَيْدٍ وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ حَتَّی إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا ہُنَاكَ ثُمَّ إِنَّ مُحَيِّصَةَ وَجَدَ عَبْدَ اللہِ بْنَ سَہْلٍ قَتِيلًا قَدْ قُتِلَ فَدَفَنَہُ ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ ہُوَ وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَہْلٍ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ ذَہَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ قَبْلَ صَاحِبَيْہِ قَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَبِّرْ لِلْكُبْرِ فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاہُ ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَہُمَا فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللہِ ﷺ مَقْتَلَ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَہْلٍ فَقَالَ لَہُمْ أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ أَوْ قَاتِلَكُمْ قَالُوا وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْہَدْ قَالَ فَتُبَرِّئُكُمْ يَہُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا قَالُوا وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ فَلَمَّا رَأَی ذَلِكَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَعْطَی عَقْلَہُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْقَسَامَةِ وَقَدْ رَأَی بَعْضُ فُقَہَاءِ الْمَدِينَةِ الْقَوَدَ بِالْقَسَامَةِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ إِنَّ الْقَسَامَةَ لَا تُوجِبُ الْقَوَدَ وَإِنَّمَا تُوجِبُ الدِّيَةَ

سہل بن ابوحثمہ اوررافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عبداللہ بن سہل بن زیداورمحیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما کہیں جانے کے لئے گھر سے روانہ ہوئے،جب وہ خیبرپہنچے توالگ الگ راستوں پرہوگئے،پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا،کسی نے ان کوقتل کردیاتھا،آپ نے انہیں دفنادیا،پھروہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے،عبدالرحمٰن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے،وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگوکرناچاہتے تھے،رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: بڑے کا لحاظ کرو،لہذا وہ خاموش ہوگئے اوران کے دونوں ساتھیوں نے گفتگوکی،پھروہ بھی ان دونوں کے ساتھ شریکِ گفتگوہو گئے،ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عبداللہ بن سہل کے قتل کاواقعہ بیان کیا،آپ نے ان سے فرمایا: کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاؤگے (کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے) تاکہ تم اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہوجاؤ (یا کہا:) قاتل کے خون کے مستحق ہوجاؤ؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم قسم کیسے کھائیں جب کہ ہم حاضر نہیں تھے؟ آپ نے فرمایا: تویہود پچاس قسمیں کھاکرتم سے بری ہوجائیں گے،ان لوگوں نے کہا: ہم کا فرقوم کی قسم کیسے قبول کرلیں؟ پھر رسول اللہ ﷺ نے جب یہ معاملہ دیکھاتو ان کی دیت ۱؎ خوداداکردی۔اس سندسے بھی سہل بن ابوحثمہ اوررافع بن خدیج سے اسی طرح اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-قسامہ کے سلسلہ میں بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے،۳-مدینہ کے بعض فقہا ء قسامہ ۲؎ کی بناپرقصا ص درست سمجھتے ہیں،۴-کوفہ کے بعض اہل علم اورکچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں: قسامہ کی بناپرقصاص واجب نہیں،صرف دیت واجب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا أَبُو جَہْضَمٍ مُوسَی بْنُ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَبْدًا مَأْمُورًا مَا اخْتَصَّنَا دُونَ النَّاسِ بِشَيْءٍ إِلَّا بِثَلَاثٍ أَمَرَنَا أَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوءَ وَأَنْ لَا نَأْكُلَ الصَّدَقَةَ وَأَنْ لَا نُنْزِيَ حِمَارًا عَلَی فَرَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ہَذَا عَنْ أَبِي جَہْضَمٍ فَقَالَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَوَہِمَ فِيہِ الثَّوْرِيُّ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ وَعَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي جَہْضَمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع اور مامور بندے تھے،آپ نے ہم کو دوسروں کی بنسبت تین چیزوں کاخصوصی حکم دیا: ہم کو حکم دیا ۱؎ کہ پوری طرح وضوکریں،صدقہ نہ کھائیں اورگھوڑی پر گدھانہ چھوڑیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سفیان ثوری نے ابوجہضم سے روایت کرتے ہوے اس حدیث کی سندیوں بیان کی،عن عبید اللہ بن عبداللہ بن عباس عن ابن عباس،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ ثوری کی حدیث غیرمحفوظ ہے،اس میں ثوری سے وہم ہواہے،صحیح وہ روایت ہے جسے اسماعیل بن علیہ اورعبدالوارث بن سعید نے ابوجہضم سے،ابوجہضم عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس سے،اور عبید اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے،۴-اس باب میں علی سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ ابْغُونِي ضُعَفَاءَكُمْ فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کوفرماتے سنا: مجھے اپنے ضعیفوں اورکمزوروں میں تلاش کرو،اس لیے کہ تم اپنے ضعیفوں اورکمزوروں کی (دعاؤں کی برکت کی) وجہ سے رزق دیئے جاتے ہواورتمہاری مدد کی جاتی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَی الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِہَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ عَلَيْہِ وَلَا طَاعَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَالْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تک معصیت کا حکم نہ دیاجائے مسلمان پر سمع وطاعت لازم ہے خواہ وہ پسندکرے یا ناپسندکرے،اور اگر اسے معصیت کا حکم دیاجائے تو نہ اس کے لیے سنناضروری ہے اورنہ اطاعت کرنا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،عمران بن حصین اورحکم بن عمروغفاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ سَمِعَہُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَامَ فِيہِمْ فَذَكَرَ لَہُمْ أَنَّ الْجِہَادَ فِي سَبِيلِ اللہِ وَالْإِيمَانَ بِاللہِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللہِ يُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَعَمْ إِنْ قُتِلْتَ فِي سَبِيلِ اللہِ وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَيْفَ قُلْتَ قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللہِ أَيُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَعَمْ وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ إِلَّا الدَّيْنَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ قَالَ لِي ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَرَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ صحابہ کے بیچ کھڑے ہو کران سے بیان کیا: اللہ کی راہ میں جہادکرنااوراللہ پر ایمان لاناسب سے افضل عمل ہے ۱؎،(یہ سن کر) ایک آدمی کھڑا ہوا اورعرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں،توکیامیر ے گناہ معاف کردیئے جائیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں اگرتم اللہ کی راہ میں شہیدہوگئے اس حال میں کہ تم صبر کرنے والے،ثواب کی امید رکھنے والے ہو،آگے بڑھنے والے ہو،پیچھے مڑنے والے نہ ہو،پھر آپﷺ نے فرمایا: تم نے کیسے کہا ہے؟ عرض کیا: آپ کا کیا خیا ل ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں تو کیامیرے گناہ معاف کردیئے جائیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں اگر تم صبرکرنے والے،ثواب کی امید رکھنے والے ہو اور آگے بڑھنے والے ہوپیچھے مڑنے والے نہ ہو،سوائے قرض کے ۲؎،یہ مجھ سے جبریل نے (ابھی)کہا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض لوگوں نے یہ حدیث بسندسعید المقبری عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے،یحییٰ بن سعید انصاری اورکئی لوگوں نے اس کو بسندسعیدالمقبری عن عبداللہ بن ابی قتادہ عن أبیہ أبی قتادہ عن النبی ﷺ سے روایت کی ہے،یہ روایت سعید مقبری کی روایت سے جو بواسطہ ابوہریرہ آئی ہے،زیادہ صحیح ہے،۴-اس باب میں انس،محمد بن جحش اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَجِيءَ بِالْأُسَارَی قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا تَقُولُونَ فِي ہَؤُلَاءِ الْأُسَارَی فَذَكَرَ قِصَّةً فِي ہَذَا الْحَدِيثِ طَوِيلَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيہِ وَيُرْوَی عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِہِ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بدرکے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو،پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سناہے،۳-ابوہریرہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتاہو ۲؎،۴-اس حدیث میں عمر،ابوایوب،انس اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ أَرَادُوا أَنْ يَشْتَرُوا جَسَدَ رَجُلٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فَأَبَی النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَبِيعَہُمْ إِيَّاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَكَمِ وَرَوَاہُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ أَيْضًا عَنْ الْحَكَمِ و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ابْنُ أَبِي لَيْلَی لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِہِ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ابْنُ أَبِي لَيْلَی صَدُوقٌ وَلَكِنْ لَا نَعْرِفُ صَحِيحَ حَدِيثِہِ مِنْ سَقِيمِہِ وَلَا أَرْوِي عَنْہُ شَيْئًا وَابْنُ أَبِي لَيْلَی صَدُوقٌ فَقِيہٌ وَرُبَّمَا يَہِمُ فِي الْإِسْنَادِ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ دَاوُدَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ قَالَ فُقَہَاؤُنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَی عَبْدُ اللہِ بْنُ شُبْرُمَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مشرک کی لا ش کو خریدنا چاہا تو نبی اکرمﷺ نے اسے بیچنے سے انکارکردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف حکم کی روایت سے جانتے ہیں،اس کو حجاج بن ارطاۃ نے بھی حکم سے روایت کیا ہے،۳-احمدبن حنبل کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ کی حدیث قابل حجت نہیں ہے،۴-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں لیکن ہم کو ان کی صحیح حدیثیں ان کی ضعیف حدیثوں سے پہچان نہیں پاتے،میں ان سے کچھ نہیں روایت کرتاہوں،ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں فقیہ ہیں،لیکن بسا اوقات ان سے سندوں میں وہم ہوجاتاہے،۵-سفیان ثوری کہتے ہیں: ہمارے فقہاء ابن ابی لیلیٰ اورعبداللہ بن شبرمہ ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ حُرِّمَ لِبَاسُ الْحَرِيرِ وَالذَّہَبِ عَلَی ذُكُورِ أُمَّتِي وَأُحِلَّ لِإِنَاثِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَنَسٍ وَحُذَيْفَةَ وَأُمِّ ہَانِئٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَجَابِرٍ وَأَبِي رَيْحَانَ وَابْنِ عُمَرَ وَالْبَرَاءِ وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ریشم کا لباس اورسونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتو ں کے لیے حلال کیا گیا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،علی،عقبہ بن عامر،انس،حذیفہ،ام ہانی،عبداللہ بن عمرو،عمران بن حصین،عبداللہ بن زبیر،جابر،ابوریحان،ابن عمر،براء،اورواثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ خَطَبَ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ نَہَی نَبِيُّ اللہِ ﷺ عَنْ الْحَرِيرِ إِلَّا مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ أَوْ أَرْبَعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:عمر نے مقام جابیہ میں خطبہ دیا اور کہا: نبی اکرم ﷺ نے ریشم سے منع فرمایا سوائے دو،یا تین،یا چارانگشت کے برابر ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ شَكَيَا الْقَمْلَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فِي غَزَاةٍ لَہُمَا فَرَخَّصَ لَہُمَا فِي قُمُصِ الْحَرِيرِ قَالَ وَرَأَيْتُہُ عَلَيْہِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: عبدالرحمٰن بن عوف اورزبیربن عوام رضی اللہ عنہما نے ایک غزوہ میں نبی اکرم ﷺ سے جوؤں کی شکایت کی،توآپ نے انہیں ریشم کی قمیص کی اجازت دے دی،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ان کے بدن پر ریشم کی قمیص دیکھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ كُلُّہُمْ يُخْبِرُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَنْظُرُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَی مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُيَلَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي ذَرٍّ وَعَائِشَةَ وَہُبَيْبِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نہیں دیکھے گا جس نے تکبرسے اپنا تہ بند گھیسٹا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں حذیفہ،ابوسعیدخدری،ابوہریرہ،سمرہ،ابوذر،عائشہ اور وہبیب بن مغفل رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ جَرَّ ثَوْبَہُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرْ اللہُ إِلَيْہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فَكَيْفَ يَصْنَعْنَ النِّسَاءُ بِذُيُولِہِنَّ قَالَ يُرْخِينَ شِبْرًا فَقَالَتْ إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُہُنَّ قَالَ فَيُرْخِينَہُ ذِرَاعًا لَا يَزِدْنَ عَلَيْہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا،ام سلمہ نے کہا: عورتیں اپنے دامنوں کاکیاکریں؟ آپ نے فرمایا: ایک بالشت لٹکالیں،انہوں نے کہا: تب توان کے قدم کھل جائیں گے،آپ نے فرمایا: ایک بالشت لٹکائیں ۱؎ اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أُمِّ الْحَسَنِ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْہُمْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ شَبَّرَ لِفَاطِمَةَ شِبْرًا مِنْ نِطَاقِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَفِي ہَذَا الْحَدِيثِ رُخْصَةٌ لِلنِّسَاءِ فِي جَرِّ الْإِزَارِ لِأَنَّہُ يَكُونُ أَسْتَرَ لَہُنَّ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فاطمہ کے نطاق کے لیے ایک بالشت کا اندازہ لگایا ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-بعض لوگوں نے اسے عن حماد بن سلمۃ عن علی بن زید عن الحسن عن امہ عن ام سلمۃ کی سندسے روایت کی ہے،۲-اس حدیث میں عورتوں کے لیے تہ بند (چادر) گھسیٹنے کی اجازت ہے،اس لیے کہ یہ ان کے لیے زیادہ سترپوشی کا باعث ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حُنَيْنٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ نَہَانِي النَّبِيُّ ﷺ عَنْ التَّخَتُّمِ بِالذَّہَبِ وَعَنْ لِبَاسِ الْقَسِّيِّ وَعَنْ الْقِرَاءَةِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَعَنْ لِبَاسِ الْمُعَصْفَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے مجھے سونے کی انگوٹھی،قسی (ایک ریشمی کپڑا)کا لباس،رکوع وسجود میں قرآن پڑھنے اورمعصفر(کسم سے رنگے ہوئے زرد)کپڑے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ حَدَّثَنَا حَفْصٌ اللَّيْثِيُّ قَالَ أَشْہَدُ عَلَی عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّہُ حَدَّثَنَا أَنَّہُ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ التَّخَتُّمِ بِالذَّہَبِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَمُعَاوِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عِمْرَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو التَّيَّاحِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمران کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابن عمر،ابوہریرہ اورمعاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ الطَّنَافِسِيُّ حَدَّثَنَا زُہَيْرٌ أَبُو خَيْثَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْ فِضَّةٍ فَصُّہُ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکی انگوٹھی چاندی کی تھی،اس کا نگینہ بھی اسی کاتھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ذَا الْوَجْہَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَمَّارٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کی نظرمیں دورخے شخص سے بدتر کوئی نہیں ہوگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس اورعمار رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلَيْنِ قَدِمَا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَخَطَبَا فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِہِمَا فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ إِنَّ مِنْ الْبَيَانِ سِحْرًا أَوْ إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ سِحْرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہﷺ کے زمانہ میں دوآدمی آئے ۱؎ اورانہوں نے تقریر کی،لوگ ان کی تقریر سن کرتعجب کرنے لگے،رسول اللہﷺ ہماری طرف متوجہ ہوے اورفرمایا: کچھ باتیں جادوہوتی ہیں ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمار،ابن مسعوداورعبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الفَرْوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ،عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ،عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ،عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ،عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((إِذَا أَحَبَّ اللہُ عَبْدًا حَمَاہُ الدُّنْيَا كَمَا يَظَلُّ أَحَدُكُمْ يَحْمِي سَقِيمَہُ المَاءَ)): وَفِي البَابِ عَنْ صُہَيْبٍ،وَأُمِّ المُنْذِرِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الحَدِيثُ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا،حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ،عَنْ عَمْرٍو،عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ،عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،نَحْوَہُ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ: وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ الظَّفَرِيُّ ہُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ [ص:382] لِأُمِّہِ،وَمَحْمُودُ بْنُ لَبِيدٍ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ ﷺ،وَرَآہُ وَہُوَ غُلَامٌ صَغِيرٌ

قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تواسے دنیاسے اسی طرح بچاتا ہے،جس طرح تم میں سے کوئی آدمی اپنے بیمار کو پانی سے بچاتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث محمود بن لبید کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسل طریقہ سے آئی ہے،۳-اس باب میں صہیب اور ام منذر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲۰۳۶/م-اس سند سے محمود بن لبید سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،اس میں قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کا تذکرہ نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-قتادہ بن نعمان ظفری،ابوسعید خدری کے اخیافی (ماں شریک) بھائی ہیں،۲-محمود بن لبید نے نبی اکرم ﷺ کا زمانہ پایاہے اور کم سنی میں آپ کو دیکھاہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ عَنْ أُمِّ الْمُنْذِرِ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَمَعَہُ عَلِيٌّ وَلَنَا دَوَالٍ مُعَلَّقَةٌ قَالَتْ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَأْكُلُ وَعَلِيٌّ مَعَہُ يَأْكُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِعَلِيٍّ مَہْ مَہْ يَا عَلِيُّ فَإِنَّكَ نَاقِہٌ قَالَ فَجَلَسَ عَلِيٌّ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَأْكُلُ قَالَتْ فَجَعَلْتُ لَہُمْ سِلْقًا وَشَعِيرًا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ يَا عَلِيُّ مِنْ ہَذَا فَأَصِبْ فَإِنَّہُ أَوْفَقُ لَكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ فُلَيْحٍ وَيُرْوَی عَنْ فُلَيْحٍ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ وَأَبُو دَاوُدَ قَالَا حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ عَنْ أُمِّ الْمُنْذِرِ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ أَنْفَعُ لَكَ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِہِ وَحَدَّثَنِيہِ أَيُّوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہَذَا حَدِيثٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ

ام منذر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے،ہمارے گھر کھجور کے خوشے لٹکی ہوئی تھیں،رسول اللہ ﷺ اس میں سے کھانے لگے اور آپ کے ساتھ علی بھی کھانے لگے،رسول اللہ ﷺ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: علی! ٹھہرجاؤ،ٹھہرجاؤ،اس لیے کہ ابھی ابھی بیماری سے اٹھے ہو،ابھی کمزور ی باقی ہے،ام منذر کہتی ہیں: علی بیٹھ گئے اور نبی اکرم ﷺ کھاتے رہے،پھر میں نے ان کے لیے چقندر اور جو تیار کی،نبی اکرم ﷺ نے کہا: علی! اس میں سے لو(کھاؤ)،یہ تمہارے مزاج کے موافق ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف فلیح کی روایت سے جانتے ہیں،۲-یہ حدیث فلیح سے بھی مروی ہے جسے وہ ایوب بن عبدالرحمٰن سے روایت کرتے ہیں۔اس سند سے بھی ام منذر انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔اس کے بعد راوی نے یونس بن محمد کی حدیث جیسی حدیث بیان کی جسے وہ فلیح بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں أوفق لک کے بجائے أنفع لک (تمہارے لیے زیادہ مفید ہے)بیان کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث جید غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ بْنِ بَرَكَةَ عَنْ أُمِّہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَخَذَ أَہْلَہُ الْوَعَكُ أَمَرَ بِالْحِسَاءِ فَصُنِعَ ثُمَّ أَمَرَہُمْ فَحَسَوْا مِنْہُ وَكَانَ يَقُولُ إِنَّہُ لَيَرْتُقُ فُؤَادَ الْحَزِينِ وَيَسْرُو عَنْ فُؤَادِ السَّقِيمِ كَمَا تَسْرُو إِحْدَاكُنَّ الْوَسَخَ بِالْمَاءِ عَنْ وَجْہِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا بِہِ أَبُو إِسْحَقَ الطَّالْقَانِيُّ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کے گھروالوں کوتپ دق آتا تو آپ حساء ۱؎ تیار کرنے کا حکم دیتے،حساء تیار کیاجاتا،پھر آپ ان کو تھوڑا تھوڑا پینے کاحکم دیتے،تو وہ اس میں سے پیتے،آپ ﷺ فرماتے تھے: حساء غمگین کے دل کو تقویت دیتاہے،اور مریض کے دل سے اسی طرح تکلیف دور کرتاہے،جس طرح تم میں سے کوئی پانی کے ذریعہ اپنے چہرے سے میل دورکرتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ابن مبارک نے یہ حدیث عن یونس،عن الزہری،عن عروۃ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے 2؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُكْرِہُوا مَرْضَاكُمْ عَلَی الطَّعَامِ فَإِنَّ اللہَ يُطْعِمُہُمْ وَيَسْقِيہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے بیماروں کو کھانے پر مجبور نہ کرو،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتا پلاتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ وَثَابِتٌ وَقَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَاجْتَوَوْہَا فَبَعَثَہُمْ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ وَقَالَ اشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِہَا وَأَبْوَالِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قبیلہ ٔ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے،انہیں مدینہ کی آب وہوا راس نہیں آئی،تورسول اللہ ﷺ نے انہیں صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ(چراگا ہ کی طرف) روانہ کیا اور فرمایا: تم لوگ اونٹنیوں کے دودھ اور پیشاب پیو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سِمَاكٍ أَنَّہُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ شَہِدَ النَّبِيَّ ﷺ وَسَأَلَہُ سُوَيْدُ بْنُ طَارِقٍ أَوْ طَارِقُ بْنُ سُوَيْدٍ عَنْ الْخَمْرِ فَنَہَاہُ عَنْہُ فَقَالَ إِنَّا نَتَدَاوَی بِہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّہَا لَيْسَتْ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّہَا دَاءٌ حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ وَشَبَابَةُ عَنْ شُعْبَةَ بِمِثْلِہِ قَالَ مَحْمُودٌ قَالَ النَّضْرُ طَارِقُ بْنُ سُوَيْدٍ وَقَالَ شَبَابَةُ سُوَيْدُ بْنُ طَارِقٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرمﷺ کے پاس حاضرتھے جب سویدبن طارق یا طارق بن سویدنے آپ سے شراب کے بارے میں پوچھاتوآپ نے انہیں شراب سے منع فرمایا،سوید نے کہا: ہم لوگ تواس سے علاج کرتے ہیں،رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ دوانہیں بلکہ وہ تو خود بیماری ہے۔اس سند سے بھی وائل رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔(اس سند کے ایک راوی) نضرنے طارق بن سویدکہا اور (دوسرے راوی) شبابہ نے سوید بن طارق کہا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ الْكَيِّ قَالَ فَابْتُلِينَا فَاكْتَوَيْنَا فَمَا أَفْلَحْنَا وَلَا أَنْجَحْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ نُہِينَا عَنْ الْكَيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بدن داغنے سے منع فرمایا ۱؎،پھر بھی ہم بیماری میں مبتلاہوئے توہم نے بدن داغ لیا،لیکن ہم کامیاب وکامران نہیں ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: ہم کو بدن داغنے سے منع کیا گیا ہے۔ ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،عقبہ بن عامراور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَا حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَحْتَجِمُ فِي الْأَخْدَعَيْنِ وَالْكَاہِلِ وَكَانَ يَحْتَجِمُ لِسَبْعَ عَشْرَةَ وَتِسْعَ عَشْرَةَ وَإِحْدَی وَعِشْرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ گردن کی دونوں جانب موجود دوپوشیدہ رگوں اورکندھے پر پچھنا لگواتے تھے،اور آپ مہینہ کی سترہویں،انیسویں اوراکیسویں تاریخ کو پچھنالگواتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اورمعقل بن یسار رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِّيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِہِ أَنَّہُ لَمْ يَمُرَّ عَلَی مَلَإٍ مِنْ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا أَمَرُوہُ أَنْ مُرْ أُمَّتَكَ بِالْحِجَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے معراج کی رات کا حال بیان کیا کہ آپ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے آپ کو یہ حکم ضرور دیاکہ اپنی امت کو پچھنالگوانے کا حکم دیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن مسعودکی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ قَال سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يَقُولُ كَانَ لِابْنِ عَبَّاسٍ غِلْمَةٌ ثَلَاثَةٌ حَجَّامُونَ فَكَانَ اثْنَانِ مِنْہُمْ يُغِلَّانِ عَلَيْہِ وَعَلَی أَہْلِہِ وَوَاحِدٌ يَحْجُمُہُ وَيَحْجُمُ أَہْلَہُ قَالَ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ نِعْمَ الْعَبْدُ الْحَجَّامُ يُذْہِبُ الدَّمَ وَيُخِفُّ الصُّلْبَ وَيَجْلُو عَنْ الْبَصَرِ وَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ حِينَ عُرِجَ بِہِ مَا مَرَّ عَلَی مَلَإٍ مِنْ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا عَلَيْكَ بِالْحِجَامَةِ وَقَالَ إِنَّ خَيْرَ مَا تَحْتَجِمُونَ فِيہِ يَوْمَ سَبْعَ عَشْرَةَ وَيَوْمَ تِسْعَ عَشْرَةَ وَيَوْمَ إِحْدَی وَعِشْرِينَ وَقَالَ إِنَّ خَيْرَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِہِ السَّعُوطُ وَاللَّدُودُ وَالْحِجَامَةُ وَالْمَشِيُّ وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَدَّہُ الْعَبَّاسُ وَأَصْحَابُہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ لَدَّنِي فَكُلُّہُمْ أَمْسَكُوا فَقَالَ لَا يَبْقَی أَحَدٌ مِمَّنْ فِي الْبَيْتِ إِلَّا لُدَّ غَيْرَ عَمِّہِ الْعَبَّاسِ قَالَ عَبْدٌ قَالَ النَّضْرُ اللَّدُودُ الْوَجُورُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ

عکرمہ کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس پچھنالگانے والے تین غلام تھے،ان میں سے دو ابن عباس اور ان کے اہل وعیال کے لیے غلہ حاصل کرتے تھے اورایک غلام ان کواوران کے اہل وعیال کو پچھنالگاتاتھا،ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: پچھنا لگانے والاغلام کیا ہی اچھاہے،وہ (فاسد) خون کودور کرتاہے،پیٹھ کو ہلکا کرتاہے،اورآنکھ کوصاف کرتاہے۔آپﷺ معراج میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے یہ ضرورکہا کہ تم پچھنا ضرورلگواؤ،آپ نے فرمایا: تمہارے پچھنالگوانے کا سب سے بہتر دن مہینہ کی سترہویں،انیسویں اوراکیسو یں تاریخ ہے،آپﷺنے مزید فرمایا: سب سے بہتر علاج جسے تم اپناؤ وہ ناک میں ڈالنے کی دوا،منہ کے ایک طرف سے ڈالی جانے والی دوا،پچھنا اوردست آوردواہے،رسول اللہﷺ کے منہ میں عباس اورصحابہ کرام نے دواڈالی،رسول اللہﷺ نے پوچھا: میرے منہ میں کس نے دواڈالی ہے؟ تمام لوگ خاموش رہے تو آپ نے فرمایا: گھر میں جوبھی ہو اس کے منہ میں دواڈالی جائے،سوائے آپ کے چچاعباس کے۔ راوی عبدکہتے ہیں: نضرنے کہا: لدودسے مراد وجورہے (حلق میں ڈالنے کی ایک دوا) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف عباد منصور ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ حَدَّثَنَا فَائِدٌ مَوْلًی لِآلِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ جَدَّتِہِ سَلْمَی وَكَانَتْ تَخْدُمُ النَّبِيَّ ﷺ قَالَتْ مَا كَانَ يَكُونُ بِرَسُولِ اللہِ ﷺ قَرْحَةٌ وَلَا نَكْبَةٌ إِلَّا أَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَضَعَ عَلَيْہَا الْحِنَّاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ فَائِدٍ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ فَائِدٍ وَقَالَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَدَّتِہِ سَلْمَی وَعُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَلِيٍّ أَصَحُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ فَائِدٍ مَوْلَی عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ مَوْلَاہُ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَدَّتِہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ

سلمی رضی اللہ عنہا سے (جونبی اکرم ﷺ کی خدمت کرتی تھیں) کہتی ہیں: رسول اللہﷺ کو تلوار اور چاقو یاپتھراورکانٹے سے جوزخم بھی لگتا تھا آپﷺ مجھے اس پر مہندی رکھنے کا ضرورحکم دیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے فائدہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-بعض لوگوں نے اس حدیث کی فائد سے روایت کرتے ہوئے سندمیںعن علی بن عبید اللہ،عن جدتہ سلمی کی بجائے عن عبید اللہ بن علی،عن جدتہ سلمی بیان کیا ہے،عبیداللہ بن علی ہی زیادہ صحیح ہے،سلمیٰ کو سُلمیٰ بھی کہا گیا ہے۔ہم سے محمدبن علی نے عن زید بن حباب،عن فائد مولی عبیداللہ بن علی،عن مولاہ عبید اللہ بن علی،عن جدتہ،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْہَمْدَانِيُّ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعَجْوَةُ مِنْ الْجَنَّةِ وَفِيہَا شِفَاءٌ مِنْ السُّمِّ وَالْكَمْأَةُ مِنْ الْمَنِّ وَمَاؤُہَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہُوَ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عجوہ (کھجور) جنت کا پھل ہے،اس میں زہر سے شفاء موجودہے اورصحرائے عرب کا فقعہ ۱ ؎ ایک طرح کا من (سلوی والا من) ہے،اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ محمد بن عمرو کی روایت سے ہے،ہم اسے صرف محمد بن عمرہی سعید بن عامر کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ محمد بن عمروسے روایت کرتے ہیں،۳-اس باب میں سعیدبن زید،ابوسعید اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ،عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ،ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّی قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ،عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((الكَمْأَةُ مِنَ المَنِّ وَمَاؤُہَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سعیدبن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: صحرائے عرب کا فقعہ ایک طرح کا من (سلوی والا من) ہے اور اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالُوا: الكَمْأَةُ جُدَرِيُّ الأَرْضِ،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ((الكَمْأَةُ مِنَ المَنِّ وَمَاؤُہَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ،وَالعَجْوَةُ مِنَ الجَنَّةِ وَہِيَ شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا: کھنبی زمین کی چیچک ہے،(یہ سن کر) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: صحرائے عرب کا فقعہ ایک طرح کا من ہے،اس کا عرق آنکھ کے لیے شفاء ہے،اورعجوہ کھجور جنت کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے،وہ زہر کے لیے شفاء ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي،عَنْ قَتَادَةَ،قَالَ: حُدِّثْتُ أَنَّ أَبَا ہُرَيْرَةَ قَالَ: ((أَخَذْتُ ثَلَاثَةَ أَكْمُؤٍ أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا [ص:402] فَعَصَرْتُہُنَّ فَجَعَلْتُ مَاءَہُنَّ فِي قَارُورَةٍ فَكَحَلْتُ بِہِ جَارِيَةً لِي فَبَرَأَتْ))

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے تین،پانچ یا سات کھنبی لی،ان کو نچوڑ ا،پھر اس کا عرق ایک شیشی میں رکھا اور اسے ایک لڑکی کی آنکھ میں ڈالا تو وہ صحت یاب ہوگئی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي،عَنْ قَتَادَةَ،قَالَ: حُدِّثْتُ أَنَّ أَبَا ہُرَيْرَةَ قَالَ: ((الشُّونِيزُ دَوَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ إِلَّا السَّامَ)) قَالَ قَتَادَةُ: يَأْخُذُ كُلَّ يَوْمٍ إِحْدَی وَعِشْرِينَ حَبَّةً فَيَجْعَلُہُنَّ فِي خِرْقَةٍ فَيَنْقَعُہُ فَيَسْتَعِطُ بِہِ كُلَّ يَوْمٍ فِي مَنْخَرِہِ الأَيْمَنِ قَطْرَتَيْنِ وَفِي الأَيْسَرِ قَطْرَةً،وَالثَّانِي فِي الأَيْسَرِ قَطْرَتَيْنِ وَفِي الأَيْمَنِ قَطْرَةً،وَالثَّالِثُ فِي الأَيْمَنِ قَطْرَتَيْنِ وَفِي الأَيْسَرِ قَطْرَةً

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کلونجی موت کے علاوہ ہربیماری کی دوا ہے۔ قتادہ ہرروز کلونجی کے اکیس دانے لیتے،ان کو ایک پوٹلی میں رکھ کرپانی میں بھگوتے پھرہرروز داہنے نتھنے میں دوبونداوربائیں میں ایک بوند ڈالتے،دوسرے دن بائیں میں دوبوندیں اورداہنی میں ایک بوندڈالتے اورتیسرے روز داہنے میں دوبوند اوربائیں میں ایک بوند ڈالتے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ،عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ،عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((الحُمَّی فَوْرٌ مِنَ النَّارِ فَأَبْرِدُوہَا بِالمَاءِ)): وَفِي البَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ،وَابْنِ عُمَرَ،وَامْرَأَةِ الزُّبَيْرِ،وَعَائِشَةَ،وَابْنِ عَبَّاسٍ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بخارجہنم کی گرمی سے ہوتاہے،لہذا اسے پانی سے ٹھنڈاکرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں اسماء بنت ابوبکر،ابن عمر،زبیرکی بیوی،ام المومنین عائشہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔(عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت آگے آرہی ہے)

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الہَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ عَائِشَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((إِنَّ الحُمَّی مِنْ فَيْحِ جَہَنَّمَ فَأَبْرِدُوہَا بِالمَاءِ)) حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ،عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ المُنْذِرِ،عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ،: وَفِي حَدِيثِ أَسْمَاءَ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا وَكِلَا الحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بخارجہنم کی گرمی سے ہوتا ہے،لہذا اسے پانی سے ٹھنڈاکرو۔اس سند سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اسماء کی حدیث میں اس حدیث سے کچھ زیادہ باتیں ہیں،۲-دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ،عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَائِشَةَ،عَنْ ابْنَةَ وَہْبٍ وَہِيَ جُدَامَةُ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: [ص:406] ((أَرَدْتُ أَنْ أَنْہَی عَنِ الغِيَالِ فَإِذَا فَارِسُ وَالرُّومُ يَفْعَلُونَ وَلَا يَقْتُلُونَ أَوْلَادَہُمْ)): وَفِي البَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ مَالِكٌ،عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ،عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَائِشَةَ،عَنْ جُدَامَةَ بِنْتِ وَہْبٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،قَالَ مَالِكٌ: وَالغِيَالُ أَنْ يَطَأَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِيَ تُرْضِعُ

جدامہ بنت وہب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: میں نے ارادہ کیا کہ ایام رضاعت میں صحبت کر نے سے لوگوں کو منع کردوں،پھر میں نے دیکھاکہ فارس اورروم کے لوگ ایساکرتے ہیں،اور ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-مالک نے یہ حدیث عن أبی الأسود،عن عروۃ،عن عائشۃ،عن جدامۃ بنت وہب،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-اس باب میں اسماء بنت یزید سے بھی روایت ہے،۴-مالک کہتے ہیں: غیلہ یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے۔

حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ أَحْمَدَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ،عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ،عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَائِشَةَ،عَنْ جُدَامَةَ بِنْتِ وَہْبٍ الأَسَدِيَّةِ،أَنَّہَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: ((لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ أَنْہَی عَنِ الغِيلَةِ حَتَّی ذَكَرْتُ أَنَّ الرُّومَ وَفَارِسَ يَصْنَعُونَ ذَلِكَ فَلَا يَضُرُّ أَوْلَادَہُمْ)) قَالَ مَالِكٌ: وَالغِيلَةُ أَنْ يَمَسَّ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَہِيَ تُرْضِعُ قَالَ عِيسَی بْنُ أَحْمَدَ: وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَی قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ،عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ،نَحْوَہُ،: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے ارادہ کیا تھا کہ ایام رضاعت میں جماع کرنے سے لوگوں کو منع کروں،پھر مجھے یاد آیا کہ روم اورفارس کے لوگ ایساکرتے ہیں اور اس سے ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتاہے۔مالک کہتے ہیں: غیلہ یہ ہے کہ کوئی شخص ایام رضاعت میں اپنی بیوی سے جماع کرے۔عیسیٰ بن احمدکہتے ہیں: ہم سے اسحاق بن عیسیٰ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: مجھ سے مالک نے ابوالاسود کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ،((أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَنْعَتُ الزَّيْتَ وَالوَرْسَ مِنْ ذَاتِ الجَنْبِ)) قَالَ قَتَادَةُ: وَيُلَدُّ مِنَ الْجَانِبِ الَّذِي يَشْتَكِيہِ،: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَبْدِ اللہِ اسْمُہُ مَيْمُونٌ ہُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ

زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ ذات الجنب ۱؎ کی بیماری میں زیتون کا تیل اور ورس ۲؎ تشخیص کرتے تھے،قتادہ کہتے ہیں: اس کو منہ میں ڈالاجائے گا،اورمنہ کی اس جانب سے ڈالا جائے گا جس جانب مرض ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوعبداللہ کا نام میمون ہے،وہ ایک بصری شیخ ہیں۔

حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ مُحَمَّدٍ العُذْرِيُّ البَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي رَزِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ خَالِدٍ الحَذَّاءِ قَالَ: حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ أَبُو عَبْدِ اللہِ،قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ قَالَ: ((أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ نَتَدَاوَی مِنْ ذَاتِ الجَنْبِ بِالقُسْطِ البَحْرِيِّ وَالزَّيْتِ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَيْمُونٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَقَدْ رَوَی عَنْ مَيْمُونٍ غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الحَدِيثَ وَذَاتُ الجَنْبِ: يَعْنِي السِّلَّ

زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ذات الجنب کا علاج قسط بحری (عودہندی) اور زیتون کے تیل سے کریں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-ہم اسے صرف میمون کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ زیدبن ارقم سے روایت کرتے ہیں،۳-میمون سے کئی لوگوں نے یہ حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ،عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ سَأَلَہَا: ((بِمَ تَسْتَمْشِينَ؟)) قَالَتْ: بِالشُّبْرُمِ قَالَ: ((حَارٌّ جَارٌّ)) قَالَتْ: ثُمَّ اسْتَمْشَيْتُ بِالسَّنَا،فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ [ص:409] وَسَلَّمَ: ((لَوْ أَنَّ شَيْئًا كَانَ فِيہِ شِفَاءٌ مِنَ المَوْتِ لَكَانَ فِي السَّنَا)). ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھاکہ اسہال کے لیے تم کیا لیتی ہو؟ میں نے کہا: شبرم ۱؎،آپ نے فرمایا: وہ گرم اوربہانے والا ہے ۔ اسماء کہتی ہیں: پھر میں نے سنا ۲؎ کا مسہل لیاتو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اگر کسی چیز میں موت سے شفا ہوتی توسنامیں ہوتی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس سے(یعنی سنا سے) مراد دست آوردواء ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ أَبِي المُتَوَكِّلِ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ أَخِي اسْتَطْلَقَ بَطْنُہُ،فَقَالَ: ((اسْقِہِ عَسَلًا)) فَسَقَاہُ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللہِ،قَدْ سَقَيْتُہُ عَسَلًا فَلَمْ يَزِدْہُ إِلَّا اسْتِطْلَاقًا،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((اسْقِہِ عَسَلًا)) فَسَقَاہُ ثُمَّ جَاءَہُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللہِ،قَدْ سَقَيْتُہُ عَسَلًا فَلَمْ يَزِدْہُ إِلَّا اسْتِطْلَاقًا،قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((صَدَقَ اللہُ وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ،اسْقِہِ عَسَلًا)) فَسَقَاہُ عَسَلًا فَبَرَأَ: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آکرعرض کیا: میرے بھائی کو دست آرہاہے،آپ نے فرمایا: اسے شہدپلاؤ،چنانچہ اس نے اسے پلا یا،پھر آیا اورعرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے شہدپلایالیکن اس سے دست میں اوراضافہ ہوگیاہے،رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے شہدپلاؤ،اس نے اسے شہد پلایا،پھرآپ کے پاس آیا اورعرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے شہدپلایا لیکن اس سے دست میں اوراضافہ ہوگیا ہے،ابوسعید خدری کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ(اپنے قول میں) سچاہے،اورتمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے،اس کو شہدپلاؤ،چنانچہ اس نے شہدپلایا تو(اس بار) اچھاہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الأَشْقَرُ الرِّبَاطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْزُوقٌ أَبُو عَبْدِ اللہِ الشَّامِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَوْبَانُ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمُ الحُمَّی فَإِنَّ الحُمَّی قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ فَلْيُطْفِئْہَا عَنْہُ بِالمَاءِ فَلْيَسْتَنْقِعْ نَہْرًا جَارِيًا لِيَسْتَقْبِلَ جَرْيَةَ الْمَاءِ فَيَقُولُ: بِسْمِ اللہِ،اللہُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ وَصَدِّقْ رَسُولَكَ،بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ فَلْيَغْتَمِسْ فِيہِ ثَلَاثَ غَمَسَاتٍ ثَلَاثَةَ [ص:411] أَيَّامٍ،فَإِنْ لَمْ يَبْرَأْ فِي ثَلَاثٍ فَخَمْسٍ،وَإِنْ لَمْ يَبْرَأْ فِي خَمْسٍ فَسَبْعٌ،فَإِنْ لَمْ يَبْرَأْ فِي سَبْعٍ فَتِسْعٍ فَإِنَّہَا لَا تَكَادُ تُجَاوِزُ تِسْعًا بِإِذْنِ اللہِ : ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کوبخارآئے اور بخار آگ کا ایک ٹکڑاہے تو وہ اسے پانی سے بجھادے،ایک بہتی نہر میں اترے اور پانی کے بہاؤ کی طرف اپنا رخ کر ے پھر یہ دعاء پڑھے: بِسْمِ اللہِ اللہُمَّ اشْفِ عَبْدَکَ وَصَدِّقْ رَسُولَکَ(اللہ کے نام سے شروع کرتاہوں،اے اللہ! اپنے بندے کو شفادے اوراپنے رسول کی اس بات کوسچابنا) وہ اس عمل کو فجرکے بعد اورسورج نکلنے سے پہلے کرے،وہ اس نہر میں تین دن تک تین غوطے لگائے،اگرتین دن میں اچھا نہ ہوتو پانچ دن تک،اگرپانچ دن میں اچھا نہ ہو تو سات دن تک اوراگر سات دن میں اچھا نہ ہوتونو دن تک،اللہ کے حکم سے اس کا مرض نودن سے آگے نہیں بڑھے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ أَبِي حَازِمٍ،قَالَ: سُئِلَ سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ وَأَنَا أَسْمَعُ،بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جَرْحُ رَسُولِ اللہِ ﷺ؟ فَقَالَ: ((مَا بَقِيَ أَحَدٌ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّي،كَانَ عَلِيٌّ يَأْتِي بِالمَاءِ فِي تُرْسِہِ وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ عَنْہُ الدَّمَ،وَأُحْرِقَ لَہُ حَصِيرٌ فَحُشِيَ بِہِ جُرْحَہُ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوحازم کہتے ہیں: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیا اور میں سن رہا تھا کہ رسول اللہﷺ کے زخم کا کس چیز سے علاج کیا گیا؟ انہوں نے کہا: اس چیز کو مجھ سے زیادہ جاننے والا اب کوئی باقی نہیں ہے،علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لارہے تھے،جب کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے زخم سے خون دھورہی تھیں اورمیں آپ کے لیے ٹاٹ جلارہا تھا،پھر اسی کی راکھ سے آپ کا زخم بھرا گیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،قَالَ: أَخْبَرَنَا الوَلِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ المُوقَرِيُّ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((إِنَّمَا مَثَلُ المَرِيضِ إِذَا بَرَأَ وَصَحَّ كَالبَرْدَةِ تَقَعُ مِنَ السَّمَاءِ فِي صَفَائِہَا وَلَوْنِہَا))

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب مریض صحت یاب اورتندرست ہوجائے تو شفافیت اوررنگ میں اس کی مثال اس اولے کی طرح ہے جو آسمان سے گرتاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْہَا مِنْ سَعْدٍ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ،فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللہِ،ہَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ،قُتِلَ أَبُوہُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَہِيدًا،وَإِنَّ عَمَّہُمَا أَخَذَ مَالَہُمَا،فَلَمْ يَدَعْ لَہُمَا مَالًا وَلَا تُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَہُمَا مَالٌ،قَالَ: ((يَقْضِي اللہُ فِي ذَلِكَ)) فَنَزَلَتْ: آيَةُ المِيرَاثِ،فَبَعَثَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَی عَمِّہِمَا،فَقَالَ: ((أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ،وَأَعْطِ أُمَّہُمَا الثُّمُنَ،وَمَا بَقِيَ فَہُوَ لَكَ)): [ص:415] ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ،وَقَدْ رَوَاہُ شَرِيكٌ أَيْضًا،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دوبیٹیوں کو جو سعد سے پیداہوئی تھیں لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اورعرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں،ان کے باپ آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہوگئے ہیں،ان کے چچانے ان کا مال لے لیا ہے،اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا،اور بغیر مال کے ان کی شادی نہیں ہوگی۔آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا،چنانچہ اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺنے ان(لڑکیوں) کے چچاکے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو مال کادوتہائی حصہ دے دواور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ،اور جوبچے وہ تمہارا ہے ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،ہم اسے صرف عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے جانتے ہیں،۲-عبداللہ بن محمد بن عقیل سے شریک نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا قُطْبَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُلْقَی عَلَی أَہْلِ النَّارِ الْجُوعُ فَيَعْدِلُ مَا ہُمْ فِيہِ مِنْ الْعَذَابِ فَيَسْتَغِيثُونَ فَيُغَاثُونَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِيعٍ لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ فَيَسْتَغِيثُونَ بِالطَّعَامِ فَيُغَاثُونَ بِطَعَامٍ ذِي غُصَّةٍ فَيَذْكُرُونَ أَنَّہُمْ كَانُوا يُجِيزُونَ الْغَصَصَ فِي الدُّنْيَا بِالشَّرَابِ فَيَسْتَغِيثُونَ بِالشَّرَابِ فَيُرْفَعُ إِلَيْہِمْ الْحَمِيمُ بِكَلَالِيبِ الْحَدِيدِ فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوہِہِمْ شَوَتْ وُجُوہَہُمْ فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُونَہُمْ قَطَّعَتْ مَا فِي بُطُونِہِمْ فَيَقُولُونَ ادْعُوا خَزَنَةَ جَہَنَّمَ فَيَقُولُونَ أَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا بَلَی قَالُوا فَادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ قَالَ فَيَقُولُونَ ادْعُوا مَالِكًا فَيَقُولُونَ يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ فَيُجِيبُہُمْ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ قَالَ الْأَعْمَشُ نُبِّئْتُ أَنَّ بَيْنَ دُعَائِہِمْ وَبَيْنَ إِجَابَةِ مَالِكٍ إِيَّاہُمْ أَلْفَ عَامٍ قَالَ فَيَقُولُونَ ادْعُوا رَبَّكُمْ فَلَا أَحَدَ خَيْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَيَقُولُونَ رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ قَالَ فَيُجِيبُہُمْ اخْسَئُوا فِيہَا وَلَا تُكَلِّمُونِ قَالَ فَعِنْدَ ذَلِكَ يَئِسُوا مِنْ كُلِّ خَيْرٍ وَعِنْدَ ذَلِكَ يَأْخُذُونَ فِي الزَّفِيرِ وَالْحَسْرَةِ وَالْوَيْلِ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالنَّاسُ لَا يَرْفَعُونَ ہَذَا الْحَدِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَی إِنَّمَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَوْلَہُ وَلَيْسَ بِمَرْفُوعٍ وَقُطْبَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور یہ عذاب کے برابر ہوجائے گی جس سے وہ دوچار ہوں گے،لہذا وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ضریع (خاردار پودا) کے کھانے سے کی جائے گی جو نہ انہیں موٹا کرے گا اورنہ ان کی بھوک ختم کرے گا،پھر وہ دوبارہ کھانے کی فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی گلے میں اٹکنے والے کھانے سے کی جائے گی،پھر وہ یاد کریں گے کہ دنیا میں اٹکے ہوئے نوالے کو پانی کے ذریعہ نگلتے تھے،چنانچہ وہ پانی کی فریاد کریں گے اور ان کی فریاد رسی حمیم (جہنمیوں کے مواد) سے کی جائے گی جولوہے کے برتنوں میں دیاجائے گا جب مواد ان کے چہروں سے قریب ہوگا تو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اور جب ان کے پیٹ میں جائے گاتو ان کے پیٹ کے اندر جوکچھ ہے اسے کاٹ ڈالے گا،وہ کہیں گے: جہنم کے داروغہ کوبلاؤ،داروغہ کہیں گے: کیا تمہارے پاس رسول روشن دلائل کے ساتھ نہیں گئے تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں،داروغہ کہیں گے: پکارتے رہو،کافروں کی پکار بے کار ہی جائے گی۔آپ نے فرمایا: جہنمی کہیں گے: مالک کو بلاؤ اور کہیں گے: اے مالک! چاہیے کہ تیرارب ہمارا فیصلہ کردے(ہمیں موت دے دے) آپ نے فرمایا: ان کو مالک جواب دے گا: تم لوگ (ہمیشہ کے لیے) اسی میں رہنے والے ہو۔اعمش کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیاگیا کہ ان کی پکار اور مالک کے جواب میں ایک ہزار سال کا وقفہ ہوگا،آپ نے فرمایا:جہنمی کہیں گے: اپنے رب کو پکارو اس لیے کہ تمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں ہے،وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمارے اوپر شقاوت غالب آگئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے،اے ہمارے رب! ہمیں اس سے نکال دے اگر ہم پھرویسا ہی کریں گے تو ظالم ہوں گے۔آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ انہیں جواب دے گا: پھٹکار ہو تم پر اسی میں پڑے رہواور مجھ سے بات نہ کرو،آپ نے فرمایا: اس وقت وہ ہر خیر سے محروم ہوجائیں گے اور اس وقت گدھے کی طرح رینکنے لگیں گے اور حسرت وہلاکت میں گرفتار ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی) کہتے ہیں: لوگ اس حدیث کو مرفوعا ًنہیں روایت کرتے ہیں،۲-ہم اس حدیث کو صرف عن الأعمش،عن شمر بن عطیۃ،عن شہر بن حوشب،عن أم الدرداء کی سند سے جانتے ہیں جو ابودرداء کااپنا قول ہے،مرفوع حدیث نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي شُجَاعٍ عَنْ أَبِي السَّمْحِ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ وَہُمْ فِيہَا كَالِحُونَ قَالَ تَشْوِيہِ النَّارُ فَتَقَلَّصُ شَفَتُہُ الْعُلْيَا حَتَّی تَبْلُغَ وَسَطَ رَأْسِہِ وَتَسْتَرْخِي شَفَتُہُ السُّفْلَی حَتَّی تَضْرِبَ سُرَّتَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَأَبُو الْہَيْثَمِ اسْمُہُ سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدٍ الْعُتْوَارِيُّ وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي سَعِيدٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس آیت کریمہ وہم فیہا کالحون (المؤمنون: ۱۰۴)(کافرجہنم کے اندر بد شکل ہوں گے) کے بارے میں فرمایا: ان کے چہروں کو آگ جھلس دے گی تو ان کے اوپر کا ہونٹ سکڑ کر بیچ سرتک پہنچ جائے گا اور نیچے کاہونٹ لٹک کر ناف سے جالگے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ أَبِي السَّمْحِ عَنْ عِيسَی بْنِ ہِلَالٍ الصَّدَفِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ أَنَّ رَصَاصَةً مِثْلَ ہَذِہِ وَأَشَارَ إِلَی مِثْلِ الْجُمْجُمَةِ أُرْسِلَتْ مِنْ السَّمَاءِ إِلَی الْأَرْضِ ہِيَ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ لَبَلَغَتْ الْأَرْضَ قَبْلَ اللَّيْلِ وَلَوْ أَنَّہَا أُرْسِلَتْ مِنْ رَأْسِ السِّلْسِلَةِ لَسَارَتْ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا اللَّيْلَ وَالنَّہَارَ قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ أَصْلَہَا أَوْ قَعْرَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُہُ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ ہُوَ مِصْرِيٌّ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگراس کے برابر ایک ٹکڑا (اور آپ نے اپنے سرکی طرف اشارہ کیا) آسمان سے زمین کی طرف جو پانچ سوسال کی مسافت ہے،چھوڑا جائے تو زمین پر رات سے پہلے پہنچ جائے گا اور اگروہی ٹکڑا زنجیر (جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے: ثُمَّ فِی سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُہَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوہُ (الحاقۃ:32) کے سرسے چھوڑاجائے تو اس زنجیر کی جڑ یا اس کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے چالیس سال رات اور دن کے گزر جائیں ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند حسن صحیح ہے،۲-سعید بن یزید مصری ہیں۔ان سے لیث بن سعد اور کئی ائمہ نے حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَہْلِہَا الْفُقَرَاءَ وَاطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَہْلِہَا النِّسَاءَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے جنت میں جھانکا تو دیکھاکہ اکثر جنتی فقیر ہیں اور جہنم میں جھانکا تو دیکھا کہ اکثر جہنمی عورتیں ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا عَوْفٌ ہُوَ ابْنُ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اطَّلَعْتُ فِي النَّارِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَہْلِہَا النِّسَاءَ وَاطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَہْلِہَا الْفُقَرَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا يَقُولُ عَوْفٌ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَيَقُولُ أَيُّوبُ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَكِلَا الْإِسْنَادَيْنِ لَيْسَ فِيہِمَا مَقَالٌ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ أَبُو رَجَاءٍ سَمِعَ مِنْہُمَا جَمِيعًا وَقَدْ رَوَی غَيْرُ عَوْفٍ أَيْضًا ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے جہنم میں جھانکا تو دیکھاکہ اکثر جہنمی عورتیں ہیں اور جنت میں جھانکا تودیکھا کہ اکثر جنتی فقیر ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-عوف نے سند بیان کرتے ہوئے اس طرح کہا ہے:عن أبی رجاء عن عمران بن حصین اور ایوب نے کہا:عن أبی رجاء عن ابن عباس،دونوں سندوں میں کوئی کلام نہیں ہے۔اس بات کا احتمال ہے کہ ابورجاء نے عمران بن حصین اور ابن عباس دونوں سے سنا ہو،عوف کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث ابورجاء کے واسطہ سے عمران بن حصین سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ أَہْوَنَ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ فِي أَخْمَصِ قَدَمَيْہِ جَمْرَتَانِ يَغْلِي مِنْہُمَا دِمَاغُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے ہلکا عذاب والا وہ جہنمی ہوگا جس کے تلوے میں دوانگارے ہوں گے جن سے اس کا دماغ کھول رہاہوگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عباس بن عبدالمطلب،ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ قَال سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَہْبٍ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَہْلِ الْجَنَّةِ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللہِ لَأَبَرَّہُ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَہْلِ النَّارِ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُتَكَبِّرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: کیامیں تمہیں جنتیوں کے بارے میں نہ بتادوں؟ ہر کمزور حال آدمی جسے لوگ حقیر سمجھیں اگر وہ اللہ کی قسم کھائے تو اللہ اسے پوری کردے۔کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتادوں؟ ہرسرکش،بخیل اور متکبر ،(جہنم میں جائے گا۔) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُہَلَّبِيُّ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالُوا إِنَّا ہَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ وَلَسْنَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي أَشْہُرِ الْحَرَامِ فَمُرْنَا بِشَيْءٍ نَأْخُذُہُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْہِ مَنْ وَرَاءَنَا فَقَالَ آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ الْإِيمَانِ بِاللہِ ثُمَّ فَسَّرَہَا لَہُمْ شَہَادَةُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللہِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمْسَ مَا غَنِمْتُمْ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ اسْمُہُ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ أَيْضًا وَزَادَ فِيہِ أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ شَہَادَةُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللہِ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ سَمِعْت قُتَيْبَةَ بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ مَا رَأَيْتُ مِثْلَ ہَؤُلَاءِ الْفُقَہَاءِ الْأَشْرَافِ الْأَرْبَعَةِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَعَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْمُہَلَّبِيِّ وَعَبْدِ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيِّ قَالَ قُتَيْبَةُ كُنَّا نَرْضَی أَنْ نَرْجِعَ مِنْ عِنْدِ عَبَّادٍ كُلَّ يَوْمٍ بِحَدِيثَيْنِ وَعَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ہُوَ مِنْ وَلَدِ الْمُہَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبدقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا،انہوں نے آپ سے عرض کیا:(اے اللہ کے رسول!) ہمارے اور آپ کے درمیان ربیعہ کا یہ قبیلہ حائل ہے،حرمت والے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں ہم آپ کے پاس آ نہیں سکتے ۱؎ اس لیے آپ ہمیں کسی ایسی چیز کا حکم دیں جسے ہم آپ سے لے لیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں انہیں بھی ہم اس کی طرف بلاسکیں،آپ نے فرمایا: میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتاہوں (۱) اللہ پر ایمان لانے کا،پھر آپ نے ان سے اس کی تفسیر و تشریح بیان کی لا إ لہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی شہادت دینا (۲)صلاۃ قائم کرنا (۳) زکاۃ دینا (۴) مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (خمس) نکالنا۔اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح حسن ہے،۲-شعبہ نے بھی اسے ابوجمرہ نصربن عمران ضبعی سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے أَتَدْرُونَ مَا الإِیمَانُ شَہَادَۃُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللہِ (کیا تم جانتے ہو ایمان کیا ہے؟ ایمان یہ ہے: گواہی دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے اور گواہی دی جائے کہ میں اللہ کا رسول ہوں) اور پھر پوری حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَہُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَہُوَ مُؤْمِنٌ وَلَكِنَّ التَّوْبَةَ مَعْرُوضَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا زَنَی الْعَبْدُ خَرَجَ مِنْہُ الْإِيمَانُ فَكَانَ فَوْقَ رَأْسِہِ كَالظُّلَّةِ فَإِذَا خَرَجَ مِنْ ذَلِكَ الْعَمَلِ عَادَ إِلَيْہِ الْإِيمَانُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّہُ قَالَ فِي ہَذَا خَرَجَ مِنْ الْإِيمَانِ إِلَی الْإِسْلَامِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ فِي الزِّنَا وَالسَّرِقَةِ مَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَأُقِيمَ عَلَيْہِ الْحَدُّ فَہُوَ كَفَّارَةُ ذَنْبِہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَ اللہُ عَلَيْہِ فَہُوَ إِلَی اللہِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُ رَوَی ذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ وَخُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زنا کرنے والازنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا ۱؎ اور جب چوری کرنے والا چوری کرتاہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا،لیکن اس کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،عائشہ اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب آدمی زنا کرتاہے تو ایمان اس کے اندر سے نکل کر اس کے سرکے اوپر چھتری جیسا (معلق) ہوجاتاہے،اور جب اس فعل (شنیع) سے فارغ ہوجاتاہے تو ایمان اس کے پاس لوٹ آتاہے۔ابوجعفر محمد بن علی (اس معاملہ میں)کہتے ہیں: جب وہ ایسی حرکت کرتاہے تو ایمان سے نکل کر صرف مسلم رہ جاتاہے۔ علی ابن ابی طالب،عبادہ بن صامت اور خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے زنا اور چوری کے سلسلے میں فرمایا: اگرکوئی شخص اس طرح کے کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اس پر حد جاری کردی جائے تو یہ (حدکا اجراء) اس کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔اور جس شخص سے اس سلسلے میں کوئی گناہ سرزد ہوگیا پھراللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی تو وہ اللہ کی مشیت پر منحصر ہے اگر وہ چاہے تو اسے قیامت کے دن عذاب دے اور چاہے تو اسے معاف کردے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَاسْمُہُ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْہَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَصَابَ حَدًّا فَعُجِّلَ عُقُوبَتَہُ فِي الدُّنْيَا فَاللہُ أَعْدَلُ مِنْ أَنْ يُثَنِّيَ عَلَی عَبْدِہِ الْعُقُوبَةَ فِي الْآخِرَةِ وَمَنْ أَصَابَ حَدًّا فَسَتَرَہُ اللہُ عَلَيْہِ وَعَفَا عَنْہُ فَاللہُ أَكْرَمُ مِنْ أَنْ يَعُودَ إِلَی شَيْءٍ قَدْ عَفَا عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہَذَا قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا كَفَّرَ أَحَدًا بِالزِّنَا أَوْ السَّرِقَةِ وَشُرْبِ الْخَمْرِ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس نے کوئی جرم کیا اور اسے اس کے جرم کی سزادنیا میں مل گئی تو اللہ اس سے کہیں زیادہ انصاف پسند ہے کہ وہ اپنے بندے کو آخرت میں دوبارہ سزادے اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی اور اس سے درگزر کردیا تو اللہ کا کرم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ بندے سے اس بات پر دوبارہ مواخذہ کرے جسے وہ پہلے معاف کرچکا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہی اہل علم کا قول ہے۔ہم کسی شخص کو نہیں جانتے جس نے زنا کر بیٹھنے،چوری کرڈالنے اور شراب پی لینے والے کو کافر گرداناہو۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا كَمَا بَدَأَ فَطُوبَی لِلْغُرَبَاءِ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ الْأَعْمَشِ وَأَبُو الْأَحْوَصِ اسْمُہُ عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ نَضْلَةَ الْجُشَمِيُّ تَفَرَّدَ بِہِ حَفْصٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا،عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا،لہذا ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں کے لیے خوش خبری ومبارک بادی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں سعد،ابن عمر،جابر،اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے،۳-میں اس حدیث کوصرف حفص بن غیاث کی روایت سے جسے وہ اعمش کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں،جانتاہوں،۴-ابوالاحوص کانام عوف بن مالک بن نضلہ جشمی ہے،۵-ابوحفص اس حدیث کی روایت میں منفرد ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مِلْحَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ الدِّينَ لَيَأْرِزُ إِلَی الْحِجَازِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَی جُحْرِہَا وَلَيَعْقِلَنَّ الدِّينُ مِنْ الْحِجَازِ مَعْقِلَ الْأُرْوِيَّةِ مِنْ رَأْسِ الْجَبَلِ إِنَّ الدِّينَ بَدَأَ غَرِيبًا وَيَرْجِعُ غَرِيبًا فَطُوبَی لِلْغُرَبَاءِ الَّذِينَ يُصْلِحُونَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِي مِنْ سُنَّتِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(ایک وقت آئے گا کہ) دین اسلام حجاز میں سمٹ کررہ جائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ کر بیٹھ جاتاہے۔اور یقینا دین حجاز میں آکر ایسے ہی محفوظ ہوجائے گا جس طرح پہاڑی بکری پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ کر محفوظ ہوجاتی ہے ۱؎،دین اجنبی حالت میں آیا اور وہ پھر اجنبی حالت میں جائے گا،خوش خبری اور مبارک بادی ہے ایسے گمنام مصلحین کے لیے جو میرے بعد میری سنت میں لوگوں کی پیداکردہ خرابیوں اور برائیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْعَلَاءِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأنَسٍ وَجَابِرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي سُہَيْلِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَأَبُو سُہَيْلٍ ہُوَ عَمُّ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَاسْمُہُ نَافِعُ بْنُ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الْأَصْبَحِيُّ الْخَوْلَانِيُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق کی نشانیاں تین ہیں: (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو وعدے کی خلاف ورزی کرے(۳) اورجب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث علاء کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آئی ہے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،۳-اس باب میں ابن مسعود،انس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيہِ كَانَ مُنَافِقًا وَإِنْ كَانَتْ خَصْلَةٌ مِنْہُنَّ فِيہِ كَانَتْ فِيہِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّی يَدَعَہَا مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ نِفَاقُ الْعَمَلِ وَإِنَّمَا كَانَ نِفَاقُ التَّكْذِيبِ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ ہَكَذَا رُوِيَ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ شَيْءٌ مِنْ ہَذَا أَنَّہُ قَالَ النِّفَاقُ نِفَاقَانِ نِفَاقُ الْعَمَلِ وَنِفَاقُ التَّكْذِيبِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ(مکمل) منافق ہوگا۔اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی،اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے: وہ جب بات کرے توجھوٹ بولے،جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے،جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے اور جب معاہدہ کرے تو بے وفائی کرے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس سے اہل علم کے نزدیک عملی نفاق مراد ہے،نفاق تکذیب (اعتقادی نفاق) صرف رسول اللہﷺ کے زمانہ میں تھا ۱؎،۳-حسن بصری سے بھی اس بارے میں کچھ اسی طرح سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: نفاق دوطرح کا ہوتاہے،ایک عملی نفاق اوردوسرا اعتقادی نفاق۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ طَہْمَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِي النُّعْمَانِ عَنْ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا وَعَدَ الرَّجُلُ وَيَنْوِي أَنْ يَفِيَ بِہِ فَلَمْ يَفِ بِہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی ثِقَةٌ وَلَا يُعْرَفُ أَبُو النُّعْمَانِ وَلَا أَبُو وَقَّاصٍ وَہُمَا مَجْہُولَانِ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی کسی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت یہ ہوکہ وہ اپناوعدہ پوراکرے گا لیکن وہ (کسی عذر ومجبوری سے) پورانہ کرسکا تو اس پرکوئی گناہ نہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس کی اسناد قوی نہیں ہے،۳-علی بن عبدالاعلی ثقہ ہیں،ابونعمان اور ابووقاص غیر معروف ہیں اور دونوں ہی مجہول راوی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيْسَ عَلَی الْعَبْدِ نَذْرٌ فِيمَا لَا يَمْلِكُ وَلَاعِنُ الْمُؤْمِنِ كَقَاتِلِہِ وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَہُوَ كَقَاتِلِہِ وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِشَيْءٍ عَذَّبَہُ اللہُ بِمَا قَتَلَ بِہِ نَفْسَہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بندہ جس چیز کا مالک نہ ہو اس چیز کی نذر مان لے تو اس نذرکاپورا کرنا واجب نہیں ۱؎،مومن پر لعنت بھیجنے والا گناہ میں اس کے قاتل کی مانند ہے اور جوشخص کسی مومن کو کافر ٹھہرا ئے تووہ ویساہی براہے جیسے اس مومن کا قاتل،اور جس نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کر ڈالا،تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اسی چیز سے عذاب دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوذر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِأَخِيہِ كَافِرٌ فَقَدْ بَاءَ بِہِ أَحَدُہُمَا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ بَاءَ يَعْنِي أَقَرَّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگرکسی نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک نے (گویاکہ) اپنے کافر ہونے کا اقرار کرلیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- باء أقر کے معنی میں ہے،یعنی اقرار کیا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ عَنْ الصُّنَابِحِيِّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّہُ قَالَ دَخَلْتُ عَلَيْہِ وَہُوَ فِي الْمَوْتِ فَبَكَيْتُ فَقَالَ مَہْلًا لِمَ تَبْكِي فَوَاللہِ لَئِنْ اسْتُشْہِدْتُ لَأَشْہَدَنَّ لَكَ وَلَئِنْ شُفِّعْتُ لَأَشْفَعَنَّ لَكَ وَلَئِنْ اسْتَطَعْتُ لَأَنْفَعَنَّكَ ثُمَّ قَالَ وَاللہِ مَا مِنْ حَدِيثٍ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَكُمْ فِيہِ خَيْرٌ إِلَّا حَدَّثْتُكُمُوہُ إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا وَسَوْفَ أُحَدِّثُكُمُوہُ الْيَوْمَ وَقَدْ أُحِيطَ بِنَفْسِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ شَہِدَ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ حَرَّمَ اللہُ عَلَيْہِ النَّارَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ وَطَلْحَةَ وَجَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ كَانَ ثِقَةً مَأْمُونًا فِي الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالصُّنَابِحِيُّ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ أَبُو عَبْدِ اللہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ دَخَلَ الْجَنَّةَ فَقَالَ إِنَّمَا كَانَ ہَذَا فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ قَبْلَ نُزُولِ الْفَرَائِضِ وَالْأَمْرِ وَالنَّہْيِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَوَجْہُ ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ أَہْلَ التَّوْحِيدِ سَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَإِنْ عُذِّبُوا بِالنَّارِ بِذُنُوبِہِمْ فَإِنَّہُمْ لَا يُخَلَّدُونَ فِي النَّارِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ سَيَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ النَّارِ مِنْ أَہْلِ التَّوْحِيدِ وَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ ہَكَذَا رُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَإِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ فِي تَفْسِيرِ ہَذِہِ الْآيَةِ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ قَالُوا إِذَا أُخْرِجَ أَہْلُ التَّوْحِيدِ مِنْ النَّارِ وَأُدْخِلُوا الْجَنَّةَ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ

صنابحی سے روایت ہے کہ میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گیا جب وہ موت کی حالت میں تھے،میں (انہیں دیکھ کر) روپڑا،انہوں نے کہا: ٹھہرو ٹھہرو،روتے کیوں ہو؟ قسم اللہ کی! اگر مجھ سے گواہی طلب کی گئی تو میں(آخرت میں)تمہارے ایمان کی گواہی دوں گا،اور اگرمجھے شفاعت کا موقع دیاگیا تو میں تمہاری سفارش ضرور کروں گا اوراگر مجھے کچھ استطاعت نصیب ہوئی تو میں تمہیں ضرورفائدہ پہنچاؤں گا۔پھرانہوں نے کہا:قسم اللہ کی! کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو اور اس میں تم لوگوں کے لیے خیر ہومگر میں نے اسے تم لوگوں سے بیان نہ کردیا ہو،سوائے ایک حدیث کے اورآج میں اسے بھی تم لوگوں سے بیان کیے دے رہاہوں جب کہ میری موت قریب آچکی ہے،میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے: جوگواہی دے کہ کوئی معبود (برحق) نہیں سوائے اللہ کے اور گواہی دے کہ محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ اس پر آگ کوحرام کردے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-میں نے ابن ابی عمر کوکہتے ہوئے سنا کہ ابن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ آدمی ہیں اور حدیث میں مامون (قابل اعتماد) ہیں،۳-صنابحی سے مراد عبدالرحمٰن بن عسیلہ ابوعبداللہ ہیں (ابوعبداللہ کنیت ہے)،۴-اس باب میں ابوبکر،عمر،عثمان،علی،طلحہ،جابر،ابن عمر،اور زید بن خالد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۵-زہری سے مروی ہے کہ ان سے نبی اکرم ﷺ کے فرمان: مَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ دَخَلَ،الْجَنَّۃَ (جس نے لا إلہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا) کے متعلق پوچھاگیا (کہ اس کا مطلب کیا ہے؟) تو انہوں نے کہا: یہ شروع اسلام کی بات ہے جب کہ فرائض اور امرو نہی کے احکام نہیں آئے تھے،۶-بعض اہل علم کے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ اہل توحید (ہرحال میں) جنت میں جائیں گے اگرچہ انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے آگ کی سزاسے بھی کیوں نہ دوچار ہوناپڑے،کیوں کہ وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۱؎،۷-عبداللہ بن مسعود،ابوذر،عمران بن حصین،جابر بن عبداللہ،ابن عباس،ابوسعید خدری،انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ بنی اکرم ﷺنے فرمایا: عنقریب ایساہوگا کہ توحید کے قائلین کی ایک جماعت جہنم سے نکلے گی اور جنت میں داخل ہوگی ۲؎،ایسا ہی سعید بن جبیر ابراہیم نخعی اور دوسرے بہت سے تابعین سے مروی ہے،یہ لوگ آیت رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ کَانُوا مُسْلِمِینَ ۳؎ کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ جب اہل توحید جہنم سے نکالے اورجنت میں داخل کئے جائیں گے تو کافر لوگ آرزوکریں گے اے کاش! وہ بھی مسلمان ہوتے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَی عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَعَافِرِيِّ ثُمَّ الْحُبُلِيِّ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ سَيُخَلِّصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَی رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْہِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ ثُمَّ يَقُولُ أَتُنْكِرُ مِنْ ہَذَا شَيْئًا أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ فَيَقُولُ لَا يَا رَبِّ فَيَقُولُ أَفَلَكَ عُذْرٌ فَيَقُولُ لَا يَا رَبِّ فَيَقُولُ بَلَی إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً فَإِنَّہُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِيہَا أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ فَيَقُولُ احْضُرْ وَزْنَكَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ مَا ہَذِہِ الْبِطَاقَةُ مَعَ ہَذِہِ السِّجِلَّاتِ فَقَالَ إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ قَالَ فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كَفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كَفَّةٍ فَطَاشَتْ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتْ الْبِطَاقَةُ فَلَا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللہِ شَيْءٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عَامِرِ بْنِ يَحْيَی بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو چھانٹ کر نکالے گا اور سارے لوگوں کے سامنے لائے گا اور اس کے سامنے (اس کے گناہوں کے) ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے،ہردفتر حد نگاہ تک ہوگا،پھر اللہ عزوجل پوچھے گا: کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیاتم پر میرے محافظ کاتبوں نے ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا:نہیں اے میرے رب! پھر اللہ کہے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ تو وہ کہے گا: نہیں،اے میرے رب! اللہ کہے گا(کوئی بات نہیں) تیر ی ایک نیکی میرے پاس ہے۔آج کے دن تجھ پرکوئی ظلم (وزیادتی) نہ ہوگی،پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ۱؎ لکھا ہوگا۔اللہ فرمائے گا: جاؤ اپنے اعمال کے وزن کے موقع پر (کانٹے پر) موجود رہو،وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: تمہارے ساتھ زیادتی نہ ہوگی۔آپ (ﷺ) نے فرمایا:پھر وہ تمام دفتر(رجسٹر)ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں،پھر وہ سارے دفتراٹھ جائیں گے،اور پرچہ بھاری ہوگا۔(اور سچی بات یہ ہے کہ) اللہ کے نام کے ساتھ (یعنی اس کے مقابلہ میں) جب کوئی چیز تولی جائے گی،تو وہ چیز اس سے بھاری ثابت نہیں ہوسکتی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ يُرِدْ اللہُ بِہِ خَيْرًا يُفَقِّہْہُ فِي الدِّينِ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَمُعَاوِيَةَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے،تو اسے دین کی سمجھ عطاکردیتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،ابوہریرہ،اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّی ذَہَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللہُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الظُّہْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَاءَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ لَيْسَ بِإِسْنَادِہِ بَأْسٌ إِلَّا أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللہِ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْفَوَائِتِ أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ إِذَا قَضَاہَا وَإِنْ لَمْ يُقِمْ أَجْزَأَہُ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو خندق کے دن چار صلاتوں سے روک دیا۔یہاں تک کہ رات جتنی اللہ نے چاہی گزرگئی،پھر آپ نے بلال کو حکم دیا توانہوں نے اذان کہی،پھراقامت کہی توآپﷺنے ظہر پڑھی،پھربلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی توآپ نے عصر پڑھی،پھربلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی توآپ نے مغرب پڑھی،پھرانہوں نے اقامت کہی توآپﷺ نے عشاء پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند میں کوئی برائی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سناہے،۳-اور چھوٹی ہوئی صلاتوں کے سلسلے میں بعض اہل علم نے اسی کوپسند کیا ہے کہ آدمی جب ان کی قضا کرے توہرصلاۃ کے لیے الگ الگ اقامت کہے ۱؎ اور اگرو ہ الگ الگ اقامت نہ کہے توبھی وہ اُسے کافی ہوگا،اوریہی شافعی کا قول ہے۔

و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَاللہِ إِنْ صَلَّيْتُہَا قَالَ فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَتَوَضَّأْنَا فَصَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّی بَعْدَہَا الْمَغْرِبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خندق کے روز کفارقریش کو برا بھلاکہتے ہوئے کہاکہ اللہ کے رسول! میں عصرنہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہوگیا،تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ کی قسم! میں نے اُسے(اب بھی)نہیں پڑھی ہے،وہ کہتے ہیں: پھر ہم وادی بطحان میں اترے تو رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا،پھر رسول اللہﷺ نے سورج ڈوب جانے کے بعد پہلے عصرپڑھی پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ وَأَبُو النَّضْرِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ مُرَّةَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ صَلَاةُ الْوُسْطَی صَلَاةُ الْعَصْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صلاۃ وسطیٰ عصر کی صلاۃ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ صَلَاةُ الْوُسْطَی صَلَاةُ الْعَصْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي ہَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدِيثُ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَقَدْ سَمِعَ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَمُرَةَ فِي صَلَاةِ الْوُسْطَی حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ و قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَعَائِشَةُ صَلَاةُ الْوُسْطَی صَلَاةُ الظُّہْرِ و قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ صَلَاةُ الْوُسْطَی صَلَاةُ الصُّبْحِ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ قَالَ قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ سَلِ الْحَسَنَ مِمَّنْ سَمِعَ حَدِيثَ الْعَقِيقَةِ فَسَأَلْتُہُ فَقَالَ سَمِعْتُہُ مِنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمَدِينِيِّ عَنْ قُرَيْشِ بْنِ أَنَسٍ بِہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ عَلِيٌّ وَسَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ وَاحْتَجَّ بِہَذَا الْحَدِيثِ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صلاۃ وسطیٰ عصر کی صلاۃ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-صلاۃ وسطیٰ کے سلسلہ میں سمرہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں علی،عبداللہ بن مسعود،زید بن ثابت،عائشہ،حفصہ،ابوہریرہ اور ابوہاشم بن عقبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ(ابن المدینی) کاکہناہے: حسن بصری کی حدیث جسے انہوں نے سمرہ بن جندب سے روایت کیا ہے،صحیح حدیث ہے،جسے انہوں نے سمرۃ سے سنا ہے،۴-صحابہ کرام اوران کے علاوہ دیگر لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے،زید بن ثابت اور عائشہ رضی اللہ عنہا کاکہناہے کہ صلاۃ وسطیٰ ظہرکی صلاۃ ہے،ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ صلاۃِ وسطیٰ صبح کی صلاۃ (یعنی فجر) ہے ۲؎،۵-وہ حبیب بن شہید کہتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے کہا کہ تم حسن بصری سے پوچھوکہ انہوں نے عقیقہ کی حدیث کس سے سنی ہے؟ تو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہاکہ میں نے اسے سمرہ بن جندب سے سناہے،۶-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ علی ابن المدینی نے کہاہے کہ سمرہ رضی اللہ عنہ سے حسن کا سماع صحیح ہے اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّمَا صَلَّی النَّبِيُّ ﷺ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ لِأَنَّہُ أَتَاہُ مَالٌ فَشَغَلَہُ عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّہْرِ فَصَلَّاہُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ لَہُمَا وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَمَيْمُونَةَ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ صَلَّی بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ وَہَذَا خِلَافُ مَا رُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ نَہَی عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَصَحُّ حَيْثُ قَالَ لَمْ يَعُدْ لَہُمَا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَحْوُ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ فِي ہَذَا الْبَابِ رِوَايَاتٌ رُوِيَ عَنْہَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَا دَخَلَ عَلَيْہَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا صَلَّی رَكْعَتَيْنِ وَرُوِيَ عَنْہَا عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ نَہَی عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَالَّذِي اجْتَمَعَ عَلَيْہِ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی كَرَاہِيَةِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ إِلَّا مَا اسْتُثْنِيَ مِنْ ذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَاةِ بِمَكَّةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ بَعْدَ الطَّوَافِ فَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ رُخْصَةٌ فِي ذَلِكَ وَقَدْ قَالَ بِہِ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ الصَّلَاةَ بِمَكَّةَ أَيْضًا بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَبَعْضُ أَہْلِ الْكُوفَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عصر کے بعد دورکعتیں پڑھیں،اس لیے کہ آپ کے پاس کچھ مال آیاتھا،جس کی وجہ سے آپ کو ظہر کے بعد کی دونوں رکعتیں پڑھنے کاموقع نہیں مل سکاتھا تو آپ نے انہیں عصر کے بعد پڑھا پھرآپ نے انہیں دوبارہ نہیں پڑھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ام سلمہ،میمونہ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-دیگرکئی لوگوں نے بھی نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے عصر بعد دورکعتیں پڑھیں یہ اس چیزکے خلاف ہے جوآپ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے عصرکے بعدجب تک سورج ڈوب نہ جائے صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا ہے،۴-ابن عباس والی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے دوبارہ ایسا نہیں کیا،سب سے زیادہ صحیح ہے،۵-زید بن ثابت سے بھی ابن عباس ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے،۶-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی کئی حدیثیں مروی ہیں،نیزان سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ جب بھی ان کے یہاں عصرکے بعد آتے دورکعتیں پڑھتے،۷-نیز انہوں نے ام سلمہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اورفجرکے بعد جب تک نکل نہ آئے صلاۃ پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ ۸-اکثر اہل علم کا اتفاق بھی اسی پرہے کہ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اور فجر کے بعدجب تک نکل نہ آئے صلاۃ پڑھنا مکروہ ہے سوائے ان صلاتوں کے جو اس سے مستثنیٰ ہیں مثلاً مکہ میں عصرکے بعد طواف کی دونوں رکعتیں پڑھنا یہاں تک سورج ڈوب جائے اور فجرکے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے،اس سلسلے میں نبی اکرمﷺ سے رخصت مروی ہے،صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے یہی کہاہے۔اور یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں،صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم نے عصر اور فجرکے بعد مکہ میں بھی صلاۃ پڑھنے کو مکروہ جاناہے،سفیان ثوری،مالک بن انس اور بعض اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ وَيُتْبِعُ فَاہُ ہَا ہُنَا وَہَا ہُنَا وَإِصْبَعَاہُ فِي أُذُنَيْہِ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ فِي قُبَّةٍ لَہُ حَمْرَاءَ أُرَاہُ قَالَ مِنْ أَدَمٍ فَخَرَجَ بِلَالٌ بَيْنَ يَدَيْہِ بِالْعَنَزَةِ فَرَكَزَہَا بِالْبَطْحَاءِ فَصَلَّی إِلَيْہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْہِ الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَعَلَيْہِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی بَرِيقِ سَاقَيْہِ قَالَ سُفْيَانُ نُرَاہُ حِبَرَةً قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُدْخِلَ الْمُؤَذِّنُ إِصْبَعَيْہِ فِي أُذُنَيْہِ فِي الْأَذَانِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَفِي الْإِقَامَةِ أَيْضًا يُدْخِلُ إِصْبَعَيْہِ فِي أُذُنَيْہِ وَہُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ وَأَبُو جُحَيْفَةَ اسْمُہُ وَہْبُ بْنُ عَبْدِ اللہِ السُّوَائِيُّ

ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا،وہ گھوم رہے تھے ۱؎ اپناچہرہ ادھر اور ادھرپھیررہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں،رسول اللہﷺ اپنے سرخ خیمے میں تھے،وہ چمڑے کاتھا،بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔پھر رسول اللہﷺ نے اس کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھائی۔اس نیزے کے آگے سے ۲؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے،میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہاہوں۔سفیان کہتے ہیں: ہمارا خیال ہے وہ چادر یمنی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوجحیفہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ اس چیزکو مستحب سمجھتے ہیں کہ موذن اذان میں اپنی دو نوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کرے،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اقامت میں بھی اپنی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرے گا،یہی اوزاعی کا قول ہے ۳؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَی الصَّدَفِيِّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يُؤَذِّنُ إِلَّا مُتَوَضِّئٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اذان وہی دے جو باوضو ہو ۱؎۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ قَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ لَا يُنَادِي بِالصَّلَاةِ إِلَّا مُتَوَضِّئٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ لَمْ يَرْفَعْہُ ابْنُ وَہْبٍ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ وَالزُّہْرِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْأَذَانِ عَلَی غَيْرِ وُضُوءٍ فَكَرِہَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَإِسْحَقُ وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے کہا: صلاۃ کے لیے وہی اذان دے جو باوضو ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ابن وہب نے مرفوع روایت نہیں کیا،یہ ۱؎ ولید بن مسلم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۳-زہری نے ابوہریرہ سے نہیں سناہے،۴-بغیر وضو کے اذان دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض نے اسے مکروہ کہاہے اوریہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے،اور بعض اہل علم نے اس سلسلہ میں رخصت دی ہے،اوراسی کے قائل سفیان ثوری،ابن مبارک اور احمد ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَأُنَيْسَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَسَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْأَذَانِ بِاللَّيْلِ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ بِاللَّيْلِ أَجْزَأَہُ وَلَا يُعِيدُ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَذَّنَ بِلَيْلٍ أَعَادَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَرَوَی حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ بِلَالًا أَذَّنَ بِلَيْلٍ فَأَمَرَہُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُنَادِيَ إِنَّ الْعَبْدَ نَامَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُہُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَرَوَی عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُؤَذِّنًا لِعُمَرَ أَذَّنَ بِلَيْلٍ فَأَمَرَہُ عُمَرُ أَنْ يُعِيدَ الْأَذَانَ وَہَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا لِأَنَّہُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عُمَرَ مُنْقَطِعٌ وَلَعَلَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ أَرَادَ ہَذَا الْحَدِيثَ وَالصَّحِيحُ رِوَايَةُ عُبَيْدِ اللہِ وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَالزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَوْ كَانَ حَدِيثُ حَمَّادٍ صَحِيحًا لَمْ يَكُنْ لِہَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًی إِذْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَإِنَّمَا أَمَرَہُمْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُ و قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ وَلَوْ أَنَّہُ أَمَرَہُ بِإِعَادَةِ الْأَذَانِ حِينَ أَذَّنَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ لَمْ يَقُلْ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ حَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَأَخْطَأَ فِيہِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں،لہذا تم کھاتے پیتے رہو،جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابن مسعود،عائشہ،انیسہ،انس،ابوذر اور سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۳-رات ہی میں اذان کہہ دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر رات باقی ہوتبھی مؤذن اذان کہہ دے تو کافی ہے،اسے دہرانے کی ضرورت نہیں،مالک،ابن مبارک،شافعی،احمداور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ رات میں اذان دے دے تو اسے دہرائے ۱؎،یہی سفیان ثوری کہتے ہیں،۴-حماد بن سلمہ نے بطریق ایوب عن نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے رات ہی میں اذان دے دی،تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکارکرکہہ دیں کہ بندہ سوگیاتھا۔یہ حدیث غیرمحفوظ ہے،صحیح وہ روایت ہے جسے عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے بطریق نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: بلال رات ہی میں ا ذان د ے د یتے ہیں،لہذا تم کھاتے پیتے رہو،جب تک کہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں،اور عبدالعزیز بن ابی روّاد نے نافع سے روایت کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی توعمرنے اسے حکم دیا کہ وہ اذان دہرائے،یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ نافع اورعمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے،اور شاید حماد بن سلمہ،کی مرادیہی حدیث ۲؎ ہو،صحیح عبیداللہ بن عمردوسرے رواۃ کی روایت ہے جسے ان لوگوں نے نافع سے،اورنافع نے ابن عمر سے اور زہری نے سالم سے اورسالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بلا ل رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں،۵-ـ اگر حماد کی حدیث صحیح ہوتی تو اس حدیث کاکوئی معنی نہ ہوتا،جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں،آپ نے لوگوں کوآنے والے زمانے کے بارے میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں اور اگر آپ طلوع فجرسے پہلے اذان دے دینے پر انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں،علی بن مدینی کہتے ہیں: حماد بن سلمہ والی حدیث جسے انہوں نے ایوب سے،اورایوب نے نافع سے،اورنافع نے ابن عمر سے اور عمرنے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے غیر محفوظ ہے،حماد بن سلمہ سے اس میں چوک ہوئی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ قَدِمْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي فَقَالَ لَنَا إِذَا سَافَرْتُمَا فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا وَلْيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا الْأَذَانَ فِي السَّفَرِ و قَالَ بَعْضُہُمْ تُجْزِئُ الْإِقَامَةُ إِنَّمَا الْأَذَانُ عَلَی مَنْ يُرِيدُ أَنْ يَجْمَعَ النَّاسَ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور میرے چچا زاد بھائی دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے توآپ نے ہم سے فرمایا: جب تم دونوں سفر میں ہو تو اذان دو اور اقامت کہو۔اور امامت وہ کرے جوتم دونوں میں بڑا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثر اہل علم کاعمل اسی پر ہے،ان لوگوں نے سفر میں اذان کو پسندکیاہے،اوربعض کہتے ہیں: اقامت کافی ہے،اذان تو اس کے لیے ہے جس کا ارادہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ہو۔لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْإِمَامُ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ اللہُمَّ أَرْشِدْ الْأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی نَافِعُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ يَقُولُ حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَائِشَةَ أَصَحُّ وَذَكَرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ أَنَّہُ لَمْ يُثْبِتْ حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَلَا حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَائِشَةَ فِي ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: امام ضامن ہے ۱؎ اور مؤ ذن امین ۲؎ ہے،اے اللہ! توا ماموں کو راہ راست پر رکھ ۳؎ اور مؤ ذنوں کی مغفرت فرما ۴؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عائشہ،سہل بن سعد اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۲-مولف نے حدیث کے طرق اورپہلی سند کی متابعت ذکرکرنے اورابوصالح کی عائشہ سے روایت کے بعدفرمایا: میں نے ابوزرعہ کو کہتے سناکہ ابوصالح کی ابوہریرہ سے مروی حدیث ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔نیز میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے اوربخاری،علی بن مدینی کہتے ہیں کہ ابوصالح کی حدیث ابوہریرہ سے مروی حدیث ثابت نہیں ہے اورنہ ہی ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح قَالَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا سَمِعْتُمْ النِّدَاءَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِ اللہِ بْنِ رَبِيعَةَ وَعَائِشَةَ وَمُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ وَمُعَاوِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ مِثْلَ حَدِيثِ مَالِكٍ وَرَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّہْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرِوَايَةُ مَالِكٍ أَصَحُّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید رضی اللہ عنہ والی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابورافع،ا بوہریرہ،ام حبیبہ،عبداللہ بن عمرو،عبداللہ بن ربیعہ،عائشہ،معاذبن انس اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-معمر اور کئی رواۃ نے زہری سے مالک کی حدیث کے مثل روایت کی ہے،عبدالرحمٰن بن اسحاق نے اس حدیث کو بطریق: الزُّہْرِیِّ،عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ،عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ روایت کیا ہے،مالک والی روایت سب سے صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ الْحُكَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ وَأَنَا أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ رَضِيتُ بِاللہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا غُفِرَ لَہُ ذَنْبُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ حُكَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَيْسٍ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے مؤ ذن کی اذان سن کر کہاـ: وَأَنَا أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ رَضِیتُ بِاللہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً وَبِالإِسْلاَمِ دِینًا (اورمیں بھی گواہی دیتاہوں کہ کوئی معبودبرحق نہیں سوائے اللہ کے،وہ اکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں اورمحمدﷺ اس کے بندے اوراس کے رسول ہیں اورمیں اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اورمحمدﷺکے رسول ہونے پر راضی ہوں)توا س کے(صغیرہ) گناہ بخش دیے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اسے ہم صرف لیث بن سعد کی سند سے جانتے ہیں جسے وہ حکیم بن عبداللہ بن قیس سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَہْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ اللہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَہُ إِلَّا حَلَّتْ لَہُ الشَّفَاعَةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاہُ غَيْرَ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمُہُ دِينَارٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے اذان سن کر اللہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلاَۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیلَۃَ وَالْفَضِیلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِی وَعَدْتَہُ (اے اللہ! اس کامل دعوت ۱؎ اورقائم ہونے والی صلاۃ کے رب! (ہمارے نبی)محمد(ﷺ) کو وسیلہ ۲؎ اورفضیلت ۳؎ عطاکر،اور انہیں مقام محمود ۴؎ میں پہنچاجس کاتو نے وعدہ فرمایا ہے)کہا تواس کے لیے قیامت کے روز شفاعت حلال ہوجائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں: جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث محمد بن منکدر کے طریق سے حسن غریب ہے،ہم نہیں جانتے کہ شعیب بن ابی حمزہ کے علاوہ کسی اور نے بھی محمد بن منکدر سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ شَہِدَ الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ لَہُ قِيَامُ نِصْفِ لَيْلَةٍ وَمَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ لَہُ كَقِيَامِ لَيْلَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَعُمَارَةَ بْنِ رُوَيْبَةَ وَجُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِيِّ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي مُوسَی وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ عُثْمَانَ مَوْقُوفًا وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عُثْمَانَ مَرْفُوعًا

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو عشاء کی جماعت میں حاضررہے گا تو اسے آدھی رات کے قیام کا ثواب ملے گا اور جوعشاء اور فجردونوں صلاتیں جماعت سے اداکرے گا،اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عثمان کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابوہریرہ،انس،عمارہ بن رویبہ،جندب بن عبداللہ بن سفیان بجلی،ابی ابن کعب،ابوموسیٰ اور بریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کے طریق سے عثمان رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت کی گئی ہے،اور کئی دوسری سندوں سے بھی یہ عثمان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ،أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي ہِنْدٍ،عَنْ الْحَسَنِ،عَنْ جُنْدَبِ بْنِ سُفْيَانَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ،فَہُوَ فِي ذِمَّةِ اللہِ،فَلاَ تُخْفِرُوا اللہَ فِي ذِمَّتِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے فجر پڑھی وہ اللہ کی پناہ میں ہے تو تم اللہ کی پناہ ہاتھ سے جانے نہ دو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ،عَنْ إِسْمَاعِيلَ الْكَحَّالِ،عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ أَوْسٍ الْخُزَاعِيِّ،عَنْ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:بَشِّرْ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ.

بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور(بھرپوراجالے) کی بشارت دے دو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لِيَلِيَنِّي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّہَی ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ وَلَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ وَإِيَّاكُمْ وَہَيْشَاتِ الْأَسْوَاقِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَالْبَرَاءِ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يُعْجِبُہُ أَنْ يَلِيَہُ الْمُہَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ لِيَحْفَظُوا عَنْہُ قَالَ وَخَالِدٌ الْحَذَّاءُ ہُوَ خَالِدُ بْنُ مِہْرَانَ يُكْنَی أَبَا الْمُنَازِلِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ يُقَالُ إِنَّ خَالِدًا الْحَذَّاءَ مَا حَذَا نَعْلًا قَطُّ إِنَّمَا كَانَ يَجْلِسُ إِلَی حَذَّاءٍ فَنُسِبَ إِلَيْہِ قَالَ وَأَبُو مَعْشَرٍ اسْمُہُ زِيَادُ بْنُ كُلَيْبٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تم میں سے جوصاحب فہم وذکااور سمجھدار ہوں ان کو مجھ سے قریب رہنا چاہئے،پھر وہ جو(عقل ودانش میں)ان کے قریب ہوں،پھروہ جوان کے قریب ہوں،تم آگے پیچھے نہ ہونا کہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑجائے گی،اور اپنے آپ کوبازار کے شوروغوغاسے بچائے رکھنا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابی بن کعب،ابومسعود،ابوسعید،براء،اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ اس بات سے خوش ہوتے کہ مہاجرین اور انصار آپس میں قریب قریب رہیں تاکہ وہ آپ سے (سیکھے ہوئے مسائل) محفوظ رکھ سکیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ قَالَ أَخَذَ زِيَادُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ بِيَدِي وَنَحْنُ بِالرَّقَّةِ فَقَامَ بِي عَلَی شَيْخٍ يُقَالُ لَہُ وَابِصَةُ بْنُ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ فَقَالَ زِيَادٌ حَدَّثَنِي ہَذَا الشَّيْخُ أَنَّ رَجُلًا صَلَّی خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہُ وَالشَّيْخُ يَسْمَعُ فَأَمَرَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يُعِيدَ الصَّلَاةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ وَابِصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہُ وَقَالُوا يُعِيدُ إِذَا صَلَّی خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہُ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ يُجْزِئُہُ إِذَا صَلَّی خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ إِلَی حَدِيثِ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَيْضًا قَالُوا مَنْ صَلَّی خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہُ يُعِيدُ مِنْہُمْ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَابْنُ أَبِي لَيْلَی وَوَكِيعٌ وَرَوَی حَدِيثَ حُصَيْنٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ وَفِي حَدِيثِ حُصَيْنٍ مَا يَدُلُّ عَلَی أَنَّ ہِلَالًا قَدْ أَدْرَكَ وَابِصَةَ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْحَدِيثِ فِي ہَذَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ وَقَالَ بَعْضُہُمْ حَدِيثُ حُصَيْنٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ لِأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ

ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا،(ہم لوگ رقہ میں تھے) پھر انہوں نے مجھے لے جاکر بنی اسد کے وابصہ بن معبدنامی ایک شیخ کے پاس کھڑا کیا اور کہا: مجھ سے اس شیخ نے بیان کیا اورشیخ ان کی بات سن رہے تھے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھی تو رسول اللہﷺ نے اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں علی بن شیبان اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ آدمی صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے اور کہا ہے کہ اگر اس نے صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھی ہے تووہ صلاۃدہرائے،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں،۴-اہل علم میں سے بعض لوگوں نے کہاہے کہ اسے کافی ہوگا جب وہ صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے،سفیان ثوری،ابن مبارک اورشافعی کابھی یہی قول ہے،۵-اہل کوفہ میں سے کچھ لوگ وابصہ بن معبد کی حدیث کی طرف گئے ہیں،ان لوگوں کاکہناہے کہ جو صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے،وہ اسے دہرائے۔انہیں میں سے حماد بن ابی سلیمان،ابن ابی لیلی اوروکیع ہیں،۶-مولف نے اس حدیث کے طرق کے ذکرکے بعد فرمایا کہ عمرو بن مرّہ کی حدیث جسے انہوں نے بطریق ہلال بن یساف،عن عمرو بن راشد،عن وابصۃ روایت کی ہے،زیادہ صحیح ہے،اوربعض نے کہا ہے کہ حصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق ہلال بن یساف،عن زیاد بن أبی الجعد عن وابصۃ روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔اور میرے نزدیک یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،اس لیے کہ یہ ہلال بن یساف کے علاوہ طریق سے بھی زیادبن ابی الجعدکے واسطے سے وابصہ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَنَّ رَجُلًا صَلَّی خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہُ فَأَمَرَہُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُعِيدَ الصَّلَاةَ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہُ فَإِنَّہُ يُعِيدُ

اس سند سے بھی وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے اکیلے صلاۃ پڑھی تو نبی اکرمﷺ نے اُسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع کہتے ہیں کہ جب آدمی صف کے پیچھے اکیلے صلاۃ پڑھے تو وہ صلاۃ کو دہرائے(اس کی صلاۃنہیں ہوئی)۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنْ الْعَطَّارُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِہِ فَأَخَذَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِرَأْسِي مِنْ وَرَائِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ قَالُوا إِذَا كَانَ الرَّجُلُ مَعَ الْإِمَامِ يَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْإِمَامِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک رات میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی،میں جاکر آپ کے بائیں جانب کھڑاہوگیاتو رسول اللہﷺ نے پیچھے سے میرا سر پکڑ ا اور مجھے اپنے دائیں طرف کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ا نس رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث آئی ہے،۳-صحابہ کرام اوران کے بعد والے اہل علم کااسی پر عمل ہے کہ جب ایک آدمی امام کے ساتھ ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ قَالَ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كُنَّا ثَلَاثَةً أَنْ يَتَقَدَّمَنَا أَحَدُنَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً قَامَ رَجُلَانِ خَلْفَ الْإِمَامِ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ صَلَّی بِعَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ فَأَقَامَ أَحَدَہُمَا عَنْ يَمِينِہِ وَالْآخَرَ عَنْ يَسَارِہِ وَرَوَاہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہم تین ہوں تو ہم میں سے ایک آگے بڑھ جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،جابر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ جب تین آدمی ہوں تو دوآدمی امام کے پیچھے کھڑے ہوں،ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ اور اسود کو صلاۃ پڑھائی توان دونوں میں سے ایک کواپنے دائیں طرف اور دوسرے کو بائین طرف کھڑا کیا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا،۴-بعض لوگوں نے اسماعیل بن مسلم مکی پران کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ طَرِيفٍ السَّعْدِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّہُورُ وَتَحْرِيمُہَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُہَا التَّسْلِيمُ وَلَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِالْحَمْدُ وَسُورَةٍ فِي فَرِيضَةٍ أَوْ غَيْرِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ قَالَ وَحَدِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي ہَذَا أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَأَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ وَقَدْ كَتَبْنَاہُ فِي أَوَّلِ كِتَابِ الْوُضُوءِ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ إِنَّ تَحْرِيمَ الصَّلَاةِ التَّكْبِيرُ وَلَا يَكُونُ الرَّجُلُ دَاخِلًا فِي الصَّلَاةِ إِلَّا بِالتَّكْبِيرِ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ مُسْتَمْلِيَ وَكِيعٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَہْدِيٍّ يَقُولُ لَوْ افْتَتَحَ الرَّجُلُ الصَّلَاةَ بِسَبْعِينَ اسْمًا مِنْ أَسْمَاءِ اللہِ وَلَمْ يُكَبِّرْ لَمْ يُجْزِہِ وَإِنْ أَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ أَمَرْتُہُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ يَرْجِعَ إِلَی مَكَانِہِ فَيُسَلِّمَ إِنَّمَا الْأَمْرُ عَلَی وَجْہِہِ قَالَ وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُہُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صلاۃ کی کنجی وضو(طہارت) ہے،اس کی تحریم تکبیر ہے اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے،اور اس آدمی کی صلاۃہی نہیں جو الحمد للہ (سورہ فاتحہ) اوراس کے ساتھ کوئی اورسورۃ نہ پڑھے خواہ فرض صلاۃ ہویا کوئی اورصلاۃ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں علی اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔۳-علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور ابوسعید خدری کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،ہم اسے کتاب الوضوکے شروع میں ذکرکر چکے ہیں(حدیث نمبر: ۳)،۴-صحابہ کرام اوران کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے،یہی سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ صلاۃ کی تحریم تکبیر ہے،آدمی صلاۃ میں تکبیر کے(یعنی اللہ اکبر کہے) بغیر داخل نہیں ہوسکتا،۵-عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: اگر آدمی اللہ کے ناموں میں سے ستر نام لے کر صلاۃ شروع کرے اور اللہ اکبر نہ کہے تو بھی یہ اسے کافی نہ ہوگا۔اور اگر سلام پھیرنے سے پہلے اسے حدث لاحق ہوجائے تو میں اسے حکم دیتاہوں کہ وضو کرے پھر اپنی (صلاۃ کی) جگہ آکر بیٹھے اور سلام پھیرے،اورحکم (رسول) اپنے حال (ظاہر)پر(باقی) رہے گا ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ بِاللَّيْلِ كَبَّرَ ثُمَّ يَقُولُ سُبْحَانَكَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَی جَدُّكَ وَلَا إِلَہَ غَيْرُكَ ثُمَّ يَقُولُ اللہُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ثُمَّ يَقُولُ أَعُوذُ بِاللہِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ أَشْہَرُ حَدِيثٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَقَدْ أَخَذَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَأَمَّا أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ فَقَالُوا بِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَقُولُ سُبْحَانَكَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَی جَدُّكَ وَلَا إِلَہَ غَيْرُكَ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ وَقَدْ تُكُلِّمَ فِي إِسْنَادِ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ كَانَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ يَتَكَلَّمُ فِي عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ و قَالَ أَحْمَدُ لَا يَصِحُّ ہَذَا الْحَدِيثُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رات کو جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے،پھر سُبْحَانَکَ اللّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاَ إِلہَ غَیْرُکَ (اے اللہ! پاک ہے توہرعیب اورہرنقص سے،سب تعریفیں تیرے لیے ہیں،با برکت ہے تیرانام اوربلندہے تیری شان،اور تیرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں) پڑھتے پھر اللہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا (اللہ بہت بڑاہے) کہتے پھر أَعُوذُ بِاللہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ہَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ (میں اللہ سمیع وعلیم کی شیطان مردود سے،پناہ چاہتا ہوں،اس کے وسوسوں سے،اس کے کبرونخوت سے اور اس کے اشعاراورجادوسے)کہتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں علی،عائشہ،عبداللہ بن مسعود،جابر،جبیر بن مطعم اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-اس باب میں ابوسعید کی حدیث سب سے زیادہ مشہور ہے،۳-اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کو اختیارکیاہے،رہے اکثر اہل علم تو ان لوگوں نے وہی کہاہے جونبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ آپ سُبْحَانَکَ اللّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاَ إِلہَ غَیْرُکَ کہتے تھے ۲؎ اوراسی طرح عمر بن خطاب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔۴-ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند میں کلام کیا گیا ہے۔یحیی بن سعید راوی حدیث علی بن علی رفاعی کے بارے میں کلام کرتے تھے۔اوراحمد کہتے تھے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ وَيَحْيَی بْنُ مُوسَی قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ أَبِي الرِّجَالِ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ قَالَ سُبْحَانَكَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَی جَدُّكَ وَلَا إِلَہَ غَيْرُكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَحَارِثَةُ قَدْ تُكُلِّمَ فِيہِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَأَبُو الرِّجَالِ اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَدِينِيُّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃ شروع کرتے تو سُبْحَانَکَ اللّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاَ إِلَہَ غَیْرُکَ کہتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-حارثہ کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاگیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي إِسْمَعِيلُ بْنُ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي خَالِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَفْتَتِحُ صَلَاتَہُ بْ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاكَ وَقَدْ قَالَ بِہَذَا عِدَّةٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو ہُرَيْرَةَ وَابْنُ عُمَرَ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ الزُّبَيْرِ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ رَأَوْا الْجَہْرَ بْ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ حَمَّادٍ ہُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَأَبُو خَالِدٍ يُقَالُ ہُوَ أَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ وَاسْمُہُ ہُرْمُزُ وَہُوَ كُوفِيٌّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ اپنی صلاۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس کی سند قوی نہیں ہے،۲-صحابہ کرام میں سے جن میں ابوہریرہ،ابن عمر،ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں اوران کے بعدتابعین میں سے کئی اہل علمبسم اللہ الرحمن الرحیمزورسے کہنے کے قائل ہیں،اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ كَانُوا يَسْتَفْتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الْقِرَاءَةَ بِالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ مَعْنَاہُ أَنَّہُمْ كَانُوا يَبْدَءُونَ بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابَ قَبْلَ السُّورَةِ وَلَيْسَ مَعْنَاہُ أَنَّہُمْ كَانُوا لَا يَقْرَءُونَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَكَانَ الشَّافِعِيُّ يَرَی أَنْ يُبْدَأَ بْ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَأَنْ يُجْہَرَ بِہَا إِذَا جُہِرَ بِالْقِرَاءَةِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ،ابوبکر،عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم الحمد للہ رب العالمین سے قرأت شروع کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام،تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔یہ لوگ الحمد للہ رب العالمینسے قرأت شروع کرتے تھے۔ شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ،ابوبکر،عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم الحمد للہ رب العالمین سے قرأت شروع کرتے تھے کامطلب یہ ہے کہ یہ لوگ سورت سے پہلے سورہ فاتحہ پڑھتے تھے،اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے،شافعی کی رائے ہے کہ قرأت بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کی جائے اوراسے بلندآوازسے پڑھاجائے جب قرأت جہرسے کی جائے ۱؎۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ،عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ،عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ،قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْہِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ فَقَالَ: آمِينَ،وَمَدَّ بِہَا صَوْتَہُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَبِہِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ،وَالتَّابِعِينَ،وَمَنْ بَعْدَہُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ صَوْتَہُ بِالتَّأْمِينِ،وَلاَ يُخْفِيہَا. وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ،وَأَحْمَدُ،وَإِسْحَاقُ. وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ،عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ،عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ،عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْہِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ فَقَالَ:آمِينَ،وَخَفَضَ بِہَا صَوْتَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ سُفْيَانَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ فِي ہَذَا،وَأَخْطَأَ شُعْبَةُ فِي مَوَاضِعَ مِنْ ہَذَا الْحَدِيثِ. فَقَالَ: عَنْ حُجْرٍ أَبِي الْعَنْبَسِ،وَإِنَّمَا ہُوَ حُجْرُ بْنُ عَنْبَسٍ،وَيُكْنَی أَبَا السَّكَنِ،وَزَادَ فِيہِ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ،وَلَيْسَ فِيہِ: عَنْ عَلْقَمَةَ،وَإِنَّمَا ہُوَ: عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ،وَقَالَ: وَخَفَضَ بِہَا صَوْتَہُ،وَإِنَّمَا ہُوَ وَمَدَّ بِہَا صَوْتَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: حَدِيثُ سُفْيَانَ فِي ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ،قَالَ: وَرَوَی الْعَلاَءُ بْنُ صَالِحٍ الأَسَدِيُّ،عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ نَحْوَ رِوَايَةِ سُفْيَانَ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھ کر،آمین کہتے سنا،اوراس کے ساتھ آپ نے اپنی آواز کھینچی۔(یعنی بلندکی) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں علی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ آدمی آمین کہنے میں اپنی آواز بلند کرے اسے پست نہ رکھے۔شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ ٭(شاذ) ۴-شعبہ نے یہ حدیث بطریق سلمۃ بن کہیل،عن حُجر أبی العنبس،عن علقمۃ بن وائل،عن أبیہ وائل روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھا توآپ نے آمین کہی اوراپنی آواز پست کی،۵-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔شعبہ نے اس حدیث میں کئی مقامات پر غلطیاں کی ہیں ۱؎ انہوں نے حجر ابی عنبس کہاہے،جب کہ وہ حجر بن عنبس ہیں اور ان کی کنیت ابوالسکن ہے اور اس میں انہوں نے عن علقمۃ بن وائل کاواسطہ بڑھادیاہے جب کہ اس میں علقمہ کاواسطہ نہیں ہے،حجر بن عنبس براہ راست حجرسے روایت کررہے ہیں،اور وخفض بہا صوتہ (آواز پست کی) کہاہے،جب کہ یہ ومدّ بہا صوتہ (اپنی آواز کھینچی) ہے،۶-میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔اور علاء بن صالح اسدی نے بھی سلمہ بن کہیل سے سفیان ہی کی حدیث کی طرح روایت کی ہے ۲؎۔

قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ نُمَيْرٍ،حَدَّثَنَا الْعَلاَءُ بْنُ صَالِحٍ الأَسَدِيُّ،عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ،عَنْ حُجْرِ بْنِ عَنْبَسٍ،عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ سُفْيَانَ،عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ.

اس سندسے بھی وائل حجر رضی اللہ عنہ سے سفیان کی (پچھلی) روایت جیسی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنَا الزُّہْرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُہُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم لوگ بھی آمین کہو۔اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ وَقِيَامٍ وَقُعُودٍ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ وَأَبِي مُوسَی وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَغَيْرُہُمْ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَعَلَيْہِ عَامَّةُ الْفُقَہَاءِ وَالْعُلَمَاءِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہرجھکنے،اٹھنے،کھڑے ہونے اوربیٹھنے کے وقت اللہ اکبر کہتے ۱؎ اور ابوبکرا ورعمر رضی اللہ عنہما بھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،انس،ابن عمر،ابومالک اشعری،ابوموسیٰ،عمران بن حصین،وائل بن حجر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام کا جن میں ابوبکر،عمر،عثمان علی رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں اور ان کے بعدکے تابعین کاعمل اسی پر ہے اور اسی پر اکثر فقہا ء وعلماء کا عمل بھی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَصَلَّی فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْہِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَبِہِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہﷺ کی طرح صلاۃ نہ پڑھاؤں؟ توانہوں نے صلاۃ پڑھائی اورصرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،۳-صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ حَدَّثَنِي عَمِّي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنْ الرُّكُوعِ قَالَ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَہُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ قَالَ يَقُولُ ہَذَا فِي الْمَكْتُوبَةِ وَالتَّطَوُّعِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْكُوفَةِ يَقُولُ ہَذَا فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ وَلَا يَقُولُہَا فِي صَلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا يُقَالُ الْمَاجِشُونِيُّ لِأَنَّہُ مِنْ وَلَدِ الْمَاجِشُونِ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رکوع سے سراٹھاتے تو سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ،مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ،وَمِلْئَ مَا بَیْنَہُمَا،وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ (اللہ نے اس شخص کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی،اے ہمارے رب! تعریف تیرے ہی لیے ہے آسمان بھر،زمین بھر،زمین وآسمان کی تمام چیزوں بھر،اور اس کے بعد ہراس چیزبھرجوتوچاہے)کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابن عباس،ابن ابی اوفیٰ،ابوحجیفہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں کہ فرض ہویا نفل دونوں میں یہ کلمات کہے گا ۱؎ اوربعض اہل کوفہ کہتے ہیں: یہ صرف نفل صلاۃ میں کہے گا۔فرض صلاۃ میں اسے نہیں کہے گا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَسَنٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَبْرُكُ فِي صَلَاتِہِ بَرْكَ الْجَمَلِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزِّنَادِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ سَعِيدٍٍ الْمَقْبُرِيُّ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی یہ قصد کرتا ہے کہ وہ اپنی صلاۃ میں اونٹ کے بیٹھنے کی طرح بیٹھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث غریب ہے ہم اسے ابوالزناد کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-یہ حدیث عبداللہ بن سعید مقبری سے بھی روایت کی گئی ہے،انہوں نے اپنے والد سے اوران کے والدنے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔عبداللہ بن سعید مقبری کو یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ قُلْتُ لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَيْنَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَضَعُ وَجْہَہُ إِذَا سَجَدَ فَقَالَ بَيْنَ كَفَّيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَأَبِي حُمَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ تَكُونَ يَدَاہُ قَرِيبًا مِنْ أُذُنَيْہِ

ابواسحاق سبیعی سے روایت ہے کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نبی اکرمﷺجب سجدہ کرتے تو اپنا چہرہ کہاں رکھتے تھے؟تو انہوں نے کہا: اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-براء رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں وائل بن حجر اور ابوحمید رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوراسی کوبعض اہل علم نے اختیار کیاہے کہ اس کے دونوں ہاتھ اس کے دونوں کانوں کے قریب ہوں ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ ابْنِ الْہَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَہُ سَبْعَةُ آرَابٍ وَجْہُہُ وَكَفَّاہُ وَرُكْبَتَاہُ وَقَدْمَاہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْعَبَّاسِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول ا للہ ﷺ کو فرماتے سنا: جب بندہ سجدہ کرتاہے تواس کے ساتھ سات جوڑ بھی سجدہ کرتے ہیں: اس کا چہرہ ۱؎ اس کی دونوں ہتھیلیاں،اس کے دونوں گھٹنے اور اس کے دونوں قدم۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،ابوہریرہ،جابر اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کااسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُمِرَ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَسْجُدَ عَلَی سَبْعَةِ أَعْظُمٍ وَلَا يَكُفَّ شَعْرَہُ وَلَا ثِيَابَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ سات اعضاء پر سجدہ کریں اوراپنے بال اورکپڑے نہ سمیٹیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ،أَخْبَرَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ،حَدَّثَنَا وُہَيْبٌ،عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَجْلاَنَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ،عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ بِوَضْعِ الْيَدَيْنِ وَنَصْبِ الْقَدَمَيْنِ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دونوں ہاتھوں کو (زمین پر)رکھنے اور دونوں پاؤں کوکھڑے رکھنے کا حکم دیاہے۔

قَالَ عَبْدُاللہِ،وَقَالَ: مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ،حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ بِوَضْعِ الْيَدَيْنِ،فَذَكَرَ نَحْوَہُ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِيہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَرَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ بِوَضْعِ الْيَدَيْنِ وَنَصْبِ الْقَدَمَيْنِ: مُرْسَلٌ. وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وُہَيْبٍ. وَہُوَ الَّذِي أَجْمَعَ عَلَيْہِ أَہْلُ الْعِلْمِ وَاخْتَارُوہُ

عامر بن سعد سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دونوں ہاتھوں کو (زمین پر) رکھنے کا حکم دیاہے،آگے راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکرکی،البتہ انہوں نے اس میں عن أبیہ کاذکرنہیں کیا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عامر بن سعد سے مرسلاً روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دونوں ہاتھوں (زمین پر) رکھنے اور دونوں قدموں کو کھڑے رکھنے کا حکم دیاہے ۲؎،۲-یہ مرسل روایت وہیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۳؎،اور اسی پر اہل علم کا اجماع ہے،اور لوگوں نے اسی کو اختیارکیاہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی الْمَرْوَزِيُّ،أَخْبَرَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ،أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ،عَنْ الْحَكَمِ،عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی،عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِذَا رَكَعَ،وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنْ الرُّكُوعِ،وَإِذَا سَجَدَ،وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنْ السُّجُودِ قَرِيبًا مِنْ السَّوَاءِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ جب رکوع کرتے،جب رکوع سے سراٹھاتے،جب سجدہ کرتے اور جب سجدہ سے سراٹھاتے تو آپ کی صلاۃ تقریباً برابربرابرہوتی تھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ الْحَكَمِ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

اس سند سے بھی حکم سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-براء رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوراسی پر اہل علم کا عمل ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا عَلِيُّ أُحِبُّ لَكَ مَا أُحِبُّ لِنَفْسِي وَأَكْرَہُ لَكَ مَا أَكْرَہُ لِنَفْسِي لَا تُقْعِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ وَقَدْ ضَعَّفَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْحَارِثَ الْأَعْوَرَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَكْرَہُونَ الْإِقْعَاءَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے علی! میں تمہارے لیے وہی چیزپسندکرتا ہوں جو اپنے لیے کرتاہوں،اوروہی چیز ناپسندکرتاہوں جو اپنے لیے ناپسندکرتاہوں۔تم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء ۱؎ نہ کرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ہم اسے علی کی حدیث سے صرف ابواسحاق سبیعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں،انہوں نے حارث سے اور حارث نے علی سے روایت کی ہے،۲-بعض اہل علم نے حارث الاعور کو ضعیف قراردیاہے ۲؎،۳-اس باب میں عائشہ،انس اور ابوہریرہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اکثر اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ وہ اقعاء کو مکروہ قراردیتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّہُ سَمِعَ طَاوُسًا يَقُولُ قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْإِقْعَاءِ عَلَی الْقَدَمَيْنِ قَالَ ہِيَ السُّنَّةُ فَقُلْنَا إِنَّا لَنَرَاہُ جَفَاءً بِالرَّجُلِ قَالَ بَلْ ہِيَ سُنَّةُ نَبِيِّكُمْ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ لَا يَرَوْنَ بِالْإِقْعَاءِ بَأْسًا وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ مَكَّةَ مِنْ أَہْلِ الْفِقْہِ وَالْعِلْمِ قَالَ وَأَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ يَكْرَہُونَ الْإِقْعَاءَ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

طاؤس کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دونوں قدموں پر اقعاء کرنے کے سلسلے میں پوچھا،تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے،تو ہم نے کہاکہ ہم تو اسے آدمی کاپھوہڑپن سمجھتے ہیں،انہوں نے کہا:نہیں یہ پھوہڑپن نہیں ہے بلکہ یہ تمہارے نبی اکرمﷺ کی سنت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام میں بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،وہ اقعاء میں کوئی حرج نہیں جانتے،مکہ کے بعض اہل علم کایہی قول ہے،لیکن اکثر اہل علم دونوں سجدوں کے درمیان اقعاء کو ناپسند کرتے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ حُجْرٍ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ قُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَی صَلَاةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَلَمَّا جَلَسَ يَعْنِي لِلتَّشَہُّدِ افْتَرَشَ رِجْلَہُ الْيُسْرَی وَوَضَعَ يَدَہُ الْيُسْرَی يَعْنِي عَلَی فَخِذِہِ الْيُسْرَی وَنَصَبَ رِجْلَہُ الْيُمْنَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَابْنِ الْمُبَارَكِ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیںـ: میں مدینے آیا تومیں نے (اپنے جی میں)کہاکہ میں رسول اللہﷺ کی صلاۃ ضرور دیکھوں گا۔(چنانچہ میں نے دیکھا) جب آپﷺ تشہد کے لیے بیٹھے توآپ نے اپنا بایاں پیر بچھایا اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھااور اپنا دایاں پیر کھڑا رکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،اوریہی سفیان ثوری،اہل کوفہ اور ابن مبارک کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَہْلٍ السَّاعِدِيُّ قَالَ اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ وَأَبُو أُسَيْدٍ وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَذَكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ جَلَسَ يَعْنِي لِلتَّشَہُّدِ فَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْيُسْرَی وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْيُمْنَی عَلَی قِبْلَتِہِ وَوَضَعَ كَفَّہُ الْيُمْنَی عَلَی رُكْبَتِہِ الْيُمْنَی وَكَفَّہُ الْيُسْرَی عَلَی رُكْبَتِہِ الْيُسْرَی وَأَشَارَ بِأُصْبُعِہِ يَعْنِي السَّبَّابَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبِہِ يَقُولُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا يَقْعُدُ فِي التَّشَہُّدِ الْآخِرِ عَلَی وَرِكِہِ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ أَبِي حُمَيْدٍ قَالُوا يَقْعُدُ فِي التَّشَہُّدِ الْأَوَّلِ عَلَی رِجْلِہِ الْيُسْرَی وَيَنْصِبُ الْيُمْنَی

عباس بن سہل ساعدی کہتے ہیں کہ ابوحمید،ابواسید،سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے،تو ان لوگوں نے رسول اللہﷺ کی صلاۃ کاذکر کیا۔اس پر ابوحمیدکہنے لگے کہ میں رسول اللہﷺ کی صلاۃ کو تم میں سب سے زیادہ جانتاہوں،رسول اللہﷺتشہدکے لیے بیٹھتے تو آپ اپنا بایاں پیربچھاتے ۱؎ اوراپنے دائیں پیرکی انگلیوں کے سروں کوقبلہ کی طرف متوجہ کرتے،اور اپنی داہنی ہتھیلی داہنے گھٹنے پراور بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر رکھتے،اور اپنی انگلی (انگشت شہادت) سے اشارہ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہی بعض اہل علم کہتے ہیں اوریہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ اخیر تشہد میں اپنے سرین پر بیٹھے،ان لوگوں نے ابوحمید کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔ان کا کہناہے کہ پہلے تشہد میں بائیں پیر پر بیٹھے اور دایاں پیر کھڑا رکھے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ أَبُو حَفْصٍ التِّنِّيسِيُّ عَنْ زُہَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً تِلْقَاءَ وَجْہِہِ يَمِيلُ إِلَی الشِّقِّ الْأَيْمَنِ شَيْئًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ زُہَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَہْلُ الشَّأْمِ يَرْوُونَ عَنْہُ مَنَاكِيرَ وَرِوَايَةُ أَہْلِ الْعِرَاقِ عَنْہُ أَشْبَہُ وَأَصَحُّ قَالَ مُحَمَّدٌ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ كَأَنَّ زُہَيْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الَّذِي كَانَ وَقَعَ عِنْدَہُمْ لَيْسَ ہُوَ ہَذَا الَّذِي يُرْوَی عَنْہُ بِالْعِرَاقِ كَأَنَّہُ رَجُلٌ آخَرُ قَلَبُوا اسْمَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ قَالَ بِہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي التَّسْلِيمِ فِي الصَّلَاةِ وَأَصَحُّ الرِّوَايَاتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ تَسْلِيمَتَانِ وَعَلَيْہِ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ وَرَأَی قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً فِي الْمَكْتُوبَةِ قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنْ شَاءَ سَلَّمَ تَسْلِيمَةً وَاحِدَةً وَإِنْ شَاءَ سَلَّمَ تَسْلِيمَتَيْنِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ صلاۃ میں اپنے چہرے کے سامنے داہنی طرف تھوڑاسا مائل ہوکرایک سلام پھیرتے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،۲-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: زہیر بن محمد سے اہل شام منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔البتہ ان سے مروی اہل عراق کی روایتیں زیادہ قرین صواب اورزیادہ صحیح ہیں،۳-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کاکہناہے کہ شاید زہیر بن محمد جو اہل شام کے یہاں گئے تھے،وہ نہیں جن سے عراق میں روایت کی جاتی ہے،کوئی دوسرے آدمی ہیں جن کانام ان لوگوں نے بدل دیا ہے،۴-اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۵-صلاۃ میں سلام پھیرنے کے سلسلے میں بعض اہل علم نے یہی کہاہے،لیکن نبی اکرمﷺ سے مروی سب سے صحیح روایت دوسلاموں والی ہے ۱؎،صحابہ کرام،تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں۔البتہ صحابہ کرام اوران کے علاوہ میں سے کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ فرض صلاۃ میں صرف ایک سلام ہے،شافعی کہتے ہیں: چاہے تو صرف ایک سلام پھیر ے اور چاہے تو دوسلام پھیرے۔

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ بِالشَّمْسِ وَضُحَاہَا وَنَحْوِہَا مِنْ السُّوَرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَرَأَ فِي الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَرُوِيَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّہُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْعِشَاءِ بِسُوَرٍ مِنْ أَوْسَاطِ الْمُفَصَّلِ نَحْوِ سُورَةِ الْمُنَافِقِينَ وَأَشْبَاہِہَا وَرُوِيَ عَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ أَنَّہُمْ قَرَءُوا بِأَكْثَرَ مِنْ ہَذَا وَأَقَلَّ فَكَأَنَّ الْأَمْرَ عِنْدَہُمْ وَاسِعٌ فِي ہَذَا وَأَحْسَنُ شَيْءٍ فِي ذَلِكَ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَرَأَ بِالشَّمْسِ وَضُحَاہَا وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عشاء میں والشَّمْسِ وَضُحَاہَا اور اس جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں براء بن عازب اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔۳-نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے عشاء میں سورہوَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ پڑھی۔۴-عثمان بن عفان سے مروی ہے کہ وہ عشاء میں وساط مفصل کی سورتیں جیسے سورہ ٔ منافقون اور اس جیسی دوسری سورتیں پڑھاکرتے تھے،۵-صحابہ کرام اور تابعین سے یہ بھی مروی ہے کہ ان لوگوں نے اس سے زیادہ اور اس سے کم بھی پڑھی ہے۔گویا ان کے نزدیک معاملے میں وسعت ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے بہتر چیز جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے وہ یہ کہ آپ نےسورہ والشمس وضحاھا اور سورہ والتین والزیتون پڑھی۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ فِي الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عشاء میں سورۂوَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ لَيْثٍ،عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ الْحَسَنِ،عَنْ أُمِّہِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ،عَنْ جَدَّتِہَا فَاطِمَةَ الْكُبْرَی قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ صَلَّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ،وَقَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي،وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ،وَإِذَا خَرَجَ صَلَّی عَلَی مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ،وَقَالَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ.

فاطمہ بنت حسین اپنی دادی فاطمہ کبریٰ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو محمد(ﷺ) پردرود وسلام بھیجتے اور یہ دعاپڑھتے: رَبِّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ (اے میرے رب! میرے گناہ بخش دے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے) اور جب نکلتے تو محمد(ﷺ)پر صلاۃ (درود) وسلام بھیجتے اوریہ کہتے:رَبِّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ (اے میرے رب! میرے گناہ بخش دے اور اپنے فضل کے دروازے میرے لیے کھول دے)

و قَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ،فَلَقِيتُ عَبْدَاللہِ بْنَ الْحَسَنِ بِمَكَّةَ،فَسَأَلْتُہُ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِي بِہِ قَالَ: كَانَ إِذَا دَخَلَ قَالَ: رَبِّ افْتَحْ لِي بَابَ رَحْمَتِكَ،وَإِذَا خَرَجَ قَالَ: رَبِّ افْتَحْ لِي بَابَ فَضْلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ،وَأَبِي أُسَيْدٍ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ فَاطِمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ،وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ. وَفَاطِمَةُ بِنْتُ الْحُسَيْنِ لَمْ تُدْرِكْ فَاطِمَةَ الْكُبْرَی،إِنَّمَا عَاشَتْ فَاطِمَةُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ أَشْہُرًا

اسماعیل بن ابراہیم بن راہویہ کا بیان ہے کہ میں عبداللہ بن حسن سے مکہ میں ملا تومیں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسے بیان کیا اور کہا کہ جب آپﷺ داخل ہوتے تو یہ کہتےرَبِّ افْتَحْ لِی بَابَ رَحْمَتِکَ (اے میرے رب! اپنی رحمت کے دروازہ میرے لیے کھول دے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث(شواہدکی بناپر) حسن ہے،ورنہ اس کی سند متصل نہیں ہے،۲-فاطمہ بنت حسین نے فاطمہ کبریٰ کو نہیں پایاہے،وہ تو نبی اکرمﷺ کے بعد چند ماہ ہی تک زندہ رہیں،۳-اس باب میں ابوحمید،ابو اسید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَأَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْمَرْوَزِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْأَرْضُ كُلُّہَا مَسْجِدٌ إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحُذَيْفَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَأَبِي ذَرٍّ قَالُوا إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُورًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ قَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ رِوَايَتَيْنِ مِنْہُمْ مَنْ ذَكَرَہُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَمِنْہُمْ مَنْ لَمْ يَذْكُرْہُ وَہَذَا حَدِيثٌ فِيہِ اضْطِرَابٌ رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ قَالَ وَكَانَ عَامَّةُ رِوَايَتِہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَكَأَنَّ رِوَايَةَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَثْبَتُ وَأَصَحُّ مُرْسَلًا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:سوائے قبرستان اورحمام (غسل خانہ) کے ساری زمین مسجد ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں علی عبداللہ بن عمرو،ابوہریرہ،جابر،ابن عباس،حذیفہ،انس،ابوامامہ اور ابوذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،ان لوگوں نے کہا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے پوری زمین میرے لیے سجدہ گاہ اورطہارت وپاکیزہ گی کاذریعہ بنائی گئی ہے،۲-ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث عبدالعزیز بن محمد سے دوطریق سے مروی ہے،بعض لوگوں نے ابو سعیدکے واسطے کا ذکر کیا ہے اور بعض نے نہیں کیا ہے،اس حدیث میں اضطراب ہے،سفیان ثوری نے بطریق: عَمْرِو بْنِ یَحْیَی،عَنْ أَبِیہِ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ مرسلاً روایت کی ہے۔اورحماد بن سلمہ نے یہ حدیث بطریق: عَمْرِو بْنِ یَحْیَی،عَنْ أَبِیہِ،عَنْ أَبِی سَعِیدٍ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ مرفوعاً روایت کی ہے۔اورمحمد بن اسحاق نے بھی یہ حدیث بطریق:عَمْرِو بْنِ یَحْیَی،عَنْ أَبِیہِ اوران کا کہناہے کہ یحیی کی اکثراحادیث آئی نبی اکرمﷺ سے ابوسعید ہی کے واسطہ سے مروی ہیں،لیکن اس میں انہوں نے ابوسعید کے واسطے کا ذکرنہیں کیاہے،گویا ثوری کی روایت عَمْرِو بْنِ یَحْیَی،عَنْ أَبِیہِ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ زیادہ ثابت اورزیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ مَنْ بَنَی لِلَّہِ مَسْجِدًا بَنَی اللہُ لَہُ مِثْلَہُ فِي الْجَنَّةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأَبِي ذَرٍّ وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَحْمُودُ بْنُ لَبِيدٍ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ ﷺ وَمَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ قَدْ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ وَہُمَا غُلَامَانِ صَغِيرَانِ مَدَنِيَّانِ

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے سنا: جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی،تواللہ اس کے لیے اسی جیساگھربنائے گا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکر،عمر،علی،عبداللہ بن عمرو،انس،ابن عباس،عائشہ،ام حبیبہ،ابوذر،عمروبن عبسہ،واثلہ بن اسقع،ابوہریرہ اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ بَنَی لِلَّہِ مَسْجِدًا صَغِيرًا كَانَ أَوْ كَبِيرًا بَنَی اللہُ لَہُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَی قَيْسٍ عَنْ زِيَادٍ النُّمَيْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِہَذَا

انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے لیے کوئی مسجد بنائی،چھوٹی ہویا بڑی،اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَّا نَنَامُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ وَنَحْنُ شَبَابٌ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي النَّوْمِ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا يَتَّخِذُہُ مَبِيتًا وَلَا مَقِيلًا وَقَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ ذَہَبُوا إِلَی قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانے میں مسجد میں سوتے تھے اور ہم نوجوان تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم میں کی ایک جماعت نے مسجد میں سونے کی اجازت دی ہے،ابن عباس کہتے ہیں: کوئی اسے سونے اور قیلولے کی جگہ نہ بنائے ۱؎ اور بعض اہل علم ابن عباس کے قول کی طرف گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ نَہَی عَنْ تَنَاشُدِ الْأَشْعَارِ فِي الْمَسْجِدِ وَعَنْ الْبَيْعِ وَالِاشْتِرَاءِ فِيہِ وَأَنْ يَتَحَلَّقَ النَّاسُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ہُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ رَأَيْتُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَذَكَرَ غَيْرَہُمَا يَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَقَدْ سَمِعَ شُعَيْبُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی وَمَنْ تَكَلَّمَ فِي حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ إِنَّمَا ضَعَّفَہُ لِأَنَّہُ يُحَدِّثُ عَنْ صَحِيفَةِ جَدِّہِ كَأَنَّہُمْ رَأَوْا أَنَّہُ لَمْ يَسْمَعْ ہَذِہِ الْأَحَادِيثَ مِنْ جَدِّہِ قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ أَنَّہُ قَالَ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عِنْدَنَا وَاہٍ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ الْبَيْعَ وَالشِّرَاءَ فِي الْمَسْجِدِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ رُخْصَةٌ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ فِي الْمَسْجِدِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ رُخْصَةٌ فِي إِنْشَادِ الشِّعْرِ فِي الْمَسْجِدِ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسجد میں اشعار پڑھنے،خرید وفروخت کرنے،اور جمعہ کے دن صلاۃ (جمعہ) سے پہلے حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-عمروکے باپ شعیب: محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص کے بیٹے ہیں ۱؎،محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ میں نے احمداوراسحاق بن راہویہ کو (اوران دونوں کے علاوہ انہوں نے کچھ اورلوگوں کاذکرکیا ہے)دیکھا کہ یہ لوگ عمروبن شعیب کی حدیث سے استدلال کرتے تھے،محمدبن اسماعیل کہتے ہیں کہ شعیب بن محمد نے اپنے داداعبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے سناہے،۳-جن لوگوں نے عمروبن شعیب کی حدیث میں کلام کرنے والوں نے انہیں صرف اس لیے ضعیف قراردیا ہے کہ وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما)کے صحیفے (الصادقہ) سے روایت کرتے ہیں،گویا ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ احادیث انہوں نے اپنے دادا سے نہیں سنی ہیں ۲؎ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید(قطان) سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: عمرو بن شعیب کی حدیث ہمارے نزدیک ضعیف ہے،۴-اس باب میں بریدہ،جابر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۵-اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مسجد میں خرید وفروخت کو مکروہ قراردیا ہے،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں ۳؎،۶-اورتابعین میں سے بعض اہل علم سے مسجد میں خرید وفروخت کرنے کی رخصت مروی ہے،۷-نیزنبی اکرمﷺ سے حدیثوں میں مسجد میں شعر پڑھنے کی رخصت مروی ہے ۴؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ وَسُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَبْرَدِ مَوْلَی بَنِي خَطْمَةَ أَنَّہُ سَمِعَ أُسَيْدَ بْنَ ظُہَيْرٍ الْأَنْصَارِيَّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الصَّلَاةُ فِي مَسْجِدِ قُبَاءٍ كَعُمْرَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُسَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُ لِأُسَيْدِ بْنِ ظُہَيْرٍ شَيْئًا يَصِحُّ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ وَأَبُو الْأَبْرَدِ اسْمُہُ زِيَادٌ مَدِينِيٌّ

اسید بن ظہیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مسجد قبا میں صلاۃ پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اسید کی حدیث حسن،غریب ہے،۲-اس باب میں سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-ہم اسید بن ظہیر کی کوئی ایسی چیز نہیں جانتے جوصحیح ہوسوائے اس حدیث کے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ رَبَاحٍ وَعُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي ہَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاہُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَمْ يَذْكُرْ قُتَيْبَةُ فِي حَدِيثِہِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ إِنَّمَا ذَكَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَبْدِ اللہِ الْأَغَرُّ اسْمُہُ سَلْمَانُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمَيْمُونَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَأَبِي ذَرٍّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد کی ایک صلاۃ دوسری مساجد کی ہزار صلاتوں سے زیادہ بہتر ہے،سوائے مسجد حرام کے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-کئی سندوں سے مروی ہے،۳-اس باب میں علی،میمونہ،ابوسعید،جبیر بن مطعم،ابن عمر،عبداللہ بن زبیر اورابو ذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ قَزَعَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَی ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِي ہَذَا وَمَسْجِدِ الْأَقْصَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین مساجدکے سواکسی اورجگہ کے لیے سفر نہ کیا جائے،۱-مسجدحرام کے لیے،۲-میری اس مسجد(مسجدنبوی) کے لیے،۳-مسجداقصیٰ کے لیے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُہَنِيَّ أَرْسَلَہُ إِلَی أَبِي جُہَيْمٍ يَسْأَلُہُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي فَقَالَ أَبُو جُہَيْمٍ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْہِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْہِ قَالَ أَبُو النَّضْرِ لَا أَدْرِي قَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ شَہْرًا أَوْ سَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي جُہَيْمٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَأَنْ يَقِفَ أَحَدُكُمْ مِائَةَ عَامٍ خَيْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْ أَخِيہِ وَہُوَ يُصَلِّي وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا الْمُرُورَ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ ذَلِكَ يَقْطَعُ صَلَاةَ الرَّجُلِ وَاسْمُ أَبِي النَّضْرِ سَالِمٌ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ الْمَدِينِيِّ

-بسربن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد جہنی نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے یہ پوچھیں کہ انہوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں رسول اللہﷺ سے کیا سناہے؟توابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: اگر مصلی کے آگے سے گزرنے والاجان لے کہ اس پر کیا(گناہ) ہے تو اس کے لیے مصلی کے آگے سے گزرنے سے چا لیس... تک کھڑا رہنا بہتر ہوگا۔ ابونضرسالم کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے چالیس دن کہا،یا چالیس مہینے کہا یا چالیس سال۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوجہیم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعید خدری،ابوہریرہ،ابن عمر اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کسی کا سوسال کھڑے رہنا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ اپنے بھائی کے سامنے سے گزرے اور وہ صلاۃ پڑھ رہاہو،۴-اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے،ان لوگوں نے مصلی کے آگے سے گزرنے کو مکروہ جاناہے،لیکن ان کی یہ رائے نہیں کہ آدمی کی صلاۃ کو باطل کرد ے گا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّہُ رَأَی رَسُولَ اللہِ ﷺ يُصَلِّي فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ مُشْتَمِلًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَأَنَسٍ وَعَمْرِو بْنِ أَبِي أَسِيدٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَكَيْسَانَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَأُمِّ ہَانِئٍ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ قَالُوا لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ يُصَلِّي الرَّجُلُ فِي ثَوْبَيْنِ

عمربن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اس حال میں صلاۃ پڑھتے دیکھا،کہ آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمربن ابی سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،جابر،سلمہ بن الاکوع،انس،عمروبن ابی اسید،عبادہ بن صامت،ابوسعید خدری،کیسان،ابن عباس،عائشہ،ام ہانی،عمار بن یاسر،طلق بن علی،اورعبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔صحابہ کرام اوران کے بعد تابعین وغیرہم سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے،وہ کہتے ہیں کہ ایک کپڑے میں صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اوربعض اہل علم نے کہاہے کہ آدمی دوکپڑوں میں صلاۃ پڑھے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي مَعْشَرٍ،حَدَّثَنَا أَبِي،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا: مشرق (پورب) اور مغرب (پچھم) کے درمیان جوہے سب قبلہ ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي مَعْشَرٍ: مِثْلَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي أَبِي مَعْشَرٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ،وَاسْمُہُنَجِيحٌ،مَوْلَی بَنِي ہَاشِمٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: لاَ أَرْوِي عَنْہُ شَيْئًا،وَقَدْ رَوَی عَنْہُ النَّاسُ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ عَبْدِاللہِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيِّ،عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَخْنَسِيِّ،عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ: أَقْوَی مِنْ حَدِيثِ أَبِي مَعْشَرٍ وَأَصَحُّ

یحیی بن موسیٰ کا بیان ہے کہ ہم سے محمدبن ابی معشر نے بھی اسی کے مثل بیان کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث ان سے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے،۲-بعض اہل علم نے ابومعشر کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاہے۔ان کانام نجیح ہے،وہ بنی ہاشم کے مولیٰ ہیں،۳-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں ان سے کوئی روایت نہیں کرتا حالاں کہ لوگوں نے ان سے روایت کی ہے نیزبخاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن جعفر مخرمی کی حدیث جسے انہوں نے بسند عثمان بن محمد اخنسی عن سعید المقبری عن أبی ہریرہ روایت کی ہے،ابومعشر کی حدیث سے زیادہ قوی اور زیادہ صحیح ہے۔(یہ حدیث آگے آرہی ہے جو اسی معنی کی ہے)

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بَكْرٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا قِيلَ عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ لِأَنَّہُ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ و قَالَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا جَعَلْتَ الْمَغْرِبَ عَنْ يَمِينِكَ وَالْمَشْرِقَ عَنْ يَسَارِكَ فَمَا بَيْنَہُمَا قِبْلَةٌ إِذَا اسْتَقْبَلْتَ الْقِبْلَةَ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ ہَذَا لِأَہْلِ الْمَشْرِقِ وَاخْتَارَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ التَّيَاسُرَ لِأَہْلِ مَرْوٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مشرق (پورب) اور مغرب(پچھم) کے درمیان جو ہے وہ سب قبلہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-کئی صحابہ سے مروی ہے کہ مشرق ومغرب کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے۔ان میں عمربن خطاب،علی بن ابی طالب،اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں،ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب آپ مغرب کو دائیں طرف اور مشرق کو بائیں طرف رکھ کر قبلہ رخ کھڑے ہوں گے تو ان دونوں سمتوں کے درمیان جو ہوگا وہ قبلہ ہوگا،ابن مبارک کہتے ہیں: مشرق ومغرب کے درمیان جو ہے سب قبلہ ہے،یہ اہل مشرق ۱؎ کے لیے ہے۔اور عبداللہ بن مبارک نے اہل مرو ۲؎ کے لیے بائیں طرف جھکنے کوپسندکیاہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ السَّمَّانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ فَصَلَّی كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَی حِيَالِہِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَنَزَلَ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاكَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ وَأَشْعَثُ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو الرَّبِيعِ السَّمَّانُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ ذَہَبَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا قَالُوا إِذَا صَلَّی فِي الْغَيْمِ لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ ثُمَّ اسْتَبَانَ لَہُ بَعْدَمَا صَلَّی أَنَّہُ صَلَّی لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فَإِنَّ صَلَاتَہُ جَائِزَةٌ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک تاریک رات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ سفرمیں تھے۔توہم نہیں جان سکے کہ قبلہ کس طرف ہے،ہم میں سے ہرشخص نے اسی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھ لی جس طرف پہلے سے اس کا رخ تھا۔جب ہم نے صبح کی اور نبی اکرمﷺ سے اس کا ذکرکیا چنانچہ اس وقت آیت کریمہفَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ (تم جس طرف رخ کرلو اللہ کا منہ اسی طرف ہے) نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کی سند کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ہم اسے صرف اشعث بن سمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں،اور اشعث بن سعید ابوالربیع سمان حدیث کے معاملے میں ضعیف گردانے جاتے ہیں،۲-اکثر اہل علم اسی کی طرف گئے ہیں کہ جب کوئی بدلی میں غیر قبلہ کی طرف صلاۃ پڑھ لے پھر صلاۃ پڑھ لینے کے بعدپتہ چلے اس نے غیر قبلہ کی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھی ہے تو اس کی صلاۃ درست ہے۔سفیان ثوری،ابن مبارک،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ،عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ،عَنْ ہِشَامٍ،عَنْ ابْنِ سِيرِينَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:صَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ،وَلاَ تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الإِبِلِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بکریوں کے باڑے میں صلاۃ پڑھو ۱؎ اور اونٹ باندھنے کی جگہ میں نہ پڑھو۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ،عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ،عَنْ أَبِي حَصِينٍ،عَنْ أَبِي صَالِحٍ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِہِ أَوْ بِنَحْوِہِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ،وَالْبَرَاءِ،وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُہَنِيِّ،وَعَبْدِاللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ،وَابْنِ عُمَرَ،وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَصْحَابِنَا،وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ،وَإِسْحَاقُ. وَحَدِيثُ أَبِي حَصِينٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَرَوَاہُ إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي حَصِينٍ،عَنْ أَبِي صَالِحٍ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْہُ. وَاسْمُ أَبِي حَصِينٍ: عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الأَسَدِيُّ

اس سند سے بھی اسی کے مثل یااسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،ہمارے اصحاب کے نزدیک عمل اسی پر ہے،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے،۲-ابوحصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: أَبِی صَالِحٍ،عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ روایت کی ہے غریب ہے،۳-اسے اسرائیل نے بطریق: أَبِی حَصِینٍ،عَنْ أَبِی صَالِحٍ،عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ موقوفاً روایت کیا ہے،اورانہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے،۴-اس باب میں جابر بن سمرہ،براء،سبرہ بن معبد جہنی،عبداللہ بن مغفل،ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو التَّيَّاحِ الضُّبَعِيُّ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ بکریوں کے باڑے میں صلاۃ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَيَحْيَی بْنُ آدَمَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ بَعَثَنِي النَّبِيُّ ﷺ فِي حَاجَةٍ فَجِئْتُ وَہُوَ يُصَلِّي عَلَی رَاحِلَتِہِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالسُّجُودُ أَخْفَضُ مِنْ الرُّكُوعِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَہُمْ اخْتِلَافًا لَا يَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ عَلَی رَاحِلَتِہِ تَطَوُّعًا حَيْثُ مَا كَانَ وَجْہُہُ إِلَی الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرِہَا

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے نبی اکرمﷺ نے ایک ضرورت سے بھیجا تومیں ضرورت پوری کرکے آیا تو (دیکھاکہ) آپ اپنی سواری پر مشرق (پورب) کی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھ رہے تھے،اور سجدہ رکوع سے زیادہ پست تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،یہ حدیث دیگر اورسندوں سے بھی جابر سے مروی ہے،۲-اس باب میں انس،ابن عمر،ابوسعید،عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوراسی پر بیشتر اہل علم کے نزدیک عمل ہے،ہم ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں جانتے،یہ لوگ آدمی کے اپنی سواری پرنفل صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،خواہ اس کا رخ قبلہ کی طرف ہو یا کسی اور طرف ہو۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَابْنُ عُمَرَ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَقُولَانِ يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ وَإِنْ فَاتَتْہُ الصَّلَاةُ فِي الْجَمَاعَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ يَبْدَأُ بِالْعَشَاءِ إِذَا كَانَ طَعَامًا يَخَافُ فَسَادَہُ وَالَّذِي ذَہَبَ إِلَيْہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَشْبَہُ بِالِاتِّبَاعِ وَإِنَّمَا أَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومَ الرَّجُلُ إِلَی الصَّلَاةِ وَقَلْبُہُ مَشْغُولٌ بِسَبَبِ شَيْءٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ لَا نَقُومُ إِلَی الصَّلَاةِ وَفِي أَنْفُسِنَا شَيْءٌ

انس رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جب شام کاکھانا حاضر ہو،اورصلاۃ کھڑی کردی جائے ۱؎ تو پہلے کھا لو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابن عمر،سلمہ بن اکوع،اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے۔انہیں میں سے ابوبکر،عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ہیں،اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے کھاناکھائے اگرچہ جماعت چھوٹجائے۔۴-اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پہلے کھانا کھائے گا جب اسے کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہو،لیکن جس کی طرف صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم گئے ہیں،وہ اتباع کے زیادہ لائق ہے،ان لوگوں کا مقصود یہ ہے کہ آدمی ایسی حالت میں صلاۃ میں نہ کھڑا ہوکہ اس کادل کسی چیزکے سبب مشغول ہو،اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم صلاۃ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگاہوتا ہے۔

وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ قَالَ وَتَعَشَّی ابْنُ عُمَرَ وَہُوَ يَسْمَعُ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ قَالَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جب شام کاکھانا(تمہارے سامنے) رکھ دیا جائے اور صلاۃ کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا کھاؤ،ابن عمر رضی اللہ عنہما شام کا کھانا کھارہے تھے اور امام کی قرأت سن رہے تھے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْكِلَابِيُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ وَہُوَ يُصَلِّي فَلْيَرْقُدْ حَتَّی يَذْہَبَ عَنْہُ النَّوْمُ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّی وَہُوَ يَنْعَسُ لَعَلَّہُ يَذْہَبُ يَسْتَغْفِرُ فَيَسُبُّ نَفْسَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی اونگھے اوروہ صلاۃ پڑھ رہاہو توسوجائے یہاں تک کہ اس سے نیند چلی جائے،اس لیے کہ تم میں سے کوئی جب صلاۃ پڑھے اوراونگھ رہا ہو تو شاید وہ استغفار کرنا چاہتا ہو لیکن اپنے آپ کو گالیاں دے بیٹھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْأَسَدِيُّ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ دَلْہَمٍ عَنْ الْحَسَنِ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةً رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَہُمْ لَہُ كَارِہُونَ وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُہَا عَلَيْہَا سَاخِطٌ وَرَجُلٌ سَمِعَ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ثُمَّ لَمْ يُجِبْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَطَلْحَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ لَا يَصِحُّ لِأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَمُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ تَكَلَّمَ فِيہِ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَضَعَّفَہُ وَلَيْسَ بِالْحَافِظِ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَؤُمَّ الرَّجُلُ قَوْمًا وَہُمْ لَہُ كَارِہُونَ فَإِذَا كَانَ الْإِمَامُ غَيْرَ ظَالِمٍ فَإِنَّمَا الْإِثْمُ عَلَی مَنْ كَرِہَہُ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ فِي ہَذَا إِذَا كَرِہَ وَاحِدٌ أَوْ اثْنَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِہِمْ حَتَّی يَكْرَہَہُ أَكْثَرُ الْقَوْمِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے تین لوگوں پرلعنت فرمائی ہے: ایک وہ شخص جولوگوں کی امامت کرے اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔دوسری وہ عورت جو رات گزارے اور اس کا شوہر اس سے ناراض ہو،تیسرا وہ جو حی علی الفلاح سُنے اوراس کا جواب نہ دے(یعنی جماعت میں حاضرنہ ہو)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیوں کہ حقیقت میں یہ حدیث حسن (بصری)سے بغیر کسی واسطے کے نبی اکرمﷺ سے مرسلاًمروی ہے،۲-محمد بن قاسم کے سلسلہ میں احمد بن حنبل نے کلام کیا ہے،انہوں نے انہیں ضعیف قراردیا ہے۔اور یہ کہ وہ حافظ نہیں ہیں ۱؎،۳-اس باب میں ابن عباس،طلحہ،عبداللہ بن عمرو اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-بعض اہل علم کے یہاں یہ مکروہ ہے کہ آدمی لوگوں کی امامت کرے اوروہ اسے ناپسند کرتے ہوں او ر جب امام ظالم (قصوروار) نہ ہو تو گناہ اسی پر ہوگا جو ناپسند کرے۔احمد اور اسحاق بن راہویہ کااس سلسلہ میں یہ کہنا ہے کہ جب ایک یا دو یاتین لوگ ناپسند کریں تو اس کے انہیں صلاۃ پڑھانے میں کوئی حرج نہیں،الا یہ کہ لوگوں کی اکثریت اُسے ناپسند کرتی ہو۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ قَالَ كَانَ يُقَالُ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اثْنَانِ امْرَأَةٌ عَصَتْ زَوْجَہَا وَإِمَامُ قَوْمٍ وَہُمْ لَہُ كَارِہُونَ قَالَ ہَنَّادٌ قَالَ جَرِيرٌ قَالَ مَنْصُورٌ فَسَأَلْنَا عَنْ أَمْرِ الْإِمَامِ فَقِيلَ لَنَا إِنَّمَا عَنَی بِہَذَا أَئِمَّةً ظَلَمَةً فَأَمَّا مَنْ أَقَامَ السُّنَّةَ فَإِنَّمَا الْإِثْمُ عَلَی مَنْ كَرِہَہُ

عمروبن حارث بن مصطلق کہتے ہیں: کہا جاتاتھا کہ قیامت کے روز سب سے سخت عذاب دوطرح کے لوگوں کو ہوگا: ایک اس عورت کو جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرے،دوسرے اس امام کو جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ منصور کہتے ہیں کہ ہم نے امام کے معاملے میں پوچھا توہمیں بتایا گیا کہ اس سے مراد ظالم ائمہ ہیں،لیکن جوامام سنت قائم کرے تو گناہ اس پر ہوگا جواسے ناپسند کرے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ حَدَّثَنَا أَبُو غَالِبٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةٌ لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُہُمْ آذَانَہُمْ الْعَبْدُ الْآبِقُ حَتَّی يَرْجِعَ وَامْرَأَةٌ بَاتَتْ وَزَوْجُہَا عَلَيْہَا سَاخِطٌ وَإِمَامُ قَوْمٍ وَہُمْ لَہُ كَارِہُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو غَالِبٍ اسْمُہُ حَزَوَّرٌ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ﷺ)نے فرمایا: تین لوگوں کی صلاۃان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی: ایک بھگوڑے غلام کی جب تک کہ وہ(اپنے مالک کے پاس) لوٹ نہ آئے،دوسرے عورت کی جورات گزارے اور اس کا شوہر اس سے ناراض ہو،تیسرے اس امام کی جسے لوگ ناپسند کرتے ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ،حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ،عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ،عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ صَلاَةِ الرَّجُلِ،وَہُوَ قَاعِدٌ؟ فَقَالَ:مَنْ صَلَّی قَائِمًا فَہُوَ أَفْضَلُ،وَمَنْ صَلَّی قَاعِدًا فَلَہُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ،وَمَنْ صَلَّی نَائِمًا فَلَہُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو،وَأَنَسٍ،وَالسَّائِبِ،وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے آدمی کی صلاۃ کے بارے میں پوچھاجسے وہ بیٹھ کرپڑھ رہاہو؟ تو آپ نے فرمایا: جو کھڑے ہوکرصلاۃ پڑھے وہ بیٹھ کرپڑھنے والے کے بالمقابل افضل ہے،کیوں کہ اُسے کھڑے ہوکرپڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا،اور جو لیٹ کر پڑھے اسے بیٹھ کرپڑھنے والے سے آدھاملے گا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمران بن حصین کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو،انس،سائب اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ طَہْمَانَ بِہَذَا الإِسْنَادِ،إِلاَّ أَنَّہُ يَقُولُ: عَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ صَلاَةِ الْمَرِيضِ؟ فَقَالَ:صَلِّ قَائِمًا،فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا،فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَی جَنْبٍ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ طَہْمَانَ،عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ بِہَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَی عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ نَحْوَ رِوَايَةِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ طَہْمَانَ. وَقَدْ رَوَی أَبُو أُسَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ نَحْوَ رِوَايَةِ عِيسَی بْنِ يُونُسَ. وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ: فِي صَلاَةِ التَّطَوُّعِحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ،عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ،عَنْ الْحَسَنِ قَالَ: إِنْ شَاءَ الرَّجُلُ صَلَّی صَلاَةَ التَّطَوُّعِ قَائِمًا وَجَالِسًا وَمُضْطَجِعًا. وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي صَلاَةِ الْمَرِيضِ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ جَالِسًا. فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ: يُصَلِّي عَلَی جَنْبِہِ الأَيْمَنِ. و قَالَ بَعْضُہُمْ: يُصَلِّي مُسْتَلْقِيًا عَلَی قَفَاہُ،وَرِجْلاَہُ إِلَی الْقِبْلَةِ. قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ:مَنْ صَلَّی جَالِسًا فَلَہُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ،قَالَ: ہَذَا لِلصَّحِيحِ وَلِمَنْ لَيْسَ لَہُ عُذْرٌ،يَعْنِي فِي النَّوَافِلِ،فَأَمَّا مَنْ كَانَ لَہُ عُذْرٌ مِنْ مَرَضٍ أَوْ غَيْرِہِ فَصَلَّی جَالِسًا: فَلَہُ مِثْلُ أَجْرِ الْقَائِمِ. وَقَدْ رُوِيَ فِي بَعْضِ ہَذَا الْحَدِيثِ مِثْلُ قَوْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ

یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے بھی اسی سند سے مروی ہے،مگر اس میں یوں ہے: عمران بن حصین کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے مریض کی صلاۃ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: کھڑے ہوکر پڑھو،اگر اس کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کرپڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پہلو کے بل پڑھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اہل علم کے نزدیک اس حدیث میں جس صلاۃ کا ذکر ہے اس سے مراد نفلی صلاۃ ہے۔۲-ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابن عدی نے بیان کیا،اورابن عدی نے اشعث بن عبدالملک سے اوراشعث نے حسن سے روایت کی،وہ کہتے ہیں کہ نفل صلاۃ اگرچاہے توآدمی کھڑے ہوکر پڑھے اور چاہے تو بیٹھ کر پڑھے اور چاہے تو لیٹ کر،۳-اورمریض کی صلاۃ کے سلسلہ میں جب وہ بیٹھ کرصلاۃ نہ پڑھ سکے اہل علم نے اختلاف کیاہے:بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے داہنے پہلوپر لیٹ کر پڑھے،اور بعض کہتے ہیں اپنی گدی کے بل چت لیٹ کر پڑھے اوراس کے دونوں پاؤں قبلہ کی طرف ہوں،۴-سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اس حدیث میں جو یہ ہے کہ جو بیٹھ کر صلاۃپڑھے گا اُسے کھڑے ہوکرپڑھنے والے کے آدھاثواب ملے گا تویہ (نوافل) میں تندرست کے لیے ہے اوراس شخص کے لیے ہے جسے کوئی عذر(شرعی)نہ ہو،رہاوہ شخص جس کے پاس بیماری یاکسی اور چیز کا عذر ہو اور وہ بیٹھ کر (فرض) صلاۃ پڑھے تو اسے کھڑے ہوکر پڑھنے والے کی طرح پورا پورا ثواب ملے گا۔ اس حدیث کے بعض طرق میں سفیان ثوری کے قول کی طرح کامضمون (مرفوعاًبھی) مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ صَفِيَّةَ ابْنَةِ الْحَارِثِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ الْحَائِضِ إِلَّا بِخِمَارٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَقَوْلُہُ الْحَائِضِ يَعْنِي الْمَرْأَةَ الْبَالِغَ يَعْنِي إِذَا حَاضَتْ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَدْرَكَتْ فَصَلَّتْ وَشَيْءٌ مِنْ شَعْرِہَا مَكْشُوفٌ لَا تَجُوزُ صَلَاتُہَا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ لَا تَجُوزُ صَلَاةُ الْمَرْأَةِ وَشَيْءٌ مِنْ جَسَدِہَا مَكْشُوفٌ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَقَدْ قِيلَ إِنْ كَانَ ظَہْرُ قَدَمَيْہَا مَكْشُوفًا فَصَلَاتُہَا جَائِزَةٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بالغ عورت کی صلاۃ بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کی جاتی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں۱-ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ جب عورت بالغ ہوجائے اورصلاۃپڑھے اور اس کے بال کا کچھ حصہ کھُلا ہوتو اس کی صلاۃ جائزنہیں،یہی شافعی کابھی قول ہے،وہ کہتے ہیں کہ عورت اس حال میں صلاۃ پڑھے کہ اس کے جسم کا کچھ حصہ کھلا ہوجائز نہیں،نیزشافعی یہ بھی کہتے ہیں کہ کہا گیا ہے: اگر اس کے دونوں پاؤں کی پُشت کھلی ہو تو صلاۃ درست ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَی الصَّلَاةِ فَلَا يَمْسَحْ الْحَصَی فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِہُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَيْقِيبٍ وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَحُذَيْفَةَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَرِہَ الْمَسْحَ فِي الصَّلَاةِ وَقَالَ إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَمَرَّةً وَاحِدَةً كَأَنَّہُ رُوِيَ عَنْہُ رُخْصَةٌ فِي الْمَرَّةِ الْوَاحِدَةِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:ـ جب تم میں سے کوئی صلاۃ کے لیے کھڑا ہو تو اپنے سامنے سے کنکریاں نہ ہٹائے ۱ ؎ کیونکہ اللہ کی رحمت اس کاسامناکررہی ہوتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوذر کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں معیقیب،علی بن ابی طالب،حذیفہ،جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے صلاۃ میں کنکری ہٹانے کو ناپسند کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ہٹانا ضروری ہوتو ایک بار ہٹا دے،گویا آپ سے ایک بار کی رخصت مروی ہے،۴-اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُعَيْقِيبٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ مَسْحِ الْحَصَی فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَمَرَّةً وَاحِدَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

معیقیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صلاۃ میں کنکری ہٹانے کے سلسلے میں رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر ہٹاناضروری ہی ہو توایک بار ہٹالو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ،أَخْبَرَنَا مَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ،عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَی طَلْحَةَ،عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: رَأَی النَّبِيُّ ﷺ غُلاَمًا لَنَا يُقَالُ لَہُ: أَفْلَحُ إِذَا سَجَدَ نَفَخَ فَقَالَ: يَا أَفْلَحُ! تَرِّبْ وَجْہَكَ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: وَكَرِہَ عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ النَّفْخَ فِي الصَّلاَةِ. وَقَالَ: إِنْ نَفَخَ لَمْ يَقْطَعْ صَلاَتَہُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: وَبِہِ نَأْخُذُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ،وَقَالَ: مَوْلًی لَنَا يُقَالُ لَہُ رَبَاحٌ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ہمارے (گھرکے) ایک لڑکے کودیکھا جسے افلح کہاجاتاتھا کہ جب وہ سجدہ کرتاتو پھونک مارتاہے،توآپ نے فرمایا:افلح! اپنے چہرے کو گرد آلود ہ کر ۱؎۔ احمد بن منیع کہتے ہیں کہ عباد بن العوام نے صلاۃ میں پھونک مارنے کو مکروہ قراردیاہے اورکہا ہے کہ اگر کسی نے پھونک مارہی دی تواس کی صلاۃ باطل نہ ہوگی۔احمد بن منیع کہتے ہیں کہ اسی کو ہم بھی اختیارکرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو بعض دیگر لوگوں نے ابوحمزہ کے واسطہ سے روایت کی ہے۔اور غُلاَمًا لَنَا یُقَالُ لَہُ أَفْلَحُ کے بجائے مَوْلًی لَنَا یُقَالُ لَہُ رَبَاحٌ (ہمارے مولیٰ کو جسے رباح کہاجاتاتھا)کہا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ،حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي حَمْزَةَ بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ،وَقَالَ: غُلاَمٌ لَنَا يُقَالُ لَہُ رَبَاحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَحَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ إِسْنَادُہُ لَيْسَ بِذَاكَ،وَمَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ قَدْ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ،وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي النَّفْخِ فِي الصَّلاَةِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ: إِنْ نَفَخَ فِي الصَّلاَةِ اسْتَقْبَلَ الصَّلاَةَ،وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ،و قَالَ بَعْضُہُمْ: يُكْرَہُ النَّفْخُ فِي الصَّلاَةِ وَإِنْ نَفَخَ فِي صَلاَتِہِ لَمْ تَفْسُدْ صَلاَتُہُ،وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ

اس سندسے حمادبن زیدنے میمون ابی حمزہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اور اس میںغُلاَمٌ لَنَا یُقَالُ لَہُ رَبَاحٌہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں،میمون ابوحمزہ کو بعض اہل علم نے ضعیف قراردیا ہے،۲-اورصلاۃ میں پھونک مارنے کے سلسلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے،بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص صلاۃ میں پھونک مارے تو وہ صلاۃدوبارہ پڑھے،یہی قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔اور بعض نے کہا ہے کہ صلاۃ میں پھونک مارنا مکروہ ہے،اور اگرکسی نے اپنی صلاۃ میں پھونک مارہی دی تو اس کی صلاۃ فاسد نہ ہوگی،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ أَنَّہُ مَرَّ بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَہُوَ يُصَلِّي وَقَدْ عَقَصَ ضَفِرَتَہُ فِي قَفَاہُ فَحَلَّہَا فَالْتَفَتَ إِلَيْہِ الْحَسَنُ مُغْضَبًا فَقَالَ أَقْبِلْ عَلَی صَلَاتِكَ وَلَا تَغْضَبْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ ذَلِكَ كِفْلُ الشَّيْطَانِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَہُوَ مَعْقُوصٌ شَعْرُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَعِمْرَانُ بْنُ مُوسَی ہُوَ الْقُرَشِيُّ الْمَكِّيُّ وَہُوَ أَخُو أَيُّوبَ بْنِ مُوسَی

ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرے،وہ صلاۃ پڑھ رہے تھے اوراپنی گدی پرجوڑا باندھ رکھا تھا،ابورافع رضی اللہ عنہ نے اسے کھول دیا،حسن رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف غصہ سے دیکھا توانہوں نے کہا: اپنی صلاۃ پرتوجہ دو اور غصہ نہ کرو کیوں کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ شیطان کا حصہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابورافع رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اسی پراہل علم کا عمل ہے۔ان لوگوں نے اس بات کومکروہ کہاکہ صلاۃپڑھے اوروہ اپنے بالوں کاجوڑا باندھے ہو ۱؎۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ رَبِّہِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الصَّلَاةُ مَثْنَی مَثْنَی تَشَہَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَتَخَشَّعُ وَتَضَرَّعُ وَتَمَسْكَنُ وَتَذَرَّعُ وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ يَقُولُ تَرْفَعُہُمَا إِلَی رَبِّكَ مُسْتَقْبِلًا بِبُطُونِہِمَا وَجْہَكَ وَتَقُولُ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَہُوَ كَذَا وَكَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی و قَالَ غَيْرُ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ مَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَہِيَ خِدَاجٌ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ رَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ سَعِيدٍ فَأَخْطَأَ فِي مَوَاضِعَ فَقَالَ عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ وَہُوَ عِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ وَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ وَإِنَّمَا ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ وَقَالَ شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْمُطَّلِبِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَإِنَّمَا ہُوَ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مُحَمَّدٌ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ہُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ يَعْنِي أَصَحَّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ

فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صلاۃدو دورکعت ہے اور ہر دورکعت کے بعد تشہد ہے،صلاۃخشوع وخضوع،مسکنت اورگریہ وزاری کا اظہار ہے،اور تم اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ۔یعنی تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کے سامنے اٹھاؤ اس حال میں کہ ہتھیلیاں تمہارے منہ کی طرف ہوں اور کہہ: اے رب! اے رب! اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ایسا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مبارک کے علاوہ اورلوگوں نے اس حدیث میں مَنْ لَمْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَہِیَ خِدَاجٌ (جس نے ایسانہیں کیا اس کی صلاۃناقص ہے)کہا ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ شعبہ نے یہ حدیث عبدربہ بن سعید سے روایت کی ہے اور ان سے کئی مقامات پرغلطیاں ہوئی ہیں:ایک تویہ کہ انہوں نے انس بن ابی انس سے روایت کی حالاں کہ وہ عمران بن ابی انس ہیں،دوسرے یہ کہ انہوں نے عن عبداللہ بن حارث کہاہے حالانکہ وہ عبداللہ بن نافع بن العمیاء عن ربیعۃ بن الحارثہے،تیسرے یہ کہ شعبہ نے عن عبداللہ بن الحارث عن المطلب عن النبی ﷺ کہا ہے حالانکہ صحیح عن ربیعۃ بن الحارث بن عبدالمطلب عن الفضل بن عباس عن النبی ﷺ ہے۔محمدبن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں: لیث بن سعد کی حدیث صحیح ہے یعنی شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے(ورنہ اصلاً توضعیف ہی ہے)۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ،حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ،قَالَ: و حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ رَجَاءٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،عَنْ الأَوْزَاعِيِّ،قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ ہِشَامٍ الْمُعَيْطِيُّ،قَالَ: حَدَّثَنِي مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيُّ،قَالَ: لَقِيتُ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ لَہُ: دُلَّنِي عَلَی عَمَلٍ يَنْفَعُنِي اللہُ بِہِ،وَيُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ،فَسَكَتَ عَنِّي مَلِيًّا،ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ: عَلَيْكَ بِالسُّجُودِ،فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ:مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلّہِ سَجْدَةً إِلاَّ رَفَعَہُ اللہُ بِہَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِيئَةً. قَالَ مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ: فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَسَأَلْتُہُ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْہُ ثَوْبَانَ؟ فَقَالَ: عَلَيْكَ بِالسُّجُودِ،فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ:مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْجُدُ لِلّہِ سَجْدَةً إِلاَّ رَفَعَہُ اللہُ بِہَا دَرَجَةً،وَحَطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِيئَةً. قَالَ: مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيُّ،وَيُقَالُ ابْنُ أَبِي طَلْحَةَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،وَأَبِي أُمَامَةَ،وَأَبِي فَاطِمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ثَوْبَانَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ فِي كَثْرَةِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا الْبَابِ. فَقَالَ بَعْضُہُمْ: طُولُ الْقِيَامِ فِي الصَّلاَةِ أَفْضَلُ مِنْ كَثْرَةِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ. و قَالَ بَعْضُہُمْ: كَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ أَفْضَلُ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا حَدِيثَانِ،وَلَمْ يَقْضِ فِيہِ بِشَيْئٍ. و قَالَ إِسْحَاقُ: أَمَّا فِي النَّہَارِ فَكَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ،وَأَمَّا بِاللَّيْلِ فَطُولُ الْقِيَامِ،إِلاَّ أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ لَہُ جُزْءٌ بِاللَّيْلِ يَأْتِي عَلَيْہِ،فَكَثْرَةُ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ فِي ہَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ،لأَنَّہُ يَأْتِي عَلَی جُزْئِہِ وَقَدْ رَبِحَ كَثْرَةَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَإِنَّمَا قَالَ إِسْحَاقُ ہَذَا لأَنَّہُ كَذَا وُصِفَ صَلاَةُ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ،وَوُصِفَ طُولُ الْقِيَامِ،وَأَمَّا بِالنَّہَارِ فَلَمْ يُوصَفْ مِنْ صَلاَتِہِ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ مَا وُصِفَ بِاللَّيْلِ

معدان بن طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺکے آزادکردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ آپ مجھے کوئی ایساعمل بتائیں جس سے اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے اورمجھے جنت میں داخل کرے،تو وہ کافی دیرتک خاموش رہے پھروہ میری طرف متوجہ ہوئے اورانہوں نے کہا کہ تم کثرت سے سجدے کیا کر و ۱؎ کیوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جوبھی بندہ اللہ کے واسطے کوئی سجدہ کرے گا اللہ اس کی وجہ سے اس کاایک درجہ بلند کردے گا اوراس کا ایک گناہ مٹادے گا۔معدان کہتے ہیں کہ پھر میری ملاقات ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ہوئی تومیں نے ان سے بھی اسی چیزکا سوال کیاجومیں نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے کیاتھا توانہوں نے بھی کہاکہ تم سجدے کو لازم پکڑوکیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے کہ جو بندہ اللہ کے واسطے کوئی سجدہ کرے گاتو اللہ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور ایک گناہ مٹادے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-رکوع اور سجدے کثرت سے کرنے کے سلسلے کی ثوبان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابوامامہ اور ابو فاطمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اس با ب میں اہل علم کا اختلاف ہے بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ صلاۃ میں دیرتک قیام کرنا کثرت سے رکوع اورسجدہ کرنے سے افضل ہے۔اور بعض کاکہناہے کہ کثرت سے رکوع اور سجدے کرنادیرتک قیام کرنے سے افضل ہے۔احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے اس سلسلے میں دونوں طرح کی حدیثیں مروی ہیں،لیکن اس میں (کون راجح ہے اس سلسلہ میں) انہوں نے کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی ہے۔اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دن میں کثرت سے رکوع اور سجدے کرنا افضل ہے اور رات میں دیرتک قیام کرنا،الا یہ کہ کوئی شخص ایسا ہوجس کا رات کے حصہ میں قرآن پڑھنے کا کوئی حصہ متعین ہوتو اس کے حق میں رات میں بھی رکوع اورسجدے کثرت سے کرنا بہترہے۔کیوں کہ وہ قرآن کااتناحصہ توپڑھے گاہی جسے اس نے خاص کررکھا ہے اورکثرت سے رکوع اورسجدے کا نفع اسے الگ سے حاصل ہوگا،۴-اسحاق بن راہویہ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ نبی اکرمﷺکے قیام اللیل (تہجد) کا حال بیان کیا گیا ہے کہ آپ اس میں دیرتک قیام کیا کرتے تھے،رہی دن کی صلاۃ تو اس کے سلسلہ میں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ آپ ان میں رات کی صلاتوں کی طرح دیرتک قیام کرتے تھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْنُتُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ وَالْمَغْرِبِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَخُفَافِ بْنِ أَيْمَاءَ بْنِ رَحْضَةَ الْغِفَارِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُنُوتِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ الْقُنُوتَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يُقْنَتُ فِي الْفَجْرِ إِلَّا عِنْدَ نَازِلَةٍ تَنْزِلُ بِالْمُسْلِمِينَ فَإِذَا نَزَلَتْ نَازِلَةٌ فَلِلْإِمَامِ أَنْ يَدْعُوَ لِجُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ فجر اور مغرب میں قنوت پڑھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-براء کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،انس،ابوہریرہ،ابن عباس،اورخُفاف بن أیماء بن رحْضہ غفاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-فجر میں قنوت پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے فجرمیں قنوت پڑھنے کی ہے،یہی مالک اورشافعی کا قول ہے،۴-احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ فجرمیں قنوت نہ پڑھے،الایہ کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوئی ہوتوایسی صورت میں امام کو چاہئے کہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے دعاکرے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ كُنَّا نَتَكَلَّمُ خَلْفَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الصَّلَاةِ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ مِنَّا صَاحِبَہُ إِلَی جَنْبِہِ حَتَّی نَزَلَتْ وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِينَ فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ وَنُہِينَا عَنْ الْكَلَامِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا تَكَلَّمَ الرَّجُلُ عَامِدًا فِي الصَّلَاةِ أَوْ نَاسِيًا أَعَادَ الصَّلَاةَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا تَكَلَّمَ عَامِدًا فِي الصَّلَاةِ أَعَادَ الصَّلَاةَ وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا أَوْ جَاہِلًا أَجْزَأَہُ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پیچھے صلاۃ میں بات چیت کرلیا کرتے تھے،آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کرلیا کرتاتھا،یہاں تک کہ آیت کریمہ:وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ (اللہ کے لیے باادب کھڑے رہاکرو) نازل ہوئی توہمیں خاموش رہنے کا حکم دیاگیا اور بات کرنے سے روک دیاگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود اور معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی صلاۃ میں قصداًیا بھول کر گفتگو کرلے تو صلاۃ دہرائے۔سفیان ثوری،ابن مبارک اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔اوربعض کا کہنا ہے کہ جب صلاۃ میں قصداًگفتگو کرے تو صلاۃ دہرائے اور اگر بھول سے یالاعلمی میں گفتگو ہوجائے تو صلاۃ کافی ہوگی،۴-شافعی اسی کے قائل ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ الْجُہَنِيُّ عَنْ عَمِّہِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلِّمُوا الصَّبِيَّ الصَّلَاةَ ابْنَ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوہُ عَلَيْہَا ابْنَ عَشْرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُہَنِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَالَا مَا تَرَكَ الْغُلَامُ بَعْدَ الْعَشْرِ مِنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّہُ يُعِيدُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَسَبْرَةُ ہُوَ ابْنُ مَعْبَدٍ الْجُہَنِيُّ وَيُقَالُ ہُوَ ابْنُ عَوْسَجَةَ

سبرہ بن معبدجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سات برس کے بچے کو صلاۃ سکھاؤ،اور دس برس کے بچے کو صلاۃ نہ پڑھنے پر مارو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ جولڑکا دس برس کے ہوجانے کے بعد صلاۃ چھوڑ ے وہ اس کی قضا کرے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی الْمُلَقَّبُ مَرْدُوَيْہِ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ رَافِعٍ وَبَكْرَ بْنَ سَوَادَةَ أَخْبَرَاہُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَحْدَثَ يَعْنِي الرَّجُلَ وَقَدْ جَلَسَ فِي آخِرِ صَلَاتِہِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَقَدْ جَازَتْ صَلَاتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُہُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَقَدْ اضْطَرَبُوا فِي إِسْنَادِہِ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا قَالُوا إِذَا جَلَسَ مِقْدَارَ التَّشَہُّدِ وَأَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَحْدَثَ قَبْلَ أَنْ يَتَشَہَّدَ وَقَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ أَعَادَ الصَّلَاةَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ و قَالَ أَحْمَدُ إِذَا لَمْ يَتَشَہَّدْ وَسَلَّمَ أَجْزَأَہُ لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ وَتَحْلِيلُہَا التَّسْلِيمُ وَالتَّشَہُّدُ أَہْوَنُ قَامَ النَّبِيُّ ﷺ فِي اثْنَتَيْنِ فَمَضَی فِي صَلَاتِہِ وَلَمْ يَتَشَہَّدْ و قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ إِذَا تَشَہَّدَ وَلَمْ يُسَلِّمْ أَجْزَأَہُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ حِينَ عَلَّمَہُ النَّبِيُّ ﷺ التَّشَہُّدَ فَقَالَ إِذَا فَرَغْتَ مِنْ ہَذَا فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ ہُوَ الْأَفْرِيقِيُّ وَقَدْ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ مِنْہُمْ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب آدمی کوسلام پھیرنے سے پہلے حدث لاحق ہوجائے اور وہ اپنی صلاۃ کے بالکل آخر میں یعنی قعدہ اخیرہ میں بیٹھ چکاہوتو اس کی صلاۃ درست ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں،اس کی سند میں اضطراب ہے،۲-عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم،جو افریقی ہیں کو بعض محدّثین نے ضعیف قراردیا ہے۔ان میں یحییٰ بن سعید قطان اور احمد بن حنبل بھی شامل ہیں،۳-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی تشہد کی مقدار کے برابر بیٹھ چکا ہو اور سلام پھیر نے سے پہلے اسے حدث لاحق ہوجائے تو پھر اس کی صلاۃ پوری ہوگئی،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب حدث تشہدپڑھنے سے یا سلام پھیر نے سے پہلے لاحق ہوجائے تو صلاۃ دہرائے۔شافعی کا یہی قول ہے،۵-اوراحمد کہتے ہیں: جب وہ تشہد نہ پڑھے اورسلام پھیردے تو اس کی صلاۃ اُسے کافی ہوجائے گی،اس لیے کہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے: تَحْلِیلُہَا التَّسْلِیمُ یعنی صلاۃ میں جوچیزیں حرام ہوئی تھیں سلام پھیرنے ہی سے حلال ہوتی ہیں،بغیرسلام کے صلاۃسے نہیں نکلا جاسکتا اور تشہد اتنااہم نہیں جتناسلام ہے کہ اس کے ترک سے صلاۃ درست نہ ہوگی،ایک بار نبی اکرمﷺ دورکعت کے بعد کھڑے ہوگئے اپنی صلاۃ جاری رکھی اورتشہد نہیں کیا،۶-اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: جب تشہد کرلے اور سلام نہ پھیرا ہوتو صلاۃ ہوگئی،انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جس وقت نبی اکرمﷺ نے انہیں تشہد سکھایا تو فرمایا: جب تم اس سے فارغ ہوگئے تو تم نے اپنافریضہ پورا کرلیا۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ الْبَصْرِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ مُجَاہِدٍ وَعِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ الْفُقَرَاءُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ الْأَغْنِيَاءَ يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ وَلَہُمْ أَمْوَالٌ يُعْتِقُونَ وَيَتَصَدَّقُونَ قَالَ فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَقُولُوا سُبْحَانَ اللہِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً وَالْحَمْدُ لِلَّہِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً وَاللہُ أَكْبَرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ مَرَّةً وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ عَشْرَ مَرَّاتٍ فَإِنَّكُمْ تُدْرِكُونَ بِہِ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلَا يَسْبِقُكُمْ مَنْ بَعْدَكُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ذَرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب أَيْضًا عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَالْمُغِيرَةِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ خَصْلَتَانِ لَا يُحْصِيہِمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ يُسَبِّحُ اللہَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا وَيَحْمَدُہُ عَشْرًا وَيُكَبِّرُہُ عَشْرًا وَيُسَبِّحُ اللہَ عِنْدَ مَنَامِہِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَيَحْمَدُہُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَيُكَبِّرُہُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس کچھ فقیرومحتاج لوگ آئے اورکہا: اللہ کے رسول! مالدار صلاۃ پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں وہ صوم رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں۔ان کے پاس مال بھی ہے،اس سے وہ غلام آزاد کرتے اور صدقہ دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جب تم صلاۃ پڑھ چکوتو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ،تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور تینتیس مرتبہ اللہ أکبر اور دس مرتبہ لا إلہ إلا اللہ کہہ لیاکرو،تو تم ان لوگوں کو پالوگے جوتم پر سبقت لے گئے ہیں،اورجو تم سے پیچھے ہیں وہ تم پر سبقت نہ لے جاسکیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں کعب بن عجرہ،انس،عبداللہ بن عمرو،زید بن ثابت،ابوالدرداء،ابن عمر اور ابوذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،نیزاس باب میں ابوہریرہ اور مغیرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: دوعادتیں ہیں جنہیں جو بھی مسلمان آدمی بجالائے گاجنت میں داخل ہوگا۔ایک یہ کہ وہ ہرصلاۃ کے بعد دس بار سبحان اللہ،دس بار الحمد للہ،دس بار اللہ أکبر کہے،دوسرے یہ کہ وہ اپنے سوتے وقت تینتیس مرتبہ سبحان اللہ،تینتیس مرتبہ الحمد للہ اور چونتیس مرتبہ اللہ أکبر کہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ بْنِ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُمْ كَانُوا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَسِيرٍ فَانْتَہَوْا إِلَی مَضِيقٍ وَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَمُطِرُوا السَّمَاءُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَالْبِلَّةُ مِنْ أَسْفَلَ مِنْہُمْ فَأَذَّنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہُوَ عَلَی رَاحِلَتِہِ وَأَقَامَ أَوْ أَقَامَ فَتَقَدَّمَ عَلَی رَاحِلَتِہِ فَصَلَّی بِہِمْ يُومِئُ إِيمَاءً يَجْعَلُ السُّجُودَ أَخْفَضَ مِنْ الرُّكُوعِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِہِ عُمَرُ بْنُ الرَّمَّاحِ الْبَلْخِيُّ لَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّہُ صَلَّی فِي مَاءٍ وَطِينٍ عَلَی دَابَّتِہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ ایک سفرمیں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے،وہ ایک تنگ جگہ پہنچے تھے کہ صلاۃ کا وقت آ گیا،اوپر سے بارش ہونے لگی،اورنیچے کیچڑ ہوگئی،رسول اللہﷺ نے اپنی سواری ہی پر اذان دی اور اقامت کہی اور سواری ہی پر آگے بڑھے اورانہیں صلاۃ پڑھائی،آپ اشارہ سے صلاۃ پڑھتے تھے،سجدہ میں رکوع سے قدرے زیادہ جھکتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،عمر بن رماح بلخی اس کے روایت کرنے میں منفردہیں۔یہ صرف انہیں کی سند سے جانی جاتی ہے۔اور ان سے یہ حدیث اہل علم میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے،۲-انس بن مالک سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے پانی اور کیچڑ میں اپنی سواری پر صلاۃ پڑھی،۳-اوراسی پراہل علم کا عمل ہے۔احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ قَالَ حَدَّثَنِي قَتَادَةُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ حُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَقُلْتُ اللہُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا قَالَ فَجَلَسْتُ إِلَی أَبِي ہُرَيْرَةَ فَقُلْتُ إِنِّي سَأَلْتُ اللہَ أَنْ يَرْزُقَنِي جَلِيسًا صَالِحًا فَحَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَعَلَّ اللہَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِہِ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِہِ صَلَاتُہُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِہِ شَيْءٌ قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرُوا ہَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِہَا مَا انْتَقَصَ مِنْ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِہِ عَلَی ذَلِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَقَدْ رَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَسَنِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ حُرَيْثٍ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَالْمَشْہُورُ ہُوَ قَبِيصَةُ بْنُ حُرَيْثٍ وَرُوِي عَنْ أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا

حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینے آیا: میں نے کہا:اے اللہ مجھے نیک اورصالح ساتھی نصیب فرما،چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھنا میسر ہوگیا،میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ مجھے نیک ساتھی عطا فرما،توآپ مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے،جسے آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی ہو،شاید اللہ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے اس کی صلاۃ کا محاسبہ ہوگا،اگر وہ ٹھیک رہی تو کامیاب ہوگیا،اور اگروہ خراب نکلی تو وہ ناکام اور نامرادرہا،اور اگر اس کی فرض صلاتوں میں کوئی کمی ۱؎ ہوگی تو رب تعالیٰ (فرشتوں سے) فرمائے گا: دیکھو،میرے اس بندے کے پاس کوئی نفل صلاۃ ہے؟ چنانچہ فرض صلاۃ کی کمی کی تلافی اس نفل سے کردی جائے گی،پھر اسی اندازسے سارے اعمال کا محاسبہ ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے ۲-یہ حدیث دیگراور سندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے،۳-حسن کے بعض تلامذہ نے حسن سے اورانہوں نے قبیصہ بن حریث سے اس حدیث کے علاوہ دوسری اورحدیثیں بھی روایت کی ہیں اورمشہور قبیصہ بن حریث ہی ہے ۲؎،یہ حدیث بطریق: أَنَسِ بْنِ حَکِیمٍ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ ﷺ بھی روایت کی گئی ہے،۴-اس باب میں تمیم داری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ ثَابَرَ عَلَی ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ بَنَی اللہُ لَہُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّہْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَہَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي مُوسَی وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ قَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو بارہ رکعت سنت ۱؎ پرمداومت کرے گا اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے ۲؎،دورکعتیں اس کے بعد،دورکعتیں مغرب کے بعد،دورکعتیں عشاء کے بعد اور دورکعتیں فجر سے پہلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-سندمیں مغیرہ بن زیاد پر بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے،۳-اس باب میں ام حبیبہ،ابوہریرہ،ابوموسیٰ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ہُوَ ابْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَہُ بَيْتٌ فِي الْجَنَّةِ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّہْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَہَا وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ عَنْبَسَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَنْبَسَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوشخص رات اوردن میں بارہ رکعت سنّت پڑھے گا،اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنایا جائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے،دورکعتیں اس کے بعد،دومغرب کے بعد،دوعشاء کے بعد اور دو فجر سے پہلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: عنبسہ کی حدیث جو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس باب میں حسن صحیح ہے۔اور وہ عنبسہ سے دیگر اورسندوں سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَہِيكٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّہِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ فَعَلَہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ہَمَّامٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ ہَذَا إِلَّا عَمْرَو بْنَ عَاصِمٍ الْكِلَابِيَّ وَالْمَعْرُوفُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَہِيكٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو فجر کی دونوں سنتیں نہ پڑھ سکے توانہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-ابن عمر سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے ایساکیاہے،۳-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۴-ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے ھمام سے یہ حدیث اس سند سے اس طرح روایت کی ہو سوائے عمرو بن عاصم کلابی کے۔اوربطریق: قَتَادَۃَ عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ،عَنْ بَشِیرِ بْنِ نَہِیکٍ،عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،عَنِ النَّبِیِّ ﷺ مشہوریہ ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے فجر کی ایک رکعت بھی سورج طلوع ہونے سے پہلے پالی تواس نے فجر پالی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ الْعَتَكِيُّ الْمَرْوَزِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا لَمْ يُصَلِّ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّہْرِ صَلَّاہُنَّ بَعْدَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ الْمُبَارَكِ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَاہُ قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ نَحْوَ ہَذَا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاہُ عَنْ شُعْبَةَ غَيْرَ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھ پاتے توانہیں آپ اس کے بعد پڑھتے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے ابن مبارک کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔اور اسے قیس بن ربیع نے شعبہ سے اور شعبہ نے خالد الحذاء سے اسی طرح روایت کیاہے۔اور ہم قیس بن ربیع کے علاوہ کسی اور کونہیں جانتے جس نے شعبہ سے روایت کی ہو،۳-بطریق: عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی عَنِ النَّبِیِّ ﷺ بھی اسی طرح (مرسلاً) مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الشُّعَيْثِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی قَبْلَ الظُّہْرِ أَرْبَعًا وَبَعْدَہَا أَرْبَعًا حَرَّمَہُ اللہُ عَلَی النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں اللہ اسے جہنم کی آگ پر حرام کردے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اوریہ اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يُوسُفَ التِّنِّيسِيُّ الشَّأْمِيُّ حَدَّثَنَا الْہَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ ہُوَ ابْنُ الْحَارِثِ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ قَال سَمِعْتُ أُخْتِي أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ ﷺ يَقُولُ مَنْ حَافَظَ عَلَی أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّہْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَہَا حَرَّمَہُ اللہُ عَلَی النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْقَاسِمُ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُكْنَی أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَہُوَ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَہُوَ ثِقَةٌ شَأْمِيٌّ وَہُوَ صَاحِبُ أَبِي أُمَامَةَ

عنبسہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن ام المو منین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کوکہتے سنا کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سناہے کہ جس نے ظہر سے پہلے کی چاررکعتوں اور اس کے بعد کی چار رکعتوں پر محافظت کی تو اللہ اس کو جہنم کی آگ پر حرام کردے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲-قاسم دراصل عبدالرحمٰن کے بیٹے ہیں۔ان کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے،وہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے مولیٰ اورثقہ ہیں،شام کے رہنے والے او ر ابوامامہ کے شاگرد ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَعْدَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَةَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ قَالَ مَا أُحْصِي مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَفِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ بِقُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ عَاصِمٍ

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں شمار نہیں کرسکتا کہ میں نے کتنی بار رسول اللہﷺ کو مغرب کے بعدکی دونوں رکعتوں میں اور فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ پڑھتے سنا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۲-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف عبداللہ بن معدان عن عاصم ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي بَيْتِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے مغرب کے بعد دونوں رکعتیں نبی اکرمﷺکے ساتھ آپ کے گھر میں پڑھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں رافع بن خدیج اور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ الْخَلاَّلُ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ أَيُّوبَ،عَنْ نَافِعٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،قَالَ: حَفِظْتُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَشْرَ رَكَعَاتٍ كَانَ يُصَلِّيہَا بِاللَّيْلِ وَالنَّہَارِ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّہْرِ،وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَہَا،وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ،وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ. قَالَ: وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْفَجْرِ رَكْعَتَيْنِ. ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺسے دس رکعتیں یاد ہیں جنہیں آپ رات اور دن میں پڑھا کرتے تھے: دورکعتیں ظہر سے پہلے ۱ ؎،دو اس کے بعد،دورکعتیں مغرب کے بعد،اور دورکعتیں عشا کے بعد،اور مجھ سے حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ آپ فجر سے پہلے دورکعتیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ،أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اس سندسے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی کے مثل روایت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَتْ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّہْرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَہَا رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ ثِنْتَيْنِ وَبَعْدَ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ وَقَبْلَ الْفَجْرِ ثِنْتَيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کی صلاۃ کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے بتایا کہ آپ ظہر سے پہلے دورکعتیں پڑھتے تھے،اور اس کے بعد دورکعتیں،مغرب کے بعد دورکعتیں،عشاء کے بعد دورکعتیں اور فجر سے پہلے دورکعتیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-عبداللہ بن شقیق کی حدیث جسے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں،حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ وَاجْعَلْ آخِرَ صَلَاتِكَ وِتْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ صَلَاةَ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: رات کی نفلی صلاۃ دو دورکعت ہے،جب تمہیں صلاۃِ فجر کا وقت ہوجانے کا ڈر ہوتو ایک رکعت پڑھ کر اسے وتربنالو،اور اپنی آخری صلاۃ وتر رکھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَأَلَ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللہِ ﷺ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِہِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رمضان میں رسول اللہﷺ کی صلاۃ ِتہجد کیسی ہوتی تھی؟کہا: رسول اللہﷺتہجدرمضان میں اورغیررمضان گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۱؎،آپ(دودوکرکے) چار رکعتیں اس حسن خوبی سے ادا فرماتے کہ ان کے حسن اور طوالت کونہ پوچھو،پھرمزید چار رکعتیں (دو،دوکرکے)پڑھتے،ان کے حسن اور طوالت کوبھی نہ پوچھو ۲؎،پھرتین رکعتیں پڑھتے۔ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟ فرمایا: عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں،دل نہیں سوتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۳؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِيُّ،حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَی،حَدَّثَنَا مَالِكٌ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ،عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ إِحْدَی عَشْرَةَ رَكْعَةً،يُوتِرُ مِنْہَا بِوَاحِدَةٍ،فَإِذَا فَرَغَ مِنْہَا اضْطَجَعَ عَلَی شِقِّہِ الأَيْمَنِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ رات کو گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ان میں سے ایک رکعت وتر ہوتی۔تو جب آپ اس سے فارغ ہوجاتے تواپنے دائیں کروٹ لیٹتے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،عَنْ مَالِكٍ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

اس سند سے بھی ابن شہاب سے اسی طرح مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ:مَنْ أَتَی الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ . قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ،وَأَبِي سَعِيدٍ،وَجَابِرٍ،وَالْبَرَاءِ،وَعَائِشَةَ،وَأَبِي الدَّرْدَاءِ۔قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکوفرماتے سنا: جوجمعہ کی صلاۃ کے لیے آئے اُسے چاہئے کہ (پہلے) غسل کرلے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس بات میں عمر،ابوسعیدخدری،جابر،براء،عائشہ اورابوالدرداء سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وَرُوِي عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ،عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مِثْلَہُ. وَقَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيہِ وَحَدِيثُ عَبْدِاللہِ بْنِ عَبْدِاللہِ،عَنْ أَبِيہِ كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ. وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّہْرِيِّ عَنْ الزُّہْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي آلُ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ عُمَرَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَيْضًا،وَہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

نیزابن شہاب زہری سے یہ حدیث بطریق: الزہری عن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر،عن عبداللہ بن عمر عن النبی ﷺ بھی مروی ہے،محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں:زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: سالم عن أبیہ عبداللہ بن عمر روایت کی ہے اور جوحدیث انہوں نے بطریق: عبداللہ بن عبداللہ بن عمر عن أبیہ عبداللہ بن عمر روایت کی ہے دونوں حدیثیں صحیح ہیں،اور زہری کے بعض تلامذہ نے اسے بطریق: الزہری،عن آل عبداللہ بن عمر عن عبداللہ بن عمرروایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: جمعہ کے دن کے غسل کے سلسلہ میں بطریق: ابْنِ عُمَرَ،عَنْ عُمَرَ،عَنِ النَّبِیِّ ﷺ مرفوعاًمروی ہے،(جو آگے آرہی ہے) اوریہ حدیث حسن صحیح ہے۔

وَرَوَاہُ يُونُسُ وَمَعْمَرٌ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيہِ،بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: أَيَّةُ سَاعَةٍ ہَذِہِ؟! فَقَالَ: مَا ہُوَ إِلاَّ أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ وَمَا زِدْتُ عَلَی أَنْ تَوَضَّأْتُ،قَالَ: وَالْوُضُوءُ أَيْضًا،وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَمَرَ بِالْغُسْلِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،عَنْ مَعْمَرٍ،عَنْ الزُّہْرِيِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے روزخطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران صحابہ میں سے ایک شخص ۱؎ (مسجدمیں)داخل ہوئے،توعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ساوقت،(آنے کا)ہے؟ توانہوں نے کہا: میں نے صرف اتنی دیر کی کہ اذان سنی اوربس وضوکرکے آگیا ہوں،اس پرعمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے صرف (وضوہی پر اکتفاکیا) حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہﷺنے غسل کا حکم دیا ہے؟!۔

قَالَ: وَحَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ،أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُاللہِ بْنُ صَالِحٍ،حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،عَنْ يُونُسَ،عَنْ الزُّہْرِيِّ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی مَالِكٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ،فَذَكَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا؟ فَقَالَ: الصَّحِيحُ حَدِيثُ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ أَيْضًا،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيہِ،نَحْوُ ہَذَا الْحَدِيثِ

اس سندسے بھی زہری سے یہی حدیث مروی ہے۔اورمالک نے بھی یہ حدیث بطریق:عن الزہری،عن سالم،روایت کی ہے،وہ سالم بن عمر کہتے ہیں کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے،آگے انہوں نے پوری حدیث ذکرکی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس سلسلے میں محمدبن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے بطریق:سالم عن أبیہ روایت کی ہے۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مالک سے بھی اسی حدیث کی طرح مروی ہے،انہوں نے بطریق: الزہری،عن سالم،عن أبیہبھی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتْ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَسَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے روز جنابت کے غسل کی طرح (یعنی خوب اہتمام سے) غسل کیا پھر صلاۃِ جمعہ کے لیے (پہلی گھڑی میں) گیا توگویااس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا،اور جو اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی،اورجوتیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا اورجوچوتھی گھڑی میں گیاتوگویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کرکے اللہ کا تقرب حاصل کیا،اور جوپانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈااللہ کی راہ میں صدقہ کیا،پھرجب امام خطبہ کے لیے گھرسے نکل آیا توفرشتے ذکرسننے کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبد اللہ بن عمرو اورسمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ يَجْلِسُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ قَالَ مِثْلَ مَا تَفْعَلُونَ الْيَوْمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي رَآہُ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَفْصِلَ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ بِجُلُوسٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کے دن خطبہ دیتے پھر (بیچ میں)بیٹھتے،پھرکھڑے ہوتے اورخطبہ دیتے،راوی کہتے ہیں: جیسے آج کل تم لوگ کرتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،جابربن عبداللہ اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-یہی اہل علم کی رائے ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فصل کرے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَكَانَتْ صَلَاتُہُ قَصْدًا وَخُطْبَتُہُ قَصْدًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃپڑھتاتھاتوآپ کی صلاۃ بھی درمیانی ہوتی تھی اورخطبہ بھی درمیانی ہوتاتھا۔(یعنی زیادہ لمبا نہیں ہوتاتھا۔) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عماربن یاسراورابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اسْتَوَی عَلَی الْمِنْبَرِ اسْتَقْبَلْنَاہُ بِوُجُوہِنَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَحَدِيثُ مَنْصُورٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ ضَعِيفٌ ذَاہِبُ الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَسْتَحِبُّونَ اسْتِقْبَالَ الْإِمَامِ إِذَا خَطَبَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَا يَصِحُّ فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْءٌ

-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب منبرپربیٹھتے توہم اپنامنہ آپ کی طرف کرلیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-منصورکی حدیث کوہم صرف محمدبن فضل بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-محمدبن فضل بن عطیہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ضعیف اورذاہب الحدیث ہیں،۳-اس باب میں نبی اکرمﷺسے روایت کی گئی کوئی چیزصحیح نہیں ہے ۱؎،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا عمل اسی پرہے،وہ خطبے کے وقت امام کی طرف رخ کرنا مستحب سمجھتے ہیں اور یہی سفیان ثوری،شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۵-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ بَيْنَا النَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَصَلَّيْتَ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَارْكَعْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا تو آپ نے اُسے پوچھا: کیا تم نے صلاۃ پڑھ لی؟ اس نے کہا: نہیں،آپ نے فرمایا: اٹھو اور(دورکعت) صلاۃ پڑھ لو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے اوراس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ دَخَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَمَرْوَانُ يَخْطُبُ فَقَامَ يُصَلِّي فَجَاءَ الْحَرَسُ لِيُجْلِسُوہُ فَأَبَی حَتَّی صَلَّی فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَيْنَاہُ فَقُلْنَا رَحِمَكَ اللہُ إِنْ كَادُوا لَيَقَعُوا بِكَ فَقَالَ مَا كُنْتُ لِأَتْرُكَہُمَا بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي ہَيْئَةٍ بَذَّةٍ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَأَمَرَہُ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ كَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ إِذَا جَاءَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ وَكَانَ يَأْمُرُ بِہِ وَكَانَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ يَرَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ ثِقَةً مَأْمُونًا فِي الْحَدِيثِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا دَخَلَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَإِنَّہُ يَجْلِسُ وَلَا يُصَلِّي وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ خَالِدٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ رَأَيْتُ الْحَسَنَ الْبَصْرِيَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ إِنَّمَا فَعَلَ الْحَسَنُ اتِّبَاعًا لِلْحَدِيثِ وَہُوَ رَوَی عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثَ

عیاض بن عبد اللہ بن ابی سرح سے روایت ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن (مسجدمیں)داخل ہوئے،مروان بن حکم خطبہ دے رہے تھے،وہ کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھنے لگے،پہریدار آئے تاکہ انہیں بٹھادیں لیکن وہ نہیں ما نے اورصلاۃ پڑھ ہی لی،جب وہ صلاۃسے فارغ ہوئے تو ہم نے ان کے پاس آکر کہا: اللہ آپ پررحم فرمائے قریب تھاکہ یہ لوگ آپ سے ہاتھاپائی کربیٹھتے،تو انہوں نے کہا: میں تو یہ دونوں رکعتیں ہرگزچھوڑنے والاتھا نہیں،بعداس کے کہ میں نے رسول اللہﷺکو ایساکرتے دیکھاہے،پھر انہوں نے بیان کیاکہ ایک شخص جمعہ کے دن پراگندہ حالت میں آیا،نبی اکرمﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اسے دورکعت پڑھنے کا حکم دیا،اس نے دورکعتیں پڑھیں اورنبی اکرمﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ جب مسجد میں آتے اورامام خطبہ دے رہاہوتاتو دورکعتیں پڑھتے تھے،وہ اس کا حکم بھی دیتے تھے،اور ابوعبد الرحمن المقری بھی اسے درست سمجھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-میں نے ابن ابی عمر کوکہتے سناکہ سفیان بن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ ہیں اور حدیث میں مامون ہیں،۳-اس باب میں جابر،ابوہریرہ اورسہل بن سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں اوربعض کہتے ہیں کہ جب کوئی مسجد میں داخل ہواور امام خطبہ دے رہاہوتووہ بیٹھ جائے صلاۃنہ پڑھے،یہی سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا قول ہے،۵-پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔علاء بن خالدقرشی کہتے ہیں: میں نے حسن بصری کودیکھا کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوئے اورامام خطبہ دے رہاتھا،تو انہوں نے دورکعت صلاۃ پڑھی،پھر بیٹھے،حسن بصری نے ایسا حدیث کی اتباع میں کیا،یہ حدیث انہوں نے جابرسے اورجابرنے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ وَعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو مَرْحُومٍ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُہُمْ مِنْہُمْ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُہُ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَيَانِ بِالْحِبْوَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ بَأْسًا

معاذبن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے جمعہ کے دن جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو گھٹنوں کوپیٹ کے ساتھ ملاکربیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-عام اہل علم نے جمعہ کے دن حبوہ کومکروہ جاناہے،اوربعض نے اس کی رخصت دی ہے،انہیں میں سے عبداللہ بن عمروغیرہ ہیں۔احمداوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،یہ دونوں امام کے خطبہ دینے کی حالت میں حبوہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ مَا كُنَّا نَتَغَذَّی فِي عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَلَا نَقِيلُ إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جمعہ کے بعدہی کھاناکھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سہل بن سعد کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الْكُوفِيُّ،حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَی إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيُّ،عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی،عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَغْتَسِلُوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ،وَلْيَمَسَّ أَحَدُہُمْ مِنْ طِيبِ أَہْلِہِ،فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَالْمَاءُ لَہُ طِيبٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،وَشَيْخٍ مِنْ الأَنْصَارِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کریں اورہرایک اپنے گھروالوں کی خوشبو میں سے خوشبولگائے،اگراسے خوشبو میسرنہ ہوتو پانی ہی اس کے لیے خوشبو ہے۔اس باب میں ابوسعید رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری شیخ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ بِہَذَا الإِسْنَادِ: نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ،وَرِوَايَةُ ہُشَيْمٍ أَحْسَنُ مِنْ رِوَايَةِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ،وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ

اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-براء رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-ہشیم کی روایت(رقم۵۲۹) اسماعیل بن ابراہیم تیمی کی روایت (رقم۵۲۸) سے زیادہ اچھی ہے،۳-اسماعیل بن ابراہیم تیمی کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف گرداناجاتاہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ ہُوَ ابْنُ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يُصَلُّونَ فِي الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ يَخْطُبُونَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ صَلَاةَ الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ وَيُقَالُ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ خَطَبَ قَبْلَ الصَّلَاةِ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اورابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما عیدین کی صلاۃخطبہ سے پہلے پڑھتے اور اس کے بعد خطبہ دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عیدین کی صلاۃ خطبہ سے پہلے ہوگی،۴-اور کہا جاتاہے کہ سب سے پہلے جس نے صلاۃ سے پہلے خطبہ دیاوہ مروان بن حکم تھا ۱ ؎۔ وضاحت ۱ ؎: مگرایک صحابی رسول ﷺنے اُسے اس بدعت کی ایجاد سے روک دیا تھا رضی اللہ عنہ وارضاہ۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الْعِيدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّہُ لَا يُؤَذَّنُ لِصَلَاةِ الْعِيدَيْنِ وَلَا لِشَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ عیدین کی صلاۃ ایک اور دوسے زیادہ بار یعنی متعدد بار بغیر اذان اور بغیر اقامت کے پڑھی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ا س باب میں جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ عیدین کی صلاۃ کے لیے اذان نہیں دی جائے گی اورنہ نوافل میں سے کسی کے لیے۔

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو أَبُو عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدِينِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ فِي الْأُولَی سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَفِي الْآخِرَةِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَدِّ كَثِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَاسْمُہُ عَمْرُو بْنُ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّہُ صَلَّی بِالْمَدِينَةِ نَحْوَ ہَذِہِ الصَّلَاةِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْمَدِينَةِ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ قَالَ فِي التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ تِسْعَ تَكْبِيرَاتٍ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَی خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ يَبْدَأُ بِالْقِرَاءَةِ ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا مَعَ تَكْبِيرَةِ الرُّكُوعِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ

عمروبن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عیدین میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات اوردوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عائشہ،ابن عمراور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-کثیر کے دادا کی حدیث حسن ہے اور یہ سب سے اچھی روایت ہے جو نبی اکرمﷺ سے اس باب میں روایت کی گئی ہے۔۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۴-اورابوہریرہ سے بھی اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے مدینے میں اسی طرح یہ صلاۃ پڑھی،۵-اوریہی اہل مدینہ کابھی قول ہے،اوریہی مالک بن انس،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۶-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عیدین کی تکبیروں کے بارے میں کہاہے کہ یہ نو تکبیریں ہیں۔پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہے ۱؎ اور دوسری رکعت میں پہلے قرأت کرے پھر رکوع کی تکبیر کے ساتھ چار تکبیریں کہے ۲؎ کئی صحابہ کرام سے بھی اسی طرح کی روایت مروی ہے۔اہل کوفہ کا بھی قول یہی ہے اوریہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَال سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَہَا وَلَا بَعْدَہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ رَأَی طَائِفَةٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ الصَّلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ وَقَبْلَہَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ عید الفطر کے دن نکلے،آپ نے دو رکعت صلاۃ پڑھی،پھر آپ نے نہ اس سے پہلے کوئی صلاۃ پڑھی اورنہ اس کے بعد۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن عمرو اور ابوسعید سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،اوریہی شافعی،احمد،اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ عیدین کی صلاۃ کے پہلے اور اس کے بعد صلاۃ پڑھ سکتے ہیں لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ أَبَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِيِّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ وَہُوَ ابْنُ عُمَرَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ خَرَجَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَلَمْ يُصَلِّ قَبْلَہَا وَلَا بَعْدَہَا وَذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ فَعَلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ عید کے دن نکلے تو انہوں نے نہ اس سے پہلے کوئی صلاۃ پڑھی اور نہ اس کے بعد اور ذکر کیاکہ نبی اکرمﷺ نے ایسے ہی کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ وَاصِلِ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی الْكُوفِيُّ وَأَبُو زُرْعَةَ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ الْعِيدِ فِي طَرِيقٍ رَجَعَ فِي غَيْرِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَأَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی أَبُو تُمَيْلَةَ وَيُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ وَقَدْ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لِلْإِمَامِ إِذَا خَرَجَ فِي طَرِيقٍ أَنْ يَرْجِعَ فِي غَيْرِہِ اتِّبَاعًا لِہَذَا الْحَدِيثِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَحَدِيثُ جَابِرٍ كَأَنَّہُ أَصَحُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب عید کے دن ایک راستے سے نکلتے تو دوسرے سے واپس آتے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابورافع رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں،۳-ابوتمیلہ اور یونس بن محمد نے یہ حدیث بطریق: فلیح بن سلیمان،عن سعید بن الحارث،عن جابر بن عبداللہ کی ہے،۴-بعض اہل علم نے اس حدیث کی پیروی میں امام کے لیے مستحب قرار دیاہے کہ جب ایک راستے سے جائے تو دوسرے سے واپس آئے۔شافعی کا یہی قول ہے،اور جابر کی حدیث(بمقابلہ ابویرہرہ) گویا زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ عَنْ ثَوَابِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّی يَطْعَمَ وَلَا يَطْعَمُ يَوْمَ الْأَضْحَی حَتَّی يُصَلِّيَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الْأَسْلَمِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ و قَالَ مُحَمَّدٌ لَا أَعْرِفُ لِثَوَابِ بْنِ عُتْبَةَ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَخْرُجَ يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّی يَطْعَمَ شَيْئًا وَيُسْتَحَبُّ لَہُ أَنْ يُفْطِرَ عَلَی تَمْرٍ وَلَا يَطْعَمَ يَوْمَ الْأَضْحَی حَتَّی يَرْجِعَ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ عید الفطر کے دن جب تک کھا نہ لیتے نکلتے نہیں تھے اور عید الا ٔضحی کے دن جب تک صلاۃنہ پڑھ لیتے کھاتے نہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ثواب بن عتبہ کی اس کے علاوہ کوئی حدیث مجھے نہیں معلوم،۳-اس باب میں علی اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-بعض اہل علم نے مستحب قراردیاہے کہ آدمی عید الفطر کی صلاۃ کے لیے کچھ کھائے بغیر نہ نکلے اوراس کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ کھجور ۱؎ کا ناشتہ کرے اور عید الا ٔضحی کے دن نہ کھائے جب تک کہ لوٹ کرنہ آجائے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُفْطِرُ عَلَی تَمَرَاتٍ يَوْمَ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَی الْمُصَلَّی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ عید الفطر کے دن صلاۃ کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں کھالیتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَمِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ بِالنَّاسِ يَسْتَسْقِي فَصَلَّی بِہِمْ رَكْعَتَيْنِ جَہَرَ بِالْقِرَاءَةِ فِيہَا وَحَوَّلَ رِدَاءَہُ وَرَفَعَ يَدَيْہِ وَاسْتَسْقَی وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَآبِي اللَّحْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلَی ہَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَعَمُّ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ

عباد بن تمیم کے چچاعبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ بارش طلب کرنے کے لیے لوگوں کو ساتھ لے کر باہر نکلے،آپ نے انہیں دورکعت صلاۃ پڑھائی،جس میں آپ نے بلندآوازسے قرأت کی،اپنی چادر پلٹی،اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہوکربارش کے لیے دعاکی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،ابوہریرہ،انس اور آبی اللحم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،اوراسی کے شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِلَالٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَی آبِي اللَّحْمِ عَنْ آبِي اللَّحْمِ أَنَّہُ رَأَی رَسُولَ اللہِ ﷺ عِنْدَ أَحْجَارِ الزَّيْتِ يَسْتَسْقِي وَہُوَ مُقْنِعٌ بِكَفَّيْہِ يَدْعُو قَالَ أَبُو عِيسَی كَذَا قَالَ قُتَيْبَةُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ آبِي اللَّحْمِ وَلَا نَعْرِفُ لَہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا ہَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ وَعُمَيْرٌ مَوْلَی آبِي اللَّحْمِ قَدْ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ وَلَہُ صُحْبَةٌ

آبی اللحم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کواحجارزیت ۱؎ کے پاس اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرتے ہوئے دیکھا۔آپ اپنی دونوں ہتھیلیاں اٹھائے دعافرمارہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-قتیبہ نے اس حدیث کی سند میں اسی طرح عن آبی اللحم کہا ہے اور ہم اس حدیث کے علاوہ ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو۲-عمیر،آبی اللحم رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ہیں،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔اورانہیں خودبھی شرف صحابیت حاصل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ إِسْحَاقَ وَہُوَ ابْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ كِنَانَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ: أَرْسَلَنِي الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ،وَہُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ،إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ أَسْأَلُہُ عَنْ اسْتِسْقَاءِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأَتَيْتُہُ،فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ مُتَبَذِّلاً مُتَوَاضِعًا مُتَضَرِّعًا،حَتَّی أَتَی الْمُصَلَّی،فَلَمْ يَخْطُبْ خُطْبَتَكُمْ ہَذِہِ،وَلَكِنْ لَمْ يَزَلْ فِي الدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ وَالتَّكْبِيرِ،وَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ كَمَا كَانَ يُصَلِّي فِي الْعِيدِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ کہتے ہیں کہ مجھے ولید بن عقبہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا (ولید مدینے کے امیر تھے) تاکہ میں ان سے رسول اللہﷺ کے استسقاء کے بارے میں پوچھوں،تومیں ان کے پاس آیا (اورمیں نے ان سے پوچھا)تو انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ پھٹے پُرانے لباس میں عاجزی کرتے ہوئے نکلے،یہاں تک کہ عید گاہ آئے،اور آپ نے تمہارے اس خطبہ کی طرح خطبہ نہیں دیا بلکہ آپ برابر دعاکرنے،گڑگڑا نے اور اللہ کی بڑائی بیان کرنے میں لگے رہے،اورآپ نے دو رکعتیں پڑھیں جیساکہ آپ عید میں پڑھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ وضاحت ۱؎: اسی سے امام شافعی وغیرہ نے دلیل پکڑی ہے کہ استسقاء میں بھی بارہ تکبیرات زوائدسے دورکعتیں پڑھی جائیں گی،جبکہ جمہورصلاۃجمعہ کی طرح پڑھنے کے قائل ہیں اوراس حدیث میں کما یصلی فی العیدسے مرادیہ بیان کیا ہے کہ جیسے: آبادی سے باہرجہری قراءت سے خطبہ سے پہلے دورکعت عیدکی صلاۃ پڑھی جاتی ہے،اوردیگراحادیث وآثارسے یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے،صاحب تحفہ نے اسی کی تائید کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ كِنَانَةَ عَنْ أَبِيہِ فَذَكَرَ نَحْوَہُ وَزَادَ فِيہِ مُتَخَشِّعًا. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ: يُصَلِّي صَلاَةَ الاِسْتِسْقَاءِ نَحْوَ صَلاَةِ الْعِيدَيْنِ،يُكَبِّرُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَی سَبْعًا،وَفِي الثَّانِيَةِ خَمْسًا،وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَرُوِي عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّہُ قَالَ: لاَ يُكَبِّرُ فِي صَلاَةِ الاِسْتِسْقَاءِ كَمَا يُكَبِّرُ فِي صَلاَةِ الْعِيدَيْنِ. وَقَالَ النُّعْمَانُ أَبُو حَنِيفَةَ: لاَ تُصَلَّی صَلاَةُ الاِسْتِسْقَاءِ،وَلاَ آمُرُہُمْ بِتَحْوِيلِ الرِّدَاءِ،وَلَكِنْ يَدْعُونَ وَيَرْجِعُونَ بِجُمْلَتِہِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَی: خَالَفَ السُّنَّةَ

اسحاق بن عبداللہ بن کنانہ سے روایت ہے،آگے انہوں نے اسی طرح ذکر کیا البتہ اس میں انہوں نے لفظ منخشعاً کا اضافہ کیاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوریہی شافعی کا قول ہے،وہ کہتے ہیں کہ صلاۃِ استسقاء عیدین کی صلاۃ کی طرح پڑھی جائے گی۔پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری میں پانچ،اور انہوں نے ابن عباس کی حدیث سے استدلال کیاہے،۳-مالک بن انس سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ استسقاء میں عیدین کی صلاۃ کی تکبیروں کی طرح تکبیریں نہیں کہے گا،۴-ابوحنیفہ نعمان کہتے ہیں کہ استسقا ء کی کوئی صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ میں انہیں چادر پلٹنے ہی کا حکم دیتاہوں،بلکہ سارے لوگ ایک ساتھ دعاکریں گے اور لوٹ آئیں گے،۵-ان کایہ قول سنت کے مخالف ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُحَارِبِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كُنْتَ فِي الصَّلَاةِ فَلَا تَبْزُقْ عَنْ يَمِينِكَ وَلَكِنْ خَلْفَكَ أَوْ تِلْقَاءَ شِمَالِكَ أَوْ تَحْتَ قَدَمِكَ الْيُسْرَی قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ طَارِقٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً قَالَ و قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ أَثْبَتُ أَہْلِ الْكُوفَةِ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ

طارق بن عبداللہ محاربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم صلاۃ میں ہوتو اپنے دائیں طرف نہ تھوکو،اپنے پیچھے یا اپنے بائیں طرف یا پھر بائیں پاؤں کے نیچے(تھوکو)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-طارق رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعید،ابن عمر،انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا عمل اسی پرہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْبُزَاقُ فِي الْمَسْجِدِ خَطِيئَةٌ وَكَفَّارَتُہَا دَفْنُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:مسجد میں تھوکنا گناہ ہے۔اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَجَدَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِيہَا يَعْنِي النَّجْمَ وَالْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ السُّجُودَ فِي سُورَةِ النَّجْمِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَيْسَ فِي الْمُفَصَّلِ سَجْدَةٌ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ وَبِہِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس میں یعنی سورہ نجم میں سجدہ کیا اور مسلمانوں،مشرکوں،جنوں اور انسانوں نے بھی سجدہ کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے،ان کی رائے میں سورہ نجم میں سجدہ ہے،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مُفَصل کی سورتوں میں سجدہ نہیں ہے۔اوریہی مالک بن انس کابھی قول ہے،لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ قَرَأْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ النَّجْمَ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَتَأَوَّلَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ إِنَّمَا تَرَكَ النَّبِيُّ ﷺ السُّجُودَ لِأَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حِينَ قَرَأَ فَلَمْ يَسْجُدْ لَمْ يَسْجُدْ النَّبِيُّ ﷺ وَقَالُوا السَّجْدَةُ وَاجِبَةٌ عَلَی مَنْ سَمِعَہَا فَلَمْ يُرَخِّصُوا فِي تَرْكِہَا وَقَالُوا إِنْ سَمِعَ الرَّجُلُ وَہُوَ عَلَی غَيْرِ وُضُوءٍ فَإِذَا تَوَضَّأَ سَجَدَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَبِہِ يَقُولُ إِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِنَّمَا السَّجْدَةُ عَلَی مَنْ أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ فِيہَا وَالْتَمَسَ فَضْلَہَا وَرَخَّصُوا فِي تَرْكِہَا إِنْ أَرَادَ ذَلِكَ وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَيْثُ قَالَ قَرَأْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ النَّجْمَ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيہَا فَقَالُوا لَوْ كَانَتْ السَّجْدَةُ وَاجِبَةً لَمْ يَتْرُكْ النَّبِيُّ ﷺ زَيْدًا حَتَّی كَانَ يَسْجُدَ وَيَسْجُدَ النَّبِيُّ ﷺ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّہُ قَرَأَ سَجْدَةً عَلَی الْمِنْبَرِ فَنَزَلَ فَسَجَدَ ثُمَّ قَرَأَہَا فِي الْجُمُعَةِ الثَّانِيَةَ فَتَہَيَّأَ النَّاسُ لِلسُّجُودِ فَقَالَ إِنَّہَا لَمْ تُكْتَبْ عَلَيْنَا إِلَّا أَنْ نَشَاءَ فَلَمْ يَسْجُدْ وَلَمْ يَسْجُدُوا فَذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے سامنے سورہ نجم پڑھی مگرآپ نے سجدہ نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم نے اس حدیث کی تاویل کی ہے،انہوں نے کہاہے کہ نبی اکرمﷺ نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جس وقت یہ سورہ پڑھی تو خود انہوں نے بھی سجدہ نہیں کیا،اس لیے نبی اکرمﷺ نے بھی سجدہ نہیں کیا۔وہ کہتے ہیں: یہ سجدہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو اسے سنے،ان لوگوں نے اسے چھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے،وہ کہتے ہیں کہ آدمی اگر اسے سنے اور وہ بلاوضو ہوتو جب وضو کرلے سجدہ کرے۔اوریہی سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا قول ہے،اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔اوربعض اہل علم کہتے ہیں: یہ سجدہ صرف اس پر ہے جو سجدہ کرنے کا ارادہ کرے،اور اس کی خیر وبرکت کا طلب گار ہو،انہوں نے اسے ترک کرنے کی اجازت دی ہے،اگر وہ ترک کرنا چاہے،۳-اورانہوں نے حدیث مرفوع یعنی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث سے جس میں ہے میں نے نبی اکرمﷺ کے سامنے سورہ نجم پڑھی،لیکن آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔استدلال کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگریہ سجدہ واجب ہوتا تو نبی اکرمﷺ زید کو سجدہ کرائے بغیرنہ چھوڑ تے اورخود نبی اکرمﷺ بھی سجدہ کرتے۔اوران لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی استدلال ہے کہ انہوں نے منبر پر سجدہ کی آیت پڑھی اورپھر اُترکر سجدہ کیا،اسے دوسرے جمعہ میں پھر پڑھا،لوگ سجدے کے لیے تیارہوے تو انہوں نے کہا: یہ ہم پر فرض نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم چاہیں توچنانچہ نہ تو انہوں نے سجدہ کیا اور نہ لوگوں نے کیا،بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ مِشْرَحِ بْنِ ہَاعَانَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ فُضِّلَتْ سُورَةُ الْحَجِّ بِأَنَّ فِيہَا سَجْدَتَيْنِ قَالَ نَعَمْ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْہُمَا فَلَا يَقْرَأْہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَابْنِ عُمَرَ أَنَّہُمَا قَالَا فُضِّلَتْ سُورَةُ الْحَجِّ بِأَنَّ فِيہَا سَجْدَتَيْنِ وَبِہِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرَأَی بَعْضُہُمْ فِيہَا سَجْدَةً وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكٍ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سور ہ حج کویہ شرف بخشاگیا ہے کہ ا س میں دوسجدے ہیں۔آپ نے فرمایا: ہاں،جویہ دونوں سجدے نہ کرے وہ اسے نہ پڑھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کی سند کوئی خاص قوی نہیں ہے،۲-اس سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،عمر بن خطاب اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سورۂ حج کویہ شرف بخشاگیاہے کہ اس میں دوسجدے ہیں۔ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،۳-اوربعض کی رائے ہے کہ اس میں ایک سجدہ ہے۔یہ سفیان ثوری،مالک اور اہل کوفہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ قَالَ قَالَ لِي ابْنُ جُرَيْجٍ يَا حَسَنُ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي رَأَيْتُنِي اللَّيْلَةَ وَأَنَا نَائِمٌ كَأَنِّي أُصَلِّي خَلْفَ شَجَرَةٍ فَسَجَدْتُ فَسَجَدَتْ الشَّجَرَةُ لِسُجُودِي فَسَمِعْتُہَا وَہِيَ تَقُولُ اللہُمَّ اكْتُبْ لِي بِہَا عِنْدَكَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّي بِہَا وِزْرًا وَاجْعَلْہَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْہَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَہَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ قَالَ الْحَسَنُ قَالَ لِيَ ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ لِي جَدُّكَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَرَأَ النَّبِيُّ ﷺ سَجْدَةً ثُمَّ سَجَدَ قَالَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَمِعْتُہُ وَہُوَ يَقُولُ مِثْلَ مَا أَخْبَرَہُ الرَّجُلُ عَنْ قَوْلِ الشَّجَرَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے آج رات اپنے کو دیکھا اور میں سورہاتھا(یعنی خواب میں دیکھا) کہ میں ایک درخت کے پیچھے صلاۃ پڑھ رہاہوں،میں نے سجدہ کیا تو میرے سجدے کے ساتھ اس درخت نے بھی سجدہ کیا،پھرمیں نے اسے سنا،وہ کہہ رہاتھا: اللّہُمَّ اکْتُبْ لِی بِہَا عِنْدَکَ أَجْرًا،وَضَعْ عَنِّی بِہَا وِزْرًا،وَاجْعَلْہَا لِی عِنْدَکَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْہَا مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَہَا مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ (اے اللہ! اس کے بدلے تو میرے لیے اجر لکھ دے،اور اس کے بدلے میرا بوجھ مجھ سے ہٹادے،اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنالے،اور اسے مجھ سے تو اسی طرح قبول فرماجیسے تونے اپنے بندے داود سے قبول کیاتھا)۔ حسن بن محمدبن عبیداللہ بن أبی یزید کہتے ہیں: مجھ سے ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے تمہارے دادا نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہاکہ نبی اکرمﷺ نے آیت سجدے کی تلاوت کی اور سجدہ کیا،ابن عباس کہتے ہیں: تو میں نے آپ کو ویسے ہی کہتے سنا جیسے اس شخص نے اس درخت کے الفاظ بیان کئے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ سَجَدَ وَجْہِي لِلَّذِي خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

-ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺرات کے وقت قرآن کے سجدوں کہتے: سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ(میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا ہے جس نے اسے بنایا،اور اپنی طاقت وقوت سے ا س کے کان اوراس کی آنکھیں پھاڑیں)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ وَہُوَ أَبُو الْحَارِثِ الْبَصْرِيُّ ثِقَةٌ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ مُحَمَّدٌ ﷺ أَمَا يَخْشَی الَّذِي يَرْفَعُ رَأْسَہُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يُحَوِّلَ اللہُ رَأْسَہُ رَأْسَ حِمَارٍ قَالَ قُتَيْبَةُ قَالَ حَمَّادٌ قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ وَإِنَّمَا قَالَ أَمَا يَخْشَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ہُوَ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ وَيُكْنَی أَبَا الْحَارِثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محمدرسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا جو شخص امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتاہے اس بات سے نہیں ڈر تا کہ اللہ اس کے سرکو گدھے کا سر بنادے؟۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ كَانَ يُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ الْمَغْرِبَ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَی قَوْمِہِ فَيَؤُمُّہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا إِذَا أَمَّ الرَّجُلُ الْقَوْمَ فِي الْمَكْتُوبَةِ وَقَدْ كَانَ صَلَّاہَا قَبْلَ ذَلِكَ أَنَّ صَلَاةَ مَنْ ائْتَمَّ بِہِ جَائِزَةٌ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ جَابِرٍ فِي قِصَّةِ مُعَاذٍ وَہُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ وَرُوِي عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالْقَوْمُ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ وَہُوَ يَحْسِبُ أَنَّہَا صَلَاةُ الظُّہْرِ فَائْتَمَّ بِہِمْ قَالَ صَلَاتُہُ جَائِزَةٌ وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ إِذَا ائْتَمَّ قَوْمٌ بِإِمَامٍ وَہُوَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَہُمْ يَحْسِبُونَ أَنَّہَا الظُّہْرُ فَصَلَّی بِہِمْ وَاقْتَدَوْا بِہِ فَإِنَّ صَلَاةَ الْمُقْتَدِي فَاسِدَةٌ إِذْ اخْتَلَفَ نِيَّةُ الْإِمَامِ وَنِيَّةُ الْمَأْمُومِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رسول اللہﷺ کے ساتھ مغرب پڑھتے تھے،پھر اپنی قوم کے لوگوں میں لوٹ کر آتے اوران کی امامت کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہمارے اصحاب یعنی شافعی احمداوراسحاق کااسی پرعمل ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آدمی فرض صلاۃ میں اپنی قوم کی امامت کرے اور وہ اس سے پہلے یہ صلاۃ پڑھ چکاہو توجن لوگوں نے اس کی اقتداء کی ہے ان کی صلاۃ درست ہے۔ان لوگوں نے معاذ رضی اللہ عنہ کے قصے سے جوجابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے اُس سے دلیل پکڑی ہے،۳-ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو مسجد میں د اخل ہوااور لوگ صلاۃِعصر میں مشغول تھے اور وہ سمجھ رہاتھا کہ ظہر ہے تو اس نے ان کی اقتداء کرلی،تو ابوالدرداء نے کہا: اس کی صلاۃ جائز ہے،۴-اہل کوفہ کی ایک جماعت کاکہناہے کہ جب کچھ لوگ کسی امام کی اقتداء کریں اور وہ عصر پڑھ رہاہو اور لوگ سمجھ رہے ہوں کہ وہ ظہرپڑھ رہا ہے اور وہ انہیں صلاۃ پڑھا دے اورلوگ اس کی اقتداء میں صلاۃ پڑھ لیں تو مقتدی کی صلاۃ فاسد ہے کیونکہ کہ امام کی نیت اور مقتدی کی نیت مختلف ہوگئی ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي وَالنَّبِيُّ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ مَعَہُ فَلَمَّا جَلَسْتُ بَدَأْتُ بِالثَّنَاءِ عَلَی اللہِ ثُمَّ الصَّلَاةِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ دَعَوْتُ لِنَفْسِي فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ سَلْ تُعْطَہْ سَلْ تُعْطَہْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا الْحَدِيثُ رَوَاہُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ آدَمَ مُخْتَصَرًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہـ میں صلاۃ پڑھ رہاتھا،اور نبی اکرمﷺ موجودتھے،ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما (بھی) آپ کے ساتھ تھے،جب میں (قعدہ اخیرہ میں)بیٹھا تو پہلے میں نے اللہ کی تعریف کی پھر نبی اکرمﷺ پر درود بھیجا،پھراپنے لیے دعا کی،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مانگو،تمہیں دیاجائے گا،مانگ تمہیں دیاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،۳-یہ حدیث احمد بن حنبل نے یحییٰ بن آدم سے مختصراً روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا عَنْ صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنَ النَّہَارِ؟ فَقَالَ: إِنَّكُمْ لاَ تُطِيقُونَ ذَاكَ. فَقُلْنَا: مَنْ أَطَاقَ ذَاكَ مِنَّا. فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ ہَاہُنَا كَہَيْئَتِہَا مِنْ ہَاہُنَا عِنْدَ الْعَصْرِ صَلَّی رَكْعَتَيْنِ،وَإِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مِنْ ہَاہُنَا كَہَيْئَتِہَا مِنْ ہَاہُنَا عِنْدَ الظُّہْرِ صَلَّی أَرْبَعًا،وَصَلَّی أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّہْرِ،وَبَعْدَہَا رَكْعَتَيْنِ،وَقَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا،يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِالتَّسْلِيمِ عَلَی الْمَلاَئِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ،وَالنَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ،وَمَنْ تَبِعَہُمْ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ.

عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺکے دن کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا؟ توانہوں نے کہا: تم اس کی طاقت نہیں رکھتے،اس پرہم نے کہا: ہم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ جب سورج اس طرف (یعنی مشرق کی طرف) اس طرح ہوجاتا جیسے کہ عصر کے وقت اس طرف (یعنی مغرب کی طرف) ہوتا ہے تو دورکعتیں پڑھتے،اور جب سورج اس طرف (مشرق میں) اس طرح ہوجاتا جیسے کہ اس طرف (مغرب میں) ظہر کے وقت ہوتا ہے تو چار رکعت پڑھتے،اور چار رکعت ظہرسے پہلے پڑھتے اوردورکعت اس کے بعد اور عصر سے پہلے چار رکعت پڑھنے،ہر دو رکعت کے درمیان مقرب فرشتوں اور انبیاء ورسل پراور مومنوں اور مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے ان پر سلام پھیر کرفصل کرتے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. و قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ: أَحْسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي تَطَوُّعِ النَّبِيِّ ﷺ فِي النَّہَارِ ہَذَا. وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ: أَنَّہُ كَانَ يُضَعِّفُ ہَذَا الْحَدِيثَ. وَإِنَّمَا ضَعَّفَہُ عِنْدَنَا-وَاللہُ أَعْلَمُ-لأَنَّہُ لاَ يُرْوَی مِثْلُ ہَذَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ،عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ. وَعَاصِمُ بْنُ ضَمْرَةَ ہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: قَالَ سُفْيَانُ: كُنَّا نَعْرِفُ فَضْلَ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَلَی حَدِيثِ الْحَارِثِ

اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے دن کی نفل صلاۃ کے سلسلے میں مروی چیزوں میں سب سے بہتر یہی روایت ہے،۳-عبداللہ بن مبارک اس حدیث کو ضعیف قراردیتے تھے۔اور ہمارے خیال میں انہوں نے اسے صرف اس لیے ضعیف قراردیا ہے کہ اس جیسی حدیث نبی اکرمﷺ سے صرف اسی سند سے۔(یعنی: عاصم بن ضمرہ کے واسطے سے علی رضی اللہ عنہ سے) مروی ہے،۴-سفیان ثوری کہتے ہیں: ہم عاصم بن ضمرہ کی حدیث کو حارث (اعور) کی حدیث سے افضل جانتے تھے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ عَبْدَ اللہِ عَنْ ہَذَا الْحَرْفِ غَيْرِ آسِنٍ أَوْ يَاسِنٍ قَالَ كُلَّ الْقُرْآنِ قَرَأْتَ غَيْرَ ہَذَا الْحَرْفِ قَالَ نَعَمْ قَالَ إِنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَہُ يَنْثُرُونَہُ نَثْرَ الدَّقَلِ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَہُمْ إِنِّي لَأَعْرِفُ السُّوَرَ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقْرُنُ بَيْنَہُنَّ قَالَ فَأَمَرْنَا عَلْقَمَةَ فَسَأَلَہُ فَقَالَ عِشْرُونَ سُورَةً مِنْ الْمُفَصَّلِ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْرُنُ بَيْنَ كُلِّ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوو ائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں: ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے لفظ غَیْرِ آسِنٍ یا یَاسِنٍ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا: کیا تم نے اس کے علاوہ پورا قرآن پڑھ لیاہے؟اس نے کہا:جی ہاں،انہوں نے کہاـ: ایک قوم اسے ایسے پڑھتی ہے جیسے کوئی خراب کھجورجھاڑرہاہو،یہ ان کے گلے سے آگے نہیں بڑھتا،میں ان متشابہ سورتوں کو جانتاہوں جنہیں رسول اللہﷺملا کر پڑھتے تھے۔ابووائل کہتے ہیں: ہم نے علقمہ سے پوچھنے کے لیے کہاتو انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا: انہوں نے بتایاکہ یہ مفصل کی بیس سورتیں ہیں ۱؎ نبی اکرمﷺ ہر رکعت میں دودوسورتیں ملا کر پڑھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ الْبَصْرِيُّ ثِقَة حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ صَلَّی النَّبِيُّ ﷺ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْہَلِ الْمَغْرِبَ فَقَامَ نَاسٌ يَتَنَفَّلُونَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْكُمْ بِہَذِہِ الصَّلَاةِ فِي الْبُيُوتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي بَيْتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی الْمَغْرِبَ فَمَا زَالَ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ حَتَّی صَلَّی الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ فَفِي الْحَدِيثِ دِلَالَةٌ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي الْمَسْجِدِ

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے بنی عبد الاشہل کی مسجد میں مغرب پڑھی،کچھ لوگ نفل پڑھنے کے لیے کھڑے ہوے،توآپﷺ نے فرمایا: تم لوگ اس صلاۃ کو گھروں میں پڑھنے کو لازم پکڑو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث کعب بن عجرہ کی روایت سے غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اور صحیح وہ ہے جو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ مغرب کے بعد دورکعتیں اپنے گھرمیں پڑھتے تھے،۳-حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مغرب پڑھی تو آپ برابر مسجد میں صلاۃہی پڑھتے رہے جب تک کہ آپ نے عشاء نہیں پڑھ لی۔اس حدیث میں اس بات کی دلالت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مغرب کے بعد دورکعت مسجد میں پڑھی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ أَنَّہُ أَسْلَمَ فَأَمَرَہُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَغْتَسِلَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ لِلرَّجُلِ إِذَا أَسْلَمَ أَنْ يَغْتَسِلَ وَيَغْسِلَ ثِيَابَہُ

قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا،تو نبی اکرمﷺ نے انہیں پانی اور بیری سے غسل کرنے کا حکم دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے۔ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اوراسی پراہل علم کاعمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ آدمی جب اسلام قبول کرے تو غسل کرے اور اپنے کپڑے دھوئے،۳-اس باب میں ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِيسَی عَنْ ابْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يُجْزِئُ فِي الْوُضُوءِ رِطْلَانِ مِنْ مَاءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ عَلَی ہَذَا اللَّفْظِ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ بِالْمَكُّوكِ وَيَغْتَسِلُ بِخَمْسَةِ مَكَاكِيَّ وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِيسَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وضو میں د و رطل ۱؎ پانی کافی ہوگا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ غریب ہے،ہم یہ حدیث صرف شریک ہی کی سند سے جانتے ہیں،۲-شعبہ نے عبداللہ بن عبداللہ بن جبر سے اورانہوں نے انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ ایک مکوک ۳؎ سے وضو،اور پانچ مکوک سے غسل کرتے تھے ۴؎،۳-سفیان ثوری نے بسند عبداللہ بن عیسیٰ عن عبداللہ بن جبر عن انس روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ ایک مد ۵؎ سے وضو اور ایک صاع ۶؎ سے غسل کرتے تھے،۴-یہ شریک کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ فِي بَوْلِ الْغُلَامِ الرَّضِيعِ يُنْضَحُ بَوْلُ الْغُلَامِ وَيُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِيَةِ قَالَ قَتَادَةُ وَہَذَا مَا لَمْ يَطْعَمَا فَإِذَا طَعِمَا غُسِلَا جَمِيعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَفَعَ ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ وَأَوْقَفَہُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے دودھ پیتے بچے کے پیشاب کے بارے میں فرمایا: بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں گے اور بچی کاپیشاب دھویا جائے گا۔ قتادہ کہتے ہیں: یہ اس وقت تک ہے جب تک دونوں کھانا نہ کھائیں،جب وہ کھانے لگیں تو دونوں کا پیشاب دھویا جائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،ہشام دستوائی نے یہ حدیث قتادہ سے روایت کی ہے اور سعید بن ابی عروبہ نے اسے قتادہ سے موقوفاً روایت کیاہے،انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْقَطَوَانِيُّ الْكُوفِيُّ،حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللہِ بْنُ مُوسَی،حَدَّثَنَا غَالِبٌ أَبُو بِشْرٍ،عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَائِذٍ الطَّائِيِّ،عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ،عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ،عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ: أُعِيذُكَ بِاللہِ يَاكَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ مِنْ أُمَرَاءَ يَكُونُونَ مِنْ بَعْدِي،فَمَنْ غَشِيَ أَبْوَابَہُمْ فَصَدَّقَہُمْ فِي كَذِبِہِمْ وَأَعَانَہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْہُ،وَلاَ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ،وَمَنْ غَشِيَ أَبْوَابَہُمْ أَوْ لَمْ يَغْشَ فَلَمْ يُصَدِّقْہُمْ فِي كَذِبِہِمْ وَلَمْ يُعِنْہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ فَہُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ وَسَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ،يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ! الصَّلاَةُ بُرْہَانٌ وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ حَصِينَةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ يَا كَعْبَ بْنَ عُجْرَةَ! إِنَّہُ لاَيَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلاَّ كَانَتْ النَّارُ أَوْلَی بِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ،لاَ نَعْرِفُہُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللہِ بْنِ مُوسَی. وَأَيُّوبُ بْنُ عَائِذٍ الطَّائِيُّ يُضَعَّفُ،وَيُقَالُ كَانَ يَرَی رَأْيَ الإِرْجَاءِ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْہُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللہِ بْنِ مُوسَی،وَاسْتَغْرَبَہُ جِدًّا.

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے کعب بن عجرہ! میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتاہوں ایسے امراء وحکام سے جومیرے بعد ہوں گے،جوان کے دروازے پرگیا اور ان کے جھوٹ کی تصدیق کی،اوران کے ظلم پر ان کا تعاون کیا،تو وہ نہ مجھ سے ہے اورنہ میں اس سے ہوں اورنہ وہ حوض پر میرے پا س آئے گا۔اور جو کوئی ان کے دروازے پرگیا یانہیں گیالیکن نہ جھوٹ میں ان کی تصدیق کی،اورنہ ہی ان کے ظلم پران کی مدد کی،تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔وہ عنقریب حوض کوثر پرمیرے پاس آئے گا۔اے کعب بن عجرہ! صلاۃ دلیل ہے،صوم مضبوط ڈھال ہے،صدقہ گناہوں کو بجھا دیتاہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتاہے،اے کعب بن عجرہ! جوگوشت بھی حرام سے پروان چڑھے گا،آگ ہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،ہم اسے عبیداللہ بن موسیٰ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-ایوب بن عائذ طائی ضعیف گردانے جاتے ہیں اورکہاجاتاہے کہ وہ مرجئہ جیسے خیالات رکھتے تھے۔میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو وہ اسے صرف عبیداللہ بن موسیٰ ہی کی سند سے جانتے تھے اور انہوں نے اسے بہت غریب حدیث جانا ۱؎۔

و قَالَ مُحَمَّدٌ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِاللہِ بْنِ مُوسَی عَنْ غَالِبٍ بِہَذَا.

محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں:ہم سے اسے ابن نمیر نے بیان کیاانہوں نے اسے عبید اللہ بن موسیٰ سے روایت کی ہے او ر عبیداللہ نے غالب سے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ فِي ثَلَاثِينَ مِنْ الْبَقَرِ تَبِيعٌ أَوْ تَبِيعَةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَاہُ عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ وَعَبْدُ السَّلَامِ ثِقَةٌ حَافِظٌ وَرَوَی شَرِيكٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ عَبْدِ اللہِ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللہِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللہِ أَبِيہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تیس گائے میں ایک سال کا بچھوا،یا ایک سال کی بچھیا کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دوسال کی بچھیا کی زکاۃ ہے(دانتی یعنی دودانت والی)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبدالسلام بن حرب نے اسی طرح یہ حدیث خصیف سے روایت کی ہے،اور عبدالسلام ثقہ ہیں حافظ ہیں،۲-شریک نے بھی یہ حدیث بطریق: خُصَیْفٍ،عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ روایت کی ہے،۳-اور ابوعبیدہ بن عبداللہ کا سماع اپنے والد عبداللہ سے نہیں ہے۔۴-اس باب میں معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنْ مَسْرُوقٍ،عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ ﷺ إِلَی الْيَمَنِ،فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلاَثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً،وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً،وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَہُ مَعَافِرَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنْ مَسْرُوقٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْيَمَنِ،فَأَمَرَہُ أَنْ يَأْخُذَ وَہَذَا أَصَحُّ.

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے مجھے یمن بھیجا اورحکم دیا کہ میں ہر تیس گائے پر ایک سال کا بچھوا یا بچھیازکاۃ میں لوں اور ہرچالیس پر دوسال کی بچھیا زکاۃ میں لوں،اور ہر(ذمّی) بالغ سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری ۱؎ کپڑے بطورجزیہ لوں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق: سفیان،عن الأعمش،عن أبی وائل،عن مسروق مرسلاً روایت کی ہے ۳؎ کہ نبی اکرمﷺ نے معاذ کو یمن بھیجا اور اس میں فأمرنی أن آخذ کے بجائے فأمرہ أن یأخذہے اور یہ زیادہ صحیح ہے ۴؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللہِ ہَلْ يَذْكُرُ عَنْ عَبْدِ اللہِ شَيْئًا؟ قَالَ: لاَ

عمرو بن مرّہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبیدہ بن عبداللہ سے پوچھا: کیا وہ(اپنے والد) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کوئی چیزیادرکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ صَالِحٍ الطَّلْحِيُّ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَكَاةَ عَلَيْہِ حَتَّی يَحُولَ عَلَيْہِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّہِ وَفِي الْبَاب عَنْ سَرَّاءَ بِنْتِ نَبْہَانَ الْغَنَوِيَّةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جسے کوئی مال حاصل ہوتواس پر کوئی زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر اس کے مالک کے یہاں ایک سال نہ گزرجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں سرّا ء بنت نبھان غنویہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَنْ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَكَاةَ فِيہِ حَتَّی يَحُولَ عَلَيْہِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی أَيُّوبُ وَعُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُہُمَا مِنْ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَہُوَ كَثِيرُ الْغَلَطِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنْ لَا زَكَاةَ فِي الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ حَتَّی يَحُولَ عَلَيْہِ الْحَوْلُ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَ عِنْدَہُ مَالٌ تَجِبُ فِيہِ الزَّكَاةُ فَفِيہِ الزَّكَاةُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَہُ سِوَی الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ مَا تَجِبُ فِيہِ الزَّكَاةُ لَمْ يَجِبْ عَلَيْہِ فِي الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ زَكَاةٌ حَتَّی يَحُولَ عَلَيْہِ الْحَوْلُ فَإِنْ اسْتَفَادَ مَالًا قَبْلَ أَنْ يَحُولَ عَلَيْہِ الْحَوْلُ فَإِنَّہُ يُزَكِّي الْمَالَ الْمُسْتَفَادَ مَعَ مَالِہِ الَّذِي وَجَبَتْ فِيہِ الزَّكَاةُ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَہْلُ الْكُوفَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:جسے کوئی مال حاصل ہوتو اس پرزکاۃ نہیں جب تک کہ اس کے ہاں اس مال پر ایک سال نہ گزرجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ (موقوف) حدیث عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی (مرفوع) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔۲-ایوب،عبیداللہ بن عمر اور دیگرکئی لوگوں نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر سے موقوفاً (ہی) روایت کی ہے۔۳-عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں،احمد بن حنبل،علی بن مدینی اوران کے علاوہ دیگر محدثین نے ان کی تضعیف کی ہے وہ کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں،۴-صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ حاصل شدہ مال میں زکاۃ نہیں ہے،جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے،مالک بن انس،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۵-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس پہلے سے اتنامال ہوجس میں زکاۃ واجب ہو توحاصل شدہ مال میں بھی زکاۃواجب ہوگی اور اگر اس کے پاس حاصل شدہ مال کے علاوہ کوئی اورمال نہ ہو جس میں زکاۃ واجب ہوئی ہو توکمائے ہوئے مال میں بھی کوئی زکاۃ واجب نہیں ہوگی جب تک کہ اس پر سال نہ گزرجائے،اور اگر اسے (پہلے سے نصاب کو پہنچے ہوئے) مال پر سال گزرنے سے پہلے کوئی کمایا ہوا مال ملاتو وہ اس مال کے ساتھ جس میں زکاۃ واجب ہوگئی ہے،مال مستفادکی بھی زکاۃ نکالے گاسفیان ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ،عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللہِ،عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُودٍ،قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ:يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ،فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَہْلِ جَہَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے خطاب کیااور فرمایا: اے گروہ عورتوں کی جماعت! زکاۃ دو ۱؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو۔کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ،عَنْ شُعْبَةَ،عَنْ الأَعْمَشِ قَال: سَمِعْتُ أَبَاوَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ،امْرَأَةِ عَبْدِاللہِ،عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. نَحْوَہُ.قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ،وَہِمَ فِي حَدِيثِہِ فَقَالَ: عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ،عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ. وَالصَّحِيحُ إِنَّمَا ہُوَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ إِبْنِ أَخِي زَيْنَبَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ جَدِّہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ رَأَی فِي الْحُلِيِّ زَكَاةً. وَفِي إِسْنَادِ ہَذَا الْحَدِيثِ مَقَالٌ. وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ. فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ،وَالتَّابِعِينَ فِي الْحُلِيِّ زَكَاةَ مَا كَانَ مِنْہُ ذَہَبٌ وَفِضَّةٌ. وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ. وَ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: مِنْہُمْ ابْنُ عُمَرَ،وَعَائِشَةُ،وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِاللہِ،وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: لَيْسَ فِي الْحُلِيِّ زَكَاةٌ. وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ فُقَہَاءِ التَّابِعِينَ. وَبِہِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.

اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کے واسطے سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔انہیں اپنی حدیث میں وہم ہوا ہے ۱؎ انہوں نے کہا ہے عمرو بن الحارث سے روایت ہے وہ عبداللہ بن مسعودکی بیوی زینب کے بھتیجے سے روایت کررہے ہیں اورصحیح یوں ہے زینب کے بھتیجے عمروبن حارث سے روایت ہے،۲-نیز عمروبن شعیب سے بطریق: عن أبیہ،عن جدہ،عبداللہ بن عمرو بن العاص عن النبی ﷺ روایت ہے کہ آپ نے زیورات میں زکاۃ واجب قرار دی ہے ۲؎ اس حدیث کی سند میں کلام ہے،۳-اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے۔صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم سونے چاندی کے زیورات میں زکاۃ کے قائل ہیں۔سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک بھی یہی کہتے ہیں۔اوربعض صحابہ کرام جن میں ابن عمر،عائشہ،جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم شامل ہیں،کہتے ہیں کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہے۔بعض تابعین فقہاء سے بھی اسی طرح مروی ہے،اوریہی مالک بن انس،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ امْرَأَتَيْنِ أَتَتَا رَسُولَ اللہِ ﷺ وَفِي أَيْدِيہِمَا سُوَارَانِ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ لَہُمَا أَتُؤَدِّيَانِ زَكَاتَہُ قَالَتَا لَا قَالَ فَقَالَ لَہُمَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَكُمَا اللہُ بِسُوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ قَالَتَا لَا قَالَ فَأَدِّيَا زَكَاتَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاہُ الْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ نَحْوَ ہَذَا وَالْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ وَابْنُ لَہِيعَةَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ وَلَا يَصِحُّ فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْءٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دوعورتیں رسو ل اللہ ﷺ کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دوکنگن تھے،توآپ نے ان سے فرمایا: کیا تم دونوں اس کی زکاۃ اداکرتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں،تورسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تم پسند کروگی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دوکنگن پہنائے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں،آپ نے فرمایا: توتم دونوں ان کی زکاۃ اداکرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو مثنیٰ بن صباح نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح روایت کیاہے اور مثنیٰ بن صباح اور ابن لہیعہ دونوں حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں،نبی اکرمﷺسے اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عِيسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ مُعَاذٍ أَنَّہُ كَتَبَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ يَسْأَلُہُ عَنْ الْخَضْرَاوَاتِ وَہِيَ الْبُقُولُ فَقَالَ لَيْسَ فِيہَا شَيْءٌ قَالَ أَبُو عِيسَی إِسْنَادُ ہَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِصَحِيحٍ وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْءٌ وَإِنَّمَا يُرْوَی ہَذَا عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَيْسَ فِي الْخَضْرَاوَاتِ صَدَقَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْحَسَنُ ہُوَ ابْنُ عُمَارَةَ وَہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ شُعْبَةُ وَغَيْرُہُ وَتَرَكَہُ ابْنُ الْمُبَارَكِ

معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکولکھا،وہ آپ سے سبزیوں کی زکاۃکے بارے میں پوچھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کی سندصحیح نہیں ہے،۲-اوراس باب میں نبی اکرمﷺسے کوئی چیز صحیح نہیں ہے،اور اسے صرف موسیٰ بن طلحہ سے روایت کیاجاتاہے اور انہوں نے نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کی ہے،۳-اسی پراہل علم کا عمل ہے کہ سبزیوں میں زکاۃ نہیں ہے،۴-حسن،عمارہ کے بیٹے ہیں،اوریہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔شعبہ وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے،اور ابن مبارک نے انہیں متروک قراردیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْمُثَنَّی بْنِ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ أَلَا مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَہُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيہِ وَلَا يَتْرُكْہُ حَتَّی تَأْكُلَہُ الصَّدَقَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ لِأَنَّ الْمُثَنَّی بْنَ الصَّبَّاحِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَذَكَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا الْبَابِ فَرَأَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَالِ الْيَتِيمِ زَكَاةً مِنْہُمْ عُمَرُ وَعَلِيٌّ وَعَائِشَةُ وَابْنُ عُمَرَ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ زَكَاةٌ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ہُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَشُعَيْبٌ قَدْ سَمِعَ مِنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ فِي حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ وَقَالَ ہُوَ عِنْدَنَا وَاہٍ وَمَنْ ضَعَّفَہُ فَإِنَّمَا ضَعَّفَہُ مِنْ قِبَلِ أَنَّہُ يُحَدِّثُ مِنْ صَحِيفَةِ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَمَّا أَكْثَرُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فَيَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ فَيُثْبِتُونَہُ مِنْہُمْ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَغَيْرُہُمَا

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے لوگوں سے خطاب کیاتو فرمایا: جو کسی ایسے یتیم کاولی (سرپرست) ہو جس کے پاس کچھ مال ہو تووہ اُسے تجارت میں لگادے،اسے یونہی نہ چھوڑدے کہ اسے زکاۃ کھالے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے اور اس کی سند میں کلام ہے اس لئے کہ مثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں،۲-بعض لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن شعیب سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا:... اور آگے یہی حدیث ذکر کی،۳-عمرو: شعیب کے بیٹے ہیں،اور شعیب محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص کے بیٹے ہیں۔اورشعیب نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے سماعت کی ہے،یحییٰ بن سعید نے عمروبن شعیب کی حدیث میں کلام کیاہے۔وہ کہتے ہیں: یہ ہمارے نزدیک ضعیف ہیں،اور جس نے انہیں ضعیف قراردیا ہے صرف اس وجہ سے ضعیف کہاہے کہ انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو کے صحیفے سے حدیث بیان کی ہے۔لیکن اکثر اہل حدیث علماء عمرو بن شعیب کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں اور اُسے ثابت مانتے ہیں جن میں احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہما بھی شامل ہیں،۴-اس باب میں اہل علم کا اختلاف ہے،صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں کی رائے ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ ہے،انہیں میں عمر،علی،عائشہ،اور ابن عمر ہیں۔اوریہی مالک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۵-اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ نہیں ہے۔سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ الْعَجْمَاءُ جَرْحُہَا جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جانور کا زخم رائیگاں ہے ۱؎ یعنی معاف ہے،کان رائیگاں ہے اورکنواں رائیگاں ہے ۲؎ اوررکاز(دفینے)میں سے پانچواں حصہ دیاجائے گا ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس بن مالک،عبداللہ بن عمرو،عبادہ بن صامت،عمرو بن عوف مزنی اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ تَكَلَّمَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فِي سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ وَہَكَذَا يَقُولُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَيَقُولُ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ وَالصَّحِيحُ سِنَانُ بْنُ سَعْدٍ وَقَوْلُہُ الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِہَا يَقُولُ عَلَی الْمُعْتَدِي مِنْ الْإِثْمِ كَمَا عَلَی الْمَانِعِ إِذَا مَنَعَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: زکاۃ وصول کرنے میں ظلم وزیادتی کرنے والا زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے۔اما م ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابن عمر،ام سلمہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-انس کی حدیث اس سند سے غریب ہے،۳-احمد بن حنبل نے سعد بن سنان کے سلسلہ میں کلام کیاہے۔اسی طرح لیث بن سعد بھی کہتے ہیں۔وہ بھیعن یزید بن حبیب،عن سعد بن سنان،عن أنس بن مالک کہتے ہیں،اور عمروبن حارث اور ابن لہیعہ عن یزید بن حبیب،عن سنان بن سعد،عن أنس بن مالککہتے ہیں ۱؎،۴-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ صحیح سنان بن سعد ہے،۵-او ر زکاۃ وصول کرنے میں زیادتی کرنے والازکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے پر وہی گناہ ہے جو نہ دینے والے پر ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاہِيمَ وَيُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الضُّبَعِيُّ السَّدُوسِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا بَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أُتِيَ بِشَيْءٍ سَأَلَ أَصَدَقَةٌ ہِيَ أَمْ ہَدِيَّةٌ فَإِنْ قَالُوا صَدَقَةٌ لَمْ يَأْكُلْ وَإِنْ قَالُوا ہَدِيَّةٌ أَكَلَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَأَبِي عَمِيرَةَ جَدِّ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ وَاسْمُہُ رُشَيْدُ بْنُ مَالِكٍ وَمَيْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي رَافِعٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَقِيلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَجَدُّ بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ اسْمُہُ مُعَاوِيَةُ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے: صدقہ ہے یا ہدیہ؟ اگرلوگ کہتے کہ صدقہ ہے تو آپ نہیں کھاتے اور اگر کہتے کہ ہدیہ ہے تو کھالیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-بہز بن حکیم کی یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں سلمان،ابوہریرہ،انس،حسن بن علی،ابوعمیرہ (معرّف بن واصل کے دادا ہیں ان کانام رشید بن مالک ہے)،میمون (یا مہران)،ابن عباس،عبداللہ بن عمرو،ابورافع اور عبدالرحمٰن بن علقمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نیزیہ حدیث عبدالرحمٰن بن علقمۃ،سے بھی مروی ہے انہوں نے اسے عبدالرحمٰن بن أبی عقیل سے اور عبدالرحمٰن نے نبی ﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ عَلَی الصَّدَقَةِ فَقَالَ لِأَبِي رَافِعٍ اصْحَبْنِي كَيْمَا تُصِيبَ مِنْہَا فَقَالَ لَا حَتَّی آتِيَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَسْأَلَہُ فَانْطَلَقَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَسَأَلَہُ فَقَالَ إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا وَإِنَّ مَوَالِيَ الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو رَافِعٍ مَوْلَی النَّبِيِّ ﷺ اسْمُہُ أَسْلَمُ وَابْنُ أَبِي رَافِعٍ ہُوَ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے بنی مخزوم کے ایک شخص کوصدقہ کی وصولی پربھیجاتواس نے ابورافع سے کہا: تم میرے ساتھ چلو تاکہ تم بھی اس میں سے حصہ پاسکو،مگرانہوں نے کہا: نہیں،یہاں تک کہ میں جاکر رسول اللہﷺ سے پوچھ لوں،چنانچہ انہوں نے نبی اکرمﷺکے پاس جا کرپوچھا تو آپ نے فرمایا: ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں،اور قوم کے موالی بھی قوم ہی میں سے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابورافع نبی اکرمﷺکے مولیٰ ہیں،ان کانام اسلم ہے اور ابن ابی رافع کا نام عبیداللہ بن ابی رافع ہے،وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے منشی تھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللہُ إِلَّا الطَّيِّبَ إِلَّا أَخَذَہَا الرَّحْمَنُ بِيَمِينِہِ وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً تَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّی تَكُونَ أَعْظَمَ مِنْ الْجَبَلِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فُلُوَّہُ أَوْ فَصِيلَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی وَحَارِثَةَ بْنِ وَہْبٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اوراللہ پاکیزہ چیزہی قبول کرتاہے ۱؎ تو رحمن اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتاہے ۲؎ اگرچہ وہ ایک کھجورہی ہو،یہ مال صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے،یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑا ہوجاتاہے،جیسے کہ تم میں سے ایک اپنے گھوڑے کے بچے یاگائے کے بچے کوپالتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام المومنین عائشہ،عدی بن حاتم،انس،عبداللہ بن ابی اوفیٰ،حارثہ بن وہب،عبدالرحمٰن بن عوف اوربریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ وَيَأْخُذُہَا بِيَمِينِہِ فَيُرَبِّيہَا لِأَحَدِكُمْ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ مُہْرَہُ حَتَّی إِنَّ اللُّقْمَةَ لَتَصِيرُ مِثْلَ أُحُدٍ وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ ہُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَ يَمْحَقُ اللہُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَقَدْ قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَمَا يُشْبِہُ ہَذَا مِنْ الرِّوَايَاتِ مِنْ الصِّفَاتِ وَنُزُولِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَی كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا قَالُوا قَدْ تَثْبُتُ الرِّوَايَاتُ فِي ہَذَا وَيُؤْمَنُ بِہَا وَلَا يُتَوَہَّمُ وَلَا يُقَالُ كَيْفَ ہَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُمْ قَالُوا فِي ہَذِہِ الْأَحَادِيثِ أَمِرُّوہَا بِلَا كَيْفٍ وَہَكَذَا قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ وَأَمَّا الْجَہْمِيَّةُ فَأَنْكَرَتْ ہَذِہِ الرِّوَايَاتِ وَقَالُوا ہَذَا تَشْبِيہٌ وَقَدْ ذَكَرَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كِتَابہِ الْيَدَ وَالسَّمْعَ وَالْبَصَرَ فَتَأَوَّلَتْ الْجَہْمِيَّةُ ہَذِہِ الْآيَاتِ فَفَسَّرُوہَا عَلَی غَيْرِ مَا فَسَّرَ أَہْلُ الْعِلْمِ وَقَالُوا إِنَّ اللہَ لَمْ يَخْلُقْ آدَمَ بِيَدِہِ وَقَالُوا إِنَّ مَعْنَی الْيَدِ ہَاہُنَا الْقُوَّةُ و قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ إِنَّمَا يَكُونُ التَّشْبِيہُ إِذَا قَالَ يَدٌ كَيَدٍ أَوْ مِثْلُ يَدٍ أَوْ سَمْعٌ كَسَمْعٍ أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ فَإِذَا قَالَ سَمْعٌ كَسَمْعٍ أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ فَہَذَا التَّشْبِيہُ وَأَمَّا إِذَا قَالَ كَمَا قَالَ اللہُ تَعَالَی يَدٌ وَسَمْعٌ وَبَصَرٌ وَلَا يَقُولُ كَيْفَ وَلَا يَقُولُ مِثْلُ سَمْعٍ وَلَا كَسَمْعٍ فَہَذَا لَا يَكُونُ تَشْبِيہًا وَہُوَ كَمَا قَالَ اللہُ تَعَالَی فِي كِتَابہِ لَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْءٌ وَہُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ صدقہ قبول کرتاہے اور اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتاہے اور اسے پالتاہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے کوپالتا ہے یہاں تک کہ لقمہ احدپہاڑ کے مثل ہوجاتا ہے۔اس کی تصدیق اللہ کی کتاب (قرآن) سے ہوتی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہےأَلَمْ یَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ ہُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ وَیَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ : (کیا انھیں نہیں معلوم کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور صدقات لیتاہے ۔اوروَ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ اللہ سود کو مٹاتاہے اور صدقات کو بڑھاتاہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-نیز عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے اس حدیث کے بارے میں اور اس جیسی صفات کی دوسری روایات کے بارے میں اورباری تعالیٰ کے ہررات آسمان دنیاپر اترنے کے بارے میں کہاہے کہ اس سلسلے کی روایات ثابت ہیں،ان پر ایمان لایاجائے،ان میں کسی قسم کا وہم نہ کیاجائے گا،اور نہ اس کی کیفیت پوچھی جائے۔اوراسی طرح مالک،سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے،ان لوگوں نے ان احادیث کے بارے میں کہاہے کہ ان حدیثوں کوبلا کیفیت جاری کرو ۱؎ اسی طرح کا قول اہل سنت والجماعت کے اہل علم کا ہے،البتہ جہمیہ نے ان روایات کا انکار کیاہے،وہ کہتے ہیں کہ ان سے تشبیہ لازم آتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے کئی مقامات پر ہاتھ،کان،آنکھ کا ذکر کیا ہے۔جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی ہے اوران کی ایسی تشریح کی ہے جو اہل علم کی تفسیرکے خلاف ہے،وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا،دراصل ہاتھ کے معنی یہاں قوت کے ہیں۔اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: تشبیہ تو تب ہوگی جب کوئی کہے: ید کید أو مثل ید یا سمع کسمع أو مثل سمع (یعنی اللہ کاہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح ہے،یاہمارے ہاتھ کے مانند ہے،اس کا کان ہمارے کان کی طرح ہے یاہمارے کان کے مانند ہے) تویہ تشیبہ ہوئی۔(نہ کہ صرف یہ کہنا کہ اللہ کا ہاتھ ہے،اس سے تشبیہ لازم نہیں آتی) اور جب کوئی کہے جیسے اللہ نے کہاہے کہ اس کے ہاتھ کا ن اورآنکھ ہے اوریہ نہ کہے کہ وہ کیسے ہیں اور نہ یہ کہے کہ فلاں کے کان کی مانند یا فلاں کے کان کی طرح ہے تو یہ تشبیہ نہیں ہوئی،یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا: لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ(اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سمیع ہے بصیر ہے)۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَی عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ فَقَالَ شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ قِيلَ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَصَدَقَةُ بْنُ مُوسَی لَيْسَ عِنْدَہُمْ بِذَاكَ الْقَوِيِّ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے پوچھا گیاـ: رمضان کے بعد کون سا صوم افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: شعبان کے صیام جو رمضان کی تعظیم کے لیے ہوں،پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: رمضان میں صدقہ کرنا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-صدقہ بن موسیٰ محدثین کے نزدیک زیادہ قوی راوی نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عِيسَی الْخَزَّارُ الْبَصْرِيُّ عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ عَنْ مِيتَةِ السُّوءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتاہے اور بری موت سے بچاتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ أَعْطَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَإِنَّہُ لَأَبْغَضُ الْخَلْقِ إِلَيَّ فَمَا زَالَ يُعْطِينِي حَتَّی إِنَّہُ لَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ بِہَذَا أَوْ شِبْہِہِ فِي الْمُذَاكَرَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ صَفْوَانَ رَوَاہُ مَعْمَرٌ وَغَيْرُہُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ قَالَ أَعْطَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ وَكَأَنَّ ہَذَا الْحَدِيثَ أَصَحُّ وَأَشْبَہُ إِنَّمَا ہُوَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ صَفْوَانَ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُہُمْ فَرَأَی أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُعْطَوْا وَقَالُوا إِنَّمَا كَانُوا قَوْمًا عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ كَانَ يَتَأَلَّفُہُمْ عَلَی الْإِسْلَامِ حَتَّی أَسْلَمُوا وَلَمْ يَرَوْا أَنْ يُعْطَوْا الْيَوْمَ مِنْ الزَّكَاةِ عَلَی مِثْلِ ہَذَا الْمَعْنَی وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُہُمْ مَنْ كَانَ الْيَوْمَ عَلَی مِثْلِ حَالِ ہَؤُلَاءِ وَرَأَی الْإِمَامُ أَنْ يَتَأَلَّفَہُمْ عَلَی الْإِسْلَامِ فَأَعْطَاہُمْ جَازَ ذَلِكَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حنین کے روز مجھے دیا،آپ مجھے (فتح مکہ سے قبل) تمام مخلوق میں سب سے زیادہ مبغوض تھے،اوربرابر آپ مجھے دیتے رہے یہاں تک کہ آپ مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہوگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-حسن بن علی نے مجھ سے اس حدیث یا اس جیسی چیزکومذاکرہ میں بیان کیا،۲-اس باب میں ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-صفوان کی حدیث معمر وغیرہ نے زہری سے اور زہری نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے جس میں عن صفوان بن أمیۃ کے بجائے أن صفوان بن أمیۃ قال: اعطانی رسو اللہ ﷺہے گویا یہ حدیث یونس بن یزیدکی حدیث سے زیادہ صحیح اور اشبہ ہے،یہ عن سعید بن المسیب عن صفوان کے بجائے عن سعید بن مسیب أن صفوانہی ہے ۱؎،۴-جن کا دل رجھانا اورجن کو قریب لانا مقصودہو انھیں دینے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ انہیں نہ دیاجائے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے زمانے کے چند لوگ تھے جن کی آپ تالیف قلب فرمارہے تھے یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئے لیکن اب اس طرح ہرکسی کو زکاۃ کا مال دینا جائزنہیں ہے،سفیان ثوری،اہل کوفہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں اوربعض کہتے ہیں کہ اگر کوئی آج بھی ان لوگوں جیسی حالت میں ہو اور امام اسلام کے لیے اس کی تالیف قلب ضروری سمجھے اور اُسے کچھ دے تو یہ جائز ہے،یہ شافعی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ أَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي كُنْتُ تَصَدَّقْتُ عَلَی أُمِّي بِجَارِيَةٍ وَإِنَّہَا مَاتَتْ قَالَ وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَدَّہَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّہَا كَانَ عَلَيْہَا صَوْمُ شَہْرٍ أَفَأَصُومُ عَنْہَا قَالَ صُومِي عَنْہَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّہَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ أَفَأَحُجُّ عَنْہَا قَالَ نَعَمْ حُجِّي عَنْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا يُعْرَفُ ہَذَا مِنْ حَدِيثِ بُرَيْدَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَطَاءٍ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ثُمَّ وَرِثَہَا حَلَّتْ لَہُ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّمَا الصَّدَقَةُ شَيْءٌ جَعَلَہَا لِلَّہِ فَإِذَا وَرِثَہَا فَيَجِبُ أَنْ يَصْرِفَہَا فِي مِثْلِہِ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَزُہَيْرٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَطَاءٍ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺکے پاس بیٹھا ہوا تھا،اتنے میں ایک عورت نے آپ کے پاس آکر کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی صدقے میں دی تھی،اب وہ مرگئیں (تواس لونڈی کا کیا ہوگا؟) آپ نے فرمایا: تمہیں ثواب بھی مل گیا اور میراث نے اُسے تمہیں لوٹا بھی دیا۔اس نے پوچھا:اللہ کے رسول! میری ماں پر ایک ماہ کے صیام فرض تھے،کیا میں ان کی طرف سے صیام رکھ لوں؟ آپ نے فرمایا:تو ان کی طرف سے صوم رکھ لے،اس نے پوچھا:اللہ کے رسول! انہوں نے کبھی حج نہیں کیا،کیامیں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،ان کی طرف سے حج کرلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بریدہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے۔۳-اکثر اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ آدمی جب کوئی صدقہ کرے پھر وہ اس کاوارث ہوجائے تو اس کے لئے وہ جائز ہے،۴-اوربعض کہتے ہیں: صدقہ توا س نے اللہ کی خاطر کیاتھالہذا جب اس کا وارث ہوجائے تو لازم ہے کہ پھر اُسے اسی کے راستے میں صرف کردے۔(یہ زیادہ افضل ہے)

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُہَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْہَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا فَأُشْہِدُكَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِہِ عَنْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَبِہِ يَقُولُ أَہْلُ الْعِلْمِ يَقُولُونَ لَيْسَ شَيْءٌ يَصِلُ إِلَی الْمَيِّتِ إِلَّا الصَّدَقَةُ وَالدُّعَاءُ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا قَالَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ إِنَّ لِي مَخْرَفًا يَعْنِي بُسْتَانًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری والدہ فوت ہوچکی ہیں،اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں توکیایہ ان کے لئے مفیدہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،اس نے عرض کیا: میرا ایک باغ ہے،آپ گواہ رہئے کہ میں نے اُسے والدہ کی طرف سے صدقہ میں دے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق عمرو بن دینا ر عن عکرمہ عن النبیﷺ مرسلاً روایت کی ہے،۳-اوریہی اہل علم بھی کہتے ہیں کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو میت کو پہنچتی ہوسوائے صدقہ اوردعاکے ۱؎،۴-إِنَّ لِی مَخْرَفًا میں مخرفاً سے مراد باغ ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاہِلِيِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي خُطْبَتِہِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَقُولُ لَا تُنْفِقُ امْرَأَةٌ شَيْئًا مِنْ بَيْتِ زَوْجِہَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِہَا قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ وَلَا الطَّعَامُ قَالَ ذَاكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہﷺ کو اپنے خطبہ میں فرماتے سنا: عورت اپنے شوہرکے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے ،عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! اور کھانابھی نہیں؟۔آپ نے فرمایا: یہ ہمارے مالوں میں سب سے افضل مال ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں سعد بن ابی وقاص،اسماء بنت ابی بکر،ابوہریرہ،عبداللہ بن عمرو اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَال سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ إِذَا تَصَدَّقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِہَا كَانَ لَہَا بِہِ أَجْرٌ وَلِلزَّوْجِ مِثْلُ ذَلِكَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ وَلَا يَنْقُصُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ مِنْ أَجْرِ صَاحِبِہِ شَيْئًا لَہُ بِمَا كَسَبَ وَلَہَا بِمَا أَنْفَقَتْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے صدقہ کرے تو اسے اس کا اجر ملتاہے اور اتناہی اجر اس کے شوہر کو بھی،اورخزانچی کو بھی،اور ان میں کسی کااجر دوسرے کے اجرکی وجہ سے کم نہیں کیا جاتا۔شوہر کواس کے کمانے کا اجر ملتاہے اورعورت کواس کے خرچ کرنے کا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا الْمُؤَمَّلُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَعْطَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِہَا بِطِيبِ نَفْسٍ غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَہَا مِثْلُ أَجْرِہِ لَہَا مَا نَوَتْ حَسَنًا وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لَا يَذْكُرُ فِي حَدِيثِہِ عَنْ مَسْرُوقٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے خوش دلی کے ساتھ بغیرفسادکی نیت کے کوئی چیز دے تو اسے مردکے ثواب کے برابرثواب ملے گا۔اسے اپنی نیک نیتی کا ثواب ملے گا اورخازن کوبھی اسی طرح ثواب ملے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابووائل سے روایت کی ہے،زیادہ صحیح ہے،عمرو بن مرہ اپنی روایت میں مسروق کے واسطے کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاداور غلام،مرد اورعورت پر فرض کیاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-مالک نے بھی بطریق: نافع،عن ابن عمر،عن النبي ﷺ ایوب کی حدیث کی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں من المسلمين کا اضافہ ہے۔۳-اور دیگرکئی لوگوں نے نافع سے روایت کی ہے،اس میں من المسلمين کا ذکرنہیں ہے،۴-اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس غیر مسلم غلام ہوں تو وہ ان کا صدقہ فطر ادا نہیں کرے گا۔یہی مالک،شافعی اور احمد کا قول ہے۔اوربعض کہتے ہیں کہ وہ غلاموں کا صدقہ فطر اداکرے گا خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں،یہ ثوری،ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ وضاحت ۱؎: اس روایت میں لفظ فَرضَ استعمال ہواہے جس کے معنی فرض اورلازم ہونے کے ہیں،اس سے معلوم ہواکہ صدقہ فطرفرض ہے بعض لوگوں نے فَرضَ کوقَدَّرَکے معنی میں لیاہے لیکن یہ ظاہرکے سراسرخلاف ہے۔ ان لوگوں کا کہناہے کہ روایت میں من المسلمين کی قیداتفاقی ہے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺعید الفطر کے دن صلاۃ کے لیے جانے سے پہلے صدقہ فطر نکالنے کاحکم دیتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اور اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صدقہ فطر صلاۃ کے لیے جانے سے پہلے نکال دے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتْ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْہَا بَابٌ وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْہَا بَابٌ وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّہِ عُتَقَاءُ مِنْ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَسَلْمَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے،تو شیطان اورسرکش جن ۱؎ جکڑدیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں،ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں،ان میں سے کوئی بھی دروازہ بندنہیں کیاجاتا،پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ،اور شرکے طلب گار! رُک جا ۲؎ اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف،ابن مسعود اور سلمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ وَالْمُحَارِبِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَقَامَہُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ الَّذِي رَوَاہُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ قَوْلَہُ إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ مُحَمَّدٌ وَہَذَا أَصَحُّ عِنْدِي مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے صوم رکھے اوراس کی راتوں میں قیام کیا تواس کے سابقہ گناہ ۱؎ بخش دئے جائیں گے۔اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیاتواس کے بھی سابقہ گناہ بخش دئے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی (پچھلی) حدیث،جسے ابوبکر بن عیاش نے روایت کی ہے غریب ہے،اِسے ہم ابوبکر بن عیاش کی روایت کی طرح جسے انہوں نے بطریق: الأعمش،عن أبی صالح،عن أبی ہریرۃ روایت کی ہے۔ابوبکر ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا توانہوں نے بسندحسن بن ربیع عن أبی الأحوص عن الأعمش مجاہدکا قول نقل کیا کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے... پھر آگے انہوں نے پوری حدیث بیان کی،۳-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث میرے نزدیک ابوبکر بن عیاش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنِي عِيسَی بْنُ دِينَارٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ضِرَارٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ مَا صُمْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ تِسْعًا وَعِشْرِينَ أَكْثَرُ مِمَّا صُمْنَا ثَلَاثِينَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَبِي بَكْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ الشَّہْرُ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ تیس دن کے صیام رکھنے سے زیادہ ۲۹ دن کے صیام رکھے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عمر،ابوہریرہ،عائشہ،سعد بن ابی وقاص،ابن عباس،ابن عمر،انس،جابر،ام سلمہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مہینہ ۲۹ دن کا(بھی)ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّہُ قَالَ آلَی رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ نِسَائِہِ شَہْرًا فَأَقَامَ فِي مَشْرُبَةٍ تِسْعًا وَعِشْرِينَ يَوْمًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّكَ آلَيْتَ شَہْرًا فَقَالَ الشَّہْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے ایلاء کیا (یعنی اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھائی) پھر آپ نے اپنے بالا خانے میں ۲۹ دن قیام کیا (پھرآپ اپنی بیویوں کے پاس آئے)تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک مہینے کا ایلاء کیاتھا؟ آپ نے فرمایا: مہینہ۲۹ دن کا(بھی) ہوتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّہَارُ وَغَابَتْ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرْتَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب رات آجائے،اور دن چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو تم نے افطارکرلیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن ابی اوفیٰ اور ابوسعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ قُمْنَا إِلَی الصَّلاَةِ قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كَانَ قَدْرُ ذَلِكَ قَالَ: قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ سحری کی،پھر ہم صلاۃ کے لیے کھڑے ہوئے،انس کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اس کی مقدار کتنی تھی؟ ۱؎ انہوں نے کہا: پچاس آیتوں کے (پڑھنے کے) بقدر ۲؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ ہِشَامٍ بِنَحْوِہِ إِلاَّ أَنَّہُ قَالَ: قَدْرُ قِرَائَةِ خَمْسِينَ آيَةً. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. اسْتَحَبُّوا تَأْخِيرَ السُّحُورِ.

اس سند سے بھی ہشام سے اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں یوں ہے: پچاس آیتوں کے پڑھنے کے بقدر۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،ان لوگوں نے سحری میں دیر کرنے کوپسندکیا ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ النُّعْمَانِ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ حَدَّثَنِي أَبِي طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا يَہِيدَنَّكُمْ السَّاطِعُ الْمُصْعِدُ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يَعْتَرِضَ لَكُمْ الْأَحْمَرُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَسَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ لَا يَحْرُمُ عَلَی الصَّائِمِ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ حَتَّی يَكُونَ الْفَجْرُ الْأَحْمَرُ الْمُعْتَرِضُ وَبِہِ يَقُولُ عَامَّةُ أَہْلِ الْعِلْمِ

قیس بن طلق کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کھاؤ پیو،تمہیں کھانے پینے سے چمکتی اورچڑھتی ہوئی صبح یعنی صبح کاذب نہ روکے ۱؎ کھاتے پیتے رہو،یہاں تک کہ سرخی تمہارے چوڑان میں ہوجائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں عدی بن حاتم،ابوذر اور سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اسی پراہل علم کاعمل ہے کہ صائم پر کھانا پینا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ فجر کی سرخ چوڑی روشنی نمودار نہ ہوجائے،اوریہی اکثر اہل علم کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَی قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ أَبِي ہِلَالٍ عَنْ سَوَادَةَ بْنِ حَنْظَلَةَ ہُوَ الْقُشَيْرِيُّ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سُحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيلُ وَلَكِنْ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيرُ فِي الْأُفُقِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان بازنہ رکھے اور نہ ہی لمبی فجربازرکھے،ہاں وہ فجربازرکھے جوکناروں میں پھیلتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: سحری کھاؤ ۱؎،کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،عبداللہ بن مسعود،جابر بن عبداللہ،ابن عباس،عمرو بن عاص،عرباض بن ساریہ،عتبہ بن عبداللہ اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۳-نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے صیام اوراہل کتاب کے صیام میں فرق سحری کھانے کاہے ۲؎۔

وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَہْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ مُوسَی بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَہْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ مُوسَی بْنُ عَلِيٍّ وَأَہْلُ الْعِرَاقِ يَقُولُونَ مُوسَی بْنُ عُلَيٍّ وَہُوَ مُوسَی بْنُ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيُّ

اس سند سے عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اور یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل مصر موسی بن عَلِیّ (عین کے فتحہ کے ساتھ): کہتے ہیں اوراہل عراق موسی بن عُلیّ(عین کے ضمہ کے ساتھ) کہتے ہیں اور وہ موسیٰ بن عُلَیّ بن رباح اللخمی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ إِلَی مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ فَصَامَ حَتَّی بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ وَصَامَ النَّاسُ مَعَہُ فَقِيلَ لَہُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَيْہِمْ الصِّيَامُ وَإِنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ فِيمَا فَعَلْتَ فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَشَرِبَ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْہِ فَأَفْطَرَ بَعْضُہُمْ وَصَامَ بَعْضُہُمْ فَبَلَغَہُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا فَقَالَ أُولَئِكَ الْعُصَاةُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ أَفْضَلُ حَتَّی رَأَی بَعْضُہُمْ عَلَيْہِ الْإِعَادَةَ إِذَا صَامَ فِي السَّفَرِ وَاخْتَارَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَحَسَنٌ وَہُوَ أَفْضَلُ وَإِنْ أَفْطَرَ فَحَسَنٌ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنَّمَا مَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ وَقَوْلِہِ حِينَ بَلَغَہُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا فَقَالَ أُولَئِكَ الْعُصَاةُ فَوَجْہُ ہَذَا إِذَا لَمْ يَحْتَمِلْ قَلْبُہُ قَبُولَ رُخْصَةِ اللہِ فَأَمَّا مَنْ رَأَی الْفِطْرَ مُبَاحًا وَصَامَ وَقَوِيَ عَلَی ذَلِكَ فَہُوَ أَعْجَبُ إِلَيَّ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے توآپ نے صوم رکھا،اورآپ کے ساتھ لوگوں نے بھی صوم رکھا،یہاں تک کہ آپ کراع غمیم ۱؎ پرپہنچے توآپ سے عرض کیاگیاکہ لوگوں پرصوم رکھنا گراں ہورہاہے اور لوگ آپ کے عمل کودیکھ رہے ہیں۔(یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگاکرپیا،لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے،توان میں سے بعض نے صوم توڑدیا اور بعض رکھے رہے۔آپ کو معلوم ہواکہ کچھ لوگ (اب بھی) صوم سے ہیں،آپ نے فرمایا: یہی لوگ نافرمان ہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں کعب بن عاصم،ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: سفرمیں صوم رکھنا نیکی نہیں ہے،۴-سفر میں صوم رکھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سفر میں صوم نہ رکھنا افضل ہے،یہاں تک بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جب وہ سفر میں صوم رکھ لے تووہ سفرسے لوٹنے کے بعدپھردوبارہ رکھے،احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی سفر میں صوم نہ رکھنے کوترجیح دی ہے۔۵-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کاکہنا ہے کہ اگروہ طاقت پائے اور صوم رکھے تو یہی مستحسن اورافضل ہے۔سفیان ثوری،مالک بن انس اور عبداللہ بن مبارک اسی کے قائل ہیں،۶-شافعی کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کے قول سفر میں صوم رکھنا نیکی نہیں اورجس وقت آپ کو معلوم ہواکہ کچھ لوگ صوم سے ہیں توآپ کا یہ فرماناکہ یہی لوگ نافرمان ہیں ایسے شخص کے لیے ہے جس کادل اللہ کی دی ہوئی رخصت اور اجازت کو قبول نہ کرے،لیکن جولوگ سفرمیں صوم نہ رکھنے کو مباح سمجھتے ہوئے صوم رکھے اور اس کی قوت بھی رکھتاہو تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِي حُيَيَّةَ عَنْ ابْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّہُ سَأَلَہُ عَنْ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ فَحَدَّثَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي رَمَضَانَ غَزْوَتَيْنِ يَوْمَ بَدْرٍ وَالْفَتْحِ فَأَفْطَرْنَا فِيہِمَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ أَمَرَ بِالْفِطْرِ فِي غَزْوَةٍ غَزَاہَا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نَحْوُ ہَذَا إِلَّا أَنَّہُ رَخَّصَ فِي الْإِفْطَارِ عِنْدَ لِقَاءِ الْعَدُوِّ وَبِہِ يَقُولُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ

معمر بن ابی حیّیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسیب سے سفر میں صوم رکھنے کے بارے میں پوچھا توابن مسیب نے بیان کیاکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رمضان میں رسول اللہﷺ کے ساتھ دوغزوے کئے۔غزوہ بدر اورفتح مکہ،ہم نے ان دونوں میں صوم نہیں رکھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری سے بھی روایت ہے،۳-ابوسعیدخدری سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے (لوگوں کو) ایک غزوے میں افطار کاحکم دیا۔عمر بن خطاب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔البتہ انہوں نے صوم رکھنے کی رخصت دشمن سے مڈبھیڑ کی صورت میں دی ہے۔اور بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَی قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا أَبُو ہِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَوَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ اللہِ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَغَارَتْ عَلَيْنَا خَيْلُ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَوَجَدْتُہُ يَتَغَدَّی فَقَالَ ادْنُ فَكُلْ فَقُلْتُ إِنِّي صَائِمٌ فَقَالَ ادْنُ أُحَدِّثْكَ عَنْ الصَّوْمِ أَوْ الصِّيَامِ إِنَّ اللہَ تَعَالَی وَضَعَ عَنْ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاةِ وَعَنْ الْحَامِلِ أَوْ الْمُرْضِعِ الصَّوْمَ أَوْ الصِّيَامَ وَاللہِ لَقَدْ قَالَہُمَا النَّبِيُّ ﷺ كِلْتَيْہِمَا أَوْ إِحْدَاہُمَا فَيَا لَہْفَ نَفْسِي أَنْ لَا أَكُونَ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْكَعْبِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَلَا نَعْرِفُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ہَذَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ الْوَاحِدِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْحَامِلُ وَالْمُرْضِعُ تُفْطِرَانِ وَتَقْضِيَانِ وَتُطْعِمَانِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَمَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ و قَالَ بَعْضُہُمْ تُفْطِرَانِ وَتُطْعِمَانِ وَلَا قَضَاءَ عَلَيْہِمَا وَإِنْ شَاءَتَا قَضَتَا وَلَا إِطْعَامَ عَلَيْہِمَا وَبِہِ يَقُولُ إِسْحَقُ

انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنہ ۱؎ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سواروں نے ہم پر رات میں حملہ کیا،تومیں رسول اللہﷺکے پاس آیا،میں نے آپ کو پایاکہ آپ دوپہرکاکھاناکھارہے تھے،آپ نے فرمایا: آؤ کھالو،میں نے عرض کیا: میں صوم سے ہوں۔آپ نے فرمایا: قریب آؤ،میں تمہیں صیام کے بارے میں بتاؤں،اللہ تعالیٰ نے مسافر سے صوم اور آدھی صلاۃ ۲؎ معاف کردی ہے،حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت سے بھی صوم کو معاف کردیاہے۔اللہ کی قسم نبی اکرمﷺ نے حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت دونوں لفظ کہے یا ان میں سے کوئی ایک لفظ کہا،توہائے افسوس اپنے آپ پر کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ کیوں نہیں کھایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس بن مالک کعبی کی حدیث حسن ہے،انس بن مالک کی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث ہم نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو،۲-اس باب میں ابوامیہ سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کااسی پر عمل ہے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حاملہ اوردودھ پلانے والی عورتیں صوم نہیں رکھیں گی،بعد میں قضا کریں گی،اور فقراء ومساکین کو کھانا کھلائیں گی۔سفیان،مالک،شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں،۵-بعض کہتے ہیں: وہ صوم نہیں رکھیں گی بلکہ فقراء ومساکین کو کھانا کھلائیں گی۔اوران پر کوئی قضا نہیں اور اگروہ قضا کرناچاہیں توان پر کھانا کھلانا واجب نہیں۔اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۳؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثٌ لَا يُفْطِرْنَ الصَّائِمَ الْحِجَامَةُ وَالْقَيْءُ وَالِاحْتِلَامُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ قَالَ سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَقُولُ سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَقَالَ أَخُوہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدٍ لَا بَأْسَ بِہِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمَدِينِيِّ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ قَالَ مُحَمَّدٌ وَلَا أَرْوِي عَنْہُ شَيْئًا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین چیزوں سے صائمکا صوم نہیں ٹوٹتا: پچھنا لگوانے سے ۱؎،قے آجانے سے اور احتلام ہوجانے سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث محفوظ نہیں ہے،۲-عبداللہ بن زید بن اسلم اور عبدالعزیز بن محمد اوردیگر کئی رواۃ نے یہ حدیث زید بن اسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔اورا س میں ان لوگوں نے ابوسعیدخدری کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے،۳-عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف مانے جاتے ہیں،۴-میں نے ابوداود سجزی کوکہتے سناکہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا؟ توانہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ بن زید بن اسلم میں کوئی حرج نہیں،۴-اور میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے سناکہعلی بن عبداللہ المدینی نے عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں اور عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم ضعیف ہیں ۲؎ محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں ان سے کچھ روایت نہیں کرتا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ مَا لَا أُحْصِي يَتَسَوَّكُ وَہُوَ صَائِمٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالسِّوَاكِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا إِلَّا أَنَّ بَعْضَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا السِّوَاكَ لِلصَّائِمِ بِالْعُودِ وَالرُّطَبِ وَكَرِہُوا لَہُ السِّوَاكَ آخِرَ النَّہَارِ وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ بِالسِّوَاكِ بَأْسًا أَوَّلَ النَّہَارِ وَلَا آخِرَہُ وَكَرِہَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ السِّوَاكَ آخِرَ النَّہَارِ

عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کوصوم کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ میں اسے شمارنہیں کرسکتا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔۳-اسی حدیث پراہل علم کا عمل ہے۔یہ لوگ صائم کے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ۱؎ سمجھتے،البتہ بعض اہل علم نے صائم کے لئے تازی لکڑی کی مسواک کو مکروہ قراردیا ہے،اور دن کے آخری حصہ میں بھی مسواک کو مکروہ کہاہے۔لیکن شافعی دن کے شروع یا آخری کسی بھی حصہ میں مسواک کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے۔احمد اور اسحاق بن راہویہ نے دن کے آخری حصہ میں مسواک کو مکروہ قراریاہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُبَاشِرُنِي وَہُوَ صَائِمٌ وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ صوم کی حالت میں مجھ سے بوس وکنارکرتے تھے،آپ اپنی خواہش پرتم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَہُوَ صَائِمٌ وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَيْسَرَةَ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ وَمَعْنَی لِإِرْبِہِ لِنَفْسِہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ صوم کی حالت میں بوسہ لیتے اور اپنی بیویوں کے ساتھ لپٹ کرلیٹتے تھے،آپ اپنی جنسی خواہش پرتم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور لإربہ کے معنی لنفسہ (اپنے نفس پر)کے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ ابْنِ أُمِّ ہَانِئٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ قَالَتْ كُنْتُ قَاعِدَةً عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَأُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْہُ ثُمَّ نَاوَلَنِي فَشَرِبْتُ مِنْہُ فَقُلْتُ إِنِّي أَذْنَبْتُ فَاسْتَغْفِرْ لِي فَقَالَ وَمَا ذَاكِ قَالَتْ كُنْتُ صَائِمَةً فَأَفْطَرْتُ فَقَالَ أَمِنْ قَضَاءٍ كُنْتِ تَقْضِينَہُ قَالَتْ لَا قَالَ فَلَا يَضُرُّكِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَائِشَةَ

ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی،اتنے میں آپ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی،آپ نے اس میں سے پیا،پھر مجھے دیا تو میں نے بھی پیا۔پھرمیں نے عرض کیا: میں نے گناہ کاکام کرلیاہے۔آپ میرے لیے بخشش کی دعاکردیجئے۔آپ نے پوچھا: کیابات ہے؟میں نے کہا: میں صوم سے تھی اورمیں نے صوم توڑدیاتو آپ نے پوچھا: کیاکوئی قضا کا صوم تھا جسے تم قضا کررہی تھی؟ عرض کیا:نہیں،آپ نے فرمایا: تو اس سے تمہیں کوئی نقصان ہونے والا نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوسعیدخدری اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ كُنْتُ أَسْمَعُ سِمَاكَ بْنَ حَرْبٍ يَقُولُ أَحَدُ ابْنَيْ أُمِّ ہَانِئٍ حَدَّثَنِي فَلَقِيتُ أَنَا أَفْضَلَہُمَا وَكَانَ اسْمُہُ جَعْدَةَ وَكَانَتْ أُمُّ ہَانِئٍ جَدَّتَہُ فَحَدَّثَنِي عَنْ جَدَّتِہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ دَخَلَ عَلَيْہَا فَدَعَی بِشَرَابٍ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَہَا فَشَرِبَتْ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ أَمَا إِنِّي كُنْتُ صَائِمَةً فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِينُ نَفْسِہِ إِنْ شَاءَ صَامَ وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ قَالَ شُعْبَةُ فَقُلْتُ لَہُ أَأَنْتَ سَمِعْتَ ہَذَا مِنْ أُمِّ ہَانِئٍ قَالَ لَا أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ وَأَہْلُنَا عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ وَرَوَی حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ فَقَالَ عَنْ ہَارُونَ بْنِ بِنْتِ أُمِّ ہَانِئٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ وَرِوَايَةُ شُعْبَةَ أَحْسَنُ ہَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ عَنْ أَبِي دَاوُدَ فَقَالَ أَمِينُ نَفْسِہِ و حَدَّثَنَا غَيْرُ مَحْمُودٍ عَنْ أَبِي دَاوُدَ فَقَالَ أَمِيرُ نَفْسِہِ أَوْ أَمِينُ نَفْسِہِ عَلَی الشَّكِّ وَہَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ شُعْبَةَ أَمِينُ أَوْ أَمِيرُ نَفْسِہِ عَلَی الشَّكِّ قَالَ وَحَدِيثُ أُمِّ ہَانِئٍ فِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الصَّائِمَ الْمُتَطَوِّعَ إِذَا أَفْطَرَ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْہِ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ أَنْ يَقْضِيَہُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَالشَّافِعِيِّ

شعبہ کہتے ہیں کہ میں سماک بن حرب کو کہتے سنا کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے دونوں بیٹوں میں سے ایک نے مجھ سے حدیث بیان کی تومیں ان دونوں میں جو سب سے افضل تھا اس سے ملا،اس کانام جعدہ تھا،ام ہانی اس کی دادی تھیں،اس نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کی دادی کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ان کے ہاں آئے توآپ نے کو ئی پینے کی چیزمنگائی اوراسے پیا۔پھر آپ نے انہیں دیا تو انہوں نے بھی پیا۔پھرانہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں تو صوم سے تھی۔تورسول اللہﷺ نے فرمایا: نفل صوم رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے،چاہے تو صوم رکھے اور چاہے تو نہ رکھے۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے سماک سے پوچھا:کیا آپ نے اسے ام ہانی سے سناہے؟ کہا:نہیں،مجھے ابوصالح نے اور ہمارے گھروالوں نے خبردی ہے اور ان لوگوں نے ام ہانی سے روایت کی۔ حماد بن سلمہ نے بھی یہ حدیث سماک بن حرب سے روایت کی ہے۔اس میں ہے ام ہانی کی لڑکی کے بیٹے ہارون سے روایت ہے،انہوں نے ام ہانی سے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-شعبہ کی روایت سب سے بہتر ہے،اسی طرح ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ہے اورمحمودنے ابوداود سے روایت کی ہے،اس میں أمین نفسہ ہے،البتہ ابوداود سے محمود کے علاوہ دوسرے لوگوں نے جوروایت کی توان لوگوں نے أمیر نفسہ أو أمین نفسہ شک کے ساتھ کہا۔اور اسی طرح شعبہ سے متعددسندوں سے بھی أمین أو أمیر نفسہ شک کے ساتھ واردہے۔ام ہانی کی حدیث کی سند میں کلام ہے۔۲-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نفل صوم رکھنے والا اگر صوم توڑ دے توا س پرکوئی قضالازم نہیں الایہ کہ وہ قضا کرنا چاہے۔یہی سفیان ثوری،احمد،اسحاق بن راہویہ اور شافعی کا قول ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَی عَنْ عَمَّتِہِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمًا فَقَالَ ہَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ قَالَتْ قُلْتُ لَا قَالَ فَإِنِّي صَائِمٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دن میرے پاس آئے اور آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ(کھانے کو)ہے میں نے عرض کیا: نہیں،تو آپ نے فرمایا: تو میں صوم سے ہوں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَی عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْتِينِي فَيَقُولُ أَعِنْدَكِ غَدَاءٌ فَأَقُولُ لَا فَيَقُولُ إِنِّي صَائِمٌ قَالَتْ فَأَتَانِي يَوْمًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّہُ قَدْ أُہْدِيَتْ لَنَا ہَدِيَّةٌ قَالَ وَمَا ہِيَ قَالَتْ قُلْتُ حَيْسٌ قَالَ أَمَا إِنِّي قَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا قَالَتْ ثُمَّ أَكَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ میرے پاس آتے تو پوچھتے: کیا تمہارے پاس کھاناہے؟ میں کہتی: نہیں۔توآپ فرماتے: تو میں صوم سے ہوں،ایک دن آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔آپ نے پوچھا: کیا چیز ہے؟ میں نے عرض کیا: حیس،آپ نے فرمایا: میں صبح سے صوم سے ہوں،پھر آپ نے کھالیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا ہُوَ بِالْبَقِيعِ فَقَالَ أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللہُ عَلَيْكِ وَرَسُولُہُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ فَقَالَ إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ ہَذَا الْحَدِيثَ و قَالَ يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہﷺ کو غائب پایا۔تو میں(آپ کی تلاش میں) باہر نکلی توکیادیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔آپ نے فرمایا: کیا تم ڈررہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان ۲؎ کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتاہے،اورقبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کوہم اس سند سے صرف حجاج کی روایت سے جانتے ہیں،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو اس حدیث کی تضعیف کرتے سناہے،نیز فرمایا: یحیی بن ابی کثیر کا عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ کا یحیی بن ابی کثیر سے سماع نہیں،۳-اس باب میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللہِ الْمُحَرَّمُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل صوم اللہ کے مہینے ۱؎ محرم کا صوم ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ کی حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ أَيُّ شَہْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ قَالَ لَہُ مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَسْأَلُ عَنْ ہَذَا إِلَّا رَجُلًا سَمِعْتُہُ يَسْأَلُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَہُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ شَہْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ قَالَ إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَصُمْ الْمُحَرَّمَ فَإِنَّہُ شَہْرُ اللہِ فِيہِ يَوْمٌ تَابَ فِيہِ عَلَی قَوْمٍ وَيَتُوبُ فِيہِ عَلَی قَوْمٍ آخَرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: ماہ رمضان کے بعد کس مہینے میں صوم رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ توانہوں نے اس سے کہا: میں نے اس سلسلے میں سوائے ایک شخص کے کسی کو پوچھتے نہیں سنا،میں نے اسے رسول اللہﷺ سے سوال کرتے سنا،اور میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہواتھا۔اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے میں صوم رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر ماہ رمضان کے بعدتمہیں صوم رکھناہی ہو تو محرم کا صوم رکھو،وہ اللہ کا مہینہ ہے۔اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں پر رحمت کی ۱؎ اور اس میں دوسرے لوگوں پربھی رحمت کرے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ عَنْ أُخْتِہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلَّا فِيمَا افْتَرَضَ اللہُ عَلَيْكُمْ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا لِحَاءَ عِنَبَةٍ أَوْ عُودَ شَجَرَةٍ فَلْيَمْضُغْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمَعْنَی كَرَاہَتِہِ فِي ہَذَا أَنْ يَخُصَّ الرَّجُلُ يَوْمَ السَّبْتِ بِصِيَامٍ لِأَنَّ الْيَہُودَ تُعَظِّمُ يَوْمَ السَّبْتِ

عبداللہ بن بسر کی بہن بہیہ صمّاء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہفتہ کے دن صوم مت رکھو ۱؎،سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تم پرفرض کیاہو،اگرتم میں سے کوئی انگور کی چھال اور درخت کی ٹہنی کے علاوہ کچھ نہ پائے تو اسی کو چبالے (اور صوم نہ رکھے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اوراس کے مکروہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ آدمی صوم کے لیے ہفتے (سنیچر) کادن مخصوص کرلے،اس لیے کہ یہودی ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ قَطُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ وَرَوَی الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُہُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يُرَ صَائِمًا فِي الْعَشْرِ وَرَوَی أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ الْأَسْوَدِ وَقَدْ اخْتَلَفُوا عَلَی مَنْصُورٍ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَرِوَايَةُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ وَأَوْصَلُ إِسْنَادًا قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ الْأَعْمَشُ أَحْفَظُ لِإِسْنَادِ إِبْرَاہِيمَ مِنْ مَنْصُورٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں صیام رکھتے کبھی نہیں دیکھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اسی طرح کئی دوسرے لوگوں نے بھی بطریق الأعمش عن ابراہیم عن أسود عن ام المومنین عائشہ روایت کی ہے،۲-اورثوری وغیرہ نے یہ حدیث بطریق منصور عن ابراہیم النخعی یوں روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ کو ذی الحجہ کے دس دنوں میں صوم رکھتے نہیں دیکھاگیا،۳-اورابوالا ٔحوص نے بطریق منصورعن ابراہیم النخعی عن عائشہ روایت کی اس میں انہوں نے اسودکے واسطے کاذکرنہیں کیاہے،۴-اورلوگوں نے اس حدیث میں منصور پر اختلاف کیاہے۔اور اعمش کی روایت زیادہ صحیح ہے اورسندکے اعتبارسے سب سے زیادہ متصل ہے،۵-اعمش ابراہیم نخعی کی سند کے منصور سے زیادہ یادرکھنے والے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ عَہِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ ثَلَاثَةً أَنْ لَا أَنَامَ إِلَّا عَلَی وِتْرٍ وَصَوْمَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَہْرٍ وَأَنْ أُصَلِّيَ الضُّحَی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مجھ سے تین باتوں کا عہد لیا: ۱-میں وتر پڑھے بغیر نہ سووں،۲-ہرماہ تین دن کے صیام رکھوں،۳-اور چاشت کی صلاۃ (صلاۃ الضحیٰ) پڑھاکروں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ يَحْيَی بْنَ سَامٍ يُحَدِّثُ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ قَال سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا أَبَا ذَرٍّ إِذَا صُمْتَ مِنْ الشَّہْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصُمْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي عَقْرَبٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَقَتَادَةَ بْنِ مِلْحَانَ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ وَجَرِيرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ أَنَّ مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَہْرٍ كَانَ كَمَنْ صَامَ الدَّہْرَ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابوذر!جب تم ہرماہ کے تین دن کے صیام رکھو تو تیرہویں،چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوقتادہ،عبداللہ بن عمرو،قرّہ بن ایاس مزنی،عبداللہ بن مسعود،ابوعقرب،ابن عباس،عائشہ،قتادہ بن ملحان،عثمان بن ابی العاص اور جریر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض احادیث میں یہ بھی ہے کہ جس نے ہرماہ تین دن کے صیام رکھے تووہ اس شخص کی طرح ہے جس نے صوم دہر رکھا۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَامَ مِنْ كُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّہْرِ فَأَنْزَلَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِہِ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا الْيَوْمُ بِعَشْرَةِ أَيَّامٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي شِمْرٍ وَأَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے ہرماہ تین دن کے صیام رکھے تویہی صیام دہر ہے ،اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمائی ارشادباری ہے:مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا (الأنعام: ۱۶۰) (جس نے ایک نیکی کی تواُسے (کم سے کم) اس کا دس گنا اجر ملے گا) گویا ایک دن (کم سے کم) دس دن کے برابر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے یہ حدیث بطریق: أبی شمر و أبی التیاح،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ قَال سَمِعْتُ مُعَاذَةَ قَالَتْ قُلْتُ لِعَائِشَةَ أَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَہْرٍ قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ مِنْ أَيِّہِ كَانَ يَصُومُ قَالَتْ كَانَ لَا يُبَالِي مِنْ أَيِّہِ صَامَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَيَزِيدُ الرِّشْكُ ہُوَ يَزِيدُ الضُّبَعِيُّ وَہُوَ يَزِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ وَہُوَ الْقَسَّامُ وَالرِّشْكُ ہُوَ الْقَسَّامُ بِلُغَةِ أَہْلِ الْبَصْرَةِ

معاذ ہ کہتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہﷺ ہرماہ تین صیام رکھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں رکھتے تھے،میں نے کہا: کون سی تاریخوں میں رکھتے تھے؟ کہا: آپ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ کون سی تاریخ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یزیدا لرّشک یزید ضبعی ہی ہیں،یہی یزید بن قاسم بھی ہیں اور یہی قسّام ہیں،رِ شک کے معنی اہل بصرہ کی لغت میں قسّام کے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ بِمَنْ صَامَ الدَّہْرَ قَالَ لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ أَوْ لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ صِيَامَ الدَّہْرِ وَأَجَازَہُ قَوْمٌ آخَرُونَ وَقَالُوا إِنَّمَا يَكُونُ صِيَامُ الدَّہْرِ إِذَا لَمْ يُفْطِرْ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ الْأَضْحَی وَأَيَّامَ التَّشْرِيقِ فَمَنْ أَفْطَرَ ہَذِہِ الْأَيَّامَ فَقَدْ خَرَجَ مِنْ حَدِّ الْكَرَاہِيَةِ وَلَا يَكُونُ قَدْ صَامَ الدَّہْرَ كُلَّہُ ہَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ نَحْوًا مِنْ ہَذَا وَقَالَا لَا يَجِبُ أَنْ يُفْطِرَ أَيَّامًا غَيْرَ ہَذِہِ الْخَمْسَةِ الْأَيَّامِ الَّتِي نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْہَا يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الْأَضْحَی وَأَيَّامِ التَّشْرِيقِ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! اگر کوئی صوم دہر (پورے سال صیام) رکھے توکیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس نے نہ صوم رکھا اور نہ ہی افطار کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوقتادہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن شخیر،عمران بن حصین اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کی ایک جماعت نے صوم دہر کو مکروہ کہاہے اور بعض دوسرے لوگوں نے اسے جائز قراردیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ صیام دہر تو اس وقت ہوگا جب عید الفطر،عیدالا ٔضحی اور ایام تشریق میں بھی صوم رکھنا نہ چھوڑے،جس نے ان دنوں میں صوم ترک کردیا،وہ کراہت کی حد سے نکل گیا،اوروہ پورے سال صوم رکھنے والا نہیں ہوا مالک بن انس سے اسی طرح مروی ہے اور یہی شافعی کابھی قول ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی طرح کہتے ہیں،ان دونوں کا کہناہے کہ ان پانچ دنوں یوم الفطر،یوم الاضحی اورایام تشریق میں صوم رکھنے سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے،بقیہ دنوں میں افطارکرناواجب نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ كَانَ يَصُومُ حَتَّی نَقُولَ قَدْ صَامَ وَيُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ قَدْ أَفْطَرَ قَالَتْ وَمَا صَامَ رَسُولُ اللہِ شَہْرًا كَامِلًا إِلَّا رَمَضَانَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرمﷺ کے صیام کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہا: آپﷺ صوم رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے خوب صوم رکھے،پھر آپ صوم رکھنا چھوڑدیتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ نے بہت دنوں سے صوم نہیں رکھے۔اور رسول اللہﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی ماہ کے پورے صیام نہیں رکھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ كَانَ يَصُومُ مِنْ الشَّہْرِ حَتَّی نَرَی أَنَّہُ لَا يُرِيدُ أَنْ يُفْطِرَ مِنْہُ وَيُفْطِرُ حَتَّی نَرَی أَنَّہُ لَا يُرِيدُ أَنْ يَصُومَ مِنْہُ شَيْئًا وَكُنْتَ لَا تَشَاءُ أَنْ تَرَاہُ مِنْ اللَّيْلِ مُصَلِّيًا إِلَّا رَأَيْتَہُ مُصَلِّيًا وَلَا نَائِمًا إِلَّا رَأَيْتَہُ نَائِمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے نبی اکرمﷺ کے صیام کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے کہا: آپ کسی مہینے میں اتنے صوم رکھتے کہ ہم سمجھتے: اب آپ کا ارادہ صوم بندکرنے کا نہیں ہے،اور کبھی بغیر صوم کے رہتے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ آپ کوئی صوم رکھیں گے ہی نہیں۔اور آپ کورات کے جس حصہ میں بھی تم صلاۃ پڑھنا دیکھنا چاہتے صلاۃ پڑھتے دیکھ لیتے اور جس حصہ میں سوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے دیکھ لیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَفْضَلُ الصَّوْمِ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الشَّاعِرُ الْمَكِّيُّ الْأَعْمَی وَاسْمُہُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَفْضَلُ الصِّيَامِ أَنْ تَصُومَ يَوْمًا وَتُفْطِرَ يَوْمًا وَيُقَالُ ہَذَا ہُوَ أَشَدُّ الصِّيَامِ

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے افضل صوم میرے بھائی داودعلیہ السلام کا صوم ہے،وہ ایک دن صوم رکھتے تھے اور ایک دن بغیر صوم کے رہتے،اور جب (دشمن سے) مڈبھیڑ ہوتی تومیدان چھوڑکربھاگتے نہیں تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ سب سے افضل صوم یہ ہے کہ تم ایک دن صوم رکھو اور ایک دن بغیرصوم کے رہو،کہا جاتا ہے کہ یہ سب سے سخت صوم ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْہِ سَبِيلًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ أَفِي كُلِّ عَامٍ فَسَكَتَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ فِي كُلِّ عَامٍ قَالَ لَا وَلَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ فَأَنْزَلَ اللہُ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَاسْمُ أَبِي البَخْتَرِيِّ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَہُوَ سَعِيدُ بْنُ فَيْرُوزَ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ حکم نازل ہوا کہ اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں،تولوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیاحج ہرسال (فرض ہے)؟ آپ خاموش رہے۔لوگوں نے پھرپوچھا: اللہ کے رسول! کیاہرسال؟ آپ نے فرمایا:نہیں،اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہرسال) واجب ہوجاتا اورپھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا: اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھاکرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تم پر شاق گزریں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲-ابوالبختری کانام سعید بن ابی عمران ہے اور یہی سعید بن فیروز ہیں،۳-اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ أَنَّہُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ وَہُمَا يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ لَا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلَّا مَنْ جَہِلَ أَمْرَ اللہِ فَقَالَ سَعْدٌ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَہَی عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ صَنَعَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَصَنَعْنَاہَا مَعَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ابوبکر عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی ۲؎ اورسب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَہُ أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الشَّامِ وَہُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ہِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَہَی عَنْہَا فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَہَی عَنْہَا وَصَنَعَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ

محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہا سے سنا،دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کررہے تھے۔ضحاک بن قیس نے کہا: ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو،اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: بہت بری بات ہے جوتم نے کہی،میرے بھتیجے!تو ضحاک بن قیس نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیاہے،اس پرسعد رضی اللہ عنہ نے کہا:رسول اللہﷺ نے اسے کیاہے اورآپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَمَتَّعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَہَی عَنْہَا مُعَاوِيَةُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ وَجَابِرٍ وَسَعْدٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ وَالتَّمَتُّعُ أَنْ يَدْخُلَ الرَّجُلُ بِعُمْرَةٍ فِي أَشْہُرِ الْحَجِّ ثُمَّ يُقِيمَ حَتَّی يَحُجَّ فَہُوَ مُتَمَتِّعٌ وَعَلَيْہِ دَمٌ مَا اسْتَيْسَرَ مِنْ الْہَدْيِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَی أَہْلِہِ وَيُسْتَحَبُّ لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ أَنْ يَصُومَ الْعَشْرَ وَيَكُونُ آخِرُہَا يَوْمَ عَرَفَةَ فَإِنْ لَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ صَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ فِي قَوْلِ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ ابْنُ عُمَرَ وَعَائِشَةُ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَا يَصُومُ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْكُوفَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَہْلُ الْحَدِيثِ يَخْتَارُونَ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ فِي الْحَجِّ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ا ہل شام میں سے ایک شخص سے سنا،وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہاتھا،تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ جائزہے۔اس پر شامی نے کہا: آپ کے والد نے تواس سے روکا ہے؟عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے کہا: ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اوررسول اللہﷺ نے اسے کیا ہوتو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یارسول اللہﷺ کے حکم کی،تواس نے کہا:رسول اللہﷺ کے حکم کی،توانہوں نے کہا:رسول اللہﷺ نے ایسا کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث (۸۲۲) حسن ہے،۲-اس باب میں علی،عثمان،جابر،سعد،اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیاہے کہ حج میں عمرہ کوشامل کرکے حج تمتع کرنا درست ہے،۴-اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو،پھر عمرہ کرکے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کرلے تو وہ متمتع ہے،اس پر ہدی کی جواسے میسرہو قربانی لازم ہوگی،اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے صیام رکھے،۵-متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین صیام رکھے تو ذی الحجہ کے(ابتدائی) دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری صوم یوم عرفہ کوہو،اورصحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمراور عائشہ رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں کے قول کی روسے اگر وہ دس دنوں میں یہ صیام نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔یہی مالک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۶-اوربعض کہتے ہیں: ایام تشریق میں صوم نہیں رکھے گا۔یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اہل حدیث حج میں عمرہ کوشامل کرکے حج تمتع کرنے کو پسندکرتے ہیں،یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ قَالَ الْعَجُّ وَالثَّجُّ

ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھاگیا کہ کون ساحج افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس میں کثرت سے تلبیہ پکاراگیا ہو اورخوب خون بہایاگیاہو ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُلَبِّي إِلَّا لَبَّی مَنْ عَنْ يَمِينِہِ أَوْ عَنْ شِمَالِہِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ حَتَّی تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ ہَاہُنَا وَہَاہُنَا حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ وَقَدْ رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيہِ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی أَبُو نُعَيْمٍ الطَّحَّانُ ضِرَارُ بْنُ صُرَدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَخْطَأَ فِيہِ ضِرَارٌ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ مَنْ قَالَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ عَنْ أَبِيہِ فَقَدْ أَخْطَأَ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ وَذَكَرْتُ لَہُ حَدِيثَ ضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ فَقَالَ ہُوَ خَطَأٌ فَقُلْتُ قَدْ رَوَاہُ غَيْرُہُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ أَيْضًا مِثْلَ رِوَايَتِہِ فَقَالَ لَا شَيْءَ إِنَّمَا رَوَوْہُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَرَأَيْتُہُ يُضَعِّفُ ضِرَارَ بْنَ صُرَدٍ وَالْعَجُّ ہُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ وَالثَّجُّ ہُوَ نَحْرُ الْبُدْنِ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو مسلمان بھی تلبیہ پکارتاہے اس کے دائیں یابائیں پائے جانے والے پتھر،درخت اور ڈھیلے سبھی تلبیہ پکارتے ہیں،یہاں تک کہ دونوں طرف کی زمین کے آخری سرے تک کی چیزیں سبھی تلبیہ پکارتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،ہم اسے ابن ابی فدیک ہی کے طریق سے جانتے ہیں،انہوں نے ضحاک بن عثمان سے روایت کی ہے،۲-محمد بن منکدر نے عبدالرحمٰن بن یربوع سے اسے نہیں سناہے،البتہ محمدبن منکدرنے بسندسعید بن عبدالرحمٰن بن یربوع عن أبیہ عبدالرحمٰن بن یربوع اس حدیث کے علاوہ دوسری چیزیں روایت کی ہیں،۳-ابونعیم طحان ضرار بن صرد نے یہ حدیث بطریق: ابن أبی فدیک،عن الضحاک بن عثمان،عن محمد بن المنکدر،عن سعید بن عبد الرحمن بن یربوع،عن أبیہ،عن أبی بکر،عن النبی ﷺ روایت کی ہے اور اس میں ضرار سے غلطی ہوئی ہے،۴-احمد بن حنبل کہتے ہیں: جس نے اس حدیث میں یوں کہا: عن محمد بن المنکدر،عن ابن عبد الرحمن بن یربوع،عن أبیہ اس نے غلطی کی ہے،۵-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے ضراربن صرد کی حدیث ذکر کی جسے انہوں نے ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا: یہ غلط ہے،میں نے کہا: اسے دوسرے لوگوں نے بھی انہیں کی طرح ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا: یہ کچھ نہیں ہے لوگوں نے اسے ابن ابی فدیک سے روایت کیا ہے اور اس میں سعید بن عبدالرحمٰن کے واسطے کاذکرنہیں کیا ہے،میں نے بخاری کو دیکھا کہ وہ ضراربن صردکی تضعیف کررہے تھے،۶-اس باب میں ابن عمر اورجابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۷-عج: تلبیہ میں آواز بلند کرنے کواور ثج: اونٹنیاں نحر(ذبح) کرنے کو کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَہُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَہُمْ بِالْإِہْلَالِ وَالتَّلْبِيَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ خَلَّادٍ عَنْ أَبِيہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا يَصِحُّ وَالصَّحِيحُ ہُوَ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيہِ وَہُوَ خَلَّادُ بْنُ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادِ بْنِ سُوَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ

سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل نے آکر مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ کو حکم دوں کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز بلندکریں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-خلادبن السائب کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے،حسن صحیح ہے۔۲-بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق: خلاد بن السائب،عن زید بن خالد،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔صحیح یہی ہے کہ خلادبن سائب نے اپنے باپ سے روایت کی ہے،اوریہ خلاد بن سائب بن خلاد بن سوید انصاری ہیں،۳-اس باب میں زید بن خالد،ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ مِنْ أَيْنَ نُہِلُّ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ يُہِلُّ أَہْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَأَہْلُ الشَّامِ مِنْ الْجُحْفَةِ وَأَہْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ قَالَ وَيَقُولُونَ وَأَہْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟ آپ نے فرمایا: اہل مدینہ ذی الحلیفہ ۲؎ سے احرام باندھیں،اہل شام جحفہ ۳؎ سے اور اہل نجد قرن سے ۴؎۔ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل یمن یلملم سے ۵؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کااسی پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَقَّتَ لِأَہْلِ الْمَشْرِقِ الْعَقِيقَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ ہُوَ أبُو جَعْفَرٍ مُحمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ حُسَيْنِ بنِ عَلِيِّ بنِ أبِي طَالبٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اہل مشرق کی میقات عقیق ۱؎ مقرر کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-محمد بن علی ہی ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنْ الثِّيَابِ فِي الْحَرَمِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْخِفَافَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَہُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْہُمَا مَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنْ الثِّيَابِ مَسَّہُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کھڑ ہوکرعرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کون کون سے کپڑے پہننے کاحکم دیتے ہیں؟رسول اللہﷺ نے فرمایا:نہ قمیص پہنو،نہ پاجامے،نہ عمامے اور نہ موزے،الا یہ کہ کسی کے پاس جو تے نہ ہوں تووہ خف(چمڑے کے موزے) پہنے اوراسے کاٹ کرٹخنے سے نیچے کرلے ۱؎ اورنہ ایساکوئی کپڑا پہنو جس میں زعفران یاورس لگا ہو ۲؎،اور محرم عورت نقاب نہ لگائے اور نہ دستانے پہنے ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ،عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ،عَنْ عَطَاءٍ،عَنْ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: رَأَی النَّبِيُّ ﷺ أَعْرَابِيًّا قَدْ أَحْرَمَ وَعَلَيْہِ جُبَّةٌ فَأَمَرَہُ أَنْ يَنْزِعَہَا.

یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک اعرابی کودیکھا جو احرام کی حالت میں کرتا پہنے ہوئے تھا۔تو آپ نے اسے حکم دیاکہ وہ اسے اتاردے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ،عَنْ عَطَاءٍ،عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَی،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ. وَہَذَا أَصَحُّ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَكَذَا رَوَاہُ قَتَادَةُ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَطَائٍ عَنْ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ. وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَابْنُ جُرَيْجٍ،عَنْ عَطَائٍ،عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَی،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.

یعلی رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔یہ زیادہ صحیح ہے اور حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح اسے قتادہ،حجاج بن ارطاۃ اور دوسرے کئی لوگوں نے عطا سے اور انہوں نے یعلی بن امیہ سے روایت کی ہے۔لیکن صحیح وہی ہے جسے عمرو بن دینار اور ابن جریج نے عطاء سے،اورعطاء نے صفوان بن یعلی سے اورصفوان نے اپنے والدیعلی سے اور یعلی نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَمْسُ فَوَاسِقَ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْغُرَابُ وَالْحُدَيَّا وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پانچ موذی جانورہیں جو حرم میں یا حالت احرام میں بھی مارے جاسکتے ہیں: چوہیا،بچھو،کوّا،چیل،کاٹ کھانے والا کتا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،ابن عمر،ابوہریرہ،ابوسعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ السَّبُعَ الْعَادِيَ وَالْكَلْبَ الْعَقُورَ وَالْفَأْرَةَ وَالْعَقْرَبَ وَالْحِدَأَةَ وَالْغُرَابَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا الْمُحْرِمُ يَقْتُلُ السَّبُعَ الْعَادِيَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ كُلُّ سَبُعٍ عَدَا عَلَی النَّاسِ أَوْ عَلَی دَوَابِّہِمْ فَلِلْمُحْرِمِ قَتْلُہُ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: محرم سرکش درندے،کاٹ کھانے والے کتے،چوہا،بچھو،چیل اور کوے مارسکتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔وہ کہتے ہیں: محرم ظلم ڈھانے والے درندوں کو مارسکتاہے،سفیان ثوری اور شافعی کابھی یہی قول ہے۔شافعی کہتے ہیں:محرم ہر اس درندے کو جو لوگوں کو یا جانوروں کو ایذاء پہنچائے،مارسکتاہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَہُوَ مُحْرِمٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَہْلُ الْكُوفَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے میمونہ سے شادی کی اورآپ محرم تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔اوریہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَہُوَ مُحْرِمٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا الشَّعْثَاءِ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَہُوَ مُحْرِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُہُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ وَاخْتَلَفُوا فِي تَزْوِيجِ النَّبِيِّ ﷺ مَيْمُونَةَ لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَہَا فِي طَرِيقِ مَكَّةَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ تَزَوَّجَہَا حَلَالًا وَظَہَرَ أَمْرُ تَزْوِيجِہَا وَہُوَ مُحْرِمٌ ثُمَّ بَنَی بِہَا وَہُوَ حَلَالٌ بِسَرِفَ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ وَمَاتَتْ مَيْمُونَةُ بِسَرِفَ حَيْثُ بَنَی بِہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَدُفِنَتْ بِسَرِفَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے میمونہ سے شادی کی توآپ محرم تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺ کے میمونہ سے شادی کرنے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔اس لئے کہ نبی اکرمﷺ نے مکے کے راستے میں ان سے شادی کی تھی،بعض لوگوں نے کہا: آپ نے جب ان سے شادی کی توآپ حلال تھے البتہ آپ کے ان سے شادی کرنے کی بات ظاہر ہوئی تو آپ محرم تھے،اور آپ نے مکے کے راستے میں مقام سرف میں ان کے ساتھ خلوت میں گئے توبھی آپ حلال تھے۔میمونہ کا انتقال بھی سرف میں ہوا جہاں رسول اللہﷺ نے ان سے خلوت کی تھی اور وہ مقام سرف میں ہی دفن کی گئیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي قَال سَمِعْتُ أَبَا فَزَارَةَ يُحَدِّثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ عَنْ مَيْمُونَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ تَزَوَّجَہَا وَہُوَ حَلَالٌ وَبَنَی بِہَا حَلَالًا وَمَاتَتْ بِسَرِفَ وَدَفَنَّاہَا فِي الظُّلَّةِ الَّتِي بَنَی بِہَا فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ مُرْسَلًا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَہُوَ حَلَالٌ

ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کی اور آپ حلال تھے اور ان سے خلوت کی توبھی آپ حلال تھے۔اورانہوں نے سرف ہی میں انتقال کیا،ہم نے انہیں اسی سایہ دار مقام میں دفن کیا جہاں آپ نے ان سے خلوت کی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-دیگرکئی لوگوں نے یہ حدیث یزید بن اصم سے مرسلاً روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَی مَكَّةَ دَخَلَ مِنْ أَعْلَاہَا وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ مکہ آتے توبلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور نشیب کی طرف سے نکلتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ مَكَّةَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاسْتَلَمَ الْحَجَرَ ثُمَّ مَضَی عَلَی يَمِينِہِ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَی أَرْبَعًا ثُمَّ أَتَی الْمَقَامَ فَقَالَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّی فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ وَالْمَقَامُ بَيْنَہُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ثُمَّ أَتَی الْحَجَرَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّفَا أَظُنُّہُ قَالَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ مکہ آئے توآپ مسجدحرام میں داخل ہوئے،اور حجر اسود کا بوسہ لیا،پھراپنے دائین جانب چلے آپ نے تین چکر میں رمل کیا ۱؎ اور چارچکرمیں عام چال چلے۔پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پاس آکرفرمایا: مقام ابراہیم کوصلاۃ پڑھنے کی جگہ بناؤ،چنانچہ آپ نے دورکعت صلاۃ پڑھی،اور مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا۔پھر دورکعت کے بعد حجر اسودکے پاس آکر اس کا استلام کیا۔پھر صفا کی طرف گئے۔میراخیال ہے کہ (وہاں) آپ نے یہ آیت پڑھی: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللہِ (صفااورمروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کااسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ وَمَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمُعَاوِيَةُ لَا يَمُرُّ بِرُكْنٍ إِلَّا اسْتَلَمَہُ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَكُنْ يَسْتَلِمُ إِلَّا الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لَيْسَ شَيْءٌ مِنْ الْبَيْتِ مَہْجُورًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَسْتَلِمَ إِلَّا الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ

ابوالطفیل کہتے کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہا کے ساتھ تھا،معاویہ رضی اللہ عنہ جس رکن کے بھی پاس سے گزرتے،اس کا استلام کرتے ۱؎ تو ابن عباس نے ان سے کہا: نبی اکرمﷺ نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کااستلام نہیں کیا،اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑی جانے کے لائق نہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے،۳-اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے کہ حجراسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کااستلام نہ کیاجائے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ ابْنِ يَعْلَی عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ طَافَ بِالْبَيْتِ مُضْطَبِعًا وَعَلَيْہِ بُرْدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ وَہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ الْحَمِيدِ ہُوَ ابْنُ جُبَيْرَةَ بْنِ شَيْبَةَ عَنْ ابْنِ يَعْلَی عَنْ أَبِيہِ وَہُوَ يَعْلَی بْنُ أُمَيَّةَ

یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اضطباع کی حالت میں ۱؎ بیت اللہ کا طواف کیا،آپ کے جسم مبارک پرایک چادر تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہی ثوری کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے اور اِسے ہم صرف کے اُنہی طریق سے جانتے ہیں،۳-عبدالحمید جبیرہ بن شیبہ کے بیٹے ہیں،جنہوں نے ابن یعلی سے اور ابن یعلی نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور یعلی سے مراد یعلی بن امیہ ہیں رضی اللہ عنہ۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ ہِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ طَافَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی رَاحِلَتِہِ فَإِذَا انْتَہَی إِلَی الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي الطُّفَيْلِ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَطُوفَ الرَّجُلُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَاكِبًا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی سواری پربیت اللہ کا طواف کیا جب ۱؎ آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،ابوالطفیل اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کی ایک جماعت نے بیت اللہ کا طواف،اور صفا ومروہ کی سعی سوار ہوکرکرنے کو مکروہ کہا ہے الایہ کہ کوئی عذرہو،یہی شافعی کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَمَانٍ،عَنْ شَرِيكٍ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ خَمْسِينَ مَرَّةً خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِہِ كَيَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ،سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: إِنَّمَا يُرْوَی ہَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے بیت اللہ کا طواف پچاس بار کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا جیسے اسی دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں انس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث غریب ہے،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: یہ تو ابن عباس سے ان کے اپنے قول سے روایت کیا جاتا ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ،قَالَ: كَانُوا يَعُدُّونَ عَبْدَاللہِ بْنَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَفْضَلَ مِنْ أَبِيہِ. وَلِعَبْدِ اللہِ أَخٌ يُقَالُ لَہُ عَبْدُالْمَلِكِ ابْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ. وَقَدْ رَوَی عَنْہُ أَيْضًا.

ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ لوگ عبداللہ بن سعید بن جبیر کوان کے والد سے افضل شمار کرتے تھے۔اور عبداللہ کے ایک بھائی ہیں جنہیں عبدالملک بن سعید بن جبیر کہتے ہیں۔انہوں نے ان سے بھی روایت کی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ،أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ،قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْئٍ بُعِثْتَ؟ قَالَ: بِأَرْبَعٍ: لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ. وَلاَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ. وَلاَ يَجْتَمِعُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا. وَمَنْ كَانَ بَيْنَہُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ ﷺ عَہْدٌ،فَعَہْدُہُ إِلَی مُدَّتِہِ. وَمَنْ لاَ مُدَّةَ لَہُ فَأَرْبَعَةُ أَشْہُرٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ.

زید بن اُثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کوکن باتوں کاحکم دے کر بھیجاگیاہے؟ ۱؎ انہوں نے کہا:چار باتوں کا: جنت میں صرف وہی جان داخل ہوگی جو مسلمان ہو،بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا ہوکرنہ کرے۔مسلمان اور مشرک اس سال کے بعد جمع نہ ہوں،جس کسی کا نبی اکرمﷺ سے کوئی عہد ہوتو اس کایہ عہد اس کی مدت تک کے لیے ہوگا۔اور جس کی کوئی مدت نہ ہو تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ،قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ نَحْوَہُ،وَقَالاَ: زَيْدُ بْنُ يُثَيْعٍ وَہَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَشُعْبَةُ وَہِمَ فِيہِ فَقَالَ زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ.

ہم سے ابن ابی عمراورنصربن علی نے بیان کیا،یہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اورسفیان نے ابواسحاق سبیعی سے اسی طرح کی حدیث روایت کی،البتہ ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے (زید بن اثیع کے بجائے) زید بن یثیع کہاہے،اور یہ زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: شعبہ کو اس میں وہم ہوا ہے،انہوں نے: زید بن اُثیل کہاہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَہْبٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمِنًی آمَنَ مَا كَانَ النَّاسُ وَأَكْثَرَہُ رَكْعَتَيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ حَارِثَةَ بْنِ وَہْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمِنًی رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ رَكْعَتَيْنِ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِہِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ بِمِنًی لِأَہْلِ مَكَّةَ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ لِأَہْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًی إِلَّا مَنْ كَانَ بِمِنًی مُسَافِرًا وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَيَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَا بَأْسَ لِأَہْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًی وَہُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ وَمَالِكٍ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِيٍّ

حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ منیٰ میں دورکعت صلاۃپڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مأمون اور بے خوف تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-حارثہ بن وہب کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے انہوں نے کہاکہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ منیٰ میں دورکعتیں پڑھیں،پھر ابوبکرکے ساتھ،عمر کے ساتھ اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے ابتدائی دورخلافت میں دورکعتیں پڑھیں،۴-اہل مکہ کے منیٰ میں صلاۃ قصرکرنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ میں صلاۃ قصر کریں ۱؎،بجز ایسے شخص کے جو منیٰ میں مسافر کی حیثیت سے ہو،یہ ابن جریج،سفیان ثوری،یحییٰ بن سعید قطان،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لئے منیٰ میں صلاۃقصرکرنے میں کوئی حرج نہیں۔یہ اوزاعی،مالک،سفیان بن عیینہ،اور عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَبِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ وَأَبُو نُعَيْمٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ وَزَادَ فِيہِ بِشْرٌ وَأَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ وَعَلَيْہِ السَّكِينَةُ وَأَمَرَہُمْ بِالسَّكِينَةِ وَزَادَ فِيہِ أَبُو نُعَيْمٍ وَأَمَرَہُمْ أَنْ يَرْمُوا بِمِثْلِ حَصَی الْخَذْفِ وَقَالَ لَعَلِّي لَا أَرَاكُمْ بَعْدَ عَامِي ہَذَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ وادی محسر میں تیزچال چلے۔(بشرکی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) آپ مزدلفہ سے لوٹے،آپ پُرسکون یعنی عام رفتارسے چل رہے تھے،لوگوں کو بھی آپ نے سکون واطمینان سے چلنے کاحکم دیا۔(اورابونعیم کی روایت میں اتنااضافہ ہے کہ) آپ نے انہیں ایسی کنکریوں سے رمی کرنے کا حکم دیا جو دوانگلیوں میں پکڑی جاسکیں،اور فرمایا: شاید میں اس سال کے بعد تمہیں نہ دیکھ سکوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَہْلِ نَجْدٍ أَتَوْا رَسُولَ اللہِ ﷺ وَہُوَ بِعَرَفَةَ،فَسَأَلُوہُ. فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَی الْحَجُّ عَرَفَةُ. مَنْ جَاءَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ. أَيَّامُ مِنًی ثَلاَثَةٌ. فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْہِ،وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْہِ. قَالَ: وَزَادَ يَحْيَی وَأَرْدَفَ رَجُلاً فَنَادَی

عبدالرحمٰن بن یعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجد کے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے،اس وقت آپ عرفہ میں تھے۔انہوں نے آپ سے حج کے متعلق پوچھا تو آپ نے منادی کوحکم دیا تواس نے اعلان کیا: حج عرفات میں ٹھہرنا ہے ۱؎ جو کوئی مزدلفہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے عرفہ آجائے،اس نے حج کو پالیا ۲؎ منی کے تین دن ہیں،جوجلدی کرے اوردودن ہی میں چلاجائے تو اس پرکوئی گناہ نہیں اورجودیرکرے تیسرے دن جائے تو اس پربھی کوئی گناہ نہیں۔(یحیی کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ نے ایک شخص کو پیچھے بٹھایااور اس نے آوازلگائی۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ،عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ. و قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ. وَہَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ يَعْمَرَ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّہُ مَنْ لَمْ يَقِفْ بِعَرَفَاتٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ فَاتَہُ الْحَجُّ. وَلاَ يُجْزِئُ عَنْہُ إِنْ جَاءَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ. وَيَجْعَلُہَا عُمْرَةً وَعَلَيْہِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ. وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ نَحْوَ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ . قَالَ: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا أَنَّہُ ذَكَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ: ہَذَا الْحَدِيثُ أُمُّ الْمَنَاسِكِ.

ابن ابی عمر نے بسند سفیان بن عیینہ عن سفیان الثوری عن بکیربن عطاء عن عبدالرحمٰن بن یعمرعن النبی ﷺ اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں: قال سفیان بن عیینہ،اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے،۲-وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہاکہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں ام المناسک کی حیثیت رکھتی ہے،۳-صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمٰن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا،اس کا حج فوت ہوگیا،اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تویہ اسے کافی نہیں ہوگا۔اسے عمرہ بنالے اور اگلے سال حج کرے،یہ ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ وَإِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ وَزَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ الطَّائِيِّ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ بِالْمُزْدَلِفَةِ حِينَ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي جِئْتُ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّئٍ أَكْلَلْتُ رَاحِلَتِي وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي وَاللہِ مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْہِ فَہَلْ لِي مِنْ حَجٍّ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ شَہِدَ صَلَاتَنَا ہَذِہِ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّی نَدْفَعَ وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ ذَلِكَ لَيْلًا أَوْ نَہَارًا فَقَدْ أَتَمَّ حَجَّہُ وَقَضَی تَفَثَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ قَوْلُہُ تَفَثَہُ يَعْنِي نُسُكَہُ قَوْلُہُ مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْہِ إِذَا كَانَ مِنْ رَمْلٍ يُقَالُ لَہُ حَبْلٌ وَإِذَا كَانَ مِنْ حِجَارَةٍ يُقَالُ لَہُ جَبَلٌ

عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام الطائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس مزدلفہ آیا،جس وقت آپ صلاۃ کے لیے نکلے تومیں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قبیلہ طی کے دونوں پہاڑوں سے ہوتاہوا آیاہوں،میں نے اپنی سواری کو اور خوداپنے کو خوب تھکادیاہے،اللہ کی قسم! میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا جہاں میں نے (یہ سوچ کر کہ عرفات کاٹیلہ ہے) وقوف نہ کیاہو تو کیامیراحج ہوگیا؟رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوبھی ہماری اس صلاۃ میں حاضررہا اور اس نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے روانہ ہوں اور وہ اس سے پہلے دن یا رات میں عرفہ میں وقوف کر چکاہو ۱؎ تواس نے اپنا حج پورا کرلیا،اور اپنا میل کچیل ختم کرلیا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- تَفَثَہُ کے معنی نسکہکے ہیں یعنی مناسک حج کے ہیں۔اور اس کے قول: مَا تَرَکْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَیْہِ. (کوئی ٹیلہ ایسانہ تھا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو)کے سلسلے میں یہ ہے کہ جب ریت کاٹیلہ ہوتو اسے حبل اور جب پتھر کا ہو تو اسے جبل کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي ثَقَلٍ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ بَعَثَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي ثَقَلٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُشَاشٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَہْلِہِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ وَہَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيہِ مُشَاشٌ وَزَادَ فِيہِ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَی ابْنُ جُرَيْجٍ وَغَيْرُہُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَمُشَاشٌ بَصْرِيٌّ رَوَی عَنْہُ شُعْبَةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مجھے مزدلفہ سے رات ہی میں اسباب (کمزور عورتوں اور ان کے اسباب)کے ساتھ روانہ کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا،ام حبیبہ،اسماء بنت ابی بکر اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَہْلِہِ وَقَالَ لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يَتَقَدَّمَ الضَّعَفَةُ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ بِلَيْلٍ يَصِيرُونَ إِلَی مِنًی و قَالَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُمْ لَا يَرْمُونَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يَرْمُوا بِلَيْلٍ وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُمْ لَا يَرْمُونَ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے گھروالوں میں سے کمزوروں (یعنی عورتوں اور بچّوں) کو پہلے ہی روانہ کردیا،اورآپ نے(ان سے) فرمایا: جب تک سورج نہ نکل جائے رمی جمار نہ کرنا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ ﷺ فِی ثَقَلٍ صحیح حدیث ہے،یہ ان سے کئی سندوں سے مروی ہے،شعبہ نے یہ حدیث مشاش سے اور مشاش نے عطاء سے اورعطانے ابن عباس سے اورابن عباس نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے گھروالوں میں سے کمزورلوگوں کوپہلے ہی رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ کردیاتھا،یہحدیث غلط ہے۔مشاش نے اس میں غلطی کی ہے،انہوں نے اس میںفضل بن عباس کا اضافہ کردیاہے۔ابن جریج اور دیگر لوگوں نے یہ حدیث عطاء سے اورعطاء نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور اس میں فضل بن عباس کے واسطے کا ذکر نہیں کیاہے،۳-مشاش بصرہ کے رہنے والے ہیں اور ان سے شعبہ نے روایت کی ہے،۴-اہل علم کااسی حدیث پر عمل ہے،وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کمزور لوگ مزدلفہ سے رات ہی کومنیٰ کے لیے روانہ ہوجائیں،۵-اکثر اہل علم نے نبی اکرمﷺ کی حدیث کے مطابق ہی کہا ہے کہ لوگ جب تک سورج طلوع نہ ہورمی نہ کریں،۶-اوربعض اہل علم نے رات ہی کو رمی کرلینے کی رخصت دی ہے۔اورعمل نبی اکرمﷺ کی حدیث پر ہے کہ وہ رمی نہ کریں جب تک کہ سورج نہ نکل جائے،یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَرْمِي الْجِمَارَ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمی جمار اس وقت کرتے جب سورج ڈھل جاتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ أَبِي صَخْرَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ لَمَّا أَتَی عَبْدُ اللہِ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ اسْتَبْطَنَ الْوَادِيَ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَجَعَلَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ عَلَی حَاجِبِہِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ رَمَی بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ ثُمَّ قَالَ وَاللہِ الَّذِي لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ مِنْ ہَاہُنَا رَمَی الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْہِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ وجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ يَرْمِيَ الرَّجُلُ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِنْ لَمْ يُمْكِنْہُ أَنْ يَرْمِيَ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي رَمَی مِنْ حَيْثُ قَدَرَ عَلَيْہِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي بَطْنِ الْوَادِي

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ(بن مسعود) جمرۂ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے بیچ میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہوکر اپنے داہنے ابرو کے مقابل رمی شروع کی۔پھرسات کنکریوں سے رمی کی۔ہرکنکری پر وہ اللہ اکبر کہتے تھے،پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں،اس ذات نے بھی یہیں سے رمی کی جس پر سورۂ بقرہ نازل کی گئی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں فضل بن عباس،ابن عباس،ابن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کااسی پر عمل ہے،ان کے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ آدمی بطن وادی میں کھڑے ہوکر سات کنکریوں سے رمی کرے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہے،۴-اور بعض اہل علم نے اجازت دی ہے کہ اگر بطن وادی سے رمی کرناممکن نہ ہوتو ایسی جگہ سے کرے جہاں سے وہ اس پر قادرہو گووہ بطن وادی میں نہ ہو۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَا حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ رَمْيُ الْجِمَارِ وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جمرات کی رمی اور صفا ومروہ کی سعی اللہ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ عَنْ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَرْمِي الْجِمَارُ عَلَی نَاقَةٍ لَيْسَ ضَرْبٌ وَلَا طَرْدٌ وَلَا إِلَيْكَ إِلَيْكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْظَلَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا يُعْرَفُ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَہُوَ حَدِيثُ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

قدامہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کودیکھا آپ ایک اونٹنی پر جمرات کی رمی کررہے تھے،نہ لوگوں کو ڈھکیلنے اور ہانکنے کی آواز تھی اور نہ ہٹو ہٹوکی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-قدامہ بن عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث اسی طریق سے جانی جاتی ہے،یہ ایمن بن نابل کی حدیث ہے۔اورایمن اہل حدیث (محدثین) کے نزدیک ثقہ ہیں،۳-اس باب مین عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَلَّدَ نَعْلَيْنِ وَأَشْعَرَ الْہَدْيَ فِي الشِّقِّ الْأَيْمَنِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ وَأَمَاطَ عَنْہُ الدَّمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَسَّانَ الْأَعْرَجُ اسْمُہُ مُسْلِمٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَرَوْنَ الْإِشْعَارَ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ سَمِعْت يُوسُفَ بْنَ عِيسَی يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ حِينَ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ قَالَ لَا تَنْظُرُوا إِلَی قَوْلِ أَہْلِ الرَّأْيِ فِي ہَذَا فَإِنَّ الْإِشْعَارَ سُنَّةٌ وَقَوْلُہُمْ بِدْعَةٌ قَالَ و سَمِعْت أَبَا السَّائِبِ يَقُولُ كُنَّا عِنْدَ وَكِيعٍ فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَہُ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ أَشْعَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَيَقُولُ أَبُو حَنِيفَةَ ہُوَ مُثْلَةٌ قَالَ الرَّجُلُ فَإِنَّہُ قَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّہُ قَالَ الْإِشْعَارُ مُثْلَةٌ قَالَ فَرَأَيْتُ وَكِيعًا غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا وَقَالَ أَقُولُ لَكَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَتَقُولُ قَالَ إِبْرَاہِيمُ مَا أَحَقَّكَ بِأَنْ تُحْبَسَ ثُمَّ لَا تَخْرُجَ حَتَّی تَنْزِعَ عَنْ قَوْلِكَ ہَذَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ذو الحلیفہ میں(ہدی کے جانورکو) دوجوتیوں کے ہارپہنائے اور ان کی کوہان کے دائیں طرف اشعار ۱؎ کیا اور اس سے خون صاف کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ اشعار کے قائل ہیں۔یہی ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۳-یوسف بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے وکیع کو کہتے سنا جس وقت انہوں نے یہ حدیث روایت کی کہ اس سلسلے میں اہل رائے کے قول کو نہ دیکھو،کیونکہ اشعار سنت ہے اورا ن کا قول بدعت ہے،۴-میں نے ابوسائب کوکہتے سنا کہ ہم لوگ وکیع کے پاس تھے تو انہوں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے جو ان لوگوں میں سے تھا جو رائے میں غوروفکرکرتے ہیں کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے اشعار کیاہے،اورابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ مثلہ ہے تو اس آدمی نے کہا: ابراہیم نخعی سے مروی ہے انہوں نے بھی کہاہے کہ اشعارمثلہ ہے،ابوسائب کہتے ہیں: تومیں نے وکیع کودیکھاکہ (اس کی اس بات سے)وہ سخت ناراض ہوے اورکہا: میں تم سے کہتاہوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاہے اورتم کہتے ہو: ابراہیم نے کہا: تم تواس لائق ہوکہ تمہیں قیدکردیاجائے پھر اس وقت تک قید سے تمہیں نہ نکالاجائے جب تک کہ تم اپنے اس قول سے بازنہ آجاؤ ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اشْتَرَی ہَدْيَہُ مِنْ قُدَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ الْيَمَانِ وَرُوِيَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ اشْتَرَی مِنْ قُدَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپناہدی کاجانور قدیدسے خریدا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے ثوری کی حدیث سے صرف یحیی بن یمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں: اورنافع سے مروی ہے کہ ابن عمرنے قدید ۱؎ سے خریدا،اور یہ زیادہ صحیح ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ ہَدْيِ رَسُولِ اللہِ ﷺ كُلَّہَا غَنَمًا ثُمَّ لَا يُحْرِمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَرَوْنَ تَقْلِيدَ الْغَنَمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی ہدی کی بکریوں کے سارے قلادے (پٹے) میں ہی بٹتی تھی ۱؎ پھر آپ احرام نہ باندھتے (حلال ہی رہتے تھے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم کے نزدیک اسی پرعمل ہے،وہ بکریوں کے قلادہ پہنانے کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ نَاجِيَةَ الْخُزَاعِيِّ صَاحِبِ بُدْنِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنْ الْبُدْنِ قَالَ انْحَرْہَا ثُمَّ اغْمِسْ نَعْلَہَا فِي دَمِہَا ثُمَّ خَلِّ بَيْنَ النَّاسِ وَبَيْنَہَا فَيَأْكُلُوہَا وَفِي الْبَاب عَنْ ذُؤَيْبٍ أَبِي قَبِيصَةَ الْخُزَاعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ نَاجِيَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا فِي ہَدْيِ التَّطَوُّعِ إِذَا عَطِبَ لَا يَأْكُلُ ہُوَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ رُفْقَتِہِ وَيُخَلَّی بَيْنَہُ وَبَيْنَ النَّاسِ يَأْكُلُونَہُ وَقَدْ أَجْزَأَ عَنْہُ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَالُوا إِنْ أَكَلَ مِنْہُ شَيْئًا غَرِمَ بِقَدْرِ مَا أَكَلَ مِنْہُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَكَلَ مِنْ ہَدْيِ التَّطَوُّعِ شَيْئًا فَقَدْ ضَمِنَ الَّذِي أَكَلَ

رسول اللہﷺ کے اونٹوں کی دیکھ بھال کرنے والے ناجیہ خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو اونٹ راستے میں مرنے لگیں انہیں میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: انہیں نحر(ذبح)کردو،پھر ان کی جوتی انہیں کے خون میں لت پت کردو،پھر انہیں لوگوں کے لیے چھوڑدو کہ وہ ان کا گوشت کھائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ناجیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ذؤیب ابوقبیصہ خزاعی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کااسی پرعمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ نفلی ہدی کا جانور جب مرنے لگے تو نہ وہ خود اسے کھائے اور نہ اس کے سفر کے ساتھی کھائیں۔وہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑدے،کہ وہ اسے کھائیں۔یہی اس کے لیے کافی ہے۔یہ شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اس میں سے کچھ کھالیا توجتنااس نے اس میں سے کھایا ہے اسی کے بقدروہ تاوان دے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ نفلی ہدی کے جانورمیں سے کچھ کھالے توجس نے کھایاوہ اس کا ضامن ہوگا۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ أَنَّہُ كَانَ يُمْسِكُ عَنْ التَّلْبِيَةِ فِي الْعُمْرَةِ إِذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا لَا يَقْطَعُ الْمُعْتَمِرُ التَّلْبِيَةَ حَتَّی يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا انْتَہَی إِلَی بُيُوتِ مَكَّةَ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ عمرہ میں تلبیہ پکارنا اس وقت بند کرتے جب حجر اسود کا استلام کرلیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا شخص تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ حجر اسود کا استلام نہ کرلے،۴-بعض کہتے ہیں کہ جب مکے کے گھروں یعنی مکہ کی آبادی میں پہنچ جائے تو تلبیہ پکارنا بندکردے۔لیکن عمل نبی اکرمﷺ کی (مذکورہ) حدیث پرہے۔یہی سفیان،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنَّمَا نَزَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْأَبْطَحَ لِأَنَّہُ كَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ نَحْوَہُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ابطح میں قیام فرمایا اس لیے کہ یہاں سے (مدینے کے لیے) روانہ ہونا زیادہ آسان تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اورسفیان نے ہشام بن عروہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِہَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمٍ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أَبِي أَدْرَكَتْہُ فَرِيضَةُ اللہِ فِي الْحَجِّ وَہُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَی ظَہْرِ الْبَعِيرِ قَالَ حُجِّي عَنْہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَبُرَيْدَةَ وَحُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ وَأَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ وَسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا عَنْ سِنَانِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْجُہَنِيِّ عَنْ عَمَّتِہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذِہِ الرِّوَايَاتِ فَقَالَ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ مَا رَوَی ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مُحَمَّدٌ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَمِعَہُ مِنْ الْفَضْلِ وَغَيْرِہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ رَوَی ہَذَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَرْسَلَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ الَّذِي سَمِعَہُ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ غَيْرُ حَدِيثٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَبِہِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَرَوْنَ أَنْ يُحَجَّ عَنْ الْمَيِّتِ و قَالَ مَالِكٌ إِذَا أَوْصَی أَنْ يُحَجَّ عَنْہُ حُجَّ عَنْہُ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُہُمْ أَنْ يُحَجَّ عَنْ الْحَيِّ إِذَا كَانَ كَبِيرًا أَوْ بِحَالٍ لَا يَقْدِرُ أَنْ يَحُجَّ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ

فضل بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کواللہ کے فریضہء حج نے پالیاہے لیکن وہ اتنے بوڑھے ہیں کہ اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتے (توکیا کیا جائے؟)۔آپ نے فرمایا:تو ان کی طرف سے حج کرلے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-فضل بن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن عباس رضی اللہ عنہا سے حصین بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳-ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سنان بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ نے اپنی پھوپھی سے اوران کی پھوپھی نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۴-ابن عباس رضی اللہ عنہا نے براہِ راست نبی اکرم ﷺ سے بھی روایت کی ہے،۵-امام ترمذی کہتے ہیں:میں نے ان روایات کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا توانہوں نے کہا: اس باب میں سب سے صحیح روایت وہ ہے جسے ابن عباس نے فضل بن عباس سے اورفضل نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۶-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس کابھی احتمال ہے کہ ابن عباس نے اسے (اپنے بھائی)فضل سے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی سناہواور ان لوگوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو،اور پھر ابن عباس رضی اللہ عنہا نے اسے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہو اور جس سے انہوں نے اسے سناہو اس کانام ذکرنہ کیا ہو،نبی اکرمﷺ سے اس باب میں کئی اوربھی احادیث ہیں،۷-اس باب میں علی،بریدہ،حصین بن عوف،ابورزین عقیلی،سودہ بنت زمعہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۸-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے،اور یہی ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے حج کیاجاسکتا ہے،۹-مالک کہتے ہیں: میت کی طرف سے حج اس وقت کیاجائے گا جب وہ حج کرنے کی وصیت کرگیاہو،۱۰-بعض لوگوں نے زندہ شخص کی طرف سے جب وہ بہت زیادہ بوڑھا ہوگیا ہویاایسی حالت میں ہوکہ وہ حج پر قدرت نہ رکھتاہوحج کرنے کی اجازت دی ہے۔یہی ابن مبارک اور شافعی کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ ہِيَ قَالَ لَا وَأَنْ تَعْتَمِرُوا ہُوَ أَفْضَلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا الْعُمْرَةُ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ وَكَانَ يُقَالُ ہُمَا حَجَّانِ الْحَجُّ الْأَكْبَرُ يَوْمُ النَّحْرِ وَالْحَجُّ الْأَصْغَرُ الْعُمْرَةُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ الْعُمْرَةُ سُنَّةٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَخَّصَ فِي تَرْكِہَا وَلَيْسَ فِيہَا شَيْءٌ ثَابِتٌ بِأَنَّہَا تَطَوُّعٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِإِسْنَادٍ وَہُوَ ضَعِيفٌ لَا تَقُومُ بِمِثْلِہِ الْحُجَّةُ وَقَدْ بَلَغَنَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ كَانَ يُوجِبُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی كُلُّہُ كَلَامُ الشَّافِعِيِّ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے عمرے کے بارے میں پوچھا گیا: کیا یہ واجب ہے؟ آپ نے فرمایا:نہیں،لیکن عمرہ کرنا بہتر ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوریہی بعض اہل علم کا قول ہے،وہ کہتے ہیں کہ عمرہ واجب نہیں ہے،۳-اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ حج دو ہیں: ایک حج اکبر ہے جو یوم نحر (دسویں ذی الحجہ کو) ہوتاہے اور دوسرا حج اصغرہے جسے عمرہ کہتے ہیں،۴-شافعی کہتے ہیں: عمرہ (کاوجوب) سنت سے ثابت ہے،ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے چھوڑنے کی اجازت دی ہو۔اور اس کے نفل ہونے کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔نبی اکرمﷺ سے جس سند سے (نفل ہونا) مروی ہے وہ ضعیف ہے۔اس جیسی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی،اور ہم تک یہ بات بھی پہنچی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا اسے واجب قرار دیتے تھے۔یہ سب شافعی کا کلام ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ تُكَفِّرُ مَا بَيْنَہُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَہُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹادیتاہے ۱؎ اور حج مقبول ۲؎ کا بدلہ جنت ہی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يُعْمِرَ عَائِشَةَ مِنْ التَّنْعِيمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکر مﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنعیم ۱؎ سے عمرہ کرائیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ أَبِي مُزَاحِمٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلًا مُعْتَمِرًا فَدَخَلَ مَكَّةَ لَيْلًا فَقَضَی عُمْرَتَہُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ لَيْلَتِہِ فَأَصْبَحَ بِالْجِعِرَّانَةِ كَبَائِتٍ فَلَمَّا زَالَتْ الشَّمْسُ مِنْ الْغَدِ خَرَجَ مِنْ بَطْنِ سَرِفَ حَتَّی جَاءَ مَعَ الطَّرِيقِ طَرِيقِ جَمْعٍ بِبَطْنِ سَرِفَ فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ خَفِيَتْ عُمْرَتُہُ عَلَی النَّاسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُ لِمُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَيُقَالُ جَاءَ مَعَ الطَّرِيقِ مَوْصُولٌ

محرش کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جعرانہ سے رات کو عمرے کی نیت سے نکلے اور رات ہی میں مکے میں داخل ہوئے،آپ نے اپنا عمرہ پورا کیا،پھر اسی رات (مکہ سے)نکل پڑے اورآپ نے واپس جعرانہ ۱؎ میں صبح کی،گویا آپ نے وہیں رات گزاری ہو،اور جب دوسرے دن سورج ڈھل گیاتوآپ وادی سرف ۲؎ سے نکلے یہاں تک کہ اس راستے پر آئے جس سے وادی سرف والاراستہ آکرمل جاتا ہے۔اسی وجہ سے(بہت سے) لوگوں سے آپ کا عمرہ پوشیدہ رہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اس حدیث کے علاوہ محرش کعبی کی کوئی اورحدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہواور کہاجاتاہے: جاء مع الطریق والاٹکڑاموصول ہے۔

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ ہُوَ السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اعْتَمَرَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ذی قعدہ کے مہینہ میں عمرہ کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ أُمِّ مَعْقِلٍ عَنْ أُمِّ مَعْقِلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَوَہْبِ بْنِ خَنْبَشٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُقَالُ ہَرِمُ بْنُ خَنْبَشٍ قَالَ بَيَانٌ وَجَابِرٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ وَہْبِ بْنِ خَنْبَشٍ و قَالَ دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ہَرِمُ بْنِ خَنْبَشٍ وَوَہْبٌ أَصَحُّ وَحَدِيثُ أُمِّ مَعْقِلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَدْ ثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً قَالَ إِسْحَقُ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ قَرَأَ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ فَقَدْ قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ

ام معقل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ام معقل کی حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲-(وہب کے بجائے) ھرم بن خنبش بھی کہاجاتاہے۔بیان اور جابرنے یوں کہاہے عن الشعبی عن وہب بن خنبش اور داود اودی نے یوں کہا ہے عن الشعبی عن ہرم بن خنبش لیکن صحیح وہب بن خنبش ہی ہے،۳-اس باب میں ابن عباس،جابر،ابوہریرہ،انس اور وہب بن خنبش رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ رمضان کا عمرہ حج کے ثواب برابر ہے،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم بھی اس حدیث کے مفہوم کی طرح ہے جونبی اکرمﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ جس نے سورۂ قل ہو اللہ أحد پڑھی اس نے تہائی قرآن پڑھا ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ سَمِعَ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَضْرَمِيِّ يَعْنِي مَرْفُوعًا قَالَ يَمْكُثُ الْمُہَاجِرُ بَعْدَ قَضَاءِ نُسُكِہِ بِمَكَّةَ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ مَرْفُوعًا

علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا ً روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مہاجراپنے حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکے میں تین دن ٹھہر سکتا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوراس سندسے اورطرح سے بھی یہ حدیث مرفوعاً روایت کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوَةً أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ فَعَلَا فَدْفَدًا مِنْ الْأَرْضِ أَوْ شَرَفًا كَبَّرَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَائِحُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللہُ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ وَأَنَسٍ وجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب کسی غزوے،حج یاعمرے سے لوٹتے اور کسی بلند مقام پر چڑھتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے،پھر کہتے: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ . آیِبُونَ،تَائِبُونَ،عَابِدُونَ،سَائِحُونَ،لِرَبِّنَا حَامِدُونَ. صَدَقَ اللہُ وَعْدَہُ. وَنَصَرَ عَبْدَہُ. وَہَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَہُ ۔(اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں۔سلطنت اسی کی ہے اورتمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں اور وہ ہرچیز پرقادر ہے۔ہم لوٹنے والے ہیں،رجوع کرنے والے ہیں،عبادت کرنے والے ہیں،سیر وسیاحت کرنے والے ہیں،اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔اللہ نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا۔اپنے بندے کی مدد کی،اور تنہاہی ساری فوجوں کو شکست دے دی)،امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں براء،انس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ وَابْنِ أَبِي نَجِيحٍ وَحُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ وَعَبْدِ الْكَرِيمِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِہِ وَہُوَ بِالْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ وَہُوَ مُحْرِمٌ وَہُوَ يُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَہَافَتُ عَلَی وَجْہِہِ فَقَالَ أَتُؤْذِيكَ ہَوَامُّكَ ہَذِہِ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ احْلِقْ وَأَطْعِمْ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ وَالْفَرَقُ ثَلَاثَةُ آصُعٍ أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ انْسُكْ نَسِيكَةً قَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ أَوْ اذْبَحْ شَاةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا حَلَقَ رَأْسَہُ أَوْ لَبِسَ مِنْ الثِّيَابِ مَا لَا يَنْبَغِي لَہُ أَنْ يَلْبَسَ فِي إِحْرَامِہِ أَوْ تَطَيَّبَ فَعَلَيْہِ الْكَفَّارَةُ بِمِثْلِ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کے پاس سے گزرے،وہ حدیبیہ میں تھے،احرام باندھے ہوئے تھے۔اورایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہے تھے۔جوئیں ان کے منہ پر گررہی تھیں تو آپ نے پوچھا: کیا یہ جوئیں تمہیں تکلیف پہنچارہی ہیں؟ کہا: ہاں،آپ نے فرمایا: سرمنڈوالو اور چھ مسکینوں کو ایک فرق کھانا کھلادو،(فرق تین صاع کا ہوتا ہے) یا تین دن کے صیام رکھ لو۔یا ایک جانور قربان کردو۔ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے یا ایک بکری ذبح کردو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ محرم جب اپنا سرمونڈالے،یا ایسے کپڑے پہن لے جن کا پہننا احرام میں درست نہیں یا خوشبو لگالے۔تو اس پر اسی کے مثل کفارہ ہوگا جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ حَدَّثَنَا زُہَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا أَنَّہَا كَانَتْ تَحْمِلُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ وَتُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَحْمِلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ زمزم کا پانی ساتھ مدینہ لے جاتی تھیں،اور بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہﷺ بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صر ف اسی طریق سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ،حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ،عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ،عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ،عَنْ ثَوْبَانَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ،لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،وَأَبِي مُوسَی،وَالْبَرَاءِ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ،وَأَنَسٍ،وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ثَوْبَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَی أَبُوغِفَارٍ وَعَاصِمٌ الأَحْوَلُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ،عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ،عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ،عَنْ ثَوْبَانَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ. وَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: مَنْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ،عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ فَہُوَ أَصَحُّ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَحَادِيثُ أَبِي قِلاَبَةَ إِنَّمَا ہِيَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ،إِلاَّ ہَذَا الْحَدِيثَ فَہُوَ عِنْدِي عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ،عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتاہے تو وہ برابر جنت میں پھل چنتارہتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ثوبان کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوغفار اورعاصم احول نے یہ حدیث بطریق: أبی قلابۃ،عن أبی الأشعث،عن أبی أسماء،عن ثوبان،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ جس نے یہ حدیث بطریق: أبی الأشعث،عن أبی اسماء روایت کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے،۴-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابوقلابہ کی حدیثیں ابواسماء ہی سے مروی ہیں سوائے اس حدیث کے یہ میرے نزدیک بطریق: أبی الأشعث،عن أبی أسماء مروی ہے،۵-اس باب میں علی،ابوموسیٰ،براء،ابوہریرہ،انس اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ،عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ،عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ،عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ،عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ،عَنْ ثَوْبَانَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ. وَزَادَ فِيہِ قِيلَ: مَا خُرْفَةُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: جَنَاہَا.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ،حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ،عَنْ أَيُّوبَ،عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ،عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ،عَنْ ثَوْبَانَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ خَالِدٍ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَلَمْ يَرْفَعْہُ.

اس سند سے بھی ثوبان رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: عرض کیاگیا: جنت کا خرفہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا: ا س کے پھل توڑنا۔ایک دوسری سندسے ایوب سے اورایوب نے ابوقلابہ سے،اورابوقلابہ نے ابواسماء سے،اورابواسماء نے ثوبان سے اور ثوبان نے نبی اکرمﷺسے خالد الحذاء کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،اور اس میں احمدبن عبدہ نے ابواشعث کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: بعض نے یہ حدیث حماد بن زید سے روایت کی ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ ثُوَيْرٍ ہُوَ ابْنُ أَبِي فَاخِتَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَخَذَ عَلِيٌّ بِيَدِي قَالَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی الْحَسَنِ نَعُودُہُ فَوَجَدْنَا عِنْدَہُ أَبَا مُوسَی فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْہِ السَّلَام أَعَائِدًا جِئْتَ يَا أَبَا مُوسَی أَمْ زَائِرًا فَقَالَ لَا بَلْ عَائِدًا فَقَالَ عَلِيٌّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّی عَلَيْہِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّی يُمْسِيَ وَإِنْ عَادَہُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّی عَلَيْہِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّی يُصْبِحَ وَكَانَ لَہُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ مِنْہُمْ مَنْ وَقَفَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ

ابوفاختہ سعید بن علاقہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے میراہاتھ پکڑکرکہا: ہمارے ساتھ حسن کے پاس چلوہم ان کی عیادت کریں گے توہم نے ان کے پاس ابوموسیٰ کو پایا۔توعلی رضی اللہ عنہ نے پوچھا:ابوموسیٰ کیا آپ عیادت کے لیے آئے ہیں؟ یازیارت-شماتت-کے لیے؟ توانہوں نے کہا: نہیں،بلکہ عیادت کے لیے آیاہوں۔اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتاہے تو شام تک سترہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔اورجو شام کو عیادت کرتاہے تو صبح تک سترہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کرتے ہیں۔اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-علی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی اوربھی طرق سے بھی مروی ہے،ان میں سے بعض نے موقوفاً اور بعض نے مرفوعاً روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ ہِلَالٍ الْبَصْرِيُّ الصَّوَّافُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ جِبْرِيلَ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ اشْتَكَيْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ بِاسْمِ اللہِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ وَعَيْنِ حَاسِدٍ بِاسْمِ اللہِ أَرْقِيكَ وَاللہُ يَشْفِيكَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کے پاس آکرجبریل نے پوچھا: اے محمد! کیا آپ بیمار ہیں؟ فرمایا:ہاں،جبریل نے کہا:بِاسْمِ اللہِ أَرْقِیکَ. مِنْ کُلِّ شَیْئٍ یُؤْذِیکَ. مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ وَعَیْنِ حَاسِدٍ،بِاسْمِ اللہِ أَرْقِیکَ،وَاللہُ یَشْفِیکَ (میں اللہ کے نام سے آپ پردم کرتاہوں ہراس چیزسے جو آپ کو ایذاء پہنچا رہی ہے،ہرنفس کے شر سے اور ہرحاسد کی آنکھ سے،میں اللہ کے نام سے آپ پردم کرتاہوں،اللہ آپ کو شفا عطافرمائے گا)۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فَقَالَ ثَابِتٌ يَا أَبَا حَمْزَةَ اشْتَكَيْتُ فَقَالَ أَنَسٌ أَفَلَا أَرْقِيكَ بِرُقْيَةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ بَلَی قَالَ اللہُمَّ رَبَّ النَّاسِ مُذْہِبَ الْبَاسِ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شَافِيَ إِلَّا أَنْتَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقُلْتُ لَہُ رِوَايَةُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَصَحُّ أَوْ حَدِيثُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كِلَاہُمَا صَحِيحٌ وَرَوَی عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ

عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں: میں اور ثابت بنانی دونوں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ثابت نے کہا: ابوحمزہ! میں بیمارہوگیاہوں،انس نے کہا: کیامیں تم پررسول اللہ ﷺکے منترکے ذریعہ دم نہ کردوں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! انس نے کہا:اللّہُمَّ! رَبَّ النَّاسِ،مُذْہِبَ الْبَاسِ،اشْفِ أَنْتَ الشَّافِی. لاَ شَافِیَ إِلاَّ أَنْتَ. شِفَاءً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا (اے اللہ! لوگوں کے رب! مصیبت کو دور کرنے والے! شفاعطافرما،تو ہی شفادینے والاہے،تیرے سوا کوئی شافی نہیں۔ایسی شفادے کہ کوئی بیماری باقی نہ رہ جائے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید خدری کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاکہ عبدالعزیز بن صہیب کی روایت بسند ابی نضرۃ عن ابی سعید الخدری زیادہ صحیح ہے یا عبدالعزیز کی انس سے روایت ہے؟ تو انہوں نے کہا: دونوں صحیح ہیں،۳-عبدالصمد بن عبدالوارث نے بسندعبدالوارث عن عبدالعزیزبن صہیب عن ابی نضرۃ عن ابی سعیدالخدری روایت کی ہے اورعبدالعزیز بن صھیب نے انس سے بھی روایت کی ہے،۴-اس باب میں انس اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَہُ شَيْءٌ يُوصِي فِيہِ إِلَّا وَوَصِيَّتُہُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان،جس کی دو راتیں بھی اس حال میں گزریں کہ اس کے پاس وصیت کرنے کی کوئی چیز ہو،اس پر لازم ہے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی حدحث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْہَادِ عَنْ مُوسَی بْنِ سَرْجِسَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَہُوَ بِالْمَوْتِ وَعِنْدَہُ قَدَحٌ فِيہِ مَاءٌ وَہُوَ يُدْخِلُ يَدَہُ فِي الْقَدَحِ ثُمَّ يَمْسَحُ وَجْہَہُ بِالْمَاءِ ثُمَّ يَقُولُ اللہُمَّ أَعِنِّي عَلَی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ أَوْ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا کہ آپ سکرات کے عالم میں تھے،آپ کے پاس ایک پیالہ تھا،جس میں پانی تھا،آپ پیالے میں اپناہاتھ ڈالتے پھر اپنے چہرے پر ملتے اور فرماتے: اللہُمَّ! أَعِنِّی عَلَی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ أَوْ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ.(اے اللہ! سکرات الموت میں میری مدد فرما)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْحَلَبِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْعَلَاءِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا أَغْبِطُ أَحَدًا بِہَوْنِ مَوْتٍ بَعْدَ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ شِدَّةِ مَوْتِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ وَقُلْتُ لَہُ مَنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْعَلَاءِ فَقَالَ ہُوَ الْعَلَاءُ بْنُ اللَّجْلَاجِ وَإِنَّمَا عَرَّفَہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کی موت کی جو شدت میں نے دیکھی،اس کے بعد میں کسی کی جان آسانی سے نکلنے پررشک نہیں کرتی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ عبدالرحمٰن بن علاء کون ہیں؟ توانہوں نے کہا: وہ علاء بن اللجلاج ہیں،میں اسے اسی طریق سے جانتاہوں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَامُ بْنُ الْمِصَكِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ نَفْسَ الْمُؤْمِنُ تَخْرُجُ رَشْحًا وَلَا أُحِبُّ مَوْتًا كَمَوْتِ الْحِمَارِ قِيلَ وَمَا مَوْتُ الْحِمَارِ قَالَ مَوْتُ الْفَجْأَةِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: مومن کی جان تھوڑاتھوڑا کرکے نکلتی ہے جیسے جسم سے پسینہ نکلتاہے اور مجھے گدھے جیسی موت پسندنہیں ۔عرض کیاگیا: گدھے کی موت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:اچانک موت ۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْحَلَبِيُّ عَنْ تَمَّامِ بْنِ نَجِيحٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ حَافِظَيْنِ رَفَعَا إِلَی اللہِ مَا حَفِظَا مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَہَارٍ فَيَجِدُ اللہُ فِي أَوَّلِ الصَّحِيفَةِ وَفِي آخِرِ الصَّحِيفَةِ خَيْرًا إِلَّا قَالَ اللہُ تَعَالَی أُشْہِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِعَبْدِي مَا بَيْنَ طَرَفَيْ الصَّحِيفَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب بھی دونوں لکھنے والے (فرشتے) دن ورات کسی کے عمل کو لکھ کر اللہ کے پاس لے جاتے ہیں اوراللہ تعالیٰ دفترکے شروع اوراخیرمیں خیر(نیک کام) لکھاہوا پاتاہے توفرماتاہے: میں تم لوگوں کو گواہ بناتاہوں کہ میں نے اپنے بندکے سارے گناہ معاف کردینے جو اس دفترکے دونوں کناروں شروع اوراخیرکے درمیان میں ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ وَہَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا سَيَّارٌ ہُوَ ابْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَی شَابٍّ وَہُوَ فِي الْمَوْتِ فَقَالَ كَيْفَ تَجِدُكَ قَالَ وَاللہِ يَا رَسُولَ اللہِ أَنِّي أَرْجُو اللہَ وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ ہَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاہُ اللہُ مَا يَرْجُو وَآمَنَہُ مِمَّا يَخَافُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک نوجوان کے پاس آئے اوروہ سکرات کے عالم میں تھا۔آپ نے فرمایا: تم اپنے کو کیسا پارہے ہو؟ اس نے عرض کیا: اللہ کی قسم،اللہ کے رسول! مجھے اللہ سے امید ہے اور اپنے گناہوں سے ڈربھی رہاہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں چیزیں اس جیسے وقت میں جس بندے کے دل میں جمع ہوجاتی ہیں تواللہ اسے وہ چیز عطاکردیتاہے جس کی وہ اس سے امید رکھتاہے اور اسے اس چیز سے محفوظ رکھتا ہے جس سے وہ ڈررہا ہوتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن اور غریب ہے،۲-اور بعض لوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمْ الْبَيَاضَ فَإِنَّہَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ وَكَفِّنُوا فِيہَا مَوْتَاكُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّہُ أَہْلُ الْعِلْمِ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُكَفَّنَ فِي ثِيَابِہِ الَّتِي كَانَ يُصَلِّي فِيہَا و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَيْنَا أَنْ يُكَفَّنَ فِيہَا الْبَيَاضُ وَيُسْتَحَبُّ حُسْنُ الْكَفَنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سفید کپڑے پہنو،کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اوراسی میں اپنے مردوں کوبھی کفناؤ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سمرہ،ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور اہل علم اسی کو مستحب قراردیتے ہیں۔ابن مبارک کہتے ہیں: میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ آدمی انہی کپڑوں میں کفنایا جائے جن میں وہ صلاۃ پڑھتاتھا،۴-احمداور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کفنانے کے لیے میرے نزدیک سب سے پسندیدہ کپڑا سفید رنگ کا کپڑا ہے۔اوراچھا کفن دینا مستحب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنِي زُبَيْدٌ الْأَيَامِيُّ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الْجُيُوبَ وَضَرَبَ الْخُدُودَ وَدَعَا بِدَعْوَةِ الْجَاہِلِيَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو گریبان پھاڑے،چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی ہانک پکارے ۱؎ ہم میں سے نہیں ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَہْلِہِ عَلَيْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ الْبُكَاءَ عَلَی الْمَيِّتِ قَالُوا الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَہْلِہِ عَلَيْہِ وَذَہَبُوا إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ أَرْجُو إِنْ كَانَ يَنْہَاہُمْ فِي حَيَاتِہِ أَنْ لَا يَكُونَ عَلَيْہِ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میت کو اس کے گھروالوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کی ایک جماعت نے میت پر رونے کو مکروہ(تحریمی) قراردیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پررونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتاہے۔اور وہ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،۴-اورابن مبارک کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ اگروہ (میت) اپنی زندگی میں لوگوں کو اس سے روکتارہا ہو تو اس پراس میں سے کچھ نہیں ہوگا۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ أَنَّ مُوسَی بْنَ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيَّ أَخْبَرَہُ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ بَاكِيہِ فَيَقُولُ وَا جَبَلَاہْ وَا سَيِّدَاہْ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ إِلَّا وُكِّلَ بِہِ مَلَكَانِ يَلْہَزَانِہِ أَہَكَذَا كُنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوکوئی بھی مرجائے پھر اس پر رونے والا کھڑا ہو کرکہے: ہائے میرے پہاڑ،ہائے میرے سردار یا اس جیسے الفاظ کہے تو اسے دوفرشتوں کے حوالے کردیا جاتاہے،وہ اسے گھونسے مارتے ہیں(اورکہتے جاتے ہیں:) کیا تو ایسا ہی تھا؟۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُہَلَّبِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَہْلِہِ عَلَيْہِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ يَرْحَمُہُ اللہُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّہُ وَہِمَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِرَجُلٍ مَاتَ يَہُودِيًّا إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ وَإِنَّ أَہْلَہُ لَيَبْكُونَ عَلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَائِشَةَ وَقَدْ ذَہَبَ أَہْلُ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَتَأَوَّلُوا ہَذِہِ الْآيَةَ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میت کواپنے گھروالوں کے اس پر رونے سے عذاب دیاجاتاہے،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ (ابن عمر) پر رحم کرے،انہوں نے جھوٹ نہیں کہا،انہیں وہم ہواہے۔رسول اللہ ﷺ نے تویہ بات اس یہودی کے لیے فرمائی تھی جو مرگیا تھا: میت کو عذاب ہورہاہے اور اس کے گھروالے اس پر رورہے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عائشہ سے مروی ہے،۳-اس باب میں ابن عباس،قرظہ بن کعب،ابوہریرہ،ابن مسعود اوراسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-بعض اہل علم اسی جانب گئے ہیں اور ان لوگوں نے آیت: وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی (کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا) کامطلب بھی یہی بیان کیا ہے اوریہی شافعی کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ بِيَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ فَانْطَلَقَ بِہِ إِلَی ابْنِہِ إِبْرَاہِيمَ فَوَجَدَہُ يَجُودُ بِنَفْسِہِ فَأَخَذَہُ النَّبِيُّ ﷺ فَوَضَعَہُ فِي حِجْرِہِ فَبَكَی فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَتَبْكِي أَوَلَمْ تَكُنْ نَہَيْتَ عَنْ الْبُكَاءِ قَالَ لَا وَلَكِنْ نَہَيْتُ عَنْ صَوْتَيْنِ أَحْمَقَيْنِ فَاجِرَيْنِ صَوْتٍ عِنْدَ مُصِيبَةٍ خَمْشِ وُجُوہٍ وَشَقِّ جُيُوبٍ وَرَنَّةِ شَيْطَانٍ وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے بیٹے ابراہیم کے پاس لے گئے تو دیکھا کہ ابراہیم کا آخری وقت ہے،نبی اکرمﷺ نے ابراہیم کو اٹھاکراپنی گود میں رکھ لیا اور رودیا۔عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا:کیا آپ رورہے ہیں؟ کیا آپ نے رونے منع نہیں کیاتھا؟تو آپ نے فرمایا: نہیں،میں تو دو احمق فاجرآوازوں سے روکتاتھا: ایک تو مصیبت کے وقت آوازنکالنے،چہرہ زخمی کرنے سے اور گریبان پھاڑنے سے،دوسرے شیطان کے نغمے سے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ قَالَ و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَمْرَةَ أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ وَذُكِرَ لَہَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْہِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ غَفَرَ اللہُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّہُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّہُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی يَہُودِيَّةٍ يُبْكَی عَلَيْہَا فَقَالَ إِنَّہُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْہَا وَإِنَّہَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کوکہتے سنااور ان سے ذکرکیا گیاتھاکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میت پرلوگوں کے رونے کی وجہ سے اُسے عذاب دیاجاتاہے (عائشہ نے کہا:) اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے۔سنو،انہوں نے جھوٹ نہیں کہا۔بلکہ ان سے بھول ہوئی ہے یا وہ چوک گئے ہیں۔بات صرف اتنی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک یہودی عورت کے پاس سے ہوا جس پر لوگ رورہے تھے۔تو آپ نے فرمایا: یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے قبر میں عذاب دیاجارہاہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَحْيَی إِمَامِ بَنِي تَيْمِ اللہِ عَنْ أَبِي مَاجِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ الْمَشْيِ خَلْفَ الْجَنَازَةِ قَالَ مَا دُونَ الْخَبَبِ فَإِنْ كَانَ خَيْرًا عَجَّلْتُمُوہُ وَإِنْ كَانَ شَرًّا فَلَا يُبَعَّدُ إِلَّا أَہْلُ النَّارِ الْجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ وَلَا تَتْبَعُ وَلَيْسَ مِنْہَا مَنْ تَقَدَّمَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يُضَعِّفُ حَدِيثَ أَبِي مَاجِدٍ لِہَذَا و قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ الْحُمَيْدِيُّ قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ قِيلَ لِيَحْيَی مَنْ أَبُو مَاجِدٍ ہَذَا قَالَ طَائِرٌ طَارَ فَحَدَّثَنَا وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَی ہَذَا رَأَوْا أَنَّ الْمَشْيَ خَلْفَہَا أَفْضَلُ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَإِسْحَقُ قَالَ إِنَّ أَبَا مَاجِدٍ رَجُلٌ مَجْہُولٌ لَا يُعْرَفُ إِنَّمَا يُرْوَی عَنْہُ حَدِيثَانِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَيَحْيَی إِمَامُ بَنِي تَيْمِ اللہِ ثِقَةٌ يُكْنَی أَبَا الْحَارِثِ وَيُقَالُ لَہُ يَحْيَی الْجَابِرُ وَيُقَالُ لَہُ يَحْيَی الْمُجْبِرُ أَيْضًا وَہُوَ كُوفِيٌّ رَوَی لَہُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَبُو الْأَحْوَصِ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے جنازے کے پیچھے چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:ایسی چال چلے جودُلکی چال سے دھیمی ہو۔اگر وہ نیک ہے توتم اسے جلدی قبرمیں پہنچادوگے اور اگر برا ہے توجہنمیوں ہی کو دور ہٹایاجاتاہے۔جنازہ کے پیچھے چلنا چاہئے،اس سے آگے نہیں ہوناچاہئے،جو جنازہ کے آگے چلے وہ اس کے ساتھ جانے والوں میں سے نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے صر ف اسی سند سے جانی جاتی ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابوحامد کی اس حدیث کوضعیف بتاتے سناہے،۳-محمدبن اسماعیل بخاری کا بیان ہے کہ حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے پوچھاگیا: ابوماجد کو ن ہیں؟ توانہوں نے کہا: ایک اڑتی چڑیاہے جس سے ہم نے روایت کی ہے،یعنی مجہول راوی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي جَنَازَةٍ فَرَأَی نَاسًا رُكْبَانًا فَقَالَ أَلَا تَسْتَحْيُونَ إِنَّ مَلَائِكَةَ اللہِ عَلَی أَقْدَامِہِمْ وَأَنْتُمْ عَلَی ظُہُورِ الدَّوَابِّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ثَوْبَانَ قَدْ رُوِيَ عَنْہُ مَوْقُوفًا قَالَ مُحَمَّدٌ الْمَوْقُوفُ مِنْہُ أَصَحُّ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں نکلے،آپ نے کچھ لوگوں کو سوار دیکھا تو فرمایا: کیا تمہیں شرم نہیں آتی؟ اللہ کے فرشتے پیدل چل رہے ہیں اور تم جانوروں کی پیٹھوں پر بیٹھے ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ثوبان کی حدیث،ان سے موقوفاً بھی مروی ہے۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ان کی موقوف روایت زیادہ صحیح ہے،۲-اس باب میں مغیرہ بن شعبہ اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعُودُ الْمَرِيضَ وَيَشْہَدُ الْجَنَازَةَ وَيَرْكَبُ الْحِمَارَ وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْعَبْدِ وَكَانَ يَوْمَ بَنِي قُرَيْظَةَ عَلَی حِمَارٍ مَخْطُومٍ بِحَبْلٍ مِنْ لِيفٍ عَلَيْہِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ عَنْ أَنَسٍ وَمُسْلِمٌ الْأَعْوَرُ يُضَعَّفُ وَہُوَ مُسْلِمُ بْنُ كَيْسَانَ الْمُلَائِيُّ تُكُلِّمَ فِيہِ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مریض کی عیادت کرتے،جنازے میں شریک ہوتے،گدھے کی سواری کرتے اور غلام کی دعوت قبول فرماتے تھے۔بنوقریظہ ۱؎ والے دن آپ ایک ایسے گدھے پر سوار تھے،جس کی لگام کھجور کی چھال کی رسی کی تھی،اس پر زین بھی چھال ہی کی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کوصرف مسلم کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں۔اور مسلم اعور ضعیف گردانے جاتے ہیں۔یہی مسلم بن کیسان مُلائی ہیں،جس پرکلام کیاگیا ہے،ان سے شعبہ اور سفیان نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ وَكُفُّوا عَنْ مَسَاوِيہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ عِمْرَانُ بْنُ أَنَسٍ الْمَكِّيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ وَعِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ مِصْرِيٌّ أَقْدَمُ وَأَثْبَتُ مِنْ عِمْرَانَ بْنِ أَنَسٍ الْمَكِّيِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے مُردوں کی اچھائیوں کو ذکرکیا کرو اور ان کی برائیاں بیان کرنے سے بازرہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ عمران بن انس مکی منکرالحدیث ہیں،۲-بعض نے عطا سے اور عطا نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے،۳-عمران بن ابی انس مصری عمران بن انس مکی سے پہلے کے ہیں اوران سے زیادہ ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سِنَانٍ قَالَ دَفَنْتُ ابْنِي سِنَانًا وَأَبُو طَلْحَةَ الْخَوْلَانِيُّ جَالِسٌ عَلَی شَفِيرِ الْقَبْرِ فَلَمَّا أَرَدْتُ الْخُرُوجَ أَخَذَ بِيَدِي فَقَالَ أَلَا أُبَشِّرُكَ يَا أَبَا سِنَانٍ قُلْتُ بَلَی فَقَالَ حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللہُ لِمَلَائِكَتِہِ قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيَقُولُ قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِہِ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيَقُولُ مَاذَا قَالَ عَبْدِي فَيَقُولُونَ حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ فَيَقُولُ اللہُ ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَسَمُّوہُ بَيْتَ الْحَمْدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوسنان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بیٹے سنا ن کو دفن کیااور ابوطلحہ خولانی قبر کی منڈیرپر بیٹھے تھے،جب میں نے (قبرسے) نکلنے کاارادہ کیا تووہ میرا ہاتھ پکڑکرکہا: ابوسنان! کیا میں تمہیں بشارت نہ دوں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں ضروردیجئے،تو انہوں نے کہا: مجھ سے ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزب نے بیان کیاکہ ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بندے کا بچہ ۱؎ فوت ہوجاتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتاہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟تووہ کہتے ہیں: ہاں،پھر فرماتاہے: تم نے اس کے دل کاپھل لے لیا؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔تواللہ تعالیٰ پوچھتاہے: میرے بندے نے کیاکہا؟ وہ کہتے ہیں:اس نے تیری حمد بیان کی اورإنا للہ وإنا إلیہ راجعون پڑھاتو اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کانام بیت الحمد رکھّو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی عَلَی النَّجَاشِيِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی وَجَابِرٍ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيَزِيدُ بْنُ ثَابِتٍ ہُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَہُوَ أَكْبَرُ مِنْہُ شَہِدَ بَدْرًا وَزَيْدٌ لَمْ يَشْہَدْ بَدْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَرَوْنَ التَّكْبِيرَ عَلَی الْجَنَازَةِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے نجاشی کی صلاۃ جنازہ پڑھی توآپ نے چارتکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،ابن ابی اوفیٰ،جابر،یزید بن ثابت اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۳-یزید بن ثابت: زید بن ثابت کے بھائی ہیں۔یہ ان سے بڑے ہیں۔یہ بدر میں شریک تھے اور زید بدر میں شریک نہیں تھے،۴-صحابہ کرام میں سے اکثراہل علم کااسی پرعمل ہے۔ان لوگوں کی رائے ہے کہ صلاۃ جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔سفیان ثوری،مالک بن انس،ا بن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَی جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا وَإِنَّہُ كَبَّرَ عَلَی جَنَازَةٍ خَمْسًا فَسَأَلْنَاہُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُكَبِّرُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ رَأَوْا التَّكْبِيرَ عَلَی الْجَنَازَةِ خَمْسًا و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ إِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ عَلَی الْجَنَازَةِ خَمْسًا فَإِنَّہُ يُتَّبَعُ الْإِمَامُ

عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی،تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایسابھی کہتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-زید بن ارقم کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ جنازے میں پانچ تکبیریں ہیں،۳-احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام جنازے میں پانچ تکبیریں کہے توامام کی پیروی کی جائے (یعنی مقتدی بھی پانچ کہیں)۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مُوسَی بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَنْہَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيہِنَّ أَوْ نَقْبُرَ فِيہِنَّ مَوْتَانَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّی تَرْتَفِعَ وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّہِيرَةِ حَتَّی تَمِيلَ وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّی تَغْرُبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَكْرَہُونَ الصَّلَاةَ عَلَی الْجَنَازَةِ فِي ہَذِہِ السَّاعَاتِ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنْ نَقْبُرَ فِيہِنَّ مَوْتَانَا يَعْنِي الصَّلَاةَ عَلَی الْجَنَازَةِ وَكَرِہَ الصَّلَاةَ عَلَی الْجَنَازَةِ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِہَا وَإِذَا انْتَصَفَ النَّہَارُ حَتَّی تَزُولَ الشَّمْسُ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ فِي الصَّلَاةِ عَلَی الْجَنَازَةِ فِي السَّاعَاتِ الَّتِي تُكْرَہُ فِيہِنَّ الصَّلَاةُ

عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین ساعتیں ایسی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺہمیں صلاۃ پڑھنے سے یااپنے مردوں کودفنانے سے منع فرماتے تھے:جس وقت سورج نکل رہا ہویہاں تک کہ وہ بلند ہوجائے،اورجس وقت ٹھیک دوپہرہورہی ہویہاں تک کہ سورج ڈھل جائے،اورجس وقت سورج ڈوبنے کی طرف مائل ہو یہاں تک کہ وہ ڈوب جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔وہ لوگ ان اوقات میں صلاۃ جنازہ پڑھنے کو مکروہ سمجھتے ہیں،۳-ابن مبارک کہتے ہیں: اس حدیث میں ان اوقات میں مردے دفنانے سے مراد ان کی صلاۃ جنازہ پڑھنا ہے ۱؎ انہوں نے سورج نکلتے وقت ڈوبتے وقت اور دوپہر کے وقت جب تک کہ سورج ڈھل نہ جائے صلاۃِجنازہ پڑھنے کومکروہ کہا ہے۔احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۴-شافعی کہتے ہیں کہ ان اوقات میں جن میں صلاۃ پڑھنامکروہ ہے،ان میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْمَكِّيِّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الطِّفْلُ لَا يُصَلَّی عَلَيْہِ وَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّی يَسْتَہِلَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ قَدْ اضْطَرَبَ النَّاسُ فِيہِ فَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مَرْفُوعًا وَرَوَی أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا وَكَأَنَّ ہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا قَالُوا لَا يُصَلَّی عَلَی الطِّفْلِ حَتَّی يَسْتَہِلَّ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بچے کی صلاۃِ (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی۔نہ وہ کسی کا وارث ہوگا اور نہ کوئی اس کا وارث ہوگا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث میں لوگ اضطراب کے شکارہوئے ہیں۔بعض نے اِسے ابوالزبیرسے اور ابوالزبیرنے جابرسے اورجابرنے نبی اکرمﷺسے مرفوعاً روایت کیا ہے،اوراشعث بن سوار اوردیگر کئی لوگوں نے ابوالزبیرسے اورابوالزبیرنے جابرسے موقوفاً روایت کی ہے،اورمحمد بن اسحاق نے عطاء بن ابی رباح سے اورعطاء نے جابرسے موقوفاً روایت کی ہے گویاموقوف روایت مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے،۲-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ بچے کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت نہ روئے یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی سُہَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ الشَّافِعِيُّ قَالَ مَالِكٌ لَا يُصَلَّی عَلَی الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ يُصَلَّی عَلَی الْمَيِّتِ فِي الْمَسْجِدِ وَاحْتَجَّ بِہَذَا الْحَدِيثِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاء ۱؎ کی صلاۃِجنازہ مسجد میں پڑھی ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،۳-شافعی کا بیان ہے کہ مالک کہتے ہیں: میت پرصلاۃِجنازہ مسجد میں نہیں پڑھی جائے گی،۴-شافعی کہتے ہیں: میت پرصلاۃِجنازہ مسجدمیں پڑھی جاسکتی ہے،اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ أَخْبَرَہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَی أُحُدٍ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّہُمَا أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَہُ إِلَی أَحَدِہِمَا قَدَّمَہُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ أَنَا شَہِيدٌ عَلَی ہَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَمَرَ بِدَفْنِہِمْ فِي دِمَائِہِمْ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْہِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَمِنْہُمْ مَنْ ذَكَرَہُ عَنْ جَابِرٍ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلَاةِ عَلَی الشَّہِيدِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لَا يُصَلَّی عَلَی الشَّہِيدِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْمَدِينَةِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ و قَالَ بَعْضُہُمْ يُصَلَّی عَلَی الشَّہِيدِ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ صَلَّی عَلَی حَمْزَةَ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَبِہِ يَقُولُ إِسْحَقُ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں ایک ساتھ کفناتے،پھر پوچھتے: ان میں قرآن کسے زیادہ یادتھا؟تو جب آپ کوان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو آپ اسے لحد میں مقدم رکھتے اور فرماتے: قیامت کے روز میں ان لوگوں پر گواہ رہوں گا۔اور آپ نے انہیں ان کے خون ہی میں دفنانے کا حکم دیا اور ان کی صلاۃِجنازہ نہیں پڑھی اورنہ ہی انہیں غسل ہی دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر کی حدیث حسن صحیح ہے،یہ حدیث زہری سے مروی ہے انہوں نے اسے انس سے اورانس نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے نیزیہ زہری سے عبداللہ بن ثعلبہ بن ابی صعیرکے واسطے سے بھی مروی ہے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اوران میں سے بعض نے اسے جابرکی روایت سے ذکرکیا،۲-اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کا شہید کی صلاۃِ جنازہ کے سلسلے میں اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں کہ شہید کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔یہی اہل مدینہ کا قول ہے۔شافعی اور احمدبھی یہی کہتے ہیں،۴-اوربعض کہتے ہیں کہ شہید کی صلاۃ پڑھی جائے گی۔ان لوگوں نے نبی اکرمﷺ کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ آپ نے حمزہ رضی اللہ عنہ کی صلاۃ پڑھی تھی۔ثوری اورا ہل کوفہ اسی کے قائل ہیں اور یہی اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ أَخْبَرَنِي مَنْ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ وَرَأَی قَبْرًا مُنْتَبِذًا فَصَفَّ أَصْحَابَہُ خَلْفَہُ فَصَلَّی عَلَيْہِ فَقِيلَ لَہُ مَنْ أَخْبَرَكَہُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَبُرَيْدَةَ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَسَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يُصَلَّی عَلَی الْقَبْرِ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ و قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ إِذَا دُفِنَ الْمَيِّتُ وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْہِ صُلِّيَ عَلَی الْقَبْرِ وَرَأَی ابْنُ الْمُبَارَكِ الصَّلَاةَ عَلَی الْقَبْرِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يُصَلَّی عَلَی الْقَبْرِ إِلَی شَہْرٍ وَقَالَا أَكْثَرُ مَا سَمِعْنَا عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی عَلَی قَبْرِ أُمِّ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ بَعْدَ شَہْرٍ

شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبردی ہے جس نے نبی اکرمﷺ کو دیکھاکہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھائی۔شعبی سے پوچھاگیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،بریدہ،یزید بن ثابت،ابوہریرہ،عامر بن ربیعہ،ابوقتادہ اور سہل بن حنیف سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ قبرپر صلاۃ نہیں پڑھی جائے گی ۱؎ یہ مالک بن انس کا قول ہے،۵-عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب میت کو دفن کردیا جائے اور اس کی صلاۃِجنازہ نہ پڑھی گئی ہو تواس کی صلاۃِجنازہ قبر پرپڑھی جائے گی،۶-ابن مبارک قبر پر صلاۃ (جنازہ) پڑھنے کے قائل ہیں،۷-احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: قبر پر صلاۃ ایک ماہ تک پڑھی جاسکتی ہے۔یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اکثر سنا ہے سعیدبن مسیب سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے سعد بن عبادہ کی والدہ کی صلاۃِ جنازہ ایک ماہ کے بعد قبر پر پڑھی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ وَالنَّبِيُّ ﷺ غَائِبٌ فَلَمَّا قَدِمَ صَلَّی عَلَيْہَا وَقَدْ مَضَی لِذَلِكَ شَہْرٌ

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ام سعد کا انتقال ہوگیا اور نبی اکرمﷺ موجود نہیں تھے،جب آپ تشریف لائے تو ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھی۔اس واقعہ کو ایک ماہ گزرچکا تھا۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فَلَہُ قِيرَاطٌ وَمَنْ تَبِعَہَا حَتَّی يُقْضَی دَفْنُہَا فَلَہُ قِيرَاطَانِ أَحَدُہُمَا أَوْ أَصْغَرُہُمَا مِثْلُ أُحُدٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عُمَرَ فَأَرْسَلَ إِلَی عَائِشَةَ فَسَأَلَہَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَتْ صَدَقَ أَبُو ہُرَيْرَةَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لَقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيطَ كَثِيرَةٍ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَابْنِ عُمَرَ وَثَوْبَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی صلاۃِ جنازہ پڑھی،اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے۔اور جو اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کی تدفین مکمل کرلی جائے تو اس کے لیے دوقیراط ثواب ہے،ان میں سے ایک قیراط یا ان میں سے چھوٹا قیراط اُحد کے برابر ہوگا۔تومیں نے ابن عمر سے اس کا ذکرکیا توا نہوں نے مجھے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور ان سے اس بارے میں پوچھوایاتوانہوں نے کہا: ابوہریرہ سچ کہتے ہیں۔توابن عمر نے کہا: ہم نے بہت سے قیراط گنوادیئے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ان سے کئی سندوں سے یہ مروی ہے،۳-اس باب میں براء،عبداللہ بن مغفل،عبداللہ بن مسعود،ابوسعیدخدری،ابی بن کعب،ابن عمر اور ثوبان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ. حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ. حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا الْمُہَزِّمِ قَالَ: صَحِبْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ عَشْرَ سِنِينَ سَمِعْتُہُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً،وَحَمَلَہَا ثَلاَثَ مَرَّاتٍ،فَقَدْ قَضَی مَا عَلَيْہِ مِنْ حَقِّہَا. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ بِہَذَا الإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ. وَأَبُوالْمُہَزِّمِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ وَضَعَّفَہُ شُعْبَةُ

عبادبن منصورکہتے ہیں کہ میں نے ابوالمہزم کوکہتے سناکہ میں دس سال ابوہریرہ کے ساتھ رہا۔میں نے انہیں سنا،وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: جو کسی جنازے کے ساتھ گیا اوراسے تین بارکندھا دیاتو،اس نے اپنا حق پورا کردیا جو اس پر تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اسے بعض نے اسی سند سے روایت کیا ہے لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے،۳-ابوالمہزم کانام یزید بن سفیان ہے۔شعبہ نے انہیں ضعیف کہاہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ عَنْ أَبِي كُدَيْنَةَ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِقُبُورِ الْمَدِينَةِ فَأَقْبَلَ عَلَيْہِمْ بِوَجْہِہِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَہْلَ الْقُبُورِ يَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَكُمْ أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْأَثَرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو كُدَيْنَةَ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ الْمُہَلَّبِ وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُہُ حُصَيْنُ بْنُ جُنْدُبٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینے کی چند قبروں کے پاس سے گزرے،توان کی طرف رخ کرکے آپ نے فرمایا:السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ،یَا أَہْلَ الْقُبُورِ! یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ،أَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالأَثَرِ(سلامتی ہوتم پر اے قبروالو! اللہ ہمیں اورتمہیں بخشے تم ہمارے پیش روہو اور ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں بریدہ رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ ہَذَا كَانَ قَبْلَ أَنْ يُرَخِّصَ النَّبِيُّ ﷺ فِي زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَلَمَّا رَخَّصَ دَخَلَ فِي رُخْصَتِہِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّمَا كُرِہَ زِيَارَةُ الْقُبُورِ لِلنِّسَاءِ لِقِلَّةِ صَبْرِہِنَّ وَكَثْرَةِ جَزَعِہِنَّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اور حسان بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے قبروں کی زیارت کی اجازت دینے سے پہلے کی بات ہے۔جب آپ نے اس کی اجازت دے دی تو اب اس اجازت میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں،۴-بعض کہتے ہیں کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت ان کی قلت صبراورکثرت جزع فزع کی وجہ سے مکروہ ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَمُوتُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ فَتَمَسَّہُ النَّارُ إِلَّا تَحِلَّةَ الْقَسَمِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَمُعَاذٍ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ وَأُمِّ سُلَيْمٍ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ثَعْلَبَةَ الْأَشْجَعِيِّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ وَأَبُو ثَعْلَبَةَ الْأَشْجَعِيُّ لَہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثٌ وَاحِدٌ ہُوَ ہَذَا الْحَدِيثُ وَلَيْسَ ہُوَ الْخُشَنِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس مسلمان کے تین بچے فوت ہوجائیں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوے گی مگرقسم پوری کرنے کے لیے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،معاذ،کعب بن مالک،عتبہ بن عبد،ام سلیم،جابر،انس،ابوذر،ابن مسعود،ابوثعلبہ اشجعی،ابن عباس،عقبہ بن عامر،ابوسعیدخدری اور قرہ بن ایاس مزنی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ابوثعلبہ اشجعی کی نبی اکرمﷺ سے صرف ایک ہی حدیث ہے،اور وہ یہی حدیث ہے،اور یہ خشنی نہیں ہیں۔(ابوثعلبہ خشنی دوسرے ہیں)

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَدَّمَ ثَلَاثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ كَانُوا لَہُ حِصْنًا حَصِينًا مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَدَّمْتُ اثْنَيْنِ قَالَ وَاثْنَيْنِ فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ سَيِّدُ الْقُرَّاءِ قَدَّمْتُ وَاحِدًا قَالَ وَوَاحِدًا وَلَكِنْ إِنَّمَا ذَاكَ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے تین بچوں کو (لڑکے ہوں یالڑکیاں) بطورذخیرئہ آخرت کے آگے بھیج دیا ہو،اور وہ سنِ بلوغت کونہ پہنچے ہوں تو وہ اس کے لیے جہنم سے بچانے کا ایک مضبوط قلعہ ہوں گے۔اس پرابوذرنے عرض کیا: میں نے دوبچے بھیجے ہیں؟آپ نے فرمایا: دو بھی کافی ہیں۔توابی بن کعب سید القراء ۱؎ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:میں نے ایک ہی بھیجاہے؟تو آپ نے فرمایا: ایک بھی کافی ہے۔البتہ یہ قلعہ اس وقت ہوں گے جب وہ پہلے صدمے کے وقت یعنی مرنے کے ساتھ ہی صبر کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ابوعبیدہ عبیدہ نے اپنے والدعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سُنا ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ وَأَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَی الْبَصْرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ رَبِّہِ بْنُ بَارِقٍ الْحَنَفِيُّ قَال سَمِعْتُ جَدِّي أَبَا أُمِّي سِمَاكَ بْنَ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيَّ يُحَدِّثُ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ كَانَ لَہُ فَرَطَانِ مِنْ أُمَّتِي أَدْخَلَہُ اللہُ بِہِمَا الْجَنَّةَ فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَمَنْ كَانَ لَہُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ قَالَ وَمَنْ كَانَ لَہُ فَرَطٌ يَا مُوَفَّقَةُ قَالَتْ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَہُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ قَالَ فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِي لَنْ يُصَابُوا بِمِثْلِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ بَارِقٍ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ أَنْبَأَنَا عَبْدُ رَبِّہِ بْنُ بَارِقٍ فَذَكَرَ نَحْوَہُ وَسِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ ہُوَ أَبُو زُمَيْلٍ الْحَنَفِيُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: میری امت میں سے جس کے دوپیش روہوں،اللہ اسے ان کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گااس پرعائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ کی امت میں سے جس کے ایک ہی پیش روہوتو؟ آپ نے فرمایا: جس کے ایک ہی پیش رو ہو اُسے بھی اے توفیق یافتہ خاتون!(پھر) انہوں نے پوچھا: آپ کی امت میں جس کا کوئی پیش روہی نہ ہو اس کاکیا ہوگا؟توآپ نے فرمایا:میں اپنی امت کاپیش روہوں کسی کی جدائی سے انہیں ایسی تکلیف نہیں ہوگی جیسی میری جدائی سے انہیں ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے عبدربہ بن بارق ہی کی روایت سے جانتے ہیں اور ان سے کئی ائمہ نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُنْكَحُ الثَّيِّبُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ وَإِذْنُہَا الصُّمُوتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَالْعُرْسِ بْنِ عَمِيرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الثَّيِّبَ لَا تُزَوَّجُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَإِنْ زَوَّجَہَا الْأَبُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَسْتَأْمِرَہَا فَكَرِہَتْ ذَلِكَ فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْأَبْكَارِ إِذَا زَوَّجَہُنَّ الْآبَاءُ فَرَأَی أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْأَبَ إِذَا زَوَّجَ الْبِكْرَ وَہِيَ بَالِغَةٌ بِغَيْرِ أَمْرِہَا فَلَمْ تَرْضَ بِتَزْوِيجِ الْأَبِ فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْمَدِينَةِ تَزْوِيجُ الْأَبِ عَلَی الْبِكْرِ جَائِزٌ وَإِنْ كَرِہَتْ ذَلِكَ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ثیبہ (شوہردیدہ عورت خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ) کانکاح نہ کیاجائے جب تک کہ اس کی رضامندی ۱؎ حاصل نہ کرلی جائے،اور کنواری ۲؎ عورت کانکاح نہ کیاجائے جب تک کہ اس کی اجازت نہ لے لی جائے اور اس کی اجازت خاموشی ہے ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،ابن عباس،عائشہ اورعرس بن عمیرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ ثیّبہ(شوہر دیدہ) کانکاح اس کی رضامندی حاصل کیے بغیر نہیں کیا جائے گا۔اگر اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی رضامندی کے بغیر کردی اور اسے وہ ناپسند ہوتو تمام اہل علم کے نزدیک وہ نکاح منسوخ ہوجائے گا،۴-کنواری لڑکیوں کے باپ ان کی شادی ان کی اجازت کے بغیر کردیں تواہل علم کااختلاف ہے۔کوفہ وغیرہ کے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ باپ اگر کنواری لڑکی کی شادی اس کی اجازت کے بغیرکردے اور وہ بالغ ہو اور پھروہ اپنے والد کی شادی پر راضی نہ ہو تو نکاح منسوخ ہوجائے گا ۴؎،۵-اور بعض اہل مدینہ کہتے ہیں کہ کنواری کی شادی اگر باپ نے کردی ہوتو درست ہے گووہ اسے ناپسندہو،یہ مالک بن انس،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۵؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِيِّہَا وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِہَا وَإِذْنُہَا صُمَاتُہَا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَقَدْ احْتَجَّ بَعْضُ النَّاسِ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ بِغَيْرِ وَلِيٍّ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَلَيْسَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ مَا احْتَجُّوا بِہِ لِأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَہَكَذَا أَفْتَی بِہِ ابْنُ عَبَّاسٍ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَإِنَّمَا مَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِيِّہَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوَلِيَّ لَا يُزَوِّجُہَا إِلَّا بِرِضَاہَا وَأَمْرِہَا فَإِنْ زَوَّجَہَا فَالنِّكَاحُ مَفْسُوخٌ عَلَی حَدِيثِ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِدَامٍ حَيْثُ زَوَّجَہَا أَبُوہَا وَہِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِہَتْ ذَلِكَ فَرَدَّ النَّبِيُّ ﷺ نِكَاحَہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ثیبہ(شوہر دیدہ) عورت اپنے آپ پراپنے ولی سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے۱؎ اور کنواری سے بھی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی جازت اس کی خاموشی ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ اور ثوری نے اسے مالک بن انس سے روایت کیا ہے،۳-بعض لوگوں نے بغیر ولی کے نکاح کے جوازپر اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔حالاں کہ اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس کی دلیل بنے۔اس لیے کہ ابن عباس سے کئی اور طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح درست نہیں۔نبی اکرمﷺ کے بعد ابن عباس نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہیں،۴-اور الأیم أحق بنفسہا من ولیہا کا مطلب اکثر اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ ولی ثیبہ کا نکاح اس کی رضامندی اور اس سے مشورہ کے بغیر نہ کرے۔اگر اس نے ایسا کیا تو خنساء بنت خدام کی حدیث کی روسے نکاح فسح ہوجائے گا۔ان کے والد نے ان کی شادی کردی،اوروہ شوہر دیدہ عورتتھیں،انہیں یہ شادی ناپسند ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے ان کے نکاح کو فسخ کر دیا۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زُبَيْدٍ الْأَيَامِيُّ حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَعَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَا إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَعَنَ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ حَدِيثٌ مَعْلُولٌ وَہَكَذَا رَوَی أَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ ہُوَ الشَّعْبِيُّ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ وَعَامِرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَائِمِ لِأَنَّ مُجَالِدَ بْنَ سَعِيدٍ قَدْ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَرَوَی عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عَلِيٍّ وَہَذَا قَدْ وَہِمَ فِيہِ ابْنُ نُمَيْرٍ وَالْحَدِيثُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ وَقَدْ رَوَاہُ مُغِيرَةُ وَابْنُ أَبِي خَالِدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے اورکرانے والے پرلعنت بھیجی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی اور جابر رضی اللہ عنہما کی حدیث معلول ہے،۲-اسی طرح اشعث بن عبدالرحمٰن نے بسند مجالد عن عامر الشعبی عن الحارث عن علی روایت کی ہے۔اور عامر الشعبی نے بسند جابر بن عبداللہ عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۳-اس حدیث کی سند کچھ زیادہ درست نہیں ہے۔اس لیے کہ مجالد بن سعید کو بعض اہل علم نے ضعیف گردانا ہے۔انہی میں سے احمد بن حنبل ہیں،۴-نیزعبداللہ بن نمیر نے اس حدیث کو بسند مجالد عن عامرالشعبی عن جابربن عبداللہ عن علی روایت کی ہے،اس میں ابن نمیرکو وہم ہواہے۔پہلی حدیث زیادہ صحیح ہے،۵-اور اسے مغیرہ،ابن ابی خالد اور کئی اورلوگوں نے بسند الشعبی عن الحارث عن علی روایت کی ہے،۶-اس باب میں ابن مسعود،ابوہریرہ،عقبہ بن عامر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي قَيْسٍ عَنْ ہُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُحِلَّ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو قَيْسٍ الْأَوْدِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَرْوَانَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو وَغَيْرُہُمْ وَہُوَ قَوْلُ الْفُقَہَاءِ مِنْ التَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَذْكُرُ عَنْ وَكِيعٍ أَنَّہُ قَالَ بِہَذَا و قَالَ يَنْبَغِي أَنْ يُرْمَی بِہَذَا الْبَابِ مِنْ قَوْلِ أَصْحَابِ الرَّأْيِ قَالَ جَارُودُ قَالَ وَكِيعٌ وَقَالَ سُفْيَانُ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ لِيُحَلِّلَہَا ثُمَّ بَدَا لَہُ أَنْ يُمْسِكَہَا فَلَا يَحِلُّ لَہُ أَنْ يُمْسِكَہَا حَتَّی يَتَزَوَّجَہَا بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ

عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اورکرانے والے (دونوں) پر لعنت بھیجی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث نبی اکرمﷺ سے کئی اورطرق سے بھی روایت کی گئی ہے،۳-صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔جن میں عمربن خطاب،عثمان بن عفان،عبداللہ بن عمروغیرہم رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں۔یہی تابعین میں سے فقہاء کابھی قول ہے اور یہی سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،وکیع نے بھی یہی کہاہے،۴-نیز وکیع کہتے ہیں: اصحاب رائے کے قول کو پھینک دیناہی مناسب ہوگا ۱؎،۵-سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی جب عورت سے نکاح اس نیت سے کرے کہ وہ اسے (پہلے شوہر کے لیے) حلال کرے گا پھر اسے اس عورت کو اپنی زوجیت میں رکھ لینا ہی بھلا معلو م ہو تو وہ اسے اپنی زوجیت میں نہیں رکھ سکتا جب تک کہ اس سے نئے نکاح کے ذریعے سے شادی نہ کرے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ وَہُوَ الطَّوِيلُ قَالَ حَدَّثَ الْحَسَنُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا جَلَبَ وَلَا جَنَبَ وَلَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ وَمَنْ انْتَہَبَ نُہْبَةً فَلَيْسَ مِنَّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي رَيْحَانَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَمُعَاوِيَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’اسلام میں نہ جلب ہے،نہ جنب ۱؎ اور نہ ہی شغار،اور جوکسی کی کوئی چیز اچک لے،وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،ابوریحانہ،ابن عمر،جابر،معاویہ،ابوہریرہ،اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الشِّغَارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ نِكَاحَ الشِّغَارِ وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَہُ عَلَی أَنْ يُزَوِّجَہُ الْآخَرُ ابْنَتَہُ أَوْ أُخْتَہُ وَلَا صَدَاقَ بَيْنَہُمَا و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ نِكَاحُ الشِّغَارِ مَفْسُوخٌ وَلَا يَحِلُّ وَإِنْ جُعِلَ لَہُمَا صَدَاقًا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرُوِيَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ أَنَّہُ قَالَ يُقَرَّانِ عَلَی نِكَاحِہِمَا وَيُجْعَلُ لَہُمَا صَدَاقُ الْمِثْلِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْكُوفَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے،یہ لوگ نکاح شغارکو درست نہیں سمجھتے،۳-شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کانکاح کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کانکاح اس سے کردے گا اور ان کے درمیان کوئی مہرمقررنہ ہو،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: نکاح شغار فسخ کردیاجائے گا اور وہ حلال نہیں،اگرچہ بعد میں ان کے درمیان مہر مقرر کرلیاجائے۔یہ شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۵-لیکن عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ وہ اپنے نکاح پر قائم رہیں گے البتہ ان کے درمیان مہر مثل مقرر کردیا جائے گا،اور یہی اہل کوفہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ أَبِي حَرِيزٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ تُزَوَّجَ الْمَرْأَةُ عَلَی عَمَّتِہَا أَوْ عَلَی خَالَتِہَا وَأَبُو حَرِيزٍ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ حُسَيْنٍ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي مُوسَی وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے منع فرمایاکہ کسی عورت سے شادی کی جائے اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ (پہلے سے) نکاح میں ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوحریز کانام عبداللہ بن حسین ہے،۲-نصر بن علی نے بطریق: عبدالأعلی،عن ہشام بن حسان،عن ابن سیرین،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ اسی کے مثل روایت کی ہے،۳-اس باب میں علی،ابن عمر،عبداللہ بن عمرو،ابوسعید،ابوامامہ،جابر،عائشہ،ابوموسیٰ اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي ہِنْدٍ حَدَّثَنَا عَامِرٌ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَی عَمَّتِہَا أَوْ الْعَمَّةُ عَلَی ابْنَةِ أَخِيہَا أَوْ الْمَرْأَةُ عَلَی خَالَتِہَا أَوْ الْخَالَةُ عَلَی بِنْتِ أُخْتِہَا وَلَا تُنْكَحُ الصُّغْرَی عَلَی الْكُبْرَی وَلَا الْكُبْرَی عَلَی الصُّغْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَہُمْ اخْتِلَافًا أَنَّہُ لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَعَمَّتِہَا أَوْ خَالَتِہَا فَإِنْ نَكَحَ امْرَأَةً عَلَی عَمَّتِہَا أَوْ خَالَتِہَا أَوْ الْعَمَّةَ عَلَی بِنْتِ أَخِيہَا فَنِكَاحُ الْأُخْرَی مِنْہُمَا مَفْسُوخٌ وَبِہِ يَقُولُ عَامَّةُ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی أَدْرَكَ الشَّعْبِيُّ أَبَا ہُرَيْرَةَ وَرَوَی عَنْہُ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا فَقَالَ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی الشَّعْبِيُّ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ عورت سے نکاح کیاجائے جب کہ اس کی پھوپھی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کیاجائے جبکہ اس کی بھتیجی (پہلے سے) نکاح میں ہو یا بھانجی سے نکاح کیاجائے جب کہ اس کی خالہ(پہلے سے) نکاح میں ہو یا خالہ سے نکاح کیاجائے جب کہ اس کی بھانجی پہلے سے نکاح میں ہو۔اور نہ نکاح کیاجائے کسی چھوٹی سے جب کہ اس کی بڑی نکاح میں ہو اور نہ بڑی سے نکاح کیاجائے جب کہ چھوٹی نکاح میں ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ہمیں ان کے درمیان اس بات میں کسی اختلاف کا علم نہیں کہ آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیک وقت کسی عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ یا اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں رکھے۔اگر اس نے کسی عورت سے نکاح کرلیا جب کہ اس کی پھوپھی یا خالہ بھی اس کے نکاح میں ہو یا پھوپھی سے نکاح کرلیا جب کہ اس کی بھتیجی نکاح میں ہو تو ان میں سے جو نکاح بعد میں ہوا ہے،وہ فسخ ہوگا،یہی تمام اہل علم کا قول ہے،۳-شعبی نے ابوہریرہ کو پایا ہے اور ان سے (براہ راست) روایت بھی کی ہے۔میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح ہے،۴-شعبی نے ابوہریرہ سے ایک شخص کے واسطے سے بھی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ وَلَہُ عَشْرُ نِسْوَةٍ فِي الْجَاہِلِيَّةِ فَأَسْلَمْنَ مَعَہُ فَأَمَرَہُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَتَخَيَّرَ أَرْبَعًا مِنْہُنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَاہُ مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ ہَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَغَيْرُہُ عَنْ الزُّہْرِيِّ قَالَ حُدِّثْتُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ أَسْلَمَ وَعِنْدَہُ عَشْرُ نِسْوَةٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَإِنَّمَا حَدِيثُ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ ثَقِيفٍ طَلَّقَ نِسَاءَہُ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ لَتُرَاجِعَنَّ نِسَاءَكَ أَوْ لَأَرْجُمَنَّ قَبْرَكَ كَمَا رُجِمَ قَبْرُ أَبِي رِغَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ غَيْلَانَ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدَ أَصْحَابِنَا مِنْہُمْ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ۱؎ ثقفی نے اسلام قبول کیا،جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں،وہ سب بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں،تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی چارکومنتخب کر لیں ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اسی طرح اسے معمر نے بسند الزہری عن سالم بن عبداللہ عن ابن عمر روایت کیا ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔اورصحیح وہ ہے جو شعیب بن ابی حمزہ وغیرہ نے بسند الزہری عن محمد بن سوید الثقفی روایت کی ہے کہ غیلان بن سلمہ نے اسلام قبول کیاتوان کے پاس دس بیویاں تھیں۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمرسے روایت کی ہے کہ ثقیف کے ایک شخص نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو عمر نے اس سے کہا: تم اپنی بیویوں سے رجوع کرلو ورنہ میں تمہاری قبر کو پتھر ماروں گا جیسے ابورغال ۳؎ کی قبر کوپتھر مارے گئے تھے۔۴-ہمارے اصحاب جن میں شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی شامل ہیں کے نزدیک غیلان بن سلمہ کی حدیث پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ أَبِي وَہْبٍ الْجَيْشَانِيِّ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اخْتَرْ أَيَّتَہُمَا شِئْتَ

فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اورمیرے نکاح میں دوبہنیں ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ان دونوں میں سے جسے چاہو منتخب کرلو۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي قَال سَمِعْتُ يَحْيَی بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي وَہْبٍ الْجَيْشَانِيِّ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ قَالَ اخْتَرْ أَيَّتَہُمَا شِئْتَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو وَہْبٍ الْجَيْشَانِيُّ اسْمُہُ الدَّيْلَمُ بْنُ ہَوْشَعَ

فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کیا ہے اور میرے نکاح میں دوبہنیں ہیں۔آپ نے فرمایا: ان دونوں میں سے جسے چاہو،منتخب کرلو۔(اوردوسرے کوطلاق دے دو) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ وَلَہُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِہِنَّ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہَكَذَا رَوَاہُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُہُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ وَرَوَی ہَمَّامٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْہَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے جنگ اوطاس کے دن کچھ عورتیں قید کیں۔اوران کی قوم میں ان عورتوں کے شوہر موجود تھے،لوگوں نے اس کاذکررسول اللہ ﷺسے کیا تویہ آیت نازل ہوئی وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ (تم پر شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں الا یہ کہ وہ تمہاری ملکیت میں آگئی ہوں) (النساء: ۲۴)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسی طرح سے اسے ثوری نے بطریق: عثمان البتی،عن أبی الخلیل،عن أبی سعید روایت کیا ہے،۳-ہمام نے اس حدیث کوبطریق: قتادۃ،عن صالح بن أبی الخلیل،عن أبی علقمۃ،الہاشمی،عن أبی سعید،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَہْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاہِنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت ۱؎،زانیہ کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی مٹھائی ۳ ؎ سے منع فرمایاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں رافع بن خدیج،ابوجحیفہ،ابوہریرہ،اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا كُنَّا نَعْزِلُ فَزَعَمَتْ الْيَہُودُ أَنَّہَا الْمَوْءُودَةُ الصُّغْرَی فَقَالَ كَذَبَتْ الْيَہُودُ إِنَّ اللہَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْلُقَہُ فَلَمْ يَمْنَعْہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَالْبَرَاءِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ عزل ۱؎ کرتے تھے،تو یہودیوں نے کہا: قبرمیں زندہ دفن کرنے کی یہ ایک چھوٹی صورت ہے۔آپ نے فرمایا: یہودیوں نے جھوٹ کہا۔اللہ جب اسے پیداکرنا چاہے گا تو اسے کوئی روک نہیں سکے گا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عمر،براء اور ابوہریرہ،ابوسعیدخدری سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ كُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ يَنْزِلُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي الْعَزْلِ و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ تُسْتَأْمَرُ الْحُرَّةُ فِي الْعَزْلِ وَلَا تُسْتَأْمَرُ الْأَمَةُ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اتررہا تھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث اوربھی کئی طرق سے ان سے مروی ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کی اجازت دی ہے۔مالک بن انس کا قول ہے کہ آزاد عورت سے عزل کی اجازت لی جائے گی اور لونڈی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الزُّبَيْرِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَزَادَ فِيہِ مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ الْبَصْرِيُّ عَنْ الزُّبَيْرِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا فَقَالَ الصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ دِينَارٍ وَزَادَ فِيہِ عَنْ الزُّبَيْرِ وَإِنَّمَا ہُوَ ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ الزُّبَيْرِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَقَالَتْ عَائِشَةُ أُنْزِلَ فِي الْقُرْآنِ عَشْرُ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ فَنُسِخَ مِنْ ذَلِكَ خَمْسٌ وَصَارَ إِلَی خَمْسِ رَضَعَاتٍ مَعْلُومَاتٍ فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِكَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ بِہَذَا وَبِہَذَا كَانَتْ عَائِشَةُ تُفْتِي وَبَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَقَ و قَالَ أَحْمَدُ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلَا الْمَصَّتَانِ و قَالَ إِنْ ذَہَبَ ذَاہِبٌ إِلَی قَوْلِ عَائِشَةَ فِي خَمْسِ رَضَعَاتٍ فَہُوَ مَذْہَبٌ قَوِيٌّ وَجَبُنَ عَنْہُ أَنْ يَقُولَ فِيہِ شَيْئًا و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يُحَرِّمُ قَلِيلُ الرَّضَاعِ وَكَثِيرُہُ إِذَا وَصَلَ إِلَی الْجَوْفِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَوَكِيعٍ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ وَيُكْنَی أَبَا مُحَمَّدٍ وَكَانَ عَبْدُ اللہِ قَدْ اسْتَقْضَاہُ عَلَی الطَّائِفِ وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ أَدْرَكْتُ ثَلَاثِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ایک باریا دو بار چھاتی سے دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام فضل،ابوہریرہ،زبیر بن عوام اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اس حدیث کو دیگر کئی لوگوں نے بطریق:ہشام،عن أبیہ عروۃ،عن عبد اللہ بن الزبیر،عن النبی ﷺروایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک یا دو بار دودھ چوس لینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ اور محمدبن دینا ر نے بطریق: ہشام بن عروۃ،عن أبیہ عروۃ،عن عبداللہ بن الزبیر،عن الزبیر،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،اس میں محمد بن دینار بصری نے زبیرکے واسطے کا اضافہ کیا ہے۔لیکن یہ غیر محفوظ ہے،۳-محدّثین کے نزدیک صحیح ابن ابی ملیکہ کی روایت ہے جسے انہوں نے بطریق: عبداللہ بن الزبیر،عن عائشۃ عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،۴-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: صحیح ابن زبیرکی روایت ہے جسے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے اور محمد بن دینار کی روایت جس میں: زبیرکے واسطے کا اضافہ ہے وہ دراصل ہشام بن عروۃ سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والدعروہ سے اورانہوں نے زبیر سے روایت کی ہے،۵-صحابہ کرام وغیرھم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔۶-عائشہ کہتی ہیں کہ قرآن میں(پہلے) دس رضعات والی آیت نازل کی گئی پھراس میں سے پانچ منسوخ کردی گئیں تو پانچ رضاعتیں باقی رہ گئیں،اور رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تومعاملہ انہیں پانچ پرقائم رہا ۲؎،۷-اور عائشہ اور بعض دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اسی کا فتویٰ دیتی تھیں،اور یہی شافعی اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔۸-امام احمد نبی اکرمﷺکی حدیث ایک بار یا دو بار کے چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی کے قائل ہیں اورانہوں نے یہ بھی کہاہے کہ اگر کوئی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پانچ رضعات والے قول کی طرف جائے تو یہ قوی مذہب ہے۔لیکن انہیں اس کا فتویٰ دینے کی ہمت نہیں ہوئی،۹-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رضاعت تھوڑی ہو یا زیادہ جب پیٹ تک پہنچ جائے تواس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے۔یہی سفیان ثوری،مالک بن انس،اوزاعی،عبداللہ بن مبارک،وکیع اور اہل کوفہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُحَرِّمُ مِنْ الرِّضَاعَةِ إِلَّا مَا فَتَقَ الْأَمْعَاءَ فِي الثَّدْيِ وَكَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الرَّضَاعَةَ لَا تُحَرِّمُ إِلَّا مَا كَانَ دُونَ الْحَوْلَيْنِ وَمَا كَانَ بَعْدَ الْحَوْلَيْنِ الْكَامِلَيْنِ فَإِنَّہُ لَا يُحَرِّمُ شَيْئًا وَفَاطِمَةُ بِنْتُ الْمُنْذِرِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَہِيَ امْرَأَةُ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ انتڑیوں کوپھاڑدے ۱ ؎،اور یہ دودھ چھڑانے سے پہلے ہو ۲ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثراہل علم کااسی پرعمل ہے کہ رضاعت کی حرمت اس وقت ہوتی ہے جب بچے کی عمر دوبرس سے کم ہو،اورجو دوبرس پورے ہونے کے بعدہو تو اس سے کوئی چیز حرام نہیں ہوتی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا يُذْہِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ فَقَالَ غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رَوَاہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَحَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ حَجَّاجٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي حَجَّاجٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی ہَؤُلَاءِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ وَہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ يُكْنَی أَبَا الْمُنْذِرِ وَقَدْ أَدْرَكَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ وَابْنَ عُمَرَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ مَا يُذْہِبُ عَنِّي مَذَمَّةَ الرَّضَاعِ يَقُولُ إِنَّمَا يَعْنِي بِہِ ذِمَامَ الرَّضَاعَةِ وَحَقَّہَا يَقُولُ إِذَا أَعْطَيْتَ الْمُرْضِعَةَ عَبْدًا أَوْ أَمَةً فَقَدْ قَضَيْتَ ذِمَامَہَا وَيُرْوَی عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ أَقْبَلَتْ امْرَأَةٌ فَبَسَطَ النَّبِيُّ ﷺ رِدَاءَہُ حَتَّی قَعَدَتْ عَلَيْہِ فَلَمَّا ذَہَبَتْ قِيلَ ہِيَ كَانَتْ أَرْضَعَتْ النَّبِيَّ ﷺ

حجاج اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے پوچھاکہ اللہ کے رسول! مجھ سے حق رضاعت کس چیزسے اداہوگا؟ آپ نے فرمایا: ایک جان: غلام یا لونڈی کے ذریعہ سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح اِسے یحیی بن سعید قطان،حاتم بن اسماعیل اور کئی لوگوں نے بطریق: ہشام بن عروۃ،عن أبیہ عروۃ،عن حجاج بن حجاج،عن أبیہ،عن النبی ﷺروایت کی ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بطریق: ہشام بن عروۃ،عن أبیہ عروۃ،عن حجاج بن أبی حجاج،عن أبیہ أبی حجاج،عن النبی ﷺ روایت کی ہے اور ابن عیینہ کی حدیث غیر محفوظ ہے۔صحیح وہی ہے جسے ان لوگوں نے ہشام بن عروۃ سے اورانہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔(یعنی: حجاج بن حجاج والی نہ کہ حجاج بن أبی حجاج والی)۳-اور مایذہب عنی مذمۃ الرضاعۃ سے مراد رضاعت کاحق اور اس کا ذمہ ہے۔وہ کہتے ہیں: جب تم دودھ پلانے والی کو ایک غلام دے دو،یا ایک لونڈی تو تم نے اس کا حق اداکردیا،۴-ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔اتنے میں ایک عورت آئی تو نبی اکرم ﷺ نے اپنی چادر بچھادی،یہاں تک کہ وہ اس پر بیٹھ گئی،جب وہ چلی گئی تو کہاگیا:یہی وہ عورت تھی جس نے نبی اکرم ﷺکو دودھ پلایا تھا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَائِشَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ الزُّہْرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بچہ (صاحب فراش) (یعنی شوہر یا مالک) کا ہوگا ۱؎ اورزانی کے لیے پتھر ہوں گے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،عثمان،عائشہ،ابوامامہ،عمرو بن خارجہ،عبداللہ بن عمر،براء بن عازب اور زید بن ارقم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِہِمْ خُلُقًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والاہو،او رتم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّہُ شَہِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ وَذَكَّرَ وَوَعَظَ فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً فَقَالَ أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا ہُنَّ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْہُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاہْجُرُوہُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْہِنَّ سَبِيلًا أَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلَی نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَی نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَہُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَہُونَ أَلَا وَحَقُّہُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْہِنَّ فِي كِسْوَتِہِنَّ وَطَعَامِہِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ يَعْنِي أَسْرَی فِي أَيْدِيكُمْ

سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں:مجھ سے میرے والدنے بیان کیا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی۔اور(لوگوں کو) نصیحت کی اورانہیں سمجھایا۔پھر راوی نے اس حدیث میں ایک قصہ کاذکر کیا اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا:سنو!عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قید ی ہیں۔تم اس (ہم بستری اوراپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ) کے علاوہ اورکچھ اختیار نہیں رکھتے (اورجب وہ اپنافرض اداکرتی ہوں توپھران کے ساتھ بدسلوکی کاجوازکیا ہے)ہاں اگروہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کاارتکاب کریں (توپھرتمہیں انہیں سزادینے کا ہے)پس ا گروہ ایساکریں تو انہیں بستروں سے علاحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مارنہ ہو،اس کے بعداگر وہ تمہاری مطیع ہوجائیں تو پھر انہیں سزادینے کا کوئی اوربہانہ نہ تلاش کرو،سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے۔تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بسترپرایسے لوگوں کونہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو،اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھانہیں سمجھتے۔سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہنے میں اچھاسلوک کرو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-عوان عندکم کامعنی ہے تمہارے ہاتھوں میں قیدی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عِيسَی بْنِ حِطَّانَ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ سَلَّامٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ قَالَ أَتَی أَعْرَابِيٌّ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ الرَّجُلُ مِنَّا يَكُونُ فِي الْفَلَاةِ فَتَكُونُ مِنْہُ الرُّوَيْحَةُ وَيَكُونُ فِي الْمَاءِ قِلَّةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا فَسَا أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ وَلَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَعْجَازِہِنَّ فَإِنَّ اللہَ لَا يَسْتَحْيِي مِنْ الْحَقِّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ لَا أَعْرِفُ لِعَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ الْوَاحِدِ وَلَا أَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ السُّحَيْمِيِّ وَكَأَنَّہُ رَأَی أَنَّ ہَذَا رَجُلٌ آخَرُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی وَكِيعٌ ہَذَا الْحَدِيثَ

علی بن طلق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک اعرابی نے نبی اکرمﷺکے پاس آکرکہا: اللہ کے رسول! ہم میں ایک شخص صحراء(بیابان) میں ہوتاہے،اور اس کو ہوا خارج ہوجاتی ہے (اور وضو ٹوٹ جاتاہے) اورپانی کی قلت بھی ہوتی ہے(تووہ کیا کرے؟)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کی جب ہوا خارج ہوجائے توچاہئے کہ وہ وضو کرے،اورعورتوں کی دبر میں صحبت نہ کرو،اللہ تعالیٰ حق بات سے نہیں شرماتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی بن طلق کی حدیث حسن ہے،۲-اور میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ سوائے اس ایک حدیث کے علی بن طلق کی کوئی اور حدیث مجھے نہیں معلوم،جسے انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہو،اور طلق بن علی سحیمی کی روایت سے میں یہ حدیث نہیں جانتا۔گویا ان کی رائے یہ ہے کہ یہ صحابہ میں سے کوئی اورآدمی ہیں،۳-اس باب میں عمر،خزیمہ بن ثابت،ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مُسْلِمٍ وَہُوَ ابْنُ سَلَّامٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا فَسَا أَحَدُكُمْ فَلْيَتَوَضَّأْ وَلَا تَأْتُوا النِّسَاءَ فِي أَعْجَازِہِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَعَلِيٌّ ہَذَا ہُوَ عَلِيُّ بْنُ طَلْقٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اس شخص کی طرف(رحمت کی نظرسے) نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یاکسی عورت کی دبر میں صحبت کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَنْظُرُ اللہُ إِلَی رَجُلٍ أَتَی رَجُلًا أَوْ امْرَأَةً فِي الدُّبُرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

علی بن طلق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی ہوا خارج کرے تو چاہئے کہ وضو کرے اورتم عورتوں کی دبر میں صحبت نہ کرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: علی سے مراد علی بن طلق ہیں۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يَغَارُ وَالْمُؤْمِنُ يَغَارُ وَغَيْرَةُ اللہِ أَنْ يَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ عَلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثُ وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ وَالْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ ہُوَ الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ وَأَبُو عُثْمَانَ اسْمُہُ مَيْسَرَةُ وَالْحَجَّاجُ يُكْنَی أَبَا الصَّلْتِ وَثَّقَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ قَالَ سَأَلْتَ يَحْيَی بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ فَقَالَ ثِقَةٌ فَطِنٌ كَيِّسٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کو غیرت آتی ہے اور مومن کوبھی غیرت آتی ہے،اللہ کی غیرت اس پر ہے کہ مومن کوئی ایسا کام کرے جسے اللہ نے اس پر حرام کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اوریہ حدیث یحییٰ بن ابی کثیر(اس طریق سے بھی) سے مروی ہے عن أبی سلمۃ،عن عروۃ،عن اسماء بنت أبی بکر،عن النبی ﷺ یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں،۳-حجاج صواف ہی حجاج بن ابی عثمان ہیں۔ابوعثمان کانام میسرہ ہے اور حجاج کی کنیت ابوصلت ہے۔یحییٰ بن سعید نے ان کی توثیق کی ہے۔یحییٰ بن سعید القطان نے حجاج صواف کے بارے میں کہا:وہ ثقہ ذہین اور ہوشیار ہیں،۴-اس با ب میں عائشہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا يَكُونُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا إِلَّا وَمَعَہَا أَبُوہَا أَوْ أَخُوہَا أَوْ زَوْجُہَا أَوْ ابْنُہَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ مِنْہَا وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَا تُسَافِرُ الْمَرْأَةُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَكْرَہُونَ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تُسَافِرَ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَرْأَةِ إِذَا كَانَتْ مُوسِرَةً وَلَمْ يَكُنْ لَہَا مَحْرَمٌ ہَلْ تَحُجُّ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَجِبُ عَلَيْہَا الْحَجُّ لِأَنَّ الْمَحْرَمَ مِنْ السَّبِيلِ لِقَوْلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْہِ سَبِيلًا فَقَالُوا إِذَا لَمْ يَكُنْ لَہَا مَحْرَمٌ فَلَا تَسْتَطِيعُ إِلَيْہِ سَبِيلًا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَ الطَّرِيقُ آمِنًا فَإِنَّہَا تَخْرُجُ مَعَ النَّاسِ فِي الْحَجِّ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی عورت کے لیے جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو،حلال نہیں کہ وہ تین دن ۱؎ یااس سے زائد کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کاباپ یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کاکوئی محرم نہ ہو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺسے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: عورت ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر کسی محرم کے بغیر نہ کرے۔اہل علم کااسی پر عمل ہے،وہ عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے کہ محرم کے بغیر سفر کرے۔اہل علم کا اس عورت کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو حج کی استطاعت رکھتی ہو لیکن اس کا کوئی محرم نہ ہوتووہ حج کرے یانہیں؟بعض اہل علم کہتے ہیں: اس پر حج نہیں ہے،اس لیے کہ محرم بھی اللہ تعالیٰ کے ارشادمن استطاع إلیہ سبیلامیں استطاعت سبیل میں داخل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب اس کا کوئی محرم نہ ہوتووہ استطاعت سبیل نہیں رکھتی۔یہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب راستہ مامون ہو،تو وہ لوگوں کے ساتھ حج میں جاسکتی ہے۔یہی مالک اور شافعی کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُسَافِرُ امْرَأَةٌ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إِلَّا وَمَعَہَا ذُو مَحْرَمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی عورت ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر محرم کے بغیر نہ کرے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُوَرِّقٍ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّيْطَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: عورت (سراپا) پردہ ہے،جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي مُظَاہِرُ بْنُ أَسْلَمَ قَالَ حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ طَلَاقُ الْأَمَةِ تَطْلِيقَتَانِ وَعِدَّتُہَا حَيْضَتَانِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی و حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَنْبَأَنَا مُظَاہِرٌ بِہَذَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُظَاہِرِ بْنِ أَسْلَمَ وَمُظَاہِرٌ لَا نَعْرِفُ لَہُ فِي الْعِلْمِ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لونڈی کے لیے دوہی طلاق ہے اور اس کی عدت دوحیض ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن غریب ہے۔ہم اسے مظاہربن اسلم ہی کی روایت سے جانتے ہیں،اور مظاہر بن اسلم کی اس کے علاوہ کوئی اور روایت میرے علم میں نہیں،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے۔اوریہی سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَہُوَ مَوْلَی آلِ طَلْحَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ أَنَّہَا اخْتَلَعَتْ عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَأَمَرَہَا النَّبِيُّ ﷺ أَوْ أُمِرَتْ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ الصَّحِيحُ أَنَّہَا أُمِرَتْ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَغْدَادِيُّ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ أَنْبَأَنَا ہِشَامُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِہَا عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَأَمَرَہَا النَّبِيُّ ﷺ أَنْ تَعْتَدَّ بِحَيْضَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي عِدَّةِ الْمُخْتَلِعَةِ فَقَالَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِنَّ عِدَّةَ الْمُخْتَلِعَةِ عِدَّةُ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثُ حِيَضٍ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِنَّ عِدَّةَ الْمُخْتَلِعَةِ حَيْضَةٌ قَالَ إِسْحَقُ وَإِنْ ذَہَبَ ذَاہِبٌ إِلَی ہَذَا فَہُوَ مَذْہَبٌ قَوِيٌّ

ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: انہوں نے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں خلع لیاتوآپﷺ نے انہیں حکم دیا (یاانہیں حکم دیا گیا) کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ربیع کی حدیث کہ انہیں ایک حیض عدت گزارنے کاحکم دیا گیاصحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ثابت بن قیس کی بیوی نے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں اپنے شوہر سے خلع لیا ۱؎ تو آپﷺ نے انہیں ایک حیض عدت گزار نے کاحکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-مختلعہ (خلع لینے والی عورت)کی عدت کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ مختلعہ کی عدت وہی ہے جومطلقہ کی ہے،یعنی تین حیض۔یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے اور احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۳-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مختلعہ کی عدت ایک حیض ہے،۴-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس مذہب کو اختیارکرے تو یہ قوی مذہب ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَمِّہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الْمَرْأَةَ كَالضِّلَعِ إِنْ ذَہَبْتَ تُقِيمُہَا كَسَرْتَہَا وَإِنْ تَرَكْتَہَا اسْتَمْتَعْتَ بِہَا عَلَی عِوَجٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَسَمُرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِسْنَادُہُ جَيِّدٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت کی مثال پسلی کی ہے ۱؎ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگوگے توتوڑ دوگے اورا گر اسے یوں ہی چھوڑے رکھاتو ٹیڑھ کے باوجودتم اس سے لطف اندوز ہوگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے اوراس کی سند جید ہے،۲-اس باب میں ابوذر،سمرہ،اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ أُحِبُّہَا وَكَانَ أَبِي يَكْرَہُہَا فَأَمَرَنِي أَبِي أَنْ أُطَلِّقَہَا فَأَبَيْتُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ طَلِّقْ امْرَأَتَكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفَہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے نکاح میں ا یک عورت تھی،میں اس سے محبت کرتاتھا،اور میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں،لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔پھر میں نے اس کا ذکر نبی اکرمﷺ سے کیاتو آپ نے فرمایا: عبداللہ بن عمر! تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ أَنْبَأَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إِلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوہِ الْمَغْلُوبِ عَلَی عَقْلِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ عَجْلَانَ وَعَطَاءُ بْنُ عَجْلَانَ ضَعِيفٌ ذَاہِبُ الْحَدِيثِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ طَلَاقَ الْمَعْتُوہِ الْمَغْلُوبِ عَلَی عَقْلِہِ لَا يَجُوزُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْتُوہًا يُفِيقُ الْأَحْيَانَ فَيُطَلِّقُ فِي حَالِ إِفَاقَتِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ہرطلاق واقع ہوتی ہے سوائے پاگل اور دیوانے کی طلاق کے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کوہم صرف عطاء بن عجلان کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اورعطاء بن عجلان ضعیف اور ذاہب الحدیث (حدیث بھول جانے والے)ہیں،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ ایسا دیوانہ ہو جس کی دیوانگی کبھی کبھی ٹھیک ہوجاتی ہو اور وہ افاقہ کی حالت میں طلاق دے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْلَی بْنُ شَبِيبٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ وَالرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ مَا شَاءَ أَنْ يُطَلِّقَہَا وَہِيَ امْرَأَتُہُ إِذَا ارْتَجَعَہَا وَہِيَ فِي الْعِدَّةِ وَإِنْ طَلَّقَہَا مِائَةَ مَرَّةٍ أَوْ أَكْثَرَ حَتَّی قَالَ رَجُلٌ لِامْرَأَتِہِ وَاللہِ لَا أُطَلِّقُكِ فَتَبِينِي مِنِّي وَلَا آوِيكِ أَبَدًا قَالَتْ وَكَيْفَ ذَاكَ قَالَ أُطَلِّقُكِ فَكُلَّمَا ہَمَّتْ عِدَّتُكِ أَنْ تَنْقَضِيَ رَاجَعْتُكِ فَذَہَبَتْ الْمَرْأَةُ حَتَّی دَخَلَتْ عَلَی عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْہَا فَسَكَتَتْ عَائِشَةُ حَتَّی جَاءَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَخْبَرَتْہُ فَسَكَتَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّی نَزَلَ الْقُرْآنُ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ قَالَتْ عَائِشَةُ فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ مُسْتَقْبَلًا مَنْ كَانَ طَلَّقَ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ طَلَّقَ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَعْلَی بْنِ شَبِيبٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتادے دینا رجوع کرلینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی،ا گرچہ اس نے سویا اس سے زائد باراُسے طلاق دی ہو،یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوجائے اورنہ تجھے کبھی پناہ ہی دونگا۔اس نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا: میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہوگی تو رجعت کرلوں گا۔اس عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر انہیں یہ بات بتائی توعائشہ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں،یہاں تک کہ نبی اکرمﷺ آئے توعائشہ نے آپ کواس کی خبردی۔نبی اکرمﷺ بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ (البقرۃ: ۲۲۹) (طلاق(رجعی) دوہیں،پھر یا تو معروف اوربھلے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی سے رخصت کردینا ہے)۔عائشہ کہتی ہیں:تو لوگوں نے طلاق کو آئندہ نئے سرے سے شمارکرناشروع کیا،جس نے طلاق دے رکھی تھی اس نے بھی،اور جس نے نہیں دی تھی اس نے بھی۔دوسری سندسے ہشام بن عروہ نے اپنے والد ہشام سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے اور اس میں ابوکریب نے عائشہ کے واسطے کاذکرنہیں کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ یعلیٰ بن شبیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔(یعنی: مرفوع ہونا زیادہ صحیح ہے)

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْمُظَاہِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ قَالَ كَفَّارَةٌ وَاحِدَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَمَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا وَاقَعَہَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ فَعَلَيْہِ كَفَّارَتَانِ وَہُوَ قَوْلُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِيٍّ

سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس ظہار ۱؎ کرنے والے کے بارے میں جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے مجامعت کرلیتاہے فرمایا: اس کے اوپر ایک ہی کفارہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔سفیان،شافعی،مالک،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،۳-اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کفارہ اداکرنے سے پہلے جماع کربیٹھے تو اس پر دوکفارہ ہے۔یہ عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ﷺ قَدْ ظَاہَرَ مِنْ امْرَأَتِہِ فَوَقَعَ عَلَيْہَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي قَدْ ظَاہَرْتُ مِنْ زَوْجَتِي فَوَقَعْتُ عَلَيْہَا قَبْلَ أَنْ أُكَفِّرَ فَقَالَ وَمَا حَمَلَكَ عَلَی ذَلِكَ يَرْحَمُكَ اللہُ قَالَ رَأَيْتُ خَلْخَالَہَا فِي ضَوْءِ الْقَمَرِ قَالَ فَلَا تَقْرَبْہَا حَتَّی تَفْعَلَ مَا أَمَرَكَ اللہُ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺکے پاس ایک آدمی آیا،اس نے اپنی بیوی سے ظہارکررکھا تھا اورپھر اس کے ساتھجماع کرلیا،اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا ہے ا ور کفارہ اداکرنے سے پہلے میں نے اس سے جماع کرلیاتوکیاحکم ہے؟ توآپ نے فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے کس چیز نے تجھ کو اس پر آمادہ کیا؟ اس نے کہا: میں نے چاند کی روشنی میں اس کی پازیب دیکھی (تومجھ سے صبرنہ ہوسکا) آپ نے فرمایا: اس کے قریب نہ جاناجب تک کہ اسے کرنہ لینا جس کااللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحَرِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللہُ إِلَيْہِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قُلْنَا مَنْ ہُمْ يَا رَسُولَ اللہِ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا فَقَالَ الْمَنَّانُ وَالْمُسْبِلُ إِزَارَہُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ(رحمت کی نظرسے) نہیں دیکھے گا،نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا،اوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا،ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اورگھاٹے میں رہے،آپ نے فرمایا:احسان جتانے والا،اپنے تہبند(ٹخنے سے نیچے) لٹکانے والا ۱؎ اور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنے سامان کو رواج دینے والا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوذر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،ابوہریرہ،ابوامامہ بن ثعلبہ،عمران بن حصین اور معقل بن یسار رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمَرُو بْنُ عَلِيٍّ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ ثَوْبَانِ قِطْرِيَّانِ غَلِيظَانِ فَكَانَ إِذَا قَعَدَ فَعَرِقَ ثَقُلَا عَلَيْہِ فَقَدِمَ بَزٌّ مِنْ الشَّامِ لِفُلَانٍ الْيَہُودِيِّ فَقُلْتُ لَوْ بَعَثْتَ إِلَيْہِ فَاشْتَرَيْتَ مِنْہُ ثَوْبَيْنِ إِلَی الْمَيْسَرَةِ فَأَرْسَلَ إِلَيْہِ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ مَا يُرِيدُ إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَذْہَبَ بِمَالِي أَوْ بِدَرَاہِمِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَذَبَ قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاہُمْ لِلَّہِ وَآدَاہُمْ لِلْأَمَانَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ أَيْضًا عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ فِرَاسٍ الْبَصْرِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ يَقُولُ سُئِلَ شُعْبَةُ يَوْمًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ لَسْتُ أُحَدِّثُكُمْ حَتَّی تَقُومُوا إِلَی حَرَمِيِّ بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ فَتُقَبِّلُوا رَأَسَہُ قَالَ وَحَرَمِيٌّ فِي الْقَوْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی أَيْ إِعْجَابًا بِہَذَا الْحَدِيثِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے،جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہوجاتے،شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔تومیں نے عرض کیا:کاش! آپ اس کے پاس کسی کوبھیجتے اور اس سے دوکپڑے اس وعدے پر خریدلیتے کہ جب گنجائش ہوگی توقیمت دے دیں گے،آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا،تواس نے کہا: جووہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے،ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراھم ہڑپ کرلیں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:وہ جھوٹاہے،اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اورامانت کو سب سے زیادہ اداکرنے والاہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اسے شعبہ نے بھی عمار ہ بن ابی حفصہ سے روایت کیا ہے،۳-ابوداود طیالسی کہتے ہیں: ایک دن شعبہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاگیا تو انہوں نے کہا: میں تم سے اس وقت اسے نہیں بیان کرسکتاجب تک کہ تم کھڑے ہوکرحرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا سرنہیں چومتے اورحرمی (وہاں)لوگوں میں موجود تھے،انہوں نے اس حدیث سے حد درجہ خوش ہوتے ہوئے یہ بات کہی،۴-اس باب مین ابن عباس،ا نس اور اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ ﷺ وَدِرْعُہُ مَرْہُونَةٌ بِعِشْرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَخَذَہُ لِأَہْلِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکی وفات ہوئی توآپ کی زرہ بیس صاع غلے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔آپ نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے لیاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ ح قَالَ مُحَمَّدٌ وَحَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ مَشَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِہَالَةٍ سَنِخَةٍ وَلَقَدْ رُہِنَ لَہُ دِرْعٌ عِنْدَ يَہُودِيٍّ بِعِشْرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَخَذَہُ لِأَہْلِہِ وَلَقَدْ سَمِعْتُہُ ذَاتَ يَوْمٍ يَقُولُ مَا أَمْسَی فِي آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ صَاعُ تَمْرٍ وَلَا صَاعُ حَبٍّ وَإِنَّ عِنْدَہُ يَوْمَئِذٍ لَتِسْعَ نِسْوَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺکے پاس جوکی روٹی اور پگھلی ہوئی چربی جس میں کچھ تبدیلی آچکی تھی لے کر چلا،آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع غلے کے عوض جسے آپ نے اپنے گھروالوں کے لیے لے رکھا تھا گروی رکھی ہوئی تھی ۱؎ قتادہ کہتے ہیں میں نے ایک دن انس رضی اللہ عنہ کوکہتے ہوئے سناکہ محمدﷺکے گھر والوں کے پاس ایک صاع کھجور یا ایک صاع غلہ شام کو نہیں ہوتاتھاجب کہ اس وقت آپ کے پاس نوبیویاں تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِأَصْحَابِ الْمِكْيَالِ وَالْمِيزَانِ إِنَّكُمْ قَدْ وُلِّيتُمْ أَمْرَيْنِ ہَلَكَتْ فِيہِ الْأُمَمُ السَّالِفَةُ قَبْلَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ناپ تول والوں سے فرمایا: تمہارے دو ایسے کام ۱؎ کیے گئے ہیں جس میں تم سے پہلے کی امتیں ہلاک ہوگئیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف بروایت حسین بن قیس مرفوع جانتے ہیں،ا ورحسین بن قیس حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔نیزیہ صحیح سندسے ابن عباس سے موقوفاً مروی ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ شُمَيْطِ بْنِ عَجْلَانَ حَدَّثَنَا الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ الْحَنَفِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا وَقَالَ مَنْ يَشْتَرِي ہَذَا الْحِلْسَ وَالْقَدَحَ فَقَالَ رَجُلٌ أَخَذْتُہُمَا بِدِرْہَمٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ يَزِيدُ عَلَی دِرْہَمٍ مَنْ يَزِيدُ عَلَی دِرْہَمٍ فَأَعْطَاہُ رَجُلٌ دِرْہَمَيْنِ فَبَاعَہُمَا مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَخْضَرِ بْنِ عَجْلَانَ وَعَبْدُ اللہِ الْحَنَفِيُّ الَّذِي رَوَی عَنْ أَنَسٍ ہُوَ أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِبَيْعِ مَنْ يَزِيدُ فِي الْغَنَائِمِ وَالْمَوَارِيثِ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ النَّاسِ عَنْ الْأَخْضَرِ بْنِ عَجْلَانَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک ٹاٹ جوکجاوہ کے نیچے بچھایاجاتاہے اور ایک پیالہ بیچا،آپ نے فرمایا: یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدے گا؟ایک آدمی نے عرض کیا: میں انہیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں،نبی اکرمﷺنے فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟ توایک آدمی نے آپ کو دودرہم دیا،تو آپ نے اسی کے ہاتھ سے یہ دونوں چیزیں بیچ دیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے۔ہم اسے صرف اخضربن عجلان کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اور عبداللہ حنفی ہی جنہوں نے انس سے روایت کی ہے ابوبکر حنفی ہیں ۱ ؎،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔یہ لوگ غنیمت اور میراث کے سامان کو زیادہ قیمت دینے والے سے بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں،۴-یہ حدیث معتمر بن سلیمان اور دوسرے کئی بڑے لوگوں نے بھی اخضر بن عجلان سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ نَہَی عَنْ تَلَقِّي الْبُيُوعِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے مال بیچنے والوں سے بازارمیں پہنچنے سے پہلے جاکرملنے سے منع فریاما ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں علی،ابن عباس،ابوہریرہ،ابوسعیدخدری،ابن عمر،اورایک اور صحابی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ يُتَلَقَّی الْجَلَبُ فَإِنْ تَلَقَّاہُ إِنْسَانٌ فَابْتَاعَہُ فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ فِيہَا بِالْخِيَارِ إِذَا وَرَدَ السُّوقَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ تَلَقِّي الْبُيُوعِ وَہُوَ ضَرْبٌ مِنْ الْخَدِيعَةِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِہِ مِنْ أَصْحَابِنَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازارمیں پہنچنے سے پہلے آگے جاکر خریدلینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کرخریدلیا تو صاحب مال کو جب وہ بازارمیں پہنچے تواختیارہے(چاہے تو وہ بیچے چاہے تونہ بیچے) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ایوب کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔اہل علم کی ایک جماعت نے مال بیچنے والوں سے بازارمیں پہنچنے سے پہلے مل کرمال خریدنے کوناجائزکہا ہے یہ دھوکے کی ایک قسم ہے ہمارے اصحاب میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَقَالَ قُتَيْبَةُ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ عَنْ أَبِيہِ وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزْنِيِّ جَدِّ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ۱؎ (بلکہ دیہاتی کو خودبیچنے دے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں طلحہ،جابر،انس،ابن عباس،ابو یزید کثیر بن عبداللہ کے دادا عمروبن عوف مزنی اور ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللہُ بَعْضَہُمْ مِنْ بَعْضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي ہَذَا ہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ كَرِہُوا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ وَرَخَّصَ بَعْضُہُمْ فِي أَنْ يَشْتَرِيَ حَاضِرٌ لِبَادٍ و قَالَ الشَّافِعِيُّ يُكْرَہُ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ وَإِنْ بَاعَ فَالْبَيْعُ جَائِزٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شہری کسی گاؤں والے کا سامان نہ فروخت کرے،تم لوگوں کو(ان کاسامان خود بیچنے کے لیے) چھوڑدو۔اللہ تعالیٰ بعض کوبعض کے ذریعے رزق دیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔۲-اس باب میں جابر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔۳-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے۔ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ شہری باہرسے آنے والے دیہاتی کاسامان بیچے،۴-اوربعض لوگوں نے رخصت دی ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان خرید سکتا ہے۔۵-شافعی کہتے ہیں کہ شہری کادیہاتی کے سامان کو بیچنا مکروہ ہے اوراگروہ بیچ دے تو بیع جائز ہوگی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَسَعْدٍ وَجَابِرٍ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْمُحَاقَلَةُ بَيْعُ الزَّرْعِ بِالْحِنْطَةِ وَالْمُزَابَنَةُ بَيْعُ الثَّمَرِ عَلَی رُءُوسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا بَيْعَ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ا بن عمر،ابن عباس،زید بن ثابت،سعد،جابر،رافع بن خدیج اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بالیوں میں کھڑی کھیتی کوگیہوں سے بیچنے کو محاقلہ کہتے ہیں،اور درخت پرلگے ہوئی کھجور توڑی گئی کھجورسے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں،۴-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔یہ لوگ محاقلہ اور مزابنہ کو مکروہ سمجھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ سَأَلَ سَعْدًا عَنْ الْبَيْضَاءِ بِالسُّلْتِ فَقَالَ أَيُّہُمَا أَفْضَلُ قَالَ الْبَيْضَاءُ فَنَہَی عَنْ ذَلِكَ وَقَالَ سَعْدٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُسْأَلُ عَنْ اشْتِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ فَقَالَ لِمَنْ حَوْلَہُ أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ قَالُوا نَعَمْ فَنَہَی عَنْ ذَلِكَ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ زَيْدٍ أَبِي عَيَّاشٍ قَالَ سَأَلْنَا سَعْدًا فَذَكَرَ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَصْحَابِنَا

عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ابوعیاش زید نے سعد رضی اللہ عنہ سے گیہوں کوچھلکااتارے ہوئے جوسے بیچنے کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے پوچھا: ان دونوں میں کون افضل ہے؟ انہوں نے کہا: گیہوں،تو انہوں نے اس سے منع فرمایا۔اور سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناآپ سے ترکھجور سے خشک کھجور خریدنے کا مسئلہ پوچھاجارہاتھا۔توآپ نے قریب بیٹھے لوگوں سے پوچھا: کیاترکھجورخشک ہونے پر کم ہوجائے گا؟ ۱ ؎ لوگوں نے کہا ہاں(کم ہوجائے گا)،توآپ نے اس سے منع فرمایا۔مؤلف نے بسند وکیع عن مالک اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،اوریہی شافعی اور ہمارے اصحاب کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ حَتَّی يَزْہُوَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کھجورکے درخت کی بیع سے منع فرمایاہے یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہوجائے۔(پختگی کو پہنچ جائے)

وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ بَيْعِ السُّنْبُلِ حَتَّی يَبْيَضَّ وَيَأْمَنَ الْعَاہَةَ نَہَی الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ كَرِہُوا بَيْعَ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُہَا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے(گیہوں اورجو وغیرہ کے) خوشے بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ پختہ ہوجائیں اورآفت سے مامون ہوجائیں،آپ نے بائع اور مشتری دونوں کو منع فرمایاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،عائشہ،ابوہریرہ،ابن عباس،جابر،ابوسعیدخدری اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام میں سے اہل علم کااسی پر عمل ہے۔یہ لوگ پھل کی پختگی ظاہرہونے سے پہلے اس کے بیچنے کو مکروہ سمجھتے ہیں،یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ وَعَفَّانُ وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ حَتَّی يَسْوَدَّ وَعَنْ بَيْعِ الْحَبِّ حَتَّی يَشْتَدَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگور کوبیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ (پختہ) ہوجائے۔اور دانے (غلے) کوبیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سخت ہوجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ہم اسے صرف بروایت حماد بن سلمہ ہی مرفوع جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا شَيبَانُ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ نَافِعٍ قَالَ انْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنُ عُمَرَ إِلَی أَبِي سَعِيدٍ فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ سَمِعَتْہُ أُذُنَايَ ہَاتَانِ يَقُولُ لَا تَبِيعُوا الذَّہَبَ بِالذَّہَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالْفِضَّةَ بِالْفِضَّةِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا يُشَفُّ بَعْضُہُ عَلَی بَعْضٍ وَلَا تَبِيعُوا مِنْہُ غَائِبًا بِنَاجِزٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ وَالْبَرَاءِ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَأَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَبِلَالٍ قَالَ وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الرِّبَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ كَانَ لَا يَرَی بَأْسًا أَنْ يُبَاعَ الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ مُتَفَاضِلًا وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مُتَفَاضِلًا إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ و قَالَ إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ شَيْءٌ مِنْ ہَذَا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ رَجَعَ عَنْ قَوْلِہِ حِينَ حَدَّثَہُ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ لَيْسَ فِي الصَّرْفِ اخْتِلَافٌ

نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمردونوں ابوسعیدخدری کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا): سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچواور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ایک کو دوسرے سے کم وبیش نہ کیاجائے اورغیرموجودکو موجودسے نہ بیچو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-رباء کے سلسلہ میں ابوسعیدخدری کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکر،عمر،عثمان،ابوہریرہ،ھشام بن عامر،براء،زید بن ارقم،فضالہ بن عبید،ابوبکرہ،ابن عمر،ابودرداء اور بلال رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۴-مگروہ جو ابن عباس سے مروی ہے کہ وہ سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے،جب کہ بیع نقدانقد ہو،اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سود تو ادھار بیچنے میں ہے اورایساہی کچھ ان کے بعض اصحاب سے بھی مروی ہے،۵-اور ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ابوسعید خدری نے جب ان سے نبی اکرمﷺکی حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا،پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،اور ابن مبارک کہتے ہیں: صرف ۱؎ میں اختلاف نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ فَآخُذُ مَكَانَہَا الْوَرِقَ وَأَبِيعُ بِالْوَرِقِ فَآخُذُ مَكَانَہَا الدَّنَانِيرَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَوَجَدْتُہُ خَارِجًا مِنْ بَيْتِ حَفْصَةَ فَسَأَلْتُہُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِہِ بِالْقِيمَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرَوَی دَاوُدُ بْنُ أَبِي ہِنْدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَقْتَضِيَ الذَّہَبَ مِنْ الْوَرِقِ وَالْوَرِقَ مِنْ الذَّہَبِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ ذَلِكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بقیع کے بازار میں اونٹ بیچا کرتاتھا،میں دیناروں سے بیچتا تھا،اس کے بدلے چاندی لیتا تھا،اور چاندی سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتاتھا،میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورمیں نے آپ کو دیکھاکہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکل رہے ہیں تو میں نے آپ سے اس کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا: قیمت کے ساتھ ایساکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم اس حدیث کو صرف سماک بن حرب ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں،۲-سماک نے اسے سعید بن جبیر سے اورسعید نے ابن عمرسے روایت کی ہے اورداود بن أبی ھند نے یہ حدیث سعید بن جبیرسے اورسعیدنے ابن عمرسے موقوفاً روایت کی ہے،۳-بعض اہل علم کاعمل اسی حدیث پر ہے کہ اگر کوئی سوناکے بدلے چاندی لے یا چاندی کے بدلے سونا لے،تو کوئی حرج نہیں ہے۔یہی احمد اوراسحاق کا بھی قول ہے،۴-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ جانا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ أَنَّہُ قَالَ أَقْبَلْتُ أَقُولُ مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاہِمَ فَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ وَہُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَرِنَا ذَہَبَكَ ثُمَّ ائْتِنَا إِذَا جَاءَ خَادِمُنَا نُعْطِكَ وَرِقَكَ فَقَالَ عُمَرُ كَلَّا وَاللہِ لَتُعْطِيَنَّہُ وَرِقَہُ أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْہِ ذَہَبَہُ فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الْوَرِقُ بِالذَّہَبِ رِبًا إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَمَعْنَی قَوْلِہِ إِلَّا ہَاءَ وَہَاءَ يَقُولُ يَدًا بِيَدٍ

مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں(بازار میں) یہ کہتے ہوئے آیا: درہموں کو (دینار وغیرہ سے) کون بدلے گا؟ توطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہااور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھے: ہمیں اپنا سونا دکھاؤ،اور جب ہمارا خادم آجائے تو ہمارے پاس آجاؤ ہم (اس کے بدلے) تمہیں چاندی دے دیں گے۔(یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا تم اسے چاندی ہی دو ورنہ اس کا سونا ہی لوٹا دو،اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: سونے کے بدلے چاندی لینا سودہے،الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو،دوسرے ہاتھ سے لو ۱؎،گیہوں کے بدلے گیہوں لینا سود ہے،الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو،دوسرے ہاتھ سے لو،جو کے بدلے جو لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو،دوسرے ہاتھ سے لو،اور کھجور کے بدلے کھجور لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو،دوسرے ہاتھ سے لو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ إلاھاء وھاء کا مفہوم ہے نقدانقد۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُہَا لِلَّذِي بَاعَہَا إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَمَنْ ابْتَاعَ عَبْدًا وَلَہُ مَالٌ فَمَالُہُ لِلَّذِي بَاعَہُ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُہَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَہُ مَالٌ فَمَالُہُ لِلَّذِي بَاعَہُ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ ابْتَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرَتُہَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ قَالَ مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَہُ مَالٌ فَمَالُہُ لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ ہَكَذَا رَوَاہُ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُہُ عَنْ نَافِعٍ الْحَدِيثَيْنِ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا وَرَوَی عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ سَالِمٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدِيثُ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَصَحُّ مَا جَاءَ فِي ہَذَا الْبَابِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جس نے تأبیر ۱؎ (پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا ۲؎ الا یہ کہ خریدنے والا (خرید تے وقت پھل کی) شرط لگالے۔اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خرید نے والا(خریدتے وقت مال کی) شرط لگالے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح اور بھی طرق سے بسند زہری عنسالم عن ابن عمرعن النبی ﷺ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: جس نے پیوندکاری کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خریدنے والا(درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگالے اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے کا ہوگا الا یہ کہ خرید نے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگالے،۳-یہ نافع سے بھی مروی ہے انہوں نے ابن عمرسے اورابن عمرنے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے کھجور کا کوئی درخت خریدا جس کی پیوند کاری کی جاچکی ہو تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا الایہ کہ خریدنے والا (درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگالے،۴-نافع سے مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ جس نے کوئی غلام بیچا جس کے پاس مال ہوتو اس کا مال بیچنے والے ہی کاہوگا الا یہ کہ خریدنے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگالے،۵-اسی طرح عبیدا للہ بن عمروغیرہ نے نافع سے دونوں حدیثیں روایت کی ہیں،۶-نیزبعض لوگوں نے یہ حدیث نافع سے،نافع نے ابن عمرسے اورانہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے،۷-عکرمہ بن خالد نے ابن عمرسے ابن عمر نے نبی اکرمﷺسے سالم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔۸-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: سالم،عن أبیہ ابن عمر،عن النبی ﷺ روایت کی ہے اس باب میں س سب سے زیادہ صحیح ہے،۹-بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے۔اور یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۱۰-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ وَہُوَ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ قَال سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَيْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:بائع اورمشتری بیع (کی مجلس) سے رضامندی کے ساتھ ہی جداہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَيَّرَ أَعْرَابِيَّا بَعْدَ الْبَيْعِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے بیع کے بعد ایک اعرابی کو اختیار دیا۔یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عُقْدَتِہِ ضَعْفٌ وَكَانَ يُبَايِعُ وَأَنَّ أَہْلَہُ أَتَوْا النَّبِيَّ ﷺ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ احْجُرْ عَلَيْہِ فَدَعَاہُ نَبِيُّ اللہِ ﷺ فَنَہَاہُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنْ الْبَيْعِ فَقَالَ إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ ہَاءَ وَہَاءَ وَلَا خِلَابَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَالُوا الْحَجْرُ عَلَی الرَّجُلِ الْحُرِّ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ إِذَا كَانَ ضَعِيفَ الْعَقْلِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَلَمْ يَرَ بَعْضُہُمْ أَنْ يُحْجَرَ عَلَی الْحُرِّ الْبَالِغِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید وفروخت کرنے میں بودا ۱؎ تھا اور وہ (اکثر) خریدوفروخت کرتا تھا،اس کے گھر والے نبی اکرمﷺ کے پاس آئے اوران لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خریدوفروخت سے) روک دیجیے،تو نبی اکرمﷺنے اس کو بلوایااور اسے اس سے منع فرمادیا۔اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کرسکوں گا،آپ نے فرمایا:(اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیاکروکہ ایک ہاتھ سے دواور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ آزاد شخص کوخریدوفروخت سے اس وقت روکا جاسکتا ہے جب وہ ضعیف العقل ہو،یہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴-اوربعض لوگ آزاد بالغ کو بیع سے روکنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں۳؎۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ زَكَرِيَّا عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ بَاعَ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ بَعِيرًا وَاشْتَرَطَ ظَہْرَہُ إِلَی أَہْلِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَرَوْنَ الشَّرْطَ فِي الْبَيْعِ جَائِزًا إِذَا كَانَ شَرْطًا وَاحِدًا وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَجُوزُ الشَّرْطُ فِي الْبَيْعِ وَلَا يَتِمُّ الْبَيْعُ إِذَا كَانَ فِيہِ شَرْطٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرمﷺسے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہوکر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ اوربھی سندوں سے جابر سے مروی ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔یہ لوگ بیع میں شرط کو جائز سمجھتے ہیں جب شرط ایک ہو۔یہی قول احمد اوراسحاق بن راہویہ کا ہے،۴-اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بیع میں شرط جائز نہیں ہے اور جب اس میں شرط ہوتو بیع تام نہیں ہوگی۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَی قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ زَكَرِيَّا عَنْ عَامِرٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الظَّہْرُ يُرْكَبُ إِذَا كَانَ مَرْہُونًا وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ إِذَا كَانَ مَرْہُونًا وَعَلَی الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ نَفَقَتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ لَہُ أَنْ يَنْتَفِعَ مِنْ الرَّہْنِ بِشَيْءٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سواری کا جانور جب رہن رکھا ہو تو اس پر سواری کی جائے اوردودھ والا جانور جب گروی رکھا ہو تو اس کا دودھ پیا جائے،اور جو سواری کرے اور دودھ پیے جانور کا خرچ اسی کے ذمہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم اسے بروایت عامر شعبی ہی مرفوع جانتے ہیں،انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اورکئی لوگوں نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے اور اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ سے موقوفا روایت کی ہے،۳-بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔اوریہی قول احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی ہے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رہن سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ اشْتَرِيہَا فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَی الثَّمَنَ أَوْ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ وَمَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ يُكْنَی أَبَا عَتَّابٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ عَنْ ابْنِ الْمَدِينِيِّ قَال سَمِعْتُ يَحْيَی بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ إِذَا حُدِّثْتَ عَنْ مَنْصُورٍ فَقَدْ مَلَأْتَ يَدَكَ مِنْ الْخَيْرِ لَا تُرِدْ غَيْرَہُ ثُمَّ قَالَ يَحْيَی مَا أَجِدُ فِي إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ وَمُجَاہِدٍ أَثْبَتَ مِنْ مَنْصُورٍ قَالَ مُحَمَّدٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ قَالَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ مَنْصُورٌ أَثْبَتُ أَہْلِ الْكُوفَةِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ(لونڈی) کو خرید ناچاہا،توبریرہ کے مالکوں نے ولاء ۱؎ کی شرط لگائی تونبی اکرمﷺنے عائشہ سے فرمایا: تم اسے خرید لو،(اور آزاد کردو)اس لیے کہ ولاء تو اسی کا ہوگا جو قیمت اداکرے،یاجونعمت (آزاد کرنے) کا مالک ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث مروی ہے،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَعَثَ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ يَشْتَرِي لَہُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ فَاشْتَرَی أُضْحِيَّةً فَأُرْبِحَ فِيہَا دِينَارًا فَاشْتَرَی أُخْرَی مَكَانَہَا فَجَاءَ بِالْأُضْحِيَّةِ وَالدِّينَارِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ ضَحِّ بِالشَّاةِ وَتَصَدَّقْ بِالدِّينَار قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک دینار میں قربانی کا جانور خرید نے کے لیے بھیجا،توانہوں نے قربانی کا ایک جانور خریدا (پھراسے دودینارمیں بیچ دیا)،اس میں انہیں ایک دینار کافائدہ ہوا،پھر انہوں نے اس کی جگہ ایک دینارمیں دوسرا جانورخریدا،قربانی کا جانور اورایک دینار لے کروہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے،تو آپ نے فرمایا: بکری کی قربانی کردو اوردینارکو صدقہ کردو۔امام ترمذی کہتے ہیں: حکیم بن حزام کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،اور میرے نزدیک جبیب بن ابی ثابت کا سماع حکیم بن حزام سے ثابت نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ حَدَّثَنَا حَبَّانُ حَدَّثَنَا ہَارُونُ الْأَعْوَرُ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ عَنْ أَبِي لَبِيدٍ عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ قَالَ دَفَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ دِينَارًا لِأَشْتَرِيَ لَہُ شَاةً فَاشْتَرَيْتُ لَہُ شَاتَيْنِ فَبِعْتُ إِحْدَاہُمَا بِدِينَارٍ وَجِئْتُ بِالشَّاةِ وَالدِّينَارِ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ لَہُ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِہِ فَقَالَ لَہُ بَارَكَ اللہُ لَكَ فِي صَفْقَةِ يَمِينِكَ فَكَانَ يَخْرُجُ بَعْدَ ذَلِكَ إِلَی كُنَاسَةِ الْكُوفَةِ فَيَرْبَحُ الرِّبْحَ الْعَظِيمَ فَكَانَ مِنْ أَكْثَرِ أَہْلِ الْكُوفَةِ مَالًا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ حَدَّثَنَا حَبَّانُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ خِرِّيتٍ فَذَكَرَ نَحْوَہُ عَنْ أَبِي لَبِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَالُوا بِہِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَلَمْ يَأْخُذْ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ بِہَذَا الْحَدِيثِ مِنْہُمْ الشَّافِعِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ أَخُو حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَأَبُو لَبِيدٍ اسْمُہُ لِمَازَةُ بْنُ زَبَّارٍ

عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے بکری خرید نے کے لیے مجھے ایک دنیا ر دیا،تو میں نے اس سے دوبکریاں خریدیں،پھران میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اورایک بکری اورایک دینار لے کر نبی اکرمﷺ کے پاس آیا،اور آپ سے تمام معاملہ بیان کیااور آپ نے فرمایا: اللہ تمہیں تمہارے ہاتھ کے سودے میں برکت دے،پھراس کے بعد وہ کوفہ کے کناسہ کی طرف جاتے اور بہت زیادہ منافع کماتے تھے۔چنانچہ وہ کوفہ کے سب سے زیادہ مال دار آدمی بن گئے۔مؤلف نے احمد بن سعید دارمی کے طرق سے زبیربن خریت سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور وہ اسی کے قائل ہیں اور یہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔بعض اہل علم نے اس حدیث کو نہیں لیاہے،انہیں لوگوں میں شافعی اور حماد بن زید سعید بن زید کے بھائی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي الْمِنْہَالِ عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ نَہَی النَّبِيُّ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْمَاءِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَبُہَيْسَةَ عَنْ أَبِيہَا وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ إِيَاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُمْ كَرِہُوا بَيْعَ الْمَاءِ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي بَيْعِ الْمَاءِ مِنْہُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ

ایاس بن عبدمزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے پانی بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ایاس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،بہیسہ،بہیسہ کے باپ،ابوہریرہ،عائشہ،انس اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے،ان لوگوں نے پانی بیچنے کو ناجائزکہا ہے،یہی ابن مبارک شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۴-اوربعض اہل علم نے پانی بیچنے کی اجازت دی ہے،جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَا يُمْنَعُ فَضْلُ الْمَاءِ لِيُمْنَعَ بِہِ الْكَلَأُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْمِنْہَالِ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُطْعِمٍ كُوفِيٌّ وَہُوَ الَّذِي رَوَی عَنْہُ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ وَأَبُو الْمِنْہَالِ سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ بَصْرِيٌّ صَاحِبُ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ضرورت سے زائد پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے سبب گھاس سے روک دیاجائے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ ابْنِ مُحَيِّصَةَ أَخَا بَنِي حَارِثَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ ﷺ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ فَنَہَاہُ عَنْہَا فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُہُ وَيَسْتَأْذِنُہُ حَتَّی قَالَ اعْلِفْہُ نَاضِحَكَ وَأَطْعِمْہُ رَقِيقَكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَجَابِرٍ وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مُحَيِّصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ و قَالَ أَحْمَدُ إِنْ سَأَلَنِي حَجَّامٌ نَہَيْتُہُ وَآخُذُ بِہَذَا الْحَدِيثِ

محیصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺسے پچھنالگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی،توآپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ بار بار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: اسے اپنے اونٹ کے چارہ پرخرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلادو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-محیصہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں رافع بن خدیج،جحیفہ،جابر اور سائب بن یزید سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،۴-احمد کہتے ہیں: اگرمجھ سے کوئی پچھنا لگانے والا مزدوری طلب کرے تومیں نہیں دونگااور دلیل میں یہی حدیث پیش کروں گا۔

أَخْبَرَنَا أَبُو كُرَيْبٍ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْمُہَزِّمِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَہَی عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ إِلَّا كَلْبَ الصَّيْدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو الْمُہَزِّمِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ وَتَكَلَّمَ فِيہِ شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ وَضَعَّفَہُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُہُ أَيْضًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(رسول اللہ ﷺنے) کتے کی قیمت سے منع فرمایاہے سوائے شکاری کتے کی قیمت کے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس طریق سے صحیح نہیں ہے،۲-ابومہزم کانام یزید بن سفیان ہے،ان کے سلسلہ میں شعبہ بن حجاج نے کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے،۳-اورجابر سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،اور ا س کی سند بھی صحیح نہیں ہے،دیکھیے الصحیحۃ رقم: ۲۹۷۱۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِہَا فَرَّقَ اللہُ بَيْنَہُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: جو شخص ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اوراس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ وَہَبَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ غُلَامَيْنِ أَخَوَيْنِ فَبِعْتُ أَحَدَہُمَا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا عَلِيُّ مَا فَعَلَ غُلَامُكَ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ رُدَّہُ رُدَّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ فِي الْبَيْعِ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُوَلَّدَاتِ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي أَرْضِ الْإِسْلَامِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّہُ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِہَا فِي الْبَيْعِ فَقِيلَ لَہُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ إِنِّي قَدْ اسْتَأْذَنْتُہَا بِذَلِكَ فَرَضِيَتْ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے دوغلام دیئے جو آپس میں بھائی تھے،میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا،پھر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: علی! تمہارا غلام کیا ہوا؟ میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے ایک کوبیچ دیا ہے) تو آپ نے فرمایا: اُسے واپس لوٹالو،اُسے واپس لوٹالو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم بیچتے وقت (رشتہ دار) قیدیوں کے درمیان جدائی ڈالنے کوناجائزکہا ہے،۳-اوربعض اہل علم نے ان لڑکوں کے درمیان جدائی کو جائزقراردیا ہے جو سرزمین اسلام میں پیداہوئے ہیں۔پہلاقول ہی زیادہ صحیح ہے،۴-ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بیچتے وقت ماں اور اس کے لڑکے کے درمیان تفریق،چنانچہ ان پر یہ اعتراض کیاگیا تو انہوں نے کہا: میں نے اس کی ماں سے اس کی اجازت مانگی تو وہ اس پر راضی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَضَی أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ فائدے کا ا ستحقاق ضامن ہو نے کی بنیاد پر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ اوربھی سندوں سے مروی ہے،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَی أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَرَوَاہُ جَرِيرٌ عَنْ ہِشَامٍ أَيْضًا وَحَدِيثُ جَرِيرٍ يُقَالُ تَدْلِيسٌ دَلَّسَ فِيہِ جَرِيرٌ لَمْ يَسْمَعْہُ مِنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَتَفْسِيرُ الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ ہُوَ الرَّجُلُ يَشْتَرِي الْعَبْدَ فَيَسْتَغِلُّہُ ثُمَّ يَجِدُ بِہِ عَيْبًا فَيَرُدُّہُ عَلَی الْبَائِعِ فَالْغَلَّةُ لِلْمُشْتَرِي لِأَنَّ الْعَبْدَ لَوْ ہَلَكَ ہَلَكَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِي وَنَحْوُ ہَذَا مِنْ الْمَسَائِلِ يَكُونُ فِيہِ الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی اسْتَغْرَبَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ قُلْتُ تَرَاہُ تَدْلِيسًا قَالَ لَا

م المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺنے فیصلہ کیا کہ فائدہ کا استحقاق ضامن ہو نے کی بنیاد پر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-امام ترمذی کہتے ہیں: محمدبن اسماعیل نے اس حدیث کو عمربن علی کی روایت سے غریب جاناہے۔میں نے پوچھا: کیاآپ کی نظر میں اس میں تدلیس ہے؟ انہوں نے کہا:نہیں،۳-مسلم بن خالد زنجی نے اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے۔۴-جریر نے بھی اسے ہشام سے روایت کیا ہے،۵-اورکہاجاتاہے کہ جریر کی حدیث میں تدلیس ہے،اس میں جریر نے تدلیس کی ہے،انہوں نے اسے ہشام بن عروہ سے نہیں سنا ہے،۶- الخراج بالضمان کی تفسیر یہ ہے کہ آدمی غلام خریدے اوراس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب دیکھے اور اس کو بیچنے والے کے پاس لوٹا دے،تو غلام کی جو مزدوری اور فائدہ ہے وہ خرید نے والے کا ہوگا۔اس لیے کہ اگر غلام ہلاک ہوجاتا تو مشتری (خریدار) کا مال ہلاک ہوتا۔یہ اور اس طرح کے مسائل میں فائدہ کااستحقاق ضامن ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُخَابَرَةِ وَالثُّنْيَا إِلَّا أَنْ تُعْلَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے محاقلہ،مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کومستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے بروایت یونس بن عبیدجسے یونس نے عطاء سے اورعطاء نے جابر سے روایت کی ہے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْہُ حَتَّی يَسْتَوْفِيَہُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَحْسِبُ كُلَّ شَيْءٍ مِثْلَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا بَيْعَ الطَّعَامِ حَتَّی يَقْبِضَہُ الْمُشْتَرِي وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِيمَنْ ابْتَاعَ شَيْئًا مِمَّا لَا يُكَالُ وَلَا يُوزَنُ مِمَّا لَا يُؤْكَلُ وَلَا يُشْرَبُ أَنْ يَبِيعَہُ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَہُ وَإِنَّمَا التَّشْدِيدُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الطَّعَامِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جو شخص غلہ خریدے تو اسے نہ بیچے جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کرلے ۱؎،ابن عباس کہتے ہیں: میں ہرچیز کو غلّے ہی کے مثل سمجھتاہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،ابن عمراور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئیہیں،۳-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،ان لوگوں نے غلّہ کی بیع کو ناجائزکہا ہے۔جب تک مشتری اس پر قبضہ نہ کرلے،۴-اور بعض اہل علم نے قبضہ سے پہلے اس شخص کو بیچنے کی رخصت دی ہے جو کوئی ایسی چیز خریدے جو ناپی اور تولی نہ جاتی ہو اور نہ کھائی اورپی جاتی ہو،۵-اہل علم کے نزدیک سختی غلے کے سلسلے میں ہے۔احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبَّادٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُتَّخَذُ الْخَمْرُ خَلًّا قَالَ لَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے پوچھا گیا: کیا شراب کا سرکہ بنایاجاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُنِيرٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي الْخَمْرِ عَشْرَةً عَاصِرَہَا وَمُعْتَصِرَہَا وَشَارِبَہَا وَحَامِلَہَا وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْہِ وَسَاقِيَہَا وَبَائِعَہَا وَآكِلَ ثَمَنِہَا وَالْمُشْتَرِي لَہَا وَالْمُشْتَرَاةُ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ ہَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کی وجہ سے دس آدمیوں پرلعنت بھیجی: اس کے نچوڑوانے والے پر،اس کے پینے والے پر،اس کے لے جانے والے پر،اس کے منگوانے والے پر،اورجس کے لیے لے جائی جائے اس پر،اس کے پلانے والے پر،اوراس کے بیچنے والے پر،اس کی قیمت کھانے والے پر،اس کو خریدنے والے پراور جس کے لیے خریدی گئی ہواس پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے غریب ہے،۲-اوراسی حدیث کی طرح ابن عباس،ابن مسعود اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے جسے یہ لوگ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَی مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺفرمایا: مال دار آدمی کاقرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۱؎ اور جب تم میں سے کوئی کسی مالدارکی حوالگی میں دیا جائے توچاہئے کہ اس کی حوالگی اسے قبول کرے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابن عمر اور شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْہَرَوِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَإِذَا أُحِلْتَ عَلَی مَلِيءٍ فَاتْبَعْہُ وَلَا تَبِعْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَاہُ إِذَا أُحِيلَ أَحَدُكُمْ عَلَی مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَی مَلِيءٍ فَاحْتَالَہُ فَقَدْ بَرِئَ الْمُحِيلُ وَلَيْسَ لَہُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَی الْمُحِيلِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا تَوِيَ مَالُ ہَذَا بِإِفْلَاسِ الْمُحَالِ عَلَيْہِ فَلَہُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَی الْأَوَّلِ وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِ عُثْمَانَ وَغَيْرِہِ حِينَ قَالُوا لَيْسَ عَلَی مَالِ مُسْلِمٍ تَوًی قَالَ إِسْحَقُ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ عَلَی مَالِ مُسْلِمٍ تَوِيَ ہَذَا إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَی آخَرَ وَہُوَ يَرَی أَنَّہُ مَلِيٌّ فَإِذَا ہُوَ مُعْدِمٌ فَلَيْسَ عَلَی مَالِ مُسْلِمٍ تَوًی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مال دار آدمی کاقرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔اور جب تم کسی مال دار کے حوالے کئے جاؤ تو اسے قبول کرلو،اور ایک بیع میں دوبیع نہ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی قرض وصول کرنے میں کسی مالدار کے حوالے کیاجائے تواسے قبول کرنا چاہئے،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کوکسی مال دار کے حوالے کیا جائے اور وہ حوالہ قبول کرلے تو حوالے کرنے والا بری ہوجائے گا اور قرض خواہ کے لیے درست نہیں کہ پھر حوالے کرنے والے کی طرف پلٹے۔یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں: کہ محتال علیہ (جس آدمی کی طرف تحویل کیاگیاہے) کے مفلس ہوجانے کی وجہ سے اس کے مال کے ڈوب جانے کا خطرہ ہوتو قرض خواہ کے لیے جائزہوگا کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ جائے،ان لوگوں نے اس بات پر عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے،۵-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اس حدیث لیس علی مال مسلم توی (مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے) کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قرض خواہ کسی کے حوالے کیاگیا اور اسے مال دار سمجھ رہاہو لیکن درحقیقت وہ غریب ہو تو ایسی صورت میں مسلمان کا مال ضائع نہ ہوگا (اور وہ اصل قرض دار سے اپنا مال طلب کرسکتا ہے)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ نَبِيَّ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ كَانَ لَہُ شَرِيكٌ فِي حَائِطٍ فَلَا يَبِيعُ نَصِيبَہُ مِنْ ذَلِكَ حَتَّی يَعْرِضَہُ عَلَی شَرِيكِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُہُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ سُلَيْمَانُ الْيَشْكُرِيُّ يُقَالُ إِنَّہُ مَاتَ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْہُ قَتَادَةُ وَلَا أَبُو بِشْرٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَلَا نَعْرِفُ لِأَحَدٍ مِنْہُمْ سَمَاعًا مِنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ فَلَعَلَّہُ سَمِعَ مِنْہُ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ وَإِنَّمَا يُحَدِّثُ قَتَادَةُ عَنْ صَحِيفَةِ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ وَكَانَ لَہُ كِتَابٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ عَبْدُ الْقُدُّوسِ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ذَہَبُوا بِصَحِيفَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ إِلَی الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ فَأَخَذَہَا أَوْ قَالَ فَرَوَاہَا وَذَہَبُوا بِہَا إِلَی قَتَادَةَ فَرَوَاہَا وَأَتَوْنِي بِہَا فَلَمْ أَرْوِہَا يَقُولُ رَدَدْتُہَا

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:جس آدمی کے باغ میں کوئی ساجھی دار ہوتو وہ اپنا حصہ اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے اپنے ساجھی دار پرپیش نہ کرلے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سلیمان یشکری کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ جابر بن عبدللہ کی زندگی ہی میں مرگئے تھے،ان سے قتادہ اور ابو بشر کا سماع نہیں ہے۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں نہیں جانتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے سلیمان یشکری سے کچھ سناہو سوائے عمرو بن دینار کے،شاید انہوں نے جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں سلیمان یشکری سے حدیث سنی ہو۔وہ کہتے ہیں کہ قتادہ،سلیمان یشکری کی کتاب سے حدیث روایت کرتے تھے،سلیمان کے پاس ایک کتاب تھی جس میں جابر بن عبداللہ سے مروی احادیث لکھی تھیں،۳-سلیمان تمیمی کہتے ہیں: لوگ جابر بن عبداللہ کی کتاب حسن بصری کے پاس لے گئے تو انہوں نے اسے لیا یا اس کی روایت کی۔اورلوگ اسے قتادہ کے پاس لے گئے تو انہوں نے بھی اس کی روایت کی اور میرے پاس لے کر آئے تو میں نے اس کی روایت نہیں کی میں نے اسے رد کردیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ وَثَابِتٌ وَحُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ غَلَا السِّعْرُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ سَعِّرْ لَنَا فَقَالَ إِنَّ اللہَ ہُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَی رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک باررسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (غلہ وغیرہ کا) نرخ بڑھ گیا،تولوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے نرخ مقرر کردیجئے،آپ نے فرمایا: نرخ مقرر کرنے والا تواللہ ہی ہے،وہی روزی تنگ کرنے والا،کشادہ کرنے والا اورکھولنے والا اوربہت روزی دینے والا ہے۔میں چاہتاہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جان ومال کے سلسلے میں کسی ظلم (کے بدلے) کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَرَّ عَلَی صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ يَدَہُ فِيہَا فَنَالَتْ أَصَابِعُہُ بَلَلًا فَقَالَ يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ مَا ہَذَا قَالَ أَصَابَتْہُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ أَفَلَا جَعَلْتَہُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّی يَرَاہُ النَّاسُ ثُمَّ قَالَ مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي الْحَمْرَاءِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا الْغِشَّ وَقَالُوا الْغِشُّ حَرَامٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے،توآپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کردیا،آپ کی انگلیاں ترہوگئیں توآپ نے فرمایا: غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش سے بھیگ گیا ہے،آپ نے فرمایا: اسے اوپرکیوں نہیں کردیاتا کہ لوگ دیکھ سکیں،پھر آپ نے فرمایا: جو دھوکہ دے ۱؎،ہم میں سے نہیں ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابوحمراء،ابن عباس،بریدہ،ابوبردہ بن دینار اور حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔وہ دھوکہ دھڑی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَارِمٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ فَقُولُوا لَا أَرْبَحَ اللہُ تِجَارَتَكَ وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيہِ ضَالَّةً فَقُولُوا لَا رَدَّ اللہُ عَلَيْكَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا الْبَيْعَ وَالشِّرَاءَ فِي الْمَسْجِدِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رَخَّصَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ فِي الْمَسْجِدِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید وفروخت کررہاہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے،اور جب ایسے شخص کودیکھوجو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اُسے) تلاش کرتاہو تو کہو: اللہ تمہاری چیزتمہیں نہ لوٹائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ مسجد میں خرید وفروخت ناجائز سمجھتے ہیں۔یہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳-بعض اہل علم نے اس میں خرید وفروخت کی رخصت دی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوْہَبٍ أَنَّ عُثْمَانَ قَالَ لِابْنِ عُمَرَ اذْہَبْ فَاقْضِ بَيْنَ النَّاسِ قَالَ أَوَ تُعَافِينِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ فَمَا تَكْرَہُ مِنْ ذَلِكَ وَقَدْ كَانَ أَبُوكَ يَقْضِي قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ كَانَ قَاضِيًا فَقَضَی بِالْعَدْلِ فَبِالْحَرِيِّ أَنْ يَنْقَلِبَ مِنْہُ كَفَافًا فَمَا أَرْجُو بَعْدَ ذَلِكَ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ وَعَبْدُ الْمَلِكِ الَّذِي رَوَی عَنْہُ الْمُعْتَمِرُ ہَذَا ہُوَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ

عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: جاؤ(قاضی بن کر) لوگوں کے درمیان فیصلے کرو،انہوں نے کہا: امیرالمومنین! کیاآپ مجھے معاف رکھیں گے،عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا:تم اسے کیوں برا سمجھتے ہو،تمہارے باپ تو فیصلے کیا کرتے تھے؟ اس پر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: جوقاضی ہوا اوراس نے عدل انصاف کے ساتھ فیصلے کئے تو لائق ہے کہ وہ اس سے برابر سرابر چھوٹ جائے(یعنی نہ ثواب کامستحق ہونہ عقاب کا) اس کے بعد میں(بھلائی کی)کیا امید رکھوں،حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث غریب ہے،میرے نزدیک اس کی سندمتصل نہیں ہے۔اور عبدالملک جس سے معتمر نے اِسے روایت کیا ہے عبدالملک بن ابی جمیلہ ہیں،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ بِلَالِ بْنِ أَبِي مُوسَی عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ سَأَلَ الْقَضَاءَ وُكِلَ إِلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أُجْبِرَ عَلَيْہِ يُنْزِلُ اللہُ عَلَيْہِ مَلَكًا فَيُسَدِّدُہُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو قضا کا مطالبہ کرتاہے وہ اپنی ذات کے حوالے کردیاجاتاہے(اللہ کی مدداس کے شامل حال نہیں ہوتی) اورجس کو جبراً قاضی بنایا جاتاہے،اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اُسے راہ راست پررکھتاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ حَمَّادٍ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی الثَّعْلَبِيِّ عَنْ بِلَالِ بْنِ مِرْدَاسٍ الْفَزَارِيِّ عَنْ خَيْثَمَةَ وَہُوَ الْبَصْرِيُّ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ ابْتَغَی الْقَضَاءَ وَسَأَلَ فِيہِ شُفَعَاءَ وُكِلَ إِلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أُكْرِہَ عَلَيْہِ أَنْزَلَ اللہُ عَلَيْہِ مَلَكًا يُسَدِّدُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو قضاکاطالب ہوتاہے اور اس کے لیے سفارشی ڈھونڈتاہے،وہ اپنی ذات کے سپردکردیاجاتاہے،اور جس کو جبراً قاضی بنایا گیاہے،اللہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس کو راہ راست پررکھتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اوریہ اسرائیل کی (سابقہ) روایت سے جسے انہوں نے عبدالاعلیٰ سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ وَلِيَ الْقَضَاءَ أَوْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو منصب قضا پرفائز کیا گیایا جولوگوں کا قاضی بنایا گیا،(گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کیاگیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،۲-اوریہ اس سند کے علاوہ دوسری سندسے بھی ابوہریرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَہَدَ فَأَصَابَ فَلَہُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَأَخْطَأَ فَلَہُ أَجْرٌ وَاحِدٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے ۱؎ اور جب فیصلہ کرے اور غلط ہوجائے تو (بھی)اس کے لیے ایک اجر ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عمرو بن عاص اور عقبہ بن عامر سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابوہریرہ کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے۔ہم اسے بسند سفیان ثوری عن یحییٰ بن سعیدعن عبدالرزاق عن معمرعن سفیان الثوری روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ ہَذَا غَلَبَنِي عَلَی أَرْضٍ لِي فَقَالَ الْكِنْدِيُّ ہِيَ أَرْضِي وَفِي يَدِي لَيْسَ لَہُ فِيہَا حَقٌّ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِلْحَضْرَمِيِّ أَلَكَ بَيِّنَةٌ قَالَ لَا قَالَ فَلَكَ يَمِينُہُ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَی مَا حَلَفَ عَلَيْہِ وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ قَالَ لَيْسَ لَكَ مِنْہُ إِلَّا ذَلِكَ قَالَ فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ لِيَحْلِفَ لَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَمَّا أَدْبَرَ لَئِنْ حَلَفَ عَلَی مَالِكَ لِيَأْكُلَہُ ظُلْمًا لَيَلْقَيَنَّ اللہَ وَہُوَ عَنْہُ مُعْرِضٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دوآدمی ایک حضرموت سے اورایک کندہ سے نبی اکرمﷺ کے پاس آئے۔حضرمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس(کندی) نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے،اس پر کندی نے کہا:یہ میری زمین ہے اور میرے قبضہ میں ہے،اس پر اس(حضرمی) کا کوئی حق نہیں ہے۔نبی اکرمﷺنے حضرمی سے پوچھا: تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں،آپ نے فرمایا: پھر تو تم اس سے قسم ہی لے سکتے ہو،اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ فاجر آدمی ہے اسے اس کی پرواہ نہیں کہ وہ کس بات پر قسم کھارہاہے۔اور نہ وہ کسی چیز سے احتیاط برتتاہے،آپ نے فرمایا: اس سے تم قسم ہی لے سکتے ہو۔آدمی قسم کھانے چلا تو رسول اللہ ﷺ نے جب وہ پیٹھ پھیرکرجانے لگا فرمایا: اگر اس نے ظلماً تمہارا مال کھانے کے لیے قسم کھائی ہے تووہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گاکہ اللہ اس سے رخ پھیرے ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-وائل بن حجر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،ابن عباس،عبداللہ بن عمرو،اور اشعث بن قیس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ وَغَيْرُہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ فِي خُطْبَتِہِ الْبَيِّنَةُ عَلَی الْمُدَّعِي وَالْيَمِينُ عَلَی الْمُدَّعَی عَلَيْہِ ہَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ الْعَرْزَمِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ ضَعَّفَہُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُہُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے اپنے خطبہ میں فرمایا:گواہ مدعی کے ذمّہ ہے اورقسم مدعی علیہ کے ذمّہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند میں کلام ہے۔محمد بن عبید اللہ عرزمی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ابن مبارک وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَہْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَضَی أَنَّ الْيَمِينَ عَلَی الْمُدَّعَی عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْبَيِّنَةَ عَلَی الْمُدَّعِي وَالْيَمِينَ عَلَی الْمُدَّعَی عَلَيْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیاکہ قسم مدعی علیہ پر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ گواہ مدعی کے ذمّہ ہے اورقسم مدعی علیہ پر ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا أَوْ قَالَ شِقْصًا أَوْ قَالَ شِرْكًا لَہُ فِي عَبْدٍ فَكَانَ لَہُ مِنْ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَہُ بِقِيمَةِ الْعَدْلِ فَہُوَ عَتِيقٌ وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْہُ مَا عَتَقَ قَالَ أَيُّوبُ وَرُبَّمَا قَالَ نَافِعٌ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ يَعْنِي فَقَدْ عَتَقَ مِنْہُ مَا عَتَقَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ سَالِمٌ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا،اور ا س کے پاس اتنا مال ہو جو غلام کی واجبی قیمت کو پہنچ رہاہوتو وہ اس مال سے باقی شریکوں کا حصہ اداکرے گااورغلام(پورا) آزادہوجائے گا ورنہ جتنا آزاد ہوا ہے اتناہی آزاد ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے سالم بن عبداللہ نے بھی بطریق: عن أبیہ،عن النبی ﷺاسی طرح روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَہُ فِي عَبْدٍ فَكَانَ لَہُ مِنْ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَہُ فَہُوَ عَتِيقٌ مِنْ مَالِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا اور اس کے پاس اتنامال ہوجو اس کی قیمت کو پہنچ رہاہو (تو وہ باقی شریکوں کا حصہ بھی اداکرے گا) اوروہ اس کے مال سے آزادہوجائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَہِيكٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا أَوْ قَالَ شِقْصًا فِي مَمْلُوكٍ فَخَلَاصُہُ فِي مَالِہِ إِنْ كَانَ لَہُ مَالٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَہُ مَالٌ قُوِّمَ قِيمَةَ عَدْلٍ ثُمَّ يُسْتَسْعَی فِي نَصِيبِ الَّذِي لَمْ يُعْتَقْ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَہُ وَقَالَ شَقِيصًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ قَتَادَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ أَمْرَ السِّعَايَةِ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي السِّعَايَةِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ السِّعَايَةَ فِي ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَبِہِ يَقُولُ إِسْحَقُ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُہُمَا نَصِيبَہُ فَإِنْ كَانَ لَہُ مَالٌ غَرِمَ نَصِيبَ صَاحِبِہِ وَعَتَقَ الْعَبْدُ مِنْ مَالِہِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَہُ مَالٌ عَتَقَ مِنْ الْعَبْدِ مَا عَتَقَ وَلَا يُسْتَسْعَی وَقَالُوا بِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا قَوْلُ أَہْلِ الْمَدِينَةِ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا تو باقی حصے کی آزادی بھی اسی کے مال سے ہوگی اگر اس کے پاس مال ہے،اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی،پھر غلام کوپریشانی میں ڈالے بغیراسے موقع دیاجائے گا کہ وہ کمائی کرکے اس شخص کاحصہ ادا کردے جس نے اپنا حصہ آزادنہیں کیا ہے۔محمدبن بشارسے بھی ایسے ہی روایت ہے اور اس میں شقصاً کے بجائے شقیصا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوراسی طرح ابان بن یزید نے قتادہ سے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کے مثل روایت کی ہے،۳-اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو قتادہ سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے اس سے آزادی کے لیے کمائی کرانے کا ذکرنہیں کیا ہے،۴-سعایہ (کمائی کرانے)کے سلسلے میں ا ہل علم کا اختلاف ہے،بعض اہل علم نے اس بارے میں سعایہ کو جائز کہا ہے۔اوریہی سفیان ثوی اور اہل کوفہ کابھی قول ہے،اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۵-اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۶-اوربعض اہل علم نے کہا ہے کہ جب غلام دوآدمیوں میں مشترک ہواوران میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کردے تواگراس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ساجھی دار کے حصے کا تاوان اداکرے گا اور غلام اسی کے مال سے آزاد ہوجائے گا،اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو غلام کو جتنا آزاد کیاگیا ہے اتنا آزاد ہوگا،اور باقی حصہ کی آزادی کے لیے اس سے کمائی نہیں کرائی جائے گی۔اوران لوگوں نے نبی اکرمﷺسے مروی ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی رُوسے یہ بات کہی ہے،اوریہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے۔اور مالک بن انس،شافعی اور احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعُمْرَی جَائِزَةٌ لِأَہْلِہَا وَالرُّقْبَی جَائِزَةٌ لِأَہْلِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الرُّقْبَی جَائِزَةٌ مِثْلَ الْعُمْرَی وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَفَرَّقَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ بَيْنَ الْعُمْرَی وَالرُّقْبَی فَأَجَازُوا الْعُمْرَی وَلَمْ يُجِيزُوا الرُّقْبَی قَالَ أَبُو عِيسَی وَتَفْسِيرُ الرُّقْبَی أَنْ يَقُولَ ہَذَا الشَّيْءُ لَكَ مَا عِشْتَ فَإِنْ مُتَّ قَبْلِي فَہِيَ رَاجِعَةٌ إِلَيَّ وَقَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ الرُّقْبَی مِثْلُ الْعُمْرَی وَہِيَ لِمَنْ أُعْطِيَہَا وَلَا تَرْجِعُ إِلَی الْأَوَّلِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمریٰ جس کودیا گیا اس کے گھر والوں کاہے اوررقبیٰ ۱؎ بھی جس کودیا گیاہے اس کے گھروالوں کا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور بعض نے اسی سند سے ابوزبیرسے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسے جابر سے موقوفاً نقل کیا ہے،اسے نبی اکرمﷺتک مرفوع نہیں کیا ہے،۳-رقبیٰ کی تفسیر یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے کہ یہ چیز جب تک تم زندہ رہوگے تمہاری ہے اور اگر تم مجھ سے پہلے مرگئے تو یہ پھر میری طرف لوٹ آئے گی،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ عمریٰ کی طرح رقبیٰ بھی جسے دیا گیا ہے اس کے گھروالوں ہی کاہوگا۔احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔اوراہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے عمریٰ اوررقبیٰ کے درمیان فرق کیا ہے،ان لوگوں نے عمریٰ کو تومعمر(جس کے نام چیزدی گئی تھی) کی موت کے بعداس کے ورثاء کاحق بتایاہے اوررقبیٰ کو کہاہے کہ ورثاء کاحق نہیں ہوگا بلکہ وہ دینے والی کی طرف لوٹ جائے گا۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا وَالْمُسْلِمُونَ عَلَی شُرُوطِہِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:صلح مسلمان کے درمیان نافذہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کردے یا کسی حرام کو حلال۔اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابندہیں۔سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کردے یاکسی حرام کوحلال ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْيَمِينُ عَلَی مَا يُصَدِّقُكَ بِہِ صَاحِبُكَ و قَالَ قُتَيْبَةُ عَلَی مَا صَدَّقَكَ عَلَيْہِ صَاحِبُكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ہُشَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ہُوَ أَخُو سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّہُ قَالَ إِذَا كَانَ الْمُسْتَحْلِفُ ظَالِمًا فَالنِّيَّةُ نِيَّةُ الْحَالِفِ وَإِذَا كَانَ الْمُسْتَحْلِفُ مَظْلُومًا فَالنِّيَّةُ نِيَّةُ الَّذِي اسْتَحْلَفَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم ا سی چیز پرواقع ہوگی جس پر تمہارا ساتھی (فریق مخالف) قسم لے رہاہے۔(توریہ کا اعتبار نہیں ہوگا) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے ہشیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے عبداللہ بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔اورعبداللہ بن ابی صالح،سہیل بن ابی صالح کے بھائی ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۴-ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب قسم لینے والا ظالم ہوتو قسم کھانے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا،اور جب قسم لینے والا مظلوم ہوتو قسم لینے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِيدٍ الضُّبَعِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَہِيكٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اجْعَلُوا الطَّرِيقَ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: راستہ سات ہاتھ(چوڑا) رکھو۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْمُثَنَّی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا تَشَاجَرْتُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاجْعَلُوہُ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا عَنْ قَتَادَةَ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَہِيكٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَہُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب راستے کے سلسلے میں تم میں اختلاف ہو تو اسے سات ہاتھ(چوڑا) رکھو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ (سابقہ) وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-بشیر بن کعب کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،اوربعض نے اسے قتادہ سے اورقتادہ نے بشیربن نہیک سے اوربشیرنے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور یہ غیر محفوظ ہے،۳-اس باب میں ا بن عباس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَہْدَتْ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ طَعَامًا فِي قَصْعَةٍ فَضَرَبَتْ عَائِشَةُ الْقَصْعَةَ بِيَدِہَا فَأَلْقَتْ مَا فِيہَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ طَعَامٌ بِطَعَامٍ وَإِنَاءٌ بِإِنَاءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺکی کسی بیوی نے آپ کے پاس پیالے میں کھانے کی کوئی چیز ہدیہ کی،عائشہ رضی اللہ عنہا نے (غصّے میں) اپنے ہاتھ سے پیالے کو مارکر اس کے اندر کی چیز گرادیا،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کھانے کے بدلے کھانا اور پیالے کے بدلے پیالہ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَعَارَ قَصْعَةً فَضَاعَتْ فَضَمِنَہَا لَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَإِنَّمَا أَرَادَ عِنْدِي سُوَيْدٌ الْحَدِيثَ الَّذِي رَوَاہُ الثَّوْرِيُّ وَحَدِيثُ الثَّوْرِيِّ أَصَحُّ اسْمُ أَبِي دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے ایک پیالہ منگنی لیا وہ ٹوٹ گیا،توآپ نے جن سے پیالہ لیاتھا انہیں اس کا تاوان اداکیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث محفوظ نہیں ہے،۲-سوید نے مجھ سے وہی حدیث بیان کرنی چاہی تھی جسے ثوری نے روایت کی ہے ۱؎،۳-ثوری کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ عُرِضْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ فَلَمْ يَقْبَلْنِي فَعُرِضْتُ عَلَيْہِ مِنْ قَابِلٍ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَقَبِلَنِي قَالَ نَافِعٌ وَحَدَّثْتُ بِہَذَا الْحَدِيثِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَالَ ہَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ ثُمَّ كَتَبَ أَنْ يُفْرَضَ لِمَنْ يَبْلُغُ الْخَمْسَ عَشْرَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ أَنَّ ہَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَذَكَرَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فِي حَدِيثِہِ قَالَ نَافِعٌ فَحَدَّثَنَا بِہِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَالَ ہَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الذُّرِّيَّةِ وَالْمُقَاتِلَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَرَوْنَ أَنَّ الْغُلَامَ إِذَا اسْتَكْمَلَ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَحُكْمُہُ حُكْمُ الرِّجَالِ وَإِنْ احْتَلَمَ قَبْلَ خَمْسَ عَشْرَةَ فَحُكْمُہُ حُكْمُ الرِّجَالِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ الْبُلُوغُ ثَلَاثَةُ مَنَازِلَ بُلُوغُ خَمْسَ عَشْرَةَ أَوْ الِاحْتِلَامُ فَإِنْ لَمْ يُعْرَفْ سِنُّہُ وَلَا احْتِلَامُہُ فَالْإِنْبَاتُ يَعْنِي الْعَانَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایک لشکر میں پیش کیاگیا،اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی توآپ نے مجھے(لشکرمیں) قبول نہیں کیا،پھر آئندہ سال مجھے آپ کے سامنے ایک اور لشکر میں پیش کیاگیا اور اس وقت میری عمر پندرہ سال کی تھی تو آپ نے مجھے (لشکرمیں) قبول کرلیا۔ نافع کہتے ہیں: میں نے عمربن عبدالعزیز سے اس حدیث کو بیان کیا تو انہوں نے کہا: بالغ اور نابالغ کے درمیان یہی حد ہے۔انہوں نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ جو پندرہ سال کے ہوجائیں (مال غنیمت سے) ان کو حصہ دیاجائے۔ دوسری سند سے عمر نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے اور اس میں یہ ذکر نہیں کیاکہ (عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عاملوں کو لکھا کہ نابالغ اور بالغ کی یہی حد ہے) البتہ سفیان بن عیینہ نے اپنی حدیث میں یہ بیان کیا ہے کہ نافع کہتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: بچہ اور مقاتل (جوجنگ میں شرکت کا اہل ہو) کے درمیان یہی حد ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب بچہ پندرہ سال مکمل کرلے تو اس کا حکم وہی ہوگا جومردوں کا ہوتا ہے اور اگر پندرہ سال سے پہلے ہی اس کو احتلام آنے لگے توبھی اس کا حکم مردوں جیساہوگا۔احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: بلوغت کی تین علامتیں ہیں: بچہ پندرہ سال کا ہوجائے،یا اس کو احتلام آنے لگے،اور اگر عمر اور احتلام نہ معلوم ہوسکے تو جب اس کے ناف کے نیچے کے بال اُگ آئیں تو وہ بالغ ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الشَّرِيدِ وَأَبِي رَافِعٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالصَّحِيحُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ حَدِيثُ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ وَلَا نَعْرِفُ حَدِيثَ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِيسَی بْنِ يُونُسَ وَحَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطَّائِفِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ ہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی إِبْرَاہِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ كِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: گھر کا پڑورسی گھر (خریدنے) کا زیادہ حق دار ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اورعیسیٰ بن یونس نے سعید بن ابی عروبہ سے انہوں نے قتادہ سے اورقتادہ نے انس سے اور انس نینبی اکرمﷺسے اسی کے مثل روایت کی ہے۔نیزسعیدبن ابی عروبہ سے مروی ہے انہوں نے قتادہ سے انہوں نے حسن بصری سے اورحسن بصری نے سمرہ سے اورسمرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں شرید،ابورافع اور انس سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اور اہل علم کے نزدیک صحیح حسن کی حدیث ہے جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے۔اورہم قتادہ کی حدیث کو جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہے،صرف عیسیٰ بن یونس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اورعبداللہ بن عبدالرحمٰن الطائفی کی حدیث جسے انہوں نے عمروبن شریدسے اورعمرونے اپنے والدسے اوران کے والدنے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،اس باب میں حسن حدیث ہے۔اورابراہیم بن میسرہ نے عمروبن شرید سے اورعمرو نے ابورافع سے اورابورافع نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الشَّرِيكُ شَفِيعٌ وَالشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شَيْءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَہَذَا أَصَحُّ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَلَيْسَ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ مِثْلَ ہَذَا لَيْسَ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي حَمْزَةَ وَأَبُو حَمْزَةَ ثِقَةٌ يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ الْخَطَأُ مِنْ غَيْرِ أَبِي حَمْزَةَ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ و قَالَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِنَّمَا تَكُونُ الشُّفْعَةُ فِي الدُّورِ وَالْأَرَضِينَ وَلَمْ يَرَوْا الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ شَيْءٍ وَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شَيْءٍ وَالْقَوْلُ أَصَحُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ساجھی دار کو حق شفعہ حاصل ہے اور شفعہ ہر چیز میں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم اس حدیث کو اس طرح (مرفوعاً) صرف ابوحمزہ سکری ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔۲-اس حدیث کوکئی لوگوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے اورعبدالعزیزنے ابن ابی ملیکہ سے اورابن ابی ملیکہ نے نبی اکرمﷺ سے مرسلا ً روایت کیا ہے۔اوریہی زیادہ صحیح ہے۔اس سند میں ہناد نے ابوبکربن عیاش سے ابوبکربن عیاش نے عبدالعزیزبن رفیع سے اور عبدالعزیز نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،اس میں ابن عباس کا واسطہ نہیں ہے،۳-اوراسی طرح کئی اورلوگوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے اسی کے مثل حدیث روایت کی ہے اور اس میں بھی ابن عباس کا واسطہ نہیں ہے،۴-ابوحمزہ (یہ مرفوع) کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ابوحمزہ ثقہ ہیں۔ممکن ہے یہ خطا ابوحمزہ کے علاوہ کسی اور سے ہوئی ہو۔اس سند میں ھناد نے ابوالاحوص سے اورابوالاحوص نے عبدالعزیزبن رفیع سے اورعبدالعزیزنے ابن ابی ملیکہ سے اورابن ابی ملیکہ نے نبی اکرمﷺ سے ابوبکربن عیاش کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۶-اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ حقِ شفعہ کا نفاذ صرف گھر اور زمین میں ہوگا۔ان لوگوں کی رائے میں شفعہ ہرچیز میں نہیں،۷-اور بعض اہل علم کہتے ہیں:شعفہ ہرچیز میں ہے۔لیکن پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَصَبْتُ مَالًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْہُ فَمَا تَأْمُرُنِي قَالَ إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَہَا وَتَصَدَّقْتَ بِہَا فَتَصَدَّقَ بِہَا عُمَرُ أَنَّہَا لَا يُبَاعُ أَصْلُہَا وَلَا يُوہَبُ وَلَا يُورَثُ تَصَدَّقَ بِہَا فِي الْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَی وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالضَّيْفِ لَا جُنَاحَ عَلَی مَنْ وَلِيَہَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْہَا بِالْمَعْرُوفِ أَوْ يُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيہِ قَالَ فَذَكَرْتُہُ لِمُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ فَقَالَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ ابْنُ عَوْنٍ فَحَدَّثَنِي بِہِ رَجُلٌ آخَرُ أَنَّہُ قَرَأَہَا فِي قِطْعَةِ أَدِيمٍ أَحْمَرَ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ إِسْمَعِيلُ وَأَنَا قَرَأْتُہَا عِنْدَ ابْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ فَكَانَ فِيہِ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَا نَعْلَمُ بَيْنَ الْمُتَقَدِّمِينَ مِنْہُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا فِي إِجَازَةِ وَقْفِ الْأَرَضِينَ وَغَيْرِ ذَلِكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی،تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔(اس کے بارے میں) آپ مجھے کیاحکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اوراُسے (پیداوار کو) صدقہ کردو،تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیاکہ اصل زمین نہ بیچی جائے،نہ ہبہ کی جائے،اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎،اور اسے فقیروں میں،رشتہ داروں میں،غلام آزاد کرنے میں،اللہ کے راستے (جہاد) میں،مسافروں میں اور مہمانوں میں خرچ کیاجائے۔اورجو اس کا والی (نگراں) ہواس کے لیے اس میں سے معروف طریقے سے کھانے اور دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے،جبکہ وہ اس میں سے ذخیرہ اندوزی کرنے والانہ ہو۔ ابن عون کہتے ہیں: میں نے اسے محمد بن سیرین سے بیان کیا تو انہوں نے غیر متمول فیہکے بجائے غیر متأثل مالا کہا۔ابن عون کہتے ہیں: مجھ سے اسے ایک اورآدمی نے بیان کیا ہے کہ اس نے اس وقف نامے کو پڑھاتھا جو ایک لال چمڑے پر تحریر تھا اور اس میں بھیغیر متأثل مالا کے الفاظ تھے۔اسماعیل کہتے ہیں: میں نے اس وقف نامے کو عبیداللہ بن عمر کے بیٹے کے پاس پڑھا،اس میں بھی غیر متأثل مالا کے الفاظ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔متقدمین میں سے ہم کسی کونہیں جانتے ہیں جس نے زمین وغیرہ کو وقف کرنے میں اختلاف کیا ہو۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ وَعِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِہِ وَوَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب انسان مرجاتاہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ۱؎ ہے،دوسرا ایسا علم ہے ۲؎ جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک وصالح اولاد ہے ۳؎ جو اس کے لیے دعاکرے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَحْيَی أَرْضًا مَيِّتَةً فَہِيَ لَہُ وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا لَہُ أَنْ يُحْيِيَ الْأَرْضَ الْمَوَاتَ بِغَيْرِ إِذْنِ السُّلْطَانِ وَقَدْ قَالَ بَعْضُہُمْ لَيْسَ لَہُ أَنْ يُحْيِيَہَا إِلَّا بِإِذْنِ السُّلْطَانِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ جَدِّ كَثِيرٍ وَسَمُرَةَ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيَّ عَنْ قَوْلِہِ وَلَيْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ فَقَالَ الْعِرْقُ الظَّالِمُ الْغَاصِبُ الَّذِي يَأْخُذُ مَا لَيْسَ لَہُ قُلْتُ ہُوَ الرَّجُلُ الَّذِي يَغْرِسُ فِي أَرْضِ غَيْرِہِ قَالَ ہُوَ ذَاكَ

سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی بنجر زمین (جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو) آبادکی تووہ اسی کی ہے کسی ظالم شخص کی رگ کاحق نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض لوگوں نے اسے ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے والد عروہ سے اورعروہ نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے اور احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ حاکم کی اجازت کے بغیر غیر آباد زمین کو آباد کرنا جائز ہے،۴-بعض علماء کہتے ہیں: حاکم کی اجازت کے بغیر غیر آباد زمین کو آباد کرنا جائز نہیں ہے،لیکن پہلاقول زیادہ صحیح ہے،۵-اس باب میں جابر،کثیر کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور سمرہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۶-ہم سے ابوموسیٰ محمد بن مثنی نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوولید طیالسی سے نبی اکرمﷺکے قول ولیس لعرق ظالم حق کامطلب پوچھا،انہوں نے کہا: العرق الظالم سے مراد وہ غاصب ہے جودوسروں کی چیززبردستی لے۔میں نے کہا: اس سے مراد وہ شخص ہے جو دوسرے کی زمین میں د رخت لگائے؟ انہوں نے کہا: وہی شخص مراد ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ وَہْبِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَحْيَی أَرْضًا مَيِّتَةً فَہِيَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص غیر آباد زمین (جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو) آباد کرے تو وہ اسی کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْہُ إِنْسَانٌ أَوْ طَيْرٌ أَوْ بَہِيمَةٌ إِلَّا كَانَتْ لَہُ صَدَقَةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ وَجَابِرٍ وَأُمِّ مُبَشِّرٍ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوبھی مسلمان کوئی درخت لگاتاہے یافصل بوتا ہے اور اس میں سے انسان یا پرند یا چرند کھاتاہے تووہ اس کے لیے صدقہ ہوتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوایوب،جابر،ام مبشر اور زید بن خالد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ النَّائِمِ حَتَّی يَسْتَيْقِظَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حَتَّی يَشِبَّ وَعَنْ الْمَعْتُوہِ حَتَّی يَعْقِلَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَذَكَرَ بَعْضُہُمْ وَعَنْ الْغُلَامِ حَتَّی يَحْتَلِمَ وَلَا نَعْرِفُ لِلْحَسَنِ سَمَاعًا مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَاہُ الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی قَدْ كَانَ الْحَسَنُ فِي زَمَانِ عَلِيٍّ وَقَدْ أَدْرَكَہُ وَلَكِنَّا لَا نَعْرِفُ لَہُ سَمَاعًا مِنْہُ وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُہُ حُصَيْنُ بْنُ جُنْدَبٍ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں(یعنی قابل مواخذہ نہیں ہیں): سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہوجائے،بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہوجائے،اور دیوانہ جب تک کہ سمجھ بوجھ والا نہ ہوجائے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس سند سے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی علی سے مروی ہے،وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں،۳-بعض راویوں نے وَعَنِ الْغُلاَمِ حَتَّی یَحْتَلِمَ کہاہے،یعنی بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے مرفوع القلم ہے،۴-علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حسن بصری موجودتھے،حسن نے ان کا زمانہ پایا ہے،لیکن علی سے ان کے سماع کا ہمیں علم نہیں ہے،۵-یہ حدیث:عطاء بن سائب سے بھی مروی ہے انہوں نے یہ حدیث بطریق: أبی ظبیان،عن علی بن أبی طالب،عن النبی ﷺ اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،اور اعمش نے بطریق: أبی ظبیان،عن ابن عباس،عن علی موقوفاًروایت کیا ہے،انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا،۶-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۷-اہل علم کاعمل اسی حدیث پر ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنْ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنْ كَانَ لَہُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَہُ فَإِنَّ الْإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعُقُوبَةِ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِيعَةَ وَلَمْ يَرْفَعْہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ وَكِيعٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَرِوَايَةُ وَكِيعٍ أَصَحُّ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ ہَذَا عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُمْ قَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ أَثْبَتُ مِنْ ہَذَا وَأَقْدَمُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہاں تک تم سے ہوسکے مسلمانوں سے حدودکو دفع کر و،اگر مجرم کے بچ نکلنے کی کوئی صورت ہو تواسے چھوڑ دو،کیونکہ مجرم کو معاف کردینے میں امام کا غلطی کرنااسے سزا دینے میں غلطی کرنے سے کہیں بہترہے۔اس سند سے وکیع نے یزید بن زیاد سے محمد بن ربیعہ کی حدیث کی طرح بیان کیا،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کوہم مرفوع صرف بطریق: محمد بن ربیعۃ،عن یزید بن زیاد الدمشقی،عن عروۃ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ ہی جانتے ہیں،۲-اسے وکیع نے بھی یزید بن زیاد سے اسی طرح روایت کیا ہے،لیکن یہ مرفوع نہیں ہے،اور وکیع کی روایت زیادہ صحیح ہے،۳-یزید بن زیاد دمشقی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،اور یزید بن ابوزیاد کوفی ان سے زیادہ اثبت اوراقدم ہیں،۴-نبی اکرمﷺ کے کئی صحابہ سے اسی طرح مروی ہے،ان تمام لوگوں نے ایساہی کہاہے،۵-اس باب میں ابوہریرہ اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَجْلِسٍ فَقَالَ تُبَايِعُونِي عَلَی أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللہِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا قَرَأَ عَلَيْہِمْ الْآيَةَ فَمَنْ وَفَّی مِنْكُمْ فَأَجْرُہُ عَلَی اللہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ عَلَيْہِ فَہُوَ كَفَّارَةٌ لَہُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَہُ اللہُ عَلَيْہِ فَہُوَ إِلَی اللہِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَمْ أَسْمَعْ فِي ہَذَا الْبَابِ أَنَّ الْحُدُودَ تَكُونُ كَفَّارَةً لِأَہْلِہَا شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأُحِبُّ لِمَنْ أَصَابَ ذَنْبًا فَسَتَرَہُ اللہُ عَلَيْہِ أَنْ يَسْتُرَ عَلَی نَفْسِہِ وَيَتُوبَ فِيمَا بَيْنَہُ وَبَيْنَ رَبِّہِ وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ أَنَّہُمَا أَمَرَا رَجُلًا أَنْ يَسْتُرَ عَلَی نَفْسِہِ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک مجلس میں موجودتھے،آپ نے فرمایا: ہم سے اس بات پر بیعت کروکہ تم اللہ کے ساتھ شرک نہ کروگے،چوری نہ کروگے اورزنانہ کروگے،پھر آپ نے ان کے سامنے آیت پڑھی ۱؎ اورفرمایا: جو اس اقرارکوپوراکرے گااس کا اجراللہ کے ذمہ ہے اورجو ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوا پھراس پر حدقائم ہوگئی تویہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گا ۲؎،اورجس نے کوئی گناہ کیا اوراللہ نے اس پر پردہ ڈال دیاتو وہ اللہ کے اختیارمیں ہے،چاہے تو اسے عذاب دے اورچاہے تو اسے بخش دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-امام شافعی کہتے ہیں: میں نے اس باب میں اس حدیث سے اچھی کوئی چیزنہیں سنی کہ حدوداصحاب حدودکے لیے کفارہ ہیں،۳-شافعی کہتے ہیں: میں چاہتاہوں کہ جب کوئی گناہ کرے اوراللہ اس پرپردہ ڈال دے تووہ خوداپنے اوپرپردہ ڈال لے اوراپنے اس گناہ کی ایسی توبہ کرے کہ اسے اور اس کے رب کے سوا کسی کو اس کا علم نہ ہو،۴-ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کوحکم دیا کہ و ہ اپنے اوپرپردہ ڈال لے،۵-اس باب میں علی،جریربن عبداللہ اورخزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ ضَرَبَ الْحَدَّ بِنَعْلَيْنِ أَرْبَعِينَ قَالَ مِسْعَرٌ أَظُنُّہُ فِي الْخَمْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْہَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَالسَّائِبِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ اسْمُہُ بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ بَكْرُ بْنُ قَيْسٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدقائم کرتے ہوئے چالیس جوتیوں کی سزا دی،مسعر راوی کہتے ہیں: میراخیال ہے شراب کی حد میں (آپ نے چالیس جوتیوں کی سزا دی)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں علی،عبدالرحمٰن بن ازہر،ابوہریرہ،سائب،ابن عباس اورعقبہ بن حارث رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَال سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَضَرَبَہُ بِجَرِيدَتَيْنِ نَحْوَ الْأَرْبَعِينَ وَفَعَلَہُ أَبُو بَكْرٍ فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ اسْتَشَارَ النَّاسَ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ كَأَخَفِّ الْحُدُودِ ثَمَانِينَ فَأَمَرَ بِہِ عُمَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ حَدَّ السَّكْرَانِ ثَمَانُونَ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیاجس نے شراب پی تھی،آپ نے اسے کھجورکی دوچھڑیوں سے چالیس کے قریب مارا،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی (اپنے دورخلافت میں) ایساہی کیا،پھرجب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے توانہوں نے اس سلسلے میں لوگوں سے مشورہ کیا،چنانچہ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: حدوں میں سب سے ہلکی حداسی کوڑے ہیں،چنانچہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ میں سے اہل علم اوردوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ شرابی کی حد اسی کوڑے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَخْبَرَتْہُ عَمْرَةُ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْطَعُ فِي رُبُعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ مَرْفُوعًا وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ مَوْقُوفًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ چوتھائی دینار ۱؎ اوراس سے زیادہ کی چوری پر ہاتھ کاٹتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث دوسری سندوں سے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاًآئی ہے،جب کہ بعض لوگوں نے اسے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے موقوفاًروایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَطَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي مِجَنٍّ قِيمَتُہُ ثَلَاثَةُ دَرَاہِمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَيْمَنَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ قَطَعَ فِي خَمْسَةِ دَرَاہِمَ وَرُوِي عَنْ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ أَنَّہُمَا قَطَعَا فِي رُبُعِ دِينَارٍ وَرُوِي عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ أَنَّہُمَا قَالَا تُقْطَعُ الْيَدُ فِي خَمْسَةِ دَرَاہِمَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ فُقَہَاءِ التَّابِعِينَ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ رَأَوْا الْقَطْعَ فِي رُبُعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ قَالَ لَا قَطْعَ إِلَّا فِي دِينَارٍ أَوْ عَشَرَةِ دَرَاہِمَ وَہُوَ حَدِيثٌ مُرْسَلٌ رَوَاہُ الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَالْقَاسِمُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ قَالُوا لَا قَطْعَ فِي أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاہِمَ وَرُوِي عَنْ عَلِيٍّ أَنَّہُ قَالَ لَا قَطْعَ فِي أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاہِمَ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک ڈھال کی چوری پرہاتھ کاٹاجس کی قیمت تین درہم ۱؎ تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد،عبداللہ بن عمرو،ابن عباس،ابوہریرہ اورایمن رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،ان میں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں،انہوں نے پانچ درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا،۴-عثمان اورعلی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان لوگوں نے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹا،۵-ابوہریرہ اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ پانچ درہم کی چوری پرہاتھ کاٹاجائے گا،۶-بعض فقہائے تابعین کا اسی پرعمل ہے،مالک بن انس،شافعی،احمد،اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،یہ لوگ کہتے ہیں: چوتھائی دینار اور اس سے زیادہ کی چوری پرہاتھ کاٹاجائے گا،۷-اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیناریادس درہم کی چوری پرہی ہاتھ کاٹاجائے گا،لیکن یہ مرسل (یعنی منقطع) حدیث ہے اسے قاسم بن عبدالرحمٰن نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،حالانکہ قاسم نے ابن مسعود سے نہیں سناہے،بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،چنانچہ سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے،یہ لوگ کہتے ہیں: دس درہم سے کم کی چوری پرہاتھ نہ کاٹاجائے،۸-علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دس درہم سے کم کی چوری پرہاتھ نہیں کاٹاجائے گا،لیکن اس کی سندمتصل نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ قَالَ سَأَلْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ عَنْ تَعْلِيقِ الْيَدِ فِي عُنُقِ السَّارِقِ أَمِنْ السُّنَّةِ ہُوَ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِسَارِقٍ فَقُطِعَتْ يَدُہُ ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَعُلِّقَتْ فِي عُنُقِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيِّ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَيْرِيزٍ ہُوَ أَخُو عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ شَامِيٌّ

عبدالرحمٰن بن محیر یز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبیدسے پوچھا: کیاچورکاہاتھ کاٹنے کے بعد اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺکے پاس ایک چورلایا گیا اس کا ہاتھ کاٹاگیا،پھر آپ نے حکم دیا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکادیاگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عمربن علی مقدمی ہی کی روایت سے جانتے ہیں،انہوں نے اسے حجاج بن ارطاۃسے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ رِوَايَةِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَرَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: پھل اورکھجورکے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اسی طرح بعض اور لوگوں نے بھی لیث بن سعد کی روایت کی طرح بطریق: یحیی بن سعید،عن محمد بن یحیی بن حبان،عن عمہ واسع بن حبان،عن رافع بن خدیج،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۲-مالک بن انس اورکئی لوگوں نے اس حدیث کو بطریق: یحیی بن سعید،عن محمد بن یحیی بن حبان،عن رافع بن خدیج،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،ان لوگوں نے اس حدیث کی سند میں واسع بن حبان کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ شُيَيْمِ بْنِ بَيْتَانَ عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ لَا تُقْطَعُ الْأَيْدِي فِي الْغَزْوِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ ابْنِ لَہِيعَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ ہَذَا وَيُقَالُ بُسْرُ بْنُ أَبِي أَرْطَاةَ أَيْضًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ الْأَوْزَاعِيُّ لَا يَرَوْنَ أَنْ يُقَامَ الْحَدُّ فِي الْغَزْوِ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ مَنْ يُقَامُ عَلَيْہِ الْحَدُّ بِالْعَدُوِّ فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ مِنْ أَرْضِ الْحَرْبِ وَرَجَعَ إِلَی دَارِ الْإِسْلَامِ أَقَامَ الْحَدَّ عَلَی مَنْ أَصَابَہُ كَذَلِكَ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ

بُسربن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺکوفرماتے سنا: جنگ کے دوران (چوری کرنے والے کا) ہاتھ نہیں کاٹاجائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ابن لہیعہ کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسی سندسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،انہیں میں اوزاعی بھی ہیں،یہ لوگ کہتے ہیں: دشمن کی موجودگی میں جہادکے دوران (چوری کرنے پر)حدقائم نہیں کی جائے گی،کیونکہ جس پر حدقائم کی جائے گی اندیشہ ہے کہ وہ دشمن سے مل جائے،البتہ امام جب دارالحرب سے نکل کردارالاسلام واپس آجائے توچوری کرنے والے پر حدقائم کرے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ وَجَدْتُمُوہُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا يُعْرَفُ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو فَقَالَ مَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ الْقَتْلَ وَذَكَرَ فِيہِ مَلْعُونٌ مَنْ أَتَی بَہِيمَةً وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ اقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ وَلَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاہُ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ غَيْرَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي حَدِّ اللُّوطِيِّ فَرَأَی بَعْضُہُمْ أَنَّ عَلَيْہِ الرَّجْمَ أَحْصَنَ أَوْ لَمْ يُحْصِنْ وَہَذَا قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ فُقَہَاءِ التَّابِعِينَ مِنْہُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَإِبْرَاہِيمُ النَّخَعِيُّ وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرُہُمْ قَالُوا حَدُّ اللُّوطِيِّ حَدُّ الزَّانِي وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تم لوگ جسے قوم لوط کاعمل (اغلام بازی)کرتے ہوئے پاؤ توفاعل اورمفعول (بدفعلی کرنے اورکرانے والے) دونوں کوقتل کردو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث بواسطہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرمﷺ سے صرف اسی سندسے جانی جاتی ہے،محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عمرو بن ابی عمروسے روایت کیا ہے،(لیکن اس میں ہے) آپ نے فرمایا: قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرنے والا ملعون ہے،راوی نے اس حدیث میں قتل کا ذکرنہیں کیا،البتہ اس میں یہ بیان ہے کہ جانورسے وطی(جماع)کرنے والاملعون ہے،اوریہ حدیث بطریق: عاصم بن عمرو،عن سہیل بن أبی صالح،عن أبیہ أبی صالح،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ روایت کی گئی ہے۔(اس میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: فاعل اورمفعول دونوں کوقتل کردو،۲-اس حدیث کی سند میں کلام ہے،ہم نہیں جانتے کہ اسے سہیل بن ابی صالح سے عاصم بن عمرالعمری کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہے اورعاصم بن عمرکا حال یہ ہے کہ و ہ اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۳-اس باب میں جابراورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اغلام بازی(بدفعلی) کرنے والے کی حد کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والا شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ اس کی سزارجم ہے،مالک شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵-فقہاء تابعین میں سے بعض اہل علم نے جن میں حسن بصری،ابراہیم نخعی اورعطابن ابی رباح وغیرہ شامل ہیں کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والے کی سزازانی کی سزاکی طرح ہے،ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمَكِّيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلٍ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَی أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ جَابِرٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے بارے میں جس چیز کاسب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کاعمل (اغلام بازی)ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اور ہم اسے صرف اسی سند(عن عبد اللہ بن محمد بن عقیل بن أبوطالب عن جابر) سے ہی جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ أَبِي بَزَّةَ عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ نُہِينَا عَنْ صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يُرَخِّصُونَ فِي صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ وَالْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ ہُوَ الْقَاسِمُ بْنُ نَافِعٍ الْمَكِّيُّ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے کتے کے شکارسے منع کیا گیاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہ لوگ مجوسی کے کتے کے شکار کی اجازت نہیں دیتے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي بِشْرٍ قَال سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرْمِي الصَّيْدَ فَأَجِدُ فِيہِ مِنْ الْغَدِ سَہْمِي قَالَ إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ سَہْمَكَ قَتَلَہُ وَلَمْ تَرَ فِيہِ أَثَرَ سَبُعٍ فَكُلْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ وَعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ مِثْلَہُ وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکارکو تیرمارتاہوں پھر اگلے دن اس میں اپنا تیر پاتاہوں(اس شکارکاکیاحکم ہے؟) آپ نے فرمایا: جب تمہیں معلوم ہوجائے کہ تمہارے ہی تیرنے شکار کو ماراہے اورتم اس میں کسی اور درندے کااثرنہ دیکھوتواسے کھاؤ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے یہ حدیث ابوبشر سے اورعبدالملک بن میسرہ نے سعید بن جبیرسے،انہوں نے عدی بن حاتم سے روایت کی ہے،دونوں روایتیں صحیح ہیں،۳-اس باب میں ابوثعلبہ خشنی سے بھی روایت ہے،۴-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ الصَّيْدِ فَقَالَ إِذَا رَمَيْتَ بِسَہْمِكَ فَاذْكُرْ اسْمَ اللہِ فَإِنْ وَجَدْتَہُ قَدْ قُتِلَ فَكُلْ إِلَّا أَنْ تَجِدَہُ قَدْ وَقَعَ فِي مَاءٍ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي الْمَاءُ قَتَلَہُ أَوْ سَہْمُكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے شکارکے متعلق پوچھاتوآپ نے فرمایا: تم اپنا تیرپھینکتے وقت اس پر اللہ کانام (یعنی بسم اللہ) پڑھو،پھر اگر اسے مراہواپاؤتوبھی کھالو،سوائے اس کے کہ اسے پانی میں گرا ہوا پاؤ تونہ کھاؤاس لیے کہ تمہیں نہیں معلو م کہ پانی نے اسے ماراہے یاتمہارے تیرنے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ فَقَالَ مَا أَصَبْتَ بِحَدِّہِ فَكُلْ وَمَا أَصَبْتَ بِعَرْضِہِ فَہُوَ وَقِيذٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زَكَرِيَّا عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺسے بغیرپرکے تیرکے شکارکے متعلق پوچھاتو آپ نے فرمایا: جسے تم نے دھارسے ماراہے اسے کھاؤ اورجسے عرض (بغیردھاردارحصہ یعنی چوڑان)سے ماراہے تو وہ وقیذہے ۱؎۔اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْقُطَعِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ قَوْمِہِ صَادَ أَرْنَبًا أَوْ اثْنَيْنِ فَذَبَحَہُمَا بِمَرْوَةٍ فَعَلَّقَہُمَا حَتَّی لَقِيَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَسَأَلَہُ فَأَمَرَہُ بِأَكْلِہِمَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ وَرَافِعٍ وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُذَكِّيَ بِمَرْوَةٍ وَلَمْ يَرَوْا بِأَكْلِ الْأَرْنَبِ بَأْسًا وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُہُمْ أَكْلَ الْأَرْنَبِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ الشَّعْبِيِّ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ فَرَوَی دَاوُدُ بْنُ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ وَرَوَی عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ صَفْوَانَ أَصَحُّ وَرَوَی جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ نَحْوَ حَدِيثِ قَتَادَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَيُحْتَمَلُ أَنَّ رِوَايَةَ الشَّعْبِيِّ عَنْہُمَا قَالَ مُحَمَّدٌ حَدِيثُ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی قوم کے ایک آدمی نے ایک یادوخرگوش کاشکارکیااوران کوپتھرسے ذبح کیا ۱؎،پھران کو لٹکائے رکھایہاں تک کہ اس نے رسول اللہ ﷺسے ملاقات کی اوراس کے بارے میں پوچھا،توآپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی روایت میں شعبی کے شاگردوں کا اختلاف ہے،داود بن أبی ہند بسند الشعبی عن محمد بن صفوان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،اورعاصم الأحول بسند الشعبیعن صفوان بن محمدیا محمدبن صفوان روایت کرتے ہیں،(صفوان بن محمد کے بجائے محمدبن صفوان زیادہ صحیح ہے) جابرجعفی بھی بسندالشعبی عن جابر بن عبداللہ قتادہ کی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں،اس بات کا احتمال ہے کہ شعبی کی روایت دونوں سے ہو ۳؎،۲-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: جابر کی شعبی سے روایت غیرمحفوظ ہے،۳-اس باب میں محمد بن صفوان،رافع اورعدی بن حاتم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-بعض اہل علم نے پتھرسے ذبح کرنے کی رخصت دی ہے ۲؎،۵-یہ لوگ خرگوش کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،اکثر اہل علم کا یہی قول ہے،۶-بعض لوگ خرگوش کھانے کومکروہ سمجھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُہُ عَائِذُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ

ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہرکچلی دانت والے درندے سے منع فرمایا ۱؎۔اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ الْحُمُرَ الْإِنْسِيَّةَ وَلُحُومَ الْبِغَالِ وَكُلَّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ وَذِي مِخْلَبٍ مِنْ الطَّيْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح خیبرکے دن رسول اللہ ﷺنے پالتوگدھے،خچرکے گوشت،ہرکچلی دانت والے درندے اورپنجہ والے پرندے کوحرام کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابرکی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،عرباض بن ساریہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ حَرَّمَ كُلَّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ہر کچلی دانت والے درندے کوحرام قراردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-صحابہ کرام اور دیگرلوگوں میں سے اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے،عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ح و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْعُشَرَاءِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلَّا فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ قَالَ لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِہَا لَأَجْزَأَ عَنْكَ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ ہَذَا فِي الضَّرُورَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي الْعُشَرَاءِ عَنْ أَبِيہِ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي الْعُشَرَاءِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ اسْمُہُ أُسَامَةُ بْنُ قِہْطِمٍ وَيُقَالُ اسْمُہُ يَسَارُ بْنُ بَرْزٍ وَيُقَالُ ابْنُ بَلْزٍ وَيُقَالُ اسْمُہُ عُطَارِدٌ نُسِبَ إِلَی جَدِّہِ

ابوالعشراء کے والداسامہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول!کیا ذبح(شرعی) صرف حلق اورلبہ ہی میں ہوگا؟ آپ نے فرمایا: اگر اس کی ران میں بھی تیرماردو توکافی ہوگا،یزید بن ہارون کہتے ہیں: یہ حکم ضرورت کے ساتھ خاص ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس حدیث کے علاوہ ابوالعشر اء کی کوئی اورحدیث ان کے باپ سے ہم نہیں جانتے ہیں،ابوالعشراء کے نام کے سلسلے میں اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں: ان کانام اسامہ بن قھطم ہے،اور کہاجاتاہے ان کانام یساربن برزہے اورا بن بلزبھی کہاجاتاہے،یہ بھی کہا جاتاہے کہ ان کانام عطاردہے داداکی طرف ان کی نسبت کی گئی ہے،۳-اس باب میں رافع بن خدیج سے بھی روایت آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَتَلَ وَزَغَةً بِالضَّرْبَةِ الْأُولَی كَانَ لَہُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً فَإِنْ قَتَلَہَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّانِيَةِ كَانَ لَہُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً فَإِنْ قَتَلَہَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّالِثَةِ كَانَ لَہُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَسَعْدٍ وَعَائِشَةَ وَأُمِّ شَرِيكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوچھپکلی ۱؎ کو پہلی چوٹ میں مارے گا اس کو اتنا ثواب ہوگا،اگراس کودوسری چوٹ میں مارے گا تو اس کواتناثواب ہوگا اوراگراس کو تیسری چوٹ میں مارے گاتواس کو اتناثواب ہوگا ۲ ؎؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،سعد،عائشہ اورام شریک سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْحَسْنَاءِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّہُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُہُمَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِہِ فَقِيلَ لَہُ فَقَالَ أَمَرَنِي بِہِ يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ فَلَا أَدَعُہُ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّی عَنْ الْمَيِّتِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُہُمْ أَنْ يُضَحَّی عَنْہُ و قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْہُ وَلَا يُضَحَّی عَنْہُ وَإِنْ ضَحَّی فَلَا يَأْكُلُ مِنْہَا شَيْئًا وَيَتَصَدَّقُ بِہَا كُلِّہَا قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ شَرِيكٍ قُلْتُ لَہُ أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُہُ فَلَمْ يَعْرِفْہُ قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُہُ الْحَسَنُ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ دومینڈھوں کی قربانی کرتے تھے،ایک نبی اکرمﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے،توان سے اس بارے میں پوچھاگیا توانہوں نے بتایاکہ مجھے اس کا حکم نبی اکرمﷺ نے دیاہے،لہذا میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اس کو صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں:علی بن مدینی نے کہا: اس حدیث کو شریک کے علاوہ لوگوں نے بھی روایت کیا ہے،میں نے ان سے دریافت کیا: راوی ابوالحسناء کاکیانام ہے؟ تو وہ اسے نہیں جان سکے،مسلم کہتے ہیں: اس کا نام حسن ہے،۳-بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اوربعض لوگ میت کی طرف سے قربانی درست نہیں سمجھتے ہیں،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: مجھے یہ چیز زیادہ پسندہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کردیاجائے،قربانی نہ کی جائے،اوراگرکسی نے اس کی طرف سے قربانی کردی تو اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ تمام کو صدقہ کردے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَفَعَہُ قَالَ لَا يُضَحَّی بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُہَا وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُہَا وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُہَا وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ عَنْ الْبَرَاءِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جائے جس کالنگڑاپن واضح ہو،نہ ایسے اندھے جانورکی جس کا اندھا پن واضح ہو،نہ ایسے بیما رجانور کی جس کی بیماری واضح ہو،اورنہ ایسے لاغر وکمزور جانور کی قربانی کی جائے جس کی ہڈی میں گودانہ ہو ۱؎۔ اس سند سے بھی براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،اسے ہم صرف عبید بن فیروز کی حدیث سے جانتے ہیں انہوں نے براء سے روایت کی ہے،۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيِّ وَہُوَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ وَلَا مُدَابَرَةٍ وَلَا شَرْقَاءَ وَلَا خَرْقَاءَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ وَزَادَ قَالَ الْمُقَابَلَةُ مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِہَا وَالْمُدَابَرَةُ مَا قُطِعَ مِنْ جَانِبِ الْأُذُنِ وَالشَّرْقَاءُ الْمَشْقُوقَةُ وَالْخَرْقَاءُ الْمَثْقُوبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَشُرَيْحُ بْنُ النُّعْمَانِ الصَّائِدِيُّ ہُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ وَشُرَيْحُ بْنُ ہَانِيءٍ كُوفِيٌّ وَلِوَالِدِہِ صُحْبَةٌ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ وَشُرَيْحُ بْنُ الْحَارِثِ الْكِنْدِيُّ أَبُو أُمَيَّةَ الْقَاضِي قَدْ رَوَی عَنْ عَلِيٍّ وَكُلُّہُمْ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ قَوْلُہُ أَنْ نَسْتَشْرِفَ أَيْ أَنْ نَنْظُرَ صَحِيحًا

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی والے جانور کی) آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں،اورایسے جانورکی قربانی نہ کریں جس کاکان آگے سے کٹاہو،یا جس کاکان پیچھے سے کٹاہو،یاجس کا کان چیراہواہو(یعنی لمبائی میں کٹا ہواہو)،یاجس کے کان میں سوراخ ہو۔ اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،اس میں یہ اضافہ ہے کہ مقابلہ وہ جانورہے جس کے کان کاکنارہ (آگے سے) کٹاہو،مدابرہ وہ جانورہے جس کے کان کا کنارہ (پیچھے سے) کٹاہو،شرقاء،جس کا کان (لمبائی میں) چیراہواہو،اورخرقاء جس کے کان میں (گول) سوراخ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شریح بن نعمان صائدی،کو فہ کے رہنے والے ہیں اورعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ہیں،۳-شریح بن ہانی کوفہ کے رہنے والے ہیں اوران کے والدکوشرف صحبت حاصل ہے اورعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھی ہیں،اورشریح بن حارث کندی ابوامیہ قاضی ہیں،انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،یہ تینوں شریح (جن کی تفصیل اوپر گذری)علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی اور ہم عصر ہیں،۳-نستشرف سے مراد ننظر صحیحاً ہے یعنی قربانی کے جانورکو ہم اچھی طرح دیکھ لیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ قُلْتُ فَإِنْ وَلَدَتْ قَالَ اذْبَحْ وَلَدَہَا مَعَہَا قُلْتُ فَالْعَرْجَاءُ قَالَ إِذَا بَلَغَتْ الْمَنْسِكَ قُلْتُ فَمَكْسُورَةُ الْقَرْنِ قَالَ لَا بَأْسَ أُمِرْنَا أَوْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ وَالْأُذُنَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَاہُ سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ

حجیہ بن عدی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جائے گی،حجیہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: اگروہ بچہ جنے؟ انہوں نے کہا: اسی کے ساتھ اس کوبھی ذبح کردو ۱؎،میں نے کہا اگروہ لنگڑی ہو؟ انہو ں نے کہا: جب قربان گاہ تک پہنچ جائے تو اسے ذبح کردو،میں نے کہا: اگر اس کے سینگ ٹوٹے ہوں؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ۲؎،ہمیں حکم دیا گیا ہے،یاہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیاہے کہ ہم ان کی آنکھوں اورکانوں کوخوب دیکھ بھال لیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کوسفیان نے سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ النَّہْدِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يُضَحَّی بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالْأُذُنِ قَالَ قَتَادَةُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَقَالَ الْعَضْبُ مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فریایا جن کے سینگ ٹوٹے اورکان پھٹے ہوئے ہوں۔قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: عضب (سینگ ٹوٹنے) سے مرادیہ ہے کہ سینگ آدھی یا اس سے زیادہ ٹوٹی ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الْأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ ہِيَ فَقَالَ ضَحَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالْمُسْلِمُونَ فَأَعَادَہَا عَلَيْہِ فَقَالَ أَتَعْقِلُ ضَحَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالْمُسْلِمُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ وَلَكِنَّہَا سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ رَسُولِ اللہِ ﷺ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُعْمَلَ بِہَا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ

جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیایہ واجب ہے؟ توانہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے،اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا،انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے اورمسلمانوں نے قربانی کی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے،بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے،اور اس پر عمل کرنامستحب ہے،سفیان ثوری اورابن مبارک کایہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَقَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں دس سال مقیم رہے اورآپ (ہرسال) قربانی کرتے رہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي يَوْمِ نَحْرٍ فَقَالَ لَا يَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّی يُصَلِّيَ قَالَ فَقَامَ خَالِي فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ ہَذَا يَوْمٌ اللَّحْمُ فِيہِ مَكْرُوہٌ وَإِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَہْلِي وَأَہْلَ دَارِي أَوْ جِيرَانِي قَالَ فَأَعِدْ ذَبْحًا آخَرَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ عِنْدِي عَنَاقُ لَبَنٍ وَہِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ أَفَأَذْبَحُہَا قَالَ نَعَمْ وَہِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ بَعْدَكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَجُنْدَبٍ وَأَنَسٍ وَعُوَيْمِرِ بْنِ أَشْقَرَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُضَحَّی بِالْمِصْرِ حَتَّی يُصَلِّيَ الْإِمَامُ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ لِأَہْلِ الْقُرَی فِي الذَّبْحِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُجْزِئَ الْجَذَعُ مِنْ الْمَعْزِ وَقَالُوا إِنَّمَا يُجْزِئُ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا،آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا:جب تک صلاۃِ عیدادا نہ کرلے کوئی ہرگزقربانی نہ کرے ۔ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎،اورانہوں نے عرض کیا: ا للہ کے رسول! یہ ایسادن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہوجاتاہے،اس لیے میں نے اپنی قربانی جلدکردی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یاپڑوسیوں کو کھلاسکوں؟ آپ نے فرمایا: پھر دوسری قربانی کرو،انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیاہے اورگوشت والی دوبکریوں سے بہترہے،کیا میں اس کوذبح کردوں؟آپ نے فرمایا: ہاں! وہ تمہاری دونوں قربانیوں سے بہترہے،لیکن تمہارے بعدکسی کے لیے جذعہ (بچے) کی قربانی کافی نہ ہوگی ۲؎۔ اس باب میں جابر،جندب،انس،عویمربن اشقر،ابن عمراورابوزیدانصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثراہل علم کااسی پرعمل ہے کہ جب تک امام نماز عیدنہ ادا کرلے شہرمیں قربانی نہ کی جائے،۳-اہل علم کی ایک جماعت نے جب فجرطلوع ہوجائے تو گاؤں والوں کے لیے قربانی کی رخصت دی ہے،ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے،۴-اہل علم کا اجماع ہے کہ بکر ی کے جذع (چھ ماہ کے بچے) کی قربانی درست نہیں ہے،وہ کہتے ہیں البتہ بھیڑ کے جذع کی قربانی درست ہے ۳؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُنْتُ نَہَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ لِيَتَّسِعَ ذُو الطَّوْلِ عَلَی مَنْ لَا طَوْلَ لَہُ فَكُلُوا مَا بَدَا لَكُمْ وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَنُبَيْشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَقَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ وَأَنَسٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے تم لوگوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیاتھاتاکہ مالدارلوگ ان لوگوں کے لیے کشادگی کردیں جنہیں قربانی کی طاقت نہیں ہے،سو اب جتنا چاہو خودکھاؤ دوسروں کوکھلاؤاور (گوشت) جمع کرکے رکھو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے،اس ۳-باب میں ابن مسعود،عائشہ،نبیشہ،ابوسعید،قتادہ بن نعمان،انس اورام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ قُلْتُ لِأُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَنْہَی عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ قَالَتْ لَا وَلَكِنْ قَلَّ مَنْ كَانَ يُضَحِّي مِنْ النَّاسِ فَأَحَبَّ أَنْ يَطْعَمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ يُضَحِّي وَلَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَنَأْكُلُہُ بَعْدَ عَشَرَةِ أَيَّامٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ ہِيَ عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہَا ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

عابس بن ربیعہ کہتے ہیں: میں نے ام المومنین سے کہا: کیارسول اللہ ﷺ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرماتے تھے؟ وہ بولیں:نہیں،لیکن اس وقت بہت کم لوگ قربانی کرتے تھے،اس لیے آپ چاہتے تھے کہ جولوگ قربانی نہیں کر سکے ہیں انہیں کھلایاجائے،ہم لوگ قربانی کے جانور کے پائے رکھ دیتے پھر ان کو دس دن بعدکھاتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،ام المومنین (جن سے حدیث مذکورمروی ہے)وہ نبی اکرمﷺ کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں،ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا فَرَعَ وَلَا عَتِيرَةَ وَالْفَرَعُ أَوَّلُ النِّتَاجِ كَانَ يُنْتَجُ لَہُمْ فَيَذْبَحُونَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ نُبَيْشَةَ وَمِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ وَأَبِي الْعُشَرَاءِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَتِيرَةُ ذَبِيحَةٌ كَانُوا يَذْبَحُونَہَا فِي رَجَبٍ يُعَظِّمُونَ شَہْرَ رَجَبٍ لِأَنَّہُ أَوَّلُ شَہْرٍ مِنْ أَشْہُرِ الْحُرُمِ وَأَشْہُرِ الْحُرُمِ رَجَبٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَأَشْہُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ كَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي أَشْہُرِ الْحَجِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اسلام میں) نہ فرع ہے نہ عتیرہ،فرع جانور کا وہ پہلا بچہ ہے جو کافروں کے یہاں پیداہوتاتو وہ اسے (بتوں کے نام پر)ذبح کردیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں نبیشہ،مخنف بن سلیم اورابوالعشراء سے بھی احادیث آئی ہیں،ابوالعشراء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،۳-عتیرہ وہ ذبیحہ ہے جسے اہل مکہ رجب کے مہینہ میں اس ماہ کی تعظیم کے لیے ذبح کرتے تھے اس لیے کہ حرمت کے مہینوں میں رجب پہلا مہینہ ہے،اورحرمت کے مہینے رجب ذی قعدہ،ذی الحجہ،اورمحرم ہیں،اورحج کے مہینے شوال،ذی قعدہ اورذی الحجہ کے (ابتدائی)دس دن ہیں۔حج کے مہینوں کے سلسلہ میں بعض صحابہ اوردوسرے لوگوں سے اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا أَبُو رَمْلَةَ عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ قَالَ كُنَّا وُقُوفًا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَرَفَاتٍ فَسَمِعْتُہُ يَقُولُ يَا أَيُّہَا النَّاسُ عَلَی كُلِّ أَہْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةٌ وَعَتِيرَةٌ ہَلْ تَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ ہِيَ الَّتِي تُسَمُّونَہَا الرَّجَبِيَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ

مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرمﷺکے ساتھ میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے،میں نے آپ کو فرماتے سنا: لوگو! ہرگھروالے پرہرسال ایک قربانی اورعتیرہ ہے،تم لوگ جانتے ہوعتیرہ کیا ہے؟عتیرہ وہ ہے جسے تم لوگ رجبیہ کہتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اس کو ابن عون ہی کی سندسے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيْسَ عَلَی الْعَبْدِ نَذْرٌ فِيمَا لَا يَمْلِكُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بندہ کے اختیار میں جو چیز نہیں ہے اس میں نذر صحیح نہیں ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرواورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ يُونُسَ ہُوَ ابْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ لَا تَسْأَلْ الْإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِنْ أَتَتْكَ عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْہَا وَإِنْ أَتَتْكَ عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْہَا وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَی يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَہَا خَيْرًا مِنْہَا فَأْتِ الَّذِي ہُوَ خَيْرٌ وَلْتُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَنَسٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبدالرحمٰن! منصب امارت کامطالبہ نہ کرو،اس لیے کہ اگر تم نے اسے مانگ کرحاصل کیا توتم اسی کے سپردکردیئے جاؤگے ۱؎،اوراگروہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی مدد وتوفیق تمہارے شامل ہوگی،اورجب تم کسی کام پرقسم کھاؤ پھردوسرے کام کو اس سے بہترسمجھو توجسے تم بہتر سمجھتے ہواسے ہی کرو اور اپنی قسم کاکفارہ اداکردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبدالرحمٰن بن سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،جابر،عدی بن حاتم،ابوالدرداء،انس،عائشہ،عبداللہ بن عمرو،ابوہریرہ،ام سلمہ اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ فَرَأَی غَيْرَہَا خَيْرًا مِنْہَا فَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِہِ وَلْيَفْعَلْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْكَفَّارَةَ قَبْلَ الْحِنْثِ تُجْزِئُ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يُكَفِّرُ إِلَّا بَعْدَ الْحِنْثِ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ إِنْ كَفَّرَ بَعْدَ الْحِنْثِ أَحَبُّ إِلَيَّ وَإِنْ كَفَّرَ قَبْلَ الْحِنْثِ أَجْزَأَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوآدمی کسی امرپر قسم کھائے،اور اس کے علاوہ کام کواس سے بہترسمجھے تووہ اپنی قسم کاکفارہ اداکرے اور وہ کام کرے(جسے وہ بہترسمجھتاہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-اکثراہل علم صحابہ اوردیگرلوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ اداکرنا صحیح ہے،مالک بن انس،شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: حانث ہونے (یعنی قسم توڑنے) کے بعدہی کفارہ اداکیاجائے گا،۵-سفیان ثوری کہتے ہیں: اگرکوئی حانث ہونے (یعنی قسم توڑنے) کے بعدکفارہ اداکرے تومیرے نزدیک زیادہ اچھا ہے اوراگرحانث ہونے سے پہلے کفارہ اداکرے تو بھی درست ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ عُمَرَ وَہُوَ يَقُولُ وَأَبِي وَأَبِي فَقَالَ أَلَا إِنَّ اللہَ يَنْہَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ فَقَالَ عُمَرُ فَوَاللہِ مَا حَلَفْتُ بِہِ بَعْدَ ذَلِكَ ذَاكِرًا وَلَا آثِرًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَقُتَيْلَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ مَعْنَی قَوْلِہِ وَلَا آثِرًا أَيْ لَمْ آثُرْہُ عَنْ غَيْرِي يَقُولُ لَمْ أَذْكُرْہُ عَنْ غَيْرِي

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا: میرے باپ کی قسم! میرے باپ کی قسم! آپ نے (انہیں بلاکر) فرمایا: سنو!اللہ نے تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع فرمایاہے: عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم اس کے بعدمیں نے(باپ داداکی)قسم نہیں کھائی،نہ جان بوجھ کراورنہ ہی کسی کی بات نقل کرتے ہوے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ثابت بن ضحاک،ابن عباس،ابوہریرہ،قتیلہ اورعبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ابوعبیدکہتے ہیں کہ عمرکے قولولا آثراکے یہ معنی ہیں لم آثرہ عن غیری(میں نے دوسرے کی طرف سے بھی نقل نہیں کیا) عرب اس جملہ کو لم أذکرہ عن غیریکے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَدْرَكَ عُمَرَ وَہُوَ فِي رَكْبٍ وَہُوَ يَحْلِفُ بِأَبِيہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يَنْہَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ لِيَحْلِفْ حَالِفٌ بِاللہِ أَوْ لِيَسْكُتْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک قافلہ میں پایا،وہ اپنے باپ کی قسم کھارہے تھے،تورسول اللہ ﷺنے فرمایا: بیشک اللہ تم لوگوں کوباپ،داداکی قسم کھانے سے منع فرماتاہے،قسم کھانے والااللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ چاپ رہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَنْذِرُوا فَإِنَّ النَّذْرَ لَا يُغْنِي مِنْ الْقَدَرِ شَيْئًا وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِہِ مِنْ الْبَخِيلِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ كَرِہُوا النَّذْرَ و قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ مَعْنَی الْكَرَاہِيَةِ فِي النَّذْرِ فِي الطَّاعَةِ وَالْمَعْصِيَةِ وَإِنْ نَذَرَ الرَّجُلُ بِالطَّاعَةِ فَوَفَّی بِہِ فَلَہُ فِيہِ أَجْرٌ وَيُكْرَہُ لَہُ النَّذْرُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نذرمت مانو،اس لیے کہ نذرتقدیرکے سامنے کچھ کام نہیں آتی،صرف بخیل اورکنجوس کامال اس طریقہ سے نکال لیاجاتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے،وہ لوگ نذرکومکروہ سمجھتے ہیں،۴-عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: نذرکے اندرکراہیت کا مفہوم طاعت اورمعصیت دونوں سے متعلق ہے،اگرکسی نے اطاعت کی نذرمانی اور اسے پوراکیا تو اسے اس نذر کے پورا کرنے کا اجرملے گا،لیکن یہ نذرمکروہ ہوگی ۲؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فِي الْجَاہِلِيَّةِ قَالَ أَوْفِ بِنَذْرِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ قَالُوا إِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ وَعَلَيْہِ نَذْرُ طَاعَةٍ فَلْيَفِ بِہِ وَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ و قَالَ آخَرُونَ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ عَلَی الْمُعْتَكِفِ صَوْمٌ إِلَّا أَنْ يُوجِبَ عَلَی نَفْسِہِ صَوْمًا وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّہُ نَذَرَ أَنْ يَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْجَاہِلِيَّةِ فَأَمَرَہُ النَّبِيُّ ﷺ بِالْوَفَاءِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!میں نے جاہلیت میں نذرمانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا،(تواس کا حکم بتائیں؟) آپ نے فرمایا: اپنی نذرپوری کرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرواورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کامسلک اسی حدیث کے موافق ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی اسلام لائے،اوراس کے اوپر جاہلیت کی نذرطاعت واجب ہوتواسے پوری کرے،۴-بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگ کہتے ہیں کہ بغیرصوم کے اعتکاف نہیں ہے اور دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ معتکف پرصوم واجب نہیں ہے الایہ کہ وہ خود اپنے اوپر (نذر مانتے وقت) صوم واجب کرلے،ان لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کے اعتکاف کی نذرمانی تھی،تو نبی اکرمﷺ نے ان کو نذرپوری کرنے کا حکم دیا (اور صوم کا کوئی ذکر نہیں کیا)،احمد اوراسحاق کابھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُنَا سَبْعَةَ إِخْوَةٍ مَا لَنَا خَادِمٌ إِلَّا وَاحِدَةٌ فَلَطَمَہَا أَحَدُنَا فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نُعْتِقَہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَذَكَرَ بَعْضُہُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ لَطَمَہَا عَلَی وَجْہِہَا

سوید بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:صورتِ حال یہ تھی کہ ہم سات بھائی تھے،ہمارے پاس ایک ہی خادمہ تھی،ہم میں سے کسی نے اس کوطمانچہ ماردیا،تو نبی اکرمﷺ نے حکم دیاکہ ہم اس کوآزاد کردیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے حصین بن عبدالرحمٰن سے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے،بعض لوگوں نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ سویدبن مقرن مزنی نے لطہما علی وجہہا کہا(یعنی اس نے اس کے چہرے پرطمانچہ مارا)۔۳-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ وَہِيَ الْبُوَيْرَةُ فَأَنْزَلَ اللہُ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوہَا قَائِمَةً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللہِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَلَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَتَخْرِيبِ الْحُصُونِ وَكَرِہَ بَعْضُہُمْ ذَلِكَ وَہُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ وَنَہَی أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ أَنْ يَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا أَوْ يُخَرِّبَ عَامِرًا وَعَمِلَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَہُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ بِالتَّحْرِيقِ فِي أَرْضِ الْعَدُوِّ وَقَطْعِ الْأَشْجَارِ وَالثِّمَارِ و قَالَ أَحْمَدُ وَقَدْ تَكُونُ فِي مَوَاضِعَ لَا يَجِدُونَ مِنْہُ بُدًّا فَأَمَّا بِالْعَبَثِ فَلَا تُحَرَّقْ و قَالَ إِسْحَقُ التَّحْرِيقُ سُنَّةٌ إِذَا كَانَ أَنْكَی فِيہِمْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیرکے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎،یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَـ (الحشر: ۵) (مسلمانو!) (یہود بنی نضیرکے) کھجوروں کے درخت جوکاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اوراپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑدیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظورتھاکہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم کایہی مسلک ہے،وہ درخت کاٹنے اورقلعے ویران کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں،۴-بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں،اوزاعی کا یہی قول ہے،۵-اوزاعی کہتے ہیں: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یزید کو پھل دار درخت کاٹنے اورمکان ویران کرنے سے منع کیا،ان کے بعد مسلمانوں نے اسی پرعمل کیا،۶-شافعی کہتے ہیں: دشمن کے ملک میں آگ لگانے،درخت اورپھل کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۲؎۔۷-احمدکہتے ہیں: اسلامی لشکرکبھی کبھی ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں اس کے سواکوئی چارہ نہیں ہوتا،لیکن بلاضرورت آگ نہ لگائی جائے،۸-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: آگ لگاناسنت ہے،جب یہ کافروں کی ہار ورسوائی کاباعث ہو۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَا حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَسَمَ فِي النَّفَلِ لِلْفَرَسِ بِسَہْمَيْنِ وَلِلرَّجُلِ بِسَہْمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ أَخْضَرَ نَحْوَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ أَبِيہِ وَہَذَا حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا لِلْفَارِسِ ثَلَاثَةُ أَسْہُمٍ سَہْمٌ لَہُ وَسَہْمَانِ لِفَرَسِہِ وَلِلرَّاجِلِ سَہْمٌ

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَۃَ الضَّبِّیُّ وَحُمَیْدُ بْنُ مَسْعَدَۃَ قَالَا حَدَّثَنَا سُلَیْمُ بْنُ أَخْضَرَ عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَسَمَ فِی النَّفَلِ لِلْفَرَسِ بِسَہْمَیْنِ وَلِلرَّجُلِ بِسَہْمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِیٍّ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ أَخْضَرَ نَحْوَہُ وَفِی الْبَاب عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِیَۃَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أَبِی عَمْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ وَہَذَا حَدِیثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَکْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْیَانَ الثَّوْرِیِّ وَالْأَوْزَاعِیِّ وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِیِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا لِلْفَارِسِ ثَلَاثَۃُ أَسْہُمٍ سَہْمٌ لَہُ وَسَہْمَانِ لِفَرَسِہِ وَلِلرَّاجِلِ سَہْمٌاس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں مجمع بن جاریہ،ابن عباس اور ابی عمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثراہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے،سفیان ثوری،اوزاعی،مالک بن انس،ابن مبارک،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ سوار کو تین حصے ملیں گے،ایک حصہ اس کا اوردو حصے اس کے گھوڑے کے اورپیدل چلنے والے کو ایک حصہ ملے گا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ وَأَبُو عَمَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ الصَّحَابَةِ أَرْبَعَةٌ وَخَيْرُ السَّرَايَا أَرْبَعُ مِائَةٍ وَخَيْرُ الْجُيُوشِ أَرْبَعَةُ آلَافٍ وَلَا يُغْلَبُ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا مِنْ قِلَّةٍ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا يُسْنِدُہُ كَبِيرُ أَحَدٍ غَيْرُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ وَإِنَّمَا رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَقَدْ رَوَاہُ حِبَّانُ بْنُ عَلِيٍّ الْعَنَزِيُّ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے بہترین ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چارہو،اور سب سے بہتر سریہ وہ ہے جس کی تعداد چارسوہو،اور سب سے بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چارہزار ہو اوربارہ ہزار اسلامی فوج قلت تعداد کے باعث مغلوب نہیں ہوگی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-جریربن حازم کے سواکسی بڑے محدث سے یہ حدیث مسنداً مروی نہیں،زہری نے ا سے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے،۴-اس حدیث کو حبان بن علی عنزی بسند عقیل عن الزہری عن عبیداللہ بن عبداللہ عن ابن عباس عن النبی ﷺروایت کیا ہے،نیزاسے لیث بن سعد نے بسند عقیل عن الزہری عن النبیﷺ مرسلاً روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ ہُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ كَتَبَ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُہُ ہَلْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ وَہَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَہُنَّ بِسَہْمٍ فَكَتَبَ إِلَيْہِ ابْنُ عَبَّاسٍ كَتَبْتَ إِلَيَّ تَسْأَلُنِي ہَلْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ وَكَانَ يَغْزُو بِہِنَّ فَيُدَاوِينَ الْمَرْضَی وَيُحْذَيْنَ مِنْ الْغَنِيمَةِ وَأَمَّا بِسَہْمٍ فَلَمْ يَضْرِبْ لَہُنَّ بِسَہْمٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأُمِّ عَطِيَّةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ بَعْضُہُمْ يُسْہَمُ لِلْمَرْأَةِ وَالصَّبِيِّ وَہُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ وَأَسْہَمَ النَّبِيُّ ﷺ لِلصِّبْيَانِ بِخَيْبَرَ وَأَسْہَمَتْ أَئِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ لِكُلِّ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي أَرْضِ الْحَرْبِ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ وَأَسْہَمَ النَّبِيُّ ﷺ لِلنِّسَاءِ بِخَيْبَرَ وَأَخَذَ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَہُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ بِہَذَا وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَيُحْذَيْنَ مِنْ الْغَنِيمَةِ يَقُولُ يُرْضَخُ لَہُنَّ بِشَيْءٍ مِنْ الْغَنِيمَةِ يُعْطَيْنَ شَيْئًا

یزید بن ہرمزسے روایت ہے کہ نجدہ بن عامرحروری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس یہ سوال لکھ کربھیجا کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کوساتھ لے کر جہادکرتے تھے؟ اورکیا آپ ان کے لیے مال غنیمت سے حصہ بھی مقرر فرماتے تھے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کوجواب میں لکھا: تم نے میرے پاس یہ سوال لکھا ہے: کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کو ساتھ لے کر جہاد کرتے تھے؟ ۱ ؎ ہاں،آپ ان کے ہمراہ جہاد کرتے تھے،وہ بیماروں کا علاج کرتی تھیں اور مال غنیمت سے ان کو (بطور انعام) کچھ دیاجاتاتھا،رہ گئی حصہ کی بات تو آپ نے ان کے لیے حصہ نہیں مقررکیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس اورام عطیہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔۳-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،سفیان ثوری اورشافعی کا بھی یہی قول ہے،بعض لوگ کہتے ہیں: عورت اور بچہ کو بھی حصہ دیاجائے گا،اوزاعی کا یہی قول ہے،۴-اوزاعی کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے خیبرمیں بچوں کو حصہ دیا اور مسلمانوں کے امراء نے ہر اس مولود کے لیے حصہ مقررکیا جو دشمنوں کی سرزمین میں پیداہوا ہو،اوزاعی کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے خبیرمیں عورتوں کو حصہ دیا اورآپ کے بعدمسلمانوں نے اسی پرعمل کیا ہے۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ قُدُورِ الْمَجُوسِ فَقَالَ أَنْقُوہَا غَسْلًا وَاطْبُخُوا فِيہَا وَنَہَی عَنْ كُلِّ سَبُعٍ وَذِي نَابٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ وَرَوَاہُ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ وَأَبُو قِلَابَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ إِنَّمَا رَوَاہُ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ قَال سَمِعْتُ رَبِيعَةَ بْنَ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيَّ يَقُولُ أَخْبَرَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ عَائِذُ اللہِ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ قَال سَمِعْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ يَقُولُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا بِأَرْضِ قَوْمٍ أَہْلِ كِتَابٍ نَأْكُلُ فِي آنِيَتِہِمْ قَالَ إِنْ وَجَدْتُمْ غَيْرَ آنِيَتِہِمْ فَلَا تَأْكُلُوا فِيہَا فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَاغْسِلُوہَا وَكُلُوا فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے مجوس کی ہانڈیوں کے بارے میں سوال کیاگیا ۱؎ توآپ نے فرمایا: ان کو دھوکرصاف کرلو اوران میں پکاؤ،اورآپ نے ہردرندے اورکچلی والے جانور کوکھانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۲-ابوادریس خولانی نے بھی اس کو ابوثعلبہ سے روایت کیا ہے،لیکن ابوقلابہ کا سماع ابوثعلبہ سے ثابت نہیں ہے،انہوں نے ابواسماء کے واسطے سے ابوثعلبہ سے اس کی روایت کی ہے۔ ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے پاس آکرکہا: اللہ کے رسول!ہم اہل کتاب کے علاقہ میں ہیں توکیا ہم ان کے برتن میں کھائیں؟ آپ نے فرمایا: اگران کے علاوہ برتن پاتے ہوتو ان کے برتنوں میں نہ کھاؤ،اوراگرنہ پاؤتو ان کے برتنوں کودھل لواور ان میں کھاؤ۔یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُنَفِّلُ فِي الْبَدْأَةِ الرُّبُعَ وَفِي الْقُفُولِ الثُّلُثَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ وَمَعْنِ بْنِ يَزِيدَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَنَفَّلَ سَيْفَہُ ذَا الْفَقَارِ يَوْمَ بَدْرٍ وَہُوَ الَّذِي رَأَی فِيہِ الرُّؤْيَا يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي النَّفَلِ مِنْ الْخُمُسِ فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لَمْ يَبْلُغْنِي أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَفَّلَ فِي مَغَازِيہِ كُلِّہَا وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّہُ نَفَّلَ فِي بَعْضِہَا وَإِنَّمَا ذَلِكَ عَلَی وَجْہِ الِاجْتِہَادِ مِنْ الْإِمَامِ فِي أَوَّلِ الْمَغْنَمِ وَآخِرِہِ قَالَ إِسْحَاقُ ابْنُ مَنْصُورٍ قُلْتُ لِأَحْمَدَ إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَفَّلَ إِذَا فَصَلَ بِالرُّبُعِ بَعْدَ الْخُمُسِ وَإِذَا قَفَلَ بِالثُّلُثِ بَعْدَ الْخُمُسِ فَقَالَ يُخْرِجُ الْخُمُسَ ثُمَّ يُنَفِّلُ مِمَّا بَقِيَ وَلَا يُجَاوِزُ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا الْحَدِيثُ عَلَی مَا قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ النَّفَلُ مِنْ الْخُمُسِ قَالَ إِسْحَقُ ہُوَ كَمَا قَالَ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ سریہ کے شروع میں جانے پر چوتھائی حصہ اورلڑائی سے لوٹتے وقت دوبارہ جانے پر تہائی حصہ زائدبطورانعام(نفل) دیتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث ابوسلاّم سے مروی ہے،انہوں نے ایک صحابی سے اس کی روایت کی ہے اورانھوں نے نبی اکرمﷺ سے کی ہے،۳-اس باب میں ابن عباس،حبیب بن مسلمہ،معن بن یزید،ابن عمراورسلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے بدرکے دن نفل میں اپنی تلوار ذوالفقار لے لی تھی،اسی کے بارے میں آپ نے احدکے دن خواب دیکھاتھا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اس حدیث کو اس سندسے صرف ابن ابی زناد ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-خمس میں سے نفل دینے کی بابت اہل علم کا اختلاف ہے،مالک بن انس کہتے ہیں: مجھے کوئی روایت نہیں پہنچی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے تمام غزوات میں نفل دیاہے،آپ نے بعض غزوات میں نفل دیا ہے،لیکن یہ امام کے اجتہادپرموقوف ہے کہ شروع میں دے،یاآخرمیں دے،۳-اسحاق بن منصورکہتے ہیں: میں نے احمدبن حنبل سے پوچھا: کیانبی اکرمﷺ نے روانگی کے وقت خمس نکالنے کے بعدبطورنفل ربع دیاہے اورواپسی پر خمس نکالنے کے بعد ثلث دیا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ خمس نکالتے تھے پھر جوباقی بچتا اسی سے نفل دیتے تھے،آپ کبھی ثلث سے تجاوزنہیں کرتے تھے ۳؎،یہ حدیث مسیب کے قول کے موافق ہے کہ نفل خمس سے دیاجائے گا،اسحاق بن راہویہ نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ جَہْضَمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ شِرَاءِ الْمَغَانِمِ حَتَّی تُقْسَمَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوسعید خدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے تقسیم سے پہلے ما ل غنیمت کی خرید وفروخت سے منع فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ عَنْ وَہْبٍ بْنِ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ أَنَّ أَبَاہَا أَخْبَرَہَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی أَنْ تُوطَأَ السَّبَايَا حَتَّی يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِہِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ وَحَدِيثُ عِرْبَاضٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ و قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ إِذَا اشْتَرَی الرَّجُلُ الْجَارِيَةَ مِنْ السَّبْيِ وَہِيَ حَامِلٌ فَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّہُ قَالَ لَا تُوطَأُ حَامِلٌ حَتَّی تَضَعَ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ وَأَمَّا الْحَرَائِرُ فَقَدْ مَضَتْ السُّنَّةُ فِيہِنَّ بِأَنْ أُمِرْنَ بِالْعِدَّةِ حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ بِہَذَا الْحَدِيثِ

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے (حاملہ) قیدی عورتوں سے جماع کر نے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اپنے پیٹ میں موجود بچوں کو جن نہ دیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عرباض رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،اوزاعی کہتے ہیں کہ جب کو ئی شخص قیدی عورتوں میں سے لونڈی خرید ے اور وہ حاملہ ہو تو اس سلسلے میں عمربن خطاب سے روایت ہے،انہوں نے کہا: حاملہ جب تک بچہ نہ جنے اس سے وطی نہیں کی جائے گی،۴-اوزاعی کہتے ہیں: آزاد عورتوں کے سلسلے میں تو یہ سنت چلی آرہی ہے کہ ان کو عدت گذارنے کا حکم دیا گیاہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ كِسْرَی أَہْدَی لَہُ فَقَبِلَ وَأَنَّ الْمُلُوكَ أَہْدَوْا إِلَيْہِ فَقَبِلَ مِنْہُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَثُوَيْرُ بْنُ أَبِي فَاخِتَةَ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ وَثُوَيْرٌ يُكْنَی أَبَا جَہْمٍ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرمﷺ کے لیے فارس کے بادشاہ کسریٰ نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا تو آپ نے اسے قبول کر لیا،(کچھ)اور بادشاہوں نے آپ کے لیے تحفہ بھیجاتوآپ نے ان کے تحفے قبول کئے۔ امام ترمذ ی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-راوی ثویر ابوفاختہ کے بیٹے ہیں،ابوفاختہ کانام سعید بن علاقہ ہے اور ثویرکی کنیت ابوجہم ہے،۳-اس باب میں جابرسے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَكْثَمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ الْمَرْأَةَ لَتَأْخُذُ لِلْقَوْمِ يَعْنِي تُجِيرُ عَلَی الْمُسْلِمِينَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا فَقَالَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَكَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ قَدْ سَمِعَ مِنْ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ وَالْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ سَمِعَ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَہُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَی عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ أَنَّہَا قَالَتْ أَجَرْتُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَحْمَائِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَدْ أَمَّنَّا مَنْ أَمَّنْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَجَازُوا أَمَانَ الْمَرْأَةِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقُ أَجَازَ أَمَانَ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَی عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَيُقَالُ لَہُ أَيْضًا مَوْلَی أُمِّ ہَانِئٍ أَيْضًا وَاسْمُہُ يَزِيدُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّہُ أَجَازَ أَمَانَ الْعَبْدِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَی بِہَا أَدْنَاہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَمَعْنَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ مَنْ أَعْطَی الْأَمَانَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَہُوَ جَائِزٌ عَلَی كُلِّہِمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مسلمان عورت کسی کو پناہ دے سکتی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے،۳-کثیربن زید نے ولید بن رباح سے سناہے اورولید بن رباح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سناہے اوروہ مقارب الحدیث ہیں،۴-اس باب میں ام ہانی رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔ ام ہانی سے روایت ہے،وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کے دو رشتے داروں کو پناہ دی،تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم نے بھی اس کو پناہ دی جس کو تم نے پناہ دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-(یہ حدیث)کئی سندوں سے مروی ہے،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،انہوں نے عورت کے پناہ دینے کو جائزقراردیاہے،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے،انہوں نے عورت اورغلام کے پناہ دینے کو جائزقراردیاہے،۴-راوی ابومرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب کو مولیٰ ام ہانی بھی کہا گیا ہے،ان کانام یزید ہے،۵-عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،انہوں نے غلام کے پناہ دینے کو جائز قراردیا ہے،۶-علی بن ابی طالب اورعبداللہ بن عمروکے واسطے سے نبی اکرمﷺ سے مروی ہے،آپ نے فرمایا: تمام مسلمانوں کی پناہ یکساں ہے جس کے لیے ان کا ادنی آدمی بھی کوشش کرسکتا ہے ۲؎،۷-اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے،اگر مسلمانوں میں سے کسی نے امان دے دی تو درست ہے اورہرمسلمان اس کا پابند ہوگا۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الْفَيْضِ قَال سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ يَقُولُ كَانَ بَيْنَ مُعَاوِيَةَ وَبَيْنَ أَہْلِ الرُّومِ عَہْدٌ وَكَانَ يَسِيرُ فِي بِلَادِہِمْ حَتَّی إِذَا انْقَضَی الْعَہْدُ أَغَارَ عَلَيْہِمْ فَإِذَا رَجُلٌ عَلَی دَابَّةٍ أَوْ عَلَی فَرَسٍ وَہُوَ يَقُولُ اللہُ أَكْبَرُ وَفَاءٌ لَا غَدْرٌ وَإِذَا ہُوَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ فَسَأَلَہُ مُعَاوِيَةُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ كَانَ بَيْنَہُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَہْدٌ فَلَا يَحُلَّنَّ عَہْدًا وَلَا يَشُدَّنَّہُ حَتَّی يَمْضِيَ أَمَدُہُ أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْہِمْ عَلَی سَوَاءٍ قَالَ فَرَجَعَ مُعَاوِيَةُ بِالنَّاسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سلیم بن عامر کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ اوراہل روم کے درمیان (کچھ مدت تک کے لیے) عہدوپیمان تھا،معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے شہروں میں جاتے تھے تاکہ جب عہدکی مدت تمام ہو تو ان پرحملہ کردیں،اچانک ایک آدمی کو اپنی سواری یاگھوڑے پر: اللہ اکبر! تمہاری طرف سے ایفاء عہدہوناچاہئے نہ کہ بدعہدی ،کہتے ہوئے دیکھا وہ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ تھے،تومعاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا،توانہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: جس آدمی کے اورکسی قوم کے درمیان عہدوپیمان ہوتوجب تک اس کی مدت ختم نہ ہوجائے یااس عہدکو ان تک برابری کے ساتھ واپس نہ کردے،ہرگزعہدنہ توڑے اورنہ نیا عہدکرے،معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کولے کرواپس لوٹ آئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّہُ قَالَ رُمِيَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَطَعُوا أَكْحَلَہُ أَوْ أَبْجَلَہُ فَحَسَمَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالنَّارِ فَانْتَفَخَتْ يَدُہُ فَتَرَكَہُ فَنَزَفَہُ الدَّمُ فَحَسَمَہُ أُخْرَی فَانْتَفَخَتْ يَدُہُ فَلَمَّا رَأَی ذَلِكَ قَالَ اللہُمَّ لَا تُخْرِجْ نَفْسِي حَتَّی تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَاسْتَمْسَكَ عِرْقُہُ فَمَا قَطَرَ قَطْرَةً حَتَّی نَزَلُوا عَلَی حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ إِلَيْہِ فَحَكَمَ أَنْ يُقْتَلَ رِجَالُہُمْ وَيُسْتَحْيَا نِسَاؤُہُمْ يَسْتَعِينُ بِہِنَّ الْمُسْلِمُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَصَبْتَ حُكْمَ اللہِ فِيہِمْ وَكَانُوا أَرْبَعَ مِائَةٍ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قَتْلِہِمْ انْفَتَقَ عِرْقُہُ فَمَاتَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:غزوہ احزاب میں سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کو تیرلگا،کفارنے ان کی رگ اکحل یا رگ ابجل (بازو کی ایک رگ) کاٹ دی،رسول اللہ ﷺ نے اسے آگ سے داغاتو ان کاہاتھ سوج گیا،لہذا آپ نے اسے چھوڑدیا،پھرخون بہنے لگا،چنانچہ آپ نے دوبارہ داغاپھر ان کا ہاتھ سوج گیا،جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے دعاء کی: اے اللہ! میری جان اس وقت تک نہ نکالنا جب تک بنوقریظہ (کی ہلاکت اورذلت سے) میری آنکھ ٹھنڈی نہ ہوجائے،پس ان کی رگ رک گئی اور خون کا ایک قطرہ بھی اس سے نہ ٹپکا،یہاں تک کہ بنوقریظہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے حکم پر (قلعہ سے) نیچے اترے،رسول اللہ ﷺ نے سعد کو بلایا انہوں نے آکر فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے اورعورتوں کوزندہ رکھاجائے جن سے مسلمان خدمت لیں ۱؎،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے ان کے بارے میں اللہ کے فیصلہ کے موافق فیصلہ کیا ہے،ان کی تعداد چارسوتھی،جب آپ ان کے قتل سے فارغ ہوئے توسعدکی رگ کھل گئی اوروہ انتقال کرگئے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری اورعطیہ قرظی رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اقْتُلُوا شُيُوخَ الْمُشْرِكِينَ وَاسْتَحْيُوا شَرْخَہُمْ وَالشَّرْخُ الْغِلْمَانُ الَّذِينَ لَمْ يُنْبِتُوا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ قَتَادَةَ نَحْوَہُ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مشرکین کے مردوں کو قتل کردو اور ان کے لڑکوں میں سے جو بلوغت کی عمر کو نہ پہنچے ہوں انہیں کو چھوڑدو،شرخ وہ لڑکے ہیں جن کے زیرناف کے بال نہ نکلے ہوں ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-حجاج بن ارطاۃ نے قتادہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ قَالَ عُرِضْنَا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ يَوْمَ قُرَيْظَةَ فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُہُ فَكُنْتُ مِمَّنْ لَمْ يُنْبِتْ فَخُلِّيَ سَبِيلِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُمْ يَرَوْنَ الْإِنْبَاتَ بُلُوغًا إِنْ لَمْ يُعْرَفْ احْتِلَامُہُ وَلَا سِنُّہُ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں قریظہ کے دن نبی اکرمﷺ کے سامنے پیش کیا گیا،توجس کے (زیرناف کے) بال نکلے ہوئے تھے اسے قتل کردیاجاتااورجس کے نہیں نکلے ہوتے اسے چھوڑدیاجاتا،چنانچہ میں ان لوگوں میں سے تھاجن کے بال نہیں نکلے تھے،لہذا مجھے چھوڑدیاگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،اگربلوغت اورعمر معلوم نہ ہوتو وہ لوگ (زیرناف کے) بال نکلنے ہی کو بلوغت سمجھتے تھے،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ فِي خُطْبَتِہِ أَوْفُوا بِحِلْفِ الْجَاہِلِيَّةِ فَإِنَّہُ لَا يَزِيدُہُ يَعْنِي الْإِسْلَامَ إِلَّا شِدَّةً وَلَا تُحْدِثُوا حِلْفًا فِي الْإِسْلَامِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَقَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں فرمایا: جاہلیت کے حلف (معاہدئہ تعاون) کو پوراکرو ۱؎،اس لیے کہ اس سے اسلام کی مضبوطی میں اضافہ ہی ہوتاہے اوراب اسلام میں کوئی نیا معاہدئہ تعاون نہ کرو ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف،ام سلمہ،جبیر بن مطعم،ابوہریرہ،ابن عباس اورقیس بن عاصم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا نَمُرُّ بِقَوْمٍ فَلَا ہُمْ يُضَيِّفُونَا وَلَا ہُمْ يُؤَدُّونَ مَا لَنَا عَلَيْہِمْ مِنْ الْحَقِّ وَلَا نَحْنُ نَأْخُذُ مِنْہُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنْ أَبَوْا إِلَّا أَنْ تَأْخُذُوا كَرْہًا فَخُذُوا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَيْضًا وَإِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّہُمْ كَانُوا يَخْرُجُونَ فِي الْغَزْوِ فَيَمُرُّونَ بِقَوْمٍ وَلَا يَجِدُونَ مِنْ الطَّعَامِ مَا يَشْتَرُونَ بِالثَّمَنِ وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنْ أَبَوْا أَنْ يَبِيعُوا إِلَّا أَنْ تَأْخُذُوا كَرْہًا فَخُذُوا ہَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ مُفَسَّرًا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّہُ كَانَ يَأْمُرُ بِنَحْوِ ہَذَا

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! ہم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرتے ہیں جونہ ہماری مہمانی کرتے ہیں،نہ ان پر جوہمارا حق ہے اسے اداکرتے ہیں،اور ہم ان سے کچھ نہیں لیتے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگروہ نہ دیں سوائے اس کے کہ تم زبردستی ان سے لو،تو زبردستی لے لو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسے لیث بن سعدنے بھی یزیدبن ابی حبیب سے روایت کیا ہے (جیسا کہ بخاری کی سند میں ہے)،۳-اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ صحابہ جہادکے لیے نکلتے تھے تووہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے،جہاں کھانانہیں پاتے تھے،کہ قیمت سے خریدیں،نبی اکرمﷺنے فرمایا: اگروہ (کھانا)فروخت کرنے سے انکار کریں سوائے اس کے کہ تم زبردستی لوتوزبردستی لے لو،۴-ایک حدیث میں اسی طرح کی وضاحت آئی ہے،عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ بھی اسی طرح کا حکم دیاکرتے تھے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا ہِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَكِنْ جِہَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِ اللہِ بْنِ حُبْشِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ نَحْوَ ہَذَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتحِ مکہ کے دن فرمایا: فتحِ مکہ کے بعدہجرت نہیں ہے لیکن جہاداورنیت باقی ہے،اورجب تم کو جہادکے لیے طلب کیاجائے تو نکل پڑو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سفیان ثوری نے بھی منصوربن معتمرسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابوسعید،عبداللہ بن عمرو اور عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَصْحَابَ بَدْرٍ يَوْمَ بَدْرٍ كَعِدَّةِ أَصْحَابِ طَالُوتَ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُہُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ کہاکرتے تھے کہ غزوئہ بدرکے دن بدری لوگ تعداد میں طالوت کے ساتھیوں کے برابرتین سوتیرہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ثوری اوردوسرے لوگوں نے بھی ابواسحاق سبیعی سے اس کی روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللہُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَہُودَ وَالنَّصَارَی مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگرمیں زندہ رہاتو ان شاء اللہ جزیرہ عرب سے یہودونصاریٰ کو نکال باہرکردوں گا ۱؎۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَا أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَہُودَ وَالنَّصَارَی مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ فَلَا أَتْرُكُ فِيہَا إِلَّا مُسْلِمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: میں جزیرہ عرب سے یہود ونصاریٰ کو ضرورنکالوں گااور اس میں صرف مسلمان کو باقی رکھوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ قَالَ غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَكَانَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ أَمْسَكَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَإِذَا طَلَعَتْ قَاتَلَ فَإِذَا انْتَصَفَ النَّہَارُ أَمْسَكَ حَتَّی تَزُولَ الشَّمْسُ فَإِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ قَاتَلَ حَتَّی الْعَصْرِ ثُمَّ أَمْسَكَ حَتَّی يُصَلِّيَ الْعَصْرَ ثُمَّ يُقَاتِلُ قَالَ وَكَانَ يُقَالُ عِنْدَ ذَلِكَ تَہِيجُ رِيَاحُ النَّصْرِ وَيَدْعُو الْمُؤْمِنُونَ لِجُيُوشِہِمْ فِي صَلَاتِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ بِإِسْنَادٍ أَوْصَلَ مِنْ ہَذَا وَقَتَادَةُ لَمْ يُدْرِكْ النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ وَمَاتَ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرِّنٍ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ

نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ جہاد کیا،جب فجر طلوع ہوتی توآپ (قتال سے) ٹھہرجاتے یہاں تک کہ سورج نکل جاتا،جب سورج نکل جاتا توآپ جہاد میں لگ جاتے،پھر جب دوپہر ہوتی آپ رُک جاتے یہاں تک کہ سورج ڈھل جاتا،جب سورج ڈھل جاتا تو آپ عصرتک جہاد کرتے،پھر ٹھہرجاتے یہاں تک کہ عصر پڑھ لیتے،پھر جہاد(شروع) کرتے۔کہاجاتاتھاکہ اس وقت نصرت الٰہی کی ہواچلتی ہے اور مومن اپنے مجاہدین کے لیے صلاۃ میں دعائیں کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے جو موصول ہے،قتادہ کی ملاقات نعمان سے نہیں ہے،نعمان بن مقرن کی وفات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں ہوئی۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ وَالْحَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيِّ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ إِلَی الْہُرْمُزَانِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِہِ فَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرِّنٍ شَہِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَكَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّہَارِ انْتَظَرَ حَتَّی تَزُولَ الشَّمْسُ وَتَہُبَّ الرِّيَاحُ وَيَنْزِلَ النَّصْرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلْقَمَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ہُوَ أَخُو بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيِّ

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: عمربن خطاب نے نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو ہرمز ان کے پاس بھیجا،پھر انہوں نے مکمل حدیث بیان کی،نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ (کسی غزوہ میں) حاضرہوا،جب آپ دن کے شروع حصہ میں نہیں لڑتے توانتظار کرتے یہاں تک کہ سورج ڈھل جاتا،ہوا چلنے لگتی اور نصرت الٰہی کا نزول ہوتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَی جَيْشٍ أَوْصَاہُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللہِ وَمَنْ مَعَہُ مِنْ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا وَقَالَ اغْزُوا بِسْمِ اللہِ وَفِي سَبِيلِ اللہِ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللہِ وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تُمَثِّلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا فَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فَادْعُہُمْ إِلَی إِحْدَی ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ أَيَّتُہَا أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْہُمْ وَكُفَّ عَنْہُمْ وَادْعُہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ وَالتَّحَوُّلِ مِنْ دَارِہِمْ إِلَی دَارِ الْمُہَاجِرِينَ وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّہُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ فَإِنَّ لَہُمْ مَا لِلْمُہَاجِرِينَ وَعَلَيْہِمْ مَا عَلَی الْمُہَاجِرِينَ وَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّہُمْ يَكُونُوا كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْہِمْ مَا يَجْرِي عَلَی الْأَعْرَابِ لَيْسَ لَہُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاہِدُوا فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللہِ عَلَيْہِمْ وَقَاتِلْہُمْ وَإِذَا حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَہُمْ ذِمَّةَ اللہِ وَذِمَّةَ نَبِيِّہِ فَلَا تَجْعَلْ لَہُمْ ذِمَّةَ اللہِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّہِ وَاجْعَلْ لَہُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَمَ أَصْحَابِكَ لِأَنَّكُمْ إِنْ تَخْفِرُوا ذِمَّتَكُمْ وَذِمَمَ أَصْحَابِكُمْ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَخْفِرُوا ذِمَّةَ اللہِ وَذِمَّةَ رَسُولِہِ وَإِذَا حَاصَرْتَ أَہْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَہُمْ عَلَی حُكْمِ اللہِ فَلَا تُنْزِلُوہُمْ وَلَكِنْ أَنْزِلْہُمْ عَلَی حُكْمِكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللہِ فِيہِمْ أَمْ لَا أَوْ نَحْوَ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَحَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَزَادَ فِيہِ فَإِنْ أَبَوْا فَخُذْ مِنْہُمْ الْجِزْيَةَ فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللہِ عَلَيْہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَاہُ وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ وَرَوَی غَيْرُ مُحَمَّدِ بْنِ بَشَّارٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِيٍّ وَذَكَرَ فِيہِ أَمْرَ الْجِزْيَةِ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر پر امیرمقرر کرتے تو اسے خاص اپنے نفس کے بارے میں سے اللہ سے ڈرنے اورجومسلمان ان کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتے تھے،اس کے بعدآپ فرماتے: اللہ کے نام سے اورا س کے راستے میں جہادکرو،ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرنے والے ہیں،مال غنیمت میں خیانت نہ کرو،عہد نہ توڑو،مثلہ نہ کرو،بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے جاؤ تو ان کو تین میں سے کسی ایک بات کی دعوت دو ان میں سے جسے وہ مان لیں قبول کرلو اوران کے ساتھ لڑائی سے بازرہو: ان کو اسلام لانے اوراپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دو،اوران کو بتادوکہ اگر انہوں نے ایسا کرلیاتو ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان کے اوپر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مہاجرین پر ہیں،اوراگروہ ہجرت کرنے سے انکارکریں تو ان کو بتادو کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے،ان کے اوپروہی احکام جاری ہوں گے جو بدوی مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں: مال غنیمت اورفئی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں،پھر اگروہ ایساکرنے سے انکار کریں تو ان پر فتح یاب ہو نے کے لیے اللہ سے مددطلب کرو اور ان سے جہاد شروع کردو،جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ اوراس کے نبی کی پناہ دوتو تم ان کو اللہ اور اس کے نبی کی پناہ نہ دو،بلکہ تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی پناہ دو،(اس کے خلاف نہ کرنا) اس لیے کہ اگر تم اپنااوراپنے ساتھیوں کاعہدتوڑتے ہو تو یہ زیادہ بہترہے اس سے کہ تم اللہ اوراس کے رسول کا عہدتوڑو،اورجب تم کسی قلعے والے کا محاصرہ کرو اوروہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے فیصلہ پر اتارو تو ان کو اللہ کے فیصلہ پرمت اتارو بلکہ اپنے فیصلہ پر اتارو،اس لیے کہ تم نہیں جانتے کہ ان کے سلسلے میں اللہ کے فیصلہ پر پہنچ سگو گے یا نہیں،آپ نے اسی طرح کچھ اور بھی فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔ اس سند سے بھی بریدہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔اس میں یہ اضافہ ہے: فَإِنْ أَبَوْا فَخُذْ مِنْہُمْ الْجِزْیَۃَ فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللہِ عَلَیْہِمْ یعنی اگروہ اسلام لانے سے انکارکریں تو ان سے جزیہ لو،پھر اگر (جزیہ دینے سے بھی) انکار کریں تو ان پرفتح یاب ہونے کے لیے اللہ سے مددطلب کرو۔ وکیع اورکئی لوگوں نے سفیان سے اسی طرح روایت کی ہے،محمدبن بشارکے علاوہ دوسرے لوگوں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے روایت کی ہے اوراس میں جزیہ کا حکم بیان کیا ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يُغِيرُ إِلَّا عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا أَمْسَكَ وَإِلَّا أَغَارَ فَاسْتَمَعَ ذَاتَ يَوْمٍ فَسَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ اللہُ أَكْبَرُ اللہُ أَكْبَرُ فَقَالَ عَلَی الْفِطْرَةِ فَقَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ فَقَالَ خَرَجْتَ مِنْ النَّارِ قَالَ الْحَسَنُ وَحَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ صلاۃ فجرکے وقت ہی حملہ کرتے تھے،اگر آپ اذان سن لیتے تو رک جاتے ورنہ حملہ کردیتے،ایک دن آپ نے کان لگایا تو ایک آدمی کو کہتے سنا: اللہ أکبر اللہ أکبر،آپ نے فرمایا: فطرت (دین اسلام) پر ہے،جب اس نے أشہد أن لا إلہ إلا اللہ کہا،تو آپ نے فرمایا: تو جہنم سے نکل گیا۔ حسن کہتے ہیں: ہم سے ابوالولیدنے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے حماد بن سلمہ نے اسی سند سے اسی کے مثل بیان کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا يَعْدِلُ الْجِہَادَ قَالَ إِنَّكُمْ لَا تَسْتَطِيعُونَہُ فَرَدُّوا عَلَيْہِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ لَا تَسْتَطِيعُونَہُ فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِي سَبِيلِ اللہِ مَثَلُ الْقَائِمِ الصَّائِمِ الَّذِي لَا يَفْتُرُ مِنْ صَلَاةٍ وَلَا صِيَامٍ حَتَّی يَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ فِي سَبِيلِ اللہِ وَفِي الْبَاب عَنْ الشِّفَاءِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ حُبْشِيٍّ وَأَبِي مُوسَی وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُمِّ مَالِكٍ الْبَہْزِيَّةِ وَأَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کہاگیا: اللہ کے رسول! کون ساعمل (اجروثواب میں) جہادکے برابرہے؟ آپ نے فرمایا: تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے،صحابہ نے دویاتین مرتبہ آپ کے سامنے یہی سوال دہرایا،آپ ہرمرتبہ کہتے: تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے،تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس مصلی اورصائم کی ہے جو صلاۃ اورصوم سے نہیں رکتا (یہ دونوں عمل مسلسل کرتاہی چلاجاتا) ہے یہاں تک کہ اللہ کی راہ کا مجاہد واپس آجائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے،۳-اس باب میں شفاء،عبداللہ بن حُبشی،ابوموسیٰ،ابوسعید،ام مالک بہزیہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنِي مَرْزُوقٌ أَبُو بَكْرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعْنِي يَقُولُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُجَاہِدُ فِي سَبِيلِ اللہِ ہُوَ عَلَيَّ ضَامِنٌ إِنْ قَبَضْتُہُ أَوْرَثْتُہُ الْجَنَّةَ وَإِنْ رَجَعْتُہُ رَجَعْتُہُ بِأَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ قَالَ ہُوَ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتاہے: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کاضامن میں ہوں،اگرمیں اس کی روح قبض کروں تو اس کو جنت کا وارث بناؤں گا،اوراگرمیں اسے(اس کے گھر) واپس بھیجوں تو اجر یاغنیمت کے ساتھ واپس بھیجوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّہُمَا حَدَّثَاہُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللہِ زَحْزَحَہُ اللہُ عَنْ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا أَحَدُہُمَا يَقُولُ سَبْعِينَ وَالْآخَرُ يَقُولُ أَرْبَعِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو الْأَسْوَدِ اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَسَدِيُّ الْمَدَنِيُّ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي أُمَامَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص جہاد کرتے وقت ایک دن کا صوم رکھے اللہ تعالیٰ اسے سترسال کی مسافت تک جہنم سے دورکرے گا ۱؎۔ عروہ بن زبیر اورسلیمان بن یسارمیں سے ایک نے ستربرس کہا ہے اور دوسرے نے چالیس برس۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے غریب ہے،۲-راوی ابوالاسود کا نام محمد بن عبدالرحمٰن بن نوفل اسدی مدنی ہے،۳-اس باب میں ابوسعید،انس،عقبہ بن عامر اورابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ قَالَ و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَصُومُ عَبْدٌ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللہِ إِلَّا بَاعَدَ ذَلِكَ الْيَوْمُ النَّارَ عَنْ وَجْہِہِ سَبْعِينَ خَرِيفًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:راہِ جہادمیں کوئی بندہ ایک دن بھی صوم رکھتاہے تووہ دن اس کے چہرے سے سترسال کی مسافت تک جہنم کی آگ کو دورکردے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاہِلِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللہِ جَعَلَ اللہُ بَيْنَہُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ

ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جہادمیں جوشخص ایک دن صوم رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کے اور آگ کے درمیان اسی طرح کی ایک خندق بنادے گاجیسی زمین وآسمان کے درمیان ہے ۔ یہ حدیث ابوامامہ کی روایت سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمِيلَةَ عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللہِ كُتِبَتْ لَہُ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الرُّكَيْنِ بْنِ الرَّبِيعِ

خریم بن فاتک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے راستے(جہاد) میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے سات سوگنا (ثواب) لکھ لیاگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،اس حدیث کوہم رکین بن ربیع ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ لَحِقَنِي عَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ وَأَنَا مَاشٍ إِلَی الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَبْشِرْ فَإِنَّ خُطَاكَ ہَذِہِ فِي سَبِيلِ اللہِ سَمِعْتُ أَبَا عَبْسٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِي سَبِيلِ اللہِ فَہُمَا حَرَامٌ عَلَی النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَبْسٍ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَبْرٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ رَجُلٌ شَامِيٌّ رَوَی عَنْہُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَيَحْيَی بْنُ حَمْزَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ كُوفِيٌّ أَبُوہُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَاسْمُہُ مَالِكُ بْنُ رَبِيعَةَ وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَرَوَی عَنْ يَزِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ أَبُو إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ وَيُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ وَشُعْبَةُ أَحَادِيثَ

یزید بن ابی مریم کہتے ہیں: میں جمعہ کے لیے جارہا تھا کہ مجھے عبایہ بن رفاعہ بن رافع ملے،انہوں نے کہا: خوش ہوجاؤ،تمہارے یہ قدم اللہ کے راستے میں ہیں،میں نے ابوعبس رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے دونوں پیر اللہ کے راستے میں غبارآلود ہوں،انہیں جہنم کی آگ نہیں چھوسکتی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-ابوعبس کا نام عبدالرحمٰن بن جبرہے،۳-اس باب میں ابوبکر اورایک دوسرے صحابی سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عِيسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَی مِنْ خَشْيَةِ اللہِ حَتَّی يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہُوَ مَوْلَی أَبِي طَلْحَةَ مَدَنِيٌّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ڈر سے رونے والاجہنم میں داخل نہیں ہوگا یہا ں تک کہ دودھ تھن میں واپس لوٹ جائے،(اوریہ محال ہے) اورجہاد کاغباراورجہنم کا دھواں ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْخَيْلُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِيہَا الْخَيْرُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْخَيْلُ لِثَلَاثَةٍ ہِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ وَہِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ وَہِيَ عَلَی رَجُلٍ وِزْرٌ فَأَمَّا الَّذِي لَہُ أَجْرٌ فَالَّذِي يَتَّخِذُہَا فِي سَبِيلِ اللہِ فَيُعِدُّہَا لَہُ ہِيَ لَہُ أَجْرٌ لَا يَغِيبُ فِي بُطُونِہَا شَيْءٌ إِلَّا كَتَبَ اللہُ لَہُ أَجْرًا وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر بندھی ہوئی ہے،گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک گھوڑا وہ ہے جوآدمی کے لیے باعث اجرہے،ایک وہ گھوڑا ہے جو آدمی کی (عزت و وقار)کے لیے پردہ پوشی کا باعث ہے،اورایک گھوڑاوہ ہے جو آدمی کے لیے باعث گناہ ہے،وہ آدمی جس کے لیے گھوڑا باعث اجرہے وہ ایساشخص ہے جو اس کو جہاد کے لیے رکھتاہے،اوراسی کے لیے تیارکرتاہے،یہ گھوڑا اس شخص کے لیے باعث اجرہے،اس کے پیٹ میں جو چیز (خوراک) بھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجروثواب لکھ دیتاہے،اس حدیث میں ایک قصہ کاذکرہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-مالک بن انس نے بطریق: زید بن أسلم،عن أبی صالح،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ رَجُلٌ مُمْسِكٌ بِعِنَانِ فَرَسِہِ فِي سَبِيلِ اللہِ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالَّذِي يَتْلُوہُ رَجُلٌ مُعْتَزِلٌ فِي غُنَيْمَةٍ لَہُ يُؤَدِّي حَقَّ اللہِ فِيہَا أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِشَرِّ النَّاسِ رَجُلٌ يُسْأَلُ بِاللہِ وَلَا يُعْطِي بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَيُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں کو سب سے بہتر آدمی کے بارے میں نہ بتادوں؟ یہ وہ آدمی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے رہے،کیا میں تم لوگوں کو اس آدمی کے بارے میں نہ بتادوں جو مرتبہ میں اس کے بعد ہے؟ یہ وہ آدمی ہے جولوگوں سے الگ ہو کراپنی بکریوں کے درمیان رہ کر اللہ کا حق ادا کرتارہے،کیا میں تم کو بدترین آدمی کے بارے میں نہ بتادوں؟ یہ وہ آدمی ہے جس سے اللہ کا واسطہ دے کرمانگاجائے اوروہ نہ دے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُكْلَمُ أَحَدٌ فِي سَبِيلِ اللہِ وَاللہُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُكْلَمُ فِي سَبِيلِہِ إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْكِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں جو بھی زخمی ہوگا-اوراللہ خوب جانتا ہے جو اس کی راہ میں زخمی ہوتاہے ۱؎-قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خون کے رنگ میں رنگا ہوا ہوگا اور خوشبو مشک کی ہوگی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطے سے نبی اکرمﷺ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ مَالِكِ بْنِ يُخَامِرَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللہِ مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ فُوَاقَ نَاقَةٍ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ وَمَنْ جُرِحَ جُرْحًا فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ نُكِبَ نَكْبَةً فَإِنَّہَا تَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغْزَرِ مَا كَانَتْ لَوْنُہَا الزَّعْفَرَانُ وَرِيحُہَا كَالْمِسْكِ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جومسلمان اللہ کی راہ میں اونٹنی کے دومرتبہ دودھ دودہنے کے درمیانی وقفہ کے برابرجہادکرے اس کے لیے جنت واجب ہوگئی،اورجس شخص کو اللہ کی راہ میں کوئی زخم لگے یا چوٹ آئے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کازخم دنیا کے زخم سے کہیں بڑا ہوگا،رنگ اس کا زعفران کا ہوگا اور خوشبومشک کی ہوگی ۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَال سَمِعْتُ أَبِي بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَّةِ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ رَثُّ الْہَيْئَةِ أَأَنْتَ سَمِعْتَ ہَذَا مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَذْكُرُہُ قَالَ نَعَمْ فَرَجَعَ إِلَی أَصْحَابِہِ فَقَالَ أَقْرَأُ عَلَيْكُمْ السَّلَامَ وَكَسَرَ جَفْنَ سَيْفِہِ فَضَرَبَ بِہِ حَتَّی قُتِلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيِّ وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ وَأَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي مُوسَی قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ہُوَ اسْمُہُ

ابوبکربن ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں نے دشمنوں کی موجودگی میں اپنے باپ کو کہتے ہوے سنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک جنت کے دروازے تلواروں کی چھاؤں میں ہیں ۱؎،قوم میں سے ایک پراگندہ ہیئت والے شخص نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں،چنانچہ وہ آدمی لوٹ کراپنے ساتھیوں کے پاس گیااوربولا: میں تم سب کو سلام کرتاہوں،پھر اس نے اپنی تلوار کی نیام توڑدیااور اس سے لڑائی کرتارہا یہاں تک کہ وہ شہیدہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف جعفربن سلیمان ضبعی کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ حَدَّثَنَا الزُّہْرِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ قَالَ رَجُلٌ يُجَاہِدُ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالُوا ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ مُؤْمِنٌ فِي شِعْبٍ مِنْ الشِّعَابِ يَتَّقِي رَبَّہُ وَيَدَعُ النَّاسَ مِنْ شَرِّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھاگیا: کون آدمی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہادکرتاہے،صحابہ نے پوچھا: پھرکون؟ آپ نے فرمایا: پھر وہ مومن جو کسی گھاٹی میں اکیلا ہواور اپنے رب سے ڈرے اورلوگوں کو اپنے شرسے بچائے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللہِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا وَمَوْضِعُ سَوْطِ أَحَدِكُمْ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا وَلَرَوْحَةٌ يَرُوحُہَا الْعَبْدُ فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ لَغَدْوَةٌ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں سرحد کی ایک دن کی پاسبانی کرنا دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے،تم میں سے کسی کے کوڑے کے برابرجنت کی جگہ دنیاواور دنیا کی ساری چیزوں سے بہترہے اور بندے کا اللہ کی راہ میں صبح یا شام کے وقت چلنا دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ قَالَ مَرَّ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ بِشُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ وَہُوَ فِي مُرَابَطٍ لَہُ وَقَدْ شَقَّ عَلَيْہِ وَعَلَی أَصْحَابِہِ قَالَ أَلَا أُحَدِّثُكَ يَا ابْنَ السِّمْطِ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ بَلَی قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللہِ أَفْضَلُ وَرُبَّمَا قَالَ خَيْرٌ مِنْ صِيَامِ شَہْرٍ وَقِيَامِہِ وَمَنْ مَاتَ فِيہِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَنُمِّيَ لَہُ عَمَلُہُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

محمدبن منکدر کہتے ہیں: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ شرحبیل بن سمط کے پاس سے گزرے،وہ اپنے مرابط (سرحد پر پاسبانی کی جگہ) میں تھے،ان پر اور ان کے ساتھیوں پر وہاں رہناگراں گزررہاتھا،سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہا: ابن سمط؟ کیا میں تم سے وہ حدیث بیان نہ کروں جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا:کیوں نہیں،سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: اللہ کی راہ میں ایک دن کی پاسبانی ایک ما ہ صوم رکھنے اورتہجدپڑھنے سے افضل ہے،آپ نے افضل کی بجائے کبھی خیر(بہترہے) کا لفظ کہا: اورجو شخص اس حالت میں وفات پاگیا،وہ عذاب قبرسے محفوظ رہے گا اورقیامت تک اس کا عمل بڑھایا جائے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ رَافِعٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ لَقِيَ اللہَ بِغَيْرِ أَثَرٍ مِنْ جِہَادٍ لَقِيَ اللہَ وَفِيہِ ثُلْمَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ رَافِعٍ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ رَافِعٍ قَدْ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ ہُوَ ثِقَةٌ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ سَلْمَانَ إِسْنَادُہُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيَّ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَی عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ عَنْ سَلْمَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص جہادکے کسی اثرکے بغیراللہ تعالیٰ سے ملے ۱؎ تو وہ اس حال میں اللہ سے ملے گا کہ اس کے اندر خلل (نقص وعیب) ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ولید بن مسلم کے واسطے سے اسماعیل بن رافع کی روایت سے ضعیف ہے،بعض محدثین نے اسماعیل بن رافع کی تضعیف کی ہے،میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: اسماعیل ثقہ ہیں،مقارب الحدیث ہیں،۲-یہ حدیث دوسری سند سے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے،۳-سلمان کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔محمد بن منکدرنے سلمان کو نہیں پایا ہے،یہ حدیث عن ایوب بن موسیٰ عن مکحول عن شرحبیل بن سمط عن سلمان عن النبیﷺ کی سند سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي أَبُو عَقِيلٍ زُہْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَی عُثْمَانَ قَال سَمِعْتُ عُثْمَانَ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ يَقُولُ إِنِّي كَتَمْتُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ كَرَاہِيَةَ تَفَرُّقِكُمْ عَنِّي ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُحَدِّثَكُمُوہُ لِيَخْتَارَ امْرُؤٌ لِنَفْسِہِ مَا بَدَا لَہُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ رِبَاطُ يَوْمٍ فِي سَبِيلِ اللہِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ يَوْمٍ فِيمَا سِوَاہُ مِنْ الْمَنَازِلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ أَبُو صَالِحٍ مَوْلَی عُثْمَانَ اسْمُہُ تُرْكَانُ

ابوصالح مولیٰ عثمان کہتے ہیں: میں نے منبرپر عثمان رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا: میں نے تم لوگوں سے ایک حدیث چھپالی تھی جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اس ڈر کی وجہ سے کہ تم مجھ سے جداہوجاؤگے ۱؎ پھر میری سمجھ میں آیاکہ میں تم لوگوں سے اسے بیان کردوں تاکہ ہرآدمی اپنے لیے وہی چیز اختیارکرے جو اس کی سمجھ میں آئے،میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی پاسبانی کرنا دوسری جگہوں کے ایک ہزار دن کی پاسبانی سے بہترہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا يَجِدُ الشَّہِيدُ مِنْ مَسِّ الْقَتْلِ إِلَّا كَمَا يَجِدُ أَحَدُكُمْ مِنْ مَسِّ الْقَرْصَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہیدکوقتل سے صرف اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تکلیف تم میں سے کسی کو چٹکی لینے سے ہوتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ الْفِلَسْطِينِيُّ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَی اللہِ مِنْ قَطْرَتَيْنِ وَأَثَرَيْنِ قَطْرَةٌ مِنْ دُمُوعٍ فِي خَشْيَةِ اللہِ وَقَطْرَةُ دَمٍ تُہَرَاقُ فِي سَبِيلِ اللہِ وَأَمَّا الْأَثَرَانِ فَأَثَرٌ فِي سَبِيلِ اللہِ وَأَثَرٌ فِي فَرِيضَةٍ مِنْ فَرَائِضِ اللہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو دوقطروں اور دونشانیوں سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے: آنسو کا ایک قطرہ جو اللہ کے خوف کی وجہ سے نکلے اوردوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں بہے،دونشانیوں میں سے ایک نشانی وہ ہے جو اللہ کی راہ میں لگے اوردوسری نشانی وہ ہے جو اللہ کے فرائض میں سے کسی فریضہ کی ادائیگی کی حالت میں لگے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ ائْتُونِي بِالْكَتِفِ أَوْ اللَّوْحِ فَكَتَبَ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَعَمْرُو بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ خَلْفَ ظَہْرِہِ فَقَالَ ہَلْ لِي مِنْ رُخْصَةٍ فَنَزَلَتْ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ ہَذَا الْحَدِيثَ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میرے پاس شانہ (کی ہڈی) یاتختی لاؤ،پھرآپ نے لکھوایا ۱؎: لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ (یعنی جہاد سے بیٹھے رہنے والے مومن (مجاہدین کے) برابرنہیں ہوسکتے ہیں نابیناصحابی)،عمرو ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے تھے،انہوں نے پوچھا: کیا میرے لیے اجازت ہے؟ چنانچہ (آیت کا) یہ ٹکڑا نازل ہوا: غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ ،(معذورین کے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث بروایت تیمی نے سلمان عن ابی اسحاق سبیعی غریب ہے،اس حدیث کو شعبہ اورثوری نے بھی ابواسحاق سے روایت کیا ہے،۳-اس باب میں ابن عباس،جابر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ وَأَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالُوا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ عَمَّارٍ يَعْنِي الدُّہْنِيَّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ وَلِوَاؤُہُ أَبْيَضُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ آدَمَ عَنْ شَرِيكٍ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ آدَمَ عَنْ شَرِيكٍ و قَالَ حَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ وَعَلَيْہِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَالْحَدِيثُ ہُوَ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَالدُّہْنُ بَطْنٌ مِنْ بَجِيلَةَ وَعَمَّارٌ الدُّہْنِيُّ ہُوَ عَمَّارُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الدُّہْنِيُّ وَيُكْنَی أَبَا مُعَاوِيَةَ وَہُوَ كُوفِيٌّ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کاپرچم سفیدتھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف یحییٰ بن آدم کی روایت سے جانتے ہیں اور یحییٰ شریک سے روایت کرتے ہیں،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: توانہوں نے کہا: یحییٰ بن آدم شریک سے روایت کرتے ہیں،اورکہا: ہم سے کئی لوگوں نے شریک عن عمارعن ابی الزبیرعن جابرکی سندسے بیان کیا کہ نبی اکرمﷺ مکہ میں داخل ہوئے اوراس وقت آپ کے سرپر کالا عمامہ تھا،محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اور (محفوظ) حدیث یہی ہے،۳- الدہنقبیلہ بجیلہ کی ایک شاخ ہے،عماردہنی معاویہ دہنی کے بیٹے ہیں،ان کی کنیت ابومعاویہ ہے،وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں اور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ الْحَدَّادُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ صَنَعْتُ سَيْفِي عَلَی سَيْفِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ وَزَعَمَ سَمُرَةُ أَنَّہُ صَنَعَ سَيْفَہُ عَلَی سَيْفِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَكَانَ حَنَفِيًّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ فِي عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ الْكَاتِبِ وَضَعَّفَہُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

ابن سیرین کہتے ہیں: میں نے اپنی تلوارسمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی تلوار کی طرح بنائی،اور سمرہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ انہوں نے اپنی تلوار رسول اللہ ﷺ کے تلوار کی طرح بنائی تھی اورآپ کی تلوار قبیلہ بنو حنیفہ کے طرز پر بنائی گئی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-یحییٰ بن سعید قطان نے عثمان بن سعد کاتب کے سلسلے میں کلام کیا ہے اور حافظہ میں انہیں ضعیف قراردیاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بِنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ لَنَا رَجُلٌ أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَا أَبَا عُمَارَةَ قَالَ لَا وَاللہِ مَا وَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ وَلَكِنْ وَلَّی سَرَعَانُ النَّاسِ تَلَقَّتْہُمْ ہَوَازِنُ بِالنَّبْلِ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی بَغْلَتِہِ وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ آخِذٌ بِلِجَامِہَا وَرَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ! ۱؎ کیاآپ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے فرارہوگئے تھے؟ کہا: نہیں،اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے پیٹھ نہیں پھیری،بلکہ جلدباز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی،قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کردیا تھا،رسول اللہ ﷺ اپنے خچرپرسوار تھے،ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچرکی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎،اوررسول اللہ ﷺ فرمارہے تھے: میں نبی ہوں،جھوٹانہیں ہوں،میں عبدالمطلب کابیٹا ہوں ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ حُنَيْنٍ وَإِنَّ الْفِئَتَيْنِ لَمُوَلِّيَتَانِ وَمَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِائَةُ رَجُلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: غزوۂ حنین کے دن ہماری صورت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کی دونوں جماعت پیٹھ پھیرے ہوئی تھی،اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوآدمی بھی نہیں تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اسے ہم عبیداللہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ قَالَ كَانَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ دِرْعَانِ يَوْمَ أُحُدٍ فَنَہَضَ إِلَی الصَّخْرَةِ فَلَمْ يَسْتَطِعْ فَأَقْعَدَ طَلْحَةَ تَحْتَہُ فَصَعِدَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْہِ حَتَّی اسْتَوَی عَلَی الصَّخْرَةِ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ أَوْجَبَ طَلْحَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ

زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: غزوئہ احدکے دن نبی اکرمﷺ کے جسم پر دوزرہیں تھیں ۱؎،آپ چٹان پر چڑھنے لگے،لیکن نہیں چڑھ سکے،آپ نے طلحہ بن عبیداللہ کو اپنے نیچے بٹھایا،پھر آپ ان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ چٹان پر سیدھے کھڑے ہوگئے،زبیر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: طلحہ نے (اپنے عمل سے جنت) واجب کرلی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں صفوان بن امیہ اورسائب بن یزید رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَی رَأْسِہِ الْمِغْفَرُ فَقِيلَ لَہُ ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَقَالَ اقْتُلُوہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُ كَبِيرَ أَحَدٍ رَوَاہُ غَيْرَ مَالِكٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ فتح مکہ کے سال مکہ داخل ہوے تو آپ کے سرپر خودتھا،آپ سے کہا گیا: ابن خطل ۱؎ کعبہ کے پردوں میں لپٹاہواہے؟آپ نے فرمایا: اسے قتل کردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ہم میں سے اکثر لوگوں کے نزدیک زہری سے مالک کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْہَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا شَيْبَانُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُمْنُ الْخَيْلِ فِي الشُّقْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ شَيْبَانَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سرخ رنگ کے گھوڑوں میں برکت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے اس سند سے صرف شیبان کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ،أَخْبَرَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ،أَخْبَرَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ،عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ،عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ،عَنْ أَبِي قَتَادَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: خَيْرُ الْخَيْلِ الأَدْہَمُ الأَقْرَحُ الأَرْثَمُ،ثُمَّ الأَقْرَحُ الْمُحَجَّلُ طَلْقُ الْيَمِينِ،فَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَدْہَمَ فَكُمَيْتٌ عَلَی ہَذِہِ الشِّيَةِ.

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بہتر گھوڑے وہ ہیں جو کالے رنگ کے ہوں،جن کی پیشانی اور اوپر کا ہونٹ سفید ہو،پھر ان کے بعد وہ گھوڑے ہیں جن کے چاروں پیر اور پیشانی سفید ہو،اگر گھوڑا کالے رنگ کا نہ ہوتو انہیں صفات کا سرخ سیاہی مائل عمدہ گھوڑا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ،حَدَّثَنَا أَبِي،عَنْ يَحْيَی بْنِ أَيُّوبَ،عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.

یزید بن ابی حبیب سے اسی سند سے اسی معنی کی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنِي سَلْمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّخَعِيُّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَرِہَ الشِّكَالَ مِنْ الْخَيْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ الْخَثْعَمِيِّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُہُ ہَرِمٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ قَالَ قَالَ لِي إِبْرَاہِيمُ النَّخَعِيُّ إِذَا حَدَّثْتَنِي فَحَدِّثْنِي عَنْ أَبِي زُرْعَةَ فَإِنَّہُ حَدَّثَنِي مَرَّةً بِحَدِيثٍ ثُمَّ سَأَلْتُہُ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ فَمَا أَخْرَمَ مِنْہُ حَرْفًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کو گھوڑوں میں سے شکال گھوڑا ناپسند تھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے عبداللہ بن یزید خثعمی سے،بسند ابی زرعہ عن ابی ابوہریرہ عن النبی ﷺ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،ابوزرعہ عمروبن جریرکا نام ہرم ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الصُّورَةِ فِي الْبَيْتِ وَنَہَی أَنْ يُصْنَعَ ذَلِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي طَلْحَةَ وَعَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے گھرمیں تصویررکھنے سے منع فرمایا اور آپ نے اس کو بنانے سے بھی منع فرمایا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوطلحہ،عائشہ ابوہریرہ اورابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّہُ دَخَلَ عَلَی أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ يَعُودُہُ قَالَ فَوَجَدْتُ عِنْدَہُ سَہْلَ بْنَ حُنَيْفٍ قَالَ فَدَعَا أَبُو طَلْحَةَ إِنْسَانًا يَنْزِعُ نَمَطًا تَحْتَہُ فَقَالَ لَہُ سَہْلٌ لِمَ تَنْزِعُہُ فَقَالَ لِأَنَّ فِيہِ تَصَاوِيرَ وَقَدْ قَالَ فِيہِ النَّبِيُّ ﷺ مَا قَدْ عَلِمْتَ قَالَ سَہْلٌ أَوَلَمْ يَقُلْ إِلَّا مَا كَانَ رَقْمًا فِي ثَوْبٍ فَقَالَ بَلَی وَلَكِنَّہُ أَطْيَبُ لِنَفْسِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں: وہ ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے ان کے گھر گئے،تو میں نے ان کے پاس سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو پا یا،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو وہ چادرنکالنے کے لیے بلایا جو ان کے نیچے تھی،سہل رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیوں نکال رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس لیے کہ اس میں تصویریں ہیں،نبی اکرمﷺ نے اس سلسلے میں جو کچھ فرمایاہے اسے آپ جانتے ہیں،سہل رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے تو یہ بھی فرمایاہے: سوائے اس کپڑے کے جس میں نقش ہو ابو طلحہ نے کہا: آپ نے تو یہ فرمایاہے لیکن یہ میرے لیے زیادہ اچھاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ غَيِّرُوا الشَّيْبَ وَلَا تَشَبَّہُوا بِالْيَہُودِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الزُّبَيْرِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَنَسٍ وَأَبِي رِمْثَةَ وَالْجَہْدَمَةِ وَأَبِي الطُّفَيْلِ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بال کی سفیدی (خضاب کے ذریعہ) بدل ڈالو اور یہود کی مشابہت نہ اختیارکرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطہ سے مرفوع طریقہ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۳-اس باب میں زبیر،ابن عباس،جابر،ابوذر،انس،ابورمثہ،جہدمہ،ابوطفیل،جابربن سمرہ،ابوحجیفہ اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ الْأَجْلَحِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ أَحْسَنَ مَا غُيِّرَ بِہِ الشَّيْبُ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْأَسْوَدِ الدِّيلِيُّ اسْمُہُ ظَالِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سُفْيَانَ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہترچیزجس سے بال کی سفیدی بدلی جائے وہ مہندی اوروسمہ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ التَّرَجُّلِ إِلَّا غِبًّا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا،سوائے اس کے کہ ناغہ کرکے کی جائے۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ لِبْسَتَيْنِ الصَّمَّاءِ وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ بِثَوْبِہِ لَيْسَ عَلَی فَرْجِہِ مِنْہُ شَيْءٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے دولباس سے منع فرمایا: ایک صماء،اوردوسرا یہ کہ کوئی شخص خود کو کپڑے میں اس طرح لپیٹ لے کہ اس کی شرم گا ہ پر اس کپڑے کا کوئی حصہ نہ رہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ دوسری سندوں سے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے،۳-اس باب میں علی،ابن عمر،عائشہ،ابوسعید،جابراورابوامامہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنَّمَا كَانَ فِرَاشُ النَّبِيِّ ﷺ الَّذِي يَنَامُ عَلَيْہِ أَدَمٌ حَشْوُہُ لِيفٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ حَفْصَةَ وَجَابِرٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جس بچھونے پرسوتے تھے وہ چمڑے کا تھا،اس کے اندرکھجورکے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں حفصہ اورجابرسے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَزْہَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ نَبْہَانَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يَنْتَعِلَ الرَّجُلُ وَہُوَ قَائِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ لَا يَصِحُّ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَالْحَارِثُ بْنُ نَبْہَانَ لَيْسَ عِنْدَہُمْ بِالْحَافِظِ وَلَا نَعْرِفُ لِحَدِيثِ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَصْلًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی شخص کھڑے ہوکرجوتاپہنے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-عبیداللہ بن عمرورقی نے اس حدیث کو معمرسے،معمرنے قتادہ سے،قتادہ نے انس سے روایت کی ہے،یہ دونوں حدیثیں محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہیں،حارث بن نبہان کا حافظہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے،۳-قتادہ کی انس سے مروی حدیث کی ہم کوئی اصل نہیں جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ السِّمْنَانِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی أَنْ يَنْتَعِلَ الرَّجُلُ وَہُوَ قَائِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ وَلَا يَصِحُّ ہَذَا الْحَدِيثُ وَلَا حَدِيثُ مَعْمَرٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہوکر جوتاپہننے سے منع فرمایا۔ ٍ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح نہیں ہے،اورنہ ہی معمرکی حدیث جسے وہ عماربن ابی عمارسے اور عمار ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا انْتَعَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِالْيَمِينِ وَإِذَا نَزَعَ فَلْيَبْدَأْ بِالشِّمَالِ فَلْتَكُنْ الْيُمْنَی أَوَّلَہُمَا تُنْعَلُ وَآخِرَہُمَا تُنْزَعُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی جوتا پہنے تو داہنے پیرسے شروع کرے اورجب اتارے تو بائیں سے شروع کرے،پہننے میں داہنا پاؤں پہلے اوراتارنے میں پیچھے ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ قَالَتْ قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَكَّةَ وَلَہُ أَرْبَعُ غَدَائِرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ مُحَمَّدٌ لَا أَعْرِفُ لِمُجَاہِدٍ سَمَاعًا مِنْ أُمِّ ہَانِئٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ نَافِعٍ الْمَكِّيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ قَالَتْ قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَكَّةَ وَلَہُ أَرْبَعُ ضَفَائِرَ أَبُو نَجِيحٍ اسْمُہُ يَسَارٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ مَكِّيٌّ

ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مکہ اس حال میں آئے کہ آپ کی چارچوٹیاں تھیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ام ہانی سے مجاہد کا سماع میں نہیں جانتاہوں۔اس سند سے بھی ام ہانی رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ نَذِيرٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِعَضَلَةِ سَاقِي أَوْ سَاقِہِ فَقَالَ ہَذَا مَوْضِعُ الْإِزَارِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَأَسْفَلَ فَإِنْ أَبَيْتَ فَلَا حَقَّ لِلْإِزَارِ فِي الْكَعْبَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاہُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی یامیری پنڈلی کا گوشت پکڑااورفرمایا: یہ تہبندکی جگہ ہے،اگراس پر راضی نہ ہوتو تھوڑا اورنیچا کرلو،پھر اگر اورنیچا کرنا چاہو تو تہ بند ٹخنوں سے نیچا نہیں کرسکتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،ثوری اورشعبہ نے بھی اس کو ابواسحاق سبیعی سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْعَسْقَلَانِيِّ عَنْ أَبِي جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِيَّ ﷺ فَصَرَعَہُ النَّبِيُّ ﷺ قَالَ رُكَانَةُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ فَرْقَ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ الْعَمَائِمُ عَلَی الْقَلَانِسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُہُ لَيْسَ بِالْقَائِمِ وَلَا نَعْرِفُ أَبَا الْحَسَنِ الْعَسْقَلَانِيَّ وَلَا ابْنَ رُكَانَةَ

محمدبن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ نے نبی اکرم ﷺ سے کشتی لڑی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے پچھاڑ دیا،رکانہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا: ہمارے اورمشرکوں کے درمیان فرق ٹوپیوں پر عمامہ باندھنے کا ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس کی سند قائم (صحیح)نہیں ہے،۳-ہم ابوالحسن عسقلانی اورابن رکانہ کو نہیں جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُوسَی قَال سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ نَہَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الْقَسِّيِّ وَالْمِيثَرَةِ الْحَمْرَاءِ وَأَنْ أَلْبَسَ خَاتَمِي فِي ہَذِہِ وَفِي ہَذِہِ وَأَشَارَ إِلَی السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَابْنُ أَبِي مُوسَی ہُوَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَی وَاسْمُہُ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَيْسٍ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے رسول اللہ ﷺ نے قسی (ایک ریشمی کپڑا)سرخ (رنگ کا ریشمی) زین پوش اوراس انگلی اوراس انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایااورانہوں نے شہادت اوربیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ يَلْبَسُہَا الْحِبَرَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا پسندیدہ کپڑاجسے آپ پہنتے تھے وہ دھاری داریمنی چادرتھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ قُدُورِ الْمَجُوسِ فَقَالَ أَنْقُوہَا غَسْلًا وَاطْبُخُوا فِيہَا وَنَہَی عَنْ كُلِّ سَبْعٍ ذِي نَابٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مَشْہُورٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ثَعْلَبَةَ وَرُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو ثَعْلَبَةَ اسْمُہُ جُرْثُومٌ وَيُقَالُ جُرْہُمٌ وَيُقَالُ نَاشِبٌ وَقَدْ ذُكِرَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ

ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مجوس کی ہانڈیوں (برتنوں) کے بارے میں پوچھاگیا،تو آپ نے فرمایا: انہیں دھوکرصاف کرواوران میں کھانا پکاؤ،اور آپ نے ہرکچلی دانت والے درندے جانور سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ابوثعلبہ کی روایت سے مشہورہے،ان سے یہ حدیث دوسری سندسے بھی آئی ہے،۲-ابوثعلبہ کا نام جرثوم ہے،انہیں جرہم اورناشب بھی کہا گیا ہے،۳-یہ حدیث عن أبی قلابۃ عن أبی أسماء الرحبی عن أبی ثعلبۃ کی سند سے بھی بیان کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَی بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَيْشِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ وَقَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ أَنَّہُ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا بِأَرْضِ أَہْلِ الْكِتَابِ فَنَطْبُخُ فِي قُدُورِہِمْ وَنَشْرَبُ فِي آنِيَتِہِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَہَا فَارْحَضُوہَا بِالْمَاءِ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا بِأَرْضِ صَيْدٍ فَكَيْفَ نَصْنَعُ قَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُكَلَّبَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللہِ فَقَتَلَ فَكُلْ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُكَلَّبٍ فَذُكِّيَ فَكُلْ وَإِذَا رَمَيْتَ بِسَہْمِكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللہِ فَقَتَلَ فَكُلْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سوال کیا: اللہ کے رسول!ہم لوگ اہل کتاب کی سرزمین میں رہتے ہیں،کیا ہم ان کی ہانڈیوں میں کھانا پکائیں اوران کے برتنوں میں پانی پئیں؟تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگرتمہیں اس کے علاوہ کوئی برتن نہ مل سکے تو اسے پانی سے دھولو،پھر انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم شکاروالی سرزمین میں رہتے ہیں کیسے کریں؟ آپ نے فرمایا: جب تم اپناسدھایا ہواکتاروانہ کرواوراس پر بسم اللہ پڑھ لو پھروہ شکارمارڈالے تواسے کھاؤ،اوراگرکتاسدھایا ہوانہ ہواورشکارذبح کردیاجائے تو اسے کھاؤ اورجب تم تیرمارو اور اس پر بسم اللہ پڑھ لوپھراس سے شکارہوجائے تواسے کھاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَسَقَطَتْ لُقْمَةٌ فَلْيُمِطْ مَا رَابَہُ مِنْہَا ثُمَّ لِيَطْعَمْہَا وَلَا يَدَعْہَا لِلشَّيْطَانِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے اور نوالہ گرجائے تو اس میں سے جونا پسندسمجھے اسے ہٹادے ۱؎،اسے پھر کھالے،اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَہُ الثَّلَاثَ وَقَالَ إِذَا مَا وَقَعَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيُمِطْ عَنْہَا الْأَذَی وَلْيَأْكُلْہَا وَلَا يَدَعْہَا لِلشَّيْطَانِ وَأَمَرَنَا أَنْ نَسْلِتَ الصَّحْفَةَ وَقَالَ إِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ فِي أَيِّ طَعَامِكُمْ الْبَرَكَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کوچاٹتے تھے ۱؎،آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا نوالہ گرجائے تو اس سے گردو غباردورکرے اوراسے کھالے،اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے،آپ نے ہمیں پلیٹ چاٹنے کا حکم دیا اورفرمایا: تم لوگ نہیں جانتے کہ تمہارے کھانے کے کس حصے میں برکت رکھی ہوئی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْمُعَلَّی بْنُ رَاشِدٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي أُمُّ عَاصِمٍ وَكَانَتْ أُمَّ وَلَدٍ لِسِنَانِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا نُبَيْشَةُ الْخَيْرِ وَنَحْنُ نَأْكُلُ فِي قَصْعَةٍ فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ أَكَلَ فِي قَصْعَةٍ ثُمَّ لَحِسَہَا اسْتَغْفَرَتْ لَہُ الْقَصْعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْمُعَلَّی بْنِ رَاشِدٍ وَقَدْ رَوَی يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ عَنْ الْمُعَلَّی بْنِ رَاشِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ

ام عاصم کہتی ہیں: ہمارے پاس نبیشہ الخیرآئے،ہم لوگ ایک پیالے میں کھانا کھارہے تھے،تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص پیالے میں کھائے پھر اسے چاٹے توپیالہ اس کے لیے استغفار کرتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف معلی بن راشد کی روایت سے جانتے ہیں،۲-یزید بن ہارون اورکئی ائمہ حدیث نے بھی یہ حدیث معلی بن راشد سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْہِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ وَالِدُ وَكِيعٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شَرِيكِ بْنِ حَنْبَلٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّہُ قَالَ نُہِيَ عَنْ أَكْلِ الثُّومِ إِلَّا مَطْبُوخًا

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لہسن کھانے سے منع کیا گیا ہے سوائے اس کے کہ وہ پکاہواہو ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ شَرِيكِ بْنِ حَنْبَلٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَا يَصْلُحُ أَكْلُ الثُّومِ إِلَّا مَطْبُوخًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا عَنْ عَلِيٍّ قَوْلُہُ وَرُوِي عَنْ شَرِيكِ بْنِ حَنْبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا قَالَ مُحَمَّدٌ الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ صَدُوقٌ وَالْجَرَّاحُ بْنُ الضَّحَّاكِ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ

شریک بن حنبل سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ لہسن کھانا مکروہ سمجھتے تھے،سوائے اس کے کہ وہ پکاہواہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے،یہ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے،۲-شریک بن حنبل کے واسطہ سے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے مرسل طریقہ سے بھی آئی ہے،۳-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: راوی جراح بن ملیح صدوق ہیں اورجراح بن ضحاک مقارب الحدیث ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ أُمَّ أَيُّوبَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَزَلَ عَلَيْہِمْ فَتَكَلَّفُوا لَہُ طَعَامًا فِيہِ مِنْ بَعْضِ ہَذِہِ الْبُقُولِ فَكَرِہَ أَكْلَہُ فَقَالَ لِأَصْحَابِہِ كُلُوہُ فَإِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ إِنِّي أَخَافُ أَنْ أُوذِيَ صَاحِبِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَأُمُّ أَيُّوبَ ہِيَ امْرَأَةُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ

ام ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ (ہجرت کے بعد) ان کے گھرٹھہرے،ان لوگوں نے آپ کے لیے پرتکلف کھانا تیارکیا جس میں کچھ ان سبزیوں(گندنا وغیرہ) میں سے تھی،چنانچہ آپ نے اسے کھانا ناپسندکیا اورصحابہ سے فرمایا: تم لوگ اسے کھاؤ،اس لیے کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں،میں ڈرتاہوں کہ میں اپنے رفیق (جبریل) کو تکلیف پہچاؤں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ام ایوب ابوایوب انصاری کی بیوی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنْ أَبِي خَلْدَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ الثُّومُ مِنْ طَيِّبَاتِ الرِّزْقِ وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُہُ خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَقَدْ أَدْرَكَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَسَمِعَ مِنْہُ وَأَبُو الْعَالِيَةِ اسْمُہُ رُفَيْعٌ ہُوَ الرِّيَاحِيُّ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ كَانَ أَبُو خَلْدَةَ خِيَارًا مُسْلِمًا

ابوالعالیہ کہتے ہیں کہ لہسن حلال رزق ہے۔ ابوخلدہ کا نام خالدبن دینارہے،وہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں،انہوں نے انس بن مالک سے ملاقات کی ہے اور ان سے حدیث سنی ہے،ابوالعالیہ کانام رفیع ہے اوریہ رُفیع ریاحی ہیں،عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: ابوخلدہ ایک نیک مسلمان تھے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ وَعُبَيْدُ اللہِ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يُقْرَنَ بَيْنَ التَّمْرَتَيْنِ حَتَّی يَسْتَأْذِنَ صَاحِبَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ مَوْلَی أَبِي بَكْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے دوکھجورایک ساتھ کھانے سے منع فرمایا یہاں تک کہ اپنے ساتھ کھانے والے کی اجازت حاصل کرلے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد مولی ابوبکر سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَہْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ بَيْتٌ لَا تَمْرَ فِيہِ جِيَاعٌ أَہْلُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَی امْرَأَةِ أَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاہُ غَيْرَ يَحْيَی بْنِ حَسَّانَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس گھرمیں کھجورنہیں اس گھر کے لوگ بھوکے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے ہشام بن عروہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہا: یحیی بن حسان کے علاوہ میں نہیں جانتاہوں کسی نے اسے روایت کیا ہے،۳-اس باب میں ابورافع کی بیوی سلمی رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشْقَرُ وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَا حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ فَأَدْخَلَہُ مَعَہُ فِي الْقَصْعَةِ ثُمَّ قَالَ كُلْ بِسْمِ اللہِ ثِقَةً بِاللہِ وَتَوَكُّلًا عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ الْمُفَضَّلِ بْنِ فَضَالَةَ وَالْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ ہَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ وَالْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ شَيْخٌ آخَرُ بَصْرِيٌّ أَوْثَقُ مِنْ ہَذَا وَأَشْہَرُ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ وَحَدِيثُ شُعْبَةَ أَثْبَتُ عِنْدِي وَأَصَحُّ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کوڑھی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ پیالے میں داخل کیا،پھر فرمایا: اللہ کا نام لے کراس پر بھروسہ رکھتے ہوئے اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف یونس بن محمد کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ مفضل بن فضالہ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں،۲-یہ مفضل بن فضالہ ایک بصری شیخ ہیں،مفضل بن فضالہ ایک دوسرے شیخ بصری ہیں وہ ان سے زیادہ ثقہ اورشہرت کے مالک راوی ہیں،۳-شعبہ نے اس حدیث کو بطریق: حبیب بن الشہید،عن ابن بریدۃ،عن ابن عمر روایت کیا ہے کہ انہوں (ابن عمر) نے ایک کوڑھی کا ہاتھ پکڑا،میرے نزدیک شعبہ کی حدیث زیادہ صحیح اورثابت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًی وَاحِدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَأَبِي مُوسَی وَجَہْجَاہٍ الْغِفَارِيِّ وَمَيْمُونَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کافرسات آنت میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابوسعید،ابوبصرہ غفاری،ابوموسیٰ،جہجاہ غفاری،میمونہ اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ ضَافَہُ ضَيْفٌ كَافِرٌ فَأَمَرَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِشَاةٍ فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ ثُمَّ أُخْرَی فَشَرِبَہُ ثُمَّ أُخْرَی فَشَرِبَہُ حَتَّی شَرِبَ حِلَابَ سَبْعِ شِيَاہٍ ثُمَّ أَصْبَحَ مِنْ الْغَدِ فَأَسْلَمَ فَأَمَرَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِشَاةٍ فَحُلِبَتْ فَشَرِبَ حِلَابَہَا ثُمَّ أَمَرَ لَہُ بِأُخْرَی فَلَمْ يَسْتَتِمَّہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُؤْمِنُ يَشْرَبُ فِي مَعْيٍ وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ يَشْرَبُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُہَيْلٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک کافرمہمان آیا،آپﷺ نے اس کے لیے بکری کادودھ دوہنے کاحکم دیا،بکری دوہی گہی،وہ دودھ پی گیا،پھر دوسری دوہی گئی،اس کو بھی پی گیا،اس طرح وہ سات بکریوں کادودھ پی گیا،پھر کل صبح ہوکر وہ اسلام لے آیا،رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے ایک بکری (دوہنے کا) حکم دیا،وہ دوہی گئی،وہ اس کا دودھ پی گیا،پھر آپ نے دوسری کا حکم دیا تووہ اس کا پورا دودھ نہ پی سکا،(اس پر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن ایک آنت میں پیتاہے اورکافرسات آنتوں میں پیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث سہیل کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ الْعَبْدِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ الْجَرَادِ فَقَالَ غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ سِتَّ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ ہَذَا الْحَدِيثَ وَقَالَ سِتَّ غَزَوَاتٍ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ فَقَالَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ٹڈی کے بارے میں پوچھاگیا،تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چھ غزوے کیے اورٹڈی کھاتے رہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو سفیان بن عیینہ نے ابویعفورسے اسی طرح روایت کیا ہے اورکہا ہے: چھ غزوے کیے،۲-اورسفیان ثوری اورکئی لوگوں نے ابویعفورسے یہ حدیث روایت کی ہے اور کہاہے: سات غزوے کیے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ وَالْمُؤَمَّلُ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ سَبْعَ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ غَزَوَاتٍ نَأْكُلُ الْجَرَادَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِہَذَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو يَعْفُورٍ اسْمُہُ وَاقِدٌ وَيُقَالُ وَقْدَانُ أَيْضًا وَأَبُو يَعْفُورٍ الْآخَرُ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ نِسْطَاسَ

ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات غزوات کئے اورٹڈی کھاتے رہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-شعبہ نے بھی اسے ابویعفورکے واسطہ سے ابن ابی اوفی سے روایت کیا ہے،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئی غزوات کئے اورٹڈی کھاتے رہے۔اس سند سے بھی ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابویعفورکا نام واقدہے،انہیں وقدان بھی کہاجاتا ہے،ابویعفور دوسرے بھی ہیں،ان کا نام عبدالرحمٰن بن عبیدبن نسطاس ہے،۳-اس باب میں ابن عمراورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُلَاثَةَ عَنْ مُوسَی بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَا كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا دَعَا عَلَی الْجَرَادِ قَالَ اللہُمَّ أَہْلِكِ الْجَرَادَ اقْتُلْ كِبَارَہُ وَأَہْلِكْ صِغَارَہُ وَأَفْسِدْ بَيْضَہُ وَاقْطَعْ دَابِرَہُ وَخُذْ بِأَفْوَاہِہِمْ عَنْ مَعَاشِنَا وَأَرْزَاقِنَا إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ تَدْعُو عَلَی جُنْدٍ مِنْ أَجْنَادِ اللہِ بِقَطْعِ دَابِرِہِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّہَا نَثْرَةُ حُوتٍ فِي الْبَحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمُوسَی بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيُّ قَدْ تُكُلِّمَ فِيہِ وَہُوَ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ وَالْمَنَاكِيرِ وَأَبُوہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ ثِقَةٌ وَہُوَ مَدَنِيٌّ

جابربن عبداللہ اورانس بن مالک رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ ٹڈیوں پر بد دعا کرتے توکہتے اللہُمَّ أَہْلِکِ الْجَرَادَ اقْتُلْ کِبَارَہُ وَأَہْلِکْ صِغَارَہُ وَأَفْسِدْ بَیْضَہُ وَاقْطَعْ دَابِرَہُ وَخُذْ بِأَفْوَاہِہِمْ عَنْ مَعَاشِنَا وَأَرْزَاقِنَا إِنَّکَ سَمِیعُ الدُّعَاءِ ۱؎ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول!اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکرکو جڑسے ختم کرنے کی بددعاکیسے کررہے ہیں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ سمندرمیں مچھلی کی چھینک ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سندسے جانتے ہیں،۲-موسیٰ بن محمد بن ابراہیم تیمی کے بارے میں محدثین نے کلام کیا ہے،ان سے غریب اور منکر روایتیں کثرت سے ہیں،ان کے باپ محمد بن ابراہیم ثقہ ہیں اورمدینہ کے رہنے والے ہیں۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میٹھی چیز اورشہدکو پسندکرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اسے علی بن مسہرنے بھی ہشام بن عروہ کے واسطہ سے روایت کی ہے،۳-حدیث میں اس سے زیادہ باتیں ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ أَبِي أُمَيَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ زَوَّجَنِي أَبِي فَدَعَا أُنَاسًا فِيہِمْ صَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ انْہَسُوا اللَّحْمَ نَہْسًا فَإِنَّہُ أَہْنَأُ وَأَمْرَأُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي عَبْدِ الْكَرِيمِ الْمُعَلِّمِ مِنْہُمْ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن حارث کہتے ہیں: میرے باپ نے میری شادی کی اورلوگوں کومدعوکیا،ان میں صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی تھے،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گوشت کو دانت سے نوچ کر کھاؤاس لیے کہ وہ زیادہ جلدہضم ہوتاہے،اورلذیذہوتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کوہم صرف عبدالکریم کی روایت سے جانتے ہیں اورعبدالکریم المعلم کے حافظہ کے بارے میں اہل علم نے کلام کیا ہے،کلام کرنے والوں میں ایوب سختیانی بھی ہیں،۲-اس باب میں عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْہِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُہُ فَنَہَسَ مِنْہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ وَأَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَيَّانَ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ وَأَبُو زَرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُہُ ہَرِمٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں گوشت لایاگیا اورآپ کو دستپیش کی گئی،آپ کودست بہت پسندتھی،چنانچہ آپ نے اسے دانت سے نوچ کرکھایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،عائشہ،عبداللہ بن جعفر اورابو عبیدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ابوحیان کانام یحیی بن سعید بن حیان ہے اورابوزرعہ بن عمروبن جریرکانام ہرم ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ عَبَّادٍ أَبُو عَبَّادٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْوَہَّابِ بْنِ يَحْيَی مِنْ وَلَدِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا كَانَ الذِّرَاعُ أَحَبَّ اللَّحْمِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَلَكِنْ كَانَ لَا يَجِدُ اللَّحْمَ إِلَّا غِبًّا فَكَانَ يَعْجَلُ إِلَيْہِ لِأَنَّہُ أَعْجَلُہَا نُضْجًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:رسول اللہ ﷺ کو دست کاگوشت زیادہ پسندنہیں تھا،لیکن آپ کو یہ کبھی کبھی ملتاتھا،اس لیے آپ اسے کھانے میں جلدی کرتے تھے کیوں کہ وہ دوسرے گوشت کے مقابلہ میں جلدی گلتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ ہُوَ أَخُو سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ الثَّوْرِيِّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ ہَانِئٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سرکہ کیا ہی بہترین سالن ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ اورام ہانی سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُبَارَكِ بْنِ سَعِيدٍ

ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سرکہ بہترین سالن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَہْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ نِعْمَ الْإِدَامُ الْخَلُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ حَسَّانَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ نِعْمَ الْإِدَامُ أَوْ الْأُدْمُ الْخَلُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سرکہ کیا ہی بہترین سالن ہے ۔ اس سند سے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،مگر اس میں ہے نعم الإدام أو الأدم الخل۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-ہم اسے ہشام بن عروہ کی سندسے صرف سلیمان بن بلال کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ ہَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ فَقُلْتُ لَا إِلَّا كِسَرٌ يَابِسَةٌ وَخَلٌّ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ قَرِّبِيہِ فَمَا أَقْفَرَ بَيْتٌ مِنْ أُدْمٍ فِيہِ خَلٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أُمِّ ہَانِئٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ اسْمُہُ ثَابِتُ بْنُ أَبِي صَفِيَّةَ وَأُمُّ ہَانِئٍ مَاتَتْ بَعْدَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ بِزَمَانٍ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ لَا أَعْرِفُ لِلشَّعْبِيِّ سَمَاعًا مِنْ أُمِّ ہَانِئٍ فَقُلْتُ أَبُو حَمْزَةَ كَيْفَ ہُوَ عِنْدَكَ فَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ تَكَلَّمَ فِيہِ وَہُوَ عِنْدِي مُقَارِبُ الْحَدِيثِ

ام ہانی بنت ابوطالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺمیرے گھرتشریف لائے اورفرمایا: کیا تمہارے پاس (کھانے کے لیے) کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں،صرف روٹی کے چندخشک ٹکڑے اورسرکہ ہے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اسے لاؤ،وہ گھرسالن کا محتاج نہیں ہے جس میں سرکہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،ہم اسے اس سند سے صرف ام ہانی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-ام ہانی کی وفات علی بن ابی طالب کے کچھ دنوں بعدہوئی،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: شعبی کا سماع ام ہانی سے میں نہیں جانتاہوں،۴-میں نے پھرپوچھا: آپ کی نظرمیں ابوحمزہ ثابت بن ابی صفیہ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: احمد بن حنبل کا ان کے بارے میں کلام ہے اورمیرے نزدیک وہ مقارب الحدیث ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ قَالَ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَرِيمِ الْجُرْجَانِيُّ عَنْ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ الْمَعْنَی وَاحِدٌ عَنْ أَبِي ہَاشِمٍ يَعْنِي الرُّمَّانِيَّ عَنْ زَاذَانَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ أَنَّ بَرَكَةَ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ بَعْدَہُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ للنَّبِيِّ ﷺ فَأَخْبَرْتُہُ بِمَا قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَہُ وَالْوُضُوءُ بَعْدَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی لَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَأَبُو ہَاشِمٍ الرُّمَّانِيُّ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ دِينَارٍ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے تورات میں پڑھاہے کہ کھانے کی برکت کھانے کے بعد وضو کرنے میں ہے،میں نے نبی اکرم ﷺ سے اسے بیان کیا اور جو کچھ تورات میں پڑھا تھا اسے بتایا تو آپﷺ نے فرمایا: کھانے کی برکت کھانے سے پہلے اوراس کے بعدوضوکرنے میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو ہم صرف قیس بن ربیع کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اورقیس بن ربیع حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۳-اس باب میں انس اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ مِنْ الْخَلَاءِ فَقُرِّبَ إِلَيْہِ طَعَامٌ فَقَالُوا أَلَا نَأْتِيكَ بِوَضُوءٍ قَالَ إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَی الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ و قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يَكْرَہُ غَسْلَ الْيَدِ قَبْلَ الطَّعَامِ وَكَانَ يَكْرَہُ أَنْ يُوضَعَ الرَّغِيفُ تَحْتَ الْقَصْعَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پاخانہ سے تشریف لائے،توآپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا،صحابہ نے عرض کیا: کیا آپ کے لیے وضوکا پانی لائیں؟ آپ نے فرمایا: مجھے صلاۃ کے لیے جاتے وقت وضو کا حکم دیاگیا ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے عمروبن دینا رنے سعید بن حویرث کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے،۳-علی بن مدینی کہتے ہیں:یحیی بن سعید نے کہا: سفیان ثوری کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا مکروہ سمجھتے تھے،وہ پیالہ کے نیچے چپاتی رکھنا بھی مکروہ سمجھتے تھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أَبِي طَالُوتَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَہُوَ يَأْكُلُ الْقَرْعَ وَہُوَ يَقُولُ يَا لَكِ شَجَرَةً مَا أَحَبَّكِ إِلَيَّ لِحُبِّ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِيَّاكِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ حَكِيمِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوطالوت کہتے ہیں: میں انس بن مالک کے پاس گیا،وہ کدوکھارہے تھے،اورکہہ رہے تھے: اے بیل!کس قدر تو مجھے پسند ہے! کیوں کہ رسول اللہ ﷺ تجھے پسندکرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے غریب ہے،۲-اس باب میں حکیم بن جابر سے بھی روایت ہے جسے حکیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَتَتَبَّعُ فِي الصَّحْفَةِ يَعْنِي الدُّبَّاءَ فَلَا أَزَالُ أُحِبُّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ وَرُوِيَ أَنَّہُ رَأَی الدُّبَّاءَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَہُ مَا ہَذَا قَالَ ہَذَا الدُّبَّاءُ نُكَثِّرُ بِہِ طَعَامَنَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ رکابی میں ڈھونڈرہے تھے یعنی کدو،اس وقت سے میں اسے ہمیشہ پسند کرتاہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۳-روایت کی گئی ہے کہ انس نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کدودیکھا توآپ سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کدوہے ہم اس سے اپنے کھانے کی مقدار بڑھاتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّہِنُوا بِہِ فَإِنَّہُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ وَكَانَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ يَضْطَرِبُ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ فَرُبَّمَا ذَكَرَ فِيہِ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُبَّمَا رَوَاہُ عَلَی الشَّكِّ فَقَالَ أَحْسَبُہُ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُبَّمَا قَالَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ مَعْبَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعَمَرٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عُمَرَ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:زیتون کا تیل کھاؤ اوراسے (جسم پر) لگاؤ،اس لیے کہ وہ مبارک درخت ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ معمرسے روایت کرتے ہیں،۲-عبدالرزاق اس حدیث کی روایت کرنے میں مضطرب ہیں،کبھی وہ اسے مرفوع روایت کرتے ہیں اورکبھی شک کے ساتھ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں سمجھتاہوں اسے عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے،اورکبھی کہتے ہیں: زیدبن اسلم سے روایت ہے،وہ اپنے باپ سے اوروہ نبی اکرمﷺ سے مرسل طریقہ سے روایت کرتے ہیں۔اس سند سے معمر نے بسندزیدبن اسلم عن أبیہ عن النبی ﷺ اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،اس میں انہوں نے عمرکے واسطہ کا ذکرنہیں کیا۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ وَأَبُو نُعَيْمٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِيسَی عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَہُ عَطَاءٌ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ عَنْ أَبِي أَسِيدٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّہِنُوا بِہِ فَإِنَّہُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِيسَی

ابواسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: زیتون کا تیل کھاؤاوراسے (جسم پر) لگا ؤ اس لیے کہ وہ مبارک درخت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،ہم اسے صرف سفیان ثوری کی روایت سے عبداللہ بن عیسیٰ کے واسطہ سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْلَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَلَّاقٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ تَعَشَّوْا وَلَوْ بِكَفٍّ مِنْ حَشَفٍ فَإِنَّ تَرْكَ الْعَشَاءِ مَہْرَمَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَعَنْبَسَةُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنِ عَلَّاقٍ مَجْہُولٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: رات کا کھانا کھاؤگرچہ ایک مٹھی ردی کھجورہی کیوں نہ ہو،اس لیے کہ رات کا کھانا چھوڑنا بڑھاپے کا سبب ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث منکر ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،عنبسہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں اور عبد الملک بن علاق مجہول ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَال سَمِعْتُ زَاذَانَ يَقُولُ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَمَّا نَہَی عَنْہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ الْأَوْعِيَةِ أَخْبِرْنَاہُ بِلُغَتِكُمْ وَفَسِّرْہُ لَنَا بِلُغَتِنَا فَقَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الْحَنْتَمَةِ وَہِيَ الْجَرَّةُ وَنَہَی عَنْ الدُّبَّاءِ وَہِيَ الْقَرْعَةُ وَنَہَی عَنْ النَّقِيرِ وَہُوَ أَصْلُ النَّخْلِ يُنْقَرُ نَقْرًا أَوْ يُنْسَجُ نَسْجًا وَنَہَی عَنْ الْمُزَفَّتِ وَہِيَ الْمُقَيَّرُ وَأَمَرَ أَنْ يُنْبَذَ فِي الْأَسْقِيَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ وَسَمُرَةَ وَأَنَسٍ وَعَائِشَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِذِ بْنِ عَمْرٍو وَالْحَكَمِ الْغِفَارِيِّ وَمَيْمُونَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زاذان کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان برتنوں کے متعلق پوچھا جن سے آپ نے منع فرمایاہے اور کہا: اس کواپنی زبان میں بیان کیجئے اورہماری زبان میں اس کی تشریح کیجئے،انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے حنتمہ سے منع فرمایاہے اور وہ مٹکا ہے،آپ نے دبّاء سے منع فرمایاہے اور وہ کدوکی توبنی ہے۔آپ نے نقیرسے منع فرمایااور وہ کھجورکی جڑہے جس کواندرسے گہراکرکے یاخرادکربرتن بنالیتے ہیں،آپ نے مزفت سے منع فرمایااور وہ روغن قیرملاہوا(لاکھی) برتن ہے،اورآپ نے حکم دیا کہ نبیذ مشکوں میں بنائی جائے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،علی،ابن عباس،ابوسعیدخدری،ابوہریرہ،عبدالرحمٰن بن یعمر،سمرہ،انس،عائشہ،عمران بن حصین،عائذبن عمرو،حکم غفاری اورمیمونہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ قَال سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی لَيْلَی يُحَدِّثُ أَنَّ حُذَيْفَةَ اسْتَسْقَی فَأَتَاہُ إِنْسَانٌ بِإِنَاءٍ مِنْ فِضَّةٍ فَرَمَاہُ بِہِ وَقَالَ إِنِّي كُنْتُ قَدْ نَہَيْتُہُ فَأَبَی أَنْ يَنْتَہِيَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ الشُّرْبِ فِي آنِيَةِ الْفِضَّةِ وَالذَّہَبِ وَلُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَقَالَ ہِيَ لَہُمْ فِي الدُّنْيَا وَلَكُمْ فِي الْآخِرَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَالْبَرَاءِ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں: حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے پانی طلب کیا تو اس نے انہیں چاندی کے برتن میں پانی دیا،انہوں نے پانی کواس کے منہ پر پھینک دیا،اورکہا: میں اس سے منع کرچکا تھا،پھر بھی اس نے باز رہنے سے انکارکیا ۱؎،بے شک رسول اللہﷺ نے سونے اورچاندی کے برتن میں پانی پینے سے منع فرمایاہے،اورریشم پہننے سے اوردیباج سے اورفرمایا: یہ ان(کافروں) کے لیے دنیامیں ہے اورتمہارے لیے آخرت میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ،براء،اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ يَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا فَقِيلَ الْأَكْلُ قَالَ ذَاكَ أَشَدُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا،پوچھاگیا: کھڑے ہوکر کھانا کیساہے؟ کہا: یہ اوربراہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْجَذْمِيِّ عَنْ الْجَارُودِ بْنِ الْمُعَلَّی أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الشُّرْبِ قَائِمًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ عَنْ الْجَارُودِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ عَنْ الْجَارُودِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ ضَالَّةُ الْمُسْلِمِ حَرَقُ النَّارِ وَالْجَارُودُ ہُوَ ابْنُ الْمُعَلَّی الْعَبْدِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ ﷺ وَيُقَالُ الْجَارُودُ بْنُ الْعَلَاءِ أَيْضًا وَالصَّحِيحُ ابْنُ الْمُعَلَّی

جارودبن معلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب حسن ہے،۲-اسی طرح کئی لوگوں نے اس حدیث کو عن سعید،عن قتادۃ،عن أبی مسلم،عن الجارود عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کیا ہے،اور یہ حدیث بطریق: عن قتادۃ،عن یزید بن عبد اللہ بن الشخیر،عن أبی مسلم،عن الجارود،عن النبی ﷺ روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:مسلمان کی گری ہوئی چیز (یعنی اس پر قبضہ کرنے کی نیت سے) اٹھانا آگ میں جلنے کا سبب ہے،۳-اس باب میں ابوسعیدخدری،ابوہریرہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَّا نَأْكُلُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَنَحْنُ نَمْشِي وَنَشْرَبُ وَنَحْنُ قِيَامٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرَوَی عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الْبَزَرِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبُو الْبَزَرِيِّ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ عُطَارِدٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چلتے ہوئے کھاتے تھے اورکھڑے ہوکرپیتے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث عبیداللہ بن عمر،عن نافع،عن ابن عمر رضی اللہ عنہما کی سند سے صحیح غریب ہے،۲-عمران بن حدیر نے اس حدیث کو ابوالبزری کے واسطہ سے ابن عمرسے روایت کی ہے،۳-ابوالبزری کانام یزید بن عطاردہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ وَمُغِيرَةُ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ شَرِبَ مِنْ زَمْزَمَ وَہُوَ قَائِمٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَعْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر زمزم کاپانی پیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،سعد،عبداللہ بن عمرواورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کھڑے ہوکر اوربیٹھ کر پانی پیتے دیکھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ رِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا شَرِبَ تَنَفَّسَ مَرَّتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ قَالَ وَسَأَلْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ رِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ قُلْتُ ہُوَ أَقْوَی أَمْ مُحَمَّدُ بْنُ كُرَيْبٍ فَقَالَ مَا أَقْرَبَہُمَا وَرِشْدِينُ بْنُ كُرَيْبٍ أَرْجَحُہُمَا عِنْدِي قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ كُرَيْبٍ أَرْجَحُ مِنْ رِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ وَالْقَوْلُ عِنْدِي مَا قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رِشْدِينُ بْنُ كُرَيْبٍ أَرْجَحُ وَأَكْبَرُ وَقَدْ أَدْرَكَ ابْنَ عَبَّاسٍ وَرَآہُ وَہُمَا أَخَوَانِ وَعِنْدَہُمَا مَنَاكِيرُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب پیتے تھے تو دوسانس میں پیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف رشدین بن کریب کی روایت سے جانتے ہیں،۳-میں نے ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی سے رشدین بن کریب کے بارے میں پوچھتے ہوے کہا: وہ زیادہ قویـ ہیں یا محمد بن کریب؟ انہوں نے کہا: دونوں (رتبہ میں) بہت ہی قریب ہیں،اورمیرے نزدیک رشدین بن کریب زیادہ راجح ہیں،۴-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا: محمد بن کریب،رشدین بن کریب سے زیادہ راجح ہیں،۵-میرے نزدیک ابومحمدعبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کی بات زیادہ صحیح ہے کہ رشدین بن کریب زیادہ راجح اوربڑے ہیں،انہوں نے ابن عباس کو پایا ہے اورانہیں دیکھا ہے،یہ دونوں بھائی ہیں ان دونوں سے منکر احادیت بھی مروی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رِوَايَةً أَنَّہُ نَہَی عَنْ اخْتِنَاثِ الْأَسْقِيَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے) مشکیزوں سے منہ لگا کر پینے سے منع کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،ابن عباس اورابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ أَحَبُّ الشَّرَابِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ الْحُلْوَ الْبَارِدَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ مِثْلَ ہَذَا عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو میٹھا اور ٹھنڈا مشروب سب سے زیادہ پسند تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عیینہ سے کئی لوگوں نے اسی طرح عن معمر،عن الزہری،عن عروۃ،عن عائشۃ روایت کی ہے،لیکن صحیح وہی ہے جو زہری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً مروی ہے (جو آگے آرہی ہے)۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ وَيُونُسُ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ سُئِلَ أَيُّ الشَّرَابِ أَطْيَبُ قَالَ الْحُلْوُ الْبَارِدُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَكَذَا رَوَی عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ رَحِمَہُ اللہُ

زہری سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھاگیا: کون سا مشروب بہترہے؟ آپ نے فرمایا:میٹھا اور ٹھنڈا مشروب۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اسی طرح عبدالرزاق نے بھی معمرسے،معمر نے زہری سے اور زہری نے نبی اکرم ﷺ مرسلاً روایت کی ہے،۲-یہ ابن عیینہ رحمہ اللہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ إِسْرَائِيلَ ح قَالَ و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ وَہُوَ ابْنُ مَدُّوَيْہِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ إِسْرَائِيلَ ح قَالَ و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ وَہُوَ ابْنُ مَدُّوَيْہِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ وَاللَّفْظُ لِحَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: خالہ ماں کے درجہ میں ہے،اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا:اللہ کے رسول! مجھ سے بہت بڑا گنا ہ سرزدہوگیا ہے،کیا میرے لیے تو بہ کی گنجائش ہے؟ آپ نے پوچھا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا: نہیں،آپ نے پوچھا: تمہاری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں،آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں علی اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اس سند سے نبی اکرمﷺسے اسی جیسی حدیث مروی ہے،لیکن اس میں ابن عمرکے واسطہ کا ذکرنہیں کیا ہے،یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ اشْتَكَی أَبُو الرَّدَّادِ اللَّيْثِيُّ فَعَادَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ خَيْرُہُمْ وَأَوْصَلُہُمْ مَا عَلِمْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ قَالَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی أَنَا اللہُ وَأَنَا الرَّحْمَنُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَہَا مِنْ اسْمِي فَمَنْ وَصَلَہَا وَصَلْتُہُ وَمَنْ قَطَعَہَا بَتَتُّہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سُفْيَانَ عَنْ الزُّہْرِيِّ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَرَوَی مَعْمَرٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ رَدَّادٍ اللَّيْثِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَمَعْمَرٍ كَذَا يَقُولُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ خَطَأٌ

ابوسلمہ کہتے ہیں: ابوالرداد لیثی بیمار ہوگئے،عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کو گئے،ابوالرداء نے کہا: میرے علم کے مطابق ابومحمد(عبدالرحمٰن بن عوف)لوگوں میں سب سے اچھے اورصلہ رحمی کرنے والے ہیں،عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے سنا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں،میں رحمن ہوں،میں نے رحم(یعنی رشتے ناتے) کو پیداکیا ہے،اوراس کا نام اپنے نام سے (مشتق کرکے) رکھا ہے،اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے) جوڑے رکھوں گااورجو اسے کاٹے گا میں بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابوسعیدخدری،ابن ابی اوفی،عامربن ربیعہ،ابوہریرہ اورجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۲-زہری سے مروی سفیان کی حدیث صحیح ہے،معمرنے زہری سے یہ حدیث عن أبی سلمۃ،عن رداد اللیثی ۱؎،عن عبد الرحمن بن عوف کی سند سے روایت کی ہے،معمرنے (سندبیان کرتے ہوئے) ایساہی کہا ہے،محمد (بخاری) کہتے ہیں: معمرکی حدیث میں خطاہے،(دونوں سندوں میں فرق واضح ہے)۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ قَال سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي سُوَيْدٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ زَعَمَتْ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ خَوْلَةُ بِنْتُ حَكِيمٍ قَالَتْ خَرَجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ وَہُوَ مُحْتَضِنٌ أَحَدَ ابْنَيْ ابْنَتِہِ وَہُوَ يَقُولُ إِنَّكُمْ لَتُبَخِّلُونَ وَتُجَبِّنُونَ وَتُجَہِّلُونَ وَإِنَّكُمْ لَمِنْ رَيْحَانِ اللہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ وَلَا نَعْرِفُ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ سَمَاعًا مِنْ خَوْلَةَ

خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک دن رسول اللہﷺگودمیں اپنی بیٹی (فاطمہ) کے دولڑکوں(حسن،حسین)میں سے کسی کولیے ہوئے باہرنکلے اورآپ (اس لڑکے کی طرف متوجہ ہوکر) فرمارہے تھے:تم لوگ بخیل بنادیتے ہو،تم لوگ بزدل بنادیتے ہو،اورتم لوگ جاہل بنادیتے ہو،یقینا تم لوگ اللہ کے عطاکئے ہوئے پھولوں میں سے ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابراہیم بن میسرہ سے مروی ابن عیینہ کی حدیث کو ہم صرف انہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-ہم نہیں جانتے ہیں کہ عمربن عبدالعزیزکا سماع خولہ سے ثابت ہے،۳-اس باب میں ابن عمراوراشعث بن قیس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبْصَرَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ النَّبِيَّ ﷺ وَہُوَ يُقَبِّلُ الْحَسَنَ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ الْحُسَيْنَ أَوْ الْحَسَنَ فَقَالَ إِنَّ لِي مِنْ الْوَلَدِ عَشَرَةً مَا قَبَّلْتُ أَحَدًا مِنْہُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّہُ مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا،آپ حسن یاحسین کا بوسہ لے رہے تھے،اقرع نے کہا: میرے دس لڑکے ہیں،میں نے ان میں سے کسی کا بھی بوسہ نہیں لیا،رسول اللہﷺ نے فرمایا: جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس اورعائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ قَبَضَ يَتِيمًا مِنْ بَيْنِ الْمُسْلِمِينَ إِلَی طَعَامِہِ وَشَرَابِہِ أَدْخَلَہُ اللہُ الْجَنَّةَ إِلَّا أَنْ يَعْمَلَ ذَنْبًا لَا يُغْفَرُ لَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ مُرَّةَ الْفِہْرِيِّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَنَشٌ ہُوَ حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ وَہُوَ أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ يَقُولُ حَنَشٌ وَہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جوشخص کسی مسلمان یتیم کو اپنے ساتھ رکھ کر انہیں کھلائے پلائے،تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا،سوائے اس کے کہ وہ ایساگناہ (شرک) کر ے جو مغفرت کے قابل نہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-راوی حنش کا نام حسین بن قیس ہے،کنیت ابوعلی رحبی ہے،سلیمان تیمی کہتے ہیں: یہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں،۲-اس باب میں مرہ فہری،ابوہریرہ،ابوامامہ اورسہل بن سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عِمْرَانَ أَبُو الْقَاسِمِ الْمَكِّيُّ الْقُرَشِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ كَہَاتَيْنِ وَأَشَارَ بِأُصْبُعَيْہِ يَعْنِي السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں اوریتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ان دونوں کی طرح ہوں گے ۱؎ اورآپ نے اپنی شہادت اوردرمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ زَرْبِيٍّ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ جَاءَ شَيْخٌ يُرِيدُ النَّبِيَّ ﷺ فَأَبْطَأَ الْقَوْمُ عَنْہُ أَنْ يُوَسِّعُوا لَہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَزَرْبِيٌّ لَہُ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک بوڑھا آیا،وہ نبی اکرم ﷺ سے ملنا چاہتاتھا،لوگوں نے اسے راستہ دینے میں دیر کی تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے،جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اورہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-راوی زربی نے انس بن ما لک اور دوسرے لوگوں سے کئی منکرحدیثیں روایت کی ہیں،۳-اس باب میں عبداللہ بن عمرو،ابوہریرہ،ابن عباس اورابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ شَرَفَ كَبِيرِنَا حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جوہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اورہمارے بڑوں کا مقام نہ پہچانے ۔ اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،مگر اس میں و یعرف شرف کبیرنا کی بجائے و یعرف حق کبیرناہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا وَيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْہَ عَنْ الْمُنْكَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ أَيْضًا قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لَيْسَ مِنَّا يَقُولُ لَيْسَ مِنْ سُنَّتِنَا لَيْسَ مِنْ أَدَبِنَا و قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يُنْكِرُ ہَذَا التَّفْسِيرَ لَيْسَ مِنَّا يَقُولُ لَيْسَ مِنْ مِلَّتِنَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جوہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کر ے اورہمارے بڑوں کی عزت نہ کر ے،معروف (بھلی باتوں) کا حکم نہ دے اور منکر(بری باتوں) سے منع نہ کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-محمد بن اسحاق کی عمرو بن شعیب کے واسطہ سے مروی حدیث صحیح ہے،۳-عبداللہ بن عمروسے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے اس قول لیس منا کا مفہوم یہ ہے لیس من سنتنا،لیس من أدبنا یعنی وہ ہمارے طورطریقہ پرنہیں ہے،۵-علی بن مدینی کہتے ہیں: یحیی بن سعیدنے کہا: سفیان ثوری اس تفسیرکی تردید کرتے تھے اور اس کا مفہوم یہ بیان کرتے تھے کہ لیس منا سے مراد لیس من ملتنا ہے،یعنی وہ ہماری ملت کا نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَلَی إِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے صلاۃ قائم کرنے،زکاۃ دینے اورہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الدِّينُ النَّصِيحَةُ ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ لِمَنْ قَالَ لِلَّہِ وَلِكِتَابِہِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَتَمِيمٍ الدَّارِيِّ وَجَرِيرٍ وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ عَنْ أَبِيہِ وَثَوْبَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ فرمایا: دین سراپاخیرخواہی ہے،لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے،اس کی کتاب کے لیے،مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں)اور عام مسلمانوں کے لیے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،تمیم داری،جریر،حکیم بن ابی یزیدعن أبیہ اور ثوبان رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَخُونُہُ وَلَا يَكْذِبُہُ وَلَا يَخْذُلُہُ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ عِرْضُہُ وَمَالُہُ وَدَمُہُ التَّقْوَی ہَا ہُنَا بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنْ الشَّرِّ أَنْ يَحْتَقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،اس کے ساتھ خیانت نہ کر ے،اس سے جھوٹ نہ بولے،اوراس کوبے یارومددگارنہ چھوڑے،ہرمسلمان کی عزت،دولت اورخون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے،تقوی یہاں(دل میں) ہے،ایک شخص کے براہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیروکم تر سمجھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں علی اور ابوایوب رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ غَيْرَ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ جَدِّہِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے،جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَحَدَكُمْ مِرْآةُ أَخِيہِ فَإِنْ رَأَی بِہِ أَذًی فَلْيُمِطْہُ عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيَحْيَی بْنُ عُبَيْدِ اللہِ ضَعَّفَہُ شُعْبَةُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہرآدمی اپنے بھائی کے لیے آئینہ ہے،اگروہ اپنے بھائی کے اندرکوئی عیب دیکھے تو اسے (اطلاع کے ذریعہ) دورکردے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-شعبہ نے یحیی بن عبیداللہ کو ضعیف کہا ہے،۲-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّہِ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَيْسَ بِالْكَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ خَيْرًا أَوْ نَمَی خَيْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ(خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے،یا اچھی بات بڑھا کربیان کرے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ ح و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ وَأَبُو أَحْمَدَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ لِيُرْضِيَہَا وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ و قَالَ مَحْمُودٌ فِي حَدِيثِہِ لَا يَصْلُحُ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَسْمَاءَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ خُثَيْمٍ وَرَوَی دَاوُدُ بْنُ أَبِي ہِنْدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَسْمَاءَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ دَاوُدَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ

اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صرف تین جگہ پر جھوٹ جائزاورحلال ہے،ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات کرے تاکہ اس کو راضی کرلے،دوسراجنگ میں جھوٹ بولنا اورتیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا۔ ٍ داودبن ابی ہندنے یہ حدیث شہربن حوشب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،لیکن اس میں اسماء رضی اللہ عنہا کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسماء کی حدیث کو ہم صرف ابن خیثم کی روایت سے جانتے ہیں۔۳-اس باب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ وَاصِلٍ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِخْوَانُكُمْ جَعَلَہُمْ اللہُ فِتْيَةً تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ أَخُوہُ تَحْتَ يَدِہِ فَلْيُطْعِمْہُ مِنْ طَعَامِہِ وَلْيُلْبِسْہُ مِنْ لِبَاسِہِ وَلَا يُكَلِّفْہُ مَا يَغْلِبُہُ فَإِنْ كَلَّفَہُ مَا يَغْلِبُہُ فَلْيُعِنْہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں،اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیر دست کردیا ہے،لہذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم) ہو،وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے،اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اوراسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کردے،اوراگر اسے کسی ایسے کام کامکلف بناتا ہے،جو اسے عاجزکردے تو اس کی مدد کرے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ام سلمہ،ابن عمراورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ يَحْيَی عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ مُرَّةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ فِي فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جوخادموں کے ساتھ براسلوک کرتا ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ایوب سختیانی اورکئی لوگوں نے راوی فرقد سبخی کے بارے میں ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ عَبَّاسٍ الْحَجْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ كَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَصَمَتَ عَنْہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ كَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَقَالَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ أَبِي ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ نَحْوًا مِنْ ہَذَا وَالْعَبَّاسُ ہُوَ ابْنُ جُلَيْدٍ الْحَجْرِيُّ الْمِصْرِيُّ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ أَبِي ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ وَہْبٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ وَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آکر پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کوکتنی بارمعاف کروں؟ آپﷺ اس شخص کے اس سوال پر خاموش رہے،اس نے پھر پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بارمعاف کروں؟ آپ نے فرمایا: ہردن ۷۰(ستر)بارمعاف کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اسے عبداللہ بن وہب نے بھی ابوہانی خولانی سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اوربعض لوگوں نے یہ حدیث عبداللہ بن وہب سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن سند میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بجائے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کانام بیان کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي ہَارُونَ الْعَبْدِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا ضَرَبَ أَحَدُكُمْ خَادِمَہُ فَذَكَرَ اللہَ فَارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو ہَارُونَ الْعَبْدِيُّ اسْمُہُ عُمَارَةُ بْنُ جُوَيْنٍ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ ضَعَّفَ شُعْبَةُ أَبَا ہَارُونَ الْعَبْدِيَّ قَالَ يَحْيَی وَمَا زَالَ ابْنُ عَوْنٍ يَرْوِي عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَتَّی مَاتَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے اوروہ (خادم) اللہ کانام لے لے توتم اپنے ہاتھوں کو روک لو۔امام ترمذی کہتے ہیں:راوی ابوہارون عبدی کا نام عمارہ بن جوین ہے،ابوبکر عطارنے یحییٰ بن سعید کا یہ قول نقل کیا کہ شعبہ نے ابوہارون عبدی کی تضعیف کی ہے،یحییٰ کہتے ہیں: ابن عون ہمیشہ ابوہارون سے روایت کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَكْثَمَ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَا حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْبَلُ الْہَدِيَّةَ وَيُثِيبُ عَلَيْہَا وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِيسَی بْنِ يُونُسَ عَنْ ہِشَامٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہدیہ قبول کرتے تھے اوراس کا بدلہ دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے،۲-ہم اسے صرف عیسیٰ بن یونس کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ ہشام سے روایت کرتے ہیں،۳-اس باب میں ابوہریرہ،انس،ابن عمراورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللہَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جولوگوں کاشکریہ ادانہکرے وہ اللہ کاشکر ادانہیں کرے گا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی ح و حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرْ اللہَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے لوگوں کا شکریہ ادانہ کیا اس نے اللہ کا شکر ادانہیں کیا ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،اشعث بن قیس اورنعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْسَجَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ مَنَحَ مَنِيحَةَ لَبَنٍ أَوْ وَرِقٍ أَوْ ہَدَی زُقَاقًا كَانَ لَہُ مِثْلَ عِتْقِ رَقَبَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَی مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ وَشُعْبَةُ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ہَذَا الْحَدِيثَ وَفِي الْبَاب عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَمَعْنَی قَوْلِہِ مَنْ مَنَحَ مَنِيحَةَ وَرِقٍ إِنَّمَا يَعْنِي بِہِ قَرْضَ الدَّرَاہِمِ قَوْلُہُ أَوْ ہَدَی زُقَاقًا يَعْنِي بِہِ ہِدَايَةَ الطَّرِيقِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے دودھ کا عطیہ دیا ۱؎،یا چاندی قرض دی،یا کسی کو راستہ بتایا،اسے غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ابواسحاق کی روایت سے جسے وہ طلحہ بن مصرف سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-منصوربن معتمراورشعبہ نے بھی اس حدیث کی روایت طلحہ بن مصرف سے کیا ہے،۳-اس باب میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،۴-من منح منیحۃ ورق کا مطلب ہے بطورقرض دینا ہدی زقاقا کا مطلب ہے راستہ دکھانا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي طَرِيقٍ إِذْ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ فَأَخَّرَہُ فَشَكَرَ اللہُ لَہُ فَغَفَرَ لَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ذَرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي طَرِيقٍ إِذْ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ فَأَخَّرَہُ فَشَكَرَ اللہُ لَہُ فَغَفَرَ لَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ذَرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک آدمی راستے پر چل رہا تھا کہ اسے ایک کانٹے دارڈالی ملی،اس نے اسے راستے سے ہٹادیا،اللہ تعالیٰ نے اس کے اس کام سے خوش ہوکر اس کو بدلہ دیا یعنی اس کی مغفرت فرمادی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبرزہ،ابن عباس اورابوذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَہْدِي إِلَی الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَہْدِي إِلَی الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتَّی يُكْتَبَ عِنْدَ اللہِ صِدِّيقًا وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَہْدِي إِلَی الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَہْدِي إِلَی النَّارِ وَمَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّی الْكَذِبَ حَتَّی يُكْتَبَ عِنْدَ اللہِ كَذَّابًا وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سچ بولو،اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتاہے اورنیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے،آدمی ہمیشہ سچ بولتاہے اورسچ کی تلاش میں رہتاہے،یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچالکھ دیا جاتاہے،اور جھوٹ سے بچو،اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اورگناہ جہنم میں لے جاتا ہے،آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اورجھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکرصدیق،عمر،عبداللہ بن شخیر اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی قَالَ قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ ہَارُونَ الْغَسَّانِيِّ حَدَّثَكُمْ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْہُ الْمَلَكُ مِيلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِہِ قَالَ يَحْيَی فَأَقَرَّ بِہِ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ ہَارُونَ فَقَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ تَفَرَّدَ بِہِ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ ہَارُونَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتاہے تو اس جھوٹ کی بدبوکی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دوربھاگتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن جیدغریب ہے ۲-یحیی بن موسی کہتے ہیں: میں نے عبدالرحیم بن ہارون سے پوچھا:کیا آپ سے عبدالعزیزبن ابی داود نے یہ حدیث بیان کی؟ کہا: ہاں،۳-ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،اس کی روایت کرنے میں عبدالرحیم بن ہارون منفرد ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا كَانَ خُلُقٌ أَبْغَضَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْ الْكَذِبِ وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُحَدِّثُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِالْكِذْبَةِ فَمَا يَزَالُ فِي نَفْسِہِ حَتَّی يَعْلَمَ أَنَّہُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْہَا تَوْبَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی اور عادت نفرت کے قابل ناپسندیدہ نہیں تھی،اور جب کوئی آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس جھوٹ بولتا تو وہ ہمیشہ آپ کی نظرمیں قابل نفرت رہتا یہاں تک کہ آپ جان لیتے کہ اس نے جھوٹ سے توبہ کرلی ہے،امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عِيسَی الثَّقَفِيِّ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِہِ أَرْحَامَكُمْ فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَہْلِ مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمَعْنَی قَوْلِہِ مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ يَعْنِي بِہِ الزِّيَادَةَ فِي الْعُمُرِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس قدراپنا نسب جانوجس سے تم اپنے رشتے جوڑسکو،اس لیے کہ رشتہ جوڑنے سے رشتہ داروں کی محبت بڑھتی ہے،مال ودولت میں اضافہ ہوتا ہے،اورآدمی کی عمر بڑھادی جاتی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-منسأۃ فی الأثر کا مطلب ہے زیادۃ فی العمر یعنی عمرکے لمبی ہونے کاسبب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الْمُسْتَبَّانِ مَا قَالَا فَعَلَی الْبَادِي مِنْہُمَا مَا لَمْ يَعْتَدْ الْمَظْلُومُ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: گالی گلوچ کرنے والے دوآدمیوں میں سے گالی کا گناہ ان میں سے شروع کرنے والے پر ہوگا،جب تک مظلوم حدسے آگے نہ بڑھ جائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد،ابن مسعوداورعبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم سے بھی حدیثیں مروی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَال سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَتُؤْذُوا الْأَحْيَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ سُفْيَانَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ فَرَوَی بَعْضُہُمْ مِثْلَ رِوَايَةِ الْحَفَرِيِّ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَال سَمِعْتُ رَجُلًا يُحَدِّثُ عِنْدَ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مردوں کو گالی دے کرزندوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی روایت کرنے میں سفیان کے شاگردمختلف ہیں،بعض نے حفری کی حدیث کے مثل روایت کی ہے (یعنی: عن زیاد بن علاقۃ،عن المغیرۃ کے طریق سے) اوربعض نے اسے عن سفیان،عن زیاد بن علاقۃ،قال: سمعت رجلا یحدث عن المغیرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زُبَيْدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ كُفْرٌ قَالَ زُبَيْدٌ قُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ أَأَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جھگڑاکرناکفرہے ۱؎۔راوی زبیدبن حارث کہتے ہیں: میں نے ابووائل شقیق بن سلمہ سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ کہا: ہاں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ نِعِمَّا لِأَحَدِہِمْ أَنْ يُطِيعَ رَبَّہُ وَيُؤَدِّيَ حَقَّ سَيِّدِہِ يَعْنِي الْمَمْلُوكَ و قَالَ كَعْبٌ صَدَقَ اللہُ وَرَسُولُہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَی وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ان کے لیے کیا ہی اچھا ہے کہ اپنے رب کی اطاعت کریں اوراپنے مالک کا حق اداکریں،آپ کے اس فرمان کا مطلب لونڈی وغلام سے تھا ۱؎۔ کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ اوراس کے رسول نے سچ فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوموسیٰ اشعری اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ عَنْ زَاذَانَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةٌ عَلَی كُثْبَانِ الْمِسْكِ أُرَاہُ قَالَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَبْدٌ أَدَّی حَقَّ اللہِ وَحَقَّ مَوَالِيہِ وَرَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَہُمْ بِہِ رَاضُونَ وَرَجُلٌ يُنَادِي بِالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ وَأَبُو الْيَقْظَانِ اسْمُہُ عُثْمَانُ بْنُ قَيْسٍ وَيُقَالُ ابْنُ عُمَيْرٍ وَہُوَ أَشْہَرُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین آدمی مشک کے ٹیلے پرہوں گے،قیامت کے دن،پہلا وہ غلام جو اللہ کا اوراپنے مالکوں کا حق اداکرے،دوسرا وہ آدمی جو کسی قوم کی امامت کرے اوروہ اس سے راضی ہوں،اورتیسرا وہ آدمی جو رات اوردن میں صلاۃکے لیے پانچ باربلاتاہے ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے سفیان ثوری کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں،۲-ابوالیقظان کانام عثمان بن قیس ہے،انہیں عثمان بن عمیربھی کہا جاتا ہے اور یہی مشہورہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ اتَّقِ اللہِ حَيْثُمَا كُنْتَ وَأَتْبِعْ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُہَا وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ وَأَبُو نُعَيْمٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ حَبِيبٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ مَحْمُودٌ وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جہاں بھی رہواللہ سے ڈرو،برائی کے بعد (جوتم سے ہوجائے) بھلائی کروجو برائی کومٹادے ۱؎ اورلوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔اس سند سے بھی ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔اس سند سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ محمود بن غیلان کہتے ہیں: صحیح ابوذرکی حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْوَضَّاحِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَيُخَالِطُنَا حَتَّی إِنْ كَانَ لَيَقُولُ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَہُ وَأَبُو التَّيَّاحِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ الضُّبَعِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ہمارے گھروالوں کے ساتھ اس قدرمل جل کررہتے تھے کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے فرماتے: ابوعمیر!نغیرکاکیاہوا؟ ۱؎۔ اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوالتیاح کانام یزید بن حمید ضبعی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا قَالَ إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہم سے ہنسی مذاق کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:میں(خوش طبعی اورمزاح میں بھی) حق کے سوا کچھ نہیں کہتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا اسْتَحْمَلَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ إِنِّي حَامِلُكَ عَلَی وَلَدِ النَّاقَةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے سواری کی درخواست کی،آپ نے فرمایا: میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا ،اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بھلا اونٹ کو اونٹنی کے سواکوئی اوربھی جنتی ہے؟ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَہُ يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ قَالَ مَحْمُودٌ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ يَعْنِي مَازَحَہُ وَہَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا: اے دوکان والے! محمود بن غیلان کہتے ہیں: ابواسامہ نے کہا،یعنی آپ ﷺ نے اس سے مزاح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكَرِّمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ قَالَ حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ اللَّيْثِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَہُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَہُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَہُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَہُ فِي وَسَطِہَا وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَہُ بُنِيَ لَہُ فِي أَعْلَاہَا وَہَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ وَرْدَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ

نس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوشخص (جھگڑے کے وقت) جھوٹ بولنا چھوڑ دے حالانکہ وہ ناحق پرہے،اس کے لیے اطرافِ جنت میں ایک مکان بنایاجائے گا،جوشخص حق پر ہو تے ہوئے جھگڑا چھوڑدے اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایاجائے گا اورجوشخص اپنے اخلاق اچھے بنائے اس کے لیے اعلیٰ جنت میں ایک مکان بنایاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے،ہم اسے صرف سلمہ بن وردان کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا فَضَالَةُ بْنُ الْفَضْلِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ ابْنِ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَفَی بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُخَاصِمًا وَہَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے لیے یہی گناہ کافی ہے کہ تم ہمیشہ جھگڑتے رہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ اللَّيْثِ وَہُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تُمَارِ أَخَاكَ وَلَا تُمَازِحْہُ وَلَا تَعِدْہُ مَوْعِدَةً فَتُخْلِفَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَعَبْدُ الْمَلِكِ عِنْدِي ہُوَ ابْنُ بَشِيرٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی سے مت جھگڑو،نہ اس سے ہنسی مذاق کرو،اور نہ اس سے کوئی ایساوعدہ کروجس کی تم خلاف ورزی کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابربھی تکبر (گھمنڈ) ہوگا ۱؎ اورجہنم میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابرایمان ہوگا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابن عباس،سلمہ بن الاکوع اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ يَعْنِي مَنْ كَانَ فِي قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ قَالَ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ إِنَّہُ يُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ ثَوْبِي حَسَنًا وَنَعْلِي حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْجَمَالَ وَلَكِنَّ الْكِبْرَ مَنْ بَطَرَ الْحَقَّ وَغَمَصَ النَّاسَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ ہَذَا الْحَدِيثِ لَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ إِنَّمَا مَعْنَاہُ لَا يُخَلَّدُ فِي النَّارِ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ وَقَدْ فَسَّرَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ ہَذِہِ الْآيَةَ رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلْ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَہُ فَقَالَ مَنْ تُخَلِّدُ فِي النَّارِ فَقَدْ أَخْزَيْتَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے برابربھی تکبر(گھمنڈ)ہو،اورجہنم میں داخل نہیں ہوگایعنی وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابربھی ایمان ہو ۱؎۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: میں یہ پسند کرتاہوں کہ میرے کپڑے اورجوتے اچھے ہوں؟ آپ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ جمال (خوبصورتی) کوپسند کرتا ہے،لیکن تکبر اس شخص کے اندرہے جو حق کونہ مانے اورلوگوں کو حقیر اورکم ترسمجھے۔بعض اہل علم اس حدیث: وَلاَ یَدْخُلُ النَّارَ یَعْنِی مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ إِیمَانٍ کی تفسیرمیں کہتے ہیں کہ اس کامفہوم یہ ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابربھی ایمان ہووہ جہنم میں ہمشیہ نہیں رہے گا،ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ برابربھی ایمان ہوگا وہ جہنم سے بالآخرضرور نکلے گا،کئی تابعین نے اس آیت رَبَّنَا إِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَیْتَہُ (سورۃ آل عمران: ۱۹۲) کی تفسیربیان کرتے ہوئے کہاہے: اے میرے رب! تو نے جس کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دیا اس کو ذلیل ورسوا کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَذْہَبُ بِنَفْسِہِ حَتَّی يُكْتَبَ فِي الْجَبَّارِينَ فَيُصِيبُہُ مَا أَصَابَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: انسان ہمیشہ اپنے آپ کو تکبر(گھمنڈ)کی طرف لے جاتاہے،یہاں تک کہ ظالموں کی فہرست میں اس کا نام لکھ دیاجاتاہے،اور اس لیے اسے وہی عذاب لاحق ہوتا ہے جوظالموں کو لا حق ہوا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَی الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ تَقُولُونَ فِيَّ التِّيہُ وَقَدْ رَكِبْتُ الْحِمَارَ وَلَبِسْتُ الشَّمْلَةَ وَقَدْ حَلَبْتُ الشَّاةَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ فَعَلَ ہَذَا فَلَيْسَ فِيہِ مِنْ الْكِبْرِ شَيْءٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگ کہتے ہیں کہ میرے اندرتکبرہے،حالانکہ میں نے گدھے کی سواری کی ہے،موٹی چادرپہنی ہے اوربکری کادودھ دوہاہے اوررسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے یہ کام کیے اس کے اندر بالکل تکبرنہیں ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ خَدَمْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَشْرَ سِنِينَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ قَطُّ وَمَا قَالَ لِشَيْءٍ صَنَعْتُہُ لِمَ صَنَعْتَہُ وَلَا لِشَيْءٍ تَرَكْتُہُ لِمَ تَرَكْتَہُ وَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا وَلَا مَسَسْتُ خَزًّا قَطُّ وَلَا حَرِيرًا وَلَا شَيْئًا كَانَ أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَلَا شَمَمْتُ مِسْكًا قَطُّ وَلَا عِطْرًا كَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرَقِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالْبَرَاءِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے دس سال تک نبی اکرم ﷺ کی خدمت کی،آپ نے کبھی مجھے اف تک نہ کہا،اورنہ ہی میرے کسی ایسے کام پر جو میں نے کیا ہو یہ کہا ہو: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اورنہ ہی کسی ایسے کام پر جسے میں نے نہ کیا ہو تم نے ایسا کیوں نہیں کیا،رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق کے آدمی تھے،میں نے کبھی کوئی ریشم،حریریا کوئی چیز آپ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم اور ملائم نہیں دیکھی اورنہ کبھی میں نے کوئی مشک یا عطر آپ ﷺ کے پسینے سے زیادہ خوشبوداردیکھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ اوربراء رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِيَّ يَقُولُ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَتْ لَمْ يَكُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَلَا صَخَّابًا فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَصْفَحُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ وَيُقَالُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدٍ

ابوعبداللہ جدلی کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہا: آپﷺ فحش گو،بدکلامی کرنے والے اوربازارمیں چیخنے والے نہیں تھے،آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے،بلکہ عفوودرگزرفرمادیتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوعبداللہ جدلی کا نام عبد بن عبدہے،اور عبدالرحمٰن بن عبدبھی بیان کیا گیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يَكُونُ الْمُؤْمِنُ لَعَّانًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ لَعَّانًا وَہَذَا الْحَدِيثُ مُفَسِّرٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن لعن وطعن کرنے والا نہیں ہوتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-بعض لوگوں نے اسی سند سے نبی اکرمﷺ سے یوں روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ لعن وطعن کرنے والاہو،یہ حدیث پہلی حدیث کی وضاحت کررہی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَہُوَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنَفِّذَہُ دَعَاہُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَی رُءُوسِ الْخَلَائِقِ حَتَّی يُخَيِّرَہُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

معاذبن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص غصہ ضبط کرلے حالانکہ وہ اسے کرگزرنے کی استطاعت رکھتا ہو،تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلا ئے گا اور اسے اختیاردے گا کہ وہ جس حورکوچاہے منتخب کرلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ بَيَانٍ الْعُقَيْلِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو الرَّحَّالِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا أَكْرَمَ شَابٌّ شَيْخًا لِسِنِّہِ إِلَّا قَيَّضَ اللہُ لَہُ مَنْ يُكْرِمُہُ عِنْدَ سِنِّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ہَذَا الشَّيْخِ يَزِيدَ بْنِ بَيَانٍ وَأَبُو الرِّجَالِ الْأَنْصَارِيُّ آخَرُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو جوان کسی بوڑھے کا اس کے بڑھاپے کی وجہ سے احترام کرے،تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے لوگوں کو مقررفرمادے گا جو اس عمرمیں(یعنی بڑھاپے میں) اس کا احترام کریں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی شیخ یعنی یزیدبن بیان کی روایت سے جانتے ہیں،۲-ابوالرجال انصاری ایک دوسرے راوی ہیں(اورجو راوی اس حدیث میں ہیں وہ ابوالرّحال ہیں)۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا النَّبِيَّ ﷺ فَأَعْطَاہُمْ ثُمَّ سَأَلُوہُ فَأَعْطَاہُمْ ثُمَّ قَالَ مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَہُ عَنْكُمْ وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِہِ اللہُ وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّہُ اللہُ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْہُ اللہُ وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ شَيْئًا ہُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنْ الصَّبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ ہَذَا الْحَدِيثُ فَلَنْ أَذْخَرَہُ عَنْكُمْ وَالْمَعْنَی فِيہِ وَاحِدٌ يَقُولُ لَنْ أَحْبِسَہُ عَنْكُمْ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: چندانصاریوں نے نبی اکرم ﷺ سے کچھ مانگا،آپ نے انہیں دیا،انہوں نے پھرمانگا،آپ نے پھر دیا،پھر فرمایا: جومال بھی میرے پاس ہوگا میں اس کو تم سے چھپاکر ہرگزجمع نہیں رکھوں گا،لیکن جو استغناء ظاہرکرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردے گا ۱؎،جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا،اورجوصبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطاکرے گا،کسی شخص کو بھی صبرسے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث امام مالک سے (دوسری سند سے فلن أذخرہ عنکم کے الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے،ان دونوں عبارتوں کا ایک ہی معنی ہے،یعنی تم لوگوں سے میں اسے ہرگز نہیں روک رکھوں گا،۳-اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ جَاءَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعُودُنِي وَأَنَا مَرِيضٌ فِي بَنِي سَلَمَةَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللہِ كَيْفَ أَقْسِمُ مَالِي بَيْنَ وَلَدِي فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا فَنَزَلَتْ يُوصِيكُمُ اللہُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ میری عیادت کی غرض سے تشریف لائے اس وقت میں بنی سلمہ کے محلے میں بیمار تھا،میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں اپنا مال اپنی اولاد ۱؎ کے درمیان کیسے تقسیم کروں؟ آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا: پھر یہ آیت نازل ہوئی:یُوصِیکُمُ اللہُ فِی أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ (اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتاہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے برابرہے) (النساء: ۱۱)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ،سفیان بن عیینہ اور دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث محمدبن منکدر کے واسطہ سے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبِہَانِيِّ عَنْ مُجَاہِدٍ وَہُوَ ابْنُ وَرْدَانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ مَوْلًی لِلنَّبِيِّ ﷺ وَقَعَ مِنْ عِذْقِ نَخْلَةٍ فَمَاتَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ انْظُرُوا ہَلْ لَہُ مِنْ وَارِثٍ قَالُوا لَا قَالَ فَادْفَعُوہُ إِلَی بَعْضِ أَہْلِ الْقَرْيَةِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ کا ایک آزاد کردہ غلام کھجور کی ٹہنی سے گرا اور مرگیا،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دیکھو،کیا اس کاکوئی وارث ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں،آپ نے فرمایا: اس کامال اس کے گاؤں کے کچھ لوگوں کو دے دو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ ح و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا الزُّہْرِيُّ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رَوَاہُ مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ نَحْوَ ہَذَا وَرَوَی مَالِكٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَحَدِيثُ مَالِكٍ وَہْمٌ وَہِمَ فِيہِ مَالِكٌ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ مَالِكٍ فَقَالَ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ مَالِكٍ قَالُوا عَنْ مَالِكٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عُثْمَانَ وَعَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ہُوَ مَشْہُورٌ مِنْ وَلَدِ عُثْمَانَ وَلَا يُعْرَفُ عُمَرُ بْنُ عُثْمَانَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَاخْتَلَفَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي مِيرَاثِ الْمُرْتَدِّ فَجَعَلَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ الْمَالَ لِوَرَثَتِہِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَا يَرِثُہُ وَرَثَتُہُ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوگا اور نہ کافر مسلمان کاوارث ہوگا ۱؎۔اس سند سے بھی اسامہ رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-معمر اور کئی لوگوں نے زہری سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،مالک نے اسے عن الزہری،عن علی بن حسین،عن عمر بن عثمان،عن أسامۃ بن زید،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،مالک کی روایت میں وہم ہے اور یہ وہم مالک سے سرزدہواہے،بعض لوگوں نے اس حدیث کی مالک سے روایت کرتے ہوئے عن عمرو بن عثمان کہاہے،جب کہ مالک کے اکثر شاگردوں نے عن مالک،عن عمر بن عثمان کہاہے،۳-اورعمروبن عثمان بن عفان مشہور ہیں،عثمان کے لڑکوں میں سے ہیں اور عمربن عثمان معروف آدمی نہیں ہیں،۴-اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۵-اہل علم کااسی حدیث پرعمل ہے،۶-بعض اہل علم نے مرتد کی میراث کے بارے میں اختلاف کیاہے،اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگ ا س بات کے قائل ہیں کہ اس کا مال اس کے مسلمان وارثوں کا ہوگا،۷-بعض لوگوں نے کہاہے: اس کے مسلمان وارث اس کے مال کا وارث نہیں ہوں گے،ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ (کی اسی حدیث) لا یرث المسلم الکافر (یعنی مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا ہے) سے استدلال کیاہے شافعی کایہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَتَوَارَثُ أَہْلُ مِلَّتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَی

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:دو مختلف مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف ابن ابی لیلیٰ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَالَ عُمَرُ الدِّيَةُ عَلَی الْعَاقِلَةِ وَلَا تَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِہَا شَيْئًا فَأَخْبَرَہُ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ الْكِلَابِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَتَبَ إِلَيْہِ أَنْ وَرِّثْ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دیت عاقلہ ۱؎ پر واجب ہے،اور بیوی اپنے شوہر کی دیت میں سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگی،(یہ سن کر) ضحاک بن سفیان کلابی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کوبتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو لکھا: أشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت میں سے حصہ دو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَضَی فِي جَنِينِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي لِحْيَانَ سَقَطَ مَيِّتًا بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قُضِيَ عَلَيْہَا بِالْغُرَّةِ تُوُفِّيَتْ فَقَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَّ مِيرَاثَہَا لِبَنِيہَا وَزَوْجِہَا وَأَنَّ عَقْلَہَا عَلَی عَصَبَتِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی يُونُسُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَرَوَاہُ مَالِكٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَمَالِكٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے بنی لحیان کی ایک عورت کے بارے میں جس کا حمل ساقط ہوکر بچہ مرگیا تھا ایک غرہ یعنی غلام یالونڈی دینے کا فیصلہ کیا،(حمل گرانے والی مجرمہ ایک عورت تھی)پھر جس عورت کے بارے میں فیصلہ کیاگیا تھا کہ وہ (بطور دیت)غرہ (غلام) دے،مرگئی،تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیاکہ اس کی میراث اس کے لڑکوں اور شوہر میں تقسیم ہوگی،اور اس پرعائد ہونے والی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یونس نے یہ حدیث عن الزہری،عن سعید بن المسیب و المسیب و أبی سلمۃ،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی روایت کی ہے،۲-مالک نے یہ حدیثعن الزہری عن أبی سلمۃ عن أبی ہریرۃ کی سند سے روایت کی ہے،اور مالک نے عن الزہری عن سعید بن المسیب عن النبی ﷺ کی سند سے جو حدیث روایت کی ہے وہ مرسل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يَرِثُ الْوَلَاءَ مَنْ يَرِثُ الْمَالَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ولاء کاوارث وہی ہوگا جو مال کا وارث ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَی بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ وَأَنْتُمْ تُقِرُّونَ الْوَصِيَّةَ قَبْلَ الدَّيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ يُبْدَأُ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے وصیت(کے نفاذ) سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا،جب کہ تم(قرآن میں) قرض سے پہلے وصیت پڑھتے ہو ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: عام اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ خَطَبَنَا عَلِيٌّ فَقَالَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ عِنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُہُ إِلَّا كِتَابَ اللہِ وَہَذِہِ الصَّحِيفَةَ صَحِيفَةٌ فِيہَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ وَأَشْيَاءٌ مِنْ الْجِرَاحَاتِ فَقَدْ كَذَبَ وَقَالَ فِيہَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَی ثَوْرٍ فَمَنْ أَحْدَثَ فِيہَا حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا فَعَلَيْہِ لَعْنَةُ اللہِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يَقْبَلُ اللہُ مِنْہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَمَنْ ادَّعَی إِلَی غَيْرِ أَبِيہِ أَوْ تَوَلَّی غَيْرَ مَوَالِيہِ فَعَلَيْہِ لَعْنَةُ اللہِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْہُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَی بِہَا أَدْنَاہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

یزیدبن شریک تیمی کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور کہا: جو کہتاہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ-جس کے اندر اونٹوں کی عمر اور جراحات(زخموں) کے احکام ہیں-کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹ کہتاہے ۱؎ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عیر سے لے کر ثور تک مدینہ حرم ہے ۲؎ جو شخص اس کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے،اس پر اللہ،اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس آدمی کی نہ کوئی فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل اور جوشخص دوسرے کے باپ کی طرف اپنی نسبت کرے یا اپنے آزاد کرنے والے کے علاوہ کو اپنا مالک بنائے اس کے اوپر اللہ،اس کے فرشتے اورتمام لوگوں کی لعنت ہو،اس کی نہ فرض عبادت قبول ہوگی اور نہ نفل،مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی پناہ ایک ہے ان کا معمولی شخص بھی اس پناہ کا مالک ہے ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض لوگوں نے عن الأعمش،عن إبراہیم التیمی،عن الحارث بن سوید،عن علی کی سندسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-یہ حدیث کئی سندوں سے علی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَيْہَا مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْہِہِ فَقَالَ أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ آنِفًا إِلَی زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فَقَالَ ہَذِہِ الْأَقْدَامُ بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی ابْنُ عُيَيْنَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَزَادَ فِيہِ أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا مَرَّ عَلَی زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَہُمَا وَبَدَتْ أَقْدَامُہُمَا فَقَالَ إِنَّ ہَذِہِ الْأَقْدَامَ بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ وَہَكَذَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ احْتَجَّ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ بِہَذَا الْحَدِيثِ فِي إِقَامَةِ أَمْرِ الْقَافَةِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ خوشی خوشی ان کے پاس تشریف لائے،آپ کے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے،آپ ﷺنے فرمایا: تم نے دیکھانہیں،ابھی ابھی مجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو دیکھ کر کہاہے کہ یہ قدم (یعنی ان کارشتہ) ایک دوسرے سے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن عیینہ نے یہ حدیث عن الزہری،عن عروۃ،عن عائشۃ کی سند سے روایت کی ہے۔اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے،آپ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں دیکھاکہ مجزز،زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا،اس وقت وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر کھلے ہوئے تھے تواس نے کہا: ان قدموں (کارشتہ) ایک دوسرے سے ہیں،۳-اسی طرح ہم سے سعید بن عبدالرحمٰن اور کئی لوگوں نے یہ حدیث عن سفیان بن عیینۃ،عن الزہری،عن عروۃ،عن عائشۃ کی سند سے بیان کی ہے،یہ حدیث حسن صحیح ہے،۴-بعض اہل علم نے اس حدیث سے قیافہ کے معتبر ہونے پر استدلال کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَزْہَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَاءٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ تَہَادَوْا فَإِنَّ الْہَدِيَّةَ تُذْہِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ وَلَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِہَا وَلَوْ شِقَّ فِرْسِنِ شَاةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو مَعْشَرٍ اسْمُہُ نَجِيحٌ مَوْلَی بَنِي ہَاشِمٍ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:تم لوگ ایک دوسرے کو ہدیہ دیاکرو،اس لیے کہ ہدیہ دل کی کدورت کو دور کرتاہے،کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ کوحقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھرکا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-ابومعشرکانام نجیح ہے وہ بنی ہاشم کے (آزاد کردہ) غلام ہیں،ان کے حافظے کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان کے بارے میں کلام کیاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدَرِ فَغَضِبَ حَتَّی احْمَرَّ وَجْہُہُ حَتَّی كَأَنَّمَا فُقِئَ فِي وَجْنَتَيْہِ الرُّمَّانُ فَقَالَ أَبِہَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِہَذَا أُرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ إِنَّمَا ہَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِينَ تَنَازَعُوا فِي ہَذَا الْأَمْرِ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ أَلَّا تَتَنَازَعُوا فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ وَصَالِحٌ الْمُرِّيُّ لَہُ غَرَائِبُ يَنْفَرِدُ بِہَا لَا يُتَابَعُ عَلَيْہَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک دن) رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے،اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث ومباحثہ کررہے تھے،آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کاچہرہ سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگاگویاآپ کے گالوں پر انارکے دانے نچوڑدئیے گئے ہوں۔آپ نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے،یامیں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بناکربھیجاگیا ہوں؟ بے شک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوگئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ کیا،میں تمہیں قسم دلاتاہوں کہ اس مسئلہ میں بحث ومباحثہ نہ کرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے اس سند سے صرف صالح مری کی روایت سے جانتے ہیں اور صالح مری کے بہت سارے غرائب ہیں جن کی روایت میں وہ منفرد ہیں،کوئی ان کی متابعت نہیں کرتا۔۳-اس باب میں عمر،عائشہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسَی فَقَالَ مُوسَی يَا آدَمُ أَنْتَ الَّذِي خَلَقَكَ اللہُ بِيَدِہِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِہِ أَغْوَيْتَ النَّاسَ وَأَخْرَجْتَہُمْ مِنْ الْجَنَّةِ قَالَ فَقَالَ آدَمُ وَأَنْتَ مُوسَی الَّذِي اصْطَفَاكَ اللہُ بِكَلَامِہِ أَتَلُومُنِي عَلَی عَمَلٍ عَمِلْتُہُ كَتَبَہُ اللہُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ قَالَ فَحَجَّ آدَمُ مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَجُنْدَبٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ وَقَدْ رَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ الْأَعْمَشِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ و قَالَ بَعْضُہُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آدم اور موسیٰ نے باہم مناظرہ کیا،موسیٰ نے کہا: آدم! آپ وہی تو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیداکیا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ۱؎ پھر آپ نے لوگوں کو گمراہ کیا اور ان کو جنت سے نکالا؟ آدم نے اس کے جواب میں کہا: آپ وہی موسیٰ ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے گفتگو کرنے کے لیے منتخب کیا،کیا آپ میرے ایسے کام پر مجھے ملامت کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا کرنے سے پہلے میرے اوپر لازم کردیا تھا؟،آدم موسیٰ سے دلیل میں جیت گئے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث اس سند سے یعنی سلیمان تیمی کی روایت سے جسے وہ اعمش سے روایت کرتے ہیں،۳-اعمش کے بعض شاگردوں نے عن الأعمش،عن أبی صالح،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔اور بعض نے اس کی سند یوں بیان کی ہے عن الأعمش،عن أبی صالح،عن أبی سعید،عن النبی ﷺ،۴-کئی اور سندوں سے یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے،۵-اس باب میں عمر اور جندب رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ قَالَ حَدَّثَنَا صَاحِبٌ لَنَا عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَا يُعْدِي شَيْءٌ شَيْئًا فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ يَا رَسُولَ اللہِ الْبَعِيرُ الْجَرِبُ الْحَشَفَةُ بِذَنَبِہِ فَتَجْرَبُ الْإِبِلُ كُلُّہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَمَنْ أَجْرَبَ الْأَوَّلَ لَا عَدْوَی وَلَا صَفَرَ خَلَقَ اللہُ كُلَّ نَفْسٍ وَكَتَبَ حَيَاتَہَا وَرِزْقَہَا وَمَصَائِبَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيَّ الْبَصْرِيَّ قَال سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ لَوْ حَلَفْتُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ لَحَلَفْتُ أَنِّي لَمْ أَرَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِيٍّ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: کسی کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی ،ایک اعرابی (بدوی) نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خارشتی شرمگاہ والے اونٹ سے (جب اسے باڑہ میں لاتے ہیں) تو تمام اونٹ (کھجلی والے) ہوجاتے ہیں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھر پہلے کو کس نے کھجلی دیـ؟ کسی کی بیماری دوسرے کونہیں لگتی ہے اور نہ ماہِ صفر کی نحوست کی کوئی حقیقت ہے،اللہ تعالیٰ نے ہرنفس کو پیدا کیا ہے اور اس کی زندگی،رزق اور مصیبتوں کو لکھ دیا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ،ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ حَبِيبٍ وَعَلِيُّ بْنُ نِزَارٍ عَنْ نِزَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَيْسَ لَہُمَا فِي الْإِسْلَامِ نَصِيبٌ الْمُرْجِئَةُ وَالْقَدَرِيَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عُمَرَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نِزَارٍ عَنْ نِزَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے دوقسم کے لوگوں کے لیے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے:(۱) مرجئہ (۲) قدریہ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں عمر،ابن عمر اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔اس سند بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ جَاءَہُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ فَقَالَ لَہُ إِنَّہُ بَلَغَنِي أَنَّہُ قَدْ أَحْدَثَ فَإِنْ كَانَ قَدْ أَحْدَثَ فَلَا تُقْرِئْہُ مِنِّي السَّلَامَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ يَكُونُ فِي ہَذِہِ الْأُمَّةِ أَوْ فِي أُمَّتِي الشَّكُّ مِنْہُ خَسْفٌ أَوْ مَسْخٌ أَوْ قَذْفٌ فِي أَہْلِ الْقَدَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَأَبُو صَخْرٍ اسْمُہُ حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ

نافع کابیان ہے،ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شخص آیا اوراس نے کہا: فلاں شخص نے آپ کوسلام عرض کیا ہے،اس سے ابن عمر نے کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ اس نے دین میں نیا عقیدہ ایجاد کیا ہے،اگر اس نے دین میں نیاعقیدہ ایجاد کیا ہے تو اسے میرا سلام نہ پہنچانا،اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اس امت میں یامیری امت میں،(یہ شک راوی کی طرف سے ہواہے) تقدیر کا انکار کرنے والوں پر خسف،مسخ یا قذف کاعذاب ہوگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ابوصخر کانام حمید بن زیاد ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ يَكُونُ فِي أُمَّتِي خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَذَلِكَ فِي الْمُكَذِّبِينَ بِالْقَدَرِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: میری امت میں خسف اور مسخ کا عذاب ہوگا اور یہ عذاب تقدیر کے جھٹلانے والوں پر آئے گا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ يَوْمَ الدَّارِ فَقَالَ أَنْشُدُكُمْ اللہَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَی ثَلَاثٍ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ ارْتِدَادٍ بَعْدَ إِسْلَامٍ أَوْ قَتْلِ نَفْسٍ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقُتِلَ بِہِ فَوَاللہِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاہِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَلَا قَتَلْتُ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللہُ فَبِمَ تَقْتُلُونَنِي قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ فَرَفَعَہُ وَرَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ فَأَوْقَفُوہُ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عُثْمَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مَرْفُوعًا

ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما جب باغیوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کررکھاتھا توانہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آکرکہا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتاہوں،کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں: شادی کے بعدزناکرنا،یااسلام لانے کے بعدمرتد ہوجانا،یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کوقتل کیاجائے،اللہ کی قسم! میں نے نہ جاہلیت میں زناکیا ہے نہ اسلام میں،نہ رسول اللہﷺ سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتدہواہوں اورنہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں،پھر (آخر) تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کررہے ہو؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسے حماد بن سلمہ نے یحیی بن سعید کے واسطہ سے مرفوعاًروایت کیا ہے،اوریحیی بن سعید قطان اور دوسرے کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہے،لیکن یہ موقوف ہے نہ کہ مرفوع،۳-اس باب میں ابن مسعود،عائشہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اوریہ حدیث عثمان کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے کئی دیگر سندوں بھی سے مرفوعاًمروی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلنَّاسِ أَيُّ يَوْمٍ ہَذَا قَالُوا يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ قَالَ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ ہَذَا فِي بَلَدِكُمْ ہَذَا أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَی نَفْسِہِ أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ عَلَی وَلَدِہِ وَلَا مَوْلُودٌ عَلَی وَالِدِہِ أَلَا وَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ مِنْ أَنْ يُعْبَدَ فِي بِلَادِكُمْ ہَذِہِ أَبَدًا وَلَكِنْ سَتَكُونُ لَہُ طَاعَةٌ فِيمَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ فَسَيَرْضَی بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَحِذْيَمِ بْنِ عَمْرٍو السَّعْدِيِّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی زَائِدَةُ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ نَحْوَہُ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ

عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ کو لوگوں سے خطاب کرتے سنا: یہ کون سادن ہے؟ لوگوں نے کہا: حج اکبر کا دن ہے ۱؎،آپ نے فرمایا: تمہارے خون،تمہارے مال اورتمہاری عزت وآبروتمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس شہرمیں تمہارے اس دن کی حرمت وتقدس ہے،خبردار! جرم کرنے والے کاوبال خود اسی پرہے،خبردار!باپ کے قصور کا مواخذہ بیٹے سے اوربیٹے کے قصور کا مواخذہ باپ سے نہ ہوگا،سن لو! شیطان ہمیشہ کے لیے اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پوجا ہوگی،البتہ ان چیزوں میں اس کی کچھ اطاعت ہوگی جن کو تم حقیر عمل سمجھتے ہو،وہ اسی سے خوش رہے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-زائدہ نے بھی شبیب بن غرقدہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،ہم اس حدیث کو صرف شبیب بن غرقد ہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں ابوبکرہ،ابن عباس،جابر،حذیم بن عمروالسعدی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْعَطَّارُ الْہَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَشَارَ عَلَی أَخِيہِ بِحَدِيدَةٍ لَعَنَتْہُ الْمَلَائِكَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ وَرَوَاہُ أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَزَادَ فِيہِ وَإِنْ كَانَ أَخَاہُ لِأَبِيہِ وَأُمِّہِ قَالَ و أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ بِہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جوشخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ خالد حذاء کی روایت سے غریب سمجھی جاتی ہے،۳-ایوب نے محمد بن سیرین کے واسطہ سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،لیکن اسے مرفوعا نہیں بیان کیا ہے اوراس میں یہ اضافہ کیا ہے وإن کان أخاہ لأبیہ وأمہ(ا گرچہ اس کا سگابھائی ہی کیوں نہ ہو)،۴-اس باب میں ابوبکرہ،ام المومنین عائشہ اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يُتَعَاطَی السَّيْفُ مَسْلُولًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَرَوَی ابْنُ لَہِيعَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ بَنَّةَ الْجُہَنِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدِي أَصَحُّ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ننگی تلوارلینے اور دینے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حماد بن سلمہ کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-ابن لہیعہ نے یہ حدیث عن أبی الزبیر،عن جابر وعن بنتہ الجہنی،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،۳-میرے نزدیک حماد بن سلمہ کی روایت زیادہ صحیح ہے،۴-اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّہُ قَالَ أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ ہَذِہِ الْآيَةَ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَيْتُمْ وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَی يَدَيْہِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّہُمْ اللہُ بِعِقَابٍ مِنْہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَحُذَيْفَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ نَحْوَ حَدِيثِ يَزِيدَ وَرَفَعَہُ بَعْضُہُمْ عَنْ إِسْمَعِيلَ وَأَوْقَفَہُ بَعْضُہُمْ

ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہویَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ ۱؎ اورمیں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی ظلم نہ روک دیں)تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عذاب لوگوں پر عام کردے ۲؎۔اس سند سے بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-کئی لوگوں نے اسی طرح اسماعیل سے یزید کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-اسماعیل سے روایت کرتے ہوے بعض لوگوں نے اسے مرفوعا اوربعض لوگوں نے موقوفابیان کیا ہے۔۴-اس باب میں عائشہ،ام سلمہ،نعمان بن بشیر،عبداللہ بن عمراورحذیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللہُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْہُ ثُمَّ تَدْعُونَہُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم معروف (بھلائی) کا حکم دو اورمنکر(برائی) سے روکو،ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے پھر تم اللہ سے دعا کرواورتمہاری دعاء قبول نہ کی جائے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللہِ وَہُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيُّ الْأَشْہَلِيُّ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تَقْتُلُوا إِمَامَكُمْ وَتَجْتَلِدُوا بِأَسْيَافِكُمْ وَيَرِثَ دُنْيَاكُمْ شِرَارُكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہ کردو،اپنی تلواروں سے ایک دوسرے کو قتل نہ کرواوربرے لوگ تمہاری دنیاکے وارث نہ بن جائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ہم اسے صرف عمروبن ابی عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ سِيْمِينَ كُوْشَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَكُونُ فِتْنَةٌ تَسْتَنْظِفُ الْعَرَبُ قَتْلَاہَا فِي النَّارِ اللِّسَانُ فِيہَا أَشَدُّ مِنْ السَّيْفِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ لَا يُعْرَفُ لِزِيَادِ بْنِ سِيْمِينَ كُوْشَ غَيْرُ ہَذَا الْحَدِيثِ رَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ لَيْثٍ فَرَفَعَہُ وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ لَيْثٍ فَأَوْقَفَہُ

-عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک فتنہ ایساہوگا جو تمام عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا،اس کے مقتول جہنمی ہوں گے،اس وقت زبان کھولنا تلوار مارنے سے زیادہ سخت ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سنا: زیادبن سیمین کوش کی اس کے علاوہ دوسری کو ئی حدیث نہیں معلوم ہے،۳-حماد بن سلمہ نے اسے لیث سے روایت کرتے ہوے مرفوعاً بیان کیا ہے،اورحماد بن زیدنے اسے لیث سے روایت کرتے ہوے موقوفاً بیان کیا ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ الْعَبْدِيُّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ وَحَتَّی تُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِہِ وَشِرَاكُ نَعْلِہِ وَتُخْبِرَہُ فَخِذُہُ بِمَا أَحْدَثَ أَہْلُہُ مِنْ بَعْدِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَثَّقَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ درندے انسانوں سے گفتگونہ کرنے لگیں،آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارہ گفتگوکرنے لگے،اس کے جوتے کا تسمہ گفتگوکرنے لگے اوراس کی ران اس کا م کی خبردینے لگے جو اس کی بیوی نے اس کی غیرحاضری میں انجام دیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں،۲-قاسم بن فضل محدثین کے نزدیک ثقہ اورمامون ہیں،یحیٰ بن سعید قطان اورعبدالرحمٰن بن مہدی نے ان کی توثیق کی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ وَالنَّبِيُّ ﷺ جَالِسٌ فَقَالَ يَا أَبَا ذَرٍّ أَتَدْرِي أَيْنَ تَذْہَبُ ہَذِہِ قَالَ قُلْتُ اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ تَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُودِ فَيُؤْذَنُ لَہَا وَكَأَنَّہَا قَدْ قِيلَ لَہَا اطْلُعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا قَالَ ثُمَّ قَرَأَ وَذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَہَا قَالَ وَذَلِكَ قِرَاءَةُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي مُوسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سورج ڈوبنے کے بعدمیں مسجدمیں داخل ہوا،اس وقت نبی اکرمﷺ تشریف فرماتھے،آپﷺ نے پوچھا: ابوذر! جانتے ہو سورج کہاں جاتاہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں،آپ نے فرمایا: وہ سجدے کی اجازت لینے جاتا ہے،اسے ا جازت مل جاتی ہے لیکن ایک وقت اس سے کہاجائے گا: اسی جگہ سے نکلوجہاں سے آئے ہو،لہذا وہ پچھم سے نکلے گا،پھرآپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: وَذَلِکَ مُسْتَقَرٌّ لَہَا (یہ اس کا ٹھکانا ہے) راوی کہتے ہیں:عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت یہی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں صفوان بن عسال،حذیفہ،اسید،انس اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَہَاءُ الْأَحْلَامِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَہُمْ يَقُولُونَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَيْثُ وَصَفَ ہَؤُلَاءِ الْقَوْمَ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَہُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّہْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ إِنَّمَا ہُمْ الْخَوَارِجُ الْحَرُورِيَّةُ وَغَيْرُہُمْ مِنْ الْخَوَارِجِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: آخری زمانہ ۱؎ میں ایک قوم نکلے گی جس کے افراد نو عمراورسطحی عقل والے ہوں گے،وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،قرآن کی بات کریں گے لیکن وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جیسے شکار سے تیرآرپارنکل جاتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-دوسری حدیث میں نبی اکرمﷺ سے مروی ہے جس میں آپ نے انہیں لوگوں کی طرح اوصاف بیان کیا کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے،مگران کے گلے کے نیچے نہیں اترے گا،وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیرنکل جاتا ہے،ان سے مقام حروراء کی طرف منسوب خوارج اوردوسرے خوارج مرادہیں،۳-اس باب میں علی،ابوسعیداور ابوذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ اسْتَعْمَلْتَ فُلَانًا وَلَمْ تَسْتَعْمِلْنِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّی تَلْقَوْنِي عَلَی الْحَوْضِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اسیدبن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں کو عامل بنادیااورمجھے عامل نہیں بنایا،رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم لوگ میرے بعد(غلط)ترجیح دیکھوگے،لہذا تم اس پر صبر کرنایہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثرپر ملو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً وَأُمُورًا تُنْكِرُونَہَا قَالَ فَمَا تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ أَدُّوا إِلَيْہِمْ حَقَّہُمْ وَسَلُوا اللہَ الَّذِي لَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم میرے بعدعنقریب(غلط) ترجیح اورایسے امور دیکھو گے جنہیں تم براجانوگے،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسے وقت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تم حکام کا حق اداکرنا(ان کی اطاعت کرنا) اوراللہ سے اپنا حق مانگو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ وضاحت ۱؎: یعنی حکام اگر ایسے لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیں جوقابل ترجیح نہیں ہیں تو تم صبر سے کام لیتے ہوئے ان کی اطاعت کرو اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو،کیوں کہ اللہ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَقِيءُ الْأَرْضُ أَفْلَاذَ كَبِدِہَا أَمْثَالَ الْأُسْطُوَانِ مِنْ الذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ قَالَ فَيَجِيءُ السَّارِقُ فَيَقُولُ فِي مِثْلِ ہَذَا قُطِعَتْ يَدِي وَيَجِيءُ الْقَاتِلُ فَيَقُولُ فِي ہَذَا قَتَلْتُ وَيَجِيءُ الْقَاطِعُ فَيَقُولُ فِي ہَذَا قَطَعْتُ رَحِمِي ثُمَّ يَدَعُونَہُ فَلَا يَأْخُذُونَ مِنْہُ شَيْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (قیامت کے قریب) زمین اپنے جگرگوشے یعنی کھمبے کی طرح سونا اورچاندی اُگلے گی،اس وقت چورآئے گا اورکہے گا: اسی کے لیے میراہاتھ کاٹاگیا ہے،قاتل آئے گا اور کہے گا: اسی کے لیے میں نے قتل کیا ہے،رشتہ ناطہ توڑنے والاآئے گا اورکہے گا: اسی کے لیے میں نے رشتہ ناطہ توڑا تھا،پھر وہ لوگ اسے چھوڑدیں گے اور اس میں سے کچھ نہیں لیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو قَالَ ح و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللہِ وَہُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيُّ الْأَشْہَلِيُّ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَكُونَ أَسْعَدَ النَّاسِ بِالدُّنْيَا لُكَعُ ابْنُ لُكَعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیوقوفوں کی اولاد دنیامیں سب سے زیادہ خوش نصیب نہ ہوجائیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے،ہم اسے صرف عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا ہَلَكَ كِسْرَی فَلَا كِسْرَی بَعْدَہُ وَإِذَا ہَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَہُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَتُنْفَقَنَّ كُنُوزُہُمَا فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گاتو اس کے بعدکوئی کسریٰ نہیں ہوگا،جب قیصرہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعدکوئی قیصرنہیں ہوگا،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ان کے خزانے کو اللہ کے راستے میں خرچ کروگے،(اور یہ واقع ہوچکا ہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَنْبَعِثَ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كُلُّہُمْ يَزْعُمُ أَنَّہُ رَسُولُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تقریباًتیس دجال اورکذاب نکلیں گے،ان میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابربن سمرہ اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ وَحَتَّی يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ وَإِنَّہُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّہُمْ يَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبیلے مشرکین سے مل جائیں،اوربتوں کی پرستش کریں،اورمیری امت میں عنقریب تیس جھوٹے (دعویدار)نکلیں گے،ان میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے،حالانکہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعدکوئی(دوسرا) نبی نہیں ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُصْمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی يُقَالُ الْكَذَّابُ الْمُخْتَارُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ وَالْمُبِيرُ الْحَجَّاجُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْبَلْخِيُّ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ قَالَ أَحْصَوْا مَا قَتَلَ الْحَجَّاجُ صَبْرًا فَبَلَغَ مِائَةَ أَلْفٍ وَعِشْرِينَ أَلْفَ قَتِيلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ وَاقِدٍ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ نَحْوَہُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَشَرِيكٌ يَقُولُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُصْمٍ وَإِسْرَائِيلُ يَقُولُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عِصْمَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بنو ثقیف میں ایک جھوٹا اور ہلاک کرنے والا ہوگا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: کہاجاتاہے کذاب اورجھوٹے سے مرادمختاربن ابی عبیدثقفی اورہلاک کرنے والا سے مراد حجاج بن یوسف ہے ۱؎۔اس سند سے ہشام بن حسان سے روایت ہے،انہوں نے کہا: حجاج نے جن لوگوں کو باندھ کر قتل کیا تھا انہیں شمارکیا گیا تو ان کی تعدادایک لاکھ بیس ہزارتک پہنچی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،اور یہ حدیث ابن عمر کی روایت سے حسن غریب ہے۔شریک نے اپنے استاذ کا نام عبداللہ بن عصم بیان کیا ہے،جب کہ اسرائیل نے عبداللہ بن عصمہ بیان کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَكُونُ مِنْ بَعْدِي اثْنَا عَشَرَ أَمِيرًا قَالَ ثُمَّ تَكَلَّمَ بِشَيْءٍ لَمْ أَفْہَمْہُ فَسَأَلْتُ الَّذِي يَلِينِي فَقَالَ كُلُّہُمْ مِنْ قُرَيْشٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَی عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَی عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے بعدبارہ امیر(خلیفہ) ہوں گے،پھرآپ نے کوئی ایسی بات کہی جسے میں نہیں سمجھ سکا،لہذامیں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے آدمی سے سوال کیا تو اس نے کہاکہ آپ نے فرمایا: یہ بارہ کے بارہ (خلیفہ) قبیلہء قریش سے ہوں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی جابر بن سمرہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابربن سمرہ سے کئی سندوں سے یہ حدیث مروی ہے،۲-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،جابربن سمرہ سے ابوبکربن ابوموسیٰ کی روایت کی وجہ سے غریب ہے،۳-اس باب میں ابن مسعوداورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مِہْرَانَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ كُسَيْبٍ الْعَدَوِيِّ قَالَ كُنْتُ مَعَ أَبِي بَكْرَةَ تَحْتَ مِنْبَرِ ابْنِ عَامِرٍ وَہُوَ يَخْطُبُ وَعَلَيْہِ ثِيَابٌ رِقَاقٌ فَقَالَ أَبُو بِلَالٍ انْظُرُوا إِلَی أَمِيرِنَا يَلْبَسُ ثِيَابَ الْفُسَّاقِ فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ اسْكُتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ أَہَانَ سُلْطَانَ اللہِ فِي الْأَرْضِ أَہَانَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

زیادبن کسیب عدوی کہتے ہیں: میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابن عامرکے منبرکے نیچے تھا،اور وہ خطبہ دے رہے تھے،ان کے بدن پر باریک کپڑاتھا،ابوبلال نے کہا: ہمارے امیرکو دیکھوفاسقوں کا لباس پہن رکھا ہے،ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: خاموش رہو،میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا ہے: جو شخص زمین پر اللہ کے بنائے ہوئے سلطان(حاکم) کو ذلیل کرے تواللہ اسے ذلیل کرے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَذْہَبُ اللَّيْلُ وَالنَّہَارُ حَتَّی يَمْلِكَ رَجُلٌ مِنْ الْمَوَالِي يُقَالُ لَہُ جَہْجَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رات اوردن اس وقت تک باقی رہیں گے(یعنی قیامت نہیں آئے گی) یہاں تک کہ جہجاہ نامی ایک غلام بادشاہت کرے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُطَيْبٍ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ صَاحِبِ مُعَاذٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْمَلْحَمَةُ الْعُظْمَی وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ وَخُرُوجُ الدَّجَّالِ فِي سَبْعَةِ أَشْہُرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ملحمہ عظمی (بڑی لڑائی)،فتح قسطنطنیہ اورخروج دجال (یہ تینوں واقعات)سات مہینے کے اندرہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں صعب بن جثامہ،عبداللہ بن بسر،عبداللہ بن مسعوداورابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ فَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ مَعَ قِيَامِ السَّاعَةِ قَالَ مَحْمُودٌ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَالْقُسْطَنْطِينِيَّةُ ہِيَ مَدِينَةُ الرُّومِ تُفْتَحُ عِنْدَ خُرُوجِ الدَّجَّالِ وَالْقُسْطَنْطِينِيَّةُ قَدْ فُتِحَتْ فِي زَمَانِ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسطنطنیہ قیامت کے قریب فتح ہوگا۔ محمودبن غیلان کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔ قسطنطنیہ روم کا ایک شہرہے،جوخروج دجال کے وقت فتح ہوگا،قسطنطنیہ نبی اکرمﷺ کے بعض صحابہ کے زمانہ میں ایک بار فتح ہوچکاہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ دَخَلَ حَدِيثُ أَحَدِہِمَا فِي حَدِيثِ الْآخَرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيہِ وَرَفَّعَ حَتَّی ظَنَنَّاہُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ قَالَ فَانْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَيْہِ فَعَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَّضْتَ فِيہِ وَرَفَّعْتَ حَتَّی ظَنَنَّاہُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ قَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُہُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِہِ وَاللہُ خَلِيفَتِي عَلَی كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّہُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُہُ طَافِئَةٌ شَبِيہٌ بِعَبْدِ الْعُزَّی بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ رَآہُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَةِ أَصْحَابِ الْكَہْفِ قَالَ يَخْرُجُ مَا بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَشِمَالًا يَا عِبَادَ اللہِ اثْبُتُوا قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا لَبْثُہُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَہْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِہِ كَأَيَّامِكُمْ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ الْيَوْمَ الَّذِي كَالسَّنَةِ أَتَكْفِينَا فِيہِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا وَلَكِنْ اقْدُرُوا لَہُ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ فَمَا سُرْعَتُہُ فِي الْأَرْضِ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْہُ الرِّيحُ فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوہُمْ فَيُكَذِّبُونَہُ وَيَرُدُّونَ عَلَيْہِ قَوْلَہُ فَيَنْصَرِفُ عَنْہُمْ فَتَتْبَعُہُ أَمْوَالُہُمْ وَيُصْبِحُونَ لَيْسَ بِأَيْدِيہِمْ شَيْءٌ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوہُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَہُ وَيُصَدِّقُونَہُ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ فَتَرُوحُ عَلَيْہِمْ سَارِحَتُہُمْ كَأَطْوَلِ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَمَدِّہِ خَوَاصِرَ وَأَدَرِّہِ ضُرُوعًا قَالَ ثُمَّ يَأْتِي الْخَرِبَةَ فَيَقُولُ لَہَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَيَنْصَرِفُ مِنْہَا فَيَتْبَعُہُ كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا شَابًّا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُہُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُہُ جِزْلَتَيْنِ ثُمَّ يَدْعُوہُ فَيُقْبِلُ يَتَہَلَّلُ وَجْہُہُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا ہُوَ كَذَلِكَ إِذْ ہَبَطَ عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْہِ السَّلَام بِشَرْقِيِّ دِمَشْقَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ بَيْنَ مَہْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا يَدَيْہِ عَلَی أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَہُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَہُ تَحَدَّرَ مِنْہُ جُمَّانٌ كَاللُّؤْلُؤِ قَالَ وَلَا يَجِدُ رِيحَ نَفْسِہِ يَعْنِي أَحَدًا إِلَّا مَاتَ وَرِيحُ نَفْسِہِ مُنْتَہَی بَصَرِہِ قَالَ فَيَطْلُبُہُ حَتَّی يُدْرِكَہُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلَہُ قَالَ فَيَلْبَثُ كَذَلِكَ مَا شَاءَ اللہُ قَالَ ثُمَّ يُوحِي اللہُ إِلَيْہِ أَنْ حَوِّزْ عِبَادِي إِلَی الطُّورِ فَإِنِّي قَدْ أَنْزَلْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِہِمْ قَالَ وَيَبْعَثُ اللہُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَہُمْ كَمَا قَالَ اللہُ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ قَالَ فَيَمُرُّ أَوَّلُہُمْ بِبُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُ مَا فِيہَا ثُمَّ يَمُرُّ بِہَا آخِرُہُمْ فَيَقُولُ لَقَدْ كَانَ بِہَذِہِ مَرَّةً مَاءٌ ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّی يَنْتَہُوا إِلَی جَبَلِ بَيْتِ مَقْدِسٍ فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ فَہَلُمَّ فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِہِمْ إِلَی السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللہُ عَلَيْہِمْ نُشَّابَہُمْ مُحْمَرًّا دَمًا وَيُحَاصَرُ عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُہُ حَتَّی يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ يَوْمَئِذٍ خَيْرًا لِأَحَدِہِمْ مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ قَالَ فَيَرْغَبُ عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ إِلَی اللہِ وَأَصْحَابُہُ قَالَ فَيُرْسِلُ اللہُ إِلَيْہِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِہِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَی مَوْتَی كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ قَالَ وَيَہْبِطُ عِيسَی وَأَصْحَابُہُ فَلَا يَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَأَتْہُ زَہَمَتُہُمْ وَنَتَنُہُمْ وَدِمَاؤُہُمْ قَالَ فَيَرْغَبُ عِيسَی إِلَی اللہِ وَأَصْحَابُہُ قَالَ فَيُرْسِلُ اللہُ عَلَيْہِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ قَالَ فَتَحْمِلُہُمْ فَتَطْرَحُہُمْ بِالْمَہْبِلِ وَيَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّہِمْ وَنُشَّابِہِمْ وَجِعَابِہِمْ سَبْعَ سِنِينَ قَالَ وَيُرْسِلُ اللہُ عَلَيْہِمْ مَطَرًا لَا يُكَنُّ مِنْہُ بَيْتُ وَبَرٍ وَلَا مَدَرٍ قَالَ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ فَيَتْرُكُہَا كَالزَّلَفَةِ قَالَ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَخْرِجِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقَحْفِہَا وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّی إِنَّ الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنْ الْإِبِلِ وَإِنَّ الْقَبِيلَةَ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنْ الْبَقَرِ وَإِنَّ الْفَخِذَ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنْ الْغَنَمِ فَبَيْنَمَا ہُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللہُ رِيحًا فَقَبَضَتْ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَيَبْقَی سَائِرُ النَّاسِ يَتَہَارَجُونَ كَمَا تَتَہَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَيْہِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ

نوّاس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ایک صبح دجال کاذکرکیا،تو آپ نے (اس کی حقارت اوراس کے فتنے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے دورانِ گفتگو)آواز کو بلند اور پست کیا ۱ ؎ حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ (مدینہ کی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے،پھر ہم رسول اللہﷺ کے پاس سے واپس آگئے،(جب بعد میں) پھر آپ کے پاس گئے توآپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اورفرمایا: کیامعاملہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کاذکرکرتے ہوئے (اس کی حقارت اورسنگینی بیان کر تے ہوئے) اپنی آواز کو بلنداورپست کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو نے لگا کہ وہ کھجوروں کے درمیان ہے۔ آپ نے فرمایا: دجال کے علاوہ دوسری چیزوں سے میں تم پر زیادہ ڈرتا ہوں،اگروہ نکلے اورمیں تمہارے بیچ موجودہوں تومیں تمہاری جگہ خود اس سے نمٹ لوں گا،اوراگروہ نکلے اورمیں تمہارے بیچ موجود نہ رہوں تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا،اوراللہ ہرمسلمان پرمیرا خلیفہ (جانشیں) ہے ۲؎،دجال گھنگھریالے بالوں والاجوان ہوگا،اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہوگی گویا کہ میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتاہوں،پس تم میں سے جو شخص اسے پالے اسے چاہئے کہ وہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے،وہ شام اورعراق کے درمیان سے نکلے گا اوردائیں بائیں فسادپھیلائے گا،اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر ٹھہرنے کی اس کی مدت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا: چالیس دن،ایک دن ایک سال کے برابرہوگا،ایک دن ایک مہینہ کے برابرہوگا،ایک دن ہفتہ کے برابرہوگااورباقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے،ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے وہ ایک دن جو ایک سال کے برابرہوگا کیا اس میں ایک دن کی صلاۃ کافی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اس کااندازہ کرکے پڑھنا۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زمین میں وہ کتنی تیزی سے اپنا کام کرے گا؟ آپ نے فرمایا: اس بارش کی طرح کہ جس کے پیچھے ہوا لگی ہوتی ہے (اوروہ بارش کو نہایت تیزی سے پورے علاقے میں پھیلادیتی ہے)،وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا،انہیں دعوت دے گا تو وہ اس کو جھٹلائیں گے اوراس کی بات ردکردیں گے،لہذا وہ ان کے پاس سے چلاجائے گا مگراس کے پیچھے پیچھے ان (انکار کرنے والوں) کے مال بھی چلے جائیں گے،ان کا حال یہ ہوگا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہے،پھروہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس جائے گا،انہیں دعوت دے گا،اور اس کی دعوت قبول کریں گے اوراس کی تصدیق کریں گے،تب وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا۔ آسمان بارش برسائے گا،وہ زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا،زمین غلہ اُ گائے گی،ان کے چرنے والے جانور شام کو جب (چراگاہ سے) واپس آئیں گے،توان کے کوہان پہلے سے کہیں زیادہ لمبے ہوں گے،ان کی کوکھیں زیادہ کشادہ ہوں گی اور ان کے تھن کامل طورپر(دودھ سے) بھرے ہوں گے،پھروہ کسی ویران جگہ میں آئے گا اور اس سے کہے گا: اپنا خزانہ نکال،پھروہاں سے واپس ہو گا تو اس زمین کے خزانے شہدکی مکھیوں کے سرداروں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے،پھروہ ایک بھرپوراورمکمل جوان کو بلائے گا اور تلوارسے مارکراس کے دوٹکڑے کردے گا۔ پھر اسے بلاے گا اور وہ روشن چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آجائے گا،پس دجال اسی حالت میں ہوگا کہ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کی مشرقی جانب سفیدمینار پر زردکپڑوں میں ملبوس دوفرشتوں کے بازوپرہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے،جب وہ اپناسرجھکائیں گے توپانی ٹپکے گا اورجب اٹھائیں گے تو اس سے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں گریں گی،ان کی سانس کی بھاپ جس کافر کو بھی پہنچے گی وہ مرجائے گا اوران کی سانس کی بھاپ ان کی حدنگاہ تک محسوس کی جائے گی،وہ دجال کوڈھونڈیں گے یہاں تک کہ اسے باب لُد ۳؎ کے پاس پالیں گے اوراسے قتل کردیں گے۔ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ جتنا چاہے گا عیسیٰ علیہ السلام ٹھہریں گے،پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس وحی بھیجے گا کہ میرے بندوں کو طورکی طرف لے جاؤ،اس لیے کہ میں نے کچھ ایسے بندے اتارے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں تاب نہیں ہے، اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اوروہ ویسے ہی ہوں گے جیسااللہ تعالیٰ نے کہاہے:مِّن کُلِّ حَدَبٍ یَنسِلُونَ (الأنبیاء:96) (ہربلندی سے پھیل پڑیں گے) ان کا پہلا گروہ (شام کی)بحیرہ طبریہ (نامی جھیل) سے گزرے گااوراس کا تمام پانی پی جائے گا،پھر اس سے ان کا دوسراگروہ گزرے گا توکہے گا: اس میں کبھی پانی تھا ہی نہیں،پھروہ لوگ چلتے رہیں گے یہاں تک کہ جبل بیت المقدس تک پہنچیں گے تو کہیں گے: ہم نے زمین والوں کو قتل کردیا اب آؤآسمان والوں کو قتل کریں،چنانچہ وہ لوگ آسمان کی طرف اپنے تیر چلائیں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو خون سے سرخ کرکے ان کے پاس واپس کردے گا،(اس عرصے میں) عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اوران کے ساتھی گھرے رہیں گے،یہاں تک کہ(شدید قحط سالی کی وجہ سے) اس وقت بیل کی ایک سری ان کے لیے تمہارے سودینار سے بہترمعلوم ہوگی(چیزیں اس قدر مہنگی ہوں گی)،پھر عیسیٰ بن مریم اوران کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے،تو اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑاپیداکردے گا،جس سے وہ سب دفعتاً ایک جان کی طرح مرجائیں گے،عیسیٰ اوران کے ساتھی (پہاڑسے) اتریں گے تو ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہ ہوگی جو ان کی لاشوں کی گندگی،سخت بدبواورخون سے بھری ہوئی نہ ہو،پھر عیسیٰ علیہ السلام اوران کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے بڑے پرندوں کوبھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گی،وہ لاشوں کو اٹھاکر گڈھوں میں پھینک دیں گے،مسلمان ان کے کمان،تیراورترکش سے سات سال تک ایندھن جلائیں گے ۴ ؎۔ پھر اللہ تعالیٰ ان پر ایسی بارش برسائے گا جسے کوئی کچااورپکاگھرنہیں روک پائے گا،یہ بارش زمین کودھودے گی اور اسے آئینہ کی طرح صاف شفاف کردے گی،پھرزمین سے کہاجائے گا: اپناپھل نکال اوراپنی برکت واپس لا،چنانچہ اس وقت ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہوگا،اس کے چھلکے سے یہ جماعت سایہ حاصل کرے گی،اور دودھ میں ایسی برکت ہوگی کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لیے ایک دودھ دینے والی اونٹنی کافی ہوگی،اور دودھ دینے والی ایک گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہوگی اور دودھ دینے والی ایک بکری لوگوں میں سے ایک گھرانے کو کافی ہوگی،لوگ اسی حال میں (کئی سالوں تک) رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہوابھیجے گا جو سارے مومنوں کی روح قبض کرلے گی اورباقی لوگ گدھوں کی طرح کھلے عام زناکریں گے،پھرانہیں لوگوں پر قیامت ہوگی ۵؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عبدالرحمٰن یزید بن جابرکی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ أَنَّہُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ ثَعْلَبَةَ الْأَنْصَارِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَمِّي مُجَمِّعَ ابْنَ جَارِيَةَ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ يَقْتُلُ ابْنُ مَرْيَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَنَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ وَأَبِي بَرْزَةَ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَكَيْسَانَ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ وَجَابِرٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ وَالنَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: ابن مریم علیہماالسلام دجال کوباب لُدکے پاس قتل کریں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمران بن حصین،نافع بن عتبہ،ابوبرزہ،حذیفہ بن اسید،ابوہریرہ،کیسان،عثمان،جابر،ابوامامہ،ابن مسعود،عبداللہ بن عمرو،سمرہ بن جندب،نوّاس بن سمعان،عمروبن عوف اورحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَال سَمِعْتُ أَنَسًا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ أُمَّتَہُ الْأَعْوَرَ الْكَذَّابَ أَلَا إِنَّہُ أَعْوَرُ وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْہِ ك ف ر ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی نبی ایسانہیں تھاجس نے اپنی امت کو کانے اور جھوٹے (دجال) سے نہ ڈرایاہو،سنو! وہ کانا ہے،جب کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے،اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ ک،ف،ر لکھا ہواہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا عَلَی الْأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ يَعْنِي الْيَوْمَ تَأْتِي عَلَيْہَا مِائَةُ سَنَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آج روئے زمین پر جو بھی زندہ ہے سوسال بعدنہیں رہے گا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابوسعیدخدری اوربریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَبِي بَكْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ وَہُوَ ابْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ قَالَ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِہِ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ ہَذِہِ عَلَی رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْہَا لَا يَبْقَی مِمَّنْ ہُوَ عَلَی ظَہْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَوَہِلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ تِلْكَ فِيمَا يَتَحَدَّثُونَہُ مِنْ ہَذِہِ الْأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَبْقَی مِمَّنْ ہُوَ الْيَوْمَ عَلَی ظَہْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے اپنی آخری عمرمیں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی،جب آپ سلام پھیر چکے توکھڑے ہوئے اور فرمایا: کیاتم نے اپنی اس رات کودیکھا اس وقت جتنے بھی آدمی اس روئے زمین پر ہیں سوسال گزرجانے کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:یہ سن کر لوگ مغالطے میں پڑگئے کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ سے ایسی حدیث بیان کرتے ہیں کہ سوسال کے بعد قیامت آجائے گی،حالاں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ جو آج باقی ہیں ان میں سے کوئی روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا،یعنی اس نسل اورقرن کے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ ذَرٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَسُبُّوا الرِّيحَ فَإِذَا رَأَيْتُمْ مَا تَكْرَہُونَ فَقُولُوا اللہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ ہَذِہِ الرِّيحِ وَخَيْرِ مَا فِيہَا وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِہِ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ ہَذِہِ الرِّيحِ وَشَرِّ مَا فِيہَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ وَأَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہواکو گالی مت دو،اگراس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھوتویہ دعاء پڑھواللہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ ہَذِہِ الرِّیحِ وَخَیْرِ مَا فِیہَا وَخَیْرِ مَا أُمِرَتْ بِہِ وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ہَذِہِ الرِّیحِ وَشَرِّ مَا فِیہَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِہِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابوہریرہ،عثمان،انس،ابن عباس اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ جُنْدَبٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَہُ قَالُوا وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَہُ قَالَ يَتَعَرَّضُ مِنْ الْبَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے نفس کوذلیل کرے،صحابہ نے عرض کیا: اپنے نفس کو کیسے ذلیل کرے گا؟ آپ نے فرمایا: اپنے آپ کو ایسی مصیبت سے دوچارکرے جسے جھیلنے کی وہ طاقت نہ رکھتاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ نَصَرْتُہُ مَظْلُومًا فَكَيْفَ أَنْصُرُہُ ظَالِمًا قَالَ تَكُفُّہُ عَنْ الظُّلْمِ فَذَاكَ نَصْرُكَ إِيَّاہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مددکروخواہ وہ ظالم ہویامظلوم،صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مددکی لیکن ظالم ہو نے کی صورت میں اس کی مددکیسے کروں؟ آپ نے فرمایا: اسے ظلم سے بازرکھو،اس کے لیے یہی تمہاری مددہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ وَحَمَّادٍ وَعَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَةَ سَمِعُوا أَبَا وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ أَيُّكُمْ يَحْفَظُ مَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي الْفِتْنَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ أَنَا قَالَ حُذَيْفَةُ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَہْلِہِ وَمَالِہِ وَوَلَدِہِ وَجَارِہِ يُكَفِّرُہَا الصَّلَاةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ فَقَالَ عُمَرُ لَسْتُ عَنْ ہَذَا أَسْأَلُكَ وَلَكِنْ عَنْ الْفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَہَا بَابًا مُغْلَقًا قَالَ عُمَرُ أَيُفْتَحُ أَمْ يُكْسَرُ قَالَ بَلْ يُكْسَرُ قَالَ إِذًا لَا يُغْلَقُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو وَائِلٍ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ فَقُلْتُ لِمَسْرُوقٍ سَلْ حُذَيْفَةَ عَنْ الْبَابِ فَسَأَلَہُ فَقَالَ عُمَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: رسول اللہﷺ نے فتنہ کے بارے میں جوفرمایاہے اسے کس نے یادرکھا ہے؟ حذیفہ نے کہا: میں نے یاد رکھا ہے،حذیفہ نے بیان کیا: آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل،مال،اولاد اورپڑوسی کے سلسلے میں ہوگا اسے صلاۃ،صوم،زکاۃ،امربالمعروف اورنہی عن المنکرمٹادیتے ہیں ۱؎،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہاہوں،بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہاہوں جو سمندرکی موجوں کی طرح موجیں مارے گا،انہوں نے کہا: امیرالمومنین! آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بنددروازہ ہے،عمرنے پوچھا: کیا وہ دروازہ کھولاجائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا: توڑدیاجائے گا،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تب توقیامت تک بندنہیں ہوگا۔ حمادکی روایت میں ہے کہ ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا: میں نے مسروق سے کہاکہ حذیفہ سے اس دروازہ کے بارے میں پوچھو انہوں نے پوچھاتو کہا: وہ دروازہ عمرہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّكُمْ فِي زَمَانٍ مَنْ تَرَكَ مِنْكُمْ عُشْرَ مَا أُمِرَ بِہِ ہَلَكَ ثُمَّ يَأْتِي زَمَانٌ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ بِعُشْرِ مَا أُمِرَ بِہِ نَجَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ نُعَيْمِ بْنِ حَمَّادٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم لوگ ایسے زمانہ میں ہوکہ جو اس کا دسواں حصہ چھوڑدے جس کا اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے تووہ ہلاک ہوجائے گا،پھر ایک ایسازمانہ آئے گا کہ تم میں سے جو اس کے دسویں حصہ پر عمل کرے جس کا اسے کرنے کاحکم دیا گیاہے تووہ نجات پاجاگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف نعیم بن حماد کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ سفیان بن عیینہ سے روایت کرتے ہیں،۲-اس باب میں ابوذراورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ ہَاہُنَا أَرْضُ الْفِتَنِ وَأَشَارَ إِلَی الْمَشْرِقِ يَعْنِي حَيْثُ يَطْلُعُ جِذْلُ الشَّيْطَانِ أَوْ قَالَ قَرْنُ الشَّيْطَانِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منبرپرکھڑے ہوئے اورفرمایا: فتنے کی سرزمین وہاں ہے اورآپ نے مشرق (پورب)کی طرف اشارہ کیا یعنی جہاں سے شیطان کی شاخ یا سینگ نکلتی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِيِّ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَايَاتٌ سُودٌ لَا يَرُدُّہَا شَيْءٌ حَتَّی تُنْصَبَ بِإِيلِيَاءَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے،ان جھنڈوں کوکوئی چیزپھیرنہیں سکے گی یہاں تک کہ (فلسطین کے شہر) ایلیاء میں یہ نصب کیے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،عَنْ أَبِي قَتَادَةَ،عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ [ص:536] أَنَّہُ قَالَ: ((الرُّؤْيَا مِنَ اللہِ وَالحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ،فَإِذَا رَأَی أَحَدُكُمْ شَيْئًا يَكْرَہُہُ فَلْيَنْفُثْ عَنْ يَسَارِہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ،وَلْيَسْتَعِذْ بِاللہِ مِنْ شَرِّہَا فَإِنَّہَا لَا تَضُرُّہُ)) وَفِي البَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو،وَأَبِي سَعِيدٍ،وَجَابِرٍ،وَأَنَسٍ ((وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا،اس لیے کہ شیطان میری شکل اختیارنہیں کرسکتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابوقتادہ،ابن عباس،ابوسعیدخدری،جابر،انس،ابومالک اشجعی کے والد،ابوبکرہ اورابوحجیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَی بْنُ عَطَاءٍ قَال سَمِعْتُ وَكِيعَ بْنَ عُدُسٍ عَنْ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ أَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ وَہِيَ عَلَی رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ يَتَحَدَّثْ بِہَا فَإِذَا تَحَدَّثَ بِہَا سَقَطَتْ قَالَ وَأَحْسَبُہُ قَالَ وَلَا يُحَدِّثُ بِہَا إِلَّا لَبِيبًا أَوْ حَبِيبًا

ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کا خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہے اورخواب کی جب تک تعبیرنہ بیان کی جائے وہ ایک پرندے کے پنجہ میں ہوتا ہے،پھر جب تعبیر بیان کردی جاتی ہے تووہ واقع ہوجاتاہے ۱؎ ،ابو رزین کہتے ہیں: میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا: خواب صرف اس سے بیان کرو جو عقل مندہویاجس سے تمہاری دوستی ہو۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ وَكِيعِ بْنِ عُدُسٍ عَنْ عَمِّہِ أَبِي رَزِينٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ رُؤْيَا الْمُسْلِمِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ وَہِيَ عَلَی رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ يُحَدِّثْ بِہَا فَإِذَا حَدَّثَ بِہَا وَقَعَتْ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو رَزِينٍ الْعُقَيْلِيُّ اسْمُہُ لَقِيطُ بْنُ عَامِرٍ وَرَوَی حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ فَقَالَ عَنْ وَكِيعِ بْنِ حُدُسٍ و قَالَ شُعْبَةُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَہُشَيْمٌ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ وَكِيعِ بْنِ عُدُسٍ وَہَذَا أَصَحُّ

ابورزین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مسلمان کاخواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہوتاہے اورخواب کی جب تک تعبیرنہ بیان کی جائے وہ ایک پرندے کے پنجہ میں ہوتاہے پھرجب تعبیربیان کردی جاتی ہے تووہ واقع ہوجاتا ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابورزین عقیلی کا نام لقیط بن عامرہے،۳-حماد بن سلمہ نے اسے یعلی بن عطاء سے روایت کرتے ہوے وکیع بن حدسکہا ہے جب کہ شعبہ،ابوعوانہ اورہشیم نے اسے یعلی بن عطاسے روایت کرتے ہوے وکیع بن عدسکہا ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدِ اللہِ السَّلِيمِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ فَرُؤْيَا حَقٌّ وَرُؤْيَا يُحَدِّثُ بِہَا الرَّجُلُ نَفْسَہُ وَرُؤْيَا تَحْزِينٌ مِنْ الشَّيْطَانِ فَمَنْ رَأَی مَا يَكْرَہُ فَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ وَكَانَ يَقُولُ يُعْجِبُنِي الْقَيْدُ وَأَكْرَہُ الْغُلَّ الْقَيْدُ ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ وَكَانَ يَقُولُ مَنْ رَآنِي فَإِنِّي أَنَا ہُوَ فَإِنَّہُ لَيْسَ لِلشَّيْطَانِ أَنْ يَتَمَثَّلَ بِي وَكَانَ يَقُولُ لَا تُقَصُّ الرُّؤْيَا إِلَّا عَلَی عَالِمٍ أَوْ نَاصِحٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي بَكْرَةَ وَأُمِّ الْعَلَاءِ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَأَبِي مُوسَی وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: خواب تین قسم کے ہوتے ہیں،ایک خواب وہ ہے جوسچاہوتاہے،ایک خواب وہ ہے کہ آدمی جوکچھ سوچتارہتا ہے،اسی کو خواب میں دیکھتا ہے،اورایک خواب ایساہے جوشیطان کی طرف سے ہوتا ہے اورغم وصدمہ کاسبب ہوتا ہے،لہذا جو شخص خواب میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اٹھ کر صلاۃ پڑھے،آپﷺ کہا کرتے تھے: مجھے خواب میں بیڑی کادیکھنااچھالگتاہے اور طوق دیکھنے کو میں ناپسندکرتاہوں،بیڑی کی تعبیردین پر ثابت قدمی (جمے رہنا) ہے،آپﷺ کہاکرتے تھے: جس نے خواب میں مجھے دیکھا تو وہ میں ہی ہوں،اس لیے کہ شیطان میری شکل نہیں اپناسکتا ہے ،آپ ﷺفرمایا کرتے تھے: خواب کسی عالم یا خیرخواہ سے ہی بیان کیا جائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،ابوبکرہ،ام العلاء،ابن عمر،عائشہ،ابوموسیٰ،جابر،ابوسعیدخدری،ابن عباس اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْہُ ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالُوا فَمَا أَوَّلْتَہُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الْعِلْمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ وَخُزَيْمَةَ وَالطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَجَابِرٍ قَالَ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: میں سویا ہواتھا کہ اس دوران میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لا یاگیا،میں نے اس سے پیاپھر اپناجھوٹا عمربن خطاب کو دے دیا،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیرکی؟ فرمایا: علم سے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر کی حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابوبکرہ،ابن عباس،عبداللہ بن سلام،خزیمہ،طفیل بن سخبرہ،ابوامامہ اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الحُسَيْنُ بْنُ مُحمَّدٍ الْجَرِيرِيُّ البَلْخِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،عَنْ مَعْمَرٍ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ،عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ،ﷺ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: ((بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ وَعَلَيْہِمْ قُمُصٌ مِنْہَا مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ،وَمِنْہَا مَا يَبْلُغُ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ فَعُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ وَعَلَيْہِ قَمِيصٌ يَجُرُّہُ)). قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَہُ يَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: ((الدِّينَ))

ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:میں سویا ہوا تھا دیکھا: لوگ میرے سامنے پیش کیے جارہے ہیں اوروہ قمیص پہنے ہوے ہیں،بعض کی قمیص چھاتی تک پہنچ رہی تھی اوربعض کی اس سے نیچے تک پہنچ رہی تھی،پھر میرے سامنے عمرکو پیش کیاگیاان کے جسم پرجو قمیص تھی وہ اسے گھسیٹ رہے تھے،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیرکی؟آپ نے فرمایا: دین سے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ،عَنِ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ،[ص:540] عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ. وَہَذَا أَصَحُّ

اس سند سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی اوراسی معنی کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ،عَنْ أَبِي عَمْرَةَ الأَنْصَارِيِّ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُہَنِيِّ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّہَدَاءِ؟ الَّذِي يَأْتِي بِالشَّہَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَہَا))

زیدبن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں سب سے اچھے گواہ کے بارے میں نہ بتادوں؟ سب سے اچھا گواہ وہ آدمی ہے جوگواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ،عَنْ مَالِكٍ،نَحْوَہُ وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَمْرَةَ: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَكْثَرُ النَّاسِ يَقُولُونَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ وَاخْتَلَفُوا عَلَی مَالِكٍ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الحَدِيثِ،فَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ أَبِي عَمْرَةَ،وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمْرَةَ وَہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ الأَنْصَارِيُّ،وَہَذَا أَصَحُّ لِأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ مَالِكٍ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ [ص:545] أَبِي عَمْرَةَ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ غَيْرُ ہَذَا الحَدِيثِ وَہُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ أَيْضًا وَأَبُو عَمْرَةَ ہُوَ مَوْلَی زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُہَنِيِّ وَلَہُ حَدِيثُ الغُلُولِ لِأَبِي عَمْرَةَ

اس سندسے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اکثرلوگوں نے اپنی روایت میں عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ کہاہے۔۳-اس حدیث کی روایت کرنے میں مالک کے شاگردوں کا اختلاف ہے،بعض راویوں نے اسے ابی عمرہ سے روایت کیا ہے،اور بعض نے ابن ابی عمرہ سے،ان کانام عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری ہے،ابن ابی عمرہ زیادہ صحیح ہے،کیوں کہ مالک کے سوا دوسرے راویوں نے عن عبدالرحمٰن بن أبی عمرۃ عن زید بن خالدکہاہے عن ابن أبی عمرۃ عن زید بن خالدکی سندسے اس کے علاوہ دوسری حدیث بھی مروی ہے،اوروہ صحیح حدیث ہے،ابوعمرہ زیدبن خالد جہنی کے آزادکردہ غلام تھے،اورابوعمرہ کے واسطہ سے خالد سے حدیث غلول مروی ہے،اکثرلوگ عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ ہی کہتے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ بِنْتِ أَزْہَرَ السَّمَّانِ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ الجُہَنِيُّ،أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: ((خَيْرُ الشُّہَدَاءِ مَنْ أَدَّی شَہَادَتَہُ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَہَا)). ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الوَجْہِ))

زیدبن خالدجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: سب سے بہترگواہ وہ ہے جوگواہی طلب کیے جانے سے پہلے اپنی گواہی کافریضہ اداکردے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ الْفَزَارِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَجُوزُ شَہَادَةُ خَائِنٍ وَلَا خَائِنَةٍ وَلَا مَجْلُودٍ حَدًّا وَلَا مَجْلُودَةٍ وَلَا ذِي غِمْرٍ لِأَخِيہِ وَلَا مُجَرَّبِ شَہَادَةٍ وَلَا الْقَانِعِ أَہْلَ الْبَيْتِ لَہُمْ وَلَا ظَنِينٍ فِي وَلَاءٍ وَلَا قَرَابَةٍ قَالَ الْفَزَارِيُّ الْقَانِعُ التَّابِعُ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ وَيَزِيدُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَلَا يُعْرَفُ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ وَلَا نَعْرِفُ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ وَلَا يَصِحُّ عِنْدِي مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِہِ وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ہَذَا أَنَّ شَہَادَةَ الْقَرِيبِ جَائِزَةٌ لِقَرَابَتِہِ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي شَہَادَةِ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ وَالْوَلَدِ لِوَالِدِہِ وَلَمْ يُجِزْ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ شَہَادَةَ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ وَلَا الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَ عَدْلًا فَشَہَادَةُ الْوَالِدِ لِلْوَلَدِ جَائِزَةٌ وَكَذَلِكَ شَہَادَةُ الْوَلَدِ لِلْوَالِدِ وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِي شَہَادَةِ الْأَخِ لِأَخِيہِ أَنَّہَا جَائِزَةٌ وَكَذَلِكَ شَہَادَةُ كُلِّ قَرِيبٍ لِقَرِيبِہِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا تَجُوزُ شَہَادَةٌ لِرَجُلٍ عَلَی الْآخَرِ وَإِنْ كَانَ عَدْلًا إِذَا كَانَتْ بَيْنَہُمَا عَدَاوَةٌ وَذَہَبَ إِلَی حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا لَا تَجُوزُ شَہَادَةُ صَاحِبِ إِحْنَةٍ يَعْنِي صَاحِبَ عَدَاوَةٍ وَكَذَلِكَ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ حَيْثُ قَالَ لَا تَجُوزُ شَہَادَةُ صَاحِبِ غِمْرٍ لِأَخِيہِ يَعْنِي صَاحِبَ عَدَاوَةٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: خیانت کرنے والے مرد اور عورت کی گواہی درست اورمقبول نہیں ہے،اورنہ ان مردوں اورعورتوں کی گواہی مقبول ہے جن پر حدنافذہوچکی ہے،نہ اپنے بھائی سے دشمنی رکھنے والے کی گواہی مقبول ہے،نہ اس آدمی کی جس کی ایک بارجھوٹی گواہی آزمائی جاچکی ہو،نہ اس شخص کی گواہی جوکسی کے زیرکفالت ہو اس کفیل خاندان کے حق میں (جیسے مزدوروغیرہ) اورنہ اس شخص کی جو ولاء یا رشتہ داری کی نسبت میں متہم ہو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صر ف یزید بن زیاد دمشقی کی روایت سے جانتے ہیں،اوریزیدضعیف الحدیث ہیں،نیز یہ حدیث زہری کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے،۳-اس باب میں عبداللہ بن عمروسے بھی حدیث مروی ہے،۴-فزازی کہتے ہیں: قانع سے مراد تابع ہے،۵-اس حدیث کا مطلب ہم نہیں سمجھتے اورنہ ہی سندکے اعتبارسے یہ میرے نزدیک صحیح ہے،۶-اس بارے میں اہل علم کا عمل ہے کہ رشتہ دارکے لیے رشتہ کی گواہی درست ہے،البتہ بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کے بارے میں اہل علم کااختلاف ہے،اکثراہل علم بیٹے کے حق میں باپ کی گواہی یا باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی کودرست نہیں سمجھتے،۷-بعض اہل علم کہتے ہیں: جب گواہی دینے والاعادل ہو تو باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں اسی طرح باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی درست ہے،۸-بھائی کی گواہی کے جواز کے بارے میں اختلاف نہیں ہے،۹-اسی طرح رشتہ دارکے لیے رشتہ دار کی گواہی میں بھی اختلاف نہیں ہے،۱۰-امام شافعی کہتے ہیں: جب دوآدمیوں میں دشمنی ہوتو ایک کے خلاف دوسرے کی گواہی درست نہ ہوگی،گرچہ گواہی دینے والا عادل ہو،انہوں نے عبدالرحمٰن اعرج کی حدیث سے استدلال کیا ہے جونبی اکرمﷺ سے مرسلاً مروی ہے کہ دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے،اسی طرح اس(مذکورہ) حدیث کابھی مفہوم یہی ہے،(جس میں)آپ نے فرمایا: اپنے بھائی کے لیے دشمنی رکھنے والے کی گواہی درست نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ،عَنْ قَتَادَةَ،قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا،يُحَدِّثُ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللہِ أَحَبَّ اللہُ لِقَاءَہُ،وَمَنْ كَرِہَ لِقَاءَ اللہِ كَرِہَ اللہُ لِقَاءَہُ)) وَفِي البَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،وَعَائِشَةَ،وَأَنَسٍ،وَأَبِي مُوسَی ((حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملناچاہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملناچاہے گا،اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا ناپسند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند کرے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبادہ کی حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ام المومنین عائشہ،انس اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ،عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ المُہَاجِرِ،عَنْ مُجَاہِدٍ،عَنْ مُوَرِّقٍ،عَنْ أَبِي ذَرٍّ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((إِنِّي أَرَی مَا لَا تَرَوْنَ،وَأَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ أَطَّتِ السَّمَاءُ،وَحُقَّ لَہَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيہَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلَّا وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْہَتَہُ سَاجِدًا لِلَّہِ،وَاللہِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا،وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَاءِ عَلَی الفُرُشِ وَلَخَرَجْتُمْ إِلَی الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَی اللہِ،لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ)) وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،وَعَائِشَةَ،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَأَنَسٍ. ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَيُرْوَی مِنْ غَيْرِ ہَذَا الوَجْہِ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ،قَالَ: ((لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ))،وَيُرْوَی عَنْ أَبِي ذَرٍّ مَوْقُوفًا

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک میں وہ چیزدیکھ رہاہوں جوتم نہیں دیکھتے اوروہ سن رہاہوں جو تم نہیں سنتے۔بیشک آسمان چرچرارہا ہے اور اسے چرچرانے کاحق بھی ہے،اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ نہیں خالی ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضوررکھے ہوئے ہے،اللہ کی قسم! جو میں جانتاہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لوتو ہنسوگے کم اور رؤگے زیادہ اور بستروں پراپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہوگے،اور یقینا تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاتے،(اورابوذر) فرما یاکرتے تھے کہ کاش میں ایک درخت ہوتا جوکاٹ دیاجاتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اور یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس کے علاوہ ایک دوسری سندسے بھی مروی ہے کہ ابوذر فرمایاکرتے تھے: کاش میں ایک درخت ہوتا کہ جسے لوگ کاٹ ڈالتے،۳-اس باب میں ابوہریرہ،عائشہ،ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جومیں جانتاہوں اگر تم لوگ جان لیتے توہنستے کم اورروتے زیادہ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ قَال سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ قُرَّةَ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ ضَمْرَةَ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ مَا فِيہَا إِلَّا ذِكْرُ اللہِ وَمَا وَالَاہُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بیشک دنیا ملعون ہے اورجوکچھ دنیامیں ہے وہ بھی ملعون ہے،سوائے اللہ کی یاداور اس چیزکے جس کو اللہ پسندکرتا ہے،یا عالم (علم والے) اورمتعلم(علم سیکھنے والے) کے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ قَال سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا أَخَا بَنِي فِہْرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَہُ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَاذَا يَرْجِعُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ يُكْنَی أَبَا عَبْدِ اللہِ وَوَالِدُ قَيْسٍ أَبُو حَازِمٍ اسْمُہُ عَبْدُ بْنُ عَوْفٍ وَہُوَ مِنْ الصَّحَابَةِ

مستورد بن شدادفہری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا کی مثال آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندرمیں ڈبوئے اور پھردیکھے کہ اس کی انگلی سمندرکا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسماعیل بن ابی خالد کی کنیت ابوعبداللہ ہے،۳-قیس کے والد ابوحازم کانام عبدبن عوف ہے اوریہ صحابی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ خَبَّابٍ عَنْ سَعِيدٍ الطَّائِيِّ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ أَنَّہُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ الْأَنَّمَارِيُّ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ ثَلَاثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْہِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوہُ قَالَ مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَةً فَصَبَرَ عَلَيْہَا إِلَّا زَادَہُ اللہُ عِزًّا وَلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللہُ عَلَيْہِ بَابَ فَقْرٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَہَا وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوہُ قَالَ إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ عَبْدٍ رَزَقَہُ اللہُ مَالًا وَعِلْمًا فَہُوَ يَتَّقِي فِيہِ رَبَّہُ وَيَصِلُ فِيہِ رَحِمَہُ وَيَعْلَمُ لِلَّہِ فِيہِ حَقًّا فَہَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ رَزَقَہُ اللہُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْہُ مَالًا فَہُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُولُ لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَہُوَ بِنِيَّتِہِ فَأَجْرُہُمَا سَوَاءٌ وَعَبْدٍ رَزَقَہُ اللہُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْہُ عِلْمًا فَہُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيہِ رَبَّہُ وَلَا يَصِلُ فِيہِ رَحِمَہُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّہِ فِيہِ حَقًّا فَہَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْہُ اللہُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَہُوَ يَقُولُ لَوْ أَنَّ لِي مَالًا لَعَمِلْتُ فِيہِ بِعَمَلِ فُلَانٍ فَہُوَ بِنِيَّتِہِ فَوِزْرُہُمَا سَوَاءٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:میں تین باتوں پر قسم کھاتاہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کررہاہوں جسے یاد رکھو، کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی (یہ پہلی بات ہے)،اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتاہے(دوسری بات ہے)،اور اگر کوئی شخص پہنے کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقرومحتاجی کا دروازہ کھول دیتاہے۔(یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا) (یہ تیسری بات ہے) اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کررہاہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو: یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال اورعلم کی دولت دی،وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتاہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتاہے ۱؎ اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتاہے ۲؎ ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہترہے۔اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا،لیکن مال ودولت سے اسے محروم رکھا پھربھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتاہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہذااسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا،اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال ودولت سے نوازالیکن اسیعلم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیارکرتا ہے،اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے،نہ ہی صلہ رحمی کرتاہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتاہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے،اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال ودولت اور علم دونوں سے محروم رکھا،وہ کہتاہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بارگناہ برابر ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ وَالْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ جَاءَ مُعَاوِيَةُ إِلَی أَبِي ہَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَہُوَ مَرِيضٌ يَعُودُہُ فَقَالَ يَا خَالُ مَا يُبْكِيكَ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ أَمْ حِرْصٌ عَلَی الدُّنْيَا قَالَ كُلٌّ لَا وَلَكِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَہِدَ إِلَيَّ عَہْدًا لَمْ آخُذْ بِہِ قَالَ إِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللہِ وَأَجِدُنِي الْيَوْمَ قَدْ جَمَعْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی زَائِدَةُ وَعَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَہْمٍ قَالَ دَخَلَ مُعَاوِيَةُ عَلَی أَبِي ہَاشِمٍ فَذَكَرَ نَحْوَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ ابوہاشم بن عتبہ بن ربیعہ القرشی کی بیماری کے وقت ان کی عیادت کے لیے آئے اور کہا: اے ماموں جان! کیا چیزآپ کو رُلارہی ہے؟کسی دردسے آپ بے چین ہیں یا دنیا کی حرص ستارہی ہے،ابوہاشم نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے،البتہ رسول اللہﷺ نے مجھے ایک وصیت کی تھی جس پر میں عمل نہ کرسکا۔آپ نے فرمایاتھا: تمہارے لیے پورے سرمایہ میں سے ایک خادم اور ایک سواری جو اللہ کی راہ میں کام آئے کافی ہے،جب کہ اس وقت میں نے اپنے پاس بہت کچھ جمع کرلیاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-زائدہ اور عبیدہ بن حمید نے منصور عن أبی وائل عن سمرۃ بن سہم کی سند سے روایت کی ہے جس میں یہ نقل کیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ابوہاشم کے پاس داخل ہوئے پھر اسی کے مانندحدیث ذکر کی ۲-اس باب میں بریدہ اسلمی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ سَعْدِ بْنِ الْأَخْرَمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جائداد ۱؎ کو مت بناؤ کہ اس کی وجہ سے تمہیں دنیا کی رغبت ہوجائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عُمْرُ أُمَّتِي مِنْ سِتِّينَ سَنَةً إِلَی سَبْعِينَ سَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے اکثرلوگوں کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک کے درمیان ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوصالح کی یہ حدیث جسے وہ ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث ابوہریرہ سے اس کے علاوہ کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی يَتَقَارَبَ الزَّمَانُ فَتَكُونُ السَّنَةُ كَالشَّہْرِ وَالشَّہْرُ كَالْجُمُعَةِ وَتَكُونُ الْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ وَيَكُونُ الْيَوْمُ كَالسَّاعَةِ وَتَكُونُ السَّاعَةُ كَالضَّرَمَةِ بِالنَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ہُوَ أَخُو يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ زمانہ قریب ہوجائے گا ۱؎ سال ایک مہینہ کے برابر ہوجائے گا جب کہ ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر اور ایک ہفتہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک ساعت (گھڑی)کے برابر ہوجائے گا اور ایک ساعت (گھڑی) آگ سے پیداہونے والی چنگاری کے برابر ہوجائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ حَلْبَسٍ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الزَّہَادَةُ فِي الدُّنْيَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيمِ الْحَلَالِ وَلَا إِضَاعَةِ الْمَالِ وَلَكِنَّ الزَّہَادَةَ فِي الدُّنْيَا أَنْ لَا تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِمَّا فِي يَدَيْ اللہِ وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أَنْتَ أُصِبْتَ بِہَا أَرْغَبَ فِيہَا لَوْ أَنَّہَا أُبْقِيَتْ لَكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُہُ عَائِذُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَعَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ

ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: دنیا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے اور مال کوبربادکردے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جومال تمہارے ہاتھ میں ہے،اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہیں مصیبت کے ثواب کی اس قدر رغبت ہوکہ جب تم مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ توخواہش کرو کہ یہ مصیبت باقی رہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-راوی حدیث عمرو بن واقد منکرالحدیث ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ہُوَ الْيَمَامِيُّ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَال سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ إِنْ تَبْذُلْ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَكَ وَإِنْ تُمْسِكْہُ شَرٌّ لَكَ وَلَا تُلَامُ عَلَی كَفَافٍ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَشَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ يُكْنَی أَبَا عَمَّارٍ

ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ابن آدم! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گاتو یہ تیرے لیے بہتر ہوگا،اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہوگا،اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ وخیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے،اور اوپروالا (دینے والا)ہاتھ نیچے والے ہاتھ (مانگنے والے) سے بہتر ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ وَمَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُمَيْلَةَ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ مِحْصَنٍ الْخَطْمِيِّ عَنْ أَبِيہِ وَكَانَتْ لَہُ صُحْبَةٌ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِہِ مُعَافًی فِي جَسَدِہِ عِنْدَہُ قُوتُ يَوْمِہِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَہُ الدُّنْيَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَحِيزَتْ جُمِعَتْ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ نَحْوَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ

عبیداللہ بن محصن خطمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھریا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،اسے ہم صرف مروان بن معاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اور حیزت کا مطلب یہ ہے کہ جمع کی گئی۔اس سند سے بھی عبید اللہ بن محصن خطمی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس باب میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ المُبَارَكِ،عَنْ يَحْيَی بْنِ أَيُّوبَ،عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ،عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ،عَنْ القَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ،عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،قَالَ: ((إِنَّ أَغْبَطَ أَوْلِيَائِي عِنْدِي لَمُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنَ الصَّلَاةِ،أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّہِ وَأَطَاعَہُ فِي السِّرِّ،وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لَا يُشَارُ إِلَيْہِ بِالْأَصَابِعِ،وَكَانَ رِزْقُہُ كَفَافًا فَصَبَرَ عَلَی ذَلِكَ))،ثُمَّ نَقَرَ بِإِصْبَعَيْہِ فَقَالَ: ((عُجِّلَتْ مَنِيَّتُہُ قَلَّتْ بَوَاكِيہِ قَلَّ تُرَاثُہُ))

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میرے دوستوں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ رشک کرنے کے لائق وہ مومن ہے جو مال اوراولاد سے ہلکاپھلکاہو،صلاۃ میں جسے راحت ملتی ہو،اپنے رب کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرنے والا ہو،اور خلوت میں بھی اس کامطیع وفرماں برداررہاہو،لوگوں کے درمیان ایسی گمنامی کی زندگی گزار رہاہوکہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جاتا،اور اس کا رزق بقدر کفاف ہو پھر بھی اس پر صابررہے،پھرآپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارااور فرمایا: جلدی اس کی موت آئے تاکہ اس پر رونے والیاں تھوڑی ہوں اور اس کی میراث کم ہو۔اسی سند سے مزید روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میرے رب نے مجھ پر اس بات کو پیش کیاکہ مکہ کی کنکریلی زمین کو سونا بنادے لیکن میں نے کہا:نہیں اے میرے رب! میں توچاہتاہوں کہ ایک دن آسودہ رہوں اور ایک دن بھوکا،یافرمایا: تین دن،یا اسی کے مانندکچھ اورفرمایا،پس جب میں بھوکا رہوں گا توتیرے لیے عاجزی اور مسکنت ظاہر کروں گا اور تجھے یاد کروں گا،اور جب آسودہ رہوں گا تو تیرا شکر اداکروں گا اور تیری حمد بجالاؤں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں فضالہ بن عبید سے بھی روایت ہے،اور قاسم یہ قاسم بن عبدالرحمٰن ہیں جن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے،یہ بھی کہاجاتاہے کہ ان کی کنیت ابوعبدالملک ہے،یہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزادکردہ غلام ہیں،شامی ہیں،ثقہ ہیں،۳-علی بن یزیدحدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،ان کی کنیت ابوعبدالملک ہے۔

حَدَّثَنَا العَبَّاسُ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ المُقْرِئُ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ،عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ شَرِيكٍ،عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الحُبُلِيِّ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَہُ اللہُ)). ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر کفاف اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے (اپنے دئے ہوئے پر) قانع بنادیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا العَبَّاسُ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ المُقْرِئُ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو ہَانِئٍ الخَوْلَانِيُّ،أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الجَنْبِيَّ،أَخْبَرَہُ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ،أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: ((طُوبَی لِمَنْ ہُدِيَ إِلَی الإِسْلَامِ،وَكَانَ عَيْشُہُ كَفَافًا وَقَنَعَ)) وَأَبُو ہَانِئٍ اسْمُہُ: حُمَيْدُ بْنُ ہَانِئٍ : ((ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ))

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: مبارکبادی ہو اس شخص کو جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اسے بقدر کفاف روزی ملی پھروہ اسی پر قانع ومطمئن رہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوہانی کانام حمید بن ہانی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فُقَرَاءُ الْمُہَاجِرِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِہِمْ بِخَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مہاجر فقراء جنت میں مالدارمہاجر سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،عبداللہ بن عمرو اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ وضاحت ۱؎: یہ اس لیے کہ غریب مہاجرکے پاس چونکہ مال کم تھا،اس لیے انہیں حساب و کتاب میں زیادہ تاخیر نہیں ہوگی،جب کہ مالدار مہاجرین کو مال کے حساب میں بہت تاخیر ہوگی،اس سے غریب کی فضیلت معلوم ہوئی۔آخرت کاآدھادن دنیاکے پانچ سوسال کے برابرہوگا،اس لحاظ سے جس حدیث میں آدھے دن کا ذکرہے اس سے آخرت کا آدھا دن مرادہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ وَاصِلٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَابِدُ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ اللَّيْثِيُّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اللہُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِنَّہُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِہِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا يَا عَائِشَةُ لَا تَرُدِّي الْمِسْكِينَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ وَقَرِّبِيہِمْ فَإِنَّ اللہَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے دعاکی:اللہُمَّ أَحْیِنِی مِسْکِینًا وَأَمِتْنِی مِسْکِینًا وَاحْشُرْنِی فِی زُمْرَۃِ الْمَسَاکِینِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۱؎ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا اللہ کے رسول! ایساکیوں؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ مساکین جنت میں اغنیاء سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے،لہذا اے عائشہ کسی بھی مسکین کو دروازے سے واپس نہ کرو اگرچہ کھجور کاایک ٹکڑا ہی سہی،عائشہ! مسکینوں سے محبت کرو اوران سے قربت اختیا رکرو،بے شک اللہ تعالیٰ تم کو روزقیامت اپنے سے قریب کرے گا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَدْخُلُ الْفُقَرَاءُ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ بِخَمْسِ مِائَةِ عَامٍ نِصْفِ يَوْمٍ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فقراء جنت میں مالداروں سے پانچ سو برس پہلے داخل ہوں گے اور یہ قیامت کے آدھا دن کے برابر ہوگا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا المُحَارِبِيُّ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((يَدْخُلُ فُقَرَاءُ المُسْلِمِينَ الجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِہِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَہُوَ خَمْسُمِائَةِ عَامٍ)) ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:فقیرومحتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے آدھادن پہلے داخل ہوں گے اور یہ آدھادن پانچ سو برس کے برابر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ عَمْرِو بْنِ جَابِرٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِہِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: فقیرومحتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی عَائِشَةَ فَدَعَتْ لِي بِطَعَامٍ وَقَالَتْ مَا أَشْبَعُ مِنْ طَعَامٍ فَأَشَاءُ أَنْ أَبْكِيَ إِلَّا بَكَيْتُ قَالَ قُلْتُ لِمَ قَالَتْ أَذْكُرُ الْحَالَ الَّتِي فَارَقَ عَلَيْہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ الدُّنْيَا وَاللہِ مَا شَبِعَ مِنْ خُبْزٍ وَلَحْمٍ مَرَّتَيْنِ فِي يَوْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مسروق کہتے ہیں: میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمارے لیے کھانا طلب کیااورکہاکہ میں کسی کھانے سے سیرنہیں ہوتی ہوں کہ رونا چاہتی ہوں پھر رونے لگتی ہوں۔میں نے سوال کیا: ایسا کیوں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس حالت کو یاد کرتی ہوں جس پر رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوا،اللہ کی قسم! آپ روٹی اور گوشت سے ایک دن میں دوبار کبھی سیر نہیں ہوئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا شَبِعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ خُبْزِ شَعِيرٍ يَوْمَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ حَتَّی قُبِضَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺنے دوروز متواتر جو کی روٹی کبھی سیر ہوکرنہیں کھائی یہاں تک کہ آپ وفات پاگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ مَا شَبِعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَہْلُہُ ثَلَاثًا تِبَاعًا مِنْ خُبْزِ الْبُرِّ حَتَّی فَارَقَ الدُّنْيَا ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اہل خانہ نے مسلسل تین دن تک گیہوں کی روٹی سیرہوکرنہیں کھائی یہاں تک کہ آپ رحلت فرماگئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ مَا كَانَ يَفْضُلُ عَنْ أَہْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ ﷺ خُبْزُ الشَّعِيرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَيَحْيَی بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ہَذَا كُوفِيٌّ وَأَبُو بُكَيْرٍ وَالِدُ يَحْيَی رَوَی لَہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَيَحْيَی بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُكَيْرٍ مِصْرِيٌّ صَاحِبُ اللَّيْثِ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ کے گھرسے جو کی روٹی(اہل خانہ کی) ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲-یحییٰ بن ابی بکیر کوفی ہیں،ابوبکیرجو یحییٰ کے والد ہیں سفیان ثوری نے ان کی حدیث روایت کی ہے،۳-یحییٰ بن عبداللہ بن بکیر مصری ہیں اور لیث کے شاگرد ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الجُمَحِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ،عَنْ ہِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ،عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ: ((كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَبِيتُ اللَّيَالِي المُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَأَہْلُہُ لَا يَجِدُونَ عَشَاءً وَكَانَ أَكْثَرُ خُبْزِہِمْ خُبْزَ الشَّعِيرِ)): ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ اور آپ کے گھروالے مسلسل کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے،اور رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔اور ان کی اکثر خوراک جوکی روٹی ہوتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ عُمَارَةَ بْنِ القَعْقَاعِ،عَنْ أَبِي زُرْعَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((اللہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا)): ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ دعاکیاللہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا اے اللہ! محمدﷺ کے گھروالوں کوصرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقراررہ سکے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ ثَابِتٍ،عَنْ أَنَسٍ،قَالَ: ((كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يَدَّخِرُ شَيْئًا لِغَدٍ)): ((ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ)) وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الحَدِيثُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ،عَنْ ثَابِتٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ((مُرْسَلًا))

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ آنے والے کل کے لیے کچھ نہیں رکھ چھوڑتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-یہ حدیث عن جعفر بن سلیمان عن ثابت عن النبی ﷺ کی سند سے مرسلا بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ مَا أَكَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی خِوَانٍ وَلَا أَكَلَ خُبْزًا مُرَقَّقًا حَتَّی مَاتَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے چوکی(یامیز) پر کھانا کبھی نہیں کھایا اور نہ ہی کبھی باریک آٹے کی روٹی کھائی یہاں تک کہ دنیاسے کوچ کرگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث سعید بن ابی عروبہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ المَجِيدِ الحَنَفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ،عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ،أَنَّہُ قِيلَ لَہُ: أَكَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ النَّقِيَّ؟ يَعْنِي الحُوَّارَی،فَقَالَ سَہْلٌ: ((مَا رَأَی رَسُولُ اللہِ ﷺ النَّقِيَّ حَتَّی لَقِيَ اللہَ))،فَقِيلَ لَہُ: ہَلْ كَانَتْ لَكُمْ مَنَاخِلُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ؟ قَالَ: ((مَا كَانَتْ لَنَا مَنَاخِلُ))،قِيلَ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِالشَّعِيرِ؟ قَالَ: ((كُنَّا نَنْفُخُہُ فَيَطِيرُ مِنْہُ مَا طَارَ،ثُمَّ نُثَرِّيہِ فَنَعْجِنُہُ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،وَقَدْ رَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ،عَنْ أَبِي حَازِمٍ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھاگیا: کیا رسول اللہ ﷺ نے کبھی میدہ کی روٹی کھائی ہے؟ سہل نے جواب دیا: رسول اللہ ﷺ نے میدہ کی روٹی دیکھی بھی نہیں یہاں تک کہ رحلت فرماگیے۔پھر ان سے پوچھاگیا: کیا آپ لوگوں کے پاس عہد نبوی میں چھلنی تھی؟ کہا ہم لوگوں کے پاس چھلنی نہیں تھی۔پھر ان سے پوچھاگیا کہ آپ لوگ جو کے آٹے کوکیسے صاف کرتے تھے؟ تو کہا: پہلے ہم اس میں پھونکیں مارتے تھے توجو اڑنا ہوتا وہ اڑجاتاتھا پھر ہم اس میں پانی ڈال کراسے گوندھ لیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کو مالک بن انس نے بھی ابوحازم سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُہُ

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: دوبھوکے بھیڑیئے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑدیاجائے اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنانقصان آدمی کے مال وجاہ کی حرص اس کے دین کوپہنچاتی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،اوروہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يَقُولُ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَہُ إِذَا دَعَانِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جیساوہ گمان مجھ سے رکھے،اور میں اس کے ساتھ ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَخَاہُ فَلْيُعْلِمْہُ إِيَّاہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْمِقْدَامِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَالْمِقْدَامُ يُكْنَی أَبَا كَرِيمَةَ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ قَالَا حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ الْقَصِيرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلْمَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ نَعَامَةَ الضَّبِّيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا آخَی الرَّجُلُ الرَّجُلَ فَلْيَسْأَلْہُ عَنْ اسْمِہِ وَاسْمِ أَبِيہِ وَمِمَّنْ ہُوَ فَإِنَّہُ أَوْصَلُ لِلْمَوَدَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَا نَعْرِفُ لِيَزِيدَ بْنِ نَعَامَةَ سَمَاعًا مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَيُرْوَی عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُہُ

مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے کسی مسلمان بھائی سے محبت کرے تو وہ اپنی اس محبت سے آگاہ کردے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-مقدام کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوذراورانس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ یزید بن نعامہ ضبی کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص کسی سے بھائی چارہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کا نام اس کے باپ کا نام اور اس کے قبیلے کا نام پوچھ لے کیوں کہ اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-ہم نہیں جانتے کہ یزید بن نعامہ کا سماع نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے،۳-ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے۔2-

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ غَيْلَانَ أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ قَيْسٍ التُّجِيبِيَّ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ سَالِمٌ أَوْ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو،اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَرَادَ اللہُ بِعَبْدِہِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَہُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا وَإِذَا أَرَادَ اللہُ بِعَبْدِہِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْہُ بِذَنْبِہِ حَتَّی يُوَافِيَ بِہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اسے دنیا ہی میں جلدسزادے دیتا ہے ۱؎،اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر(برائی) کا ارادہ کرتاہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزاد یتاہے۔انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بڑا ثواب بڑی بلا (آزمائش) کے ساتھ ہے۔یقینا اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتاہے تواسے آزماتا ہے پس جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اورجو اللہ کی تقدیر سے ناراض ہو تو اللہ بھی اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا رَأَيْتُ الْوَجَعَ عَلَی أَحَدٍ أَشَدَّ مِنْہُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے درد سے زیادہ درد کسی شخص کا نہیں دیکھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ فَيُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلَی حَسَبِ دِينِہِ فَإِنْ كَانَ دِينُہُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُہُ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِہِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَی حَسَبِ دِينِہِ فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّی يَتْرُكَہُ يَمْشِي عَلَی الْأَرْضِ مَا عَلَيْہِ خَطِيئَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُخْتِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا:انبیاء ورسل پر،پھر جوان کے بعدمرتبہ میں ہیں،پھر جو ان کے بعدہیں،بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے،اگربندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتاہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے،پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے،یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پراس حال میںچلتاہے کہ اس پر کو ئی گناہ نہیں ہوتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس باب میں ابوہریرہ اور حذیفہ بن یمان کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیاگیا کہ مصیبتیں کس پر زیادہ آتی ہیں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: انبیاء ورسل پر پھر جوان کے بعدمرتبہ میں ہیں پھر جوان کے بعدمیں ہوں ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِہِ وَوَلَدِہِ وَمَالِہِ حَتَّی يَلْقَی اللہَ وَمَا عَلَيْہِ خَطِيئَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن مرد اور مومن عورت کی جان،اولاد،اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پرکوئی گناہ نہیں ہوتا ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَی الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ أَبُو زُہَيْرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوَدُّ أَہْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يُعْطَی أَہْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَہُمْ كَانَتْ قُرِضَتْ فِي الدُّنْيَا بِالْمَقَارِيضِ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَوْلَہُ شَيْئًا مِنْ ہَذَا

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب قیامت کے دن ایسے لوگوں کو ثواب دیاجائے گا جن کی دنیامیں آزمائش ہوئی تھی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کاش دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کتری جاتیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-بعض لوگوں نے اس حدیث کاکچھ حصہ عن الأعمش،عن طلحۃ بن مصرف،عن مسروق کی سند مسروق کے قول سے روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ عُبَيْدِ اللہِ قَال سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ أَحَدٍ يَمُوتُ إِلَّا نَدِمَ قَالُوا وَمَا نَدَامَتُہُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِنْ كَانَ مُحْسِنًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُونَ ازْدَادَ وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا نَدِمَ أَنْ لَا يَكُونَ نَزَعَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَيَحْيَی بْنُ عُبَيْدِ اللہِ قَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ شُعْبَةُ وَہُوَ يَحْيَی بْنُ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ مَوْہَبٍ مَدَنِيٌّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو بھی مرتاہے وہ نادم وشرمندہ ہوتاہے،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول!شرم وندامت کی کیاوجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: اگر وہ شخص نیک ہے تواسے اس بات پرندامت ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکی نہ کرسکا،اور اگر وہ بد ہے تو نادم ہوتاہے کہ میں نے بدی سے اپنے آپ کو نکالاکیوں نہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-یحییٰ بن عبیدا للہ کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے،اور یہ یحییٰ بن عبید اللہ بن موہب مدنی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ عُبَيْدِ اللہِ قَال سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّينِ يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأْنِ مِنْ اللِّينِ أَلْسِنَتُہُمْ أَحْلَی مِنْ السُّكَّرِ وَقُلُوبُہُمْ قُلُوبُ الذِّئَابِ يَقُولُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ أَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ فَبِي حَلَفْتُ لَأَبْعَثَنَّ عَلَی أُولَئِكَ مِنْہُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْہُمْ حَيْرَانًا وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے ساتھ دنیا کے بھی طلب گار ہوں گے،وہ لوگوں کواپنی سادگی اورنرمی دکھانے کے لیے بھیڑ کی کھال پہنیں گے،ان کی زبانیں شکرسے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی جب کہ ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کیا یہ لوگ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا مجھ پر جرأت کرتے ہیں میں اپنی ذات کی قسم کھاتاہوں کہ ضرور میں ان پر ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقلمندآدمی بھی حیران رہ جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ أَخْبَرَنَا حَمْزَةُ بْنُ أَبِي مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ تَعَالَی قَالَ لَقَدْ خَلَقْتُ خَلْقًا أَلْسِنَتُہُمْ أَحْلَی مِنْ الْعَسَلِ وَقُلُوبُہُمْ أَمَرُّ مِنْ الصَّبْرِ فَبِي حَلَفْتُ لَأُتِيحَنَّہُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيمَ مِنْہُمْ حَيْرَانًا فَبِي يَغْتَرُّونَ أَمْ عَلَيَّ يَجْتَرِئُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جن کی زبانیں شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہیں اور ان کے دل ایلواکے پھل سے بھی زیادہ کڑوے ہیں،میں اپنی ذات کی قسم کھاتاہوں! کہ ضرورمیں ان کے درمیان ایسا فتنہ نازل کروں گا جس سے ان میں کا عقل مندآدمی بھی حیران رہ جائے گا،پھربھی یہ مجھ پر غرور کرتے ہیں یا جرأت کرتے ہیں؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ الْمَكِّيُّ قَال سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيَّ قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ صَالِحٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ كُلُّ كَلَامِ ابْنِ آدَمَ عَلَيْہِ لَا لَہُ إِلَّا أَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ نَہْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ أَوْ ذِكْرُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ

ام المومنین حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انسان کی ساری باتیں اس کے لیے وبال ہیں ان میں سے اسے امربالمعروف،نہی عن المنکر اور ذکر الٰہی کے سوا اسے کسی اورکا ثواب نہیں ملے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اسے ہم صرف محمد بن یزید بن خنیس کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ آخَی رَسُولُ اللہِ ﷺ بَيْنَ سَلْمَانَ وَبَيْنَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَرَأَی أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً فَقَالَ مَا شَأْنُكِ مُتَبَذِّلَةً قَالَتْ إِنَّ أَخَاكَ أَبَا الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَہُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا قَالَ فَلَمَّا جَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ قَرَّبَ إِلَيْہِ طَعَامًا فَقَالَ كُلْ فَإِنِّي صَائِمٌ قَالَ مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّی تَأْكُلَ قَالَ فَأَكَلَ فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَہَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لِيَقُومَ فَقَالَ لَہُ سَلْمَانُ نَمْ فَنَامَ ثُمَّ ذَہَبَ يَقُومُ فَقَالَ لَہُ نَمْ فَنَامَ فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الصُّبْحِ قَالَ لَہُ سَلْمَانُ قُمْ الْآنَ فَقَامَا فَصَلَّيَا فَقَالَ إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِأَہْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّہُ فَأَتَيَا النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَا ذَلِكَ فَقَالَ لَہُ صَدَقَ سَلْمَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْعُمَيْسِ اسْمُہُ عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَہُوَ أَخُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمَسْعُودِيِّ

ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے سلمان اور ابوالدرداء کے مابین بھائی چارہ کروایا تو ایک دن سلمان نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی زیارت کی،دیکھا کہ ان کی بیوی ام الدرداء معمولی کپڑے میں ملبوس ہیں،چنانچہ انہوں نے پوچھا کہ تمہاری اس حالت کی کیاوجہ ہے؟ ان کی بیوی نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے کہ جب ابوالدرداء گھرآئے تو پہلے انہوں نے سلمان رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا پیش کیا اور کہا: کھاؤ میں آج صوم سے ہوں۔سلمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نہیں کھاؤں گا یہاں تک کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ۔چنانچہ سلمان نے بھی کھایا۔پھر جب رات آئی تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ تہجدپڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے،تو سلمان نے ان سے کہا: سوجاؤ وہ سوگئے۔پھرتہجدپڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو کہا سوجاؤ،چنانچہ وہ سوگئے،پھر جب صبح قریب ہوئی تو سلمان نے ان سے کہا: اب اٹھ جاؤ چنانچہ دونوں نے اٹھ کر صلاۃ پڑھی۔پھر سلمان نے ان سے کہا: تمہارے جسم کابھی تم پر حق ہے،تمہارے رب کا تم پر حق ہے،تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے،تمہاری بیوی کا بھی تم پرحق ہے،اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق اداکرو،اس کے بعد دونوں نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ سے اس گفتگو کا تذکرہ کیاتو آپ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ ہَلَكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ اللہَ تَعَالَی يَقُولُ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَہُ بِيَمِينِہِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا قَالَ ذَلِكَ الْعَرْضُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ وَرَوَاہُ أَيُّوبُ أَيْضًا عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس سے حساب وکتاب میں سختی سے پوچھ تاچھ ہوگئی وہ ہلاک ہوجائے گا۔میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ فرماتاہے: جس شخص کو نامہ ٔ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا تو اس سے آسان حساب لیاجائے گا (الانشقاق: ۷)۔آپ نے فرمایا: اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح حسن ہے،۲-ـ ایوب نے بھی ابن ابی ملیکہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔

أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْہِ الذِّرَاعُ فَأَكَلَہُ وَكَانَتْ تُعْجِبُہُ فَنَہَسَ مِنْہَا نَہْسَةً ثُمَّ قَالَ أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ہَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَاكَ يَجْمَعُ اللہُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُہُمْ الدَّاعِي وَيَنْفُذُہُمْ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْہُمْ فَبَلَغَ النَّاسُ مِنْ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ وَلَا يَحْتَمِلُونَ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَی رَبِّكُمْ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَلَيْكُمْ بِآدَمَ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللہُ بِيَدِہِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِہِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّكَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيہِ أَلَا تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَہُمْ آدَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَہُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ وَإِنَّہُ قَدْ نَہَانِي عَنْ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْہَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْہَبُوا إِلَی نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَی أَہْلِ الْأَرْضِ وَقَدْ سَمَّاكَ اللہُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّكَ أَلَا تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِيہِ أَلَا تَرَی مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَہُمْ نُوحٌ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ وَإِنَّہُ قَدْ كَانَ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُہَا عَلَی قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْہَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْہَبُوا إِلَی إِبْرَاہِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاہِيمَ فَيَقُولُونَ يَا إِبْرَاہِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللہِ وَخَلِيلُہُ مِنْ أَہْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّكَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيہِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ وَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ فَذَكَرَہُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْہَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْہَبُوا إِلَی مُوسَی فَيَأْتُونَ مُوسَی فَيَقُولُونَ يَا مُوسَی أَنْتَ رَسُولُ اللہِ فَضَّلَكَ اللہُ بِرِسَالَتِہِ وَبِكَلَامِہِ عَلَی الْبَشَرِ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّكَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيہِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِہَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْہَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْہَبُوا إِلَی عِيسَی فَيَأْتُونَ عِيسَی فَيَقُولُونَ يَا عِيسَی أَنْتَ رَسُولُ اللہِ وَكَلِمَتُہُ أَلْقَاہَا إِلَی مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْہُ وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَہْدِ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّكَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيہِ فَيَقُولُ عِيسَی إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَہُ مِثْلَہُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَہُ مِثْلَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْہَبُوا إِلَی غَيْرِي اذْہَبُوا إِلَی مُحَمَّدٍ قَالَ فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللہِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّكَ أَلَا تَرَی مَا نَحْنُ فِيہِ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَخِرُّ سَاجِدًا لِرَبِّي ثُمَّ يَفْتَحُ اللہُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِہِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْہِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْہُ عَلَی أَحَدٍ قَبْلِي ثُمَّ يُقَالَ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَہْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْہِ مِنْ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَہُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَی ذَلِكَ مِنْ الْأَبْوَابِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَہَجَرَ وَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَأَنَسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ كُوفِيٌّ وَہُوَ ثِقَةٌ وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُہُ ہَرِمٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا،اس میں سے آپ کو دست کاگوشت دیاگیا جوکہ آپ کو بہت پسند تھا،اسے آپ نے نوچ نوچ کرکھایا،پھر فرمایا: قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا،کیاتم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا،جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہرنگاہ والادیکھ سکے گا،سورج ان سے بالکل قریب ہوگا جس سے لوگوں کا غم وکرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کرسکیں گے،لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے،ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے،تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں،لہذا لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں،اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا،آپ کے اندر اپنی روح پھونکی،فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا،لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے۔کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے؟ آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایساغضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا،یقینا اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا،لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی،آج میری ذات کا معاملہ ہے،نفسا نفسی کا عالم ہے،تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ،نوح کے پا س جاؤ،چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آکرعرض کریں گے،اے نوح! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے،پہلے رسول تھے،اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے،لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے،کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے،نوح علیہ السلام ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرارب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا،میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کرلیا،اور آج میری ذات کا معاملہ ہے،نفسی نفسی نفسی،تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ،ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ،چنانچہ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے: اے ابراہیم! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل (یعنی گہرے دوست) ہیں،لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے،کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا،اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکاہوں(ابو حیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے) آج میری ذات کا معاملہ ہے،نفسی نفسی نفسی،تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ،موسیٰ کے پاس جاؤ،چنانچہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں،اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے،لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے،کیاآپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ توایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا،دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مارڈا لا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیاگیا تھا،آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے،نفسی نفسی نفسی،تم لوگ کسی اورکے پاس جاؤ،عیسیٰ کے پاس جاؤ،چنانچہ وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے:اے عیسیٰ!آپ اللہ کے رسول،اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں،آپ نے لوگوں سے گودہی میں کلام کیا،لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے،کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: آج کے دن میرارب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا،اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہاکہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے،نفسی نفسی نفسی،تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ،محمد ﷺ کے پاس جاؤ،ابوہریرہ کہتے ہیں: چنانچہ وہ لوگ محمدﷺ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں،آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں،لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے،کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں،(آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:) پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گرجاؤں گا،پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتناکسی پر نہیں کھولا ہوگا،پھر مجھ سے کہاجائے گا کہ اے محمد! اپنے سرکو اٹھاؤ اور سوال کرو،اسے پورا کیاجائے گا،اور شفاعت کرو،تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی،چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات وفلاح مانگتاہوں،اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں،اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں،اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کرلیں،جن پر کوئی حساب وکتاب نہیں ہے،اور یہ سب (امت محمد) دیگر دروازوں میں بھی (داخل ہونے میں) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے،پھر آپﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے پٹوں میں سے دوپٹ کے درمیان کافاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اورہجر یا مکہ اور بصری کے درمیان فاصلہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکر صدیق،انس،عقبہ بن عامر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْأَلْہَانِيِّ قَال سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ وَعَدَنِي رَبِّي أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْہِمْ وَلَا عَذَابَ مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا وَثَلَاثُ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت میں سے ستر ہزار لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا،نہ ان کا حساب ہوگا اورنہ ان پر کوئی عذاب،(پھر) ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزارہوں گے،اور ان کے سوا میرے رب کی مٹھیوں میں سے تین مٹھیوں کے برابر بھی ہوں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ رَہْطٍ بِإِيلِيَاءَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْہُمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَكْثَرُ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ سِوَاكَ قَالَ سِوَايَ فَلَمَّا قَامَ قُلْتُ مَنْ ہَذَا قَالُوا ہَذَا ابْنُ أَبِي الْجَذْعَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَابْنُ أَبِي الْجَذْعَاءِ ہُوَ عَبْدُ اللہِ وَإِنَّمَا يُعْرَفُ لَہُ ہَذَا الْحَدِيثُ الْوَاحِدُ

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں ایلیاء میں ایک جماعت کے ساتھ تھا،ان میں سے ایک آدمی نے کہاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:میری امت کے ایک فرد کی شفاعت سے قبیلہء بنی تمیم کی تعداد سے بھی زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے،کسی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ شخص آپ کے علاوہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،میرے علاوہ ہوگا،پھرجب وہ (راوی حدیث) کھڑے ہوئے تو میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ ابن ابی جذعاء رضی اللہ عنہ ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ابن ابی الجذعاء رضی اللہ عنہ کانام عبداللہ ہے،ان سے صرف یہی ایک حدیث مشہور ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ الْكُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ عَنْ جِسْرٍ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَشْفَعُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمِثْلِ رَبِيعَةَ وَمُضَرَ

حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ قیامت کے دن قبیلہ ربیعہ اور مضر کے برابر،لوگوں کے لیے شفاعت کریں گے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَشْفَعُ لِلْفِئَامِ مِنْ النَّاسِ وَمِنْہُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْقَبِيلَةِ وَمِنْہُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلْعَصَبَةِ وَمِنْہُمْ مَنْ يَشْفَعُ لِلرَّجُلِ حَتَّی يَدْخُلُوا الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کاکوئی شخص کئی جماعت کے لیے شفاعت کرے گا،کوئی ایک قبیلہ کے لیے شفاعت کرے گا،کوئی ایک گروہ کے لیے شفاعت کرے گا،اور کوئی ایک آدمی کے لیے شفاعت کرے گا،یہاں تک کہ سب جنت میں داخل ہوں جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ وَہِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللہِ شَيْئًا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ رَجُلٍ آخَرَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرئیل علیہ السلام) میرے پاس آیااور مجھے اختیار دیاکہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو،چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا،یہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ابوملیح نے ایک اور صحابی سے روایت کی ہے اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،(لیکن) اس میں عوف بن مالک کا ذکر نہیں کیا،اس حدیث میں ایک طویل قصہ مذکور ہے۔اس سند سے بھی عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے (اسی میں قصہ ہے)۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُہَاجِرِ عَنْ الْعَبَّاسِ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ الْحَبَشِيِّ قَالَ بَعَثَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَحُمِلْتُ عَلَی الْبَرِيدِ قَالَ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْہِ قَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقَدْ شَقَّ عَلَی مَرْكَبِي الْبَرِيدُ فَقَالَ يَا أَبَا سَلَّامٍ مَا أَرَدْتُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ وَلَكِنْ بَلَغَنِي عَنْكَ حَدِيثٌ تُحَدِّثُہُ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْحَوْضِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ تُشَافِہَنِي بِہِ قَالَ أَبُو سَلَّامٍ حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ حَوْضِي مِنْ عَدَنَ إِلَی عَمَّانَ الْبَلْقَاءِ مَاؤُہُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنْ الْعَسَلِ وَأَكَاوِيبُہُ عَدَدُ نُجُومِ السَّمَاءِ مَنْ شَرِبَ مِنْہُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَہَا أَبَدًا أَوَّلُ النَّاسِ وُرُودًا عَلَيْہِ فُقَرَاءُ الْمُہَاجِرِينَ الشُّعْثُ رُءُوسًا الدُّنْسُ ثِيَابًا الَّذِينَ لَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَلَا تُفْتَحُ لَہُمْ السُّدَدُ قَالَ عُمَرُ لَكِنِّي نَكَحْتُ الْمُتَنَعِّمَاتِ وَفُتِحَ لِيَ السُّدَدُ وَنَكَحْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ عَبْدِ الْمَلِكِ لَا جَرَمَ أَنِّي لَا أَغْسِلُ رَأْسِي حَتَّی يَشْعَثَ وَلَا أَغْسِلُ ثَوْبِي الَّذِي يَلِي جَسَدِي حَتَّی يَتَّسِخَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبُو سَلَّامٍ الْحَبَشِيُّ اسْمُہُ مَمْطُورٌ وَہُوَ شَامِيٌّ ثِقَةٌ

ابوسلام حبشی کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے میرے پاس بلاوے کا پیغام بھیجا،چنانچہ میں ڈاک سواری خچر پرسوار ہوکرآپ کے پاس پہنچا،میں نے کہا: اے امیرالمومنین! ڈاک سواری خچر کی سواری مجھ پر شاق گزری تو انہوں نے کہا: ابوسلام! میں تمہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا تھا،لیکن میں نے تمہارے بارے میں یہ سنا ہے کہ تم ثوبان رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے حوض کو ثر کے بارے میں ایک حدیث روایت کرتے ہو،چنانچہ میری یہ خواہش ہوئی کہ وہ حدیث تم سے براہ راست سن لوں،ابوسلام نے کہا: ثوبان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میراحوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن سے اُردن والے عمان تک کافاصلہ ہے،اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے،اس کے پیالے آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر ہیں،اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا کبھی پیاسانہ ہوگا،سب سے پہلے اس پر فقراء مہاجرین پہنچیں گے،جن کے سردھول سے اٹے ہوں گے اور ان کے کپڑے میلے کچیلے ہوں گے،جوناز ونعم عورتوں سے نکاح نہیں کرسکتے اورنہ ان کے لیے جاہ ومنزلت کے دروازے کھولے جاتے۔عمر بن عبدالعزیز نے کہا: لیکن میں نے تو نا زونعم میں پلی عورتوں سے نکاح کیا اور میرے لیے جاہ ومنزلت کے دروازے بھی کھولے گئے،میں نے فاطمہ بنت عبدالملک سے نکاح کیا،البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اپنے سرکو نہیں دھوتا یہاں تک کہ وہ غبار آلود نہ ہوجائے اور اپنے بدن کے کپڑے اس وقت تک نہیں دھوتا جب تک کہ میلے نہ ہوجائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-یہ حدیث معدان بن ابی طلحہ کے واسطے سے عن ثوبان،عن النبی ﷺ کی سند سے بھی مروی ہے،۳-ابوسلام حبشی کانام ممطور ہے،یہ شامی ہیں اور ثقہ راوی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مَا آنِيَةُ الْحَوْضِ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَآنِيَتُہُ أَكْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ وَكَوَاكِبِہَا فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ مُصْحِيَةٍ مِنْ آنِيَةِ الْجَنَّةِ مَنْ شَرِبَ مِنْہَا شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَيْہِ عَرْضُہُ مِثْلُ طُولِہِ مَا بَيْنَ عُمَانَ إِلَی أَيْلَةَ مَاؤُہُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنْ الْعَسَلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَحَارِثَةَ بْنِ وَہْبٍ وَالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ حَوْضِي كَمَا بَيْنَ الْكُوفَةِ إِلَی الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حوض کوثر کے برتن کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا اس کے برتن تاروں سے بھی زیادہ ہیں اس تاریک رات میں جس میں آسمان سے بادل چھٹ گیا ہو،اور اس کے پیالے جنت کے برتنوں میں سے ہوں گے،اس سے جو ایک مرتبہ پی لے گا وہ کبھی پیاسانہ ہوگا،اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے،اس کا فاصلہ اتنا ہے جتنا عمان سے ایلہ تک کا فاصلہ ہے۔اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں حذیفہ بن یمان،عبداللہ بن عمرو،ابوبرزہ اسلمی،ابن عمر،حارثہ بن وہب اور مستورد بن شداد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے حوض کا فاصلہ اتنا ہے جتنا کوفہ سے حجر اسود تک کافاصلہ ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ يُونُسَ كُوفِيٌّ حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ ﷺ جَعَلَ يَمُرُّ بِالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَہُمْ الْقَوْمُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَمَعَہُمْ الرَّہْطُ وَالنَّبِيِّ وَالنَّبِيَّيْنِ وَلَيْسَ مَعَہُمْ أَحَدٌ حَتَّی مَرَّ بِسَوَادٍ عَظِيمٍ فَقُلْتُ مَنْ ہَذَا قِيلَ مُوسَی وَقَوْمُہُ وَلَكَنِ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَانْظُرْ قَالَ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ مِنْ ذَا الْجَانِبِ وَمِنْ ذَا الْجَانِبِ فَقِيلَ ہَؤُلَاءِ أُمَّتُكَ وَسِوَی ہَؤُلَاءِ مِنْ أُمَّتِكَ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ فَدَخَلَ وَلَمْ يَسْأَلُوہُ وَلَمْ يُفَسِّرْ لَہُمْ فَقَالُوا نَحْنُ ہُمْ وَقَالَ قَائِلُونَ ہُمْ أَبْنَاؤُنَا الَّذِينَ وُلِدُوا عَلَی الْفِطْرَةِ وَالْإِسْلَامِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ ہُمْ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ وَلَا يَسْتَرْقُونَ وَلَا يَتَطَيَّرُونَ وَعَلَی رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُونَ فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ أَنَا مِنْہُمْ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ نَعَمْ ثُمَّ قَامَ آخَرُ فَقَالَ أَنَا مِنْہُمْ فَقَالَ سَبَقَكَ بِہَا عُكَّاشَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب نبی اکرم ﷺ معراج کے لیے تشریف لے گیے تو وہاں آپ کا ایک نبی اور کئی نبیوں کے پاس سے گزر ہوا،ان میں سے کسی نبی کے ساتھ ان کی پوری امت تھی،کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی،کسی کے ساتھ کوئی نہ تھا،یہاں تک کہ آپ کا گزر ایک بڑے گروہ سے ہوا،توآپ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہاگیا: یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے،آپ اپنے سرکو بلند کیجئے اور دیکھیے: تویکایک میں نے ایک بہت بڑا گروہ دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو اس جانب سے اس جانب تک گھیر رکھاتھا،مجھ سے کہاگیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس کے سوا آپ کی امت میں ستر ہزار اور ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے،پھر آپﷺ گھر میں تشریف لے گئے اور لوگ آپ سے اس کی بابت نہیں پوچھ سکے اورنہ ہی آپ نے ان کے سامنے اس کی تفسیربیان کی،چنانچہ ان میں سے بعض صحابہ نے کہا: شاید وہ ہم ہی لوگ ہوں اور بعض نے کہا: شاید ہماری وہ اولاد ہیں جو فطرت ِ اسلام پر پیدا ہوئیں۔لوگ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺباہر نکل آئے اور فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ بدن پر داغ لگواتے ہیں اور نہ جھاڑپھونک اور منتر کرواتے ہیں اور نہ ہی بدفالی لیتے ہیں،وہ صرف اپنے رب پرتوکل واعتمادکرتے ہیں،اسی اثناء میں عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اللہ کے رسول! کیامیں بھی انہیں میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،(تم بھی انہی میں سے ہو) پھرایک دوسرے شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: کیا میں بھی انہیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا: عکاشہ نے تم پر سبقت حاصل کرلی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَارُودِ الْأَعْمَی وَاسْمُہُ زِيَادُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَيُّمَا مُؤْمِنٍ أَطْعَمَ مُؤْمِنًا عَلَی جُوعٍ أَطْعَمَہُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَی مُؤْمِنًا عَلَی ظَمَإٍ سَقَاہُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ وَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ كَسَا مُؤْمِنًا عَلَی عُرْيٍ كَسَاہُ اللہُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْقُوفًا وَہُوَ أَصَحُّ عِنْدَنَا وَأَشْبَہُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مومن بندہ کسی بھوکے مومن کو کھانا کھلائے گا اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز جنت کے پھل کھلائے گا،اور جو مومن بندہ کسی پیاسے مومن کو پانی پلائے گا،قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے رحیق مختوم (مہر بند شراب) پلائے گا،اور جو مومن بندہ کسی ننگے بدن والے مومن کو کپڑا پہنائے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے سبزجوڑے پہنائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-یہ حدیث عطیہ کے واسطے سے ابوسعیدخدری سے موقوفا مروی ہے،اور ہمارے نزدیک یہی سند سب سے زیادہ اقرب اور صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ التَّمِيمِيُّ حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ فَيْرُوزَ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ خَافَ أَدْلَجَ وَمَنْ أَدْلَجَ بَلَغَ الْمَنْزِلَ أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللہِ غَالِيَةٌ أَلَا إِنَّ سِلْعَةَ اللہِ الْجَنَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جودشمن کے حملہ سے ڈرا اور شروع رات ہی میں سفرمیں نکل پڑا وہ منزل کو پہنچ گیا ۱؎،آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کاسامان بڑی قیمت والا ہے،آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کا سامان جنت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن،غریب ہے،اسے ہم صرف ابونضر ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ وضاحت ۱؎: یہ ایک مثل ہے جو ان لوگوں کے لیے بیان کی گئی ہے جنہوں نے آخرت کے راستہ کو اپنا رکھا ہے،اور اس پر گامزن ہیں،کیوں کہ شیطان ایسے لوگوں کے بہکانے کے لیے اپنے تمام ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے،اس لیے اس راہ پر چلنے والے اگر شروع ہی سے بیدار رہے اور پورے اخلاص کے ساتھ عمل پر قائم رہے تو ایسے لوگ شیطان کے مکر اور اس کی چال سے محفوظ رہیں گے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ الثَّقَفِيُّ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَقِيلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ وَعَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ عَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ يَكُونَ مِنْ الْمُتَّقِينَ حَتَّی يَدَعَ مَا لَا بَأْسَ بِہِ حَذَرًا لِمَا بِہِ الْبَأْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عطیہ سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ متقیوں کے مقام کونہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو جس میں کوئی حرج نہ ہو،اس چیز سے بچنے کے لیے نہ چھوڑ دے،جس میں برائی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا وَتَمَنَّی عَلَی اللہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ يَقُولُ حَاسَبَ نَفْسَہُ فِي الدُّنْيَا قَبْلَ أَنْ يُحَاسَبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيُرْوَی عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا وَتَزَيَّنُوا لِلْعَرْضِ الْأَكْبَرِ وَإِنَّمَا يَخِفُّ الْحِسَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَی مَنْ حَاسَبَ نَفْسَہُ فِي الدُّنْيَا وَيُرْوَی عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ قَالَ لَا يَكُونُ الْعَبْدُ تَقِيًّا حَتَّی يُحَاسِبَ نَفْسَہُ كَمَا يُحَاسِبُ شَرِيكَہُ مِنْ أَيْنَ مَطْعَمُہُ وَمَلْبَسُہُ

شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کرلے اورموت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز وبے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگادے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور من دان نفسہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرلے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیاجائے،۳-عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیاجائے،اور عرض اکبر(آخرت کی پیشی) کے لیے تدبیر کرو،اور جوشخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے قیامت کے روز اس پر حساب وکتاب آسان ہوگا،۴-میمون بن مہران کہتے ہیں: بندہ متقی و پرہیز گارنہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے جیسا کہ اپنے شریک سے محاسبہ کرتاہے اور یہ خیال کرے کہ میرا کھانا اور لباس کہاں سے ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ وَيُونُسَ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَہُ أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَہُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَكَانَ شَہِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَدِمَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ وَسَمِعَتْ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَلَمَّا صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ انْصَرَفَ فَتَعَرَّضُوا لَہُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حِينَ رَآہُمْ ثُمَّ قَالَ أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنْ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ قَالُوا أَجَلْ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ فَوَاللہِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَی عَلَيْكُمْ وَلَكِنِّي أَخْشَی أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَی مَنْ قَبْلَكُمْ فَتَنَافَسُوہَا كَمَا تَنَافَسُوہَا فَتُہْلِكَكُمْ كَمَا أَہْلَكَتْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبرد ی ہے کہ عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ (یہ بنوعامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبردی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے،جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجرمیں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے،ادھرجب رسول اللہ ﷺ صلاۃ فجرسے فارغ ہوکر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔جب آپ ﷺ نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: شاید تم لوگوں نے یہ بات سن لی ہے کہ ابوعبیدہ کچھ لے کر آئے ہیں،لوگوں نے کہاجی ہاں،اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تمہارے لیے خوش خبری ہے اور اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کرے،اللہ کی قسم! میں تم پر فقرومحتاجی سے نہیں ڈرتاہوں،البتہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ دنیا تم پرکشادہ کردی جائے،جیساکہ تم سے پہلے لوگوں پرکشادہ کی گئی،پھر تم اس میں حرص ورغبت کرنے لگو جیساکہ ان لوگوں نے حرص ورغبت کی،پھر دنیا تمہیں تباہ وبرباد کردے جیساکہ اس نے ان کوتباہ وبرباد کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ وَابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُہُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُہُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ يَا حَكِيمُ إِنَّ ہَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَہُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَہُ فِيہِ وَمَنْ أَخَذَہُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَہُ فِيہِ وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَی فَقَالَ حَكِيمٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّی أُفَارِقَ الدُّنْيَا فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا إِلَی الْعَطَاءِ فَيَأْبَی أَنْ يَقْبَلَہُ ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاہُ لِيُعْطِيَہُ فَأَبَی أَنْ يَقْبَلَ مِنْہُ شَيْئًا فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي أُشْہِدُكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ عَلَی حَكِيمٍ أَنِّي أَعْرِضُ عَلَيْہِ حَقَّہُ مِنْ ہَذَا الْفَيْءِ فَيَأْبَ أَنْ يَأْخُذَہُ فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنْ النَّاسِ شَيْئًا بَعْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَتَّی تُوُفِّيَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا،پھر مانگا توپھر دیا،پھر مانگا تو پھر دیا،پھر آپ نے فرمایا:حکیم! بے شک یہ مال ہرابھرا میٹھا ہے،جو اسے خوش دلی سے لے لیگا تو اسے اس میں برکت نصیب ہوگی،اورجو اسے حریص بن کرلے گا اسے اس میں برکت حاصل نہ ہوگی،اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا،اور اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے،حکیم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوجاؤں،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کو کچھ دینے کے لیے بلاتے تو وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے،ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں کچھ دینے کے لیے بلایا تو اسے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا،چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں تم لوگوں کو حکیم پر گواہ بناتاہوں کہ اس مال غنیمت میں سے میں ان کا حق پیش کرتاہوں تو وہ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں،چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حکیم رضی اللہ عنہ نے کسی شخص کے مال سے کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ عَزْرَةَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ لَنَا قِرَامُ سِتْرٍ فِيہِ تَمَاثِيلُ عَلَی بَابِي فَرَآہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ انْزَعِيہِ فَإِنَّہُ يُذَكِّرُنِي الدُّنْيَا قَالَتْ وَكَانَ لَنَا سَمَلُ قَطِيفَةٍ تَقُولُ عَلَمُہَا مِنْ حَرِيرٍ كُنَّا نَلْبَسُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہمارے پاس ایک باریک پردہ تھا جس پر تصویریں بنی تھیں،پردہ میرے دروازے پرلٹک رہاتھا،جب اسے رسول اللہ ﷺ نے دیکھاتو فرمایا: اس کو یہاں سے دور کردو اس لیے کہ یہ مجھے دینا کی یاد دلاتاہے،عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہمارے پاس ایک روئیں دار پرانی چادر تھی جس پر ریشم کے نشانات بنے ہوئے تھے اور اسے ہم اوڑھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَتْ وِسَادَةُ رَسُولِ اللہِ ﷺ الَّتِي يَضْطَجِعُ عَلَيْہَا مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہَا لِيفٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے پاس چمڑے کاایک تکیہ (بستر) تھا جس پر آپ آرام فرماتے تھے اس میں کھجور کی پتلی چھال بھری ہوئی تھی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنْ كُنَّا يَئُولُ مُحَمَّدٍ نَمْكُثُ شَہْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ ہُوَ إِلَّا الْمَاءُ وَالتَّمْرُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم آل محمد (ﷺ) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہانہیں جلاتے تھے،ہمارا گذر بسر صرف کھجور اور پانی پرہوتاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللہِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللہِ وَمَا يُؤْذَی أَحَدٌ وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُہُ ذُو كَبِدٍ إِلَّا شَيْءٌ يُوَارِيہِ إِبْطُ بِلَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ حِينَ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ ہَارِبًا مِنْ مَكَّةَ وَمَعَہُ بِلَالٌ إِنَّمَا كَانَ مَعَ بِلَالٍ مِنْ الطَّعَامِ مَا يَحْمِلُہُ تَحْتَ إِبْطِہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اللہ کی راہ میں ایساڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایاگیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں،مجھ پر مسلسل تیس دن ورات گزر جاتے اور میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوتا کہ جسے کوئی جان والاکھائے سوائے تھوڑی سی چیز کے جسے بلال اپنی بغل میں چھپالیتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ـ اس حدیث میں وہ دن مراد ہیں کہ جب آپ ﷺ اہل مکہ سے بیزار ہوکر مکہ سے نکل گئے تھے اور ساتھ میں بلال تھے،ان کے پاس کچھ کھانا تھا جسے وہ بغل میں دبائے ہوئے تھے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ خَرَجْتُ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ بَيْتِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَقَدْ أَخَذْتُ إِہَابًا مَعْطُوبًا فَحَوَّلْتُ وَسَطَہُ فَأَدْخَلْتُہُ عُنُقِي وَشَدَدْتُ وَسَطِي فَحَزَمْتُہُ بِخُوصِ النَّخْلِ وَإِنِّي لَشَدِيدُ الْجُوعِ وَلَوْ كَانَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللہِ ﷺ طَعَامٌ لَطَعِمْتُ مِنْہُ فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ شَيْئًا فَمَرَرْتُ بِيَہُودِيٍّ فِي مَالٍ لَہُ وَہُوَ يَسْقِي بِبَكَرَةٍ لَہُ فَاطَّلَعْتُ عَلَيْہِ مِنْ ثُلْمَةٍ فِي الْحَائِطِ فَقَالَ مَا لَكَ يَا أَعْرَابِيُّ ہَلْ لَكَ فِي كُلِّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ قُلْتُ نَعَمْ فَافْتَحْ الْبَابَ حَتَّی أَدْخُلَ فَفَتَحَ فَدَخَلْتُ فَأَعْطَانِي دَلْوَہُ فَكُلَّمَا نَزَعْتُ دَلْوًا أَعْطَانِي تَمْرَةً حَتَّی إِذَا امْتَلَأَتْ كَفِّي أَرْسَلْتُ دَلْوَہُ وَقُلْتُ حَسْبِي فَأَكَلْتُہَا ثُمَّ جَرَعْتُ مِنْ الْمَاءِ فَشَرِبْتُ ثُمَّ جِئْتُ الْمَسْجِدَ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک ٹھنڈے دن میں رسول اللہ ﷺ کے گھر سے میں نکلا اور ساتھ میں ایک بدبودار چمڑا لے لیا جس کے بال جھڑے ہوئے تھے،پھر بیچ سے میں نے اسے کاٹ کر اپنی گردن میں ڈال لیا اور اپنی کمر کو کھجور کی شاخ سے باندھ دیا،مجھے بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی،اگر رسول اللہ ﷺ کے گھر میں کچھ کھانا ہوتا تو میں اس میں سے ضرور کھالیتا،چنانچہ میں کچھ کھانے کی تلاش میں نکلا،راستے میں ایک یہودی کے پاس سے گزرا جو اپنے باغ میں چرخی سے پانی دے رہاتھا،اس کو میں نے دیوار کی ایک سوراخ سے جھانکا تو اس نے کہا: اعرابی! کیابات ہے؟ کیاتو ایک کھجور پر ایک ڈول پانی کھینچے گا؟ میں نے کہا: ہاں،اور اپنا دروازہ کھول دو تاکہ میں اندرآجاؤں،اس نے دروازہ کھول دیا اور میں داخل ہوگیا،اس نے مجھے اپنا ڈول دیا،پھر جب بھی میں ایک ڈول پانی نکالتا تووہ ایک کھجور مجھے دیتا یہاں تک کہ جب میری مٹھی بھر گئی تو میں نے اس کا ڈول چھوڑ دیا اور کہاکہ اتنا میرے لیے کافی ہے،چنانچہ میں نے اسے کھایا اور دوتین گھونٹ پانی پیا،پھر میں مسجد میں آیااور وہیں رسول اللہ ﷺ کو موجود پایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ قَال سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّہْدِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّہُ أَصَابَہُمْ جُوعٌ فَأَعْطَاہُمْ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَمْرَةً تَمْرَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کو ایک مرتبہ بھوک لگی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سب کو صرف ایک ایک کھجور دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ وَہْبِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ نَحْمِلُ زَادَنَا عَلَی رِقَابِنَا فَفَنِيَ زَادُنَا حَتَّی إِنْ كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا كُلَّ يَوْمٍ تَمْرَةٌ فَقِيلَ لَہُ يَا أَبَا عَبْدِ اللہِ وَأَيْنَ كَانَتْ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنْ الرَّجُلِ فَقَالَ لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَہَا حِينَ فَقَدْنَاہَا وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَہُ الْبَحْرُ فَأَكَلْنَا مِنْہُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا مَا أَحْبَبْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَرَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ وَہْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَتَمَّ مِنْ ہَذَا وَأَطْوَلَ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تین سوکی تعداد میں بھیجا،ہم اپنا اپنا زادسفر اٹھائے ہوئے تھے،ہمارا زادسفرختم ہوگیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہر آدمی کے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی،ان سے کہاگیا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کاکیاہوتاہوگا؟ جب وہ بھی ختم ہوگئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی،انہوں نے فرمایا:ہم سمندر کے کنارے پہنچے آخر ہمیں ایک مچھلی ملی،جسے سمندرنے باہرپھینک دیاتھا،چنانچہ ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک جس طرح چاہا سیر ہوکر کھاتے رہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث جابر کے واسطے سے دوسری سند وں سے بھی مروی ہے،۳-اس حدیث کو مالک بن انس نے وہب بن کیسان سے اس سے زیادہ مکمل اور مطول روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ إِنَّا لَجُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ طَلَعَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ مَا عَلَيْہِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَہُ مَرْقُوعَةٌ بِفَرْوٍ فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَكَی لِلَّذِي كَانَ فِيہِ مِنْ النِّعْمَةِ وَالَّذِي ہُوَ الْيَوْمَ فِيہِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَيْفَ بِكُمْ إِذَا غَدَا أَحَدُكُمْ فِي حُلَّةٍ وَرَاحَ فِي حُلَّةٍ وَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْہِ صَحْفَةٌ وَرُفِعَتْ أُخْرَی وَسَتَرْتُمْ بُيُوتَكُمْ كَمَا تُسْتَرُ الْكَعْبَةُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مِنَّا الْيَوْمَ نَتَفَرَّغُ لِلْعِبَادَةِ وَنُكْفَی الْمُؤْنَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَأَنْتُمْ الْيَوْمَ خَيْرٌ مِنْكُمْ يَوْمَئِذٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ ہُوَ ابْنُ مَيْسَرَةَ وَہُوَ مَدَنِيٌّ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ الَّذِي رَوَی عَنْ الزُّہْرِيِّ رَوَی عَنْہُ وَكِيعٌ وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ كُوفِيٌّ رَوَی عَنْہُ سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مصعب بن عمیر ۱؎ آئے ان کے بدن پر چمڑے کی پیوند لگی ہوئی ایک چادر تھی،جب رسول اللہ ﷺنے انہیں دیکھا تو ان کی اس ناز ونعمت کو دیکھ کر رونے لگے جس میں وہ پہلے تھے اور جس حالت میں ان دنوں تھے،پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیاحال ہوگا تمہارا اس وقت جب کہ تم میں سے ایک شخص ایک جوڑے میں صبح کرے گا تودوسرے جوڑے میں شام کرے گا اور اس کے سامنے ایک برتن کھانے کا رکھاجائے گا تو دوسرا اٹھایاجائے گا،اور تم اپنے مکانوں میں ایسے ہی پردہ ڈالو گے جیساکہ کعبہ پر پردہ ڈالا جاتاہے؟۲ ؎ ،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیاہم اس وقت آج سے بہت اچھے ہوں گے اور عبادت کے لیے فارغ ہوں گے اور محنت ومشقت سے بچ جائیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں،بلکہ تم آج کے دن ان دنوں سے بہتر ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یزید بن زیادسے مراد یزید بن زیاد بن میسرہ مدنی ہیں،ان سے مالک بن انس اور دیگر اہل علم نے روایت کی ہے اور (دوسرے) یزید بن زیاد دمشقی وہ ہیں جنہوں نے زہری سے روایت کیا ہے اور ان سے (یعنی دمشقی سے) وکیع اور مروان بن معاویہ نے روایت کیا ہے،اور(تیسرے) یزید بن ابی زیاد کوفی ہیں ۳؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْقُرَشِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی الْبَكَّاءُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ كُفَّ عَنَّا جُشَاءَكَ فَإِنَّ أَكْثَرَہُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا أَطْوَلُہُمْ جُوعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے ڈکار لیا،تو آپ نے فرمایا: تم اپنی ڈکار ہم سے دور رکھو اس لیے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیٹ بھر کر کھانے والا قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکا رہے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ شَبِيبِ بْنِ بَشِيرٍ ہَكَذَا قَالَ شَبِيبُ بْنُ بَشِيرٍ وَإِنَّمَا ہُوَ شَبِيبُ بْنُ بِشْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ النَّفَقَةُ كُلُّہَا فِي سَبِيلِ اللہِ إِلَّا الْبِنَاءَ فَلَا خَيْرَ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

-انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نفقہ سب کاسب اللہ کی راہ میں ہے سوائے اس نفقہ کے جو گھربنانے میں صرف ہوتاہے کیوں کہ اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ قَالَ أَتَيْنَا خَبَّابًا نَعُودُہُ وَقَدْ اكْتَوَی سَبْعَ كَيَّاتٍ فَقَالَ لَقَدْ تَطَاوَلَ مَرَضِي وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا تَمَنَّوْا الْمَوْتَ لَتَمَنَّيْتُ وَقَالَ يُؤْجَرُ الرَّجُلُ فِي نَفَقَتِہِ كُلِّہَا إِلَّا التُّرَابَ أَوْ قَالَ فِي الْبِنَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

حارثہ بن مضرب کہتے ہیں: ہم خباب رضی اللہ عنہ کے پاس عیادت کرنے کے لیے آئے،انہوں نے اپنے بدن میں سات داغ لگوارکھے تھے،انہوں نے کہا: یقینا میرا مرض بہت لمبا ہوگیا ہے،اگر میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ موت کی تمنا نہ کرو تو میں ضرور ا س کی تمنا کرتا،اور آپ نے کہا: آدمی کو ہر خرچ میں ثواب ملتاہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے،یا فرمایا:گھر بنانے میں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ أَتَاہُ الْمُہَاجِرُونَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْہُرِہِمْ لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَہْنَإِ حَتَّی لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْہَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا مَا دَعَوْتُمْ اللہَ لَہُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس مہاجرین نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! جس قوم کے پاس ہم آئے ہیں ان سے بڑھ کر ہم نے کوئی قوم ایسی نہیں دیکھی جو اپنے مال بہت زیادہ خرچ کرنے والی ہے اور تھوڑے مال ہونے کی صورت میں بھی دوسروں کے ساتھ غمخواری کرنے والی ہے۔چنانچہ انہوں نے ہم کو محنت ومشقت سے باز رکھا اور ہم کو آرام و راحت میں شریک کیا یہاں تک کہ ہمیں خوف ہے کہ ہماری ساری نیکیوں کا ثواب کہیں انہیں کو نہ مل جائے؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بات ایسی نہیں ہے جیسا تم نے سمجھا ہے جب تک تم لوگ اللہ سے ان کے لیے دعائے خیرکرتے رہوگے اورا ن کا شکریہ اداکرتے رہوگے ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي الْجَنَّةِ مِائَةُ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ مِائَةُ عَامٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جنت میں سودرجے ہیں،ہرایک درجہ سے دوسرے درجہ کے درمیان سوسال کافاصلہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَصَلَّی الصَّلَوَاتِ وَحَجَّ الْبَيْتَ لَا أَدْرِي أَذَكَرَ الزَّكَاةَ أَمْ لَا إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَی اللہِ أَنْ يَغْفِرَ لَہُ إِنْ ہَاجَرَ فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ مَكَثَ بِأَرْضِہِ الَّتِي وُلِدَ بِہَا قَالَ مُعَاذٌ أَلَا أُخْبِرُ بِہَذَا النَّاسَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ذَرْ النَّاسَ يَعْمَلُونَ فَإِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَی الْجَنَّةِ وَأَوْسَطُہَا وَفَوْقَ ذَلِكَ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْہَا تُفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّةِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللہَ فَسَلُوہُ الْفِرْدَوْسَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَہَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ہَمَّامٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَعَطَاءٌ لَمْ يُدْرِكْ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَمُعَاذٌ قَدِيمُ الْمَوْتِ مَاتَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے صیام رکھے،صلاتیں پڑھیں اور حج کیا (-عطاء بن یسار کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہمعاذ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں-) تو اللہ تعالیٰ پریہ حق بنتا ہے کہ اس کوبخش دے اگرچہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اپنی پیدائشی سرزمین میں ٹھہرا رہے۔معاذ نے کہا: کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو چھوڑدو،وہ عمل کرتے رہیں،اس لیے کہ جنت میں سودرجے ہیں اور ایک درجہ سے دوسرے درجہ کے درمیان اتناہی فاصلہ ہے جتنا کہ زمین وآسمان کے درمیان کا،فردوس جنت کا اعلیٰ اور سب سے اچھا درجہ ہے،اسی کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں بہتی ہیں،لہذا جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح یہ حدیث عن ہشام بن سعد،عن زید بن أسلم،عن عطاء بن یسار عن معاذ بن جبل کی سند سے مروی ہے،اور یہ میرے نزدیک ہمام کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے،جسے انہوں نے عن زید بن أسلم،عن عطاء بن یسار عن عبادۃ بن الصامتکی سند سے روایت کی ہے (جو آگے آرہی ہے)،عطاء نے معاذ بن جبل کو نہیں پایا ہے (یعنی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے) اور معاذ بن جبل کی وفات (عبادہ بن صامت سے پہلے) عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ فِي الْجَنَّةِ مِائَةُ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَاہَا دَرَجَةً وَمِنْہَا تُفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّةِ الْأَرْبَعَةُ وَمِنْ فَوْقِہَا يَكُونُ الْعَرْشُ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللہَ فَسَلُوہُ الْفِرْدَوْسَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ نَحْوَہُ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں سودرجے ہیں اور ہردو درجہ کے درمیان اتناہی فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے،درجہ کے اعتبار سے فردوس اعلیٰ جنت ہے،اسی سے جنت کی چاروں نہریں بہتی ہیں اور اسی کے اوپر عرش ہے،لہذا جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس مانگو۔اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ لَوْ أَنَّ الْعَالَمِينَ اجْتَمَعُوا فِي إِحْدَاہُنَّ لَوَسِعَتْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جنت میں سودرجے ہیں،اگرسارے جہاں کے لوگ ایک ہی درجہ میں اکٹھے ہوجائیں تویہ ان سب کے لیے کافی ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُورَتُہُمْ عَلَی صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَا يَبْصُقُونَ فِيہَا وَلَا يَمْخُطُونَ وَلَا يَتَغَوَّطُونَ آنِيَتُہُمْ فِيہَا الذَّہَبُ وَأَمْشَاطُہُمْ مِنْ الذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ وَمَجَامِرُہُمْ مِنْ الْأُلُوَّةِ وَرَشْحُہُمْ الْمِسْكُ وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ زَوْجَتَانِ يُرَی مُخُّ سُوقِہِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنْ الْحُسْنِ لَا اخْتِلَافَ بَيْنَہُمْ وَلَا تَبَاغُضَ قُلُوبُہُمْ قَلْبُ رَجُلٍ وَاحِدٍ يُسَبِّحُونَ اللہَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَالْأُلُوَّةُ ہُوَ الْعُودُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پہلاگروہ جو جنت میں داخل ہوگا ان کی شکل چودہویں رات کے چاند کی طرح ہوگی،نہ وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک صاف کریں گے اور نہ پاخانہ کریں گے،جنت میں ان کے برتن سونے کے ہوں گے،ان کی کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی،ان کی انگیٹھیاں عود کی ہوں گی اور ان کا پسینہ مشک کاہوگا۔ان میں سے ہر آدمی کے لیے (کم ازکم) دو دوبیویاں ہوں گی،خوبصورتی کے سبب ان کی پنڈلی کا گودا گوشت کے اندر سے نظر آئے گا۔ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوگا،اور نہ ان کے درمیان کوئی عداوت ودشمنی ہوگی۔ان کے دل ایک آدمی کے دل کے مانند ہوں گے،وہ صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کریں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-الألوۃ عود کو کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَوْ أَنَّ مَا يُقِلُّ ظُفُرٌ مِمَّا فِي الْجَنَّةِ بَدَا لَتَزَخْرَفَتْ لَہُ مَا بَيْنَ خَوَافِقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَ فَبَدَا أَسَاوِرُہُ لَطَمَسَ ضَوْءَ الشَّمْسِ كَمَا تَطْمِسُ الشَّمْسُ ضَوْءَ النُّجُومِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ وَقَدْ رَوَی يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ وَقَالَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر ناخن کے برابر جنت کی کوئی چیزظاہر ہوجائے تو وہ آسمان وزمین کے کناروں کو چمکادے،اور اگرجنت کا کوئی آدمی جھانکے اور اس کے کنگن ظاہر ہوجائیں تو وہ سورج کی روشنی کوایسے ہی مٹادیں،جیسے سورج ستاروں کی روشنی کو مٹادیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے اس سند سے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں ۱؎۔ ۲-یحییٰ بن ایوب نے یہ حدیث یزید بن ابی حبیب سے روایت کی ہے اور سند یوں بیان کی ہے: عن عمر بن سعد بن أبی وقاص،عن النبی ﷺ۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ أَبُو الْعَوَّامِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ يَدْخُلُ أَہْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ جُرْدًا مُرْدًا مُكَحَّلِينَ أَبْنَاءَ ثَلَاثِينَ أَوْ ثَلَاثٍ وَثَلَاثِينَ سَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَبَعْضُ أَصْحَابِ قَتَادَةَ رَوَوْا ہَذَا عَنْ قَتَادَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يُسْنِدُوہُ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنتی جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم پر بال نہیں ہوں گے،وہ امرد ہوں گے،سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے اور تیس یا تینتیس سال کے ہوں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-قتادہ کے بعض شاگردوں نے اسے قتادہ سے مرسلا ً روایت کیا ہے۔اور اسے مسند نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الطَّحَّانُ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ ضِرَارِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَہْلُ الْجَنَّةِ عِشْرُونَ وَمِائَةُ صَفٍّ ثَمَانُونَ مِنْہَا مِنْ ہَذِہِ الْأُمَّةِ وَأَرْبَعُونَ مِنْ سَائِرِ الْأُمَمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَمِنْہُمْ مَنْ قَالَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ وَحَدِيثُ أَبِي سِنَانٍ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ حَسَنٌ وَأَبُو سِنَانٍ اسْمُہُ ضِرَارُ بْنُ مُرَّةَ وَأَبُو سِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ سِنَانٍ وَہُوَ بَصْرِيٌّ وَأَبُو سِنَانٍ الشَّامِيُّ اسْمُہُ عِيسَی بْنُ سِنَانٍ ہُوَ الْقَسْمَلِيُّ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنتیوں کی ایک سوبیس صفیں ہوں گی جس میں سے اسّی صفیں اس امت کی اور چالیس دوسری امتوں کی ہوگی ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث عن علقمۃ بن مرثد،عن سلیمان بن بریدۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے مرسلا ً مروی ہے،۳-بعض لوگوں نے سند یوں بیان کی ہے: عن سلیمان بن بریدۃ عن أبیہ،۴-ابوسنان کی حدیث جو محارب بن دثارکے واسطہ سے مروی ہے،حسن ہے،۵-ابوسنان کانام ضراربن مرۃ ہے اور ابوسنان شیبانی کانام سعید بن سنان ہے،یہ بصری ہیں،۶-اور ابوسنان شامی کانام عیسیٰ بن سنان ہے،اور یہ قسم لی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي قُبَّةٍ نَحْوًا مِنْ أَرْبَعِينَ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَہْلِ الْجَنَّةِ قَالُوا نَعَمْ قَالَ أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَہْلِ الْجَنَّةِ قَالُوا نَعَمْ قَالَ أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَہْلِ الْجَنَّةِ إِنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُہَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ مَا أَنْتُمْ فِي الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک خیمہ میں ہم تقریبا ً چالیس آدمی نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے،آپ نے ہم سے فرمایا: کیاتم اس بات سے خوش ہوکہ تم جنتیوں کی چوتھا ئی رہو؟لوگوں نے کہا: ہاں،آپ نے فرمایا: کیاتم اس بات سے خوش ہوکہ تم جنتیوں کی تہائی رہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں،آپ نے فرمایا: کیاتم اس بات سے خوش ہو کہ تم جنتیوں کے آدھا رہو؟ جنت میں صرف مسلمان ہی جائے گا اورمشرکین کے مقابلے میں تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کالے بیل کے چمڑے پر سفید بال یا سرخ بیل کے چمڑے پرکالا بال ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمران بن حصین اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الْعِشْرِينَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّہُ لَقِيَ أَبَا ہُرَيْرَةَ فَقَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ أَسْأَلُ اللہَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ فِي سُوقِ الْجَنَّةِ فَقَالَ سَعِيدٌ أَفِيہَا سُوقٌ قَالَ نَعَمْ أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَّ أَہْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوہَا نَزَلُوا فِيہَا بِفَضْلِ أَعْمَالِہِمْ ثُمَّ يُؤْذَنُ فِي مِقْدَارِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْيَا فَيَزُورُونَ رَبَّہُمْ وَيُبْرِزُ لَہُمْ عَرْشَہُ وَيَتَبَدَّی لَہُمْ فِي رَوْضَةٍ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ فَتُوضَعُ لَہُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ وَمَنَابِرُ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَمَنَابِرُ مِنْ يَاقُوتٍ وَمَنَابِرُ مِنْ زَبَرْجَدٍ وَمَنَابِرُ مِنْ ذَہَبٍ وَمَنَابِرُ مِنْ فِضَّةٍ وَيَجْلِسُ أَدْنَاہُمْ وَمَا فِيہِمْ مِنْ دَنِيٍّ عَلَی كُثْبَانِ الْمِسْكِ وَالْكَافُورِ وَمَا يَرَوْنَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَرَاسِيِّ بِأَفْضَلَ مِنْہُمْ مَجْلِسًا قَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ وَہَلْ نَرَی رَبَّنَا قَالَ نَعَمْ قَالَ ہَلْ تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ قُلْنَا لَا قَالَ كَذَلِكَ لَا تُمَارَوْنَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ وَلَا يَبْقَی فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ رَجُلٌ إِلَّا حَاضَرَہُ اللہُ مُحَاضَرَةً حَتَّی يَقُولَ لِلرَّجُلِ مِنْہُمْ يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ أَتَذْكُرُ يَوْمَ قُلْتَ كَذَا وَكَذَا فَيُذَكَّرُ بِبَعْضِ غَدْرَاتِہِ فِي الدُّنْيَا فَيَقُولُ يَا رَبِّ أَفَلَمْ تَغْفِرْ لِي فَيَقُولُ بَلَی فَسَعَةُ مَغْفِرَتِي بَلَغَتْ بِكَ مَنْزِلَتَكَ ہَذِہِ فَبَيْنَمَا ہُمْ عَلَی ذَلِكَ غَشِيَتْہُمْ سَحَابَةٌ مِنْ فَوْقِہِمْ فَأَمْطَرَتْ عَلَيْہِمْ طِيبًا لَمْ يَجِدُوا مِثْلَ رِيحِہِ شَيْئًا قَطُّ وَيَقُولُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَی قُومُوا إِلَی مَا أَعْدَدْتُ لَكُمْ مِنْ الْكَرَامَةِ فَخُذُوا مَا اشْتَہَيْتُمْ فَنَأْتِي سُوقًا قَدْ حَفَّتْ بِہِ الْمَلَائِكَةُ فِيہِ مَا لَمْ تَنْظُرْ الْعُيُونُ إِلَی مِثْلِہِ وَلَمْ تَسْمَعْ الْآذَانُ وَلَمْ يَخْطُرْ عَلَی الْقُلُوبِ فَيُحْمَلُ لَنَا مَا اشْتَہَيْنَا لَيْسَ يُبَاعُ فِيہَا وَلَا يُشْتَرَی وَفِي ذَلِكَ السُّوقِ يَلْقَی أَہْلُ الْجَنَّةِ بَعْضُہُمْ بَعْضًا قَالَ فَيُقْبِلُ الرَّجُلُ ذُو الْمَنْزِلَةِ الْمُرْتَفِعَةِ فَيَلْقَی مَنْ ہُوَ دُونَہُ وَمَا فِيہِمْ دَنِيٌّ فَيَرُوعُہُ مَا يَرَی عَلَيْہِ مِنْ اللِّبَاسِ فَمَا يَنْقَضِي آخِرُ حَدِيثِہِ حَتَّی يَتَخَيَّلَ إِلَيْہِ مَا ہُوَ أَحْسَنُ مِنْہُ وَذَلِكَ أَنَّہُ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَحْزَنَ فِيہَا ثُمَّ نَنْصَرِفُ إِلَی مَنَازِلِنَا فَيَتَلَقَّانَا أَزْوَاجُنَا فَيَقُلْنَ مَرْحَبًا وَأَہْلًا لَقَدْ جِئْتَ وَإِنَّ بِكَ مِنْ الْجَمَالِ أَفْضَلَ مِمَّا فَارَقْتَنَا عَلَيْہِ فَيَقُولُ إِنَّا جَالَسْنَا الْيَوْمَ رَبَّنَا الْجَبَّارَ وَيَحِقُّنَا أَنْ نَنْقَلِبَ بِمِثْلِ مَا انْقَلَبْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَی سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ شَيْئًا مِنْ ہَذَا الْحَدِيثِ

سعید بن مسیب سے روایت ہے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اورتم کو جنت کے بازار میں اکٹھا کرے۔سعید بن مسیب نے کہا: کیا اس میں بازاربھی ہے؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں،مجھے رسول اللہ ﷺ نے خبردی کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو وہ اس میں اپنے اعمال کے مطابق اتریں گے،پھر دنیا کے دنوں میں سے جمعہ کے دن کے برابر انہیں اجازت دی جائے گی تووہ اپنے رب کی زیارت کریں گے،ان کے لیے عرش ظاہر ہوگا اورجنت کے ایک باغ میں نظر آئے گا،پھر ان کے لیے نور کے منبر،موتی کے منبر،یاقوت کے منبر،زمرد کے منبر،سونے کے منبر،اور چاندی کے منبر رکھے جائیں گے،ان کے ادنیٰ درجہ والے حالاں کہ ان میں کوئی بھی ادنیٰ نہیں ہوگا مشک اور کافور کے ٹیلے پر بیٹھیں گے اوردوسرے منبر والوں کے بارے میں یہ نہیں خیال کریں گے کہ وہ ان سے اچھی جگہ بیٹھے ہیں۔ابوہریرہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیاہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں،کیاتم سورج اور چودہویں رات کے چاند دیکھنے میں دھکم پیل کیے جاتے ہو؟ ہم نے کہا: نہیں،آپ نے فرمایا: اسی طرح تم اپنے رب کا دیدار کرنے میں دھکم پیل نہیں کروگے،اور اس مجلس میں کوئی ایسا آدمی نہیں ہوگا جس کے روبرو اللہ تعالیٰ گفتگو نہ کرے،حتی کہ ان میں سے ایک آدمی سے کہے گا: اے فلاں بن فلاں! کیاتمہیں وہ دن یاد ہے جب تم نے ایسا ایسا کیاتھا؟ پھر اسے اس کے بعض گناہ یاد دلائے گاجو دنیا میں اس نے کیے تھے تو وہ آدمی کہے گا: اے میرے رب! کیاتونے مجھے معاف نہیں کردیا؟ اللہ تعالیٰ کہے گا: کیوں نہیں؟ میری مغفرت کے سبب ہی تم اس مقام پرہو۔وہ سب اسی حال میں ہوں گے کہ اوپر سے انہیں ایک بدلی ڈھانپ لے گی اور ان پر ایسی خوشبوبرسائے گی کہ اس طرح کی خوشبو انہیں کبھی نہیں ملی ہوگی اور ہمارا رب تبارک وتعالیٰ کہے گا: اس کرامت اور انعام کی طرف جاؤ جو ہم نے تمہارے لیے تیارکررکھی ہے،اوراس میں سے جوچاہو لو،چنانچہ ہم ایک ایسے بازار میں آئیں گے جسے فرشتے گھیرے ہوں گے اس میں ایسی چیزیں ہوں گی کہ اس طرح نہ کبھی آنکھوں نے دیکھی ہوگی نہ کانوں نے سنا ہوگا اور نہ کبھی دلوں میں اس کاخیال آیا ہوگا،ہم جوچاہیں گے ہمارے پاس لایا جائے گا،اس میں خرید وفروخت نہیں ہوگی اور اسی بازار میں جنتی ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے،آپ نے فرمایا: ایک بلند مرتبہ والا آدمی اپنے سے کم رتبہ والے کی طرف متوجہ ہوگا اور اس سے ملاقات کرے گا (حالاں کہ حقیقت میں اس میں سے کوئی بھی کم مرتبے والا نہیں ہوگا) تو اسے (ادنیٰ مرتبے والے کو) اس کا لباس دیکھ کر عجیب سالگے گا پھر اس کی آخری گفتگو ختم بھی نہیں ہوگی کہ اسے محسوس ہوگا کہ اس کا لباس اس سے بھی اچھا ہے اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ جنت میں کسی کا مغموم ہونا مناسب نہیں ہے۔پھرہم (جنتی) اپنے گھروں کی طرف واپس جائیں گے اور اپنی بیویوں سے ملیں گے تو وہ کہیں گی: خوش آمدید! آپ ایسا حسن وجمال لے کر آئے ہیں جو اس سے کہیں بہتر ہے جب آپ ہم سے جدا ہوئے تھے،تو وہ آدمی کہے گا: آج ہم اپنے رب جبار کے ساتھ بیٹھے تھے اور ہمارا حق ہے کہ ہم اسی طرح لوٹیں جس طرح لوٹے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-ـ سوید بن عمرو نے بھی اوزاعی سے اس حدیث کا بعض حصہ روایت

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوقًا مَا فِيہَا شِرَاءٌ وَلَا بَيْعٌ إِلَّا الصُّوَرَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ فَإِذَا اشْتَہَی الرَّجُلُ صُورَةً دَخَلَ فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک ایسا بازار ہے جس میں خرید وفروخت نہیں ہوگی،البتہ اس میں مرد اورعورتوں کی صورتیں ہیں،جب آدمی کسی صورت کو پسندکرے گاتووہ اس میں داخل ہوجائے گا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِيِّ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَنَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَقَالَ إِنَّكُمْ سَتُعْرَضُونَ عَلَی رَبِّكُمْ فَتَرَوْنَہُ كَمَا تَرَوْنَ ہَذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِہِ فَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَی صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَصَلَاةٍ قَبْلَ غُرُوبِہَا فَافْعَلُوا ثُمَّ قَرَأَ فَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھا اور فرمایا: تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو،اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت اور دکھم پیل نہیں ہوگی۔اگرتم سے ہوسکے کہ سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے کے بعدکی صلاۃ (فجر اور مغرب) میں مغلوب نہ ہوتو ایسا کرو،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ صُہَيْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِيَادَةٌ قَالَ إِذَا دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ نَادَی مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللہِ مَوْعِدًا قَالُوا أَلَمْ يُبَيِّضْ وُجُوہَنَا وَيُنَجِّنَا مِنْ النَّارِ وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ قَالُوا بَلَی قَالَ فَيَنْكَشِفُ الْحِجَابُ قَالَ فَوَاللہِ مَا أَعْطَاہُمْ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْہِمْ مِنْ النَّظَرِ إِلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا أَسْنَدَہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَرَفَعَہُ وَرَوَی سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَوْلَہُ

صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ: لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَۃٌ (یونس: ۲۶) کے بارے میں فرمایا: جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے توایک پکارنے والا پکارے گا: اللہ سے تمہیں ایک اور چیز ملنے والی ہے،وہ کہیں گے: کیا اللہ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا،ہمیں جہنم سے نجات نہیں دی،اور ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں،پھر حجاب اٹھ جائے گا،آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے انہیں کوئی ایسی چیزنہیں دی جو ان کے نزدیک اللہ کے دیدار سے زیادہ محبوب ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کو صرف حماد بن سلمہ نے مسند اور مرفوع کیاہے،۲-سلیمان بن مغیرہ اور حماد بن زید نے اس حدیث کو ثابت بنانی کے واسطہ سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے ان کے اپنے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّةِ لَيَتَرَاءَوْنَ فِي الْغُرْفَةِ كَمَا تَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الشَّرْقِيَّ أَوْ الْكَوْكَبَ الْغَرْبِيَّ الْغَارِبَ فِي الْأُفُقِ وَالطَّالِعَ فِي تَفَاضُلِ الدَّرَجَاتِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ أُولَئِكَ النَّبِيُّونَ قَالَ بَلَی وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ وَأَقْوَامٌ آمَنُوا بِاللہِ وَرَسُولِہِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: فرق مراتب کے باوجود ایک دوسرے کو جنتی اسی طرح نظر آئیں گے جیسے مشرقی یا مغربی ستارہ نظر آتاہے،جو افق میں نکلنے اورڈوبنے والاہے۔صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ انبیاء ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اورجنہوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَحْرَ الْمَاءِ وَبَحْرَ الْعَسَلِ وَبَحْرَ اللَّبَنِ وَبَحْرَ الْخَمْرِ ثُمَّ تُشَقَّقُ الْأَنْہَارُ بَعْدُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَكِيمُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ہُوَ وَالِدُ بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ وَالْجُرَيْرِيُّ يُكْنَی أَبَا مَسْعُودٍ وَاسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ

معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جنت میں پانی کا سمندر ہے،شہد کا سمندر ہے،دودھ کا سمندر ہے اور شراب کا سمندر ہے،پھر اس کے بعد چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ سَأَلَ اللہَ الْجَنَّةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتْ الْجَنَّةُ اللہُمَّ أَدْخِلْہُ الْجَنَّةَ وَمَنْ اسْتَجَارَ مِنْ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتْ النَّارُ اللہُمَّ أَجِرْہُ مِنْ النَّارِ قَالَ ہَكَذَا رَوَی يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ مَوْقُوفًا أَيْضًا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جواللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے توجنت کہتی ہے: اے اللہ! اسے جنت میں داخل کردے،اور جوتین مرتبہ جہنم سے پناہ مانگتاہے تو جہنم کہتی ہے: اے اللہ اس کو جہنم سے نجات د ے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اسی طرح یونس بن ابی اسحاق عن ابی اسحاق عن بریدہ بن ابی مریم عن انس عن النبی ﷺ کی سند سے مروی ہے،۲-یہ حدیث عن أبی إسحاق،عن برید بن أبی مریم،عن أنس بن مالک کی سند سے موقوفاً بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا شَيْبَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ غِلَظَ جِلْدِ الْكَافِرِ اثْنَانِ وَأَرْبَعُونَ ذِرَاعًا وَإِنَّ ضِرْسَہُ مِثْلُ أُحُدٍ وَإِنَّ مَجْلِسَہُ مِنْ جَہَنَّمَ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کافر کے چمڑے کی موٹائی بیالیس گز ہوگی،اس کی ڈاڑھ احد پہاڑ جیسی ہوگی اور جہنم میں اس کے بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جتنا مکہ اور مدینہ کے درمیان کا فاصلہ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اعمش کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي جَدِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ وَصَالِحٌ مَوْلَی التَّوْأَمَةِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ضِرْسُ الْكَافِرِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِثْلُ أُحُدٍ وَفَخِذُہُ مِثْلُ الْبَيْضَاءِ وَمَقْعَدُہُ مِنْ النَّارِ مَسِيرَةُ ثَلَاثٍ مِثْلُ الرَّبَذَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَمِثْلُ الرَّبَذَةِ كَمَا بَيْنَ الْمَدِينَةِ وَالرَّبَذَةِ وَالْبَيْضَاءُ جَبَلٌ مِثْلُ أُحُدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کافر کی ڈاڑھ احدپہاڑ جیسی ہوگی،اس کی ران بیضاء (پہاڑ) جیسی ہوگی اورجہنم کے اندر اس کے بیٹھنے کی جگہ تین میل کی مسافت کے برابرہوگی جس طرح ربذہ کی دوری ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-مثل الربذۃ کا مطلب ہے کہ جس طرح ربذہ پہاڑ مدینہ سے دور ہے،ربذہ اور بیضاء احد کی طرح دوپہاڑ ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَفَعَہُ قَالَ ضِرْسُ الْكَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو حَازِمٍ ہُوَ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُہُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کافر کی ڈاڑھ اُحد جیسی ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي الْمُخَارِقِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الْكَافِرَ لَيُسْحَبُ لِسَانُہُ الْفَرْسَخَ وَالْفَرْسَخَيْنِ يَتَوَطَّؤُہُ النَّاسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْفَضْلُ بْنُ يَزِيدَ ہُوَ كُوفِيٌّ قَدْ رَوَی عَنْہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَأَبُو الْمُخَارِقِ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کافر اپنی زبان کو ایک یادو فرسخ تک گھسیٹے گا اور لوگ اسے روندیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-فضل بن یزید کوفی ہیں،ان سے کئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے،۳-ابوالمخارق غیر معروف راوی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّہُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ يَلِجُ فِي النَّارِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَالزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَمُعَاوِيَةَ وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي مُوسَی وَأَبِي أُمَامَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَالْمُقَنَّعِ وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ أَثْبَتُ أَہْلِ الْكُوفَةِ و قَالَ وَكِيعٌ لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھ پرجھوٹ نہ باندھو کیوں کہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکر،عمر،عثمان،زبیر،سعید بن زید،عبداللہ بن عمرو،انس،جابر،ابن عباس،ابوسعید،عمرو بن عبسہ،عقبہ بن عامر،معاویہ،بریدہ،ابوموسیٰ،ابوامامہ،عبداللہ بن عمر،مقنع اور اوس ثقفی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ حَسِبْتُ أَنَّہُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتَہُ مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی،(انس کہتے ہیں) میرا خیال ہے کہ آپ نے مَنْ کَذَبَ عَلَیَّّ کے بعد مُتَعَمِّدً کا لفظ بھی کہا یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا،تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔یعنی زہری کی اس روایت سے جسے وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں،۲-یہ حدیث متعدد سندوں سے انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری طرف سے لوگوں کو (احکام الٰہی) پہنچادو اگر چہ ایک آیت ہی ہو۔اور بنی اسرائیل سے بیان کرو۔ان سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں،اور جس نے جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹ کی نسبت کی تووہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،اور یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ وَعَظَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ فَقَالَ رَجُلٌ إِنَّ ہَذِہِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَی اللہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّہُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَی اخْتِلَافًا كَثِيرًا وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّہَا ضَلَالَةٌ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْہِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَہْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْہَا بِالنَّوَاجِذِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَالْعِرْبَاضُ بْنُ سَارِيَةَ يُكْنَی أَبَا نَجِيحٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ حُجْرِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک دن ہمیں صلاۃفجرکے بعد ایک موثر نصیحت فرمائی جس سے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور دل لرزگئے،ایک شخص نے کہا: یہ نصیحت ایسی ہے جیسی نصیحت دینا سے (آخری بار) رخصت ہوکرجانے والے کیاکرتے ہیں،تو اللہ کے رسول! آپ ہمیں کس بات کی وصیت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے،امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی نصیحت کرتاہوں،اگرچہ تمہارا حاکم اور امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو،کیوں کہ تم میں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ (امت کے اندر) بہت سارے اختلافات دیکھے گا توتم (باقی رہنے والوں) کو میری وصیت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا،کیوں کہ یہ سب گمراہی ہیں۔چنانچہتم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جمارہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبالے۔(اوراس پر عمل پیرارہے) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ثوربن یزید نے بسند خالد بن معدان عن عبدالرحمٰن بن عمرو السلمی عن عرباض بن ساریۃ عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے۔اس سند سے بھی عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عرباض بن ساریہ کی کنیت ابونجیح ہے۔۲-یہ حدیث بطریق: حجر بن حجر،عن العرباض بن ساریۃ،عن النبی ﷺ کے طریق سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيِّ عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ہُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِبِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ اعْلَمْ قَالَ مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ اعْلَمْ يَا بِلَالُ قَالَ مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِنَّہُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي فَإِنَّ لَہُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَيْئًا وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ لَا تُرْضِي اللہَ وَرَسُولَہُ كَانَ عَلَيْہِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ ہُوَ مَصِّيصِيٌّ شَامِيٌّ وَكَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ہُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ

عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے کہا: سمجھ لو (جان لو) انہوں نے کہا: سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: سمجھ لو اور جان لو،انہوں نے عرض کیا:سمجھنے اور جاننے کی چیز کیا ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس پر لوگوں نے میرے بعد عمل کرنا چھوڑ دیا ہے،تو اسے اتنا ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پرعمل کرنے والوں کوملے گا،یہ ان کے اجروں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا،اور جس نے گمراہی کی کوئی نئی بدعت نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی وخوش نہیں،تو اسے اس پرعمل کرنے والوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا،اس کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی نہیں کرے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-محمد بن عیینہ مصیصی شامی ہیں،۳-اور کثیر بن عبداللہ سے مراد کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ الْأَنْصَارِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا بُنَيَّ إِنْ قَدَرْتَ أَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِيَ لَيْسَ فِي قَلْبِكَ غِشٌّ لِأَحَدٍ فَافْعَلْ ثُمَّ قَالَ لِي يَا بُنَيَّ وَذَلِكَ مِنْ سُنَّتِي وَمَنْ أَحْيَا سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي وَمَنْ أَحَبَّنِي كَانَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ ثِقَةٌ وَأَبُوہُ ثِقَةٌ وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ صَدُوقٌ إِلَّا أَنَّہُ رُبَّمَا يَرْفَعُ الشَّيْءَ الَّذِي يُوقِفُہُ غَيْرُہُ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ بَشَّارٍ يَقُولُ قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ وَكَانَ رَفَّاعًا وَلَا نَعْرِفُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَنَسٍ رِوَايَةً إِلَّا ہَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِہِ وَقَدْ رَوَی عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْمِنْقَرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَذَاكَرْتُ بِہِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ فَلَمْ يَعْرِفْہُ وَلَمْ يُعْرَفْ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَنَسٍ ہَذَا الْحَدِيثُ وَلَا غَيْرُہُ وَمَاتَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ سَنَةَ ثَلَاثٍ وَتِسْعِينَ وَمَاتَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ بَعْدَہُ بِسَنَتَيْنِ مَاتَ سَنَةَ خَمْسٍ وَتِسْعِينَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بیٹے: اگر تم سے ہوسکے کہ صبح وشام تم اس طرح گزارے کہ تمہارے دل میں کسی کے لئے بھی کھوٹ (بغض،حسد،کینہ وغیرہ) نہ ہو توایسا کرلیا کرو،پھر آپ نے فرمایا: میرے بیٹے! ایسا کرنا میری سنت (اور میراطریقہ) ہے،اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں رہے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث میں ایک طویل قصہ بھی ہے،۲-اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے،۳-محمد بن عبداللہ انصاری ثقہ ہیں،اور ان کے باپ بھی ثقہ ہیں،۴-علی بن زید صدوق ہیں (ان کا شمار سچوں میں ہے) بس ان میں اتنی سی کمی وخرابی ہے کہ وہ بسا اوقات بعض روایات کو جسے دوسرے راوی موقوفاً روایت کرتے ہیں اسے یہ مرفوع روایت کردیتے ہیں،۵-میں نے محمد بن بشار کو کہتے ہوئے سنا کہ ابوالولید نے کہا: شعبہ کہتے ہیں کہ مجھ سے علی بن زید نے حدیث بیان کی اور علی بن زید رفاع تھے،۶-ہم سعید بن مسیب کی انس کے واسطہ سے اس طویل حدیث کے سوا اور کوئی روایت نہیں جانتے،۷-عباد بن میسرہ منقری نے یہ حدیث علی بن زیدکے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے،لیکن انہوں نے اس حدیث میں سعید بن مسیب کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا،۸-میں نے اس حدیث کا محمد بن اسماعیل بخاری سے ذکر کرکے اس کے متعلق جاننا چاہا تو انہوں نے اس کے متعلق اپنی لاعلمی کا اظہار کیا،۹-انس بن مالک سے سعید بن مسیب کی روایت سے یہ یا اس کے علاوہ کوئی بھی حدیث معروف نہیں ہے۔انس بن مالک ۹۳ہجری میں انتقال فرماگئے اور سعید بن مسیب ان کے دوسال بعد ۹۵ہجری میں اللہ کو پیارے ہوئے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ وَإِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رِوَايَةً يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الْإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ فَلَا يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِينَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ أَنَّہُ قَالَ فِي ہَذَا سُئِلَ مَنْ عَالِمُ الْمَدِينَةِ فَقَالَ إِنَّہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ و قَالَ إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ ہُوَ الْعُمَرِيُّ الزَّاہِدُ وَاسْمُہُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ و سَمِعْت يَحْيَی بْنَ مُوسَی يَقُولُ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ ہُوَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالْعُمَرِيُّ ہُوَ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ لوگ علم کی تلاش میں کثرت سے لمبے لمبے سفر طے کریں گے،لیکن(کہیں بھی) انہیں مدینہ کے عالم سے بڑا کوئی عالم نہ ملے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عیینہ سے مروی یہ حدیث حسن ہے،۲-سفیان بن بن عیینہ سے اس بارے میں جب پوچھا گیا کہ عالم مدینہ کون ہے؟ توانہوں نے کہا: مالک بن انس ہیں،۳-اسحاق بن موسیٰ کہتے ہیں: میں نے ابن عیینہ کو کہتے سنا کہ وہ (یعنی عالم مدینہ) عمری عبدالعزیز بن عبداللہ زاہد ہیں،۴-میں نے یحییٰ بن موسیٰ کو کہتے ہوئے سنا عبدالرزاق کہتے تھے کہ وہ (عالم مدینہ) مالک بن انس ہیں،۵-عمری یہ عبدالعزیز بن عبداللہ ہیں،اور یہ عمربن خطاب کی اولاد میں سے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ جَنَاحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقِيہٌ أَشَدُّ عَلَی الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک فقیہ (عالم) ہزار عبادت کرنے والوں کے مقابلہ میں اکیلا شیطان پرحاوی اوربھاری ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت سے صرف اسی سند جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ قَالَ قَدِمَ رَجُلٌ مِنْ الْمَدِينَةِ عَلَی أَبِي الدَّرْدَاءِ وَہُوَ بِدِمَشْقَ فَقَالَ مَا أَقْدَمَكَ يَا أَخِي فَقَالَ حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَمَا جِئْتَ لِحَاجَةٍ قَالَ لَا قَالَ أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ قَالَ لَا قَالَ مَا جِئْتُ إِلَّا فِي طَلَبِ ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيہِ عِلْمًا سَلَكَ اللہُ بِہِ طَرِيقًا إِلَی الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا رِضَاءً لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَہُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّی الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْہَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِہِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ وَلَيْسَ ہُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ ہَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ ہَذَا الْحَدِيثَ وَإِنَّمَا يُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ خِدَاشٍ وَرَأْيُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَعِيلَ ہَذَا أَصَحُّ

قیس بن کثیر کہتے ہیں: ایک شخص مدینہ سے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق آیا،ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کرآئی ہے،اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں،ابوالدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں،انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تونہیں آئے ہو؟ اس نے کہا:نہیں۔میں تو صرف اس حدیث کی طلب وتلاش میں آیاہوں،ابوالدرداء نے کہا: (اچھاتوسنو) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جوشخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے،تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں،اور عالم کے لیے آسمان وزمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی،اور عالم کی فضیلت عابد پرایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر،بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار ودرہم کا وارث نہیں بنایا،بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا،اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے،اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے،۲-یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند داود بن جمیل عن کثیر بن قیس عن ابی الدرداء عن النبی ﷺ روایت کی ہے۔اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ عَنْ ابْنِ أَشْوَعَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ سَلَمَةَ الْجُعْفِيِّ قَالَ قَالَ يَزِيدُ بْنُ سَلَمَةَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَخَافُ أَنْ يُنْسِيَنِي أَوَّلَہُ آخِرُہُ فَحَدِّثْنِي بِكَلِمَةٍ تَكُونُ جِمَاعًا قَالَ اتَّقِ اللہَ فِيمَا تَعْلَمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ وَہُوَ عِنْدِي مُرْسَلٌ وَلَمْ يُدْرِكْ عِنْدِي ابْنُ أَشْوَعَ يَزِيدَ بْنَ سَلَمَةَ وَابْنُ أَشْوَعَ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ أَشْوَعَ

یزید بن سلمہ جعفی کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے بہت سی حدیثیں آپ سے سنی ہیں،میں ڈرتاہوں کہ کہیں بعد کی حدیثیں شروع کی حدیثوں کو بھلا نہ دیں،آپ مجھے کوئی ایسا کلمہ (کوئی ایسی بات) بتادیجئے جودونوں (اول وآخر) کو ایک ساتھ باقی رکھنے کا ذریعہ بنے۔آپ نے فرمایا: جو کچھ بھی تم جانتے ہوان کے متعلق اللہ کا خوف وتقویٰ ملحوظ رکھو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ایسی ہے جس کی سندمتصل نہیں ہے،یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے۔۲-میرے نزدیک ابن اُشوع نے یزید بن سلمی (کے دور) کو نہیں پایا ہے،۳-ابن اُشوع کانام سعید بن اشوع ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ أَيُّوبَ الْعَامِرِيُّ عَنْ عَوْفٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُنَافِقٍ حُسْنُ سَمْتٍ وَلَا فِقْہٌ فِي الدِّينِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ہَذَا الشَّيْخِ خَلَفِ بْنِ أَيُّوبَ الْعَامِرِيِّ وَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَرْوِي عَنْہُ غَيْرَ أَبِي كُرَيْبٍ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَلَاءِ وَلَا أَدْرِي كَيْفَ ہُوَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق میں د وخصلتیں (صفتیں) جمع نہیں ہوسکتی ہیں: حسن اخلاق اور دین کی سمجھ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم عوف کی اس حدیث کو صرف شیخ خلف بن ایوب عامری کی روایت سے جانتے ہیں،اور ابوکریب محمد بن علاء کے سوا کسی کوہم نہیں جانتے جس نے خلف بن ایوب عامری سے روایت کی ہے،اور ہم نہیں جانتے کہ وہ کیسے شخص ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاہِلِيِّ قَالَ ذُكِرَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ رَجُلَانِ أَحَدُہُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ عَالِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَی أَدْنَاكُمْ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ وَمَلَائِكَتَہُ وَأَہْلَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرَضِينَ حَتَّی النَّمْلَةَ فِي جُحْرِہَا وَحَتَّی الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَی مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ قَالَ سَمِعْت أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ عَالِمٌ عَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَی كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ

ابوامامہ باہلی کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے سامنے دوآدمیوں کا ذکر کیاگیا،ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اوزمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی وبھلائی کی تعلیم دیتاہے خیر وبرکت کی دعائیں کرتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-فضیل بن عیاض کہتے ہیں ملکوت السماوات (عالم بالا) میں عمل کرنے والے عالم اور معلم کو بہت بڑی اہمیت وشخصیت کامالک سمجھا اور پکاراجاتاہے۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ لَنْ يَشْبَعَ الْمُؤْمِنُ مِنْ خَيْرٍ يَسْمَعُہُ حَتَّی يَكُونَ مُنْتَہَاہُ الْجَنَّةُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن بھلائی سے ہر گز آسودہ نہیں ہوتایہاں تک کہ وہ اپنے آخری انجام جنت میں پہنچ جاتاہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَہَا فَہُوَ أَحَقُّ بِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ الْفَضْلِ الْمَدَنِيُّ الْمَخْزُومِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے جہاں کہیں بھی اسے پائے وہ اسے حاصل کرلینے کا زیادہ حق رکھتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-ابراہیم بن فضل مدنی مخزومی حدیث بیان کرنے میں حفط کے تعلق سے کمزور مانے جاتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَی عَلَی عُمَرَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ قَالَ عُمَرُ وَاحِدَةٌ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ قَالَ عُمَرُ ثِنْتَانِ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ فَقَالَ عُمَرُ ثَلَاثٌ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ عُمَرُ لِلْبَوَّابِ مَا صَنَعَ قَالَ رَجَعَ قَالَ عَلَيَّ بِہِ فَلَمَّا جَاءَہُ قَالَ مَا ہَذَا الَّذِي صَنَعْتَ قَالَ السُّنَّةُ قَالَ آلسُّنَّةُ وَاللہِ لَتَأْتِيَنِّي عَلَی ہَذَا بِبُرْہَانٍ أَوْ بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ بِكَ قَالَ فَأَتَانَا وَنَحْنُ رُفْقَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللہِ ﷺ الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ فَجَعَلَ الْقَوْمُ يُمَازِحُونَہُ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَيْہِ فَقُلْتُ فَمَا أَصَابَكَ فِي ہَذَا مِنْ الْعُقُوبَةِ فَأَنَا شَرِيكُكَ قَالَ فَأَتَی عُمَرَ فَأَخْبَرَہُ بِذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ مَا كُنْتُ عَلِمْتُ بِہَذَا وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأُمِّ طَارِقٍ مَوْلَاةِ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْجُرَيْرِيُّ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ يُكْنَی أَبَا مَسْعُودٍ وَقَدْ رَوَی ہَذَا غَيْرُہُ أَيْضًا عَنْ أَبِي نَضْرَةَ وَأَبُو نَضْرَةَ الْعَبْدِيُّ اسْمُہُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی توانہوں نے کہا: السلام علیکم کیا میں اندر آسکتاہوں؟ عمر نے (دل میں)کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے،تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: السلام علیکم کیا میں اندر آسکتاہوں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے (دل میں) کہا: ابھی تو دوہی بار اجازت طلب کی ہے۔تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھرکہا: السلام علیکم کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر نے (دل میں کہا) تین بار اجازت طلب کرچکے،پھرابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ واپس ہولیے،عمر رضی اللہ عنہ نے دربان سے کہا: ابوموسیٰ نے کیاکیا؟ اس نے کہا: لوٹ گئے۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہاانہیں بلاکر میرے پاس لاؤ،پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آپ نے کیاکیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے سنت پرعمل کیاہے،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا سنت پر؟قسم اللہ کی!تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل وثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ابوسعیدخدریکہتے ہیں: پھر وہ ہمارے پاس آئے،اس وقت ہم انصارکی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ابوموسیٰ اشعری نے کہا: اے انصارکی جماعت! کیاتم رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو،کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا: الاستئذان ثلاث (اجازت طلبی) تین بار ہے۔اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لوٹ جاؤ؟ (یہ سن کر) لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے،ابوسعیدخدری کہتے ہیں: میں نے اپناسرابوموسی اشعری کی طرف اونچا کرکے کہا: اس سلسلے میں جوبھی سزا آپ کوملے گی میں اس میں حصہ دارہوں گا،راوی کہتے ہیں: پھر وہ (ابوسعید) عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے،اور ان کو اس حدیث کی خبردی،عمر نے کہا: مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،اور جریری کانام سعید بن ایاس ہے اور ان کی کنیت ابو مسعود ہے۔یہ حدیث ان کے سوا اور لوگوں نے بھی ابونضرہ سے روایت کی ہے،اور ابونضرہ عبدی کانام منذر بن مالک بن قطعہ ہے،۲-اس باب میں علی اور سعد کی آزاد کردہ لونڈی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ اسْتَأْذَنْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ ثَلَاثًا فَأَذِنَ لِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُہُ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ وَإِنَّمَا أَنْكَرَ عُمَرُ عِنْدَنَا عَلَی أَبِي مُوسَی حَيْثُ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِذَا أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ وَقَدْ كَانَ عُمَرُ اسْتَأْذَنَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثَلَاثًا فَأَذِنَ لَہُ وَلَمْ يَكُنْ عَلِمَ ہَذَا الَّذِي رَوَاہُ أَبُو مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ کے پاس آنے کی تین بار اجازت مانگی،توآپ نے مجھے اجازت دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابو زمیل کانام سماک الحنفی ہے،۳-میرے نزدیک عمر کو ابوموسیٰ کی اس بات پر اعتراض اور انکاراس وجہ سے تھا کہ ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:اجازت تین بار طلب کی جائے،اگراجازت مل جائے تو ٹھیک ور نہ لوٹ جائو۔(رہ گیا عمر کا اپنا معاملہ) تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے تین بار اجازت طلب کی تھی تو انہیں اجازت مل گئی تھی،اس حدیث کی خبر انہیں نہیں تھی جسے ابوموسیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،آپ نے فرمایا: پھر اگر اندر جانے کی اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ سَہْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَيَّارٍ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ فَمَرَّ عَلَی صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْہِمْ فَقَالَ ثَابِتٌ كُنْتُ مَعَ أَنَسٍ فَمَرَّ عَلَی صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْہِمْ وَقَالَ أَنَسٌ كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَمَرَّ عَلَی صِبْيَانٍ فَسَلَّمَ عَلَيْہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ثَابِتٍ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

سیار کہتے ہیں: میں ثابت بنانی کے ساتھ جارہاتھا،وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا،ثابت نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا: میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ (جارہا) تھا وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے سلام کیا،پھرانس نے (اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے) کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا،آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اسے کئی لوگوں نے ثابت سے روایت کیا ہے،۳-یہ حدیث متعدد سندوں سے انس سے بھی روایت کی گئی ہے۔اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَہْرَامَ أَنَّہُ سَمِعَ شَہْرَ بْنَ حَوْشَبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ أَسْمَاءَ بِنْتَ يَزِيدَ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَرَّ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا وَعُصْبَةٌ مِنْ النِّسَاءِ قُعُودٌ فَأَلْوَی بِيَدِہِ بِالتَّسْلِيمِ وَأَشَارَ عَبْدُ الْحَمِيدِ بِيَدِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لَا بَأْسَ بِحَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَہْرَامَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ شَہْرٌ حَسَنُ الْحَدِيثِ وَقَوَّی أَمْرَہُ و قَالَ إِنَّمَا تَكَلَّمَ فِيہِ ابْنُ عَوْنٍ ثُمَّ رَوَی عَنْ ہِلَالِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ أَنْبَأَنَا أَبُو دَاوُدَ الْمَصَاحِفِيُّ بَلْخِيٌّ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ إِنَّ شَہْرًا نَزَكُوہُ قَالَ أَبُو دَاوُدَ قَالَ النَّضْرُ نَزَكُوہُ أَيْ طَعَنُوا فِيہِ وَإِنَّمَا طَعَنُوا فِيہِ لِأَنَّہُ وَلِيَ أَمْرَ السُّلْطَانِ

اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں گزرے وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی،چنانچہ آپ نے انہیں اپنے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-عبدالحمید (راوی) نے بھی پتے ہاتھ سے اشارہ کیا(کہ اس طرح)،۳-احمد بن حنبل کہتے ہیں: شہر بن حوشب کے واسطہ سے عبدالحمید بن بہرام کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے،۴-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: شہرحسن الحدیث ہیں اور ان کوروایت حدیث میں قوی بخاری کہتے ہیں: ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیا ہے۔ا بن عون کہتے ہیں: إن شہرا نزکوہ کے واسطہ سے کہا: شہر کی شخصیت کو محدثین نے داغ دار بتایا ہے۔ابوداود کہتے ہیں کہ نضر کہتے ہیں نزکوہ کا مطلب یہ ہے کہ طعنوا فیہ یعنی ان کی شخصیت کو داغ دار بتایاہے،اور لوگوں نے ان پرجرح اس لیے کی ہے کہ وہ سلطان (حکومت) کے ملازم بن گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَی الْمَاشِي وَالْمَاشِي عَلَی الْقَاعِدِ وَالْقَلِيلُ عَلَی الْكَثِيرِ وَزَادَ ابْنُ الْمُثَنَّی فِي حَدِيثِہِ وَيُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَی الْكَبِيرِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ و قَالَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ إِنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو،اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو (یعنی چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ اور ابن مثنی نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: چھوٹا اپنے بڑے کوسلام کرے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ابوہریرہ سے متعدد سندوں سے مروی ہے،۲-ایوب سختیانی،یونس بن عبید اور علی بن یزید کہتے ہیں کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے،۳-اس باب میں عبدالرحمٰن بن شبل،فضالہ بن عبید اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَی الْكَبِيرِ وَالْمَارُّ عَلَی الْقَاعِدِ وَالْقَلِيلُ عَلَی الْكَثِيرِ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو،چلنے والابیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کوسلام کریں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللہِ أَنْبَأَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ أَخْبَرَنِي أَبُو ہَانِئٍ اسْمُہُ حُمَيْدُ بْنُ ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْجَنْبِيِّ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يُسَلِّمُ الْفَارِسُ عَلَی الْمَاشِي وَالْمَاشِي عَلَی الْقَائِمِ وَالْقَلِيلُ عَلَی الْكَثِيرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَلِيٍّ الْجَنْبِيُّ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سوار پیدل چلنے والے کواورچلنے والا کھڑے ہوئے شخص کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کوسلام کریں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ فِي بَيْتِہِ فَاطَّلَعَ عَلَيْہِ رَجُلٌ فَأَہْوَی إِلَيْہِ بِمِشْقَصٍ فَتَأَخَّرَ الرَّجُلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے گھر میں تھے(اسی دوران) ایک شخص نے آپ کے گھر میں جھانکا،آپﷺ تیر کا پھل لے کر لپکے (کہ اس کی آنکھیں پھوڑدیں) لیکن وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ رَجُلًا اطَّلَعَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْ جُحْرٍ فِي حُجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعَ النَّبِيِّ ﷺ مِدْرَاةٌ يَحُكُّ بِہَا رَأْسَہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ تَنْظُرُ لَطَعَنْتُ بِہَا فِي عَيْنِكَ إِنَّمَا جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے حجرے میں ایک سوراخ سے جھانکا (اس وقت) نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ اپنا سر کھجارہے تھے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:اگر مجھے (پہلے سے) معلوم ہوتا کہ تو جھانک رہاہے تو میں اسے تیری آنکھ میں کونچ دیتا(تجھے پتانہیں) اجازت مانگنے کا حکم تودیکھنے کے سبب ہی سے ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَاہُمْ أَنْ يَطْرُقُوا النِّسَاءَ لَيْلًا وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَاہُمْ أَنْ يَطْرُقُوا النِّسَاءَ لَيْلًا قَالَ فَطَرَقَ رَجُلَانِ بَعْدَ نَہْيِ النَّبِيِّ ﷺ فَوَجَدَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مَعَ امْرَأَتِہِ رَجُلًا

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو سفر سے رات میں بیویوں کے پاس لوٹ کرآنے سے روکا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے،۳-اس باب میں انس،ابن عمر،اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے لوگوں کو رات میں بیویوں کے پاس سفر سے واپس لوٹ کر آنے سے روکا ابن عباس کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺکے اس روکنے کے باوجود دوشخص رات میں لوٹ کر اپنی بیویوں کے پاس آئے (نتیجہ انہیں اس نافرمانی کا یہ ملا) کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی بیوی کے پاس ایک دوسرے مرد کو پایا۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ عَنْ حَمْزَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا كَتَبَ أَحَدُكُمْ كِتَابًا فَلْيُتَرِّبْہُ فَإِنَّہُ أَنْجَحُ لِلْحَاجَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لَا نَعْرِفُہُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ وَحَمْزَةُ ہُوَ عِنْدِي ابْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِيُّ ہُوَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی تحریر لکھے تو لکھنے کے بعد اس پر مٹی ڈالنا چاہیے،کیوں کہ اس سے حاجت برآری کی زیادہ توقع ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث منکر ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے ابوزبیر کی روایت سے جانتے ہیں،۳-حمزہ ہمارے نزدیک عمرونصیبی کے بیٹے ہیں،اور وہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف مانے جاتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيہِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَتَعَلَّمَ لَہُ كَلِمَاتٍ مِنْ كِتَابِ يَہُودَ قَالَ إِنِّي وَاللہِ مَا آمَنُ يَہُودَ عَلَی كِتَابِي قَالَ فَمَا مَرَّ بِي نِصْفُ شَہْرٍ حَتَّی تَعَلَّمْتُہُ لَہُ قَالَ فَلَمَّا تَعَلَّمْتُہُ كَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَی يَہُودَ كَتَبْتُ إِلَيْہِمْ وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْہِ قَرَأْتُ لَہُ كِتَابَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَوَاہُ الْأَعْمَشُ عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَتَعَلَّمَ السُّرْيَانِيَّةَ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے لیے یہود کی کچھ تحریر سیکھ لوں،آپ نے فرمایا: قسم اللہ کی! میں یہود کی تحریر پر اعتماد واطمینان نہیں کرتا،چنانچہ ابھی آدھا مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے آپ کے لیے اسے سیکھ لیا۔کہتے ہیں: پھر جب میں نے سیکھ لیا اور آپ کو یہودیوں کے پاس کچھ لکھ کر بھیجنا ہوا تو میں نے لکھ کر ان کے پاس بھیج دیا،اور جب یہودہوں نے کوئی چیز لکھ کرآپ کے پا س بھیجی تو میں نے ان کی کتاب (تحریر) پڑھ کر آپ کو سنادی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث اس سند کے علاوہ بھی دوسری سند سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،اسے اعمش نے ثابت بن عبید انصاری کے واسطہ سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سریانی زبان سیکھ لوں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَتَبَ قَبْلَ مَوْتِہِ إِلَی كِسْرَی وَإِلَی قَيْصَرَ وَإِلَی النَّجَاشِيِّ وَإِلَی كُلِّ جَبَّارٍ يَدْعُوہُمْ إِلَی اللہِ وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّی عَلَيْہِ النَّبِيُّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے کسریٰ وقیصر،نجاشی اور سارے سرکش و متکبر بادشاہوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھ کر بھیجے۔اس نجاشی سے وہ نجاشی (بادشاہ حبش اصحمہ) مراد نہیں ہے کہ جن کے انتقال پر نبی اکرم ﷺ نے صلاۃ جنازہ پڑھی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ الْأَجْلَحِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَہُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْبَرَاءِ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَالْأَجْلَحُ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيُّ

-براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب دومسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور (سلام) ومصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جداہونے سے پہلے انہیں بخش دیاجاتا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث براء سے متعدد سندوں سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ الرَّجُلُ مِنَّا يَلْقَی أَخَاہُ أَوْ صَدِيقَہُ أَيَنْحَنِي لَہُ قَالَ لَا قَالَ أَفَيَلْتَزِمُہُ وَيُقَبِّلُہُ قَالَ لَا قَالَ أَفَيَأْخُذُ بِيَدِہِ وَيُصَافِحُہُ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول!ہمارا آدمی اپنے بھائی سے یا اپنے دوست سے ملتاہے تو کیا وہ اس کے سامنے جھکے؟ آپ نے فرمایا: نہیں،اس نے پوچھا:کیا وہ اس سے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے؟ آپ نے فرمایا: نہیں،اس نے کہا: پھر توو ہ اس کاہاتھ پکڑے اور مصافحہ کرے،آپ نے فرمایا:ہاں (بس اتنا ہی کافی ہے) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ہَلْ كَانَتْ الْمُصَافَحَةُ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا:کیا رسول اللہﷺ کے صحابہ میں مصافحہ کا رواج تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الْأَخْذُ بِالْيَدِ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ سُفْيَانَ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعُدَّہُ مَحْفُوظًا و قَالَ إِنَّمَا أَرَادَ عِنْدِي حَدِيثَ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ خَيْثَمَةَ عَمَّنْ سَمِعَ ابْنَ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا سَمَرَ إِلَّا لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَإِنَّمَا يُرْوَی عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ أَوْ غَيْرِہِ قَالَ مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ الْأَخْذُ بِالْيَدِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مکمل سلام (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کے ساتھ ساتھ) ہاتھ کو ہاتھ میں لینا یعنی(مصافحہ کرنا) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف یحییٰ بن سلیم کی روایت سے جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں جانتے ہیں،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے محفوظ شمار نہیں کیا،اور کہا کہ میرے نزدیک یحییٰ بن سلیم نے سفیان کی وہ روایت مراد لی ہے جسے انہوں نے منصور سے روایت کی ہے،اور منصور نے خیثمہ سے اور خیثمہ نے اس سے جس نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور ابن مسعود نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔آپ نے فرمایا: (بعد صلاۃ عشاء) بات چیت اور قصہ گوئی نہیں کرنی چاہیے،سوائے اس شخص کے جس کو (ابھی کچھ دیر بعد اٹھ کر تہجد کی) صلاۃ پڑھنی ہے یا سفر کرنا ہے،محمدکہتے ہیں: اورمنصورسے مروی ہے انہوں نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے عبدالرحمٰن بن یزیدسے یاان کے سوا کسی اور سے روایت کی ہے۔وہ کہتے ہیں: سلام کی تکمیل سے مراد ہاتھ پکڑنا (مصافحہ کرنا) ہے،۳-اس باب میں براء اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ تَمَامُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ أَنْ يَضَعَ أَحَدُكُمْ يَدَہُ عَلَی جَبْہَتِہِ أَوْ قَالَ عَلَی يَدِہِ فَيَسْأَلُہُ كَيْفَ ہُوَ وَتَمَامُ تَحِيَّاتِكُمْ بَيْنَكُمْ الْمُصَافَحَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا إِسْنَادٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ قَالَ مُحَمَّدٌ وَعُبَيْدُ اللہِ بْنُ زَحْرٍ ثِقَةٌ وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ ضَعِيفٌ وَالْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُكْنَی أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَہُوَ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَہُوَ ثِقَةٌ وَالْقَاسِمُ شَامِيٌّ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ تم میں سے عیادت کرنے والا اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پررکھے،یا آپ نے یہ فرمایا: (راوی کو شبہ ہوگیاہے) اپناہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے،پھر اس سے پوچھے کہ وہ کیسا ہے؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: عبید اللہ بن زحر ثقہ ہیں اور علی بن یزید ضعیف ہیں،۳-قاسم بن عبدالرحمٰن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے اوریہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ثقہ ہیں اور قاسم شامی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي النَّضْرِ أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئِ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ أُمَّ ہَانِئٍ تَقُولُ ذَہَبْتُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُہُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ تَسْتُرُہُ بِثَوْبٍ قَالَتْ فَسَلَّمْتُ فَقَالَ مَنْ ہَذِہِ قُلْتُ أَنَا أُمُّ ہَانِئٍ فَقَالَ مَرْحَبًا بِأُمِّ ہَانِئٍ قَالَ فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً طَوِيلَةً ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فتح مکہ والے سال میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی۔آپ اس وقت غسل فرمارہے تھے،اور فاطمہ رضی اللہ عنہا ایک کپڑے سے آپ کو آڑ کیے ہوئے تھیں۔میں نے سلام کیا تو آپ نے پوچھا: کون ہیں یہ؟ میں نے کہا: میں ام ہانی ہوں،آپ نے فرمایا: ام ہانی کا آنامبارک ہو۔ راوی کہتے ہیں پھر ابومرہ نے حدیث کا پوراواقعہ بیان کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ مَسْعُودٍ أَبُو حُذَيْفَةَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ أَبِي جَہْلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمَ جِئْتُہُ مَرْحَبًا بِالرَّاكِبِ الْمُہَاجِرِ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِصَحِيحٍ لَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ سُفْيَانَ وَمُوسَی بْنُ مَسْعُودٍ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ وَہَذَا أَصَحُّ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ بَشَّارٍ يَقُولُ مُوسَی بْنُ مَسْعُودٍ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَكَتَبْتُ كَثِيرًا عَنْ مُوسَی بْنِ مَسْعُودٍ ثُمَّ تَرَكْتُہُ

-عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں(مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے) آیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مہاجر سوارکاآنا مبارک ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے۔ہم اسے صرف موسیٰ بن مسعود کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں۔موسیٰ بن مسعودحدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۲-عبدالرحمٰن بن مہدی نے بھی یہ حدیث سفیان سے اور سفیان نے ابواسحاق سے مرسلا روایت کی ہے۔اور اس سند میں مصعب بن سعد کا ذکر نہیں کیاہے اور یہی صحیح ترہے،۳-میں نے محمد بن بشار کوکہتے ہوئے سنا: موسیٰ بن مسعود حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۴-محمد بن بشار کہتے ہیں: میں نے موسیٰ بن مسعود سے بہت سی حدیثیں لیں،پھر میں نے ان سے حدیثیں لینی چھوڑدی،۵-اس باب میں بریدہ،ابن عباس اور ابوجحیفہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا حَضْرَمِيٌّ مَوْلَی الْجَارُودِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ رَجُلًا عَطَسَ إِلَی جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَالسَّلَامُ عَلَی رَسُولِ اللہِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَا أَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَالسَّلَامُ عَلَی رَسُولِ اللہِ وَلَيْسَ ہَكَذَا عَلَّمَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَّمَنَا أَنْ نَقُولَ الْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی كُلِّ حَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ الرَّبِيعِ

نافع کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا الحمد للہ والسلام علی رسول اللہیعنی تمام تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے رسول اللہ ﷺ پر۔ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کہنے کو تو میں بھی الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ کہہ سکتاہوں ۱؎ لیکن اس طرح کہنا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نہیں سکھلایا ہے۔آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم الحمد للہ علی کل حال (ہرحال میں سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں) کہیں ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف زیاد بن ربیع کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَنَا شَاہِدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَرْحَمُكَ اللہُ ثُمَّ عَطَسَ الثَّانِيَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَذَا رَجُلٌ مَزْكُومٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ لَہُ فِي الثَّالِثَةِ أَنْتَ مَزْكُومٌ قَالَ ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ہَذَا الْحَدِيثَ نَحْوَ رِوَايَةِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ بِہَذَا وَرَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ نَحْوَ رِوَايَةِ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَقَالَ لَہُ فِي الثَّالِثَةِ أَنْتَ مَزْكُومٌ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ

سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میری موجودگی میں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص کوچھینک آئی تو آپ ﷺنے فرمایا: یرحمک اللہ(اللہ تم پررحم فرمایے) پھراسے دوبارہ چھینک آئی تو آپ نے فرمایا: اسے تو زکام ہوگیاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔محمدبن بشار نے مجھ سے بیان کیا وہ کہتے ہیں مجھ سے بیان کیایحییٰ بن سعید نے،وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیاعکرمہ بن عمار نے اورعکرمہ نے ایاس بن سلمہ سے،ایاس نے اپنے باپ سلمہ سے اورسلمہ رضی اللہ عنہ نے نبیﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی،مگر اس روایت میں یہ ہے کہ آپ نے اس آدمی کے تیسری بار چھینکنے پر فرمایا: تمہیں توزکام ہوگیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ ابن مبارک کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔اور شعبہ نے اس حدیث کو عکرمہ بن عمار سے یحییٰ بن سعید کی روایت کی طرح روایت کیا ہے۔بیان کیااسے ہم سے احمد بن حکم بصری نے،انہوں نے کہا: بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے،وہ کہتے ہیں: بیان کیاہم سے شعبہ نے اورشعبہ نے عکرمہ بن عمار سے اسی طرح روایت کی ہے۔ اورعبدالرحمٰن بن مہدی نے عکرمہ بن عمار سے ابن مبارک کی روایت کی طرح روایت کی ہے۔اس روایت میں ہے کہ آپ نے اس سے تیسری بار چھینکنے پر فرمایا: تمہیں زکام ہوگیا ہے۔اسے بیان کیا مجھ سے اسحاق بن منصور نے،وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے ۲؎۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ إِسْحَقَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أَبِيہَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُشَمَّتُ الْعَاطِسُ ثَلَاثًا فَإِنْ زَادَ فَإِنْ شِئْتَ فَشَمِّتْہُ وَإِنْ شِئْتَ فَلَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُہُ مَجْہُولٌ

-عبیدبن رفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:چھینکنے والے کی چھینک کاجواب تین بار دیا جائے گا،اور اگر تین بار سے زیادہ چھینکیں آئیں تو تمہیں اختیارہے جی چاہے تو جواب دو اور جی چاہے تو نہ دو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث غریب ہے اوراس کی سند مجہول ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الْعُطَاسُ مِنْ اللہِ وَالتَّثَاؤُبُ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَضَعْ يَدَہُ عَلَی فِيہِ وَإِذَا قَالَ آہْ آہْ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ مِنْ جَوْفِہِ وَإِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَہُ التَّثَاؤُبَ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ آہْ آہْ إِذَا تَثَاءَبَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَضْحَكُ فِي جَوْفِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھینکنا اللہ کی جانب سے ہے اور جمائی شیطان کی جانب سے ہے۔جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ جمائی آتے وقت اپنا ہاتھ منہ پر رکھ لے،اور جب جمائی لینے والا آہ،آہ کرتاہے تو شیطان جمائی لینے والے کے پیٹ میں گھس کر ہنستاہے۔اور بیشک اللہ چھینک کو پسند کرتاہے اور جمائی لینے کوناپسند کرتاہے۔تو (جان لو) کہ آدمی جب جمائی کے وقت آہ آہ کی آواز نکالتاہے تو اس وقت شیطان اس کے پیٹ کے اندر گھس کر ہنستاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْعُطَاسَ وَيَكْرَہُ التَّثَاؤُبَ فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ فَحَقٌّ عَلَی كُلِّ مَنْ سَمِعَہُ أَنْ يَقُولَ يَرْحَمُكَ اللہُ وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّہُ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا يَقُولَنَّ ہَاہْ ہَاہْ فَإِنَّمَا ذَلِكَ مِنْ الشَّيْطَانِ يَضْحَكُ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَجْلَانَ وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ أَحْفَظُ لِحَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ وَأَثْبَتُ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ قَالَ سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ قَالَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ رَوَی بَعْضَہَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَبَعْضُہَا عَنْ سَعِيدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَاخْتَلَطَ عَلَيَّ فَجَعَلْتُہَا عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتاہے اور جمائی کو ناپسند،پس جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو ہرمسلمان کے لیے جواسے سنے یرحمک اللہ کہنا ضروری ہے۔اب رہی جمائی کی بات تو جس کسی کو جمائی آئے،اسے چاہیے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسے روکے اور ہاہ ہاہ نہ کہے،کیوں کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے،اور شیطان اس سے ہنستاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اوریہ ابن عجلان کی (اوپر مذکور) روایت سے زیادہ صحیح ہے،۳-ابن ابی ذئب: سعیدمقبری کی حدیث کو زیادہ یادرکھنے والے (احفظ) اور محمد بن عجلان سے زیادہ قوی (اثبت) ہیں،۴-میں نے ابوبکر عطاربصری سے سناہے وہ روایت کرتے ہیں: علی بن مدینی کے واسطہ سے یحییٰ بن سعید سے اوریحییٰ بن سعید کہتے ہیں: محمد بن عجلان کہتے ہیں: سعید مقبری کی احادیث کامعاملہ یہ ہے کہ سعید نے بعض حدیثیں (بلاواسطہ) ابوہریرہ سے روایت کی ہیں۔اوربعض حدیثیں بواسطہ ایک شخص کے ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہیں۔تو وہ سب میرے ذہن میں گڈمڈ ہوگئیں۔مجھے یاد نہیں رہا کہ بلاواسطہ کون تھیں اور بواسطہ کون؟ تو میں نے سبھی رایتوں کو سعیدکے واسطہ سے ابوہریرہ سے روایت کردی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ رَفَعَہُ قَالَ الْعُطَاسُ وَالنُّعَاسُ وَالتَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ وَالْحَيْضُ وَالْقَيْءُ وَالرُّعَافُ مِنْ الشَّيْطَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قُلْتُ لَہُ مَا اسْمُ جَدِّ عَدِيٍّ قَالَ لَا أَدْرِي وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَی بْنِ مَعِينٍ قَالَ اسْمُہُ دِينَارٌ

ثابت کے باپ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: صلاۃ میں چھینک،اونگھ،جمائی،حیض،قے اور نکسیر شیطان کی طرف سے ہوتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف شریک کی روایت جانتے ہیں جسے وہ ابوالیقظان سے روایت کرتے ہیں،۳-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس روایت عن عدی بن ثابت عن ابیہ عن جدہ کے تعلق سے پوچھا کہ عدی کے دادا کاکیانام ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا،لیکن یحییٰ بن معین سے پوچھاگیا تو انہوں نے کہاکہ ان کانام دینارہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ عَمِّہِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ عَنْ وَہْبِ بْنِ حُذَيْفَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الرَّجُلُ أَحَقُّ بِمَجْلِسِہِ وَإِنْ خَرَجَ لِحَاجَتِہِ ثُمَّ عَادَ فَہُوَ أَحَقُّ بِمَجْلِسِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

وہب بن حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ کا زیادہ مستحق ہے،اگرو ہ کسی ضرورت سے اٹھ کر جائے اورپھر واپس آئے تو وہی اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق رکھتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوبکرہ،ا بوسعیدخدری اورا بوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ اثْنَيْنِ إِلَّا بِإِذْنِہِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَامِرٌ الْأَحْوَلُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَيْضًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی بھی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوآدمیوں کے بیچ میں بیٹھ کر تفریق پیداکرے مگران کی اجازت سے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کوعامر احول نے عمروبن شعیب سے بھی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَمِّہِ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ مُسْتَلْقِيًا فِي الْمَسْجِدِ وَاضِعًا إِحْدَی رِجْلَيْہِ عَلَی الْأُخْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَمُّ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ

عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زیدبن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو مسجد میں ا پنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کرچت لیٹے ہوئے دیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْہَا وَمَا نَذَرُ قَالَ احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ فَقَالَ الرَّجُلُ يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ قَالَ إِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاہَا أَحَدٌ فَافْعَلْ قُلْتُ وَالرَّجُلُ يَكُونُ خَالِيًا قَالَ فَاللہُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَجَدُّ بَہْزٍ اسْمُہُ مُعَاوِيَةُ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ وَقَدْ رَوَی الْجُرَيْرِيُّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَہُوَ وَالِدُ بَہْزٍ

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنی شرم گاہیں کس قدر کھول سکتے اورکس قدرچھپاناضروری ہیں؟ آپ نے فرمایا: اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا ہر کسی سے اپنی شرم گاہ کو چھپاؤ ،انہوں نے کہا:آدمی کبھی آدمی کے ساتھ مل جل کررہتاہے؟ آپ نے فرمایا: تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ تمہاری شرم گاہ کوئی نہ دیکھ سکے،میں نے کہا: آدمی کبھی تنہا ہوتاہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ توا ور زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بہز کے دادا کانام معاویہ بن حیدۃ القشیری ہے۔۳-اور جریری نے حکیم بن معاویہ سے روایت کی ہے اوروہ بہز کے والد ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِہِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَی تَكْرِمَتِہِ فِي بَيْتِہِ إِلَّا بِإِذْنِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی کے حدود اقتدار واختیار میں اس کی اجازت کے بغیر امامت نہیں کرائی جاسکتی،اور نہ ہی کسی شخص کے گھرمیں اس کی خاص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جاسکتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ ذَكْوَانَ عَنْ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ أَرْسَلَہُ إِلَی عَلِيٍّ يَسْتَأْذِنُہُ عَلَی أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ فَأُذِنَ لَہُ حَتَّی إِذَا فَرَغَ مِنْ حَاجَتِہِ سَأَلَ الْمَوْلَی عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَانَا أَوْ نَہَی أَنْ نَدْخُلَ عَلَی النِّسَاءِ بِغَيْرِ إِذْنِ أَزْوَاجِہِنَّ وَفِي الْبَاب عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

-عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) سے روایت ہے کہ عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ نے انہیں علی رضی اللہ عنہ کے پاس (ان کی بیوی) اسماء بنت عمیس ۱؎ سے ملاقات کی اجازت مانگنے کے لیے بھیجا،تو انہوں نے اجازت دے دی،پھر جب وہ جس ضرورت سے گئے تھے اس سے کہہ سن کر فارغ ہوئے تو ان کے مولیٰ(آزاد کردہ غلام) نے ان سے (اس کے متعلق پوچھا،توانہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عورتوں کے پاس ان کے شوہروں سے اجازت لیے بغیر جانے سے منع فرمایا ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عقبہ بن عامر،عبداللہ بن عمرو اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَعَنَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ مُبْتَغِيَاتٍ لِلْحُسْنِ مُغَيِّرَاتٍ خَلْقَ اللہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ عَنْ مَنْصُورٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے گودنا گودنے والی اور گودنا گدوانے والیوں پر اور حسن میں اضافے کی خاطر چہرے سے بال اکھاڑنے والی اور اکھیڑوانے والیوں پراور اللہ کی بناوٹ (تخلیق) میں تبدیلیاں کرنے والیوں پر۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کو شعبہ اور کئی دوسرے ائمہ نے بھی منصور سے روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَعَنَ اللہُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ قَالَ نَافِعٌ الْوَشْمُ فِي اللِّثَةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ يَحْيَی قَوْلَ نَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی لعنت ہو بالوں کو جوڑ نے والی اور جوڑوانے والی پر اور گودنا گودنے اور گودنا گودوانے والی پر،نافع کہتے ہیں: گودائی مسوڑھے میں ہوتی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،معقل بن یسار،اسماء بنت ابی بکر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے یحییٰ بن سعید نے وہ کہتے ہیں: ہم سے عبید اللہ بن عمر نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی (مذکورہ) روایت کی طرح روایت کی۔مگر یحییٰ نے اس روایت میں نافع کا قول ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُمَارَةَ الْحَنَفِيِّ عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ كُلُّ عَيْنٍ زَانِيَةٌ وَالْمَرْأَةُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَہِيَ كَذَا وَكَذَا يَعْنِي زَانِيَةً وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہرآنکھ زناکار ہے اور عورت جب خوشبو لگاکر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ایسی ہے یعنی وہ بھی زانیہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ طِيبُ الرِّجَالِ مَا ظَہَرَ رِيحُہُ وَخَفِيَ لَوْنُہُ وَطِيبُ النِّسَاءِ مَا ظَہَرَ لَوْنُہُ وَخَفِيَ رِيحُہُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ الطُّفَاوِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِلَّا أَنَّ الطُّفَاوِيَّ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَلَا نَعْرِفُ اسْمَہُ وَحَدِيثُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ أَتَمُّ وَأَطْوَلُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک پھیل رہی ہو اور رنگ چھپاہواہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کارنگ ظاہر ہو لیکن مہک اس کی چھپی ہوئی ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نیجریری سے،جریری نے ابونضرہ سے،ابونضرہ نے طفاوی سے اور طفاوی نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ہم طفاوی کاذکر صرف اسی حدیث میں سن رہے ہیں ہم ان کانام بھی نہیں جانتے،اسماعیل بن ابراہیم کی حدیث (اتم) مکمل اور اطول (لمبی)ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ خَيْرَ طِيبِ الرَّجُلِ مَا ظَہَرَ رِيحُہُ وَخَفِيَ لَوْنُہُ وَخَيْرَ طِيبِ النِّسَاءِ مَا ظَہَرَ لَوْنُہُ وَخَفِيَ رِيحُہُ وَنَہَی عَنْ مِيثَرَةِ الْأُرْجُوَانِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: مرد کی بہترین خوشبو وہ ہے جس کی مہک پھیلے اور اس کارنگ چھپارہے،اور عورتوں کی بہترین خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور خوشبو چھپی رہے ،اورآپ ﷺ نے زین کے اوپر انتہائی سرخ ریشمی کپڑا ڈالنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ حَتَّی تَصِفَہَا لِزَوْجِہَا كَأَنَّمَا يَنْظُرُ إِلَيْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت عورت سے نہ چمٹے یہاں تک کہ وہ اسے اپنے شوہر سے اس طرح بیان کرے گویا وہ اسے دیکھ رہاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَی عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا تَنْظُرُ الْمَرْأَةُ إِلَی عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ وَلَا يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ وَلَا تُفْضِي الْمَرْأَةُ إِلَی الْمَرْأَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مرد مرد کی شرمگاہ اور عورت عورت کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے،اورمرد مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں ننگا ہوکر نہ لیٹے اور عورت عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن،غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ وَيَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَا حَدَّثَنَا بَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللہِ عَوْرَاتُنَا مَا نَأْتِي مِنْہَا وَمَا نَذَرُ قَالَ احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُہُمْ فِي بَعْضٍ قَالَ إِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَا يَرَاہَا أَحَدٌ فَلَا يَرَاہَا قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللہِ إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا قَالَ فَاللہُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْہُ مِنْ النَّاسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے نبی! ہم اپنی شرمگاہیں کس قدر کھول سکتے ہیں اور کس قدر چھپانا ضروری؟ آپ نے فرمایا: تم اپنی شرمگاہ اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا ہر ایک سے چھپاؤ،میں نے پھرکہا:جب لوگ مل جل کر رہ رہے ہوں(تو ہم کیا اور کیسے کریں؟) آپ نے فرمایا: تب بھی تمہاری ہرممکن کوشش یہی ہونا چاہئے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھ سکے،میں نے پھر کہا: اللہ کے نبی! جب آدمی تنہاہو؟ آپ نے فرمایا: لوگوں کے مقابل اللہ تواورزیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نِيْزَكَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالتَّعَرِّيَ فَإِنَّ مَعَكُمْ مَنْ لَا يُفَارِقُكُمْ إِلَّا عِنْدَ الْغَائِطِ وَحِينَ يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَی أَہْلِہِ فَاسْتَحْيُوہُمْ وَأَكْرِمُوہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو مُحَيَّاةَ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ يَعْلَی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ ننگے ہونے سے بچو،کیوں کہ تمہارے ساتھ وہ (فرشتے) ہوتے ہیں جو تم سے جدانہیں ہوتے۔وہ تو صرف اس وقت جداہوتے ہیں جب آدمی پاخانہ جاتاہے یا اپنی بیوی کے پاس جاکر اس سے ہم بستر ہوتاہے۔اس لیے تم ان (فرشتوں) سے شرم کھاؤ اور ان کی عزت کرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ الصَّفَّارُ أَبُو عُثْمَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ حَسَّانَ أَنَّہُ حَدَّثَتْہُ جَدَّتَاہُ صَفِيَّةُ بِنْتُ عُلَيْبَةَ وَدُحَيْبَةُ بِنْتُ عُلَيْبَةَ حَدَّثَتَاہُ عَنْ قَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ وَكَانَتَا رَبِيبَتَيْہَا وَقَيْلَةُ جَدَّةُ أَبِيہِمَا أُمُّ أُمِّہِ أَنَّہَا قَالَتْ قَدِمْنَا عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَذَكَرَتْ الْحَدِيثَ بِطُولِہِ حَتَّی جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ ارْتَفَعَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللہِ وَعَلَيْہِ تَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ أَسْمَالُ مُلَيَّتَيْنِ كَانَتَا بِزَعْفَرَانٍ وَقَدْ نَفَضَتَا وَمَعَ النَّبِيِّ ﷺ عَسِيبُ نَخْلَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ قَيْلَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَسَّانَ

قیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے پھر انہوں نے پوری لمبی حدیث بیان کی (اس میں ہے کہ) ایک شخص اس وقت آیاجب سورج چڑھ آیاتھا۔اس نے کہا: السلام علیک یارسول اللہ!تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وعلیک السلام ورحمۃ اللہ،اور نبی اکرم ﷺ (کے جسم) پر دوپرانے کپڑے تھے۔وہ زعفران سے رنگے ہوئے تھے،اور کثرت استعمال سے ان کا رنگ پھیکا پڑگیاتھا ۱؎ اور نبی اکرم ﷺ کے پاس کھجور کی ایک شاخ تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: قیلہ کی حدیث کو ہم صرف عبداللہ بن حسان کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَسَمَ أَقْبِيَةً وَلَمْ يُعْطِ مَخْرَمَةَ شَيْئًا فَقَالَ مَخْرَمَةُ يَا بُنَيَّ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَانْطَلَقْتُ مَعَہُ قَالَ ادْخُلْ فَادْعُہُ لِي فَدَعَوْتُہُ لَہُ فَخَرَج النَّبِيُّ ﷺ وَعَلَيْہِ قَبَاءٌ مِنْہَا فَقَالَ خَبَأْتُ لَكَ ہَذَا قَالَ فَنَظَر إِلَيْہِ فَقَال رَضِيَ مَخْرَمَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ قبائیں تقسیم کیں،اور مخرمہ کو(ان میں سے) کچھ نہ دیا۔مخرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بیٹے مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کرچلو،تو میں ان کے ساتھ گیا۔انہوں نے کہا:تم اندر جاؤ اور آپ کو میرے پاس بلالاؤ،چنانچہ میں آپ کو ان کے پاس بلاکر لانے کے لیے چلاگیا،رسول اللہ ﷺ نکل کر تشریف لائے۔تو آپ کے پاس ان قباؤں میں سے ایک قبا تھی،آپ نے فرمایا: یہ میں نے تمہارے لیے چھپارکھی تھی۔مسور کہتے ہیں: پھر مخرمہ نے آپ کو دیکھا اور بول اٹھے: مخرمہ اسے پاکر خوش ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن ابی ملیکہ کانام عبداللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ دَلْہَمِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ حُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّجَاشِيَّ أَہْدَی إِلَی النَّبِيِّ ﷺ خُفَّيْنِ أَسْوَدَيْنِ سَاذَجَيْنِ فَلَبِسَہُمَا ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَيْہِمَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ دَلْہَمٍ وَقَدْ رَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ دَلْہَمٍ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نجاشی (شاہ حبشہ) نے نبی اکرمﷺ کو دوکالے رنگ کے موزے بھیجے،آپ نے انہیں پہنا،پھر آپ نے وضو کیا اور ان دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ہم اسے صرف دلہم کی روایت سے جانتے ہیں،۳-محمد بن ربیعہ نے دلہم (راوی) سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ نَتْفِ الشَّيْبِ وَقَالَ إِنَّہُ نُورُ الْمُسْلِمِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ

عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بڑھاپے کے(سفید) بال اکھیڑ نے سے منع کیا،اور فرمایا ہے: یہ تو مسلمان کا نور ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-عبدالرحمٰن بن حارث اورکئی دیگر لوگوں سے یہ حدیث عمر بن شعیب کے واسطہ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،وَحَمْزَةَ،ابْنَيْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيہِمَا،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ،فِي المَرْأَةِ،وَالمَسْكَنِ،وَالدَّابَّةِ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبَعْضُ أَصْحَابِ الزُّہْرِيِّ لَا يَذْكُرُونَ فِيہِ عَنْ حَمْزَةَ إِنَّمَا يَقُولُونَ: عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَی مَالِكٌ بن أنس ہَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّہْرِيِّ،فَقَالَ: عَنْ سَالِمٍ،وَحَمْزَةَ،ابْنَيْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ أَبِيہِمَا. وَہَكَذَا رَوَی لَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،ہَذَا الحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ،عَنِ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،وَحَمْزَةَ،ابْنَيْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ أَبِيہِمَا،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،[ص:127] حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنِ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِہِ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،عَنْ حَمْزَةَ،وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ،لِأَنَّ عَلِيَّ بْنَ المَدِينِيِّ وَالحُمَيْدِيَّ رَوَيَا عَنْ سُفْيَانَ،عَنِ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيہِ،وَذَكَرَا عَنْ سُفْيَانَ قَالَ: لَمْ يَرْوِ لَنَا الزُّہْرِيُّ ہَذَا الحَدِيثَ إِلَّا عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرَوَی مَالِكٌ،ہَذَا الحَدِيثَ عَنِ الزُّہْرِيِّ،وَقَالَ: عَنْ سَالِمٍ،وَحَمْزَةَ،ابْنَيْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ أَبِيہِمَا،وَفِي الْبَابِ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ،وَعَائِشَةَ،وَأَنَسٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ: ((إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ فَفِي المَرْأَةِ وَالدَّابَّةِ وَالمَسْكَنِ)) وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ،قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: ((لَا شُؤْمَ،وَقَدْ يَكُونُ اليُمْنُ فِي الدَّارِ وَالمَرْأَةِ وَالفَرَسِ)) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ،عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ سُلَيْمٍ،عَنْ يَحْيَی بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ،عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَكِيمٍ،عَنْ عَمِّہِ حَكِيمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِہَذَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:نحوست تین چیزوں میں ہے (۱)عورت میں (۲) گھر میں (۳) اور جانور(گھوڑے) میں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-زہری کے بعض اصحاب (تلامذہ) اس حدیث کا ذکر کرتے ہوئے عن حمزۃ کا ذکر نہیں کرتے بلکہ عن سالم عن أبیہ عن النبیﷺ کہتے ہیں۔ہم سے یہ حدیث ابن ابی عمر نے سفیان بن عیینہ سے انہوں نے زہری سے،زہری نے عبداللہ بن عمر کے دونوں بیٹے سالم اور حمزہ سے اور ان دونوں نے اپنے والد عبداللہ سے اورعبد اللہ بن عمر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔اور ہم سے سعید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے سفیان نے بیان کیا: سفیان نے زہری سے،زہری نے سالم سے اور سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سعید بن عبدالرحمٰن نے عن حمزۃ کا ذکر اس حدیث میں نہیں کیا،سعید کی روایت اصح (صحیح تر) ہے اس لیے کہ علی ابن مدینی اور حمید ی دونوں نے سفیان سے،سفیان نے زہری سے،زہری نے سالم کے واسطہ سے ان کے والد (عبداللہ بن عمر) سے روایت کی ہے۔ان دونوں نے سفیان کے واسطے سے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں: ہم سے یہ حدیث زہری نے سالم ہی کے واسطے سے روایت کی ہے اور سالم نے (اپنے باپ) ابن عمر سے روایت کی ہے،۲-مالک نے یہ حدیث زہری سے روایت کرتے ہوئے عن سالم و حمزۃ ابنی عبداللہ بن عمر عن ابیہ کہا،۳-ا س باب میں سہل بن سعد،عائشہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو وہ عورت،جانور اور گھر میں ہوتی ۲؎۔حکیم بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:(کسی بھی چیز میں) کوئی نحوست نہیں ہے اور خیر وبرکت گھر میں،عورت میں اور گھوڑے میں ہوتی ہے۔ہم سے اس کی روایت علی بن حجر نے کی ہے،وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا اسماعیل بن عیاش نے اور اسماعیل نے سلمان سے،سلیمان بن سلیم نے یحییٰ بن جابر طائی سے،یحییٰ نے معاویہ بن حکیم سے معاویہ نے اپنے چچا حکیم بن معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ ح و حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً فَلَا يَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِہِمَا و قَالَ سُفْيَانُ فِي حَدِيثِہِ لَا يَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ الثَّالِثِ فَإِنَّ ذَلِكَ يُحْزِنُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَا يَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ فَإِنَّ ذَلِكَ يُؤْذِي الْمُؤْمِنَ وَاللہُ عَزَّ وَجَلَّ يَكْرَہُ أَذَی الْمُؤْمِنِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم تین آدمی ایک ساتھ ہو،تو دو آدمی اپنے تیسرے ساتھی کو اکیلا چھوڑ کرباہم کاناپھوسی نہ کریں،سفیان نے اپنی روایت میں لایتناجی إثنان دون الثالث فإن ذلک یحزنہ کہا ہے،یعنی تیسرے شخص کوچھوڑ کر دوسرگوشی نہ کریں کیوں کہ اس سے اسے دکھ اور رنج ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک کو نظر انداز کرکے دو سرگوشی نہ کریں،کیوں کہ اس سے مومن کو تکلیف پہنچتی ہے،اور اللہ عزوجل مومن کی تکلیف کو پسند نہیں کرتاہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ حَدَّثَنِي عَمِّي يَعْقُوبُ بْنُ إِبَرَاہِيمَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ بِتَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ يَوْمَ سَابِعِہِ وَوَضْعِ الْأَذَی عَنْہُ وَالْعَقِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ساتویں دن نومولود بچے کانام رکھنے اس اور اس کا عقیقہ کردینے کا حکم دیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ وَأَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ غَيَّرَ اسْمَ عَاصِيَةَ وَقَالَ أَنْتِ جَمِيلَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَإِنَّمَا أَسْنَدَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عُمَرَ مُرْسَلًا وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مُطِيعٍ وَعَائِشَةَ وَالْحَكَمِ بْنِ سَعِيدٍ وَمُسْلِمٍ وَأُسَامَةَ بْنِ أَخْدَرِيٍّ وَشُرَيْحِ بْنِ ہَانِئٍ عَنْ أَبِيہِ وَخَيْثَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عاصیہ کانام بدل دیا اور کہا (آج سے) تو جمیلہ یعنی: تیرا نام جمیلہ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس حدیث کو یحییٰ بن سعید قطان نے مرفوع بیان کیا ہے۔یحییٰ نے عبیداللہ سے عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے،اور بعض راویوں نے یہ حدیث عبید اللہ سے،عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے عمر سے مرسلاً روایت کی ہے،۳-اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف،عبداللہ بن سلام،عبداللہ بن مطیع،عائشہ،حکم بن سعید،مسلم،اسامہ بن اخدری،ہانی اورعبدالرحمٰن بن ابی سبرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُغَيِّرُ الِاسْمَ الْقَبِيحَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَرُبَّمَا قَالَ عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ برا نام بدل دیاکرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کے راوی ابوبکر بن نافع کہتے ہیں کہ کبھی تو عمر بن علی (الفلاس) نے اس حدیث کی سند میں کہا: عن ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن النبی ﷺ یعنی مرسلاً روایت کی اور اس میں عن عائشہکے واسطہ کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عِيسَی الرَّمْلِيُّ حَدَّثَنَا عَمِّي يَحْيَی بْنُ عِيسَی عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا يَرِيَہُ خَيْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے پیٹ کا خون آلود مواد سے بھرجانا جسے وہ گلا،سڑا دے،یہ کہیں بہتر ہے اس سے کہ اس کے پیٹ (وسینے) میں (کفر یہ شرکیہ اور گندے) اشعار بھرے ہوئے ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد،ابن عمر،اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَاصٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا خَيْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے پیٹ کابیماری کے سبب مواد سے بھرجانا بہترہے اس سے کہ وہ شعرسے بھراہوا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ سَمِعَہُ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ يَبْغَضُ الْبَلِيغَ مِنْ الرِّجَالِ الَّذِي يَتَخَلَّلُ بِلِسَانِہِ كَمَا تَتَخَلَّلُ الْبَقَرَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے مبالغہ کرنے والے شخص کو ناپسند کرتاہے جو اپنی زبان ایسے چلاتاہے جیسے گائے چلاتی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ عُمَرَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يَنَامَ الرَّجُلُ عَلَی سَطْحٍ لَيْسَ بِمَحْجُورٍ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عُمَرَ يُضَعَّفُ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایسی چھت پر جہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو سونے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اس حدیث کو صرف محمدبن منکدر کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ جابر سے روایت کرتے ہیں،۳-عبدالجبار بن عمرضعیف قراردیئے گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ حَدَّثَنِي شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ نَحْوَہُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺہم کووعظ ونصیحت کا سلسلے میں اوقات کا خیال کیا کرتے تھے،اس ڈرسے کہ کہیں ہم پراکتاہٹ طاری نہ ہوجائے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سندسے بھی سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ شِنْظِيرٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَمِّرُوا الْآنِيَةَ وَأَوْكِئُوا الْأَسْقِيَةَ وَأَجِيفُوا الْأَبْوَابَ وَأَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ فَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ رُبَّمَا جَرَّتْ الْفَتِيلَةَ فَأَحْرَقَتْ أَہْلَ الْبَيْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (رات میں) برتنوں کو ڈھانپ کررکھواور مشکوں کے منہ باندھ دیاکرو،گھرکے دروازے بند کردیا کرو،اور چراغوں کو بجھادیاکرو کیوں کہ کبھی ایساہوتاہے کہ چوہیا چراغ کی بتی کھینچ لے جاتی ہے اور گھروالوں کوجلاڈالتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث متعدد سندوں سے جابر سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا سَافَرْتُمْ فِي الْخِصْبِ فَأَعْطُوا الْإِبِلَ حَظَّہَا مِنْ الْأَرْضِ وَإِذَا سَافَرْتُمْ فِي السَّنَةِ فَبَادِرُوا بِہَا نِقْيَہَا وَإِذَا عَرَّسْتُمْ فَاجْتَنِبُوا الطَّرِيقَ فَإِنَّہَا طُرُقُ الدَّوَابِّ وَمَأْوَی الْہَوَامِّ بِاللَّيْلِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَنَسٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ہریالی اورشادابی کے زمانہ میں سفر کرو تو اونٹ کو زمین سے اس کاحق دو(یعنی جی بھر کرچرلینے دیاکرو) اور جب تم خزاں وخشکی اورقحط کے دنوں میں سفر کرواس کی قوت سے فائدہ اٹھالینے میں کرو توجلدی ۱؎ اور جب تم رات میں قیام کے لیے پڑاؤ ڈالو تو عام راستے سے ہٹ کرقیام کرو،کیوں کہ یہ (راستے)رات میں چوپایوں کے راستے اور کیڑوں مکوڑوں کے ٹھکانے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابراورانس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ عَلَی أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا أُبَيُّ وَہُوَ يُصَلِّي فَالْتَفَتَ أُبَيٌّ وَلَمْ يُجِبْہُ وَصَلَّی أُبَيٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَعَلَيْكَ السَّلَامُ مَا مَنَعَكَ يَا أُبَيُّ أَنْ تُجِيبَنِي إِذْ دَعَوْتُكَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي كُنْتُ فِي الصَّلَاةِ قَالَ أَفَلَمْ تَجِدْ فِيمَا أَوْحَی اللہُ إِلَيَّ أَنْ اسْتَجِيبُوا لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ قَالَ بَلَی وَلَا أَعُودُ إِنْ شَاءَ اللہُ قَالَ أَتُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَكَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا قَالَ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا وَإِنَّہَا سَبْعٌ مِنْ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَفِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے وہ صلاۃپڑھ رہے تھے،آپ نے فرمایا: اے ابی (سنو) وہ (آواز سن کر) متوجہ ہوئے لیکن جواب نہ دیا،صلاۃجلدی جلدی پوری کی،پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: السلام علیک یارسول اللہ!(اللہ کے رسول آپ پر سلامتی نازل ہو)،رسول اکرمﷺنے کہا: وعلیک السلام (تم پربھی سلامتی ہو) ابی! جب میں نے تمہیں بلایا تو تم میرے پاس کیوں نہ حاضر ہوئے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں صلاۃ پڑھ رہاتھا۔آپ نے فرمایا: (اب تک) جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں تجھے کیایہ آیت نہیں ملی أَنْ اسْتَجِیبُوا لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ ۱؎ انہوں نے کہا: جی ہاں،اور آئندہ إن شاء اللہ ایسی بات نہ ہوگی۔آپ نے فرمایا: کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! (ضرور سکھائیے) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صلاۃمیں تم (قرآن) کیسے پڑھتے ہو؟ تو انہوں نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) پڑھی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔تورات میں،انجیل میں،زبور میں (حتی کہ) قرآن اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔یہی سبع مثانی ۲؎ (سات آیتیں) ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطاکیاگیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس بن مالک اور ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَخِيہِ عِيسَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّہُ كَانَتْ لَہُ سَہْوَةٌ فِيہَا تَمْرٌ فَكَانَتْ تَجِيءُ الْغُولُ فَتَأْخُذُ مِنْہُ قَالَ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ فَاذْہَبْ فَإِذَا رَأَيْتَہَا فَقُلْ بِسْمِ اللہِ أَجِيبِي رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ فَأَخَذَہَا فَحَلَفَتْ أَنْ لَا تَعُودَ فَأَرْسَلَہَا فَجَاءَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ قَالَ حَلَفَتْ أَنْ لَا تَعُودَ فَقَالَ كَذَبَتْ وَہِيَ مُعَاوِدَةٌ لِلْكَذِبِ قَالَ فَأَخَذَہَا مَرَّةً أُخْرَی فَحَلَفَتْ أَنْ لَا تَعُودَ فَأَرْسَلَہَا فَجَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ قَالَ حَلَفَتْ أَنْ لَا تَعُودَ فَقَالَ كَذَبَتْ وَہِيَ مُعَاوِدَةٌ لِلْكَذِبِ فَأَخَذَہَا فَقَالَ مَا أَنَا بِتَارِكِكِ حَتَّی أَذْہَبَ بِكِ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ إِنِّي ذَاكِرَةٌ لَكَ شَيْئًا آيَةَ الْكُرْسِيِّ اقْرَأْہَا فِي بَيْتِكَ فَلَا يَقْرَبُكَ شَيْطَانٌ وَلَا غَيْرُہُ قَالَ فَجَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ قَالَ فَأَخْبَرَہُ بِمَا قَالَتْ قَالَ صَدَقَتْ وَہِيَ كَذُوبٌ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا اپنا ایک احاطہ تھا اس میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں۔جن آتاتھا اور اس میں سے اٹھا لے جاتا تھا،انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اس بات کی شکایت کی۔آپ نے فرمایا: جاؤ جب دیکھو کہ وہ آیاہوا ہے تو کہو: بسم اللہ (اللہ کے نام سے) رسول اللہ ﷺ کی بات مان،ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ لیا تو وہ قسمیں کھاکھاکر کہنے لگا کہ مجھے چھوڑ دو،دوبارہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا،چنانہ انہوں نے اسے چھوڑدیا۔پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیے تو آپ نے ان سے پوچھا، تمہارے قید ی نے کیاکیا؟! انہوں نے کہا: اس نے قسمیں کھائیں کہ اب وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے گا۔آپ نے فرمایا: اس نے جھوٹ کہا: وہ جھوٹ بولنے کاعادی ہے،راوی کہتے ہیں: انہوں نے اسے دوبارہ پکڑا،اس نے پھر قسمیں کھائیں کہ اسے چھوڑ دو،وہ دوبارہ نہ آئے گا تو انہوں نے اسے (دوبارہ) چھوڑدیا،پھر وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے تو آپ نے پوچھا: تمہارے قیدی نے کیاکیا؟ انہوں نے کہا: اس نے قسم کھائی کہ وہ پھر لوٹ کر نہ آئے گا۔آپ نے فرمایا: اس نے جھوٹ کہا،وہ تو جھوٹ بولنے کا عادی ہے۔(پھر جب وہ آیا) توا نہوں نے اسے پکڑ لیا،اور کہا:اب تمہیں نبی اکرمﷺ کے پاس لے جائے بغیر نہ چھوڑوں گا۔اس نے کہا: مجھے چھوڑدو،میں تمہیں ایک چیز یعنی آیت الکرسی بتارہاہوں۔تم اسے اپنے گھر میں پڑھ لیاکرو۔تمہارے قریب شیطان نہ آئے گا اور نہ ہی کوئی اور آئے گا،پھر ابوذر رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا: تمہارے قیدی نے کیاکیا؟ تو انہوں نے آپ کو وہ سب کچھ بتایا جو اس نے کہاتھا۔آپﷺ نے فرمایا: اس نے بات تو صحیح کہی ہے،لیکن وہ ہے پکا جھوٹا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رات میں سورہ بقرہ کی آخری دوآیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوگئیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَرْمِيِّ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الْجَرْمِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ أَنْزَلَ مِنْہُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِہِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَلَا يَقُولُ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُہَا شَيْطَانٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان پیداکرنے سے دوہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی،اس کتاب کی دوآیتیں نازل کیں اورانہیں دو نوں آیتوں پر سورہ بقرہ کو ختم کیا،جس گھر میں یہ دونوں آیتیں (مسلسل) تین راتیں پڑھی جائیں گی ممکن نہیں ہے کہ شیطان اس گھر کے قریب آسکے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَقْرَأُ سُورَةَ الْكَہْفِ إِذْ رَأَی دَابَّتَہُ تَرْكُضُ فَنَظَرَ فَإِذَا مِثْلُ الْغَمَامَةِ أَوْ السَّحَابَةِ فَأَتَی رَسُولَ اللہِ ﷺ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ تِلْكَ السَّكِينَةُ نَزَلَتْ مَعَ الْقُرْآنِ أَوْ نَزَلَتْ عَلَی الْقُرْآنِ وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی سورہ کہف پڑھ رہاتھا کہ اسی دوران اس نے اپنے چوپائے (سواری) کو دیکھا کہ وہ (اپنے کھونٹے پر) ناچنے اوراچھل کود کرنے لگا۔اس نے نظر (ادھر ادھر) دوڑائی تو اسے ایک بدلی سی نظر آئی،پھروہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا،اور اس (واقعہ) کا آپ سے ذکر کیاتو آپﷺ نے فرمایا: یہ سکینت (طمانینت) تھی جو قرآن کی وجہ سے یا قرآن پڑھنے پر نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں اسید بن حضیر سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَرَأَ ثَلَاثَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ الْكَہْفِ عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس نے سورہ کہف کی ابتدائی تین آیات پڑھیں وہ دجال کے فتنہ سے بچالیاگیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سندسے بھی اسے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَسُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّؤَاسِيُّ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ ہَارُونَ أَبِي مُحَمَّدٍ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ قَلْبًا وَقَلْبُ الْقُرْآنِ يس وَمَنْ قَرَأَ يس كَتَبَ اللہُ لَہُ بِقِرَاءَتِہَا قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ عَشْرَ مَرَّاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَبِالْبَصْرَةِ لَا يَعْرِفُونَ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَہَارُونُ أَبُو مُحَمَّدٍ شَيْخٌ مَجْہُولٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِہَذَا وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَلَا يَصِحُّ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِہِ وَإِسْنَادُہُ ضَعِيفٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:ہر چیز کاایک دل ہوتاہے،اور قرآن کا دل سورہ یاسین ہے۔اور جس نے سورہ یاسین پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے پڑھنے کے صلے میں دس مرتبہ قرآن شریف پڑھنے کا ثواب لکھے گا۔اس سند سے بھی یہ سابقہ حدیث کی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس حدیث کو ہم صرف حمید بن عبدالرحمٰن کی روایت سے جانتے ہیں۔اور اہل بصرہ قتادہ کی روایت کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔اور ہارون ابومحمد شیخ مجہول ہیں۔۳-اس باب میں ابوبکر صدیق سے بھی روایت ہے،اور یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔۴-اس کی سند ضعیف ہے اور اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْحَرَشِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَلْمِ بْنِ صَالِحٍ الْعِجْلِيُّ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ إِذَا زُلْزِلَتْ عُدِلَتْ لَہُ بِنِصْفِ الْقُرْآنِ وَمَنْ قَرَأَ قُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ عُدِلَتْ لَہُ بِرُبُعِ الْقُرْآنِ وَمَنْ قَرَأَ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ عُدِلَتْ لَہُ بِثُلُثِ الْقُرْآنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ہَذَا الشَّيْخِ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے سورہ إذا زلزلت الأرض سورہ پڑھی تو اسے آدھاقرآن پڑھنے کے برابر ثواب ملے گا،اور جس نے سورہقل یا أیہا الکافرون پڑھی تواسے چوتھائی قرآن پڑھنے کے برابر ثواب ملے گا،اور جس نے سورہ قل ہو اللہ أحد پڑھی تو اسے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب ملے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے کسی اور سے نہیں صرف انہیں حسن بن مسلم کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا يَمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ الْعَنَزِيُّ حَدَّثَنَا عَطَاءٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا زُلْزِلَتْ تَعْدِلُ نِصْفَ الْقُرْآنِ وَقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ وَقُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ تَعْدِلُ رُبُعَ الْقُرْآنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَمَانِ بْنِ الْمُغِيرَةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:إذا زلزلت (ثواب میں) آدھے قرآن کے برابر ہے،اورقل ہو اللہ أحد تہائی قرآن کے برابر ہے اور قل یا أیہا الکافرون چوتھائی قرآن کے برابر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف یمان بن مغیرہ کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِہِ ہَلْ تَزَوَّجْتَ يَا فُلَانُ قَالَ لَا وَاللہِ يَا رَسُولَ اللہِ وَلَا عِنْدِي مَا أَتَزَوَّجُ بِہِ قَالَ أَلَيْسَ مَعَكَ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ قَالَ بَلَی قَالَ ثُلُثُ الْقُرْآنِ قَالَ أَلَيْسَ مَعَكَ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ قَالَ بَلَی قَالَ رُبُعُ الْقُرْآنِ قَالَ أَلَيْسَ مَعَكَ قُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ قَالَ بَلَی قَالَ رُبُعُ الْقُرْآنِ قَالَ أَلَيْسَ مَعَكَ إِذَا زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ قَالَ بَلَی قَالَ رُبُعُ الْقُرْآنِ قَالَ تَزَوَّجْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحابی سے کہا: اے فلاں! کیا تم نے شادی کرلی؟ انہوں نے کہا: نہیں،قسم اللہ کی! اللہ کے رسول! نہیں کی ہے،اور نہ ہی میرے پاس ایسا کچھ ہے جس کے ذریعہ میں شادی کرسکوں۔آپ نے فرمایا: کیاتمہارے پاس سورہ قل ہو اللہ أحد نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں،میرے پاس ہے۔آپ نے فرمایا:سورہ قل ہو اللہ أحد ثواب میں ایک تہائی قرآن کے برابرہے۔آپ نے کہا: کیاتمہارے پاس سورہ إذا جاء نصر اللہ والفتح نہیں ہے؟ انہوں نے کہا:کیوں نہیں،(ہے) آپ نے فرمایا: یہ ایک چوتھائی قرآن ہے،آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس سورہ قل یا أیہا الکافرون نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔(ہے) آپ نے فرمایا: (یہ) چوتھائی قرآن ہے۔آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس سورہإذا زلزلت الأرض نہیں ہے؟ انہوں نے کہا:کیوں نہیں(ہے) آپ نے فرمایا: یہ ایک چوتھائی قرآن ہے،آپ نے فرمایا: تم شادی کرو ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ أَخْبَرَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ قَدْ أَنْزَلَ اللہُ عَلَيَّ آيَاتٍ لَمْ يُرَ مِثْلُہُنَّ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ إِلَی آخِرِ السُّورَةِ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ إِلَی آخِرِ السُّورَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عقبۃ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل کی ہیں جیسی (کبھی) نہیں دیکھی گئی ہیں،وہ یہ ہیں: قل أعوذ برب الناس آخر سورہ تک اورقل أعوذ برب الفلق آخر سورہ تک۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَقْرَأَ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ ہرصلاۃ کے بعد معوذتین پڑھاکروں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَہِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَہُوَ مَاہِرٌ بِہِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَؤُہُ قَالَ ہِشَامٌ وَہُوَ شَدِيدٌ عَلَيْہِ قَالَ شُعْبَةُ وَہُوَ عَلَيْہِ شَاقٌّ فَلَہُ أَجْرَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنے میں مہارت رکھتاہے وہ بزرگ پاکباز فرشتوں کے ساتھ ہوگا،اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور بڑی مشکل سے پڑھ پاتاہے،پڑھنا اسے بہت شاق گزرتاہے تو اسے دہرااجر ملے گا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْہَرَہُ فَأَحَلَّ حَلَالَہُ وَحَرَّمَ حَرَامَہُ أَدْخَلَہُ اللہُ بِہِ الْجَنَّةَ وَشَفَّعَہُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَہْلِ بَيْتِہِ كُلُّہُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِصَحِيحٍ وَحَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کرلیا،جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گاجن پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس کی سند صحیح نہیں ہے،۳-حفص بن سلیمان حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي لُبَابَةَ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يَنَامُ عَلَی فِرَاشِہِ حَتَّی يَقْرَأَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَالزُّمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو لُبَابَةَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ قَدْ رَوَی عَنْہُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ غَيْرَ حَدِيثٍ وَيُقَالُ اسْمُہُ مَرْوَانُ أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ فِي كِتَابِ التَّارِيخِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب تک سورہ نبی اسرائیل اور سورہ زمر پڑھ نہ لیتے بستر پر سوتے نہ تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابولبابہ ایک بصری شیخ ہیں،حماد بن زید نے ان سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں،کہاجاتاہے کہ ان کانام مروان ہے،یہ بات مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے کتاب التاریخ میں بتائی ہے۔

حَدَّثَنَا عَليُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بِلَالٍ عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ الْمُسَبِّحَاتِ قَبْلَ أَنْ يَرْقُدَ وَيَقُولُ إِنَّ فِيہِنَّ آيَةً خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ آيَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ سونے سے پہلے مسبحات پڑھتے تھے ۱؎ آپ فرماتے تھے: ان میں ایک آیت ایسی ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَہْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ الْخَفَّافُ حَدَّثَنِي نَافِعُ بْنُ أَبِي نَافِعٍ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللہِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ وَقَرَأَ ثَلَاثَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْحَشْرِ وَكَّلَ اللہُ بِہِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْہِ حَتَّی يُمْسِيَ وَإِنْ مَاتَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مَاتَ شَہِيدًا وَمَنْ قَالَہَا حِينَ يُمْسِي كَانَ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص صبح کے وقت أعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم تین بار پڑھے،اور تین بار سورہ حشر کی آخری تین آیتیں پڑھے،تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مغفرت مانگنے کے لیے سترہزار فرشتے لگادیتاہے جوشام تک یہی کام کرتے ہیں۔اگر وہ ایسے دن میں مرجاتاہے توشہید ہوکر مرتاہے،اور جوشخص ان کلمات کو شام کے وقت کہے گاوہ بھی اسی درجہ میں ہوگا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَہُ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ثُمَّ يَقِفُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ثُمَّ يَقِفُ وَكَانَ يَقْرَؤُہَا مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَبِہِ يَقْرَأُ أَبُو عُبَيْدٍ وَيَخْتَارُہُ وَہَكَذَا رَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ وَغَيْرُہُ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ لِأَنَّ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ مَمْلَكٍ عَنْ أُمِّ سَلمَةَ أَنَّہَا وَصَفَتْ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ ﷺ حَرْفًا حَرْفًا وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَصَحُّ وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَكَانَ يَقْرَأُ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ ٹھہرٹھہرکر پڑھتے تھے،آپ: الحمد للہ رب العالمین پڑھتے،پھر رک جاتے،پھر الرحمن الرحیم پڑھتے پھررک جاتے،اور ملک یوم الدین پڑھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ابوعبید بھی یہی پڑھتے تھے اور اسی کو پسند کرتے تھے ۲؎،۳-یحییٰ بن سعید اموی اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن جریج سے اورابن جریج نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے ام سلمہ سے اسی طرح روایت کی ہے،اس حدیث کی سندمتصل نہیں ہے،کیونکہ لیث بن سعد نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے ابن ابی ملیکہ نے یعلی بن مملک سے انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی قرأت کی کیفیت ایک ایک حرف الگ کرکے بیان کی۔لیث کی حدیث زیادہ صحیح ہے اور لیث کی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپﷺ ملک یوم الدین پڑھتے تھے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيُّ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَأُرَاہُ قَالَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَقْرَءُونَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ہَذَا الشَّيْخِ أَيُّوبَ بْنِ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيِّ وَقَدْ رَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّہْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يَقْرَءُونَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ وَرَوَی عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يَقْرَءُونَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ،ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما (راوی زہری کہتے ہیں کہ) اورمیرا خیال ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کابھی نام لیا کہ یہ سب لوگمالک یوم الدین پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف زہری کی روایت سے جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں صرف اس شیخ یعنی ایوب بن سوید رملی کی روایت سے ہی جانتے ہیں،۳-زہری کے بعض اصحاب (تلامذہ)نے یہ حدیث زہری سے(مرسلاً) روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر وعمر مالک یوم الدین پڑھتے تھے۔اور عبدالرزاق نے معمر سے،معمر نے زہری سے اورزہری نے سعید بن مسیب سے (مرسلاً) روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر وعمرمالک یوم الدین پڑھتے تھے،(یعنی: اس کو مرفوعاً صرف ایوب بن سویدہی نے روایت کیاہے،اوروہ ضعیف ہیں)۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنُ بِالْعَيْنِ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو عَلِيِّ بْنُ يَزِيدَ ہُوَ أَخُو يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ مُحَمَّدٌ تَفَرَّدَ ابْنُ الْمُبَارَكِ بِہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ وَہَكَذَا قَرَأَ أَبُو عُبَيْدٍ وَالْعَيْنُ بِالْعَيْنِ اتِّبَاعًا لِہَذَا الْحَدِيثِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا: أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنُ ۱؎ بِالْعَیْنِ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابوعلی بن یزید،یونس بن یزید کے بھائی ہیں،۳-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس حدیث کو یونس بن یزید سے روایت کرنے میں ابن مبارک منفرد (تنہا) ہیں،۴-اور ابوعبید(قاسم بن سلام)نے اس حدیث کی اتباع میں اس طرح (العین ُبالعینِ) پڑھاہے۔ہم سے سویدبن نصر نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں ہم سے عبداللہ بن مبارک نے یونس بن یزیدسے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ ہَلْ تَسْتَطِيعُ رَبَّكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَرِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ وَالْأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا ہَلْ تَسْتَطِیعُ رَبَّکَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف رشدین کی حدیث سے جانتے ہیں،۲-اور اس کی سند قوی نہیں ہے،رشدین بن سعد اور (عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم) افریقی دونوں حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْرَؤُہَا إِنَّہُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ نَحْوَ ہَذَا وَہُوَ حَدِيثُ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَ و سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ ہِيَ أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی كِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي وَاحِدٌ وَقَدْ رَوَی شَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ غَيْرَ حَدِيثٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ وَہِيَ أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا

ام سلمہ ۱؎ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ پڑھتے تھے إِنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اسی طرح کئی ایک رواۃنے ثابت بنانی سے اس حدیث کی روایت کی ہے،۲-یہ حدیث شہر بن حوشب سے اسماء بنت یزیدکے واسطہ سے بھی روایت کی گئی ہے،۳-میں نے عبدبن حمید کوکہتے ہوئے سناہے کہ اسماء بنت یزید ہی ام سلمہ انصاریہ ہیں،۴-یہ دونوں ہی حدیثیں میرے نزدیک ایک ہیں،۵-شہر بن حوشب نے کئی حدیثیں ام سلمہ انصاریہ سے روایت کی ہیں،اور ام سلمہ انصاریہ یہی اسماء بنت یزید ہیں،۶-عائشہ سے مروی ہے انہوں نے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَحَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ قَالَا حَدَّثَنَا ہَارُونُ النَّحْوِيُّ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَرَأَ ہَذِہِ الْآيَةَ إِنَّہُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ

ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت اس طرح پڑھی: إِنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ.

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ظَہَرَتْ الرُّومُ عَلَی فَارِسَ فَأَعْجَبَ ذَلِكَ الْمُؤْمِنِينَ فَنَزَلَتْ الم غُلِبَتْ الرُّومُ إِلَی قَوْلِہِ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ قَالَ فَفَرِحَ الْمُؤْمِنُونَ بِظُہُورِ الرُّومِ عَلَی فَارِسَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَيُقْرَأُ غَلَبَتْ وَ غُلِبَتْ يَقُولُ كَانَتْ غُلِبَتْ ثُمَّ غَلَبَتْ ہَكَذَا قَرَأَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ غَلَبَتْ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر رومی (اہل کتاب نصاریٰ) اہل فارس (آتش پرست مجوسیوں) پر غالب آگئے۔تویہ چیز مسلمانوں کوبڑی پسندآئی اور اسی موقع پر (الم غُلِبَتِ الرُّومُ سے یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ) تک کی آیات نازل ہوئیں ۱؎۔چنانچہ مسلمان اہل روم کے اہل فارس پر غلبہ سے خوش ہوئے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲-غَلَبَتْ اور غُلِبَتْ دونوں پڑھاجاتا ہے۔کہتے ہیں: اہل روم پہلے مغلوب ہوئے پھر غالب آگئے،ایسے ہی نصر بن علی نے غَلَبَتْ پڑھاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ مَيْسَرَةَ النَّحْوِيُّ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ قَرَأَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ فَقَالَ مِنْ ضُعْفٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: انہوں نے نبی ﷺ کے سامنے خَلَقَکُمْ مِنْ ضَعْفٍ (ضاد کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا تو آپ نے فرمایا: مِنْ ضَعْفٍ نہیں مِنْ ضُعْفٍ ۱؎ (ضاد کے ضمہ کے ساتھ) پڑھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف فضیل بن مرزوق کی روایت سے جانتے ہیں۔ہم سے عبد بن حمید نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا یزید بن ہارون نے اوریزیدبن ہارون نے فضیل بن مرذوق سے کی حدیث روایت کی فضل بن مرذوق نے عطیہ سے اورعطیہ نے ابن عمرکے واسطہ سے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَخْبَرَاہُ أَنَّہُمَا سَمِعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ مَرَرْتُ بِہِشَامِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَہُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَاسْتَمَعْتُ قِرَاءَتَہُ فَإِذَا ہُوَ يَقْرَأُ عَلَی حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ لَمْ يُقْرِئْنِيہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَكِدْتُ أُسَاوِرُہُ فِي الصَّلَاةِ فَنَظَرْتُ حَتَّی سَلَّمَ فَلَمَّا سَلَّمَ لَبَّبْتُہُ بِرِدَائِہِ فَقُلْتُ مَنْ أَقْرَأَكَ ہَذِہِ السُّورَةَ الَّتِي سَمِعْتُكَ تَقْرَؤُہَا فَقَالَ أَقْرَأَنِيہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ قُلْتُ لَہُ كَذَبْتَ وَاللہِ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَہُوَ أَقْرَأَنِي ہَذِہِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُہَا فَانْطَلَقْتُ أَقُودُہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي سَمِعْتُ ہَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَی حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيہَا وَأَنْتَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَرْسِلْہُ يَا عُمَرُ اقْرَأْ يَا ہِشَامُ فَقَرَأَ عَلَيْہِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ اقْرَأْ يَا عُمَرُ فَقَرَأْتُ بِالْقِرَاءَةِ الَّتِي أَقْرَأَنِي النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ لَمْ يَذْكُرْ فِيہِ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ ان دونوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کوکہتے ہوئے سنا ہے: میں ہشام بن حکیم بن حزام کے پاس سے گزرا،وہ سورہ فرقان پڑھ رہے تھے۔اس وقت رسول اللہ ﷺ زندہ تھے،میں نے ان کی قرأت سنی،وہ ایسے حرفوں پر پڑھ رہے تھے،جن پررسول اللہ ﷺ نے مجھے پڑھایا ہی نہ تھا۔قریب تھا کہ میں ان پر حملہ کردیتامگر میں نے انہیں (صلاۃ پڑھ لینے تک کی) مہلت دی۔جونہی انہوں نے سلام پھیرا میں نے ان کو انہیں کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر گھسیٹا،میں نے ان سے پوچھا:یہ سورہ جسے میں نے تمہیں ابھی پڑھتے ہوئے سنا ہے،تمہیں کس نے پڑھائی ہے؟ کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی ہے۔میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو،قسم اللہ کی! رسول اللہ ﷺ نے ہی مجھے یہ سورہ پڑھائی جوتم پڑھ رہے تھے ۱؎،میں انہیں کھینچتا ہوا نبی اکرمﷺ کے پاس لے گیا۔میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورہ فرقان ایسے حرفوں (طریقوں) پر پڑھتے ہوئے سناہے جن پر آپ نے مجھے پڑھنا نہیں سکھایا ہے جب کہ آپ ہی نے مجھے سورہ فرقان پڑھایاہے۔پھرآپ ﷺ نے فرمایا: عمر! انہیں چھوڑدو،ہشام! تم پڑھو۔توا نہوں نے وہی قرأت کی جو میں نے ان سے سنی تھی۔آپﷺنے فرمایا: ہاں،ایسی ہی نازل ہوئی ہے۔پھر مجھ سے آپ ﷺ نے فرمایا: عمر! تم پڑھو،تو میں نے اسی طرح پڑھا جس طرح آپ نے مجھے پڑھایاتھا،آپﷺ نے فرمایا: ہاں،اسی طرح نازل کی گئی ہے۔پھر آپﷺ نے فرمایا: یہ قرآن سات حرفوں پر اتاراگیا ہے ۲؎،تو جو قرأت تمہیں آسان لگے اسی قرأت پرتم قرآن پڑھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-مالک بن انس نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی ہے،لیکن انہوں نے اپنی روایت میں مسور بن مخرمہ کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ لَقِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ جِبْرِيلَ فَقَالَ يَا جِبْرِيلُ إِنِّي بُعِثْتُ إِلَی أُمَّةٍ أُمِّيِّينَ مِنْہُمْ الْعَجُوزُ وَالشَّيْخُ الْكَبِيرُ وَالْغُلَامُ وَالْجَارِيَةُ وَالرَّجُلُ الَّذِي لَمْ يَقْرَأْ كِتَابًا قَطُّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَی سَبْعَةِ أَحْرُفٍ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُمِّ أَيُّوبَ وَہِيَ امْرَأَةُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ وَسَمُرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي جُہَيْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَبِي بَكْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جبرئیل علیہ السلام سے ملے۔آپ نے فرمایا: جبرئیل! میں ایک امی (ان پڑھ) قوم کے پاس نبی بناکربھیجاگیا ہوں،ان میں بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مردہیں،لڑکے اور لڑکیاں ہیں،ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں ہے توجبرئیل نے کہا: محمد! قرآن سات حرفوں پر نازل ہواہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،حذیفہ بن یمان،ابوہریرہ،اور ام ایوب رضی اللہ عنہم ام ایوب (ابوایوب انصاری کی بیوی)۔اور سمرہ،ابن عباس،ابوجہیم بن حارث بن صمہ،عمرو بن العاص اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ابی بن کعب سے یہ حدیث متعدد سندوں سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے بغیر علم کے (بغیر سمجھے بوجھے) قرآن کی تفسیر کی،تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِہِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میری طرف سے کوئی بات اس وقت تک نہ بیان کرو جب تک کہ تم (اچھی طرح) جان نہ لو کیونکہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات میری طرف منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے کچھ کہا وہ بھی اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ حَدَّثَنَا سُہَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَہُوَ ابْنُ أَبِي حَزْمٍ أَخُو حَزْمٍ الْقُطَعِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِہِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فِي سُہَيْلِ بْنِ أَبِي حَزْمٍ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّہُمْ شَدَّدُوا فِي ہَذَا فِي أَنْ يُفَسَّرَ الْقُرْآنُ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَأَمَّا الَّذِي رُوِيَ عَنْ مُجَاہِدٍ وَقَتَادَةَ وَغَيْرِہِمَا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُمْ فَسَّرُوا الْقُرْآنَ فَلَيْسَ الظَّنُّ بِہِمْ أَنَّہُمْ قَالُوا فِي الْقُرْآنِ أَوْ فَسَّرُوہُ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِہِمْ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُمْ مَا يَدُلُّ عَلَی مَا قُلْنَا أَنَّہُمْ لَمْ يَقُولُوا مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِہِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَہْدِيٍّ الْبَصْرِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ إِلَّا وَقَدْ سَمِعْتُ فِيہَا شَيْئًا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ قَالَ مُجَاہِدٌ لَوْ كُنْتُ قَرَأْتُ قِرَاءَةَ ابْنِ مَسْعُودٍ لَمْ أَحْتَجْ إِلَی أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ كَثِيرٍ مِنْ الْقُرْآنِ مِمَّا سَأَلْتُ

جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے (اور اپنی صواب دید) سے کی،اور بات صحیح ودرست نکل بھی گئی تو بھی اس نے غلطی کی‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-بعض محدثین نے سہیل بن ابی حزم کے بارے کلام کیا ہے،۳-اسی طرح بعض اہل علم صحابہ اور دوسروں سے مروی ہے کہ انہوں نے سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ قرآن کی تفسیر بغیر علم کے کی جائے،لیکن مجاہد،قتادہ اور ان دونوں کے علاوہ بعض اہل علم کے بارے میں جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے قرآن کی تفسیر (بغیر علم کے) کی ہے تو یہ کہنا درست نہیں،ایسے (ستودہ صفات) لوگوں کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے قرآن کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یا انہوں نے قرآن کی جو تفسیر کی ہے یہ بغیر علم کے یا اپنے جی سے کی ہے،۴-ان ائمہ سے ایسی باتیں مروی ہیں جو ہمارے اس قول کو تقویت دیتی ہیں کہ انہوں نے کوئی بات بغیر علم کے اپنی جانب سے نہیں کہی ہیں۔قتادہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کی تفسیر میں میں نے کوئی بات (یعنی کوئی روایت) نہ سنی ہو۔مجاہد کہتے ہیں: اگر میں نے ابن مسعود کی قرأت پڑھی ہوتی تو مجھے قرآن سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ بہت سی باتیں پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئی ہوتی جو میں نے ان سے پوچھیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ أَبَا جَہْلٍ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ إِنَّا لَا نُكَذِّبُكَ وَلَكِنْ نُكَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِہِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی فَإِنَّہُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللہِ يَجْحَدُونَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ أَنَّ أَبَا جَہْلٍ قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَلِيٍّ وَہَذَا أَصَحُّ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو جہل نے نبی اکرم ﷺ سے کہا: ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں،بلکہ آپ جو (دین قرآن) لے کر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں،تو اللہ تعالیٰ نے آیت فَإِنَّہُمْ لا یُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِینَ بِآیَاتِ اللہِ یَجْحَدُونَ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے اور سفیان سے،سفیان نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے ناجیہ سے روایت کی ہے کہ ابو جہل نے نبی اکرم ﷺ سے کہا،پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی،اور اس حدیث میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: اور یہ (مرسل) روایت زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَعُوذُ بِوَجْہِكَ فَلَمَّا نَزَلَتْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَاتَانِ أَہْوَنُ أَوْ ہَاتَانِ أَيْسَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: جب آیت قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ ۱؎،نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں تیری ذات کی پناہ لیتا ہوں-پھر جب آگے أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ ۲؎ کا ٹکڑا نازل ہوا‘‘،تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ دونوں ہی باتیں (اللہ کے لیے) آسان ہیں‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ الْغَسَّانِيِّ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذِہِ الْآيَةِ قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَمَا إِنَّہَا كَائِنَةٌ وَلَمْ يَأْتِ تَأْوِيلُہَا بَعْدُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ نے آیت قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِکُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ ۱؎ کے متعلق فرمایا: ’’آگاہ رہو یہ تو ہو کر رہنے والی بات ہے اور ابھی تک اس کا وقوع وظہور نہیں ہوا ہے (یعنی یہ عذاب نہیں آیا ہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَہُمْ بِظُلْمٍ شَقَّ ذَلِكَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَأَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَہُ قَالَ لَيْسَ ذَلِكَ إِنَّمَا ہُوَ الشِّرْكُ أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِہِ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللہِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ ۱؎ نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم وزیادتی نہ ہوئی ہے۔آپ نے فرمایا: ’’(تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے،اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے،کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا تھا: یَا بُنَیَّ لاَ تُشْرِکْ بِاللہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ كُنْتُ مُتَّكِئًا عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ يَا أَبَا عَائِشَةَ ثَلَاثٌ مَنْ تَكَلَّمَ بِوَاحِدَةٍ مِنْہُنَّ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَی اللہِ الْفِرْيَةَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَی رَبَّہُ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَی اللہِ وَاللہُ يَقُولُ لَا تُدْرِكُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَہُ اللہُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَكُنْتُ مُتَّكِئًا فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْظِرِينِي وَلَا تُعْجِلِينِي أَلَيْسَ يَقُولُ اللہُ تَعَالَی وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً أُخْرَی وَلَقَدْ رَآہُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ قَالَتْ أَنَا وَاللہِ أَوَّلُ مَنْ سَأَلَ عَنْ ہَذَا رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّمَا ذَاكَ جِبْرِيلُ مَا رَأَيْتُہُ فِي الصُّورَةِ الَّتِي خُلِقَ فِيہَا غَيْرَ ہَاتَيْنِ الْمَرَّتَيْنِ رَأَيْتُہُ مُنْہَبِطًا مِنْ السَّمَاءِ سَادًّا عِظَمُ خَلْقِہِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أَنْزَلَ اللہُ عَلَيْہِ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَی اللہِ يَقُولُ اللہُ يَا أَيُّہَا الرَّسُولَ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَمَنْ زَعَمَ أَنَّہُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَی اللہِ وَاللہُ يَقُولُ قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ يُكْنَی أَبَا عَائِشَةَ وَہُوَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَكَذَا كَانَ اسْمُہُ فِي الدِّيوَانِ

مسروق کہتے ہیں: میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا،انہوں نے کہا: اے ابو عائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد ﷺ نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائے گا۔کیوں کہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں،اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ لیتا ہے) اور اس کی ذات لطیف وخبیر ہے،کسی انسان کو بھی یہ مقام ودرجہ حاصل نہیں ہے کہ اللہ اس سے بغیر وحی کے یا بغیر پردے کے براہ راست اس سے بات چیت کرے،(وہ کہتے ہیں:) میں ٹیک لگائے ہوئے تھا اور اٹھ بیٹھا،میں نے کہا: ام المؤمنین! مجھے بولنے کا موقع دیجئے اور میرے بارے میں حکم لگانے میں جلدی نہ کیجئے گا،کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی ۱؎ وَلَقَدْ رَآہُ بِالأُفُقِ الْمُبِینِ ۲؎ تب عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: قسم اللہ کی! میں وہ پہلی ذات ہوں جس نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا۔آپ نے فرمایا: ’’وہ تو جبرئیل تھے (ان آیتوں میں میرے دیکھنے سے مراد جبرئیل کو دیکھنا تھا (ا للہ کو نہیں) ان دو مواقع کے سوا اور کوئی موقع ایسا نہیں ہے جس میں جبرئیل کو میں نے ان کی اپنی اصل صورت میں دیکھا ہو۔جس پر ان کی تخلیق ہوئی ہے،میں نے ان کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا ہے،ان کی بناوٹ کی بڑائی یعنی بھاری بھرکم جسامت نے آسمان وزمین کے درمیان جگہ کو گھیر رکھا تھا (۲): اور دوسرا وہ شخص کہ جو اللہ پر جھوٹا الزام لگانے کا بڑا مجرم ہے جس نے یہ خیال کیا کہ اللہ نے محمد ﷺ پر جو چیزیں اتاری ہیں ان میں سے کچھ چیزیں محمد ﷺ نے چھپا لی ہیں۔جب کہ اللہ کہتا ہے یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ۳؎ (۳): وہ شخص بھی اللہ پر جھوٹا الزام لگانے والا ہے جو یہ سمجھے کہ کل کیا ہونے والا ہے،محمد اسے جانتے ہیں،جب کہ اللہ خود کہتا ہے کہ آسمان وزمین میں غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْبَصْرِيُّ الْحَرَشِيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَكَّائِيُّ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَتَی أُنَاسٌ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ أَنَأْكُلُ مَا نَقْتُلُ وَلَا نَأْكُلُ مَا يَقْتُلُ اللہُ فَأَنْزَلَ اللہُ فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِہِ مُؤْمِنِينَ إِلَی قَوْلِہِ وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: کچھ لوگوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم وہ جانور کھائیں جنہیں ہم قتل (یعنی ذبح) کرتے ہیں،اور ان جانوروں کو نہ کھائیں جنہیں اللہ قتل کرتا (یعنی مار دیتا) ہے،تو اللہ نے فَکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ إِنْ کُنْتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِینَ سے وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ ۱؎ تک نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،۳-بعض نے اسے عطا بن سائب سے اور عطاء نے سعید بن جبیر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ مَنْ سَرَّہُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَی الصَّحِيفَةِ الَّتِي عَلَيْہَا خَاتَمُ مُحَمَّدٍ ﷺ فَلْيَقْرَأْ ہَذِہِ الْآيَاتِ قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ الْآيَةَ إِلَی قَوْلِہِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جسے اس بات سے خوشی ہو کہ وہ صحیفہ دیکھے جس پر محمد ﷺ کی مہر ہے تو اسے یہ آیات قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ سے لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ۱؎ تک پڑھنی چاہیے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ قَالَ طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت: أَوْ یَأْتِیَ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ ۱؎ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد سورج کا پچھم سے نکلنا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض دوسرے لوگوں نے بھی اس حدیث کو روایت کیا،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَعْلَی بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجْنَ لَمْ يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُہَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ الْآيَةَ الدَّجَّالُ وَالدَّابَّةُ وَطُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ الْمَغْرِبِ أَوْ مِنْ مَغْرِبِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَازِمٍ ہُوَ الْأَشْجَعِيُّ الْكُوفِيُّ وَاسْمُہُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جب وہ ظاہر ہوں گی،تو جو شخص پہلے سے ایمان نہ لایا ہوگا اسے اس کا (بروقت) ایمان لانا فائدہ نہ پہنچا سکے گا (الانعام: ۱۵۸)،(۱) دجال کا ظاہر ہونا (۲) چوپائے کا نکلنا (۳) سورج کا پچھم سے نکلنا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے ۲-ابوحازم سے حازم اشجعی کوفی مراد ہیں۔ان کا نام سلمان ہے اور وہ عزہ اشجعیہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ وَقَوْلُہُ الْحَقُّ إِذَا ہَمَّ عَبْدِي بِحَسَنَةٍ فَاكْتُبُوہَا لَہُ حَسَنَةً فَإِنْ عَمِلَہَا فَاكْتُبُوہَا لَہُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا وَإِذَا ہَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَا تَكْتُبُوہَا فَإِنْ عَمِلَہَا فَاكْتُبُوہَا بِمِثْلِہَا فَإِنْ تَرَكَہَا وَرُبَّمَا قَالَ لَمْ يَعْمَلْ بِہَا فَاكْتُبُوہَا لَہُ حَسَنَةً ثُمَّ قَرَأَ مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اس کا فرمان برحق (ودرست) ہے: جب میرا بندہ کسی نیکی کا قصد و ارادہ کرے،تو (میرے فرشتو!) اس کے لیے نیکی لکھ لو،اور اگر وہ اس بھلے کام کو کر گزرے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھ لو،اور جب وہ کسی برے کام کا ارادہ کرے تو کچھ نہ لکھو،اور اگر وہ برے کام کو کر ڈالے تو صرف ایک گناہ لکھو،پھر اگر وہ اسے چھوڑ دے (کبھی راوی نے یہ کہا) اور کبھی یہ کہا (دو بارہ) اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے) تو اس کے لیے اس پر بھی ایک نیکی لکھ لو،پھر آپ نے آیت مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا پڑھی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ وَكِيعِ بْنِ حُدُسٍ عَنْ عَمِّہِ أَبِي رَزِينٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَہُ قَالَ كَانَ فِي عَمَاءٍ مَا تَحْتَہُ ہَوَاءٌ وَمَا فَوْقَہُ ہَوَاءٌ وَخَلَقَ عَرْشَہُ عَلَی الْمَاءِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ الْعَمَاءُ أَيْ لَيْسَ مَعَہُ شَيْءٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَكِيعُ بْنُ حُدُسٍ وَيَقُولُ شُعْبَةُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَہُشَيْمٌ وَكِيعُ بْنُ عُدُسٍ وَہُوَ أَصَحُّ وَأَبُو رَزِينٍ اسْمُہُ لَقِيطُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ نے فرمایا: عماء میں تھا،نہ تو اس کے نیچے ہواتھی نہ ہی اس کے اوپر۔اس نے اپنا عرش پانی پر بنایا ۱؎ ،احمدبن منیع کہتے ہیں: (ہمارے استاد) یزید نے بتایا: عماء کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسی طرح حماد بن سلمہ نے اپنی روایت میںوکیع بن حدس کہاہے اور شعبہ،ابوعوانہ اور ہشیم نے وکیع بن عدس کہا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے،۳-ابورزین کانام لقیط بن عامر ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ تَبَارَكَ وَتَعَالَی يُمْلِي وَرُبَّمَا قَالَ يُمْہِلُ لِلظَّالِمِ حَتَّی إِذَا أَخَذَہُ لَمْ يُفْلِتْہُ ثُمَّ قَرَأَ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِيَ ظَالِمَةٌ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ نَحْوَہُ وَقَالَ يُمْلِي حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ جَدِّہِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَقَالَ يُمْلِي وَلَمْ يَشُكَّ فِيہِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ ظالم کو مہلت دیتاہے مگرجب اسے گرفت میں لے لیتا ہے پھر تو اسے چھوڑتا بھی نہیں،پھر آپ نے آیت وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ۱؎ تلاوت فرمائی۔(راوی ابومعاویہ نے کبھی یملی کہااورسبھی یمہل دونوں کامعنی ایک ہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ابواسامہ نے بھی اسے برید سے اسی طرح روایت کیا ہے،اور یُملی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ابوموسیٰ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح روایت کی اور اس میںیُملی کا لفظ کسی شک کے بغیر کہا۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ہُوَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ فَمِنْہُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللہِ فَعَلَی مَا نَعْمَلُ عَلَی شَيْءٍ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ أَوْ عَلَی شَيْءٍ لَمْ يُفْرَغْ مِنْہُ قَالَ بَلْ عَلَی شَيْءٍ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ وَجَرَتْ بِہِ الْأَقْلَامُ يَا عُمَرُ وَلَكِنْ كُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَمْرٍو

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت فَمِنْہُمْ شَقِیٌّ وَسَعِیدٌ ۱؎ نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے نبی! پھر ہم کس چیز کے موافق عمل کریں؟ کیا اس چیز کے موافق عمل کریں جس سے فراغت ہوچکی ہے (یعنی جس کا فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا ہے)؟ یا ہم ایسی چیز پرعمل کریں جس سے ابھی فراغت نہیں ہوئی ہے۔(یعنی اس کا فیصلہ ہمارا عمل دیکھ کرکیا جائے گا) آپ نے فرمایا: عمر! ہم اسی چیز کے موافق عمل کرتے ہیں جس سے فراغت ہوچکی ہے۔(اور ہمارے عمل سے پہلے) وہ چیز ضبط تحریر میں آچکی ہے۲؎،لیکن بات صرف اتنی ہے کہ ہرشخص کے لیے وہی آسان ہے جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عبدالملک بن عمرو کی حدیث سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ إِنِّي عَالَجْتُ امْرَأَةً فِي أَقْصَی الْمَدِينَةِ وَإِنِّي أَصَبْتُ مِنْہَا مَا دُونَ أَنْ أَمَسَّہَا وَأَنَا ہَذَا فَاقْضِ فِيَّ مَا شِئْتَ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ لَقَدْ سَتَرَكَ اللہُ لَوْ سَتَرْتَ عَلَی نَفْسِكَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ شَيْئًا فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَأَتْبَعَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَجُلًا فَدَعَاہُ فَتَلَا عَلَيْہِ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْہِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَی لِلذَّاكِرِينَ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ ہَذَا لَہُ خَاصَّةً قَالَ لَا بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ وَرِوَايَةُ ہَؤُلَاءِ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ الثَّوْرِيِّ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ وَسِمَاكٌ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ الْأَعْمَشَ وَقَدْ رَوَی سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص نے نبی اکرمﷺکے پاس آیاکر عرض کیا:شہر کے بیرونی علاقے میں ایک عورت سے میں ملا اورسوائے جماع کے اس کے ساتھ میں نے سب کچھ کیا،اور اب بذات خود میں یہاں موجود ہوں،تو آپ اب میرے بارے میں جوفیصلہ چاہیں صادر فرمائیں(میں وہ سزا جھیلنے کے لیے تیار ہوں) عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اللہ نے تیری پردہ پوشی کی ہے کاش تونے بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کی ہوتی۔رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا،اور وہ آدمی چلاگیا۔پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے پیچھے ایک آدمی بھیج کر اسے بلایا اور اسے آیت وَأَقِمْ الصَّلاَۃَ طَرَفَیَ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذَلِکَ ذِکْرَی لِلذَّاکِرِینَ ۱؎ تک پڑھ کر سنائی۔ایک صحابی نے کہا:کیا یہ (بشارت) اس شخص کے لیے خاص ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں،بلکہ سب کے لیے ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح اسی جیسی روایت کی ہے اسرائیل نے سماک سے،سماک نے ابراہیم سے،ابراہیم نے علقمہ اور اسود سے،اور ان دونوں نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے،۳-اوراسی سفیان ثوری نے سماک سے،سماک نے ابراہیم سے،ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اور ان لوگوں کی روایت سفیان ثوری کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۳؎،۴-شعبہ نے سماک بن حرب سے،سماک نے ابراہیم سے،ابراہیم نے اسود سے اور اسود نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے۔اس سند سے،سفیان نے اعمش سے،(اوراعمش) اور سماک نے ابراہیم سے،ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اورعبدالرحمٰن نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی۔سفیان سے،سفیان نے سماک سے،سماک نے ابراہیم سے،ابراہیم نے عبدالرحمٰن بن یزید سے اورعبدالرحمٰن نے عبداللہ بن مسعودکے واسطہ سے،نبی اکرمﷺسے اسی کی ہم معنی حدیث روایت کی۔اور اس سند میں اعمش کا ذکر نہیں کیا،اور سلیمان تیمی نے یہ حدیث ابوعثمان نہدی سے روایت کی،اورابوعثمان نے ابن مسعود کے واسطہ سے،نبی اکرمﷺسے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ مُعَاذٍ قَالَ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ رَجُلًا لَقِيَ امْرَأَةً وَلَيْسَ بَيْنَہُمَا مَعْرِفَةٌ فَلَيْسَ يَأْتِي الرَّجُلُ شَيْئًا إِلَی امْرَأَتِہِ إِلَّا قَدْ أَتَی ہُوَ إِلَيْہَا إِلَّا أَنَّہُ لَمْ يُجَامِعْہَا قَالَ فَأَنْزَلَ اللہُ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْہِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَی لِلذَّاكِرِينَ فَأَمَرَہُ أَنْ يَتَوَضَّأَ وَيُصَلِّيَ قَالَ مُعَاذٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَہِيَ لَہُ خَاصَّةً أَمْ لِلْمُؤْمِنِينَ عَامَّةً قَالَ بَلْ لِلْمُؤْمِنِينَ عَامَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی لَمْ يَسْمَعْ مِنْ مُعَاذٍ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ مَاتَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ وَقُتِلَ عُمَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی غُلَامٌ صَغِيرٌ ابْنُ سِتِّ سِنِينَ وَقَدْ رَوَی عَنْ عُمَرَ وَرَآہُ وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص نبی اکرمﷺکے پاس آکرعرض کیا:اللہ کے رسول! ایک ایسے شخص کے بارے میں مجھے بتائیے جو ایک ایسی عورت سے ملا جن دونوں کا آپس میں جان پہچان،رشتہ وناطہ (نکاح) نہیں ہے اور اس نے اس عورت کے ساتھ سوائے جماع کے وہ سب کچھ (بوس وکنار چوماچاٹی وغیرہ) کیا جو ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ کرتاہے؟،(اس پر) اللہ تعالیٰ نے آیت: وَأَقِمْ الصَّلاۃَ طَرَفَیَ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذَلِکَ ذِکْرَی لِلذَّاکِرِینَ ناز فرمائی،آپ ﷺ نے اسے وضو کرکے صلاۃ پڑھنے کا حکم دیا،میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا یہ حکم اس شخص کے لیے خاص ہے یا سبھی مومنین کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں،بلکہ سبھی مسلمانوں کے لیے عام ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے،(اس لیے کہ) عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے معاذ سے نہیں سنا ہے،اورمعاذ بن جبل کا انتقال عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا تھا،اورعمر رضی اللہ عنہ جب شہید کیے گئے تو اس وقت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ چھ برس کے چھوٹے بچے تھے۔حالانکہ انہوں نے عمر سے(مرسلاً) روایت کی ہے (جبکہ صرف) انہیں دیکھاہے،۲-شعبہ نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اورعبدالملک نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے،نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنْ امْرَأَةٍ قُبْلَةَ حَرَامٍ فَأَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلَہُ عَنْ كَفَّارَتِہَا فَنَزَلَتْ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْہِبْنَ السَّيِّئَاتِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَلِي ہَذِہِ يَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ لَكَ وَلِمَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ أُمَّتِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ایک شخص نے ایک (غیرمحرم)عورت کا ناجائز بوسہ لے لیا پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر پوچھا کہ اس کا کفارہ کیا ہے؟ اس پرآیت وَأَقِمَ الصَّلاۃَ طَرَفَیَ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ نازل ہوئی،اس شخص نے پوچھاکیا یہ (کفارہ) صرف میرے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ تمہارے لیے ہے اور میری امت کے ہر اس شخص کے لیے جویہ غلطی کربیٹھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوْہَبٍ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي الْيَسَرِ قَالَ أَتَتْنِي امْرَأَةٌ تَبْتَاعُ تَمْرًا فَقُلْتُ إِنَّ فِي الْبَيْتِ تَمْرًا أَطْيَبَ مِنْہُ فَدَخَلَتْ مَعِي فِي الْبَيْتِ فَأَہْوَيْتُ إِلَيْہَا فَتَقَبَّلْتُہَا فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ قَالَ اسْتُرْ عَلَی نَفْسِكَ وَتُبْ وَلَا تُخْبِرْ أَحَدًا فَلَمْ أَصْبِرْ فَأَتَيْتُ عُمَرَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ اسْتُرْ عَلَی نَفْسِكَ وَتُبْ وَلَا تُخْبِرْ أَحَدًا فَلَمْ أَصْبِرْ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ أَخَلَفْتَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللہِ فِي أَہْلِہِ بِمِثْلِ ہَذَا حَتَّی تَمَنَّی أَنَّہُ لَمْ يَكُنْ أَسْلَمَ إِلَّا تِلْكَ السَّاعَةَ حَتَّی ظَنَّ أَنَّہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ قَالَ وَأَطْرَقَ رَسُولُ اللہِ ﷺ طَوِيلًا حَتَّی أَوْحَی اللہُ إِلَيْہِ وَأَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفَيْ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّيْلِ إِلَی قَوْلِہِ ذِكْرَی لِلذَّاكِرِينَ قَالَ أَبُو الْيَسَرِ فَأَتَيْتُہُ فَقَرَأَہَا عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَصْحَابُہُ يَا رَسُولَ اللہِ أَلِہَذَا خَاصَّةً أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً قَالَ بَلْ لِلنَّاسِ عَامَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ضَعَّفَہُ وَكِيعٌ وَغَيْرُہُ وَأَبُو الْيَسَرِ ہُوَ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ وَرَوَی شَرِيكٌ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ہَذَا الْحَدِيثَ مِثْلَ رِوَايَةِ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ

ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک عورت میرے پاس کھجور خرید نے آئی،میں نے اس سے کہا: (یہ کھجور جو یہاں موجود ہے جسے تم دیکھ رہی ہو)اس سے اچھی اور عمدہ کھجور گھر میں رکھی ہے۔چنانچہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ گھر میں آگئی،میں اس کی طرف مائل ہوگیااور اس کوچوم لیا،تب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا،انہوں نے کہا: اپنے نفس (کی اس غلطی) پر پردہ ڈال دو،توبہ کرو دوسرے کسی او ر سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرو،لیکن مجھ سے صبر نہ ہوسکاچنانچہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے بھی اس (واقعہ) کا ذکر کیا،انہوں نے بھی کہا: اپنے نفس کی پردہ پوشی کرو،تو بہ کرو اور کسی دوسرے کو یہ واقعہ نہ بتاؤ۔(مگر میراجی نہ مانا) میں اس بات پر قائم نہ رہا،اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آکرآپ کو بھی یہ بات بتادی۔آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے ایک غازی کی بیوی کے ساتھ جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا ہے اس کی غیر موجود گی میں ایسی حرکت کی ہے؟آپ کی اتنی بات کہنے سے مجھے اتنی غیرت آئی کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوتا بلکہ اب لاتا اسے خیال ہواکہ وہ تو جہنم والوں میں سے ہوگیا ہے رسول اللہ ﷺ (سوچ میں) کافی دیر تک سرجھکائے رہے یہاں تک کہ آپ پر بذریعہ وحی آیت وَأَقِمِ الصَّلاَۃَ طَرَفَیَ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذَلِکَ ذِکْرَی لِلذَّاکِرِینَ نازل ہوئی۔ابوالیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (جب) میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ (بشارت) ان کے لیے خاص ہے یاسبھی لوگوں کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں،بلکہ سبھی لوگوں کے لیے عام ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-قیس بن ربیع کو وکیع وغیرہ نے ضعیف قراردیا ہے۔اورابوالیسر کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ ہیں،۳-شریک نے عثمان بن عبداللہ سے یہ حدیث قیس بن ربیع کی روایت کی طرح روایت کی ہے،۴-اس باب میں ابوامامہ اور واثلہ بن اسقع اورانس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْوَلِيدِ وَكَانَ يَكُونُ فِي بَنِي عِجْلٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَقْبَلَتْ يَہُودُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالُوا يَا أَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنْ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَكٌ مِنْ الْمَلَائِكَةِ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ مَعَہُ مَخَارِيقُ مِنْ نَارٍ يَسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَيْثُ شَاءَ اللہُ فَقَالُوا فَمَا ہَذَا الصَّوْتُ الَّذِي نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہُ بِالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہُ حَتَّی يَنْتَہِيَ إِلَی حَيْثُ أُمِرَ قَالُوا صَدَقْتَ فَأَخْبِرْنَا عَمَّا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَی نَفْسِہِ قَالَ اشْتَكَی عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا يُلَائِمُہُ إِلَّا لُحُومَ الْإِبِلِ وَأَلْبَانَہَا فَلِذَلِكَ حَرَّمَہَا قَالُوا صَدَقْتَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہودنبی اکرمﷺ کے پاس آئے اورآپ سے کہا: اے ابوالقاسم! ہمیں رعد کے بارے میں بتایئے وہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔بادلوں کو گردش دینے (ہانکنے) پر مقرر ہے،اس کے پاس آگ کے کوڑے ہیں۔اس کے ذریعہ اللہ جہاں چاہتاہے وہ وہاں بادلوں کو ہانک کرلے جاتاہے۔پھر انہوں نے کہا: یہ آوازکیسی ہے جسے ہم سنتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ تو بادل کو اس کی ڈانٹ ہے،جب تک کہ جہاں پہنچنے کا حکم دیاگیا ہے نہ پہنچے ڈانٹ پڑتی ہی رہتی ہے۔انہوں نے کہا:آپ نے درست فرمایا: اچھا اب ہمیں یہ بتائیے اسرائیل (یعنی یعقوب علیہ السلام) نے اپنے آپ پر کیا چیز حرام کرلی تھی؟ آپ نے فرمایا: اسرائیل کو عرق النسا کی تکلیف ہوگئی تھی تو انہوں نے اونٹوں کے گوشت اور ان کا دودھ (بطورنذر) ۱؎ کھانا پینا حرام کرلیاتھا۔انہوں نے کہا: آپ صحیح فرمارہے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:ـ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ الثَّوْرِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ قَالَ الدَّقَلُ وَالْفَارِسِيُّ وَالْحُلْوُ وَالْحَامِضُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ زَيْدُ بْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ ہَذَا وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ ہُوَ أَخُو عَمَّارِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَعَمَّارٌ أَثْبَتُ مِنْہُ وَہُوَ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قولوَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ فِی الأُکُلِ ۱؎ بارے میں فرمایا: اس سے مراد ردّی اورسوکھی کھجوریں ہیں،فارسی کھجوریں ہیں،میٹھی اور کڑوی کسیلی کھجوریں ہیں ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-زید بن ابی انیسہ نے اعمش سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-اور سیف بن محمد (جو اس روایت کے راویوں میں سے ہیں) وہ عماربن محمد کے بھائی ہیں اور عمار ان سے زیادہ ثقہ ہیں اور یہ سفیان ثوری کے بھانجے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِقِنَاعٍ عَلَيْہِ رُطَبٌ فَقَالَ مَثَلُ كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أُكُلَہَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا قَالَ ہِيَ النَّخْلَةُ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ قَالَ ہِيَ الْحَنْظَلُ قَالَ فَأَخْبَرْتُ بِذَلِكَ أَبَا الْعَالِيَةِ فَقَالَ صَدَقَ وَأَحْسَنَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَ أَبِي الْعَالِيَةِ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ ہَذَا مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَرَوَاہُ مَعْمَرٌ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَ حَدِيثِ قُتَيْبَةَ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ٹوکری لائی گئی جس میں تروتازہ پکی ہوئی کھجوریں تھیں،آپ نے فرمایا:مَثَلُ کَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَائِ تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا ۱؎ آپ نے فرمایا: یہ کھجور کا درخت ہے،اور آیت وَمَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیثَۃٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ ۲؎ میں برے درخت سے مراد اندرائن ہے۔شعیب بن حبحاب (راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کا ذکر ابوالعالیہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے سچ اور صحیح کہا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم سے قتیبہ نے بیان کیا،و ہ کہتے ہیں: ہم سے ابوبکر بن شعیب بن حبحاب نے بیان کیا،اورابوبکر نے اپنے باپ شعیب سے اور شعیب نے انس بن مالک سے اسی طرح اسی حدیث کی ہم معنی حدیث روایت کی،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا،نہ ہی انہوں نے ابوالعالیہ کا قول نقل کیا ہے،یہ حدیث حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ دصحیح ہے،۲-کئی ایک نے ایسی ہی حدیث موقوفاً روایت کی ہے،اور ہم حماد بن سلمہ کے سوا کسی کوبھی نہیں جانتے جنہوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہو،اس حدیث کو معمر اور حماد بن زید اور کئی اورلوگوں نے بھی روایت کیا ہے،لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا ہے۔ہم سے احمد بن عبدۃ ضبی نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے حماد بن زیدنے بیان کیا اور حماد نے شعیب بن حبحاب کے واسطہ سے انس سے قتیبہ کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ قَال سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ عَنْ الْبَرَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللہِ تَعَالَی يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ قَالَ فِي الْقَبْرِ إِذَا قِيلَ لَہُ مَنْ رَبُّكَ وَمَا دِينُكَ وَمَنْ نَبِيُّكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَۃِ ۱؎ کی تفسیر میں فرمایا: ثابت رکھنے سے مراد قبر میں اس وقت ثابت رکھنا ہے جب قبر میں پوچھا جائے گا: من ربک؟ تمہارا رب-معبود-کون ہے؟ وما دینک؟ تمہارا دین کیا ہے؟ ومن نبیک؟ تمہارا نبی کون ہے؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ تَلَتْ عَائِشَةُ ہَذِہِ الْآيَةَ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ فَأَيْنَ يَكُونُ النَّاسُ قَالَ عَلَی الصِّرَاطِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ عَائِشَةَ

مسروق کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت یَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَیْرَ الأَرْضِ ۱؎ پڑھ کر سوال کیا: اللہ کے رسول! اس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: پل صراط پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ عَنْ يَحْيَی الْبَكَّاءِ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَرْبَعٌ قَبْلَ الظُّہْرِ بَعْدَ الزَّوَالِ تُحْسَبُ بِمِثْلِہِنَّ فِي صَلَاةِ السَّحَرِ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَلَيْسَ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا وَيُسَبِّحُ اللہَ تِلْكَ السَّاعَةَ ثُمَّ قَرَأَ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُہُ عَنْ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّہِ وَہُمْ دَاخِرُونَ الْآيَةَ كُلَّہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: زوال یعنی سورج ڈھلنے کے بعد ظہر کی صلاۃ سے پہلے چاررکعتیں سحر (تہجد) کی چاررکعتوں کے ثواب کے برابر کا درجہ رکھتی ہیں،آپ نے فرمایا: کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اس گھڑی (یعنی زوال کے وقت) اللہ کی تسبیح نہ بیان کرتی ہو۔پھر آپ نے آیت یَتَفَیَّأُ ظِلالُہُ عَنِ الْیَمِینِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّہِ وَہُمْ دَاخِرُونَ ۱؎ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف علی بن عاصم کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ عِيسَی بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ قَالَ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ أُصِيبَ مِنْ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَةٌ وَسِتُّونَ رَجُلًا وَمِنْ الْمُہَاجِرِينَ سِتَّةٌ فِيہِمْ حَمْزَةُ فَمَثَّلُوا بِہِمْ فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ لَئِنْ أَصَبْنَا مِنْہُمْ يَوْمًا مِثْلَ ہَذَا لَنُرْبِيَنَّ عَلَيْہِمْ قَالَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ فَقَالَ رَجُلٌ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُفُّوا عَنْ الْقَوْمِ إِلَّا أَرْبَعَةً قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب اُحد کی جنگ ہوئی تو انصار کے چونسٹھ(۶۴) اور مہاجرین کے چھ کام آئے۔ان میں حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔کفارنے ان کا مثلہ کردیاتھا،انصار نے کہا: اگر کسی دن ہمیں ان پر غلبہ حاصل ہوا تو ہم ان کے مقتولین کا مثلہ اس سے کہیں زیادہ کردیں گے۔پھر جب مکہ کے فتح کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے آیت وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِلصَّابِرِینَ ۱؎ نازل فرمادی۔ایک صحابی نے کہا:لا قریش بعد الیوم (آج کے بعد کوئی قریشی وریشی نہ دیکھا جائے گا) ۲؎ آپ نے فرمایا: (نہیں) چار اشخاص کے سوا کسی کو قتل نہ کرو ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث ابی بن کعب کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حِينَ أُسْرِيَ بِي لَقِيتُ مُوسَی قَالَ فَنَعَتَہُ فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُہُ قَالَ مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ كَأَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ قَالَ وَلَقِيتُ عِيسَی قَالَ فَنَعَتَہُ قَالَ رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ يَعْنِي الْحَمَّامَ وَرَأَيْتُ إِبْرَاہِيمَ قَالَ وَأَنَا أَشْبَہُ وَلَدِہِ بِہِ قَالَ وَأُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ أَحَدُہُمَا لَبَنٌ وَالْآخَرُ خَمْرٌ فَقِيلَ لِي خُذْ أَيَّہُمَا شِئْتَ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُہُ فَقِيلَ لِي ہُدِيتَ لِلْفِطْرَةِ أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (معراج کی رات) جب مجھے آسمان پرلے جایاگیا تو میری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی،آپ نے ان کا حلیہ بتایا اور میرا گمان یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: موسیٰ لمبے قد والے تھے: ہلکے پھلکے روغن آمیز سر کے بال تھے،شنوءۃ قوم کے لوگوں میں سے لگتے تھے،آپ نے فرمایا: میری ملاقات عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ہوئی،آپ نے ان کا بھی وصف بیان کیا،فرمایا: عیسیٰ درمیانے قد کے سرخ (سفید) رنگ کے تھے،ایسا لگتا تھا گویا ابھی دیماس (غسل خانہ) سے نہا دھوکر نکل کر آرہے ہوں،میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا،میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہہ ہوں،آپﷺنے فرمایا: میرے پاس دوبرتن لائے گئے،ایک دودھ کا پیالہ تھا اور دوسرے میں شراب تھی۔مجھ سے کہاگیا: جسے چاہو لے لو،تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور دودھ پی گیا،مجھ سے کہاگیا: آپ کو فطرت کی طرف رہنمائی مل گئی،یا آپ نے فطرت سے ہم آہنگ اور درست قدم اٹھایا،اگرآپ نے شراب کا برتن لے لیاہوتا تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِہِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْہِ فَقَالَ لَہُ جِبْرِيلُ أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ ہَذَا فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَی اللہِ مِنْہُ قَالَ فَارْفَضَّ عَرَقًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:جس رات آپ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایاگیا۔براق لگام لگایا ہواتھااور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی،آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرئیل علیہ السلام نے اسے یہ کہہ کر جھڑ کا: تو محمدﷺ کے ساتھ ایسا کررہاہے،تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہواہے،یہ سن کر براق پسینے پسینے ہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ جُنَادَةَ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَمَّا انْتَہَيْنَا إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ جِبْرِيلُ بِإِصْبَعِہِ فَخَرَقَ بِہِ الْحَجَرَ وَشَدَّ بِہِ الْبُرَاقَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (معراج کی رات) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرئیل علیہ السلام نے اپنی انگلی کے اشارے سے پتھر میں شگاف کردیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَّی اللہُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُہُمْ عَنْ آيَاتِہِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب قریش نے مجھے (معراج کے سفر کے بارے میں) جھٹلادیاکہ میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا اور اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہرکردیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی نشانیاں (پہچان) بتانے لگا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں مالک بن صعصعہ ابوسعید،ابن عباس،ابوذر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِہِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ قَالَ ہِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَہَا النَّبِيُّ ﷺ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِہِ إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ہِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ: وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا،جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۲؎ انہوں نے یہ بھی کہا (وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُونَۃَ فِی الْقُرْآنِ) میں شجرہ ملعونہ سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ قُرَشِيٌّ كُوفِيٌّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْہُودًا قَالَ تَشْہَدُہُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّہَارِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ فَذَكَرَ نَحْوَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُودًا ۱؎ کے متعلق فرمایا: اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے سب حاضر (وموجود) ہوتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سندسے اعمش نے ابوصالح سے اورابوصالح نے ابوہریرہ اور ابوسعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے ایسی ہی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللہِ تَعَالَی يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِہِمْ قَالَ يُدْعَی أَحَدُہُمْ فَيُعْطَی كِتَابَہُ بِيَمِينِہِ وَيُمَدُّ لَہُ فِي جِسْمِہِ سِتُّونَ ذِرَاعًا وَيُبَيَّضُ وَجْہُہُ وَيُجْعَلُ عَلَی رَأْسِہِ تَاجٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَتَلَأْلَأُ فَيَنْطَلِقُ إِلَی أَصْحَابِہِ فَيَرَوْنَہُ مِنْ بَعِيدٍ فَيَقُولُونَ اللہُمَّ ائْتِنَا بِہَذَا وَبَارِكْ لَنَا فِي ہَذَا حَتَّی يَأْتِيَہُمْ فَيَقُولُ أَبْشِرُوا لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلُ ہَذَا قَالَ وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُسَوَّدُ وَجْہُہُ وَيُمَدُّ لَہُ فِي جِسْمِہِ سِتُّونَ ذِرَاعًا عَلَی صُورَةِ آدَمَ فَيُلْبَسُ تَاجًا فَيَرَاہُ أَصْحَابُہُ فَيَقُولُونَ نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ شَرِّ ہَذَا اللہُمَّ لَا تَأْتِنَا بِہَذَا قَالَ فَيَأْتِيہِمْ فَيَقُولُونَ اللہُمَّ أَخْزِہِ فَيَقُولُ أَبْعَدَكُمْ اللہُ فَإِنَّ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلَ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالسُّدِّيُّ اسْمُہُ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِہِمْ ۱؎ کے بارے میں فرمایا: ان میں سے جوکوئی (جنتی شخص) بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا اور اس کا جسم بڑھا کرساٹھ گزکا کردیا جائے گا،اس کا چہرہ چمکتا ہوا ہو گا اس کے سرپرموتیوں کا جھلملا تا ہوا تاج رکھاجائے گا،پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جائے گا،اسے لوگ دور سے دیکھ کر کہیں گے: اے اللہ! ایسی ہی نعمتوں سے ہمیں بھی نواز،اور ہمیں بھی ان میں برکت عطاکر،وہ ان کے پاس پہنچ کر کہے گا: تم سب خوش ہوجاؤ۔ہرشخص کو ایسا ہی ملے گا،لیکن کافر کا معاملہ کیاہوگا؟کا فر کا چہرہ کالا کردیاجائے گا،اور اس کا جسم ساٹھ گزکا کردیاجائے گا جیساکہ آدم علیہ السلام کا تھا،اسے تاج پہنایا جائے گا۔اس کے ساتھی اسے دیکھیں گے تو کہیں گے اس کے شر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔اے اللہ! ہمیں ایسا تاج نہ دے،کہتے ہیں: پھر وہ ان لوگوں کے پاس آئے گا وہ لوگ کہیں گے: اے اللہ! اسے ذلیل کر،وہ کہے گا: اللہ تمہیں ہم سے دورہی رکھے،کیوں کہ تم میں سے ہر ایک کے لیے ایسا ہی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سدی کانام اسماعیل بن عبدالرحمٰن ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي قَوْلِہِ عَسَی أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا سُئِلَ عَنْہَا قَالَ ہِيَ الشَّفَاعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ ہُوَ دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَہُوَ عَمُّ عَبْدِ اللہِ بْنِ إِدْرِيسَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے آیت: عَسَی أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا ۱؎ کے بارے میں پوچھے جانے پر فرمایا: اس سے مراد شفاعت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور داود زغافری:داود اود بن یزید بن عبداللہ اودی ہیں،اور یہ عبداللہ بن ادریس کے چچا ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَطْعَنُہَا بِمِخْصَرَةٍ فِي يَدِہِ وَرُبَّمَا قَالَ بِعُودٍ وَيَقُولُ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَہُوقًا جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سوساٹھ بت نصب تھے،آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہاکہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے،اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا ۱؎ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیدُ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اور اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَكَّةَ ثُمَّ أُمِرَ بِالْہِجْرَةِ فَنَزَلَتْ عَلَيْہِ وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مکہ میں تھے،پھرآپ کو ہجرت کا حکم ملا،اسی موقع پر آیت: وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِی مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیرًا ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبَي ہِنْدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَتْ قُرَيْشٌ لِيَہُودَ أَعْطُونَا شَيْئًا نَسْأَلُ ہَذَا الرَّجُلَ فَقَالَ سَلُوہُ عَنْ الرُّوحِ قَالَ فَسَأَلُوہُ عَنْ الرُّوحِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا قَالُوا أُوتِينَا عِلْمًا كَثِيرًا أُوتِينَا التَّوْرَاةَ وَمَنْ أُوتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا فَأُنْزِلَتْ قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ إِلَی آخِرِ الْآيَةَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قریش نے یہود سے کہاکہ ہمیں کوئی ایسا سوال دوجسے ہم اس شخص (یعنی محمد ﷺ) سے پوچھیں،انہوں نے کہا: اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو،تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیاہے؟) اس پر اللہ نے آیت وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّی وَمَا أُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِیلا ۱؎،انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے،ہمیں تو راۃ ملی ہے،اور جسے توراۃ دی گئی ہو اسے بہت بڑی خیر مل گئی،اس پر آیت لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُنازل ہوئی ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَہُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَی عَسِيبٍ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَہُودِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لَوْ سَأَلْتُمُوہُ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لَا تَسْأَلُوہُ فَإِنَّہُ يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَہُونَ فَقَالُوا لَہُ يَا أَبَا الْقَاسِمِ حَدِّثْنَا عَنْ الرُّوحِ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ سَاعَةً وَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَاءِ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ يُوحَی إِلَيْہِ حَتَّی صَعِدَ الْوَحْيُ ثُمَّ قَالَ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرمﷺکے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہاتھا۔آپ (کبھی کبھی) کھجور کی ایک ٹہنی کاسہارا لے لیاکرتے تھے،پھرآپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے (چہ میگوئی کی) کہا:کاش ان سے کچھ پوچھتے،بعض نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو،کیوں کہ وہ تمہیں ایسا جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا(مگر وہ نہ مانے) کہا: ابوالقاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے،(یہ سوال سن کر) آپ کچھ دیر (خاموش) کھڑے رہے،پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا،تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی آنے والی ہے،چنانچہ وحی آہی گئی،پھر آپ نے بتایا: روح میرے رب کے حکم سے ہے،تمہیں بہت تھوڑا علم حاصل ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةَ أَصْنَافٍ صِنْفًا مُشَاةً وَصِنْفًا رُكْبَانًا وَصِنْفًا عَلَی وُجُوہِہِمْ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ وَكَيْفَ يَمْشُونَ عَلَی وُجُوہِہِمْ قَالَ إِنَّ الَّذِي أَمْشَاہُمْ عَلَی أَقْدَامِہِمْ قَادِرٌ عَلَی أَنْ يُمْشِيَہُمْ عَلَی وُجُوہِہِمْ أَمَا إِنَّہُمْ يَتَّقُونَ بِوُجُوہِہِمْ كُلَّ حَدَبٍ وَشَوْكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی وُہَيْبٌ عَنْ ابْن طَاوُسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگ تین طرح سے جمع کئے جائیں گے،ایک گروہ چل کر آئے گا،اور ایک گروہ سوار ہوکر آئے گا اور ایک گروہ اپنے منہ کے بل آئے گا۔پوچھا گیا: اللہ کے رسول! وہ لوگ اپنے منہ کے بل کیسے چلیں گے؟ آپ نے فرمایا: جس نے انہیں قدموں سے چلایاہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ انہیں ان کے منہ کے بل چلادے،سنو(یہی نہیں ہو گا کہ وہ چلیں گے بلکہ) وہ منہ ہی سے ہر بلندی (نشیب وفراز) اور کانٹے سے بچ کرچلیں گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-وہیب نے ابن طاؤس سے اور انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا بَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالًا وَرُكْبَانًا وَتُجَرُّونَ عَلَی وُجُوہِكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم (قیامت میں) جمع کئے جاؤگے: کچھ لوگ پیدل ہوں گے،کچھ لوگ سواری پر،اور کچھ لوگ اپنے منہ کے بل گھسیٹ کر اکٹھا کئے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ وَيَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ وَأَبُو الْوَلِيدِ وَاللَّفْظُ لَفْظُ يَزِيدَ وَالْمَعْنَی وَاحِدٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَنَّ يَہُودِيَّيْنِ قَالَ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ اذْہَبْ بِنَا إِلَی ہَذَا النَّبِيِّ نَسْأَلُہُ فَقَالَ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ فَإِنَّہُ إِنْ سَمِعَہَا تَقُولُ نَبِيٌّ كَانَتْ لَہُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ فَأَتَيَا النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلَاہُ عَنْ قَوْلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَی تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُشْرِكُوا بِاللہِ شَيْئًا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَی سُلْطَانٍ فَيَقْتُلَہُ وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً وَلَا تَفِرُّوا مِنْ الزَّحْفِ شَكَّ شُعْبَةُ وَعَلَيْكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَہُودِ خَاصَّةً لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ فَقَبَّلَا يَدَيْہِ وَرِجْلَيْہِ وَقَالَا نَشْہَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكُمَا أَنْ تُسْلِمَا قَالَا إِنَّ دَاوُدَ دَعَا اللہَ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِہِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَہُودُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا: اس نبی کے پاس مجھے لے چلو،ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں،دوسرے نے کہا: انہیں نبی نہ کہو،اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چارآنکھیں ہوجائیں گی۔پھروہ دونوں نبی اکرمﷺکے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ ۱؎ کے بارے میں پوچھاکہ وہ نونشانیاں کیاتھیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،زنانہ کرو،ناحق کسی شخص کا قتل نہ کرو،چوری نہ کرو،جادو نہ کرو،کسی بَری (بے گناہ) شخص کو (مجرم بناکر) بادشاہ کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کردے،سود نہ کھاؤ،کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ،دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے لشکر سے نکل کر نہ بھاگو۔شعبہ کو شک ہوگیا ہے (کہ آپ نے نویں چیز یہ فرمائی ہے) اور تم خاص یہودیوں کے لیے یہ با ت ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی(الٹ پھیر) نہ کرو،(یہ جواب سن کر) ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اورکہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔آپ نے فرمایا: پھرتمہیں اسلام قبول کرلینے سے کیاچیز روک رہی ہے؟ دونوں نے جواب دیا داود(علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی نبی ہو گا (اور آپ ان کی ذریت میں سے نہیں ہیں) اب ہمیں ڈرہے کہ ہم اگر آپ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمیں یہود قتل نہ کردیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَلَمْ يَذْكُرْ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہُشَيْمٍ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِكَ قَالَ نَزَلَتْ بِمَكَّةَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَفَعَ صَوْتَہُ بِالْقُرْآنِ سَبَّہُ الْمُشْرِكُونَ وَمَنْ أَنْزَلَہُ وَمَنْ جَاءَ بِہِ فَأَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِكَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَہُ وَمَنْ جَاءَ بِہِ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا عَنْ أَصْحَابِكَ بِأَنْ تُسْمِعَہُمْ حَتَّی يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ: وَلاَ تَجْہَرْ بِصَلاَتِکَ ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی،رسول اللہ ﷺ جب بلندآواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اورجس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے،تو اللہ نے وَلاَ تَجْہَرْ بِصَلاَتِکَنازل کرکے صلاۃ میں قرآن بلندآوازسے پڑھنے سے منع فرمادیا تاکہ وہ قرآن،اللہ تعالیٰ اور جبرئیل علیہ السلام کوگالیاں نہ دیں اور آگے وَلاَ تُخَافِتْ بِہَا نازل فرمایا،یعنی اتنے دھیرے بھی نہ پڑھو کہ آپ کے ساتھی سن نہ سکیں بلکہ یہ ہے کہ وہ آپ سے قرآن سیکھیں(بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِہِ وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا قَالَ نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ فَكَانَ إِذَا صَلَّی بِأَصْحَابِہِ رَفَعَ صَوْتَہُ بِالْقُرْآنِ فَكَانَ الْمُشْرِكُونَ إِذَا سَمِعُوہُ شَتَمُوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَہُ وَمَنْ جَاءَ بِہِ فَقَالَ اللہُ لِنَبِيِّہِ وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِكَ أَيْ بِقِرَاءَتِكَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا عَنْ أَصْحَابِكَ وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ: وَلاَ تَجْہَرْ بِصَلاَتِکَ وَلاَ تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیلاً ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ میں چھپے چھپے رہتے تھے،جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ صلاۃ پڑھتے تھے تو قرآن بلندآوازسے پڑھتے تھے،مشرکین جب سن لیتے تو قرآن،قرآن نازل کرنے والے اور قرآن لانے والے سب کو گالیاں دیتے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺسے کہا: وَلاَتَجْہَرْ بِصَلاَتِکَ بلند آواز سے صلاۃ نہ پڑھو (یعنی بلند آواز سے قرأت نہ کرو) کہ جسے سن کر مشرکین قرآن کو گالیاں دینے لگیں اور نہ دھیمی آواز سے پڑھو(کہ تمہارے صحابہ سن نہ سکیں) بلکہ درمیان کاراستہ اختیار کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَصَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ لَا قُلْتُ بَلَی قَالَ أَنْتَ تَقُولُ ذَاكَ يَا أَصْلَعُ بِمَ تَقُولُ ذَلِكَ قُلْتُ بِالْقُرْآنِ بَيْنِي وَبَيْنَكَ الْقُرْآنُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ مَنْ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ قَالَ سُفْيَانُ يَقُولُ فَقَدْ احْتَجَّ وَرُبَّمَا قَالَ قَدْ فَلَجَ فَقَالَ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَيْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی قَالَ أَفَتُرَاہُ صَلَّی فِيہِ قُلْتُ لَا قَالَ لَوْ صَلَّی فِيہِ لَكُتِبَتْ عَلَيْكُمْ الصَّلَاةُ فِيہِ كَمَا كُتِبَتْ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ حُذَيْفَةُ أُتِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِدَابَّةٍ طَوِيلَةِ الظَّہْرِ مَمْدُودَةٍ ہَكَذَا خَطْوُہُ مَدُّ بَصَرِہِ فَمَا زَايَلَا ظَہْرَ الْبُرَاقِ حَتَّی رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ ثُمَّ رَجَعَا عَوْدَہُمَا عَلَی بَدْئِہِمَا قَالَ وَيَتَحَدَّثُونَ أَنَّہُ رَبَطَہُ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْہُ وَإِنَّمَا سَخَّرَہُ لَہُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زرّ بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس میں صلاۃ پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: نہیں،میں نے کہا: بے شک پڑھی تھی،انہوں نے کہا: اے گنجے سر والے،تم ایسا کہتے ہو؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں قرآن کی دلیل سے کہتاہوں،میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا،جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا،زرّبن حبیش نے کہا: میں نے سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی ۱؎ آیت پیش کی،حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم اس آیت میں کہیں یہ دیکھتے ہوکہ آپ نے صلاۃ پڑھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں،انہوں نے کہا: اگر آپ (ﷺ) نے وہاں صلاۃ پڑھ لی ہوتی تو تم پروہاں صلاۃ پڑھنی ویسے ہی فرض ہوجاتی جیسا کہ مسجد حرام میں پڑھنی فرض کردی گئی ہے ۲؎،حذیفہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس لمبی چوڑی پیٹھ والا جانور (براق) لایا گیا،اس کاقدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر پہنچتی اور وہ دونوں اس وقت تک براق پر سوار رہے جب تک کہ جنت جہنم اور آخرت کے وعدہ کی ساری چیزیں دیکھ نہ لیں،پھر وہ دونوں لوٹے،اور ان کا لوٹنا ان کے شروع کرنے کے انداز سے تھا ۳؎ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام نے اسے (یعنی براق کو بیت المقدس میں) باندھ دیا تھا،کیوں باندھ دیا تھا؟ کیا اس لیے کہ کہیں بھاگ نہ جائے؟ (غلط بات ہے) جس جانور کو عالم الغیب والشھادۃ غائب وموجو دہرچیز کے جاننے والے نے آپ کے لیے مسخر کردیا ہو وہ کہیں بھاگ سکتاہے؟ نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ قَالَ فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلَاثَ فَزَعَاتٍ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّكَ فَيَقُولُ إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أُہْبِطْتُ مِنْہُ إِلَی الْأَرْضِ وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُ إِنِّي دَعَوْتُ عَلَی أَہْلِ الْأَرْضِ دَعْوَةً فَأُہْلِكُوا وَلَكِنْ اذْہَبُوا إِلَی إِبْرَاہِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاہِيمَ فَيَقُولُ إِنِّي كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْہَا كَذِبَةٌ إِلَّا مَا حَلَّ بِہَا عَنْ دِينِ اللہِ وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَی فَيَأْتُونَ مُوسَی فَيَقُولُ إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَی فَيَأْتُونَ عِيسَی فَيَقُولُ إِنِّي عُبِدْتُ مِنْ دُونِ اللہِ وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا قَالَ فَيَأْتُونَنِي فَأَنْطَلِقُ مَعَہُمْ قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ قَالَ أَنَسٌ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُہَا فَيُقَالُ مَنْ ہَذَا فَيُقَالُ مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُونَ لِي وَيُرَحِّبُونَ بِي فَيَقُولُونَ مَرْحَبًا فَأَخِرُّ سَاجِدًا فَيُلْہِمُنِي اللہُ مِنْ الثَّنَاءِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِكَ وَہُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللہُ عَسَی أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا قَالَ سُفْيَانُ لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا ہَذِہِ الْكَلِمَةُ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ الْحَدِيثَ بِطُولِہِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا،اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈنہیں ہے،میرے ہاتھ میں حمد (وشکر) کا پرچم ہوگا اور مجھے (اس اعزاز پر) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے،میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی(اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے،آپ نے فرمایا: (قیامت میں) لوگوں پر تین مرتبہ سخت گھبراہٹ طاری ہوگی،لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: آپ ہمارے باپ ہیں،آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت(سفارش) کردیجئے،وہ کہیں گے: مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوچکا ہے جس کی وجہ سے میں زمین پر بھیج دیاگیاتھا،تم لوگ نوح کے پاس جاؤ،وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے،مگرنوح علیہ السلام کہیں گے: میں زمین والوں کے خلاف بددعا کرچکاہوں جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کیے جاچکے ہیں،لیکن ایسا کرو،تم لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ،وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے،ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: میں تین جھوٹ بول چکاہوں آپ نے فرمایا: ان میں سے کوئی جھوٹ جھوٹ نہیں تھا،بلکہ اس سے اللہ کے دین کی حمایت وتائید مقصود تھی،البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ،تو وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے،موسی علیہ السلام کہیں گے: میں ایک قتل کرچکاہوں،لیکن تم عیسیی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔تووہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے،وہ کہیں گے: اللہ کے سوا مجھے معبود بنالیاگیا تھا،تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جاؤ،آپ نے فرمایا: لوگ میرے پاس (سفارش کرانے کی غرض سے) آئیں گے،میں ان کے ساتھ (دربار الٰہی کی طرف) جاؤں گا،ابن جدعان (راوی حدیث) کہتے ہیں: انس نے کہا: مجھے ایسا لگ رہاہے گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہاہوں،آپ نے فرمایا: میں جنت کے دروازے کا حلقہ (زنجیر) پکڑ کر اسے ہلا ؤں گا،پوچھا جائے گا: کون ہے؟ کہاجائے گا: محمد ہیں،وہ لوگ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے،اور مجھے خوش آمدید کہیں گے،میں (اندر پہنچ کر اللہ کے حضور) سجدے میں گرجاؤں گا او ر حمد وثنا کے جو الفاظ اور کلمے اللہ میرے دل میں ڈالے گا وہ میں سجدے میں اداکروں گا،پھر مجھ سے کہاجائے گا: اپنا سر اٹھائیے،مانگیے (جوکچھ مانگناہو) آپ کودیاجائے گا۔(کسی کی سفارش کرنی ہوتو) سفارش کیجئے آپ کی شفاعت (سفارش) قبول کی جائے گی،کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔اوروہ جگہ(جہاں یہ باتیں ہوں گی) مقام محمود ہوگا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے عَسَی أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا ۱؎۔سفیان ثوری کہتے ہیں: انس کی روایت میں اس کلمے فَآخُذُ بِحَلْقَۃِ بَابِ الْجَنَّۃِ فَأُقَعْقِعُہَا کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض محدثین نے یہ پوری حدیث ابونضرہ کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ أَخْبَرَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ خَيْبَرَ أَسْرَی لَيْلَةً حَتَّی أَدْرَكَہُ الْكَرَی أَنَاخَ فَعَرَّسَ ثُمَّ قَالَ يَا بِلَالُ اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَةَ قَالَ فَصَلَّی بِلَالٌ ثُمَّ تَسَانَدَ إِلَی رَاحِلَتِہِ مُسْتَقْبِلَ الْفَجْرِ فَغَلَبَتْہُ عَيْنَاہُ فَنَامَ فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ أَحَدٌ مِنْہُمْ وَكَانَ أَوَّلَہُمْ اسْتِيقَاظًا النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ أَيْ بِلَالُ فَقَالَ بِلَالٌ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللہِ أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اقْتَادُوا ثُمَّ أَنَاخَ فَتَوَضَّأَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ ثُمَّ صَلَّی مِثْلَ صَلَاتِہِ لِلْوَقْتِ فِي تَمَكُّثٍ ثُمَّ قَالَ أَقِمْ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَصَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُہُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ خیبر سے لوٹے،رات کاسفر اختیار کیا،چلتے چلتے آپ کو نیندآنے لگی (مجبورہوکر) اونٹ بٹھایا اور قیام کیا،بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: بلال! آج رات تم ہماری حفاظت وپہرہ داری کرو،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بلال نے (جگنے کی صورت یہ کی کہ) صلاۃ پڑھی،صبح ہونے کوتھی،طلوع فجر ہونے کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کجاوے کی (ذراسی) ٹیک لے لی،توان کی آنکھ لگ گئی،اور وہ سوگئے،پھر تو کوئی اٹھ نہ سکا،ان سب میں سب سے پہلے نبی اکرم ﷺ بیدار ہوئے،آپ نے فرمایا: بلال! (یہ کیا ہوا؟) بلال نے عرض کیا: میرے باپ آپ پر قربان،مجھے بھی اسی چیز نے اپنی گرفت میں لے لیا جس نے آپ کو لیا،آپ نے فرمایا:یہاں سے اونٹوں کو آگے کھینچ کر لے چلو،پھر آپ (ﷺ) نے اونٹ بٹھائے،وضو کیا،صلاۃکھڑی کی اور ویسی ہی صلاۃ پڑھی جیسی آپ اطمینان سے اپنے وقت پر پڑھی جانے والی صلاتیں پڑھاکرتے تھے۔پھر آپ نے آیت أَقِمِ الصَّلاَۃَ لِذِکْرِی ۱؎ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غیر محفوظ ہے،اسے کئی حافظان حدیث نے زہری سے،زہری نے سعید بن مسیب سے اورسعیدبن مسیب نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے،ان لوگوں نے اپنی روایتوں میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا ہے،۲-صالح بن ابی الاخضر حدیث میں ضعیف قرار دیئے جاتے ہیں۔انہیں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے حفظ کے تعلق سے ضعیف کہا۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللہِ شَيْئًا سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيِّ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب یہ آیت وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ ۱؎ نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اے صفیہ بنت عبدالمطلب،اے فاطمہ بنت محمد،اے بنی عبدالمطلب: سن لو میں اللہ سے متعلق معاملات میں تمہاری کچھ بھی حمایت،مدد وسفارش نہیں کرسکتا،ہاں (اس دنیا میں) میرے مال میں سے جو چاہو مانگ سکتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح روایت کی ہے وکیع اور کئی راویوں نے ہشام بن عروہ سے،ہشام نے اپنے باپ سے اورعروہ نے عائشہ سے محمد بن عبدالرحمٰن طفاوی کی حدیث کی مانند،۳-اور بعض راویوں نے ہشام بن عروہ سے،ہشام نے اپنے باپ عروہ سے اورعروہ نے نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کی ہے اورا س سند میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں کیا،۴-اس باب میں علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ جَمَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قُرَيْشًا فَخَصَّ وَعَمَّ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللہِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنْ اللہِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا يَا مَعْشَرَ بَنِي قُصَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنْ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنْ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِنَّ لَكِ رَحِمًا سَأَبُلُّہَا بِبَلَالِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ عَنْ عبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ(اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے) نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺ نے خاص وعام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎،آپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا: اے قریش کے لوگو! جانوں کو آگ سے بچالو،اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔اے بنی عبدمناف کے لوگو!اپنے آپ کو جہنم سے بچالو،کیوں کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا،اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچالو۔کیوں کہ میں تمہیں کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔اے بنی عبدالمطلب کے لوگو! اپنے آپ کو آگ سے بچالو،کیوں کہ میں تمہیں کسی طرح کا ضرر یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا،اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو جہنم کی آگ سے بچالے،کیوں کہ میں تجھے کوئی نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا،تم سے میرا رحم (خون)کا رشتہ ہے سو میں احساس کو تازہ رکھوں گا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: موسیٰ بن طلحہ کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔اس سندسے موسیٰ بن طلحہ سے اورموسیٰ بن طلحہ نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی کی ہم معنی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ عَنْ عَوْفٍ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُہَيْرٍ حَدَّثَنَا الْأَشْعَرِيُّ قَالَ لَمَّا نَزَلَ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ وَضَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أُصْبُعَيْہِ فِي أُذُنَيْہِ فَرَفَعَ مِنْ صَوْتِہِ فَقَالَ يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ يَا صَبَاحَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَی وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ عَوْفٍ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُہَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي مُوسَی وَہُوَ أَصَحُّ ذَاكَرْتُ بِہِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ فَلَمْ يَعْرِفْہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَی

ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺنے اپنی انگلیاں کانوں میں (اذان کی طرح) ڈال کر بلند آواز سے پکار کہا: یا بنی عبدمناف! یا صباحاہ! اے عبدمناف کے لوگو! جمع ہوجاؤ (اورسنو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-بعض نے اس حدیث کو عوف سے،اورعوف نے قسامہ بن زہیرکے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں ابوموسیٰ (اشعری)سے روایت کا ذکر نہیں کیا اور یہی زیادہ صحیح ہے،۳-میں نے اس کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کے واسطہ سے اس حدیث کی معرفت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَال سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ سَعْدٍ قَالَ أُنْزِلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ فَذَكَرَ قِصَّةً وَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَلَيْسَ قَدْ أَمَرَ اللہُ بِالْبِرِّ وَاللہِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّی أَمُوتَ أَوْ تَكْفُرَ قَالَ فَكَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُطْعِمُوہَا شَجَرُوا فَاہَا فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے تعلق سے چار آیتیں نازل ہوئی ہیں،پھر انہوں نے ایک واقعہ وقصہ بیان کیا،ام سعد رضی اللہ عنہا نے کہا:کیا اللہ نے احسان کا حکم نہیں دیا ہے؟ ۱؎ قسم اللہ کی! نہ میں کھانا کھاؤں گی نہ کچھ پیوں گی یہاں تک کہ مرجاؤں یا پھر تم (اپنے ایمان سے)پھر جاؤ۔(سعد) کہتے ہیں: جب لوگ اسے کھلا نے کا ارادہ کرتے تو لکڑی ڈال کر اس کا منہ کھولتے،اسی موقع پر آیت وَوَصَّیْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی ۲؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ بَكْرٍ السَّہْمِيُّ عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي صَغِيرَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمْ الْمُنْكَرَ قَالَ كَانُوا يَخْذِفُونَ أَہْلَ الْأَرْضِ وَيَسْخَرُونَ مِنْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ حَاتِمِ بْنِ أَبِي صَغِيرَةَ عَنْ سِمَاكٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي صَغِيرَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ نے آیت وَتَأْتُونَ فِی نَادِیکُمُ الْمُنْکَرَ کے بارے میں ۱؎ فرمایا: وہ (اپنی محفلوں میں)لوگوں پر کنکریاں پھینکتے تھے (بدتمیزی کرتے) اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے،اور ہم اسے صرف حاتم بن ابی صغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ سماک سے روایت کرتے ہیں۔ اس سندسےسلیم بن اخضرنے حاتم بن ابی صغیرہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تَبِيعُوا الْقَيْنَاتِ وَلَا تَشْتَرُوہُنَّ وَلَا تُعَلِّمُوہُنَّ وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيہِنَّ وَثَمَنُہُنَّ حَرَامٌ وَفِي مِثْلِ ہَذَا أُنْزِلَتْ عَلَيْہِ ہَذِہِ الْآيَةَ وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَہْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا يُرْوَی مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَالْقَاسِمُ ثِقَةٌ وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ قَالَہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گانے والی لونڈیاں نہ بیچو،نہ انہیں خریدو اور نہ انہیں گانا بجانا سکھاؤ،ان کی تجارت میں کوئی بہتری نہیں ہے،ان کی قیمت حرام ہے،ایسے ہی مواقع کے لیے آپ پر آیت وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِی لَہْوَ الْحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللہِ ۱؎ آخر تک نازل ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-یہ حدیث قاسم سے ابوامامہ کے واسطہ سے مروی ہے،قاسم ثقہ ہیں اور علی بن یزید میں ضعیف سمجھے جاتے ہیں،یہ میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے ہوئے سنا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأُوَيْسِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ ہَذِہِ الْآيَةَ تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ نَزَلَتْ فِي انْتِظَارِ الصَّلَاةِ الَّتِي تُدْعَی الْعَتَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ۱؎ اس صلاۃ کا انتظار کرنے والوں کے حق میں ا تری ہے جسے رات کی پہلی تہائی کی صلاۃکہتے ہیں،یعنی صلاۃِ عشاء ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ قَالَ اللہُ تَعَالَی أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: میں نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے ایسی چیز تیار کی ہے جسے کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے،اس کی تصدیق کتاب اللہ (قرآن) کی اس آیت فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَائً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۱؎ سے ہوتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ وَعَبْدِ الْمَلِكِ وَہُوَ ابْنُ أَبْجَرَ سَمِعَا الشَّعْبِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ عَلَی الْمِنْبَرِ يَرْفَعُہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ يَقُولُ إِنَّ مُوسَی عَلَيْہِ السَّلَام سَأَلَ رَبَّہُ فَقَالَ أَيْ رَبِّ أَيُّ أَہْلِ الْجَنَّةِ أَدْنَی مَنْزِلَةً قَالَ رَجُلٌ يَأْتِي بَعْدَمَا يَدْخُلُ أَہْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ فَيُقَالُ لَہُ ادْخُلْ الْجَنَّةَ فَيَقُولُ كَيْفَ أَدْخُلُ وَقَدْ نَزَلُوا مَنَازِلَہُمْ وَأَخَذُوا أَخَذَاتِہِمْ قَالَ فَيُقَالُ لَہُ أَتَرْضَی أَنْ يَكُونَ لَكَ مَا كَانَ لِمَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ نَعَمْ أَيْ رَبِّ قَدْ رَضِيتُ فَيُقَالُ لَہُ فَإِنَّ لَكَ ہَذَا وَمِثْلَہُ وَمِثْلَہُ وَمِثْلَہُ فَيَقُولُ رَضِيتُ أَيْ رَبِّ فَيُقَالُ لَہُ فَإِنَّ لَكَ ہَذَا وَعَشْرَةَ أَمْثَالِہِ فَيَقُولُ رَضِيتُ أَيْ رَبِّ فَيُقَالُ لَہُ فَإِنَّ لَكَ مَعَ ہَذَا مَا اشْتَہَتْ نَفْسُكَ وَلَذَّتْ عَيْنُكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْمُغِيرَةِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَالْمَرْفُوعُ أَصَحُّ

شعبی کہتے ہیں: میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کومنبر پر کھڑے ہوکر نبی اکرم ﷺ کی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا،آپ نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے پوچھتے ہوئے کہا: اے میرے رب! کون سا جنتی سب سے کمتر درجے کاہوگا؟ اللہ فرمائے گا: جنتیوں کے جنت میں داخل ہوجانے کے بعد ایک شخص آئے گا،اس سے کہاجائیگا: تو بھی جنت میں داخل ہوجا،وہ کہے گا: میں کیسے داخل ہوجاؤں جب کہ لوگ (پہلے پہنچ کر) اپنے اپنے گھروں میں آباد ہوچکے ہیں اور اپنی اپنی چیزیں لے لی ہیں،آپ نے فرمایا: اس سے کہا جائے گا: دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے پاس جتنا کچھ ہوتا ہے اتنا تمہیں دے دیاجائے،تو کیا تم اس سے راضی وخوش ہوگے؟ وہ کہے گا: ہاں،اے میرے رب! میں راضی ہوں،اس سے کہاجائے گا: تو جا تیرے لیے یہ ہے اور اتنا اور اتنا اور اتنا اور،وہ کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوں،اس سے پھر کہاجائے گا جاؤتمہارے لیے یہ سب کچھ اوراس سے دس گنا اور بھی وہ کہے گا،میرے رب!بس میں راضی ہوگیا،تو اس سے کہا جائے گا: اس (ساری بخشش وعطایا) کے باوجود تمہارا جی اور نفس جوکچھ چاہے اور جس چیز سے بھی تمہیں لذت ملے وہ سب تمہارے لیے ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ان میں سے بعض (محدثین) نے اس حدیث کو شعبی سے اورانہوں نے مغیرہ سے روایت کیا ہے۔اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے،لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) مرفوع روایت زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الزُّبَيْرِ قَالَ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبَوَيْہِ يَوْمَ قُرَيْظَةَ فَقَالَ بِأَبِي وَأُمِّي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قریظہ کے دن اپنے ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا اور فرمایا: میرے ماں باپ تم پر فداہوں ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّہُ قَالَ أَشْہَدُ عَلَی التِّسْعَةِ أَنَّہُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَہِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ قِيلَ وَكَيْفَ ذَلِكَ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ بِحِرَاءَ فَقَالَ اثْبُتْ حِرَاءُ فَإِنَّہُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَہِيدٌ قِيلَ وَمَنْ ہُمْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قِيلَ فَمَنْ الْعَاشِرُ قَالَ أَنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ عَنْ الْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نو اشخاص کے سلسلے میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ یہ لوگ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے سلسلے میں گواہی دوں تو بھی گنہگار نہیں ہوں گا،آپ سے کہاگیا: یہ کیسے ہے؟ (ذرا اس کی وضاحت کیجئے) توا نہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو آپ نے فرمایا:ٹھہرا رہ اے حرا! تیرے اوپر ایک نبی،یا صدیق،یا شہید ۱؎ کے علاوہ کوئی اور نہیں،عرض کیا گیا: وہ کون لوگ ہیں جنہیں آپ نے صدیق یا شہید فرمایا ہے؟ (انہوں نے کہا:) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ ابوبکر،عمر،عثمان،علی،طلحہ،زبیر،سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف ہیں رضی اللہ عنہم،پوچھا گیا: دسویں شخص کون ہیں؟ تو سعید نے کہا: وہ میں ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔ہم سے احمد بن منیع نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے بیان کیا اور شعبہ نے حر بن صباح سے،حرنے عبدالرحمٰن بن اخنس سے اور عبدالرحمٰن بن اخنس نے سعید بن یزید کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی مفہوم کی اسی جیسی حدیث روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَأَيْتُ جَعْفَرًا يَطِيرُ فِي الْجَنَّةِ مَعَ الْمَلَائِكَةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ وَقَدْ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُہُ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ ہُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے جعفر کو جنت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف عبداللہ بن جعفر کی روایت سے جانتے ہیں،اور یحییٰ بن معین وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے،اور عبداللہ بن جعفر: علی بن مدینی کے والد ہیں،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ مَا احْتَذَی النِّعَالَ وَلَا انْتَعَلَ وَلَا رَكِبَ الْمَطَايَا وَلَا رَكِبَ الْكُورَ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَفْضَلُ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَالْكُورُ الرَّحْلُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نہ کسی نے جوتا پہنا یا اور نہ پہنا اورنہ سوار ہوا سواریوں پر اور نہ چڑھا اونٹ کی کاٹھی پر جو رسول اللہ ﷺ کے بعد جعفر بن ابی طالب سے افضل وبہتر ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-کور کے معنیٰ کجاوہ کے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْن عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَشْبَہْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أُبَيٌّ عَنْ إِسْرَائِيلَ نَحْوَہُ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جعفر بن ابی طالب سے فرمایا: تم صورت اور سیرت دونوں میں میرے مشابہ ہو،اور اس حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ ہم سے والد نے اسرائیل کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ أَبُو يَحْيَی التَّيْمِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ أَبُو إِسْحَقَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ إِنْ كُنْتُ لَأَسْأَلُ الرَّجُلَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ الْآيَاتِ مِنْ الْقُرْآنِ أَنَا أَعْلَمُ بِہَا مِنْہُ مَا أَسْأَلُہُ إِلَّا لِيُطْعِمَنِي شَيْئًا فَكُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ لَمْ يُجِبْنِي حَتَّی يَذْہَبَ بِي إِلَی مَنْزِلِہِ فَيَقُولُ لِامْرَأَتِہِ يَا أَسْمَاءُ أَطْعِمِينَا شَيْئًا فَإِذَا أَطْعَمَتْنَا أَجَابَنِي وَكَانَ جَعْفَرٌ يُحِبُّ الْمَسَاكِينَ وَيَجْلِسُ إِلَيْہِمْ وَيُحَدِّثُہُمْ وَيُحَدِّثُونَہُ فَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَكْنِيہِ بِأَبِي الْمَسَاكِينِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَأَبُو إِسْحَقَ الْمَخْزُومِيُّ ہُوَ إِبْرَاہِيمُ بْنُ الْفَضْلِ الْمَدَنِيُّ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَلَہُ غَرَائِبُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں قرآن کی آیتوں کے سلسلہ میں صحابہ سے پوچھا کرتاتھا،چاہے میں اس کے بارے ان سے زیادہ واقف ہوتا ایسا اس لیے کرتا تاکہ وہ مجھے کچھ کھلائیں،چنانچہ جب میں جعفر بن ابی طالب سے پوچھتا تووہ مجھے جواب اس وقت تک نہیں دیتے جب تک مجھے اپنے گھر نہ لے جاتے اور اپنی بیوی سے یہ نہ کہتے کہ اسماء ہمیں کچھ کھلاؤ،پھر جب وہ ہمیں کھلادیتیں تب وہ مجھے جواب دیتے،جعفر رضی اللہ عنہ مسکینوں سے بہت محبت کرتے تھے،ان میں جاکر بیٹھتے تھے ان سے باتیں کرتے تھے،اور ان کی باتیں سنتے تھے،اسی لیے رسول اللہ ﷺ انہیں ابوالمساکین کہاکرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ابواسحاق مخزومی کانام ابراہیم بن فضل مدنی ہے اور بعض محدثین نے ان کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور ان سے غرائب حدیثیں مروی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَاتِمُ بْنُ سِيَاہٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كُنَّا نَدْعُو جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَبَا الْمَسَاكِينِ فَكُنَّا إِذَا أَتَيْنَاہُ قَرَّبَنَا إِلَيْہِ مَا حَضَرَ فَأَتَيْنَاہُ يَوْمًا فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَہُ شَيْئًا فَأَخْرَجَ جَرَّةً مِنْ عَسَلٍ فَكَسَرَہَا فَجَعَلْنَا نَلْعَقُ مِنْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جعفر بن ابی طالب کو ابوالمساکین کہہ کر پکارتے تھے،چنانچہ جب ہم ان کے پاس آتے تو وہ جو کچھ موجود ہوتا ہمارے سامنے لاکر رکھ دیتے،تو ایک دن ہم ان کے پاس آئے اور جب انہیں کوئی چیز نہیں ملی،(جو ہمیں پیش کرتے) تو انہوں نے شہد کا ایک گھڑا نکالااور اسے توڑا تو ہم اسی کو چاٹنے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوسلمہ کی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے،حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّةِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ يَزِيدَ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَابْنُ أَبِي نُعْمٍ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ وَيُكْنَی أَبَا الْحَكَمِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۱؎۔ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے جریر اور محمد بن فضیل نے یزید کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،ابن ابی نعم کانام عبدالرحمٰن بن ابی نعم بجلی کوفی ہے اور ان کی کنیت ابوالحکم ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْمُہَاجِرِ أَخْبَرَنِي مُسْلِمُ بْنُ أَبِي سَہْلٍ النَّبَّالُ أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَخْبَرَنِي أَبِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ طَرَقْتُ النَّبِيَّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَةِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ وَہُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَی شَيْءٍ لَا أَدْرِي مَا ہُوَ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي قُلْتُ مَا ہَذَا الَّذِي أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْہِ قَالَ فَكَشَفَہُ فَإِذَا حَسَنٌ وَحُسَيْنٌ عَلَی وَرِكَيْہِ فَقَالَ ہَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ اللہُمَّ إِنِّي أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّہُمَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا،آپ ﷺ نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پارہاتھا کہ کیا ہے،پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اورحسین رضی اللہ عنہما تھے،آپﷺ کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے،پھر آپ نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں،اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں،تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ انْظُرُوا إِلَی ہَذَا يَسْأَلُ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ ہُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَمَہْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عبدالرحمٰن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ ا س کا کیا حکم ہے؟ ۱؎ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہاہے! حالاں کہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کوقتل کیا ہے،اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اسے شعبہ اور مہدی بن میمون نے بھی محمد بن ابی یعقوب سے روایت کیا ہے،۳-ابوہریرہ کے واسطے سے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ حَدَّثَنَا رَزِينٌ قَالَ حَدَّثَتْنِي سَلْمَی قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ سَلَمَةَ وَہِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ مَا يُبْكِيكِ قَالَتْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ وَعَلَی رَأْسِہِ وَلِحْيَتِہِ التُّرَابُ فَقُلْتُ مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ شَہِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی،وہ رورہی تھیں،میں نے پوچھا: آپ کیوں رورہی ہیں؟ وہ بولیں،میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں) آپ کے سراور داڑھی پر مٹی تھی،تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیاہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: میں حسین کاقتل ابھی ابھی دیکھا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ أَنَّہُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَيُّ أَہْلِ بَيْتِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ وَكَانَ يَقُولُ لِفَاطِمَةَ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ فَيَشُمُّہُمَا وَيَضُمُّہُمَا إِلَيْہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ

انس بن مالک کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: حسن اور حسین رضی اللہ عنہما،آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے: میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ،پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: انس کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمِنْبَرَ فَقَالَ إِنَّ ابْنِي ہَذَا سَيِّدٌ يُصْلِحُ اللہُ عَلَی يَدَيْہِ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے منبر پر چڑھ کرفرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے،اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور ابنی ہذا سے مراد حسن بن علی ہیں رضی اللہ عنہما۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَال سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْہِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ فَنَزَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَہُمَا وَوَضَعَہُمَا بَيْنَ يَدَيْہِ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ اللہُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ فَنَظَرْتُ إِلَی ہَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّی قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اورحسین رضی اللہ عنہما دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے،آپ نے منبرسے اتر کر ان دونوں کو اٹھالیا،اور ان کو لاکر اپنے سامنے بٹھالیا،پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ ۱؎ (تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزئش ہیں) میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کرسکا،یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھالیا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَإِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ

یعلی بن مرّہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۱؎ اللہ اس شخص سے محبت کرتاہے جو حسین سے محبت کرتاہے،حسین قبائل میں سے ایک قبیلہ ہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں۱-یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف عبداللہ بن عثمان بن خثیم کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اسے عبداللہ بن عثمان بن خثیم سے متعدد لوگوں نے روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمْ يَكُنْ مِنْہُمْ أَحَدٌ أَشْبَہَ بِرَسُولِ اللہِ مِنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگوں میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ اللہ کے رسول کے مشابہ کوئی نہیں تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِہُہُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ الزُّبَيْرِ

ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اورحسن بن علی رضی اللہ عنہما ان سے مشابہت رکھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکر صدیق،ابن عباس اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ قَالَتْ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ زِيَادٍ فَجِيءَ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ فَجَعَلَ يَقُولُ بِقَضِيبٍ لَہُ فِي أَنْفِہِ وَيَقُولُ مَا رَأَيْتُ مِثْلَ ہَذَا حُسْنًا قَالَ قُلْتُ أَمَا إِنَّہُ كَانَ مِنْ أَشْبَہِہِمْ بِرَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین رضی اللہ عنہ کا سرلایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مارکرکہنے لگا میں نے اس جیسا خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا کیوں ان کاذکرحسن سے کیا جاتاہے (جب کہ وہ حسین نہیں ہے) ۱؎۔تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْحَسَنُ أَشْبَہُ بِرَسُولِ اللہِ ﷺ مَا بَيْنَ الصَّدْرِ إِلَی الرَّأْسِ وَالْحُسَيْنُ أَشْبَہُ بِالنَّبِيِّ ﷺ مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حسن سینہ سے سرتک کے حصہ میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے،اور حسین اس حصہ میں جو اس سے نیچے کا ہے سب سے زیادہ نبی اکرم ﷺ سے مشابہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زِيَادٍ وَأَصْحَابِہِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ فَانْتَہَيْتُ إِلَيْہِمْ وَہُمْ يَقُولُونَ قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّی دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زِيَادٍ فَمَكَثَتْ ہُنَيْہَةً ثُمَّ خَرَجَتْ فَذَہَبَتْ حَتَّی تَغَيَّبَتْ ثُمَّ قَالُوا قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمارہ بن عمیر کہتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئے ۱؎ اورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا،تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا،یہاں تک کہ غائب ہوگیا،پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَی عَہْدُكَ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ ﷺ فَقُلْتُ مَا لِي بِہِ عَہْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا فَنَالَتْ مِنِّي فَقُلْتُ لَہَا دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ ﷺ فَأُصَلِّيَ مَعَہُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُہُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَصَلَّيْتُ مَعَہُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّی حَتَّی صَلَّی الْعِشَاءَ ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُہُ فَسَمِعَ صَوْتِي فَقَالَ مَنْ ہَذَا حُذَيْفَةُ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللہُ لَكَ وَلِأُمِّكَ قَالَ إِنَّ ہَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلْ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ ہَذِہِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّہُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَہْلِ الْجَنَّةِ وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکاہوں،تو وہ مجھ پر خفاہوئیں،میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئے میں آپ کے ساتھ صلاۃِ مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا،چنانچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی،پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا،آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا: کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں،حذیفہ ہوں،آپ نے کہا: کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو(پھر)آپ نے فرمایا: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا،اس نے انپے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان)کے سردار ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ الْحَكَمِ النَّخَعِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَبْرَةَ النَّخَعِيُّ عَنْ فَرْوَةَ بْنِ مُسَيْكٍ الْمُرَادِيِّ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَلَا أُقَاتِلُ مَنْ أَدْبَرَ مِنْ قَوْمِي بِمَنْ أَقْبَلَ مِنْہُمْ فَأَذِنَ لِي فِي قِتَالِہِمْ وَأَمَّرَنِي فَلَمَّا خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِہِ سَأَلَ عَنِّي مَا فَعَلَ الْغُطَيْفِيُّ فَأُخْبِرَ أَنِّي قَدْ سِرْتُ قَالَ فَأَرْسَلَ فِي أَثَرِي فَرَدَّنِي فَأَتَيْتُہُ وَہُوَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَقَالَ ادْعُ الْقَوْمَ فَمَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمْ فَاقْبَلْ مِنْہُ وَمَنْ لَمْ يُسْلِمْ فَلَا تَعْجَلْ حَتَّی أُحْدِثَ إِلَيْكَ قَالَ وَأُنْزِلَ فِي سَبَإٍ مَا أُنْزِلَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا سَبَأٌ أَرْضٌ أَوْ امْرَأَةٌ قَالَ لَيْسَ بِأَرْضٍ وَلَا امْرَأَةٍ وَلَكِنَّہُ رَجُلٌ وَلَدَ عَشْرَةً مِنْ الْعَرَبِ فَتَيَامَنَ مِنْہُمْ سِتَّةٌ وَتَشَاءَمَ مِنْہُمْ أَرْبَعَةٌ فَأَمَّا الَّذِينَ تَشَاءَمُوا فَلَخْمٌ وَجُذَامُ وَغَسَّانُ وَعَامِلَةُ وَأَمَّا الَّذِينَ تَيَامَنُوا فَالْأُزْدُ وَالْأَشْعَرِيُّونَ وَحِمْيَرٌ وَكِنْدَةُ وَمَذْحِجٌ وَأنْمَارٌ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا أَنْمَارٌ قَالَ الَّذِينَ مِنْہُمْ خَثْعَمُ وَبَجِيلَةُ وَرُوِيَ ہَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

فروہ بن مسیک مرادی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺکے پاس آیااور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی قوم کے ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو ایمان لے آئے ہیں ان لوگوں سے نہ لڑوں جو ایمان نہیں لائے ہیں،تو آپ نے مجھے ان سے لڑنے کی اجازت دے دی،اورمجھے میری قوم کا امیر بنادیا،جب میں آپ کے پاس سے اٹھ کر چلاگیا تو آپ نے میرے متعلق پوچھاکہ غطیفی نے کیاکیا؟ آپ کو بتایاگیا کہ میں تو جاچکاہوں،مجھے لوٹا لانے کے لیے میرے پیچھے آپ نے آدمی دوڑا ئے،تو میں آپ کے پاس آگیا،آپ اس وقت اپنے کچھ صحابہ کے درمیان تشریف فرماتھے،آپ نے فرمایا: لوگوں کو تم دعوت دو،تو ان میں سے جو اسلام لے آئے اس کے اسلام و ایمان کو قبول کرلو،اور جو اسلام نہ لائے تو اس کے معاملے میں جلدی نہ کرو،یہاں تک کہ میں تمہیں نیا (وتازہ) حکم نہ بھیجوں۔راوی کہتے ہیں: سبا کے متعلق (کلام پاک میں) جونازل ہوا سوہوا (اسی مجلس کے) ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! سبا کیا ہے،سبا کوئی سرزمین ہے،یا کسی عورت کانام ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ نہ کوئی مُلک ہے اور نہ ہی وہ کسی عورت کا نام بلکہ سبا نام کاا یک عربی شخص تھا جس کے دس بچے تھے،جن میں سے چھ کو اس نے باعث خیر وبرکت جانا اور چار سے بد شگونی لی (انہیں منحوس جانا) تو جنہیں اس نے منحوس سمجھا وہ: لخم،جذام،غسّان اور عاملہ ہیں،اورجنہیں مبارک سمجھا وہ اُزد،اشعری،حمیر،مذحج،انمار اور کندہ ہیں،ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! انمار کون سا قبیلہ ہے؟ آپ نے فرمایا: اسی قبیلہ کی شاخیں خشعم اور بجیلہ ہیں۔یہ حدیث ابن عباس سے مروی ہے،وہ اسے نبی اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا قَضَی اللہُ فِي السَّمَاءِ أَمْرًا ضَرَبَتْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ كَأَنَّہَا سِلْسِلَةٌ عَلَی صَفْوَانٍ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ قَالَ وَالشَّيَاطِينُ بَعْضُہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب اللہ آسمان پرکسی معاملے کا حکم وفیصلہ صادر فرماتاہے تو فرشتے عجزوانکساری کے ساتھ (حکم برداری کے جذبہ سے) اپنے پر ہلاتے ہیں۔ان کے پرہلانے سے پھڑپھڑا نے کی ایسی آواز پیدا ہوتی ہے گویا کہ زنجیر پتھرپر گھسٹ رہی ہے،پھرجب ان کے دلوں کی گھبراہٹ جاتی رہتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں:حق بات کہی ہے۔وہی بلند وبالاہے،آپ نے فرمایا: شیاطین (زمین سے آسمان تک) یکے بعد دیگرے (اللہ کے احکام اور فیصلوں کو اچک کر اپنے چیلوں تک پہنچانے کے لیے تاک وانتظار میں)لگے رہتے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللہِ ﷺ جَالِسٌ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ إِذْ رُمِيَ بِنَجْمٍ فَاسْتَنَارَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ لِمِثْلِ ہَذَا فِي الْجَاہِلِيَّةِ إِذَا رَأَيْتُمُوہُ قَالُوا كُنَّا نَقُولُ يَمُوتُ عَظِيمٌ أَوْ يُولَدُ عَظِيمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَإِنَّہُ لَا يُرْمَی بِہِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِہِ وَلَكِنَّ رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ إِذَا قَضَی أَمْرًا سَبَّحَ لَہُ حَمَلَةُ الْعَرْشِ ثُمَّ سَبَّحَ أَہْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ حَتَّی يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ إِلَی ہَذِہِ السَّمَاءِ ثُمَّ سَأَلَ أَہْلُ السَّمَاءِ السَّادِسَةِ أَہْلَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالَ فَيُخْبِرُونَہُمْ ثُمَّ يَسْتَخْبِرُ أَہْلُ كُلِّ سَمَاءٍ حَتَّی يَبْلُغَ الْخَبَرُ أَہْلَ السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَتَخْتَطِفُ الشَّيَاطِينُ السَّمْعَ فَيُرْمَوْنَ فَيَقْذِفُونَہُ إِلَی أَوْلِيَائِہِمْ فَمَا جَاءُوا بِہِ عَلَی وَجْہِہِ فَہُوَ حَقٌّ وَلَكِنَّہُمْ يُحَرِّفُونَہُ وَيَزِيدُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رِجَالٍ مِنْ الْأَنْصَارِ قَالُوا كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺصحابہ کرام کی ایک جماعت میں تشریف فرماتھے کہ یکایک ایک تارہ ٹوٹاجس سے روشنی پھیل گئی،رسول اللہ ﷺنے لوگوں سے پوچھا: زمانہء جاہلیت میں جب تم لوگ ایسی کوئی چیز دیکھتے تو کیا کہتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہم کہتے تھے کوئی بڑا آدمی مرے گا یا کوئی بڑی شخصیت جنم لے گی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ کسی کے مرنے کی وجہ سے نہیں ٹوٹتا،بلکہ اللہ بزرگ وبرتر جب کسی امر کا فیصلہ کرتاہے تو عرش کو اٹھانے والے فرشتے تسبیح وتہلیل کرتے ہیں،پھر ان سے قریبی آسمان کے فرشتے تسبیح کرتے ہیں،پھر ان سے قریبی،اس طرح تسبیح کا یہ غلغلہ ہمارے اس آسمان تک آپہنچتا ہے،چھٹے آسمان والے فرشتے ساتویں آسمان والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا کہاہے؟ (کیا حکم صادر فرمایا ہے؟) تو وہ انہیں بتاتے ہیں،پھر اسی طرح ہر نیچے آسمان والے اوپر کے آسمان والوں سے پوچھتے ہیں،اس طرح بات دنیا سے قریبی آسمان والوں تک آپہنچتی ہے۔اور کی جانے والی بات چیت کوشیاطین اچک لیتے ہیں۔(جب وہ اچکنے کی کوشش کرتے ہیں تو سننے سے بازرکھنے کے لیے تارہ پھینک کر)انہیں مارا جاتا ہے اور وہ اسے (اُچکی ہوئی بات کو) اپنے یاروں (کاہنوں) کی طرف پھینک دیتے ہیں تو وہ جیسی ہے اگرویسی ہی اسے پہنچا تے ہیں تو وہ حق ہوتی ہے،مگر لوگ اسے بدل دیتے اور گھٹابڑھادیتے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔یہ حدیث زہری سے بطریق: علی بن الحسین،عن ابن عباس،عن رجال من الأنصارمروی ہے کہتے ہیں: ہم نبی اکرمﷺ کے پاس تھے،آگے انہوں نے اسی کی ہم معنی حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ ثَقِيفٍ يُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ كِنَانَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ فِي ہَذِہِ الْآيَةِ ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ قَالَ ہَؤُلَاءِ كُلُّہُمْ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ وَكُلُّہُمْ فِي الْجَنَّةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے اس آیت ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِینَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ ۱؎ کے سلسلے میں فرمایا: یہ سب ایک ہی درجے میں ہوں گے اور یہ سب کے سب جنت میں جانے والے لوگ ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ قَالَ الزُّبَيْرُ يَا رَسُولَ اللہِ أَتُكَرَّرُ عَلَيْنَا الْخُصُومَةُ بَعْدَ الَّذِي كَانَ بَيْنَنَا فِي الدُّنْيَا قَالَ نَعَمْ فَقَالَ إِنَّ الْأَمْرَ إِذًا لَشَدِيدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اپنے باپ (زبیر)سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُونَ ۱؎ نازل ہوئی تو زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس دنیا میں ہمارا آپس میں جو لڑائی جھگڑا ہے اس کے بعد بھی دوبارہ ہمارے درمیان (آخرت میں) لڑائی جھگڑے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں،انہوں نے کہا: پھر تو معاملہ بڑا سخت ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وحَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقْرَأُ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللہِ إِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا وَلَا يُبَالِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ وَشَہْرُ بْنُ حَوْشَبٍ يَرْوِي عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ وَأُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ ہِيَ أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ

اسماء بنت یزید کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو آیت یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا ۱؎ پڑھتے ہوئے سناہے۔اللہ کوئی غم اور فکر نہیں ہوتی (کہ اللہ کی اس چھوٹ اور مہربانی سے کون فائدہ اٹھارہا ہے اور کون محروم رہ رہاہے) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف ثابت کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ شہر بن حوشب سے روایت کرتے ہیں،۳-شہر بن حوشب ام سلمہ انصاریہ سے روایت کرتے ہیں،اور ام سلمہ انصاریہ اسماء بنت یزید ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ وَسُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ جَاءَ يَہُودِيٌّ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللہَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ عَلَی إِصْبَعٍ وَالْأَرَضِينَ عَلَی إِصْبَعٍ وَالْجِبَالَ عَلَی إِصْبَعٍ وَالْخَلَائِقَ عَلَی إِصْبَعٍ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ قَالَ فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ قَالَ وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ تَعَجُّبًا وَتَصْدِيقًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک یہودی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہا: محمد! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روکے ہوئے ہے،زمینوں کو ایک انگلی پر اٹھائے ہوئے ہے،پہاڑوں کوایک انگلی سے تھامے ہوئے ہے،اورمخلوقات کو ایک انگلی پر آباد کئے ہوئے ہے،پھر کہتاہے:میں ہی (ساری کائنات کا) بادشاہ ہوں۔(یہ سن کر) آپ ﷺ کھلکھلا کر ہنس پڑے،فرمایا: پھربھی لوگوں نے اللہ کی قدر وعزت نہ کی جیسی کہ کرنی چاہیے تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ،عَنْ مَنْصُورٍ،عَنْ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ عَبِيدَةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ،قَالَ: ((فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ تَعَجُّبًا وَتَصْدِيقًا)).: ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:پس نبی اکرمﷺتعجب سے اور(اس کی باتوں کی)تصدیق میں ہنس پڑے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ حَدَّثَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ يَہُودِيٌّ بِالنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَہُ النَّبِيُّ ﷺ يَا يَہُودِيُّ حَدِّثْنَا فَقَالَ كَيْفَ تَقُولُ يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِذَا وَضَعَ اللہُ السَّمَوَاتِ عَلَی ذِہْ وَالْأَرْضَ عَلَی ذِہْ وَالْمَاءَ عَلَی ذِہْ وَالْجِبَالَ عَلَی ذِہْ وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلَی ذِہْ وَأَشَارَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ بِخِنْصَرِہِ أَوَّلًا ثُمَّ تَابَعَ حَتَّی بَلَغَ الْإِبْہَامَ فَأَنْزَلَ اللہُ وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو كُدَيْنَةَ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ الْمُہَلَّبِ قَالَ رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ شُجَاعٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّلْتِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک یہودی کا نبی اکرمﷺکے پاس سے گزر ہوا،نبی اکرمﷺ نے اس (یہودی) سے کہا: ہم سے کچھ بات چیت کرو،اس نے کہا: ابوالقاسم! آپ کیاکہتے ہیں: جب اللہ آسمانوں کو اس پراٹھائیگا ۱؎ اور زمینوں کو اس پر اور پانی کواس پر اور پہاڑوں کو اس پر اور ساری مخلوق کو اس پر،ابوجعفر محمد بن صلت نے (یہ بات بیان کرتے ہوئے) پہلے چھنگلی (کانی انگلی) کی طرف اشارہ کیا،اور یکے بعد دیگرے اشارہ کرتے ہوئے انگوٹھے تک پہنچے،(اس موقع پر بطور جواب)اللہ تعالیٰ نے وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہِ ۲؎ نازل کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-ہم اسے (ابن عباس کی روایت سے) صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-ابوکدینہ کا نام یحییٰ بن مہلب ہے،وہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کودیکھاہے،انہوں نے یہ حدیث حسن بن شجاع سے اورحسن نے محمد بن صلت سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَتَدْرِي مَا سَعَةُ جَہَنَّمَ قُلْتُ لَا قَالَ أَجَلْ وَاللہِ مَا تَدْرِي حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّہَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ قَوْلِہِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِہِ قَالَتْ قُلْتُ فَأَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ عَلَی جِسْرِ جَہَنَّمَ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: کیاتمہیں معلوم ہے جہنم کتنی بڑی ہے؟ میں نے کہا: نہیں،انہوں نے کہا: بے شک،قسم اللہ کی،مجھے بھی معلوم نہ تھا،(مگر) عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیاکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت وَالأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ ۱؎ کے تعلق سے پوچھا: رسول اللہ! پھر اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: جہنم کے پل پر،(اس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ جہنم بہت لمبی چوڑی ہوگی) اس حدیث کے سلسلے میں پوری ایک کہانی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِہِ فَأَيْنَ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَئِذٍ قَالَ عَلَی الصِّرَاطِ يَا عَائِشَةُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:اللہ کے رسول! وَالأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ (زمین ساری کی ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی،اور آسمان سارے کے سارے اس کے ہاتھ لپٹے ہوئے ہوں گے) پھر اس دن مومن لوگ کہاں پرہوں گے؟ آپ نے فرمایا:عائشہ! وہ لوگ (پل) صراط پر ہوں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَيْفَ أَنْعَمُ وَقَدْ الْتَقَمَ صَاحِبُ الْقَرْنِ الْقَرْنَ وَحَنَی جَبْہَتَہُ وَأَصْغَی سَمْعَہُ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْمَرَ أَنْ يَنْفُخَ فَيَنْفُخَ قَالَ الْمُسْلِمُونَ فَكَيْفَ نَقُولُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ قُولُوا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ تَوَكَّلْنَا عَلَی اللہِ رَبِّنَا وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ عَلَی اللہِ تَوَكَّلْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ الْأَعْمَشُ أَيْضًا عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں کیسے چین سے رہ سکتاہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اپنا رخ اسی کی طرف کئے ہوئے ہے،اسی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے،انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جایے تو وہ فوراً صور پھونک دے،مسلمانوں نے کہا: ہم (ایسے موقعوں پر) کیا کہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: کہو: حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ تَوَکَّلْنَا عَلَی اللہِ رَبِّنَا (ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے،ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھاہے) راوی کہتے ہیں: کبھی کبھی سفیان نے توکلنا علی اللہ ربنا کے بجائے علی اللہ توکلنا روایت کیا ہے۔(اس کے معنی بھی وہی ہیں) ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اعمش نے بھی اسے عطیہ سے اور عطیہ نے ابوسعیدخدری سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ أَسْلَمَ الْعِجْلِيِّ عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ أَعْرَابِيٌّ يَا رَسُولَ اللہِ مَا الصُّورُ قَالَ قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک اعرابی نے کہا: اللہ کے رسول! صور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:ایک سینگ (بھوپو) ہے جس میں پھونکا جائے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور ہم اسے صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ يَہُودِيٌّ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ لَا وَالَّذِي اصْطَفَی مُوسَی عَلَی الْبَشَرِ قَالَ فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَدَہُ فَصَكَّ بِہَا وَجْہَہُ قَالَ تَقُولُ ہَذَا وَفِينَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللہُ ثُمَّ نُفِخَ فِيہِ أُخْرَی فَإِذَا ہُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَہُ فَإِذَا مُوسَی آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ فَلَا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَہُ قَبْلِي أَمْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَی اللہُ وَمَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّی فَقَدْ كَذَبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں،قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں سے چن لیا،(یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر ماردیا،کہا: تو ایسا کہتاہے جب کہ (تمام انسانوں اورجنوں کے سردار) نبی اکرمﷺہمارے درمیان موجود ہیں۔(دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے) رسول اللہﷺ نے آیت:وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ إِلا مَنْ شَائَ اللہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیہِ أُخْرَی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ ۱؎ پڑھی اورکہا:سب سے پہلا سر اٹھانے والا میں ہوں گاتو موسیٰ مجھے عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے دکھائی دیں گے،میں نہیں کہہ سکتاکہ موسیٰ نے مجھ سے پہلے سر اٹھا یا ہوگا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے إلا من شاء اللہ کہہ کر مستثنیٰ کردیاہے ۲؎ اور جس نے کہا: میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ أَخْبَرَنِي أَبُو إِسْحَقَ أَنَّ الْأَغَرَّ أَبَا مُسْلِمٍ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يُنَادِي مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَہْرَمُوا أَبَدًا وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْأَسُوا أَبَدًا فَذَلِكَ قَوْلُہُ تَعَالَی وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوہَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُہُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الثَّوْرِيِّ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پکارنے والا پکار کر کہے گا: (جنت میں) تم ہمیشہ زندہ رہوگے،کبھی مروگے نہیں،تم صحت مند رہو گے،کبھی بیمار نہ ہو گے،کبھی محتاج وحاجتمند نہ ہوگے،اللہ تعالیٰ کے قول: وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِی أُورِثْتُمُوہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۱؎ کا یہی مطلب ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابن مبارک وغیرہ نے یہ حدیث ثوری سے روایت کی ہے،اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ وَالْأَعْمَشِ عَنْ ذَرٍّ عَنْ يُسَيْعٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ الدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَةُ ثُمَّ قَرَأَ وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺکو فرماتے ہوئے سنا: دعاہی عبادت ہے،پھر آپ نے آیت: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ (غافر:60) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ جَمِيلٍ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ قَدِمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللہِ اسْتَعْمِلْہُ عَلَی قَوْمِہِ فَقَالَ عُمَرُ لَا تَسْتَعْمِلْہُ يَا رَسُولَ اللہِ فَتَكَلَّمَا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمَا فَقَال أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلَافِي فَقَالَ مَا أَرَدْتُ خِلَافَكَ قَالَ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ قَالَ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بَعْدَ ذَلِكَ إِذَا تَكَلَّمَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ لَمْ يُسْمِعْ كَلَامَہُ حَتَّی يَسْتَفْہِمَہُ قَالَ وَمَا ذَكَرَ ابْنُ الزُّبَيْرِ جَدَّہُ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ مُرْسَلٌ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اقرع بن حابس نبی اکرمﷺکے پاس آئے،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:اللہ کے رسول! آپ انہیں ان کی اپنی قوم پر عامل بنادیجئے،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ انہیں عامل نہ بنائیے،ان دونوں حضرات نے آپ کی موجودگی میں آپس میں توتو میں میں کی،ان کی آوازیں بلند ہوگئیں،ابوبکر نے عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کو تو بس ہماری مخالفت ہی کرنی ہے،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا،چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی لاَ تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ۱؎ اس واقعہ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ جب نبی اکرمﷺسے گفتگو کرتے تو اتنے دھیرے بولتے کہ بات سنائی نہیں پڑتی،سامع کو ان سے پوچھنا پڑجاتا،راوی کہتے ہیں: ابن زبیر نے اپنے نانا یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض نے اس حدیث کو ابن ابی ملیکہ سے مرسل طریقہ سے روایت کیا ہے اور اس میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ فِي قَوْلِہِ إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُہُمْ لَا يَعْقِلُونَ قَالَ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ حَمْدِي زَيْنٌ وَإِنَّ ذَمِّي شَيْنٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ذَاكَ اللہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما اللہ تعالی کے اس فرمان إِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ أَکْثَرُہُمْ لایَعْقِلُونَ ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں: ایک شخص نے (آپ کے دروازے پر) کھڑے ہوکر(پکارکر)کہا: اللہ کے رسول! میری تعریف میری عزت ہے اور میری مذمت ذلت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ صفت تو اللہ کی ہے (یہ اللہ ہی کی شان ہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِسْحَقَ الْجَوْہَرِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ صَاحِبُ الْہَرَوِيِّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ قَال سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي جَبِيرَةَ بْنِ الضَّحَّاكِ قَالَ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا يَكُونَ لَہُ الِاسْمَانِ وَالثَّلَاثَةُ فَيُدْعَی بِبَعْضِہَا فَعَسَی أَنْ يَكْرَہَ قَالَ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَبُو جَبِيرَةَ ہُوَ أَخُو ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ بْنِ خَلِيفَةَ أَنْصَارِيٌّ وَأَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ صَاحِبُ الْہَرَوِيِّ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَبِي جَبِيرَةَ بْنِ الضَّحَّاكِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں: ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہواکرتے تھے،ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکاراجاتاتھا،اور بعض نام سے پکار نااسے برا لگتا تھا،اس پر یہ آیت وَلاَ تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ ۱؎ نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابو جبیرہ،یہ ثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری کے بھائی ہیں،اور ابوزید سعید بن الربیع صاحب الہروی بصرہ کے رہنے والے ثقہ (معتبر) شخص ہیںاس سندسے داود نے شعبی سے اورشعبی نے ابوجبیرہ بن ضحاک سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ الْمُسْتَمِرِّ بْنِ الرَّيَّانِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ قَرَأَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللہِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنْ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ قَالَ ہَذَا نَبِيُّكُمْ ﷺ يُوحَی إِلَيْہِ وَخِيَارُ أَئِمَّتِكُمْ لَوْ أَطَاعَہُمْ فِي كَثِيرٍ مِنْ الْأَمْرِ لَعَنِتُوا فَكَيْفَ بِكُمْ الْيَوْمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ سَأَلْتُ يَحْيَی بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ عَنْ الْمُسْتَمِرِّ بْنِ الرَّيَّانِ فَقَالَ ثِقَةٌ

ابونضرہ کہتے ہیں کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے آیت: وَاعْلَمُوا أَنَّ فِیکُمْ رَسُولَ اللہِ لَوْ یُطِیعُکُمْ فِی کَثِیرٍ مِّنَ الأَمْرِ لَعَنِتُّمْ(الحجرات:7) ۱؎ تلاوت کی اور اس کی تشریح میں کہا: یہ تمہارے نبی اکرمﷺہیں،ان پر وحی بھیجی جاتی ہے اور اگر وہ بہت سارے معاملات میں تمہاری امت کے چیدہ لوگوں کی اطاعت کرنے لگیں گے توتم تکلیف میں مبتلا ہوجاتے،چنانچہ(آج) اب تمہاری باتیں کب اور کیسے مانی جاسکتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-علی بن مدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید قطان سے مستمر بن ریان کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا:وہ ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَقَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللہَ قَدْ أَذْہَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاہِلِيَّةِ وَتَعَاظُمَہَا بِآبَائِہَا فَالنَّاسُ رَجُلَانِ بَرٌّ تَقِيٌّ كَرِيمٌ عَلَی اللہِ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ ہَيِّنٌ عَلَی اللہِ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَخَلَقَ اللہُ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ قَالَ اللہُ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ يُضَعَّفُ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُہُ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ ہُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:فتح مکہ کے دن رسول اللہﷺ نے لوگوں کو خطاب فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا فخر وغرور اور خاندانی تکبرختم کردیا ہے،اب لوگ صرف دوطرح کے ہیں (۱) اللہ کی نظر میں نیک متقی،کریم وشریف اور (۲) دوسرا فاجر بدبخت،اللہ کی نظر میں ذلیل وکمزور،لوگ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں۔اورآدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اس حدیث کو صرف اسی سند کے سوا جسے عبداللہ بن دینار ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کسی اور سند سے مروی نہیں جانتے،۳-عبداللہ بن جعفر ضعیف قرارد یئے گئے ہیں،انہیں یحییٰ بن معین وغیر ہ نے ضعیف کہاہے،اور عبداللہ بن جعفر-یہ علی ابن مدینی-کے والد ہیں،۴-اس باب میں ا بوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَہْلٍ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْحَسَبُ الْمَالُ وَالْكَرَمُ التَّقْوَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَمُرَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَلَّامِ بْنِ أَبِي مُطِيعٍ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: حسب مال کو کہتے ہیں اور کرم سے مراد تقویٰ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ہم اسے صرف سلام بن ابی مطیع کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ رِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِدْبَارُ النُّجُومِ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ وَإِدْبَارُ السُّجُودِ الرَّكْعَتَانِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ عَنْ رِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَرِشْدِينَ بْنِ كُرَيْبٍ أَيُّہُمَا أَوْثَقُ قَالَ مَا أَقْرَبَہُمَا وَمُحَمَّدٌ عِنْدَ أَرْجَحُ قَالَ وَسَأَلْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ہَذَا فَقَالَ مَا أَقْرَبْہُمَا وَرِشْدِينُ بْنُ كُرَيْبٍ أَرْجَحُہُمَا عِنْدِي قَالَ وَالْقَوْلُ عِنْدِي مَا قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ وَرِشْدِينُ أَرْجَحُ مِنْ مُحَمَّدٍ وَأَقْدَمُ وَقَدْ أَدْرَكَ رِشْدِينُ ابْنَ عَبَّاسٍ وَرَآہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: إِدْبَارُ السُّجُودِ ۱؎ (نجوم کے پیچھے) سے مراد صلاۃ فجر سے پہلے کی دورکعتیں یعنی سنتیں ہیں اور إِدْبَارُ السُّجُودِ (سجدوں کے بعد) سے مراد مغرب کے بعد کی دورکتیں ہیں ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اس حدیث کومرفوعاً صرف محمد بن فضیل کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ رشدین بن کریب سے روایت کرتے ہیں،۳-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے محمد(بن فضیل) اور رشدین بن کریب کے بارے میں پوچھا کہ ان دونوں میں کون زیادہ ثقہ ہے؟ انہوں نے کہا: دونوں ایک سے ہیں،لیکن محمدبن فضیل میرے نزدیک زیادہ راجح ہیں (یعنی انہیں فوقیت حاصل ہے) ۴-میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی)سے اس بارے میں پوچھا (آپ کیا کہتے ہیں؟) کہا: کیا خوب دونوں میں یکسانیت ہے،لیکن رشدین بن کریب میرے نزدیک ان دونوں میں قابل ترجیح ہیں،کہتے ہیں: میرے نزدیک بات وہی درست ہے جو ابومحمدیعنی دارمی نے کہی ہے،رشدین محمد بن فضیل سے راجح ہیں اور پہلے کے بھی ہیں،رشدین نے ابن عباس کا زمانہ پایا ہے اور انہیں دیکھا بھی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ بِمِنًی فَانْشَقَّ الْقَمَرُ فَلْقَتَيْنِ فَلْقَةٌ مِنْ وَرَاءِ الْجَبَلِ وَفَلْقَةٌ دُونَہُ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ اشْہَدُوا يَعْنِي اقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس دوران کہ ہم منیٰ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے،چاند دوٹکڑے ہوگیا،ایک ٹکڑا (اس جانب) پہاڑ کے پیچھے اور دوسرا ٹکڑا اس جانب (پہاڑ کے آگے) رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: گواہ رہو،یعنی اس بات کے گواہ رہو کہ اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (یعنی: قیامت قریب ہے اورچانددوٹکڑے ہوچکے ہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ سَأَلَ أَہْلُ مَكَّةَ النَّبِيَّ ﷺ آيَةً فَانْشَقَّ الْقَمَرُ بِمَكَّةَ مَرَّتَيْنِ فَنَزَلَتْ اقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ إِلَی قَوْلِہِ سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ يَقُولُ ذَاہِبٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اہل مکہ نے نبی اکرمﷺسے نشانی (معجزہ) کا مطالبہ کیا جس پر مکہ میں چاند دوبار دوٹکڑے ہوا،اس پر آیت اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ سے لے کر سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ نازل ہوئی،راوی کہتے ہیں: سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ میں مستمر کا مطلب ہے ذاہب(یعنی وہ جادوجوچلاآرہاہو) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ ﷺ اشْہَدُوا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں چاند دوٹکڑے ہو تو نبی اکرم ﷺ نے ہم سے فرمایا: تم سب گواہ رہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ انْفَلَقَ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اشْہَدُوا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺکے زمانے میں چانددوٹکڑے ہواتو رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم سب گواہ رہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی صَارَ فِرْقَتَيْنِ عَلَی ہَذَا الْجَبَلِ وَعَلَی ہَذَا الْجَبَلِ فَقَالُوا سَحَرَنَا مُحَمَّدٌ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لَئِنْ كَانَ سَحَرَنَا فَمَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْحَرَ النَّاسَ كُلَّہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ نَحْوَہُ

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺکے زمانہ میں چاند پھٹ کر دوٹکڑے ہوگیا،ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر اور ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر،ان لوگوں نے کہا: محمد (ﷺ) نے ہم پر جادو کردیا ہے،لیکن ان ہی میں سے بعض نے (اس کی تردید کی) کہا: اگر انہوں نے ہمیں جادوکردیا ہے تو (باہرکے) سبھی لوگوں کو جادو کے زیر اثر نہیں لاسکتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ان میں سے بعض نے یہ حدیث حصین سے حصین نے جبیر بن محمد بن جبیر بن مطعم سے،جبیر نے اپنے باپ محمد سے،محمد نے ان (جبیرپوتا) کے دادا جبیر بن مطعم سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَأَبُو بَكْرٍ بُنْدَارٌ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زِيَادِ بْنِ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْزُومِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ مُشْرِكُو قُرَيْشٍ يُخَاصِمُونَ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْقَدَرِ فَنَزَلَتْ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَی وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مشرکین قریش آکر نبی اکرمﷺ سے تقدیر کے مسئلہ میں لڑنے (اور الجھنے) لگے اس پر آیت کریمہ: یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِی النَّارِ عَلَی وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍنازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ وَاقِدٍ أَبُو مُسْلِمٍ السَّعْدِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ زُہَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی أَصْحَابِہِ فَقَرَأَ عَلَيْہِمْ سُورَةَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِہَا إِلَی آخِرِہَا فَسَكَتُوا فَقَالَ لَقَدْ قَرَأْتُہَا عَلَی الْجِنِّ لَيْلَةَ الْجِنِّ فَكَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْكُمْ كُنْتُ كُلَّمَا أَتَيْتُ عَلَی قَوْلِہِ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ قَالُوا لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ زُہَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ ابْنُ حَنْبَلٍ كَأَنَّ زُہَيْرَ بْنَ مُحَمَّدٍ الَّذِي وَقَعَ بِالشَّامِ لَيْسَ ہُوَ الَّذِي يُرْوَی عَنْہُ بِالْعِرَاقِ كَأَنَّہُ رَجُلٌ آخَرُ قَلَبُوا اسْمَہُ يَعْنِي لِمَا يَرْوُونَ عَنْہُ مِنْ الْمَنَاكِيرِ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ أَہْلُ الشَّامِ يَرْوُونَ عَنْ زُہَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ مَنَاكِيرَ وَأَہْلُ الْعِرَاقِ يَرْوُونَ عَنْہُ أَحَادِيثَ مُقَارِبَةً

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس آئے اوران کے سامنے سورہ رحمن شروع سے آخر تک پڑھی،لوگ (سن کر) چپ رہے،آپ نے کہا: میں نے یہ سورہ اپنی جنوں سے ملاقات والی رات میں جنوں کو پڑھ کر سنائی توانہوں نے مجھے تمہارے بالمقابل اچھا جواب دیا،جب بھی میں پڑھتاہواآیت فَبِأَیِّ آلائِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ پر پہنچتا تووہ کہتے لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ (اے ہمارے رب! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی نعمت کا بھی انکار نہیں کرتے،تیرے ہی لیے ہیں ساری تعریفیں) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے ولید بن مسلم کی روایت کے سواجسے وہ زہیر بن محمد سے روایت کرتے ہیں،اور کسی سے نہیں جانتے،۲-احمد بن حنبل کہتے ہیں: زہیر بن محمد جو شام میں ہیں،وہ زہیر نہیں جن سے اہل عراق روایت کرتے ہیں گویا کہ وہ دوسرے آدمی ہیں،لوگوں نے ان کانام اس وجہ سے تبدیل کردیا ہے (تاکہ لوگ ان کانام نہ جان سکیں) کیوں کہ لوگ ان سے منکر احادیث بیان کرتے تھے،۳-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اہل شام زہیر بن محمد سے مناکیر (منکر احادیث) روایت کرتے ہیں،اور اہل عراق ان سے صحیح احادیث روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ حَدَّثَ الْحَسَنُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا نَبِيُّ اللہِ ﷺ جَالِسٌ وَأَصْحَابُہُ إِذْ أَتَی عَلَيْہِمْ سَحَابٌ فَقَالَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ ہَلْ تَدْرُونَ مَا ہَذَا فَقَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ ہَذَا الْعَنَانُ ہَذِہِ رَوَايَا الْأَرْضِ يَسُوقُہُ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی إِلَی قَوْمٍ لَا يَشْكُرُونَہُ وَلَا يَدْعُونَہُ قَالَ ہَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَكُمْ قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا الرَّقِيعُ سَقْفٌ مَحْفُوظٌ وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ ثُمَّ قَالَ ہَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہَا قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ ثُمَّ قَالَ ہَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ سَمَاءَيْنِ مَا بَيْنَہُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ حَتَّی عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ قَالَ ہَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشَ وَبَيْنَہُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءَيْنِ ثُمَّ قَالَ ہَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِي تَحْتَكُمْ قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا الْأَرْضُ ثُمَّ قَالَ ہَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِي تَحْتَ ذَلِكَ قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ تَحْتَہَا أَرْضًا أُخْرَی بَيْنَہُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ حَتَّی عَدَّ سَبْعَ أَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضَيْنِ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِہِ لَوْ أَنَّكُمْ دَلَّيْتُمْ رَجُلًا بِحَبْلٍ إِلَی الْأَرْضِ السُّفْلَی لَہَبَطَ عَلَی اللہِ ثُمَّ قَرَأَ ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ وَيُرْوَی عَنْ أَيُّوبَ وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ قَالُوا لَمْ يَسْمَعْ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَفَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالُوا إِنَّمَا ہَبَطَ عَلَی عِلْمِ اللہِ وَقُدْرَتِہِ وَسُلْطَانِہِ وَعِلْمُ اللہِ وَقُدْرَتُہُ وَسُلْطَانُہُ فِي كُلِّ مَكَانٍ وَہُوَ عَلَی الْعَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس دوران کہ نبی اکرمﷺاور صحابہ بیٹھے ہوئے تھے،ان پر ایک بدلی آئی،نبی اکرمﷺنے ان سے فرمایا: کیاتم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں،آپ نے فرمایا: یہ بادل ہے اور یہ زمین کے گوشے وکنارے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس بادل کو ایک ایسی قوم کے پاس ہانک کر لے جارہاہے جو اس کی شکرگزار نہیں ہے اور نہ ہی اس کو پکارتے ہیں،پھرآپ نے فرمایا: کیاتم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں،آپ نے فرمایا:یہ آسمان رقیع ہے،ایسی چھت ہے جو (جنوں سے) محفوظ کردی گئی ہے،ایک ایسی(لہر) ہے جو (بغیر ستون کے) روکی ہوئی ہے،پھر آپ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہوکہ کتنا فاصلہ ہے تمہارے اور اس کے درمیان؟لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا: تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سوسال مسافت کی دوری ہے۔پھر آپ نے پوچھا: کیا تمہیں معلوم ہے اور اس سے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے،آپ نے فرمایا: اس کے اوپر دوآسمان ہیں جن کے بیچ میں پانچ سوسال کی مسافت ہے۔ایسے ہی آپ نے سات آسمان گنائے،اور ہر دو آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمان وزمین کے درمیان ہے،پھر آپ نے پوچھا: اوراس کے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا:اللہ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں،اوراس کے رسول آپ نے فرمایا: اس کے اوپر عرش ہے،عرش اور آسمان کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی دوری دو آسمانوں کے درمیان ہے،آپ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں: آپ نے فرمایا: یہ زمین ہے،آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے؟۔لوگوں نے کہا: اللہ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا: اس کے نیچے دوسری زمین ہے۔ان دونوں کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت کی دوری ہے،اس طرح آپ نے سات زمینیں شمار کیں،اور ہرزمین کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت کی دوری بتائی،پھرآپ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدکی جان ہے! اگر تم کوئی رسی زمین کی نچلی سطح تک لٹکاؤ تو وہ اللہ ہی تک پہنچے گی،پھر آپ نے آیت ہُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمٌ ۱؎ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-ایوب،یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے،ان لوگوں نے کہا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سناہے،۳-بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: مرادیہ ہے کہ وہ رسی اللہ کے علم پر اتری ہے،اور اللہ اور اس کی قدرت وحکومت ہر جگہ ہے اور جیسا کہ اس نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں اپنے متعلق بتایا ہے وہ عرش پر مستوی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوانِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ كُنْتُ رَجُلًا قَدْ أُوتِيتُ مِنْ جِمَاعِ النِّسَاءِ مَا لَمْ يُؤْتَ غَيْرِي فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ تَظَاہَرْتُ مِنْ امْرَأَتِي حَتَّی يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ فَرَقًا مِنْ أَنْ أُصِيبَ مِنْہَا فِي لَيْلَتِي فَأَتَتَابَعَ فِي ذَلِكَ إِلَی أَنْ يُدْرِكَنِي النَّہَارُ وَأَنَا لَا أَقْدِرُ أَنْ أَنْزِعَ فَبَيْنَمَا ہِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْہَا شَيْءٌ فَوَثَبْتُ عَلَيْہَا فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَی قَوْمِي فَأَخْبَرْتُہُمْ خَبَرِي فَقُلْتُ انْطَلِقُوا مَعِي إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأُخْبِرَہُ بِأَمْرِي فَقَالُوا لَا وَاللہِ لَا نَفْعَلُ نَتَخَوَّفُ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا قُرْآنٌ أَوْ يَقُولَ فِينَا رَسُولُ اللہِ ﷺ مَقَالَةً يَبْقَی عَلَيْنَا عَارُہَا وَلَكِنْ اذْہَبْ أَنْتَ فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَخْبَرْتُہُ خَبَرِي فَقَالَ أَنْتَ بِذَاكَ قُلْتُ أَنَا بِذَاكَ قَالَ أَنْتَ بِذَاكَ قُلْتُ أَنَا بِذَاكَ قَالَ أَنْتَ بِذَاكَ قُلْتُ أَنَا بِذَاكَ وَہَا أَنَا ذَا فَأَمْضِ فِيَّ حُكْمَ اللہِ فَإِنِّي صَابِرٌ لِذَلِكَ قَالَ أَعْتِقْ رَقَبَةً قَالَ فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ عُنُقِي بِيَدِي فَقُلْتُ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَمْلِكُ غَيْرَہَا قَالَ صُمْ شَہْرَيْنِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ وَہَلْ أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي إِلَّا فِي الصِّيَامِ قَالَ فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا ہَذِہِ وَحْشَی مَا لَنَا عَشَاءٌ قَالَ اذْہَبْ إِلَی صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَقُلْ لَہُ فَلْيَدْفَعْہَا إِلَيْكَ فَأَطْعِمْ عَنْكَ مِنْہَا وَسْقًا سِتِّينَ مِسْكِينًا ثُمَّ اسْتَعِنْ بِسَائِرِہِ عَلَيْكَ وَعَلَی عِيَالِكَ قَالَ فَرَجَعْتُ إِلَی قَوْمِي فَقُلْتُ وَجَدْتُ عِنْدَكُمْ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ السَّعَةَ وَالْبَرَكَةَ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ فَادْفَعُوہَا إِلَيَّ فَدَفَعُوہَا إِلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ مُحَمَّدٌ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ قَالَ وَيُقَالُ سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ وَيُقَالُ سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ وَفِي الْبَاب عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ وَہِيَ امْرَأَةُ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ

سلمہ بن صخرانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے عورت سے جماع کی جتنی شہوت وقوت ملی تھی (میں سمجھتا ہوں) اتنی کسی کوبھی نہ ملی ہوگی،جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اس ڈر سے کہ کہیں میں رمضان کی رات میں بیوی سے ملوں (صحبت کربیٹھوں) اور پے در پے جماع کئے ہی جاؤں کہ اتنے میں صبح ہوجائے اور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ نہ ہوپاؤں،میں نے رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے بیوی سے ظہار ۱؎ کرلیا،پھر ایسا ہواکہ ایک رات میری بیوی میری خدمت کررہی تھی کہ اچانک مجھے اس کی ایک چیز دکھائی پڑگئی تو میں (اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا) اسے دھر دبوچا،جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اورانہیں اپنے حال سے باخبر کیا،میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنے معاملے سے باخبر کردوں،ان لوگوں نے کہا: نہیں،اللہ کی قسم! ہم نہ جائیں گے،ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارے متعلق قرآن (کوئی آیت) نازل نہ ہوجائے،یار سول اللہ ﷺ کوئی بات نہ کہہ دیں جس کی شرمندگی برقرار رہے،البتہ تم خود ہی جاؤ اور جو مناسب ہو کرو،تو میں گھر سے نکلا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنی بات بتائی،آپ نے فرمایا: تم نے یہ کام کیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں،میں نے ایساکیا ہے،آپ نے کہا: تم نے ایساکیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں،میں نے ایساکیا ہے آپ نے (تیسری بار بھی یہی) پوچھا: تو نے یہ بات کی ہے،میں نے کہا: ہاں،مجھ سے ہی ایسی بات ہوئی ہے،مجھ پرا للہ کا حکم جاری ونافذ فرمائیے،میں اپنی اس بات پر ثابت وقائم رہنے والا ہوں،آپ نے فرمایا: ایک غلام آزاد کرو،میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اپنی اس گردن کے سوا کسی اور گردن کا مالک نہیں ہوں (غلام کیسے آزاد کروں) آپ نے فرمایا: پھر دومہینے کے صیام رکھو،میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جو پریشانی ومصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اسی صیام ہی کی وجہ سے تو لاحق ہوئی ہے،آپ نے فرمایا: تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادو،میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ہم نے یہ رات بھوکے رہ کر گزاری ہے،ہمارے پاس رات کابھی کھانا نہ تھا،آپ نے فرمایا: بنو زریق کے صدقہ دینے والوں کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں صدقہ کا مال دے دیں اوراس میں سے تم ایک وسق ساٹھ مسکینوں کو اپنے کفارہ کے طورپر کھلادو اور باقی جوکچھ بچے وہ اپنے اوپر اورا پنے بال بچوں پر خرچ کرو،وہ کہتے ہیں: پھر میں لوٹ کر اپنی قوم کے پاس آیا،میں نے کہا: میں نے تمہارے پاس تنگی،بدخیالی اور بری رائے وتجویز پائی،جب کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کشادگی اور برکت پائی،رسول اللہ ﷺ نے مجھے تمہارا صدقہ لینے کا حکم دیا ہے تو تم لوگ اسے مجھے دے دو،چنانچہ ان لوگوں نے مجھے دے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: سلیمان بن یسارنے میرے نزدیک سلمہ بن صخر سے نہیں سنا ہے،سلمہ بن صخر کو سلمان بن صخربھی کہتے ہیں،۳-اس باب میں خولہ بنت ثعلبہ سے بھی روایت ہے،اور یہ اوس بن صامت کی بیوی ہیں(رضی اللہ عنہما)۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلْقَمَةَ الْأَنْمَارِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ مَا تَرَی دِينَارًا قُلْتُ لَا يُطِيقُونَہُ قَالَ فَنِصْفُ دِينَارٍ قُلْتُ لَا يُطِيقُونَہُ قَالَ فَكَمْ قُلْتُ شَعِيرَةٌ قَالَ إِنَّكَ لَزَہِيدٌ قَالَ فَنَزَلَتْ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ الْآيَةَ قَالَ فَبِي خَفَّفَ اللہُ عَنْ ہَذِہِ الْأُمَّةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمَعْنَی قَوْلِہِ شَعِيرَةٌ يَعْنِي وَزْنَ شَعِيرَةٍ مِنْ ذَہَبٍ وَأَبُو الْجَعْدِ اسْمُہُ رَافِعٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریمہ: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ۱؎ نازل ہوئی تو نبی اکرمﷺنے مجھ سے پوچھا: تمہاری کیا رائے ہے،ایک دینار صدقہ مقرر کردوں؟ میں نے کہا: لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے فرمایا: تو کیا آدھا دینار مقرر کردوں؟ میں نے کہا: اس کی بھی طاقت نہیں رکھتے،آپ نے فرمایا: پھر کتنا کردوں؟ میں نے کہا: ایک جو کردیں،آپ نے فرمایا: تم تو بالکل ہی گھٹا دینے والے نکلے،اس پریہ آیت نازل ہوئی أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ ۲؎ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ نے میری وجہ سے فضل فرماکر اس امت کے معاملے میں تخفیف فرمادی (یعنی اس حکم کو منسوخ کردیا)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-علی رضی اللہ عنہ کے قول شعیرہ سے مراد ایک جو کے برابر ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ شَيْبَانَ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ يَہُودِيًّا أَتَی عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِہِ فَقَالَ السَّامُ عَلَيْكُمْ فَرَدَّ عَلَيْہِ الْقَوْمُ فَقَالَ نَبِيُّ اللہَ ﷺ ہَلْ تَدْرُونَ مَا قَالَ ہَذَا قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ سَلَّمَ يَا نَبِيَّ اللہِ قَالَ لَا وَلَكِنَّہُ قَالَ كَذَا وَكَذَا رُدُّوہُ عَلَيَّ فَرَدُّوہُ قَالَ قُلْتَ السَّامُّ عَلَيْكُمْ قَالَ نَعَمْ قَالَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ الْكِتَابِ فَقُولُوا عَلَيْكَ مَا قُلْتَ قَالَ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِہِ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک یہودی نے نبی اکرمﷺاور آپ کے صحابہ کے پاس آکر کہا: السام علیکم (تم پر موت آئے) لوگوں نے اسے اس کے سام کا جواب دیا،نبی اکرمﷺنے لوگوں سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو اس نے کیا کہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں،اے اللہ کے نبی! اس نے تو سلام کیا ہے،آپ نے فرمایا: نہیں،بلکہ اس نے تو ایسا ایسا کہا ہے،تم لوگ اس (یہودی)کولوٹاکرمیرے پاس لاؤ،لوگ اس کولوٹاکرلائے،آپ نے اس یہودی سے پوچھا: تونے السام علیکم کہاہے؟ اس نے کہا: ہاں،نبی اکرمﷺنے اسی وقت سے یہ حکم صادر فرمایادیا کہ جب اہل کتاب میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس کے جواب میں علیک ماقلت(جو تم نے کہی وہی تمہارے لیے بھی ہے) کہہ دیاکرو،اور آپ نے یہ آیت پڑھیوَإِذَا جَائُوکَ حَیَّوْکَ بِمَا لَمْ یُحَیِّکَ بِہِ اللہُ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ہُوَ ابْنُ الْحَنَفِيَّةِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ قَال سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَا وَالزُّبَيْرَ وَالْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ فَقَالَ انْطَلِقُوا حَتَّی تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ فِيہَا ظَعِينَةً مَعَہَا كِتَابٌ فَخُذُوہُ مِنْہَا فَأْتُونِي بِہِ فَخَرَجْنَا تَتَعَادَی بِنَا خَيْلُنَا حَتَّی أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ فَقُلْنَا أَخْرِجِي الْكِتَابَ فَقَالَتْ مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ فَقُلْنَا لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ قَالَ فَأَخْرَجَتْہُ مِنْ عِقَاصِہَا قَالَ فَأَتَيْنَا بِہِ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَإِذَا ہُوَ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَی نَاسٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ يُخْبِرُہُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ مَا ہَذَا يَا حَاطِبُ قَالَ لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِہَا وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنْ الْمُہَاجِرِينَ لَہُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِہَا أَہْلِيہِمْ وَأَمْوَالَہُمْ بِمَكَّةَ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنْ نَسَبٍ فِيہِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِيہِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِہَا قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ صَدَقَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ دَعْنِي يَا رَسُولَ اللہِ أَضْرِبْ عُنُقَ ہَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا فَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللہَ اطَّلَعَ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ قَالَ وَفِيہِ أُنْزِلَتْ ہَذِہِ السُّورَةُ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ السُّورَةَ قَالَ عَمْرٌو وَقَدْ رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي رَافِعٍ وَكَانَ كَاتِبًا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيہِ عَنْ عُمَرَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ نَحْوَ ہَذَا وَذَكَرُوا ہَذَا الْحَرْفَ وَقَالُوا لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ وَقَدْ رُوِيَ أَيْضًا عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ ذَكَرَ بَعْضُہُمْ فِيہِ فَقَالَ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ

عبید اللہ بن ابورافع کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کوبھیجا،کہا:جاؤ،روضہ خاخ ۱؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے،اس کے پاس ایک خط ہے،وہ خط جاکر اس سے لے لو،اور میرے پاس لے آؤ،چنانچہ ہم نکل پڑے،ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑمیں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کررہے تھے،ہم روضہ پہنچے،ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی،ہم نے اس سے کہا: خط نکال،اس نے کہا: ہمارے پا س کوئی خط نہیں ہے،ہم نے کہا: خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے؟ (یہ سن کر) اپنی چوٹی (جوڑے) سے اس نے خط نکالا،ہم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آگئے،وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے تھا،مکہ کے کچھ مشرکین کے پاس بھیجا گیاتھا،نبی اکرمﷺکے بعض اقدامات کی انہیں خبردی گئی تھی،آپ نے کہا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے خلاف حکم فرمانے میں جلدی نہ کریں،میں ایک ایسا شخص تھا جو قریش کے ساتھ مل جل کر رہتاتھا،لیکن (خاندانی طورپر) قریشی نہ تھا،باقی جو مہاجرین آپ کے ساتھ تھے ان کی وہاں رشتہ داریاں تھیں جس کی وجہ سے وہ رشتہ دار مکہ میں ان کے گھروالوں اور ان کے مالوں کی حفاظت وحمایت کرتے تھے،میں نے مناسب سمجھا کہ جب ہمارا ان سے کوئی خاندانی ونسبی تعلق نہیں ہے تو میں ان پر احسان کرکے کسی کا ہاتھ پکڑ لوں جس کی وجہ سے یہ اہل مکہ ہمارے گھر اور رشتہ داروں کی حفاظت وحمایت کریں،میں نے ایساکفر اختیار کرلینے یا اپنے دین سے مرتد ہوجانے یا کفر کو پسند کرلینے کی وجہ سے نہیں کیا ہے،نبی اکرمﷺنے فرمایا: حاطب نے سچ اور (صحیح) بات کہی ہے،عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے،میں اس منافق کی گردن ماردوں،نبی اکرمﷺنے فرمایا: یہ جنگ بدر میں موجود رہے ہیں،تمہیں معلوم نہیں،یقینا اللہ نے بدر والوں کی حالت (یعنی ان کے جذبہ جاں فروشی) کو دیکھ کر کہہ دیا ہے: جو چاہو کرو ہم نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں،اسی سلسلے میں یہ پوری سورہ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَائَ تَلْقَونَ إلیْہِمْ بِالمَودَّۃِ آخرتک نازل ہوئی۔ عمر و(راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے عبیداللہ بن ابی رافع کودیکھا ہے،وہ علی رضی اللہ عنہ کے کاتب (محرر) تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح کئی ایک نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے روایت کی ہے،اور ان سبھوں نے بھی یہی لفظ ذکر کیا ہے کہ علی اور زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ نے کہا: تمہیں خط نکال کردینا ہوگا،ورنہ پھر تمہیں کپڑے اتارنے پڑیں گے،۳-ابوعبدالرحمٰن السلمی سے بھی یہ حدیث مروی ہوئی ہے،انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اسی حدیث کے مانند روایت کیاہے،۴-اس باب میں عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور بعضوں نے ذکر کیا کہ انہوں نے کہاکہ توخط نکال دے ورنہ ہم تجھے ننگا کردیں گے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَمْتَحِنُ إِلَّا بِالْآيَةِ الَّتِي قَالَ اللہُ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ الْآيَةَ قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَدَ امْرَأَةٍ إِلَّا امْرَأَةً يَمْلِكُہَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کسی کاامتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے إِذَا جَاءَکَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ ۱؎ کہاہے۔ معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبردی ہے کہ ان کے باپ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ نے اس عورت کے سوا جس کے آپ مالک ہوتے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الشَّيْبَانِيُّ قَال سَمِعْتُ شَہْرَ بْنَ حَوْشَبٍ قَالَ حَدَّثَتْنَا أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ قَالَتْ قَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ النِّسْوَةِ مَا ہَذَا الْمَعْرُوفُ الَّذِي لَا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَعْصِيَكَ فِيہِ قَالَ لَا تَنُحْنَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ بَنِي فُلَانٍ قَدْ أَسْعَدُونِي عَلَی عَمِّي وَلَا بُدَّ لِي مِنْ قَضَائِہِنَّ فَأَبَی عَلَيَّ فَأَتَيْتُہُ مِرَارًا فَأَذِنَ لِي فِي قَضَائِہِنَّ فَلَمْ أَنُحْ بَعْدَ قَضَائِہِنَّ وَلَا عَلَی غَيْرِہِ حَتَّی السَّاعَةَ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ النِّسْوَةِ امْرَأَةٌ إِلَّا وَقَدْ نَاحَتْ غَيْرِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِيہِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ ہِيَ أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ

ام سلمہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: عورتوں میں سے ایک عورت نے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) اس معروف سے کیا مراد ہے جس میں ہمیں آپ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے،آپ نے فرمایا: وہ یہی ہے کہ تم (کسی کے مرنے پر) نوحہ مت کرو،میں نے کہا: اللہ کے رسول! فلاں قبیلے کی عورتوں نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی جب میں نے اپنے چچا پرنوحہ کیا تھا،اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ جب ان کے نوحہ کرنے کا وقت آئے تومیں ان کے ساتھ نوحہ میں شریک ہوکر اس کا بدلہ چکاؤں،آپ نے انکار کیا،(مجھے اجازت نہ دی) میں نے کئی بار آپ سے اپنی عرض دہرائی تو آپ نے مجھے ان کا بدلہ چکا دینے کی اجازت دے دی،اس بدلہ کے چکادینے کے بعد پھر میں نے نہ ان پر اور نہ ہی کسی اور پراب قیامت تک نوحہ (جبکہ)میرے سواکوئی عورت ایسی باقی نہیں ہے جس نے نوحہ نہ کیاہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-عبد بن حمید کہتے ہیں،ام سلمہ انصاریہ ہی اسماء بنت یزید بن السکن ہیں رضی اللہ عنہا۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ عَنْ الْأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ أَبِي نَصْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِہِ تَعَالَی إِذَا جَاءَكُمْ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ قَالَ كَانَتْ الْمَرْأَةُ إِذَا جَاءَتْ النَّبِيَّ ﷺ لِتُسْلِمَ حَلَّفَہَا بِاللہِ مَا خَرَجْتُ مِنْ بُغْضِ زَوْجِي مَا خَرَجْتُ إِلَّا حُبًّا لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت إِذَا جَاءَکُمْ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ کی تفسیرمیں کہتے ہیں: جب کوئی عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس ایمان لانے کے لیے آتی تو آپ اسے اللہ تعالیٰ کی قسم دلاکر کہلاتے کہ میں اپنے شوہر سے ناراضگی کے باعث کفر سے نہیں نکلی ہوں بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت لے کر اسلام قبول کرنے آئی ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيْلِيُّ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ حِينَ أُنْزِلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَتَلَاہَا فَلَمَّا بَلَغَ وَآخَرِينَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِہِمْ قَالَ لَہُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ ہَؤُلَاءِ الَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِنَا فَلَمْ يُكَلِّمْہُ قَالَ وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ فِينَا قَالَ فَوَضَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی سَلْمَانَ يَدَہُ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَہُ رِجَالٌ مِنْ ہَؤُلَاءِ ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَدَنِيٌّ وَثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ شَامِيٌّ وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُہُ سَالِمٌ مَوْلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ مُطِيعٍ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ ہُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس وقت سورہ جمعہ نازل ہوئی اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے،آپ نے اس کی تلاوت کی،جب آپ وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ ۱؎ پر پہنچے تو ایک شخص نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے نہیں ملے ہیں؟ (آپ خاموش رہے) اس سے کوئی بات نہ کی،سلمان (فارسی) رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان موجود تھے،آپ نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھ کر فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو بھی (اتنی بلندی اور دوری پر پہنچ کر) ان کی قوم کے لوگ اسے حاصل کرکے ہی رہتے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اور عبداللہ بن جعفر،علی بن المدینی کے والدہیں،یحییٰ بن معین نے انہیں ضعیف کہا ہے،۲-ثور بن زید مدنی ہیں،اور ثور بن یزید شامی ہیں،اور ابوالغیث کا نام سالم ہے،یہ عبداللہ بن مطیع کے آزاد کردہ غلام ہیں،مدنی اورثقہ ہیں،۳-یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطے سے نبیﷺ سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔(اوراسی بنیادپرصحیح ہے)

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ ﷺ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَائِمًا إِذْ قَدِمَتْ عِيرُ الْمَدِينَةِ فَابْتَدَرَہَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَتَّی لَمْ يَبْقَ مِنْہُمْ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا فِيہِمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَنَزَلَتْ الْآيَةَ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَہْوًا انْفَضُّوا إِلَيْہَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس دوران کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے،مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آگیا،(یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑکر) ادھر ہی لپک لیے،صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی تھے،اسی موقع پر آیت وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَۃً أَوْ لَہْوًا انْفَضُّوا إِلَیْہَا وَتَرَکُوکَ قَائِمًا ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے جابرنے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ عَنْ ہَذِہِ الْآيَةِ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوہُمْ قَالَ ہَؤُلَاءِ رِجَالٌ أَسْلَمُوا مِنْ أَہْلِ مَكَّةَ وَأَرَادُوا أَنْ يَأْتُوا النَّبِيَّ ﷺ فَأَبَی أَزْوَاجُہُمْ وَأَوْلَادُہُمْ أَنْ يَدَعُوہُمْ أَنْ يَأْتُوا رَسُولَ اللہِ ﷺ فَلَمَّا أَتَوْا رَسُولَ اللہِ ﷺ رَأَوْا النَّاسَ قَدْ فَقُہُوا فِي الدِّينِ ہَمُّوا أَنْ يُعَاقِبُوہُمْ فَأَنْزَلَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوہُمْ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ایک آدمی نے آیت یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ ۱؎ کے بارے میں پوچھا کہ یہ کس کے بارے میں اتری ہے؟ انہوں نے کہا: اہل مکہ میں کچھ لوگ تھے جو ایمان لائے تھے،اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچنے کا ارادہ کرلیاتھا،مگر ان کی بیویوں اور ان کی اولاد نے انکار کیا کہ وہ انہیں چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس جائیں،پھر جب وہ (کافی دنوں کے بعد) رسول اللہ ﷺ کے یہاں آئے اوردیکھاکہ لوگوں نے دین کی فقہ،(دین کی سوجھ بوجھ) کافی حاصل کرلی ہے،تو انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو (ان کے رکاوٹ ڈالنے کے باعث) سزادیں،اس موقع پریہ آیت نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا يَقُولُ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ اللَّتَيْنِ قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا حَتَّی حَجَّ عُمَرُ وَحَجَجْتُ مَعَہُ فَصَبَبْتُ عَلَيْہِ مِنْ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ اللَّتَانِ قَالَ اللہُ إِنْ تَتُوبَا إِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِنْ تَظَاہَرَا عَلَيْہِ فَإِنَّ اللہَ ہُوَ مَوْلَاہُ فَقَالَ لِي وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ الزُّہْرِيُّ وَكَرِہَ وَاللہِ مَا سَأَلَہُ عَنْہُ وَلَمْ يَكْتُمْہُ فَقَالَ ہِيَ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي الْحَدِيثَ فَقَالَ كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُہُمْ نِسَاؤُہُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِہِمْ فَتَغَضَّبْتُ عَلَی امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا ہِيَ تُرَاجِعُنِي فَقَالَتْ مَا تُنْكِرُ مِنْ ذَلِكَ فَوَاللہِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ لَيُرَاجِعْنَہُ وَتَہْجُرُہُ إِحْدَاہُنَّ الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ قَالَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْہُنَّ وَخَسِرَتْ قَالَ وَكَانَ مَنْزِلِي بِالْعَوَالِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ وَكَانَ لِي جَارٌ مِنْ الْأَنْصَارِ كُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَيَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِہِ وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَآتِيہِ بِمِثْلِ ذَلِكَ قَالَ وَكُنَّا نُحَدِّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا قَالَ فَجَاءَنِي يَوْمًا عِشَاءً فَضَرَبَ عَلَی الْبَابِ فَخَرَجْتُ إِلَيْہِ فَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ أَجَاءَتْ غَسَّانُ قَالَ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ طَلَّقَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نِسَاءَہُ قَالَ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ ہَذَا كَائِنًا قَالَ فَلَمَّا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّی دَخَلْتُ عَلَی حَفْصَةَ فَإِذَا ہِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَتْ لَا أَدْرِي ہُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِي ہَذِہِ الْمَشْرَبَةِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَأَتَيْتُ غُلَامًا أَسْوَدَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ قَالَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ قَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَہُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَإِذَا حَوْلَ الْمِنْبَرِ نَفَرٌ يَبْكُونَ فَجَلَسْتُ إِلَيْہِمْ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَہُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی الْمَسْجِدِ أَيْضًا فَجَلَسْتُ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَہُ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَالَ فَوَلَّيْتُ مُنْطَلِقًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي فَقَالَ ادْخُلْ فَقَدْ أُذِنَ لَكَ فَدَخَلْتُ فَإِذَا النَّبِيُّ ﷺ مُتَّكِئٌ عَلَی رَمْلِ حَصِيرٍ قَدْ رَأَيْتُ أَثَرَہُ فِي جَنْبَيْہِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ قَالَ لَا قُلْتُ اللہُ أَكْبَرُ لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَا رَسُولَ اللہِ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُہُمْ نِسَاؤُہُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِہِمْ فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَی امْرَأَتِي فَإِذَا ہِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ فَقَالَتْ مَا تُنْكِرُ فَوَاللہِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ لَيُرَاجِعْنَہُ وَتَہْجُرُہُ إِحْدَاہُنَّ الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ قَالَ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَتْ نَعَمْ وَتَہْجُرُہُ إِحْدَانَا الْيَوْمَ إِلَی اللَّيْلِ فَقُلْتُ قَدْ خَابَتْ مَنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَتْ أَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللہُ عَلَيْہَا لِغَضَبِ رَسُولِہِ فَإِذَا ہِيَ قَدْ ہَلَكَتْ فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ ﷺ قَالَ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللہِ ﷺ وَلَا تَسْأَلِيہِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ صَاحِبَتُكِ أَوْسَمَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ فَتَبَسَّمَ أُخْرَی فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَسْتَأْنِسُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَمَا رَأَيْتُ فِي الْبَيْتِ إِلَّا أُہُبَةً ثَلَاثَةً قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ اللہَ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَی أُمَّتِكَ فَقَدْ وَسَّعَ عَلَی فَارِسَ وَالرُّومِ وَہُمْ لَا يَعْبُدُونَہُ فَاسْتَوَی جَالِسًا فَقَالَ أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَہُمْ طَيِّبَاتُہُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا قَالَ وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَی نِسَائِہِ شَہْرًا فَعَاتَبَہُ اللہُ فِي ذَلِكَ وَجَعَلَ لَہُ كَفَّارَةَ الْيَمِينِ قَالَ الزُّہْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ بَدَأَ بِي قَالَ يَا عَائِشَةُ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ شَيْئًا فَلَا تَعْجَلِي حَتَّی تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ قَالَتْ ثُمَّ قَرَأَ ہَذِہِ الْآيَةَ يَا أَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ الْآيَةَ قَالَتْ عَلِمَ وَاللہِ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِہِ فَقُلْتُ أَفِي ہَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ قَالَ مَعْمَرٌ فَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ لَہُ يَا رَسُولَ اللہِ لَا تُخْبِرْ أَزْوَاجَكَ أَنِّي اخْتَرْتُكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّمَا بَعَثَنِي اللہُ مُبَلِّغًا وَلَمْ يَبْعَثْنِي مُتَعَنِّتًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبید اللہ بن عبداللہ بن ابی ثور کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میری برابر یہ خواہش رہی کہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ کی ان دو بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے إِن تَتُوبَا إِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَا ۱؎ (مگر مجھے موقع اس وقت ملا) جب عمر رضی اللہ عنہ نے حج کیااور میں نے بھی ان کے ساتھ حج کیا،میں نے ڈول سے پانی ڈال کر انہیں وضو کرایا،(اسی دوران) میں نے ان سے پوچھا: امیر المؤمنین! نبی اکرمﷺکی وہ دوبیویاں کون ہیں جن کے بارے میں اللہ نے کہا ہے إِن تَتُوبَا إِلَی اللہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُکُمَاعمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حیرت سے کہا: ہائے تعجب! اے ابن عباس (تمہیں اتنی سی بات معلوم نہیں) (زہری کہتے ہیں قسم اللہ کی ابن عباس نے جوبات پوچھی وہ انہیں بری لگی مگر انہوں نے حقیقت چھپائی نہیں بتادی) انہوں نے مجھے بتایا: وہ عائشہ اور حفصہ ہیں،پھروہ مجھے پوری بات بتانے لگے کہا: ہم قریش والے عورتوں پر حاوی رہتے اور انہیں دباکر رکھتے تھے،مگر جب مدینہ آئے تو یہاں ایسے لوگ ملے جن پر ان کی بیویاں غالب اور حاوی ہوتی تھیں،تو ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے ان کے رنگ ڈھنگ سیکھنے لگیں،ایک دن ایسا ہواکہ میں اپنی بیوی پر غصہ ہوگیا،کیا دیکھتاہوں کہ وہ بھی مجھے پلٹ کر جواب دینے لگی،مجھے (سخت) ناگوار ہوا کہ وہ مجھے پلٹ کر جواب دے،اس نے کہا: آپ کو یہ بات کیوں ناگوار لگ رہی ہے؟ قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ ﷺ کو پلٹ کر جواب دے رہی ہیں اور دن سے رات تک آپ کو چھوڑ ے رہتی ہیں (روٹھی اور اینٹھی رہتی) ہیں،میں نے اپنے جی میں کہا: آپ کی بیویوں میں سے جس نے بھی ایسا کیا وہ ناکام ہوئی اور گھاٹے میں رہی،میرا گھر مدینہ کے بنی امیہ نامی محلہ میں عوالی کے علاقہ میں تھا،اور میراایک انصاری پڑوسی تھا،ہم باری باری رسول اللہ ﷺ کے پاس آیاکرتے تھے،ایک دن وہ آتا اور جوکچھ ہوا ہوتا وہ واپس جاکر مجھے بتاتا،اور ایسے ہی ایک دن میں آپ کے پاس آتا اور وحی وغیرہ کی جو بھی خبر ہوتی میں جاکراسے بتاتا،ہم (اس وقت) باتیں کیاکرتے تھے کہ اہل غسان ہم سے لڑائی کرنے کے لیے اپنے گھوڑوں کے پیروں میں نعلیں ٹھونک رہے ہیں،ایک دن عشاء کے وقت ہمارے پڑوسی انصاری نے آکر،دروازہ کھٹکھٹایا،میں دروازہ کھول کر اس کے پاس گیا،اس نے کہا: ایک بڑی بات ہوگئی ہے،میں نے پوچھا: کیا اہل غسان ہم پر چڑھائی کرآئے ہیں؟ اس نے کہا: اس سے بھی بڑا معاملہ پیش آگیا ہے،رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے،میں نے اپنے جی میں کہا: حفصہ ناکام رہی گھاٹے میں پڑی،میں سوچا کرتاتھا کہ ایسا ہونے والا ہے،جب میں نے فجر پڑھی تو اپنے کپڑے پہنے اور چل پڑا،حفصہ کے پاس پہنچا تو وہ (بیٹھی) رورہی تھی،میں نے پوچھا: کیا تم سب بیویوں کو رسول اللہ ﷺ نے طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا:مجھے نہیں معلوم ہے،البتہ آپ اس بالاخانے پرالگ تھلگ بیٹھے ہیں،عمر کہتے ہیں: میں (اٹھ کر آپ سے ملنے) چلا،میں ایک کالے رنگ کے (دربان) لڑکے کے پاس آیااور اس سے کہا: جاؤ،آپﷺسے عمر کے آنے کی اجازت مانگو،عمر کہتے ہیں: وہ لڑکا آپ کے پاس گیا پھر نکل کر میرے پاس آیا اور کہا: میں نے آپ کے آنے کی خبرکی مگر آپ نے کچھ نہ کہا،میں مسجد چلا گیا (دیکھا) منبر کے آس پاس کچھ لوگ بیٹھے رورہے تھے،میں بھی انہیں لوگوں کے پاس بیٹھ گیا،(مجھے سکون نہ ملا) میری فکر وتشویش بڑھتی گئی،میں اٹھ کر دوبارہ لڑکے کے پاس چلا آیا،میں نے کہا: جاؤ آپ سے عمر کے اندر آنے کی اجازت مانگو،تو وہ اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا،اس نے کہا: میں نے آپ کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا،لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا،عمر کہتے ہیں: میں دوبارہ مسجد میں آکر بیٹھ گیا،مگر مجھ پر پھر وہی فکر سوار ہوگئی،میں (سہ بارہ) لڑکے کے پاس آگیا اور اس سے کہا: جاؤ اور آپ سے عمر کے اند ر آنے کی اجازت مانگو،وہ لڑکا اندر گیا پھر میرے پاس واپس آیا،کہا: میں نے آپ سے آپ کے آنے کا ذکر کیا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا،(یہ سن کر) میں پلٹ پڑا،یکایک لڑکا مجھے پکارنے لگا،(آجائیے آجائیے) اندر تشریف لے جائیے،رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اجازت دے دی ہے،میں اندر چلاگیا،میں نے دیکھا آپ بوریئے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں اور اس کا اثر ونشان آپ کے پہلؤں میں دیکھا،میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں،میں نے کہا: اللہ اکبر،آپ نے دیکھا ہوگا اللہ کے رسول! ہم قریشی لوگ اپنی بیویوں پر کنٹرول رکھتے تھے،لیکن جب ہم مدینہ آگئے تو ہمارا سابقہ ایک ایک ایسی قوم سے پڑگیا ہے جن پر ان کی بیویاں حاوی اور غالب رہتی ہیں،ہماری عورتیں ان کی عورتوں سے (ان کے طورطریقے) سیکھنے لگیں،ایک دن اپنی بیوی پر غصہ ہوا تو وہ مجھے پلٹ کرجواب دینے لگی،مجھے یہ سخت برا لگا،کہنے لگی آپ کو کیوں اتنا برالگ رہاہے،قسم اللہ کی نبی اکرم ﷺ کی بعض بیویاں بھی آپ کو پلٹ کرجواب دے رہی ہیں اور کوئی بھی عورت دن سے رات تک آپ کو چھوڑ کر (روٹھی واینٹھی) رہتی ہے،میں نے حفصہ سے کہا: کیا تم پلٹ کر رسول اللہ ﷺ کو جواب دیتی ہو؟ اس نے کہا: ہاں،ہم میں کوئی بھی آپ سے (خفا ہوکر) دن سے رات تک آپ سے علیحدہ رہتی ہے،میں نے کہا: تم میں سے جس نے بھی ایساکیا وہ گھاٹے میں ر ہی اورناکام ہوئی،کیا تم میں سے ہر کوئی اس بات سے مطمئن ہے کہ اللہ اپنے رسول کی ناراضگی کے سبب اس سے ناراض وناخوش ہوجائے اور وہ ہلاک وبرباد ہوجائے؟ (یہ سن کر) آپﷺ مسکراپڑے،عمر نے کہا: میں نے حفصہ سے کہا: رسول اللہ ﷺ کو پلٹ کر جواب نہ دو اور نہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کرو،جس چیز کی تمہیں حاجت ہو وہ مجھ سے مانگ لیاکرو،اور تم بھروسے میں نہ رہو تمہاری سوکن توتم سے زیادہ خوبصورت اور رسول اللہ ﷺ کی چہیتی ہے ۲؎ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ پھرمسکرا دیئے،میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں دل بستگی کی بات کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،عمر کہتے ہیں: میں نے سر اٹھا یا توگھر میں تین کچی کھالوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی نہ دی،میں نے عرض کیا،اللہ کے رسول! اللہ سے دعا فرمایئے کہ وہ آپ کی امت کو وہ کشادگی وفراوانی دے جو اس نے روم وفارس کودی ہے،جب کہ وہ اس کی عبادت بندگی بھی نہیں کرتے ہیں،(یہ سن کر) آپ جم کر بیٹھ گئے،کہا: خطاب کے بیٹے! کیا تم ابھی تک اسلام کی حقانیت کے بارے میں شک وشبہہ میں پڑے ہو ئے ہو؟ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کے حصہ کی اچھی چیزیں پہلے ہی دنیا میں دے دی گئی ہیں،عمر ؓ کہتے ہیں: آپ نے قسم کھائی تھی کہ آپ ایک مہینہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جائیں گے،اس پر اللہ تعالیٰ نے فہمائش کی اور آپ کو کفارہ یمین (قسم کا کفارہ) اداکرنے کا حکم دیا۔ زہری کہتے ہیں: عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہوئے کہاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ جب مہینے کے ۲۹/دن گزرگئے تونبی اکرم ﷺ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے،آپ نے فرمایا: میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والاہوں،اپنے والدین سے مشورہ کئے بغیر جواب دینے میں جلدی نہ کرنا،پھر آپ نے یہ آیت پڑھی یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لأَزْوَاجِکَ (آخر آیت تک) عائشہ کہتی ہیں: آپ جانتے تھے،قسم اللہ کی میرے والدین مجھے آپ سے علیحدگی اختیار کرلینے کا ہرگز حکم نہ دیں گے،میں نے کہا: کیا میں اس معاملے میں والدین سے مشورہ کروں؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی اورپسند کرتی ہوں۔ معمر کہتے ہیں: مجھے ایوب نے خبردی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہاکہ اے اللہ کے رسول! آپ اپنی دوسری بیویوں کونہ بتائیے گا کہ میں نے آپ کو چنا اور پسند کیا ہے،آپ نے فرمایا: اللہ نے مجھے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجاہے تکلیف پہنچانے اور مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور کئی سندوں سے ابن عباس سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَيْرَةَ عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ زَعَمَ أَنَّہُ كَانَ جَالِسًا فِي الْبَطْحَاءِ فِي عِصَابَةٍ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ جَالِسٌ فِيہِمْ إِذْ مَرَّتْ عَلَيْہِمْ سَحَابَةٌ فَنَظَرُوا إِلَيْہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَلْ تَدْرُونَ مَا اسْمُ ہَذِہِ قَالُوا نَعَمْ ہَذَا السَّحَابُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالْمُزْنُ قَالُوا وَالْمُزْنُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالْعَنَانُ قَالُوا وَالْعَنَانُ ثُمَّ قَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَلْ تَدْرُونَ كَمْ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقَالُوا لَا وَاللہِ مَا نَدْرِي قَالَ فَإِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَہُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ وَإِمَّا اثْنَتَانِ أَوْ ثَلَاثٌ وَسَبْعُونَ سَنَةً وَالسَّمَاءُ الَّتِي فَوْقَہَا كَذَلِكَ حَتَّی عَدَّدَہُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ كَذَلِكَ ثُمَّ قَالَ فَوْقَ السَّمَاءِ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ أَعْلَاہُ وَأَسْفَلِہِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَی السَّمَاءِ وَفَوْقَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةُ أَوْعَالٍ بَيْنَ أَظْلَافِہِنَّ وَرُكَبِہِنَّ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلَی سَمَاءٍ ثُمَّ فَوْقَ ظُہُورِہِنَّ الْعَرْشُ بَيْنَ أَسْفَلِہِ وَأَعْلَاہُ مِثْلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَی السَّمَاءِ وَاللہُ فَوْقَ ذَلِكَ قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ سَمِعْتُ يَحْيَی بْنَ مَعِينٍ يَقُولُ أَلَا يُرِيدُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَنْ يَحُجَّ حَتَّی نَسْمَعَ مِنْہُ ہَذَا الْحَدِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ سِمَاكٍ نَحْوَہُ وَرَفَعَہُ وَرَوَی شَرِيكٌ عَنْ سِمَاكٍ بَعْضَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَوَقَفَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ الرَّازِيُّ

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں وادی بطحاء میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھاہوا تھا اور آپ بھی انہیں لوگوں میں تشریف فرماتھے،اچانک لوگوں کے اوپر سے ایک بدلی گزری،لوگ اسے دیکھنے لگے،رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کیا تم جانتے ہو اس کا نام کیا ہے؟لوگوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں،یہ سحاب ہے،آپ نے فرمایا: کیا یہ مزن ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں یہ مزن بھی ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا اسے عنان ۱؎ بھی کہتے ہیں،لوگوں نے کہا: ہاں یہ عنان بھی ہے،پھر آپ نے لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو آسمان اور زمین کے درمیان کتنی دوری ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں،قسم اللہ کی ہم نہیں جانتے،آپ نے فرمایا: ان دونوں میں اکہتر(۷۱)بہتر(۷۲) یاتہتر (۷۳) سال کا فرق ہے اور جو آسمان اس کے اوپر ہے وہ بھی اتنا ہی دور ہے،اور اسی فرق کے ساتھ آپ نے سات آسمان گن ڈالے،پھر آپ نے فرمایا: ساتویں آسمان پر ایک دریا ہے جس کی اوپری سطح اور نچلی سطح میں اتنی دوری ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی دوری ہے (یعنی وہ اتنا زیادہ گہرا ہے) اور ان کے اوپر آٹھ جنگلی بکرے (فرشتے) ہیں جن کی کھروں اور گھٹنوں کے درمیان اتنی دوری اور لمبائی ہے جتنی دوری اور لمبائی ایک آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان ہے،پھران کی پیٹھوں پر عرش ہے،عرش کی نچلی سطح اور اوپری سطح میں ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی سی دوری ہے (یعنی عرش اتنا موٹا ہے)اور اللہ اس کے اوپر ہے۔ عبدبن حمید کہتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن معین کو کہتے ہوئے سنا ہے،عبدالرحمٰن بن سعد حج کرنے کیوں نہیں جاتے کہ وہاں ان سے یہ حدیث ہم سنتے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ولید بن ابوثور نے سماک سے اسی طرح یہ حدیث روایت کی ہے اور اسے مرفوعاً روایت کیا ہے،۳-شریک نے سماک سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے اور اسے موقوفا ً روایت کیا ہے،مرفوعاً نہیں کیا،۴-عبدالرحمٰن،یہ ابن عبداللہ بن سعد رازی ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ الرَّازِيُّ أَنَّ أَبَاہُ أَخْبَرَہُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ رَأَيْتُ رَجُلًا بِبُخَارَی عَلَی بَغْلَةٍ وَعَلَيْہِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ وَيَقُولُ كَسَانِيہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ

عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن سعد رازی سے روایت ہے کہ ان کے باب عبداللہ نے ان کو خبر دی،انہوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو بخاریٰ میں خچر پر سوار سرپر سیاہ عمامہ باندھے ہوئے دیکھا وہ کہتا تھا: یہ وہ عمامہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھے پہنایا ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ كَالْمُہْلِ قَالَ كَعَكَرِ الزَّيْتِ فَإِذَا قَرَّبَہُ إِلَی وَجْہِہِ سَقَطَتْ فَرْوَةُ وَجْہِہِ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ: یَوْمَ تَکُونُ السَّمَاء کَالْمُہْلِ ۱؎ میں مہل کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد تیل کی تلچھٹ ہے،جب کافر اسے اپنے منہ کے قریب لائے گا توسرکی کھال مع بالوں کے اس میں گرجائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے صرف رشدین کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ وَعُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَالْيَوْمُ الْمَشْہُودُ يَوْمُ عَرَفَةَ وَالشَّاہِدُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَمَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَلَا غَرَبَتْ عَلَی يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْہُ فِيہِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَدْعُو اللہَ بِخَيْرٍ إِلَّا اسْتَجَابَ اللہُ لَہُ وَلَا يَسْتَعِيذُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا أَعَاذَہُ اللہُ مِنْہُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ الْأَسَدِيُّ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ الرَّبَذِيُّ يُكْنَی أَبَا عَبْدِ الْعَزِيزِ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُہُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مَنْ الْأَئِمَّةِ عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الْیَوْمُ الْمَوْعُودُ سے مراد قیامت کا دن ہے،اور وَالْیَوْمُ الْمَشْہُودُ سے مراد عرفہ کادن اور(شاہد) سے مراد جمعہ کادن ہے،اورجمعہ کے دن سے افضل کوئی دن نہیں ہے جس پر سوج کا طلوع وغروب ہو اہو،اس دن میں ایک ایسی گھڑی (ایک ایسا وقت) ہے کہ اس میں جو کوئی بندہ اپنے رب سے بھلائی کی دعا کرتاہے تو اللہ اس کی دعاقبول کرلیتاہے،اور اس گھڑی میں جوکوئی مومن بندہ کسی چیز سے پناہ چاہتاہے تو اللہ اسے اس سے بچالیتا اور پناہ دے دیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا: وہ کہتے ہیں: ہم سے قرّان بن تمام اسدی نے بیان کیا،اورقرّان نے موسیٰ بن عبیدہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی،۲-موسیٰ بن عبیدہ ربذی کی کنیت ابوعبدالعزیز ہے،ان کے بارے میں ان کے حافظہ کے سلسلے میں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے کلام کیا ہے،شعبہ،ثوری اور کئی اور ائمہ نے ان سے روایت کی ہے،۳-یہ حدیث حسن غریب ہے،۴-ہم اسے صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔موسیٰ بن عبیدہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف مانے جاتے ہیں،انہیں یحییٰ بن سعید وغیرہ نے ضعیف ٹھہرا یاہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ صُہَيْبٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا صَلَّی الْعَصْرَ ہَمَسَ وَالْہَمْسُ فِي قَوْلِ بَعْضِہِمْ تَحَرُّكُ شَفَتَيْہِ كَأَنَّہُ يَتَكَلَّمُ فَقِيلَ لَہُ إِنَّكَ يَا رَسُولَ اللہِ إِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ ہَمَسْتَ قَالَ إِنَّ نَبِيًّا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أُعْجِبَ بِأُمَّتِہِ فَقَالَ مَنْ يَقُومُ لِہَؤُلَاءِ فَأَوْحَی اللہُ إِلَيْہِ أَنْ خَيِّرْہُمْ بَيْنَ أَنْ أَنْتَقِمَ مِنْہُمْ وَبَيْنَ أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْہِمْ عَدُوَّہُمْ فَاخْتَارُوا النِّقْمَةَ فَسَلَّطَ عَلَيْہِمْ الْمَوْتَ فَمَاتَ مِنْہُمْ فِي يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفًا قَالَ وَكَانَ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِيثِ الْآخَرِ قَالَ كَانَ مَلِكٌ مِنْ الْمُلُوكِ وَكَانَ لِذَلِكَ الْمَلِكِ كَاہِنٌ يَكْہَنُ لَہُ فَقَالَ الْكَاہِنُ انْظُرُوا لِي غُلَامًا فَہِمًا أَوْ قَالَ فَطِنًا لَقِنًا فَأُعَلِّمَہُ عِلْمِي ہَذَا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ أَمُوتَ فَيَنْقَطِعَ مِنْكُمْ ہَذَا الْعِلْمُ وَلَا يَكُونَ فِيكُمْ مَنْ يَعْلَمُہُ قَالَ فَنَظَرُوا لَہُ عَلَی مَا وَصَفَ فَأَمَرُوہُ أَنْ يَحْضُرَ ذَلِكَ الْكَاہِنَ وَأَنْ يَخْتَلِفَ إِلَيْہِ فَجَعَلَ يَخْتَلِفُ إِلَيْہِ وَكَانَ عَلَی طَرِيقِ الْغُلَامِ رَاہِبٌ فِي صَوْمَعَةٍ قَالَ مَعْمَرٌ أَحْسِبُ أَنَّ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ كَانُوا يَوْمَئِذٍ مُسْلِمِينَ قَالَ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَسْأَلُ ذَلِكَ الرَّاہِبَ كُلَّمَا مَرَّ بِہِ فَلَمْ يَزَلْ بِہِ حَتَّی أَخْبَرَہُ فَقَالَ إِنَّمَا أَعْبُدُ اللہَ قَالَ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَمْكُثُ عِنْدَ الرَّاہِبِ وَيُبْطِئُ عَنْ الْكَاہِنِ فَأَرْسَلَ الْكَاہِنُ إِلَی أَہْلِ الْغُلَامِ إِنَّہُ لَا يَكَادُ يَحْضُرُنِي فَأَخْبَرَ الْغُلَامُ الرَّاہِبَ بِذَلِكَ فَقَالَ لَہُ الرَّاہِبُ إِذَا قَالَ لَكَ الْكَاہِنُ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْ عِنْدَ أَہْلِي وَإِذَا قَالَ لَكَ أَہْلُكَ أَيْنَ كُنْتَ فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّكَ كُنْتَ عِنْدَ الْكَاہِنِ قَالَ فَبَيْنَمَا الْغُلَامُ عَلَی ذَلِكَ إِذْ مَرَّ بِجَمَاعَةٍ مِنْ النَّاسِ كَثِيرٍ قَدْ حَبَسَتْہُمْ دَابَّةٌ فَقَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّ تِلْكَ الدَّابَّةَ كَانَتْ أَسَدًا قَالَ فَأَخَذَ الْغُلَامُ حَجَرًا فَقَالَ اللہُمَّ إِنْ كَانَ مَا يَقُولُ الرَّاہِبُ حَقًّا فَأَسْأَلُكَ أَنْ أَقْتُلَہَا قَالَ ثُمَّ رَمَی فَقَتَلَ الدَّابَّةَ فَقَالَ النَّاسُ مَنْ قَتَلَہَا قَالُوا الْغُلَامُ فَفَزِعَ النَّاسُ وَقَالُوا لَقَدْ عَلِمَ ہَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا لَمْ يَعْلَمْہُ أَحَدٌ قَالَ فَسَمِعَ بِہِ أَعْمَی فَقَالَ لَہُ إِنْ أَنْتَ رَدَدْتَ بَصَرِي فَلَكَ كَذَا وَكَذَا قَالَ لَہُ لَا أُرِيدُ مِنْكَ ہَذَا وَلَكِنْ أَرَأَيْتَ إِنْ رَجَعَ إِلَيْكَ بَصَرُكَ أَتُؤْمِنُ بِالَّذِي رَدَّہُ عَلَيْكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَدَعَا اللہَ فَرَدَّ عَلَيْہِ بَصَرَہُ فَآمَنَ الْأَعْمَی فَبَلَغَ الْمَلِكَ أَمْرُہُمْ فَبَعَثَ إِلَيْہِمْ فَأُتِيَ بِہِمْ فَقَالَ لَأَقْتُلَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْكُمْ قِتْلَةً لَا أَقْتُلُ بِہَا صَاحِبَہُ فَأَمَرَ بِالرَّاہِبِ وَالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ أَعْمَی فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ عَلَی مَفْرِقِ أَحَدِہِمَا فَقَتَلَہُ وَقَتَلَ الْآخَرَ بِقِتْلَةٍ أُخْرَی ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُلَامِ فَقَالَ انْطَلِقُوا بِہِ إِلَی جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَأَلْقُوہُ مِنْ رَأْسِہِ فَانْطَلَقُوا بِہِ إِلَی ذَلِكَ الْجَبَلِ فَلَمَّا انْتَہَوْا بِہِ إِلَی ذَلِكَ الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يُلْقُوہُ مِنْہُ جَعَلُوا يَتَہَافَتُونَ مِنْ ذَلِكَ الْجَبَلِ وَيَتَرَدَّوْنَ حَتَّی لَمْ يَبْقَ مِنْہُمْ إِلَّا الْغُلَامُ قَالَ ثُمَّ رَجَعَ فَأَمَرَ بِہِ الْمَلِكُ أَنْ يَنْطَلِقُوا بِہِ إِلَی الْبَحْرِ فَيُلْقُونَہُ فِيہِ فَانْطُلِقَ بِہِ إِلَی الْبَحْرِ فَغَرَّقَ اللہُ الَّذِينَ كَانُوا مَعَہُ وَأَنْجَاہُ فَقَالَ الْغُلَامُ لِلْمَلِكِ إِنَّكَ لَا تَقْتُلُنِي حَتَّی تَصْلُبَنِي وَتَرْمِيَنِي وَتَقُولَ إِذَا رَمَيْتَنِي بِسْمِ اللہِ رَبِّ ہَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَأَمَرَ بِہِ فَصُلِبَ ثُمَّ رَمَاہُ فَقَالَ بِسْمِ اللہِ رَبِّ ہَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَوَضَعَ الْغُلَامُ يَدَہُ عَلَی صُدْغِہِ حِينَ رُمِيَ ثُمَّ مَاتَ فَقَالَ أُنَاسٌ لَقَدْ عَلِمَ ہَذَا الْغُلَامُ عِلْمًا مَا عَلِمَہُ أَحَدٌ فَإِنَّا نُؤْمِنُ بِرَبِّ ہَذَا الْغُلَامِ قَالَ فَقِيلَ لِلْمَلِكِ أَجَزِعْتَ أَنْ خَالَفَكَ ثَلَاثَةٌ فَہَذَا الْعَالَمُ كُلُّہُمْ قَدْ خَالَفُوكَ قَالَ فَخَدَّ أُخْدُودًا ثُمَّ أَلْقَی فِيہَا الْحَطَبَ وَالنَّارَ ثُمَّ جَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِہِ تَرَكْنَاہُ وَمَنْ لَمْ يَرْجِعْ أَلْقَيْنَاہُ فِي ہَذِہِ النَّارِ فَجَعَلَ يُلْقِيہِمْ فِي تِلْكَ الْأُخْدُودِ قَالَ يَقُولُ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی فِيہِ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ حَتَّی بَلَغَ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ قَالَ فَأَمَّا الْغُلَامُ فَإِنَّہُ دُفِنَ فَيُذْكَرُ أَنَّہُ أُخْرِجَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَأُصْبُعُہُ عَلَی صُدْغِہِ كَمَا وَضَعَہَا حِينَ قُتِلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب عصر پڑھتے تھے،توہمس (سرگوشی) کرتے،ہمس بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق اپنے دونوں ہونٹوں کو اس طرح حرکت دینا (ہلانا) ہے گویا کہ وہ باتیں کررہاہے (آخرکار) آپ سے پوچھ ہی لیاگیا،اللہ کے رسول! جب آپ عصر کی صلاۃ پڑھتے ہیں تو آپ دھیرے دھیرے اپنے ہونٹ ہلاتے ہیں (کیا پڑھتے ہیں؟) آپ نے نبیوں میں سے ایک نبی کا قصہ بیان کیا،وہ نبی اپنی امت کی کثرت دیکھ کر بہت خوش ہوئے،اور کہا: ان کے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتاہے؟ اللہ نے اس نبی کو وحی کیا کہ تم اپنی قوم کے لیے دوباتوں میں سے کوئی ایک بات پسند کرلو،یاتومیں ان سے انتقام لوں یا میں ان پر ان کے دشمن کو مسلط کردوں،تو انہوں نے نقمہ (سزا و بدلہ) کو پسند کیا،نتیجۃً اللہ نے ان پر موت مسلط کردی،چنانچہ ایک دن میں ستر ہزار لوگ مرگئے ۱؎۔ صہیب (راوی) کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو اس کے ساتھ آپ نے ایک اور حدیث بھی بیان فرمائی،آپ نے فرمایا: ایک بادشاہ تھا اس باد شاہ کا ایک کاہن تھا،وہ اپنے بادشاہ کو خبریں بتاتاتھا،اس کا ہن نے بادشاہ سے کہا: میرے لیے ایک ہوشیار لڑکا ڈھونڈھ دو،راوی کو یہاں شبہہ ہوگیا کہغلاماً فہما کہا یا فطنا لقنا کہا (معنی تقریباً دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے،)میں اسے اپنا یہ علم سکھادوں،کیوں کہ میں ڈرتاہوں کہ اگر میں مرگیا تو تمہارے پاس سے یہ علم ختم ہوجائے گا اور تم میں کوئی نہ رہ جائے گا جو اس علم سے واقف ہو،آپ فرماتے ہیں:اس نے جن صفات وخصوصیات کا حامل لڑکا بتایا تھا لوگوں نے اس کے لیے ویسا ہی لڑکا ڈھونڈ دیا،لوگوں نے اس لڑکے سے کہا کہ وہ اس کا ہن کے پاس حاضر ہوا کر اوراس کے پاس بار بار آتا جاتا ہے وہ لڑکا اس کا ہن کے پاس آنے جانے لگا،اس لڑکے کے راستے میں ایک عبادت خانہ کے اندر ایک راہب رہاکرتاتھا (ا س حدیث کے ایک راوی) معمر کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں عبادت خانہ کے لوگ اس وقت کے مسلمان تھے،وہ لڑکا جب بھی اس راہب کے پاس سے گزرتا دین کی کچھ نہ کچھ باتیں اس سے پوچھا کرتا،یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس لڑکے نے راہب کو اپنے متعلق خبردی،کہا: میں اللہ کی عبادت کرنے لگاہوں وہ لڑکا راہب کے پاس زیادہ سے زیادہ دیر تک بیٹھنے اور رکنے لگا اور کاہن کے پاس آنا جانا کم کردیا،کا ہن نے لڑکے والوں کے یہاں کہلا بھیجا کہ لگتا ہے لڑکا اب میرے پاس نہ آیاجایا کرے گا،لڑکے نے راہب کو بھی یہ بات بتادی،راہب نے لڑکے سے کہا کہ جب کاہن تم سے پوچھے کہاں تھے؟ تو کہہ دیا کرو گھروالوں کے پاس تھا،اور جب تیرے گھر والے کہیں کہ تو کہاں تھا؟ تو ان کو بتایا کہ تم کاہن کے پاس تھے،راوی کہتے ہیں: غلام کے دن ایسے ہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن لڑکے کا گزر لوگوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پر ہواجنہیں ایک جانور نے روک رکھاتھا،بعض لوگوں نے کہا کہ وہ چوپایہ شیر تھا،لڑکے نے یہ کیاکہ ایک پتھر اٹھایا اور کہا: اے اللہ! راہب جو کہتا ہے اگروہ سچ ہے تو میں تجھ سے اسے قتل کردینے کی توفیق چاہتاہوں،یہ کہہ کر اس نے اسے پتھر مارا اور جانور کو ہلاک کردیا،لوگوں نے پوچھا: اسے کس نے مارا؟ جنہوں نے دیکھا تھا،انہوں نے کہا: فلاں لڑکے نے،یہ سن کر لوگ اچنبھے میں پڑ گئے،لوگوں نے کہا: اس لڑکے نے ایسا علم سیکھا ہے جسے کوئی دوسرا نہیں جانتا،یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اس نے لڑکے سے کہا: اگر تومیری بینائی واپس لادے تو میں تجھے یہ دوں گا،لڑکے نے کہا: میں تجھ سے یہ سب چیزیں نہیں مانگتا تو یہ بتا اگر تیری بینائی تجھے واپس مل گئی تو کیا تو اپنی بینا ئی عطاکرنے والے پر ایمان لے آئے گا؟ اس نے کہا: ہاں۔(بالکل ایمان لے آؤں گا)۔ راوی کہتے ہیں: لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس کی بینائی واپس لوٹا دی،یہ دیکھ کر اندھا ایمان لے آیا،ان کامعاملہ بادشاہ تک پہنچ گیا،اس نے انہیں بلابھیجا تو انہیں لاکر حاضر کیاگیا،اس نے ان سے کہا: میں تم سب کو الگ الگ طریقوں سے قتل کرڈالوں گا،پھراس نے راہب کو اور اس شخص کو جو پہلے اندھا تھا قتل کرڈالنے کا حکم دیا،ان میں سے ایک کے سرکے بیچوں بیچ (مانگ) پر آرا رکھ کر چیر دیا گیا اور دوسرے کو دوسرے طریقے سے قتل کردیاگیا،پھر لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے ایسے پہاڑ پر لے جاؤ جو ایسا ایسا ہو اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر سے نیچے پھینک دو چنانچہ لوگ اسے اس خاص پہاڑ پر لے گئے اورجب اس آخری جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے وہ لوگ اسے پھینک دینا چاہتے تھے،تو وہ خود ہی اس پہاڑ سے لڑھک لڑھک کرگرنے لگے،یہاں تک کہ صرف لڑکاباقی بچا،پھرجب وہ واپس آیا توبادشاہ نے اس کے متعلق پھر حکم دیاکہ اسے سمندر میں لے جاؤ،اور اسے اس میں ڈبوکر آجاؤ،اسے سمندر پر لے جایاگیا تو اللہ نے ان سب کو جو اس لڑکے کے ساتھ گئے ہوئے تھے ڈبودیا،اور خود لڑکے کو بچالیا،(لڑکا بچ کر پھر بادشاہ کے پاس آیا) اور اس سے کہا: تم مجھے اس طرح سے مار نہ سکو گے إلا یہ کہ تم مجھے سولی پر لٹکا دو اور مجھے تیر مارو،اور تیر مارتے وقت کہو اس اللہ کے نام سے میں تیر چلارہاہوں جو اس لڑکے کارب ہے،بادشاہ نے اس لڑکے کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا،لڑکا سولی پر لٹکادیا گیا پھر بادشاہ نے اس پر تیر مارا،اور تیر مارتے ہوئے کہا: بسم اللہ رب ھذا الغلام بادشاہ نے تیر چلایاتو لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھ لیا پھر مرگیا(شہید)ہوگیا،لوگ بول اٹھے اس لڑکے کو ایسا علم حاصل تھا جو کسی اور کو معلوم نہیں،ہم تو اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں،آپ نے فرمایا: بادشاہ سے کہاگیا کہ آپ تو تین ہی آدمیوں سے گھبرا گئے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی،اب تو یہ سارے کے سارے لوگ ہی آپ کے خلاف ہوگئے ہیں (اب کیا کریں گے؟) آپ نے فرمایا: اس نے کئی ایک کھائیاں (گڈھے) کھود وائے اوراس میں لکڑیاں ڈلوادیں اور آگ بھڑکا دی،لوگوں کو اکٹھا کرکے کہا: جو اپنے (نئے) دین سے پھر جائے گا اسے ہم چھوڑ دیں گے اور جو اپنے دین سے نہ پلٹے گا ہم اسے اس آگ میں جھونک دیں گے،پھر وہ انہیں ان گڈھوں میں ڈالنے لگا،آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے متعلق فرماتاہے(پھرآپ نے آیت قُتِلَ أَصْحَابُ الأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ سے لے کر وَمَا نَقَمُوا مِنْہُمْ إِلا أَن یُؤْمِنُوا بِاللہِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ تک پڑھی ۲؎۔ راوی کہتے ہیں: لڑکا (سولی پر لٹکا کر قتل کردیے جانے کے بعد) دفن کردیا گیا تھا،کہاجاتاہے کہ وہ لڑکا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں زمین سے نکالا گیا،اس کی انگلیاں اس کی کنپٹی پر اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح اس نے اپنے قتل ہوتے وقت رکھاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی يَقُولُوا لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ فَإِذَا قَالُوہَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ ثُمَّ قَرَأَ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْہِمْ بِمُصَيْطِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم ملاہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں (جنگ جاری رکھو) جب تک کہ لوگ لا إلہ إلا اللہ کہنے نہ لگ جائیں،جب لوگ اس کلمے کو کہنے لگ جائیں تووہ اپنے خون اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیں گے،سوائے اس صورت کے جب کہ جان ومال دینا حق بن جائے تو پھردینا ہی پڑے گا،اور ان کا (حقیقی) حساب تو اللہ ہی لے گا،پھر آپ نے آیت إِنَّمَا أَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ۱؎ پڑھی ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَأَبُو دَاوُدَ قَالَا حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عِصَامٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَةِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ فَقَالَ ہِيَ الصَّلَاةُ بَعْضُہَا شَفْعٌ وَبَعْضُہَا وِتْرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ وَقَدْ رَوَاہُ خَالِدُ بْنُ قَيْسٍ الْحُدَّانِيُّ عَنْ قَتَادَةَ أَيْضًا

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ سے شفع اور وتر کے بارے میں پوچھاگیا کہ شفع (جفت) اور وتر(طاق) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: اس سے مراد صلاۃ ہے،بعض صلاتیں شفع (جفت) ہیں اور بعض صلاتیں وتر(طاق) ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳-خالد بن قیس حدانی نے بھی اسے قتادہ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَمْعَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَوْمًا يَذْكُرُ النَّاقَةَ وَالَّذِي عَقَرَہَا فَقَالَ إِذْ انْبَعَثَ أَشْقَاہَا انْبَعَثَ لَہَا رَجُلٌ عَارِمٌ عَزِيزٌ مَنِيعٌ فِي رَہْطِہِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ ثُمَّ سَمِعْتُہُ يَذْكُرُ النِّسَاءَ فَقَالَ إِلَامَ يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَہُ جَلْدَ الْعَبْدِ وَلَعَلَّہُ أَنْ يُضَاجِعَہَا مِنْ آخِرِ يَوْمِہِ قَالَ ثُمَّ وَعَظَہُمْ فِي ضَحِكِہِمْ مِنْ الضَّرْطَةِ فَقَالَ إِلَامَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح علیہ السلام کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا،آپ نے یہ آیت إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاہَا انْبَعَثَ تلاوت کی،اس کا م کے لیے ایک شرِّ سخت دل طاقتور،قبیلے کا قوی ومضبوط شخص اٹھا،مضبوط وقوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں،پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا،آپ نے فرمایا: آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی،انہوں نے کہا: پھر آپ نے کسی کے ہوا خارج ہوجانے پر ان کے ہنسنے پر انہیں نصیحت کی،آپ نے فرمایا: آخرتم میں کاکوئی کیوں ہنستا (ومذاق اڑاتا) ہے جب کہ وہ خود بھی وہی کام کرتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي الْبَقِيعِ فَأَتَی النَّبِيُّ ﷺ فَجَلَسَ وَجَلَسْنَا مَعَہُ وَمَعَہُ عُودٌ يَنْكُتُ بِہِ فِي الْأَرْضِ فَرَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَاءِ فَقَالَ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا قَدْ كُتِبَ مَدْخَلُہَا فَقَالَ الْقَوْمُ يَا رَسُولَ اللہِ أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَی كِتَابِنَا فَمَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّہُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ الشَّقَاءِ فَإِنَّہُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ قَالَ بَلْ اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّہُ يُيَسَّرُ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ الشَّقَاءِ فَإِنَّہُ يُيَسَّرُ لِعَمَلِ الشَّقَاءِ ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی فَسَنُيَسِّرُہُ لِلْيُسْرَی وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَی وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَی فَسَنُيَسِّرُہُ لِلْعُسْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم (قبرستان) بقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے،نبی اکرم ﷺ بھی تشریف لے آئے،آپ بیٹھ گئے،ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ بیٹھ گئے،آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی،آپ اس سے زمین کرید نے لگے،پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایااورفرمایا: ہرمتنفس کاٹھکانہ (جنت یا جہنم) پہلے سے لکھ دیاگیاہے،لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہ ہم اپنے نوشتہ(تقدیر) پر اعتماد وبھروسہ کرکے بیٹھ رہیں؟ جو اہل سعادہ نیک بختوں میں سے ہوگا وہ نیک بختی ہی کے کام کرے گا،اور جو بد بختوں میں سے ہوگا وہ بدبختی ہی کے کام کرے گا،آپﷺنے فرمایا:نہیں بلکہ عمل کرو،کیونکہ ہر ایک کو توفیق ملے گی،جو نیک بختوں میں سے ہوگا،اس کے لیے نیک بختی کے کام آسان ہوں گے اور جو بدبختوں میں سے ہوگا اس کے لیے بدبختی کے کام آسان ہوں گے،پھر آپ نے (سورہ واللیل کی) آیت فَأَمَّا مَنْ أَعْطَی وَاتَّقَی وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَی فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرَی وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَی وَکَذَّبَ بِالْحُسْنَی فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرَی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ إِذْ سَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ أَحَدٌ بَيْنَ الثَّلَاثَةِ فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَہَبٍ فِيہَا مَاءُ زَمْزَمَ فَشَرَحَ صَدْرِي إِلَی كَذَا وَكَذَا قَالَ قَتَادَةُ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ مَا يَعْنِي قَالَ إِلَی أَسْفَلِ بَطْنِي فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِي فَغُسِلَ قَلْبِي بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ أُعِيدَ مَكَانَہُ ثُمَّ حُشِيَ إِيمَانًا وَحِكْمَةً وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ وَفِيہِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہاتھا اور کچھ جاگ رہاتھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی،وہ کہہ رہا تھاتین آدمیوں میں سے ایک (محمدہیں) ۱؎،پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایاگیا،اس میں زمزم کا پانی تھا،اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک،قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا:پیٹ کے نیچے تک،پھرآپ نے فرمایا: اس نے میرادل نکالا،پھر اس نے میرے دل کو زمزم سے دھویا،پھر دل کو اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا اور ایمان وحکمت سے اسے بھر دیاگیا ۲؎ اس حدیث میں ایک لمبا قصہ ہے ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۲-اسے ہشام دستوائی اورہمام نے قتادہ سے روایت کیا ہے،۳-اس باب میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ انْتَہَی إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ يَقْرَأُ أَلْہَاكُمْ التَّكَاثُرُ قَالَ يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِي مَالِي وَہَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَن صَحِيحٌ

شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ آیت أَلْہَاکُمْ التَّکَاثُرُ ۱؎ تلاوت فرمارہے تھے،آپ نے فرمایا: ابن آدم میرا مال،میرامال کہے جاتاہے (اسی ہوس وفکر میں مراجاتا ہے) مگر بتاؤ تو تمہیں اس سے زیادہ کیا ملا جو تم نے صدقہ دے دیا اور آگے بھیج دیا یا کھا کر ختم کردیا یا پہن کر بوسیدہ کردیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ الرَّازِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ مَا زِلْنَا نَشُكُّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَتَّی نَزَلَتْ أَلْہَاكُمْ التَّكَاثُرُ قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ مَرَّةً عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قَيْسٍ ہُوَ رَازِيٌّ وَعَمْرُو بْنُ قَيْسٍ الْمُلَائِيُّ كُوفِيٌّ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم عذاب قبر کے بارے میں برابر شک میں رہے،یہاں تک کہ سورہ أَلْہَاکُمْ التَّکَاثُرُ نازل ہوئی،تو ہمیں اس پر یقین حاصل ہوا۔ ابوکریب کبھی عمرو بن ابی قیس کہتے ہیں،تو یہ عمروبن قیس رازی ہیں-اور عمر وبن قیس ملائی کوفی ہیں اور یہ ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں: اوروہ (ابن ابی لیلیٰ) روایت کرتے ہیں منہال بن عمرو سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِيمِ قَالَ الزُّبَيْرُ يَا رَسُولَ اللہِ فَأَيُّ النَّعِيمِ نُسْأَلُ عَنْہُ وَإِنَّمَا ہُمَا الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ قَالَ أَمَا إِنَّہُ سَيَكُونُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِیمِ ۱؎ نازل ہوئی تو زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ ہمیں تو صرف دوہی (کالی) نعمتیں حاصل ہیں،ایک کھجور اور دوسرے پانی ۲؎ آپ نے فرمایا: عنقریب وہ بھی ہوجائیں گی۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِيمِ قَالَ الزُّبَيْرُ يَا رَسُولَ اللہِ فَأَيُّ النَّعِيمِ نُسْأَلُ عَنْہُ وَإِنَّمَا ہُمَا الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ قَالَ أَمَا إِنَّہُ سَيَكُونُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھاجائے گا؟ وہ تو صرف یہی دوسیاہ چیزیں ہیں (ایک کھجور دوسرا پانی) (ہمارا) دشمن (سامنے) حاضر وموجود ہے اور ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں ۱؎۔آپ نے فرمایا: (تمہیں ابھی معلوم نہیں) عنقریب ایسا ہوگا (کہ تمہارے پاس نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث سے زیادہ صحیح میرے نزدیک ابن عیینہ کی وہ حدیث ہے جسے وہ محمد بن عمر سے روایت کرتے ہیں،(یعنی پچھلی روایت) سفیان بن عیینہ ابوبکر بن عیاش کے مقابلے میں حدیث کو زیادہ یادرکھنے اور زیادہ صحت کے ساتھ بیان کرنے والے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْعَلَاءِ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَمٍ الْأَشْعَرِيِّ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي الْعَبْدَ مِنْ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَہُ أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنْ الْمَاءِ الْبَارِدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَالضَّحَّاكُ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَبٍ وَيُقَالُ ابْنُ عَرْزَمٍ وَابْنُ عَرْزَمٍ أَصَحُّ

ضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزم اشعری کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جن نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،(وہ یہ ہیں) اس سے کہا جائے گا: کیا میں نے تمہارے لیے تمہارے جسم کو تندرست اور ٹھیک ٹھاک نہ رکھا اور تمہیں ٹھنڈا پانی نہ پلاتا رہا؟۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ضحاک،یہ بیٹے ہیں عبدالرحمٰن بن عرزب کے،اور انہیں ابن عرزم بھی کہا جاتاہے اور ابن عرزم کہنا زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ ہُوَ نَہْرٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ رَأَيْتُ نَہْرًا فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاہُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ قُلْتُ مَا ہَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ ہَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ارشادباری إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: وہ ایک نہر ہے جنت میں جس کے دونوں کناروں پرموتی کے گنبدبنے ہوئے ہیں،میں نے کہا: جبرئیل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ وہ کوثر ہے جوا للہ نے آپ کو دی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَيْنَا أَنَا أَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذْ عُرِضَ لِي نَہْرٌ حَافَّتَاہُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ قُلْتُ لِلْمَلَكِ مَا ہَذَا قَالَ ہَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَہُ اللہُ قَالَ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِہِ إِلَی طِينَةٍ فَاسْتَخْرَجَ مِسْكًا ثُمَّ رُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ الْمُنْتَہَی فَرَأَيْتُ عِنْدَہَا نُورًا عَظِيمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں جنت میںچلا جارہاتھاکہ اچانک میرے سامنے ایک نہر پیش کی گئی جس کے دونوں کناروں پر موتی کے گنبدبنے ہوئے تھے،میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کیاہے؟ انہوں نے کہا: یہی وہ کوثر ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔پھر انہوں نے اپنا ہاتھ مٹی تک ڈال دیا،نکالا تو وہ مشک کی طرح مہک رہی تھی،پھر میرے سامنے سدرۃ المنتہی لاکر پیش کی گئی،میں نے وہاں بہت زیادہ نور (نور عظیم) دیکھا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْكَوْثَرُ نَہْرٌ فِي الْجَنَّةِ حَافَّتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ وَمَجْرَاہُ عَلَی الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ تُرْبَتُہُ أَطْيَبُ مِنْ الْمِسْكِ وَمَاؤُہُ أَحْلَی مِنْ الْعَسَلِ وَأَبْيَضُ مِنْ الثَّلْجِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الکوثر جنت میں ایک نہر ہے،اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں،اس کے پانی کا گزر موتیوں اور یاقوت پرہوتاہے،اس کی مٹی مشک سے بھی زیادہ خوشبودار ہے اور اس کاپانی شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہے اور برف سے بھی زیادہ سفید ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَی اللہِ تَعَالَی مِنْ الدُّعَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ وَعِمْرَانُ الْقَطَّانُ ہُوَ ابْنُ دَاوَرَ وَيُكْنَی أَبَا الْعَوَّامِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز ومکرم کوئی چیز(عبادت) نہیں ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے مرفوع صرف عمران قطان کی روایت سے جانتے ہیں،عمران القطان یہ ابن داور ہیں اور ان کی کنیت ابوالعوام ہے۔عبدالرحمٰن بن مہدی نے عمران القطان سے اسی طرح اسی سند سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ ابْنِ لَہِيعَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دعا عبادت کامغز (حاصل ونچوڑ) ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ ذَرٍّ عَنْ يُسَيْعٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَةُ ثُمَّ قَرَأَ وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ مَنْصُورٌ وَالْأَعْمَشُ عَنْ ذَرٍّ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ذَرٍّ ہُوَ ذَرُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْہَمْدَانِيُّ ثِقَةٌ وَالِدُ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے،پھر آپ نے آیت:وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِینَ ۱؎ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-منصور نے یہ حدیث اعمش سے اور اعمش نے ذر سے روایت کی ہے،ہم اسے صرف ذر کی روایت سے جانتے ہیں،یہ ذر بن عبداللہ ہمدانی ہیں ثقہ ہیں،عمر بن ذر کے والد ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ لَمْ يَسْأَلْ اللہَ يَغْضَبْ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ ہَذَا الْحَدِيثَ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو الْمَلِيحِ اسْمُہُ صَبِيحٌ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُہُ وَقَالَ يُقَالُ لَہُ الْفَارِسِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ حُمَيْدٍ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ۱؎ اللہ اس سے ناراض اورناخوش ہوتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع اور کئی راویوں نے یہ حدیث ابوالملیح سے روایت کی ہے،ہم اسے صر ف اسی سند سے جانتے ہیں،ابوالملیح کانام صبیح ہے،میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ایسا ہی کہتے ہوئے سنا ہے،انہوں نے کہا کہ انہیں فارسی بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي غَزَاةٍ فَلَمَّا قَفَلْنَا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِينَةِ فَكَبَّرَ النَّاسُ تَكْبِيرَةً وَرَفَعُوا بِہَا أَصْوَاتَہُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَصَمَّ وَلَا غَائِبٍ ہُوَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رُءُوسِ رِحَالِكُمْ ثُمَّ قَالَ يَا عَبْدَ اللہِ بْنَ قَيْسٍ أَلَا أُعَلِّمُكَ كَنْزًا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّہْدِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ عِيسَی

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب وغیرحاضر ہے،وہ تمہارے درمیان موجو دہے،وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا: عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۱؎ (جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابوعثمان نہدی کانام عبدالرحمٰن بن مل ہے اور ابونعامہ سعدی کانام عمرو بن عیسیٰ ہے۔اس سندسے ابوالملیح نے ابوصالح سے،اور ابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِہِ قَالَ لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! اسلام کے احکام وقوانین تو میرے لیے بہت ہیں،کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتادیجئے جن پر میں (مضبوطی) سے جما رہوں،آپ نے فرمایا: تمہاری زبان ہروقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تررہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْعُو بِدُعَاءٍ إِلَّا آتَاہُ اللہُ مَا سَأَلَ أَوْ كَفَّ عَنْہُ مِنْ السُّوءِ مِثْلَہُ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: جو کوئی بندہ اللہ سے دعاکرکے مانگتا ہے اللہ اسے یاتو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتاہے،یا اس دعا کے نتیجہ میں اس دعا کے مثل اس پر آئی ہوئی مصیبت دور کردیتاہے،جب تک اس نے کسی گناہ یا قطع رحمی (رشتہ ناتا توڑنے) کی دعا نہ کی ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوسعید خدری اور عبادہ بن صامت سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَطِيَّةَ اللَّيْثِيُّ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ سَرَّہُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللہُ لَہُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكَرْبِ فَلْيُكْثِرْ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جسے اچھا لگے (اور پسند آئے) کہ مصائب ومشکلات (اور تکلیف دہ حالات) میں اللہ اس کی دعائیں قبول کرے،تو اسے کشادگی وفراخی کی حالت میں کثرت سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ قَال سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ قَال سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ أَفْضَلُ الذِّكْرِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ الْحَمْدُ لِلَّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ إِبْرَاہِيمَ وَقَدْ رَوَی عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُوسَی بْنِ إِبْرَاہِيمَ ہَذَا الْحَدِيثَ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: سب سے بہترذکر لاإلہ إلا اللہ ہے،اور بہترین دعا الحمد للہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں،۲-علی بن مدینی اور کئی نے یہ حدیث موسیٰ بن ابراہیم سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ الْبَہِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَذْكُرُ اللہَ عَلَی كُلِّ أَحْيَانِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ وَالْبَہِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ ہروقت اللہ کو یاد کرتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف یحییٰ بن زکریا بن أبی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ عِيسَی الْجُہَنِيُّ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَفَعَ يَدَيْہِ فِي الدُّعَاءِ لَمْ يَحُطَّہُمَا حَتَّی يَمْسَحَ بِہِمَا وَجْہَہُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی فِي حَدِيثِہِ لَمْ يَرُدَّہُمَا حَتَّی يَمْسَحَ بِہِمَا وَجْہَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ عِيسَی وَقَدْ تَفَرَّدَ بِہِ وَہُوَ قَلِيلُ الْحَدِيثِ وَقَدْ حَدَّثَ عَنْہُ النَّاسُ وَحَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيُّ ثِقَةٌ وَثَّقَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ دعا میں ہاتھ اٹھا تے تھے تو جب تک اپنے دونوں ہاتھ منہ پر پھیر نہ لیتے انہیں نیچے نہ گراتے تھے،محمد بن مثنیٰ اپنی روایت میں کہتے ہیں:آپ دونوں ہاتھ جب دعا کے لیے اٹھاتے تو انہیں اس وقت تک واپس نہ لاتے جب تک کہ دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر نہ لیتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف حماد بن عیسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-حماد بن عیسیٰ نے اسے تنہا روایت کیاہے،اور یہ بہت کم حدیثیں بیان کرتے ہیں،ان سے کئی لوگوں نے روایت لی ہے،۳-حنظلہ ابن ابی سفیان جمحی ثقہ ہیں،انہیں یحییٰ بن سعید قطان نے ثقہ کہا ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَی ابْنِ أَزْہَرَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ يَقُولُ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عُبَيْدٍ اسْمُہُ سَعْدٌ وَہُوَ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْہَرَ وَيُقَالُ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَزْہَرَ ہُوَ ابْنُ عَمِّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہرکسی کی دعا قبول کی جاتی ہے،جب تک کہ وہ جلدی نہ مچائے (جلدی یہ ہے کہ) وہ کہنے لگتا ہے: میں نے دعا کی مگروہ قبول نہ ہوئی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي رِزْمَةَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ ہَانِئٍ قَالَ حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ تَعَارَّ مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَسُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ ثُمَّ قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي أَوْ قَالَ ثُمَّ دَعَا اسْتُجِيبَ لَہُ فَإِنْ عَزَمَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّی قُبِلَتْ صَلَاتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی نیندسے جاگے پھر کہے لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۱؎،پھرکہے رَبِّ اغْفِرْ لِی اے میرے رب ہمیں بخش دے،یا آپ نے کہا: پھروہ دعا کرے تواس کی دعا قبول کی جائے گی،پھر اگر اس نے ہمت کی اور وضو کیا پھر صلاۃ پڑھی تو اس کی صلاۃ مقبول ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ كَانَ عُمَيْرُ بْنُ ہَانِئٍ يُصَلِّي كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ سَجْدَةٍ وَيُسَبِّحُ مِائَةَ أَلْفِ تَسْبِيحَةٍ

مسلمہ بن عمرو کہتے ہیں کہ عمیر بن ہانی ۱؎ ہردن ہزار رکعتیں صلاۃ پڑھتے تھے،اور سوہزار (یعنی ایک لاکھ) تسبیحات پڑھتے تھے،یعنی سبحان اللہ کہتے تھے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ وَوَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ وَعَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالُوا حَدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ كَعْبٍ الْأَسْلَمِيُّ قَالَ كُنْتُ أَبِيتُ عِنْدَ بَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَأُعْطِيہِ وَضُوءَہُ فَأَسْمَعُہُ الْہَوِيَّ مِنْ اللَّيْلِ يَقُولُ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ وَأَسْمَعُہُ الْہَوِيَّ مِنْ اللَّيْلِ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے دروازے کے پاس سوتا تھا،اور آپ کو وضو کا پانی دیاکرتاتھا،میں آپ کو سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہتے ہوئے سنتا تھا،نیز میں آپ کو الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ پڑھتے ہوئے سنتا تھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ يَقُولُ اللہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيہِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللہُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَہِي لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات میں تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے: اللہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَیَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِیہِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ اللہُمَّ لَکَ أَسْلَمْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْکَ أَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَإِلَیْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَاأَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَہِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس سے آئی ہے،اوروہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي لَيْلَی حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعْتُ نَبِيَّ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَيْلَةً حِينَ فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِكَ تَہْدِي بِہَا قَلْبِي وَتَجْمَعُ بِہَا أَمْرِي وَتَلُمُّ بِہَا شَعَثِي وَتُصْلِحُ بِہَا غَائِبِي وَتَرْفَعُ بِہَا شَاہِدِي وَتُزَكِّي بِہَا عَمَلِي وَتُلْہِمُنِي بِہَا رُشْدِي وَتَرُدُّ بِہَا أُلْفَتِي وَتَعْصِمُنِي بِہَا مِنْ كُلِّ سُوءٍ اللہُمَّ أَعْطِنِي إِيمَانًا وَيَقِينًا لَيْسَ بَعْدَہُ كُفْرٌ وَرَحْمَةً أَنَالُ بِہَا شَرَفَ كَرَامَتِكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْفَوْزَ فِي الْعَطَاءِ وَنُزُلَ الشُّہَدَاءِ وَعَيْشَ السُّعَدَاءِ وَالنَّصْرَ عَلَی الْأَعْدَاءِ اللہُمَّ إِنِّي أُنْزِلُ بِكَ حَاجَتِي وَإِنْ قَصُرَ رَأْيِي وَضَعُفَ عَمَلِي افْتَقَرْتُ إِلَی رَحْمَتِكَ فَأَسْأَلُكَ يَا قَاضِيَ الْأُمُورِ وَيَا شَافِيَ الصُّدُورِ كَمَا تُجِيرُ بَيْنَ الْبُحُورِ أَنْ تُجِيرَنِي مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ وَمِنْ دَعْوَةِ الثُّبُورِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْقُبُورِ اللہُمَّ مَا قَصُرَ عَنْہُ رَأْيِي وَلَمْ تَبْلُغْہُ نِيَّتِي وَلَمْ تَبْلُغْہُ مَسْأَلَتِي مِنْ خَيْرٍ وَعَدْتَہُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ أَوْ خَيْرٍ أَنْتَ مُعْطِيہِ أَحَدًا مِنْ عِبَادِكَ فَإِنِّي أَرْغَبُ إِلَيْكَ فِيہِ وَأَسْأَلُكَہُ بِرَحْمَتِكَ رَبَّ الْعَالَمِينَ اللہُمَّ ذَا الْحَبْلِ الشَّدِيدِ وَالْأَمْرِ الرَّشِيدِ أَسْأَلُكَ الْأَمْنَ يَوْمَ الْوَعِيدِ وَالْجَنَّةَ يَوْمَ الْخُلُودِ مَعَ الْمُقَرَّبِينَ الشُّہُودِ الرُّكَّعِ السُّجُودِ الْمُوفِينَ بِالْعُہُودِ إِنَّكَ رَحِيمٌ وَدُودٌ وَأَنْتَ تَفْعَلُ مَا تُرِيدُ اللہُمَّ اجْعَلْنَا ہَادِينَ مُہْتَدِينَ غَيْرَ ضَالِّينَ وَلَا مُضِلِّينَ سِلْمًا لِأَوْلِيَائِكَ وَعَدُوًّا لِأَعْدَائِكَ نُحِبُّ بِحُبِّكَ مَنْ أَحَبَّكَ وَنُعَادِي بِعَدَاوَتِكَ مَنْ خَالَفَكَ اللہُمَّ ہَذَا الدُّعَاءُ وَعَلَيْكَ الْإِجَابَةُ وَہَذَا الْجُہْدُ وَعَلَيْكَ التُّكْلَانُ اللہُمَّ اجْعَلْ لِي نُورًا فِي قَلْبِي وَنُورًا فِي قَبْرِي وَنُورًا مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَنُورًا مِنْ خَلْفِي وَنُورًا عَنْ يَمِينِي وَنُورًا عَنْ شِمَالِي وَنُورًا مِنْ فَوْقِي وَنُورًا مِنْ تَحْتِي وَنُورًا فِي سَمْعِي وَنُورًا فِي بَصَرِي وَنُورًا فِي شَعْرِي وَنُورًا فِي بَشَرِي وَنُورًا فِي لَحْمِي وَنُورًا فِي دَمِي وَنُورًا فِي عِظَامِي اللہُمَّ أَعْظِمْ لِي نُورًا وَأَعْطِنِي نُورًا وَاجْعَلْ لِي نُورًا سُبْحَانَ الَّذِي تَعَطَّفَ الْعِزَّ وَقَالَ بِہِ سُبْحَانَ الَّذِي لَبِسَ الْمَجْدَ وَتَكَرَّمَ بِہِ سُبْحَانَ الَّذِي لَا يَنْبَغِي التَّسْبِيحُ إِلَّا لَہُ سُبْحَانَ ذِي الْفَضْلِ وَالنِّعَمِ سُبْحَانَ ذِي الْمَجْدِ وَالْكَرَمِ سُبْحَانَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَی إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بَعْضَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَذْكُرْہُ بِطُولِہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک رات صلاۃ (تہجد) سے فارغ ہوکر پڑھتے ہوئے سنا (آپ پڑھ رہے تھے): اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ رَحْمَۃً مِنْ عِنْدِکَ تَہْدِی بِہَا قَلْبِی وَتَجْمَعُ بِہَا أَمْرِی وَتَلُمُّ بِہَا شَعَثِی وَتُصْلِحُ بِہَا غَائِبِی وَتَرْفَعُ بِہَا شَاہِدِی وَتُزَکِّی بِہَا عَمَلِی وَتُلْہِمُنِی بِہَا رُشْدِی وَتَرُدُّ بِہَا أُلْفَتِی وَتَعْصِمُنِی بِہَا مِنْ کُلِّ سُوئٍ اللہُمَّ أَعْطِنِی إِیمَانًا وَیَقِینًا لَیْسَ بَعْدَہُ کُفْرٌ وَرَحْمَۃً أَنَالُ بِہَا شَرَفَ کَرَامَتِکَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْفَوْزَ فِی الْعَطَائِ وَنُزُلَ الشُّہَدَائِ وَعَیْشَ السُّعَدَائِ وَالنَّصْرَ عَلَی الأَعْدَائِ اللہُمَّ إِنِّی أُنْزِلُ بِکَ حَاجَتِی وَإِنْ قَصُرَ رَأْیِی وَضَعُفَ عَمَلِی افْتَقَرْتُ إِلَی رَحْمَتِکَ فَأَسْأَلُکَ یَا قَاضِیَ الأُمُورِ وَیَا شَافِیَ الصُّدُورِ کَمَا تُجِیرُ بَیْنَ الْبُحُورِ أَنْ تُجِیرَنِی مِنْ عَذَابِ السَّعِیرِ وَمِنْ دَعْوَۃِ الثُّبُورِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْقُبُورِ اللہُمَّ مَا قَصُرَ عَنْہُ رَأْیِی وَلَمْ تَبْلُغْہُ نِیَّتِی وَلَمْ تَبْلُغْہُ مَسْأَلَتِی مِنْ خَیْرٍ وَعَدْتَہُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ أَوْ خَیْرٍ أَنْتَ مُعْطِیہِ أَحَدًا مِنْ عِبَادِکَ فَإِنِّی أَرْغَبُ إِلَیْکَ فِیہِ وَأَسْأَلُکَہُ بِرَحْمَتِکَ رَبَّ الْعَالَمِینَ اللہُمَّ ذَا الْحَبْلِ الشَّدِیدِ وَالأَمْرِ الرَّشِیدِ أَسْأَلُکَ الأَمْنَ یَوْمَ الْوَعِیدِ وَالْجَنَّۃَ یَوْمَ الْخُلُودِ مَعَ الْمُقَرَّبِینَ الشُّہُودِ الرُّکَّعِ السُّجُودِ الْمُوفِینَ بِالْعُہُودِ إِنَّکَ رَحِیمٌ وَدُودٌ وَأَنْتَ تَفْعَلُ مَا تُرِیدُ اللہُمَّ اجْعَلْنَا ہَادِینَ مُہْتَدِینَ غَیْرَ ضَالِّینَ وَلاَ مُضِلِّینَ سِلْمًا لأَوْلِیَائِکَ وَعَدُوًّا لأَعْدَائِکَ نُحِبُّ بِحُبِّکَ مَنْ أَحَبَّکَ وَنُعَادِی بِعَدَاوَتِکَ مَنْ خَالَفَکَ اللہُمَّ ہَذَا الدُّعَائُ وَعَلَیْکَ الإِجَابَۃُ وَہَذَا الْجُہْدُ وَعَلَیْکَ التُّکْلاَنُ اللہُمَّ اجْعَلْ لِی نُورًا فِی قَلْبِی وَنُورًا فِی قَبْرِی وَنُورًا مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَنُورًا مِنْ خَلْفِی وَنُورًا عَنْ یَمِینِی وَنُورًا عَنْ شِمَالِی وَنُورًا مِنْ فَوْقِی وَنُورًا مِنْ تَحْتِی وَنُورًا فِی سَمْعِی وَنُورًا فِی بَصَرِی وَنُورًا فِی شَعْرِی وَنُورًا فِی بَشَرِی وَنُورًا فِی لَحْمِی وَنُورًا فِی دَمِی وَنُورًا فِی عِظَامِی اللہُمَّ أَعْظِمْ لِی نُورًا وَأَعْطِنِی نُورًا وَاجْعَلْ لِی نُورًا سُبْحَانَ الَّذِی تَعَطَّفَ الْعِزَّ وَقَالَ بِہِ سُبْحَانَ الَّذِی لَبِسَ الْمَجْدَ وَتَکَرَّمَ بِہِ سُبْحَانَ الَّذِی لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إِلاَّ لَہُ سُبْحَانَ ذِی الْفَضْلِ وَالنِّعَمِ سُبْحَانَ ذِی الْمَجْدِ وَالْکَرَمِ سُبْحَانَ ذِی الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے ابن ابی لیلیٰ کی روایت سے اسی سند سے جانتے ہیں،۲-شعبہ اورسفیان ثوری نے سلمہ بن کہیل سے،سلمہ نے کریب سے،اور کریب نے ابن عباس کے واسطہ سے،نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کے بعض حصوں کی روایت کی ہے،انہوں نے یہ پوری لمبی حدیث ذکر نہیں کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُنَيْسٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ قَالَ قَالَ لِي ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ رَأَيْتُنِي اللَّيْلَةَ وَأَنَا نَائِمٌ كَأَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي خَلْفَ شَجَرَةٍ فَسَجَدْتُ فَسَجَدَتْ الشَّجَرَةُ لِسُجُودِي وَسَمِعْتُہَا وَہِيَ تَقُولُ اللہُمَّ اكْتُبْ لِي بِہَا عِنْدَكَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّي بِہَا وِزْرًا وَاجْعَلْہَا لِي عِنْدَكَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْہَا مِنِّي كَمَا تَقَبَّلْتَہَا مِنْ عَبْدِكَ دَاوُدَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ لِي جَدُّكَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَرَأَ النَّبِيُّ ﷺ سَجْدَةً ثُمَّ سَجَدَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَمِعْتُہُ وَہُوَ يَقُولُ مِثْلَ مَا أَخْبَرَہُ الرَّجُلُ عَنْ قَوْلِ الشَّجَرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سویا ہواتھا،رات میں نے اپنے آپ کو خواب میں د یکھا گویا کہ میں ایک درخت کے پیچھے صلاۃ پڑھ رہاہوں،میں نے سجدہ کیا تو درخت نے بھی میرے سجدے کی متابعت کرتے ہوئے سجدہ کیا،میں نے سنا وہ پڑھ رہاتھا: اللہُمَّ اکْتُبْ لِی بِہَا عِنْدَکَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّی بِہَا وِزْرًا وَاجْعَلْہَا لِی عِنْدَکَ ذُخْرًا وَتَقَبَّلْہَا مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَہَا مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ ۱؎۔ابن جریج کہتے ہیں: مجھ سے تمہارے (یعنی حسن بن عبیداللہ کے) دادا (عبیداللہ) نے کہا کہ ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے (اس موقع پر) سجدہ کی ایک آیت پڑھی،پھر سجدہ کیا،ابن عباس کہتے ہیں: میں نے آپ کو (سجدہ میں) پڑھتے ہوئے سنا آپ وہی دعاپڑھ رہے تھے،جو (خواب والے) آدمی نے آپ کو درخت کی دعا سنائی تھی ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے کسی اور سے نہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابوسعید خدری سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ سَجَدَ وَجْہِي لِلَّذِي خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ رات کے وقت سجدئہ تلاوت میں پڑھتے تھے: سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ مَوْلَی آلِ الزُّبَيْرِ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ رَأَی صَاحِبَ بَلَاءٍ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِہِ وَفَضَّلَنِي عَلَی كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا إِلَّا عُوفِيَ مِنْ ذَلِكَ الْبَلَاءِ كَائِنًا مَا كَانَ مَا عَاشَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَہْرَمَانِ آلِ الزُّبَيْرِ ہُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ وَلَيْسَ ہُوَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ تَفَرَّدَ بِأَحَادِيثَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَنَّہُ قَالَ إِذَا رَأَی صَاحِبَ بَلَاءٍ فَتَعَوَّذَ مِنْہُ يَقُولُ ذَلِكَ فِي نَفْسِہِ وَلَا يُسْمِعُ صَاحِبَ الْبَلَاءِ

عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مصیبت میں گرفتار کسی شخص کو دیکھے اور کہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہِ وَفَضَّلَنِی عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاَ ۱؎ تو وہ زندگی بھر ہر بلا و مصیبت سے محفوظ رہے گا خواہ وہ کیسی ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اور عمرو بن دینار آل زبیر کے خزانچی ہیں اور بصری شیخ ہیں اور حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں،اور یہ سالم بن عبداللہ بن عمر سے کئی احادیث کی روایت میں منفرد ہیں،۳-ابوجعفر محمد بن علی سے روایت ہے،انہوں نے کہا: جب آدمی کسی کو مصیبت میں گرفتار دیکھے تو اس بلا سے آہستہ سے پناہ مانگے مصیبت زدہ شخص کو نہ سنا ئے،۴-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ السِّمْنَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْمَدِينِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ رَأَی مُبْتَلًی فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلَاكَ بِہِ وَفَضَّلَنِي عَلَی كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلًا لَمْ يُصِبْہُ ذَلِكَ الْبَلَاءُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی شخص کو مصیبت میں مبتلا دیکھے پھر کہے:الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابْتَلاَکَ بِہِ وَفَضَّلَنِی عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلاً لَمْ یُصِبْہُ ذَلِکَ الْبَلاَئُ تو اسے یہ بلا نہ پہنچے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ نوٹ:(سندمیں عبد اللہ بن عمر العمری ضعیف راوی ہیں،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے،ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۲۰۶،۲۷۳۷،وتراجع الالبا نی ۲۲۸)

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ الرَّبِيعَ بْنَ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ قَالَ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی الثَّوْرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ الْبَرَاءِ وَرِوَايَةُ شُعْبَةَ أَصَحُّ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سفر سے واپس آتے تویہ دعا پڑھتے: آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ثوری نے یہ حدیث ابواسحاق سے اورابواسحاق نے براء سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس حدیث کی سند میں ربیع ابن براء کا ذکر نہیں کیا ہے،اور شعبہ کی روایت زیادہ صحیح و درست ہے،۳-اس باب میں ابن عمر،انس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ شَہِدْتُ عَلِيًّا أُتِيَ بِدَابَّةٍ لِيَرْكَبَہَا فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَہُ فِي الرِّكَابِ قَالَ بِسْمِ اللہِ ثَلَاثًا فَلَمَّا اسْتَوَی عَلَی ظَہْرِہَا قَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ ثُمَّ قَالَ سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا كُنَّا لَہُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ ثَلَاثًا وَاللہُ أَكْبَرُ ثَلَاثًا سُبْحَانَكَ إِنِّي قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّہُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ثُمَّ ضَحِكَ قُلْتُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ صَنَعَ كَمَا صَنَعْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقُلْتُ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ ضَحِكْتَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِنَّ رَبَّكَ لَيَعْجَبُ مِنْ عَبْدِہِ إِذَا قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّہُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرُكَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا،انہیں سواری کے لیے ایک چوپایہ دیاگیا،جب انہوں نے اپنا پیر رکاب میں ڈالا تو کہا: بسم اللہ (میں اللہ کا نام لے کر سوار ہورہاہوں) اور پھر جب پیٹھ پر جم کر بیٹھ گئے تو کہا: الحمد للہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں،پھر آپ نے یہ آیت: سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ۲؎ پڑھی،پھر تین بار الحمد للہ کہا،اورتین بار اللہ اکبر کہا،پھر یہ دعا پڑھی: سُبْحَانَکَ إِنِّی قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِی فَاغْفِرْ لِی فَإِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ ۳؎ پھر علی رضی اللہ عنہ ہنسے،میں نے کہا: امیر المؤمنین کس بات پر آپ ہنسے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ نے ویسا ہی کیا جیسا میں نے کیا ہے،پھر آپ ہنسے،میں نے پوچھا: اللہ کے رسول!آپ کس بات پر ہنسے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا رب اپنے بندے کی اس بات سے خوش ہوتاہے جب وہ کہتاہے کہ اے اللہ میرے گناہ بخش دے کیوں کہ تیرے سواکوئی اور ذات نہیں ہے جو گناہوں کو معاف کرسکے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْبَارِقِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا سَافَرَ فَرَكِبَ رَاحِلَتَہُ كَبَّرَ ثَلَاثًا وَيَقُولُ سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا كُنَّا لَہُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ثُمَّ يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِي سَفَرِي ہَذَا مِنْ الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَمِنْ الْعَمَلِ مَا تَرْضَی اللہُمَّ ہَوِّنْ عَلَيْنَا الْمَسِيرَ وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَ الْأَرْضِ اللہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَہْلِ اللہُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِي أَہْلِنَا وَكَانَ يَقُولُ إِذَا رَجَعَ إِلَی أَہْلِہِ آيِبُونَ إِنْ شَاءَ اللہُ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب سفر فرماتے تو اپنی سواری پر چڑھتے اورتین بار اللہ اکبر کہتے۔پھر یہ دعا پڑھتے: سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ۱؎ اس کے بعد آپ یہ دعا پڑھتے: اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِی سَفَرِی ہَذَا مِنَ الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَمِنْ الْعَمَلِ مَا تَرْضَی اللہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا الْمَسِیرَ وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَ الأَرْضِ اللہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَۃُ فِی الأَہْلِ اللہُمَّ اصْحَبْنَا فِی سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِی أَہْلِنَا ۱؎ اور آپ جب گھر کی طرف پلٹتے تو کہتے تھے: آیِبُونَ إِنْ شَائَ اللہُ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَی وَلَدِہِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَزَادَ فِيہِ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيہِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ ہَذَا الَّذِي رَوَی عَنْہُ يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ يُقَالُ لَہُ أَبُو جَعْفَرٍ الْمُؤَذِّنُ وَلَا نَعْرِفُ اسْمَہُ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ غَيْرَ حَدِيثٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین طرح کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں: مظلوم کی دعا،مسافر کی دعا،اور باپ کی بددعا اپنے بیٹے کے حق میں۔ہشام دستوائی نے یحییٰ بن أبی کثیر سے اسی سند کے ساتھ،اسی جیسی حدیث روایت کی،انہوں نے اس حدیث میں ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ کے الفاظ بڑھائے ہیں،(یعنی بلاشبہہ ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے۔۲-اور ابوجعفر رازی کانام میں نہیں جانتا،(لیکن)ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں-

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ أَبِي مَطَرٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ إِذَا سَمِعَ صَوْتَ الرَّعْدِ وَالصَّوَاعِقِ قَالَ اللہُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِكَ وَلَا تُہْلِكْنَا بِعَذَابِكَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بجلی کی گرج اورکڑک سنتے تو فرماتے: اللہُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلاَ تُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِکَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ الْمَدِينِيُّ حَدَّثَنِي بِلَالُ بْنِ يَحْيَی بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا رَأَی الْہِلَالَ قَالَ اللہُمَّ أَہْلِلْہُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

طلحہ بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب چاند دیکھتے تھے تو کہتے تھے: اللہُمَّ أَہْلِلْہُ عَلَیْنَا بِالْیُمْنِ وَالإِیمَانِ وَالسَّلاَمَۃِ وَالإِسْلاَمِ رَبِّی وَرَبُّکَ اللہُ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرِ جَاءُوا بِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَإِذَا أَخَذَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ اللہُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثِمَارِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا اللہُمَّ إِنَّ إِبْرَاہِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنِّي عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنَّہُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَأَنَا أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ بِہِ لِمَكَّةَ وَمِثْلِہِ مَعَہُ قَالَ ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ يَرَاہُ فَيُعْطِيہِ ذَلِكَ الثَّمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگ جب کھجور کا پہلا پھل دیکھتے تو اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس (توڑکر) لاتے،جب اسے رسول اللہﷺ لیتے تو فرماتےاللہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی ثِمَارِنَا،وَبَارِکْ لَنَا فِی مَدِینَتِنَا،وَبَارِکْ لَنَا فِی صَاعِنَا،وَمُدِّنَا اللہُمَّ إِنَّ إِبْرَاہِیمَ عَبْدُکَ وَخَلِیلُکَ وَنَبِیُّکَ وَإِنِّی عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ،وَإِنَّہُ دَعَاکَ لِمَکَّۃَ وَأَنَا أَدْعُوکَ لِلْمَدِینَۃِ بِمِثْلِ مَا دَعَاکَ بِہِ لِمَکَّۃَ وَمِثْلَہِ ومَعَہُ ۱؎ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ کو جوکوئی چھوٹابچہ نظر آتا جاتا آپ اسے بلاتے اور یہ (پہلا) پھل اسے دے دیتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: زمین پرجوکوئی بھی بندہ: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ کہے گا ۱ ؎،اس کے (چھوٹے چھوٹے) گناہ بخش دیئے جائیں گے،اگرچہ سمندر کی جھاگ کی طرح (بہت زیادہ) ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-شعبہ نے یہ حدیث اسی سند کے ساتھ اسی طرح ابوبلج سے روایت کی ہے،اور اسے مرفوع نہیں کیا،اور ابو بلج کانام یحییٰ بن ابی سلیم ہے اور انہیں یحییٰ بن سلیم بھی کہاجاتاہے۔اس سندسے حاتم بن ابی صغیرہ سے،حاتم نے ابوبلج سے،ابوبلج نے عمرو بن میمون سے،عمرو بن میمون نے عبداللہ بن عمرو کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی،اور حاتم کی کنیت ابویونس قشیری ہے۔اس سندسے شعبہ نے ابوبلج سے اسی طرح روایت کی اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَزَاةٍ فَلَمَّا قَفَلْنَا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِينَةِ فَكَبَّرَ النَّاسُ تَكْبِيرَةً وَرَفَعُوا بِہَا أَصْوَاتَہُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَصَمَّ وَلَا غَائِبٍ ہُوَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رُءُوسِ رِحَالِكُمْ ثُمَّ قَالَ يَا عَبْدَ اللہِ بْنَ قَيْسٍ أَلَا أُعَلِّمُكَ كَنْزًا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّہْدِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ وَأَبُو نَعَامَةَ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ عِيسَی وَمَعْنَی قَوْلِہِ ہُوَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رُءُوسِ رِحَالِكُمْ إِنَّمَا يَعْنِي عِلْمَہُ وَقُدْرَتَہُ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں تھے،جب ہم واپس پلٹے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آوازسے کہی،آپ نے فرمایا: تمہارا رب بہرا نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب ہے،وہ تمہارے درمیان اور تمہاری سواریوں کے درمیان موجود ہے،پھر آپ نے فرمایا:عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتادوں؟ وہ: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ہے،یعنی حرکت وقوت اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوعثمان النہدی کانام عبدالرحمٰن بن مل ہے،۳-اورابونعامہ کانام عمرو بن عیسیٰ ہے،۴-آپ ﷺ کے قول بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ رُئُوسِ رِحَالِکُمْ سے مراد یہ ہے کہ اس کا علم اور قدرت ہرجگہ ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِہِ غُرِسَتْ لَہُ نَخْلَةٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے: سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ کہا،اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگادیا جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اور ہم اسے صرف ابوالزبیر کی روایت سے جسے وہ جابر کے واسطے سے روایت کرتے ہیں جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِہِ غُرِسَتْ لَہُ نَخْلَةٌ فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص: سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ کہے گا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگایاجائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ مِائَةَ مَرَّةٍ غُفِرَتْ لَہُ ذُنُوبُہُ وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص سوبار: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ کہے گا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کی طرح ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دوکلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں (آسانی سے ادا ہوجاتے ہیں)مگر میزان میں بھاری ہیں (تول میں وزنی ہیں) رحمن کوپیارے ہیں (وہ یہ ہیں) سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ كَانَ لَہُ عِدْلُ عَشْرِ رِقَابٍ وَكُتِبَتْ لَہُ مِائَةُ حَسَنَةٍ وَمُحِيَتْ عَنْہُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ وَكَانَ لَہُ حِرْزًا مِنْ الشَّيْطَانِ يَوْمَہُ ذَلِكَ حَتَّی يُمْسِيَ وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِہِ إِلَّا أَحَدٌ عَمِلَ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ مِائَةَ مَرَّةٍ حُطَّتْ خَطَايَاہُ وَإِنْ كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایک دن میں سوبار کہا: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۱؎،تو اس کو دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ہوگا،اور اس کے لیے سونیکیاں لکھی جائیں گی،اور اس کی سو برائیاں مٹادی جائیں گی،اور یہ چیز اس کے لیے شام تک شیطان کے شر سے بچاؤ کا ذریعہ بن جائے گی،اور قیامت کے دن کوئی اس سے اچھا عمل لے کر نہ آئے گا سوائے اس شخص کے جس نے یہی عمل اس شخص سے زیادہ کیا ہو۔اسی سند کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے،آپ نے فرمایا: جس نے سومرتبہ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ کہا اس کے گناہ مٹادیئے جاتے ہیں،اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَزْہَرَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ قَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ إِلَہًا وَاحِدًا أَحَدًا صَمَدًا لَمْ يَتَّخِذْ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَہُ كُفُوًا أَحَدٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ كَتَبَ اللہُ لَہُ أَرْبَعِينَ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْخَلِيلُ بْنُ مُرَّةَ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ہُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ

تمیم الداری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دس مرتبہ (یہ دعا): أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ إِلَہًا وَاحِدًا أَحَدًا صَمَدًا لَمْ یَتَّخِذْ صَاحِبَۃً وَلاَ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے چار کروڑ نیکیاں لکھتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم ا س کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-خلیل بن مرہ محدثین کے یہاں قوی نہیں ہیں اور محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَعْبَدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَہُوَ ثَانٍ رِجْلَيْہِ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ كُتِبَتْ لَہُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ وَمُحِيَتْ عَنْہُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ وَرُفِعَ لَہُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ وَكَانَ يَوْمَہُ ذَلِكَ كُلَّہُ فِي حِرْزٍ مِنْ كُلِّ مَكْرُوہٍ وَحُرِسَ مِنْ الشَّيْطَانِ وَلَمْ يَنْبَغِ لِذَنْبٍ أَنْ يُدْرِكَہُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ إِلَّا الشِّرْكَ بِاللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص صلاۃ فجر کے بعد جب کہ وہ پیر موڑے (دوزانوں) بیٹھا ہوا ہو اور کوئی بات بھی نہ کی ہو: لاَ إِلَہَ إِلاً اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ دس مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی،اور اس کی دس برائیاں مٹادی جائیں گی،اس کے لیے دس درجے بلند کئے جائیں گے اور وہ اس دن پورے دن بھر ہر طرح کی مکروہ وناپسندیدہ چیز سے محفوظ رہے گا،اور شیطان کے زیر اثر نہ آپانے کے لیے اس کی نگہبانی کی جائے گی،اور کوئی گناہ اسے اس دن سوائے شرک باللہ کے ہلاکت سے دوچار نہ کرسکے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی بَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَعْقِدُ التَّسْبِيحَ بِيَدِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَرَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ بِطُولِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ يُسَيْرَةَ بِنْتِ يَاسِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ اعْقِدْنَ بِالْأَنَامِلِ فَإِنَّہُنَّ مَسْئُولَاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو تسبیح کا شمار اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،یعنی اعمش کی روایت سے جسے وہ عطاء بن سائب سے روایت کرتے ہیں،۲-شعبہ اور ثوری نے یہ پوری حدیث عطاء بن سائب سے روایت کی ہے،۲-اس باب میں یسیرہ بنت یاسر رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اے عورتوں کی جماعت! تم تسبیحات کا شمار انگلیوں کے پوروں سے کرلیا کرو،کیوں کہ ان سے پوچھا جائے گا اور انہیں گویائی عطا کی جائے گی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَادَ رَجُلًا قَدْ جُہِدَ حَتَّی صَارَ مِثْلَ الْفَرْخِ فَقَالَ لَہُ أَمَا كُنْتَ تَدْعُو أَمَا كُنْتَ تَسْأَلُ رَبَّكَ الْعَافِيَةَ قَالَ كُنْتُ أَقُولُ اللہُمَّ مَا كُنْتَ مُعَاقِبِي بِہِ فِي الْآخِرَةِ فَعَجِّلْہُ لِي فِي الدُّنْيَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ سُبْحَانَ اللہِ إِنَّكَ لَا تُطِيقُہُ أَوْ لَا تَسْتَطِيعُہُ أَفَلَا كُنْتَ تَقُولُ اللہُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک صحابی کی جو بیماری سے سخت لاغر اور سوکھ کر چڑئیے کے بچے کی طرح ہوگئے تھے عیادت کی،آپ نے ان سے فرمایا: کیا تم اپنے رب سے اپنی صحت وعافیت کی دعا نہیں کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: میں دعاکرتاتھا کہ اے اللہ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا تھا وہ سزا مجھے تو دنیا ہی میں پہلے ہی دیدے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ! پاک ہے اللہ کی ذات،تو اس سزا کو کاٹنے اور جھیلنے کی طاقت واستطاعت نہیں رکھتا،تم یہ کیوں نہیں کہاکرتے تھے: اللہُمَّ آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث انس بن مالک کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے دیگرکئی اورسندوں سے بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ الْحَسَنِ فِي قَوْلِہِ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً قَالَ فِي الدُّنْيَا الْعِلْمُ وَالْعِبَادَةُ وَفِي الْآخِرَةِ الْجَنَّةُ

اللہ تعالیٰ کی اس آیت: رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً کے بارے میں حسن سے مروی ہے،دنیا میں حسنہ سے مراد علم اور عبادت ہے،اور آخرت میں حسنہ سے مراد جنت ہے۔اس سند سے حمید نے ثابت سے،اور ثابت نے انس سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ قَالَ حَدَثَنِي سَعْدُ بْنُ أَوْسٍ عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَی الْعَبْسِيِّ عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ عَنْ أَبِيہِ شَكَلِ بْنِ حُمَيْدٍ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ عَلِّمْنِي تَعَوُّذًا أَتَعَوَّذُ بِہِ قَالَ فَأَخَذَ بِكَتِفِي فَقَالَ قُلْ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي وَمِنْ شَرِّ بَصَرِي وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي يَعْنِي فَرْجَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَی

شکل بن حمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا تعویذ (پناہ لینے کی دعا) سکھادیجئے جسے پڑھ کر میں اللہ کی پناہ حاصل کرلیاکروں،توآپ نے میرا کندھا پکڑا اور کہا: کہو (پڑھو): اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِی وَمِنْ شَرِّ بَصَرِی وَمِنْ شَرِّ لِسَانِی وَمِنْ شَرِّ قَلْبِی وَمِنْ شَرِّ مَنِیِّی یَعْنِی فَرْجَہُ ۱؎ (منی سے مراد شرمگاہ ہے۔) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اورہم اس حدیث کو صرف اسی سندیعنی سعدبن اوس،عن بلال بن یحییٰ کے طریق سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْأَغَرِّ وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَی ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ فَيَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَہُ وَمَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَہُ وَمَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَبْدِ اللہِ الْأَغَرُّ اسْمُہُ سَلْمَانُ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَرِفَاعَةَ الْجُہَنِيِّ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ہمارا رب ہر رات آسمان دنیا پر آخری تہائی رات میں اتر تاہے اور کہتاہے: کون ہے جو مجھے پکارے کہ میں اس کی دعا قبول کرلوں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطاکر دوں؟ اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے کہ میں اسے بخش دوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۲-اور ابوعبداللہ الاغر کانام سلمان ہے،۳-اس باب میں علی،عبداللہ بن مسعود،ابوسعید،جبیر بن مطعم،رفاعہ جہنی،ابودرداء اور عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہم سے بھی راویتیں ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الثَّقَفِيُّ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ ﷺ أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ قَالَ جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ جَوْفُ اللَّيْلِ الْآخِرُ الدُّعَاءُ فِيہِ أَفْضَلُ أَوْ أَرْجَی أَوْ نَحْوَ ہَذَا

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا: آدھی رات کے آخر کی دعا (یعنی تہائی رات میں مانگی ہوئی دعا) اور فرض صلاتوں کے اخیرمیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابوذر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: رات کے آخری حصہ میں د عا سب سے بہترہے،یا اس کے قبول ہونے کی امیدیں زیادہ ہیں یا اسی جیسی کوئی اور بات آپ نے فرمائی ۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عُمَرَ الْہِلَالِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي السَّلِيلِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ سَمِعْتُ دُعَاءَكَ اللَّيْلَةَ فَكَانَ الَّذِي وَصَلَ إِلَيَّ مِنْہُ أَنَّكَ تَقُولُ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي وَبَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي قَالَ فَہَلْ تَرَاہُنَّ تَرَكْنَ شَيْئًا وَأَبُو السَّلِيلِ اسْمُہُ ضُرَيْبُ بْنُ نُفَيْرٍ وَيُقَالُ ابْنُ نُقَيْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے آج رات آپ کی دعا سنی،میں نے آپ کی جودعاسنی وہ یہ تھی: اللہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی وَوَسِّعْ لِی فِی دَارِی وَبَارِکْ لِی فِیمَا رَزَقْتَنِی ۱؎،آپ نے فرمایا: کیا ان دعائیہ کلمات نے کچھ چھوڑا؟ (یعنی ان میں دین دنیا کی سبھی بھلائیاں آگئی ہیں۔) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ وَہُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْحِمْصِيُّ عَنْ بَقِيَّةَ بْنِ الْوَلِيدِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ زِيَادٍ قَال سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ اللہُمَّ أَصْبَحْنَا نُشْہِدُكَ وَنُشْہِدُ حَمَلَةَ عَرْشِكَ وَمَلَائِكَتَكَ وَجَمِيعَ خَلْقِكَ بِأَنَّكَ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ اللہُ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ إِلَّا غَفَرَ اللہُ لَہُ مَا أَصَابَ فِي يَوْمِہِ ذَلِكَ وَإِنْ قَالَہَا حِينَ يُمْسِي غَفَرَ اللہُ لَہُ مَا أَصَابَ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ مِنْ ذَنْبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص صبح میں یہ کلمات کہے گا: اللہُمَّ أَصْبَحْنَا نُشْہِدُکَ وَنُشْہِدُ حَمَلَۃَ عَرْشِکَ وَمَلائِکَتَکَ وَجَمِیعَ خَلْقِکَ بِأَنَّکَ اللہُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ اللہُ وَحْدَکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ ۱؎۔ تو اس دن اس سے جتنے بھی گناہ ہوں گے انہیں اللہ بخش دے گا اور اگر وہ یہ دعا شام کے وقت پڑھے گا تو اس رات اس سے جتنے بھی گناہ سرزد ہوں گے اللہ انہیں بخش دے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ إِذَا قُلْتَہُنَّ غَفَرَ اللہُ لَكَ وَإِنْ كُنْتَ مَغْفُورًا لَكَ قَالَ قُلْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ قَالَ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ وَأَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ أَبِيہِ بِمِثْلِ ذَلِكَ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ فِي آخِرِہَا الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھادوں کہ ان کلمات کو جب تم کہو گے تو تمہارے گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا،اگر چہ تم ان لوگوں میں سے ہو جن کے گناہ پہلے ہی معاف کئے جاچکے ہیں،آپ نے فرمایا: کہو: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ۱؎۔اسی سند سے حسین بن واقدکے واسطہ سے ایسی ہی حدیث روایت ہے،البتہ ان کی حدیث کے آخر میں: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ کا اضافہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں،یعنی ابی اسحاق کی روایت سے جسے وہ حارث (اعور) کے واسطہ سے علی سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ دَعَا وَہُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ فَإِنَّہُ لَمْ يَدْعُ بِہَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللہُ لَہُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ مَرَّةً عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِيہِ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أَبِيہِ وَرَوَی بَعْضُہُمْ وَہُوَ أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ فَقَالُوا عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ رِوَايَةِ ابْنِ يُوسُفَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَعْدٍ وَكَانَ يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ رُبَّمَا ذَكَرَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِيہِ وَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْہُ

سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ذوالنون (یونس علیہ السلام) کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران کی تھی وہ یہ تھی: لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ ۱؎ کیوں کہ یہ ایسی دعا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان شخص اسے پڑھ کر دعاکرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-محمد بن یحییٰ نے کہا: محمد بن یوسف کبھی ابراہیم بن محمد بن سعدکے واسطہ سے سعد سے روایت کرتے ہیں اور اس میں عن أبیہ کا ذکر نہیں کرتے،۲-دوسرے راویوں نے یہ حدیث یونس بن ابواسحاق سے،اور یونس نے ابراہیم بن محمد بن سعد کے واسطہ سے سعد سے روایت کی ہے،اور اس روایت میں انہوں نے عن أبیہ کا ذکر نہیں کیا ہے،۳-بعض نے یونس بن ابواسحاق سے روایت کی ہے،اوران لوگوں نے ابن یوسف کی روایت کی طرح ابراہیم بن محمد بن سعد سے روایت کرتے ہوئے عن أبیہ عن سعد کہاہے اور یونس بن ابواسحاق کی عادت تھی کہ کبھی تو وہ اس حدیث میں عن أبیہ کہہ کر روایت کرتے اور کبھی عن أبیہ کا ذکر نہیں کرتے تھے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّہِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَقُلْ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ اللہُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيہَا وَأَبْدِلْنِي مِنْہَا خَيْرًا فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَةَ قَالَ اللہُمَّ اخْلُفْ فِي أَہْلِي خَيْرًا مِنِّي فَلَمَّا قُبِضَ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ عِنْدَ اللہِ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الْأَسَدِ

ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کوکوئی مصیبت لاحق ہو تو اسے: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ اللہُمَّ عِنْدَکَ احْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی فَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مِنْہَا خَیْرًا ۱؎ پڑھنا چاہئے،پھر جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت آگیا توا نہوں نے دعاکی: اللہُمَّ اخْلُفْ فِی أَہْلِی خَیْرًا مِنِّی (اے اللہ! میرے گھروالوں میں مجھ سے بہتر ذات کو میرا خلیفہ و جانشیں بنادے)،اورجب ان کی موت واقع ہوگئی تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا:إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ عِنْدَ اللہِ احْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی فَأْجُرْنِی فِیہَا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۳-اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عبدالاسد ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ قَالَ سَلْ رَبَّكَ الْعَافِيَةَ وَالْمُعَافَاةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ثُمَّ أَتَاہُ فِي الْيَوْمِ الثَّانِي فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ أَتَاہُ فِي الْيَوْمِ الثَّالِثِ فَقَالَ لَہُ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَأُعْطِيتَہَا فِي الْآخِرَةِ فَقَدْ أَفْلَحْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ وَرْدَانَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پا س آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سی دعا افضل (سب سے اچھی) ہے؟ آپ نے فرمایا: اپنے رب سے دنیا و آخرت میں بلاؤں ومصیبتوں سے بچادینے کی دعا کرو،پھر آپ کے پاس وہی شخص دوسرے دن بھی آیا،اور آپ سے پھر پوچھا: کونسی دعا افضل ہے؟ آپ نے اسے ویسا ہی جواب دیا جیسا پہلے جواب دیا تھا،وہ شخص تیسرے دن بھی آپ کے پاس حاضر ہوا،اس دن بھی آپ نے اسے ویسا ہی جواب دیا،مزید فرمایا: جب تمہیں دنیا وآخرت میں عافیت مل جائے تو سمجھ لو کہ تم نے کامیابی حاصل کرلی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،ہم اسے صرف سلمہ بن وردان کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ كَہْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيہَا قَالَ قُولِي اللہُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: پڑھو اللہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُہُ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ سَلْ اللہَ الْعَافِيَةَ فَمَكَثْتُ أَيَّامًا ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُہُ اللہَ فَقَالَ لِي يَا عَبَّاسُ يَا عَمَّ رَسُولِ اللہِ سَلْ اللہَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ قَدْ سَمِعَ مِنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جسے میں اللہ رب العزت سے مانگتارہوں،آپ نے فرمایا: اللہ سے عافیت مانگو،پھر کچھ دن رک کر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں اللہ سے مانگتارہوں،آپ نے فرمایا: اے عباس! اے رسول اللہ ﷺ کے چچا! دنیا وآخرت میں عافیت طلب کرو ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-عبداللہ بن حارث بن نوفل نے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے سنا ہے (یعنی ان کا ان سے سماع ثابت ہے)۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكُوفِيُّ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَہُوَ الْمُلَيْكِيُّ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا سُئِلَ اللہُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْہِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے جوبھی چیزیں مانگی گئی ہیں ان میں اللہ کو سب سے زیادہ پسند یہ ہے کہ اس سے عافیت (دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے نجات) مانگی جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اور ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابوبکر ملیکی کی روایت سے جانتے ہیں،(اوریہ ضعیف ہیں)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَال سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ قُلْتُ لَہُ أَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ نَعَمْ وَرَفَعَہُ أَنَّہُ قَالَ لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنْ اللہِ وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْہِ الْمَدْحُ مِنْ اللہِ وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

۳۵۳۰-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کی چیزیں حرام کر دی ہیں چاہے وہ کھلے طور پر ہوں یا پوشیدہ طور پر،اور کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اللہ سے زیادہ مدح (تعریف) پسند ہو،اسی لیے اللہ نے اپنی ذات کی تعریف خود آپ کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ أَسْأَلُہُ عَنْ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ يَا زِرُّ فَقُلْتُ ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ فَقَالَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ فَقُلْتُ إِنَّہُ حَكَّ فِي صَدْرِي الْمَسْحُ عَلَی الْخُفَّيْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَكُنْتَ امْرَأً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَجِئْتُ أَسْأَلُكَ ہَلْ سَمِعْتَہُ يَذْكُرُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا قَالَ نَعَمْ كَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرِينَ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيہِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ لَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ فَقُلْتُ ہَلْ سَمِعْتَہُ يَذْكُرُ فِي الْہَوَی شَيْئًا قَالَ نَعَمْ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَہُ إِذْ نَادَاہُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ لَہُ جَہْوَرِيٍّ يَا مُحَمَّدُ فَأَجَابَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَحْوًا مِنْ صَوْتِہِ ہَاؤُمُ فَقُلْنَا لَہُ وَيْحَكَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ فَإِنَّكَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ نُہِيتَ عَنْ ہَذَا فَقَالَ وَاللہِ لَا أَغْضُضُ قَالَ الْأَعْرَابِيُّ الْمَرْءُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِہِمْ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَا زَالَ يُحَدِّثُنَا حَتَّی ذَكَرَ بَابًا مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا عَرْضُہُ أَوْ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي عَرْضِہِ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ عَامًا قَالَ سُفْيَانُ قِبَلَ الشَّامِ خَلَقَہُ اللہُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مَفْتُوحًا يَعْنِي لِلتَّوْبَةِ لَا يُغْلَقُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زربن حبیش کہتے ہیں: میں صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کے پاس موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے آیا،انہوں نے (مجھ سے) پوچھا اے زر کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے،میں نے کہا: علم کی تلاش وطلب مجھے یہاں لے کر آئی ہے،انہوں نے کہا: فرشتے علم کی طلب وتلاش سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں،میں نے ان سے کہا: پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بات میرے دل میں کھٹکی (کہ مسح کریں یا نہ کریں) میں خود بھی صحابی رسول ہوں،میں آپ سے یہ پوچھنے آیاہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو اس سلسلے میں کوئی بات بیان کرتے ہوئے سنی ہے؟ کہا: ہاں (سنی ہے) جب ہم سفر پرہوتے یا سفر کرنے والے ہوتے تو آپﷺ ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر کے دوران تین دن و رات اپنے موزے نہ نکالیں،مگرغسل جنابت کے لیے،پاخانہ پیشاب کرکے اور سو کر اٹھنے پر موزے نہ نکالیں،(پہنے رہیں،مسح کا وقت آئے ان پر مسح کرلیں) میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے انسان کی خواہش و تمنا کا ذکرکرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں،ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کررہے تھے،اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے ایک اعرابی نے آپ کو یا محمد!کہہ کر بلندآواز سے پکارا،رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی کی آواز میں جواب دیا،آجاؤ (میں یہاں ہوں) ہم نے اس سے کہا: تمہارا ناس ہو،اپنی آواز دھیمی کرلو،کیوں کہ تم نبی اکرم ﷺ کے پاس ہو،اورتمہیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بلند آواز سے بولا جائے،اعرابی نے کہا: (نہ) قسم اللہ کی میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا،اس نے الْمَرْئُ یُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا یَلْحَقْ بِہِمْ ۱؎ کہہ کر آپ سے اپنی انتہائی محبت و تعلق کا اظہار کیا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: الْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (آپ نے فرمایا: جو شخص جس شخص سے زیادہ محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ رہے گا۔) وہ ہم سے (یعنی زر کہتے ہیں ہم سے صفوان بن عسال) حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پچھمی سمت میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑا ئی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے (راوی کو شک ہوگیا ہے یہ کہا یا یہ کہا) کہ دروزے کی چوڑائی اتنی ہوگی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا،سفیان (راوی) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا،جب اللہ نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ تو بہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہواہے اور (توبہ کا یہ دروازہ) اس وقت تک بند نہ ہوگا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے (یعنی پچھم سے) طلوع نہ ہونے لگے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ قُلْتُ ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ الْمَلَائِكَةَ تَضَعُ أَجْنِحَتَہَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَفْعَلُ قَالَ قُلْتُ لَہُ إِنَّہُ حَاكَ أَوْ حَكَّ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنْ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ فَہَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِيہِ شَيْئًا قَالَ نَعَمْ كُنَّا إِذَا كُنَّا فِي سَفَرٍ أَوْ مُسَافِرِينَ أُمِرْنَا أَنْ لَا نَخْلَعَ خِفَافَنَا ثَلَاثًا إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ قَالَ فَقُلْتُ فَہَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الْہَوَی شَيْئًا قَالَ نَعَمْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِہِ فَنَادَاہُ رَجُلٌ كَانَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ بِصَوْتٍ جَہْوَرِيٍّ أَعْرَابِيٌّ جِلْفٌ جَافٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ فَقَالَ لَہُ الْقَوْمُ مَہْ إِنَّكَ قَدْ نُہِيتَ عَنْ ہَذَا فَأَجَابَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَحْوًا مِنْ صَوْتِہِ ہَاؤُمُ فَقَالَ الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِہِمْ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ قَالَ زِرٌّ فَمَا بَرِحَ يُحَدِّثُنِي حَتَّی حَدَّثَنِي أَنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا عَرْضُہُ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ لَا يُغْلَقُ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِہِ وَذَلِكَ قَوْلُ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُہَا الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا،انہوں نے پوچھا: تمہیں کیا چیز یہاں لے کر آئی ہے؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیاہوں،انہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ فرشتے طالب علم کے کام (ومقصد) سے خوش ہوکر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں،وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: میرے جی میں یہ خیال گزرا یا میرے دل میں موزوں پر مسح کے بارے میں کچھ بات کھٹکی،تو کیااس بارے میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات یاد ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں،ہم جب سفر میں ہوں (یا سفر کرنے والے ہوں) تو ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم تین دن تک اپنے موزے پیروں سے نہ نکالیں،سوائے جنابت کی صورت میں،پاخانہ کرکے آئے ہوں یا پیشاب کرکے،یا سوکر اٹھے ہوں توموزے نہ نکالیں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ کو محبت وچاہت کے سلسلے میں بھی رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات یا دہے؟ انہوں نے کہا: ہاں،ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو آپ کو ایک آدمی نے جو لوگوں میں سب سے پیچھے چل رہاتھا اورگنوار،بے وقوف اور سخت مزاج تھا،بلند آواز سے پکارا،کہا: اے محمد! اے محمد! لوگوں نے اس سے کہا: ٹھہر،ٹھہر،اس طرح پکارنے سے تمہیں روکا گیا ہے،رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی کی طرح بھاری اور بلند آواز میں جواب دیا: بڑھ آ،بڑھ آ،آجا آجا (وہ جب قریب آگیا) تو بولا: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتاہے لیکن ان کے درجے تک نہیں پہنچاہوتاہے،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو انسان جس سے محبت کرتاہے اسی کے ساتھ اٹھا یاجائے گا۔ زر کہتے ہیں: وہ مجھ سے حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ اللہ نے مغرب میں توبہ کا ایک دروازہ بنایا ہے جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے،وہ بند نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ سورج ادھر سے نکلنے لگے (یعنی قیامت تک) اور اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: یَوْمَ یَأْتِی بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا ۱؎ جس دن کہ تیرے رب کی بعض آیات کا ظہور ہوگا اس وقت کسی شخص کو اس کا ایمان کام نہ دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتاہے جب تک کہ (موت کے وقت) اس کے گلے سے خرخر کی آواز نہ آنے لگے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ابوعامر عقدی نے عبدالرحمٰن سے اسی سند کے ساتھ،اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَلَّہُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ أَحَدِكُمْ بِضَالَّتِہِ إِذَا وَجَدَہَا وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزِّنَادِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَكْحُولٍ بِإِسْنَادٍ لَہُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتاہے جتنا کہ کوئی شخص اپنی کھوئی ہوئی چیز(خاص طورسے گم شدہ سواری کی اونٹنی پاکر خوش ہوتاہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،یعنی ابوالزناد کی روایت سے،۲-یہ حدیث مکحول سے بھی ان کی اپنی سند سے آئی ہے،انہوں نے ابوذرکے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابن مسعود،نعمان بن بشیر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ قَاصِّ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِي صِرْمَةَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّہُ قَالَ حِينَ حَضَرَتْہُ الْوَفَاةُ قَدْ كَتَمْتُ عَنْكُمْ شَيْئًا سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَوْلَا أَنَّكُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللہُ خَلْقًا يُذْنِبُونَ وَيَغْفِرُ لَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ عَنْ عُمَرَ مَوْلَی غُفْرَةَ عَنْ مُحَمَدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آگیا تو انہوں نے کہا: میں نے تم لوگوں سے ایک بات چھپا رکھی ہے،(میں اسے اس وقت ظاہر کردینا چاہتاہوں) میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے: اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ ایک ایسی مخلوق پیدا کردے جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث محمد بن کعب سے آئی ہے اورانہوں نے اسے ابوایوب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔محمد بن کعب قرظی سے اور محمد نے ابوایوب کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِسْحَقَ الْجَوْہَرِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ فَائِدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ قَال سَمِعْتُ بَكْرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيَّ يَقُولُ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ قَالَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ عَلَی مَا كَانَ فِيكَ وَلَا أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِي يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ لَوْ أَتَيْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيتَنِي لَا تُشْرِكُ بِي شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِہَا مَغْفِرَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ کہتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتارہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتارہوں گا،چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں،مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے،اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہوگی۔اے آدم کے بیٹے! اگرتو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھرمجھ سے (مغفرت طلب کرنے کے لیے) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا رِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْہِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَہُ وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَہُ أَبَوَاہُ الْكِبَرَ فَلَمْ يُدْخِلَاہُ الْجَنَّةَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَأَظُنُّہُ قَالَ أَوْ أَحَدُہُمَا وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرِبْعِيُّ بْنُ إِبْرَاہِيمَ ہُوَ أَخُو إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ وَہُوَ ثِقَةٌ وَہُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ وَيُرْوَی عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ مَرَّةً فِي الْمَجْلِسِ أَجْزَأَ عَنْہُ مَا كَانَ فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیاجائے اور وہ شخص مجھ پر درود نہ بھیجے،اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں ر مضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزرگیا،اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پایا ہو اور وہ دونوں اسے ان کے ساتھ حسن سلوک نہ کرنے کی وجہ سے جنت کا مستحق نہ بناسکے ہوں،عبدالرحمٰن(راوی) کہتے ہیں: میرا خیال یہ ہے کہ آپ نے دونوں ماں باپ کہا۔یا یہ کہا کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی بڑھاپے میں پایا (اور ان کی خدمت کرکے اپنی مغفرت نہ کرالی ہو۔) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-ربعی بن ابراہیم اسماعیل بن ابراہیم کے بھائی ہیں اور یہ ثقہ ہیں اور یہ ابن علیہ ۱؎ ہیں،۳-اس باب میں جابر اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-بعض اہل علم سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: جب مجلس میں آدمی ایک بار رسول اللہ ﷺ کو درود بھیج دے تواس مجلس میں چاہے جتنی بار آپ کانام آئے ایک بار درود بھیج دینا ہر بار کے لیے کافی ہوگا (یعنی ہر بار درود بھیجنا ضروری نہ ہوگا)۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْبَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور پھر بھی وہ مجھ پر صلاۃ(درود) نہ بھیجے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ اللہُمَّ بَرِّدْ قَلْبِي بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَالْمَاءِ الْبَارِدِ اللہُمَّ نَقِّ قَلْبِي مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ بَاب

عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا کرتے تھے: اللہُمَّ بَرِّدْ قَلْبِی بِالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَالْمَائِ الْبَارِدِ،اللہُمَّ نَقِّ قَلْبِی مِنَ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الأَبْیَضَ مِنَ الدَّنَسِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْقُرَشِيِّ الْمُلَيْكِيِّ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ فُتِحَ لَہُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَہُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ وَمَا سُئِلَ اللہُ شَيْئًا يَعْنِي أَحَبَّ إِلَيْہِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَ وَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ فَعَلَيْكُمْ عِبَادَ اللہِ بِالدُّعَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْقُرَشِيِّ وَہُوَ الْمَكِّيُّ الْمُلَيْكِيُّ وَہُوَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس کسی کے لیے دعا کا دروازہ کھولا گیا تو اس کے لیے(گویا) رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے،اور اللہ سے مانگی جانے والی چیزوں میں سے جسے وہ دے اس سے زیادہ کوئی چیز پسندنہیں کہ اس سے عافیت مانگی جائے،اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعا نازل شدہ مصیبت،اور جو ابھی نہیں نازل ہوئی ہے اس سے بچنے کا فائدہ دیتی ہے،تو اے اللہ کے بندو! تم اللہ سے برابر دعاکرتے رہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابوبکر قرشی کی روایت سے جانتے ہیں،یہ ملیکی ہیں اور یہ حدیث میں ضعیف مانتے جاتے ہیں،انہیں بعض اہل علم نے حافظہ کے اعتبار سے ضعیف ٹھہرایا ہے۔

وَقَدْ رَوَی إِسْرَائِيلُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا سُئِلَ اللہُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْہِ مِنْ الْعَافِيَةِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكُوفِيُّ عَنْ إِسْرَائِيلَ بِہَذَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خُنَيْسٍ عَنْ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ بِنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ بِلَالٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّہُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ وَإِنَّ قِيَامَ اللَّيْلِ قُرْبَةٌ إِلَی اللہِ وَمَنْہَاةٌ عَنْ الْإِثْمِ وَتَكْفِيرٌ لِلسَّيِّئَاتِ وَمَطْرَدَةٌ لِلدَّاءِ عَنْ الْجَسَدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ بِلَالٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَا يَصِحُّ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِہِ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ مُحَمَّدٌ الْقُرَشِيُّ ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الشَّامِيُّ وَہُوَ ابْنُ أَبِي قَيْسٍ وَہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ حَسَّانَ وَقَدْ تُرِكَ حَدِيثُہُ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّہُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ وَہُوَ قُرْبَةٌ إِلَی رَبِّكُمْ وَمَكْفَرَةٌ لِلسَّيِّئَاتِ وَمَنْہَاةٌ لِلْإِثْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِدْرِيسَ عَنْ بِلَالٍ

یہ حدیث اسرائیل نے بھی عبدالرحمٰن بن ابوبکر سے روایت کی ہے اور عبدالرحمٰن نے موسیٰ بن عقبہ سے،موسیٰ نے نافع سے،اور نافع نے ابن عمر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے،آپ نے فرمایا: اللہ سے جو چیزیں بھی مانگی جاتی ہیں ان میں اللہ کو عافیت سے زیادہ محبوب کوئی چیز بھی نہیں ہے۔بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیام اللیل یعنی تہجد کا اہتمام کیاکرو،کیوں کہ تم سے پہلے کے صالحین کا یہی طریقہ ہے،اور رات کا قیام یعنی تہجد اللہ سے قریب و نزدیک ہونے کا،گناہوں سے دور ہونے کا اور برائیوں کے مٹنے اور بیماریوں کے جسم سے دور بھگانے کا ایک ذریعہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اور ہم اسے بلال رضی اللہ عنہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور یہ اپنی سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے،۳-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: محمد قرشی یہ محمد بن سعید شامی ہیں اور یہ ابوقیس کے بیٹے ہیں اور یہ (ابوقیس) محمد بن حسان ہیں،ان (محمدالقرشی) کی روایت کی ہوئی حدیث نہیں لی جاتی ہے،۴-یہ حدیث معاویہ بن صالح نے بھی ربیعہ بن یزید سے،ربیعہ نے ابوادریس خولانی سے،اور ابوادریس خولانی نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے،آپ نے فرمایا: قیام اللیل (تہجد کی صلاۃ) کو اپنے لیے لازم کرلو،کیوں کہ تم سے پہلے کے نیکوں کاروں کا یہی طریقہ ہے اور یہ تمہارے لیے اللہ سے نزدیک ہونے کا ذریعہ ہے یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ اور برائیوں سے بچ رہنے کا ایک آلہ ہے،۴-یہ حدیث زیادہ صحیح ہے ابوادریس کی اس حدیث سے جسے انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ قَالَ وَأَخْبَرَنِي سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَالَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ كَانَتْ لَہُ عِدْلَ أَرْبَعِ رِقَابٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَعِيلَ قَالَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ مَوْقُوفًا

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے دس بار: لا إِلَہَ إِلا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۱؎ کہا تو یہ (اس کا اجر) اولاد اسماعیل میں سے چار غلام آزاد کرنے کے برابرہوگا ۲؎۔ یہ حدیث ابوایوب رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی روایت ہوئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا ہَاشِمٌ وَہُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنِي كِنَانَةُ مَوْلَی صَفِيَّةَ قَال سَمِعْتُ صَفِيَّةَ تَقُولُ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَبَيْنَ يَدَيَّ أَرْبَعَةُ آلَافِ نَوَاةٍ أُسَبِّحُ بِہَا فَقَالَ لَقَدْ سَبَّحْتِ بِہَذِہِ أَلَا أُعَلِّمُكِ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَبَّحْتِ بِہِ فَقُلْتُ بَلَی عَلِّمْنِي فَقَالَ قُولِي سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ہَاشِمِ بْنِ سَعِيدٍ الْكُوفِيِّ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمَعْرُوفٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

کنانہ مولی صفیہ کہتے ہیں کہ میں نے صفیہ رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے،اس وقت میرے سامنے کھجور کی چار ہزارگٹھلیوں کی ڈھیر تھی،میں ان گٹھلیوں کے ذریعہ تسبیح پڑھاکرتی تھی،میں نے کہا: میں نے ان کے ذریعہ تسبیح پڑھی ہے،آپ نے فرمایا: کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ میں تمہیں اس سے زیادہ تسبیح کا طریقہ بتادوں جتنی تو نے پڑھی ہیں؟ میں نے کہا: (ضرور) مجھے بتائیے توآپ نے فرمایا: سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ ۱؎ پڑھ لیاکرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صفیہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ہاشم بن سعید کوفی کی روایت سے اور اس کی سند معروف نہیں ہے،۳-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَال سَمِعْتُ كُرَيْبًا يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ جُوَيْرِيَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ عَلَيْہَا وَہِيَ فِي مَسْجِدِہَا ثُمَّ مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِہَا قَرِيبًا مِنْ نِصْفِ النَّہَارِ فَقَالَ لَہَا مَا زِلْتِ عَلَی حَالِكِ فَقَالَتْ نَعَمْ قَالَ أَلَا أُعَلِّمُكِ كَلِمَاتٍ تَقُولِينَہَا سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ سُبْحَانَ اللہِ رِضَا نَفْسِہِ سُبْحَانَ اللہِ رِضَا نَفْسِہِ سُبْحَانَ اللہِ رِضَا نَفْسِہِ سُبْحَانَ اللہِ زِنَةَ عَرْشِہِ سُبْحَانَ اللہِ زِنَةَ عَرْشِہِ سُبْحَانَ اللہِ زِنَةَ عَرْشِہِ سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ كَلِمَاتِہِ سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ كَلِمَاتِہِ سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ كَلِمَاتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہُوَ مَوْلَی آلِ طَلْحَةَ وَہُوَ شَيْخٌ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ الْمَسْعُودِيُّ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ

ام المومنین جویریہ بنت حارث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور وہ (اس وقت)اپنی مسجد میں تھیں(جہاں وہ باقاعدہ گھرمیں صلاۃ پڑھتی تھیں)،دوپہر میں رسول اللہﷺ کا ان کے پاس سے پھر گزرہوا،رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: تب سے تم اسی حال میں ہو؟ (یعنی اسی وقت سے اس وقت تک تم ذکر و تسبیح ہی میں بیٹھی ہو) انہوں نے کہا: ہاں،آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں چند کلمے ایسے نہ سکھادوں جنہیں تم کہہ لیا کرو۔(اور پھر پورا ثواب پاؤ) وہ کلمے یہ ہیں: سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ،سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ،سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ خَلْقِہِ،سُبْحَانَ اللہِ رِضَا نَفْسِہِ،سُبْحَانَ اللہِ رِضَا نَفْسِہِ،سُبْحَانَ اللہِ رِضَا نَفْسِہِ،سُبْحَانَ اللہِ زِنَۃَ عَرْشِہِ،سُبْحَانَ اللہِ زِنَۃَ عَرْشِہِ،سُبْحَانَ اللہِ زِنَۃَ عَرْشِہِ،سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ،سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ،سُبْحَانَ اللہِ مِدَادَ کَلِمَاتِہِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمد بن عبدالرحمٰن آل طلحہ کے آزاد کردہ غلام ہیں،وہ مدینہ کے رہنے والے شیخ ہیں اور ثقہ ہیں،یہ حدیث مسعودی اور ثوری نے بھی ان سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كُنْتُ شَاكِيًا فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنَا أَقُولُ اللہُمَّ إِنْ كَانَ أَجَلِي قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِي وَإِنْ كَانَ مُتَأَخِّرًا فَارْفَغْنِي وَإِنْ كَانَ بَلَاءً فَصَبِّرْنِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَيْفَ قُلْتَ قَالَ فَأَعَادَ عَلَيْہِ مَا قَالَ قَالَ فَضَرَبَہُ بِرِجْلِہِ فَقَالَ اللہُمَّ عَافِہِ أَوْ اشْفِہِ شُعْبَةُ الشَّاكُّ فَمَا اشْتَكَيْتُ وَجَعِي بَعْدُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے شکایت ہوئی (بیماری ہوئی)،رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے،اس وقت میں دعا کررہاتھا: اے میرے رب! اگر میری موت کا وقت آپہنچا ہے تو مجھے (موت دے کر) راحت دے اور اور اگر میری موت بعد میں ہوتو مجھے اٹھا کر کھڑا کردے (یعنی صحت دیدے) اور اگر یہ آزمائش ہے تو مجھے صبردے،رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: کیسے کہا: توانہوں نے جو کہاتھا اسے دہرایا،آپﷺ نے انہیں اپنے پیر سے ٹھوکا دیا پھر آپ نے فرمایا: اللہُمَّ عَافِہِ أَوْ اشْفِہِ (اے اللہ! انہیں عافیت دے،یا شفا دے)،اس کے بعد مجھے اپنی تکلیف کی پھر کبھی شکایت نہیں ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا عَادَ مَرِيضًا قَالَ اللہُمَّ أَذْہِبْ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ فَأَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کسی بیمار کی عیادت کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے: اللہُمَّ أَذْہِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ فَأَنْتَ الشَّافِی لاَ شِفَائَ إِلاَّ شِفَاؤُکَ شِفَائً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ ہُوَ ابْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ وَعَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَا كَانَ سَعْدٌ يُعَلِّمُ بَنِيہِ ہَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ كَمَا يُعَلِّمُ الْمُكَتِّبُ الْغِلْمَانَ وَيَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَتَعَوَّذُ بِہِنَّ دُبُرَ الصَّلَاةِ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ يَضْطَرِبُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَيَقُولُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ وَيَقُولُ عَنْ غَيْرِہِ وَيَضْطَرِبُ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

مصعب بن سعد اور عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اپنے بیٹوں کو یہ کلمے ایسے ہی سکھاتے تھے جیسا کہ چھوٹے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے والا معلم سکھاتا ہے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کلمات کے ذریعہ ہر صلاۃ کے اخیرمیں اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔(وہ کلمے یہ تھے): اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح ہے،۲-عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کہتے ہیں: ابواسحاق ہمدانی اس حدیث میں اضطرب کاشکار تھے،کبھی کہتے تھے: روایت ہے عمر و بن میمون سے اور وہ روایت کرتے ہیں عمر سے،اور کبھی کسی اور سے کہتے اور اس روایت میں اضطراب کرتے تھے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِلَالٍ عَنْ خُزَيْمَةَ عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيہَا أَنَّہُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَلَی امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْہَا نَوًی أَوْ قَالَ حَصًی تُسَبِّحُ بِہِ فَقَالَ أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا ہُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ ہَذَا أَوْ أَفْضَلُ سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ وَسُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الْأَرْضِ وَسُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ وَسُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا ہُوَ خَالِقٌ وَاللہُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ مِثْلَ ذَلِكَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَعْدٍ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک عورت کے پا س گئے،اس کے آگے کھجور کی گٹھلیاں تھیں یا کنکریاں،ان کے ذریعہ وہ تسبیح پڑھا کرتی تھی،آپ نے اس سے فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے آسان طریقہ نہ بتادوں؟ یا اس سے افضل و بہتر طریقہ نہ بتادوں؟ (کہ ثواب میں بھی زیادہ رہے اور لمبی چوڑی گنتی کرنے سے بھی بچارہے) وہ یہ ہے: سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِی السَّمَائِ،وَسُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِی الأَرْضِ،وَسُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا بَیْنَ ذَلِکَ،وَسُبْحَانَ اللہِ عَدَدَ مَا ہُوَ خَالِقٌ،وَاللہُ أَکْبَرُ مِثْلَ ذَلِکَ،وَالْحَمْدُ لِلَّہِ مِثْلَ ذَلِکَ،وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ مِثْلَ ذَلِکَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث سعد کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ وَزَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي حَكِيمٍ مَوْلَی الزُّبَيْرِ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ صَبَاحٍ يُصْبِحُ الْعَبْدُ فِيہِ إِلَّا وَمُنَادٍ يُنَادِي سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی صبح ایسی نہیں ہے کہ اللہ کے بندے صبح کرتے ہوں اور اس صبح میں کوئی پکار کر کہنے والایہ نہ کہتا ہو کہ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوسِ کی تسبیح پڑھاکرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَعِكْرِمَةَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِذْ جَاءَہُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي تَفَلَّتَ ہَذَا الْقُرْآنُ مِنْ صَدْرِي فَمَا أَجِدُنِي أَقْدِرُ عَلَيْہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا أَبَا الْحَسَنِ أَفَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللہُ بِہِنَّ وَيَنْفَعُ بِہِنَّ مَنْ عَلَّمْتَہُ وَيُثَبِّتُ مَا تَعَلَّمْتَ فِي صَدْرِكَ قَالَ أَجَلْ يَا رَسُولَ اللہِ فَعَلِّمْنِي قَالَ إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَقُومَ فِي ثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنَّہَا سَاعَةٌ مَشْہُودَةٌ وَالدُّعَاءُ فِيہَا مُسْتَجَابٌ وَقَدْ قَالَ أَخِي يَعْقُوبُ لِبَنِيہِ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي يَقُولُ حَتَّی تَأْتِيَ لَيْلَةُ الْجُمْعَةِ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقُمْ فِي وَسَطِہَا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقُمْ فِي أَوَّلِہَا فَصَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَی بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةِ يس وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَحم الدُّخَانِ وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَالم تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ وَفِي الرَّكْعَةِ الرَّابِعَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَتَبَارَكَ الْمُفَصَّلِ فَإِذَا فَرَغْتَ مِنْ التَّشَہُّدِ فَاحْمَدْ اللہَ وَأَحْسِنْ الثَّنَاءَ عَلَی اللہِ وَصَلِّ عَلَيَّ وَأَحْسِنْ وَعَلَی سَائِرِ النَّبِيِّينَ وَاسْتَغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلِإِخْوَانِكَ الَّذِينَ سَبَقُوكَ بِالْإِيمَانِ ثُمَّ قُلْ فِي آخِرِ ذَلِكَ اللہُمَّ ارْحَمْنِي بِتَرْكِ الْمَعَاصِي أَبَدًا مَا أَبْقَيْتَنِي وَارْحَمْنِي أَنْ أَتَكَلَّفَ مَا لَا يَعْنِينِي وَارْزُقْنِي حُسْنَ النَّظَرِ فِيمَا يُرْضِيكَ عَنِّي اللہُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ أَسْأَلُكَ يَا أَللہُ يَا رَحْمَنُ بِجَلَالِكَ وَنُورِ وَجْہِكَ أَنْ تُلْزِمَ قَلْبِي حِفْظَ كِتَابِكَ كَمَا عَلَّمْتَنِي وَارْزُقْنِي أَنْ أَتْلُوَہُ عَلَی النَّحْوِ الَّذِي يُرْضِيكَ عَنِّيَ اللہُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ أَسْأَلُكَ يَا أَللہُ يَا رَحْمَنُ بِجَلَالِكَ وَنُورِ وَجْہِكَ أَنْ تُنَوِّرَ بِكِتَابِكَ بَصَرِي وَأَنْ تُطْلِقَ بِہِ لِسَانِي وَأَنْ تُفَرِّجَ بِہِ عَنْ قَلْبِي وَأَنْ تَشْرَحَ بِہِ صَدْرِي وَأَنْ تَغْسِلَ بِہِ بَدَنِي فَإِنَّہُ لَا يُعِينُنِي عَلَی الْحَقِّ غَيْرُكَ وَلَا يُؤْتِيہِ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ يَا أَبَا الْحَسَنِ تَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا تُجَبْ بِإِذْنِ اللہِ وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ مَا أَخْطَأَ مُؤْمِنًا قَطُّ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللہِ مَا لَبِثَ عَلِيٌّ إِلَّا خَمْسًا أَوْ سَبْعًا حَتَّی جَاءَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي مِثْلِ ذَلِكَ الْمَجْلِسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي كُنْتُ فِيمَا خَلَا لَا آخُذُ إِلَّا أَرْبَعَ آيَاتٍ أَوْ نَحْوَہُنَّ وَإِذَا قَرَأْتُہُنَّ عَلَی نَفْسِي تَفَلَّتْنَ وَأَنَا أَتَعَلَّمُ الْيَوْمَ أَرْبَعِينَ آيَةً أَوْ نَحْوَہَا وَإِذَا قَرَأْتُہَا عَلَی نَفْسِي فَكَأَنَّمَا كِتَابُ اللہِ بَيْنَ عَيْنَيَّ وَلَقَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ الْحَدِيثَ فَإِذَا رَدَّدْتُہُ تَفَلَّتَ وَأَنَا الْيَوْمَ أَسْمَعُ الْأَحَادِيثَ فَإِذَا تَحَدَّثْتُ بِہَا لَمْ أَخْرِمْ مِنْہَا حَرْفًا فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ مُؤْمِنٌ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَا أَبَا الْحَسَنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:اس دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ اسی دوران علی رضی اللہ عنہ آپﷺ کے پاس آئے اور آکرعرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان،یہ قرآن تومیرے سینے سے نکلتا جارہاہے،میں اسے محفوظ نہیں رکھ پارہاہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابوالحسن! کیا میں تمہیں ایسے کلمے نہ سکھادوں کہ جن کے ذریعہ اللہ تمہیں بھی فائدہ دے اور انہیں بھی فائدہ پہنچے جنہیں تم یہ کلمے سکھاؤ؟ اور جو تم سیکھو وہ تمہارے سینے میں محفوظ رہے،انہوں نے کہا: ہاں،اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں ضرور سکھائیے،آپ نے فرمایا: جب جمعہ کی رات ہو اور رات کے آخری تہائی حصے میں تم کھڑے ہوسکتے ہو تو اٹھ کر اس وقت عبادت کرو کیوں کہ رات کے تیسرے پہر کا وقت ایسا وقت ہو تا ہے جس میں فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں،اور دعا اس وقت مقبول ہوتی ہے،میرے بھائی یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹوں سے کہاتھا: سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی یعنی میں تمہارے لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کروں گا،آنے والی جمعہ کی رات میں،اگر نہ اٹھ سکو تو درمیان پہر میں اٹھ جاؤ،اور اگر درمیانی حصے (پہر) میں نہ اٹھ سکو تو پہلے پہر ہی میں اٹھ جاؤ اور چار رکعت صلاۃ پڑھو،پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ یٰسین پڑھو،دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور حٓم دخان اور تیسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور الم تنزیل السجدہ اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ اور تبارک (مفصل) پڑھو،پھر جب تشہد سے فارغ ہوجاؤ تو اللہ کی حمد بیان کرو اور اچھے ڈھنگ سے اللہ کی ثناء بیان کرو،اورمجھ پر صلاۃ(درود) بھیجو،اور اچھے ڈھنگ سے بھیجو اور سارے نبیوں صلاۃ پر(درود) بھیجو اور مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرو،اور ان مومن بھائیوں کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرو،جو تم سے پہلے اس دنیا سے جاچکے ہیں،پھر یہ سب کر چکنے کے بعد یہ دعا پڑھو: اللہُمَّ ارْحَمْنِی بِتَرْکِ الْمَعَاصِی أَبَدًا مَا أَبْقَیْتَنِی،وَارْحَمْنِی أَنْ أَتَکَلَّفَ مَا لاَ یَعْنِینِی،وَارْزُقْنِی حُسْنَ النَّظَرِ فِیمَا یُرْضِیکَ عَنِّی اللہُمَّ بَدِیعَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِی لاَ تُرَامُ،أَسْأَلُکَ یَا أَللہُ یَا رَحْمَنُ بِجَلاَلِکَ وَنُورِ وَجْہِکَ أَنْ تُلْزِمَ قَلْبِی حِفْظَ کِتَابِکَ کَمَا عَلَّمْتَنِی،وَارْزُقْنِی أَنْ أَتْلُوَہُ عَلَی النَّحْوِ الَّذِی یُرْضِیکَ عَنِّیَ،اللہُمَّ بَدِیعَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِی لاَتُرَامُ أَسْأَلُکَ یَا أَللہُ یَا رَحْمَنُ بِجَلالِکَ وَنُورِ وَجْہِکَ أَنْ تُنَوِّرَ بِکِتَابِکَ بَصَرِی،وَأَنْ تُطْلِقَ بِہِ لِسَانِی،وَأَنْ تُفَرِّجَ بِہِ عَنْ قَلْبِی،وَأَنْ تَشْرَحَ بِہِ صَدْرِی،وَأَنْ تَغْسِلَ بِہِ بَدَنِی،فَإِنَّہُ لاَ یُعِینُنِی عَلَی الْحَقِّ غَیْرُکَ،وَلاَ یُؤْتِیہِ إِلاَّ أَنْتَ،وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ ۱؎۔ اے ابوالحسن! ایسا ہی کرو،تین جمعہ،پانچ جمعہ یا سات جمعہ تک،اللہ کے حکم سے دعا قبول کرلی جائے گی،اور قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے،اس کو پڑھ کر کوئی مومن کبھی محروم نہ رہے گا،عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں: قسم اللہ کی! علی رضی اللہ عنہ پانچ یا سات جمعہ ٹھہرے ہوں گے کہ وہ پھر رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک ایسی ہی مجلس میں حاضر ہوئے اورآکر عرض کیا:اللہ کے رسول! میں اس سے پہلے چار آیتیں یا ان جیسی دو ایک آیتیں کم وبیش یا د کرپاتاتھا،اور جب انہیں دل میں آپ ہی آپ دہراتاتھا تو وہ بھول جاتی تھیں،اور اب یہ حال ہے کہ میں چالیس آیتیں سیکھتا ہوں یا چالیس سے دوچار کم وبیش،پھر جب میں انہیں اپنے آپ دہراتاہوں تو مجھے ایسا لگتاہے گویا کہ کتاب اللہ میری آنکھوں کے سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے (اور میں پھرپھر پڑھتا چلاجاتاہوں) اور ایسے ہی میں اس سے پہلے حدیث سنا کرتاتھا،پھر جب میں اسے دہراتا تو وہ دماغ سے نکل جاتی تھی،لیکن آج میرا حال یہ ہے کہ میں حدیثیں سنتاہوں پھر جب میں انہیں بیان کرتاہوں تو ان میں سے ایک حرف بھی کم نہیں کرتا،رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: قسم ہے رب کعبہ کی! اے ابوالحسن تم مومن ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف ولید بن مسلم کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا أَخَذْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَی شِقِّكَ الْأَيْمَنِ ثُمَّ قُلْ اللہُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْہِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَہْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ فَإِنْ مُتَّ فِي لَيْلَتِكَ مُتَّ عَلَی الْفِطْرَةِ قَالَ فَرَدَدْتُہُنَّ لِأَسْتَذْكِرَہُ فَقُلْتُ آمَنْتُ بِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ فَقَالَ قُلْ آمَنْتُ بِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْبَرَاءِ وَلَا نَعْلَمُ فِي شَيْءٍ مِنْ الرِّوَايَاتِ ذِكْرَ الْوُضُوءِ إِلَّا فِي ہَذَا الْحَدِيثِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ توجس طرح صلاۃ کے لیے وضو کرتے ہو ویساہی وضو کرکے جاؤ،پھر داہنے کروٹ لیٹو،پھر (یہ) دعا پڑھو: اللہُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْہِی إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ لاَمَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْکَ إِلاَّ إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ ۱؎۔ پس اگر تو اپنی اس رات میں مرگیا تو فطرت (اسلام) پرمرے گا،براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے دعا کے ان الفاظ کو دہرایا تاکہ یاد ہوجائیں تو دہراتے وقت میں نے کہا: آمَنْتُ بِرَسُولِکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ کہہ لیا تو آپ نے فرمایا: (رسول نہ کہو بلکہ) آمَنْتُ بِنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ کہو،میں ایمان لایا تیرے اس نبی پر جسے تو نے بھیجاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث براء بن عازب سے کئی سندوں سے آئی ہے مگراس رات کے سوا کسی بھی روایت میں ہم یہ نہیں پاتے کہ وضو کا ذکرکیا گیا ہو۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي فُدَيْكٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْبَرَّادِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ خُبَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ خَرَجْنَا فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ وَظُلْمَةٍ شَدِيدَةٍ نَطْلُبُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُصَلِّي لَنَا قَالَ فَأَدْرَكْتُہُ فَقَالَ قُلْ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا ثُمَّ قَالَ قُلْ فَلَمْ أَقُلْ شَيْئًا قَالَ قُلْ فَقُلْتُ مَا أَقُولُ قَالَ قُلْ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ حِينَ تُمْسِي وَتُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو سَعِيدٍ الْبَرَّادُ ہُوَ أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ مَدَنِيٌّ

عبداللہ بن خبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک بارش والی سخت تاریک رات میں رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرنے نکلے تا کہ آپ ہمیں صلاۃ پڑھادیں،چنانچہ میں آپ کو پاگیا،آپ نے کہا: کہو،(پڑھو) تو میں نے کچھ نہ کہا: کہو آپ نے پھر کہامگرمیں نے کچھ نہ کہا،(کیونکہ معلوم نہیں تھا کیا کہوں؟) آپ نے پھر فرمایا: کہو میں نے کہا: کیا کہوں؟ آپ نے کہا: قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌاور الْمُعَوِّذَتَیْنِ (قل اعوذ برب الفلق،اور قل اعوذ برب الناس) صبح وشام تین مرتبہ پڑھ لیا کرو،یہ (سورتیں) تمہیں ہر شر سے بچائیں گی اور محفوظ رکھیں گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-ابوسعید برّاد: یہ اسید بن ابی أسید مدنی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ الشَّامِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ قَالَ نَزَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی أَبِي فَقَرَّبْنَا إِلَيْہِ طَعَامًا فَأَكَلَ مِنْہُ ثُمَّ أُتِيَ بِتَمْرٍ فَكَانَ يَأْكُلُ وَيُلْقِي النَّوَی بِإِصْبَعَيْہِ جَمَعَ السَّبَّابَةَ وَالْوُسْطَی قَالَ شُعْبَةُ وَہُوَ ظَنِّي فِيہِ إِنْ شَاءَ اللہُ وَأَلْقَی النَّوَی بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ ثُمَّ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَہُ ثُمَّ نَاوَلَہُ الَّذِي عَنْ يَمِينِہِ قَالَ فَقَالَ أَبِي وَأَخَذَ بِلِجَامِ دَابَّتِہِ ادْعُ لَنَا فَقَالَ اللہُمَّ بَارِكْ لَہُمْ فِيمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْ لَہُمْ وَارْحَمْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے باپ کے پاس آئے،ہم نے آپ کے کھانے کے لیے کچھ پیش کیا تو آپ نے اس میں سے کھایا،پھر آپ کے لیے کچھ کھجوریں لائی گئیں،تو آپ کھجوریں کھانے اور گھٹلی اپنی دونوں انگلیوں سبابہ اور وسطی (شہادت اور بیچ کی انگلی سے (دونوں کو ملاکر) پھینکتے جاتے تھے،شعبہ کہتے ہیں: جو میں کہہ رہاہوں وہ میرا گمان و خیال ہے،اللہ نے چاہا تو صحیح ہوگا،آپ دونوں انگلیوں کے بیچ میں گٹھلی رکھ کر پھینک دیتے تھے،پھر آپ کے سامنے پینے کی کوئی چیز لائی گئی تو آپ نے پی اور اپنے دئیں جانب ہاتھ والے کو تھمادیا (جب آپ چلنے لگے تو) آپ کی سواری کی لگام تھامے تھامے میرے باپ نے آپ سے عرض کیا،آپ ہمارے لیے دعا فرمادیجئے،آپ نے فرمایا: اللہُمَّ بَارِکْ لَہُمْ فِیمَا رَزَقْتَہُمْ وَاغْفِرْ لَہُمْ وَارْحَمْہُمْ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی یہ حدیث عبداللہ بن بسر سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الشَّنِّيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ مُرَّةَ قَال سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ يَسَارِ بْنِ زَيْدٍ مَوْلَی النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ مَنْ قَالَ أَسْتَغْفِرُ اللہَ الْعَظِيمَ الَّذِي لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْہِ غُفِرَ لَہُ وَإِنْ كَانَ فَرَّ مِنْ الزَّحْفِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص کہے: أَسْتَغْفِرُ اللہَ الْعَظِیمَ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیَّ الْقَیُّومَ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ ۱؎،تو اس کی مغفرت کردی جائے گی اگرچہ وہ لشکر (وفوج) سے بھاگ ہی کیوں نہ آیا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ ادْعُ اللہَ أَنْ يُعَافِيَنِي قَالَ إِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ وَإِنْ شِئْتَ صَبَرْتَ فَہُوَ خَيْرٌ لَكَ قَالَ فَادْعُہْ قَالَ فَأَمَرَہُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَہُ وَيَدْعُوَ بِہَذَا الدُّعَاءِ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ إِنِّي تَوَجَّہْتُ بِكَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي ہَذِہِ لِتُقْضَی لِيَ اللہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي جَعْفَرٍ وَہُوَ الْخَطْمِيُّ وَعُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ ہُوَ أَخُو سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ

عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: آپ دعا فرمادیجئے کہ اللہ مجھے عافیت دے،آپ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں دعاکروں اور اگر چاہو تو صبر کیے رہو،کیوں کہ یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر (و سود مند) ہے۔اس نے کہا: دعاہی کردیجئے،تو آپ نے اسے حکم دیاکہ وہ وضو کرے،اور اچھی طرح سے وضو کرے اور یہ دعا پڑھ کر دعاکرے: اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّہُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ إِنِّی تَوَجَّہْتُ بِکَ إِلَی رَبِّی فِی حَاجَتِی ہَذِہِ لِتُقْضَی لِیَ اللہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ (اے اللہ! میں تجھ سے مانگتاہوں اور تیرے نبی محمد جو نبی رحمت ہیں کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتاہوں،میں نے آپ کے واسطہ سے اپنی اس ضرورت میں اپنے رب کی طرف توجہ کی ہے تاکہ تو اے اللہ! میری یہ ضرورت پوری کردے تو اے اللہ تومیرے بارے میں ان کی شفاعت قبول کر ۱؎)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں یعنی ابوجعفر کی روایت سے،۲-اورابوجعفر خطمی ہیں۳-اور عثمان بن حنیف یہ سہل بن حنیف کے بھائی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ عِيسَی قَالَ حَدَّثَنِي مَعْنٌ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَسَةَ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنْ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللہَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: رب تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتاہے،تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہوسکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہوکر ان لوگوں میں سے ہوجاؤ۔(یعنی تہجدپڑھو)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بَكَّارٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا دَوْسٍ الْيَحْصُبِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَائِذٍ الْيَحْصُبِيِّ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَعْكَرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنَّ عَبْدِي كُلَّ عَبْدِيَ الَّذِي يَذْكُرُنِي وَہُوَ مُلَاقٍ قِرْنَہُ يَعْنِي عِنْدَ الْقِتَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَلَا نَعْرِفُ لِعُمَارَةَ بْنِ زَعْكَرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا ہَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَہُوَ مُلَاقٍ قِرْنَہُ إِنَّمَا يَعْنِي عِنْدَ الْقِتَالِ يَعْنِي أَنْ يَذْكُرَ اللہَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ

عمارہ بن زعکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ عزوجل فرماتاہے کہ میرا بندہ کا مل بندہ وہ ہے جو مجھے اس وقت یادکرتاہے جب وہ جنگ کے وقت اپنے مدمقابل (دشمن) کے سامنے کھڑا ہورہا ہوتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،اس کی سند قوی نہیں ہے،اس ایک حدیث کے سواہم عمارہ بن زعکرہ کی نبی اکرم ﷺ سے کوئی اور روایت نہیں جانتے،۲-اللہ کے قول (وَہُوَ مُلاَقٍ قِرْنَہُ) کا معنی و مطلب یہ ہے کہ لڑائی و جنگ کے وقت،یعنی ایسے وقت اور ایسی گھڑی میں بھی وہ اللہ کا ذکر کرتاہے۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ حِزَامٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ فَقَالَ سَمِعْتُ ہَانِئَ بْنَ عُثْمَانَ عَنْ أُمِّہِ حُمَيْضَةَ بِنْتِ يَاسِرٍ عَنْ جَدَّتِہَا يُسَيْرَةَ وَكَانَتْ مِنْ الْمُہَاجِرَاتِ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَيْكُنَّ بِالتَّسْبِيحِ وَالتَّہْلِيلِ وَالتَّقْدِيسِ وَاعْقِدْنَ بِالْأَنَامِلِ فَإِنَّہُنَّ مَسْئُولَاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ وَلَا تَغْفُلْنَ فَتَنْسَيْنَ الرَّحْمَةَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ہَانِئِ بْنِ عُثْمَانَ وَقَدْ رَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ ہَانِئِ بْنِ عُثْمَانَ

حمیضہ بنت یاسر اپنی دادی یسیرہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں،یسیرہ ہجرت کرنے والی خواتین میں سے تھیں،کہتی ہیں:رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: تمہارے لیے لازم اور ضروری ہے کہ تسبیح پڑھاکرو تہلیل اور تقدیس کیا کرو ۱؎ اور انگلیوں پر (تسبیحات وغیرہ کو) گناکرو،کیوں کہ ان سے (قیامت میں) پوچھا جائے گا اور انہیں گویائی عطا کردی جائے گی،اور تم لوگ غفلت نہ برتنا کہ (اللہ کی) رحمت کوبھول بیٹھو۔امام ترمذی کہتے: ہم اس حدیث کو صرف ہانی بن عثمان کی روایت سے جانتے ہیں اور محمد بن ربیعہ نے بھی ہانی بن عثمان سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا غَزَا قَالَ اللہُمَّ أَنْتَ عَضُدِي وَأَنْتَ نَصِيرِي وَبِكَ أُقَاتِلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ عَضُدِي يَعْنِي عَوْنِي

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ جہاد کرتے (لڑتے) تو یہ دعا پڑھتے: اللہُمَّ أَنْتَ عَضُدِی وَأَنْتَ نَصِیرِی وَبِکَ أُقَاتِلُ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے ۲-اور عضدی کے معنی ہیں تو میرا مدد گار ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدِينِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ وَہُوَ أَبُو إِبْرَاہِيمَ الْأَنْصَارِيُّ الْمَدِينِيُّ وَلَيْسَ ہُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

عبداللہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر دعا عرفہ والے دن کی دعاہے اور میں نے اب تک جو کچھ (بطورذکر) کہا ہے اور مجھ سے پہلے جو دوسرے نبیوں نے کہاہے ان میں سب سے بہتر دعا یہ ہے: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-حماد بن ابی حمیدیہ محمد بن ابی حمید ہیں اور ان کی کنیت ابوا براہیم انصاری مدنی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ الْجَرَّاحِ بْنِ الضَّحَّاكِ الْكِنْدِيِّ عَنْ أَبِي شَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُكَيْمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ قُلْ اللہُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِي النَّاسَ مِنْ الْمَالِ وَالْأَہْلِ وَالْوَلَدِ غَيْرِ الضَّالِّ وَلَا الْمُضِلِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے سکھایا،آپ نے فرمایا: کہو اللہُمَّ اجْعَلْ سَرِیرَتِی خَیْرًا مِنْ عَلانِیَتِی وَاجْعَلْ عَلاَنِیَتِی صَالِحَۃً اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِی النَّاسَ مِنْ الْمَالِ وَالأَہْلِ وَالْوَلَدِ غَیْرِ الضَّالِّ وَلاَ الْمُضِلِّ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْأَسْوَدِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِيہَا أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ عَلَّمَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ قُولِي اللہُمَّ ہَذَا اسْتِقْبَالُ لَيْلِكَ وَاسْتِدْبَارُ نَہَارِكَ وَأَصْوَاتُ دُعَاتِكَ وَحُضُورُ صَلَوَاتِكَ أَسْأَلُكَ أَنْ تَغْفِرَ لِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَحَفْصَةُ بِنْتُ أَبِي كَثِيرٍ لَا نَعْرِفُہَا وَلَا نَعْرِفُ أَبَاہَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ دعا سکھائی: اللہُمَّ ہَذَا اسْتِقْبَالُ لَیْلِکَ وَاسْتِدْبَارُ نَہَارِکَ وَأَصْوَاتُ دُعَاتِکَ وَحُضُورُ صَلَوَاتِکَ أَسْأَلُکَ أَنْ تَغْفِرَ لِی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-حفصہ بنت ابی کثیر کو ہم نہیں جانتے اور نہ ہی ہم ان کے باپ کوجانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ الصُّدَائِيُّ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا قَالَ عَبْدٌ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ قَطُّ مُخْلِصًا إِلَّا فُتِحَتْ لَہُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ حَتَّی تُفْضِيَ إِلَی الْعَرْشِ مَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بھی کوئی بندہ خلوص دل سے لا إلٰہ إلا اللہ کہے گا اور کبائر سے بچتا رہے گا تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں گے،اور یہ کلمہ ٔ لا إلٰہ إلااللہ عرش تک جاپہنچے گا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ وَأَبُو أُسَامَةَ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَنْ عَمِّہِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَہْوَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَعَمُّ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ہُوَ قُطْبَةُ بْنُ مَالِكٍ صَاحِبُ النَّبِيِّ ﷺ

زیاد بن علاقہ کے چچاقطبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے: اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ مُنْکَرَاتِ الأَخْلاَقِ وَالأَعْمَالِ وَالأَہْوَائِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے۲-اور زیاد بن علاقہ کے چچا کا نام قطبہ بن مالک ہے اور یہ نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِذْ قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ اللہُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللہِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ الْقَائِلُ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ أَنَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ عَجِبْتُ لَہَا فُتِحَتْ لَہَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ مَا تَرَكْتُہُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُہُنَّ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَحَجَّاجُ بْنُ أَبِي عُثْمَانَ ہُوَ حَجَّاجُ بْنُ مَيْسَرَةَ الصَّوَّافُ وَيُكْنَی أَبَا الصَّلْتِ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھ ر ہے تھے ۱؎،اسی دوران ایک شخص نے کہا: اللہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا وَسُبْحَانَ اللہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلاً ۲؎ رسول اللہﷺ نے (سنا تو) پوچھا ایسا ایسا کس نے کہا ہے؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں نے کہا ہے اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: میں اس کلمے کو سن کر حیرت میں پڑگیا،اس کلمے کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے میں نے ان کا پڑھنا کبھی نہیں چھوڑا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-حجاج بن ابی عثمان یہ حجاج بن میسرہ صواف ہیں،ان کی کنیت ابوصلت ہے اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَقَ يُحَدِّثُ عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللہِ ﷺ عَامَ الْفِيلِ وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَكْبَرُ مِنِّي وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْہُ فِي الْمِيلَادِ وُلِدَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَامَ الْفِيلِ وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَی الْمَوْضِعِ قَالَ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الطَّيْرِ أَخْضَرَ مُحِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ

قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں واقعہ فیل ۱؎ کے سال پیداہوئے،وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ؟ توانہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں،میں آپ سے پہلے ہوں ۱؎،رسول اللہﷺ ہاتھی والے سال میں پیداہوئے،میری ماں مجھے اس جگہ پرلے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تومیں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لیدبدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَہْلٍ أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ أَبُو نُوحٍ أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَی عَنْ أَبِيہِ قَالَ خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَہُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَی الرَّاہِبِ ہَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَہُمْ فَخَرَجَ إِلَيْہِمْ الرَّاہِبُ وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ يَمُرُّونَ بِہِ فَلَا يَخْرُجُ إِلَيْہِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ قَالَ فَہُمْ يَحُلُّونَ رِحَالَہُمْ فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُہُمْ الرَّاہِبُ حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ ہَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ ہَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَبْعَثُہُ اللہُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَقَالَ لَہُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مَا عِلْمُكَ فَقَالَ إِنَّكُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنْ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ وَإِنِّي أَعْرِفُہُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِہِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَہُمْ طَعَامًا فَلَمَّا أَتَاہُمْ بِہِ وَكَانَ ہُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ قَالَ أَرْسِلُوا إِلَيْہِ فَأَقْبَلَ وَعَلَيْہِ غَمَامَةٌ تُظِلُّہُ فَلَمَّا دَنَا مِنْ الْقَوْمِ وَجَدَہُمْ قَدْ سَبَقُوہُ إِلَی فَيْءِ الشَّجَرَةِ فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيْءُ الشَّجَرَةِ عَلَيْہِ فَقَالَ انْظُرُوا إِلَی فَيْءِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْہِ قَالَ فَبَيْنَمَا ہُوَ قَائِمٌ عَلَيْہِمْ وَہُوَ يُنَاشِدُہُمْ أَنْ لَا يَذْہَبُوا بِہِ إِلَی الرُّومِ فَإِنَّ الرُّومَ إِذَا رَأَوْہُ عَرَفُوہُ بِالصِّفَةِ فَيَقْتُلُونَہُ فَالْتَفَتَ فَإِذَا بِسَبْعَةٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنْ الرُّومِ فَاسْتَقْبَلَہُمْ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكُمْ قَالُوا جِئْنَا إِنَّ ہَذَا النَّبِيَّ خَارِجٌ فِي ہَذَا الشَّہْرِ فَلَمْ يَبْقَ طَرِيقٌ إِلَّا بُعِثَ إِلَيْہِ بِأُنَاسٍ وَإِنَّا قَدْ أُخْبِرْنَا خَبَرَہُ بُعِثْنَا إِلَی طَرِيقِكَ ہَذَا فَقَالَ ہَلْ خَلْفَكُمْ أَحَدٌ ہُوَ خَيْرٌ مِنْكُمْ قَالُوا إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَہُ بِطَرِيقِكَ ہَذَا قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللہُ أَنْ يَقْضِيَہُ ہَلْ يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ مِنْ النَّاسِ رَدَّہُ قَالُوا لَا قَالَ فَبَايَعُوہُ وَأَقَامُوا مَعَہُ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللہِ أَيُّكُمْ وَلِيُّہُ قَالُوا أَبُو طَالِبٍ فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُہُ حَتَّی رَدَّہُ أَبُو طَالِبٍ وَبَعَثَ مَعَہُ أَبُو بَكْرٍ بِلَالًا وَزَوَّدَہُ الرَّاہِبُ مِنْ الْكَعْكِ وَالزَّيْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطالب شام کی طرف (تجارت کی غرض سے) نکلے،نبی اکرم ﷺبھی قریش کے بوڑھوں میں ان کے ساتھ نکلے،جب یہ لوگ بحیرہ راہب کے پاس پہنچے تو وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے،تو راہب اپنے گرجا گھر سے نکل کر ان کے پاس آیا حالاں کہ اس سے پہلے یہ لوگ اس کے پاس سے گزرتے تھے،لیکن وہ کبھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتاتھا،اور نہ ان کے پاس آتاتھا،کہتے ہیں:تو یہ لوگ اپنی سواریاں ابھی کھول ہی رہے تھے کہ راہب نے ان کے بیچ سے گھستے ہوئے آکر رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا: یہ سارے جہان کے سردار ہیں،یہ سارے جہان کے سردار ہیں،یہ سارے جہان کے رب کے رسول ہیں،اللہ انہیں سارے جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجے گا،تواس سے قریش کے بوڑھوں نے پوچھا: تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ تو اس نے کہا: جب تم لوگ اس ٹیلے سے اترے تو کوئی درخت اور پتھر ایسا نہیں رہا جوسجدہ میں نہ گر پڑا ہو،اور یہ دونوں صرف نبی ہی کو سجدہ کیا کرتے ہیں،اور میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتاہوں جو شانہ کی ہڈی کے سرے کے نیچے سیب کے مانند ہے،پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانا تیار کیا،جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو آپﷺ اونٹ چرانے گئے تھے تو اس نے کہا: کسی کو بھیج دوکہ ان کو بلا کر لائے،چنانچہ آپ آئے اور ایک بدلی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی،جب آپ لوگوں کے قریب ہوئے تو انہیں درخت کے سایہ میں پہلے ہی سے بیٹھے پایا،پھر جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا اس پر راہب بول اٹھا: دیکھو! درخت کا سایہ آپ پرجھک گیا ہے،پھر راہب ان کے سامنے کھڑا رہا اور ان سے قسم دے کر کہہ رہاتھا کہ انہیں روم نہ لے جاؤ اس لیے کہ روم کے لوگ دیکھتے ہی انہیں ان کے اوصاف سے پہچان لیں گے اور انہیں قتل کرڈالیں گے،پھر وہ مڑا تو دیکھا کہ سات آدمی ہیں جو روم سے آئے ہوئے ہیں تو اس نے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور پوچھا آپ لوگ کیوں آئے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا: ہم اس نبی کے لیے آئے ہیں جو اس مہینہ میں آنے والا ہے،اور کوئی راستہ ایسا باقی نہیں بچاہے جس کی طرف کچھ نہ کچھ لوگ نہ بھیجے گئے ہوں،اور جب ہمیں تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم تمہاری اس راہ پر بھیجے گئے،تو اس نے پوچھا: کیا تمہارے پیچھے کوئی اورہے جو تم سے بہتر ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہمیں تو تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم اس پر ہولیے اس نے کہا: اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ جس امر کا فیصلہ فرمالے کیا لوگوں میں سے اسے کوئی ٹال سکتاہے؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں،اس نے کہا: پھر تم اس سے بیعت کرو،اور اس کے ساتھ رہو،پھر وہ عربوں کی طرف متوجہ ہوکر بولا: میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے اس کا ولی کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ابوطالب،تو وہ انہیں برابر قسم دلاتا رہا یہاں تک کہ ابوطالب نے انہیں واپس مکہ لوٹادیا اور ابوبکر نے آپ کے ساتھ بلال کو بھی بھیج دیا اور راہب نے آپ کو کیک اور زیتون کا توشہ دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُنْزِلَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَتُوُفِّيَ وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کی گئی توآپ چالیس سال کے تھے،پھر آپ مکہ میں تیرہ سال تک رہے اور مدینہ میں دس سال تک،اور آپ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ (۶۳) سال کے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ وَہُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ سَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَكَذَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَرَوَی عَنْہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ مِثْلَ ذَلِكَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ (۶۵) سال کے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح سے ہم سے محمدبن بشار نے بیان کیاہے اوران سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّہُ سَمِعَ أنَسًا يَقُولُ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ وَلَا بِالْأَبْيَضِ الْأَمْہَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ بَعَثَہُ اللہُ عَلَی رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا وَتَوَفَّاہُ اللہُ عَلَی رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِہِ وَلِحْيَتِہِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نہ بہت لمبے قد والے تھے نہ بہت ناٹے اورنہ نہایت سفید،نہ بالکل گندم گوں،آپ کے سر کے بال نہ گھنگرالے تھے نہ بالکل سیدھے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیسویں سال کے شروع میں مبعوث فرمایا،پھر مکہ میں آپ دس برس رہے اور مدینہ میں دس برس اور ساٹھویں برس ۱؎ کے شروع میں اللہ نے آپ کو وفات دی اور آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں رہے ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيہَا فَمَا اسْتَقْبَلَہُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَہُوَ يَقُولُ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ وَقَالُوا عَنْ عَبَّادٍ أَبِي يَزِيدَ مِنْہُمْ فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مکہ میں تھا،جب ہم اس کے بعض اطراف میں نکلے تو جوبھی پہاڑ اور درخت آپ کے سامنے آتے سبھی السلام علیک یا رسول اللہ کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-کئی لوگوں نے یہ حدیث ولید بن ابی ثور سے روایت کی ہے اوران سب نے عن عباد أبی یزید کہاہے،اور انہیں میں سے فروہ بن ابی المغراء بھی ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَطَبَ إِلَی لِزْقِ جِذْعٍ وَاتَّخَذُوا لَہُ مِنْبَرًا فَخَطَبَ عَلَيْہِ فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِينَ النَّاقَةِ فَنَزَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَمَسَّہُ فَسَكَنَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيٍّ وَجَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَنَسٍ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کھجور کے ایک تنہ سے ٹیک لگاکر خطبہ دیتے تھے،پھر لوگوں نے آپ کے لیے ایک منبر تیار کردیا،آپ نے اس پر خطبہ دیا تو وہ تنا رونے لگا جیسے اونٹنی روتی ہے جب نبی اکرم ﷺ نے اتر کر اس پر ہاتھ پھیرا تب وہ چپ ہوا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس والی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابی،جابر،ابن عمر،سہل بد سعد،ابن عباس اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ بِمَ أَعْرِفُ أَنَّكَ نَبِيٌّ قَالَ إِنْ دَعَوْتُ ہَذَا الْعِذْقَ مِنْ ہَذِہِ النَّخْلَةِ أَتَشْہَدُ أَنِّي رَسُولُ اللہِ فَدَعَاہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنْ النَّخْلَةِ حَتَّی سَقَطَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ قَالَ ارْجِعْ فَعَادَ فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا: کیسے میں جانوں کہ آپ نبی ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر میں اس کھجور کے درخت کے اس ٹہنی کوبلالوں تو کیا تم میرے بارے میں اللہ کے رسول ہونے کی گواہی دوگے؟ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ (ٹہنی) کھجور کے درخت سے اتر کر نبی اکرمﷺ کے سامنے گرپڑی،پھر آپ نے فرمایا: لوٹ جا تو وہ واپس چلی گئی یہ دیکھ کر وہ اعرابی اسلام لے آیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ حَدَّثَنَا عَلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدِ بْنُ أَخْطَبَ قَالَ مَسَحَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَدَہُ عَلَی وَجْہِي وَدَعَا لِي قَالَ عَزْرَةُ إِنَّہُ عَاشَ مِائَةً وَعِشْرِينَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِہِ إِلَّا شَعَرَاتٌ بِيضٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو زَيْدٍ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ أَخْطَبَ

ابوزید بن اخطب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لیے دعا فرمائی،عزرہ کہتے ہیں: وہ ایک سوبیس سال تک پہنچے ہیں پھربھی ان کے سر کے صرف چند بال سفید ہوئے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابوزید کانام عمرو بن اخطب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ عَرَضْتُ عَلَی مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّہُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَعْنِي ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيہِ الْجُوعَ فَہَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَتْ نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَہَا فَلَفَّتْ الْخُبْزَ بِبَعْضِہِ ثُمَّ دَسَّتْہُ فِي يَدِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِہِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ فَذَہَبْتُ بِہِ إِلَيْہِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَہُ النَّاسُ قَالَ فَقُمْتُ عَلَيْہِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِطَعَامٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِمَنْ مَعَہُ قُومُوا قَالَ فَانْطَلَقُوا فَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيہِمْ حَتَّی جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالنَّاسُ مَعَہُ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُہُمْ قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّی لَقِيَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَہُ حَتَّی دَخَلَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْہُ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ بِعُكَّةٍ لَہَا فَآدَمَتْہُ ثُمَّ قَالَ فِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا شَاءَ اللہُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَہُمْ فَأَكَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَہُمْ فَأَكَلُوا حَتَّی شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّہُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہما سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی،وہ کمزور تھی،مجھے محسوس ہوتاہے کہ آپ بھوکے ہیں،کیا تمہارے پاس کوئی چیز کھانے کی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں،تو انہوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں پھر اپنی اوڑھنی نکالی اورا س کے کچھ حصہ میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ یعنی بغل کے نیچے چھپادیں اور اوڑھنی کا کچھ حصہ مجھے اڑھا دیا،پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا،جب میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ مسجد میں بیٹھے ملے اور آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے،تو میں جاکر ان کے پاس کھڑا ہوگیا،رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: کیا تمہیں ابوطلحہ نے بھیجاہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں،آپ نے پوچھا: کھانا لے کر؟ میں نے کہا: ہاں،تو رسول اللہ ﷺ نے ان تمام لوگوں سے جو آپ کے ساتھ تھے کہا: اٹھو چلو،چنانچہ وہ سب چل پڑے اور میں ان کے آگے آگے چلا،یہاں تک کہ میں ابوطلحہ کے پاس آیا اور انہیں اس کی خبر دی،ابوطلحہ نے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺتشریف لے آئے ہیں،اور لوگ بھی آپ کے ساتھ ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں جو ہم انہیں کھلائیں،ام سلیم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے،تو ابوطلحہ چلے اور آکر رسول اللہ ﷺ سے ملے،تو رسول اللہ ﷺ آئے اور ابوطلحہ آپ کے ساتھ تھے،یہاں تک کہ دونوں اندر آگئے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام سلیم!جو تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ،چنانچہ وہ وہی روٹیاں لے کر آئیں،رسول اللہ ﷺ نے انہیں توڑنے کا حکم دیا،چنانچہ وہ توڑی گئیں اور ام سلیم نے اپنے گھی کی کُپّی کواس پر اوندھا کردیا اور اسے اس میں چیپڑدیا،پھر اس پر رسول اللہ ﷺ نے پڑھاجو اللہ نے پڑھوانا چاہا،پھر آپ نے فرمایا: دس آدمیوں کو اندر آنے دو،توا نہوں نے انہیں آنے دیا اور وہ کھاکرآسودہ ہوگئے،پھر وہ نکل گئے،پھر آپ نے فرمایا: دس کو اندر آنے دو تو انہوں نے انہیں آنے دیا وہ بھی کھاکر خوب آسودہ ہوگئے اور نکل گئے،اس طرح سارے لوگوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھایا اور وہ سب کے سب ستر یا اسی آدمی تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَحَانَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ وَالْتَمَسَ النَّاسُ الْوَضُوءَ فَلَمْ يَجِدُوہُ فَأُتِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِوَضُوءٍ فَوَضَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَدَہُ فِي ذَلِكَ الْإِنَاءِ وَأَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَتَوَضَّئُوا مِنْہُ قَالَ فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ تَحْتِ أَصَابِعِہِ فَتَوَضَّأَ النَّاسُ حَتَّی تَوَضَّئُوا مِنْ عِنْدِ آخِرِہِمْ وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَزِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا،عصر کا وقت ہوگیاتھا،لوگوں نے وضو کا پانی ڈھونڈھا،لیکن وہ نہیں پاسکے،اتنے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ وضو کا پانی لایاگیا،تو رسول اللہ ﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس سے وضو کریں،وہ کہتے ہیں: تو میں نے آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی ابلتے دیکھا،پھر لوگوں نے وضو کیا یہاں تک کہ ان میں کا جو سب سے آخری شخص تھا اس نے بھی وضو کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمران بن حصین،ابن مسعود،جابر اور زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي الزُّہْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا ابْتُدِيَ بِہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ النُّبُوَّةِ حِينَ أَرَادَ اللہُ كَرَامَتَہُ وَرَحْمَةَ الْعِبَادِ بِہِ أَنْ لَا يَرَی شَيْئًا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ فَمَكَثَ عَلَی ذَلِكَ مَا شَاءَ اللہُ أَنْ يَمْكُثَ وَحُبِّبَ إِلَيْہِ الْخَلْوَةُ فَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيْہِ مِنْ أَنْ يَخْلُوَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پہلی وہ چیز جس سے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی ابتدا ہوئی اور جس وقت اللہ نے اپنے اعزاز سے آپ کو نوازنے اور آپ کے ذریعہ بندوں پر اپنی رحمت و بخشش کا ارادہ کیاوہ یہ تھی کہ آپ جو بھی خواب دیکھتے تھے اس کی تعبیر صبح کے پوپھٹنے کی طرح ظاہر ہوجاتی تھی ۱؎،پھر آپ کا حال ایسا ہی رہا جب تک اللہ نے چاہا،ان دنوں خلوت و تنہائی آپ کو ایسی مرغوب تھی کہ اتنی مرغوب کوئی اور چیز نہ تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ إِنَّكُمْ تَعُدُّونَ الْآيَاتِ عَذَابًا وَإِنَّا كُنَّا نَعُدُّہَا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ بَرَكَةً لَقَدْ كُنَّا نَأْكُلُ الطَّعَامَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ قَالَ وَأُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِإِنَاءٍ فَوَضَعَ يَدَہُ فِيہِ فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ حَيَّ عَلَی الْوَضُوءِ الْمُبَارَكِ وَالْبَرَكَةُ مِنْ السَّمَاءِ حَتَّی تَوَضَّأْنَا كُلُّنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تم لوگ اللہ کی نشانیوں کو عذاب سمجھتے ہو اور ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اسے برکت سمجھتے تھے،ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور ہم کھانے کو تسبیح پڑھتے سنتے تھے،نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک برتن لایاگیا اس میں آپ نے اپنا ہاتھ رکھا تو آپ کی انگلیوں کے بیچ سے پانی ابلنے لگا،پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آو ٔ اس برکت پانی سے وضو کرو اور یہ با برکت آسمان سے نازل ہورہی ہے،یہاں تک کہ ہم سب نے وضو کرلیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَسْرُدُ سَرْدَكُمْ ہَذَا وَلَكِنَّہُ كَانَ يَتَكَلَّمُ بِكَلَامٍ بَيْنَہُ فَصْلٌ يَحْفَظُہُ مَنْ جَلَسَ إِلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ وَقَدْ رَوَاہُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ الزُّہْرِيِّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تمہاری طرح جلدی جلدی نہیں بولتے تھے بلکہ آپ ایسی گفتگو کرتے جس میں ٹھہراؤ ہوتاتھا،جو آپ کے پاس بیٹھا ہوتاوہ اسے یاد کر لیتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،ہم اسے صرف زہری کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اسے یونس بن یزید نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُثَنَّی عَنْ ثُمَامَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعِيدُ الْكَلِمَةَ ثَلَاثًا لِتُعْقَلَ عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُثَنَّی

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ (بسا اوقات) ایک کلمہ تین بار دہراتے تھے تاکہ اسے (اچھی طرح) سمجھ لیاجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف عبداللہ بن مثنیٰ کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ الْجَعْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَال سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ ذَہَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ بِرَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ وَتَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِہِ فَقُمْتُ خَلْفَ ظَہْرِہِ فَنَظَرْتُ إِلَی الْخَاتَمِ بَيْنَ كَتِفَيْہِ فَإِذَا ہُوَ مِثْلُ زِرِّ الْحَجَلَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی الزِّرُّ يُقَالُ بَيْضٌ لَہَا وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَأَبِي رِمْثَةَ وَبُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ سَرْجِسَ وَعَمْرِو بْنِ أَخْطَبَ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری خالہ مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر گئیں،انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا بھانجہ بیمار ہے،تو آپ نے میرے سرپر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی،آپ نے وضو کیا تو میں نے آپ کے وضو کابچا ہوا پانی پی لیا،پھر میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا،اورمیں نے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی وہ چھپر کھٹ (کے پردے) کی گھنڈی کی طرح تھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: کبوترکے انڈے کو زر کہاجاتاہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں سلمان،قرّہ بن ایاس مزنی،جابر بن سمرہ،ابورمثہ،بریدہ اسلمی،عبداللہ بن سرجس،عمر و بن اخطب اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَ خَاتَمُ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَعْنِي الَّذِي بَيْنَ كَتِفَيْہِ غُدَّةً حَمْرَاءَ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مہر نبوت یعنی جو آپ کے دونوں شانوں کے درمیان تھی کبوتر کے انڈے کے مانند سرخ رنگ کی ایک گلٹی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبْرَأُ إِلَی كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خِلِّہِ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلًا وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں ہرخلیل کی خلت(دوستی) سے بری ہوں اور اگر میں کسی کوخلیل (دوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو،یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیل بناتا،اور تمہارا یہ ساتھی اللہ کا خلیل ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری،ابوہریرہ،ابن زبیر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا وَأَحَبُّنَا إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سب سے بہتر ہیں اوروہ ہم میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَةَ أَيُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ كَانَ أَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللہِ قَالَتْ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَتْ عُمَرُ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَتْ ثُمَّ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ فَسَكَتَتْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: صحابہ میں سے رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر،میں نے پوچھا: پھر کون؟ انہوں نے کہا: عمر،میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: پھر ابوعبیدہ بن جراح،میں نے پوچھا:پھرکون؟ تو وہ خاموش رہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ وَالْأَعْمَشِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ صَہْبَانَ وَابْنِ أَبِي لَيْلَی وَكَثِيرٍ النَّوَّاءِ كُلِّہِمْ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَہْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَی لَيَرَاہُمْ مَنْ تَحْتَہُمْ كَمَا تَرَوْنَ النَّجْمَ الطَّالِعَ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنْہُمْ وَأَنْعَمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلند درجات والوں کو(جنت میں) جوان کے نیچے ہوں گے،ایسے ہی دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے افق پر طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما دونوں انہیں میں سے ہوں گے اور کیا ہی خوب ہیں دونوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے،یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عطیہ کے واسطہ سے ابوسعیدخدری سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَسَامَةَ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ الْبَرَاءِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَبْصَرَ حَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللہُمَّ إِنِّي أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو فرمایا: اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں،تو بھی ان دونوں سے محبت فرما۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَال سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ يَقُولُ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَاضِعًا الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَی عَاتِقِہِ وَہُوَ يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أُحِبُّہُ فَأَحِبَّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْفُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا،آپ اپنے کندھے پر حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بٹھائے ہوئے تھے اور فرمارہے تھے: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتاہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،اور یہ فضیل بن مرزوق کی(مذکورہ) روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَہْرَامٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَی عَاتِقِہِ فَقَالَ رَجُلٌ نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَنِعْمَ الرَّاكِبُ ہُوَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَزَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ قَدْ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا:بیٹے! کیاہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-زمعہ بن صالح کی بعض محدثین نے ان کے حفظ کے تعلق سے تضعیف کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ كَثِيرٍ النَّوَّاءِ،عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ،عَنْ المُسَيِّبِ بْنِ نَجَبَةَ،قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ((إِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُجَبَاءَ رُفَقَاءَ أَوْ رُقَبَاءَ وَأُعْطِيتُ أَنَا أَرْبَعَةَ عَشَرَ))،قُلْنَا: مَنْ ہُمْ؟ قَالَ،((أَنَا وَابْنَايَ،وَجَعْفَرُ،وَحَمْزَةُ،وَأَبُو بَكْرٍ،وَعُمَرُ،وَمُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ،وَبِلَالٌ،وَسَلْمَانُ،وَعَمَّارٌ،وَالْمِقْدَادُ،وَحُذَيْفَةُ،وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ)): ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الوَجْہِ. وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الحَدِيثُ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا))

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کو اللہ نے سات نقیب عنایت فرمائے ہیں،اور مجھے چودہ،ہم نے عرض کیا: وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں،میرے دونوں نواسے،جعفر،حمزہ،ابوبکر،عمر،مصعب بن عمیر،بلال،سلمان،مقداد،حذیفہ،عمار اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ دَاوُدَ الْعَطَّارِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ وَأَشَدُّہُمْ فِي أَمْرِ اللہِ عُمَرُ وَأَصْدَقُہُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ وَأَعْلَمُہُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأَفْرَضُہُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَقْرَؤُہُمْ أُبَيٌّ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ ہَذِہِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو قِلَابَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَالْمَشْہُورُ حَدِيثُ أَبِي قِلَابَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں،اور سب سے زیادہ سچی حیاوالے عثمان بن عفان ہیں،اور حلال وحرام کے سب سے بڑے جانکار معاذ بن جبل ہیں،اور فرائض(میراث) کے سب سے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں،اور سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں،اور ہرامت میں ایک امین ہوتاہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے اس سند سے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں ۲-اسے ابوقلابہ نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مانند روایت کیا ہے اور مشہور ابوقلابہ والی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ وَأَشَدُّہُمْ فِي أَمْرِ اللہِ عُمَرُ وَأَصْدَقُہُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ وَأَقْرَؤُہُمْ لِكِتَابِ اللہِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَأَفْرَضُہُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَعْلَمُہُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا وَإِنَّ أَمِينَ ہَذِہِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ سچی حیا والے عثمان ہیں اور اللہ کی کتاب کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں اور فرائض(میراث) کے سب سے بڑے جانکار زید بن ثابت ہیں اور حلال وحرام کے سب سے بڑے عالم معاذبن جبل ہیں اور سنو ہر امت کا ایک امین ہوتاہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَال سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ لَمْ يَكُنْ الَّذِينَ كَفَرُوا قَالَ وَسَمَّانِي قَالَ نَعَمْ فَبَكَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ فَذَكَرَہُ نَحْوَہُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں لَمْ یَکُنِ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ ۱؎ پڑھ کر سناؤں،انہوں نے عرض کیا: کیااس نے میرا نام لیا ہے،آپ نے فرمایا: ہاں (یہ سن کر) وہ روپڑے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: پھر انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ قَال سَمِعْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يُحَدِّثُ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَہُ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ فَقَرَأَ عَلَيْہِ لَمْ يَكُنْ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْكِتَابِ فَقَرَأَ فِيہَا إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللہِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَہُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَہُ وَقَرَأَ عَلَيْہِ وَلَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْہِ ثَانِيًا وَلَوْ كَانَ لَہُ ثَانِيًا لَابْتَغَی إِلَيْہِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ وَيَتُوبُ اللہُ عَلَی مَنْ تَابَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ رَوَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ وَقَدْ رَوَی قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِأُبَيٍّ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں،پھر آپ نے انہیں لَمْ یَکُنِ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ پڑھ کر سنایا،اور اس میں یہ بھی پڑھا ۱؎ إِنَّ ذَاتَ الدِّینِ عِنْدَاللہِ الْحَنِیفِیَّۃُ الْمُسْلِمَۃُ لاَ الْیَہُودِیَّۃُ وَلاَ النَّصْرَانِیَّۃُ مَنْ یَعْمَلْ خَیْرًا فَلَنْ یُکْفَرَہُ (بے شک دین والی ۲؎ اللہ کے نزدیک تمام ادیان و ملل سے رشتہ کاٹ کر اللہ کی جانب یکسو ہوجانے والی مسلمان عورت ہے نہ کہ یہودی اور نصرانی عورت جوکوئی نیکی کاکام کرے تو وہ ہرگز اس کی ناقدری نہ کرے،اور آپ نے ان کے سامنے یہ بھی پڑھا: ۳؎ وَلَوْ أَنَّ لابْنِ آدَمَ وَادِیًا مِنْ مَالٍ لابْتَغَی إِلَیْہِ ثَانِیًا وَلَوْ کَانَ لَہُ ثَانِیًا لابْتَغَی إِلَیْہِ ثَالِثًا وَلاَ یَمْلأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلاَّ التُّرَابُ وَیَتُوبُ اللہُ عَلَی مَنْ تَابَ ۔(اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہوتو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا،اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی ۴؎،اور جو توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرماتاہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندسے بھی آئی ہے،۳-اسے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی سے اور انہوں نے ابی بن کعب سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں،۴-قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ جَمَعَ الْقُرْآنَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَرْبَعَةٌ كُلُّہُمْ مِنْ الْأَنْصَارِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَمُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَأَبُو زَيْدٍ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ مَنْ أَبُو زَيْدٍ قَالَ أَحَدُ عُمُومَتِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں قرآن کو چار آدمیوں نے جمع کیا اور وہ سب کے سب انصار میں سے ہیں: ابی بن کعب،معاذ بن جبل،زید بن ثابت اور ابوزید ۱؎۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس سے کہا: ابوزید کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا: وہ میرے چچا لوگوں میں سے ایک ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو بَكْرٍ نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ نِعْمَ الرَّجُلُ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ نِعْمَ الرَّجُلُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُہَيْلٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا ہی اچھے لوگ ہیں ابوبکر،عمر،ابوعبیدہ بن جراح،اسید بن حضیر،ثابت بن قیس بن شماس،معاذ بن جبل اور معاذ بن عمرو بن جموح(رضی اللہ عنہم)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے ہم اسے صرف سہیل کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ جَاءَ الْعَاقِبُ وَالسَّيِّدُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَا ابْعَثْ مَعَنَا أَمِينًا فَقَالَ فَإِنِّي سَأَبْعَثُ مَعَكُمْ أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَأَشْرَفَ لَہَا النَّاسُ فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ وَكَانَ أَبُو إِسْحَقَ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ صِلَةَ قَالَ سَمِعْتُہُ مُنْذُ سِتِّينَ سَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينٌ وَأَمِينُ ہَذِہِ الْأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ أَخْبَرَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ وَأَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ قَالَ حُذَيْفَةُ قَلْبُ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ مِنْ ذَہَبٍ

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک قوم کا نائب اور سردار دونوں نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور دونوں نے عرض کیا: ہمارے ساتھ آپ اپنا کوئی امین روانہ فرمائیں،تو آپ نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ ایک ایسا امین بھیجوں گا جو حق امانت بخوبی اداکرے گا،تو اس کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھ گئیں اورپھرآپ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کوروانہ فرمایا۔راوی حدیث ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں: جب وہ اس حدیث کوصلہ سے روایت کرتے تو کہتے ساٹھ سال ہوئے یہ حدیث میں نے ان سے سنی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بھی نبی اکرمﷺسے آئی ہے،آپ نے فرمایا: ہرامت کاایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔بیان کیا ہم سے محمد بن بشار نے،وہ کہتے ہیں: مجھے مسلم بن قتیبہ اور ابوداود نے خبردی اور ان دونوں نے شعبہ کے واسطہ سے ابواسحاق سے روایت کی،وہ کہتے ہیں: حذیفہ نے کہا: صلہ بن زفرکا دل سونے کی طرح روشن اور چمکدار ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ الْإِيَادِيِّ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الْجَنَّةَ لَتَشْتَاقُ إِلَی ثَلَاثَةٍ عَلِيٍّ وَعَمَّارٍ وَسَلْمَانَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے: علی،عمار،اور سلمان رضی اللہ عنہم کی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف حسن بن صالح کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ يَحْيَی بْنِ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ عَنْ أَبِي الزَّعْرَاءِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي مِنْ أَصْحَابِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَاہْتَدُوا بِہَدْيِ عَمَّارٍ وَتَمَسَّكُوا بِعَہْدِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ وَيَحْيَی بْنُ سَلَمَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَأَبُو الزَّعْرَاءِ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ ہَانِئٍ وَأَبُو الزَّعْرَاءِ الَّذِي رَوَی عَنْہُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ عَمْرٍو وَہُوَ ابْنُ أَخِي أَبِي الْأَحْوَصِ صَاحِبِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم ان دونوں کی پیروی کروجو میرے اصحاب میں سے میرے بعد ہوں گے یعنی ابوبکر وعمر کی،اور عمار کی روش پر چلو،اور ابن مسعود کے عہد (وصیت)کو مضبوطی سے تھامے رہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن مسعود کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف یحییٰ بن سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں،اور یحییٰ بن سلمہ حدیث میں ضعیف ہیں،۳-ابوالزعراء کانام عبداللہ بن ہانی ٔ ہے،اوروہ ابوالزعراء جن سے شعبہ،ثوری اور ابن عیینہ نے روایت کی ہے ان کانام عمرو بن عمرو ہے،اور وہ عبداللہ بن مسعود کے شاگرد ابوالا ٔ حوص کے بھتیجے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا مُوسَی يَقُولُ لَقَدْ قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنْ الْيَمَنِ وَمَا نُرَی حِينًا إِلَّا أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ ﷺ لِمَا نَرَی مِنْ دُخُولِہِ وَدُخُولِ أُمِّہِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ

اسود بن یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی دونوں یمن سے آئے تو ہم ایک عرصہ تک یہی سمجھتے رہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اہل بیت ہی کے ایک فرد ہیں،کیوں کہ ہم انہیں اور ان کی والدہ کو کثرت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس(ان کے گھرمیں) آتے جاتے دیکھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-سفیان ثوری نے بھی اسے ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَتَيْنَا عَلَی حُذَيْفَةَ فَقُلْنَا حَدِّثْنَا مَنْ أَقْرَبُ النَّاسِ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ ہَدْيًا وَدَلًّا فَنَأْخُذَ عَنْہُ وَنَسْمَعَ مِنْہُ قَالَ كَانَ أَقْرَبُ النَّاسِ ہَدْيًا وَدَلًّا وَسَمْتًا بِرَسُولِ اللہِ ﷺ ابْنُ مَسْعُودٍ حَتَّی يَتَوَارَی مِنَّا فِي بَيْتِہِ وَلَقَدْ عَلِمَ الْمَحْفُوظُونَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ ہُوَ مِنْ أَقْرَبِہِمْ إِلَی اللہِ زُلْفَی قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا: آپ ہمیں بتائیے کہ لوگوں میںچال ڈھال میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے قریب کون ہے کہ ہم اس کے طورطریقے کو اپنائیں،اور اس کی باتیں سنیں؟ تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں چال ڈھال اور طور طریقے میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے قریب ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں،یہاں تک کہ وہ ہم سے اوجھل ہوکر آپ کے گھر کے اندر بھی جایا کرتے تھے،اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو جو کسی طرح کی تحریف یا نسیان سے محفوظ ہیں یہ بخوبی معلوم ہے کہ ام عبد کے بیٹے یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان سب میں اللہ سے سب سے نزدیک ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا زُہَيْرٌ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْہُمْ لَأَمَّرْتُ عَلَيْہِمْ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں بغیر مشورہ کے ان میں سے کسی کو امیر بناتا تو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف حارث کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ كُنْتُ مُؤَمِّرًا أَحَدًا مِنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ لَأَمَّرْتُ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں بغیر مشورہ کے کسی کو امیر بناتاتو ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود) کو امیر بناتا۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَسَالِمٍ مَوْلَی أَبِي حُذَيْفَةَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قرآن مجید چار لوگوں سے سیکھو: ابن مسعود،ابی بن کعب،معاذبن جبل،اور سالم مولی ابی حذیفہ سے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَخْلَدٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ خَيْثَمَةَ بْنِ أَبِي سَبْرَةَ قَالَ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَسَأَلْتُ اللہَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسًا صَالِحًا فَيَسَّرَ لِي أَبَا ہُرَيْرَةَ فَجَلَسْتُ إِلَيْہِ فَقُلْتُ لَہُ إِنِّي سَأَلْتُ اللہَ أَنْ يُيَسِّرَ لِي جَلِيسًا صَالِحًا فَوُفِّقْتَ لِي فَقَالَ لِي مِمَّنْ أَنْتَ قُلْتُ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ جِئْتُ أَلْتَمِسُ الْخَيْرَ وَأَطْلُبُہُ قَالَ أَلَيْسَ فِيكُمْ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ مُجَابُ الدَّعْوَةِ وَابْنُ مَسْعُودٍ صَاحِبُ طَہُورِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَنَعْلَيْہِ وَحُذَيْفَةُ صَاحِبُ سِرِّ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَعَمَّارٌ الَّذِي أَجَارَہُ اللہُ مِنْ الشَّيْطَانِ عَلَی لِسَانِ نَبِيِّہِ وَسَلْمَانُ صَاحِبُ الْكِتَابَيْنِ قَالَ قَتَادَةُ وَالْكِتَابَانِ الْإِنْجِيلُ وَالْفُرْقَانُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَخَيْثَمَةُ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَبْرَةَ إِنَّمَا نُسِبَ إِلَی جَدِّہِ

خیثمہ بن ابی سبرہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے اللہ سے اپنے لیے ایک صالح ہم نشیں پانے کی دعاء کی،چنانچہ اللہ نے مجھے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی کی توفیق بخشی ۱؎،میں ان کے پاس بیٹھنے لگا تو میں نے ان سے عرض کیا: میں نے اللہ سے اپنے لیے ایک صالح ہم نشیں کی توفیق مرحمت فرمانے کی دعاء کی تھی،چنانچہ مجھے آپ کی ہم نشینی کی توفیق ملی ہے،انہوں نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں کے ہو؟ میں نے عرض کیا: میرا تعلق اہل کوفہ سے ہے اور میں خیر کی تلاش وطلب میں یہاں آیاہوں،انہوں نے کہا: کیا تمہارے یہاں سعد بن مالک جو مستجاب الدعوات ہیں ۲؎ اور ابن مسعود جو رسول اللہ ﷺ کے لیے وضو کے پانی کا انتظام کرنے والے اور آپ کے کفش بردار ہیں اور حذیفہ جو آپ کے ہمراز ہیں اور عمار جنہیں اللہ نے شیطان سے اپنے نبی کی زبانی پناہ دی ہے اور سلمان جو دونوں کتابوں والے ہیں موجود نہیں ہیں۔راوی حدیث قتادہ کہتے ہیں: کتابان سے مراد انجیل اور قرآن ہیں ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-خیثمہ یہ عبدالرحمٰن بن ابوسبرہ کے بیٹے ہیں ان کی نسبت ان کے دادا کی طرف کردی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي جَہْضَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ رَأَی جِبْرِيلَ عَلَيْہِ السَّلَام مَرَّتَيْنِ وَدَعَا لَہُ النَّبِيُّ ﷺ مَرَّتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي جَہْضَمٍ سَمَاعًا مِنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَدْ رَوَی عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبُو جَہْضَمٍ اسْمُہُ مُوسَی بْنُ سَالِمٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے جبرئیل علیہ السلام کو دوبار دیکھا اور نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے دومرتبہ دعائیں کیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث مرسل ہے،ہمیں نہیں معلوم کہ ابوجہضم کا ابن عباس سے سماع ہے یا نہیں ۲-یہ حدیث عبید اللہ بن عبداللہ بن عباس سے بھی ابن عباس کے واسطہ سے آئی ہے،۳-اور ابوجہضم کانام موسیٰ بن سالم ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ الْمُؤَدِّبُ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ دَعَا لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يُؤْتِيَنِي اللہُ الْحِكْمَةَ مَرَّتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ وَقَدْ رَوَاہُ عِكْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

-عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دوبار مجھے حکمت سے نوازے جانے کی دعا فرمائی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے عطا کی روایت سے غریب ہے اور اسے عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ ضَمَّنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ وَقَالَ اللہُمَّ عَلِّمْہُ الْحِكْمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے سینے سے لگاکرفرمایا: اے اللہ! اسے حکمت سکھادے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ مَرَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَسَمِعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ صَوْتَہُ فَقَالَتْ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللہِ أُنَيْسٌ قَالَ فَدَعَا لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَ دَعَوَاتٍ قَدْ رَأَيْتُ مِنْہُنَّ اثْنَتَيْنِ فِي الدُّنْيَا وَأَنَا أَرْجُو الثَّالِثَةَ فِي الْآخِرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گزرے تو میری ماں ام سلیم نے آپ کی آواز سن کر بولیں: میرے باپ اورمیری ماں آپ پر فداہوں اللہ کے رسول! یہ انیس ۱؎ ہے،تو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے تین دعائیں کیں،ان میں سے دو کو تو میں نے دنیا ہی میں دیکھ لیا ۲؎ اور تیسرے کا آخرت میں امید وار ہوں ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،اور وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ،عَنْ شَرِيكٍ،عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ،عَنْ أَنَسٍ،قَالَ: رُبَّمَا قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ: ((يَا ذَا الأُذُنَيْنِ)). قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: يَعْنِي يُمَازِحُہُ: ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ))

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی نبی اکرم ﷺ مجھے کہتے: اے دوکانوں والے۔ابواسامہ کہتے ہیں: یعنی آپ ان سے یہ مذاق کے طورپر فرماتے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَال سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّہَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ أَنَسٌ خَادِمُكَ ادْعُ اللہَ لَہُ قَالَ اللہُمَّ أَكْثِرْ مَالَہُ وَوَلَدَہُ وَبَارِكْ لَہُ فِيمَا أَعْطَيْتَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! انس آپ کا خادم ہے،آپ اللہ سے اس کے لیے دعا فرمادیجئے۔آپ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے مال اور اولاد میں زیادتی عطا فرما اورجوتونے اسے عطا کیا ہے اس میں برکت دے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي نَصْرٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كَنَّانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ بِبَقْلَةٍ كُنْتُ أَجْتَنِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ عَنْ أَبِي نَصْرٍ وَأَبُو نَصْرٍ ہُوَ خَيْثَمَةُ بْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ الْبَصْرِيُّ رَوَی عَنْ أَنَسٍ أَحَادِيثَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے میری کنیت ایک ساگ (گھاس) کے ساتھ رکھی جسے میں چن رہاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اس حدیث کو ہم صرف جابر جعفی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ ابونصر سے روایت کرتے ہیں،۲-ا بونصر کانام خیثمہ بن ابی خیثمہ بصری ہے،انہوں نے انس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ أَبُو عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِیُّ قَالَ قَالَ لِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ يَا ثَابِتُ خُذْ عَنِّي فَإِنَّكَ لَنْ تَأْخُذَ عَنْ أَحَدٍ أَوْثَقَ مِنِّي إِنِّي أَخَذْتُہُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَنْ جِبْرِيلَ وَأَخَذَہُ جِبْرِيلُ عَنْ اللہِ تَعَالَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللہِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَ حَدِيثِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ يَعْقُوبَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ وَأَخَذَہُ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ جِبْرِيلَ

ثابت بنانی کا بیان ہے کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ثابت مجھ سے علم دین حاصل کرو کیوں کہ اس کے لیے تم مجھ سے زیادہ معتبر آدمی کسی کو نہیں پاؤگے،میں نے اسے (براہ راست) رسول اللہ ﷺ سے لیا ہے،اور آپ ﷺنے جبرئیل سے اور جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے لیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف زید بن حباب کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ،عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللہِ،عَنْ ثَابِتٍ،عَنْ أَنَسٍ،نَحْوَ حَدِيثِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ يَعْقُوبَ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ وَأَخَذَہُ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ جِبْرِيلَ

اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے ابراہیم بن یعقوب والی حدیث ہی کی طرح حدیث مروی ہے،لیکن اس میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اسے جبرئیل سے لیا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ أَبِي خَلْدَةَ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي الْعَالِيَةِ سَمِعَ أَنَسٌ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ خَدَمَہُ عَشْرَ سِنِينَ وَدَعَا لَہُ النَّبِيُّ ﷺ وَكَانَ لَہُ بُسْتَانٌ يَحْمِلُ فِي السَّنَةِ الْفَاكِہَةَ مَرَّتَيْنِ وَكَانَ فِيہَا رَيْحَانٌ كَانَ يَجِيءُ مِنْہُ رِيحُ الْمِسْكِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُہُ خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَقَدْ أَدْرَكَ أَبُو خَلْدَةَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَرَوَی عَنْہُ

ابوخلدہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا: کیا انس نے نبی اکرم ﷺ سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: انس نے نبی اکرم ﷺکی دس سال خدمت کی ہے اورآپ نے ان کے لیے دعا فرمائی ہے،اور انس کا ایک باغ تھا جو سال میں دو بار پھلتا تھا،اور اس میں ایک خوشبو دار پودا تھا جس سے مشک کی بو آتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابوخلدہ کانام خالد بن دینار ہے اور وہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں اور ابوخلدہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا زمانہ پایا ہے،اور انہوں نے ان سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَبُو مُسْہِرٍ عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ اللہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِيًا مَہْدِيًّا وَاہْدِ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنادے،اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ حَلْبَسٍ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ قَالَ لَمَّا عَزَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ حِمْصَ وَلَّی مُعَاوِيَةَ فَقَالَ النَّاسُ عَزَلَ عُمَيْرًا وَوَلَّی مُعَاوِيَةَ فَقَالَ عُمَيْرٌ لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ اللہُمَّ اہْدِ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ وَعَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ يُضَعَّفُ

ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعد کو حمص سے معزول کیااور ان کی جگہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا: انہوں نے عمیر کو معزول کردیا اور معاویہ کووالی بنایا،تو عمیر نے کہا: تم لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اے اللہ! ان کے ذریعہ ہدایت دے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-عمرو بن واقد حدیث میں ضعیف ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ مِشْرَحِ بْنِ ہَاعَانَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَسْلَمَ النَّاسُ وَآمَنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ عَنْ مِشْرَحِ بْنِ ہَاعَانَ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ اسلام لائے اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ایمان لائے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ مشرح بن ہاعان سے روایت کرتے ہیں اوراس کی سندزیادہ قوی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ قَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ مِنْ صَالِحِي قُرَيْشٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ وَنَافِعٌ ثِقَةٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ لَمْ يُدْرِكْ طَلْحَةَ

طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف نافع بن عمر جمحی کی روایت سے جانتے ہیں اور نافع ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل نہیں ہے،اورابن ابی ملیکہ نے طلحہ کو نہیں پایا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ أُہْدِيَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ ثَوْبُ حَرِيرٍ فَجَعَلُوا يَعْجَبُونَ مِنْ لِينِہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَعْجَبُونَ مِنْ ہَذَا لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ أَحْسَنُ مِنْ ہَذَا وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ ریشمی کپڑے ہدیہ میں آئے،ان کی نرمی کو دیکھ کر لوگ تعجب کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال اس سے بہتر ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ بھی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ وَجَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ بَيْنَ أَيْدِيہِمْ اہْتَزَّ لَہُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَرُمَيْثَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا:(اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ(اس وقت لوگوں کے سامنے رکھا ہواتھا):ان کے لیے رحمن کا عرش (بھی خوشی سے) جھوم اٹھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں اسید بن حضیر،ابوسعیدخدری اور رمیثہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا حُمِلَتْ جَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ الْمُنَافِقُونَ مَا أَخَفَّ جَنَازَتَہُ وَذَلِكَ لِحُكْمِہِ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَحْمِلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین کہا: کتنا ہلکا ہے ان کا جنازہ؟ اور یہ طعن انہوں نے اس لیے کیا کہ سعد نے بنی قریظہ کے قتل کا فیصلہ فرمایاتھا،جب نبی اکرم ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: فرشتے اسے اٹھائے ہوئے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ ثُمَامَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمَنْزِلَةِ صَاحِبِ الشُّرَطِ مِنْ الْأَمِيرِ قَالَ الْأَنْصَارِيُّ يَعْنِي مِمَّا يَلِي مِنْ أُمُورِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَنْصَارِيِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ قَوْلَ الْأَنْصَارِيِّ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے لیے ایسے ہی تھے جیسے امیر(کی حفاظت) کے لیے پولس والا ہوتاہے۔راوی حدیث(محمد بن عبداللہ) انصاری کہتے ہیں: یعنی وہ (آپ ﷺکی حفاظت کے لیے) آپ کے بہت سے امور انجام دیاکرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف انصاری کی روایت سے جانتے ہیں۔ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے اسی جیسی حدیث بیان کی لیکن اس میں انصاری کا قول ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ خَبَّابٍ قَالَ ہَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ نَبْتَغِي وَجْہَ اللہِ فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَی اللہِ فَمِنَّا مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِہِ شَيْئًا وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَہُ ثَمَرَتُہُ فَہُوَ يَہْدِبُہَا وَإِنَّ مُصْعَبَ بْنَ عُمَيْرٍ مَاتَ وَلَمْ يَتْرُكْ إِلَّا ثَوْبًا كَانُوا إِذَا غَطَّوْا بِہِ رَأْسَہُ خَرَجَتْ رِجْلَاہُ وَإِذَا غَطَّوْا بِہِ رِجْلَيْہِ خَرَجَ رَأْسُہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ غَطُّوا رَأْسَہُ وَاجْعَلُوا عَلَی رِجْلَيْہِ الْإِذْخِرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ نَحْوَہُ

خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی ۱؎،ہم اللہ کی رضا کے خواہاں تھے تو ہمارا اجراللہ پر ثابت ہوگیا ۲؎ چنانچہ ہم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اجر میں سے (دنیا میں) کچھ بھی نہیں کھایا ۳؎ اور کچھ ایسے ہیں کہ ان کے امید کا درخت بار آورہوا اور اس کے پھل وہ چن رہے ہیں،اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ انہوں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے ایک ایسے کپڑے کے جس سے جب ان کا سر ڈھانپاجاتا تو دونوں پیر کھل جاتے اور جب دونوں پیر ڈھانپے جاتے تو سرکھل جاتا،یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کا سرڈھانپ دو اور ان کے پیروں پر اذ خر گھاس ڈال دو ۴؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ہم سے ہناد نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا،اور ابن ادریس نے اعمش سے،اعمش نے ابووائل شفیق بن سلمہ سے اور ابووائل نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا سَيَّارٌ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَمْ مِنْ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ لَا يُؤْبَہُ لَہُ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللہِ لَأَبَرَّہُ مِنْہُمْ الْبَرَاءُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کتنے پراگندہ بال غبار آلود داورپرانے کپڑے والے ہیں کہ جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو سچی کردے ۱؎،انہیں میں سے براء بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِہَدَايَاہُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ قَالَتْ فَاجْتَمَعَ صَوَاحِبَاتِي إِلَی أُمِّ سَلَمَةَ فَقُلْنَ يَا أُمَّ سَلَمَةَ إِنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِہَدَايَاہُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ وَإِنَّا نُرِيدُ الْخَيْرَ كَمَا تُرِيدُ عَائِشَةُ فَقُولِي لِرَسُولِ اللہِ ﷺ يَأْمُرْ النَّاسَ يُہْدُونَ إِلَيْہِ أَيْنَمَا كَانَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ أُمُّ سَلَمَةَ فَأَعْرَضَ عَنْہَا ثُمَّ عَادَ إِلَيْہَا فَأَعَادَتْ الْكَلَامَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ صَوَاحِبَاتِي قَدْ ذَكَرْنَ أَنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِہَدَايَاہُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ فَأْمُرْ النَّاسَ يُہْدُونَ أَيْنَمَا كُنْتَ فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ قَالَتْ ذَلِكَ قَالَ يَا أُمَّ سَلَمَةَ لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّہُ مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ رُمَيْثَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ شَيْئًا مِنْ ہَذَا وَہَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَلَی رِوَايَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ وَقَدْ رَوَی سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: لوگ اپنے ہدئے تحفے بھیجنے کے لیے عائشہ کے دن (باری کے دن) کی تلاش میں رہتے تھے،تو میری سوکنیں سب ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جمع ہوئیں،اور کہنے لگیں: ام سلمہ! لوگ اپنے ہدایا بھیجنے کے لیے عائشہ کے دن کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہم سب بھی خیر کی اسی طرح خواہاں ہیں جیسے عائشہ ہیں،تو تم رسول اللہ ﷺ سے جاکر کہو کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں(یعنی جس کے یہاں بھی باری ہو) وہ لوگ وہیں آپ کو ہدایا بھیجا کریں،چنانچہ ام سلمہ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا،تو آپ نے اعراض کیا،اور ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی،پھر آپ ان کی طرف پلٹے تو انہوں نے اپنی بات پھر دہرائی اور بولیں: میری سوکنیں کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدایا کے لیے عائشہ کی باری کی تاک میں رہتے ہیں تو آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں وہ ہدایا بھیجا کریں،پھر جب انہوں نے تیسری بار آپ سے یہی کہا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ام سلمہ تم عائشہ کے سلسلہ میں مجھے نہ ستاؤ کیوں کہ عائشہ کے علاوہ تم سب میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جس کے لحاف میں مجھ پر وحی اتری ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض راویوں نے اس حدیث کو حماد بن زید سے،حماد نے ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے باپ عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے،۳-یہ حدیث ہشام بن عروہ کے طریق سے عوف بن حارث سے بھی آئی ہے جسے عوف بن حارث نے رمیثہ کے واسطہ سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے،ہشام بن عروہ سے مروی یہ حدیث مختلف طریقوں سے آئی ہے،۴-سلیمان بن بلال نے بھی بطریق: ہشام بن عروہ،عن عروہ،عن عائشہ حماد بن زید کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ الْمَكِّيِّ عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِہَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ ہَذِہِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ وَقَدْ رَوَی أَبُو أُسَامَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ ہَذَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جبرئیل علیہ السلام ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے،اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہیں،دنیا اور آخرت دونوں میں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف عبداللہ بن عمرو بن علقمہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-عبدالرحمٰن بن مہدی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو بن علقمہ سے اسی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے،۳-ابواسامہ نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو ہشام بن عروہ سے،انہوں نے اپنے باپ سے،انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا عَائِشَةُ ہَذَا جِبْرِيلُ وَہُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ قَالَتْ قُلْتُ وَعَلَيْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُہُ تَرَی مَا لَا نَرَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عائشہ! یہ جبرئیل ہیں،تمہیں سلام کہہ رہے ہیں،میں نے عرض کیا: اور انہیں بھی میری طرف سے سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں،آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ پاتے (جیسے جبرئیل کو) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ جِبْرِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ فَقُلْتُ وَعَلَيْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرئیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں تو میں نے عرض کیا: ان پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اورا س کی برکتیں ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَہَا مِنْہُ عِلْمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول اللہ ﷺ پرجب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں عائشہ سے پوچھاتو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرورملی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہی: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ يَعْقُوبَ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ اسْتَعْمَلَہُ عَلَی جَيْشِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ قَالَ فَأَتَيْتُہُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ عَائِشَةُ قُلْتُ مِنْ الرِّجَالِ قَالَ أَبُوہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں لشکر ذات السلاسل کا امیر مقرر کیا،وہ کہتے ہیں: تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ،میں نے پوچھا: مردوں میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ان کے باپ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہُ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيْكَ قَالَ عَائِشَةُ قَالَ مِنْ الرِّجَالِ قَالَ أَبُوہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ عَنْ قَيْسٍ

عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ،انہوں نے پوچھا: مردوں میں؟ آپ نے فرمایا: ان کے والد۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی اسماعیل کی روایت سے جسے وہ قیس سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَی سَائِرِ الطَّعَامِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ ہُوَ أَبُو طُوَالَةَ الْأَنْصَارِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں پر عائشہ کی فضیلت اسی طرح ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پرہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابوموسیٰ اشعری سے احادیث آئی ہیں،۳-عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن معمر انصاری سے مراد ابوطوالہ انصاری مدنی ہیں اور وہ ثقہ ہیں،ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ أَنَّ رَجُلًا نَالَ مِنْ عَائِشَةَ عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَقَالَ أَغْرِبْ مَقْبُوحًا مَنْبُوحًا أَتُؤْذِي حَبِيبَةَ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمروبن غالب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس عائشہ کی عیب جوئی کی تو انہوں نے کہا: ہٹ مردود کمینے،کیا تو رسول اللہ ﷺ کی محبوبہ کو اذیت پہنچا رہاہے؟۔ امام ترمذی کہتے ہی: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زِيَادٍ الْأَسَدِيِّ قَال سَمِعْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ يَقُولُ ہِيَ زَوْجَتُہُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ يَعْنِي عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ

عبداللہ بن زیاد اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کی بیوی ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيْكَ قَالَ عَائِشَةُ قِيلَ مِنْ الرِّجَالِ قَالَ أَبُوہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ سے عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ،عرض کیاگیا مردوں میں؟ آپ نے فرمایا: ان کے والد۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَنْ زُہَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْلَا الْہِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنْ الْأَنْصَارِ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَوْ سَلَكَ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَكُنْتُ مَعَ الْأَنْصَارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا ۱؎۔اسی سندسے نبی اکرمﷺسے یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اگرانصار کسی وادی یا گھاٹی میںچلیں تو میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ أَوْ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ فِي الْأَنْصَارِ لَا يُحِبُّہُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يَبْغَضُہُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ مَنْ أَحَبَّہُمْ فَأَحَبَّہُ اللہُ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَأَبْغَضَہُ اللہُ فَقُلْتُ لَہُ أَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنْ الْبَرَاءِ فَقَالَ إِيَّايَ حَدَّثَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا،یا کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے انصار کے بارے میں فرمایا: ان سے مومن ہی محبت کرتاہے،اور ان سے منافق ہی بغض رکھتاہے،جو ان سے محبت کرے گا اس سے اللہ محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ بغض رکھے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَال سَمِعْتُ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ ہَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ غَيْرِكُمْ قَالُوا لَا إِلَّا ابْنَ أُخْتٍ لَنَا فَقَالَ ﷺ إِنَّ ابْنَ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْہُمْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ قُرَيْشًا حَدِيثٌ عَہْدُہُمْ بِجَاہِلِيَّةٍ وَمُصِيبَةٍ وَإِنِّي أَرَدْتُ أَنْ أَجْبُرَہُمْ وَأَتَأَلَّفَہُمْ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالدُّنْيَا وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللہِ ﷺ إِلَی بُيُوتِكُمْ قَالُوا بَلَی فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجا کے،تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتاہے،پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفرکی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔میں چاہتاہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں،(اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے۔) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے رسول کو لے کر اپنے گھر جاؤ،لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں،ہم اس پرراضی ہیں،پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر لوگ ایک وادی یا گھاٹی میںچلیں اور انصار دوسری وادی یا گھاٹی میںچلیں تو میں انصار کی وادی وگھاٹی میںچلوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّہُ كَتَبَ إِلَی أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ يُعَزِّيہِ فِيمَنْ أُصِيبَ مِنْ أَہْلِہِ وَبَنِي عَمِّہِ يَوْمَ الْحَرَّةِ فَكَتَبَ إِلَيْہِ إِنِّي أُبَشِّرُكَ بِبُشْرَی مِنْ اللہِ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَلِذَرَارِيِّ الْأَنْصَارِ وَلِذَرَارِيِّ ذَرَارِيہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ قَتَادَةُ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اس خط میں وہ ان کی ان لوگوں کے سلسلہ میں تعزیت کررہے تھے جو ان کے گھروالوں میں سے اور چچا کے بیٹوں میں سے حرّہ ۱؎ کے دن کام آگئے تھے تو انہوں نے (اس خط میں) انہیں لکھا: میں آپ کو اللہ کی طرف سے ایک خوش خبری سناتاہوں،میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا: اے اللہ! انصار کو،ان کی اولاد کو،اور ان کی اولاد کے اولاد کو بخش دے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے قتادہ نے بھی نضر بن انس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ وَعَبْدُ الصَّمَدِ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَقْرِئْ قَوْمَكَ السَّلَامَ فَإِنَّہُمْ مَا عَلِمْتُ أَعِفَّةٌ صُبُرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنی قوم ۱؎ کو سلام کہو،کیوں کہ وہ پاکباز اور صابر لوگ ہیں جیسا کہ مجھے معلوم ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَلَا إِنَّ عَيْبَتِيَ الَّتِي آوِي إِلَيْہَا أَہْلُ بَيْتِي وَإِنَّ كَرِشِيَ الْأَنْصَارُ فَاعْفُوا عَنْ مُسِيئِہِمْ وَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری جامہ دانی جس کی طرف میں پناہ لیتا ہوں یعنی میرے خاص لوگ میرے اہل بیت ہیں،اور میرے راز دار اور امین انصار ہیں تو تم ان کے خطا کا روں کو در گذر کرو اور ان کے بھلے لوگوں کی اچھائیوں کو قبول کرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْہَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ يُرِدْ ہَوَانَ قُرَيْشٍ أَہَانَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو قریش کی رسوائی چاہے گا اللہ اسے رسوا کردے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-ہم سے عبدبن حمید نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: مجھے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے خبردی،وہ کہتے ہیں: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا اور انہوں نے صالح بن کیسان سے اور صالح نے ابن شہاب سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ وَالْمُؤَمَّلُ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَا يَبْغَضُ الْأَنْصَارَ رَجُلٌ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو انصار سے بغض نہیں رکھ سکتا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَال سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْأَنْصَارُ كَرِشِي وَعَيْبَتِي وَإِنَّ النَّاسَ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِہِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انصار میرے رازدار اور میرے خاص الخاص ہیں،لوگ عنقریب بڑھیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے،تو تم ان کے بھلے لوگوں کی اچھائیوں کو قبول کرو اور ان کے خطاکاروں کی خطاؤں سے درگزر کرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَی الْحِمَّانِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اللہُمَّ أَذَقْتَ أَوَّلَ قُرَيْشٍ نَكَالًا فَأَذِقْ آخِرَہُمْ نَوَالًا قَالَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الْوَرَّاقُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! قریش کے پہلوں کو تونے (قتل،قید اورذلت کا) عذاب چکھا یا ہے ۱؎،تو ان کے پچھلوں کو بخشش و عنایت سے نوازدے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ہم سے عبدالوہاب ورّاق نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے یحییٰ بن سعید اموی نے اعمش کے واسطہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ جَعْفَرٍ الْأَحْمَرِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ وَلِأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ وَلِنِسَاءِ الْأَنْصَارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! انصار کو،ان کے بیٹوں کو،ان کے بیٹوں کے بیٹوں کو اور ان کی عورتوں کو بخش دے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَدِيِّ ابْنِ حَمْرَاءَ الزُّہْرِيِّ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَاقِفًا عَلَی الْحَزْوَرَةِ فَقَالَ وَاللہِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللہِ إِلَی اللہِ وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ يُونُسُ عَنْ الزُّہْرِيِّ نَحْوَہُ وَرَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَدِيِّ ابْنِ حَمْرَاءَ عِنْدِي أَصَحُّ

عبداللہ بن عدی بن حمراء زہری کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حزوراء (چھوٹا ٹیلہ) پر کھڑے دیکھا،آپ نے فرمایا: قسم اللہ کی! بلاشبہ تو اللہ کی سرزمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی زمینوں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب سرزمین ہے،اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-ا سے یونس نے بھی زہری سے اسی طرح روایت کیا ہے،اور اسے محمد بن عمرو نے بطریق: أبی سلمۃ،عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ روایت کیاہے،اور زہری کی حدیث جوبطریق: أبی سلمۃ،عن عبداللہ بن عدی بن حمراء آئی ہے وہ میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَأَبُو الطُّفَيْلِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِمَكَّةَ مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّكِ إِلَيَّ وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے،میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ ذُكِرَتْ الْأَعَاجِمُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَأَنَا بِہِمْ أَوْ بِبَعْضِہِمْ أَوْثَقُ مِنِّي بِكُمْ أَوْ بِبَعْضِكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ وَصَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ہَذَا يُقَالُ لَہُ صَالِحُ بْنُ مِہْرَانَ مَوْلَی عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی اکرمﷺ کے پاس عجم کا ذکر کیاگیا تو آپ نے فرمایا: مجھے ان پر یا ان کے بعض لوگوں پرتم سے یا تمہارے بعض لوگوں سے زیادہ اعتماد ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف ابوبکر بن عیاش کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اور صالح بن ابی صالح کو صالح بن مہران مولی عمر وبن حریث بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيْلِيُّ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ حِينَ أُنْزِلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَتَلَاہَا فَلَمَّا بَلَغَ وَآخَرِينَ مِنْہُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِہِمْ قَالَ لَہُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ ہَؤُلَاءِ الَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِنَا فَلَمْ يُكَلِّمْہُ قَالَ وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ فِينَا قَالَ فَوَضَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَدَہُ عَلَی سَلْمَانَ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَہُ رِجَالٌ مِنْ ہَؤُلَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُہُ سَالِمٌ مَوْلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ مُطِيعٍ مَدَنِيٌّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت سورہ ٔ جمعہ نازل ہوئی ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھے،آپ نے اس کی تلاوت فرمائی،جب وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ پر پہنچے تو آپ سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں جو ابھی ہم سے ملے نہیں ہیں تو آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا،وہ کہتے ہیں: اور سلمان فارسی ہم میں موجود تھے،تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ سلمان کے اوپر رکھا اور فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریاّ پر بھی ہوگا تو بھی اس کے کچھ لوگ اسے حاصل کرلیں گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور یہ متعدد سندوں سے ابوہریرہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْقَطَوَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَظَرَ قِبَلَ الْيَمَنِ فَقَالَ اللہُمَّ أَقْبِلْ بِقُلُوبِہِمْ وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے یمن کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے اللہ! ان کے دلوں کو ہماری طرف پھیر دے اور ہمارے صاع اور مد میں ہمیں برکت دے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے یعنی زید بن ثابت کی اس حدیث کو صرف عمران قطاّن کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَاكُمْ أَہْلُ الْيَمَنِ ہُمْ أَضْعَفُ قُلُوبًا وَأَرَقُّ أَفْئِدَةً الْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس اہل یمن آئے وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں،ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَرْيَمَ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُلْكُ فِي قُرَيْشٍ وَالْقَضَاءُ فِي الْأَنْصَارِ وَالْأَذَانُ فِي الْحَبَشَةِ وَالْأَمَانَةُ فِي الْأَزْدِ يَعْنِي الْيَمَنَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ أَبِي مَرْيَمَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سلطنت (حکومت) قریش میں رہے گی،اور قضا انصار میں اور اذان حبشہ میں اورامانت قبیلہ ازد میں یعنی یمن میں۔ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا اور عبدالرحمٰن نے معاویہ بن صالح سے اور معاویہ نے ابومریم انصاری کے واسطہ سے ابوہریرہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی،اور اسے مرفوع نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: اور یہ زید بن حباب کی(اوپروالی) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ حَدَّثَنِي عَمِّي صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الْكَبِيرِ بْنِ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ حَدَّثَنِي عَمِّي عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْأَزْدُ أُسْدُ اللہِ فِي الْأَرْضِ يُرِيدُ النَّاسُ أَنْ يَضَعُوہُمْ وَيَأْبَی اللہُ إِلَّا أَنْ يَرْفَعَہُمْ وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَقُولُ الرَّجُلُ يَا لَيْتَ أَبِي كَانَ أَزْدِيًّا يَا لَيْتَ أُمِّي كَانَتْ أَزْدِيَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ أَنَسٍ مَوْقُوفًا وَہُوَ عِنْدَنَا أَصَحُّ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ازد (اہل یمن) زمین میں اللہ کے شیر ہیں،لوگ انہیں گرانا چاہتے ہیں اور اللہ انہیں اٹھانا چاہتاہے،اور لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ آدمی کہے گا،کاش! میراباپ ازدی ہوتا،کاش میری ماں! ازدیہ ہوتی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-یہ حدیث اس سند سے انس سے موقوف طریقہ سے آئی ہے،اور یہ ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مَہْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ حَدَّثَنِي غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ إِنْ لَمْ نَكُنْ مِنْ الْأَزْدِ فَلَسْنَا مِنْ النَّاسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگر ہم ازدی (یعنی قبیلہ ازد کے) نہ ہوں تو ہم آدمی ہیں ہی نہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُوَيْہِ بَغْدَادِيٌّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ مِينَاءَ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَجَاءَ رَجُلٌ أَحْسِبُہُ مِنْ قَيْسٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ الْعَنْ حِمْيَرًا فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ جَاءَہُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ جَاءَہُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ جَاءَہُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ فَأَعْرَضَ عَنْہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ رَحِمَ اللہُ حِمْيَرًا أَفْوَاہُہُمْ سَلَامٌ وَأَيْدِيہِمْ طَعَامٌ وَہُمْ أَہْلُ أَمْنٍ وَإِيمَانٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَيُرْوَی عَنْ مِينَاءَ ہَذَا أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا (میرا خیال ہے کہ وہ قبیلہ قیس کاتھا) اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قبیلہ حمیر پر لعنت فرمائیے،تو آپ نے اس سے چہرہ پھیر لیا،پھر وہ دوسری طرف سے آپ کے پاس آیا،آپ نے پھر اس سے اپنا چہرہ پھیر لیا،پھر وہ دوسری طرف سے آیا تو آپ نے پھر اپنا چہرہ پھیر لیا،پھر وہ دوسری طرف سے آیا تو آپ نے اپنا چہرہ پھیر لیا اور فرمایا: اللہ حمیر پر رحم کرے،ان کے منہ میں سلام ہے،ان کے ہاتھ میں کھانا ہے،اور وہ امن وایمان والے لوگ ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے عبدالرزاق کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اور میناء سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی جاتی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ أَخْرَقَتْنَا نِبَالُ ثَقِيفٍ فَادْعُ اللہَ عَلَيْہِمْ قَالَ اللہُمَّ اہْدِ ثَقِيفًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ثقیف کے تیروں نے ہمیں زخمی کردیا،تو آپ اللہ سے ان کے لیے بددعا فرمائیں،آپ نے فرمایا: اے اللہ! ثقیف کو ہدایت دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقَاہِرِ بْنُ شُعَيْبٍ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ مَاتَ النَّبِيُّ ﷺ وَہُوَ يَكْرَہُ ثَلَاثَةَ أَحْيَاءٍ ثَقِيفًا وَبَنِي حَنِيفَةَ وَبَنِي أُمَيَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ تین قبیلوں ثقیف،بنی حنیفہ اور بنی امیہ ّ کونا پسند کرتے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ شَرِيكٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُصْمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي ثَقِيفٍ كَذَّابٌ وَمُبِيرٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ وَاقِدٍ أَبُو مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُصْمٍ يُكْنَی أَبَا عُلْوَانَ وَہُوَ كُوفِيٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَشَرِيكٌ يَقُولُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُصْمٍ وَإِسْرَائِيلُ يَرْوِي عَنْ ہَذَا الشَّيْخِ وَيَقُولُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عِصْمَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ثقیف میں ایک جھوٹا اور ایک تباہی مچانے والا ظالم شخص ہوگا ۱؎۔ہم سے عبدالرحمٰن بن واقد ابومسلم نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے شریک نے اسی سند سے اسی طرح کی حدیث بیان کی اور عبدالرحمٰن بن عاصم کی کنیت ابوعلوان ہے اور وہ کوفی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں،اور شریک کی روایت میں عبداللہ بن عصم ہے،اور اسرائیل بھی انہیں شیخ سے روایت کرتے ہیں،لیکن انہوں نے عبداللہ بن عصم کے بجائے عبداللہ بن عصمۃ کہاہے،۳-اس باب میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنِي أَيُّوبُ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَہْدَی لِرَسُولِ اللہِ ﷺ بَكْرَةً فَعَوَّضَہُ مِنْہَا سِتَّ بَكَرَاتٍ فَتَسَخَّطَہُ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ فُلَانًا أَہْدَی إِلَيَّ نَاقَةً فَعَوَّضْتُہُ مِنْہَا سِتَّ بَكَرَاتٍ فَظَلَّ سَاخِطًا وَلَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ لَا أَقْبَلَ ہَدِيَّةً إِلَّا مِنْ قُرَشِيٍّ أَوْ أَنْصَارِيٍّ أَوْ ثَقَفِيٍّ أَوْ دَوْسِيٍّ وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَيَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ يَرْوِي عَنْ أَيُّوبَ أَبِي الْعَلَاءِ وَہُوَ أَيُّوبُ بْنُ مِسْكِينٍ وَيُقَالُ ابْنُ أَبِي مِسْكِينٍ وَلَعَلَّ ہَذَا الْحَدِيثَ الَّذِي رَوَاہُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ہُوَ أَيُّوبُ أَبُو الْعَلَاءِ

-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کو ایک جوان اونٹنی ہدیہ میں دی،اور آپ نے اس کے عوض میں اسے چھ اونٹنیاں عنایت فرمائیں،پھر بھی وہ آپ سے خفا یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے اللہ کی حمد وثنا کی پھر فرمایا: فلاں نے مجھے ایک اونٹنی ہدیہ میں دی تھی،میں نے اس کے عوض میں اسے چھ جوان اونٹنیاں دیں،پھر بھی وہ ناراض رہا،میں نے ارادہ کرلیاہے کہ اب سوائے قریشی،یا انصاری،یا ثقفی ۱؎ یا دوسی کے کسی کا ہدیہ قبول نہ کروں،اس حدیث میں مزید کچھ اور باتیں بھی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث متعدد سندوں سے ابوہریرہ سے آئی ہے،۲-اور یزید بن ہارون ایوب ابوالعلاء سے روایت کرتے ہیں،اور وہ ایوب بن مسکین ہیں اور انہیں ابن ابی مسکین بھی کہاجاتاہے،اور شاید یہی وہ حدیث ہے جسے انہوں نے ایوب سے اور ایوب نے سعید مقبری سے روایت کی ہے،اور ایوب سے مراد ایوب ابوالعلاء ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْحِمْصِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَہْدَی رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ نَاقَةً مِنْ إِبِلِہِ الَّتِي كَانُوا أَصَابُوا بِالْغَابَةِ فَعَوَّضَہُ مِنْہَا بَعْضَ الْعِوَضِ فَتَسَخَّطَہُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَلَی ہَذَا الْمِنْبَرِ يَقُولُ إِنَّ رِجَالًا مِنْ الْعَرَبِ يُہْدِي أَحَدُہُمْ الْہَدِيَّةَ فَأُعَوِّضُہُ مِنْہَا بِقَدْرِ مَا عِنْدِي ثُمَّ يَتَسَخَّطُہُ فَيَظَلُّ يَتَسَخَّطُ عَلَيَّ وَايْمُ اللہِ لَا أَقْبَلُ بَعْدَ مَقَامِي ہَذَا مِنْ رَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ ہَدِيَّةً إِلَّا مِنْ قُرَشِيٍّ أَوْ أَنْصَارِيٍّ أَوْ ثَقَفِيٍّ أَوْ دَوْسِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ ہَارُونَ عَنْ أَيُّوبَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ٔ نبی فز ارہ کے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو اپنے ان اونٹوں میں سے جو اسے غابہ میں ملے تھے ایک اونٹنی ہدیہ میں دی تو آپ نے اسے اس کا کچھ عوض دیا،لیکن وہ آپ سے خفارہا،تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر فرماتے سنا کہ عربوں میں سے کچھ لوگ مجھے ہدیہ دیتے ہیں اور اس کے بدلہ میں انہیں جس قدر میرے پاس ہوتاہے میں دیتاہوں،پھر بھی وہ خفارہتاہے اور برابر مجھ سے اپنی خفگی جتاتا رہتاہے،قسم اللہ کی! اس کے بعد میں عربوں میں سے کسی بھی آدمی کا ہدیہ قبول نہیں کروں گا سوائے قریشی،انصاری یا ثقفی یا دوسی کے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور یہ یزید بن ہارون کی روایت سے جسے وہ ایوب سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَلَاذٍ يُحَدِّثُ عَنْ نُمَيْرِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ مَسْرُوحٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الْأَشْعَرِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نِعْمَ الْحَيُّ الْأَسْدُ وَالْأَشْعَرِيُّونَ لَا يَفِرُّونَ فِي الْقِتَالِ وَلَا يَغُلُّونَ ہُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْہُمْ قَالَ فَحَدَّثْتُ بِذَلِكَ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ لَيْسَ ہَكَذَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ ہُمْ مِنِّي وَإِلَيَّ فَقُلْتُ لَيْسَ ہَكَذَا حَدَّثَنِي أَبِي وَلَكِنَّہُ حَدَّثَنِي قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ ہُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْہُمْ قَالَ فَأَنْتَ أَعْلَمُ بِحَدِيثِ أَبِيكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ وَہْبِ بْنِ جَرِيرٍ وَيُقَالُ الْأَسْدُ ہُمْ الْأَزْدُ

ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا ہی اچھے ہیں قبیلہ اسد اور قبیلہ ٔ اشعر کے لوگ،لڑائی سے بھاگتے نہیں اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرتے ہیں،وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں،عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں نے اسے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اس طرح رسول اللہ ﷺ نے نہیں فرمایا،بلکہ آپ نے یہ فرمایا کہ وہ مجھ سے ہیں اور میری طرف ہیں،تو میں نے عرض کیا: میرے باپ نے مجھ سے اس طرح نہیں بیان کیا،بلکہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں،معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو تم اپنے باپ کی حدیثوں کے زیادہ جانکار ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف وہب بن جریر کی روایت سے جانتے ہیں اور کہاجاتاہے کہ اسد قبیلہ ٔ اسد ہی کے لوگ ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَسْلَمُ سَالَمَہَا اللہُ وَغِفَارٌ غَفَرَ اللہُ لَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَأَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اللہ قبیلۂ اسلم کو سلامت رکھے اور بنی غفار کو اللہ کو بخشے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوذر،ابوبرزہ اسلمی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے ہی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَسْلَمُ سَالَمَہَا اللہُ وَغِفَارٌ غَفَرَ اللہُ لَہَا وَعُصَيَّةُ عَصَتْ اللہَ وَرَسُولَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ وَزَادَ فِيہِ وَعُصَيَّةُ عَصَتْ اللہَ وَرَسُولَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ قبیلہ اسلم کو سلامت رکھے اور غفار کو اللہ بخش دے اور عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے مؤمل نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے سفیان نے عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے شعبہ کی حدیث کے مانند روایت کی اور اس میں اتنا اضافہ کیا وَعُصَیَّۃُ عَصَتْ اللہَ وَرَسُولَہُ

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِہِ لَغِفَارٌ وَأَسْلَمُ وَمُزَيْنَةُ وَمَنْ كَانَ مِنْ جُہَيْنَةَ أَوْ قَالَ جُہَيْنَةُ وَمَنْ كَانَ مِنْ مُزَيْنَةَ خَيْرٌ عِنْدَ اللہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَسَدٍ وَطَيِّئٍ وَغَطَفَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! غفار،اسلم،مزنیہ اور جو جہنیہ کے لوگ یا آپ نے فرمایا: جہنیہ اور جو مزنیہ کے لوگ ہیں اللہ کے نزدیک قیامت کے دن اسد،طی اور غطفان سے بہتر ہوں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ جَاءَ نَفَرٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَبْشِرُوا يَا بَنِي تَمِيمٍ قَالُوا بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا قَالَ فَتَغَيَّرَ وَجْہُ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَجَاءَ نَفَرٌ مِنْ أَہْلِ الْيَمَنِ فَقَالَ اقْبَلُوا الْبُشْرَی فَلَمْ يَقْبَلْہَا بَنُو تَمِيمٍ قَالُوا قَدْ قَبِلْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی تمیم کے لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا: اے بنی تمیم! خوش ہوجاؤ،وہ لوگ کہنے لگے: آپ نے ہمیں بشارت دی ہے،تو (کچھ)دیجئے،وہ کہتے ہیں: یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا،اتنے میں یمن کے کچھ لوگ آگئے تو آپ نے فرمایا: تمہیں لوگ بشارت قبول کرلو،جب بنی تمیم نے اسے قبول نہیں کیاتو ان لوگوں نے کہا: ہم نے قبول کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَسْلَمُ وَغِفَارٌ وَمُزَيْنَةُ خَيْرٌ مِنْ تَمِيمٍ وَأَسَدٍ وَغَطَفَانَ وَبَنِي عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ يَمُدُّ بِہَا صَوْتَہُ فَقَالَ الْقَوْمُ قَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا قَالَ فَہُمْ خَيْرٌ مِنْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قبائل اسلم،غفار اور مزینہ،قبائل تمیم،اسد،غطفان اور بنی عامربن صعصعہ سے بہتر ہیں،اور آپ اس کے ساتھ اپنی آواز اونچی کر رہے تھے،تو لوگ کہنے لگے: نا مراد ہوئے اور ٹوٹے میں رہے،آپ نے فرمایا: وہ ان (قبائل یعنی تمیم،اسد،غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ) سے بہتر ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ ابْنَةِ أَزْہَرَ السَّمَّانِ حَدَّثَنِي جَدِّي أَزْہَرُ السَّمَّانُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اللہُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا اللہُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا قَالُوا وَفِي نَجْدِنَا قَالَ اللہُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا قَالُوا وَفِي نَجْدِنَا قَالَ ہُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِہَا أَوْ قَالَ مِنْہَا يَخْرُجُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطافرما،اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما،لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں،آپ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطافرما،اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما،لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں،آپ نے فرمایا: یہاں زلزلے اور فتنے ہیں،اور اسی سے شیطان کی سینگ نکلے گی،(یعنی شیطان کا لشکر اور اس کے مدد گار نکلیں گے) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے یعنی ابن عون کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث بطریق: سالم عن أبیہ عبداللہ بن عمر،عن النبیﷺبھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي قَال سَمِعْتُ يَحْيَی بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ نُؤَلِّفُ الْقُرْآنَ مِنْ الرِّقَاعِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ طُوبَی لِلشَّامِ فَقُلْنَا لِأَيٍّ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ لِأَنَّ مَلَائِكَةَ الرَّحْمَنِ بَاسِطَةٌ أَجْنِحَتَہَا عَلَيْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ أَيُّوبَ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کررہے تھے،تو آپ نے فرمایا: مبارکبادی ہو شام کے لیے،ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھا تے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف یحییٰ بن ایوب کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيَنْتَہِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُونَ بِآبَائِہِمْ الَّذِينَ مَاتُوا إِنَّمَا ہُمْ فَحْمُ جَہَنَّمَ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَہْوَنَ عَلَی اللہِ مِنْ الْجُعَلِ الَّذِي يُدَہْدِہُ الْخِرَاءَ بِأَنْفِہِ إِنَّ اللہَ قَدْ أَذْہَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاہِلِيَّةِ وَفَخْرَہَا بِالْآبَاءِ إِنَّمَا ہُوَ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ النَّاسُ كُلُّہُمْ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: باز آجائیں وہ قومیں جو اپنے ان آباء واجداد پر فخرکررہی ہیں جو مرگئے ہیں،وہ جہنم کا کوئلہ ہیں ورنہ وہ اللہ کے نزدیک اس گبریلے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے،جو اپنے آگے اپنی ناک سے نجاست ڈھکیلتا رہتاہے،اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کردیا ہے،اب تو لوگ مومن و متقی ہیں یا فاجر وبدبخت،لوگ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیداکیے گئے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ مُوسَی بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ الْفَرْوِيُّ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ قَدْ أَذْہَبَ اللہُ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاہِلِيَّةِ وَفَخْرَہَا بِالْآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہَذَا أَصَحُّ عِنْدَنَا مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ قَدْ سَمِعَ أَبَا ہُرَيْرَةَ وَيَرْوِي عَنْ أَبِيہِ أَشْيَاءَ كَثِيرَةً عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ وَقَدْ رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي عَامِرٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور اپنے باپ دادا پر فخر کو ختم کردیا ہے،اب لوگ مومن و متقی ہیں یافاجرو بدبخت اور سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن اور یہ ہمارے نزدیک پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے،۲-سعید مقبری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور وہ اپنے باپ کے واسطے سے بہت سی چیزیں ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں،۳-سفیان ثوری اور کئی دوسرے راویوں نے یہ حدیث ہشام بن سعد سے،ہشام نے سعید مقبری سے اور سعید مقبری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے ابوعامر کی حدیث کے مانند روایت کی ہے جسے وہ ہشام بن سعد سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَی عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَيْنَمَا ہُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَالنَّاسُ مَعَہُ إِذْ أَقْبَلَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَذَہَبَ وَاحِدٌ فَلَمَّا وَقَفَا عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ سَلَّمَا فَأَمَّا أَحَدُہُمَا فَرَأَی فُرْجَةً فِي الْحَلْقَةِ فَجَلَسَ فِيہَا وَأَمَّا الْآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَہُمْ وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَدْبَرَ ذَاہِبًا فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنْ النَّفَرِ الثَّلَاثَةِ أَمَّا أَحَدُہُمْ فَأَوَی إِلَی اللہِ فَأَوَاہُ اللہُ وَأَمَّا الْآخَرُ فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللہُ مِنْہُ وَأَمَّا الْآخَرُ فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللہُ عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُہُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ وَأَبُو مُرَّةَ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ وَاسْمُہُ يَزِيدُ وَيُقَالُ مَوْلَی عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ

ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرماتھے،آپ کے ساتھ لوگ بھی بیٹھے تھے،اسی دوران اچانک تین آدمی آئے،ان میں سے دو رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھ آئے،اور ایک واپس چلاگیا،جب وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کررکے تو انہوں نے سلام کیا،پھر ان دونوں میں سے ایک نے مجلس میں کچھ جگہ (گنجائش) دیکھی تو وہ اسی میں(گھس کر) بیٹھ گیا۔اور دوسرا شخص ان لوگوں کے (یعنی صحابہ) کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا۔اور تیسرا تو پیٹھ موڑے چلاہی گیاتھا،پھر جب فارغ ہوئے تو آپ ﷺنے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا: کیا میں تمہیں تینوں اشخاص کے متعلق نہ بتاؤں؟ (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ کی پناہ حاصل کی تو اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے نے شرم کی تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور رہاتیسرا شخص تو اس نے اعراض کیا،چنانچہ اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا،منہ پھیرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابومرہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کانام یزید ہے،یہ بھی کہاجاتاہے کہ وہ عقیل ابن ابی طالب کے آزاد کردہ غلام ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كُنَّا إِذَا أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ جَلَسَ أَحَدُنَا حَيْثُ يَنْتَہِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ زُہَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ سِمَاكٍ أَيْضًا

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم ﷺ کے پاس آتے توجس کوجہاں جگہ ملتی وہیں بیٹھ جاتا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث زہیر بن معاویہ نے سماک سے بھی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَحْيَی بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي يَحْيَی بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَدِمَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ الْمَدِينَةَ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ فِي بَيْتِي فَأَتَاہُ فَقَرَعَ الْبَابَ فَقَامَ إِلَيْہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ عُرْيَانًا يَجُرُّ ثَوْبَہُ وَاللہِ مَا رَأَيْتُہُ عُرْيَانًا قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ فَاعْتَنَقَہُ وَقَبَّلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ زید بن حارثہ مدینہ آئے (اس وقت) رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تشریف فرماتھے،وہ آپ کے پاس آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا،تو آپ ان کی طرف ننگے بدن اپنے کپڑے سمیٹتے ہوئے لپکے اور قسم اللہ کی میں نے آپ کو ننگے بدن نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھااور نہ اس کے بعد دیکھا ۱؎،آپ نے (بڑھ کر) انہیں گلے لگالیا اور ان کا بوسہ لیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف زہری کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَمْسٌ مِنْ الْفِطْرَةِ الِاسْتِحْدَادُ وَالْخِتَانُ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچ چیزیں فطرت سے ہیں ۱؎،(۱) شرمگاہ کے بال مونڈنا،(۲) ختنہ کرنا،(۳) مونچھیں کترنا،(۴) بغل کے بال اکھیڑنا،(۵) ناخن تراشنا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ عَشْرٌ مِنْ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ وَالسِّوَاكُ وَالِاسْتِنْشَاقُ وَقَصُّ الْأَظْفَارِ وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَحَلْقُ الْعَانَةِ وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ قَالَ زَكَرِيَّا قَالَ مُصْعَبٌ وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی انْتِقَاصُ الْمَاءِ الِاسْتِنْجَاءُ بِالْمَاءِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: دس ۱؎ چیزیں فطرت سے ہیں (۱) مونچھیں کترنا (۲) ڈاڑھی بڑھانا (۳) مسوا ک کرنا (۴) ناک میں پانی ڈالنا (۵) ناخن کاٹنا (۶) انگلیوں کے جوڑوں کی پشت دھونا (۶) بغل کے بال اکھیڑنا (۸) ناف سے نیچے کے بال مونڈنا (۹) پانی سے استنجا کرنا،زکریا (راوی) کہتے ہیں کہ مصعب نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ہوسکتاہے کہ وہ کلی کرناہو،انتقاص الماء سے مراد پانی سے استنجاء کرناہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عمار بن یاسر،ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِہِ مِنْ عَرْضِہَا وَطُولِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ لَا أَعْرِفُ لَہُ حَدِيثًا لَيْسَ لَہُ أَصْلٌ أَوْ قَالَ يَنْفَرِدُ بِہِ إِلَّا ہَذَا الْحَدِيثَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِہِ مِنْ عَرْضِہَا وَطُولِہَا لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ ہَارُونَ وَرَأَيْتُہُ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت قُتَيْبَةَ يَقُولُ عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ كَانَ صَاحِبَ حَدِيثٍ وَكَانَ يَقُولُ الْإِيمَانُ قَوْلٌ وَعَمَلٌ قَالَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ عَنْ رَجُلٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَصَبَ الْمَنْجَنِيقَ عَلَی أَہْلِ الطَّائِفِ قَالَ قُتَيْبَةُ قُلْتُ لِوَكِيعٍ مَنْ ہَذَا قَالَ صَاحِبُكُمْ عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنی ڈاڑھی لمبائی اور چوڑائی سے لیاکرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے ہوئے سنا ہے: عمربن ہارون مقارب الحدیث ہیں۔میں ان کی کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس کی اصل نہ ہو،یا یہ کہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں جانتا جس میں وہ منفرد ہوں،سوائے اس حدیث کے کہ نبی اکرمﷺ اپنی ڈاڑھی کے طول وعرض سے کچھ لیتے تھے۔میں اسے صرف عمر بن ہارون کی روایت سے جانتاہوں۔میں نے انہیں (یعنی بخاری کو عمربن ہارون)کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والا پایاہے،۳-میں نے قتیبہ کو عمر بن ہارون کے بارے میں کہتے ہوئے سناہے کہ عمر بن ہارون صاحب حدیث تھے۔اور وہ کہتے تھے کہ ایمان قول وعمل کانام ہے،۴-قتیبہ نے کہا: وکیع بن جراح نے مجھ سے ایک شخص کے واسطے سے ثوربن یزیدسے بیان کیاثوربن یزید سے اورثوربن یزیدروایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اہل طائف پرمنجنیق نصب کردیا۔قتیبہ کہتے ہیں میں نے (اپنے استاد) وکیع بن جراح سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہیں؟ (جن کا آپ نے ابھی روایت میں عن رجل کہہ کرذکر کیا ہے) تو انہوں نے کہا: یہ تمہارے ساتھی عمربن ہارون ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ خِدَاشٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اسْتَلْقَی أَحَدُكُمْ عَلَی ظَہْرِہِ فَلَا يَضَعْ إِحْدَی رِجْلَيْہِ عَلَی الْأُخْرَی ہَذَا حَدِيثٌ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ وَلَا يُعْرَفُ خِدَاشٌ ہَذَا مَنْ ہُوَ وَقَدْ رَوَی لَہُ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ غَيْرَ حَدِيثٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی پیٹھ کے بل لیٹے تو اپنی ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر نہ رکھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو کئی راویوں نے سلیمان تیمی سے روایت کیا ہے۔اور خداش (جن کا ذکر اس حدیث کی سند میں ہے) نہیں جانے جاتے کہ وہ کون ہیں؟اور سلیمان تیمی نے ان سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ وَالِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَأَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ إِحْدَی رِجْلَيْہِ عَلَی الْأُخْرَی وَہُوَ مُسْتَلْقٍ عَلَی ظَہْرِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں صماء ۱؎ اوراحتباء ۲؎ کرنے اور ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پر رکھ کرچت لیٹنے سے منع فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ نَظْرَةِ الْفُجَاءَةِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرٍو اسْمُہُ ہَرِمٌ

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے (کسی اجنبیہ عورت پر) اچانک پڑجانے والی نظر سے متعلق پوچھا۔تو آپ نے فرمایا: تم اپنی نگاہ پھیر لیاکرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ رَفَعَہُ قَالَ يَا عَلِيُّ لَا تُتْبِعْ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَإِنَّ لَكَ الْأُولَی وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:علی! نظر کے بعد نظر نہ اٹھاؤ،کیوں کہ تمہارے لیے پہلی نظر (معاف) ہے اور دوسری (معاف)نہیں ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي يَحْيَی عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ مَرَّ رَجُلٌ وَعَلَيْہِ ثَوْبَانِ أَحْمَرَانِ فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَلَمْ يَرُدَّ النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُمْ كَرِہُوا لُبْسَ الْمُعَصْفَرِ وَرَأَوْا أَنَّ مَا صُبِغَ بِالْحُمْرَةِ بِالْمَدَرِ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ فَلَا بَأْسَ بِہِ إِذَا لَمْ يَكُنْ مُعَصْفَرًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص سرخ رنگ کے دوکپڑے پہنے ہوئے گزرا۔اس نے نبی اکرمﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ نے اسے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس حدیث سے اہل علم کے نزدیک مراد یہ ہے کہ وہ زرد رنگ میں رنگا ہواکپڑا پہننا مکروہ سمجھتے ہیں۔اورجو کپڑا گیروے رنگ وغیرہ میں رنگاجائے اس کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جب کہ وہ کسم کا نہ ہو(یعنی زردرنگ کا نہ ہو)۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ ہُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ وَعَنْ الْقَسِّيِّ وَعَنْ الْمِيثَرَةِ وَعَنْ الْجِعَةِ قَالَ أَبُو الْأَحْوَصِ وَہُوَ شَرَابٌ يُتَّخَذُ بِمِصْرَ مِنْ الشَّعِيرِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے (مردوں کو) سونے کی انگوٹھی پہننے سے،قسی کے (ریشم ملے ہوئے) کپڑے پہننے سے،زین پر رکھنے والی ریشمی گدیلے سے اور جَو کی نبیذ سے۔ ابوالا ٔحوص کہتے ہیں جعہ ایک شراب ہے جو مصر میں جَو سے بنائی جاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُ الرّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ بِسَبْعٍ وَنَہَانَا عَنْ سَبْعٍ أَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ الْجَنَازَةِ وَعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِي وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ وَرَدِّ السَّلَامِ وَنَہَانَا عَنْ سَبْعٍ عَنْ خَاتَمِ الذَّہَبِ أَوْ حَلْقَةِ الذَّہَبِ وَآنِيَةِ الْفِضَّةِ وَلُبْسِ الْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَالْإِسْتَبْرَقِ وَالْقَسِّيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ ہُوَ أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ اسْمُہُ سُلَيْمُ بْنُ الْأَسْوَدِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ہمیں سات چیزوں کے اختیارکرنے کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں کے کرنے سے منع فرمایا ہے۔آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جنازے کے ساتھ جائیں۔مریض کی عیادت کریں،چھینکنے والے کی چھینک کا جواب دیں۔دعوت دینے والے کی دعوت قبول کریں،مظلوم کی مدد کریں،اور قسم کھانے والے کی قسم پوری کرائیں،اور سلام کا جواب دیں کا،اور سات چیزوں سے آپ نے ہمیں منع فرمایا ہے سونے کی انگوٹھی پہننے،یا سونے کے چھلے استعمال کرنے سے،اور چاندی کے برتنوں سے اور حریر،دیباج،استبرق اور قسی کے پہننے سے (یہ سب ریشمی کپڑے ہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اشعث بن سلیم: یہ اشعث بن ابوشعثاء ہیں،ابوشعثاء کانام سلیم بن اسود ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَعَلَيْہِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ إِيَادٍ وَأَبُو رِمْثَةَ التَّيْمِيُّ يُقَالُ اسْمُہُ حَبِيبُ بْنُ حَيَّانَ وَيُقَالُ اسْمُہُ رِفَاعَةُ بْنُ يَثْرِبِيٍّ

ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کودوسبز کپڑے استعمال کئے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عبید اللہ بن ایاد کی روایت سے جانتے ہیں،۳-ابورمثہ تیمی کانام حبیب بن حیان ہے اور یہ بھی کہاجاتاہے کہ ان کانام رفاعہ بن یثربی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حِكْمَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ إِنَّمَا رَفَعَہُ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ عَنْ ابْنِ أَبِي غَنِيَّةَ وَرَوَی غَيْرُہُ عَنْ ابْنِ أَبِي غَنِيَّةَ ہَذَا الْحَدِيثَ مَوْقُوفًا وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَبُرَيْدَةَ وَكَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بعض اشعار میں حکمت ودانائی کی باتیں ہوتی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-اسے ابوسعید اشج نے ابن ابی غنیہ کے واسطہ سے مرفوع روایت کیا ہے۔اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن ابی غنیہ کے واسطہ سے اسے موقوف روایت کیا ہے،۳-یہ حدیث کئی سندوں سے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبیﷺ سے روایت کی گئی ہے،۴-اس باب میں ابی بن کعب،ابن عباس،عائشہ،بریدہ،اور عمروبن عوف مزنی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ مِنْ الشِّعْرِ حِكَمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بعض اشعارمیں حکمت ودانائی کی باتیں ہوتی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ أَنَّ أَبَا سَلَّامٍ حَدَّثَہُ أَنَّ الْحَارِثَ الْأَشْعَرِيَّ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ أَمَرَ يَحْيَی بْنَ زَكَرِيَّا بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ يَعْمَلَ بِہَا وَيَأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يَعْمَلُوا بِہَا وَإِنَّہُ كَادَ أَنْ يُبْطِئَ بِہَا فَقَالَ عِيسَی إِنَّ اللہَ أَمَرَكَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ لِتَعْمَلَ بِہَا وَتَأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يَعْمَلُوا بِہَا فَإِمَّا أَنْ تَأْمُرَہُمْ وَإِمَّا أَنْ آمُرَہُمْ فَقَالَ يَحْيَی أَخْشَی إِنْ سَبَقْتَنِي بِہَا أَنْ يُخْسَفَ بِي أَوْ أُعَذَّبَ فَجَمَعَ النَّاسَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَامْتَلَأَ الْمَسْجِدُ وَتَعَدَّوْا عَلَی الشُّرَفِ فَقَالَ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ أَعْمَلَ بِہِنَّ وَآمُرَكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِہِنَّ أَوَّلُہُنَّ أَنْ تَعْبُدُوا اللہَ وَلَا تُشْرِكُوا بِہِ شَيْئًا وَإِنَّ مَثَلَ مَنْ أَشْرَكَ بِاللہِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اشْتَرَی عَبْدًا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ بِذَہَبٍ أَوْ وَرِقٍ فَقَالَ ہَذِہِ دَارِي وَہَذَا عَمَلِي فَاعْمَلْ وَأَدِّ إِلَيَّ فَكَانَ يَعْمَلُ وَيُؤَدِّي إِلَی غَيْرِ سَيِّدِہِ فَأَيُّكُمْ يَرْضَی أَنْ يَكُونَ عَبْدُہُ كَذَلِكَ وَإِنَّ اللہَ أَمَرَكُمْ بِالصَّلَاةِ فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللہَ يَنْصِبُ وَجْہَہُ لِوَجْہِ عَبْدِہِ فِي صَلَاتِہِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ وَآمُرُكُمْ بِالصِّيَامِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ فِي عِصَابَةٍ مَعَہُ صُرَّةٌ فِيہَا مِسْكٌ فَكُلُّہُمْ يَعْجَبُ أَوْ يُعْجِبُہُ رِيحُہَا وَإِنَّ رِيحَ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ وَآمُرُكُمْ بِالصَّدَقَةِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَہُ الْعَدُوُّ فَأَوْثَقُوا يَدَہُ إِلَی عُنُقِہِ وَقَدَّمُوہُ لِيَضْرِبُوا عُنُقَہُ فَقَالَ أَنَا أَفْدِيہِ مِنْكُمْ بِالْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ فَفَدَی نَفْسَہُ مِنْہُمْ وَآمُرُكُمْ أَنْ تَذْكُرُوا اللہَ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِي أَثَرِہِ سِرَاعًا حَتَّی إِذَا أَتَی عَلَی حِصْنٍ حَصِينٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَہُ مِنْہُمْ كَذَلِكَ الْعَبْدُ لَا يُحْرِزُ نَفْسَہُ مِنْ الشَّيْطَانِ إِلَّا بِذِكْرِ اللہِ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَنَا آمُرُكُمْ بِخَمْسٍ اللہُ أَمَرَنِي بِہِنَّ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ وَالْجِہَادُ وَالْہِجْرَةُ وَالْجَمَاعَةُ فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہِ إِلَّا أَنْ يَرْجِعَ وَمَنْ ادَّعَی دَعْوَی الْجَاہِلِيَّةِ فَإِنَّہُ مِنْ جُثَا جَہَنَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ وَإِنْ صَلَّی وَصَامَ قَالَ وَإِنْ صَلَّی وَصَامَ فَادْعُوا بِدَعْوَی اللہِ الَّذِي سَمَّاكُمْ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَادَ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْحَارِثُ الْأَشْعَرِيُّ لَہُ صُحْبَةٌ وَلَہُ غَيْرُ ہَذَا الْحَدِيثِ

حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ وہ خود ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں۔قریب تھا کہ وہ اس حکم کی تعمیل میں سستی وتاخیر کریں عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ تم خود ان پرعمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی حکم دو کہ وہ بھی اس پرعمل کریں،یاتوتم ان کو حکم دو یا پھر میں ان کو حکم دیتاہوں۔یحییٰ نے کہا: میں ڈرتاہوں کہ اگر آپ نے ان امور پر مجھ سے سبقت کی تومیں زمین میں دھنسانہ دیاجاؤں یا عذاب میں مبتلا نہ کردیاجاؤں،پھر انہوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا،مسجدلوگوں سے بھر گئی۔لوگ کنگوروں پر بھی جابیٹھے،پھر انہوں نے کہا: اللہ نے ہمیں پانچ باتوں کا حکم دیا ہے کہ میں خود بھی ان پرعمل کروں اور تمہیں حکم دوں کہ تم بھی ان پر عمل کرو۔پہلی چیز یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو،اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،اور اس شخص کی مثال جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس آدمی کی ہے جس نے ایک غلام خالص اپنے مال سے سونا یا چاندی دے کر خریدا،اور (اس سے) کہا:یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا پیشہ (روزگار) ہے تو تم کام کرو اور منافع مجھے دو،سو وہ کام کرتاہے اور نفع اپنے مالک کے سوا کسی اور کو دیتا ہے،تو بھلا کون شخص یہ پسند کرسکتاہے کہ اس کا غلام اس قسم کا ہو،۲-اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں صلاۃ کا حکم دیا ہے تو جب تم صلاۃ پڑھو تو ادھر ادھر نہ دیکھو۔کیوں کہ اللہ اپنا چہرہ صلاۃ پڑھتے ہوئے بندے کے چہرے کی طرف رکھتاہے جب تک کہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے،۳-اور تمہیں صوم رکھنے کا حکم دیاہے۔اور اس کی مثال اس آدمی کی ہے جو ایک جماعت کے ساتھ ہے۔اس کے ساتھ ایک تھیلی ہے جس میں مشک ہے اور ہرایک کو اس کی خوشبو بھاتی ہے۔اور صائم کے منہ کی بومشک کی خوشبو سے بڑھ کر ہے،۴-اور تمہیں صدقہ وزکاۃ دینے کا حکم دیا ہے۔اس کی مثال اس شخص کی ہے جسے دشمن نے قیدی بنالیا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے گردن سے ملاکر باندھ دیئے ہیں،اور اسے لے کر چلے تاکہ اس کی گردن اڑادیں تو اس (قیدی) نے کہا کہ میرے پاس تھوڑا زیادہ جوکچھ مال ہے میں تمہیں فدیہ دے کراپنے کو چھڑالیناچاہتاہوں،پھر انہیں فدیہ دے کر اپنے کو آزاد کرالیا ۱؎،۵-اور اس نے حکم دیا ہے کہ تم اللہ کا ذکر کرو۔اس کی مثال اس آدمی کی مثال ہے جس کاپیچھا دشمن تیزی سے کرے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں پہنچ کر اپنی جان کو ان (دشمنوں) سے بچالے۔ایسے ہی بندہ (انسان) اپنے کو شیطان (کے شر) سے اللہ کے ذکر کے بغیر نہیں بچاسکتا۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں بھی تمہیں ان پانچ چیزوں کا حکم دیتاہوں جن کا حکم مجھے اللہ نے دیاہے (۱) بات سننا (۲) (سننے کے بعد)اطاعت کرنا (۳) جہاد کرنا (۴)ہجرت کرنا (۵) جماعت کے ساتھ رہنا کیوں کہ جو جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹا (علیحدہ ہوا) اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے باہرنکال پھینکا۔مگر یہ کہ پھر اسلام میں واپس آجائے۔اور جس نے جاہلیت کانعرہ لگایا تووہ جہنم کے ایندھنوں میں سے ایک ایندھن ہے۔(یہ سن کر) ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول!اگرچہ وہ صلاۃپڑھے اور صوم رکھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔اگر چہ وہ صلاۃ پڑھے اور صوم رکھے۔توتم اللہ کے بندو! اس اللہ کے پکار کی دعوت دو ۲؎ جس نے تمہارا نام مسلم ومومن رکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: حارث اشعری صحابی ہیں اور اس حدیث کے علاوہ بھی ان سے حدیثیں مروی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ الْحَارِثِ الْأَشْعَرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَأَبُو سَلَّامٍ الْحَبَشِيُّ اسْمُہُ مَمْطُورٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ

اس سندسے بھی حارث اشعری رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح اسی کی ہم معنی حدیث روایت کرتے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۲-ابوسلاّم حبشی کانام ممطور ہے،۳-اس حدیث کوعلی بن مبارک نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ يَحْيَی الْأَبَحُّ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْمَطَرِ لَا يُدْرَی أَوَّلُہُ خَيْرٌ أَمْ آخِرُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ وَرُوِي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِيٍّ أَنَّہُ كَانَ يُثَبِّتُ حَمَّادَ بْنَ يَحْيَی الْأَبَحَّ وَكَانَ يَقُولُ ہُوَ مِنْ شُيُوخِنَا

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کی مثال بارش کی ہے،نہیں کہاجاسکتا کہ اس کا اول بہتر ہے یا اس کاآخر ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں عمّار،عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-عبدالرحمٰن بن مہدی سے روایت ہے کہ وہ حماد بن یحییٰ الابح کی تائید وتصدیق کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارے اسا تذہ میں سے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ حم الدُّخَانَ فِي لَيْلَةٍ أَصْبَحَ يَسْتَغْفِرُ لَہُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَعُمَرُ بْنُ أَبِي خَثْعَمٍ يُضَعَّفُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَہُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص سورہ حٓم دخان کسی رات میں پڑھے وہ اس حال میں صبح کرے گاکہ اس کے لیے سترہزار فرشتے دعائے مغفرت کررہے ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-عمر بن ابی خثعم ضعیف قراردیئے گئے ہیں،محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ وہ منکرالحدیث ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ ہِشَامٍ أَبِي الْمِقْدَامِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ حم الدُّخَانَ فِي لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ غُفِرَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَہِشَامٌ أَبُو الْمِقْدَامِ يُضَعَّفُ وَلَمْ يَسْمَعْ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہَكَذَا قَالَ أَيُّوبُ وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص جمعہ کی رات میں حٓم سورہ دخان پڑھے گا اسے بخش دیاجائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کوہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-ہشام ابوالمقدام ضعیف قراردیئے گئے ہیں،۳-حسن بصری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہیں سناہے،ایوب،یونس بن عبید اورعلی بن زید نے ایسا ہی کہاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَی قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللہِ فَلَہُ بِہِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ وَيُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَرَوَاہُ أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَفَعَہُ بَعْضُہُمْ وَوَقَفَہُ بَعْضُہُمْ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ سَمِعْت قُتَيْبَةَ يَقُولُ بَلَغَنِي أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ وُلِدَ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ ﷺ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ يُكْنَی أَبَا حَمْزَةَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کتاب اللہ کاایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی،اور ایک نیکی دس گنا بڑھادی جائے گی،میں نہیں کہتا الم ایک حرف ہے،بلکہ الف ایک حرف ہے،لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے،۲-اس حدیث کو ابوالاحوص نے ابن مسعود سے روایت کیا ہے۔بعض نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے اور بعض نے اسے ابن مسعود سے موقوفاً روایت کیا ہے،۳-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ الْمُطَّلِبِ بْن حَنْطَبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّی الْقَذَاةُ يُخْرِجُہَا الرَّجُلُ مِنْ الْمَسْجِدِ وَعُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوبُ أُمَّتِي فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُورَةٍ مِنْ الْقُرْآنِ أَوْ آيَةٍ أُوتِيہَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ وَذَاكَرْتُ بِہِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ فَلَمْ يَعْرِفْہُ وَاسْتَغْرَبَہُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَلَا أَعْرِفُ لِلْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ سَمَاعًا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا قَوْلَہُ حَدَّثَنِي مَنْ شَہِدَ خُطْبَةَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ و سَمِعْت عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ لَا نَعْرِفُ لِلْمُطَّلِبِ سَمَاعًا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ عَبْدُ اللہِ وَأَنْكَرَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ أَنْ يَكُونَ الْمُطَّلِبِ سَمِعَ مِنْ أَنَسٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے نیک اعمال کے اجروثواب میرے سامنے پیش کیے گئے یہاں تک کہ اس تنکے کا ثواب بھی پیش کیاگیا جسے آدمی مسجد سے نکال کر پھینک دیتاہے۔اور مجھ پر میری امت کے گناہ (بھی) پیش کیے گئے تو میں نے کوئی گناہ اس سے بڑھ کر نہیں دیکھاکہ کسی کو قرآن کی کوئی سورہ یا کوئی آیت یاد ہو اور اس نے اسے بھلادیا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-میں نے اس حدیث کا تذکرہ محمد بن اسماعیل بخاری سے کیا تو اس کووہ پہچان نہ سکے اور انہوں نے اس حدیث کو غریب قراردیا،۴-محمدبن اسماعیل بخاری نے یہ بھی کہاکہ میں نہیں جانتا کہ مطلب بن عبداللہ کی کسی صحابی رسول سے سماع ثابت ہے،سوائے مطلب کے اس قول کے کہ مجھ سے اس شخص نے روایت کی ہے جو نبی ﷺ کی حاضرین میں موجود تھا،۵-میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی)کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہم مطلب کا سماع کسی صحابی رسول سے نہیں جانتے،۶-عبداللہ (دارمی یہ بھی) کہتے ہیں: علی بن مدینی اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ مطلب نے انس سے سنا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ مَمْلَكٍ أَنَّہُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَصَلَاتِہِ فَقَالَتْ مَا لَكُمْ وَصَلَاتَہُ كَانَ يُصَلِّي ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّی ثُمَّ يُصَلِّي قَدْرَ مَا نَامَ ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّی حَتَّی يُصْبِحَ ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَہُ فَإِذَا ہِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ مَمْلَكٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَقَدْ رَوَی ابْنُ جُرَيْجٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَہُ وَحَدِيثُ لَيْثٍ أَصَحُّ

یعلی بن مملک سے روایت ہے،انہوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ اور آپ کی قرأت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا:تمہارا اورآپ کی صلاۃ کا کیاجوڑ؟ آپ صلاۃ پڑھتے تھے پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر صلاۃ پڑھے ہوتے،پھر صلاۃ پڑھتے تھے اسی قدر جتنی دیر سوئے ہوئے ہوتے،پھراتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر صلاۃ پڑھے ہوتے۔یہاں تک کہ آپ صبح کرتے،پھر انہوں نے آپ کے قرأت کی کیفیت بیان کی اور انہوں نے اس کیفیت کو واضح طورپر ایک ایک حرف حرف کرکے بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اسے ہم صرف لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے یعلی بن مملک کے واسطہ سے ام سلمہ سے روایت کی،۳-ابن جریج نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی قرأت کا ہر حرف جداجدا ہوتاتھا،۴-لیث کی حدیث (ابن جریج کی حدیث سے)زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ مُعَاوِيةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ ہُوَ رَجُلٌ بَصْرِيٌّ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللہِ ﷺ كَيْفَ كَانَ يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ أَوْ مِنْ آخِرِہِ فَقَالَتْ كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَصْنَعُ رُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَرُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ آخِرِہِ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً فَقُلْتُ كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَتُہُ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْہَرُ قَالَتْ كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَہَرَ قَالَ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً قُلْتُ فَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِي الْجَنَابَةِ أَكَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ أَوْ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ قَالَتْ كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ فَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فَنَامَ وَرُبَّمَا تَوَضَّأَ فَنَامَ قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن ابی قیس بصری کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں پوچھا کہ آپ وتر رات کے شروع حصے میں پڑھتے تھے یاآخری حصے میں؟ انہوں نے کہا:آپ دونوں ہی طرح سے کرتے تھے۔کبھی تو آپ شروع رات میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں وتر پڑھتے تھے۔میں نے کہا: الحمد للہ! تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کے معاملے میں وسعت وکشادگی رکھی،پھر میں نے پوچھا: آپﷺکی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ کیا آپ دھیرے پڑھتے تھے یا بلند آوازسے؟ کہا: آپﷺ یہ سب کرتے تھے۔کبھی تو دھیرے پڑھتے تھے اور کبھی آپ زور سے میں نے کہا: الحمد للہ،تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت وکشادگی رکھی۔پھر میں نے کہا: آپ جب جنبی ہوجاتے تھے تو کیاکرتے تھے؟ کیاسونے سے پہلے غسل کرلیتے تھے یا غسل کیے بغیر سوجاتے تھے؟ کہا: آپ ﷺ یہ تمام ہی کرتے تھے،کبھی تو آپ غسل کرلیتے تھے پھر سوتے،اور کبھی وضو کرکے سوجاتے،میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دینی کام میں وسعت وکشادگی رکھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ قَال سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعُودُنِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَلَمَّا أَفَقْتُ قُلْتُ كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي فَسَكَتَ عَنِّي حَتَّی نَزَلَتْ يُوصِيكُمُ اللہُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَفِي حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ الصَّبَّاحِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا

محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو تشریف لائے اس وقت مجھ پر بے ہوشی طاری تھی،پھر جب مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: میں اپنے مال میں کس طرح تقسیم کروں؟ آپ یہ سن کر خاموش رہے،مجھے کوئی جواب نہیں دیا،پھر یہ آیات یُوصِیکُمُ اللہُ فِی أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَیَیْنِ نازل ہوئیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے کئی اور لوگوں نے بھی محمد بن منکدر سے روایت کیا ہے۔اس سند سے ابن منکدر نے جابر کے واسطہ سے،نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔فضل بن صباح کی حدیث میں اس روایت سے کچھ زیادہ ہی باتیں ہیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْہَاشِمِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أَوْطَاسٍ أَصَبْنَا نِسَاءً لَہُنَّ أَزْوَاجٌ فِي الْمُشْرِكِينَ فَكَرِہَہُنَّ رِجَالٌ مِنَّا فَأَنْزَلَ اللہُ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جنگ اوطاس کے موقع پر غنیمت میں ہمیں کچھ ایسی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے مشرک شوہر موجود تھے کچھ مسلمانوں نے عورتوں سے صحبت کرنے کو مکروہ جانا ۱؎ تو اللہ تعالیٰ نے آیت وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إِلاَّ مَامَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ۱؎ نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ لَہُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِہِنَّ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہَكَذَا رَوَی الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَيْسَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ أَحَدًا ذَكَرَ أَبَا عَلْقَمَةَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا مَا ذَكَرَ ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُہُ صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ جنگ اوطاس میں ہمیں کچھ ایسی قیدی عورتیں ہاتھ آئیں جن کے شوہر ان کی قوم میں موجود تھے،تو لوگوں نے اس بات کا رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا،اس پر آیت وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَائِ إِلا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ثوری نے عثمان بتی سے اور عثمان بتی نے ابو الخلیل سے اور ابو الخلیل نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی،۳-امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں علقمہ سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔(جب کہ پچھلی سند میں ہے) اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے اس حدیث میں ابو علقمہ کا ذکر کیا ہو سوائے ہمام کے،۴-ابو الخلیل کا نام صالح بن ابی مریم ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْكَبَائِرِ قَالَ الشِّرْكُ بِاللہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَقَوْلُ الزُّورِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَرَوَاہُ رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ شُعْبَةَ وَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَلَا يَصِحُّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’کبیرہ گناہ: اللہ کے ساتھ شریک کرنا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا،(ناحق) کسی کو قتل کرنا،جھوٹ کہنا یا جھوٹ بولنا ہے‘‘ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اس کو روح بن عبادہ نے بھی شعبہ یہ روایت کیا ہے،لیکن (عبیداللہ کی جگہ عبداللہ بن ابی بکر کہا ہے،(عبیداللہ ہی صحیح ہے) لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ بَصْرِيٌّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ قَالُوا بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الْإِشْرَاكُ بِاللہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ قَالَ وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا قَالَ وَشَہَادَةُ الزُّورِ أَوْ قَالَ قَوْلُ الزُّورِ قَالَ فَمَا زَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُہَا حَتَّی قُلْنَا لَيْتَہُ سَكَتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں بڑے سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ صحابہ نے عرض کیا: ہاں،اللہ کے رسول! ضرور بتائیے۔آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شریک کرنا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا‘‘،آپ ﷺ پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر اٹھ بیٹھے اور فرمایا: ’’جھوٹی گواہی دینا،یا جھوٹی بات کہنا‘‘،آپ یہ بات بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے جی میں کہنے لگے کاش آپ خاموش ہو جاتے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ مُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ الْتَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أُنَيْسٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ الشِّرْكُ بِاللہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ وَمَا حَلَفَ حَالِفٌ بِاللہِ يَمِينَ صَبْرٍ فَأَدْخَلَ فِيہَا مِثْلَ جَنَاحِ بَعُوضَةٍ إِلَّا جُعِلَتْ نُكْتَةً فِي قَلْبِہِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو أُمَامَةَ الْأَنْصَارِيُّ ہُوَ ابْنُ ثَعْلَبَةَ وَلَا نَعْرِفُ اسْمَہُ وَقَدْ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ

عبداللہ بن انیس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بڑے گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا ہے،جھوٹی قسم کھانا۔تو جس کسی نے بھی ایسی قسم کھائی جس پر وہ مجبور کر دیا گیا اور (اسی پر فیصلہ کا انحصار ہے) پھر اس نے اس میں مچھر کے پر کے برابر جھوٹ شامل کر دیا تو اس کے دل میں ایک (کالا) نکتہ ڈال دیا جائے گا جو قیامت تک قائم اور باقی رہے گا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابو امامہ انصاری ثعلبہ کے بیٹے ہیں اور ان کا نام ہمیں نہیں معلوم ہے،انہوں نے نبی ﷺ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْكَبَائِرُ الْإِشْرَاكُ بِاللہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَالَ الْيَمِينُ الْغَمُوسُ شَكَّ شُعْبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’کبائر یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شریک کرنا،ماں باپ کی نافرمانی کرنا،یا کہا: جھوٹی قسم کھانا‘‘۔اس میں شعبہ کو شک ہو گیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّہَا قَالَتْ يَغْزُو الرِّجَالُ وَلَا تَغْزُو النِّسَاءُ وَإِنَّمَا لَنَا نِصْفُ الْمِيرَاثِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہِ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ قَالَ مُجَاہِدٌ وَأَنْزَلَ فِيہَا إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ أَوَّلَ ظَعِينَةٍ قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ مُہَاجِرَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ مُرْسَلٌ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَذَا وَكَذَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: مرد جنگ کرتے ہیں،عورتیں جنگ نہیں کرتیں،ہم عورتوں کو آدھی میراث ملتی ہے (یعنی مرد کے حصے کا آدھا) تو اللہ تعالیٰ نے آیت وَلاَ تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ ۱؎ نازل فرمائی۔مجاہد کہتے ہیں: انہیں کے بارے میں آیت إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ ۲؎ بھی نازل ہوئی ہے،ام سلمہ پہلی مسافرہ ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ مرسل حدیث ہے،۲-اس حدیث کو بعض راویوں نے ابن ابی نجیح کے واسطہ سے مجاہد سے مرسلاً روایت کیا ہے،کہ ام سلمہ نے اس اس طرح کہا ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ وَلَدِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ لَا أَسْمَعُ اللہَ ذَكَرَ النِّسَاءَ فِي الْہِجْرَةِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَی بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اللہ کے رسول! میں عورتوں کی ہجرت کا ذکر کلام پاک میں نہیں سنتی،تو اللہ تعالیٰ نے آیت أَنِّی لا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ ۱؎ نازل فرمائی۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللہِ أَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْہِ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَرَأْتُ عَلَيْہِ مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ حَتَّی إِذَا بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَہِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَی ہَؤُلَاءِ شَہِيدًا غَمَزَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ بِيَدِہِ فَنَظَرْتُ إِلَيْہِ وَعَيْنَاہُ تَدْمَعَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ وَإِنَّمَا ہُوَ إِبْرَاہِيمُ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے،آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤں،چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورہ نساء میں سے تلاوت کی،جب میں آیت فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاَئِ شَہِیدًا ۱؎ پر پہنچا تو رسول اللہ نے مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا (کہ بس کرو،آگے نہ پڑھو) میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابولأحوص نے اعمش سے،اعمش نے ابراہیم سے اور ابراہیم نے علقمہ کے واسطہ سے،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے،اور حقیقت میں وہ سند یوں ہے’’إبراہیم،عن عبیدۃ،عن عبداللہ‘‘ (عن علقمہ نہیں)۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ اقْرَأْ عَلَيَّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہُ مِنْ غَيْرِي فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّی إِذَا بَلَغْتُ وَجِئْنَا بِكَ عَلَی ہَؤُلَاءِ شَہِيدًا قَالَ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْ النَّبِيِّ ﷺ تَہْمِلَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ ہِشَامٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کے سامنے قرآن پڑھوں قرآن تو آپ ہی پر نازل ہوا ہے؟‘‘،آپ نے فرمایا: ’’اپنے سے ہٹ کر دوسرے سے سننا چاہتا ہوں،تو میں نے سورہ نساء پڑھی۔جب میں آیت: وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلائِ شَہِیدًا پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ آپ کی دونوں آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوالا ٔحوص کی روایت سے صحیح تر ہے۔اس سند سے ابن مبارک نے اور ابن مبارک نے سفیان کے واسطہ سے اعمش سے معاویہ بن ہشام کی حدیث جیسی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ صَنَعَ لَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ طَعَامًا فَدَعَانَا وَسَقَانَا مِنْ الْخَمْرِ فَأَخَذَتْ الْخَمْرُ مِنَّا وَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَقَدَّمُونِي فَقَرَأْتُ قُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ قَالَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَی حَتَّی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا،پھر ہمیں بلا کر کھلایا اور شراب پلائی۔شراب نے ہماری عقلیں ماؤف کر دیں،اور اسی دوران صلاۃ کا وقت آ گیا،تو لوگوں نے مجھے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا،میں نے پڑھا قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ لاَ أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (اے نبی! کہہ دیجئے: کافرو! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا،اور ہم اسی کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو۔تو اللہ تعالیٰ نے آیت یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلاَۃَ وَأَنْتُمْ سُکَارَی حَتَّی تَعْلَمُوا مَاتَقُولُونَ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَہُ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِہَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ فَأَبَی عَلَيْہِ فَاخْتَصَمُوا إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلزُّبَيْرِ اسْقِ يَا زُبَيْرُ وَأَرْسِلْ الْمَاءَ إِلَی جَارِكَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ وَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَغَيَّرَ وَجْہُ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ قَالَ يَا زُبَيْرُ اسْقِ وَاحْبِسْ الْمَاءَ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی الْجُدُرِ فَقَالَ الزُّبَيْرُ وَاللہِ إِنِّي لَأَحْسِبُ ہَذِہِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَہُمْ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ قَدْ رَوَی ابْنُ وَہْبٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَيُونُسُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ الزُّبَيْرِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے (ان کے والد) زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے،حرہ ۱؎ کی نالی کے معاملہ میں،جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے،جھگڑا کیا،انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ پانی کو بہنے دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے ۲؎،زبیر نے انکار کیا،پھر وہ لوگ اس جھگڑے کو لے کر آپ ﷺ کے پاس پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے زبیر سے کہا: زبیر! تم (اپنا کھیت) سینچ کر پانی پڑوسی کے کھیت میں جانے دو،(یہ سن کر) انصاری غصہ ہو گیا،اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ وہ (زبیر) آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ (یہ سن کر) آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا آپ نے کہا: زبیر! اپنا کھیت سینچ لو،اور پانی اتنا بھر لو کہ منڈیروں تک پہنچ جائے‘‘۔زبیر کہتے ہیں: قسم اللہ کی میں گمان کرتا ہوں کہ آیت: فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ۳؎ اسی مقدمہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابن وہب نے بطریق: ’’لیث بن سعد،ویونس،عن الزہری،عن عروۃ،عن عبداللہ بن الزبیر‘‘ اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۲-اور شعیب بن ابی حمزہ نے بطریق: ’’الزہری،عن عروۃ،عن الزبیر‘‘ روایت کی ہے اور انہوں نے اپنی روایت میں عبداللہ بن زبیر کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ يَزِيدَ يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِي ہَذِہِ الْآيَةِ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ قَالَ رَجَعَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ فَكَانَ النَّاسُ فِيہِمْ فَرِيقَيْنِ فَرِيقٌ يَقُولُ اقْتُلْہُمْ وَفَرِيقٌ يَقُولُ لَا فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَقَالَ إِنَّہَا طِيبَةُ وَقَالَ إِنَّہَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيَدَ ہُوَ الْأَنْصَارِيُّ الْخَطْمِيُّ وَلَہُ صُحْبَةٌ

عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آیت: فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ کی تفسیر کے سلسلے میں کہتے ہیں احد کی لڑائی کے دن رسول اللہ ﷺ کے کچھ (ساتھی یعنی منافق میدان جنگ سے) لوٹ آئے ۱؎ تو لوگ ان کے سلسلے میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ایک گروہ نے کہا: انہیں قتل کر دو،اور دوسرے فریق نے کہا: نہیں،قتل نہ کروتو یہ آیت فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ ۱؎ نازل ہوئی،اور آپ نے فرمایا: ’’مدینہ پاکیزہ شہر ہے،یہ ناپاکی وگندگی کو (إن شاء اللہ) ایسے دور کر دے گا جیسے آگ لوہے کی ناپاکی (میل وزنگ) کو دور کر دیتی ہے۔(یہ منافق یہاں رہ نہ سکیں گے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-عبداللہ بن یزید انصاری خطمی ہیں اور انہیں نبی اکرم ﷺ کی صحبت حاصل ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُہُ وَرَأْسُہُ بِيَدِہِ وَأَوْدَاجُہُ تَشْخَبُ دَمًا يَقُولُ يَا رَبِّ ہَذَا قَتَلَنِي حَتَّی يُدْنِيَہُ مِنْ الْعَرْشِ قَالَ فَذَكَرُوا لِابْنِ عَبَّاسٍ التَّوْبَةَ فَتَلَا ہَذِہِ الْآيَةَ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ قَالَ مَا نُسِخَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ وَلَا بُدِّلَتْ وَأَنَّی لَہُ التَّوْبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنَ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن مقتول قاتل کو ساتھ لے کر آ جائے گا،اس کی پیشانی اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوں گے،مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا،کہے گا: اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا،(یہ کہتا ہوا) اسے لیے ہوئے عرش کے قریب جا پہنچے گا۔راوی کہتے ہیں: لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ آیت وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ ۱؎ تلاوت کی،اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہوئی ہے اور نہ ہی تبدیل،تو پھر اس کی توبہ کیوں کر قبول ہوگی؟ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس حدیث کو بعض راویوں نے عمر بن دینا رکے واسطہ سے ابن عباس سے اسی طرح روایت کی ہے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَمَعَہُ غَنَمٌ لَہُ فَسَلَّمَ عَلَيْہِمْ قَالُوا مَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا لِيَتَعَوَّذَ مِنْكُمْ فَقَامُوا فَقَتَلُوہُ وَأَخَذُوا غَنَمَہُ فَأَتَوْا بِہَا رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللہِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَيْكُمْ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: بنو سلیم کا ایک آدمی صحابہ کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا،اس کے ساتھ اس کی بکریاں بھی تھیں،اس نے ان لوگوں کو سلام کیا،ان لوگوں نے کہا: اس نے تم لوگوں کی پناہ لینے کے لیے تمہیں سلام کیا ہے،پھر ان لوگوں نے بڑھ کر اسے قتل کر دیا،اس کی بکریاں اپنے قبضہ میں لے لیں۔اور انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبِیلِ اللہِ فَتَبَیَّنُوا وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمْ السَّلامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ۱؎ نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں اسامہ بن زید سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ الْآيَةَ جَاءَ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ وَكَانَ ضَرِيرَ الْبَصَرِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا تَأْمُرُنِي إِنِّي ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآيَةَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ الْآيَةَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِيْتُونِي بِالْكَتِفِ وَالدَّوَاةِ أَوْ اللَّوْحِ وَالدَّوَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُقَالُ عَمْرُو ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَيُقَالُ عَبْدُ اللہِ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَائِدَةَ وَأُمُّ مَكْتُومٍ أُمُّہُ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب آیت لا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ۱؎ نازل ہوئی تو عمرو بن ام مکتوم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے،وہ نابینا تھے،انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں،میں تو اندھا ہوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے آیت: غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ نازل فرمائی،یعنی مریض اور معذور لوگوں کو چھوڑ کر،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے پاس شانہ کی ہڈی اور دوات لے آؤ (یا یہ کہا) تختی اور دوات لے آؤ کہ میں لکھا کر دے دوں کہ تم معذور لوگوں میں سے ہو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس روایت میں عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہا گیا ہے،انہیں عبداللہ بن ام مکتوم بھی کہا جاتا ہے،وہ عبداللہ بن زائدہ ہیں،اور ام مکتوم ان کی ماں ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ سَمِعَ مِقْسَمًا مَوْلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ عَنْ بَدْرٍ وَالْخَارِجُونَ إِلَی بَدْرٍ لَمَّا نَزَلَتْ غَزْوَةُ بَدْرٍ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ جَحْشِ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ إِنَّا أَعْمَيَانِ يَا رَسُولَ اللہِ فَہَلْ لَنَا رُخْصَةٌ فَنَزَلَتْ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَ فَضَّلَ اللہُ الْمُجَاہِدِينَ عَلَی الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً فَہَؤُلَاءِ الْقَاعِدُونَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجَاہِدِينَ عَلَی الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَاتٍ مِنْہُ عَلَی الْقَاعِدِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرِ أُولِي الضَّرَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمِقْسَمٌ يُقَالُ ہُوَ مَوْلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ وَيُقَالُ ہُوَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ وَكُنْيَتُہُ أَبُو الْقَاسِمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِکی تفسیر میں کہتے ہیں: جب جنگ بدر کا موقع آیا تو اس موقع پر یہ آیت جنگ بدر میں شریک ہونے والے اور نہ شریک ہونے والے مسلمانوں کے متعلق نازل ہوئی۔تو عبداللہ بن جحش اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم دونوں اندھے ہیں کیا ہمارے لیے رخصت ہے کہ ہم جہاد میں نہ جائیں؟ تو آیت لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ نازل ہوئی،اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو بیٹھے رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ان بیٹھ رہنے والوں سے مراد اس آیت میں غیر معذور لوگ ہیں،باقی رہے معذور لوگ تو وہ مجاہدین کے برابر ہیں۔اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت دی ہے۔اور بیٹھ رہنے والے مومنین پر اپنی جانب سے ان کے درجے بڑھا کر فضیلت دی ہے۔اور یہ بیٹھ رہنے والے مومنین وہ ہیں جو بیمار ومعذور نہیں ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-مقسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عبداللہ بن حارث کے آزاد کردہ غلام ہیں،اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ابن عباس کے آزاد کردہ غلام ہیں اور مقسم کی کنیت ابوالقاسم ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ حَدَّثَنِي سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ رَأَيْتُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ فَأَقْبَلْتُ حَتَّی جَلَسْتُ إِلَی جَنْبِہِ فَأَخْبَرَنَا أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمْلَی عَلَيْہِ لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ فَجَاءَہُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَہُوَ يُمْلِيہَا عَلَيَّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ وَاللہِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِہَادَ لَجَاہَدْتُ وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَی فَأَنْزَلَ اللہُ عَلَی رَسُولِہِ ﷺ وَفَخِذُہُ عَلَی فَخِذِي فَثَقُلَتْ حَتَّی ہَمَّتْ تَرُضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْہُ فَأَنْزَلَ اللہُ عَلَيْہِ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ ہَذَا وَرَوَی مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَفِي ہَذَا الْحَدِيثِ رِوَايَةُ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ رَجُلٍ مِنْ التَّابِعِينَ رَوَاہُ سَہْلُ بْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ وَمَرْوَانُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ مِنْ التَّابِعِينَ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے مروان بن حکم کو مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا تو میں بھی آگے بڑھ کر ان کے پہلو میں جا بیٹھا انہوں نے ہمیں بتایا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں املا کرایا لاَ یَسْتَوِیْ الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ وَ المُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللہِ (گھروں میں بیٹھ رہنے والے مسلمان،اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے دونوں برابر نہیں ہو سکتے) اسی دوران ابن ام مکتوم آپ ﷺ کے پاس آ پہنچے اور آپ اس آیت کا ہمیں املا کرا رہے تھے،انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی،اگر میں جہاد کی طاقت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا،وہ نابینا شخص تھے،اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر آیت غَیْرُ أُوْلِیْ الضَّرَرِ نازل فرمائی اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت آپ کی ران (قریب بیٹھے ہونے کی وجہ سے) میری ران پرتھی،وہ (نزول وحی کے دباؤ سے) بوجھل ہو گئی،لگتا تھا کہ میری ران پِس جائے گی۔پھر (جب نزول وحی کی کیفیت ختم ہو گئی) تو آپ کی پریشانی دور ہو گئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح کئی راویوں نے زہری سے اور زہری نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،۳-معمر نے زہری سے یہ حدیث قبیصہ بن ذویب کے واسطہ سے،قبیصہ نے زید بن ثابت سے روایت کی ہے،اور اس حدیث میں ایک روایت رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی کی ایک تابعی سے ہے،روایت کیا ہے سہل بن سعد انصاری (صحابی) نے مروان بن حکم (تابعی) سے۔اور مروان نے رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنا ہے،وہ تابعی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَابَاہُ عَنْ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِنَّمَا قَالَ اللہُ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمْ وَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ فَقَالَ عُمَرُ عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْہُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللہُ بِہَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاَۃِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَفْتِنَکُمْ ۱؎ اور اب تو لوگ امن وامان میں ہیں (پھر قصر کیوں کر جائز ہوگی؟) عمر نے کہا: جو بات تمہیں کھٹکی وہ مجھے بھی کھٹک چکی ہے،چنانچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا،تو آپ نے فرمایا: ’’یہ اللہ کی جانب سے تمہارے لیے ایک صدقہ ہے جو اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے،پس تم اس کے صدقے کو قبول کر لو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْہُنَائِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ شَقِيقٍ حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَزَلَ بَيْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ إِنَّ لِہَؤُلَاءِ صَلَاةً ہِيَ أَحَبُّ إِلَيْہِمْ مِنْ آبَائِہِمْ وَأَبْنَائِہِمْ ہِيَ الْعَصْرُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ فَمِيلُوا عَلَيْہِمْ مَيْلَةً وَاحِدَةً وَأَنَّ جِبْرِيلَ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَہُ أَنْ يَقْسِمَ أَصْحَابَہُ شَطْرَيْنِ فَيُصَلِّيَ بِہِمْ وَتَقُومُ طَائِفَةٌ أُخْرَی وَرَاءَہُمْ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ ثُمَّ يَأْتِي الْآخَرُونَ وَيُصَلُّونَ مَعَہُ رَكْعَةً وَاحِدَةً ثُمَّ يَأْخُذُ ہَؤُلَاءِ حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ فَتَكُونُ لَہُمْ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ وَلِرَسُولِ اللہِ ﷺ رَكْعَتَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَحُذَيْفَةَ وَأَبِي بَكْرَةَ وَسَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَأَبُو عَيَّاشٍ الزُّرَقِيُّ اسْمُہُ زَيْدُ بْنُ صَامِتٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ ضجنان اور عسفان (نامی مقامات) کے درمیان قیام فرما ہوئے،مشرکین نے کہا: ان کے یہاں ایک صلاۃ ہوتی ہے جو انہیں اپنے باپ بیٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے،اور وہ صلاۃ عصر ہے،تو تم پوری طرح تیاری کر لو پھر ان پر ایک بارگی ٹوٹ پڑو۔(اس پر) جبرئیل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں (ان میں سے) ایک گروہ کے ساتھ آپ صلاۃ پڑھیں اور دوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے کر کھڑا رہے۔پھر دوسرے گروہ کے لوگ آئیں اور آپ کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں پھر یہ (پہلے گروہ والے لوگ) اپنی ڈھالیں اور ہتھیار لے کر ان کے پیچھے کھڑے رہیں ۱؎ اس طرح ان سب کی ایک ایک رکعت ہوگی اور رسول اللہ ﷺ کی دو رکعتیں ہوں گی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس سند سے عبداللہ بن شقیق کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،زید بن ثابت،ابن عباس،جابر،ابو عیاش زرقی،ابن عمر،حذیفہ،ابو بکرہ اور سہل بن ابو حشمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور ابو عیاش کا نام زید بن صامت ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ قَالَ كَانَ أَہْلُ بَيْتٍ مِنَّا يُقَالُ لَہُمْ بَنُو أُبَيْرِقٍ بِشْرٌ وَبُشَيْرٌ وَمُبَشِّرٌ وَكَانَ بُشَيْرٌ رَجُلًا مُنَافِقًا يَقُولُ الشِّعْرَ يَہْجُو بِہِ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ يَنْحَلُہُ بَعْضَ الْعَرَبِ ثُمَّ يَقُولُ قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا فَإِذَا سَمِعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ ﷺ ذَلِكَ الشِّعْرَ قَالُوا وَاللہِ مَا يَقُولُ ہَذَا الشِّعْرَ إِلَّا ہَذَا الْخَبِيثُ أَوْ كَمَا قَالَ الرَّجُلُ وَقَالُوا ابْنُ الْأُبَيْرِقِ قَالَہَا قَالَ وَكَانُوا أَہْلَ بَيْتِ حَاجَةٍ وَفَاقَةٍ فِي الْجَاہِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ وَكَانَ النَّاسُ إِنَّمَا طَعَامُہُمْ بِالْمَدِينَةِ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ لَہُ يَسَارٌ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنْ الشَّامِ مِنْ الدَّرْمَكِ ابْتَاعَ الرَّجُلُ مِنْہَا فَخَصَّ بِہَا نَفْسَہُ وَأَمَّا الْعِيَالُ فَإِنَّمَا طَعَامُہُمْ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنْ الشَّامِ فَابْتَاعَ عَمِّي رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ حِمْلًا مِنْ الدَّرْمَكِ فَجَعَلَہُ فِي مَشْرَبَةٍ لَہُ وَفِي الْمَشْرَبَةِ سِلَاحٌ وَدِرْعٌ وَسَيْفٌ فَعُدِيَ عَلَيْہِ مِنْ تَحْتِ الْبَيْتِ فَنُقِبَتْ الْمَشْرَبَةُ وَأُخِذَ الطَّعَامُ وَالسِّلَاحُ فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّہُ قَدْ عُدِيَ عَلَيْنَا فِي لَيْلَتِنَا ہَذِہِ فَنُقِبَتْ مَشْرَبَتُنَا وَذُہِبَ بِطَعَامِنَا وَسِلَاحِنَا قَالَ فَتَحَسَّسْنَا فِي الدَّارِ وَسَأَلْنَا فَقِيلَ لَنَا قَدْ رَأَيْنَا بَنِي أُبَيْرِقٍ اسْتَوْقَدُوا فِي ہَذِہِ اللَّيْلَةِ وَلَا نَرَی فِيمَا نَرَی إِلَّا عَلَی بَعْضِ طَعَامِكُمْ قَالَ وَكَانَ بَنُو أُبَيْرِقٍ قَالُوا وَنَحْنُ نَسْأَلُ فِي الدَّارِ وَاللہِ مَا نُرَی صَاحِبَكُمْ إِلَّا لَبِيدَ بْنَ سَہْلٍ رَجُلٌ مِنَّا لَہُ صَلَاحٌ وَإِسْلَامٌ فَلَمَّا سَمِعَ لَبِيدٌ اخْتَرَطَ سَيْفَہُ وَقَالَ أَنَا أَسْرِقُ فَوَاللہِ لَيُخَالِطَنَّكُمْ ہَذَا السَّيْفُ أَوْ لَتُبَيِّنُنَّ ہَذِہِ السَّرِقَةَ قَالُوا إِلَيْكَ عَنْہَا أَيُّہَا الرَّجُلُ فَمَا أَنْتَ بِصَاحِبِہَا فَسَأَلْنَا فِي الدَّارِ حَتَّی لَمْ نَشُكَّ أَنَّہُمْ أَصْحَابُہَا فَقَالَ لِي عَمِّي يَا ابْنَ أَخِي لَوْ أَتَيْتَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَذَكَرْتَ ذَلِكَ لَہُ قَالَ قَتَادَةُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ إِنَّ أَہْلَ بَيْتٍ مِنَّا أَہْلَ جَفَاءٍ عَمَدُوا إِلَی عَمِّي رِفَاعَةَ بْنِ زَيْدٍ فَنَقَبُوا مَشْرَبَةً لَہُ وَأَخَذُوا سِلَاحَہُ وَطَعَامَہُ فَلْيَرُدُّوا عَلَيْنَا سِلَاحَنَا فَأَمَّا الطَّعَامُ فَلَا حَاجَةَ لَنَا فِيہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ سَآمُرُ فِي ذَلِكَ فَلَمَّا سَمِعَ بَنُو أُبَيْرِقٍ أَتَوْا رَجُلًا مِنْہُمْ يُقَالُ لَہُ أُسَيْرُ بْنُ عُرْوَةَ فَكَلَّمُوہُ فِي ذَلِكَ فَاجْتَمَعَ فِي ذَلِكَ نَاسٌ مِنْ أَہْلِ الدَّارِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ وَعَمَّہُ عَمَدَا إِلَی أَہْلِ بَيْتٍ مِنَّا أَہْلِ إِسْلَامٍ وَصَلَاحٍ يَرْمُونَہُمْ بِالسَّرِقَةِ مِنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ وَلَا ثَبَتٍ قَالَ قَتَادَةُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَكَلَّمْتُہُ فَقَالَ عَمَدْتَ إِلَی أَہْلِ بَيْتٍ ذُكِرَ مِنْہُمْ إِسْلَامٌ وَصَلَاحٌ تَرْمِہِمْ بِالسَّرِقَةِ عَلَی غَيْرِ ثَبَتٍ وَلَا بَيِّنَةٍ قَالَ فَرَجَعْتُ وَلَوَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْ بَعْضِ مَالِي وَلَمْ أُكَلِّمْ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي ذَلِكَ فَأَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي مَا صَنَعْتَ فَأَخْبَرْتُہُ بِمَا قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ اللہُ الْمُسْتَعَانُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ نَزَلَ الْقُرْآنُ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللہُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا بَنِي أُبَيْرِقٍ وَاسْتَغْفِرْ اللہَ أَيْ مِمَّا قُلْتَ لِقَتَادَةَ إِنَّ اللہَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا وَلَا تُجَادِلْ عَنْ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَہُمْ إِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا يَسْتَخْفُونَ مِنْ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنْ اللہِ إِلَی قَوْلِہِ غَفُورًا رَحِيمًا أَيْ لَوْ اسْتَغْفَرُوا اللہَ لَغَفَرَ لَہُمْ وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُہُ عَلَی نَفْسِہِ إِلَی قَوْلِہِ إِثْمًا مُبِينًا قَوْلَہُ لِلَبِيدٍ وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُہُ إِلَی قَوْلِہِ فَسَوْفَ نُؤْتِيہِ أَجْرًا عَظِيمًا فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ أَتَی رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالسِّلَاحِ فَرَدَّہُ إِلَی رِفَاعَةَ فَقَالَ قَتَادَةُ لَمَّا أَتَيْتُ عَمِّي بِالسِّلَاحِ وَكَانَ شَيْخًا قَدْ عَشَا أَوْ عَسَی فِي الْجَاہِلِيَّةِ وَكُنْتُ أُرَی إِسْلَامُہُ مَدْخُولًا فَلَمَّا أَتَيْتُہُ بِالسِّلَاحِ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي ہُوَ فِي سَبِيلِ اللہِ فَعَرَفْتُ أَنَّ إِسْلَامَہُ كَانَ صَحِيحًا فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ لَحِقَ بُشَيْرٌ بِالْمُشْرِكِينَ فَنَزَلَ عَلَی سُلَافَةَ بِنْتِ سَعْدِ ابْنِ سُمَيَّةَ فَأَنْزَلَ اللہُ وَمَنْ يُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدَی وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا إِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِہِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا فَلَمَّا نَزَلَ عَلَی سُلَافَةَ رَمَاہَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ بِأَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِہِ فَأَخَذَتْ رَحْلَہُ فَوَضَعَتْہُ عَلَی رَأْسِہَا ثُمَّ خَرَجَتْ بِہِ فَرَمَتْ بِہِ فِي الْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَتْ أَہْدَيْتَ لِي شِعْرَ حَسَّانَ مَا كُنْتَ تَأْتِينِي بِخَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَہُ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيِّ وَرَوَی يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ مُرْسَلٌ لَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ ہُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لِأُمِّہِ وَأَبُو سَعِيدٍ اسْمُہُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ

قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (انصار) میں سے ایک خاندان ایسا تھا،جنہیں بنو اُبیرق کہا جاتا تھا۔اور وہ تین بھائی تھے،بِشر،بُشیر اور مُبشر،بشیر منافق تھا،شعر کہتا تھا اور صحابہ کی ہجو کرتا تھا،پھر ان کو بعض عرب کی طرف منسوب کر کے کہتا تھا: فلان نے ایسا ایسا کہا،اور فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔صحابہ نے یہ شعر سنا تو کہا اللہ کی قسم! یہ کسی اور کے نہیں بلکہ اسی خبیث کے کہے ہوئے ہیں-یا جیسا کہ راوی نے ’’خبیث‘‘ کی جگہ ’’الرجل‘‘ کہا-انہوں (یعنی صحابہ) نے کہا: یہ اشعار ابن ابیرق کے کہے ہوئے ہیں،وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں ہی میں محتاج اور فاقہ زدہ لوگ تھے،مدینہ میں لوگوں کا کھانا کھجور اور جوہی تھا،جب کسی شخص کے یہاں مالداری وکشادگی ہو جاتی اور کوئی غلوں کا تاجر شام سے سفید آٹا (میدہ) لے کر آتا تو وہ مالدار شخص اس میں سے کچھ خرید لیتا اور اسے اپنے کھانے کے لیے مخصوص کر لیتا،اور بال بچے کھجور اور جوہی کھاتے رہتے۔(ایک بار ایسا ہوا) ایک مال بردار شتربان شام سے آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدے کی ایک بوری خرید لی اور اسے اپنے اسٹاک روم میں رکھ دی،اور اس اسٹور روم میں ہتھیار،زرہ اور تلوار بھی رکھی ہوئی تھی۔ان پر ظلم وزیادتی یہ ہوئی کہ گھر کے نیچے سے اس اسٹاک روم میں نقب لگائی گئی اور راشن اور ہتھیار سب کا سب چرا لیا گیا،صبح کے وقت میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا: میرے بھتیجے آج کی رات تو مجھ پر بڑی زیادتی کی گئی۔میرے اسٹور روم میں نقب لگائی گئی ہے اور ہمارا راشن اور ہمارا ہتھیار سب کچھ چرا لیا گیا ہے۔ہم نے محلے میں پتہ لگانے کی کوشش کی اور لوگوں سے پوچھ تاچھ کی توہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنی اُبیرق کو آج رات دیکھا ہے،انہوں نے آگ جلا رکھی تھی،اور ہمارا خیال ہے کہ تمہارے ہی کھانے پر (جشن) منا رہے ہوں گے۔(یعنی چوری کا مال پکا رہے ہوں گے) جب ہم محلے میں پوچھ تاچھ کر رہے تھے تو ابو اُبیرق نے کہا: قسم اللہ کی! ہمیں تو تمہارا چور لبید بن سہل ہی لگتا ہے،لبید ہم میں ایک صالح مرد اور مسلمان شخص تھے،جب لبید نے سنا کہ بنو اُبیرق اس پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی،اور کہا میں چور ہوں؟ قسم اللہ کی! میری یہ تلوار تمہارے بیچ رہے گی یا پھر تم اس چوری کا پتہ لگا کر دو۔لوگوں نے کہا: جناب! آپ اپنی تلوار ہم سے دور ہی رکھیں،آپ چور نہیں ہو سکتے،ہم نے محلے میں مزید پوچھ تاچھ کی،تو ہمیں اس میں شک نہیں رہ گیا کہ بنو اُبیرق ہی چور ہیں۔میرے چچا نے کہا: بھتیجے! اگر تم رسول اللہ ﷺ کے پاس جاتے اور آپ سے اس (حادثے) کا ذکر کرتے (تو ہو سکتا ہے میرا مال مجھے مل جاتا) قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا،اور عرض کیا: ہمارے ہی لوگوں میں سے ایک گھر والے نے ظلم وزیادتی کی ہے۔انہوں نے ہمارے چچا رفاعہ بن زید (کے گھر) کا رخ کیا ہے اور ان کے اسٹور روم میں نقب لگا کر ان کا ہتھیار اور ان کا راشن (کھانا) چرا لے گئے ہیں،تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہتھیار ہمیں واپس دے دیں۔راشن (غلے) کی واپسی کا ہم مطالبہ نہیں کرتے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس بارے میں مشورہ (اور پوچھ تاچھ) کے بعد ہی کوئی فیصلہ دوں گا۔جب یہ بات بنو اُبیرق نے سنی تو وہ اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آئے،اس شخص کو اُسیر بن عروہ کہا جاتا تھا۔انہوں نے اس سے اس معاملے میں بات چیت کی اور محلے کے کچھ لوگ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ایک رائے ہو گئے۔اور ان سب نے (رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر) کہا: اللہ کے رسول! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا دونوں ہم ہی لوگوں میں سے ایک گھر والوں پر جو مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں بغیر کسی گواہ اور بغیر کسی ثبوت کے چوری کا الزام لگاتے ہیں۔قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے بات چیت کی،آپ نے فرمایا: ’’تم نے ایک ایسے گھر والوں پر چوری کرنے کا الزام عائد کیا ہے جن کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں اور تمہارے پاس کوئی گواہ اور کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔قتادہ کہتے ہیں: میں آپ کے پاس سے واپس آ گیا۔اور میرا جی چاہا کہ میں اپنے کچھ مال سے محروم ہو گیا ہوتا تو مجھے گوارا ہوتا لیکن اس معاملے میں رسول اللہ ﷺ سے میں نے بات نہ کی ہوتی،پھر میرے چچا رفاعہ نے میرے پاس آ کر کہا: بھتیجے! تم نے (اس معاملے میں اب تک) کیا کیا؟ رسول اللہ ﷺ نے مجھے جو جواب دیا تھامیں نے انہیں اس سے آگاہ کر دیا،اس پر انہوں نے کہا: اللہ المستعان (اللہ ہی ہمارا مدد گار ہے) ہماری اس بات چیت کو ہوئے تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ قرآن کی یہ آیات (۱۰۵تا۱۱۴) نازل ہوئیں إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللہُ وَلاَ تَکُنْ لِلْخَائِنِینَ خَصِیمًا ۱؎ خائنین سے مراد بنو اُبیرق ہیں اور اللہ نے فرمایا: ’’وَاسْتَغْفِرِ اللّہِ اللہ سے معافی مانگو،یعنی تم نے قتادہ سے جو بات کہی ہے اس سے اللہ سے مغفرت چاہو،إِنَّ اللّہَ کَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا اللہ غفور (بڑا بخشنے والا) رحیم (مہربان) ہے۔اور اللہ نے فرمایا: وَلاَ تُجَادِلْ عَنِ الَّذِینَ یَخْتَانُونَ أَنفُسَہُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ مَن کَانَ خَوَّانًا أَثِیمًا یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ یَسْتَخْفُونَ مِنَ-إلی قولہ-غَفُورًا رَّحِیمًا ۲؎ یعنی اگر یہ لوگ اللہ سے مغفرت طلب کریں تو اللہ انہیں بخش دے گا۔آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وَمَنْ یَکْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا یَکْسِبُہُ عَلَی نَفْسِہِ إلی قولہ إِثْمًا مُبِینًا ۳؎ اس سے اشارہ نبی اُبیرق کی اس بات کی طرف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چوری لبید بن سہل نے کی ہے۔اور آگے اللہ نے فرمایا: لاَّ خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِّن نَّجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ-إلی قولہ-فَسَوْفَ نُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا ۴؎ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو وہ (بنی اُبیرق) ہتھیار رسول اللہ کے پاس لے آئے۔اور آپ نے رفاعہ کو لوٹا دیئے،قتادہ کہتے ہیں: میرے چچا بوڑھے تھے اور اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت ہی میں ان کی نگاہیں کمزور ہو چکی تھیں،اور میں سمجھتا تھا کہ ان کے ایمان میں کچھ خلل ہے لیکن جب میں ہتھیار لے کر اپنے چچا کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ میں دیتا ہوں،اس وقت میں نے جان لیا (اور یقین کر لیا) کہ چچا کا اسلام پختہ اور درست تھا (اور ہے) جب قرآن کی آیتیں نازل ہوئی تو بُشیر مشرکوں میں جا شامل ہوا۔اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے پاس جا ٹھہرا،اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت وَمَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا إِنَّ اللہَ لاَ یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ یَشَائُ وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیدًانازل فرمائی ۵؎ جب وہ سلافہ کے پاس جا کر ٹھہرا تو حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنے چند اشعار کے ذریعہ اس کی ہجو کی،(یہ سن کر) اس نے سدافہ بنت سعد کا سامان اپنے سرپر رکھ کر گھر سے نکلی اور میدان میں پھینک آئی۔پھر (اس سے) کہا: تم نے ہمیں حسان کے شعر کا تحفہ دیا ہے؟ تم سے مجھے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،اور ہم محمد بن سلمہ حرانی کے سوا کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو،۲-یونس بن بکیر اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو محمد بن اسحاق سے اور محمد بن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے مرسلاً روایت کیا ہے،اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ عاصم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے،۳-قتادہ بن نعمان،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے اخیافی بھائی ہیں،۴-ابو سعید خدری سعد بن مالک بن سنان ہیں۔

حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ ثُوَيْرِ بْنِ أَبِي فَاخِتَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ ہَذِہِ الْآيَةِ إِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِہِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ وَثُوَيْرٌ يُكْنَی أَبَا جَہْمٍ وَہُوَ رَجُلٌ كُوفِيٌّ مِنْ التَّابِعِينَ وَقَدْ سَمِعَ مِنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنُ مَہْدِيٍّ كَانَ يَغْمِزُہُ قَلِيلًا

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قرآن میں کوئی آیت مجھے اس آیت: إِنَّ اللہَ لا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ یَشَائُ ۱؎ سے زیادہ محبوب وپسندیدہ نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابو فاختہ کا نام سعید بن علاقہ ہے،۳-ثویر کی کنیت ابو جہم ہے اور وہ کوفہ کے رہنے والے ہیں تابعی ہیں اور ابن عمر اور ابن زبیر سے ان کا سماع ہے،ابن مہدی ان پر کچھ طعن کرتے تھے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ أَبِي عُمَرَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ مُحَيْصِنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا نَزَلَ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِہِ شَقَّ ذَلِكَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ قَارِبُوا وَسَدِّدُوا وَفِي كُلِّ مَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ كَفَّارَةٌ حَتَّی الشَّوْكَةَ يُشَاكُہَا أَوْ النَّكْبَةَ يُنْكَبُہَا ابْنُ مُحَيْصِنٍ ہُوَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْصِنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ ۱؎ نازل ہوئی تو یہ بات مسلمانوں پر بڑی گراں گزری،اس کی شکایت انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کی،تو آپ نے فرمایا: ’’حق کے قریب ہو جاؤ،اور سیدھے رہو،مومن کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے،یہاں تک کہ آدمی کو کوئی کانٹا چبھ جائے یا اسے کوئی مصیبت پہنچ جائے (تو اس کے سبب سے بھی اس کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ أَخْبَرَنِي مَوْلَی ابْنِ سِبَاعٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْہِ ہَذِہِ الْآيَةَ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِہِ وَلَا يَجِدْ لَہُ مِنْ دُونِ اللہِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَا أُقْرِئُكَ آيَةً أُنْزِلَتْ عَلَيَّ قُلْتُ بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ فَأَقْرَأَنِيہَا فَلَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنِّي قَدْ كُنْتُ وَجَدْتُ انْقِصَامًا فِي ظَہْرِي فَتَمَطَّأْتُ لَہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا شَأْنُكَ يَا أَبَا بَكْرٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَأَيُّنَا لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَإِنَّا لَمُجْزَوْنَ بِمَا عَمِلْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَمَّا أَنْتَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَالْمُؤْمِنُونَ فَتُجْزَوْنَ بِذَلِكَ فِي الدُّنْيَا حَتَّی تَلْقَوْا اللہَ وَلَيْسَ لَكُمْ ذُنُوبٌ وَأَمَّا الْآخَرُونَ فَيُجْمَعُ ذَلِكَ لَہُمْ حَتَّی يُجْزَوْا بِہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَمَوْلَی ابْنِ سِبَاعٍ مَجْہُولٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَلَيْسَ لَہُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ أَيْضًا وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اس وقت آپ پر یہ آیت: مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ وَلا یَجِدْ لَہُ مِنْ دُونِ اللہِ وَلِیًّا وَلا نَصِیرًانازل ہوئی تو آپ ﷺ نے مجھ سے کہا: ابو بکر! کیا میں تمہیں ایک آیت جو (ابھی) مجھ پر اتری ہے نہ پڑھا دوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ ابوبکر کہتے ہیں: تو آپ نے مجھے (مذکورہ آیت) پڑھائی۔میں نہیں جانتا کیا بات تھی،مگر میں نے اتنا پایا کہ کمر ٹوٹ رہی ہے تو میں نے اس کی وجہ سے انگڑائی لی،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابو بکر کیا حال ہے! میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،بھلا ہم میں کون ہے ایسا جس سے کوئی برائی سرزد نہ ہوتی ہو؟ اور حال یہ ہے کہ ہم سے جو بھی عمل صادر ہوگا ہمیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(گھبراؤ نہیں) ابو بکر تم اور سارے مومن لوگ یہ (چھوٹی موٹی) سزائیں تمہیں اسی دنیا ہی میں دے دی جائیں گی،یہاں تک کہ جب تم اللہ سے ملو گے تو تمہارے ذمہ کوئی گناہ نہ ہوگا،البتہ دوسروں کا حال یہ ہوگا کہ ان کی برائیاں جمع اور اکٹھی ہوتی رہیں گی جن کا بدلہ انہیں قیامت کے دن دیا جائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،اور اس کی سند میں کلام ہے،۲-موسیٰ بن عبیدہ حدیث میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں،انہیں یحییٰ بن سعید اور احمد بن حنبل نے ضعیف کہا ہے۔اور مولی بن سباع مجہول ہیں،۳-اور یہ حدیث اس سند کے علاوہ سند سے ابوبکر سے مروی ہے،لیکن اس کی کوئی سند بھی صحیح نہیں ہے،۴-اس باب میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ خَشِيَتْ سَوْدَةُ أَنْ يُطَلِّقَہَا النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَتْ لَا تُطَلِّقْنِي وَأَمْسِكْنِي وَاجْعَلْ يَوْمِي لِعَائِشَةَ فَفَعَلَ فَنَزَلَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ فَمَا اصْطَلَحَا عَلَيْہِ مِنْ شَيْءٍ فَہُوَ جَائِزٌ كَأَنَّہُ مِنْ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کو ڈر ہوا کہ نبی اکرم ﷺ انہیں طلاق دے دیں گے،تو انہوں نے عرض کیا: آپ ہمیں طلاق نہ دیں،اور مجھے اپنی بیویوں میں شامل رہنے دیں اور میری باری کا دن عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیں،تو آپ نے ایسا ہی کیا،اس پر آیت فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا أَنْ یُصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْرٌ ۱؎ تو جس بات پربھی انہوں نے صلح کر لی،وہ جائز ہے۔لگتا ہے کہ یہ ابن عباس کا قول ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ عَنْ أَبِي السَّفَرِ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ آخِرُ آيَةٍ أُنْزِلَتْ أَوْ آخِرُ شَيْءٍ نَزَلَ يَسْتَفْتُونَكَ قُلْ اللہُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ وَيُقَالُ ابْنُ يُحْمِدَ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: آخری آیت جو نازل ہوئی یا آخری چیز جو نازل کی گئی ہے وہ یہ آیت ہے یَسْتَفْتُونَکَ قُلْ اللہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلاَلَۃِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ يَسْتَفْتُونَكَ قُلْ اللہُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ فَقَال لَہُ النَّبِيُّ ﷺ تُجْزِئُكَ آيَةُ الصَّيْفِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! یَسْتَفْتُونَکَ قُلْ اللہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلاَلَۃِ کی تفسیر کیا ہے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے سلسلہ میں تو تمہارے لیے آیت صیف ۱؎ کافی ہوگی‘‘۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ جِئْتُ بِسَيْفٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ اللہَ قَدْ شَفَی صَدْرِي مِنْ الْمُشْرِكِينَ أَوْ نَحْوَ ہَذَا ہَبْ لِي ہَذَا السَّيْفَ فَقَالَ ہَذَا لَيْسَ لِي وَلَا لَكَ فَقُلْتُ عَسَی أَنْ يُعْطَی ہَذَا مَنْ لَا يُبْلِي بَلَائِي فَجَاءَنِي الرَّسُولُ فَقَالَ إِنَّكَ سَأَلْتَنِي وَلِيس لِي وَإِنَّہُ قَدْ صَارَ لِي وَہُوَ لَكَ قَالَ فَنَزَلَتْ يَسْأَلُونَكَ عَنْ الْأَنْفَالِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ مُصْعَبٍ أَيْضًا وَفِي الْبَاب عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر (رسول اللہ ﷺ کے پاس) پہنچا۔میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ نے میرا سینہ مشرکین سے ٹھنڈا کر دیا (یعنی انہیں خوب مارا) یہ کہا یا ایسا ہی کوئی اور جملہ کہا (راوی کوشک ہو گیا) آپ یہ تلوار مجھے عنایت فرما دیں،آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ نہ میری ہے اور نہ تیری ۱؎،میں نے (جی میں) کہا ہو سکتا ہے یہ ایسے شخص کو مل جائے جس نے میرے جیسا کارنامہ جنگ میں نہ انجام دیا ہو،(میں حسرت ویاس میں ڈوبا ہوا آپ کے پاس سے اٹھ کر چلا آیا) تو (میرے پیچھے) رسول اللہ ﷺ کا قاصد آیا اور اس نے (آپ کی طرف سے) کہا: تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی،تب وہ میری نہ تھی اور اب وہ (بحکم الٰہی) میرے اختیار میں آ گئی ہے ۲؎،تو اب وہ تمہاری ہے (میں اسے تمہیں دیتا ہوں) راوی کہتے ہیں،اسی موقع پر یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأَنْفَالِ ۳؎ والی آیت نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کو سماک بن حرب نے بھی مصعب سے روایت کیا ہے،۳-اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ بَدْرٍ قِيلَ لَہُ عَلَيْكَ الْعِيرَ لَيْسَ دُونَہَا شَيْءٌ قَالَ فَنَادَاہُ الْعَبَّاسُ وَہُوَ فِي وَثَاقِہِ لَا يَصْلُحُ وَقَالَ لِأَنَّ اللہَ وَعَدَكَ إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ وَقَدْ أَعْطَاكَ مَا وَعَدَكَ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ جنگ بدر سے نمٹ چکے تو آپ سے کہا گیا (شام سے آتا ہوا) قافلہ آپ کی زد اور نشانے پر ہے،اس پر غالب آنے میں کوئی چیز مانع اور رکاوٹ نہیں ہے۔تو عباس نے آپ کو پکارا،اس وقت وہ (قیدی تھے) زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے،اور کہا: آپ کا یہ اقدام (اگر آپ نے ایسا کیا) تو درست نہ ہوگا،اور درست اس لیے نہ ہوگا کہ اللہ نے آپ سے دونوں گروہوں (قافلہ یا لشکر) میں سے کسی ایک پر فتح وغلبہ کا وعدہ کیا تھا ۱؎ اور اللہ نے آپ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا ہے،آپ نے فرمایا: ’’تم سچ کہتے ہو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عبَّاسٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ نَظَرَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ إِلَی الْمُشْرِكِينَ وَہُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُہُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَبِضْعَةُ عَشَرَ رَجُلًا فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْہِ وَجَعَلَ يَہْتِفُ بِرَبِّہِ اللہُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللہُمَّ آتِنِي مَا وَعَدْتَنِي اللہُمَّ إِنْ تُہْلِكْ ہَذِہِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ فَمَا زَالَ يَہْتِفُ بِرَبِّہِ مَادًّا يَدَيْہِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّی سَقَطَ رِدَاؤُہُ مِنْ مَنْكِبَيْہِ فَأَتَاہُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَہُ فَأَلْقَاہُ عَلَی مَنْكِبَيْہِ ثُمَّ الْتَزَمَہُ مِنْ وَرَائِہِ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللہِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتَكَ رَبَّكَ إِنَّہُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ فَأَمَدَّہُمْ اللہُ بِالْمَلَائِكَةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ أَبِي زُمَيْلٍ وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُہُ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ وَإِنَّمَا كَانَ ہَذَا يَوْمَ بَدْرٍ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ ﷺ نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی،وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ۳۱۳) تھے۔پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے: اے میرے رب! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے،جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے،اسے عطا فرما دے،اے میرے رب! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جا سکے گی۔آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کے دونوں کندھوں پر سے گر پڑی۔پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آ کر آپ کی چادر اٹھائی اور آپ کے کندھوں پہر ڈال کر پیچھے ہی سے آپ سے لپٹ کر کہنے لگے۔اللہ کے نبی! بس،کافی ہے آپ کی اپنے رب سے اتنی ہی دعاء۔اللہ نے آپ سے جو وعدہ کرکھا ہے وہ اسے پورا کرے گا (ان شاء اللہ) پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ مُرْدِفِینَ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو صرف عکرمہ بن عمار کی روایت سے جانتے ہیں۔جسے وہ ابو زمیل سے روایت کرتے ہیں۔ابو زمیل کا نام سماک حنفی ہے۔ایسا بدر کے دن ہوا ۲؎۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُہَاجِرٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَی عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْزَلَ اللہُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لِأُمَّتِي وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ وَأَنْتَ فِيہِمْ وَمَا كَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُونَ فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيہِمْ الِاسْتِغْفَارَ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُہَاجِرٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کے لیے اللہ نے مجھ پر دو امان نازل فرمائے ہیں (ایک) وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنْتَ فِیہِمْ ۱؎ (دوسرا) وَمَا کَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ ۲؎،اور جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو ان کے لیے دوسرا امان استغفار قیامت تک چھوڑ جاؤں گا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے۔۲-اسماعیل بن مہاجر حدیث میں ضعیف مانے جاتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ رَجُلٍ لَمْ يُسَمِّہِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَرَأَ ہَذِہِ الْآيَةَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ قَالَ أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَلَا إِنَّ اللہَ سَيَفْتَحُ لَكُمْ الْأَرْضَ وَسَتُكْفَوْنَ الْمُؤْنَةَ فَلَا يَعْجِزَنَّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَلْہُوَ بِأَسْہُمِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ رَوَاہُ أَبُو أُسَامَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَحَدِيثُ وَكِيعٍ أَصَحُّ وَصَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ لَمْ يُدْرِكْ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ وَقَدْ أَدْرَكَ ابْنَ عُمَرَ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منبر پر آیت: وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ ۱؎ پڑھی،اور فرمایا: ’’قوت‘‘ سے مراد تیر اندازی ہے۔آپ نے یہ بات تین بار کہی،سنو عنقریب اللہ تمہیں زمین پر فتح دے دے گا۔اور تمہیں مستغنی اور بے نیاز کر دے گا۔تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ تم میں سے کوئی بھی (نیزہ بازی اور) تیر اندازی سے عاجزو غافل ہو جائے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-بعض نے یہ حدیث اسامہ بن زید سے روایت کی ہے اور اسامہ نے صالح بن کیسان سے روایت کی ہے،۲-ابو اسامہ نے اور کئی لوگوں نے اسے عقبہ بن عامر سے روایت کیا ہے،۳-وکیع کی حدیث زیادہ صحیح ہے،۴-صالح بن کیسان کی ملاقات عقبہ بن عامر سے نہیں ہے،ہاں ان کی ملاقات ابن عمر سے ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَجِيءَ بِالْأَسَارَی قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا تَقُولُونَ فِي ہَؤُلَاءِ الْأَسَارَی فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً طَوِيلَةً فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَنْفَلِتَنَّ مِنْہُمْ أَحَدٌ إِلَّا بِفِدَاءٍ أَوْ ضَرْبِ عُنُقٍ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِلَّا سُہَيْلَ ابْنَ بَيْضَاءَ فَإِنِّي قَدْ سَمِعْتُہُ يَذْكُرُ الْإِسْلَامَ قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ فَمَا رَأَيْتُنِي فِي يَوْمٍ أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَيَّ حِجَارَةٌ مِنْ السَّمَاءِ مِنِّي فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ قَالَ حَتَّی قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَّا سُہَيْلَ ابْنَ الْبَيْضَاءِ قَالَ وَنَزَلَ الْقُرْآنُ بِقَوْلِ عُمَرَ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ إِلَی آخِرِ الْآيَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللہِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب بدر کی لڑائی ہوئی اور قیدی پکڑ کر لائے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قیدیوں کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟ پھر راوی نے حدیث میں اصحاب رسول ﷺ کے مشوروں کا طویل قصہ بیان کیا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بغیر فدیہ کے کسی کو نہ چھوڑا جائے،یا اس کی گردن اڑا دی جائے‘‘۔عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر،اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام کی باتیں کرتے ہوئے سنا ہے۔(مجھے توقع ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے) یہ سن کر رسول اللہ ﷺ خاموش رہے،تو میں نے اس دن اتنا خوف محسوس کیا کہ کہیں مجھ پر پتھر نہ برس پڑیں،اس سے زیادہ کسی دن بھی میں نے اپنے کو خوف زدہ نہ پایا ۱؎،بالآخر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر‘‘،اور عمر کی تائید میں مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِی الأَرْضِ ۲؎ والی آیت آخر تک نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود سے سنا نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ زَائِدَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدِ سُودِ الرُّءُوسِ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانَتْ تَنْزِلُ نَارٌ مِنْ السَّمَاءِ فَتَأْكُلُہَا قَالَ سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ فَمَنْ يَقُولُ ہَذَا إِلَّا أَبُو ہُرَيْرَةَ الْآنَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَقَعُوا فِي الْغَنَائِمِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ لَہُمْ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی لَوْلَا كِتَابٌ مِنْ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم مسلمانوں سے پہلے کسی کالے بالوں والے (مراد ہے انسان) کے لیے اموال غنیمت حلال نہ تھے،آسمان سے ایک آگ آتی اور غنائم کو کھا جاتی (بھسم کر دیتی) سلیمان اعمش کہتے ہیں: اسے ابوہریرہ کے سوا اور کون کہہ سکتا ہے اس وقت؟ بدر کی لڑائی کے وقت مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ قبل اس کے کہ اموال غنیمت تقسیم کر کے ہر ایک کو دے کر ان کے لیے حلال کر دی جاتیں وہ لوگ اموال غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔اس وقت اللہ نے یہ آیت لَوْلاَ کِتَابٌ مِنَ اللہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ۱؎ نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اعمش کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ يُونُسَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْہِ الْوَحْيُ سُمِعَ عِنْدَ وَجْہِہِ كَدَوِيِّ النَّحْلِ فَأُنْزِلَ عَلَيْہِ يَوْمًا فَمَكَثْنَا سَاعَةً فَسُرِّيَ عَنْہُ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْہِ وَقَالَ اللہُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَأَكْرِمْنَا وَلَا تُہِنَّا وَأَعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا وَارْضِنَا وَارْضَ عَنَّا ثُمَّ قَالَ ﷺ أُنْزِلَ عَلَيَّ عَشْرُ آيَاتٍ مَنْ أَقَامَہُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ ثُمَّ قَرَأَ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ حَتَّی خَتَمَ عَشْرَ آيَاتٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ يُونُسَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّہْرِيِّ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ سَمِعْت إِسْحَقَ بْنَ مَنْصُورٍ يَقُولُ رَوَی أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ يُونُسَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّہْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَمَنْ سَمِعَ مِنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ قَدِيمًا فَإِنَّہُمْ إِنَّمَا يَذْكُرُونَ فِيہِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ وَبَعْضُہُمْ لَا يَذْكُرُ فِيہِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ وَمَنْ ذَكَرَ فِيہِ يُونُسَ بْنَ يَزِيدَ فَہُوَ أَصَحُّ وَكَانَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ رُبَّمَا ذَكَرَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ يُونُسَ بْنَ يَزِيدَ وَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْہُ وَإِذَا لَمْ يَذْكُرْ فِيہِ يُونُسَ فَہُوَ مُرْسَلٌ

عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا۔نبی اکرم ﷺ پرجب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کے منہ کے قریب شہد کی مکھی کے اڑنے کی طرح آواز (بھنبھناہٹ) سنائی پڑتی تھی۔(ایک دن کا واقعہ ہے) آپ پر وحی نازل ہوئی ہم کچھ دیر (خاموش) ٹھہرے رہے،جب آپ سے نزول وحی کے وقت کی کیفیت (تکلیف) دو رہوئی تو آپ قبلہ رخ ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکریہ دعافرمائی:اللہُمَّ زِدْنَا وَلاَ تَنْقُصْنَا وَأَکْرِمْنَا وَلاَ تُہِنَّا وَأَعْطِنَا وَلاَ تَحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلاَ تُؤْثِرْ عَلَیْنَا وَارْضِنَا وَارْضَ عَنَّا ۱؎ پھر آپ نے فرمایا: مجھ پر دس آیتیں نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل کرتارہے گا،وہ جنت میں جائے گا،پھر آپ نے قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ۲؎ سے شروع کرکے دس آیتیں مکمل تلاوت فرمائیں۔اس سندسے اسی کی ہم معنی حدیث روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے،میں نے اسحاق بن منصور کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ احمد بن حنبل،علی بن مدینی اور اسحاق بن ابراہیم۔یہ حدیث عبدالرزاق سے،عبدالرزاق نے یونس بن سلیم سے،یونس بن سلیم نے یونس بن یزید کے واسطہ سے زہری سے روایت کی،۲-جن لوگوں نے عبدالرزاق سے یہ حدیث سنی ہے ان میں سے کچھ لوگ(یونس بن سلیم کے بعد) یونس بن یزید کا ذکر کرتے ہیں۔اور بعض لوگ اس روایت میں یونس بن یزید کا ذکر نہیں کرتے ہیں،اور جس نے اس روایت میں یونس بن یزید کا ذکر کیاہے،وہ زیادہ صحیح ہے۔عبدالرزاق اس حدیث میں کبھی یونس بن یزید کا ذکر کرتے تھے اور کبھی نہیں کرتے تھے،اورجس حدیث میں یونس کا ذکر نہیں کیا ہے وہ حدیث مرسل (منقطع)ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ الرُّبَيِّعَ بِنْتَ النَّضْرِ أَتَتْ النَّبِيَّ ﷺ وَكَانَ ابْنُہَا الْحَارِثُ بْنُ سُرَاقَةَ أُصِيبَ يَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَہُ سَہْمٌ غَرَبٌ فَأَتَتْ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَتْ أَخْبِرْنِي عَنْ حَارِثَةَ لَئِنْ كَانَ أَصَابَ خَيْرًا احْتَسَبْتُ وَصَبَرْتُ وَإِنْ لَمْ يُصِبْ الْخَيْرَ اجْتَہَدْتُ فِي الدُّعَاءِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ يَا أُمَّ حَارِثَةَ إِنَّہَا جَنَّةٌ فِي جَنَّةٍ وَإِنَّ ابْنَكِ أَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الْأَعْلَی وَالْفِرْدَوْسُ رَبْوَةُ الْجَنَّةِ وَأَوْسَطُہَا وَأَفْضَلُہَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ربیع بنت نضرنبی اکرمﷺکے پاس آئیں،ان کے بیٹے حارث بن سراقہ جنگ بدر میں شہید ہوگئے تھے،انہیں ایک انجانا تیر لگا تھا جس کے بارے میں پتانہ لگ سکا تھا،انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: آپ مجھے (میرے بیٹے) حارثہ کے بارے میں بتائیے،اگرو ہ خیر پاسکا ہے تو میں ثواب کی امید رکھتی اورصبرکرتی ہوں،اور اگرو ہ خیر (بھلائی) کو نہیں پاسکا تو میں (اس کے لیے) اور زیادہ دعائیں کروں۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حارثہ کی ماں! جنت میں بہت ساری جنتیں ہیں،تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں پہنچ چکا ہے اور فردوس جنت کا ایک ٹیلہ ہے،جنت کے بیچ میں ہے اور جنت کی سب سے اچھی جگہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ وَہْبٍ الْہَمْدَانِيِّ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ ہَذِہِ الْآيَةِ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَةٌ قَالَتْ عَائِشَةُ أَہُمْ الَّذِينَ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ وَيَسْرِقُونَ قَالَ لَا يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ وَلَكِنَّہُمْ الَّذِينَ يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَتَصَدَّقُونَ وَہُمْ يَخَافُونَ أَنْ لَا يُقْبَلَ مِنْہُمْ أُولَئِكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ قَالَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ ۱؎ کا مطلب پوچھا: کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں،اورچوری کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں،صدیق کی صاحبزادی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو صیام رکھتے ہیں،صلاتیں پڑھتے ہیں،صدقے دیتے ہیں،اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی یہ نیکیاں ناقبول نہ ہوں،یہی ہیں وہ لوگ جو خیرات (بھلے کاموں) میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں،اور یہی لوگ بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن سعید نے بھی اس حدیث کو ابوحازم سے،ابوحازم نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سَعِيدِ بْن يَزِيدَ أَبِي شُجَاعٍ عَنْ أَبِي السَّمْحِ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ وَہُمْ فِيہَا كَالِحُونَ قَالَ تَشْوِيہِ النَّارُ فَتَقَلَّصُ شَفَتُہُ الْعَالِيَةُ حَتَّی تَبْلُغَ وَسَطَ رَأْسِہِ وَتَسْتَرْخِي شَفَتُہُ السُّفْلَی حَتَّی تَضْرِبَ سُرَّتَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے آیت: وَہُمْ فِیہَا کَالِحُونَ ۱؎ کے سلسلے سے فرمایا: جہنم ان کے منہ کو جھلسا دے گی،جس سے اوپر کا ہونٹ سکڑکر آدھے سرتک پہنچ جائے گا اور نچلا ہونٹ لٹک کر ناف سے ٹکرانے لگے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ الْأَخْنَسِ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ كَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَہُ مَرْثَدُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ وَكَانَ رَجُلًا يَحْمِلُ الْأَسْرَی مِنْ مَكَّةَ حَتَّی يَأْتِيَ بِہِمْ الْمَدِينَةَ قَالَ وَكَانَتْ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ بِمَكَّةَ يُقَالُ لَہَا عَنَاقٌ وَكَانَتْ صَدِيقَةً لَہُ وَإِنَّہُ كَانَ وَعَدَ رَجُلًا مِنْ أُسَارَی مَكَّةَ يَحْمِلُہُ قَالَ فَجِئْتُ حَتَّی انْتَہَيْتُ إِلَی ظِلِّ حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ قَالَ فَجَاءَتْ عَنَاقٌ فَأَبْصَرَتْ سَوَادَ ظِلِّي بِجَنْبِ الْحَائِطِ فَلَمَّا انْتَہَتْ إِلَيَّ عَرَفَتْہُ فَقَالَتْ مَرْثَدٌ فَقُلْتُ مَرْثَدٌ فَقَالَتْ مَرْحَبًا وَأَہْلًا ہَلُمَّ فَبِتْ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ قَالَ قُلْتُ يَا عَنَاقُ حَرَّمَ اللہُ الزِّنَا قَالَتْ يَا أَہْلَ الْخِيَامِ ہَذَا الرَّجُلُ يَحْمِلُ أَسْرَاكُمْ قَالَ فَتَبِعَنِي ثَمَانِيَةٌ وَسَلَكْتُ الْخَنْدَمَةَ فَانْتَہَيْتُ إِلَی كَہْفٍ أَوْ غَارٍ فَدَخَلْتُ فَجَاءُوا حَتَّی قَامُوا عَلَی رَأْسِي فَبَالُوا فَظَلَّ بَوْلُہُمْ عَلَی رَأْسِي وَأَعْمَاہُمْ اللہُ عَنِّي قَالَ ثُمَّ رَجَعُوا وَرَجَعْتُ إِلَی صَاحِبِي فَحَمَلْتُہُ وَكَانَ رَجُلًا ثَقِيلًا حَتَّی انْتَہَيْتُ إِلَی الْإِذْخِرِ فَفَكَكْتُ عَنْہُ كَبْلَہُ فَجَعَلْتُ أَحْمِلُہُ وَيُعْيِينِي حَتَّی قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَنْكِحُ عَنَاقًا فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا حَتَّی نَزَلَتْ الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَی الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا مَرْثَدُ الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ فَلَا تَنْكِحْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار وبہادر) شخص تھے جو (مسلمان) قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے،اور مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ،بدکار عورت تھی،وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی) دوست تھی،انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کررکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کر لے جائیں گے،کہتے ہیں کہ میں (اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے) آگیا،میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جاکر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آگئی۔دیوار کے اوٹ میں میری سیاہ پرچھائیں اس نے دیکھ لی،جب میرے قریب پہنچی تو مجھے پہچان کرپوچھا: مرثد ہونا؟ میں نے کہا: ہاں،مرثد ہوں،ا س نے خوش آمدید کہا،(اورکہا:)آؤ،رات ہمارے پاس گزارو،میں نے کہا: عناق! اللہ نے زنا کو حرام قراردیا ہے،اس نے شور کردیا،اے خیمہ والو(دوڑو) یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھا ئے لیے جارہاہے،پھرمیرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑپڑے،میں خندمہ (نامی پہاڑ) کی طرف بھاگا اور ایک غار یاکھوہ کے پاس پہنچ کر اس میں گھس کر چھپ گیا،وہ لوگ بھی اُوپرچڑھ آئے اور میرے سر کے قریب ہی کھڑے ہوکر۔انہوں نے پیشاب کیا تو ان کے پیشاب کی بوندیں ہمارے سرپر ٹپکیں،لیکن اللہ نے انہیں اندھا بنادیا،وہ ہمیں نہ د یکھ سکے،وہ لوٹے تو میں بھی لوٹ کر اپنے ساتھی کے پاس (جسے اٹھا کرمجھے لے جانا تھا) آگیا،وہ بھاری بھرکم آدمی تھے،میں نے انہیں ا ٹھاکر (پیٹھ پر) لاد لیا،إذخر (کی جھاڑیوں میں) پہنچ کر میں نے ان کی بیڑیاں توڑ ڈالیں اورپھراٹھاکر چل پڑا،کبھی کبھی اس نے بھی میری مدد کی (وہ بھی بیڑیاں لے کر چلتا) اس طرح میں مدینہ آگیا۔رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کرلوں؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا،پھریہ آیت الزَّانِی لاَ یَنْکِحُ إِلاَّ زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُہَا إِلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ۱؎ نازہوئی آپ نے (اس آیت کے نزول کے بعدمرثد بن ابی مرثد سے) فرمایا: اس سے نکاح نہ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اورہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سُئِلْتُ عَنْ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَہُمَا فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ فَقُمْتُ مِنْ مَكَانِي إِلَی مَنْزِلِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْہِ فَقِيلَ لِي إِنَّہُ قَائِلٌ فَسَمِعَ كَلَامِي فَقَالَ لِيَ ابْنَ جُبَيْرٍ ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلَّا حَاجَةٌ قَالَ فَدَخَلْتُ فَإِذَا ہُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَہُ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَہُمَا فَقَالَ سُبْحَانَ اللہِ نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَی امْرَأَتَہُ عَلَی فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَی أَمْرٍ عَظِيمٍ قَالَ فَسَكَتَ النَّبِيُّ ﷺ فَلَمْ يُجِبْہُ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْہُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِہِ فَأَنْزَلَ اللہُ ہَذِہِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَہُمْ شُہَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُہُمْ حَتَّی خَتَمَ الْآيَاتِ قَالَ فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلَاہُنَّ عَلَيْہِ وَوَعَظَہُ وَذَكَّرَہُ وَأَخْبَرَہُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَہْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْہَا ثُمَّ ثَنَّی بِالْمَرْأَةِ وَوَعَظَہَا وَذَكَّرَہَا وَأَخْبَرَہَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَہْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَتْ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَہِدَ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللہِ إِنَّہُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللہِ عَلَيْہِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّی بِالْمَرْأَةِ فَشَہِدَتْ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللہِ إِنَّہُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللہِ عَلَيْہَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَہُمَا وَفِي الْبَاب عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کی امارت کے زمانے میں مجھ سے پوچھاگیا: کیا لعان کرنے والے مرد اورعورت کے درمیان جدائی کردی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں میں اپنی جگہ سے اٹھ کرعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر آگیا،ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی،مجھ سے کہاگیا کہ وہ قیلولہ فرمارہے ہیں،مگر انہوں نے میری بات چیت سن لی۔اور مجھے (پکار کر) کہا: ابن جبیر! اندر آجاؤ،تم کسی (دینی) ضرورت ہی سے آئے ہوگے،میں اندر داخل ہوا،دیکھتاہوں کہ وہ اپنے کجاوے کے نیچے ڈالنے والا کمبل بچھائے ہوئے ہیں،میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! پاک اوربرتر ذات ہے اللہ کی،ہاں،(سنو) سب سے پہلا شخص جس نے اس بارے میں مسئلہ پوچھا وہ فلاں بن فلاں تھے،وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے،کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا یعنی زنا کاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیاکرے؟ اگر بولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے اور اگر چپ رہتا ہے توبڑی بات پرچپ رہتاہے،آپ یہ سن کر چپ رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔پھر جب اس کے بعد ایساواقعہ پیش ہی آگیا تو وہ نبی اکرمﷺکے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: میں نے آپ سے جوبات پوچھی تھی،اس سے میں خوددوچارہوگیا۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیات وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَائُ إِلاَّ أَنْفُسُہُمْ ۱؎ سے ختم آیات تک وَالْخَامِسَۃَ أَنَّ غَضَبَ اللہِ عَلَیْہَا إِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِینَ نازل فرمائیں،ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر آپﷺ نے اس شخص کوبلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اسے نصیحت کیا،اسے سمجھایا بجھایا،اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے،اس نے کہا:نہیں،قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس عورت پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے،پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے،اسے بھی وعظ ونصیحت کی،سمجھایا بجھایا،اسے بھی بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکااورآسان ہے ۲؎،اس نے کہا: نہیں،قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! اس نے سچ نہیں کہاہے،پھر آپ نے لعان کی شروعات مرد سے کی،مردنے چار بار گواہیاں دی کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ سچا ہے،پانچویں بار میں کہا کہ اگروہ جھوٹا ہوتو اس پر اللہ کی لعنت ہو،پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی اللہ کی چار گواہیاں دیں،اللہ گواہ ہے کہ اس کا شوہر جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہا: اللہ کا غضب ہو اس پر اگر اس کا شوہر سچوں میں سے ہو،اس کے بعد آپ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ہِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَہُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَہْرِكَ قَالَ فَقَالَ ہِلَالٌ يَا رَسُولَ اللہِ إِذَا رَأَی أَحَدُنَا رَجُلًا عَلَی امْرَأَتِہِ أَيَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَہْرِكَ قَالَ فَقَالَ ہِلَالٌ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ وَلَيَنْزِلَنَّ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَہْرِي مِنْ الْحَدِّ فَنَزَلَ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَہُمْ شُہَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُہُمْ فَقَرَأَ حَتَّی بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللہِ عَلَيْہَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ قَالَ فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَرْسَلَ إِلَيْہِمَا فَجَاءَا فَقَامَ ہِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَہِدَ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ إِنَّ اللہَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ فَہَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ ثُمَّ قَامَتْ فَشَہِدَتْ فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ الْخَامِسَةِ أَنَّ غَضَبَ اللہِ عَلَيْہَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ قَالُوا لَہَا إِنَّہَا مُوجِبَةٌ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَسَتْ حَتَّی ظَنَّنَا أَنْ سَتَرْجِعُ فَقَالَتْ لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَبْصِرُوہَا فَإِنْ جَاءَتْ بِہِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَہُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ فَجَاءَتْ بِہِ كَذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَوْلَا مَا مَضَی مِنْ كِتَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَانَ لَنَا وَلَہَا شَأْنٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ وَہَكَذَا رَوَی عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی توآپ ﷺ نے فرمایا: گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی،ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہم بستری کرتاہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ ﷺ کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی۔ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے میں کوئی ایسی چیز ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچادے گی،پھر (اسی موقع پر) آیت وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَائُ إِلا أَنْفُسُہُمْ سے وَالْخَامِسَۃَ أَنَّ غَضَبَ اللہِ عَلَیْہَا إِنْ کَانَ مِنْ الصَّادِقِینَ تک نازل ہوئی آپ نے اس کی تلاوت فرمائی،جب آپ پڑھ کر فارغ ہوئے توان دونوں کو بلابھیجا،وہ دونوں آئے،پھر ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اورگواہیاں دیں،نبی اکرمﷺ انہیں سمجھا نے لگے: اللہ کو معلوم ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے کوئی ہے جو توبہ کرلے؟ پھر عورت کھڑی ہوئی،اوراس نے بھی گواہی دی،پھر جب پانچویں گواہی اللہ کی اس پر لعنت ہو اگر وہ سچا ہو دینے کی باری آئی،تو لوگوں نے اس سے کہا: یہ گواہی اللہ کے غضب کو واجب کردے گی ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (لوگوں کی بات سن کر)وہ ٹھٹکی اورذلت وشرمندگی سے سرجھکالیا،ہم سب نے گمان کیاکہ شاید وہ (اپنی پانچویں گواہی) سے پھر جائے گی،مگر اس نے کہا: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے ذلیل ورسوانہ کروں گی،نبی اکرمﷺنے فرمایا: اس عورت کو دیکھتے رہو اگر وہ کالی آنکھوں والا موٹے چوتڑ والا اور بھری رانوں والا بچہ جنے تو سمجھ لو کہ دہ شریک بن سحماء کا ہے،تو اس نے ایسا ہی بچہ جنا،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اگر کتاب اللہ (قرآن) سے اس کا فیصلہ (لعان کا) نہ آچکا ہوتا تو ہماری اور اس کی ایک عجیب ہی شان ہوتی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے ہشام بن حسان کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-اس حدیث کو عباد بن منصور نے عکرمہ سے اورعکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے،۳-ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِہِ قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِيَّ خَطِيبًا فَتَشَہَّدَ وَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَہْلِي وَاللہِ مَا عَلِمْتُ عَلَی أَہْلِي مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللہِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْہِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ فَقَالَ ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللہِ أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَہُمْ وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَہْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ فَقَالَ كَذَبْتَ أَمَا وَاللہِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنْ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُہُمْ حَتَّی كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا عَلِمْتُ بِہِ فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَقُلْتُ لَہَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ فَسَكَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّانِيَةَ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَانْتَہَرْتُہَا فَقُلْتُ لَہَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ فَسَكَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّالِثَةَ فَقَالَتْ تَعِسَ مِسْطَحٌ فَانْتَہَرْتُہَا فَقُلْتُ لَہَا أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ فَقَالَتْ وَاللہِ مَا أَسُبُّہُ إِلَّا فِيكِ فَقُلْتُ فِي أَيِّ شَيْءٍ قَالَتْ فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ قُلْتُ وَقَدْ كَانَ ہَذَا قَالَتْ نَعَمْ وَاللہِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَی بَيْتِي وَكَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَہُ لَمْ أَخْرُجْ لَا أَجِدُ مِنْہُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا وَوُعِكْتُ فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ أَرْسِلْنِي إِلَی بَيْتِ أَبِي فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ فَدَخَلْتُ الدَّارَ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَقَالَتْ أُمِّي مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ فَأَخْبَرْتُہَا وَذَكَرْتُ لَہَا الْحَدِيثَ فَإِذَا ہُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْہَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ يَا بُنَيَّةُ خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ فَإِنَّہُ وَاللہِ لَقَلَّمَا كَانَتْ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّہَا لَہَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَہَا وَقِيلَ فِيہَا فَإِذَا ہِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْہَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ قُلْتُ وَقَدْ عَلِمَ بِہِ أَبِي قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَتْ نَعَمْ وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَكَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَہُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَنَزَلَ فَقَالَ لِأُمِّي مَا شَأْنُہَا قَالَتْ بَلَغَہَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِہَا فَفَاضَتْ عَيْنَاہُ فَقَالَ أَقَسَمْتُ عَلَيْكِ يَا بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَی بَيْتِكِ فَرَجَعْتُ وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي فَقَالَتْ لَا وَاللہِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْہَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّہَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّی تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَہَا أَوْ عَجِينَتَہَا وَانْتَہَرَہَا بَعْضُ أَصْحَابِہِ فَقَالَ أَصْدِقِي رَسُولَ اللہِ ﷺ حَتَّی أَسْقَطُوا لَہَا بِہِ فَقَالَتْ سُبْحَانَ اللہِ وَاللہِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْہَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَی تِبْرِ الذَّہَبِ الْأَحْمَرِ فَبَلَغَ الْأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَہُ فَقَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَاللہِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَی قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُتِلَ شَہِيدًا فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَتْ وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالَا حَتَّی دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَقَدْ صَلَّی الْعَصْرَ ثُمَّ دَخَلَ وَقَدْ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي فَتَشَہَّدَ النَّبِيُّ ﷺ وَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَی اللہِ فَإِنَّ اللہَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہِ قَالَتْ وَقَدْ جَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَہِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ فَقُلْتُ أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ ہَذِہِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا فَوَعَظَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَالْتَفَتُّ إِلَی أَبِي فَقُلْتُ أَجِبْہُ قَالَ فَمَاذَا أَقُولُ فَالْتَفَتُّ إِلَی أُمِّي فَقُلْتُ أَجِيبِيہِ قَالَتْ أَقُولُ مَاذَا قَالَتْ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَہَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللہَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ قُلْتُ أَمَا وَاللہِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللہُ يَشْہَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لِي لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُكُمْ وَلَئِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللہُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّہَا قَدْ بَاءَتْ بِہِ عَلَی نَفْسِہَا وَإِنِّي وَاللہِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا قَالَتْ وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْہِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ قَالَتْ وَأُنْزِلَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْ سَاعَتِہِ فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْہُ وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْہِہِ وَہُوَ يَمْسَحُ جَبِينَہُ وَيَقُولُ الْبُشْرَی يَا عَائِشَةُ فَقَدْ أَنْزَلَ اللہُ بَرَاءَتَكِ قَالَتْ فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا فَقَالَ لِي أَبَوَايَ قُومِي إِلَيْہِ فَقُلْتُ لَا وَاللہِ لَا أَقُومُ إِلَيْہِ وَلَا أَحْمَدُہُ وَلَا أَحْمَدُكُمَا وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللہَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي لَقَدْ سَمِعْتُمُوہُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوہُ وَلَا غَيَّرْتُمُوہُ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَہَا اللہُ بِدِينِہَا فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا وَأَمَّا أُخْتُہَا حَمْنَةُ فَہَلَكَتْ فِيمَنْ ہَلَكَ وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيہِ مِسْطَحٌ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَہُوَ الَّذِي كَانَ يَسُوسُہُ وَيَجْمَعُہُ وَہُوَ الَّذِي تَوَلَّی كِبْرَہُ مِنْہُمْ ہُوَ وَحَمْنَةُ قَالَتْ فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآيَةَ وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَی وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُہَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللہِ يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَی قَوْلِہِ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللہُ لَكُمْ وَاللہُ غَفُورٌ رَحِيمٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ بَلَی وَاللہِ يَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا وَعَادَ لَہُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَقَدْ رَوَاہُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ وَعُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عَائِشَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں،میں ان سے بے خبر تھی،رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا،آپ نے شہادتین پڑھیں،اللہ کے شایانِ شان تعریف وثنا کی،اور حمد وصلاۃ کے بعد فرمایا: لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے،قسم اللہ کی! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی،انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی،وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیرموجو دگی میں داخل نہیں ہوا،وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہاہوں،اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا،سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں ر ہاہے،(یہ سن کر) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر،عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں ان کی گردنیں اڑادوں،(یہ سن کر) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے (سعد بن معاذ سے مخاطب ہوکر) کہا: آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں،سنئے اللہ کی قسم! اگر یہ (تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑادیں،یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس وخزرج کے درمیان مسجدہی میں فساد عظیم برپا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا،(عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی،جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی (قضائے حاجت کی) ضرورت سے گھر سے باہرنکلی،میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں،وہ (راستہ میں) ٹھوکر کھائی توکہہ اٹھیں: مسطح تباہ بربادہو! میں نے ان سے کہا: آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں؟ تو وہ چپ رہیں،پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا،مسطح ہلاک ہو،میں نے پھر (ٹوکا) میں نے کہا: آپ کیسی ماں ہیں؟ اپنے بیٹے کو گالی (بددعا) دیتی ہیں؟ وہ پھر خاموش رہیں،پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھریہی لفظ دہرایاتومیں نے ڈانٹا (اور جھڑک دیا) کیسی (خراب) ماں ہیں آپ؟ اپنے ہی بیٹے کو برابھلا کہہ رہی ہیں،وہ بولیں: (بیٹی) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں،میں نے پوچھا: میرے کس معاملے میں؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں،میں نے ان سے پوچھا: کیاایسا ہوا؟ (یہ ساری باتیں پھیل گئیں؟) انہوں نے کہا: ہاں،قسم اللہ کی! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی،گویا کہ میں جس کام کے لیے نکلی تھی،نکلی ہی نہیں،مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی،(بلکہ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا،میں نے رسول اللہ ﷺسے کہا: مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئے،رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ ایک لڑکا کردیا،(اور میں اپنے ابا کے گھر آگئی) میں گھر میں داخل ہوئی تو (اپنی ماں) ام رومان کو نیچے پایا اور (اپنے ابا) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا،میری ماں نے کہا: بیٹی! کیسے آئیں؟ عائشہ کہتی ہیں: میں نے انہیں بتادیا اور انہیں ساری باتیں (اور ساراقصہ) سنادیا،مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جومجھے پہنچی،انہوں نے کہا: بیٹی!اپنے آپ کوسنبھالو،کیوں کہ اللہ کی قسم! بہت کم ایسا ہوتاہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین وجمیل عورت ہو جس سے وہ مرد (بے انتہا) محبت کرتاہو،اس سے اس کی سوکنیں حسدنہ کرتی (اور جلن نہ رکھتی) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں،غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا،میں نے پوچھا:کیا میرے ابوجان کو بھی یہ بات معلوم ہوچکی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں،میں نے (پھر) پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ بھی ان باتوں سے واقف ہوچکے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں،(یہ سن کر) میں غم سے نڈھال ہوگئی اور روپڑی،ابوبکر رضی اللہ عنہ چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے،میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے،میری ماں سے پوچھا،اسے کیاہوا؟ (یہ کیوں رورہی ہے؟) انہوں نے کہا: اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں (اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں) وہ اسے بھی معلوم ہوگئی ہیں،(یہ سن کر) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں،(مگر) انہوں نے کہا: اے میری (لاڈلی) بیٹی! میں تمہیں قسم دلاکر کہتاہوں تواپنے گھر لوٹ جا،میں اپنے گھر واپس ہوگئی،رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی،اس نے کہا: نہیں،قسم اللہ کی! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی،ہاں،بس یہ بات ہے کہ (کام کرتے کرتے تھک کر) سوجاتی ہیں اور بکری آکر گندھا ہوا آٹا کھاجاتی ہے،بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا،(باتیں نہ بنا)رسول اللہ ﷺ کو سچ سچ بتا(اس سے اس پوچھ تاچھ میں) وہ (اپنے مقام ومرتبہ سے) نیچے اتر آئے،اس نے کہا: سبحان اللہ! پاک وبرتر ہے اللہ کی ذات،قسم اللہ کی! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے،پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہوگئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔اس نے کہا: سبحان اللہ! قسم اللہ کی،میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولاہے ۱؎،عائشہ کہتی ہیں: وہ اللہ کی راہ میں شہیدہوکر مرے،میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آگئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔ عصر پڑھ کر رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں تشریف لے آئے،اورہمارے پاس پہنچے،میرے ماں باپ ہمارے دائیں اوربائیں بیٹھے ہوئے تھے،رسول اللہ ﷺ نے شہادتین پڑھی،اللہ کی شایان شان حمدوثنا بیان کی،پھر فرمایا: حمدوصلاۃ کے بعد: عائشہ! اگر تو برائی کی مرتکب ہوگئی یا اپنے نفس پر ظلم کربیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر،اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے،اسی دوران انصار کی ایک عورت آکر دروازے میں بیٹھ گئی تھی،میں نے عرض کیا: اس عورت کے سامنے (اس طرح کی) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی؟ بہر حال رسول اللہﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی،میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی،ان سے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیں،انہوں نے کہا: میں کیاجواب دوں؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی،میں نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جوبات کہی ہے اس بارے میں (میری طرف سے) صفائی دیجئے،انہوں نے کہا: کیا کہوں میں؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا،تو میں نے کلمہ شہادت اداکیا،اللہ کے شایان شان اس کی حمد وثنا بیان کی،پھر میں نے کہا: سنئے،قسم اللہ کی! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی (بے گناہ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اوراگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیاہے اور اللہ خوب جانتاہے کہ میں نے نہیں کیا،تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کرلیاہے،اور میں قسم اللہ کی! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی (میں نے مثال دینے کے لیے) یعقوب علیہ السلام کانام ڈھونڈا اور یاد کیا،مگر میں اس پر قادر نہ ہوسکی،(مجھے ان کانام یاد نہ آسکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا) مگر یوسف علیہ السلام کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ کہا ۲؎۔ اسی وقت رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہوگئے،پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی،آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے: اے عائشہ! خوش ہوجاؤ اللہ نے تمہاری برأۃ میں آیت نازل فرمادی ہے،مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہوکر آپ کا شکریہ ادا کر،میں نے کہا: نہیں،قسم اللہ کی! میں آپ کا شکریہ اداکرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی،نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی،نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان منداور شکر گزار ہوں گی جس نے میری برأۃ میں آیت نازل فرمائی،آپ لوگوں نے تو میری غیبت وتہمت سنی،لیکن اس پر تردید وانکار نہ کیا،اورنہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی،عائشہ کہاکرتی تھیں: رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی ودینداری کی وجہ سے بچالیا،انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا،اچھی وبھلی بات ہی کہی،البتہ ان کی بہن حمنہ (شریک بہتان ہوکر) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئی،اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح،حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن اُبی بن سلول تھے،اور یہی منافق (فتنہ پردازوں کا سردار وسرغنہ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا،یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی،جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھالی کہ اب وہ (اس احسان فراموش وبدگو) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے،اس پر آیت وَلا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ ۳؎ نازل ہوئی،اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں،أَنْ یُؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللہِ ۴؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللہُ لَکُمْ وَاللہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ ۵؎ (یہ آیت سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں،قسم اللہ کی! ہمارے رب! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے،پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس حدیث کو یونس بن یزید،معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر،سعید بن مسیب،علقمہ بن وقاص لیثی اور عبید اللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے،یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا نَزَلَ عُذْرِي قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ ذَلِكَ وَتَلَا الْقُرْآنَ فَلَمَّا نَزَلَ أَمَرَ بِرَجُلَيْنِ وَامْرَأَةٍ فَضُرِبُوا حَدَّہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب میری صفائی وپاکدامنی کی آیت نازل ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا ذکر کیا،قرآن کی تلاوت کی،اور منبرسے اتر نے کے بعد دومردوں اورایک عورت پر حد (قذف) جاری کرنے کا حکم فرمایا۔چنانچہ ان سب پر حد جاری کردی گئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے محمد بن اسحاق کی روایت کے سوا اور کسی طریقے سے نہیں جانتے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ إِسْرَائِيلَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا: تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اوراس حدیث میں ایک واقعہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي ہَارُونَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ إِنَّا كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِہِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ہَارُونَ وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي أَبِي ہَارُونَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم گروہِ انصار،منافقوں کو علی سے ان کے بغض رکھنے کی وجہ سے خوب پہچانتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف ابوہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور شعبہ نے ابوہارون کے سلسلہ میں کلام کیاہے،۲-یہ حدیث اعمش سے بھی روایت کی گئی ہے،جسے انہوں نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوسعید خدری سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ وَأَخْبَرَنِي أَنَّہُ يُحِبُّہُمْ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ سَمِّہِمْ لَنَا قَالَ عَلِيٌّ مِنْہُمْ يَقُولُ ذَلِكَ ثَلَاثًا وَأَبُو ذَرٍّ وَالْمِقْدَادُ وَسَلْمَانُ أَمَرَنِي بِحُبِّہِمْ وَأَخْبَرَنِي أَنَّہُ يُحِبُّہُمْ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کا حکم دیا ہے،اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت کرتاہے،عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! ہمیں ان کانام بتادیجئے،آپ نے فرمایا: علی انہیں میں سے ہیں،آپ اس جملہ کو تین بار دہرارہے تھے اور باقی تین: ابوذر،مقداد اور سلمان ہیں،مجھے اللہ نے ان لوگوں سے محبت کرنے کا حکم دیاہے،اور مجھے اس نے بتایا ہے کہ وہ بھی ان لوگوں سے محبت رکھتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف شریک کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلِيٌّ مِنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میری جانب سے نقض عہد کی بات میرے یا علی کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کرے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَی الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ آخَی رَسُولُ اللہِ ﷺ بَيْنَ أَصْحَابِہِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاہُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِكَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أَوْفَی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے درمیان باہمی بھائی چارا کرایا تو علی روتے ہوئے آئے اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے اصحاب کے درمیان بھائی چارا کرایا ہے اور میری بھائی چارگی کسی سے نہیں کرائی؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: تم میرے بھائی ہو دنیا اور آخرت دونوں میں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں زید بن ابی اوفیٰ سے بھی روایت ہے۔ نوٹ:(سندمیں حکیم بن جبیر ضعیف رافضی ہے)

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ عِيسَی بْنِ عُمَرَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ طَيْرٌ فَقَالَ اللہُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِكَ إِلَيْكَ يَأْكُلُ مَعِي ہَذَا الطَّيْرَ فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَكَلَ مَعَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ وَعِيسَی بْنُ عُمَرَ ہُوَ كُوفِيٌّ وَالسُّدِّيُّ اسْمُہُ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَقَدْ أَدْرَكَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَرَأَی الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ وَثَّقَہُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَزَائِدَةُ وَوَثَّقَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک پرندہ تھا،آپ نے دعا فرمائی کہ اے للہ! میرے پاس ایک ایسے شخص کو لے آجو تیری مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہوتاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندہ کا گوشت کھائے،تو علی آئے اور انہوں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے سدی کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۳-عیسیٰ بن عمر کو فی ہیں۴-اور سدی کانام اسماعیل بن عبدالرحمٰن ہے،اور ان کا سماع انس بن مالک سے ہے،اور حسین بن علی کی رؤیت بھی انہیں حاصل ہے،شعبہ،سفیان ثوری اور زائدہ نے ان کی توثیق کی ہے،نیز یحییٰ بن سعید القطان نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے۔

حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ أَخْبَرَنَا عَوْفٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ ہِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَعْطَانِي وَإِذَا سَكَتُّ ابْتَدَأَنِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب بھی میں رسول اللہ ﷺ سے مانگتاتوآپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا توخودہی پہل کرتے (دینے میں یا بولنے میں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ عَنْ الصُّنَابِحِيِّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَعَلِيٌّ بَابُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مُنْكَرٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَرِيكٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ الصُّنَابِحِيِّ وَلَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ وَاحِدٍ مِنْ الثِّقَاتِ عَنْ شَرِيكٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب،اور منکر ہے،۲-بعض راویوں نے اس حدیث کوشریک سے روایت کیا ہے،اور انہوں نے اس میں صنابحی کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے،اور ہم نہیں جانتے کہ یہ حدیث کسی ثقہ راوی کے واسطہ سے شریک سے آئی ہو،اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَمَّرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَابٍ قَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ ثَلَاثًا قَالَہُنَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَلَنْ أَسُبَّہُ لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْہُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لِعَلِيٍّ وَخَلَفَہُ فِي بَعْضِ مَغَازِيہِ فَقَالَ لَہُ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللہِ تَخْلُفُنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلَّا أَنَّہُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَسَمِعْتُہُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللہَ وَرَسُولَہُ وَيُحِبُّہُ اللہُ وَرَسُولُہُ قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَہَا فَقَالَ ادْعُوا لِي عَلِيًّا فَأَتَاہُ وَبِہِ رَمَدٌ فَبَصَقَ فِي عَيْنِہِ فَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْہِ فَفَتَحَ اللہُ عَلَيْہِ وَأُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ الْآيَةَ دَعَا رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللہُمَّ ہَؤُلَاءِ أَہْلِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اُن کو امیر بنایا تو پوچھا کہ تم ابوتراب (علی) کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے؟ انہوں نے کہا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یا درہیں گی جنہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے میں انہیں ہرگز برا نہیں کہہ سکتا،اور ان میں سے ایک کابھی میرے لیے ہونا مجھے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میرے لیے سرخ اونٹ ہوں،میں نے رسول اللہ ﷺ کو علی سے فرماتے ہوئے سنا ہے (آپ نے انہیں اپنے کسی غزوہ میں مدینہ میں اپنا جانشیں مقرر کیاتھا تو آپ سے علی نے کہا تھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں)،تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم میرے لیے اسی طرح ہو جس طرح ہارون موسیٰ کے لیے تھے،مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد نبوت نہیں ۱؎،اور دوسری یہ کہ میں نے آپ کو خیبر کے دن فرماتے ہوئے سنا کہ آج میں پرچم ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے اور اس سے اللہ اور اس کے رسول بھی محبت کرتے ہیں،سعدبن ابی وقاص کہتے ہیں تو ہم سب نے اس کے لیے اپنی گردنیں بلند کیں،یعنی ہم سب کو اس کی خواہش ہوئی،آپ نے فرمایا: علی کو بلاؤ،چنانچہ وہ آپ کے پاس آئے اور انہیں آشوب چشم کی شکایت تھی تو آپ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھ میں لگا یا اور پرچم انہیں دے دیا چنانچہ ا للہ نے انہیں فتح دی،تیسری بات یہ ہے کہ جب آیت کریمہ نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ اتری۔تورسول اللہ ﷺ نے علی،فاطمہ،حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا: اے اللہ! یہ میرے اہل ہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ أَبُو الْجَوَّابِ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ جَيْشَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَی أَحَدِہِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَعَلَی الْآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ وَقَالَ إِذَا كَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ قَالَ فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا فَأَخَذَ مِنْہُ جَارِيَةً فَكَتَبَ مَعِي خَالِدٌ كِتَابًا إِلَی النَّبِيِّ ﷺ يَشِي بِہِ قَالَ فَقَدِمْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَرَأَ الْكِتَابَ فَتَغَيَّرَ لَوْنُہُ ثُمَّ قَالَ مَا تَرَی فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللہَ وَرَسُولَہُ وَيُحِبُّہُ اللہُ وَرَسُولُہُ قَالَ قُلْتُ أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ غَضَبِ اللہِ وَغَضَبِ رَسُولِہِ وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ فَسَكَتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دو لشکر بھیجے اور ان دونوں میں سے ایک کا امیرعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے کا خالد بن ولید کو بنایا اورفرمایا: جب لڑائی ہوتو علی امیر رہیں گے چنانچہ علی نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس سے (مال غنیمت میں سے) ایک لونڈی لے لی،تو میرے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو ایک خط لکھ کر بھیجا جس میں وہ آپﷺ سے علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کررہے تھے،وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہوگیا پھر آپ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو ایک ایسے شخص کے سلسلے میں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتاہوں،میں تو صرف ایک قاصد ہوں،پھر آپ خاموش ہوگئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَجْلَحِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ دَعَا رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاہُ فَقَالَ النَّاسُ لَقَدْ طَالَ نَجْوَاہُ مَعَ ابْنِ عَمِّہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا انْتَجَيْتُہُ وَلَكِنَّ اللہَ انْتَجَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَجْلَحِ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ ابْنِ فُضَيْلٍ أَيْضًا عَنْ الْأَجْلَحِ وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَلَكِنَّ اللہَ انْتَجَاہُ يَقُولُ اللہُ أَمَرَنِي أَنْ أَنْتَجِيَ مَعَہُ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے غزوئہ طائف کے دن علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کے انداز میں کچھ باتیں کیں،لوگ کہنے لگے: آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ بڑی دیر تک سرگوشی کی ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے ان سے سرگوشی نہیں کی ہے بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اجلح کی روایت سے جانتے ہیں،اور اسے ابن فضیل کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی اجلح سے روایت کیا ہے،۲-آپ کے قول بلکہ اللہ نے ان سے سرگوشی کی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے ان کے ساتھ سرگوشی کا حکم دیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِعَلِيٍّ يَا عَلِيُّ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُجْنِبَ فِي ہَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرِي وَغَيْرِكَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ قُلْتُ لِضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ مَا مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُہُ جُنُبًا غَيْرِي وَغَيْرِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَسَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ہَذَا الْحَدِيثَ فَاسْتَغْرَبَہُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے علی سے فرمایا: علی! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس مسجد میں جنبی رہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-علی بن منذر کہتے ہیں: میں نے ضرار بن صرد سے پوچھا: اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟تو انہوں نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ حالت جنابت میں وہ اس مسجد میں سے گذرے،۳-مجھ سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو سنا تو وہ اچنبھے میں پڑگئے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَابِسٍ عَنْ مُسْلِمٍ الْمُلَائِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ بُعِثَ النَّبِيُّ ﷺ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَصَلَّی عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ وَمُسْلِمٌ الْأَعْوَرُ لَيْسَ عِنْدَہُمْ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ حَبَّةَ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ ہَذَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو دوشنبہ کو مبعوث کیاگیا اور علی نے منگل کو صلاۃ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اور یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف مسلم اعور کی روایت سے جانتے ہیں اور مسلم اعور محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں،۲-اسی طرح یہ حدیث مسلم اعورسے بھی آئی ہے اور مسلم نے حبہ کے واسطہ سے اسی طرح علی سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ البَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ الأعرابي،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ ہِنْدٍ الحُبَلِيِّ،قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: ((كُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَعْطَانِي،وَإِذَا سَكَتُّ ابْتَدَأَنِي)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الوَجْہِ وفي الباب عن جابر وزيد بن أسلم وأبي ہريرة وأم سلمة

عبداللہ بن عمرو بن ہند جملی سے روایت ہے کہ علی کہتے تھے: جب بھی میں رسول اللہ ﷺ سے مانگتا توآپ مجھے دیتے تھے اور جب میں چپ رہتا توخودہی پہل کرتے (دینے میں یا بولنے میں)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلَّا أَنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لیے تھے،البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(اورہارون علیہ السلام اللہ کے نبی تھے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں سعد،زید بن ارقم،ابوہریرہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلَّا أَنَّہُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَيُسْتَغْرَبُ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے علی سے فرمایا: تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے ہارون،موسیٰ کے لیے تھے،مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۲-اور یہ سعدبن ابی وقاص کے واسطہ سے جسے وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کئی سندوں سے آئی ہے،۳-اور یحییٰ بن سعید انصاری کی سند سے یہ حدیث غریب سمجھی جاتی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بَلْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَمَرَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلَّا بَابَ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ عَنْ شُعْبَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے علی کے دروازے کے علاوہ (مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام) دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے شعبہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ أَخْبَرَنِي أَخِي مُوسَی بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيہِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَحُسَيْنٍ فَقَالَ مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ ہَذَيْنِ وَأَبَاہُمَا وَأُمَّہُمَا كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: جو مجھ سے محبت کرے،اور ان دونوں سے،اور ان دونوں کے باپ اور ان دونوں کی ماں سے محبت کرے،تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے جعفر بن محمد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بَلْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَوَّلُ مَنْ صَلَّی عَلِيٌّ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بَلْجٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ حُمَيْدٍ وَأَبُو بَلْجٍ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ و قَالَ بَعْضُہُمْ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ الرِّجَالِ أَبُو بَكْرٍ وَأَسْلَمَ عَلِيٌّ وَہُوَ غُلَامٌ ابْنُ ثَمَانِ سِنِينَ وَأَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ النِّسَاءِ خَدِيجَةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پہلے پہل جس نے صلاۃ پڑھی وہ علی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،شعبہ کی یہ حدیث جسے وہ ابوبلج سے روایت کرتے ہیں ہم اسے صرف محمد بن حمید کی روایت سے جانتے ہیں اور ابوبلج کانام یحییٰ بن سلیم ہے،۲-اہل علم نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ہے،بعض راویوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جس نے اسلام قبول کیا ہے وہ ابوبکر صدیق ہیں،اور بعضوں نے کہا ہے کہ پہلے پہل جو اسلام لائے ہیں وہ علی ہیں،اور بعض اہل علم نے کہا ہے: بڑے مردوں میں جو پہلے پہل اسلام لائے ہیں وہ ابوبکر ہیں اور علی جب اسلام لائے تو وہ آٹھ سال کی عمر کے لڑکے تھے،اور عورتوں میں جوسب سے پہلے اسلام لائی ہیں وہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ قَال سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُولُ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ فَأَنْكَرَہُ فَقَالَ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمُہُ طَلْحَةُ بْنُ يَزِيدَ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ علی ہیں۔ عمرو بن مرہ کہتے ہیں: میں نے اسے ابراہیم نخعی سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کہا: سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ ابوبکر صدیق ہیں رضی اللہ عنہ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ عُثْمَانَ ابْنِ أَخِي يَحْيَی بْنِ عِيسَی حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ عِيسَی الرَّمْلِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَقَدْ عَہِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ ﷺ أَنَّہُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يَبْغَضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا مِنْ الْقَرْنِ الَّذِينَ دَعَا لَہُمْ النَّبِيُّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی امی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: تم سے صرف مومن ہی محبت کرتاہے اور منافق ہی بغض رکھتا ہے ۱؎۔عدی بن ثابت کہتے ہیں: میں اس طبقے کے لوگوں میں سے ہوں،جن کے لیے نبی اکرمﷺ نے دعافرمائی ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ أَبِي الْجَرَّاحِ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ صُبَيْحٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ شَرَاحِيلَ قَالَتْ حَدَّثَتْنِي أُمُّ عَطِيَّةَ قَالَتْ بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ جَيْشًا فِيہِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَہُوَ رَافِعٌ يَدَيْہِ يَقُولُ اللہُمَّ لَا تُمِتْنِي حَتَّی تُرِيَنِي عَلِيًّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں علی بھی تھے،میں نے نبی اکرم ﷺ کو سنا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے یہ دعا فرمارہے تھے: اے اللہ! تو مجھے مارنا نہیں جب تک کہ مجھے علی کو دکھانہ دے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ وَيَعْلَی بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي غَالِبٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ ہُدًی كَانُوا عَلَيْہِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَذِہِ الْآيَةَ مَا ضَرَبُوہُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ وَحَجَّاجٌ ثِقَةٌ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ وَأَبُو غَالِبٍ اسْمُہُ حَزَوَّرُ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد جب گمراہ ہوجاتی ہے توجھگڑا لو اورمناظرہ باز ہوجاتی ہے،اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی مَا ضَرَبُوہُ لَکَ إِلا جَدَلا بَلْ ہُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم اسے صرف حجاج بن دینار کی روایت سے جانتے ہیں،حجاج ثقہ،مقارب الحدیث ہیں اور ابوغالب کانام حزور ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللہَ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَيْضًا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللہَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللہَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ وَرَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرمﷺنے آیت: وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۱؎ کی تفسیر میں فرمایا: میں اللہ سے ہردن ستر بار مغفرت طلب کرتاہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: میں دن میں اللہ سے سوبار مغفرت طلب کرتاہوں،۳-نیزمتعدد دیگرسندوں سے بھی نبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ میں اللہ سے ہردن سومرتبہ استغفار طلب کرتاہوں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا شَيْخٌ مِنْ أَہْلِ الْمَدِينَةِ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ تَلَا رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمًا ہَذِہِ الْآيَةَ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ قَالُوا وَمَنْ يُسْتَبْدَلُ بِنَا قَالَ فَضَرَبَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی مَنْكِبِ سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ ہَذَا وَقَوْمُہُ ہَذَا وَقَوْمُہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ فِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ أَيْضًا ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک دن یہ آیت وَإِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ ۱؎ تلاوت فرمائی،صحابہ نے کہا: ہمارے بدلے کون لوگ لائے جائیں گے؟ آپﷺ نے سلمان کے کندھے پرہاتھ مارا (رکھا) پھر فرمایا: یہ اوراس کی قوم،یہ اور اس کی قوم۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس کی سند میں کلام ہے،۳-عبداللہ بن جعفرنے بھی یہ حدیث علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے۔(ان کی روایت آگے آرہی ہے)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّہُ قَالَ قَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ ہَؤُلَاءِ الَّذِينَ ذَكَرَ اللہُ إِنْ تَوَلَّيْنَا اسْتُبْدِلُوا بِنَا ثُمَّ لَمْ يَكُونُوا أَمْثَالَنَا قَالَ وَكَانَ سَلْمَانُ بِجَنْبِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ فَضَرَبَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَخِذَ سَلْمَانَ وَقَالَ ہَذَا وَأَصْحَابُہُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ مَنُوطًا بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَہُ رِجَالٌ مِنْ فَارِسَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَعَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ ہُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَقَدْ رَوَی عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ الْكَثِيرَ و حَدَّثَنَا عَلِيٌّ بِہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ نَجِيحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ و حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ مُعَلَّقٌ بِالثُّرَيَّا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ نے کیا ہے کہ اگر ہم پلٹ جائیں گے تو وہ ہماری جگہ لے آئے جائیں گے،اور وہ ہم جیسے نہ ہوں گے،سلمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پہلومیں بیٹھے ہوئے تھے،رسول اللہ ﷺنے سلمان رضی اللہ عنہ کی ران پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: یہ اور ان کے اصحاب،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایمان ثریا ۱؎ کے ساتھ بھی معلق ہوگا تو بھی فارس کے کچھ لوگ اسے پالیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ عبداللہ بن جعفربن نجیح: علی بن المدینی کے والدہیں،۲-علی بن حجرنے عبداللہ بن جعفر سے بہت سے احادیث راویت کی ہیں۔علی بن حجرنے ہمیں یہ حدیث بطریق:اسماعیل بن جعفر،عن عبداللہ بن جعفر،روایت کی ہے،نیز: ہم سے بشربن معاذ نے یہ حدیث بطریقعبداللہ بن جعفر،عن العلاء بھی روایت کی ہے مگراس طریق میں معلق بالثریاکے الفاظ ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ نَبِيَّ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تَزَالُ جَہَنَّمُ تَقُولُ ہَلْ مِنْ مَزِيدٍ حَتَّی يَضَعَ فِيہَا رَبُّ الْعِزَّةِ قَدَمَہُ فَتَقُولُ قَطْ قَطْ وَعِزَّتِكَ وَيُزْوَی بَعْضُہَا إِلَی بَعْضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جہنم کہتی رہے گیہَلْ مِن مَّزِیدٍ (ق:30) ۱؎ یہاں تک کہ اللہ رب العزت اپنا قدم اس میں رکھ دے گا،اس وقت جہنم قط-قط (بس،بس کہے گی)اورقسم ہے تیری عزت وبزرگی کی(اس کے بعد) جہنم کا ایک حصہ دوسرے حصے میں ضم ہوجائے گا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَامَ رَجُلٌ إِلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بَعْدَ مَا بَايَعَ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ سَوَّدْتَ وُجُوہَ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ يَا مُسَوِّدَ وُجُوہِ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ لَا تُؤَنِّبْنِي رَحِمَكَ اللہُ فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُرِيَ بَنِي أُمَيَّةَ عَلَی مِنْبَرِہِ فَسَاءَہُ ذَلِكَ فَنَزَلَتْ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ يَا مُحَمَّدُ يَعْنِي نَہْرًا فِي الْجَنَّةِ وَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ يَمْلِكُہَا بَعْدَكَ بَنُو أُمَيَّةَ يَا مُحَمَّدُ قَالَ الْقَاسِمُ فَعَدَدْنَاہَا فَإِذَا ہِيَ أَلْفُ شَہْرٍ لَا يَزِيدُ يَوْمٌ وَلَا يَنْقُصُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ وَقَدْ قِيلَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْل عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَازِنٍ وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ ہُوَ ثِقَةٌ وَثَّقَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَيُوسُفُ بْنُ سَعْدٍ رَجُلٌ مَجْہُولٌ وَلَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَلَی ہَذَا اللَّفْظِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

یوسف بن سعد کہتے ہیں: ایک شخص حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرلینے کے بعد گیا اور کہا: آپ نے تومسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دی،(راوی کو شک ہے سودت کہا یا یا مسود وجوہ المومنین (مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دینے والا) کہا،انہوں نے کہا تو مجھ پر الزام نہ رکھ،اللہ تم پر رحم فرمائے،نبی اکرمﷺ کو بنی امیہ اپنے منبر پر دکھائے گئے تو آپ کو یہ چیز بری لگی،اس پر آیت إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ ۱؎ نازل ہوئی۔کوثر جنت کی ایک نہر ہے اور سورہ قدر کی آیات إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ ۲؎ نازل ہوئیں،اے محمد تیر ے بعد بنو امیہ ان مہینوں کے مالک ہوں گے ۳؎ قاسم بن فضل حدانی کہتے ہیں: ہم نے بنی امیہ کے ایام حکومت کو گنا تو وہ ہزار مہینے ہی نکلے نہ ایک دن زیادہ نہ ایک دن کم ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اس سند سے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں۔۲-یہ بھی کہاگیا ہے کہ قاسم بن فضل سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے یوسف بن مازن سے روایت کی ہے،قاسم بن فضل حدانی ثقہ ہیں،انہیں یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے ثقہ کہا ہے،اور یوسف بن سعد ایک مجہول شخص ہیں اور ہم اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ وَعَاصِمٍ ہُوَ ابْنُ بَہْدَلَةَ سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ وَزِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ يُكْنَی أَبَا مَرْيَمَ يَقُولُ قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ إِنَّ أَخَاكَ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ مَنْ يَقُمْ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَقَالَ يَغْفِرُ اللہُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَقَدْ عَلِمَ أَنَّہَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَأَنَّہَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ وَلَكِنَّہُ أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي أَنَّہَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ قَالَ قُلْتُ لَہُ بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ قَالَ بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَوْ بِالْعَلَامَةِ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ لَا شُعَاعَ لَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زر بن حبیش (جن کی کنیت ابومریم ہے) کہتے ہیں: میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جو سال بھر (رات کو) کھڑے ہوکر صلاتیں پڑھتارہے وہ لیلۃ القدر پالے گا،ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے (ابوعبدالرحمٰن،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں (۲۷) رات ہے،لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں(۲۷) رات پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آجائیں،بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھاکر کہا:(شب قدر) یہ (۲۷) رات ہی ہے،زربن حبیش کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: ابوالمنذر! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتائی ہے (یہاں راوی کو شک ہوگیا ہے کہ انہوں نے بالآیۃ کا لفظ استعمال کیا یا بالعلامۃ کا آپ نے علامت یہ بتائی (کہ ۲۷ویں شب کی صبح) سورج طلوع تو ہوگا لیکن اس میں شعاع نہ ہوگی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَی الصَّفَا فَنَادَی يَا صَبَاحَاہُ فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْہِ قُرَيْشٌ فَقَالَ إِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنِّي أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ مُمَسِّيكُمْ أَوْ مُصَبِّحُكُمْ أَكُنْتُمْ تُصَدِّقُونِي فَقَالَ أَبُو لَہَبٍ أَلِہَذَا جَمَعْتَنَا تَبًّا لَكَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَہَبٍ وَتَبَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ صفا (پہاڑ) پر چڑھ گئے،وہاں سے یاصباحاہ ۱؎ آواز لگائی تو قریش آپ کے پاس اکٹھا ہوگئے۔آپ نے فرمایا: میں تمہیں سخت عذاب سے ڈرانے والا (بنا کر بھیجا گیا) ہوں،بھلا بتاؤ تو اگر میں تمہیں خبردوں کہ (پہاڑ کے پیچھے سے)دشمن شام یا صبح تک تم پر چڑھائی کرنے والا ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچا جانو گے؟ ابولہب نے کہا کیا: تم نے ہمیں اسی لیے اکٹھا کیا تھا؟ تمہار ستیاناس ہو ۲؎،اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ ۳؎ نازل فرمائی،امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ أَنَّہُ شَہِدَ عَلَی أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّہُمَا شَہِدَا عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَا مِنْ قَوْمٍ يَذْكُرُونَ اللہَ إِلَّا حَفَّتْ بِہِمْ الْمَلَائِكَةُ وَغَشِيَتْہُمْ الرَّحْمَةُ وَنَزَلَتْ عَلَيْہِمْ السَّكِينَةُ وَذَكَرَہُمْ اللہُ فِيمَنْ عِنْدَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ الْأَغَرَّ أَبَا مُسْلِمٍ قَالَ أَشْہَدُ عَلَی أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّہُمَا شَہِدَا عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَذَكَرَ مِثْلَہُ

ابوہریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: انہوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو قوم اللہ کو یاد کرتی ہے (ذکر الٰہی میں رہتی ہے) اسے فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی اسے ڈھانپ لیتی ہے،اس پر سکینت (طمانیت) نازل ہوتی ہے اور اللہ اس کا ذکر اپنے ہاں فرشتوں میں کرتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎۔اس سندسے شعبہ نے ابواسحاق سے،ابواسحاق نے اغر (یعنی ابومسلم) سے سنا،انہوں نے کہا: میں ابوسعیدخدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے متعلق گواہی دیتاہوں،ان دونوں (بزرگوں) نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق گواہی دی،اورپھر اوپر والی حدیث جیسی حدیث ذکر کی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ مُعَاوِيَةُ إِلَی الْمَسْجِدِ فَقَالَ مَا يُجْلِسُكُمْ قَالُوا جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللہَ قَالَ آللہِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ قَالُوا وَاللہِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ قَالَ أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُہْمَةً لَكُمْ وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَقَلَّ حَدِيثًا عَنْہُ مِنِّي إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ عَلَی حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَقَالَ مَا يُجْلِسُكُمْ قَالُوا جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللہَ وَنَحْمَدُہُ لِمَا ہَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ عَلَيْنَا بِہِ فَقَالَ آللہِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَاكَ قَالُوا آللہِ مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَاكَ قَالَ أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ لِتُہْمَةٍ لَكُمْ إِنَّہُ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللہَ يُبَاہِي بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ عِيسَی وَأَبُو عُثْمَانَ النَّہْدِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد گئے (وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے) پوچھا: تم لوگ کس لیے بیٹھے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں،معاویہ نے کہا: کیا! قسم اللہ کی!تم کو اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی،ہم اسی مقصد سے یہاں بیٹھے ہیں،معاویہ نے کہا: میں نے تم لوگوں پر کسی تہمت کی بنا پر قسم نہیں کھلائی ہے ۱؎،رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے جیسا مقام ومنزلت رکھنے والا کوئی شخص مجھ سے کم (ادب واحتیاط کے سبب) آپ سے حدیثیں بیان کرنے والا نہیں ہے۔(پھر بھی میں تمہیں یہ حدیث سنا رہاہوں) رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس گئے وہ سب دائرہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے،ان سے کہا: کس لیے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں،اللہ نے ہمیں اسلام کی طرف جو ہدایت دی ہے،اور مسلمان بنا کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے ہم اس پر اس کا شکریہ اداکرتے ہیں،اوراس کی حمد بیان کرتے ہیں،آپ ﷺنے فرمایا: کیا واقعی؟! قسم ہے تمہیں اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی،ہمیں اسی مقصد نے یہاں بٹھا یا ہے،آپ نے فرمایا: میں نے تمہیں قسم اس لیے نہیں دلائی ہے،میں نے تم لوگوں پرکسی تہمت کی بناپرقسم نہیں کھلائی ہے،بات یہ ہے کہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے بتایا اور خبردی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَہُ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَی سَيِّدِ الِاسْتِغْفَارِ اللہُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَی عَہْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَأَعْتَرِفُ بِذُنُوبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّہُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ لَا يَقُولُہَا أَحَدُكُمْ حِينَ يُمْسِي فَيَأْتِي عَلَيْہِ قَدَرٌ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ إِلَّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ وَلَا يَقُولُہَا حِينَ يُصْبِحُ فَيَأْتِي عَلَيْہِ قَدَرٌ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ إِلَّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ أَبْزَی وَبُرَيْدَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ہُوَ ابْنُ أَبِي حَازِمٍ الزَّاہِدُ

شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: کیامیں تمہیں سید الإستغفار(طلبِ مغفرت کی دعاؤں میں سب سے اہم دعا) نہ بتاؤں؟ (وہ یہ ہے): اللہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلَی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ وَأَبُوئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَعْتَرِفُ بِذُنُوبِی فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ ۱؎۔ شداد کہتے ہیں: آپ نے فرمایا: یہ دعا تم میں سے کوئی بھی شام کو پڑھتا ہے او ر صبح ہونے سے پہلے ہی اس پر قدر (موت) آجاتی ہے تو جنت اس کے لیے واجب ہوجاتی ہے،اور کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جو اس دعا کو صبح کے وقت پڑھے اور شام ہونے سے پہلے اسے قدر (موت) آجائے مگر یہ کہ جنت اس پر واجب ہوجاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے آئی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ،ابن عمر،ابن مسعود،ابن ابزی اور بریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْہِ ثُمَّ نَفَثَ فِيہِمَا فَقَرَأَ فِيہِمَا قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ثُمَّ يَمْسَحُ بِہِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِہِ يَبْدَأُ بِہِمَا عَلَی رَأْسِہِ وَوَجْہِہِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِہِ يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رات جب اپنے بستر پر آتے تو اپنی دونوں ہتھیلیاں اکٹھی کرتے،پھر ان دونوں پریہ سورتیں: قُل ہُوَ اللہُ أَحَدٌ وَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِاوروَقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۱؎ پڑھ کر پھونک مارتے،پھر ان دونوں ہتھیلیوں کو اپنے جسم پرجہاں تک وہ پہنچتیں پھیرتے،اور شروع کرتے اپنے سر،چہرے اور بدن کے اگلے حصے سے،اور ایسا آپ تین بار کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يَنَامُ حَتَّی يَقْرَأَ بِ تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ وَتَبَارَكَ ہَكَذَا رَوَی سُفْيَانُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَقَدْ رَوَی زُہَيْرٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ قُلْتُ لَہُ سَمِعْتَہُ مِنْ جَابِرٍ قَالَ لَمْ أَسْمَعْہُ مِنْ جَابِرٍ إِنَّمَا سَمِعْتُہُ مِنْ صَفْوَانَ أَوْ ابْنِ صَفْوَانَ وَقَدْ رَوَی شَبَابَةُ عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ نَحْوَ حَدِيثِ لَيْثٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرم ﷺ اس وقت تک سوتے نہ تھے جب تک کہ سونے سے پہلے آپ سورہ سجدہ اور سورہ تبارک الذی (یعنی سورہ ملک) پڑھ نہ لیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سفیان (ثوری) اور کچھ دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث لیث سے،لیث نے ابوالزبیر سے،ابوالزبیر نے جابر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۲-زہیر نے بھی یہ حدیث ابوالزبیر سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے یہ حدیث جابر سے(خود) سنی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے یہ حدیث جابر سے نہیں سنی ہے،میں نے یہ حدیث صفوان یا ابن صفوان سے سنی ہے،۳-شبا بہ نے مغیرہ بن مسلم سے،مغیرہ نے ابوالزبیر سے اور ابوالزبیر نے جابر سے لیث کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا أَزْہَرُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ قَالَ قَدِمْتُ مَكَّةَ فَلَقِيَنِي أَخِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ فَحَدَّثَنِي عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ دَخَلَ السُّوقَ فَقَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَہُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِہِ الْخَيْرُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ كَتَبَ اللہُ لَہُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْہُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَرَفَعَ لَہُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَہُوَ قَہْرَمَانُ آلِ الزُّبَيْرِ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ہَذَا الْحَدِيثَ نَحْوَہُ

عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھی: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ حَیٌّ لاَیَمُوتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۱؎ تواللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹادیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلندفرماتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-عمرو بن دینار زبیر رضی اللہ عنہ کے گھروالوں کے آمد وخرچ کے منتظم تھے،انہوں نے یہ حدیث سالم بن عبداللہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَالْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَا حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَہُوَ قَہْرَمَانُ آلِ الزُّبَيْرِ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ فِي السُّوقِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَہُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِہِ الْخَيْرُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ كَتَبَ اللہُ لَہُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْہُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَبَنَی لَہُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ہَذَا ہُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ تَكَلَّمَ فِيہِ بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ وَرَوَاہُ يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ الطَّائِفِيُّ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

عمرو بن دینار زبیر رضی اللہ عنہ کے گھر کے منتظم کار،سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے،اور وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بازار جاتے ہوئے یہ دعا پڑھے: لا إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ حَیٌّ لاَ یَمُوتُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ۱؎ تو اللہ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھ دے گا اور دس لاکھ اس کے گناہ مٹادے گا اور جنت میں اس کے لیے ایک گھر بنائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ عمرو بن دینار بصری شیخ ہیں،اور بعض اصحاب حدیث نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے ۲-یحییٰ بن سلیم طائفی نے یہ حدیث عمران بن مسلم سے،عمران نے عبداللہ بن دینار سے،اور عبداللہ بن دینار نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،اور اس میں انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ حَكِيمٍ السُّلَمِيَّةِ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ نَزَلَ مَنْزِلًا ثُمَّ قَالَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ يَضُرَّہُ شَيْءٌ حَتَّی يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِہِ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَرَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ہَذَا الْحَدِيثَ أَنَّہُ بَلَغَہُ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ الْأَشَجِّ فَذَكَرَ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ وَيَقُولُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ خَوْلَةَ قَالَ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ ابْنِ عَجْلَانَ

خولہ بنت حکیم سلمیہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی منزل پراترے اور یہ دعاپڑھے: أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ۱؎۔تو جب تک کہ وہ اپنی اس منزل سے کوچ نہ کرے اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-مالک بن انس نے یہ حدیث اس طرح روایت کی کہ انہیں یہ حدیث یعقوب بن عبداللہ بن اشج سے پہنچی ہے،پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث بیان کی۔(یعنی: مالک نے یہ حدیث بلاغاً روایت کی ہے)۳-یہ حدیث ابن عجلان سے بھی آئی ہے اورانہوں نے یعقوب بن عبداللہ بن اشج سے روایت کی ہے،البتہ ان کی روایت میں عن سعید بن المسیب عن خولۃ ہے،۴-لیث کی حدیث ابن عجلان کی روایت کے مقابل میں زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہِ فَإِنَّہَا رَأَتْ مَلَكًا وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَہِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِنَّہُ رَأَی شَيْطَانًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل مانگو،کیوں کہ وہ اسی وقت بولتاہے جب اسے کوئی فرشتہ نظر آتاہے،اور جب گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو،کیوں کہ وہ اس وقت شیطان کو دیکھ رہاہوتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ اللہُمَّ عَافِنِي فِي جَسَدِي وَعَافِنِي فِي بَصَرِي وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنِّي لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ شَيْئًا وَاللہُ أَعْلَمُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کہتے تھے: اللہُمَّ عَافِنِی فِی جَسَدِی وَعَافِنِی فِی بَصَرِی وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنِّی لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ حبیب بن ابی ثابت نے عروہ بن زبیر سے کچھ بھی نہیں سناہے،اللہ بہتر جانتاہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ شَبِيبِ بْنِ شَيْبَةَ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِأَبِي يَا حُصَيْنُ كَمْ تَعْبُدُ الْيَوْمَ إِلَہًا قَالَ أَبِي سَبْعَةً سِتَّةً فِي الْأَرْضِ وَوَاحِدًا فِي السَّمَاءِ قَالَ فَأَيُّہُمْ تَعُدُّ لِرَغْبَتِكَ وَرَہْبَتِكَ قَالَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ قَالَ يَا حُصَيْنُ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَسْلَمْتَ عَلَّمْتُكَ كَلِمَتَيْنِ تَنْفَعَانِكَ قَالَ فَلَمَّا أَسْلَمَ حُصَيْنٌ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ عَلِّمْنِيَ الْكَلِمَتَيْنِ اللَّتَيْنِ وَعَدْتَنِي فَقَالَ قُلْ اللہُمَّ أَلْہِمْنِي رُشْدِي وَأَعِذْنِي مِنْ شَرِّ نَفْسِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

عمران بن حصین کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے میرے باپ سے پوچھا: اے حصین! آج کل تم کتنے معبودوں کو پوجتے ہو؟ میرے باپ نے جواب دیا سات کو چھ زمین میں (رہتے ہیں) اور ایک آسمان میں،آپ نے پوچھا: ان میں سے کس کی سب سے زیادہ رغبت دلچسپی،امید اور خوف و ڈر کے ساتھ عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: اس کی جو آسمان میں ہے،آپ نے فرمایا: اے حصین! سنو،اگر تم اسلام لے آتے تو میں تمہیں دوکلمے سکھا دیتا وہ دونوں تمہیں برابر نفع پہنچاتے رہتے،پھر جب حصین اسلام لے آئے توانہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وہ دونوں کلمے سکھا دیجئے جنہیں سکھانے کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایاتھا،آپ نے فرمایا: کہو اللہُمَّ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث عمران بن حصین سے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَدْعُو اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺیہ دعاکرتے تھے: اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبِيعَةَ الدِّمَشْقِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَائِذُ اللہِ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اللہُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَہْلِي وَمِنْ الْمَاءِ الْبَارِدِ قَالَ وَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا ذَكَرَ دَاوُدَ يُحَدِّثُ عَنْہُ قَالَ كَانَ أَعْبَدَ الْبَشَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: داود علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی: اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِی حُبَّکَ اللہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی وَأَہْلِی وَمِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ ۱؎،(راوی) کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب داود علیہ السلام کا ذکرکرتے تو ان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے: وہ لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ وَكَانَ مِنْ بَنِي أَسَدٍ عَنْ الْأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَكْثَرُ مَا دَعَا بِہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ فِي الْمَوْقِفِ اللہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كَالَّذِي نَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ اللہُمَّ لَكَ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي وَإِلَيْكَ مَآبِي وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الْأَمْرِ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَجِيءُ بِہِ الرِّيحُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وقوف عرفہ کے دوران عرفہ کی شام اکثر جو دعا مانگا کرتے تھے وہ یہ تھی: اللہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ کَالَّذِی نَقُولُ وَخَیْرًا مِمَّا نَقُولُ،اللہُمَّ لَکَ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی،وَإِلَیْکَ مَآبِی،وَلَکَ رَبِّ تُرَاثِی،اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَوَسْوَسَۃِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الأَمْرِ اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَاتَجِیئُ بِہِ الرِّیحُ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ ظُہَيْرٍ حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ شَكَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيُّ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا أَنَامُ اللَّيْلَ مِنْ الْأَرَقِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَوَيْتَ إِلَی فِرَاشِكَ فَقُلْ اللہُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ وَرَبَّ الْأَرَضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّہِمْ جَمِيعًا أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْہُمْ أَوْ أَنْ يَبْغِيَ عَزَّ جَارُكَ وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ وَلَا إِلَہَ غَيْرُكَ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَالْحَكَمُ بْنُ ظُہَيْرٍ قَدْ تَرَكَ حَدِيثَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَيُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: خالد بن ولید مخزومی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے شکایت کرتے ہوئے کہا: اللہ کے رسول! میں رات بھر نیند نہ آنے کی وجہ سے سو نہیں پاتاہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم اپنے بستر ے پر سونے کے لیے جاؤ تو پڑھو: اللہُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ وَرَبَّ الأَرَضِینَ وَمَا أَقَلَّتْ وَرَبَّ الشَّیَاطِینِ وَمَا أَضَلَّتْ کُنْ لِی جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِکَ کُلِّہِمْ جَمِیعًا أَنْ یَفْرُطَ عَلَیَّ أَحَدٌ مِنْہُمْ أَوْ أَنْ یَبْغِیَ عَزَّ جَارُکَ وَجَلَّ ثَنَاؤُکَ وَلاَ إِلَہَ غَیْرُکَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے،۲-حکم بن ظہیر جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں،بعض محدثین ان کی بیان کردہ حدیث نہیں لیتے،۳-یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے ایک دوسری سند سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاہِلِيِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ طَاہِرًا يَذْكُرُ اللہَ حَتَّی يُدْرِكَہُ النُّعَاسُ لَمْ يَنْقَلِبْ سَاعَةً مِنْ اللَّيْلِ يَسْأَلُ اللہَ شَيْئًا مِنْ خَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا أَعْطَاہُ إِيَّاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا أَيْضًا عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي ظَبْيَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْسَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اپنے بستر پر پاک وصاف ہو کر سونے کے لیے جائے اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اسے نیند آجائے تو رات کے جس کسی لمحے میں بھی بیدار ہوکر وہ دنیا و آخرت کی جوکوئی بھی بھلائی،اللہ سے مانگے گا اللہ اسے وہ چیز ضروری عطاکرے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے۲-یہ حدیث شہر بن حوشب سے بطریق: أَبِی ظَبْیَۃَ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْسَۃَ عَنِ النَّبِیِّﷺ مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي الْوَرْدِ عَنْ اللَّجْلَاجِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُلًا يَدْعُو يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ النِّعْمَةِ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ تَمَامُ النِّعْمَةِ قَالَ دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِہَا أَرْجُو بِہَا الْخَيْرَ قَالَ فَإِنَّ مِنْ تَمَامِ النِّعْمَةِ دُخُولَ الْجَنَّةِ وَالْفَوْزَ مِنْ النَّارِ وَسَمِعَ رَجُلًا وَہُوَ يَقُولُ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ فَقَالَ قَدْ اسْتُجِيبَ لَكَ فَسَلْ وَسَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُلًا وَہُوَ يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ فَقَالَ سَأَلْتَ اللہَ الْبَلَاءَ فَسَلْہُ الْعَافِيَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو دعا مانگتے ہوئے سنا وہ کہہ رہاتھا: اے اللہ! میں تجھ سے نعمت تامہ مانگ رہاہوں،آپ نے اس شخص سے پوچھا: نعمت تامہ کیا چیز ہے؟ اس شخص نے کہا: میں نے ایک دعامانگی ہے اور مجھے امید ہے کہ مجھے اس سے خیر حاصل ہوگی،آپ نے فرمایا: بے شک نعمت تامہ میں جنت کا دخول اور جہنم سے نجات دونوں آتے ہیں۔آپ نے ایک اور آدمی کو (بھی) دعا مانگتے ہوئے سنا،وہ کہہ رہاتھا: یا ذا الجلال والا کرام آپ نے فرمایا: تیری دعا قبول ہوئی تومانگ لے (جو تجھے مانگنا ہو) آپ نے ایک شخص کوسناوہ کہہ رہاتھا،اے اللہ! میں تجھ سے صبر مانگتاہوں،آپ نے فرمایا: تو نے اللہ سے بلا ما نگی ہے اس لیے تو عافیت بھی مانگ لے۔اس سندسے بھی اسماعیل بن ابراہیم نے جریری سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّ عِبَادِہِ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّہَا لَنْ تَضُرَّہُ وَكَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ يُلَقِّنُہَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِہِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْہُمْ كَتَبَہَا فِي صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَہَا فِي عُنُقِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نیند میں ڈرجائے تو (یہ دعا) پڑھے: أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّ عِبَادِہِ وَمِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ وَأَنْ یَحْضُرُونِ ۱؎۔(یہ دعاپڑھنے سے) یہ پریشان کن خواب اسے کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا۔(تاکہ وہ اسے یادکرلیں،نہ کہ تعویذ کے طورپر) عبداللہ بن عمر اپنے بالغ بچوں کو یہ دعا سکھادیتے تھے،اور جو بچے نابالغ ہوتے تھے ان کے لیے یہ دعا کا غذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکادیتے تھے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا زُہَيْرٌ وَہُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ رِفَاعَةَ أَخْبَرَہُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ عَلَی الْمِنْبَرِ ثُمَّ بَكَی فَقَالَ قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَامَ الْأَوَّلِ عَلَی الْمِنْبَرِ ثُمَّ بَكَی فَقَالَ اسْأَلُوا اللہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فَإِنَّ أَحَدًا لَمْ يُعْطَ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرًا مِنْ الْعَافِيَةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

رفاعہ بن رافع انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے،اورروئے پھر کہا: رسول اللہ ﷺ ہجرت کے پہلے سال منبر پر چڑھے،روئے پھرکہا: اللہ سے (گناہوں سے) عفو و درگزر اور مصیبتوں اور گمراہیوں سے عافیت طلب کرو کیوں کہ ایمان و یقین کے بعد کسی بندے کو عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِلَّہِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ فُضُلًا عَنْ كُتَّابِ النَّاسِ فَإِذَا وَجَدُوا أَقْوَامًا يَذْكُرُونَ اللہَ تَنَادَوْا ہَلُمُّوا إِلَی بُغْيَتِكُمْ فَيَجِيئُونَ فَيَحُفُّونَ بِہِمْ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ اللہُ عَلَی أَيِّ شَيْءٍ تَرَكْتُمْ عِبَادِي يَصْنَعُونَ فَيَقُولُونَ تَرَكْنَاہُمْ يَحْمَدُونَكَ وَيُمَجِّدُونَكَ وَيَذْكُرُونَكَ قَالَ فَيَقُولُ فَہَلْ رَأَوْنِي فَيَقُولُونَ لَا قَالَ فَيَقُولُ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي قَالَ فَيَقُولُونَ لَوْ رَأَوْكَ لَكَانُوا أَشَدَّ تَحْمِيدًا وَأَشَدَّ تَمْجِيدًا وَأَشَدَّ لَكَ ذِكْرًا قَالَ فَيَقُولُ وَأَيُّ شَيْءٍ يَطْلُبُونَ قَالَ فَيَقُولُونَ يَطْلُبُونَ الْجَنَّةَ قَالَ فَيَقُولُ وَہَلْ رَأَوْہَا قَالَ فَيَقُولُونَ لَا قَالَ فَيَقُولُ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْہَا قَالَ فَيَقُولُونَ لَوْ رَأَوْہَا لَكَانُوا أَشَدَّ لَہَا طَلَبًا وَأَشَدَّ عَلَيْہَا حِرْصًا قَالَ فَيَقُولُ فَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَتَعَوَّذُونَ قَالُوا يَتَعَوَّذُونَ مِنْ النَّارِ قَالَ فَيَقُولُ ہَلْ رَأَوْہَا فَيَقُولُونَ لَا فَيَقُولُ فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْہَا فَيَقُولُونَ لَوْ رَأَوْہَا لَكَانُوا أَشَدَّ مِنْہَا ہَرَبًا وَأَشَدَّ مِنْہَا خَوْفًا وَأَشَدَّ مِنْہَا تَعَوُّذًا قَالَ فَيَقُولُ فَإِنِّي أُشْہِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَہُمْ فَيَقُولُونَ إِنَّ فِيہِمْ فُلَانًا الْخَطَّاءَ لَمْ يُرِدْہُمْ إِنَّمَا جَاءَہُمْ لِحَاجَةٍ فَيَقُولُ ہُمْ الْقَوْمُ لَا يَشْقَی لَہُمْ جَلِيسٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کے نامہ ٔ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ بھی کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں،جب وہ کسی قوم کو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو پکارتے ہیں: آؤ آؤ یہاں ہے تمہارے مطلب و مقصد کی بات،تو وہ لوگ آ جاتے ہیں،اور انہیں قریبی آسمان تک گھیر لیتے ہیں،اللہ ان سے پوچھتا ہے: میرے بندوں کو کیا کام کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہو؟ وہ کہتے ہیں: ہم انہیں تیری تعریف کرتے ہوئے تیری بزرگی بیان کرتے ہوئے اور تیرا ذکر کرتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں،وہ کہتا ہے: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے (یا بن دیکھے ہوئے ہی میری عبادت و ذکر کئے جا رہے ہیں) وہ جواب دیتے ہیں: نہیں،اللہ کہتا ہے: اگر وہ لوگ مجھے دیکھ لیں تو کیا صورت وکیفیت ہوگی؟ وہ جواب دیتے ہیں،وہ لوگ اگر تجھے دیکھ لیں تو وہ لوگ اور بھی تیری تعریف کرنے لگیں،تیری بزرگی بیان کریں گے اور تیرا ذکر بڑھا دیں گے،وہ پوچھتا ہے: وہ لوگ کیا چاہتے اور مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں: وہ لوگ جنت مانگتے ہیں،اللہ پوچھتا ہے کیا ان لوگوں نے جنت دیکھی ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: نہیں،وہ پوچھتا ہے: اگر یہ دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہوگی؟ وہ کہتے ہیں: ان کی طلب اور ان کی حرص اور بھی زیادہ بڑھ جائے گی،وہ پھر پوچھتا ہے: وہ لوگ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں،وہ کہتے ہیں: جہنم سے،وہ پوچھتا ہے: کیا ان لوگوں نے جہنم دیکھ رکھی ہے؟ وہ کہتے ہیں: نہیں،وہ پوچھتا ہے: اگر یہ لوگ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی کیا کیفیت ہوگی؟ وہ کہتے ہیں: اگر یہ جہنم دیکھ لیں تو اس سے بہت زیادہ دور بھاگیں گے،زیادہ خوف کھائیں گے اور بہت زیادہ اس سے پناہ مانگیں گے،پھر اللہ کہے گا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان سب کی مغفرت کر دی ہے،وہ کہتے ہیں: ان میں فلاں خطا کار شخص بھی ہے،ان کے پاس مجلس میں بیٹھنے نہیں بلکہ کسی ضرورت سے آیا تھا،(اور بیٹھ گیا تھا) اللہ فرماتا ہے،یہ ایسے (معزز و مکرم) لوگ ہیں کہ ان کا ہم نشیں بھی محروم نہیں رہ سکتا (ہم نے اسے بھی بخش دیا‘‘)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اسْتَعِيذُوا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَاسْتَعِيذُوا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ اسْتَعِيذُوا بِاللہِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَاسْتَعِيذُوا بِاللہِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يُمْسِي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ يَضُرَّہُ حُمَةٌ تِلْكَ اللَّيْلَةَ قَالَ سُہَيْلٌ فَكَانَ أَہْلُنَا تَعَلَّمُوہَا فَكَانُوا يَقُولُونَہَا كُلَّ لَيْلَةٍ فَلُدِغَتْ جَارِيَةٌ مِنْہُمْ فَلَمْ تَجِدْ لَہَا وَجَعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُہَيْلٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے پناہ مانگو جہنم کے عذاب سے،اللہ سے پناہ مانگو قبر کے عذاب سے،اللہ سے پناہ مانگومسیح دجال کے فتنے سے اور اللہ سے پناہ مانگو زندگی اور موت کے فتنے سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جس نے شام کے وقت تین مرتبہ أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ پڑھا،اسے اس رات کوئی بھی ڈنک مارنے والا جانور تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔سہیل کہتے ہیں: میرے گھر والوں نے اسے سیکھا اور ہررات اسے پڑھتے،پھر میرے گھر والوں میں سے ایک لونڈی کو کسی جانور نے ڈنک مارا تو اس ڈنک سے اسے کچھ بھی تکلیف محسوس نہ ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-مالک بن انس نے یہ سہیل بن ابی صالح سے،سہیل نے اپنے والد ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،۳-عبید اللہ بن عمر اور دوسرے راویوں نے بھی یہ حدیث سہیل سے روایت کی ہے،لیکن اس میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اللہُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ ہَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ وَكَانَ أَحَبَّہُمَا إِلَيْہِ عُمَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ان دونوں یعنی ابوجہل اور عمربن خطاب میں سے جو تجھے محبوب ہو اس کے ذریعہ اسلام کو طاقت و قوت عطا فرما،آپ ﷺ نے فرمایا: تو ان دونوں میں سے عمر اللہ کے محبوب نکلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہِ و قَالَ ابْنُ عُمَرَ مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أَمْرٌ قَطُّ فَقَالُوا فِيہِ وَقَالَ فِيہِ عُمَرُ أَوْ قَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيہِ شَكَّ خَارِجَةُ إِلَّا نَزَلَ فِيہِ الْقُرْآنُ عَلَی نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ وَفِي الْبَاب عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَخَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ ہُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَہُوَ ثِقَةٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان و دل پر حق کو جاری فرمادیا ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں لوگوں نے اپنی رائیں پیش کیں ہوں اور عمر بن خطاب نے (راوی خارجہ کو شک ہوگیا ہے)بھی رائے دی ہو،مگر قرآن اس واقعہ سے متعلق عمر رضی اللہ عنہ کی اپنی رائے کے موافق نہ اترا ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-خارجہ بن عبد اللہ انصاری کا پورانام خارجہ بن عبداللہ بن سلیمان بن زید بن ثابت ہے اور یہ ثقہ ہیں،۳-اس باب میں فضل بن عباس،ابوذر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ النَّضْرِ أَبِي عُمَرَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ اللہُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَبِي جَہْلِ ابْنِ ہِشَامٍ أَوْ بِعُمَرَ قَالَ فَأَصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأَسْلَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُہُمْ فِي النَّضْرِ أَبِي عُمَرَ وَہُوَ يَرْوِي مَنَاكِيرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! اسلام کو ابوجہل بن ہشام یا عمر کے ذریعہ قوت عطا فرما،پھر صبح ہوئی تو عمر رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور اسلام لے آئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-بعض محدثین نے نضر ابوعمر کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے اور یہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔(لیکن حدیث رقم: (۳۶۹۰)سے اس کے مضمون کی تائید ہوتی ہے)۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ دَاوُدَ الْوَاسِطِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ ابْنُ أَخِي مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ يَا خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللہِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمَا إِنَّكَ إِنْ قُلْتَ ذَاكَ فَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ عَلَی رَجُلٍ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاكَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر نے ابوبکر رضی اللہ عنہما سے کہا: اے رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے بہتر انسان! اس پر ابوبکر نے کہا: سنو! اگر تم ایسا کہہ رہے ہوتو میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عمر سے بہتر کسی آدمی پرسورج طلوع نہیں ہوا۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،اور اس کی سند قوی نہیں ہے،۲-اس باب میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ دَاوُدَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ مَا أَظُنُّ رَجُلًا يَنْتَقِصُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کسی کو نہیں سمجھتا کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے محبت کرتا ہو اور وہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تنقیص کرے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ مِشْرَحِ بْنِ ہَاعَانَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مِشْرَحِ بْنِ ہَاعَانَ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف مشرح بن ہاعان کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَأَيْتُ كَأَنِّي أُتِيتُ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْہُ فَأَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالُوا فَمَا أَوَّلْتَہُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الْعِلْمَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا گویا مجھے دودھ کا کوئی پیالہ دیا گیا جس میں سے میں نے کچھ پیا پھر میں نے اپنا بچاہوا حصہ عمر بن خطاب کو دے د یا،تو لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: اس کی تعبیر علم ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ ذَہَبٍ فَقُلْتُ لِمَنْ ہَذَا الْقَصْرُ قَالُوا لِشَابٍّ مِنْ قُرَيْشٍ فَظَنَنْتُ أَنِّي أَنَا ہُوَ فَقُلْتُ وَمَنْ ہُوَ فَقَالُوا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں جنت کے اندر گیا تو کیا دیکھتاہوں کہ میں ایک سونے کے محل میں ہوں،میں نے پوچھا:یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے کہا: قریش کے ایک نوجوان کا ہے،تو میں نے سوچا کہ وہ میں ہی ہوں گا،چنانچہ میں نے پوچھا کہ وہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ عمر بن خطاب ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي بُرَيْدَةَ قَالَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَدَعَا بِلَالًا فَقَالَ يَا بِلَالُ بِمَ سَبَقْتَنِي إِلَی الْجَنَّةِ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي فَأَتَيْتُ عَلَی قَصْرٍ مُرَبَّعٍ مُشْرِفٍ مِنْ ذَہَبٍ فَقُلْتُ لِمَنْ ہَذَا الْقَصْرُ فَقَالُوا لِرَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ فَقُلْتُ أَنَا عَرَبِيٌّ لِمَنْ ہَذَا الْقَصْرُ قَالُوا لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ قُلْتُ أَنَا قُرَشِيٌّ لِمَنْ ہَذَا الْقَصْرُ قَالُوا لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ قُلْتُ أَنَا مُحَمَّدٌ لِمَنْ ہَذَا الْقَصْرُ قَالُوا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ بِلَالٌ يَا رَسُولَ اللہِ مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلَّا صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ وَمَا أَصَابَنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأْتُ عِنْدَہَا وَرَأَيْتُ أَنَّ لِلَّہِ عَلَيَّ رَكْعَتَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِہِمَا وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَمُعَاذٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ ذَہَبٍ فَقُلْتُ لِمَنْ ہَذَا فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنِّي دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ يَعْنِي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنِّي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ ہَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ وَيُرْوَی عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ

بریدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے(ایک دن) صبح کی تو بلا ل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پوچھا: بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہواہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو،آج رات میں جنت میں د اخل ہواتو (آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی،پھر سونے کے ایک چو کور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے،تو میں نے کہا: میں (بھی) عرب ہوں،بتاؤ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ قریش کے ایک شخص کا ہے۔میں نے کہا: میں (بھی) قریشی ہوں،بتاؤ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محمد ﷺ کی امت کے ایک فرد کا ہے،میں نے کہا: میں محمد ہوں،یہ محل کس کاہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب کا ہے،بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ایساکبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کرلیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں (واجب) ہیں،اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انہیں دو نوں رکعتوں (یا خصلتوں)کی سے (یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے ۱؎)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں جابر،معاذ،انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھاتو میں نے کہا: یہ کس کا ہے؟ کہاگیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے،۳-حدیث کے الفاظ أَنِّی دَخَلْتُ الْبَارِحَۃَ الْجَنَّۃَ کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں،بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے،۴-ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: انبیاء کے خواب وحی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَال سَمِعْتُ بُرَيْدَةَ يَقُولُ خَرَجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي بَعْضِ مَغَازِيہِ فَلَمَّا انْصَرَفَ جَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّكَ اللہُ سَالِمًا أَنْ أَضْرِبَ بَيْنَ يَدَيْكَ بِالدُّفِّ وَأَتَغَنَّی فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنْ كُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِبِي وَإِلَّا فَلَا فَجَعَلَتْ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَہِيَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَہِيَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَہِيَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَأَلْقَتْ الدُّفَّ تَحْتَ اسْتِہَا ثُمَّ قَعَدَتْ عَلَيْہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْكَ يَا عُمَرُ إِنِّي كُنْتُ جَالِسًا وَہِيَ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَہِيَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَہِيَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَہِيَ تَضْرِبُ فَلَمَّا دَخَلْتَ أَنْتَ يَا عُمَرُ أَلْقَتْ الدُّفَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بُرَيْدَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَائِشَةَ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ میں نکلے،پھر جب واپس آئے تو ایک سیاہ رنگ کی (حبشی) لونڈی نے آکرکہا: اللہ کے رسول! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کو بخیر وعافیت لوٹایا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اورگانا گاؤں گی،تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: اگر تونے نذر مانی تھی تو بجالے ۱؎ ورنہ نہیں،چنانچہ وہ بجانے لگی،اسی دوران ابوبکر اندر داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی،پھر علی داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی،پھر عثمان داخل ہوئے اور وہ بجاتی رہی،پھر عمر داخل ہوئے تو انہیں دیکھ کر اس نے دف اپنی سرین کے نیچے ڈال لی اور اسی پر بیٹھ گئی،یہ دیکھ کررسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمر! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے ۲؎،میں بیٹھاہوا تھا اور وہ بجارہی تھی،اتنے میں ابوبکر اندر آیے تو بھی وہ بجاتی رہی،پھر علی اندر آئے تو بھی وہ بجاتی رہی،پھر عثمان اندر آئے توبھی وہ بجاتی رہی،پھر جب تم داخل ہوئے اے عمر! تو اس نے دف پھینک ڈالی ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-بریدہ کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں عمر،سعد بن ابی وقاص اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ جَالِسًا فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَصَوْتَ صِبْيَانٍ فَقَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَإِذَا حَبَشِيَّةٌ تَزْفِنُ وَالصِّبْيَانُ حَوْلَہَا فَقَالَ يَا عَائِشَةُ تَعَالَيْ فَانْظُرِي فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ لَحْيَيَّ عَلَی مَنْكِبِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْہَا مَا بَيْنَ الْمَنْكِبِ إِلَی رَأْسِہِ فَقَالَ لِي أَمَا شَبِعْتِ أَمَا شَبِعْتِ قَالَتْ فَجَعَلْتُ أَقُولُ لَا لِأَنْظُرَ مَنْزِلَتِي عِنْدَہُ إِذْ طَلَعَ عُمَرُ قَالَتْ فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْہَا قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَی شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوا مِنْ عُمَرَ قَالَتْ فَرَجَعْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:رسول اللہ ﷺ بیٹھے تھے کہ اتنے میں ہم نے ایک شور سنا اور بچوں کی آواز سنی چنانچہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوگئے تو دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی ہے اور بچے اسے گھیرے ہوئے ہیں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عائشہ! آؤ،تم بھی دیکھ لو ،تو میں آئی اور رسول اللہ ﷺ کے کندھے پر اپنی ٹھوڑی رکھ کر آپ کے سر اور کندھے کے بیچ سے اسے دیکھنے لگی،پھر آپ نے فرمایا: کیا تو ابھی آسودہ نہیں ہوئی؟ کیا تو ابھی آسودہ نہیں ہوئی؟ تو میں نے کہاکہ ابھی نہیں تاکہ میں دیکھو ں کہ آپ کے دل میں میرا کتنا مقام ہے؟ اتنے میں عمر آگئے تو سب لوگ اس عورت کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے،یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ عمر کو دیکھ کر بھاگ گئے،پھر میں بھی لوٹ آئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ آتِي أَہْلَ الْبَقِيعِ فَيُحْشَرُونَ مَعِي ثُمَّ أَنْتَظِرُ أَہْلَ مَكَّةَ حَتَّی أُحْشَرَ بَيْنَ الْحَرَمَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ لَيْسَ بِالْحَافِظِ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی،پھر ابوبکر،پھر عمر رضی اللہ عنہما،(سے زمین شق ہوگی) پھر میں بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے،پھر میں مکہ والوں کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ میرا حشر حرمین کے درمیان ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اور عاصم بن عمرمحدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَدْ كَانَ يَكُونُ فِي الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ قَالَ حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ سُفْيَانَ قَالَ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ مُحَدَّثُونَ يَعْنِي مُفَہَّمُونَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگلی امتوں میں کچھ ایسے لوگ ہوتے تھے،جو مُحدّث ہوتے تھے ۱؎ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہوا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-مجھ سے سفیان کے کسی شاگرد نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا: محدثون وہ ہیں جنہیں دین کی فہم عطا کی گئی ہو۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ يَطَّلِعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَاطَّلَعَ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ قَالَ يَطَّلِعُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَاطَّلَعَ عُمَرُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَی وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آرہاہے تو ابوبکر آئے،پھر آپ نے فرمایا: تمہارے پاس جنت والوں میں سے ایک شخص آرہاہے،تو عمر رضی اللہ عنہ آئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں ا بوموسیٰ اشعری اور جابر رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَرْعَی غَنَمًا لَہُ إِذْ جَاءَ ذِئْبٌ فَأَخَذَ شَاةً فَجَاءَ صَاحِبُہَا فَانْتَزَعَہَا مِنْہُ فَقَالَ الذِّئْبُ كَيْفَ تَصْنَعُ بِہَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَا رَاعِيَ لَہَا غَيْرِي قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَآمَنْتُ بِذَلِكَ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَمَا ہُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اس دوران کہ ایک شخص اپنی بکریاں چرارہا تھا،ایک بھیڑیا آیا اور ایک بکری پکڑکرلے گیا تو اس کا مالک آیا اور اس نے اس سے بکری کو چھین لیا،تو بھیڑیا بولا: درندوں والے دن میں جس دن میرے علاوہ ان کا کوئی اور چرواہا نہیں ہوگا توکیسے کرے گا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس پر یقین کیا اور ابوبکر نے اور عمر رضی اللہ عنہما نے بھی،ابوسلمہ کہتے ہیں: حالاں کہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے شعبہ نے سعد بن ابراہیم کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ يَحْيَی بْنُ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَخِي عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ لَمَّا أُرِيدَ قَتْلُ عُثْمَانَ جَاءَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ مَا جَاءَ بِكَ قَالَ جِئْتُ فِي نَصْرِكَ قَالَ اخْرُجْ إِلَی النَّاسِ فَاطْرُدْہُمْ عَنِّي فَإِنَّكَ خَارِجًا خَيْرٌ لِي مِنْكَ دَاخِلًا فَخَرَجَ عَبْدُ اللہِ إِلَی النَّاسِ فَقَالَ أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّہُ كَانَ اسْمِي فِي الْجَاہِلِيَّةِ فُلَانٌ فَسَمَّانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ عَبْدَ اللہِ وَنَزَلَتْ فِيَّ آيَاتٌ مِنْ كِتَابِ اللہِ فَنَزَلَتْ فِيَّ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ وَنَزَلَتْ فِيَّ قُلْ كَفَی بِاللہِ شَہِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْكِتَابَ إِنَّ لِلَّہِ سَيْفًا مَغْمُودًا عَنْكُمْ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ قَدْ جَاوَرَتْكُمْ فِي بَلَدِكُمْ ہَذَا الَّذِي نَزَلَ فِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَاللہَ اللہَ فِي ہَذَا الرَّجُلِ أَنْ تَقْتُلُوہُ فَوَاللہِ لَئِنْ قَتَلْتُمُوہُ لَتَطْرُدُنَّ جِيرَانَكُمْ الْمَلَائِكَةَ وَلَتَسُلُّنَّ سَيْفَ اللہِ الْمَغْمُودَ عَنْكُمْ فَلَا يُغْمَدُ عَنْكُمْ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالُوا اقْتُلُوا الْيَہُودِيَّ وَاقْتُلُوا عُثْمَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ وَقَدْ رَوَی شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ فَقَالَ عَنْ ابْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا ارادہ کیاتو عبداللہ بن سلام عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے،عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم کیوں آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: میں آپ کی مدد کے لیے آیاہوں تو آپ نے کہا: تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس سے آنے بھگاؤ کیوں کہ تمہارا باہر رہنا میرے حق میں تمہارے اندر رہنے سے زیادہ بہتر ہے،چنانچہ عبداللہ بن سلام نکل کر لوگوں کے پاس آئے اوران سے کہا: لوگو! میرا نام جاہلیت میں فلاں تھا تو رسول اللہ ﷺ نے میرانام عبداللہ رکھا،اور میری شان میں اللہ کی کتاب کی کئی آیتیں نازل ہوئیں،چنانچہ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ۱؎ قُلْ کَفَی بِاللہِ شَہِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابَ ۲؎ میرے ہی سلسلہ میں اتری،اللہ کی تلوار میان میں ہے اور فرشتے تمہارے اس شہر مدینہ میں جس میں رسول اللہ ﷺ اترے تمہارے ہمسایہ ہیں،لہذا تم اس شخص کے قتل میں اللہ سے ڈرو،قسم اللہ کی! اگر تم نے اسے قتل کردیا،تم اپنے ہمسایہ فرشتوں کو اپنے پاس سے بھگادوگے،اور اللہ کی تلوار کو جو میان میں ہے باہر کھینچ لوگے،پھر وہ قیامت تک میان میں نہیں آسکے گی تو لوگ ان کی یہ نصیحت سن کربولے: اس یہودی کو قتل کرو اور عثمان کو بھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف عبدالملک بن عمیر کی روایت سے جانتے ہیں،۲-شعیب بن صفوان نے بھی حدیث عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے،انہوں نے سند میں عن ابن محمد بن عبداللہ بن سلام عن جدہ عبداللہ بن سلام کہا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عُمَيْرَةَ قَالَ لَمَّا حَضَرَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ الْمَوْتُ قِيلَ لَہُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَوْصِنَا قَالَ أَجْلِسُونِي فَقَالَ إِنَّ الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ مَكَانَہُمَا مَنْ ابْتَغَاہُمَا وَجَدَہُمَا يَقُولُ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَالْتَمِسُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَرْبَعَةِ رَہْطٍ عِنْدَ عُوَيْمِرٍ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَعِنْدَ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ وَعِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَعِنْدَ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ الَّذِي كَانَ يَہُودِيًّا فَأَسْلَمَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّہُ عَاشِرُ عَشَرَةٍ فِي الْجَنَّةِ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

یزید بن عمیر ہ کہتے ہیں کہ جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے مرنے کا وقت آیا تو ان سے کہاگیا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہمیں کچھ وصیت کیجئے،تو انہوں نے کہا: مجھے بٹھاؤ،پھر بولے: علم اور ایمان دونوں اپنی جگہ پر قائم ہیں جو انہیں ڈھونڈے گا ضرور پائے گا،انہوں نے اسے تین بار کہا،پھر بولے: علم کو چارآدمیوں کے پاس ڈھونڈو: عویمر ابوالدرداء کے پاس،سلمان فارسی کے پاس،عبداللہ بن مسعود کے پاس اور عبداللہ بن سلام کے پاس،(جو یہودی تھے پھر اسلام لائے) کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ ان دس لوگوں میں سے ہیں جو جنتی ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَبَطْتُ وَہَبَطَ النَّاسُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَقَدْ أَصْمَتَ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَضَعُ يَدَيْہِ عَلَيَّ وَيَرْفَعُہُمَا فَأَعْرِفُ أَنَّہُ يَدْعُو لِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدید ہوگئی تو میں (جرف سے) اتر کر مدینہ آیا اور (میرے ساتھ) کچھ اور لوگ بھی آئے،میں رسول اللہ ﷺ کے پاس اندر گیا تو آپ کی زبان بند ہوچکی تھی،پھر اس کے بعد آپ کچھ نہیں بولے،آپ اپنے دونوں ہاتھ میرے اوپر رکھتے اور اٹھاتے تھے تو میں یہی سمجھ رہاتھا کہ آپ میرے لیے دعا فرمارہے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَی عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ أَرَادَ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُنَحِّيَ مُخَاطَ أُسَامَةَ قَالَتْ عَائِشَةُ دَعْنِي حَتَّی أَكُونَ أَنَا الَّذِي أَفْعَلُ قَالَ يَا عَائِشَةُ أَحِبِّيہِ فَإِنِّي أُحِبُّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اسامہ کی ناک پونچھنے کا ارادہ فرمایا ۱؎ تو میں نے کہا: آپ چھوڑیں میں صاف کئے دیتی ہوں،آپ نے فرمایا: عائشہ! تم اس سے محبت کرو کیوں کہ میں اس سے محبت کرتاہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ قَالَ حَدَّثَ عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ جَاءَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ فَقَالَا يَا أُسَامَةُ اسْتَأْذِنْ لَنَا عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ يَسْتَأْذِنَانِ فَقَالَ أَتَدْرِي مَا جَاءَ بِہِمَا قُلْتُ لَا أَدْرِي فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَكِنِّي أَدْرِي فَأَذِنَ لَہُمَا فَدَخَلَا فَقَالَا يَا رَسُولَ اللہِ جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ أَيُّ أَہْلِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ فَقَالَا مَا جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ أَہْلِكَ قَالَ أَحَبُّ أَہْلِي إِلَيَّ مَنْ قَدْ أَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْہِ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَا ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ قَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللہِ جَعَلْتَ عَمَّكَ آخِرَہُمْ قَالَ لِأَنَّ عَلِيًّا قَدْ سَبَقَكَ بِالْہِجْرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَكَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھا ہواتھا،اتنے میں علی اور عباس رضی اللہ عنہما دونوں اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے،انہو ں نے کہا: اسامہ! ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ سے اجازت مانگو،تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! علی اور عباس دونوں اندر آنے کی جازت مانگ رہے ہیں،آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیوں آئے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا،اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے تو معلوم ہے،پھر آپ نے انہیں اجازت دے دی وہ اندر آئے اور عرض کیاکہ ہم آپ کے پاس اس لیے آئے ہیں تاکہ ہم آپ سے پوچھیں کہ آپ کے اہل میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہ بنت محمد،تو وہ دونوں بولے: ہم آپ کی اولاد کے متعلق نہیں پوچھتے ہیں،آپ نے فرمایا: میرے گھروالوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے انعام کیا ہے،اور وہ اسامہ بن زید ہیں،وہ دونوں بولے:پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر علی بن ابی طالب ہیں،عباس بولے: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا کو پیچھے کردیا،آپ نے فرمایا: علی نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ: عمربن ابی سلمہ کو ضعیف قراردیتے تھے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّمَا فِي يَدِي قِطْعَةُ إِسْتَبْرَقٍ وَلَا أُشِيرُ بِہَا إِلَی مَوْضِعٍ مِنْ الْجَنَّةِ إِلَّا طَارَتْ بِي إِلَيْہِ فَقَصَصْتُہَا عَلَی حَفْصَةَ فَقَصَّتْہَا حَفْصَةُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ أَخَاكِ رَجُلٌ صَالِحٌ أَوْ إِنَّ عَبْدَ اللہِ رَجُلٌ صَالِحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا گویا میرے ہاتھ میں موٹے ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور اس سے میں جنت کی جس جگہ کی جانب اشارہ کرتاہوں تو وہ مجھے اڑا کر وہاں پہنچادیتاہے،تو میں نے یہ خواب (ام المومنین) حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا پھر حفصہ نے اسے نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: تیرا بھائی ایک مرد صالح ہے یا فرمایا: عبداللہ مرد صالح ہیں ۱؎۔امام ترمذی: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ قَال سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ يَقُولُ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَی مَنْ رَآنِي قَالَ طَلْحَةُ فَقَدْ رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ و قَالَ مُوسَی وَقَدْ رَأَيْتُ طَلْحَةَ قَالَ يَحْيَی وَقَالَ لِيّ مُوسَی وَقَدْ رَأَيْتُنِي وَنَحْنُ نَرْجُو اللہَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ إِبْرَاہِيمَ الْأَنْصَارِيِّ وَرَوَی عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْحَدِيثِ عَنْ مُوسَی ہَذَا الْحَدِيثَ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جہنم کی آگ کسی ایسے مسلمان کو نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا،یا کسی ایسے شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہے،طلحہ(راوی حدیث) نے کہا: تو میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کودیکھا ہے اور موسیٰ نے کہا: میں نے طلحہ کودیکھا ہے اور یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے موسیٰ (راوی حدیث) نے کہا: اور تم نے مجھے دیکھا ہے اور ہم سب اللہ سے نجات کے امیدوار ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم انصاری کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس حدیث کو علی بن مدینی نے اور محدثین میں سے کئی اورلوگوں نے بھی موسیٰ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ ہُوَ السَّلْمَانِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثُمَّ يَأْتِي قَوْمٌ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ تَسْبِقُ أَيْمَانُہُمْ شَہَادَاتِہِمْ أَوْ شَہَادَاتُہُمْ أَيْمَانَہُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سب سے بہتر میرازمانہ ہے ۱؎،پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد ہیں ۲؎،پھر ان کا جو ان کے بعد ہیں ۳؎،پھر ان کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جو گواہیوں سے پہلے قسم کھائے گی یا قسموں سے پہلے گواہیاں دے گی ۴؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،عمران بن حصین اور بریدہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ إِنَّ بَنِي ہِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي فِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَہُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَلَا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ ثُمَّ لَا آذَنُ إِلَّا أَنْ يُرِيدَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَہُمْ فَإِنَّہَا بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيبُنِي مَا رَابَہَا وَيُؤْذِينِي مَا آذَاہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ نَحْوَ ہَذَا

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اور آپ منبر پر تھے: ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کانکاح علی سے کردیں،تو میں اس کی اجازت نہیں دیتا،نہیں دیتا،نہیں دیتا،مگر ابن ابی طالب چاہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں،اور ان کی بیٹی سے شادی کرلیں،اس لیے کہ میری بیٹی میرے جسم کا ٹکڑا ہے،مجھے وہ چیز بری لگتی ہے جو اسے بری لگے اور مجھے ایذا دیتی ہے وہ چیز جو اسے ایذا دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے عمرو بن دینار نے اسی طرح ابن ابی ملیکہ سے اورابن ابی ملیکہ نے مسور بن مخرمہ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ جَعْفَرٍ الْأَحْمَرِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ أَحَبَّ النِّسَاءِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَاطِمَةُ وَمِنْ الرِّجَالِ عَلِيٌّ قَالَ إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ يَعْنِي مِنْ أَہْلِ بَيْتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ رضی اللہ عنہ تھیں اور مردوں میں علی رضی اللہ عنہ تھے،ابراہیم بن سعد کہتے ہیں: یعنی اپنے اہل بیت میں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَلِيًّا ذَكَرَ بِنْتَ أَبِي جَہْلٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يُؤْذِينِي مَا آذَاہَا وَيُنْصِبُنِي مَا أَنْصَبَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا قَالَ أَيُّوبُ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ الزُّبَيْرِ وَقَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ رَوَی عَنْہُمَا جَمِيعًا

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کا ذکر کیا تواس کی خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی،آپ نے فرمایا: فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے،مجھے تکلیف دیتی ہے وہ چیز جو اسے تکلیف دیتی ہے،اور تعب میں ڈالتی ہے مجھے وہ چیز جو اسے تعب میں ڈالتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح ایوب نے ابی ملیکہ سے اور انہوں نے ابن زبیر سے روایت کی ہے جبکہ متعدد لوگوں نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے مسور بن مخرمہ سے روایت کی ہے۔(جیساکہ حدیث رقم:۳۸۸۰)۳-اس بات کا احتمال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے ایک ساتھ دونوں ہی سے روایت کیا ہو۔(اورایسابہت ہواہے)۔

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ صُبَيْحٍ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لِعَليٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَصُبَيْحٌ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَةَ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علی،فاطمہ،حسن اور حسین رضی اللہ عنہم سے فرمایا: میں لڑنے والاہوں اس سے جس سے تم لڑو اور صلح جوئی کرنے والاہوں اس سے جس سے تم صلح جوئی کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور صبیح مولیٰ ام سلمہ معروف نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَلَّلَ عَلَی الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ كِسَاءً ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ ہَؤُلَاءِ أَہْلُ بَيْتِي وَخَاصَّتِي أَذْہِبْ عَنْہُمْ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِيرًا فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأَنَا مَعَہُمْ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِنَّكِ إِلَی خَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي ہَذَا الْبَابِ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي الْحَمْرَاءِ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَعَائِشَةَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن،حسین،علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہم کو ایک چادر سے ڈھانپ کرفرمایا: اے اللہ! یہ میرے اہل بیت اور میرے خاص الخاص لوگ ہیں،توان سے گندگی کو دور فرمادے،اور انہیں اچھی طرح سے پاک کردے،تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا بولیں: اور میں بھی ان کے ساتھ ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تو(بھی) خیر پر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں جو حدیثیں مروی ہیں ان میں سب سے اچھی ہے،۲-اس باب میں عمر بن ابی سلمہ،انس بن مالک،ابوالحمراء،معقل بن یسار،اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشْبَہَ سَمْتًا وَدَلًّا وَہَدْيًا بِرَسُولِ اللہِ فِي قِيَامِہَا وَقُعُودِہَا مِنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَتْ وَكَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ قَامَ إِلَيْہَا فَقَبَّلَہَا وَأَجْلَسَہَا فِي مَجْلِسِہِ وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ عَلَيْہَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِہَا فَقَبَّلَتْہُ وَأَجْلَسَتْہُ فِي مَجْلِسِہَا فَلَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ ﷺ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَأَكَبَّتْ عَلَيْہِ فَقَبَّلَتْہُ ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَہَا فَبَكَتْ ثُمَّ أَكَبَّتْ عَلَيْہِ ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَہَا فَضَحِكَتْ فَقُلْتُ إِنْ كُنْتُ لَأَظُنُّ أَنَّ ہَذِہِ مِنْ أَعْقَلِ نِسَائِنَا فَإِذَا ہِيَ مِنْ النِّسَاءِ فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ ﷺ قُلْتُ لَہَا أَرَأَيْتِ حِينَ أَكْبَبْتِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ فَبَكَيْتِ ثُمَّ أَكْبَبْتِ عَلَيْہِ فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ فَضَحِكْتِ مَا حَمَلَكِ عَلَی ذَلِكَ قَالَتْ إِنِّي إِذًا لَبَذِرَةٌ أَخْبَرَنِي أَنَّہُ مَيِّتٌ مِنْ وَجَعِہِ ہَذَا فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي أَسْرَعُ أَہْلِہِ لُحُوقًا بِہِ فَذَاكَ حِينَ ضَحِكْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَائِشَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طوروطریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ۱؎ رضی اللہ عنہ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا،وہ کہتی ہیں: جب وہ نبی اکرم ﷺکے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے،اورجب نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چنانچہ جب نبی اکرم ﷺ بیمارہوئے توفاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا،پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ پر جھکیں اور اپنا سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں،پہلے تو میں یہ خیال کرتی تھی کہ یہ ہم عورتوں میں سب سے زیادہ عقل والی ہیں مگر ان کے ہنسنے پر یہ سمجھی کہ یہ بھی آخر(عام) عورت ہی ہیں،یعنی یہ کون سا موقع ہنسنے کا ہے،پھر جب نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوگئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیابات تھی کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نبی اکرم ﷺ پر جھکیں پھر سراٹھایا تو رونے لگیں،پھر جھکیں اور سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں،تو انہوں نے کہا: اگر آپ کی زندگی میں یہ بات بتادیتی تو میں ایک ایسی عورت ہوتی جو آپ کے راز کو افشاء کرنے والی ہوتی،بات یہ تھی کہ پہلے آپ نے مجھے اس بات کی خبردی کہ اس بیماری میں میں انتقال کرجانے والاہوں،یہ سن کر میں روپڑی،پھر آپ نے مجھے بتایا کہ ان کے گھروالوں میں سب سے پہلے میں ان سے ملوں گی،تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،اور یہ عائشہ سے متعدد سندوں سے آئی ہے۔

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُوسَی بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ عَنْ ہَاشِمِ بْنِ ہَاشِمٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ وَہْبٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ دَعَا فَاطِمَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَنَاجَاہَا فَبَكَتْ ثُمَّ حَدَّثَہَا فَضَحِكَتْ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سَأَلْتُہَا عَنْ بُكَائِہَا وَضَحِكِہَا قَالَتْ أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَّہُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَہْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فاطمہ کو بلایا،اور ان سے سرگوشی کی تو وہ روپڑیں،پھر دوبارہ آپ نے ان سے بات کی تو وہ ہنسنے لگیں،انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ بتایا کہ آپ عنقریب وفات پاجائیں گے،تو میں روپڑی،پھر آپ نے مجھے بتایا کہ میں مریم بنت عمران کو چھوڑکر اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہوں گی تو میں ہنسنے لگی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَی عَائِشَةَ فَسُئِلَتْ أَيُّ النَّاسِ كَانَ أَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَتْ فَاطِمَةُ فَقِيلَ مِنْ الرِّجَالِ قَالَتْ زَوْجُہَا إِنْ كَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُہُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ وَيُرْوَی عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا

جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ عائشہ کے پاس آیا تو ان سے پوچھا گیا: لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ تو انہوں نے کہا: فاطمہ،پھر پوچھاگیا: مردوں میں کون تھا؟ انہوں نے کہا: ان کے شوہر،یعنی علی،میں خوب جانتی ہوں وہ بڑے صائم اور تہجد گزار تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابوجحاف کانام داود بن ابی عوف ہے،اور سفیان ثوری سے عن ابی الجحاف کے بجائے یوں مروی ہے: حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَکَانَ مَرْضِیًّا۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو غَسَّانَ حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ وَكَانَ ثِقَةً عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ مَاتَتْ فُلَانَةُ لِبَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ فَسَجَدَ فَقِيلَ لَہُ أَتَسْجُدُ ہَذِہِ السَّاعَةَ فَقَالَ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَأَيْتُمْ آيَةً فَاسْجُدُوا فَأَيُّ آيَةٍ أَعْظَمُ مِنْ ذَہَابِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عکرمہ کہتے ہیں کہ فجر کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہاگیا کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج میں سے فلاں کا انتقال ہوگیا،تو وہ سجدہ میں گرگئے،ان سے پوچھا گیا: کیا یہ سجدہ کرنے کا وقت ہے؟ تو انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا: جب تم اللہ کی طرف سے کوئی خوفناک بات دیکھو تو سجدہ کرو،تو نبی اکرمﷺ کے ازواج کے دنیا سے رخصت ہونے سے بڑی اور کون سی ہوسکتی ہے؟ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا ہَاشِمٌ ہُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا كِنَانَةُ قَالَ حَدَّثَتْنَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَقَدْ بَلَغَنِي عَنْ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ كَلَامٌ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ أَلَا قُلْتِ فَكَيْفَ تَكُونَانِ خَيْرًا مِنِّي وَزَوْجِي مُحَمَّدٌ وَأَبِي ہَارُونُ وَعَمِّي مُوسَی وَكَانَ الَّذِي بَلَغَہَا أَنَّہُمْ قَالُوا نَحْنُ أَكْرَمُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْہَا وَقَالُوا نَحْنُ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ ﷺ وَبَنَاتُ عَمِّہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ہَاشِمٍ الْكُوفِيِّ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ

ام المومنین صفیہ بنت حیّ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے،مجھے حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک (تکلیف دہ)بات پہنچی تھی جسے میں نے آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: تم نے یہ کیوں نہیں کہا؟ کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیسے ہوسکتی ہو،میرے شوہر محمد ﷺ ہیں اور باپ ہارون ہیں،اور چچا موسیٰ ہیں اور جو بات پہنچی تھی وہ یہ تھی کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما نے کہاتھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے نزدیک ان سے زیادہ باعزت ہیں،اس لیے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی ازواج ہیں،اور آپ کے چچا کی بیٹیاں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-صفیہ کی اس حدیث کو ہاشم کوفی کی روایت سے جانتے ہیں،اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے،۳-اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُوسَی بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ عَنْ ہَاشِمِ بْنِ ہَاشِمٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ وَہْبِ بْنِ زَمْعَةَ أَخْبَرَہُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاہَا فَبَكَتْ ثُمَّ حَدَّثَہَا فَضَحِكَتْ قَالَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سَأَلْتُہَا عَنْ بُكَائِہَا وَضَحِكِہَا قَالَتْ أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَّہُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَہْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال فاطمہ کو بلایا اور ان کے کان میں کچھ باتیں کہیں تو وہ روپڑیں،پھر آپ نے دوبارہ ان سے کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگیں،پھر جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے تو میں نے ان سے ان کے رونے اور ہنسنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ بتایا تھا کہ عنقریب آپ وفات پاجائیں گے،تو (یہ سن کر) میں رونے لگی تھی،پھر آپ نے جب مجھے یہ بتایا کہ مریم بنت عمران کوچھوڑ کر میں اہل جنت کے تمام عورتوں کی سردار ہوں گی ۱؎،تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ بَلَغَ صَفِيَّةَ أَنَّ حَفْصَةَ قَالَتْ بِنْتُ يَہُودِيٍّ فَبَكَتْ فَدَخَلَ عَلَيْہَا النَّبِيُّ ﷺ وَہِيَ تَبْكِي فَقَالَ مَا يُبْكِيكِ فَقَالَتْ قَالَتْ لِي حَفْصَةُ إِنِّي بِنْتُ يَہُودِيٍّ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّكِ لَابْنَةُ نَبِيٍّ وَإِنَّ عَمَّكِ لَنَبِيٌّ وَإِنَّكِ لَتَحْتَ نَبِيٍّ فَفِيمَ تَفْخَرُ عَلَيْكِ ثُمَّ قَالَ اتَّقِي اللہَ يَا حَفْصَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات پہنچی کہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہودی کی بیٹی ہونے کا طعنہ دیا ہے،تو وہ رونے لگیں،نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے توو ہ رورہی تھیں،آپ نے پوچھا: تم کیوں رورہی ہو؟ تو انہوں نے کہا: حفصہ نے مجھے یہ طعنہ دیا ہے کہ میں یہودی کی بیٹی ہوں،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تو ایک نبی کی بیٹی ہے،تیرا چچا بھی نبی ہے ۱؎ اور تو ایک نبی کے عقد میں ہے،تو وہ کس بات میں تجھ پر فخر کررہی ہے،پھر آپ نے (حفصہ سے) فرمایا: حفصہ! اللہ سے ڈر ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَہْلِہِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَہْلِي وَإِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ مَا أَقَلَّ مَنْ رَوَاہُ عَنْ الثَّوْرِيِّ وَرُوِيَ ہَذَا عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھروالوں کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی مرجائے تو اسے خیر باد کہہ دو،یعنی اس کی برائیوں کو یاد نہ کرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب صحیح ہے اور ثوری سے روایت کرنے والے اسے کتنے کم لوگ ہیں اور یہ حدیث ہشام بن عروہ سے عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاًبھی آئیہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ الْوَلِيدِ عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُبَلِّغُنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي شَيْئًا فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْہِمْ وَأَنَا سَلِيمُ الصَّدْرِ قَالَ عَبْدُ اللہِ فَأُتِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِمَالٍ فَقَسَّمَہُ فَانْتَہَيْتُ إِلَی رَجُلَيْنِ جَالِسَيْنِ وَہُمَا يَقُولَانِ وَاللہِ مَا أَرَادَ مُحَمَّدٌ بِقِسْمَتِہِ الَّتِي قَسَمَہَا وَجْہَ اللہِ وَلَا الدَّارَ الْآخِرَةَ فَتَثَبَّتُّ حِينَ سَمِعْتُہُمَا فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَأَخْبَرْتُہُ فَاحْمَرَّ وَجْہُہُ وَقَالَ دَعْنِي عَنْكَ فَقَدْ أُوذِيَ مُوسَی بِأَكْثَرَ مِنْ ہَذَا فَصَبَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ زِيدَ فِي ہَذَا الْإِسْنَادِ رَجُلٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے اصحاب میں سے کوئی کسی کی برائی مجھ تک نہ پہنچائے،کیوں کہ میں یہ پسند کرتاہوں کہ جب میں ان کی طرف نکلوں تو میرا سینہ صاف ہو،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک بار) رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال آیا اور آپ نے اسے تقسیم کردیا،تو میں دو آدمیوں کے پاس پہنچا جو بیٹھے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے: قسم اللہ کی! محمد نے اپنی اس تقسیم سے جو انہوں نے کی ہے نہ رضائے الٰہی طلب کی ہے نہ دار آخرت،جب میں نے اسے سنا تویہ بات مجھے بری لگی،چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبردی تو آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا: مجھے جانے دو کیوں کہ موسیٰ کو تو اس سے بھی زیادہ ستایا گیا پھر بھی انہوں نے صبر کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور اس سند میں ایک آدمی کا اضافہ کردیا گیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی وَالْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي ہِشَامٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يُبَلِّغُنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ شَيْئًا وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ ہَذَا مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی کسی کی کوئی بات مجھے نہ پہنچائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کا کچھ حصہ اس سند کے علاوہ سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَہُ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِہَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ فَأَبَی عَلَيْہِ فَاخْتَصَمُوا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلزُّبَيْرِ اسْقِ يَا زُبَيْرُ ثُمَّ أَرْسِلْ الْمَاءَ إِلَی جَارِكَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ فَتَلَوَّنَ وَجْہُ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ قَالَ يَا زُبَيْرُ اسْقِ ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی الْجَدْرِ فَقَالَ الزُّبَيْرُ وَاللہِ إِنِّي لَأَحْسِبُ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ فِي ذَلِكَ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّی يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الزُّبَيْرِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَرَوَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ اللَّيْثِ وَيُونُسُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ نَحْوَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک انصاری نے رسول اللہ ﷺ کے پاس زبیر سے حرہ کی نالیوں کے بارے میں جس سے لوگ اپنے کھجورکے درخت سینچتے تھے جھگڑاکیا،انصاری نے زبیر سے کہا: پانی چھوڑدو تاکہ بہتا رہے،زبیر نے اس کی بات نہیں مانی،تودونوں نے رسول اللہ کی خدمت میں اپنا قضیہ پیش کیا۔رسول اللہ ﷺ نے زبیر سے فرمایا: زبیر! (تم اپنے کھیت کو)سیراب کرلو،پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدو،(یہ سن کر) انصاری غصہ ہوگیا اورکہا: اللہ کے رسول!(ایسافیصلہ) اس وجہ سے کہ وہ آپ کی پھوپھی کالڑکا ہے؟ (یہ سنتے ہی) رسول اللہ ﷺ کے چہرہ کا رنگ بدل گیا،آپ نے فرمایا: زبیر! تم اپنے کھیت سیراب کرلو،پھر پانی کوروکے رکھو یہاں تک کہ وہ منڈیرتک پہنچ جائے ۱؎،زبیر کہتے ہیں: اللہ کی قسم،میراگمان ہے کہ اسی سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی: فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ (النساء:۶۵) (آپ کے رب کی قسم،وہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں (اے نبی) وہ آپ کو حکم نہ مان لیں)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے اورزہری نے عروہ بن زبیرسے اورعروہ نے زبیرسے روایت کی ہے اورشعیب نے اس میں عبداللہ بن زبیر کے واسطے کاذکر نہیں کیا ہے۔اور عبداللہ بن وہب نے اِسے پہلی حدیث کی طرح ہی لیث اوریونس سے روایت کیا ہے اوران دونوں نے زہری سے اورزہری نے عروہ سے اورعروہ نے عبداللہ بن زبیر سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللہِ النَّخَعِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ زَرَعَ فِي أَرْضِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِہِمْ فَلَيْسَ لَہُ مِنْ الزَّرْعِ شَيْءٌ وَلَہُ نَفَقَتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَقَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ ہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَالَ لَا أَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَقَ إِلَّا مِنْ رِوَايَةِ شَرِيكٍ قَالَ مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا مَعْقِلُ بْنُ مَالِكٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ الْأَصَمِّ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص دوسرے کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیرفصل بوئے،اس کو فصل سے کچھ نہیں ملے گا وہ صرف خرچ لے سکتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے بروایت ابواسحاق صرف شریک بن عبداللہ ہی کے طریق سے جانتے ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے اوریہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎ ۴-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: یہ حدیث حسن ہے،انہوں نے کہا:میں اسے بروایت ابواسحاق صرف شریک ہی کے طریق سے جانتاہوں،۵-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ہم سے معقل بن مالک بصری نے بسندعقبہ بن اصم عنعطائعن رافع بن خدیج عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِہِ يُنْتَظَرُ بِہِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُہُمَا وَاحِدًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ مِنْ أَجْلِ ہَذَا الْحَدِيثِ وَعَبْدُ الْمَلِكِ ہُوَ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيہِ غَيْرَ شُعْبَةَ مِنْ أَجْلِ ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ رَوَی وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ہَذَا الْحَدِيثَ وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ مِيزَانٌ يَعْنِي فِي الْعِلْمِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ أَحَقُّ بِشُفْعَتِہِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا فَإِذَا قَدِمَ فَلَہُ الشُّفْعَةُ وَإِنْ تَطَاوَلَ ذَلِكَ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کازیادہ حق دار ہے،جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیاجائے گا ۱؎ اگر چہ وہ موجودنہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم عبدالملک بن سلیمان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے اس حدیث کو عطاء سے اورعطاء نے جابر سے روایت کی ہو،۲-شعبہ نے عبدالملک بن سلیمان پراسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔محدّثین کے نزدیک عبدالملک ثقہ اور مامون ہیں،شعبہ کے علاوہ ہم کسی کونہیں جانتے ہیں جس نے عبدالملک پر کلام کیا ہو،شعبہ نے بھی صرف اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔اوروکیع نے بھی یہ حدیث شعبہ سے اور شعبہ نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی ہے۔اور ابن مبارک نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: عبدالملک بن سفیان میزان ہیں یعنی علم میں،۲-اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے کہ آدمی اپنے شفعہ کا زیادہ حق دارہے اگرچہ وہ غائب ہی کیوں نہ ہو،جب وہ (سفر وغیرہ) سے واپس آئے گا تو اس کو شفعہ ملے گا گرچہ اس پر لمبی مدّت گزرچکی ہو۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ مَاعِزٌ الْأَسْلَمِيُّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ إِنَّہُ قَدْ زَنَی فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّہِ الْآخَرِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّہُ قَدْ زَنَی فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّہِ الْآخَرِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّہُ قَدْ زَنَی فَأَمَرَ بِہِ فِي الرَّابِعَةِ فَأُخْرِجَ إِلَی الْحَرَّةِ فَرُجِمَ بِالْحِجَارَةِ فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ فَرَّ يَشْتَدُّ حَتَّی مَرَّ بِرَجُلٍ مَعَہُ لَحْيُ جَمَلٍ فَضَرَبَہُ بِہِ وَضَرَبَہُ النَّاسُ حَتَّی مَاتَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ فَرَّ حِينَ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ وَمَسَّ الْمَوْتِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَلَّا تَرَكْتُمُوہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَرُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر اعتراف کیاکہ میں نے زناکیا ہے،آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا،پھروہ دوسری طرف سے آئے اوربولے: اللہ کے رسول!میں نے زناکیا ہے،آپ نے پھر ان کی طرف سے منہ پھیر لیا،پھروہ دوسری طرف سے آئے اوربولے: اللہ کے رسول!میں نے زناکیا ہے،پھر چوتھی مرتبہ اعتراف کرنے پرآپ نے رجم کا حکم دے دیا،چنانچہ وہ ایک پتھریلی زمین کی طرف لے جائے گئے اور انہیں رجمکیا گیا،جب انہیں پتھرکی چوٹ لگی تو دوڑتے ہوئے بھاگے،حتی کہ ایک ایسے آدمی کے قریب سے گزرے جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی،اس نے ماعزکو اسی سے مارااور لوگوں نے بھی مارایہاں تک کہ وہ مرگئے،پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا کہ جب پتھر اورموت کی تکلیف انہیں محسوس ہوئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں چھوڑدیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے،یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے،انہوں نے اسے بطریق: أبی سلمۃ،عن جابر بن عبد اللہ،عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے۔(جو آگے آرہی ہے)

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ اعْتَرَفَ فَأَعْرَضَ عَنْہُ حَتَّی شَہِدَ عَلَی نَفْسِہِ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَبِكَ جُنُونٌ قَالَ لَا قَالَ أَحْصَنْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّی فَلَمَّا أَذْلَقَتْہُ الْحِجَارَةُ فَرَّ فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّی مَاتَ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرًا وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمُعْتَرِفَ بِالزِّنَا إِذَا أَقَرَّ عَلَی نَفْسِہِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ أُقِيمَ عَلَيْہِ الْحَدُّ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَقَرَّ عَلَی نَفْسِہِ مَرَّةً أُقِيمَ عَلَيْہِ الْحَدُّ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَحُجَّةُ مَنْ قَالَ ہَذَا الْقَوْلَ حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَحَدُہُمَا يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ ابْنِي زَنَی بِامْرَأَةِ ہَذَا الْحَدِيثُ بِطُولِہِ وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ اغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَی امْرَأَةِ ہَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا وَلَمْ يَقُلْ فَإِنْ اعْتَرَفَتْ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آکر زنا کا اعتراف کیا،توآپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا،پھر اس نے اقرار کیا،آپ نے پھرمنہ پھیر لیا،حتی کہ اس نے خودچارمرتبہ اقرارکیا،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کیا تم پاگل ہو؟اس نے کہا:نہیں،آپ نے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہاہاں: پھرآپ نے رجم کا حکم دیا،چنانچہ اسے عیدگاہ میں رجم کیاگیا،جب اسے پتھروں نے نڈھال کردیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا،پھر اسے پکڑا گیا اوررجم کیاگیا یہاں تک کہ وہ مرگیا،رسول اللہ ﷺ نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہا لیکن اس کی صلاۃِجنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ زناکا اقرارکرنے والا جب اپنے اوپرچارمرتبہ گواہی دے تو اس پر حدقائم کی جائے گی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک مربتہ بھی کوئی زناکا اقرارکرلے گا تو اس پر حد قائم کردی جائے گی،یہ مالک بن انس اورشافعی کا قول ہے،اس بات کے قائلین کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورزیدبن خالد کی یہ حدیث ہے کہ دوآدمی رسول اللہ ﷺ تک اپنا قضیہ لے گئے،ایک نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زناکیا،یہ ایک لمبی حدیث ہے،(آخرمیں ہے) نبی اکرمﷺ نے فرمایا: انیس! اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگروہ زناکااقرارکرے تو اسے رجم کردو،آپ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ جب چارمرتبہ اقرارکرے ۲؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَجَمَ يَہُودِيًّا وَيَہُودِيَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک یہودی مرد اورایک یہودی عورت کو رجم کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اور یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-حدیث میں ایک قصہ کا بھی ذکرہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَجَمَ يَہُودِيًّا وَيَہُودِيَّةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَالْبَرَاءِ وَجَابِرٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا اخْتَصَمَ أَہْلُ الْكِتَابِ وَتَرَافَعُوا إِلَی حُكَّامِ الْمُسْلِمِينَ حَكَمُوا بَيْنَہُمْ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِأَحْكَامِ الْمُسْلِمِينَ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَا يُقَامُ عَلَيْہِمْ الْحَدُّ فِي الزِّنَا وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک یہودی مرداورایک یہودی عورت کو رجم کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،براء،جابر،ابن ابی اوفیٰ،عبداللہ بن حارث بن جزء اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثراہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ کہتے ہیں: جب اہل کتاب آپس میں جھگڑیں اورمسلم حکمرانوں کے پاس اپنامقدمہ پیش کریں تو ان پر لازم ہے کہ وہ کتاب وسنت اورمسلمانوں کے احکام کے مطابق فیصلہ کریں،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۴-بعض لوگ کہتے ہیں: اہل کتاب پرزنا کی حد نہ قائم کی جائے،لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ جُنْدُبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَةٌ بِالسَّيْفِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْمَكِّيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيُّ الْبَصْرِيُّ قَالَ وَكِيعٌ ہُوَ ثِقَةٌ وَيُرْوَی عَنْ الْحَسَنِ أَيْضًا وَالصَّحِيحُ عَنْ جُنْدَبٍ مَوْقُوفٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا يُقْتَلُ السَّاحِرُ إِذَا كَانَ يَعْمَلُ فِي سِحْرِہِ مَا يَبْلُغُ بِہِ الْكُفْرَ فَإِذَا عَمِلَ عَمَلًا دُونَ الْكُفْرِ فَلَمْ نَرَ عَلَيْہِ قَتْلًا

جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جادوگرکی سزاتلوار سے گردن مارناہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن سے بھی مروی ہے،اورصحیح یہ ہے کہ جندب سے موقوفاًمروی ہے۔۲-ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،۳-اسماعیل بن مسلم مکی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،اور اسماعیل بن مسلم جن کی نسبت عبدی اوربصری ہے وکیع نے انہیں ثقہ کہا ہے۔۴-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم صحابہ اورکچھ دوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے،مالک بن انس کا یہی قو ل ہے،۵-شافعی کہتے ہیں: جب جادوگرکا جادوحدکفرتک پہنچے تواسے قتل کیاجائے گا اورجب اس کا جادوحدکفرتک نہ پہنچے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا قتل نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبيبٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي التَّعْزِيرِ وَأَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي التَّعْزِيرِ ہَذَا الْحَدِيثُ قَالَ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ بُكَيْرٍ فَأَخْطَأَ فِيہِ وَقَالَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ خَطَأٌ وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ إِنَّمَا ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا: دس سے زیادہ کسی کو کوڑے نہ لگائے جائیں ۱؎ سوائے اس کے کہ اللہ کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف بکیربن اشج کی روایت سے جانتے ہیں۔۲-تعزیرکے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،تعزیرکے باب میں یہ حدیث سب سے اچھی ہے،۳-اس حدیث کو ابن لہیعہ نے بکیرسے روایت کیا ہے،لیکن ان سے اس سند میں غلطی ہوئی ہے،انہوں نے سنداس طرح بیان کی ہے: عن عبدالرحمٰن بن جابر بن عبد اللہ،عن أبیہ،عن النبی ﷺ حالانکہ یہ غلط ہے،صحیح لیث بن سعد کی حدیث ہے،اس کی سند اس طرح ہے: عن عبد الرحمن بن جابر بن عبد اللہ،عن أبی بردۃ بن نیار،عن النبی ﷺ۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَفْرِيقِيِّ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ أَكْلِ الْمُجَثَّمَةِ وَہِيَ الَّتِي تُصْبَرُ بِالنَّبْلِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي الدَّرْدَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجثمہ کے کھانے سے منع فرمایا۔ مجثمہ اس جانوریاپرندہ کو کہتے ہیں،جسے باندھ کر تیرسے ماراجائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوالدرداء کی حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں عرباض بن ساریہ،انس،ابن عمر،ابن عباس،جابراورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ وَہْبٍ أَبِي خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ الْعِرْبَاضِ وَہُوَ ابْنُ سَارِيَةَ عَنْ أَبِيہَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السَّبُعِ وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنْ الطَّيْرِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَہْلِيَّةِ وَعَنْ الْمُجَثَّمَةِ وَعَنْ الْخَلِيسَةِ وَأَنْ تُوطَأَ الْحَبَالَی حَتَّی يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِہِنَّ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْقُطَعِيُّ سُئِلَ أَبُو عَاصِمٍ عَنْ الْمُجَثَّمَةِ قَالَ أَنْ يُنْصَبَ الطَّيْرُ أَوْ الشَّيْءُ فَيُرْمَی وَسُئِلَ عَنْ الْخَلِيسَةِ فَقَالَ الذِّئْبُ أَوْ السَّبُعُ يُدْرِكُہُ الرَّجُلُ فَيَأْخُذُہُ مِنْہُ فَيَمُوتُ فِي يَدِہِ قَبْلَ أَنْ يُذَكِّيَہَا

عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبرکے دن ہرکچلی والے درندے ۱؎ پنجے والے پرندے۲؎،پالتوگدھے کے گوشت،مجثمہ اورخلیسہ سے منع فرمایا،آپ نے حاملہ (لونڈی جو نئی نئی مسلمانوں کی قید میں آئے) کے ساتھ جب تک وہ بچہ نہ جنے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا۔ راوی محمدبن یحیی قطعی کہتے ہیں: ابوعاصم سے مجثمہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: پرندے یا کسی دوسرے جانورکو باندھ کر اس پر تیر اندازی کی جائے (یہاں تک کہ وہ مرجائے)اور ان سے خلیسہ کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے کہا: خلیسہ وہ جانورہے،جس کو بھیڑیا یادرندہ پکڑے اور اس سے کوئی آدمی اسے چھین لے پھر وہ جانورذبح کئے جا نے سے پہلے اس کے ہاتھ میں مرجائے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يُتَّخَذَ شَيْءٌ فِيہِ الرُّوحُ غَرَضًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے کسی جاندارکو نشانہ بنانے سے منع فرمایاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ اقْتَنَی كَلْبًا أَوْ اتَّخَذَ كَلْبًا لَيْسَ بِضَارٍ وَلَا كَلْبَ مَاشِيَةٍ نَقَصَ مِنْ أَجْرِہِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُہَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے ایسا کتاپالایارکھاجو سدھایاہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہردن دوقیراط کے برابر کم ہوگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: أَوْ کَلْبَ زَرْعٍ (یاوہ کتاکھیتی کی نگرانی کرنے والانہ ہو)،۳-اس باب میں عبد اللہ بن مغفل،ابوہریرہ،اورسفیان بن أبی زہیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ قَالَ قِيلَ لَہُ إِنَّ أَبَا ہُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ فَقَالَ إِنَّ أَبَا ہُرَيْرَةَ لَہُ زَرْعٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری یاجانوروں کی نگرانی کرنے والے کتے کے علاوہ دیگرکتوں کو مارڈالنے کا حکم دیا ابن عمرسے کہاگیا: ابوہریرہ یہ بھی کہتے تھے:أَوْ کَلْبَ زَرْعٍ یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے (یعنی یہ بھی مستثنیٰ ہیں)،تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ابوہریرہ کے پاس کھیتی تھی (اس لیے انہوں نے اس کے بارے میں پوچھاہوگا)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ اتَّخَذَ كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ صَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِہِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ أَنَّہُ رَخَّصَ فِي إِمْسَاكِ الْكَلْبِ وَإِنْ كَانَ لِلرَّجُلِ شَاةٌ وَاحِدَةٌ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ بِہَذَا

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو رسول اللہ ﷺکے مبارک چہرے سے درخت کے شاخوں کو ہٹارہے تھے اورآپ خطبہ دے رہے تھے،آپ نے فرمایا: اگریہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تومیں انہیں مارنے کاحکم دیتا ۱؎،سو اب تم ان میں سے ہرسیاہ کالے کتے کومارڈالو،جو گھروالے بھی شکاری،یاکھیتی کی نگرانی کرنے والے یا بکریوں کی نگرانی کر نے والے کتوں کے سواکوئی دوسراکتاباندھے رکھتے ہیں ہردن ان کے عمل (ثواب) سے ایک قیراط کم ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث بسند حسن البصری عن عبداللہ بن مغفل عن النبیﷺ مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ إِنِّي لَمِمَّنْ يَرْفَعُ أَغْصَانَ الشَّجَرَةِ عَنْ وَجْہِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ يَخْطُبُ فَقَالَ لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنْ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِہَا فَاقْتُلُوا مِنْہَا كُلَّ أَسْوَدَ بَہِيمٍ وَمَا مِنْ أَہْلِ بَيْتٍ يَرْتَبِطُونَ كَلْبًا إِلَّا نَقَصَ مِنْ عَمَلِہِمْ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ إِلَّا كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ كَلْبَ غَنَمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص بھی جانوروں کی نگرانی کرنے والے یاشکاری یاکھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے کے سواکوئی دوسرا کتاپالے گا توہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کم ہوگا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-عطابن ابی رباح نے کتاپالنے کی رخصت دی ہے اگرچہ کسی کے پاس ایک ہی بکری کیوں نہ ہو۔اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْحَذَّاءُ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ أَبُو مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي الْمُثَنَّی عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَی اللہِ مِنْ إِہْرَاقِ الدَّمِ إِنَّہَا لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِہَا وَأَشْعَارِہَا وَأَظْلَافِہَا وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنْ اللہِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنْ الْأَرْضِ فَطِيبُوا بِہَا نَفْسًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو الْمُثَنَّی اسْمُہُ سُلَيْمَانُ بْنُ يَزِيدَ وَرَوَی عَنْہُ ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُرْوَی عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ فِي الْأُضْحِيَّةِ لِصَاحِبِہَا بِكُلِّ شَعَرَةٍ حَسَنَةٌ وَيُرْوَی بِقُرُونِہَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہاناہے،قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنےسینگوں،بالوں اورکھروں کے ساتھ آئیں گے قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے،اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہشام بن عروہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سندسے جانتے ہیں،۲-اس باب میں عمران بن حصین اورزیدبن ارقم رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-راوی ابومثنی کانام سلیمان بن یزید ہے،ان سے ابن ابی فدیک نے روایت کی ہے،۴-رسول اللہ ﷺسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہربال کے بدلے نیکی ملے گی،۵-یہ بھی مروی ہے کہ جانور کی سینگ کے عوض نیکی ملے گی۔

حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَال سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ كَيْفَ كَانَتْ الضَّحَايَا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْہُ وَعَنْ أَہْلِ بَيْتِہِ فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّی تَبَاہَی النَّاسُ فَصَارَتْ كَمَا تَرَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعُمَارَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ہُوَ مَدَنِيٌّ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ ضَحَّی بِكَبْشٍ فَقَالَ ہَذَا عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي وَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا تُجْزِي الشَّاةُ إِلَّا عَنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَہُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَغَيْرِہِ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ

عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتاتھا،وہ لوگ خودکھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر)فخرکرنے لگے،اوراب یہ صورت حال ہوگئی جو دیکھ رہے ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-راوی عمارہ بن عبداللہ مدنی ہیں،ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،احمداوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے،ان دونوں نے نبی اکرمﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اورفریایا: یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے،جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک بکری ایک ہی آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی،عبداللہ بن مبارک اوردوسرے اہل علم کا یہی قول ہے۔(لیکن راجح پہلا قول ہے)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْغُلَامُ مُرْتَہَنٌ بِعَقِيقَتِہِ يُذْبَحُ عَنْہُ يَوْمَ السَّابِعِ وَيُسَمَّی وَيُحْلَقُ رَأْسُہُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُذْبَحَ عَنْ الْغُلَامِ الْعَقِيقَةُ يَوْمَ السَّابِعِ فَإِنْ لَمْ يَتَہَيَّأْ يَوْمَ السَّابِعِ فَيَوْمَ الرَّابِعَ عَشَرَ فَإِنْ لَمْ يَتَہَيَّأْ عُقَّ عَنْہُ يَوْمَ حَادٍ وَعِشْرِينَ وَقَالُوا لَا يُجْزِئُ فِي الْعَقِيقَةِ مِنْ الشَّاةِ إِلَّا مَا يُجْزِئُ فِي الْأُضْحِيَّةِ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہربچہ عقیقہ کے بدلے گروی رکھاہواہے ۱؎،پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیاجائے،اس کا نام رکھا جائے اوراس کے سرکے بال منڈائے جائیں۔اس سند سے بھی سمرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہ لوگ بچے کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کرنامستحب سمجھتے ہیں،اگرساتویں دن نہ کرسکے توچودہویں دن،اگرپھربھی نہ کرسکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیاجائے،یہ لوگ کہتے ہیں: اسی بکری کا عقیقہ درست ہوگا جس کی قربانی درست ہوگی ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ وَكَفَّارَتُہُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ لِأَنَّ الزُّہْرِيَّ لَمْ يَسْمَعْ ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْہُمْ مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَتِيقٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مُحَمَّدٌ وَالْحَدِيثُ ہُوَ ہَذَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: معصیت کے کاموں میں نذر جائز نہیں ہے،اوراس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کاکفارہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ زہری نے اس کو ابو سلمہ سے نہیں سناہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ اس حدیث کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے،انہیں میں موسیٰ بن عقبہ اورابن ابی عتیق ہیں،ان دونوں نے زہری سے بطریق: سلمان بن أرقم،عن یحیی بن أبی کثیر،عن أبی سلمۃ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: وہ حدیث یہی ہے،(اور آگے آرہی ہے)۳-اس باب میں ابن عمر،جابراورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَعِيلَ التِّرْمِذِيُّ وَاسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ يُوسُفَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللہِ وَكَفَّارَتُہُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَفْوَانَ عَنْ يُونُسَ وَأَبُو صَفْوَانَ ہُوَ مَكِّيٌّ وَاسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ الْحُمَيْدِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ جُلَّةِ أَہْلِ الْحَدِيثِ و قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللہِ وَكَفَّارَتُہُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ وَلَا كَفَّارَةَ فِي ذَلِكَ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ کی معصیت پرمبنی کوئی نذرجائز نہیں ہے،اوراس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ـ یہ حدیث غریب ہے،۲-اورابوصفوان کی اس حدیث سے جسے وہ یونس سے روایت کرتے ہیں،زیادہ صحیح ہے،۳-ابوصفوان مکی ہیں،ان کانام عبداللہ بن سعید بن عبدالملک بن مروان ہے،ان سے حمیدی اور کئی بڑے بڑے محدثین نے روایت کی ہے،۴-اہل علم صحابہ کی ایک جماعت اوردوسرے لوگ کہتے ہیں: اللہ کی معصیت کے سلسلے میں کوئی نذرنہیں ہے اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے،احمداوراسحاق کایہی قول ہے،ان دونوں نے زہری کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے وہ ابوسلمہ سے اورابوسلمہ عائشہ سے روایت کرتے ہیں،۵-بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگ کہتے ہیں: معصیت میں کوئی نذرجائزنہیں ہے،اوراس میں کوئی کفارہ بھی نہیں،مالک اورشافعی کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا الزُّہْرِيُّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ حَلَفَ مِنْكُمْ فَقَالَ فِي حَلِفِہِ وَاللَّاتِ وَالْعُزَّی فَلْيَقُلْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَمَنْ قَالَ تَعَالَ أُقَامِرْكَ فَلْيَتَصَدَّقْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْمُغِيرَةِ ہُوَ الْخَوْلَانِيُّ الْحِمْصِيُّ وَاسْمُہُ عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس نے قسم کھائی اوراپنی قسم میں کہا: لات اورعزیٰ کی قسم ہے! وہ لا إلہ إلا اللہکہے اورجس شخص نے کہا: آؤ جواکھیلیں وہ صدقہ کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ أَنَّ جَيْشًا مِنْ جُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ كَانَ أَمِيرَہُمْ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ حَاصَرُوا قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ اللہِ أَلَا نَنْہَدُ إِلَيْہِمْ قَالَ دَعُونِي أَدْعُہُمْ كَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَدْعُوہُمْ فَأَتَاہُمْ سَلْمَانُ فَقَالَ لَہُمْ إِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنْكُمْ فَارِسِيٌّ تَرَوْنَ الْعَرَبَ يُطِيعُونَنِي فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ فَلَكُمْ مِثْلُ الَّذِي لَنَا وَعَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْنَا وَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا دِينَكُمْ تَرَكْنَاكُمْ عَلَيْہِ وَأَعْطُونَا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ قَالَ وَرَطَنَ إِلَيْہِمْ بِالْفَارِسِيَّةِ وَأَنْتُمْ غَيْرُ مَحْمُودِينَ وَإِنْ أَبَيْتُمْ نَابَذْنَاكُمْ عَلَی سَوَاءٍ قَالُوا مَا نَحْنُ بِالَّذِي نُعْطِي الْجِزْيَةَ وَلَكِنَّا نُقَاتِلُكُمْ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ اللہِ أَلَا نَنْہَدُ إِلَيْہِمْ قَالَ لَا فَدَعَاہُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَی مِثْلِ ہَذَا ثُمَّ قَالَ انْہَدُوا إِلَيْہِمْ قَالَ فَنَہَدْنَا إِلَيْہِمْ فَفَتَحْنَا ذَلِكَ الْقَصْرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحَدِيثُ سَلْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ أَبُو الْبَخْتَرِيِّ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ لِأَنَّہُ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيًّا وَسَلْمَانُ مَاتَ قَبْلَ عَلِيٍّ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَی ہَذَا وَرَأَوْا أَنْ يُدْعَوْا قَبْلَ الْقِتَالِ وَہُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ قَالَ إِنْ تُقُدِّمَ إِلَيْہِمْ فِي الدَّعْوَةِ فَحَسَنٌ يَكُونُ ذَلِكَ أَہْيَبَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا دَعْوَةَ الْيَوْمَ و قَالَ أَحْمَدُ لَا أَعْرِفُ الْيَوْمَ أَحَدًا يُدْعَی و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا يُقَاتَلُ الْعَدُوُّ حَتَّی يُدْعَوْا إِلَّا أَنْ يَعْجَلُوا عَنْ ذَلِكَ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَقَدْ بَلَغَتْہُمْ الدَّعْوَةُ

ابوالبختری سعید بن فیروز سے روایت ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکرنے جس کے امیرسلمان فارسی تھے،فارس کے ایک قلعہ کامحاصرہ کیا،لوگوں نے کہا: ابوعبداللہ! کیاہم ان پرحملہ نہ کردیں؟،انہوں نے کہا: مجھے چھوڑدومیں ان کافروں کو اسلام کی دعوت اسی طرح دوں جیساکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو انہیں دعوت دیتے ہوئے سنا ہے ۱ ؎،چنانچہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے،اور کافروں سے کہا: میں تمہاری ہی قوم فارس کا رہنے والا ایک آدمی ہوں،تم دیکھ رہے ہوعرب میری اطاعت کرتے ہیں،اگرتم اسلام قبول کروگے توتمہارے لیے وہی حقوق ہوں گے جوہمارے لیے ہیں،اورتمہارے اوپروہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جوہمارے اوپرہیں،اوراگرتم اپنے دین ہی پر قائم رہناچاہتے ہوتو ہم اسی پر تم کوچھوڑدیں گے،اور تم ذلیل وخوار ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ اداکرو ۲؎،سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو فارسی زبان میں بھی بیان کیا،اوریہ بھی کہا: تم قابلِ تعریف لوگ نہیں ہو،اوراگرتم نے انکار کیا توہم تم سے(حق پر) جنگ کریں گے،ان لوگوں نے جواب دیا: ہم وہ نہیں ہیں کہ جزیہ دیں،بلکہ تم سے جنگ کریں گے،مسلمانوں نے کہا: ابوعبداللہ! کیا ہم ان پرحملہ نہ کردیں؟ انہوں نے کہا: نہیں،پھر انہوں نے تین دن تک اسی طرح ان کو اسلام کی دعوت دی،پھر مسلمانوں سے کہا: ان پر حملہ کرو،ہم لوگوں نے ان پر حملہ کیااوراس قلعہ کوفتح کرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،ہم اس کو صرف عطاء بن سائب ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-میں نے محمدبن اسماعیل (امام بخاری) کو کہتے ہوئے سنا: ابوالبختری نے سلمان کونہیں پایاہے،اس لیے کہ انہوں نے علی کو نہیں پایا ہے،اورسلمان کی وفات علی سے پہلے ہوئی ہے،۲-اس باب میں بریدہ،نعمان بن مقرن،ابن عمراورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ قتال سے پہلے کافروں کو دعوت دی جائے گی،اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگران کوپہلے اسلام کی دعوت دے دی جائے توبہترہے،یہ ان کے لیے خوف کا باعث ہوگا،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس دور میں دعوت کی ضرورت نہیں ہے،امام احمدکہتے ہیں: میں اس زمانے میں کسی کودعوت دئے جانے کے لائق نہیں سمجھتا،۵-امام شافعی کہتے ہیں: دعوت سے پہلے دشمنوں سے جنگ نہ شروع کی جائے،ہاں اگر کفار خود جنگ میں پہل کربیٹھیں تو اس صورت میں اگر دعوت نہ دی گئی تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَاسْمُہُ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْہَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ جِبْرَائِيلَ ہَبَطَ عَلَيْہِ فَقَالَ لَہُ خَيِّرْہُمْ يَعْنِي أَصْحَابَكَ فِي أُسَارَی بَدْرٍ الْقَتْلَ أَوْ الْفِدَاءَ عَلَی أَنْ يُقْتَلَ مِنْہُمْ قَابِلًا مِثْلُہُمْ قَالُوا الْفِدَاءَ وَيُقْتَلُ مِنَّا وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي بَرْزَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ وَرَوَی أَبُو أُسَامَةَ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَرَوَی ابْنُ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَأَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ اسْمُہُ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرئیل نے میرے پاس آکرکہا: اپنے ساتھیوں کو بدرکے قیدیوں کے سلسلے میں اختیاردیں،وہ چاہیں توانہیں قتل کریں،چاہیں توفدیہ لیں،فدیہ کی صورت میں ان میں سے آئندہ سال اتنے ہی آدمی قتل کئے جائیں گے،ان لوگوں نے کہا: فدیہ لیں گے اور ہم میں سے قتل کئے جائیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب ہے،ہم اس کو صرف ابن ابی زائدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-ابواسامہ نے بسند ہشام عن ابن سیرین عن عبیدہ عن علی عن النبی ﷺ اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-ابن عون نے بسند ابن سیرین عن عبیدہ عن النبی ﷺمرسلاً روایت کی ہے،۴-اس باب میں ابن مسعود،انس،ابوبرزہ،اورجبیربن مطعم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَمِّہِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ فَدَی رَجُلَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ بِرَجُلٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَمُّ أَبِي قِلَابَةَ ہُوَ أَبُو الْمُہَلَّبِ وَاسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو وَأَبُو قِلَابَةَ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدٍ الْجَرْمِيُّ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ لِلْإِمَامِ أَنْ يَمُنَّ عَلَی مَنْ شَاءَ مِنْ الْأُسَارَی وَيَقْتُلَ مَنْ شَاءَ مِنْہُمْ وَيَفْدِي مَنْ شَاءَ وَاخْتَارَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْقَتْلَ عَلَی الْفِدَاءِ و قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ بَلَغَنِي أَنَّ ہَذِہِ الْآيَةَ مَنْسُوخَةٌ قَوْلُہُ تَعَالَی فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً نَسَخَتْہَا وَاقْتُلُوہُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قُلْتُ لِأَحْمَدَ إِذَا أُسِرَ الْأَسِيرُ يُقْتَلُ أَوْ يُفَادَی أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ إِنْ قَدَرُوا أَنْ يُفَادُوا فَلَيْسَ بِہِ بَأْسٌ وَإِنْ قُتِلَ فَمَا أَعْلَمُ بِہِ بَأْسًا قَالَ إِسْحَقُ الْإِثْخَانُ أَحَبُّ إِلَيَّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْرُوفًا فَأَطْمَعُ بِہِ الْكَثِيرَ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرمﷺنے مشرکین کے ایک قیدی مرد کے بدلہ میں دومسلمان مردوں کو چھڑوایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوقلابہ کا نام عبداللہ بن زید جرمی ہے،۳-اکثراہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ امام کو اختیار ہے کہ قیدیوں میں سے جس پر چاہے احسان کرے اورجسے چاہے قتل کرے،اورجن سے چاہے فدیہ لے،۴-بعض اہل علم نے فدیہ کے بجائے قتل کو اختیارکیا ہے،۵-امام اوزاعی کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ یہ آیتفَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً منسوخ ہے اور آیت: وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ اس کے لیے ناسخ ہے،۴-اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے امام احمدبن حنبل سے سوال کیا: آپ کے نزدیک کیا بہترہے جب قیدی گرفتارہوتواسے قتل کیاجائے یا اس سے فدیہ لیاجائے،انہوں نے جواب دیا،اگروہ فدیہ لے سکیں توکوئی حرج نہیں ہے اوراگرانہیں قتل کردیاجائے تو بھی میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا،۵-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک خون بہانا زیادہ بہترہے جب یہ مشہور ہو اور اکثر لوگ اس کی خواہش رکھتے ہوں۔

حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ مَاتَ وَہُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ الْكِبْرِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مرگیا اورتین چیزوں یعنی تکبر(گھمنڈ)،مال غنیمت میں خیانت اورقرض سے بری رہا،وہ جنت میں داخل ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ اورزید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَہُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ الْكَنْزِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ ہَكَذَا قَالَ سَعِيدٌ الْكَنْزُ وَقَالَ أَبُو عَوَانَةَ فِي حَدِيثِہِ الْكِبْرُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ مَعْدَانَ وَرِوَايَةُ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس کے جسم سے روح نکلی اور وہ تین چیزوں یعنی کنز،غلول اورقرض سے بری رہا،وہ جنت میں داخل ہوگا ۱؎۔ سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح اپنی روایت میں الکنزبیان کیا ہے اور ابوعوانہ نے اپنی روایت میں الکبر بیان کیا ہے،اوراس میں عن معدان کا ذکرنہیں کیا ہے،سعید کی روایت زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ أَبُو زُمَيْلٍ الْحَنَفِيُّ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ فُلَانًا قَدْ اسْتُشْہِدَ قَالَ كَلَّا قَدْ رَأَيْتُہُ فِي النَّارِ بِعَبَاءَةٍ قَدْ غَلَّہَا قَالَ قُمْ يَا عُمَرُ فَنَادِ إِنَّہُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! فلاں آدمی شہیدہوگیا،آپ نے فرمایا: ہرگزنہیں،میں نے اس عباء (کپڑے) کی وجہ سے اسے جہنم میں دیکھاہے جو اس نے مال غنیمت سے چرایا تھا،آپ نے فرمایا: عمر! کھڑے ہوجاؤاورتین مرتبہ اعلان کردو،جنت میں مومن ہی داخل ہوں گے۔(اورمومن آدمی خیانت نہیں کیاکرتے)امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ ہُوَ ابْنُ الشِّخِّيرِ عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ أَنَّہُ أَہْدَی لِلنَّبِيِّ ﷺ ہَدِيَّةً لَہُ أَوْ نَاقَةً فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَسْلَمْتَ قَالَ لَا قَالَ فَإِنِّي نُہِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ إِنِّي نُہِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ يَعْنِي ہَدَايَاہُمْ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَقْبَلُ مِنْ الْمُشْرِكِينَ ہَدَايَاہُمْ وَذُكِرَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ الْكَرَاہِيَةُ وَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ ہَذَا بَعْدَ مَا كَانَ يَقْبَلُ مِنْہُمْ ثُمَّ نَہَی عَنْ ہَدَايَاہُمْ

عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: انہوں نے (اسلام لانے سے قبل) نبی اکرمﷺ کو ایک تحفہ دیا یااونٹنی ہدیہ کی،نبی اکرمﷺ نے پوچھا: کیاتم اسلام لاچکے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں،آپ نے فرمایا: مجھے تومشرکوں کے تحفہ سے منع کیا گیا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺ کے قول إنی نہیت عن زبد المشرکین کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کے تحفوں سے منع کیا گیا ہے،نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ مشرکوں کے تحفے قبول فرماتے تھے،جب کہ اس حدیث میں کراہت کا بیان ہے،احتمال ہے کہ یہ بعدکا عمل ہے،آپ پہلے ان کے تحفے قبول فرماتے تھے،پھرآپ نے اس سے منع فرمادیا ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّہُ قَالَ جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَلَی الْہِجْرَةِ وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ ﷺ أَنَّہُ عَبْدٌ فَجَاءَ سَيِّدُہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ بِعْنِيہِ فَاشْتَرَاہُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ وَلَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتَّی يَسْأَلَہُ أَعَبْدٌ ہُوَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزُّبَيْرِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک غلام آیا،اس نے رسول اللہ ﷺ سے ہجرت پر بیعت کی،نبی اکرمﷺ نہیں جانتے تھے کہ وہ غلام ہے،اتنے میں اس کامالک آگیا،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مجھے اسے بیچ دو،پھر آپ نے اس کو دو کالے غلام دے کر خریدلیا،اس کے بعدآپ نے کسی سے بیعت نہیں لی جب تک اس سے یہ نہ پوچھ لیتے کہ کیاوہ غلام ہے؟ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ہم اس کو صرف ابوالزبیر کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تَبْدَءُوا الْيَہُودَ وَالنَّصَارَی بِالسَّلَامِ وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَہُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوہُمْ إِلَی أَضْيَقِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ لَا تَبْدَءُوا الْيَہُودَ وَالنَّصَارَی قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِنَّمَا مَعْنَی الْكَرَاہِيَةِ لِأَنَّہُ يَكُونُ تَعْظِيمًا لَہُمْ وَإِنَّمَا أُمِرَ الْمُسْلِمُونَ بِتَذْلِيلِہِمْ وَكَذَلِكَ إِذَا لَقِيَ أَحَدَہُمْ فِي الطَّرِيقِ فَلَا يَتْرُكْ الطَّرِيقَ عَلَيْہِ لِأَنَّ فِيہِ تَعْظِيمًا لَہُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہودونصاریٰ کوسلام کرنے میں پہل نہ کرو اور ان میں سے جب کسی سے تمہارا آمنا سامنا ہو جائے تواسے تنگ راستے کی جانب جانے پرمجبورکردو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،انس رضی اللہ عنہم اور ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تم خود ان سے سلام نہ کرو (بلکہ ان کے سلام کرنے پر صرف جواب دو)،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: یہ اس لیے ناپسند ہے کہ پہلے سلام کرنے سے ان کی تعظیم ہوگی جب کہ مسلمانوں کو انہیں تذلیل کرنے کاحکم دیا گیا ہے،اسی طرح راستے میں آمنا سامنا ہوجانے پر ان کے لیے راستہ نہ چھوڑے کیوں کہ اس سے بھی ان کی تعظیم ہوگی (جو صحیح نہیں ہے)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الْيَہُودَ إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَحَدُہُمْ فَإِنَّمَا يَقُولُ السَّامُ عَلَيْكُمْ فَقُلْ عَلَيْكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہود میں سے کوئی جب تم لوگوں کوسلام کرتا ہے تووہ کہتا ہے: السام علیک (یعنی تم پرموت ہو)،اس لیے تم جواب میں صرف علیک کہو (یعنی تم پر موت ہو)۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَی أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ مَنْ يَرِثُكَ قَالَ أَہْلِي وَوَلَدِي قَالَتْ فَمَا لِي لَا أَرِثُ أَبِي فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا نُورَثُ وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعُولُہُ وَأُنْفِقُ عَلَی مَنْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُنْفِقُ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدٍ وَعَائِشَةَ وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ إِنَّمَا أَسْنَدَہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَعَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَاءٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ إِلَّا حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ وَرَوَی عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَاءٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکرکہا: آپ کی وفات کے بعدآپ کاوارث کون ہوگا؟ انہوں نے کہا: میرے گھر والے اورمیری اولاد،فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھرکیاوجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے کہ ہم (انبیاء) کا کوئی وارث نہیں ہوتا (پھرابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا) لیکن رسول اللہ ﷺ جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ ﷺ جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اسے حماد بن سلمہ اورعبدالوہاب بن عطاء نے مسنداً روایت کیا ہے یہ دونوں اورمحمدبن عمرسے اورمحمد ابوسلمہ سے،اور ابوسلمہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت کرتے ہیں،میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں کہا: میں حمادبن سلمہ کے علاوہ کسی کو نہیں جانتاہوں جس نے اس حدیث کو محمدبن عمروسے محمدنے ابوسلمہ سے اورابوسلمہ نے ابوہریرہ سے (مرفوعاً) روایت کی ہو۔(ترمذی کہتے ہیں: ہاں) عبدالوہاب بن عطاء نے بھی محمدبن عمروسے اورمحمدنے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ابوہریرہ سے حمادبن سلمہ کی روایت کی طرح روایت کی ہے،۳-اس باب میں عمر،طلحہ،زبیر،عبدالرحمٰن بن عوف،سعد اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ عِيسَی قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَاءٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ جَاءَتْ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا تَسْأَلُ مِيرَاثَہَا مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَا سَمِعْنَا رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنِّي لَا أُورَثُ قَالَتْ وَاللہِ لَا أُكَلِّمُكُمَا أَبَدًا فَمَاتَتْ وَلَا تُكَلِّمُہُمَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ عِيسَی مَعْنَی لَا أُكَلِّمُكُمَا تَعْنِي فِي ہَذَا الْمِيرَاثِ أَبَدًا أَنْتُمَا صَادِقَانِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما کے پاس رسول اللہ ﷺ کی میراث سے اپنا حصہ طلب کرنے آئیں،ان دونوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: میرا کوئی وارث نہیں ہوگا،فاطمہ رضی اللہ عنہ بولیں: اللہ کی قسم! میں تم دونوں سے کبھی بات نہیں کروں گی،چنانچہ وہ انتقال کرگئیں،لیکن ان دونوں سے بات نہیں کی۔راوی علی بن عیسیٰ کہتے ہیں: لا أکلمکما کا مفہوم یہ ہے کہ میں اس میراث کے سلسلے میں کبھی بھی آپ دونوں سے بات نہیں کروں گی،آپ دونوں سچے ہیں۔ (امام ترمذی کہتے ہیں:) یہ حدیث کئی سندوں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَدَخَلَ عَلَيْہِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ وَالْعَبَّاسُ يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ عُمَرُ لَہُمْ أَنْشُدُكُمْ بِاللہِ الَّذِي بِإِذْنِہِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ قَالُوا نَعَمْ قَالَ عُمَرُ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَجِئْتَ أَنْتَ وَہَذَا إِلَی أَبِي بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَكَ مِنْ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ ہَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِہِ مِنْ أَبِيہَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ وَاللہُ يَعْلَمُ إِنَّہُ صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ

مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں: میں عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا،اسی دوران ان کے پاس عثمان بن عفان،زبیربن عوام،عبدالرحمٰن بن عوف اورسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم بھی پہنچے،پھر علی اورعباس رضی اللہ عنہما جھگڑتے ہوئے آئے،عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں تم لوگوں کو اس اللہ کی قسم دیتاہوں جس کے حکم سے آسمان وزمین قائم ہے،تم لوگ جانتے ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: ہمارا(یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا،جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے،لوگوں نے کہا: ہاں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کا جانشین ہوں،پھر تم اپنے بھتیجے کی میراث میں سے اپناحصہ طلب کرنے اوریہ اپنی بیوی کے باپ کی میراث طلب کرنے کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے،ابوبکرنے کہا: بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارا (یعنی انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا،ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتاہے،(عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:) اللہ خوب جانتاہے ابوبکر سچے،نیک،بھلے اورحق کی پیروی کرنے والے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں تفصیل ہے،یہ حدیث مالک بن اوس ۱ ؎ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ طَلْحَةَ الْيَرْبُوعِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللہِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ فَقَالَ جِبْرِيلُ إِلَّا الدَّيْنَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَّا الدَّيْنَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ہَذَا الشَّيْخِ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْہُ و قَالَ أَرَی أَنَّہُ أَرَادَ حَدِيثَ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّةِ يَسُرُّہُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا إِلَّا الشَّہِيدُ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے،جبریل نے کہا: سوائے قرض کے،نبی اکرمﷺ نے بھی کہا: سوائے قرض کے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اس حدیث کو ابی بکر کی روایت سے صرف اسی شیخ (یعنی یحییٰ بن طلحہ) کے واسطے سے جانتے ہیں،میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا: میراخیال ہے یحییٰ بن طلحہ نے حمیدکی حدیث بیان کرناچاہی جس کو انہوں نے انس سے،انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:شہیدکے علاوہ کوئی ایسا جنتی نہیں ہے جو دنیا کی طرف لوٹناچاہے،۳-اس باب میں کعب بن عجرہ،جابر،ابوہریرہ اورابوقتادہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ أَرْوَاحَ الشُّہَدَاءِ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَعْلُقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ أَوْ شَجَرِ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہداء کی روحیں (جنت میں) سبز پرندوں کی شکل میں ہیں،جو جنت کے پھلوں یا درختوں سے کھاتی چرتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَامِرٍ الْعُقَيْلِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ عُرِضَ عَلَيَّ أَوَّلُ ثَلَاثَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ شَہِيدٌ وَعَفِيفٌ مُتَعَفِّفٌ وَعَبْدٌ أَحْسَنَ عِبَادَةَ اللہِ وَنَصَحَ لِمَوَالِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے اوپران تین اشخاص کو پیش کیاگیاجو جنت میں سب سے پہلے جائیں گے: ایک شہید،دوسراحرام سے دوررہنے والا اورنامناسب امورسے بچنے والا،تیسراوہ غلام جو اچھی طرح اللہ کی عبادت بجالائے اوراپنے مالکان کے لیے خیرچاہے یا ان کے حقوق بجالائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَا مِنْ عَبْدٍ يَمُوتُ لَہُ عِنْدَ اللہِ خَيْرٌ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا وَأَنَّ لَہُ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا إِلَّا الشَّہِيدُ لِمَا يَرَی مِنْ فَضْلِ الشَّہَادَةِ فَإِنَّہُ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا فَيُقْتَلَ مَرَّةً أُخْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ كَانَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَسَنَّ مِنْ الزُّہْرِيِّ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مرنے والاکوئی ایسابندہ نہیں ہے جس کے لیے اللہ کے پاس ثواب ہو اور وہ دنیاکی طرف دنیا اور دنیا میں جوکچھ ہے اس کی خاطر لوٹنا چاہتاہو۔سوائے شہیدکے،اس لیے کہ وہ شہادت کا مقام ومرتبہ دیکھ چکاہے،چنانچہ وہ چاہتاہے کہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اوردوبارہ شہیدہو(کرآئے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً وَيُقَاتِلُ رِيَاءً فَأَيُّ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللہِ ہِيَ الْعُلْيَا فَہُوَ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے پوچھاگیا: ایک آدمی اظہارشجاعت (بہادری) کے لیے لڑتاہے،دوسراحمیت کی وجہ سے لڑتاہے،تیسرا ریاکاری کے لیے لڑتاہے،ان میں سے اللہ کے راستے میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جوشخص اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے جہاد کرے،وہ اللہ کے راستے میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَی فَمَنْ كَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی اللہِ وَإِلَی رَسُولِہِ فَہِجْرَتُہُ إِلَی اللہِ وَإِلَی رَسُولِہِ وَمَنْ كَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی دُنْيَا يُصِيبُہَا أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُہَا فَہِجْرَتُہُ إِلَی مَا ہَاجَرَ إِلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ ہَذَا عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ يَنْبَغِي أَنْ نَضَعَ ہَذَا الْحَدِيثَ فِي كُلِّ بَابٍ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اعمال کا دارومدارنیت پر ہے،آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی،چنانچہ جس کی ہجرت اللہ اوراس کے رسول کے لیے ہوگی اسی کی ہجرت اللہ اوراس کے رسول کے لیے مانی جائے گی اور جس نے حصول دنیا یا کسی عورت سے شادی کر نے کے لیے ہجرت کی ہوگی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-مالک بن انس،سفیان ثوری اورکئی ائمہ حدیث نے اسے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے،ہم اسے صرف یحییٰ بن سعید انصاری ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۳-عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: ہمیں اس حدیث کو ہرباب میں رکھنا چاہئے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَرْبُ خُدْعَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَأَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لڑائی دھوکہ و فریب کانام ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،زید بن ثابت،عائشہ ابن عباس،اسماء بنت یزید بن سکن،کعب بن مالک اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا أَبُو يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ مَوْلَی مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ قَالَ بَعَثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ إِلَی الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَسْأَلُہُ عَنْ رَايَةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ كَانَتْ سَوْدَاءَ مُرَبَّعَةً مِنْ نَمِرَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَالْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ وَأَبُو يَعْقُوبَ الثَّقَفِيُّ اسْمُہُ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ وَرَوَی عَنْہُ أَيْضًا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی

یونس بن عبیدمولیٰ محمدبن قاسم کہتے ہیں: مجھ کو محمدبن قاسم نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما کے پاس رسول اللہ ﷺکے جھنڈے کے بارے میں سوال کرنے کے لیے بھیجا،براء نے کہا: آپ کا جھنڈا دھاری دارچوکوراورکالا تھا ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف ابن ابی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں علی،حارث بن حسان اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-ابویعقوب ثقفی کا نام اسحاق بن ابراہیم ہے،ان سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بھی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ إِسْحَقَ وَہُوَ السَّالِحَانِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ قَال سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ لَاحِقَ بْنَ حُمَيْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَتْ رَايَةُ رَسُولِ اللہِ ﷺ سَوْدَاءَ وَلِوَاؤُہُ أَبْيَضَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا جھنڈاکالا اور پرچم سفیدتھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عباس کی یہ روایت اس سندسے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَبِسَ جُبَّةً رُومِيَّةً ضَيِّقَةَ الْكُمَّيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے رومی جبہ پہناجس کی آستینیں تنگ تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ ہُوَ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ قَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ أَہْدَی دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ خُفَّيْنِ فَلَبِسَہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی و قَالَ إِسْرَائِيلُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عَامِرٍ وَجُبَّةً فَلَبِسَہُمَا حَتَّی تَخَرَّقَا لَا يَدْرِي النَّبِيُّ ﷺ أَذَكِيٌّ ہُمَا أَمْ لَا وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو إِسْحَقَ اسْمُہُ سُلَيْمَانُ وَالْحَسَنُ بْنُ عَيَّاشٍ ہُوَ أَخُو أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دحیہ کلبی نے رسول اللہ ﷺکے لیے دوموزے تحفہ بھیجے،چنانچہ آپ نے انہیں پہنا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اسرائیل نے اپنی روایت میں کہاہے (جسے وہ بطریق عن جابر روایت کرتے ہیں): ایک جبہ بھی بھیجا،آپ نے ان دونوں موزوں کو پہنا یہاں تک کہ وہ پھٹ گئے،نبی اکرم ﷺ نہیں جانتے تھے کہ وہ مذبوح جانورکی کھال کے ہیں یا غیرمذبوح،۳-ابواسحاق سبیعی کا نام سلیمان ہے،۴-حسن بن عیاش ابوبکربن عیاش کے بھائی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ كَيْفَ كَانَ نَعْلُ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ لَہُمَا قِبَالَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے جوتے کیسے تھے؟ کہا: ان کے دوتسمے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اورابوہریرہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ نَعْلَاہُ لَہُمَا قِبَالَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے جوتے کے دوتسمے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس و ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَطْعَمَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ لُحُومَ الْخَيْلِ وَنَہَانَا عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرٍ وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَابِرٍ وَرِوَايَةُ ابْنِ عُيَيْنَةَ أَصَحُّ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَحْفَظُ مِنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں گھوڑے کا گوشت کھلایا،اور گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح کئی لوگوں نے عمرو بن دینارکے واسطہ سے جابر سے روایت کی ہے،۳-حمادبن زید نے اسے بسند عمروبن دینا رعن محمد بن علی عن جابر روایت کیا ہے،ابن عیینہ کی روایت زیادہ صحیح ہے،۴-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سفیان بن عیینہ حمادبن زید سے حفظ میں زیادہ قوی ہیں،۵-اس باب میں اسماء بنت ابی بکرسے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَہُ فَإِنَّہُ لَا يَدْرِي فِي أَيَّتِہِنَّ الْبَرَكَةُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ سُہَيْلٍ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ حَدِيثُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ الْمُخْتَلِفِ لَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے،کیوں کہ وہ نہیں جانتاکہ ان میں سے کس انگلی میں برکت ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: عبدالعزیزکی یہ حدیث،مختلف کے قبیل سے ہے،اور صرف ان کی روایت سے ہی جانی جاتی ہے،۳-اس باب میں جابر،کعب بن مالک اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،ہم اسے اس سند سے صرف سہیل کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ الْبَرَكَةُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ فَكُلُوا مِنْ حَافَتَيْہِ وَلَا تَأْكُلُوا مِنْ وَسَطِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: برکت کھانے کے بیچ میں نازل ہوتی ہے،اس لیے تم لوگ اس کے کناروں سے کھاؤ،بیچ سے مت کھاؤ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور صرف عطاء بن سائب کی روایت سے معروف ہے،اسے شعبہ اورثوری نے بھی عطاء بن سائب سے روایت کیا ہے،۳-اس باب میں ابن عمرسے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا قَرَّبَتْ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ جَنْبًا مَشْوِيًّا فَأَكَلَ مِنْہُ ثُمَّ قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ وَمَا تَوَضَّأَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ وَالْمُغِيرَةِ وَأَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھنی دست پیش کی،آپ نے اس میں سے تناول فرمایا،پھرصلاۃ کے لیے کھڑے ہوے اوروضونہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن حارث،مغیرہ اورابورافع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فَضَاءٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا اشْتَرَی أَحَدُكُمْ لَحْمًا فَلْيُكْثِرْ مَرَقَتَہُ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ لَحْمًا أَصَابَ مَرَقَةً وَہُوَ أَحَدُ اللَّحْمَيْنِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فَضَاءٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ فَضَاءٍ ہُوَ الْمُعَبِّرُ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَعَلْقَمَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ہُوَ أَخُو بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيُّ

عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی گوشت خریدے تو اس میں (پکاتے وقت)شور با(سالن) زیادہ کرلے،اس لیے کہ اگروہ گوشت نہ پاسکے تو اسے شوربا مل جائے،وہ بھی دوگوشت میں سے ایک گوشت ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابوذرسے بھی روایت ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے محمد بن فضاء کی روایت سے جانتے ہیں،محمد بن فضاء معبر(یعنی خواب کی تعبیربیان کرنے والے) ہیں،ان کے بارے میں سلیمان بن حرب نے کلام کیا ہے،۳-یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْأَسْوَدِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ صَالِحِ بْنِ رُسْتُمَ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازِ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَحْقِرَنَّ أَحَدُكُمْ شَيْئًا مِنْ الْمَعْرُوفِ وَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَلْقَ أَخَاہُ بِوَجْہٍ طَلِيقٍ وَإِنْ اشْتَرَيْتَ لَحْمًا أَوْ طَبَخْتَ قِدْرًا فَأَكْثِرْ مَرَقَتَہُ وَاغْرِفْ لِجَارِكَ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگوں میں سے کوئی شخص کسی بھی نیک کام کو حقیر نہ سمجھے،اگرکوئی نیک کام نہ مل سکے تو اپنے بھائی سے مسکراکر ملے ۱؎،اوراگرتم گوشت خرید ویاہانڈی پکاؤتوشوربا (سالن) بڑھالواوراس میں سے چلوبھراپنے پڑوسی کو دے دو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے بھی اسے ابوعمران جونی کے واسطہ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ وَثَابِتٌ وَقَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَاجْتَوَوْہَا فَبَعَثَہُمْ النَّبِيُّ ﷺ فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ وَقَالَ اشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِہَا وَأَلْبَانِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ رَوَاہُ أَبُو قِلَابَةَ عَنْ أَنَسٍ وَرَوَاہُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے،انہیں مدینہ کی آب و ہو ا راس نہیں آئی،اس لیے نبی اکرم ﷺ نے انہیں صدقہ کے اونٹوں میں بھیجا اورفرمایا: اونٹوں کا پیشاب اوردودھ پیو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی انس سے آئی ہے،ابوقلابہ نے اسے انس سے روایت کی ہے اورسعید بن ابی عروبہ نے بھی اسے قتادہ کے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَی بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ وَمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا فَمَاتَ وَہُوَ يُدْمِنُہَا لَمْ يَشْرَبْہَا فِي الْآخِرَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعُبَادَةَ وَأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا فَلَمْ يَرْفَعْہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہر نشہ آورچیز شراب ہے اور ہرنشہ آور چیز حرام ہے،جس نے دنیا میں شراپ پی اور وہ اس حال میں مرگیاکہ وہ اس کا عادی تھا،تووہ آخرت میں اسے نہیں پیئے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے نافع سے آئی ہے،جسے نافع ابن عمرسے،ابن عمر نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں،۳-مالک بن انس نے اس حدیث کو نافع کے واسطہ سے ابن عمرسے موقوفاروایت کی ہے،اسے مرفوع نہیں کیا ہے،۴-اس باب میں ابوہریرہ،ابوسعیدخدری،عبداللہ بن عمروبن العاص،ابن عباس،عبادہ اورابومالک اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ لَمْ يَقْبَلْ اللہُ لَہُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا فَإِنْ تَابَ تَابَ اللہُ عَلَيْہِ فَإِنْ عَادَ لَمْ يَقْبَلْ اللہُ لَہُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا فَإِنْ تَابَ تَابَ اللہُ عَلَيْہِ فَإِنْ عَادَ لَمْ يَقْبَلْ اللہُ لَہُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا فَإِنْ تَابَ تَابَ اللہُ عَلَيْہِ فَإِنْ عَادَ الرَّابِعَةَ لَمْ يَقْبَلْ اللہُ لَہُ صَلَاةً أَرْبَعِينَ صَبَاحًا فَإِنْ تَابَ لَمْ يَتُبْ اللہُ عَلَيْہِ وَسَقَاہُ مِنْ نَہْرِ الْخَبَالِ قِيلَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَا نَہْرُ الْخَبَالِ قَالَ نَہْرٌ مِنْ صَدِيدِ أَہْلِ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ ہَذَا عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے شراب پی اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی صلاۃ قبول نہیں کرے گا،اگروہ توبہ کرلے تواللہ اس کی توبہ قبول کرے گا،اگراس نے دوبارہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی صلاۃ قبول نہیں کرے گا،اگروہ تو بہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا،اگراس نے پھر شراب پی تواللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی صلاۃ قبول نہیں کر ے گا،اگر وہ تو بہ کرلے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا،اگراس نے چوتھی باربھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ اس کی چالیس دن کی صلاۃ قبول نہیں کرے گا اور اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ بھی قبول نہیں کرے گا،اوراس کو نہرخبال سے پلائے گا،پوچھاگیا،ابوعبدالرحمٰن! نہرخبال کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جہنمیوں کے پیپ کی ایک نہرہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-عبداللہ بن عمرو بن العاص اورابن عباس کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ،حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ،حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ مُہَاجِرٍ،عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ،عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: إِنَّ مِنَ الْحِنْطَةِ خَمْرًا وَمِنَ الشَّعِيرِ خَمْرًا وَمِنَ التَّمْرِ خَمْرًا وَمِنَ الزَّبِيبِ خَمْرًا وَمِنَ الْعَسَلِ خَمْرًا. قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: گیہوں،جو،کھجور،کشمش،اورشہدسے شراب بنائی جاتی ہے ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ،عَنْ إِسْرَائِيلَ نَحْوَہُ.

اس سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔

وَرَوَی أَبُوحَيَّانَ التَّيْمِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الشَّعْبِيِّ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ عُمَرَ،قَالَ: إِنَّ مِنْ الْحِنْطَةِ خَمْرًا فَذَكَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ إِدْرِيسَ،عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ،عَنْ الشَّعْبِيِّ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِنَّ مِنْ الْحِنْطَةِ خَمْرًا بِہَذَا. وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُہَاجِرٍ،وَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ: لَمْ يَكُنْ إِبْرَاہِيمُ ابْنُ مُہَاجِرٍ بِالْقَوِيِّ الْحَدِيثِ،وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ أَيْضًا عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ.

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: شراب گیہوں سے بنائی جاتی ہے،پھرانہوں نے پوری حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمربن خطاب سے روایت ہے کہ گیہوں سے شراب بنائی جاتی ہے،یہ ابراہیم بن مہاجر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،۲-علی بن مدینی کہتے ہیں:یحیی بن سعید نے کہا: ابراہیم بن مہاجر حدیث بیان کرنے میں قوی نہیں ہیں،۳-یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی نعمان بن بشیرسے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ وَعِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو كَثِيرٍ السُّحَيْمِيُّ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْخَمْرُ مِنْ ہَاتَيْنِ الشَّجَرَتَيْنِ النَّخْلَةُ وَالْعِنَبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو كَثِيرٍ السُّحَيْمِيُّ ہُوَ الْغُبَرِيُّ وَاسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غُفَيْلَةَ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ہَذَا الْحَدِيثَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شراب ان دودرختوں: کھجور اور انگور سے بنتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے عکرمہ بن عمارسے یہ حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ سَاقِي الْقَوْمِ آخِرُہُمْ شُرْبًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پلانے والے کو سب سے آخرمیں پینا چاہئے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن ابی اوفیٰ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ قَالُوا بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الْإِشْرَاكُ بِاللہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ قَالَ وَجَلَسَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ وَشَہَادَةُ الزُّورِ أَوْ قَوْلُ الزُّورِ فَمَا زَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُہَا حَتَّی قُلْنَا لَيْتَہُ سَكَتَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو بَكْرَةَ اسْمُہُ نُفَيْعُ بْنُ الْحَارِثِ

ابوبکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں کو سب سے بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتادوں؟ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنااورماں باپ کی نافرمانی کرنا،راوی کہتے ہیں: آپ اٹھ بیٹھے حالانکہ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے،پھر فرمایا: اورجھوٹی گواہی دینا،یا جھوٹی بات کہنارسول اللہﷺبار بار اسے دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا: کاش آپ خاموش ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ الْہَادِ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ الْكَبَائِرِ أَنْ يَشْتُمَ الرَّجُلُ وَالِدَيْہِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَہَلْ يَشْتُمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْہِ قَالَ نَعَمْ يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَشْتُمُ أَبَاہُ وَيَشْتُمُ أُمَّہُ فَيَسُبُّ أُمَّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کوبھی گالی دے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا،تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا،اوروہ کسی کی ماں کو گالی دے گا،تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا الزُّہْرِيُّ ح قَالَ وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثٍ يَلْتَقِيَانِ فَيَصُدُّ ہَذَا وَيَصُدُّ ہَذَا وَخَيْرُہُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي ہِنْدٍ الدَّارِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے،جب دونوں کا آمنا سامنا ہوتو وہ اس سیمنہ پھیرلے اور یہ اس سے منہ پھیرلے،اور ان دونوں میں بہتروہ ہے جو پہلے سلام کرے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،انس،ابوہریرہ،ہشام بن عامر اورابوہندداری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ الْعَطَّارُ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَقَاطَعُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللہِ إِخْوَانًا وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آپس میں قطع تعلق نہ کرو،ایک دوسرے سے بے رخی نہ اختیار کرو،باہم دشمنی و بغض نہ رکھو،ایک دوسرے سے حسدنہ کرو،اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ،کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے سلام کلام بند رکھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکر صدیق،زبیر بن عوام،ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا الزُّہْرِيُّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاہُ اللہُ مَالًا فَہُوَ يُنْفِقُ مِنْہُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّہَارِ وَرَجُلٌ آتَاہُ اللہُ الْقُرْآنَ فَہُوَ يَقُومُ بِہِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّہَارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صرف دوآدمیوں پر رشک کرنا چاہئے،ایک اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس میں سے رات دن(اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے،دوسرا اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے علم قرآن دیا اوروہ رات دن اس کا حق اداکرتا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن مسعوداورابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ حَبَّانَ عَنْ لُؤْلُؤَةَ عَنْ أَبِي صِرْمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللہُ بِہِ وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللہُ عَلَيْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوصرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جودوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ تعالیٰ اسے تکلیف دے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوبکر سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا فَرْقَدُ السَّبَخِيُّ عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ الْہَمْدَانِيِّ وَہُوَ الطَّيِّبُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَلْعُونٌ مَنْ ضَارَّ مُؤْمِنًا أَوْ مَكَرَ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ شخص ملعون (یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یااس کو دھوکہ دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ غَالِبٍ الْحُدَّانِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ الْبُخْلُ وَسُوءُ الْخُلُقِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ صَدَقَةَ بْنِ مُوسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کے اندردوخصلتیں بخل اوربداخلاقی جمع نہیں ہوسکتیں ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف صدقہ بن موسیٰ کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَی عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا مَنَّانٌ وَلَا بَخِيلٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دھوکہ باز،احسان جتانے والا اوربخیل جنت میں نہیں داخلہوں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن بھولابھالا اورشریف ہوتا ہے،اور فاجر دھوکہ باز اور کمینہ خصلت ہوتا ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ يَرْفَعُہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ السَّاعِي عَلَی الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاہِدِ فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ كَالَّذِي يَصُومُ النَّہَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ذَلِكَ وَہَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُہُ سَالِمٌ مَوْلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ مُطِيعٍ وَثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَدَنِيٌّ وَثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ شَامِيٌّ

صفوان بن سلیم نبی اکرم ﷺ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بیوہ اور مسکین پر خرچ کرنے والااللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے،یا اس آدمی کی طرح ہے جو دن میں صوم رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتاہے۔اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَہُ وَمَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس چیز میں بھی بے حیائی آتی ہے اسے عیب دار کردیتی ہے اورجس چیز میں حیاآتی ہے اسے زینت بخشتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں عائشہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خِيَارُكُمْ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا وَلَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ ﷺ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتروہ لوگ ہیں جو اخلاق میں بہترہیں،نبی اکرم ﷺ بے حیا اوربدزبان نہیں تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ قَالَ سَأَلْنَا عَائِشَةَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ يُوتِرُ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَتْ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَی بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَی وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ وَالْمُعَوِّذَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ ہَذَا ہُوَ وَالِدُ ابْنِ جُرَيْجٍ صَاحِبِ عَطَاءٍ وَابْنُ جُرَيْجٍ اسْمُہُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ وَقَدْ رَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبدالعزیز بن جریج کہتے ہیں کہ ہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہﷺ وتر میں کیا پڑھتے تھے؟ توانہوں نے کہا:پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی،دوسری میںقُلْ یَاأَیُّہَا الْکَافِرُونَ،اور تیسری میںقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اور معوذتین ۱؎ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ عبدالعزیزراویٔ اثرعطاء کے شاگرد ابن جریج کے والدہیں،اورابن جریج کانام عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے،۳-یحییٰ بن سعید انصاری نے یہ حدیث بطریق: عمرۃ،عن عائشہ،عن النبی اکرمﷺ روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَالْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي كَبْشَةَ الْبَصْرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ السَّدُوسِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الْقَسْمَلِيُّ ہُوَ الشَّامِيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ عَادَ مَرِيضًا أَوْ زَارَ أَخًا لَہُ فِي اللہِ نَادَاہُ مُنَادٍ أَنْ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَتَبَوَّأْتَ مِنْ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو سِنَانٍ اسْمُہُ عِيسَی بْنُ سِنَانٍ وَقَدْ رَوَی حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کی تواس کو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے: تمہاری دنیاوی واخروی زندگی مبارک ہو،تمہارا چلنا مبارک ہو،تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کرلیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-حمادبن سلمہ نے عن ثابت،عن أبی رافع،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺکی سند سے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ مَمْلَكٍ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أُعْطِيَ حَظَّہُ مِنْ الرِّفْقِ فَقَدْ أُعْطِيَ حَظَّہُ مِنْ الْخَيْرِ وَمَنْ حُرِمَ حَظَّہُ مِنْ الرِّفْقِ فَقَدْ حُرِمَ حَظَّہُ مِنْ الْخَيْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو نرم برتاؤ کاحصہ مل گیا،اسے اس کی بھلائی کاحصہ بھی مل گیا اورجوشخص نرم برتاؤ کے حصہ سے محروم رہا وہ بھلائی سے بھی محروم رہا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،جریربن عبداللہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ يَحْيَی عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ إِنَّ ابْنِي مَاتَ فَمَا لِي فِي مِيرَاثِہِ قَالَ لَكَ السُّدُسُ فَلَمَّا وَلَّی دَعَاہُ فَقَالَ لَكَ سُدُسٌ آخَرُ فَلَمَّا وَلَّی دَعَاہُ قَالَ إِنَّ السُّدُسَ الْآخَرَ طُعْمَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا: میرا پوتا مرگیا ہے،مجھے اس کی میراث میں سے کتنا حصہ ملے گا؟ آپ نے فرمایا: تمہیں چھٹا حصہ ملے گا،جب وہ مڑکرجانے لگاتو آپ نے اسے بلاکر کہا: تمہیں ایک اور چھٹاحصہ ملے گا،پھر جب وہ مڑکر جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا کر فرمایا: دوسرا چھٹا حصہ بطور خوراک ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّہُ حَدَّثَہُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللہِ سِتِّينَ سَنَةً ثُمَّ يَحْضُرُہُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَہُمَا النَّارُ ثُمَّ قَرَأَ عَلَيَّ أَبُو ہُرَيْرَةَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَی بِہَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنْ اللہِ إِلَی قَوْلِہِ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الَّذِي رَوَی عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ جَابِرٍ ہُوَ جَدُّ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کرتے ہیں پھر ان کی موت کاوقت آتاہے اور وہ وصیت کرنے میں (ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں ۱؎،جس کی وجہ سے ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہوجاتی ہے،پھر ابوہریرہ نے مِن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصَی بِہَآ أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَآرٍّ وَصِیَّۃً مِّنَ اللّہِسے ذلک الفوز العظیم ۲؎ تک آیت پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-نصر بن علی جنہوں نے اشعث بن جابر سے روایت کی ہے وہ نصر بن علی جہضمی کے دادا ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ عَمْرُو بْنُ الْہَيْثَمِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَی أَوْصَی رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ لَا قُلْتُ كَيْفَ كُتِبَتْ الْوَصِيَّةُ وَكَيْفَ أَمَرَ النَّاسَ قَالَ أَوْصَی بِكِتَابِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ

طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں ۱؎ میں نے پوچھا: پھر وصیت کیسے لکھی گئی اور آپ نے لوگوں کوکس چیز کا حکم دیا؟ ابن ابی اوفیٰ نے کہا: آپ نے کتاب اللہ پرعمل پیراہونے کی وصیت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف مالک بن مغول کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُہُ فِي بَطْنِ أُمِّہِ فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يُرْسِلُ اللہُ إِلَيْہِ الْمَلَكَ فَيَنْفُخُ فِيہِ الرُّوحَ وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعٍ يَكْتُبُ رِزْقَہُ وَأَجَلَہُ وَعَمَلَہُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ فَوَالَّذِي لَا إِلَہَ غَيْرُہُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّةِ حَتَّی مَا يَكُونُ بَيْنَہُ وَبَيْنَہَا إِلَّا ذِرَاعٌ ثُمَّ يَسْبِقُ عَلَيْہِ الْكِتَابُ فَيُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُہَا وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ حَتَّی مَا يَكُونَ بَيْنَہُ وَبَيْنَہَا إِلَّا ذِرَاعٌ ثُمَّ يَسْبِقُ عَلَيْہِ الْكِتَابُ فَيُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَہْبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَذَكَرَ مِثْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ قَال سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدٍ نَحْوَہُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے صادق ومصدوق رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا ۱؎،تم میں سے ہرآدمی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ کی شکل میں رہتاہے،پھر اتنے ہی دن تک علقہ(یعنی جمے ہوئے خون) کی شکل میں رہتاہے،پھر اتنے ہی دن تک مضغہ(یعنی گوشت کے لوتھڑے) کی شکل میں رہتاہے،پھر اللہ تعالیٰ اس کے پاس فرشتہ بھیجتاہے جو اس کے اندر روح پھونکتاہے،پھر اسے چار چیزوں (کے لکھنے) کا حکم کیاجاتاہے،چنانچہ وہ لکھتاہے: اس کا رزق،اس کی موت،اس کا عمل اور یہ چیز کہ وہ شقی(بدبخت) ہے یاسعید(نیک بخت)،اس ذات کی قسم جس کے سواکوئی معبودبرحق نہیں،تم میں سے کوئی آدمی جنتیوں کا عمل کرتارہتاہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک گزکا فاصلہ رہ جاتاہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اور جہنمیوں کے عمل پراس کا خاتمہ کیاجاتاہے۔لہذا وہ جہنم میں داخل ہوجاتاہے،اور تم میں سے کوئی آدمی جہنمیوں کا عمل کرتارہتاہے پھر اس کے اوپر لکھی ہوئی تقدیر غالب آتی ہے اورجنتیوں کے عمل پر اس کا خاتمہ کیاجاتاہے،لہذا وہ جنت میں داخل ہوتاہے۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث حسن صحیح ہے،شعبہ اور ثوری نے بھی اعمش سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ مَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا قَضَی اللہُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَہُ إِلَيْہَا حَاجَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي عَزَّةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَلَا يُعْرَفُ لِمَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرُ ہَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ وَأَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ نَحْوَہُ

مطر بن عکامس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی موت کے لیے کسی زمین کا فیصلہ کردیتاہے تو وہاں اس کی کوئی حاجت وضرورت پیداکردیتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-مطر بن عکامس کی نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کے علاوہ کوئی دوسری حدیث نہیں معلوم ہے،۳-اس باب میں ابوعزہ سے بھی روایت ہے۔اس سند سے بھی مطر بن عکامس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ بْنِ أُسَامَةَ عَنْ أَبِي عَزَّةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا قَضَی اللہُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَہُ إِلَيْہَا حَاجَةً أَوْ قَالَ بِہَا حَاجَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَزَّةَ لَہُ صُحْبَةٌ وَاسْمُہُ يَسَارُ بْنُ عَبْدٍ وَأَبُو الْمَلِيحِ اسْمُہُ عَامِرُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْہُذَلِيُّ وَيُقَالُ زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ

ابوعزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی موت کے لیے کسی زمین کا فیصلہ کردیتاہے تو وہاں اس کی کوئی حاجت پیداکردیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-ابوعزہ کو شرف صحبت حاصل ہے اور ان کا نام یسار بن عبدہے،۳-راوی ابوملیح کانام عامر بن اسامہ بن عمیر ہذلی ہے۔انہیں زیدبن اسامہ بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مُثِّلَ ابْنُ آدَمَ وَإِلَی جَنْبِہِ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ مَنِيَّةً إِنْ أَخْطَأَتْہُ الْمَنَايَا وَقَعَ فِي الْہَرَمِ حَتَّی يَمُوتَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو الْعَوَّامِ ہُوَ عِمْرَانُ وَہُوَ ابْنُ دَاوَرَ الْقَطَّانُ

عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ابن آدم کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں اگر وہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہوجائے گایہاں تک کہ اسے موت آجائے گی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ قَالَ أَوَّلُ مَنْ قَدَّمَ الْخُطْبَةَ قَبْلَ الصَّلَاةِ مَرْوَانُ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ لِمَرْوَانَ خَالَفْتَ السُّنَّةَ فَقَالَ يَا فُلَانُ تُرِكَ مَا ہُنَالِكَ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَمَّا ہَذَا فَقَدْ قَضَی مَا عَلَيْہِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ رَأَی مُنْكَرًا فَلْيُنْكِرْہُ بِيَدِہِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

طارق بن شہاب کہتے ہیں: سب سے پہلے (عید کے دن) خطبہ کوصلاۃ پر مقدم کرنے والے مروان تھے،ایک آدمی نے کھڑے ہوکر مروان سے کہا: آپ نے سنت کی مخالفت کی ہے،مروان نے کہا: اے فلاں! چھوڑدی گئی وہ سنت جسے تم ڈھونڈھتے ہو(یہ سن کر) ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنافرض پوراکردیا،میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سناہے: جوشخص کوئی برائی دیکھے تو چاہئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے،جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اورجسے اس کی طاقت بھی نہ ہووہ اپنے دل میں اسے براجانے ۱؎ اوریہ ایما ن کا سب سے کمتردرجہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي قَال سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ رَاشِدٍ يُحَدِّثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ صَلَاةً فَأَطَالَہَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ صَلَّيْتَ صَلَاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيہَا قَالَ أَجَلْ إِنَّہَا صَلَاةُ رَغْبَةٍ وَرَہْبَةٍ إِنِّي سَأَلْتُ اللہَ فِيہَا ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُہُ أَنْ لَا يُہْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيہَا وَسَأَلْتُہُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِہِمْ فَأَعْطَانِيہَا وَسَأَلْتُہُ أَنْ لَا يُذِيقَ بَعْضَہُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فَمَنَعَنِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَابْنِ عُمَرَ

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے ایک بار کافی لمبی صلاۃ پڑھی،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسی صلاۃ پڑھی ہے کہ اس سے پہلے ایسی صلاۃ نہیں پڑھی تھی،آ پ نے فرمایا: ہاں،یہ امید و خوف کی صلاۃتھی،میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں،جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دوکوقبول کرلیا اورایک کو نہیں قبول کیا،میں نے پہلی دعا یہ مانگی کہ میری امت کو عام قحط میں ہلاک نہ کرے،اللہ نے میری یہ دعا قبول کرلی،میں نے دوسری دعا یہ کی کہ ان پرغیروں میں سے کسی دشمن کو نہ مسلط کرے،اللہ نے میری یہ دعا بھی قبول کرلی،میں نے تیسری دعا یہ مانگی کہ ان میں آپس میں ایک کودوسرے کی لڑائی کا مزہ نہ چکھاتو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں فرمائی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں سعد اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ زَوَی لِيَ الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُہَا مَا زُوِيَ لِي مِنْہَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُہْلِكَہَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِہِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَہُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّہُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُہْلِكَہُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْہِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَی أَنْفُسِہِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَہُمْ وَلَوْ اجْتَمَعَ عَلَيْہِمْ مَنْ بِأَقْطَارِہَا أَوْ قَالَ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِہَا حَتَّی يَكُونَ بَعْضُہُمْ يُہْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُہُمْ بَعْضًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی تومیں نے مشرق (پورب) ومغرب(پچھم) کو دیکھا یقینا میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی،اورمجھے سرخ وسفید دوخزانے دے گئے،میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے دعا کی کہ ان کوکسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے اورنہ ان پر غیروں میں سے کوئی ایسا دشمن مسلط کر جو انہیں جڑ سے مٹادے،میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کرلیتاہوں تو اسے بدلتا نہیں،تیری امت کے حق میں تیری یہ دعا میں نے قبول کی کہ میں اسے عام قحط سے ہلاک وبربادنہیں کروں گا،اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو اور جو انہیں جڑ سے مٹادے،گو ان کے خلاف تمام روئے زمین کے لوگ جمع ہوجائیں،البتہ ایسا ہوگا کہ انہیں میں سے بعض لوگ بعض کو ہلاک کریں گے،اوربعض کو قیدی بنائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ حَدِيثَيْنِ قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَہُمَا وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ حَدَّثَنَا أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوا مِنْ الْقُرْآنِ وَعَلِمُوا مِنْ السُّنَّةِ ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الْأَمَانَةِ فَقَالَ يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِہِ فَيَظَلُّ أَثَرُہَا مِثْلَ الْوَكْتِ ثُمَّ يَنَامُ نَوْمَةً فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِہِ فَيَظَلُّ أَثَرُہَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَہُ عَلَی رِجْلِكَ فَنَفَطَتْ فَتَرَاہُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيہِ شَيْءٌ ثُمَّ أَخَذَ حَصَاةً فَدَحْرَجَہَا عَلَی رِجْلِہِ قَالَ فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لَا يَكَادُ أَحَدُہُمْ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ حَتَّی يُقَالَ إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا وَحَتَّی يُقَالَ لِلرَّجُلِ مَا أَجْلَدَہُ وَأَظْرَفَہُ وَأَعْقَلَہُ وَمَا فِي قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ قَالَ وَلَقَدْ أَتَی عَلَيَّ زَمَانٌ وَمَا أُبَالِي أَيُّكُمْ بَايَعْتُ فِيہِ لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّہُ عَلَيَّ دِينُہُ وَلَئِنْ كَانَ يَہُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا لَيَرُدَّنَّہُ عَلَيَّ سَاعِيہِ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ مِنْكُمْ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم سے رسول اللہﷺ نے دوحدیثیں بیان کیں،جن میں سے ایک کی حقیقت تومیں نے دیکھ لی ۱؎،اوردوسری کا انتظارکررہا ہوں،آپ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کے جڑمیں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اورسنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎،پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوے فرمایا: آدمی (رات کو) سوئے گا اوراس کے دل سے امانت اٹھالی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑاسااثرایک نقطہ کی طرح دل میں رہ جائے گا،پھر جب دوسری بارسوئے گاتو اس کے دل سے امانت اٹھالی جائے گی اور اس کا اثر کھال موٹا ہونے کی طرح رہ جائے گا ۳؎،جیسے تم اپنے پاؤں پر چنگاری پھیرو تو آبلہ (پھپھولا) پڑجاتا ہے،تم اسے پھولا ہوا پاتے ہو حالانکہ اس میں کچھ نہیں ہوتا،پھر حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر پھیر نے لگے اور فرمایا: لوگ اس طرح ہوجائیں گے کہ خرید وفروخت کریں گے لیکن ان میں کوئی امانت دارنہ ہوگا،یہاں تک کہ کہاجائے گا: فلاں قبیلہ میں ایک امانت دارآدمی ہے،اورکسی آدمی کی تعریف میں یہ کہاجائے گا: کتنا مضبوط شحص ہے! کتنا ہوشیاراورعقل مند ہے! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ برابربھی ایمان نہ ہوگا ،حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے اوپر ایک ایساوقت آیا کہ خریدوفروخت میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا،اگرمیرا فریق مسلمان ہوتاتو اس کی دینداری میراحق لوٹادیتی اوراگریہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا سردارمیراحق لوٹادیتا،جہاں تک آج کی بات ہے تو میں تم میں سے صرف فلاں اور فلاں سے خریدوفروخت کرتا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ غَزْوَانَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَرِيرٍ وَابْنِ عُمَرَ وَكُرْزِ بْنِ عَلْقَمَةَ وَوَاثِلَةَ وَالصُّنَابِحِيِّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میرے بعدکافرہوکر ایک دوسرے کی گردنیں مت مارنا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،جریر،ابن عمر،کرزبن علقمہ،واثلہ اور صنابحی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا يُرْفَعُ فِيہَا الْعِلْمُ وَيَكْثُرُ فِيہَا الْہَرْجُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ مَا الْہَرْجُ قَالَ الْقَتْلُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے بعدایسے دن آنے والے ہیں جس میں علم اٹھالیاجائے گا،اورہرج زیادہ ہوجائے گی،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہرج کیاچیزہے؟ آپ نے فرمایا: قتل وخوں ریزی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،خالدبن ولید اورمعقل بن یسار رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الْمُعَلَّی بْنِ زِيَادٍ رَدَّہُ إِلَی مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ رَدَّہُ إِلَی مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ رَدَّہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْعِبَادَةُ فِي الْہَرْجِ كَالْہِجْرَةِ إِلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الْمُعَلَّی

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: قتل وخوں ریزی کے زمانہ میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کے مانندہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح غریب ہے،۲-ہم اسے صرف حمادبن زید کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ معلی سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَال سَمِعْتُ زَيْدًا الْعَمِّيَّ قَال سَمِعْتُ أَبَا الصِّدِّيقِ النَّاجِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَشِينَا أَنْ يَكُونَ بَعْدَ نَبِيِّنَا حَدَثٌ فَسَأَلْنَا نَبِيَّ اللہِ ﷺ فَقَالَ إِنَّ فِي أُمَّتِي الْمَہْدِيَّ يَخْرُجُ يَعِيشُ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا أَوْ تِسْعًا زَيْدٌ الشَّاكُّ قَالَ قُلْنَا وَمَا ذَاكَ قَالَ سِنِينَ قَالَ فَيَجِيءُ إِلَيْہِ رَجُلٌ فَيَقُولُ يَا مَہْدِيُّ أَعْطِنِي أَعْطِنِي قَالَ فَيَحْثِي لَہُ فِي ثَوْبِہِ مَا اسْتَطَاعَ أَنْ يَحْمِلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ اسْمُہُ بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ بَكْرُ بْنُ قَيْسٍ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم اس بات سے ڈرے کہ ہمارے نبی کے بعدکچھ حادثات پیش آئیں،لہذا ہم نے آپ ﷺ سے سوال کیا توآپ نے فرمایا: میری امت میں مہدی ہیں جو نکلیں گے اورپانچ،سات یانوتک زندہ رہیں گے،(اس گنتی میں زیدالعمی کی طرف سے شک ہوا ہے ،راوی کہتے ہیں: ہم نے عرض کیا: ان گنتیوں سے کیامرادہے؟ فرمایا:سال) آپﷺ نے فرمایا: پھر ان کے پاس ایک آدمی آئے گا اورکہے گا: مہدی! مجھے دیجئے،مجھے دیجئے،آپ نے فرمایا: وہ اس آدمی کے کپڑے میں (دینارودرہم)اتنارکھ دیں گے کہ وہ اٹھانہ سکے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابوسعیدخدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے کئی سندوں سے یہ حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي النَّاسِ فَأَثْنَی عَلَی اللہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ إِنِّي لَأُنْذِرُكُمُوہُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَہُ وَلَقَدْ أَنْذَرَ نُوحٌ قَوْمَہُ وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيہِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْہُ نَبِيٌّ لِقَوْمِہِ تَعْلَمُونَ أَنَّہُ أَعْوَرُ وَإِنَّ اللہَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ قَالَ الزُّہْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ يَوْمَئِذٍ لِلنَّاسِ وَہُوَ يُحَذِّرُہُمْ فِتْنَتَہُ تَعْلَمُونَ أَنَّہُ لَنْ يَرَی أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّہُ حَتَّی يَمُوتَ وَإِنَّہُ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْہِ ك ف ر يَقْرَؤُہُ مَنْ كَرِہَ عَمَلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوے اوراللہ کی شان کے لائق اس کی تعریف کی پھردجال کاذکرکیا اورفرمایا: میں تمہیں دجال سے ڈرارہاہوں اورتمام نبیوں نے اس سے اپنی قوم کوڈرایا ہے،نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اس سے ڈرایا ہے،لیکن میں اس کے بارے میں تم سے ایک ایسی بات کہہ رہا ہوں جسے کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی،تم لوگ اچھی طرح جان لوگے کہ وہ کانا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں،زہری کہتے ہیں: ہمیں عمربن ثابت انصاری نے خبردی کہ انہیں نبی اکرمﷺ کے بعض صحابہ نے بتایا: نبی اکرمﷺ جس دن لوگوں کو دجال کے فتنے سے ڈرارہے تھے (اس دن)آپ نے فرمایا:تم جانتے ہوکہ کوئی آدمی اپنے رب کومرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا،اور اس کی آنکھوں کے درمیان ک،ف،ر لکھاہوگا،اس کے عمل کو ناپسندسمجھنے والے اسے پڑھ لیں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ تُقَاتِلُكُمْ الْيَہُودُ فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْہِمْ حَتَّی يَقُولَ الْحَجَرُ يَا مُسْلِمُ ہَذَا يَہُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہود تم سے لڑیں گے اورتم ان پر غالب ہوجاؤگے یہاں تک کہ پتھرکہے گا:اے مسلمان! میرے پیچھے یہ یہودی ہے اسے قتل کردو ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنِي مُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا مَشَتْ أُمَّتِي بِالْمُطَيْطِيَاءِ وَخَدَمَہَا أَبْنَاءُ الْمُلُوكِ أَبْنَاءُ فَارِسَ وَالرُّومِ سُلِّطَ شِرَارُہَا عَلَی خِيَارِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَا يُعْرَفُ لِحَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَصْلٌ إِنَّمَا الْمَعْرُوفُ حَدِيثُ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ وَقَدْ رَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب میری امت اکڑاکڑکرچلنے لگے اور بادشاہوں کی اولادیعنی فارس و روم کے بادشاہوں کی اولادان کی خدمت کرنے لگے تو اس وقت ان کے برے لوگ ان کے اچھے لوگوں پر مسلط کردیئے جائیں گے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ابومعاویہ نے بھی اسے یحیی بن سعید انصاری کے واسطہ سے روایت کیا ہے۔اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ ابومعاویہ کی حدیث جس کی سندیوں ہے عن یحیی بن سعید،عن عبداللہ بن دینار،عن ابن عمراس کی کوئی اصل نہیں ہے،موسیٰ بن عبیدہ کی حدیث (روایت) ہی معروف ہے،۲-مالک بن انس نے یہ حدیث یحیی بن سعید کے واسطہ سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے اوراس کی سند میں عن عبداللہ بن دینار،عن ابن عمرکے واسطہ کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخِيَارِ أُمَرَائِكُمْ وَشِرَارِہِمْ خِيَارُہُمْ الَّذِينَ تُحِبُّونَہُمْ وَيُحِبُّونَكُمْ وَتَدْعُونَ لَہُمْ وَيَدْعُونَ لَكُمْ وَشِرَارُ أُمَرَائِكُمْ الَّذِينَ تُبْغِضُونَہُمْ وَيُبْغِضُونَكُمْ وَتَلْعَنُونَہُمْ وَيَلْعَنُونَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ وَمُحَمَّدٌ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے اچھے حکمرانوں اوربرے حکمرانوں کے بارے میں نہ بتادوں؟ اچھے حکمراں وہ ہیں جن سے تم محبت کروگے اوروہ تم سے محبت کریں گے،تم ان کے لیے دعائیں کرو گے اوروہ تمہارے لیے دعائیں کریں گے،تمہارے برے حکمراں وہ ہیں جن سے تم نفرت کروگے اوروہ تم سے نفرت کریں گے تم ان پر لعنت بھیجوگے اوروہ تم پر لعنت بھیجیں گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف محمد بن ابوحمیدکی روایت سے جانتے ہیں،اور محمدبن ابوحمیدحافظے کے تعلق سے ضعیف قراردیے گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ تَكْذِبُ وَأَصْدَقُہُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُہُمْ حَدِيثًا وَرُؤْيَا الْمُسْلِمِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ وَالرُّؤْيَا ثَلَاثٌ فَالرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ بُشْرَی مِنْ اللہِ وَالرُّؤْيَا مِنْ تَحْزِينِ الشَّيْطَانِ وَالرُّؤْيَا مِمَّا يُحَدِّثُ بِہَا الرَّجُلُ نَفْسَہُ فَإِذَا رَأَی أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَہُ فَلْيَقُمْ فَلْيَتْفُلْ وَلَا يُحَدِّثْ بِہَا النَّاسَ قَالَ وَأُحِبُّ الْقَيْدَ فِي النَّوْمِ وَأَكْرَہُ الْغُلَّ الْقَيْدُ ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب زمانہ قریب ہوجائے گا ۱؎ تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے،ان میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہوگاجس کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی،مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۲؎ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں،بہتراوراچھے خواب اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں،کچھ خواب شیطان کی طرف سے تکلیف ورنج کاباعث ہوتے ہیں،اورکچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں،لہذا جب تم میں سے کوئی ایساخواب دیکھے جسے وہ ناپسندکرتا ہے توکھڑا ہوکرتھوکے اوراسے لوگوں سے نہ بیان کرے،آپ نے فرمایا: میں خواب میں قید (پیرمیں بیڑی پہننا)پسندکرتاہوں اورطوق کو ناپسندکرتاہوں ۳؎،قیدسے مراددین پرثابت قدمی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ أَنَّہُ سَمِعَ أَنَسًا يُحَدِّثُ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ قَالَ وَحَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبادہ کی حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابورزین عقیلی،ابوسعیدخدری،عبداللہ بن عمرو،عوف بن مالک،ابن عمراورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ،عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ ہَارُونَ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ سَبْعًا ہَلْ تُنْظَرُونَ إِلَّا إِلَی فَقْرٍ مُنْسٍ،أَوْ غِنًی مُطْغٍ،أَوْ مَرَضٍ مُفْسِدٍ،أَوْ ہَرَمٍ مُفَنِّدٍ،أَوْ مَوْتٍ مُجْہِزٍ،أَوِ الدَّجَّالِ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ،أَوِ السَّاعَةِ فَالسَّاعَةُ أَدْہَی وَأَمَرُّ)) ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الأَعْرَجِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَرَّرِ بْنِ ہَارُونَ وَقَدْ رَوَی بِشْرُ بْنُ عُمَرَ،وَغَيْرُہُ عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ ہَارُونَ،ہَذَا وَقَدْ رَوَی مَعْمَرٌ،ہَذَا الحَدِيثَ عَمَّنْ،سَمِعَ سَعِيدًا المَقْبُرِيَّ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَقَالَ: ((تَنْتَظِرُونَ))

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو،تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والاہے؟ یا ایسی مالداری کا جوطغیانی پیداکرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے(یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جوعقل کو کھودینے والا ہے؟ یاایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اعرج ابوہریرہ سے مروی حدیث ہم صرف محرزبن ہارون کی روایت سے جانتے ہیں،۳-بشربن عمراور ان کے علاوہ لوگوں نے بھی اسے محرزبن ہارون سے روایت کیا ہے،۴-معمرنے ایک ایسے شخص سے سناہے جس نے بسند سعید مقبری عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اس میں ہل تنتظرون کی بجائے تنتظرونہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو الأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ المِقْدَامِ العِجْلِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ عَائِشَةَ،قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الآيَةُ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ [الشعراء: 214] قَالَ رَسُولُ اللہِ [ص:555] ﷺ: ((يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ المُطَّلِبِ يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ يَا بَنِي عَبْدِ المُطَّلِبِ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللہِ شَيْئًا،سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ)) وَفِي البَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،وَأَبِي مُوسَی،وَابْنِ عَبَّاسٍ ((حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ ہَكَذَا رَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ،نَحْوَ ہَذَا)) وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ ہِشَامٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ((مُرْسَلًا لَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ))

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب یہ آیت کریمہ: وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ نازل ہوئی تورسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عبد المطلب کی بیٹی صفیہ!،اے محمد کی بیٹی فاطمہ! اے عبدالمطلب کی اولاد! اللہ کی طرف سے تم لوگوں کے نفع ونقصان کا مجھے کچھ بھی اختیار نہیں ہے،تم میرے مال میں سے تم سب کو جو کچھ مانگنا ہو وہ مجھ سے مانگ لو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-ان میں سے بعض نے اسی طر ح ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے،اوربعض نے عن ہشام،عن أبیہ عن النبی ﷺ کی سند سے مرسلاً روایت کی ہے اورعن عائشۃ کاذکرنہیں کیا،۳-اس باب میں ابوہریرہ،ابن عباس اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَنَسٍ قَالَ تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہِ فَقَالَ يَعْنِي رَجُلًا أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَوَلَا تَدْرِي فَلَعَلَّہُ تَكَلَّمَ فِيمَا لَا يَعْنِيہِ أَوْ بَخِلَ بِمَا لَا يَنْقُصُہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہوگئی،ایک آدمی نے کہا: تجھے جنت کی بشارت ہو،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بے فائدہ ہو،یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو مُسْہِرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَمَاعَةَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ قُرَّةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُہُ مَا لَا يَعْنِيہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اورفضول باتوں کوچھوڑ دے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اس حدیث کوابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے اورابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكَہُ مَا لَا يَعْنِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ الزُّہْرِيِّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ مُرْسَلًا وَہَذَا عِنْدَنَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ

علی بن حسین (زین العابدین) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑدے جواس سے غیرمتعلق ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-زہری کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے اسی طرحعن الزہری،عن علی بن حسین عن النبی ﷺ کی سند سے مالک کی حدیث کی طرح مرسلا روایت کی ہے،۲-ہمارے نزدیک یہ حدیث ابوسلمہ کی ابوہریرہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،۳-علی بن حسین (زین العابدین) کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ ذَہَبٍ لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ لَہُ ثَالِثٌ وَلَا يَمْلَأُ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَيَتُوبُ اللہُ عَلَی مَنْ تَابَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَأَبِي وَاقِدٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگرآدمی کے پاس سونے کی دد وادیاں ہوں تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہوگی اوراس کاپیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی توبہ قبول کرتاہے جواس سے توبہ کرے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابی بن کعب،ابوسعید خدری،عائشہ،ابن زبیر،ابو واقد،جابر،ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ہُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ الْأَنْصَارِيُّ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَی وَاحِدٌ يَتْبَعُہُ أَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ فَيَرْجِعُ أَہْلُہُ وَمَالُہُ وَيَبْقَی عَمَلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مردے کے ساتھ قبرتک تین چیزیں جاتی ہیں،پھردوچیزیں لوٹ آتی ہیں اور ساتھ میں ایک باقی رہ جاتی ہے،اس کے رشتہ دار،اس کا مال اور اس کے اعمال ساتھ میں جاتے ہیں پھررشتہ دار،اورمال لوٹ آتے ہیں اور صرف اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہ جاتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ الرَّجُلُ يَعْمَلُ الْعَمَلَ فَيُسِرُّہُ فَإِذَا اطُّلِعَ عَلَيْہِ أَعْجَبَہُ ذَلِكَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَہُ أَجْرَانِ أَجْرُ السِّرِّ وَأَجْرُ الْعَلَانِيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی الْأَعْمَشُ وَغَيْرُہُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَأَصْحَابُ الْأَعْمَشِ لَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ إِذَا اطُّلِعَ عَلَيْہِ فَأَعْجَبَہُ فَإِنَّمَا مَعْنَاہُ أَنْ يُعْجِبَہُ ثَنَاءُ النَّاسِ عَلَيْہِ بِالْخَيْرِ لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ أَنْتُمْ شُہَدَاءُ اللہِ فِي الْأَرْضِ فَيُعْجِبُہُ ثَنَاءُ النَّاسِ عَلَيْہِ لِہَذَا لِمَا يَرْجُو بِثَنَاءِ النَّاسِ عَلَيْہِ فَأَمَّا إِذَا أَعْجَبَہُ لِيَعْلَمَ النَّاسُ مِنْہُ الْخَيْرَ لِيُكْرَمَ عَلَی ذَلِكَ وَيُعَظَّمَ عَلَيْہِ فَہَذَا رِيَاءٌ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا اطُّلِعَ عَلَيْہِ فَأَعْجَبَہُ رَجَاءَ أَنْ يَعْمَلَ بِعَمَلِہِ فَيَكُونُ لَہُ مِثْلُ أُجُورِہِمْ فَہَذَا لَہُ مَذْہَبٌ أَيْضًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول!آدمی نیک عمل کرتاہے پھر اسے چھپاتاہے لیکن جب لوگوں کو اس کی اطلاع ہوجاتی ہے تووہ اسے پسند کرتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کے لیے دواجر ہیں ایک نیکی کے چھپانے کا اور دوسرا اس کے ظاہر ہوجانے کا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے۔۲-اعمش وغیرہ نے اس حدیث کو عن حبیب بن أبی ثابت،عن أبی صالح،عن النبی ﷺ کی سندسے مرسلاً روایت کیا ہے،اور اعمش کے شاگردوں نے اس میں عن أبی ہریرۃ کا ذکر نہیں کیا،۳-بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: اس کے نیک عمل کے ظاہر ہوجانے پرلوگوں کے پسند کرنے کامطلب یہ ہے کہ لوگوں کی تعریف اور ثناء خیر کو وہ پسند کرتاہے اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو،یقینا اسے لوگوں کی تعریف پسند آتی ہے کیونکہ اسے لوگوں کی تعریف سے آخرت کے خیرکی امید ہوتی ہے،البتہ اگر کوئی لوگوں کے جان جانے پر اس لیے خوش ہوتا ہے کہ اس کے نیک عمل کو جان کر لوگ اس کی تعظیم وتکریم کریں گے تو یہ ریاء ونمود میں داخل ہوجائے گا،۴-اور بعض اہل علم نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ لوگوں کے جان جانے پر وہ اس لیے خوش ہوتاہے کہ نیک عمل میں لوگ اس کی اقتدا کریں گے اور اسے بھی ان کے اعمال میں اجر ملے گا تو یہ خوشی بھی مناسب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللہِ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي ثَلْجٍ الْبَغْدَادِيُّ صَاحِبُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَاطِبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُكْثِرُوا الْكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللہِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الْكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللہِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْ اللہِ الْقَلْبُ الْقَاسِي حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَاطِبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَاطِبٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام سے پرہیز کرو اس لیے کہ ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام دل کو سخت بنادیتاہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والاہوگا۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اسے ہم صرف ابراہیم بن عبداللہ بن حاطب ہی کی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ لَا دِرْہَمَ لَہُ وَلَا مَتَاعَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاتِہِ وَصِيَامِہِ وَزَكَاتِہِ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ ہَذَا وَقَذَفَ ہَذَا وَأَكَلَ مَالَ ہَذَا وَسَفَكَ دَمَ ہَذَا وَضَرَبَ ہَذَا فَيَقْعُدُ فَيَقْتَصُّ ہَذَا مِنْ حَسَنَاتِہِ وَہَذَا مِنْ حَسَنَاتِہِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُہُ قَبْلَ أَنْ يُقْتَصَّ مَا عَلَيْہِ مِنْ الْخَطَايَا أُخِذَ مِنْ خَطَايَاہُمْ فَطُرِحَ عَلَيْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سوال کیا: کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ مفلس کسے کہتے ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے یہاں مفلس اسے کہتے ہیں جس کے پاس درہم ودینار اور ضروری سامان زندگی نہ ہو،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہماری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن صوم وصلاۃ اور زکاۃ کے ساتھ اس حال میں آئے گاکہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پہ تہمت باندھی ہوگی،کسی کا مال کھایا ہوگا،کسی کا خون بہایاہوگا،اور کسی کو مارا ہوگا،پھر اسے سب کے سامنے بٹھایا جائے گا اور بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں کو دے دی جائیں گی،پھر اگر اس کے ظلموں کا بدلہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو مظلوموں کے گناہ لے کر اس پر رکھ دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیاجائے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ أَبِي خَالِدٍ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَحِمَ اللہُ عَبْدًا كَانَتْ لِأَخِيہِ عِنْدَہُ مَظْلَمَةٌ فِي عِرْضٍ أَوْ مَالٍ فَجَاءَہُ فَاسْتَحَلَّہُ قَبْلَ أَنْ يُؤْخَذَ وَلَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْہَمٌ فَإِنْ كَانَتْ لَہُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ حَسَنَاتِہِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَہُ حَسَنَاتٌ حَمَّلُوا عَلَيْہِ مِنْ سَيِّئَاتِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ وَقَدْ رَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسے بندے پررحم کرے جس کے پاس اس کے بھائی کا عزت یامال میں کوئی بدلہ ہو،پھر وہ مرنے سے پہلے ہی اس کے پاس آکے دنیا ہی میں اس سے معاف کرالے کیوں کہ قیامت کے روز نہ تو اس کے پاس دینار ہوگا اور نہ ہی درہم،پھر اگر ظالم کے پاس کچھ نیکیاں ہوں گی تو اس کی نیکیوں سے بدلہ لیاجائے گا اور اگر اس کے پاس نیکیاں بھی نہیں ہوں گی تو مظلوموں کے گناہ ظالم کے سرپر ڈال دیئے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث سعید مقبری کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-مالک بن انس نے عن سعید المقبری،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَی أَہْلِہَا حَتَّی يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنْ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ أُنَيْسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: (قیامت کے دن) حقداروں کوان کا پورا پورا حق دیا جائے گا،یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوذر اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا الْمِقْدَادُ صَاحِبُ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُدْنِيَتْ الشَّمْسُ مِنْ الْعِبَادِ حَتَّی تَكُونَ قِيدَ مِيلٍ أَوْ اثْنَيْنِ قَالَ سُلَيْمٌ لَا أَدْرِي أَيَّ الْمِيلَيْنِ عَنَی أَمَسَافَةُ الْأَرْضِ أَمْ الْمِيلُ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِہِ الْعَيْنُ قَالَ فَتَصْہَرُہُمْ الشَّمْسُ فَيَكُونُونَ فِي الْعَرَقِ بِقَدْرِ أَعْمَالِہِمْ فَمِنْہُمْ مَنْ يَأْخُذُہُ إِلَی عَقِبَيْہِ وَمِنْہُمْ مَنْ يَأْخُذُہُ إِلَی رُكْبَتَيْہِ وَمِنْہُمْ مَنْ يَأْخُذُہُ إِلَی حِقْوَيْہِ وَمِنْہُمْ مَنْ يُلْجِمُہُ إِلْجَامًا فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُشِيرُ بِيَدِہِ إِلَی فِيہِ أَيْ يُلْجِمُہُ إِلْجَامًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ

مقداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن سورج کو بندوں سے قریب کردیاجائے گا،یہاں تک کہ وہ ان سے ایک میل یادومیل کے فاصلے پر ہوگا۔راوی سلیم بن عامر کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے کون سی میل مراد لی ہے،زمین کی مسافت یا آنکھ میں سرمہ لگانے کی سلائی)،پھر سورج انہیں پگھلادے گا اور لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوں گے،بعض ایڑیوں تک،بعض گھٹنے تک،بعض کمر تک اور بعض کاپسینہ منہ تک لگام کی مانند ہو گا ۱؎ ،مقداد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺاپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ پسینہ لوگوں کے منہ تک پہنچ جائے گا جیسے کہ لگام لگی ہوتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَی بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ حَمَّادٌ وَہُوَ عِنْدَنَا مَرْفُوعٌ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ يَقُومُونَ فِي الرَّشْحِ إِلَی أَنْصَافِ آذَانِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ۱؎ اور کہا: اس دن لوگ اللہ کے سامنے اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ پسینہ ان کے آدھے کا نوں تک ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا كَمَا خُلِقُوا ثُمَّ قَرَأَ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُہُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ وَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَی مِنْ الْخَلَائِقِ إِبْرَاہِيمُ وَيُؤْخَذُ مِنْ أَصْحَابِي بِرِجَالٍ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ إِنَّہُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَی أَعْقَابِہِمْ مُنْذُ فَارَقْتَہُمْ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ فَذَكَرَ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہوگا کہ وہ ننگے بدن،ننگے پیر اورختنہ کے بغیر ہوں گے،پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی:کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ ۱؎ انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایاجائے گا،اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا:میرے رب! یہ تو میرے امتی ہیں،تو کہاجائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد دین میں کیا نئی نئی باتیں نکالیں،اور جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہو یہ لوگ ہمیشہ دین سے پھرتے رہے ہیں ۲؎،تو اس وقت میں وہی کہوں گا جو(اللہ کے) نیک بندے عیسیٰ علیہ السلام نے کہی تھی: إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ۳؎۔اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا بَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالًا وَرُكْبَانًا وَتُجَرُّونَ عَلَی وُجُوہِكُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم لوگ میدان حشر میں پیدل اور سوار لائے جاؤ گے اور اپنے چہروں کے بل گھسیٹے جاؤ گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب کے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْحَسَنِ وَقَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يُجَاءُ بِابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّہُ بَذَجٌ فَيُوقَفُ بَيْنَ يَدَيْ اللہِ فَيَقُولُ اللہُ لَہُ أَعْطَيْتُكَ وَخَوَّلْتُكَ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْكَ فَمَاذَا صَنَعْتَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ جَمَعْتُہُ وَثَمَّرْتُہُ فَتَرَكْتُہُ أَكْثَرَ مَا كَانَ فَارْجِعْنِي آتِكَ بِہِ فَيَقُولُ لَہُ أَرِنِي مَا قَدَّمْتَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ جَمَعْتُہُ وَثَمَّرْتُہُ فَتَرَكْتُہُ أَكْثَرَ مَا كَانَ فَارْجِعْنِي آتِكَ بِہِ كُلِّہِ فَإِذَا عَبْدٌ لَمْ يُقَدِّمْ خَيْرًا فَيُمْضَی بِہِ إِلَی النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدَ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَسَنِ قَوْلَہُ وَلَمْ يُسْنِدُوہُ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ابن آدم کوقیامت کے روز بھیڑ کے بچے کی شکل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور پیش کیاجائے گا،اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: میں نے تجھے مال واسباب سے نوازدے،اور تجھ پر انعام کیا اس میں تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا اے میرے رب! میں نے بہت سارا مال جمع کیا اور اسے بڑھایا اور دنیا میں اسے پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کر آیا،سومجھے دنیا میں دوبارہ بھیج!تاکہ میں ان سب کو لے آؤں،اللہ تعالیٰ فرمائے گا،جو کچھ تونے عمل خیر کیا ہے اسے دکھا،وہ کہے گا: اے میرے رب!میں نے بہت سارا مال جمع کیا،اسے بڑھایا اور دنیا میں پہلے سے زیادہ ہی چھوڑ کرآیا،مجھے دوبارہ بھیج تاکہ میں اسے لے آؤں،یہ اس بندے کاحال ہوگا جس نے خیراوربھلائی کی راہ میں کوئی مال خرچ نہیں کیاہوگا،چنانچہ اسے اللہ کے حکم کے مطابق جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی روایت کئی لوگوں نے حسن بصری سے کی ہے،اور کہا ہے کہ یہ ان کا قول ہے،اسے مرفوع نہیں کیا،۲-اسماعیل بن مسلم ضعیف ہیں،ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّہْرِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ أَبُو مُحَمَّدٍ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُؤْتَی بِالْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ اللہُ لَہُ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا وَمَالًا وَوَلَدًا وَسَخَّرْتُ لَكَ الْأَنْعَامَ وَالْحَرْثَ وَتَرَكْتُكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ فَكُنْتَ تَظُنُّ أَنَّكَ مُلَاقِي يَوْمَكَ ہَذَا قَالَ فَيَقُولُ لَا فَيَقُولُ لَہُ الْيَوْمَ أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ الْيَوْمَ أَنْسَاكَ يَقُولُ الْيَوْمَ أَتْرُكُكَ فِي الْعَذَابِ ہَكَذَا فَسَّرُوہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذِہِ الْآيَةَ فَالْيَوْمَ نَنْسَاہُمْ قَالُوا إِنَّمَا مَعْنَاہُ الْيَوْمَ نَتْرُكُہُمْ فِي الْعَذَابِ

ابوہریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ایک بندے کو لایاجائے گا،باری تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا میں نے تجھے کان،آنکھ مال اور اولاد سے نہیں نوازا تھا؟ اور چوپایوں اور کھیتی کو تیرے تابع کردیاتھا،اور قوم کا تجھے سردار بنادیا تھاجن سے بھرپورخدمت لیاکرتاتھا،پھر کیاتجھے یہ خیال بھی تھا کہ تو آج کے دن مجھ سے ملاقات کرے گا؟ وہ عرض کرے گا: نہیں،اللہ تعالیٰ فرمائے گا: آج میں بھی تجھے بھول جاتاہوں جیسے تو مجھے دنیا میں بھول گیا تھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح غریب ہے،۲-اللہ تعالیٰ کے فرمان: الیوم أنساک کا مطلب یہ ہے کہ آج کے دن میں تجھے عذاب میں ویسے ہی چھوڑ دوں گا جیسے بھولی چیز پڑی رہتی ہے۔بعض اہل علم نے اسی طرح سے اس کی تفسیر کی ہے،۳-بعض اہل علم آیت کریمہ فَالْیَوْمَ نَنسَاہُمْ کی یہ تفسیر کی ہے کہ آج کے دن ہم تمہیں عذاب میں بھولی ہوئی چیز کی طرح چھوڑدیں گے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي يَعْلَی عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ خَطًّا مُرَبَّعًا وَخَطَّ فِي وَسَطِ الْخَطِّ خَطًّا وَخَطَّ خَارِجًا مِنْ الْخَطِّ خَطًّا وَحَوْلَ الَّذِي فِي الْوَسَطِ خُطُوطًا فَقَالَ ہَذَا ابْنُ آدَمَ وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِيطٌ بِہِ وَہَذَا الَّذِي فِي الْوَسَطِ الْإِنْسَانُ وَہَذِہِ الْخُطُوطُ عُرُوضُہُ إِنْ نَجَا مِنْ ہَذَا يَنْہَشُہُ ہَذَا وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الْأَمَلُ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک مربع خط (یعنی چوکور)لکیر کھینچی اور ایک لکیردرمیان میں اس سے باہر نکلتاہوا کھینچی،اور اس درمیانی لکیرکے بغل میں چند چھوٹی چھوٹی لکیرین اور کھینچی،پھر فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ لکیراس کی موت کی ہے جو ہرطرف سے اسے گھیرے ہوئے ہے۔اوریہ درمیان والی لکیر انسان ہے(یعنی اس کی آرزوئیں ہیں) اور یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں انسان کو پیش آنے والے حوادث ہیں،اگر ایک حادثہ سے وہ بچ نکلا تو دوسرا اسے ڈس لے گا اور باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَہْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْہُ اثْنَانِ الْحِرْصُ عَلَی الْمَالِ وَالْحِرْصُ عَلَی الْعُمُرِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن اس کی دوخواہشیں جو ان رہتی ہیں: ایک مال کی ہوس دوسری لمبی عمر کی تمنا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ فِرَاسٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ وَہُوَ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مُثِّلَ ابْنُ آدَمَ وَإِلَی جَنْبِہِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ مَنِيَّةً إِنْ أَخْطَأَتْہُ الْمَنَايَا وَقَعَ فِي الْہَرَمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کی مثال ایسی ہے کہ اس کے پہلو میں ننانوے آفتیں ہیں،اگروہ ان آفتوں سے بچ گیا تو بڑھاپے میں گرفتار ہوجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَدُّوَيْہِ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ الْعُرَنِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ الْوَلِيدِ الْوَصَّافِيُّ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مُصَلَّاہُ فَرَأَی نَاسًا كَأَنَّہُمْ يَكْتَشِرُونَ قَالَ أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَی فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ فَإِنَّہُ لَمْ يَأْتِ عَلَی الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فِيہِ فَيَقُولُ أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَہُ الْقَبْرُ مَرْحَبًا وَأَہْلًا أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَی ظَہْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَی صَنِيعِيَ بِكَ قَالَ فَيَتَّسِعُ لَہُ مَدَّ بَصَرِہِ وَيُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إِلَی الْجَنَّةِ وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوْ الْكَافِرُ قَالَ لَہُ الْقَبْرُ لَا مَرْحَبًا وَلَا أَہْلًا أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَی ظَہْرِي إِلَيَّ فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَی صَنِيعِيَ بِكَ قَالَ فَيَلْتَئِمُ عَلَيْہِ حَتَّی يَلْتَقِيَ عَلَيْہِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلَاعُہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِأَصَابِعِہِ فَأَدْخَلَ بَعْضَہَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ قَالَ وَيُقَيِّضُ اللہُ لَہُ سَبْعِينَ تِنِّينًا لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْہَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا فَيَنْہَشْنَہُ وَيَخْدِشْنَہُ حَتَّی يُفْضَی بِہِ إِلَی الْحِسَابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اپنے مصلی پرتشریف لائے اور دیکھا کہ لوگ ہنس رہے ہیں،آپ نے فرمایا: آگاہ رہو! اگرتم لوگ لذتوں کو ختم کردینے والی چیزکو یادرکھتے توتم اپنی ان حرکتوں سے باز رہتے،سولذتوں کو ختم کردینے والی موت کا ذکر کثرت سے کرو،اس لیے کہ قبر روزانہ بولتی ہے اور کہتی ہے: میں غربت کاگھر ہوں،میں تنہائی کا گھرہوں،میں مٹی کا گھر ہوں،اور میں کیڑے،مکوڑوں کاگھرہوں،پھرجب مومن بندے کو دفن کیاجاتاہے تو قبر اسے مرحبا(خوش آمدید) کہتی ہے اور مبارک باد دیتی ہے اور کہتی ہے: بے شک تومیرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ محبوب تھا جو میرے پیٹھ پر چلتے ہیں،پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوگئی اور تو میری طرف آگیا تواب دیکھ لے گا کہ میں تیرے ساتھ کیسا حسن سلوک کروں گی،پھر اس کی نظر پہنچنے تک قبرکشادہ کردی جائے گی اور اس کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیاجائے گا،اورجب فاجر یا کافر دفن کیا جاتاہے تو قبر اسے نہ ہی مرحبا کہتی ہے اور نہ ہی مبارک باد دیتی ہے بلکہ کہتی ہے: بیشک تومیرے نزدیک ان میں سب سے زیادہ قابل نفرت تھا جو میری پیٹھ پر چلتے ہیں،پھر اب جب کہ میں تیرے کام کی نگراں ہوں اور تومیری طرف آگیا سو آج تو اپنے ساتھ میری بدسلوکیاں دیکھ لے گا،پھرو ہ اس کو دباتی ہے،اورہرطرف سے اس پر زور ڈالتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک طرف سے دوسری طرف مل جاتی ہیں،رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیااور ایک دوسرے کو آپس میں داخل کرکے فرمایا:اللہ اس پر ستر اژدہے مقرر کردے گا،اگر ان میں سے کوئی ایک بار بھی زمین پر پھونک ماردے تو اس پر رہتی دنیاتک کبھی گھاس نہ اگے،پھر وہ اژدہے اسے حساب وکتاب لیے جانے تک دانتوں سے کاٹیں گے اور نوچیں گے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَی عَنْ أَبِيہِ قَالَ يَا بُنَيَّ لَوْ رَأَيْتَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَصَابَتْنَا السَّمَاءُ لَحَسِبْتَ أَنَّ رِيحَنَا رِيحُ الضَّأْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّہُ كَانَ ثِيَابَہُمْ الصُّوفُ فَإِذَا أَصَابَہُمْ الْمَطَرُ يَجِيءُ مِنْ ثِيَابِہِمْ رِيحُ الضَّأْنِ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! اگرتم ہمیں اس وقت دیکھتے جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور ہمیں بارش نصیب ہوتی تھی تو تم خیال کرتے کہ ہماری بوبھیڑ کی بوجیسی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کے کپڑے اون کے ہوتے تھے،جب اس پر بارش کاپانی پڑتا تو اس سے بھیڑ کی جیسی بو آنے لگتی تھی ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ عَنْ زِيَادٍ الطَّائِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ مَا لَنَا إِذَا كُنَّا عِنْدَكَ رَقَّتْ قُلُوبُنَا وَزَہِدْنَا فِي الدُّنْيَا وَكُنَّا مِنْ أَہْلِ الْآخِرَةِ فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ فَآنَسْنَا أَہَالِينَا وَشَمَمْنَا أَوْلَادَنَا أَنْكَرْنَا أَنْفُسَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِي كُنْتُمْ عَلَی حَالِكُمْ ذَلِكَ لَزَارَتْكُمْ الْمَلَائِكَةُ فِي بُيُوتِكُمْ وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَاءَ اللہُ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ كَيْ يُذْنِبُوا فَيَغْفِرَ لَہُمْ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مِمَّ خُلِقَ الْخَلْقُ قَالَ مِنْ الْمَاءِ قُلْنَا الْجَنَّةُ مَا بِنَاؤُہَا قَالَ لَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ وَلَبِنَةٌ مِنْ ذَہَبٍ وَمِلَاطُہَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُہَا اللُّؤْلُؤُ وَالْيَاقُوتُ وَتُرْبَتُہَا الزَّعْفَرَانُ مَنْ دَخَلَہَا يَنْعَمُ لَا يَبْأَسُ وَيَخْلُدُ لَا يَمُوتُ لَا تَبْلَی ثِيَابُہُمْ وَلَا يَفْنَی شَبَابُہُمْ ثُمَّ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُہُمْ الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُہَا فَوْقَ الْغَمَامِ وَتُفَتَّحُ لَہَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَلَيْسَ ہُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ بِإِسْنَادٍ آخَرَ عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آخرکیا وجہ ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں توہمارے دلوں پر رقت طاری رہتی ہے اور ہم دنیا سے بیزار ہوتے ہیں اور آخرت والوں میں سے ہوتے ہیں،لیکن جب ہم آپ سے جدا ہو کر اپنے بال بچوں میں چلے جاتے ہیں اوران میں گھل مل جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں کو بدلا ہواپاتے ہیں؟ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اسی حالت و کیفیت میں رہو جس حالت وکیفیت میں میرے پاس سے نکلتے ہو تو تم سے فرشتے تمہارے گھروں میں ملاقات کریں،اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق کوپیدا کرے گا جو گناہ کریں گے ۱؎،پھر اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرمائے گا۔میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!مخلوق کو کس چیز سے پیدا کیا گیا؟ آپ نے فرمایا: پانی سے،ہم نے عرض کیا: جنت کس چیز سے بنی ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک سونے کی اور اس کا گارا مشک اذفر کا ہے اوراس کے کنکر موتی اور یاقوت کے ہیں،اورزعفران اس کی مٹی ہے،جو اس میں داخل ہوگاوہ عیش وآرام کرے گا،کبھی تکلیف نہیں پائے گا اور اس میں ہمیشہ رہے گا اسے کبھی موت نہیں آئے گی،ان کے کپڑے پرانے نہیں ہوں گے اور ان کی جوانی کبھی فنا نہیں ہوگی ،پھر آپ نے فرمایا:تین لوگوں کی دعائیں ردنہیں کی جاتیں: پہلا امام عادل ہے،دوسرا صائم جب وہ افطار کرے،اور تیسرا مظلوم جب کہ وہ بددعا کرتاہے،اللہ تعالیٰ (اس کی بددعاکو) بادل کے اوپر اٹھالیتا ہے،اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے: قسم ہے میری عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگر چہ کچھ دیر ہی سہی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے اور نہ ہی میرے نزدیک یہ متصل ہے،۲-یہ حدیث دوسری سند سے ابومدلہ کے واسطہ سے بھی آئی ہے جسے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ابوہریرہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَہْلُ الْجَنَّةِ جُرْدٌ مُرْدٌ كُحْلٌ لَا يَفْنَی شَبَابُہُمْ وَلَا تَبْلَی ثِيَابُہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنتی بغیر بال کے،امرد اور سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے،نہ ان کی جوانی ختم ہوگی اور نہ ان کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ قَالَ ارْتِفَاعُہَا لَكَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ مَسِيرَةَ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ ہَذَا الْحَدِيثِ إِنَّ مَعْنَاہُ الْفُرُشَ فِي الدَّرَجَاتِ وَبَيْنَ الدَّرَجَاتِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ اللہ تعالیٰ کے قولوَفُرُشٍ مَرْفُوعَۃٍ (الواقعۃ: ۳۴)کی تفسیر میں فرماتے ہیں: جنت کے فرش کی بلندی اتنی ہوگی جتنا زمین وآسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔یعنی پانچ سوسال کی مسافت۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف رشدین بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں،۲-بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کے بارے میں کہا ہے: اس کامفہوم یہ ہے کہ فرش جنت کے درجات میں ہوں گے،اور ان درجات کے درمیان اتنافاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ احْتَجَّتْ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَقَالَتْ الْجَنَّةُ يَدْخُلُنِي الضُّعَفَاءُ وَالْمَسَاكِينُ وَقَالَتْ النَّارُ يَدْخُلُنِي الْجَبَّارُونَ وَالْمُتَكَبِّرُونَ فَقَالَ لِلنَّارِ أَنْتِ عَذَابِي أَنْتَقِمُ بِكِ مِمَّنْ شِئْتُ وَقَالَ لِلْجَنَّةِ أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِكِ مَنْ شِئْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت اور جہنم کے درمیان بحث وتکرارہوئی،جنت نے کہا: میرے اندر کمزور اور مسکین داخل ہوں گے،جہنم نے کہا: میرے اندر ظالم اور متکبر داخل ہوں گے۔اللہ تعالیٰ نے (فیصلہ کرتے ہوئے) جہنم سے کہا: تو میرا عذاب ہے اور میں تیرے ذریعہ جس سے چاہوں گاانتقام لوں گا اورجنت سے کہا: تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعہ جس پر چاہوں گا رحم کروں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ عَنْ زَاذَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةٌ عَلَی كُثْبَانِ الْمِسْكِ أُرَہُ قَالَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَغْبِطُہُمْ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ رَجُلٌ يُنَادِي بِالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَرَجُلٌ يَؤُمُّ قَوْمًا وَہُمْ بِہِ رَاضُونَ وَعَبْدٌ أَدَّی حَقَّ اللہِ وَحَقَّ مَوَالِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَبُو الْيَقْظَانِ اسْمُہُ عُثْمَانُ بْنُ عُمَيْرٍ وَيُقَالُ ابْنُ قَيْسٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تین قسم کے لوگ مشک کے ٹیلے پر ہوں گے،راوی کہتے ہیں: میراخیال ہے آپ نے فرمایا: قیامت کے دن،ان پر اگلے اور پچھلے رشک کریں گے: ایک وہ آدمی جو رات دن میں پانچ وقت صلاۃ کے لیے اذان دے،دوسرا وہ آدمی جو کسی قوم کی امامت کرتاہو اور وہ اس سے راضی ہوں اور تیسرا وہ غلام جواللہ تعالیٰ کا اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف سفیان ثوری کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ يَرْفَعُہُ قَالَ ثَلَاثَةٌ يُحِبُّہُمْ اللہُ رَجُلٌ قَامَ مِنْ اللَّيْلِ يَتْلُو كِتَابَ اللہِ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ صَدَقَةً بِيَمِينِہِ يُخْفِيہَا أُرَہُ قَالَ مِنْ شِمَالِہِ وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ فَانْہَزَمَ أَصْحَابُہُ فَاسْتَقْبَلَ الْعَدُوَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَہُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی شُعْبَةُ وَغَيْرُہُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ كَثِيرُ الْغَلَطِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتاہے: ایک وہ آدمی جو رات میں اٹھ کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرے،دوسرا وہ آدمی جو اپنے داہنے ہاتھ سے صدقہ کرے اور اسے چھپائے اورتیسرا وہ آدمی جو کسی سریہ میں ہو اورہارجانے کے بعد پھربھی دشمنوں کامقابلہ کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،اور یہ محفوظ نہیں ہے۔صحیح وہ روایت ہے جسے شعبہ وغیرہ نے عن منصور،عن ربعی بن خراش،عن زید بن ظبیان،عن أبی ذر،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،ابوبکر بن عیاش بہت غلطیاں کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ قَال سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ يَرْفَعُہُ إِلَی أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ثَلَاثَةٌ يُحِبُّہُمْ اللہُ وَثَلَاثَةٌ يُبْغِضُہُمْ اللہُ فَأَمَّا الَّذِينَ يُحِبُّہُمْ اللہُ فَرَجُلٌ أَتَی قَوْمًا فَسَأَلَہُمْ بِاللہِ وَلَمْ يَسْأَلْہُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَہُ وَبَيْنَہُمْ فَمَنَعُوہُ فَتَخَلَّفَ رَجُلٌ بِأَعْقَابِہِمْ فَأَعْطَاہُ سِرًّا لَا يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِہِ إِلَّا اللہُ وَالَّذِي أَعْطَاہُ وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَہُمْ حَتَّی إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْہِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِہِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُءُوسَہُمْ فَقَامَ أَحَدُہُمْ يَتَمَلَّقُنِي وَيَتْلُو آيَاتِي وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ فَلَقِيَ الْعَدُوَّ فَہُزِمُوا وَأَقْبَلَ بِصَدْرِہِ حَتَّی يُقْتَلَ أَوْ يُفْتَحَ لَہُ وَالثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يُبْغِضُہُمْ اللہُ الشَّيْخُ الزَّانِي وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ وَالْغَنِيُّ الظَّلُومُ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ شُعْبَةَ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَ ہَذَا وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتاہے،اور تین قسم کے لوگوں سے نفرت،جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتاہے وہ یہ ہیں: ایک وہ آدمی جو کسی قوم کے پاس جائے اور ان سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگے وہ اپنے اور اس قوم کے درمیان پائے جانے والے کسی رشتے کا واسطہ دے کرنہ مانگے اوروہ لوگ اسے کچھ نہ دیں،پھر ان میں سے ایک آدمی پیچھے پھرے اور اسے چپکے سے لا کر کچھ دے،اس کے عطیہ کو اللہ تعالیٰ اور جس کو دیا ہے اس کے سواکوئی نہ جانے۔دوسرے وہ لوگ جو رات کو چلیں یہاں تک کہ جب ان کو نیند ان چیزوں سے پیاری ہوجائے جو نیند کے برابر ہیں تو سواری سے اتریں اور سر رکھ کر سوجائیں اوران میں کا ایک آدمی کھڑا ہو کر میری خوشامد کرنے اور میری آیتوں کی تلاوت کرنے لگے،تیسرا وہ آدمی جو کسی سریہ میں ہو اور دشمن سے مقابلہ ہو تو اس کے ساتھی ہارجائیں پھربھی وہ سینہ سپر ہوکر آگے بڑھے یہاں تک کہ مارا جائے یا فتح حاصل ہوجائے۔جن تین لوگوں سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتاہے وہ یہ ہیں: وہ بوڑھا جوزناکارہو،وہ فقیر جو تکبرکرنے والاہو اور مالدارجو دوسروں پر ظلم ڈھائے۔اس سند سے بھی ابوذر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اسی طرح شیبان نے منصورکے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،یہ ابوبکر بن عیاش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ خَالِدٍ الْكَاہِلِيِّ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُؤْتَی بِجَہَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لَہَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَہَا قَالَ عَبْدُ اللہِ وَالثَّوْرِيُّ لَا يَرْفَعُہُ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ خَالِدٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن جہنم اس طرح لائی جائے گی کہ اس کی ستر ہزار لگام ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے اسے کھینچ رہے ہوں گے۔ عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کہتے ہیں: ثوری نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔اس سند سے بھی عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔مگر سفیان نے اس کو مرفوعاً روایت نہیں کیا (جب کہ حفص نے مرفوعاً کیا ہے)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَخْرُجُ عُنُقٌ مِنْ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَہَا عَيْنَانِ تُبْصِرَانِ وَأُذُنَانِ تَسْمَعَانِ وَلِسَانٌ يَنْطِقُ يَقُولُ إِنِّي وُكِّلْتُ بِثَلَاثَةٍ بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ وَبِكُلِّ مَنْ دَعَا مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ وَبِالْمُصَوِّرِينَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَرَوَی أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی اس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھیں گی،دوکان ہوں گے جو سنیں گے اور ایک زبان ہوگی جو بولے گی،وہ کہے گی: مجھے تین لوگوں پر مقرر کیاگیا ہے:ہرسرکش ظالم پر،ہر اس آدمی پر جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارتاہو،اور مجسمہ بنانے والوں پر۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-بعض لوگوں نے یہ حدیث عن الأعمش،عن عطیۃ،عن أبی سعید،عن النبی ﷺکی سند سے اسی طرح روایت کی ہے،۴-اشعث بن سوار نے بھی عن عطیۃ،عن أبی سعید الخدری،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُہُ مِنْ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّی إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُہَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَزِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ الزُّہْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ہَذَا

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے لوگوں کے سینوں سے کھینچ لے،لیکن وہ علم کو علماء کی وفات کے ذریعہ سے اٹھائے گا،یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کوباقی نہیں رکھے گا تو لوگ اپنا سردار جاہلوں کو بنالیں گے،ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے،وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۱؎۔ (امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے،اورزہری نے (ایک دوسری سند سے)عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-اس باب میں عائشہ اور زیاد بن لبید سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَشَخَصَ بِبَصَرِہِ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ ہَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنْ النَّاسِ حَتَّی لَا يَقْدِرُوا مِنْہُ عَلَی شَيْءٍ فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ فَوَاللہِ لَنَقْرَأَنَّہُ وَلَنُقْرِئَنَّہُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَہَاءِ أَہْلِ الْمَدِينَةِ ہَذِہِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَہُودِ وَالنَّصَارَی فَمَاذَا تُغْنِي عَنْہُمْ قَالَ جُبَيْرٌ فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ قُلْتُ أَلَا تَسْمَعُ إِلَی مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَأَخْبَرْتُہُ بِالَّذِي قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ قَالَ صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنْ النَّاسِ الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَلَا تَرَی فِيہِ رَجُلًا خَاشِعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَمُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيہِ غَيْرَ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ نَحْوُ ہَذَا وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے،اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں،پھر فرمایا: ایساوقت (آگیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیاجائے گا۔یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہوگا،زیاد بن لبید انصاری نے کہا: (اللہ کے رسول!) علم ہم سے کس طرح چھین لیاجائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔آپ نے فرمایا: اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھودے!میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتاتھا۔یہ تورات اور انجیل بھی تو پاس ہے یہود ونصاریٰ کے کیا کام آئی ان کے؟ ۱؎ (کیافائدہ پہنچایاتورات اور انجیل نے ان کو؟)۔جبیر (راوی) کہتے ہیں: میری ملاقات عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ نہیں سنتے کہ آپ کے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کیا کہتے ہیں؟ پھرابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے جو کہاتھا وہ میں نے انہیں بتادیا۔انہوں نے کہا: ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے سچ کہا۔اور اگر تم (مزید) جاننا چاہو تومیں تمہیں بتاسکتاہوں کہ پہلے پہل لوگوں سے اٹھا لیاجانے والا علم،خشوع ہے۔عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم جامع مسجد کے اندر جاؤگے لیکن وہاں تمہیں کوئی (صحیح معنوں میں) خشوع خضوع اپنانے والا شخص دکھائی نہ دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-معاویہ بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔اور یحییٰ بن سعید قطان کے سواہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس نے ان کے متعلق کچھ کلام کیا ہو،۳-معاویہ بن صالح سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے،۴-بعضوں نے یہ حدیث عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر سے،عبدالرحمٰن نے اپنے والد جبیر سے،جبیر نے عوف بن مالک سے اور عوف بن مالک نے بنی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ اسْتَأْذَنَّا النَّبِيَّ ﷺ فِي الْكِتَابَةِ فَلَمْ يَأْذَنْ لَنَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ أَيْضًا عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ رَوَاہُ ہَمَّامٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے (ابتداء اسلام میں) نبی اکرم ﷺ سے علم (حدیث) لکھ لینے کی اجازت طلب کی تو آپ نے ہمیں لکھنے کی اجازت نہ دی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی زید بن اسلم کے واسطہ سے آئی ہے،اور اسے ہمام نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ الْأَسَدِيُّ عَنْ أَبِي فَرْوَةَ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ الرَّجُلَانِ يَلْتَقِيَانِ أَيُّہُمَا يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ فَقَالَ أَوْلَاہُمَا بِاللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ مُحَمَّدٌ أَبُو فَرْوَةَ الرَّہَاوِيُّ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ إِلَّا أَنَّ ابْنَہُ مُحَمَّدَ بْنَ يَزِيدَ يَرْوِي عَنْہُ مَنَاكِيرَ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پوچھاگیا: اللہ کے رسول! جب دو آدمی آپس میں ملیں تو سلام کرنے میں پہل کون کرے؟ آپ نے فرمایا: ان دونوں میں سے جو اللہ کے زیادہ قریب ہے ۱ ؎۔(وہ پہل کرے گا) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابوفروہ رہاوی مقارب الحدیث ہیں،مگر ان کے بیٹے محمد بن یزید ان سے منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تَبْدَءُوا الْيَہُودَ وَالنَّصَارَی بِالسَّلَامِ وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَہُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوہُمْ إِلَی أَضْيَقِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہود ونصاریٰ کوسلام کرنے میں پہل نہ کرو،اور جب تمہاری ان کے کسی فرد سے راستے میں ملاقات ہوجائے تو اسے تنگ راستے سے ہی جانے پر مجبور کرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنَّ رَہْطًا مِنْ الْيَہُودِ دَخَلُوا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالُوا السَّامُ عَلَيْكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْكُمْ فَقَالَتْ عَائِشَةُ بَلْ عَلَيْكُمْ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللہَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّہِ قَالَتْ عَائِشَةُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قَالَ قَدْ قُلْتُ عَلَيْكُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُہَنِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہا: السّام علیک (تم پر موت و ہلاکت آئے)،نبی اکرم ﷺ نے جواب میں فرمایا:علیکم ۱؎،عائشہ نے (اس پر دولفظ بڑھاکر) کہا بل علیکم السام واللعنۃ (بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت ہو)۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں رفق،نرم روی اور ملائمیت کو پسند کرتاہے،عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا آپ نے سنانہیں؟ انہوں نے کیا کہا ہے؟۔آپ نے فرمایا: تبھی تو میں نے علیکم کہاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبصرہ غفاری،ابن عمر،انس اور ابوعبدالرحمٰن جہنی سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ أَقْبَلْتُ أَنَا وَصَاحِبَانِ لِي قَدْ ذَہَبَتْ أَسْمَاعُنَا وَأَبْصَارُنَا مِنْ الْجَہْدِ فَجَعَلْنَا نَعْرِضُ أَنْفُسَنَا عَلَی أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَقْبَلُنَا فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ فَأَتَی بِنَا أَہْلَہُ فَإِذَا ثَلَاثَةُ أَعْنُزٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ احْتَلِبُوا ہَذَا اللَّبَنَ بَيْنَنَا فَكُنَّا نَحْتَلِبُہُ فَيَشْرَبُ كُلُّ إِنْسَانٍ نَصِيبَہُ وَنَرْفَعُ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ نَصِيبَہُ فَيَجِيءُ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ اللَّيْلِ فَيُسَلِّمُ تَسْلِيمًا لَا يُوقِظُ النَّائِمَ وَيُسْمِعُ الْيَقْظَانَ ثُمَّ يَأْتِي الْمَسْجِدَ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَأْتِي شَرَابَہُ فَيَشْرَبُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دو دوست (مدینہ) آئے،فقروفاقہ اورجہد ومشقت کی بنا پر ہماری سماعت متاثر ہوگئی تھی ۱؎ اورہماری آنکھیں دھنس گئی تھیں،ہم نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے لگے لیکن ہمیں کسی نے قبول نہ کیا ۲؎،پھر ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے تو آپ ہمیں اپنے گھر لے آئے،اس وقت آپ کے پاس تین بکریاں تھیں۔آپ نے فرمایا: ان کا دودھ ہم سب کے لیے دو ہو،توہم دوہتے اور ہرشخص اپنا حصہ پیتا اور رسول اللہ ﷺ کا حصہ اٹھاکر رکھ دیتے،پھر رسول اللہ ﷺ رات میں تشریف لاتے اور اس انداز سے سلام کرتے تھے کہ سونے والا جاگ نہ اٹھے اور جاگنے والا سن بھی لے ۳؎،پھر آپ مسجد آتے صلاۃِتہجد پڑھتے پھرجاکر اپنے حصے کادودھ پیتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ قَال سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا صَلَّی رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَإِنْ كَانَتْ لَہُ إِلَيَّ حَاجَةٌ كَلَّمَنِي وَإِلَّا خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ الْكَلَامَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ حَتَّی يُصَلِّيَ صَلَاةَ الْفَجْرِ إِلَّا مَا كَانَ مِنْ ذِكْرِ اللہِ أَوْ مِمَّا لَا بُدَّ مِنْہُ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب فجر کی دورکعتیں پڑھ چکتے اوراگر آپ کو مجھ سے کوئی کام ہوتا تو(اس بارے میں) مجھ سے گفتگو فرمالیتے،ورنہ صلاۃ کے لیے نکل جاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے فجرکے طلوع ہونے بعدسے لے کر فجرپڑھنے تک گفتگو کرنا مکروہ قراردیا ہے،سوائے اس کے کہ وہ گفتگو ذکر الٰہی سے متعلق ہو یا بہت ضروری ہو،اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَال سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِ اللہِ بْنِ سَرْجِسَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہَكَذَا رَوَی أَيُّوبُ وَوَرْقَاءُ بْنُ عُمَرَ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ فَلَمْ يَرْفَعَاہُ وَالْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ أَصَحُّ عِنْدَنَا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ أَنْ لَا يُصَلِّيَ الرَّجُلُ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ رَوَاہُ عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ الْمِصْرِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب جماعت کھڑی ہوجائے ۱؎ تو فرض صلاۃ ۲؎ کے سوا کوئی صلاۃ(جائز) نہیں ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن ہے،۲-اسی طرح ایک دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابن بحینہ،عبداللہ بن عمرو،عبداللہ بن سرجس،ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اور حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ نے بھی عمرو بن دینار سے روایت کی ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے اور مرفوع حدیث ہی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے،۵-سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۶-اس کے علاوہ اور(ایک تیسری) سند سے بھی یہ حدیث بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔اورانہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے-(جیسے) عیاش بن عباس قتبانی مصری ابوسلمہ سے،اورابوسلمہ نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّہْرِ أَرْبَعًا وَبَعْدَہَا رَكْعَتَيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ قَالَ كُنَّا نَعْرِفُ فَضْلَ حَدِيثِ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَلَی حَدِيثِ الْحَارِثِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ يَخْتَارُونَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ قَبْلَ الظُّہْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَإِسْحَقَ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّہَارِ مَثْنَی مَثْنَی يَرَوْنَ الْفَصْلَ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد دورکعتیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عائشہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ہم سے ابوبکر عطار نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ نے یحییٰ بن سعید سے اوریحییٰ نے سفیان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ہم جانتے تھے کہ عاصم بن ضمرہ کی حدیث حارث (اعور) کی حدیث سے افضل ہے،۴-صحابہ کرام اور بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل کاعمل اسی پر ہے۔وہ پسندکرتے ہیں کہ آدمی ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے۔اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،اسحاق بن راہویہ اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ دن اور رات (دونوں)کی صلاتیں دو دو رکعتیں ہیں،وہ ہردورکعت کے بعد فصل کرنے کے قائل ہیں شافعی اور احمدبھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ إِسْحَقَ ہُوَ السَّالَحِينِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تَقْرَأُ وَأَنْتَ تَخْفِضُ مِنْ صَوْتِكَ فَقَالَ إِنِّي أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَيْتُ قَالَ ارْفَعْ قَلِيلًا وَقَالَ لِعُمَرَ مَرَرْتُ بِكَ وَأَنْتَ تَقْرَأُ وَأَنْتَ تَرْفَعُ صَوْتَكَ قَالَ إِنِّي أُوقِظُ الْوَسْنَانَ وَأَطْرُدُ الشَّيْطَانَ قَالَ اخْفِضْ قَلِيلًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ ہَانِئٍ وَأَنَسٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِنَّمَا أَسْنَدَہُ يَحْيَی بْنُ إِسْحَقَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَأَكْثَرُ النَّاسِ إِنَّمَا رَوَوْا ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَبَاحٍ مُرْسَلًا

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں (تہجدکے وقت) تمہارے پاس سے گزرا،تم قرآن پڑھ رہے تھے،تمہاری آوازکچھ دھیمی تھی؟ کہا:میں توصرف اسے سنارہاتھا جس سے میں مناجات کررہاتھا۔(یعنی اللہ کو)آپ نے فرمایا:اپنی آواز کچھ بلند کرلیاکرو،اور عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں تمہارے پاس سے گزرا،تم قرآن پڑھ رہے تھے،تمہاری آواز بہت اونچی تھی؟،کہا: میں سوتوں کو جگاتا اور شیطان کو بھگارہاتھا۔آپ نے فرمایا: تم اپنی آواز تھوڑی دھیمی کرلیا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ام ہانی،انس،ام سلمہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اسے یحییٰ بن اسحاق نے حمادبن سلمہ سے مسندکیا ہے اورزیادہ ترلوگوں نے یہ حدیث ثابت سے اورثابت نے عبداللہ بن رباح سے مرسلاًروایت کی ہے۔(یعنی:ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کاذکرنہیں کیاہے)

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيِّ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَامَ النَّبِيُّ ﷺ بِآيَةٍ مِنْ الْقُرْآنِ لَيْلَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک رات قرآن کی صرف ایک ہی آیت کھڑے پڑھتے رہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْہِ قَالاَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ،حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ،عَنْ ثُوَيْرٍ،عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ قُبَاءَ،عَنْ أَبِيہِ،وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:أَمَرَنَا النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نَشْہَدَ الْجُمُعَةَ مِنْ قُبَاءَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا وَلاَ يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُہُ إِلاَّ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ،وَلاَ يَصِحُّ فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ:الْجُمُعَةُ عَلَی مَنْ آوَاہُ اللَّيْلُ إِلَی أَہْلِہِ. وَہَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُہُ ضَعِيفٌ،إِنَّمَا يُرْوَی مِنْ حَدِيثِ مُعَارِكِ بْنِ عَبَّادٍ عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ،وَضَعَّفَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَبْدَاللہِ بْنَ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ فِي الْحَدِيثِ. فَقَالَ: وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ عَلَی مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ. قَالَ بَعْضُہُمْ: تَجِبُ الْجُمُعَةُ عَلَی مَنْ آوَاہُ اللَّيْلُ إِلَی مَنْزِلِہِ. وَقَالَ بَعْضُہُمْ: لاَ تَجِبُ الْجُمُعَةُ إِلاَّ عَلَی مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ. وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ

اہل قباء میں سے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتاہے-اس کے والد صحابہ میں سے ہیں-وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں حکم دیاکہ ہم قباء سے آکرجمعہ میں شریک ہوں۔اس سلسلے میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے،وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں،لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،اوراس باب میں نبی اکرمﷺسے مروی کوئی چیزصحیح نہیں ہے،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جمعہ اس پر فرض ہے جو رات کو اپنے گھروالوں تک پہنچ سکے،اس حدیث کی سند ضعیف ہے،یہ حدیث معارک بن عبادسے روایت کی جاتی ہے اورمعارک عبد اللہ بن سعید مقبری سے روایت کرتے ہیں،یحییٰ بن سعیدقطان نے عبداللہ بن سعیدمقبری کی حدیث کی تضعیف کی ہے،۳-اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ جمعہ کس پرواجب ہے،بعض کہتے ہیں: جمعہ اس شخص پرواجب ہے جو رات کو اپنے گھر پہنچ سکے اوربعض کہتے ہیں: جمعہ صرف اسی پرواجب جس نے اذان سنی ہو،شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔

سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ،فَذَكَرُوا عَلَی مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ،فَلَمْ يَذْكُرْ أَحْمَدُ فِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا،قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: فَقُلْتُ لأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ: فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ،فَقَالَ أَحْمَدُ: عَنْ النَّبِيِّ ﷺ،قُلْتُ: نَعَمْ،قَالَ أَحْمَدُ ابْنُ الْحَسَنِ،حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ،حَدَّثَنَا مُعَارِكُ بْنُ عَبَّادٍ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:الْجُمُعَةُ عَلَی مَنْ آوَاہُ اللَّيْلُ إِلَی أَہْلِہِ. قَالَ: فَغَضِبَ عَلَيَّ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ،وَقَالَ لِي: اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ،اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: إِنَّمَا فَعَلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ہَذَا لأَنَّہُ لَمْ يَعُدَّ ہَذَا الْحَدِيثَ شَيْئًا،وَضَعَّفَہُ لِحَالِ إِسْنَادِہِ

میں نے احمدبن حسن کوکہتے سناکہ ہم لوگ احمد بن حنبل کے پاس تھے تولوگوں نے ذکرکیاکہ جمعہ کس پر واجب ہے؟ تو امام احمدنے اس سلسلے میں نبی اکرمﷺسے کوئی چیز ذکرنہیں کی،احمدبن حسن کہتے ہیں:تو میں نے احمدبن حنبل سے کہا: اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،تو امام احمد نے پوچھاکیا نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے؟ میں نے کہا: ہاں(نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے)،پھر احمدبن حسن نے حجاج بن نصیرعن معارک بن عبادعنعبد اللہ بن سعیدمقبری عن سعیدالمقبری عن أبی ہریرۃ عن النبیﷺ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جمعہ اس پر واجب ہے جو رات کواپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آسکے،احمدبن حسن کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل مجھ پر غصہ ہوئے اورمجھ سے کہا: اپنے رب سے استغفارکرو،اپنے رب سے استغفارکرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: احمدبن حنبل نے ایسااس لیے کیا کہ انہو ں نے اس حدیث کوکوئی حیثیت نہیں دی اوراسے کسی شمارمیں نہیں رکھا،سندکی وجہ سے اسے ضعیف قراردیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُكَلَّمُ بِالْحَاجَةِ إِذَا نَزَلَ عَنْ الْمِنْبَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ وَہِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَأَخَذَ رَجُلٌ بِيَدِ النَّبِيِّ ﷺ فَمَا زَالَ يُكَلِّمُہُ حَتَّی نَعَسَ بَعْضُ الْقَوْمِ قَالَ مُحَمَّدٌ وَالْحَدِيثُ ہُوَ ہَذَا وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ رُبَّمَا يَہِمُ فِي الشَّيْءِ وَہُوَ صَدُوقٌ قَالَ مُحَمَّدٌ وَہِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي حَدِيثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّی تَرَوْنِي قَالَ مُحَمَّدٌ وَيُرْوَی عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ فَحَدَّثَ حَجَّاجٌ الصَّوَّافُ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّی تَرَوْنِي فَوَہِمَ جَرِيرٌ فَظَنَّ أَنَّ ثَابِتًا حَدَّثَہُمْ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺضرورت کی بات اس وقت کرتے جب آپ منبرسے اترتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف جریربن حازم کی روایت سے جانتے ہیں،اورمیں نے محمدبن اسماعیل بخاری کوکہتے سناکہ جریربن حازم کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے،اورصحیح وہی ہے جوبطریق: ثابت،عن أنس مروی ہے،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صلاۃ کھڑی ہوئی اورایک آدمی نے نبی اکرمﷺکاہاتھ پکڑاتوآپ برابراس سے گفتگوکرتے رہے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: حدیث یہی ہے،اور جریر کوکبھی کبھی وہم ہوجاتاہے حالانکہ وہ صدوق ہیں۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ جریربن حازم کو ثابت کی حدیث میں (بھی) جسے ثابت نے انس سے اورانس نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے وہم ہواہے (جو یہ ہے کہ) آپ نے فرمایا: جب صلاۃ کھڑی ہوجائے توتم اس وقت تک نہ کھڑے ہوجب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: نیزحمادبن زید سے روایت کی جاتی ہے کہ ہم لوگ ثابت بنانی کے پاس تھے،اورحجاج صواف نے یحیی ابن ابی کثیرکے واسطہ سے حدیث بیان کی،جسے یحیی نے عبد اللہ بن ابوقتادہ سے اورعبداللہ نے اپنے والدابوقتادہ سے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:جب صلاۃ کھڑی ہوجائے توتم کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو چنانچہ جریرکو وہم ہوا،انہیں گمان ہواکہ ثابت نے ان سے بیان کیا ہے اورثابت نے انس سے اور انس نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ بَعْدَ مَا تُقَامُ الصَّلَاةُ يُكَلِّمُہُ الرَّجُلُ يَقُومُ بَيْنَہُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ فَمَا يَزَالُ يُكَلِّمُہُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَنَا يَنْعَسُ مِنْ طُولِ قِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صلاۃ کھڑی ہوجانے کے بعدمیں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپ سے ایک آدمی باتیں کررہا ہے،اور آپ اس کے اورقبلے کے درمیان کھڑے ہیں،آپ برابراس سے گفتگوکرتے رہے،میں نے دیکھا کہ نبی اکرمﷺ کے طول قیام کی وجہ سے بعض لوگ اونگھ رہے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَيْضًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کے بعد دورکعت (سنت)پڑھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-یہ حدیث بطریق نافع عن ابن عمر ہے،۴-اسی پربعض اہل علم کاعمل ہے،اوریہی شافعی اور احمدبھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ كَانَ إِذَا صَلَّی الْجُمُعَةَ انْصَرَفَ فَصَلَّی سَجْدَتَيْنِ فِي بَيْتِہِ ثُمَّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَصْنَعُ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

نافع سے روایت ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما جب جمعہ پڑھ لیتے تو(گھر) واپس آتے اور دورکعت اپنے گھر میں پڑھتے پھرکہتے رسول اللہﷺ ایساہی کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُصَلِّيًا بَعْدَ الْجُمُعَةِ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ كُنَّا نَعُدُّ سُہَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ ثَبْتًا فِي الْحَدِيثِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا وَبَعْدَہَا أَرْبَعًا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّہُ أَمَرَ أَنْ يُصَلَّی بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَرْبَعًا وَذَہَبَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَی قَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ و قَالَ إِسْحَقُ إِنْ صَلَّی فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ صَلَّی أَرْبَعًا وَإِنْ صَلَّی فِي بَيْتِہِ صَلَّی رَكْعَتَيْنِ وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِہِ وَحَدِيثُ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُصَلِّيًا بَعْدَ الْجُمُعَةِ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَابْنُ عُمَرَ ہُوَ الَّذِي رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِہِ وَابْنُ عُمَرَ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ صَلَّی فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّی بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ أَرْبَعًا حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ صَلَّی بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّی بَعْدَ ذَلِكَ أَرْبَعًا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَنَصَّ لِلْحَدِيثِ مِنْ الزُّہْرِيِّ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا الدَّنَانِيرُ وَالدَّرَاہِمُ أَہْوَنُ عَلَيْہِ مِنْہُ إِنْ كَانَتْ الدَّنَانِيرُ وَالدَّرَاہِمُ عِنْدَہُ بِمَنْزِلَةِ الْبَعْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ قَال سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ كَانَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَسَنَّ مِنْ الزُّہْرِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوتم میں سے جمعہ کے بعد صلاۃ پڑھے توچاہئے کہ چار رکعت پڑھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،۳-نیزعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ وہ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعدبھی چار رکعتیں پڑھتے تھے،۴-اورعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے حکم دیا کہ جمعہ کے بعد پہلے دو پھر چار رکعتیں پڑھی جائیں،۵-سفیان ثوری اور ابن مبارک بھی ابن مسعود کے قول کی طرف گئے ہیں،۶-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جمعہ کے دن اگرمسجد میں پڑھے تو چار رکعتیں اوراگراپنے گھر میں پڑھے تو دورکعتیں پڑھے،ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کے بعد دورکعتیں اپنے گھرمیں پڑھتے تھے۔اور نبی اکرمﷺ کی (یہ بھی) حدیث ہے کہ تم میں سے جو کوئی جمعہ کے بعد صلاۃ پڑھے تو چار رکعتیں پڑھے،۷-ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی ہیں جنہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ جمعہ کے بعد دورکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خود نبی اکرمﷺ کے بعدمسجدمیں جمعہ کے بعد دورکعتیں پڑھیں اور دورکعتوں کے بعد چار رکعتیں پڑھیں۔عطاسے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کودیکھاکہ انہوں نے جمعہ کے بعد دورکعتیں پڑھیں۔اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ صَحِبْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَہْرَا فَمَا رَأَيْتُہُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ إِذَا زَاغَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ الظُّہْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْہُ فَلَمْ يَعْرِفْہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ وَرَآہُ حَسَنًا وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لَا يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَہَا وَرُوِيَ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ ثُمَّ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَرَأَی بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنْ يَتَطَوَّعَ الرَّجُلُ فِي السَّفَرِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَلَمْ تَرَ طَائِفَةٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلَّی قَبْلَہَا وَلَا بَعْدَہَا وَمَعْنَی مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ قَبُولُ الرُّخْصَةِ وَمَنْ تَطَوَّعَ فَلَہُ فِي ذَلِكَ فَضْلٌ كَثِيرٌ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ التَّطَوُّعَ فِي السَّفَرِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ اٹھارہ مہینے رہا۔لیکن میں نے سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے کی دونوں رکعتیں کبھی بھی آپ کو چھوڑتے نہیں دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-براء رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تووہ اسے صرف لیث بن سعدہی کی روایت سے جان سکے اور وہ ابوبسرہ غفاری کا نام نہیں جان سکے اور انہوں نے اِسے حسن جانا ۱؎،۳-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۴-ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ سفر میں نہ صلاۃ سے پہلے نفل پڑھتے تھے اورنہ اس کے بعد ۲؎،۵-اور ابن عمرہی سے مروی ہے وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ سفر میں نفل پڑھتے تھے ۳؎،۶-پھر نبی اکرمﷺ کے بعد اہل علم میں اختلاف ہوگیا،بعض صحابہ کرام کی رائے ہوئی کہ آدمی نفل پڑھے،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۷-اہل علم کے ایک گروہ کی رائے نہ صلاۃ سے پہلے کوئی نفل پڑھنے کی ہے اور نہ صلاۃ کے بعد۔سفرمیں جولوگ نفل نہیں پڑھتے ہیں ان کامقصودرخصت کوقبول کرناہے اور جو نفل پڑھے تو اس کی بڑی فضیلت ہے۔یہی اکثر اہل علم کا قول ہے وہ سفرمیں نفل پڑھنے کو پسندکرتے ہیں ۴؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الظُّہْرَ فِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَہَا رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ ابْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَطِيَّةَ وَنَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ سفر میں ظہر کی دورکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دورکعتیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابن ابی لیلیٰ نے یہ حدیث عطیہ اور نافع سے روایت کی ہے اور ان دونوں نے ابن عمر سے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ يَعْنِي الْكُوفِيَّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ہَاشِمٍ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَطِيَّةَ وَنَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ فَصَلَّيْتُ مَعَہُ فِي الْحَضَرِ الظُّہْرَ أَرْبَعًا وَبَعْدَہَا رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْتُ مَعَہُ فِي السَّفَرِ الظُّہْرَ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَہَا رَكْعَتَيْنِ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ وَلَمْ يُصَلِّ بَعْدَہَا شَيْئًا وَالْمَغْرِبَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ سَوَاءً ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ لَا تَنْقُصُ فِي الْحَضَرِ وَلَا فِي السَّفَرِ ہِيَ وِتْرُ النَّہَارِ وَبَعْدَہَا رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ مَا رَوَی ابْنُ أَبِي لَيْلَی حَدِيثًا أَعْجَبَ إِلَيَّ مِنْ ہَذَا وَلَا أَرْوِي عَنْہُ شَيْئًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضر اور سفردونوں میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی،میں نے آپ کے ساتھ حضر میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں،اور اس کے بعد دورکعتیں،اورسفر میں آپ کے ساتھ ظہر کی دورکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دورکعتیں اور عصر کی دورکعتیں،اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں پڑھی۔اور مغرب کی سفر وحضر دونوں ہی میں تین رکعتیں پڑھیں۔نہ حضر میں کوئی کمی کی نہ سفر میں،یہ دن کی وتر ہے اور اس کے بعد دورکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ ابن ا بی لیلیٰ نے کوئی ایسی حدیث روایت نہیں کی جومیرے نزدیک اس سے زیادہ تعجب خیزہو،میں ان کی کوئی روایت نہیں لیتا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ صَلَّی فِي كُسُوفٍ فَقَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَالْأُخْرَی مِثْلُہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَأَبِي مَسْعُودٍ وَأَبِي بَكْرَةَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنِ عُمَرَ وَقَبِيصَةَ الْہِلَالِيِّ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ صَلَّی فِي كُسُوفٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الْكُسُوفِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُسِرَّ بِالْقِرَاءَةِ فِيہَا بِالنَّہَارِ وَرَأَی بَعْضُہُمْ أَنْ يَجْہَرَ بِالْقِرَاءَةِ فِيہَا كَنَحْوِ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ وَالْجُمُعَةِ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَرَوْنَ الْجَہْرَ فِيہَا و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا يَجْہَرُ فِيہَا وَقَدْ صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ صَحَّ عَنْہُ أَنَّہُ صَلَّی أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ وَصَحَّ عَنْہُ أَيْضًا أَنَّہُ صَلَّی سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ وَہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ جَائِزٌ عَلَی قَدْرِ الْكُسُوفِ إِنْ تَطَاوَلَ الْكُسُوفُ فَصَلَّی سِتَّ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ فَہُوَ جَائِزٌ وَإِنْ صَلَّی أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ وَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ فَہُوَ جَائِزٌ وَيَرَی أَصْحَابُنَا أَنْ تُصَلَّی صَلَاةُ الْكُسُوفِ فِي جَمَاعَةٍ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے سورج گرہن کی صلاۃ پڑھی تو آپ نے قرأت کی،پھر رکوع کیا،پھرقرأت کی پھر رکوع کیا،پھر قرأت کی پھر رکوع کیا،تین بارقرأت کی اورتین باررکوع کیا،پھر دوسجدے کئے،اور دوسری رکعت بھی اسی طرح تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،عائشہ،عبداللہ بن عمرو،نعمان بن بشیر،مغیرہ بن شعبہ،ابومسعود،ابوبکرہ،سمرہ،ابوموسیٰ اشعری،ابن مسعود،اسما ء بنت ابی بکر صدیق،ابن عمر،قبیصہ ہلالی،جابر بن عبداللہ،عبدالرحمٰن بن سمرہ،اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی اکرمﷺ سے یوں بھی روایت کی ہے کہ آپ نے سورج گرہن کی صلاۃ میں چار سجدوں میں چاررکوع کیے،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۴-سورج گرہن کی صلاۃ میں اہل علم کا اختلاف ہے: بعض اہل علم کی رائے ہے کہ دن میں قرأت سری کرے گا۔بعض کی رائے ہے کہ عیدین اور جمعہ کی طرح اس میں بھی جہری قرأت کرے گا۔یہی مالک،احمداور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں جہری قرأت کرے۔اورشافعی کہتے ہیں کہ جہر نہیں کرے گا۔اورنبی اکرمﷺ سے دونوں ہی قسم کی احادیث آئی ثابت ہیں۔آپ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے چار سجدوں میں چار رکوع کیے۔اوریہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے چارسجدوں میں چھ رکوع کیے۔اوریہ اہل علم کے نزدیک گرہن کی مقدارکے مطابق ہے اگر گرہن لمبا ہوجائے توچار سجدوں میں چھ رکو ع کرے،یہ بھی جائز ہے،اور اگر چار سجدوں میں چار ہی رکوع کرے اور قرأت لمبی کردے تو بھی جائز ہے،ہمارے اصحاب الحدیث کا خیال ہے کہ گرہن کی صلاۃ جماعت کے ساتھ پڑھے خواہ گرہن سورج کاہویاچاندکا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَصَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالنَّاسِ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ ہِيَ دُونَ الْأُولَی ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَہُوَ دُونَ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَسَجَدَ ثُمَّ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبِہَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَرَوْنَ صَلَاةَ الْكُسُوفِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ قَالَ الشَّافِعِيُّ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَی بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَنَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ سِرًّا إِنْ كَانَ بِالنَّہَارِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِہِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ بِتَكْبِيرٍ وَثَبَتَ قَائِمًا كَمَا ہُوَ وَقَرَأَ أَيْضًا بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَنَحْوًا مِنْ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِہِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ تَامَّتَيْنِ وَيُقِيمُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ نَحْوًا مِمَّا أَقَامَ فِي رُكُوعِہِ ثُمَّ قَامَ فَقَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ وَنَحْوًا مِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِہِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ بِتَكْبِيرٍ وَثَبَتَ قَائِمًا ثُمَّ قَرَأَ نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْمَائِدَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَتِہِ ثُمَّ رَفَعَ فَقَالَ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ تَشَہَّدَ وَسَلَّمَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا توآپﷺ نے لوگوں کو صلاۃ پڑھائی،اور لمبی قرأت فرمائی،پھرآپ نے رکوع کیا تو رکوع بھی لمبا کیا،پھر اپنا سر اٹھا یا اور لمبی قرأت فرمائی،یہ پہلی قرأت سے کم تھی،پھر رکوع کیا اور لمبا رکوع کیا اور یہ پہلے رکوع سے ہلکا تھا،پھر اپنا سر اٹھا یا اور سجدہ کیا پھر اسی طرح دوسری رکعت میں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی حدیث کی بناء پر کہتے ہیں کہ گرہن کی صلاۃ میں چارسجدوں میں چار رکوع ہے۔شافعی کہتے ہیں: پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھے اورسورہ بقرہ کے بقدر،اگردن ہوتوسرّی قرأت کرے،پھر قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے۔پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اٹھائے۔اور کھڑارہے جیسے پہلے کھڑا تھا اور سورہ ٔ فاتحہ پڑھے اور آل عمران کے بقدرقرأت کرے پھراپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے،پھر سراٹھائے۔پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہے۔پھر اچھی طرح دوسجدے کرے۔اور ہرسجدے میں اسی قدرٹھہرے جتنا رکوع میں ٹھہرا تھا۔پھر کھڑا ہواورسورہ فاتحہ پڑھے اورسورہ ٔ نساء کے بقدرقرأت کرے پھر اپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنا سر اٹھا ئے اور سیدھا کھڑا ہو،پھر سورۂ مائدہ کے برابرقرأت کرے۔پھراپنی قرأت کے برابر لمبا رکوع کرے،پھر سرا ٹھائے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہے،پھر دوسجدے کرے پھر تشہد پڑھے اورسلام پھیر دے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ عِبَادٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ صَلَّی بِنَا النَّبِيُّ ﷺ فِي كُسُوفٍ لَا نَسْمَعُ لَہُ صَوْتًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں گرہن کی صلاۃ پڑھائی توہم آپ کی آوازنہیں سن پارہے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ صَدَقَةَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی صَلَاةَ الْكُسُوفِ وَجَہَرَ بِالْقِرَاءَةِ فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاہُ أَبُو إِسْحَقَ الْفَزَارِيُّ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ نَحْوَہُ وَبِہَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے گرہن کی صلاۃ پڑھی اور اس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابواسحاق فزاری نے بھی اسے سفیان بن حسین سے اسی طرح روایت کیا ہے،۳-اوراسی حدیث کے مطابق مالک بن انس،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَلْحَظُ فِي الصَّلاَةِ يَمِينًا وَشِمَالاً وَلاَ يَلْوِي عُنُقَہُ خَلْفَ ظَہْرِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ خَالَفَ وَكِيعٌ الْفَضْلَ بْنَ مُوسَی فِي رِوَايَتِہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ صلاۃ میں (گردن موڑے بغیر) ترچھی نظر سے دائیں اور بائیں دیکھتے تھے اور اپنی گردن اپنی پیٹھ کے پیچھے نہیں پھیرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-وکیع نے اپنی روایت میں فضل بن موسیٰ کی مخالفت کی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ عِكْرِمَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَلْحَظُ فِي الصَّلاَةِ فَذَكَرَ نَحْوَہُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ،وَعَائِشَةَ

عکرمہ کے ایک شاگرد سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ صلاۃ میں ترچھی نظرسے دیکھتے تھے۔آگے انہوں نے اسی طرح کی حدیث ذکرکی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں انس اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا بُنَيَّ إِيَّاكَ وَالِالْتِفَاتَ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّ الِالْتِفَاتَ فِي الصَّلَاةِ ہَلَكَةٌ فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ فَفِي التَّطَوُّعِ لَا فِي الْفَرِيضَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: اے میرے بیٹے! صلاۃ میں اِدھر اُدھر (گردن موڑکر) دیکھنے سے بچو،صلاۃ میں گردن موڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنا ہلاکت ہے،اگردیکھناضروری ہی ٹھہرے تو نفل صلاۃ میں دیکھو،نہ کہ فرض میں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلَاةِ قَالَ ہُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُہُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے صلاۃ میں اِدھر اُدھر (گردن موڑکر) دیکھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا: یہ تو اچک لینا ہے،شیطان آدمی کی صلاۃ اچک لیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ الْبَغْدَادِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ الزُّبَيْرِيُّ ہُوَ مِنْ وَلَدِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: أَمَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے محلوں میں مسجد بنانے،انہیں صاف رکھنے اور خوشبو سے بسانے کا حکم دیاہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ وَوَكِيعٌ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ:أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ فَذَكَرَ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ

اس سندسے بھی ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے حکم دیا،پھر آگے اسی طرح کی حدیث انہوں نے ذکر کی ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ: أَنْ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ فَذَكَرَ نَحْوَہُ. و قَالَ سُفْيَانُ: قَوْلُہُ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ يَعْنِي الْقَبَائِلَ

اس سند سے بھی ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حکم دیا،آگے اسی طرح کی حدیث انہوں نے ذکرکی۔ سفیان کہتے ہیں:دُوریامحلوں میں مسجدیں بنانے سے مراد قبائل میں مسجدیں بنانا ہے

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي طُہُورِہِ إِذَا تَطَہَّرَ وَفِي تَرَجُّلِہِ إِذَا تَرَجَّلَ وَفِي انْتِعَالِہِ إِذَا انْتَعَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُہُ سُلَيْمُ بْنُ أَسْوَدَ الْمُحَارِبِيُّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺجب وضو کرتے تواپنی وضومیں اور جب کنگھی کرتے تو کنگھی کرنے میں اور جب جوتا پہنتے تو جوتاپہنے میں داہنے (سے شروع کرنے) کوپسندفرماتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا أَدَّيْتَ زَكَاةَ مَالِكَ فَقَدْ قَضَيْتَ مَا عَلَيْكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ أَنَّہُ ذَكَرَ الزَّكَاةَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ ہَلْ عَلَيَّ غَيْرُہَا فَقَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَتَطَوَّعَ وَابْنُ حُجَيْرَةَ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُجَيْرَةَ الْمَصْرِيُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم نے اپنے مال کی زکاۃ اداکردی توجوتمہارے ذمہ فریضہ تھا اُسے تم نے اداکردیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺ سے دوسری اورسندوں سے بھی مروی ہے کہ آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا،تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں سوائے اس کے کہ تم بطور نفل کچھ دو (یہ حدیث آگے آرہی ہے)۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كُنَّا نَتَمَنَّی أَنْ يَأْتِيَ الْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ ﷺ وَنَحْنُ عِنْدَہُ فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ أَتَاہُ أَعْرَابِيٌّ فَجَثَا بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللہَ أَرْسَلَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ آللہُ أَرْسَلَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللہُ أَمَرَكَ بِہَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَہْرٍ فِي السَّنَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللہُ أَمَرَكَ بِہَذَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللہُ أَمَرَكَ بِہَذَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَی الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْہِ سَبِيلًا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ نَعَمْ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللہُ أَمَرَكَ بِہَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ نَعَمْ فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْہُنَّ شَيْئًا وَلَا أُجَاوِزُہُنَّ ثُمَّ وَثَبَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِقْہُ ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْقِرَاءَةَ عَلَی الْعَالِمِ وَالْعَرْضَ عَلَيْہِ جَائِزٌ مِثْلُ السَّمَاعِ وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْأَعْرَابِيَّ عَرَضَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَأَقَرَّ بِہِ النَّبِيُّ ﷺ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقل مند اعرابی (دیہاتی) آئے اورنبی اکرم ﷺ سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اورآپﷺ کے سامنے دوزانوہوکربیٹھ گیا۔اورپوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اوراس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہاں،یہ صحیح ہے،اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان بلند کیا،زمین اور پہاڑ نصب کئے۔کیا اللہ نے آپ کو رسول بناکر بھیجا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہاں،اس نے کہا: آپ کا قاصد ہم سے کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر دن اور رات میں پانچ صلاۃ فرض ہیں(کیا ایسا ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہاں،اس نے کہا:قسم ہے اس ذات کی،جس نے آپ کو رسول بنایا ہے! کیا آپ کو اللہ نے اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں،اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر سال میں ایک ماہ کے صیام فرض ہیں(کیا یہ صحیح ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہاں وہ(سچ کہہ رہا ہے) اعرابی نے مزید کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بناکربھیجاہے کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہاں(دیاہے)،اس نے کہا: آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم پر ہمارے مالوں میں زکاۃ واجب ہے(کیا یہ صحیح ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا:ہاں (اس نے سچ کہا)۔اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی،جس نے آپ کو رسول بناکربھیجاہے،کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیاہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہاں،(دیاہے) اس نے کہا:آپ کا قاصد کہتاہے کہ آپ فرماتے ہیں: ہم میں سے ہر اس شخص پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہو(کیا یہ سچ ہے؟)،نبی اکرمﷺنے فرمایا: ہاں،(حج فرض ہے) اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجاہے،کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ہاں (دیا ہے) تو اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا: میں ان میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا اور نہ میں اس میں کسی چیز کا اضافہ کروں گا ۳؎،پھریہ کہہ کر وہ واپس چل دیاتب نبی اکرمﷺنے فرمایا: اگر اعرابی نے سچ کہا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،اوراس سندکے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو سنا: وہ کہہ رہے تھے کہ بعض اہل علم فرماتے ہیں: اس حدیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ شاگرد کا استاذ کو پڑھ کرسنانا استاذ سے سننے ہی کی طرح ہے۴؎ انہوں نے استدلال اس طرح سے کیا ہے کہ اعرابی نے نبی اکرمﷺ کومعلومات پیش کیں تونبی اکرمﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَدْ عَفَوْتُ عَنْ صَدَقَةِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَہَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْہَمًا دِرْہَمًا وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيہَا خَمْسَةُ دَرَاہِمَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُہُمَا عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ كِلَاہُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ يُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ رُوِيَ عَنْہُمَا جَمِيعًا

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے گھوڑوں اور غلاموں کی زکاۃ معاف کردی ہے ۱؎ تو اب تم چاندی کی زکاۃ اداکرو۲؎،ہرچالیس درہم پر ایک درہم،ایک سونوے درہم میں کچھ نہیں ہے،جب دوسو درہم ہوجائیں تو ان میں پانچ درہم ہیں ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اعمش اورابوعوانہ،وغیرہم نے بھی یہ حدیث بطریق: أَبِی إِسْحَاقَ،عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَۃَ،عَنْ عَلِیٍّ روایت کی ہے،اور سفیان ثوری،سفیان بن عیینہ اور دیگرکئی لوگوں نے بھی بطریق: أَبِی إِسْحَاقَ،عَنِ الْحَارِثِ،عَنْ عَلِیٍّ روایت کی ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ابواسحاق سبیعی سے مروی یہ دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں،احتمال ہے کہ یہ حارث اور عاصم دونوں سے ایک ساتھ روایت کی گئی ہو(توابواسحاق نے اسے دونوں سے روایت کیاہو)۳-اس باب میں ابوبکر صدیق اور عمروبن حزم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ،وَقَالَ عَلِيٌّ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ (وَالْمَعْنَی وَاحِدٌ) عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَہُ مَا يُغْنِيْہِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَسْأَلَتُہُ فِي وَجْہِہِ خُمُوشٌ،أَوْ خُدُوشٌ،أَوْ كُدُوحٌ. قِيلَ: يَارَسُولَ اللہِ! وَمَا يُغْنِيہِ قَالَ:خَمْسُونَ دِرْہَمًا أَوْ قِيمَتُہَا مِنْ الذَّہَبِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ مِنْ أَجْلِ ہَذَا الْحَدِيثِ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: جو لوگوں سے سوال کرے اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اُسے سوال کرنے سے بے نیازکردے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا سوال کرنا اس کے چہرے پر خراش ہوگی ۱؎،عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کتنے مال سے وہ سوال کرنے سے بے نیازہوجاتاہے؟ آپ نے فرمایا: پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن مسعود کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے،۳-شعبہ نے اسی حدیث کی وجہ سے حکیم بن جبیر پرکلام کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ بِہَذَا الْحَدِيثِ. فَقَالَ لَہُ عَبْدُاللہِ بْنُ عُثْمَانَ صَاحِبُ شُعْبَةَ: لَوْ غَيْرُ حَكِيمٍ حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِيثِ. فَقَالَ لَہُ سُفْيَانُ: وَمَا لِحَكِيمٍ لاَ يُحَدِّثُ عَنْہُ شُعْبَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالَ سُفْيَانُ: سَمِعْتُ زُبَيْدًا يُحَدِّثُ بِہَذَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِنَا. وَبِہِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُاللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. قَالُوا: إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ خَمْسُونَ دِرْہَمًا،لَمْ تَحِلَّ لَہُ الصَّدَقَةُ. قَالَ: وَلَمْ يَذْہَبْ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی حَدِيثِ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ. وَوَسَّعُوا فِي ہَذَا وَقَالُوا: إِذَا كَانَ عِنْدَہُ خَمْسُونَ دِرْہَمًا أَوْ أَكْثَرُ،وَہُوَ مُحْتَاجٌ،فَلَہُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ الزَّكَاةِ،وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِہِ مِنْ أَہْلِ الْفِقْہِ وَالْعِلْمِ.

سفیان نے بھی حکیم بن جبیرسے یہ حدیث اسی سند سے روایت کی ہے۔ جب سفیان نے یہ حدیث روایت کی تو ان سے شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے کہا: کاش حکیم کے علاوہ کسی اورنے اس حدیث کوبیان کیا ہوتا،توسفیان نے ان سے پوچھاـ: کیا بات ہے کہ شعبہ حکیم سے حدیث روایت نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: ہاں،وہ نہیں کرتے۔تو سفیان نے کہا: میں نے اسے زبید کومحمد بن عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کرتے سناہے،اوراسی پر ہمارے بعض اصحاب کاعمل ہے اوریہی سفیان ثوری،عبداللہ بن مبارک،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب آدمی کے پاس پچاس درہم ہوں تو اس کے لئے زکاۃ جائز نہیں۔اوربعض اہل علم حکیم بن جبیر کی حدیث کی طرف نہیں گئے ہیں بلکہ انہوں نے اس میں مزید گنجائش رکھی ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب کسی کے پاس پچاس درہم یا اس سے زیادہ ہوں اور وہ ضرورت مند ہو تو اس کو زکاۃ لینے کا حق ہے،اہل فقہ واہل حدیث میں سے شافعی وغیرہ کایہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ عَمِّہَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَی تَمْرٍ فَإِنَّہُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّہُ طَہُورٌ و قَالَ الصَّدَقَةُ عَلَی الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ وَہِيَ عَلَی ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالرَّبَابُ ہِيَ أُمُّ الرَّائِحِ بِنْتُ صُلَيْعٍ وَہَكَذَا رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ الرَّبَابِ وَحَدِيثُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ عُيَيْنَةَ أَصَحُّ وَہَكَذَا رَوَی ابْنُ عَوْنٍ وَہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ

سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی صیام افطارکرے تو کھجور سے افطارکرے،کیونکہ اس میں برکت ہے،اگرکھجور میسر نہ ہوتو پانی سے افطارکرے وہ نہایت پاکیزہ چیز ہے،نیز فرمایا: مسکین پر صدقہ،صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ میں دوبھلائیاں ہیں،یہ صدقہ بھی ہے اورصلہ رحمی بھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سلمان بن عامر کی حدیث حسن ہے،۲-سفیان ثوری نے بھی عاصم سے بطریق: حفصۃ بنت سیرین،عن الرباب،عن سلمان بن عامر،عن النبی ﷺ اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۳-نیز شعبہ نے بطریق: عاصم،عن حفصۃ،عن سلمان بن عامر روایت کی ہے اوراس میں انہوں نے رباب کا ذکر نہیں کیاہے،۴-سفیان ثوری اور ابن عیینہ کی حدیث ۱؎ زیادہ صحیح ہے،۵-اسی طرح ابن عون اورہشام بن حسان نے بھی بطریق: حفصۃ،عن الرباب،عن سلمان بن عامر روایت کی ہے،۶-اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب،جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِہِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ فَرَخَّصَ لَہُ فِي ذَلِكَ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے اپنی زکاۃ وقت سے پہلے دینے کے بارے میں پوچھا توآپ نے انہیں اس کی اجازت دی۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ عَنْ حُجْرٍ الْعَدَوِيِّ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعُمَرَ إِنَّا قَدْ أَخَذْنَا زَكَاةَ الْعَبَّاسِ عَامَ الْأَوَّلِ لِلْعَامِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی لَا أَعْرِفُ حَدِيثَ تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَحَدِيثُ إِسْمَعِيلَ بْنِ زَكَرِيَّا عَنْ الْحَجَّاجِ عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ قَبْلَ مَحِلِّہَا فَرَأَی طَائِفَةٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُعَجِّلَہَا وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ قَالَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ لَا يُعَجِّلَہَا و قَالَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِنْ عَجَّلَہَا قَبْلَ مَحِلِّہَا أَجْزَأَتْ عَنْہُ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ہم عباس سے اس سال کی زکاۃ گزشتہ سال ہی لے چکے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۲-اسرائیل کی پہلے زکاۃ نکالنے والی حدیث کوجسے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۳-اسماعیل بن زکریا کی حدیث جسے انہوں نے حجاج سے روایت کی ہے میرے نزدیک اسرائیل کی حدیث سے جسے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے،۴-نیزیہ حدیث حکم بن عتیبہ سے بھی مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،۵-اہل علم کا وقت سے پہلے پیشگی زکاۃ دینے میں اختلاف ہے،اہل علم میں سے ایک جماعت کی رائے ہے کہ اسے پیشگی ادانہ کرے،سفیان ثوری اسی کے قائل ہیں،وہ کہتے ہیں: کہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہی ہے کہ اسے پیشگی ادانہ کرے،اوراکثر اہل علم کاکہنا ہے کہ اگر وقت سے پہلے پیشگی اداکر دے تو جائز ہے۔شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ حَجَّاجٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ أَحْصُوا ہِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَقَدَّمُوا شَہْرَ رَمَضَانَ بِيَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو اللَّيْثِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:رمضان کے لیے شعبان کے چاند کی گنتی کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے اس طرح ابومعاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں اورصحیح وہ روایت ہے جو (عبدہ بن سلیمان نے) بطریق: محمد بن عمرو،عن أبی سلمۃ،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: رمضان کے استقبال میں ایک یادودن پہلے صوم شروع نہ کردو،اسی طرح بطریق: یحیی بن أبی کثیر،عن أبی سلمۃ،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَصُومُوا قَبْلَ رَمَضَانَ صُومُوا لِرُؤْيَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِہِ فَإِنْ حَالَتْ دُونَہُ غَيَايَةٌ فَأَكْمِلُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رمضان سے پہلے ۱؎ صوم نہ رکھو،چاند دیکھ کر صوم رکھو،اور دیکھ کر ہی بند کرو،اور اگر بادل آڑے آجائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔۲-اس باب میں ا بوہریرہ،ابوبکرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ الْہِلَالَ قَالَ أَتَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ يَا بِلَالُ أَذِّنْ فِي النَّاسِ أَنْ يَصُومُوا غَدًا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ سِمَاكٍ نَحْوَہُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيہِ اخْتِلَافٌ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُہُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ سِمَاكٍ رَوَوْا عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا تُقْبَلُ شَہَادَةُ رَجُلٍ وَاحِدٍ فِي الصِّيَامِ وَبِہِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَہْلُ الْكُوفَةِ قَالَ إِسْحَقُ لَا يُصَامُ إِلَّا بِشَہَادَةِ رَجُلَيْنِ وَلَمْ يَخْتَلِفْ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْإِفْطَارِ أَنَّہُ لَا يُقْبَلُ فِيہِ إِلَّا شَہَادَةُ رَجُلَيْنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرکہا: میں نے چاند دیکھا ہے،آپ نے فرمایا: کیاتم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور کیا گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں دیتاہوں،آپ نے فرمایا: بلال! لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ کل صوم رکھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس کی حدیث میں اختلاف ہے۔سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق: سماک،عن عکرمۃ،عن النبی ﷺ مرسلاً روایت کی ہے۔اور سماک کے اکثر شاگردوں نے بھی بطریق: سماک،عن عکرمۃ،عن النبی ﷺ مرسلاً ہی روایت کی ہے،۲-اکثر اہل علم کاعمل اسی حدیث پر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان کے صیام کے سلسلے میں ایک آدمی کی گواہی قبول کی جائے گی۔اورابن مبارک،شافعی،احمد اور اہل کوفہ بھی اسی کے قائل ہیں،۳-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ صوم بغیردوآدمیوں کی گواہی کے نہ رکھا جائے گا۔لیکن صوم بند کرنے کے سلسلے میں اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس میں دوآدمی کی گواہی قبول ہوگی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ وَجَدَ تَمْرًا فَلْيُفْطِرْ عَلَيْہِ وَمَنْ لَا فَلْيُفْطِرْ عَلَی مَاءٍ فَإِنَّ الْمَاءَ طَہُورٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاہُ عَنْ شُعْبَةَ مِثْلَ ہَذَا غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ وَہُوَ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَلَا نَعْلَمُ لَہُ أَصْلًا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ وَقَدْ رَوَی أَصْحَابُ شُعْبَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ وَہَكَذَا رَوَوْا عَنْ شُعُبَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ سَلْمَانَ وَلَمْ يُذْكَرْ فِيہِ شُعْبَةُ عَنْ الرَّبَابِ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحَوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنُ عَوْنٍ يَقُولُ عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَالرَّبَابُ ہِيَ أُمُّ الرَّائِحِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جسے کھجورمیسرہو،توچاہئے کہ وہ اسی سے صوم کھولے،اورجسے کھجور میسرنہ ہوتوچاہئے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیزہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۲-ہم نہیں جانتے کہ انس کی حدیث سعید بن عامرکے علاوہ کسی اورنے بھی شعبہ سے روایت کی ہے،یہ حدیث غیر محفوظ ہے ۱؎،ہم اس کی کوئی اصل عبدالعزیزکی روایت سے جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہو نہیں جانتے،اور شعبہ کے شاگروں نے یہ حدیث بطریق:شعبۃ،عن عاصم،عن حفصۃ بنت سیرین،عن الرباب،عن سلمان بن عامر،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،اور یہ سعید بن عامر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے،کچھ اور لوگوں نے اس کی بطریق: شعبۃ،عن عاصم،عن حفصۃ،عن سلمان بن عامر روایت کی ہے اوراس میں شعبہ کی رباب سے روایت کرنے کاذکرنہیں کیا گیا ہے اورصحیح وہ ہے جسے سفیان ثوری،ابن عیینہ اوردیگرکئی لوگوں نے بطریق: عاصم الأحول،عن حفصۃ بنت سیرین،عن الرباب،عن سلمان بن عامر روایت کی ہے،اورابن عون کہتے ہیں: عن أم الرائح بنت صلیع،عن سلمان بن عامر اور رَباب ہی دراصل ام الرائح ہیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ح و حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَی تَمْرٍ زَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فَإِنَّہُ بَرَكَةٌ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَی مَاءٍ فَإِنَّہُ طَہُورٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی افطار کرے توچاہئے کہ کھجور سے افطارکرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے(کھجور) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیزہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَی رُطَبَاتٍ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَی تَمَرَاتٍ وَفِي الصَّيْفِ عَلَی الْمَاءِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند ترکھجوروں سے افطار کرتے تھے،اور اگر ترکھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اور یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُطَوِّسِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ لَمْ يَقْضِ عَنْہُ صَوْمُ الدَّہْرِ كُلِّہِ وَإِنْ صَامَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ أَبُو الْمُطَوِّسِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ الْمُطَوِّسِ وَلَا أَعْرِفُ لَہُ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اوربغیرکسی بیماری کے رمضان کاکوئی صوم نہیں رکھا توپورے سال کا صوم بھی اس کوپورانہیں کرپائے گاچاہے وہ پورے سال صوم سے رہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوالمطوس کانام یزید بن مطوس ہے اور اس کے علاوہ مجھے ان کی کوئی اور حدیث معلوم نہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَی اللہِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَہُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقْدِ اسْتَحَبَّ أَہْلُ الْعِلْمِ صِيَامَ يَوْمِ عَرَفَةَ إِلَّا بِعَرَفَةَ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتاہوں کہ عرفہ کے دن ۱؎ کا صوم ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دے گا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم نے عرفہ کے دن کے صوم کومستحب قرار دیاہے،مگرجولوگ عرفات میں ہوں ان کے لیے مستحب نہیں۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ عَاشُورَاءُ يَوْمًا تَصُومُہُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاہِلِيَّةِ وَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَصُومُہُ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَہُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِہِ فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ ہُوَ الْفَرِيضَةُ وَتَرَكَ عَاشُورَاءَ فَمَنْ شَاءَ صَامَہُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَمُعَاوِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی حَدِيثِ عَائِشَةَ وَہُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَا يَرَوْنَ صِيَامَ يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ رَغِبَ فِي صِيَامِہِ لِمَا ذُكِرَ فِيہِ مِنْ الْفَضْلِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عاشوراء ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہء جاہلیت میں صوم رکھتے تھے اور رسول اللہﷺ بھی اس دن صوم رکھتے تھے،جب آپ مدینہ آئے تواس دن آپ نے صوم رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن صوم رکھنے کا حکم دیا،لیکن جب رمضان کے صیام فرض کئے گئے تو صرف رمضان ہی کے صیام فرض رہے اور آپ نے عاشورا ء کا صیام ترک کردیا،تو جو چاہے اس دن صوم رکھے اور جوچاہے نہ رکھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے ۱ ؎،۲-اس باب میں ابن مسعود،قیس بن سعد،جابر بن سمرہ،ابن عمر اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کاعمل عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر ہے،اور یہحدیث صحیح ہے،یہ لوگ یوم عاشورا ء کے صوم کوواجب نہیں سمجھتے،الا یہ کہ جو اس کی اس فضیلت کی وجہ سے جوذکرکی گئی اس کی رغبت رکھے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا ہِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللہِ مَوْلَی رَبِيعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْبَاہِلِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُہُ إِلَی بَيْتِ اللہِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْہِ أَنْ يَمُوتَ يَہُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا وَذَلِكَ أَنَّ اللہَ يَقُولُ فِي كِتَابِہِ وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْہِ سَبِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ وَہِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللہِ مَجْہُولٌ وَالْحَارِثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سفرکے خرچ اور سواری کامالک ہو جواسے بیت اللہ تک پہنچاسکے اور وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکرمرے یاعیسائی ہوکر،اوریہ اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب(قرآن) میں فرمایا ہے:اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے ۱؎،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس کی سند میں کلام ہے۔ہلال بن عبداللہ مجہول راوی ہیں۔اور حارث حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَجَّ ثَلَاثَ حِجَجٍ حَجَّتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُہَاجِرَ وَحَجَّةً بَعْدَ مَا ہَاجَرَ وَمَعَہَا عُمْرَةٌ فَسَاقَ ثَلَاثَةً وَسِتِّينَ بَدَنَةً وَجَاءَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ بِبَقِيَّتِہَا فِيہَا جَمَلٌ لِأَبِي جَہْلٍ فِي أَنْفِہِ بُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ فَنَحَرَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَمَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَطُبِخَتْ وَشَرِبَ مِنْ مَرَقِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ وَرَأَيْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ فِي كُتُبِہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا فَلَمْ يَعْرِفْہُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَأَيْتُہُ لَمْ يَعُدَّ ہَذَا الْحَدِيثَ مَحْفُوظًا و قَالَ إِنَّمَا يُرْوَی عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ مُجَاہِدٍ مُرْسَلًا

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے تین حج کئے،دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد،اس کے ساتھ آ پ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طورپر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے۔ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔رسول اللہﷺ نے انہیں نحر کیا،پھرآپ نے ہراونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کراسے پکانے کا حکم دیا،تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث سفیان کی روایت سے غریب ہے،ہم اسے صرف زید بن حباب کے طریق سے جانتے ہیں ۱؎،۲-میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کودیکھاکہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ حدیث عبداللہ بن ابی زیاد کے واسطہ سے روایت کی ہے،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے سلسلے میں پوچھا تووہ اسے بروایت ثوری عن جعفرعن أبیہ عن جابرعن النبیﷺ نہیں جان سکے،میں نے انہیں دیکھاکہ انہوں نے اس حدیث کومحفوظ شمار نہیں کیا،اور کہا:یہ ثوری سے روایت کی جاتی ہے اورثوری نے ابواسحاق سے اورابواسحاق نے مجاہد سے مرسلاً روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ ﷺ الْحَجَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فَاجْتَمَعُوا فَلَمَّا أَتَی الْبَيْدَاءَ أَحْرَمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ جب نبی اکرمﷺ نے حج کا ارادہ کیا توآپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔(مدینہ میں) لوگ اکٹھا ہوگئے،چنانچہ جب آپ (وہاں سے چل کر) بیداء پہنچے تو احرام باندھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،انس،مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ الْبَيْدَاءُ الَّتِي يَكْذِبُونَ فِيہَا عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَاللہِ مَا أَہَلَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ مِنْ عِنْدِ الشَّجَرَةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہﷺ پرجھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا) ۱؎ اللہ کی قسم! رسو ل اللہ ﷺ نے مسجد (ذی الحلیفہ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ الْمُطَّلِبِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلَالٌ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ مَا لَمْ تَصِيدُوہُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَطَلْحَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ وَالْمُطَّلِبُ لَا نَعْرِفُ لَہُ سَمَاعًا عَنْ جَابِرٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ بَأْسًا إِذَا لَمْ يَصْطَدْہُ أَوْ لَمْ يُصْطَدْ مِنْ أَجْلِہِ قَالَ الشَّافِعِيُّ ہَذَا أَحْسَنُ حَدِيثٍ رُوِيَ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَقْيَسُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:خشکی کا شکار تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جب کہ تم نے اس کا شکار خودنہ کیا ہو،نہ ہی وہ تمہارے لیے کیا گیا ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابوقتادہ اور طلحہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۲-جابر کی حدیث مفسَّرہے،۳-اور ہم مُطّلب کا جابر سے سماع نہیں جانتے،۴-اوربعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔وہ محرم کے لیے شکارکے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جب اس نے خوداس کا شکار نہ کیا ہو،نہ ہی وہ اس کے لیے کیاگیاہو،۵-شافعی کہتے ہیں: یہ اس باب میں مروی سب سے اچھی اورقیاس کے سب سے زیادہ موافق حدیث ہے،اوراسی پرعمل ہے۔اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ،عَنْ أَبِي النَّضْرِ،عَنْ نَافِعٍ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ،عَنْ أَبِي قَتَادَةَ،أَنَّہُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَہُ مُحْرِمِينَ وَہُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ،فَرَأَی حِمَارًا وَحْشِيًّا. فَاسْتَوَی عَلَی فَرَسِہِ. فَسَأَلَ أَصْحَابَہُ أَنْ يُنَاوِلُوہُ سَوْطَہُ فَأَبَوْا. فَسَأَلَہُمْ رُمْحَہُ فَأَبَوْا عَلَيْہِ. فَأَخَذَہُ ثُمَّ شَدَّ عَلَی الْحِمَارِ فَقَتَلَہُ. فَأَكَلَ مِنْہُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبَی بَعْضُہُمْ. فَأَدْرَكُوا النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلُوہُ عَنْ ذَلِكَ. فَقَالَ: إِنَّمَا ہِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوہَا اللہُ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے،یہاں تک کہ آپ جب مکے کاکچھ راستہ طے کرچکے تووہ اپنے بعض محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے جب کہ ابوقتادہ خود غیر محرم تھے،اسی دوران انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا،تووہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کردے دیں تو ان لوگوں نے اُسے انہیں دینے سے انکارکیا۔پھر انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا۔توان لوگوں نے اُسے بھی اٹھاکردینے سے انکار کیاتو انہوں نے اسے خود ہی (اترکر)اٹھا لیا اور شکار کا پیچھاکیا اوراسے مارڈالا،توبعض صحابہ کرام نے اس شکارمیں سے کھایا اوربعض نے نہیں کھایا۔پھروہ نبی اکرمﷺ سے آکرملے اور اس بارے آپﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ تو ایک ایسی غذاہے جسے اللہ نے تمہیں کھلایاہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،عَنْ مَالِكٍ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ،عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ،عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي حِمَارِ الْوَحْشِ،مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ. غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ہَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِہِ شَيْئٌ؟. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اس سند سے بھی ابوقتادہ سے نیل گائے کے بارے میں ابونضرہی کی حدیث کی طرح مروی ہے البتہ زید بن اسلم کی اس حدیث میں اتنا زائد ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرٍ الضَّبُعُ أَصَيْدٌ ہِيَ قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ آكُلُہَا قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ أَقَالَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَرَوَی جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ أَصَحُّ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْمُحْرِمِ إِذَا أَصَابَ ضَبُعًا أَنَّ عَلَيْہِ الْجَزَاءَ

ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیالکڑبگھا شکار میں داخل ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں،(پھر) میں نے پوچھا: کیا میں اسے کھاسکتاہوںـ؟ انہوں نے کہا: ہاں،میں نے کہا: کیا اسے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کابیان ہے کہ یہ حدیث جریر بن حزم نے بھی روایت کی ہے لیکن انہوں نے جابرسے اورجابر نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،ابن جریج کی حدیث زیادہ صحیح ہے،۳-اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔اور بعض اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ محرم جب لکڑبگھا کا شکار کرے یا اسے کھائے تو اس پر فدیہ ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ لَہُ حَدِّثْنِي بِمَا كَانَتْ تُفْضِي إِلَيْكَ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي عَائِشَةَ فَقَالَ حَدَّثَتْنِي أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَہَا لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَہْدٍ بِالْجَاہِلِيَّةِ لَہَدَمْتُ الْكَعْبَةَ وَجَعَلْتُ لَہَا بَابَيْنِ قَالَ فَلَمَّا مَلَكَ ابْنُ الزُّبَيْرِ ہَدَمَہَا وَجَعَلَ لَہَا بَابَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اسود بن یزید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا:تم مجھ سے وہ باتیں بیان کرو،جسے ام المومنین یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے رازدارانہ طورسے بیان کیا کرتی تھیں،انہوں نے کہا: مجھ سے انہوں نے بیان کیاکہ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: اگر تمہاری قوم کے لوگ جاہلیت چھوڑکر نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے،تو میں کعبہ کوگرادیتا اور اس میں دو دروازے کردیتا،چنانچہ ابن زبیر رضی اللہ عنہا جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے کعبہ گراکراس میں دو دروازے کردیئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْأَجْلَحِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ بِمِنًی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ غَدَا إِلَی عَرَفَاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِسْمَعِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ قَدْ تَكَلَّمُوا فِيہِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے منیٰ ۱؎ میں ظہر،عصر،مغرب،عشاء اور فجر پڑھائی ۲؎ پھرآپ صبح ۳؎ ہی عرفات کے لیے روانہ ہوگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اسماعیل بن مسلم پران کے حافظے کے تعلق سے لوگوں نے کلام کیاہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْأَجْلَحِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی بِمِنًی الظُّہْرَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ غَدَا إِلَی عَرَفَاتٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی قَالَ شُعْبَةُ لَمْ يَسْمَعْ الْحَكَمُ مِنْ مِقْسَمٍ إِلَّا خَمْسَةَ أَشْيَاءَ وَعَدَّہَا وَلَيْسَ ہَذَا الْحَدِيثُ فِيمَا عَدَّ شُعْبَةُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے منیٰ میں ظہر اور فجر پڑھی ۱ ؎،پھرآپ صبح ہی صبح ۲؎ عرفات کے لیے روانہ ہوگئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-مقسم کی حدیث ابن عباس سے مروی ہے،۲-شعبہ کا بیان ہے کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ چیزیں سنی ہیں،اورانہوں نے انہیں شمارکیا تو یہ حدیث شعبہ کی شمارکی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی،۳-اس باب میں عبداللہ بن زبیر اور انس سے بھی احادیث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا كَانَ أَہْلُ الْجَاہِلِيَّةِ يَنْتَظِرُونَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ يُفِيضُونَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ (مزدلفہ سے) سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-جاہلیت کے زمانے میں لوگ انتظار کرتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا پھر لوٹتے تھے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَال سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ يُحَدِّثُ يَقُولُ كُنَّا وُقُوفًا بِجَمْعٍ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَكَانُوا يَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَالَفَہُمْ فَأَفَاضَ عُمَرُ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے،عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: مشرکین جب تک کہ سورج نکل نہیں آتا نہیں لوٹتے تھے اور کہتے تھے: ثبیر! تو روشن ہوجا (تب ہم لوٹیں گے)،تورسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت کی،چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ حَلَقَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَحَلَقَ طَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِہِ وَقَصَّرَ بَعْضُہُمْ قَالَ ابْنُ عُمَرَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ رَحِمَ اللہُ الْمُحَلِّقِينَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ قَالَ وَالْمُقَصِّرِينَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ أُمِّ الْحُصَيْنِ وَمَارِبَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي مَرْيَمَ وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَحْلِقَ رَأْسَہُ وَإِنْ قَصَّرَ يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُ عَنْہُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سرمنڈوایا،صحابہ کی ایک جماعت نے بھی سرمونڈوایا اوربعض لوگوں نے بال کتروائے۔ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک بار یا دو بارفرمایا: اللہ سرمونڈانے والوں پر رحم فرمائے،پھر فرمایا: کتروانے والوں پر بھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،ابن ام الحصین،مارب،ابوسعیدخدری،ابومریم،حبشی بن جنادہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،اور وہ آدمی کے لیے سرمنڈانے کو پسند کرتے ہیں اور اگر کوئی صرف کتروالے تو وہ اسے بھی اس کی طرف سے کافی سمجھتے ہیں۔یہی سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ يَعْنِي ابْنَ زَاذَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ طَيَّبْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ وَيَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ بِطِيبٍ فِيہِ مِسْكٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا رَمَی جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ وَذَبَحَ وَحَلَقَ أَوْ قَصَّرَ فَقَدْ حَلَّ لَہُ كُلُّ شَيْءٍ حَرُمَ عَلَيْہِ إِلَّا النِّسَاءَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّہُ قَالَ حَلَّ لَہُ كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا النِّسَاءَ وَالطِّيبَ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْكُوفَةِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو آپ کے احرام باندھنے سے پہلے اور دسویں ذی الحجہ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے خوشبو لگائی جس میں مشک تھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب دسویں ذی الحجہ کوجمرہ عقبہ کی رمی کرلے،جانور ذبح کرلے،اور سرمونڈالے یابال کتروالے تو اب اس کے لیے ہروہ چیز حلال ہوگئی جو اس پر حرام تھی سوائے عورتوں کے۔یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۴-عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس کے لیے ہرچیز حلال ہوگئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے،۵-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،اور یہی کوفہ والوں کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ إِلَی اللَّيْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يُؤَخَّرَ طَوَافُ الزِّيَارَةِ إِلَی اللَّيْلِ وَاسْتَحَبَّ بَعْضُہُمْ أَنْ يَزُورَ يَوْمَ النَّحْرِ وَوَسَّعَ بَعْضُہُمْ أَنْ يُؤَخَّرَ وَلَوْ إِلَی آخِرِ أَيَّامِ مِنًی

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے ۲؎،۲-بعض اہل علم نے طواف زیارت کورات تک مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے۔اور بعض نے دسویں ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے کومستحب قراردیاہے،لیکن بعض نے اُسے منیٰ کے آخری دن تک مؤخرکرنے کی گنجائش رکھی ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ مَنْ حَجَّ ہَذَا الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلْيَكُنْ آخِرُ عَہْدِہِ بِالْبَيْتِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ خَرَرْتَ مِنْ يَدَيْكَ سَمِعْتَ ہَذَا مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَلَمْ تُخْبِرْنَا بِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أرْطَاةَ مِثْلَ ہَذَا وَقَدْ خُولِفَ الْحَجَّاجُ فِي بَعْضِ ہَذَا الْإِسْنَادِ

حارث بن عبداللہ بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے سنا: جس نے اس گھر (بیت اللہ) کا حج یاعمرہ کیا تو چاہئے کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو۔تو ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اپنے ہاتھوں کے بل زمین پرگرو یعنی ہلاک ہو،تم نے یہ بات رسول اللہﷺ سے سنی اور ہمیں نہیں بتائی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-حارث بن عبداللہ بن اوس رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،اسی طرح دوسرے اورلوگوں نے بھی حجاج بن ارطاۃ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔اوراس سند کے بعض حصہ کے سلسلہ میں حجاج سے اختلاف کیا گیا ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَبِيہِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ فَقَالَ يَوْمُ النَّحْرِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: حج اکبر(بڑے حج) کا دن کون ساہے؟ تو آپ نے فرمایا: یوم النحر (قربانی کادن)۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ وَرِوَايَةُ ابْنِ عُيَيْنَةَ مَوْقُوفًا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ مَرْفُوعًا ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حج اکبر(بڑے حج) کادن دسویں ذی الحجہ کادن ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ا بن ابی عمر نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اوریہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اورابن عیینہ کی موقوف روایت محمد بن اسحاق کی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے۔اسی طرح بہت سے حفاظ حدیث نے اسے بسند ابی اسحاق سبیعیعن عبداللہ بن مرہ عنحارثعن علی موقوفاًروایت کیا ہے،شعبہ نے بھی ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے انہوں نے یوں کہا ہے عن عبداللہ بن مرہ عن الحارث عن علی موقوفا۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ جَرِيرٍ عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي الْحَجَرِ وَاللہِ لَيَبْعَثَنَّہُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَہُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِہِمَا وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِہِ يَشْہَدُ عَلَی مَنْ اسْتَلَمَہُ بِحَقٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھا ئے گاکہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی،جس سے یہ دیکھے گا،ایک زبان ہوگی جس سے یہ بولے گا۔اوریہ اس شخص کے ایمان کی گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ (یعنی ایمان اور اجرکی نیت سے) اس کا استلام کیا ہوگا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ وَشَبَابَةُ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ سَمِعَ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَطْيَبُ الطِّيبِ الْمِسْكُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے بہترین خوشبو مشک ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ شُعْبَةَ عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ الْمِسْكِ فَقَالَ ہُوَ أَطْيَبُ طِيبِكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْمِسْكَ لِلْمَيِّتِ قَالَ وَقَدْ رَوَاہُ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ أَيْضًا عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ عَلِيٌّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ ثِقَةٌ قَالَ يَحْيَی خُلَيْدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے مشک کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ تمہاری خوشبووں میں سب سے بہتر خوشبو ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوراسے مستمربن ریان نے بھی بطریق: أبی نضرۃ،عن أبی سعید،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مستمر بن ریان ثقہ ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴-اوربعض اہل علم نے میت کے لیے مشک کومکروہ قراردیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا وَلِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاہُ فَلْيُحْسِنْ كَفَنَہُ وَفِيہِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ فِي قَوْلِہِ وَلْيُحْسِنْ أَحَدُكُمْ كَفَنَ أَخِيہِ قَالَ ہُوَ الصَّفَاءُ وَلَيْسَ بِالْمُرْتَفِعِ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم میں کوئی اپنے بھائی کا(کفن کے سلسلے میں) ولی (ذمہ دار) ہوتو اسے اچھا کفن دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-ابن مبارک کہتے ہیں کہ سلام بن ابی مطیع آپ کے قول ولیحسن أحدکم کفن أخیہ (اپنے بھائی کو اچھا کفن دو) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے کی صفائی اور سفیدی ہے،اس سے قیمتی کپڑا مراد نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ اصْنَعُوا لِأَہْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّہُ قَدْ جَاءَہُمْ مَا يَشْغَلُہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّہَ إِلَی أَہْلِ الْمَيِّتِ شَيْءٌ لِشُغْلِہِمْ بِالْمُصِيبَةِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ ہُوَ ابْنُ سَارَةَ وَہُوَ ثِقَةٌ رَوَی عَنْہُ ابْنُ جُرَيْجٍ

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب جعفرطیار کے مرنے کی خبرآئی ۱؎ تونبی اکرمﷺ نے فرمایا: جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاؤ،اس لیے کہ آج ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس میں وہ مشغول ہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم میت کے گھروالوں کے مصیبت میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کچھ بھیجنے کومستحب قراردیتے ہیں۔یہی شافعی کابھی قول ہے،۳-جعفر بن خالد کے والد خالد سارہ کے بیٹے ہیں اور ثقہ ہیں۔ان سے ابن جریج نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَتَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی حَمْزَةَ يَوْمَ أُحُدٍ فَوَقَفَ عَلَيْہِ فَرَآہُ قَدْ مُثِّلَ بِہِ فَقَالَ لَوْلَا أَنْ تَجِدَ صَفِيَّةُ فِي نَفْسِہَا لَتَرَكْتُہُ حَتَّی تَأْكُلَہُ الْعَافِيَةُ حَتَّی يُحْشَرَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ بُطُونِہَا قَالَ ثُمَّ دَعَا بِنَمِرَةٍ فَكَفَّنَہُ فِيہَا فَكَانَتْ إِذَا مُدَّتْ عَلَی رَأْسِہِ بَدَتْ رِجْلَاہُ وَإِذَا مُدَّتْ عَلَی رِجْلَيْہِ بَدَا رَأْسُہُ قَالَ فَكَثُرَ الْقَتْلَی وَقَلَّتْ الثِّيَابُ قَالَ فَكُفِّنَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ وَالثَّلَاثَةُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ثُمَّ يُدْفَنُونَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَسْأَلُ عَنْہُمْ أَيُّہُمْ أَكْثَرُ قُرْآنًا فَيُقَدِّمُہُ إِلَی الْقِبْلَةِ قَالَ فَدَفَنَہُمْ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ النَّمِرَةُ الْكِسَاءُ الْخَلَقُ وَقَدْ خُولِفَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ فَرَوَی اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ وَرَوَی مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ثَعْلَبَةَ عَنْ جَابِرٍ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَہُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ حَدِيثُ اللَّيْثِ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ جَابِرٍ أَصَحُّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ احد کے دن حمزہ (کی لاش) کے پاس آئے۔آپ اس کے پاس رُکے،آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ ۱؎ کردیاگیا ہے۔آپ نے فرمایا: اگر صفیہ (حمزہ کی بہن) اپنے دل میں برانہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی (دفن کیے بغیر) چھوڑدیتا یہاں تک کہ درندو پرندانہیں کھاجاتے۔پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے،پھر آپﷺ نے نمر(ایک پرانی چادر) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے توان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے دونوں پیروں کی طرف کھینچتے تو سرکھل جاتا۔مقتولین کی تعدادبڑھ گئی اورکپڑے کم پڑگئے تھے،چنانچہ ایک ایک دو دو اور تین تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفنایا جاتا،پھر وہ سب ایک قبر میں دفن کردیئے جاتے۔رسول اللہ ﷺ ان کے بارے میں پوچھتے کہ ان میں کس کوقرآن زیادہ یادتھاتوآپ اسے آگے قبلہ کی طرف کردیتے،رسول اللہ ﷺ نے ان مقتولین کو دفن کیا اور ان پر صلاۃ نہیں پڑھی ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن غریب ہے۔ہم اسے انس کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲-اس حدیث کی روایت میں اسامہ بن زید کی مخالفت کی گئی ہے۔لیث بن سعد بسند ابن شہاب الزہری عن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک عن جابربن عبداللہ بن زید ۳؎ روایت کی ہے اورمعمرنے بسندزہری عن عبداللہ بن ثعلبہ عن جابر روایت کی ہے۔ہمارے علم میں سوائے اسامہ بن زید کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے زہری کے واسطے سے انس سے روایت کی ہو،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: لیث کی حدیث بسند ابن شہاب عن عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک عن جابر زیادہ صحیح ہے،۴-نمرہ: پرانی چادر کو کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ عَلَی الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ شَرِيكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ إِبْرَاہِيمُ بْنُ عُثْمَانَ ہُوَ أَبُو شَيْبَةَ الْوَاسِطِيُّ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَالصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُہُ مِنْ السُّنَّةِ الْقِرَاءَةُ عَلَی الْجَنَازَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے جنازے میں سورۂ فاتحہ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے،۲-ابراہیم بن عثمان ہی ابوشیبہ واسطی ہیں اور وہ منکرالحدیث ہیں۔صحیح چیز جو ابن عباس سے مروی ہے کہ ـ جنازے کی صلاۃ میں سورۂ فاتحہ پڑھنا سنت میں سے ہے،۳-اس باب میں ام شریک سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَقُلْتُ لَہُ فَقَالَ إِنَّہُ مِنْ السُّنَّةِ أَوْ مِنْ تَمَامِ السُّنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَخْتَارُونَ أَنْ يُقْرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ بَعْدَ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَی وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يُقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ عَلَی الْجَنَازَةِ إِنَّمَا ہُوَ ثَنَاءٌ عَلَی اللہِ وَالصَّلَاةُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَالدُّعَاءُ لِلْمَيِّتِ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِہِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَطَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَوْفٍ ہُوَ ابْنُ أَخِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَوَی عَنْہُ الزُّہْرِيُّ

طلحہ بن عوف کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک صلاۃِ جنازہ پڑھایاتوانہوں نے سورۂ فاتحہ پڑھی۔میں نے ان سے(اس کے بارے میں) پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ سنت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-طلحہ بن عبداللہ بن عوف،عبدالرحمٰن بن عوف کے بھتیجے ہیں۔ان سے زہری نے روایت کی ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے یہ لوگ تکبیر اولیٰ کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھنے کوپسندکرتے ہیں یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ صلاۃ جنازہ میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی ۱؎ اس میں تو صرف اللہ کی ثنا،نبی اکرمﷺ پر صلاۃ (درود) اور میت کے لیے دعاہوتی ہے۔اہل کوفہ میں سے ثوری وغیرہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَنَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ وَيُوسُفُ بْنُ مُوسَی الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ اللَّحْدُ لَنَا وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:بغلی قبرہمارے لیے ہے اور صندوقی قبر اوروں کے لیے ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں جریر بن عبداللہ،عائشہ،ابن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ أَنَّ عَلِيًّا قَالَ لِأَبِي الْہَيَّاجِ الْأَسَدِيِّ أَبْعَثُكَ عَلَی مَا بَعَثَنِي بِہِ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ لَا تَدَعَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَہُ وَلَا تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَكْرَہُونَ أَنْ يُرْفَعَ الْقَبْرُ فَوْقَ الْأَرْضِ قَالَ الشَّافِعِيُّ أَكْرَہُ أَنْ يُرْفَعَ الْقَبْرُ إِلَّا بِقَدْرِ مَا يُعْرَفُ أَنَّہُ قَبْرٌ لِكَيْلَا يُوطَأَ وَلَا يُجْلَسَ عَلَيْہِ

ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوالہیاج اسدی سے کہا: میں تمہیں ایک ایسے کام کے لیے بھیج رہاہوں جس کے لیے نبی اکرمﷺ نے مجھے بھیجاتھا: تم جو بھی ابھری قبرہو،اسے برابر کئے بغیر اور جوبھی مجسمہ ہو ۱؎،اسے مسمار کئے بغیرنہ چھوڑنا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔وہ قبر کو زمین سے بلند رکھنے کو مکروہ (تحریمی) قراردیتے ہیں،۴-شافعی کہتے ہیں کہ قبرکے اونچی کئے جانے کو میں مکروہ (تحریمی) سوائے اتنی مقدارکے جس سے معلوم ہوسکے کہ یہ قبر ہے تاکہ وہ نہ روندی جائے اور نہ اس پر بیٹھا جائے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمِ النَّبِيلُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَدْ كُنْتُ نَہَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَقَدْ أُذِنَ لِمُحَمَّدٍ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ أُمِّہِ فَزُورُوہَا فَإِنَّہَا تُذَكِّرُ الْآخِرَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِزِيَارَةِ الْقُبُورِ بَأْسًا وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔تو تم بھی ان کی زیارت کرو،یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری،ابن مسعود،انس،ابوہریرہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔وہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ابن مبارک،شافعی،ا حمد اوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ زُہَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِہِ فَہُوَ عَاہِرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا يَصِحُّ وَالصَّحِيحُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ نِكَاحَ الْعَبْدِ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِہِ لَا يَجُوزُ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَغَيْرِہِمَا بِلَا اخْتِلَافٍ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر شادی کرلے،وہ زانی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر کی حدیث حسن ہے،۲-بعض نے اس حدیث کو بسند عبداللہ بن محمد بن عقیل عن عبداللہ بن عمرعن النبی ﷺ روایت کیا ہے،اور یہ صحیح نہیں ہے،صحیح یہ ہے کہ عبداللہ بن محمد بن عقیل نے جابر سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر غلام کانکاح کرناجائز نہیں۔یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کابھی قول ہے،اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَيُّمَا عَبْدٍ تَزَوَّجَ بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِہِ فَہُوَ عَاہِرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اس سند سے بھی جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی وہ زانی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَی عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَيْنِ عَبْدٌ أَدَّی حَقَّ اللہِ وَحَقَّ مَوَالِيہِ فَذَاكَ يُؤْتَی أَجْرَہُ مَرَّتَيْنِ وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَہُ جَارِيَةٌ وَضِيئَةٌ فَأَدَّبَہَا فَأَحْسَنَ أَدَبَہَا ثُمَّ أَعْتَقَہَا ثُمَّ تَزَوَّجَہَا يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْہَ اللہِ فَذَلِكَ يُؤْتَی أَجْرَہُ مَرَّتَيْنِ وَرَجُلٌ آمَنَ بِالْكِتَابِ الْأَوَّلِ ثُمَّ جَاءَ الْكِتَابُ الْآخَرُ فَآمَنَ بِہِ فَذَلِكَ يُؤْتَی أَجْرَہُ مَرَّتَيْنِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحٍ وَہُوَ ابْنُ حَيٍّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي مُوسَی حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَی اسْمُہُ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَيْسٍ وَرَوَی شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ وَصَالِحُ بْنُ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ ہُوَ وَالِدُ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ

ابوموسیٰ عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین لوگ ہیں جنہیں دہرا اجر دیاجاتاہے: ایک وہ بندہ جو اللہ کا حق اداکرے اور اپنے مالک کا حق بھی،اسے دہرااجر دیاجاتاہے،اور دوسراوہ شخص جس کی ملکیت میں کوئی خوب صورت لونڈی ہو،وہ اس کی تربیت کرے اور اچھی تربیت کرے پھر اسے آزاد کردے،پھر اس سے نکاح کرلے اور یہ سب اللہ کی رضا کی طلب میں کرے،تو اسے دہرا اجر دیاجاتاہے۔اور تیسرا وہ شخص جوپہلے کتاب (تورات وانجیل) پر ایمان لایا ہو پھرجب دوسری کتاب (قرآن مجید) آئی تو اس پربھی ایمان لایا تو اُسے بھی دہرا اجر دیا جاتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَقُتَيْبَةُ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ قَزَعَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ ذُكِرَ الْعَزْلُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ لِمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی زَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِہِ وَلَمْ يَقُلْ لَا يَفْعَلْ ذَاكَ أَحَدُكُمْ قَالَا فِي حَدِيثِہِمَا فَإِنَّہَا لَيْسَتْ نَفْسٌ مَخْلُوقَةٌ إِلَّا اللہُ خَالِقُہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَقَدْ كَرِہَ الْعَزْلَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عزل کا ذکر کیاگیا تو آپ نے فرمایا:تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتاہے؟۔ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے: اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے،اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہجس جان کوبھی اللہ کوپیداکرناہے وہ اسے پیداکرکے ہی رہے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ اس کے علاوہ اوربھی طرق سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،۳-ا س باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے عزل کو مکروہ قراردیاہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْسِمُ بَيْنَ نِسَائِہِ فَيَعْدِلُ وَيَقُولُ اللہُمَّ ہَذِہِ قِسْمَتِي فِيمَا أَمْلِكُ فَلَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ ہَكَذَا رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْسِمُ وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ مُرْسَلًا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْسِمُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ لَا تَلُمْنِي فِيمَا تَمْلِكُ وَلَا أَمْلِكُ إِنَّمَا يَعْنِي بِہِ الْحُبَّ وَالْمَوَدَّةَ كَذَا فَسَّرَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے: اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتاہوں،لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے،میں نہیں رکھتا،اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔امام ترمذی کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بسند حماد بن سلمہ عن ایوب عن ابی قلابہ عن عبداللہ بن یزیدعن عائشہ روایت کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ باری تقسیم کرتے تھے جب کہ اسے حماد بن زید اوردوسرے کئی ثقات نے بسند ایوب عن ابی قلابہ مرسلاً روایت کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ باری تقسیم کرتے تھے اور یہ حماد بن سلمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،اورجس کی قدرت تورکھتاہے میں نہیں رکھتاسے مرادمحبت ومؤدّۃہے،اسی طرح بعض اہل علم نے اس کی تفسیرکی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَہِيكٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ فَلَمْ يَعْدِلْ بَيْنَہُمَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّہُ سَاقِطٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا أَسْنَدَ ہَذَا الْحَدِيثَ ہَمَّامُ بْنُ يَحْيَی عَنْ قَتَادَةَ وَرَوَاہُ ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ كَانَ يُقَالُ وَلَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ہَمَّامٍ وَہَمَّامٌ ثِقَةٌ حَافِظٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب کسی شخص کے پاس دوبیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکاہوا ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کو ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے مُسنداً ۱؎ روایت کیا ہے،۲-اوراسے ہشام دستوائی نے بھی قتادہ سے روایت کیا ہے لیکن اس روایت میں ہے کہ ایسا کہاجاتاتھا...۳-ہم اس حدیث کو صرف ہما م ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور ہمام ثقہ حافظ ہیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ حَرَّمَ مِنْ الرَّضَاعِ مَا حَرَّمَ مِنْ النَّسَبِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأُمِّ حَبِيبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام کردیے ہیں جو نسب سے حرام ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابن عباس اورام حبیبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔اس سلسلے میں ہم ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں جانتے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ حَرَّمَ مِنْ الرَّضَاعَةِ مَا حَرَّمَ مِنْ الْوِلَادَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَا نَعْلَمُ بَيْنَہُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام قراردے دیئے ہیں جو ولادت (نسب) سے حرام ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ وغیرھم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللہِ ہُوَ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَی امْرَأَةً فَدَخَلَ عَلَی زَيْنَبَ فَقَضَی حَاجَتَہُ وَخَرَجَ وَقَالَ إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَقْبَلَتْ أَقْبَلَتْ فِي صُورَةِ شَيْطَانٍ فَإِذَا رَأَی أَحَدُكُمْ امْرَأَةً فَأَعْجَبَتْہُ فَلْيَأْتِ أَہْلَہُ فَإِنَّ مَعَہَا مِثْلَ الَّذِي مَعَہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ہُوَ ہِشَامُ بْنُ سَنْبَرٍ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے ایک عورت کودیکھاتو آپ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور آپ نے اپنی ضرورت پوری کی اور باہر تشریف لاکرفرمایا: عورت جب سامنے آتی ہے تووہ شیطان کی شکل میں آتی ہے ۱؎،لہذاجب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے بھلی لگے تو اپنی بیوی کے پاس آئے اس لیے کہ اس کے پاس بھی اسی جیسی چیز ہے جو ا س کے پاس ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر کی حدیث صحیح حسن غریب ہے،۲-ا س باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-ہشام دستوائی دراصل ہشام بن سنبر ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِيَ الْبَتَّةَ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ بِہَا قُلْتُ وَاحِدَةً قَالَ وَاللہِ قُلْتُ وَاللہِ قَالَ فَہُوَ مَا أَرَدْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ فِيہِ اضْطِرَابٌ وَيُرْوَی عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي طَلَاقِ الْبَتَّةِ فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّہُ جَعَلَ الْبَتَّةَ وَاحِدَةً وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّہُ جَعَلَہَا ثَلَاثًا و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِيہِ نِيَّةُ الرَّجُلِ إِنْ نَوَی وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ وَإِنْ نَوَی ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ وَإِنْ نَوَی ثِنْتَيْنِ لَمْ تَكُنْ إِلَّا وَاحِدَةً وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فِي الْبَتَّةِ إِنْ كَانَ قَدْ دَخَلَ بِہَا فَہِيَ ثَلَاثُ تَطْلِيقَاتٍ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنْ نَوَی وَاحِدَةً فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ وَإِنْ نَوَی ثِنْتَيْنِ فَثِنْتَانِ وَإِنْ نَوَی ثَلَاثًا فَثَلَاثٌ

رکانہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بیوی کو قطعی طلاق (بتّہ)د ی ہے۔آپ نے فرمایا: تم نے اس سے کیا مرادلی تھی؟،میں نے عرض کیا: ایک طلاق مرادلی تھی،آپ نے پوچھا: اللہ کی قسم؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم!آپ نے فرمایا:تویہ اتنی ہی ہے جتنی کاتم نے ارادہ کیاتھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا:ـ اس میں اضطراب ہے،عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں رکانہ نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دی تھیں،۳-اہل علم صحابہ کرام وغیرہم میں سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے طلاق بتّہ کو ایک طلاق قراردی ہے،۴-اور علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے اسے تین طلاق قراردی ہے،۵-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں آدمی کی نیت کا اعتبار ہوگا۔اگر اس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہوگی اور اگر تین کی کی ہے تو تین ہو گی۔اور اگر اس نے دو کی نیت کی ہے تو صرف ایک شمار ہوگی۔یہی ثوری اور اہل کوفہ کاقول ہے،۶-مالک بن انس قطعی طلاق(بتّہ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر عورت ایسی ہے کہ اس کے ساتھ دخول ہوچکاہے توطلاق بتّہ تین طلاق شمار ہوگی،۷-شافعی کہتے ہیں: اگراس نے ایک کی نیت کی ہے تو ایک ہوگی او ر اسے رجعت کا اختیار ہوگا۔اگر دوکی نیت کی ہے تو دو ہوگی اوراگر تین کی نیت کی ہے تو تین شمار ہوگی۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُغِيرَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا سُكْنَی لَكِ وَلَا نَفَقَةَ قَالَ مُغِيرَةُ فَذَكَرْتُہُ لِإِبْرَاہِيمَ فَقَالَ قَالَ عُمَرُ لَا نَدَعُ كِتَابَ اللہِ وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا ﷺ لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي أَحَفِظَتْ أَمْ نَسِيَتْ وَكَانَ عُمَرُ يَجْعَلُ لَہَا السُّكْنَی وَالنَّفَقَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا حُصَيْنٌ وَإِسْمَعِيلُ وَمُجَالِدٌ قَالَ ہُشَيْمٌ وَحَدَّثَنَا دَاوُدُ أَيْضًا عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَسَأَلْتُہَا عَنْ قَضَاءِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِيہَا فَقَالَتْ طَلَّقَہَا زَوْجُہَا الْبَتَّةَ فَخَاصَمَتْہُ فِي السُّكْنَی وَالنَّفَقَةِ فَلَمْ يَجْعَلْ لَہَا النَّبِيُّ ﷺ سُكْنَی وَلَا نَفَقَةً وَفِي حَدِيثِ دَاوُدَ قَالَتْ وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَالشَّعْبِيُّ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَالُوا لَيْسَ لِلْمُطَلَّقَةِ سُكْنَی وَلَا نَفَقَةٌ إِذَا لَمْ يَمْلِكْ زَوْجُہَا الرَّجْعَةَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ وَعَبْدُ اللہِ إِنَّ الْمُطَلَّقَةَ ثَلَاثًا لَہَا السُّكْنَی وَالنَّفَقَةُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَہَا السُّكْنَی وَلَا نَفَقَةَ لَہَا وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَاللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا جَعَلْنَا لَہَا السُّكْنَی بِكِتَابِ اللہِ قَالَ اللہُ تَعَالَی لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُيُوتِہِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ قَالُوا ہُوَ الْبَذَاءُ أَنْ تَبْذُوَ عَلَی أَہْلِہَا وَاعْتَلَّ بِأَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ لَمْ يَجْعَلْ لَہَا النَّبِيُّ ﷺ السُّكْنَی لِمَا كَانَتْ تَبْذُو عَلَی أَہْلِہَا قَالَ الشَّافِعِيُّ وَلَا نَفَقَةَ لَہَا لِحَدِيثِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي قِصَّةِ حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ

عامربن شراحیل شعبی کہتے ہیں: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے میرے شوہر نے نبی اکرمﷺ کے زمانے میں تین طلاقیں دیں ۱؎ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہیں نہ سکنی (رہائش) ملے گا اور نہ نفقہ(اخراجات) ۔ مغیرہ کہتے ہیں:پھر میں نے اس کا ذکر ابراہیم نخعی سے کیا،توانہوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کاکہناہے کہ ہم ایک عورت کے کہنے سے اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کوترک نہیں کرسکتے۔ہمیں نہیں معلوم کہ اسے یہ بات یاد بھی ہے یابھول گئی۔عمر ایسی عورت کو سکنٰی اور نفقہ دلاتے تھے۔ دوسری سند سے ہشیم کہتے ہیں کہ ہم سے داود نے بیان کیا شعبی کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس آیااور میں نے ان سے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کے متعلق پوچھاتو انہوں نے کہا: ان کے شوہر نے انہیں طلاق بتہ دی توانہوں نے سکنیٰ اور نفقہ کے سلسلے میں مقدمہ کیا۔نبی اکرمﷺنے انہیں نہ سکنیٰ ہی دلوایا اور نہ نفقہ۔داود کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ انہوں نے کہا: اورمجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ابن ام مکتوم کے گھر میں عد ت گزاروں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کایہی قول ہے۔ان میں حسن بصری،عطاء بن ابی رباح اور شعبی بھی ہیں۔اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ان لوگوں کاکہناہے کہ مطلقہ کے لیے جب اس کاشوہررجعت کا اختیارنہ رکھے نہ سکنیٰ ہوگا اور نہ نفقہ،۳-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ہیں کہتے ہیں کہ تین طلاق والی عورت کو سکنیٰ اور نفقہ دونوں ملے گا۔یہی ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں: اسے سکنیٰ ملے گا نفقہ نہیں ملے گا۔یہ مالک بن انس،لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے،۵-شافعی کہتے ہیں کہ ہم نے اس کے لیے سکنیٰ کا حق کتاب اللہ کی بنیاد پر رکھاہے،اللہ تعالیٰ فرماتاہے: انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلم کھلا کوئی بے حیائی کربیٹھیں ۲؎،بذاء یہ ہے کہ عورت شوہرکے گھروالوں کے ساتھ بدکلامی کرے۔نبی اکرم ﷺ کے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو سکنیٰ نہ دینے کی علت بھی یہی ہے کہ وہ گھروالوں سے بدکلامی کرتی تھیں۔اورفاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے واقعے میں نفقہ نہ دینے کی رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی روسے اسے نفقہ نہیں ملے گا۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سُئِلْتُ عَنْ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَہُمَا فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ فَقُمْتُ مَكَانِي إِلَی مَنْزِلِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْہِ فَقِيلَ لِي إِنَّہُ قَائِلٌ فَسَمِعَ كَلَامِي فَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلَّا حَاجَةٌ قَالَ فَدَخَلْتُ فَإِذَا ہُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَہُ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَہُمَا فَقَالَ سُبْحَانَ اللہِ نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَی امْرَأَتَہُ عَلَی فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَی أَمْرٍ عَظِيمٍ قَالَ فَسَكَتَ النَّبِيُّ ﷺ فَلَمْ يُجِبْہُ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْہُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِہِ فَأَنْزَلَ اللہُ ہَذِہِ الْآيَاتِ الَّتِي فِي سُورَةِ النُّورِ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَہُمْ شُہَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُہُمْ حَتَّی خَتَمَ الْآيَاتِ فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلَا الْآيَاتِ عَلَيْہِ وَوَعَظَہُ وَذَكَّرَہُ وَأَخْبَرَہُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَہْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْہَا ثُمَّ ثَنَّی بِالْمَرْأَةِ فَوَعَظَہَا وَذَكَّرَہَا وَأَخْبَرَہَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَہْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ فَقَالَتْ لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ قَالَ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَہِدَ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللہِ إِنَّہُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللہِ عَلَيْہِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّی بِالْمَرْأَةِ فَشَہِدَتْ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ بِاللہِ إِنَّہُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللہِ عَلَيْہَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَہُمَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَحُذَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

سعید بن جبیر کہتے ہیں: مصعب بن زبیر کے زمانۂ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیاکہ کیاان کے درمیان تفریق کردی جائے؟تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیاجواب دوں؟چنانچہمیں اپنی جگہ سے اٹھ کرعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھرآیااور اندر آنے کی اجازت مانگی،بتایا گیاکہ وہ قیلولہ کررہے ہیں،لیکن انہوں نے میری بات سن لی،اور کہا:ابن جبیر!آجاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کرآئی ہوگی۔سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیاتوکیادیکھتاہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پرلیٹے ہیں۔میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کردی جائے گی؟ کہا: سبحان اللہ! ہاں،سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا۔وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اوراس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو برائی کرتے دیکھے تو کیاکرے؟ اگر کچھ کہتاہے تو بڑی بات کہتاہے،اورا گر خاموش رہتا ہے تووہ سنگین معاملہ پر خاموش رہتاہے۔ابن عمر کہتے ہیں نبی اکرمﷺ خاموش رہے اورآپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھرجب کچھ دن گزرے تو وہ نبی اکرمﷺ کے پاس(دوبارہ) آیا اوراس نے عرض کیا: میں نے آپ سے جو مسئلہ پوچھا تھا میں اس میں خود مبتلاکردیاگیا ہوں۔تب اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی یہ آیتیں نازل فرمائیںوَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُن لَّہُمْ شُہَدَاء إِلاًّ أَنفُسُہُمْ (النور: 6) (یعنی جولوگ اپنی بیویوں پر تہمت زنا لگاتے ہیں اور ان کے پاس خود اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہیں۔)یہاں تک کہ یہ آیتیں ختم کیں،پھر آپ نے اس آدمی کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں،اوراسے نصیحت کی اور اس کی تذکیرکی اور بتایاکہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔اس پراس نے کہا: نہیں،اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے،میں نے اس پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے۔پھر آپ نے وہ آیتیں عورت کے سامنے دہرائیں،اس کو نصیحت کی،اوراس کی تذکیرکی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔اس پر اس عورت نے کہا: نہیں،اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا،وہ سچ نہیں بول رہاہے۔ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: آپ نے مرد سے ابتداء کی،اس نے اللہ کانام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ گواہی دی کہ اگروہ جھوٹا ہو تو اس پراللہ کی لعنت ہو۔پھر دوبارہ آپ نے عورت سے یہی باتیں کہلوائیں،اس نے اللہ کانام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے،اور پانچویں مرتبہ اس نے گواہی دی کہ اگر اس کا شوہر سچاہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔پھر آپ نے ان دونوں میں تفریق کردی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سہل بن سعد،ابن عباس،ابن مسعود اور حذیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ لَاعَنَ رَجُلٌ امْرَأَتَہُ وَفَرَّقَ النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَہُمَا وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْأُمِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا،تو نبی اکرمﷺ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی اور لڑکے کو ماں کے ساتھ کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَہُ وَشَاہِدَيْہِ وَكَاتِبَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے،سود دینے والے،اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پرلعنت بھیجی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،علی،جابر اور ابوجحیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ أَنْ يَقُولَ أَبِيعُكَ ہَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ وَلَا يُفَارِقُہُ عَلَی أَحَدِ الْبَيْعَيْنِ فَإِذَا فَارَقَہُ عَلَی أَحَدِہِمَا فَلَا بَأْسَ إِذَا كَانَتْ الْعُقْدَةُ عَلَی أَحَدٍ مِنْہُمَا قَالَ الشَّافِعِيُّ وَمِنْ مَعْنَی نَہْيِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ أَنْ يَقُولَ أَبِيعَكَ دَارِي ہَذِہِ بِكَذَا عَلَی أَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَكَ بِكَذَا فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُكَ وَجَبَتْ لَكَ دَارِي وَہَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ وَلَا يَدْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلَی مَا وَقَعَتْ عَلَيْہِ صَفْقَتُہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دوبیع کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو،ابن عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،۴-بعض اہل علم نے ایک بیع میں د وبیع کی تفسیریوں کی ہے کہ ایک بیع میں دوبیع یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپئے میں اور ادھار بیس روپیے میں بیچتاہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو،(بلکہ بغیرکسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلاجائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جداہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقدہوگئی ہو،۵-شافعی کہتے ہیں: ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے: میں اپنا یہ گھر اتنے روپئے میں اس شرط پر بیچ رہاہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپئے میں بیچ دو۔جب تیراغلام میرے لیے واجب وثابت ہوجائے گا تو میرا گھرتیرے لیے واجب وثابت ہوجائے گا،یہ بیع بغیرثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ۲؎ اور بائع اورمشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہواہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ النَّبِيَّ ﷺ عَلَی الْہِجْرَةِ وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ ﷺ أَنَّہُ عَبْدٌ فَجَاءَ سَيِّدُہُ يُرِيدُہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ بِعْنِيہِ فَاشْتَرَاہُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتَّی يَسْأَلَہُ أَعَبْدٌ ہُوَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ لَا بَأْسَ بِعَبْدٍ بِعَبْدَيْنِ يَدًا بِيَدٍ وَاخْتَلَفُوا فِيہِ إِذَا كَانَ نَسِيئًا

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا اوراس نے نبی اکرمﷺسے ہجرت پربیعت کی،نبی اکرم ﷺ نہیں جان سکے کہ یہ غلام ہے۔اتنے میں اس کا مالک آگیاوہ اس کامطالبہ رہا تھا،نبی اکرمﷺنے اس سے کہا: تم اسے مجھ سے بیچ دو،چنانچہ آپ نے اُسے دوکالے غلاموں کے عوض خرید لیا،پھر اس کے بعد آپ کسی سے اس وقت تک بیعت نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس سے دریافت نہ کرلیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کااسی حدیث پرعمل ہے کہ ایک غلام کو دوغلام سے نقدانقدخریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جب ادھار ہو تو اس میں اختلاف ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ كَانَ عِنْدَنَا خَمْرٌ لِيَتِيمٍ فَلَمَّا نَزَلَتْ الْمَائِدَةُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْہُ وَقُلْتُ إِنَّہُ لِيَتِيمٍ فَقَالَ أَہْرِيقُوہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا و قَالَ بِہَذَا بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَكَرِہُوا أَنْ تُتَّخَذَ الْخَمْرُ خَلَّا وَإِنَّمَا كُرِہَ مِنْ ذَلِكَ وَاللہُ أَعْلَمُ أَنْ يَكُونَ الْمُسْلِمُ فِي بَيْتِہِ خَمْرٌ حَتَّی يَصِيرَ خَلَّا وَرَخَّصَ بَعْضُہُمْ فِي خَلِّ الْخَمْرِ إِذَا وُجِدَ قَدْ صَارَ خَلًّا أَبُو الْوَدَّاكِ اسْمُہُ جَبْرُ بْنُ نَوْفٍ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمارے پاس ایک یتیم کی شراب تھی،جب سورہ مائدہ نازل ہوئی(جس میں شراب کی حرمت مذکور ہے) تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا اورعرض کیا کہ وہ ایک یتیم کی ہے؟تو آپ نے فرمایا: اسے بہادو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوربھی سندوں سے یہ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے،۳-اس باب میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،۴-بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں،یہ لوگ شراب کا سرکہ بنانے کو مکروہ سمجھتے ہیں،اس وجہ سے اسے مکروہ قراردیاگیاہے کہ مسلمان کے گھر میں شراب رہے یہاں تک کہ وہ سرکہ بن جائے۔واللہ اعلم،۵-بعض لوگوں نے شراب کے سرکہ کی اجازت دی ہے جب وہ خود سرکہ بن جائے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ فِي الْخُطْبَةِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ وَأَنَسٍ قَالَ وَحَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺکوحجۃ الوداع کے سال خطبہ میں فرماتے سنا: عاریت لی ہوئی چیز لوٹائی جائے گی،ضامن کو تاو ان دیناہوگا اور قرض واجب الاداء ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اوریہ ابوامامہ کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے اوربھی طریق سے مروی ہے،۳-اس باب میں سمرہ،صفوان بن امیہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ عَلَی الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّی تُؤَدِّيَ قَالَ قَتَادَةُ ثُمَّ نَسِيَ الْحَسَنُ فَقَالَ فَہُوَ أَمِينُكَ لَا ضَمَانَ عَلَيْہِ يَعْنِي الْعَارِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَی ہَذَا وَقَالُوا يَضْمَنُ صَاحِبُ الْعَارِيَةِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَيْسَ عَلَی صَاحِبِ الْعَارِيَةِ ضَمَانٌ إِلَّا أَنْ يُخَالِفَ وَہُوَ قَوْلُ الْثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَبِہِ يَقُولُ إِسْحَقُ

سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوکچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادانہ کردے اس کے ذمہ ہے ۱؎،قتادہ کہتے ہیں: پھرحسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے جس نے عاریت لی ہے وہ تیرا امین ہے،اس پر تاوان نہیں ہے،یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں: عاریۃً لینے والا ضامن ہوتا ہے۔اوریہی شافعی اور احمد کابھی قول ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عاریت لینے والے پر تاوان نہیں ہے،الا یہ کہ وہ سامان والے کی مخالفت کرے۔ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ وَہُوَ فِيہَا فَاجِرٌ لِيَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللہَ وَہُوَ عَلَيْہِ غَضْبَانُ فَقَالَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ فِيَّ وَاللہِ لَقَدْ كَانَ ذَلِكَ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْ الْيَہُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي فَقَدَّمْتُہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَكَ بَيِّنَةٌ قُلْتُ لَا فَقَالَ لِلْيَہُودِيِّ احْلِفْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِذًا يَحْلِفُ فَيَذْہَبُ بِمَالِي فَأَنْزَلَ اللہَ تَعَالَی إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللہِ وَأَيْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَأَبِي مُوسَی وَأَبِي أُمَامَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ الْأَنْصَارِيِّ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے جھوٹی قسم کھائی تاکہ اس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کا مال ہتھیالے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا۔ اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم،آپ نے میرے سلسلے میں یہ حدیث بیان فرمائی تھی۔میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی،اس نے میرے حصے کا انکار کیا تو میں اسے نبی اکرمﷺسے پاس لے گیا،رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: کیاتمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں،توآپ نے یہودی سے فرمایا:تم قسم کھاؤ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو قسم کھالے گا اور میرا مال ہضم کرلے گا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیإِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلاً (آل عمران: ۷۷) (اورجولوگ اللہ کے قرار اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑا سامول حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں وائل بن حجر،ابوموسیٰ،ابوامامہ بن ثعلبہ انصاری اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ قَالَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ نَہَی النَّبِيُّ ﷺ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُہُمْ فِي قَبُولِ الْكَرَامَةِ عَلَی ذَلِكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے نرکومادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،انس اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔بعض علماء نے اس کام پر بخشش قبول کرنے کی اجازت دی ہے،جمہورکے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ حُمَيْدٍ الرُّؤَاسِيِّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ كِلَابٍ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ فَنَہَاہُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا نُطْرِقُ الْفَحْلَ فَنُكْرَمُ فَرَخَّصَ لَہُ فِي الْكَرَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قبیلہ ٔ کلاب کے ایک آدمی نے نبی اکرمﷺسے نرکومادہ پرچھوڑنے کی اجرت لینے کے بارے میں پوچھاتوآپ نے اسے منع کردیا،پھر اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم مادہ پرنر چھوڑتے ہیں توہمیں بخشش دی جاتی ہے (تواس کا حکم کیا ہے؟۔)آپ نے اسے بخشش لینے کی اجازت دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ہم اسے صرف ابراہیم بن حمیدہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السُّوءِ الْعَائِدُ فِي ہِبَتِہِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بُری مثال ہمارے لیے مناسب نہیں،ہدیہ دے کر واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کرکے چاٹتاہے ۱؎۔

قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيہَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَہُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَنَّہُ سَمِعَ طَاوُسًا يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعَانِ الْحَدِيثَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ بِہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالُوا مَنْ وَہَبَ ہِبَةً لِذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَلَيْسَ لَہُ أَنْ يَرْجِعَ فِيہَا وَمَنْ وَہَبَ ہِبَةً لِغَيْرِ ذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَلَہُ أَنْ يَرْجِعَ فِيہَا مَا لَمْ يُثَبْ مِنْہَا وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيہَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَہُ وَاحْتَجَّ الشَّافِعِيُّ بِحَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيہَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَہُ

عبداللہ بن عمر اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:کسی کے لیے جائزنہیں کہ کوئی عطیہ دے کراسے واپس لے سواے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کسی ذی محرم کو کوئی چیز بطورہبہ دے تو پھر اسے واپس لینے کا اختیار نہیں،اورجو کسی غیر ذی محرم کو کوئی چیز بطورہبہ دے تو اس کے لیے اسے واپس لیناجائز ہے جب اُسے اس کابدلہ نہ دیاگیا ہو،یہی ثوری کا قول ہے،۳-اورشافعی کہتے ہیں: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کوکوئی عطیہ دے پھر اسے واپس لے،سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے،شافعی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی کے لیے جائزنہیں کہ کوئی عطیہ دے کراسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ ہَجَرَ فَجَاءَنَا النَّبِيُّ ﷺ فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ وَعِنْدِي وَزَّانٌ يَزِنُ بِالْأَجْرِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِلْوَزَّانِ زِنْ وَأَرْجِحْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سُوَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَہْلُ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ الرُّجْحَانَ فِي الْوَزْنِ وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سِمَاكٍ فَقَالَ عَنْ أَبِي صَفْوَانَ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ

سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور مخرمہ عبدی دونوں مقام ہجر سے ایک کپڑالے آ ئے،نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اورآپ نے ہم سے ایک پائجامے کا مول بھاؤکیا۔میرے پاس ایک تولنے ولا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھاتو نبی اکرمﷺنے تولنے والے سے فرمایا: جھکاکرتول۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سوید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم جھُکاکرتولنے کو مستحب سمجھتے ہیں،۳-اس باب میں جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اورشعبہ نے بھی اس حدیث کو سماک سے روایت کیا ہے،لیکن انہوں نے عن سویدبن قیس کی جگہ عن ابی صفوان کہاہے پھرآگے حدیث ذکرکی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا تَقَاضَی إِلَيْكَ رَجُلَانِ فَلَا تَقْضِ لِلْأَوَّلِ حَتَّی تَسْمَعَ كَلَامَ الْآخَرِ فَسَوْفَ تَدْرِي كَيْفَ تَقْضِي قَالَ عَلِيٌّ فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا بَعْدُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہارے پاس دوآدمی فیصلہ کے لیے آئیں توتم پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو ۱؎ عنقریب تم جان لوگے کہ تم کیسے فیصلہ کرو۔علی کہتے ہیں: اس کے بعد میں برابرفیصلے کرتارہا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ أُہْدِيَ إِلَيَّ كُرَاعٌ لَقَبِلْتُ وَلَوْ دُعِيتُ عَلَيْہِ لَأَجَبْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَسَلْمَانَ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگرمجھے کھربھی ہدیہ کی جائے تو میں قبول کروں گا اورا گر مجھے اس کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،عائشہ،مغیرہ بن شعبہ،سلمان،معاویہ بن حیدہ اور عبدالرحمٰن بن علقمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ قَالَ رَبِيعَةُ وَأَخْبَرَنِي ابْنٌ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ وَجْدنَا فِي كِتَاب سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَی بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاہِدِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَسُرَّقَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَی بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا۔ ربیعہ کہتے ہیں: مجھے سعد بن عبادہ کے بیٹے نے خبردی کہ ہم نے سعد رضی اللہ عنہ کی کتاب میں لکھاپایاکہ نبی اکرمﷺ نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں)فیصلہ دیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں علی،جابر،ابن عباس اور سرق رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ نبی اکرمﷺنے ایک گواہ اورمدعی کی قسم سے(مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَی بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاہِدِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک گواہ اورمدی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَی بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ قَالَ وَقَضَی بِہَا عَلِيٌّ فِيكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ وَہَكَذَا رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَرَوَی عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ وَيَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ رَأَوْا أَنَّ الْيَمِينَ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ جَائِزٌ فِي الْحُقُوقِ وَالْأَمْوَالِ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَالُوا لَا يُقْضَی بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ إِلَّا فِي الْحُقُوقِ وَالْأَمْوَالِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ أَنْ يُقْضَی بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاہِدِ الْوَاحِدِ

ابوجعفر صادق سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا،راوی کہتے ہیں:اور علی نے بھی اسی سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث زیادہ صحیح ہے،۲-اسی طرح سفیان ثوری نے بھی بطریق: جعفر بن محمد،عن أبیہ،عن النبی ﷺ مرسلاً روایت کی ہے۔اورعبدالعزیز بن ابوسلمہ اور یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کو بطریق: جعفر بن محمد،عن أبیہ،عن علی،عن النبی ﷺ (مرفوعاً) روایت کیا ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،ان لوگوں کی رائے ہے کہ حقوق اور اموال کے سلسلے میں ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم کھلاناجائز ہے۔مالک بن انس،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے صرف حقوق اور اموال کے سلسلے ہی میں فیصلہ کیاجائے گا۔۴-اوراہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ح و حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُہُورٍ وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ قَالَ ہَنَّادٌ فِي حَدِيثِہِ إِلَّا بِطُہُورٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِيہِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَأَبُو الْمَلِيحِ بْنُ أُسَامَةَ اسْمُہُ عَامِرٌ وَيُقَالُ زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْہُذَلِيُّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: صلاۃبغیر وضو کے قبول نہیں کی جاتی ۲؎ اور نہ صدقہ حرام مال سے قبول کیاجاتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اورحسن ہے۳؎۔ ۲-اس باب میں ابو الملیح کے والد اُسامہ،ابوہریرہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ الْبَصْرِيُّ،قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ مُعَاذَةَ،عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مُرْنَ أَزْوَاجَكُنَّ أَنْ يَسْتَطِيبُوا بِالْمَاءِ،فَإِنِّي أَسْتَحْيِيہِمْ،فَإِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَفْعَلُہُ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْبَجَلِيِّ،وَأَنَسٍ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ: يَخْتَارُونَ الإسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ،وَإِنْ كَانَ الإسْتِنْجَاءُ بِالْحِجَارَةِ يُجْزِءُ عِنْدَہُمْ،فَإِنَّہُمْ اسْتَحَبُّوا الإسْتِنْجَاءَ بِالْمَاءِ،وَرَأَوْہُ أَفْضَلَ. وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ۔

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہو کہ وہ پانی سے استنجا کیاکریں،میں ان سے(یہ بات کہتے) شرمارہی ہوں،کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایساہی کرتے تھے۔ اما م ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جریر بن عبداللہ بجلی،انس،اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اسی پر اہل علم کاعمل ہے ۱؎،وہ پانی سے استنجاء کرنے کو پسندکرتے ہیں اگرچہ پتھرسے استنجاء ان کے نزدیک کافی ہے پھربھی پانی سے استنجاء کو انہوں نے مستحب اورافضل قراردیاہے۔سفیان ثوری،ابن المبارک،شافعی،احمد،اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِي لأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَحَدِيثُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ كِلاَہُمَا عِنْدِي صَحِيحٌ،لأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثُ. وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ إِنَّمَا صَحَّ لأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ. وَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ فَزَعَمَ أَنَّ حَدِيثَ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ،وَعَلِيٍّ،وَعَائِشَةَ،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَحُذَيْفَةَ،وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ،وَأَنَسٍ،وَعَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو،وَابْنِ عُمَرَ،وَأُمِّ حَبِيبَةَ،وَأَبِي أُمَامَةَ،وَأَبِي أَيُّوبَ،وَتَمَّامِ بْنِ عَبَّاسٍ،وَعَبْدِاللہِ بْنِ حَنْظَلَةَ،وَأُمِّ سَلَمَةَ،وَوَاثِلَةَ بْنِ الاَسْقَعِ،وَأَبِي مُوسَی.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگرمجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہرصلاۃ کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ بروایت ابوسلمہ،ابوہریرہ اورزیدبن خالد رضی اللہ عنہما کی مروی دونوں حدیثیں میرے نزدیک صحیح ہیں،محمدبن اسماعیل بخاری کا خیال ہے کہ ابوسلمہ کی زیدبن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے ۲؎،۳-اس باب میں ابوبکرصدیق،علی،عائشہ،ابن عباس،حذیفہ،زیدبن خالد،انس،عبداللہ بن عمرو،ابن عمر،ام حبیبہ،ابوامامہ،ابوایوب،تمام بن عباس،عبداللہ بن حنظلہ،ام سلمہ،واثلہ بن الاسقع اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: لَوْلاَأَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِي لاَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ،وَلأَخَّرْتُ صَلاَةَ الْعِشَاءِ إِلَی ثُلُثِ اللَّيْلِ قَالَ: فَكَانَ زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ يَشْہَدُ الصَّلَوَاتِ فِي الْمَسْجِدِ وَسِوَاكُہُ عَلَی أُذُنِہِ مَوْضِعَ الْقَلَمِ مِنْ أُذُنِ الْكَاتِبِ،لاَيَقُومُ إِلَی الصَّلاَةِ إِلاَّأُسْتَنَّ ثُمَّ رَدَّہُ إِلَی مَوْضِعِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

زید بن خالدجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اگر مجھے اپنی امت کو حرج و مشقت میں مبتلاکرنے کا خطرہ نہ ہوتاتومیں انہیں ہرصلاۃ کے وقت (وجوباً) مسواک کرنے کا حکم دیتا،نیز میں عشاء کو تہائی رات تک مؤخرکرتا (راوی حدیث) ابوسلمہ کہتے ہیں: اس لیے زیدبن خالد رضی اللہ عنہ صلاۃ کے لیے مسجد آتے تو مسواک ان کے کان پربالکل اسی طرح ہوتی جیسے کاتب کے کان پرقلم ہوتاہے،وہ صلاۃ کے لئے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے پھر اسے اس کی جگہ پرواپس رکھ لیتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَجَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَثِرْ وَإِذَا اسْتَجْمَرْتَ فَأَوْتِرْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَلَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ تَرَكَ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْہُمْ إِذَا تَرَكَہُمَا فِي الْوُضُوءِ حَتَّی صَلَّی أَعَادَ الصَّلَاةَ وَرَأَوْا ذَلِكَ فِي الْوُضُوءِ وَالْجَنَابَةِ سَوَاءً وَبِہِ يَقُولُ ابْنُ أَبِي لَيْلَی وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ أَحْمَدُ الِاسْتِنْشَاقُ أَوْكَدُ مِنْ الْمَضْمَضَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ يُعِيدُ فِي الْجَنَابَةِ وَلَا يُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَبَعْضِ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ لَا يُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ وَلَا فِي الْجَنَابَةِ لِأَنَّہُمَا سُنَّةٌ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ فَلَا تَجِبُ الْإِعَادَةُ عَلَی مَنْ تَرَكَہُمَا فِي الْوُضُوءِ وَلَا فِي الْجَنَابَةِ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ فِي آخِرَةٍ

سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو ناک جھاڑو اور جب ڈھیلے سے استنجا کروتوطاق ڈھیلے لو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں عثمان،لقیط بن صبرہ،ابن عباس،مقدام بن معدیکرب،وائل بن حجراور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-سلمہ بن قیس والی حدیث حسن صحیح ہے،۳-جوکلی نہ کرے اورناک میں پانی نہ چڑھائے اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے: ایک گروہ کاکہنا ہے کہ جب کوئی ان دونوں چیزوں کو وضو میں چھوڑدے اورصلاۃپڑھ لے تو وہ صلاۃکو لوٹائے ۱؎ ان لوگوں کی رائے ہے کہ وضواورجنابت دونوں میں یہ حکم یکساں ہے،ابن ابی لیلیٰ،عبداللہ بن مبارک،احمداوراسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں،امام احمد(مزید)کہتے ہیں کہ ناک میں پانی چڑھانا کلی کرنے سے زیادہ تاکیدی حکم ہے،اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جنابت میں کلی نہ کرنے اورناک نہ جھاڑنے کی صورت میں صلاۃ لوٹائے اوروضومیں نہ لوٹائے ۲؎ یہ سفیان ثوری اوربعض اہل کوفہ کاقول ہے،ایک گروہ کاکہنا ہے کہ نہ وضومیں لوٹائے اورنہ جنابت میں کیونکہ یہ دونوں چیزیں مسنون ہیں،توجوانہیں وضو اور جنابت میں چھوڑدے اس پر صلاۃ لوٹانا واجب نہیں،یہ مالک اورشافعی کاآخری قول ہے ۳؎۔

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ،حَدَّثَنَا شَرِيكٌ،عَنْ ثَابِتِ بْنِ أَبِي صَفِيَّةَ،قَالَ: قُلْتُ لأَبِي جَعْفَرٍ: حَدَّثَكَ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً،وَمَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ،وَثَلاَثًا ثَلاَثًا. قَالَ نَعَمْ.

ابوحمزہ ثابت بن ابی صفیہ ثمالی کہتے ہیں کہ میں نے ابوجعفرسے پوچھا:کیا جابر رضی اللہ عنہما نے آپ سے یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو ایک ایک بار،دودوبار،اورتین تین بار دھوئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں (بیان کیا ہے)۔

وَرَوَی وَكِيعٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ أَبِي صَفِيَّةَ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي جَعْفَرٍ: حَدَّثَكَ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً؟ قَالَ: نَعَمْ. و حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ ثَابِتِ بْنِ أَبِي صَفِيَّة. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ،لأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ ہَذَا عَنْ ثَابِتٍ نَحْوَ رِوَايَةِ وَكِيعٍ. وَشَرِيكٌ كَثِيرُ الْغَلَطِ. وَثَابِتُ بْنُ أَبِي صَفِيَّةَ ہُوَ أَبُو حَمْزَةَ الثُّمَالِيُّ.

یہ حدیث وکیع نے ثابت بن ابی صفیہ سے روایت کی ہے،میں نے ابوجعفر (محمد بن علی بن حسین الباقر) سے پوچھاکہ آپ سے جابر رضی اللہ عنہما نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو کو ایک بار دھودیا،انہوں نے جواب دیا: ہاں،۱-اوریہ شریک کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیوں کہ یہ ثابت سے وکیع کی روایت کی طرح اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے،۲-اور شریک کثیرالغلط راوی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ عَنْ أَبِي مُعَاذٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ خِرْقَةٌ يُنَشِّفُ بِہَا بَعْدَ الْوُضُوءِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ لَيْسَ بِالْقَائِمِ وَلَا يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ شَيْءٌ وَأَبُو مُعَاذٍ يَقُولُونَ ہُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ أَرْقَمَ وَہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے آپ وضوکے بعد اپنا بدن پونچھتے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت درست نہیں ہے،نبی اکرم ﷺ سے اس باب میں کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے،ابومعاذ سلیمان بن ارقم محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں،۲-اس باب میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ إِذَا تَوَضَّأَ مَسَحَ وَجْہَہُ بِطَرَفِ ثَوْبِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُہُ ضَعِيفٌ وَرِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الْأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ فِي التَّمَنْدُلِ بَعْدَ الْوُضُوءِ وَمَنْ كَرِہَہُ إِنَّمَا كَرِہَہُ مِنْ قِبَلِ أَنَّہُ قِيلَ إِنَّ الْوُضُوءَ يُوزَنُ وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَالزُّہْرِيِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ قَالَ حَدَّثَنِيہِ عَلِيُّ بْنُ مُجَاہِدٍ عَنِّي وَہُوَ عِنْدِي ثِقَةٌ عَنْ ثَعْلَبَة عَنْ الزُّہْرِيِّ قَالَ إِنَّمَا كُرِہَ الْمِنْدِيلُ بَعْدَ الْوُضُوءِ لِأَنَّ الْوُضُوءَ يُوزَنُ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو چہرے کو اپنے کپڑے کے کنارے سے پونچھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے،رشدین بن سعد اور عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم الافریقی دونوں حدیث میں ضعیف قراردیئے جاتے ہیں،۲-صحابہ کرام اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اہل علم کے ایک گروہ نے وضوکے بعدرومال سے پونچھنے کی اجازت دی ہے،اورجن لوگوں نے اسے مکروہ کہاہے تومحض اس وجہ سے کہا ہے کہ کہاجاتاہے: وضوکو(قیامت کے دن)تولاجائے گا،یہ بات سعیدبن مسیب اورزہری سے روایت کی گئی ہے،۳-زہری کہتے ہیں کہ وضو کے بعد تولیہ کا استعمال اس لئے مکروہ ہے کہ وضوکاپانی (قیامت کے روز) تولا جائے گا ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی كُوفِيٌّ وَہَنَّادٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ الْمُلَائِيُّ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الدَّالَانِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ نَامَ وَہُوَ سَاجِدٌ حَتَّی غَطَّ أَوْ نَفَخَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّكَ قَدْ نِمْتَ قَالَ إِنَّ الْوُضُوءَ لَا يَجِبُ إِلَّا عَلَی مَنْ نَامَ مُضْطَجِعًا فَإِنَّہُ إِذَا اضْطَجَعَ اسْتَرْخَتْ مَفَاصِلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو خَالِدٍ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھاکہ آپ سجدے کی حالت میں سوگئے یہاں تک کہ آپ خرانٹے لینے لگے،پھر کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھنے لگے،تومیں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ تو سوگئے تھے؟ آپ نے فرمایا: وضو صرف اس پرواجب ہوتا ہے جو چت لیٹ کر سوئے اس لیے کہ جب آدمی لیٹ جاتاہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے ہوجاتے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ،ابن مسعود،اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَنَامُونَ ثُمَّ يَقُومُونَ فَيُصَلُّونَ وَلَا يَتَوَضَّئُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ و سَمِعْت صَالِحَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ سَأَلْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الْمُبَارَكِ عَمَّنْ نَامَ قَاعِدًا مُعْتَمِدًا فَقَالَ لَا وُضُوءَ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ أَبَا الْعَالِيَةِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَاخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي الْوُضُوءِ مِنْ النَّوْمِ فَرَأَی أَكْثَرُہُمْ أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْہِ الْوُضُوءُ إِذَا نَامَ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا حَتَّی يَنَامَ مُضْطَجِعًا وَبِہِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا نَامَ حَتَّی غُلِبَ عَلَی عَقْلِہِ وَجَبَ عَلَيْہِ الْوُضُوءُ وَبِہِ يَقُولُ إِسْحَقُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ مَنْ نَامَ قَاعِدًا فَرَأَی رُؤْيَا أَوْ زَالَتْ مَقْعَدَتُہُ لِوَسَنِ النَّوْمِ فَعَلَيْہِ الْوُضُوءُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (بیٹھے بیٹھے) سوجاتے،پھر اٹھ کر صلاۃ پڑھتے اور وضو نہیں کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-میں نے صالح بن عبداللہ کویہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبداللہ ابن مبارک سے اس آدمی کے بارے میں پوچھاجو بیٹھے بیٹھے سوجائے تو انہوں نے کہاکہ اس پر وضونہیں،۳-ابن عباس والی حدیث کو سعیدبن ابی عروبہ نے بسند قتادہ عن ابن عباس (موقوفاً) روایت کیا ہے اور اس میں ابولعالیہ کاذکرنہیں کیا ہے،۴-نیندسے وضوکے سلسلہ میں علما کا اختلاف ہے،اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ کوئی کھڑے کھڑے سوجائے تو اس پر وضونہیں جب تک کہ وہ لیٹ کرنہ سوئے،یہی سفیان ثوری،ابن المبارک اور احمدکہتے ہیں،اوربعض لوگوں نے کہاہے کہ جب نیند اس قدر گہری ہوکہ عقل پر غالب آجائے تو اس پروضو واجب ہے اوریہی اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں،شافعی کاکہنا ہے کہ جو شخص بیٹھے بیٹھے سوئے اور خواب دیکھنے لگ جائے،یانیند کے غلبہ سے اس کی سرین اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو اس پر وضو واجب ہے ۱؎

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْوُضُوءُ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ وَلَوْ مِنْ ثَوْرِ أَقِطٍ قَالَ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ يَا أَبَا ہُرَيْرَةَ أَنَتَوَضَّأُ مِنْ الدُّہْنِ أَنَتَوَضَّأُ مِنْ الْحَمِيمِ قَالَ فَقَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ يَا ابْنَ أَخِي إِذَا سَمِعْتَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَلَا تَضْرِبْ لَہُ مَثَلًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ وأُمِّ سَلَمَةَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي طَلْحَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ مِمَّا غَيَّرَتْ النَّارُ وَأَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ عَلَی تَرْكِ الْوُضُوءِ مِمَّا غَيَّرَتْ النَّارُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آگ پرپکی ہوئی چیزسے وضوہے اگر چہ وہ پنیرکاکوئی ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو،اس پر ابن عباس نے ان سے کہا: ابوہریرہ(بتائیے)کیا ہم گھی اور گرم پانی (کے استعمال) سے بھی وضوکریں؟توابوہریرہ نے کہا:بھتیجے!تم جب رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث سنو تو اس پر (عمل کرو) باتیں نہ بناؤ۔(اورمثالیں بیان کرکے قیاس نہ کرو)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ام حبیبہ،ام سلمہ،زید بن ثابت،ابوطلحہ،ابو ایوب انصاری اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-بعض اہل علم کی رائے ہے کہ آگ سے پکی ہوئی چیزسے وضوہے،لیکن صحابہ،تابعین اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اکثراہل علم کامذہب ہے کہ اس سے وضونہیں،(دلیل اگلی حدیث ہے)۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي فَزَارَةَ عَنْ أَبِي زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سَأَلَنِي النَّبِيُّ ﷺ مَا فِي إِدَاوَتِكَ فَقُلْتُ نَبِيذٌ فَقَالَ تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ وَمَاءٌ طَہُورٌ قَالَ فَتَوَضَّأَ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبُو زَيْدٍ رَجُلٌ مَجْہُولٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ لَا تُعْرَفُ لَہُ رِوَايَةٌ غَيْرُ ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ بِالنَّبِيذِ مِنْہُمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُہُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ إِسْحَقُ إِنْ ابْتُلِيَ رَجُلٌ بِہَذَا فَتَوَضَّأَ بِالنَّبِيذِ وَتَيَمَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَوْلُ مَنْ يَقُولُ لَا يُتَوَضَّأُ بِالنَّبِيذِ أَقْرَبُ إِلَی الْكِتَابِ وَأَشْبَہُ لِأَنَّ اللہَ تَعَالَی قَالَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے پوچھا: تمہارے مشکیزے میں کیا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: نبیذ ہے ۱؎،آپ نے فرمایا: کھجور بھی پاک ہے اور پانی بھی پاک ہے تو آپ نے اسی سے وضو کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوزید محدّثین کے نزدیک مجہول آدمی ہیں اس حدیث کے علاوہ کوئی اورروایت ان سے جانی نہیں جاتی،۲-بعض اہل علم کی رائے ہے نبیذ سے وضو جائزہے انہیں میں سے سفیان ثوری وغیرہ ہیں،بعض اہل علم نے کہاہے کہ نبیذ سے وضو جائز نہیں ۲؎ یہ شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگرکسی آدمی کو یہی کرنا پڑجائے تو وہ نبیذ سے وضو کرکے تیمم کرلے،یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے،۳-جولوگ نبیذسے وضو کو جائز نہیں مانتے ان کا قول قرآن سے زیادہ قریب اورزیادہ قرین قیاس ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰنے فرمایا ہے: فَلَمْ تَجِدُواْ مَائً فَتَیَمَّمُواْ صَعِیدًا طَیِّبًا(النساء:43) (جب تم پانی نہ پاؤ توپاک مٹی سے تیمم کرلو)پوری آیت یوں ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَی حَتَّیَ تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ وَلاَ جُنُبًا إِلاَّ عَابِرِی سَبِیلٍ حَتَّیَ تَغْتَسِلُواْ وَإِن کُنتُم مَّرْضَی أَوْ عَلَی سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مِّنکُم مِّن الْغَآئِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَیَمَّمُواْ صَعِیدًا طَیِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوہِکُمْ وَأَیْدِیکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُورًا.

حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ يُغْسَلُ الْإِنَاءُ إِذَا وَلَغَ فِيہِ الْكَلْبُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أُولَاہُنَّ أَوْ أُخْرَاہُنَّ بِالتُّرَابِ وَإِذَا وَلَغَتْ فِيہِ الْہِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَلَمْ يُذْكَرْ فِيہِ إِذَا وَلَغَتْ فِيہِ الْہِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: برتن میں جب کتامنہ ڈال دے تواسے سات بار دھویاجائے،پہلی بار یاآخری باراسے مٹی سے دھویاجائے ۱؎،اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویاجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوریہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے۔۳-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے کئی سندوں سے اسی طرح مروی ہے جن میں بلی کے منہ ڈالنے پر ایک باردھونے کاذکرنہیں کیا گیا ہے،۳-اس باب میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِيِّ عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ فَقَالَ لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةٌ وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَذُكِرَ عَنْ يَحْيَی بْنِ مَعِينٍ أَنَّہُ صَحَّحَ حَدِيثَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ فِي الْمَسْحِ وَأَبُو عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ بْنُ عَبْدٍ وَيُقَالُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي بَكْرَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَصَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ وَابْنِ عُمَرَ وَجَرِيرٍ

خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: مسافر کے لیے تین دن ہے اور مقیم کے لیے ایک دن ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یحیی بن معین سے منقول ہے کہ انہوں نے مسح کے سلسلہ میں خزیمہ بن ثابت کی حدیث کوصحیح قراردیا ہے،۳-اس باب میں علی،ابوبکرۃ،ابوہریرہ،صفوان بن عسال،عوف بن مالک،ابن عمراور جریر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيہِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ وَحَمَّادٌ عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِيِّ عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ وَلَا يَصِحُّ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ شُعْبَةُ لَمْ يَسْمَعْ إِبْرَاہِيمُ النَّخَعِيُّ مِنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِيِّ حَدِيثَ الْمَسْحِ و قَالَ زَائِدَةُ عَنْ مَنْصُورٍ كُنَّا فِي حُجْرَةِ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ وَمَعَنَا إِبْرَاہِيمُ النَّخَعِيُّ فَحَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ التَّيْمِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْجَدَلِيِّ عَنْ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثُ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ الْمُرَادِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ الْفُقَہَاءِ مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا يَمْسَحُ الْمُقِيمُ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَالْمُسَافِرُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيہِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُمْ لَمْ يُوَقِّتُوا فِي الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّيْنِ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالتَّوْقِيتُ أَصَحُّ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ عَاصِمٍ

صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم مسافرہوتے تو رسول اللہﷺہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنے موزے تین دن اور تین رات تک،پیشاب،پاخانہ یا نیند کی وجہ سے نہ اتاریں،الایہ کہ جنابت لاحق ہوجائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمد بن اسماعیل(بخاری) کہتے ہیں کہ اس باب میں صفوان بن عسال مرادی کی حدیث سب سے عمدہ ہے،۳-اکثر صحابہ کرام،تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے اکثراہل علم مثلاً: سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کایہی قول ہے کہ مقیم ایک دن اور ایک رات موزوں پر مسح کرے،اور مسافر تین دن اورتین رات،بعض علماء سے مروی ہے کہ موزوں پر مسح کے لیے وقت کی تحدید نہیں کہ(جب تک دل چاہے کرسکتاہے) یہ مالک بن انس رحمہ اللہ کا قول ہے،لیکن تحدید والاقول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ ضَافَ عَائِشَةَ ضَيْفٌ فَأَمَرَتْ لَہُ بِمِلْحَفَةٍ صَفْرَاءَ فَنَامَ فِيہَا فَاحْتَلَمَ فَاسْتَحْيَا أَنْ يُرْسِلَ بِہَا وَبِہَا أَثَرُ الِاحْتِلَامِ فَغَمَسَہَا فِي الْمَاءِ ثُمَّ أَرْسَلَ بِہَا فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ أَفْسَدَ عَلَيْنَا ثَوْبَنَا إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيہِ أَنْ يَفْرُكَہُ بِأَصَابِعِہِ وَرُبَّمَا فَرَكْتُہُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللہِ ﷺ بِأَصَابِعِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ الْفُقَہَاءِ مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا فِي الْمَنِيِّ يُصِيبُ الثَّوْبَ يُجْزِئُہُ الْفَرْكُ وَإِنْ لَمْ يُغْسَلْ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ رِوَايَةِ الْأَعْمَشِ وَرَوَی أَبُو مَعْشَرٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ وَحَدِيثُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ

ہمّام بن حارث کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے (اوڑھنے کے لیے) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہوگیا،ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اُسے شرم محسوس ہوئی،چنانچہ اس نے اسے پانی سے دھوکربھیجا،تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کردیا؟ اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا،بس اتنا کافی تھا،بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہﷺ کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام،تابعین اوران کے بعدکے فقہاء میں سے سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ کپڑے پرمنی ۱؎ لگ جائے تو اسے کھرچ دینا کافی ہے،گرچہ دھویا نہ جائے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَہُوَ جُنُبٌ قَالَ نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارٍ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالُوا إِذَا أَرَادَ الْجُنُبُ أَنْ يَنَامَ تَوَضَّأَ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا: کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سوسکتاہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جب وہ وضو کرلے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عمار،عائشہ،جابر،ابوسعید اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اور صحیح ہے،۳-یہی قول نبی اکرم ﷺکے اصحاب اورتابعین میں سے بہت سے لوگوں کا ہے اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب جنبی سونے کا ارادہ کرے تووہ سونے سے پہلے وضوکرلے ۲؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حُرَيْثٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ رُبَّمَا اغْتَسَلَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ الْجَنَابَةِ ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَدْفَأَ بِي فَضَمَمْتُہُ إِلَيَّ وَلَمْ أَغْتَسِلْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِہِ بَأْسٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ وَالتَّابِعِينَ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا اغْتَسَلَ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَسْتَدْفِئَ بِامْرَأَتِہِ وَيَنَامَ مَعَہَا قَبْلَ أَنْ تَغْتَسِلَ الْمَرْأَةُ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بسااوقات نبی اکرم ﷺجنابت کا غسل فرماتے پھرآکرمجھ سے گرمی حاصل کرتے تو میں آپ کو چمٹا لیتی،اورمیں بغیرغسل کے ہوتی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کی سند میں کوئی اشکالنہیں ۱؎،۲-صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے کہ مرد جب غسل کرلے تو اپنی بیوی سے چمٹ کرگرمی حاصل کرنے میں اسے کوئی مضائقہ نہیں،وہ عورت کے غسل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ (چمٹ کر) سوسکتاہے،سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ الثَّوْبِ يُصِيبُہُ الدَّمُ مِنْ الْحَيْضَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حُتِّيہِ ثُمَّ اقْرُصِيہِ بِالْمَاءِ ثُمَّ رُشِّيہِ وَصَلِّي فِيہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُمِّ قَيْسِ بْنتِ مِحْصَنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَسْمَاءَ فِي غَسْلِ الدَّمِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الدَّمِ يَكُونُ عَلَی الثَّوْبِ فَيُصَلِّي فِيہِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَہُ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ إِذَا كَانَ الدَّمُ مِقْدَارَ الدِّرْہَمِ فَلَمْ يَغْسِلْہُ وَصَلَّی فِيہِ أَعَادَ الصَّلَاةَ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا كَانَ الدَّمُ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْہَمِ أَعَادَ الصَّلَاةَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَلَمْ يُوجِبْ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ عَلَيْہِ الْإِعَادَةَ وَإِنْ كَانَ أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ الدِّرْہَمِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ يَجِبُ عَلَيْہِ الْغَسْلُ وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ قَدْرِ الدِّرْہَمِ وَشَدَّدَ فِي ذَلِكَ

اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے،تو آپﷺ نے فرمایا: اسے کھرچ دو،پھراُسے پانی سے مل دو،پھراس پر پانی بہادو اور اس میں صلاۃ پڑھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-خون کے دھونے کے سلسلے میں اسماء رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-کپڑے میں جوخون لگ جائے اوراسے دھونے سے پہلے اس میں صلاۃپڑھ لے ... اس کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے؛ تابعین میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدارمیں ہو اور دھوے بغیر صلاۃ پڑھ لے تو صلاۃ دہرائے ۱؎،اور بعض کہتے ہیں کہ جب خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہوتوصلاۃ دہرائے ورنہ نہیں،یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے ۲؎ اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے صلاۃ کے دہرانے کو واجب نہیں کہا ہے گرچہ خون درہم کی مقدار سے زیادہ ہو،احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں ۳؎،جب کہ شافعی کہتے ہیں کہ اس پر دھونا واجب ہے گو درہم کی مقدار سے کم ہو،اس سلسلے میں انہوں نے سختی برتی ہے ۴؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ہُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّہُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ قَالَ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ وَرَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَيْضًا عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَجَابِرٍ وَبِلَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ الْإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ مَعْنَی الْإِسْفَارِ أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلَا يُشَكَّ فِيہِ وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَی الْإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: فجر خوب اجالاکرکے پڑھو،کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبرزہ اسلمی،جابر اور بلال رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کی رائے صلاۃِفجراجالاہونے پرپڑھنے کی ہے۔یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔اور شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اسفار (اجالاہونے) کا مطلب یہ ہے کہ فجر واضح ہوجائے اور اس کے طلوع میں کوئی شک نہ رہے،اسفار کا یہ مطلب نہیں کہ صلاۃ تاخیر(دیر) سے اداکی جائے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِي لَأَمَرْتُہُمْ أَنْ يُؤَخِّرُوا الْعِشَاءَ إِلَی ثُلُثِ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَبِي بَرْزَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ رَأَوْا تَأْخِيرَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اگر میں اپنی امت پردشوارنہ سمجھتا تو میں عشاء کو تہائی رات یا آدھی رات تک دیر کرکے پڑھنے کا حکم دیتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر بن سمرہ،جابر بن عبداللہ،ابوبرزہ،ابن عباس،ابوسعید خدری،زید بن خالد اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوراسی کوصحابہ کرام اور تابعین وغیرہم میں سے اکثر اہل علم نے پسند کیاہے،ان کی رائے ہے کہ عشاء تاخیرسے پڑھی جائے،اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْہَرُ فَقَالَتْ كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ رُبَّمَا أَسَرَّ بِالْقِرَاءَةِ وَرُبَّمَا جَہَرَ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رات میں نبی اکرمﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی کیا آپ قرآن دھیرے سے پڑھتے تھے یا زور سے؟ کہا:آپ ہر طرح سے پڑھتے تھے،کبھی سرّی پڑھتے تھے اورکبھی جہری،تومیں نے کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے دین کے معاملے میں کشادگی رکھی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَصَلَاتِكُمْ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سَنَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَقَالَ إِنَّ اللہَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ فَأَوْتِرُوا يَا أَہْلَ الْقُرْآنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وترتمہاری فرض صلاۃ کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎،بلکہ رسول اللہﷺ نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر(طاق) ۲؎ ہے اوروترکو پسند کرتاہے،اے اہل قرآن! ۳؎ تم وتر پڑھا کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُہُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْوِتْرُ لَيْسَ بِحَتْمٍ كَہَيْئَةِ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ وَلَكِنْ سُنَّةٌ سَنَّہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ وَقَدْ رَوَاہُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وتر لازم نہیں ہے جیسا کہ فرض صلاۃ کا معاملہ ہے،بلکہ یہ رسول اللہﷺ کی سنت ہے،اسے سفیان ثوری وغیرہ نے بطریق أبی اسحاق عن عاصم بن حمزۃ عن علی روایت کیاہے ۱؎ اوریہ روایت ابوبکربن عیاش کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اوراسے منصوربن معتمر نے بھی ابواسحاق سے ابوبکر بن عیاش ہی کی طرح روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْوِتْرِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَی وَقُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ فِي رَكْعَةٍ رَكْعَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَيُرْوَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَرَأَ فِي الْوِتْرِ فِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ وَقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ وَالَّذِي اخْتَارَہُ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ أَنْ يَقْرَأَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَی وَقُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ مِنْ ذَلِكَ بِسُورَةٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ وتر میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی و قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اورقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ تینوں کوایک ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں علی،عائشہ اور عبدالرحمٰن بن ابزیٰ (رضی اللہ عنہم) جنہوں نے اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،بھی احادیث آئی ہیں،اوراسے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ سے بغیراُبی کے واسطے کے براہ راست نبی اکرم ﷺسے بھی روایت کیاجاتاہے،۲-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ وتر میں تیسری رکعت میں معوذتین اور قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ پڑھتے تھے،۳-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم نے جس بات کو پسند کیا ہے،وہ یہ ہے کہ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ تینوں میں سے ایک ایک ہررکعت میں پڑھتے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيہِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيہِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيہِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيہِ أُخْرِجَ مِنْہَا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي لُبَابَةَ وَسَلْمَانَ وَأَبِي ذَرٍّ وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ وَأَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: سب سے بہتردن جس میں سورج نکلا،جمعہ کا دن ہے،اسی دن آدم کو پیداکیا گیا،اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا،اسی دن انہیں جنت سے نکالاگیا،اورقیامت بھی اسی دن قائم ہو گی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابولبابہ،سلمان،ابوذر،سعدبن عبادہ اوراوس بن اوس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مُوسَی بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَہْلَ الْإِسْلَامِ وَہِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَعْدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَنُبَيْشَةَ وَبِشْرِ بْنِ سُحَيْمٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ حُذَافَةَ وَأَنَسٍ وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَعَائِشَةَ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَكْرَہُونَ الصِّيَامَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ إِلَّا أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ رَخَّصُوا لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا لَمْ يَجِدْ ہَدْيًا وَلَمْ يَصُمْ فِي الْعَشْرِ أَنْ يَصُومَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَہْلُ الْعِرَاقِ يَقُولُونَ مُوسَی بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ وَأَہْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ مُوسَی بْنُ عُلِيٍّ و قَالَ سَمِعْت قُتَيْبَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ يَقُولُ قَالَ مُوسَی بْنُ عَلِيٍّ لَا أَجْعَلُ أَحَدًا فِي حِلٍّ صَغَّرَ اسْمَ أَبِي

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یوم عرفہ ۱؎،یوم نحر ۲؎ اور ایام تشریق ۳؎ ہماری یعنی اہل اسلام کی عیدکے دن ہیں،اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،سعد،ابوہریرہ،جابر،نبیشہ،بشر بن سحیم،عبداللہ بن حذافہ،انس،حمزہ بن عمرو اسلمی،کعب بن مالک،عائشہ،عمروبن عاص اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کااسی پرعمل ہے۔یہ لوگ ایام تشریق میں صوم رکھنے کوحرام قراردیتے ہیں۔البتہ صحابہ کرام وغیرہم کی ایک جماعت نے حج تمتع کرنے والے کو اس کی رخصت دی ہے جب وہ ہدی نہ پائے اور اس نے ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن میں صوم نہ رکھے ہوں کہ وہ ایام تشریق میں صوم رکھے۔مالک بن انس،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ لَيْلَی عَنْ مَوْلَاتِہَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الصَّائِمُ إِذَا أَكَلَ عِنْدَہُ الْمَفَاطِيرُ صَلَّتْ عَلَيْہِ الْمَلَائِكَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ لَيْلَی عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ عُمَارَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

لیلیٰ کی مالکن (ام عمارہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صائم کے پاس جب افطار کی چیزیں کھائی جاتی ہیں،تو فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعاکرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: شعبہ نے بھی یہ حدیث بطریق: حبیب بن زید،عن لیلی،عن جدۃ حبیب أم عمارۃ،عن النبی ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔(جو آگے آرہی ہے)

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ،أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ،عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ،قَال: سَمِعْتُ مَوْلاَةً لَنَا يُقَالُ لَہَا لَيْلَی تُحَدِّثُ عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ عُمَارَةَ بِنْتِ كَعْبٍ الأَنْصَارِيَّةِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَيْہَا فَقَدَّمَتْ إِلَيْہِ طَعَامًا فَقَالَ: كُلِي فَقَالَتْ: إِنِّي صَائِمَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:إِنَّ الصَّائِمَ تُصَلِّي عَلَيْہِ الْمَلاَئِكَةُ إِذَا أُكِلَ عِنْدَہُ حَتَّی يَفْرُغُوا،وَرُبَّمَا قَالَ:حَتَّی يَشْبَعُوا. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ.

ام عمارہ بنت کعب انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ان کے پاس آئے،انہوں نے آپ کو کھانا پیش کیا،تو آپ نے فرمایا: تم بھی کھاؤ،انہوں نے کہا:میں صوم سے ہوں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: صائم کے لیے فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں،جب اس کے پاس کھایاجاتاہے جب تک کہ کھانے والے فارغ نہ ہوجائیں۔بعض روایتوں میں ہے جب تک کہ وہ آسودہ نہ ہوجائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوریہ شریک کی (اوپروالی) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ،عَنْ مَوْلاَةٍ لَہُمْ يُقَالُ لَہَا لَيْلَی،عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ عُمَارَةَ بِنْتِ كَعْبٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ حَتَّی يَفْرُغُوا أَوْ يَشْبَعُوا. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَأُمُّ عُمَارَةَ ہِيَ جَدَّةُ حَبِيبِ بْنِ زَيْدٍ الأَنْصَارِيِّ

اس سند سے بھی نبی اکرمﷺسے اسی طرح مروی ہے اس میں حَتَّی یَفْرُغُوا أَوْ یَشْبَعُوا کا ذکر نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ام عمارہ حبیب بن زید انصاری کی دادی ہیں۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ وَاقِدٍ الْكُوفِيُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ نَزَلَ عَلَی قَوْمٍ فَلَا يَصُومَنَّ تَطَوُّعًا إِلَّا بِإِذْنِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لَا نَعْرِفُ أَحَدًا مِنْ الثِّقَاتِ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَقَدْ رَوَی مُوسَی بْنُ دَاوُدَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْمَدَنِيِّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوًا مِنْ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفٌ أَيْضًا وَأَبُو بَكْرٍ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَأَبُو بَكْرٍ الْمَدَنِيُّ الَّذِي رَوَی عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ اسْمُہُ الْفَضْلُ بْنُ مُبَشِّرٍ وَہُوَ أَوْثَقُ مِنْ ہَذَا وَأَقْدَمُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو کسی جماعت کے ہاں اترے یعنی ان کا مہمان ہو تو ان کی اجازت کے بغیر نفلی صیام نہ رکھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث منکر ہے،۲-ہم ثقات میں سے کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث ہشام بن عروہ سے روایت کی ہو،۳-موسیٰ بن داود نے یہ حدیث بطریق: أبی بکر المدنی،عن ہشام بن عروۃ،عن أبیہ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے،۴-یہ حدیث بھی ضعیف ہے،ابوبکر اہل الحدیث کے نزدیک ضعیف ہیں،اور ابوبکر مدنی جو جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں،ان کانام فضل بن مبشر ہے،وہ ان سے زیادہ ثقہ اوران سے پہلے کے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ ہُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُوقِظُ أَہْلَہُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اپنے گھروالوں کو جگاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَجْتَہِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا يَجْتَہِدُ فِي غَيْرِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ آخری عشرے میں عبادت میں اتنی کوشش کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِہِ حَتَّی يُقْضَی عَنْہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِہِ حَتَّی يُقْضَی عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ الْأَوَّلِ

اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ۱؎ ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا رَفَّأَ الْإِنْسَانَ إِذَا تَزَوَّجَ قَالَ بَارَكَ اللہُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي الْخَيْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ شادی کرنے پرجب کسی کو مبارک باد دیتے تو فرماتے: بَارَکَ اللہُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَیْکَ وَجَمَعَ بَیْنَکُمَا فِی الْخَیْرِ(اللہ تجھے برکت عطاکرے،اورتجھ پر برکت نازل فرمائے اور تم دونوں کوخیرپرجمع کرے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو النَّحْوِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي دِيَةِ الْأَصَابِعِ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ سَوَاءٌ عَشْرٌ مِنْ الْإِبِلِ لِكُلِّ أُصْبُعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَی وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انگلیوں کی دیت کے بارے میں فرمایا: دونوں ہاتھ اوردونوں پیر برابرہیں،(دیت میں) ہرانگلی کے بدلے دس اونٹ ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس سند سے ابن عباس کی حدیث حسن صحیح اورغریب ہے،۲-اہل علم کا عمل اسی پر ہے،سفیان ثوری،شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ہَذِہِ وَہَذِہِ سَوَاءٌ يَعْنِي الْخِنْصَرَ وَالْإِبْہَامَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:دیت میں یہ اور یہ برابرہیں،یعنی چھنگلیا انگوٹھا ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَزِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَہْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو ہَكَذَا رَوَاہُ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ فَلَمْ يَرْفَعْہُ وَہَكَذَا رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ مَوْقُوفًا وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ

عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: دنیاکی بربادی اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل ہونے سے کہیں زیادہ کمتروآسان ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ہم سے محمدبن بشارنے بسند محمدبن جعفر عن شعبہ عن یعلی بن عطاء عن عبداللہ بن عمرو اسی طرح روایت کی ہے،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،۲-یہ روایت ابن ابی عدی کی روایت کے بالمقابل زیادہ صحیح ہے(یعنی موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے)،۳-عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث کو ابن ابی عدی نے شعبہ سے،بسند یعلی بن عطاء عن أبیہ عن عبداللہ بن عمرو عن النبی ﷺاسی طرح روایت کیا ہے،جب کہ محمد بن جعفر اور ان کے علاوہ دوسروں نے شعبہ سیبسندیعلی بن عطاء روایت کیا ہے،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،اسی طرح سفیان ثوری نے یعلی بن عطاء سے موقوفا روایت کی ہے اور یہ (موقوف روایت ابن ابی عدی کی) مرفوع حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۴-اس باب میں سعد،ابن عباس،ابوسعید،ابوہریرہ،عقبہ بن عامر،ابن مسعود اور بریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَيَحْيَی بْنُ مُوسَی قَالَا حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ حَدَّثَنِي أَبُو ہُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا فَتَحَ اللہُ عَلَی رَسُولِہِ مَكَّةَ قَامَ فِي النَّاسِ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ ثُمَّ قَالَ وَمَنْ قُتِلَ لَہُ قَتِيلٌ فَہُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِمَّا أَنْ يَعْفُوَ وَإِمَّا أَنْ يَقْتُلَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي شُرَيْحٍ خُوَيْلِدِ بْنِ عَمْرٍو

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب اللہ نے اپنے رسول کے لیے مکہ کو فتح کردیا تو آپ ﷺنے لوگوں میں کھڑے ہوکر اللہ کی حمدوثنابیان کی،پھر فرمایا: جس کا کوئی شخص ماراگیاہو اسے دوباتوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہے: یا تو معاف کردے یا (قصاص میں) اسے قتل کرے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے(کماسیأتی)،۲-اس باب میں وائل بن حجر،انس،ابوشریح اورخویلدبن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ يُحَرِّمْہَا النَّاسُ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْفِكَنَّ فِيہَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَنَّ فِيہَا شَجَرًا فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ فَقَالَ أُحِلَّتْ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَإِنَّ اللہَ أَحَلَّہَا لِي وَلَمْ يُحِلَّہَا لِلنَّاسِ وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَہَارٍ ثُمَّ ہِيَ حَرَامٌ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ ہَذَا الرَّجُلَ مِنْ ہُذَيْلٍ وَإِنِّي عَاقِلُہُ فَمَنْ قُتِلَ لَہُ قَتِيلٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَأَہْلُہُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ إِمَّا أَنْ يَقْتُلُوا أَوْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاہُ شَيْبَانُ أَيْضًا عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ ہَذَا وَرُوِي عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قُتِلَ لَہُ قَتِيلٌ فَلَہُ أَنْ يَقْتُلَ أَوْ يَعْفُوَ أَوْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ وَذَہَبَ إِلَی ہَذَا بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مکہ کو اللہ نے حرمت والا (محترم) بنایا ہے،لوگوں نے اسے نہیں بنایا،پس جوشخص اللہ اور یوم آخرت پرایمان رکھتاہووہ اس میں خونریزی نہ کرے،نہ اس کا درخت کاٹے،(اب) اگرکوئی (خونریزی کے لیے) اس دلیل سے رخصت نکالے کہ مکہ رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال کیا گیا تھا (تواس کایہ استدلال باطل ہے) اس لیے کہ اللہ نے اسے میرے لیے حلال کیا تھا لوگوں کے لئے نہیں،اور میرے لیے بھی دن کے ایک خاص وقت میں حلال کیا گیا تھا،پھروہ تاقیامت حرام ہے؟ اے خزاعہ والو! تم نے ہذیل کے اس آدمی کوقتل کیا ہے،میں اس کی دیت اداکرنے والاہوں،(سن لو) آج کے بعدجس کا بھی کوئی آدمی ماراجائے گا تو مقتول کے ورثاء کو دوچیزوں میں سے کسی ایک کا اختیارہو گا: یا تو وہ (اس کے بدلے)اسے قتل کردیں،یااس سے دیت لے لیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی حسن صحیح ہے،۲-اسے شیبان نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی کے مثل روایت کیا ہے،۳-اوریہ (حدیث بنام ابوشریح کعبی کی جگہ بنام) ابوشریح خزاعی بھی روایت کی گئی ہے۔(اور یہ دونوں ایک ہی ہیں) اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،آپ نے فرمایا: جس کاکوئی آدمی ماراجائے تو اسے اختیار ہے یا تووہ اس کے بدلے اسے قتل کردے،یا معاف کردے،یا دیت وصول کرے،۴-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قُتِلَ رَجُلٌ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَدُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَی وَلِيِّہِ فَقَالَ الْقَاتِلُ يَا رَسُولَ اللہِ وَاللہِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَمَا إِنَّہُ إِنْ كَانَ قَوْلُہُ صَادِقًا فَقَتَلْتَہُ دَخَلْتَ النَّارَ فَخَلَّی عَنْہُ الرَّجُلُ قَالَ وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ قَالَ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَہُ قَالَ فَكَانَ يُسَمَّی ذَا النِّسْعَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالنِّسْعَةُ حَبْلٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی قتل کردیاگیا،توقاتل مقتول کے ولی (وارث)کے سپردکردیاگیا،قاتل نے عرض کیا: اللہ کے رسول!اللہ کی قسم! میں نے اسے قصداً قتل نہیں کیا ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا: خبردار! اگروہ (قاتل) اپنے قول میں سچاہے پھربھی تم نے اسے قتل کردیا تو تم جہنم میں جاؤگے ۱؎،چنانچہ مقتول کے ولی نے اسے چھوڑدیا،وہ آدمی رسی سے بندھاہواتھا،تو وہ رسی گھسیٹتاہواباہر نکلا،اس لیے اس کا نام ذوالنسعہ (رسی یاتسمے والا) رکھ دیا گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اورنسعہ: رسی کو کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِہِ فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِہِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَی أَہْلِ بَيْتِہِ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْہُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَی بَيْتِ بَعْلِہَا وَہِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْہُ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَی مَالِ سَيِّدِہِ وَہُوَ مَسْئُولٌ عَنْہُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي مُوسَی وَحَدِيثُ أَبِي مُوسَی غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَحَدِيثُ أَنَسٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ حَكَاہُ إِبْرَاہِيمُ بْنُ بَشَّارٍ الرَّمَادِيُّ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ مُحَمَّدٌ بِنِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ بَشَّارٍ قَالَ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَہَذَا أَصَحُّ قَالَ مُحَمَّدٌ وَرَوَی إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِنَّ اللہَ سَائِلٌ كُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاہُ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ ہَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَإِنَّمَا الصَّحِيحُ عَنْ مُعَاذِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: تم میں سے ہرآدمی نگہبان ہے اوراپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے،چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے،اسی طرح مرداپنے گھروالوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے،عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے،غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اوراس کے بارے میں جواب دہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،انس اورابوموسیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ابوموسیٰ کی حدیث غیرمحفوظ ہے،اور انس کی حدیث بھی غیرمحفوظ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اسے ابرہیم بن بشاررمادی نے بسندسفیان بن عیینہ عن برید بن عبداللہ بن ابی بردہ عن ابی موسیٰ عن النبیﷺ روایت کیا ہے،اس حدیث کوکئی لوگوں نے بسندسفیان عن بریدعن ابی بردہ عن النبی ﷺ مرسل طریقہ سے روایت کی ہے،مگر یہ مرسل روایت زیادہ صحیح ہے۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اسحاق بن ابراہیم نے بسندمعاذ بن ہشام عن أبیہ عن قتادہ عن انس عن النبی ﷺ روایت کی ہے: بے شک اللہ تعالیٰ ہرنگہبان سے پوچھے گا اس چیز کے بارے میں جس کی نگہبانی کے لیے اس کو رکھا ہے،امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: یہ روایت غیرمحفوظ ہے،صحیح وہی ہے جو عن معاذ بن ہشام،عن أبیہ،عن قتادۃ،عن الحسن؛ عن النبی ﷺکی سند سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ قُطْبَةَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي يَحْيَی عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَہَائِمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي يَحْيَی عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَہَائِمِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَيُقَالُ ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ قُطْبَةَ وَرَوَی شَرِيكٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي يَحْيَی حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو كُرَيْبٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ آدَمَ عَنْ شَرِيكٍ وَرَوَی أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَأَبُو يَحْيَی ہُوَ الْقَتَّاتُ الْكُوفِيُّ وَيُقَالُ اسْمُہُ زَاذَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ

مجاہد سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جانورں کوباہم لڑانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس سند میں راوی نے ابن عباس کا ذکرنہیں کیا ہے،۲-کہاجاتاہے،قطبہ کی (اگلی) حدیث سے یہ حدیث زیادہ صحیح ہے،اس حدیث کو شریک نے بطریق مجاہد،عن ابن عباس،عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کیا ہے اور اس میں ابویحیی کا ذکرنہیں کیا ہے،۳-اور ابومعاویہ نے اس کوبطریق الأعمش،عن مجاہد،عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کیا ہے،ابویحییٰ سے مراد ابویحییٰ قتات کوفی ہیں،کہاجاتاہے ان کانام زاذان ہے،۴-اس باب میں طلحہ،جابر،ابوسعید اورعکراش بن ذؤیب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الْوَسْمِ فِي الْوَجْہِ وَالضَّرْبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چہرے پرمارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ تَبُوكَ خَرَجَ النَّاسُ يَتَلَقَّوْنَہُ إِلَی ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ قَالَ السَّائِبُ فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ وَأَنَا غُلَامٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوئہ تبوک سے واپس آئے تولوگ آپ کے استقبال کے لیے ثنیۃ الوداع تک نکلے: میں بھی لوگوں کے ساتھ نکلا حالاں کہ میں کم عمر تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حُنَيْنٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ نَہَانِي النَّبِيُّ ﷺ عَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَالْمُعَصْفَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَحَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے قسی کے بنے ہوئے ریشمی اور زرد رنگ کے کپڑے پہننے سے منع فرمایا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَيْہِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعُمَرَ وَابْنِ حُرَيْثٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَرُكَانَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ کے سرپر سیاہ عمامہ تھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں علی،عمر،ابن حریث،ابن عباس اوررکانہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ خَاتَمُ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ وَرِقٍ وَكَانَ فَصُّہُ حَبَشِيًّا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ (عقیق)حبشہ کا بناہواتھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عمراوربریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ مَا عَابَ رَسُولُ اللہِ ﷺ طَعَامًا قَطُّ كَانَ إِذَا اشْتَہَاہُ أَكَلَہُ وَإِلَّا تَرَكَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَازِمٍ ہُوَ الْأَشْجَعِيُّ الْكُوفِيُّ وَاسْمُہُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کبھی بھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا،جب آپ کو پسند آتا توکھالیتے نہیں تو چھوڑدیتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِہِ وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ فَإِنَّ مَنْ أَثْنَی فَقَدْ شَكَرَ وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ وَمَنْ تَحَلَّی بِمَا لَمْ يُعْطَہُ كَانَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَعَائِشَةَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ يَقُولُ قَدْ كَفَرَ تِلْكَ النِّعْمَةَ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جسے کوئی تحفہ دیاجائے پھر اگراسے میسرہوتو اس کا بدلہ دے اورجسے میسرنہ ہو تو وہ (تحفہ دینے والے کی) تعریف کرے،اس لیے کہ جس نے تعریف کی اس نے اس کا شکریہ اداکیا اور جس نے نعمت کوچھپالیا اس نے کفران نعمت کیا،اورجس نے اپنے آپ کو اس چیز سے سنوارا جووہ نہیں دیاگیا ہے،تو وہ جھوٹ کے دوکپڑے پہننے والے کی طرح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں اسماء بنت ابوبکراورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-من کتم فقد کفر کا معنی یہ ہے: اس نے اس نعمت کی ناشکری کی۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صُنِعَ إِلَيْہِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِہِ جَزَاكَ اللہُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِہِ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا فَلَمْ يَعْرِفْہُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ حَازِمٍ الْبَلْخِيُّ قَال سَمِعْتُ الْمَكِّيَّ بْنَ إِبْرَاہِيمَ يَقُولُ كُنَّا عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ الْمَكِّيِّ فَجَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَہُ فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِہِ أَعْطِہِ دِينَارًا فَقَالَ مَا عِنْدِي إِلَّا دِينَارٌ إِنْ أَعْطَيْتُہُ لَجُعْتَ وَعِيَالُكَ قَالَ فَغَضِبَ وَقَالَ أَعْطِہِ قَالَ الْمَكِّيُّ فَنَحْنُ عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ إِذْ جَاءَہُ رَجُلٌ بِكِتَابٍ وَصُرَّةٍ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْہِ بَعْضُ إِخْوَانِہِ وَفِي الْكِتَابِ إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ خَمْسِينَ دِينَارًا قَالَ فَحَلَّ ابْنُ جُرَيْجٍ الصُّرَّةَ فَعَدَّہَا فَإِذَا ہِيَ أَحَدٌ وَخَمْسُونَ دِينَارًا قَالَ فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِہِ قَدْ أَعْطَيْتَ وَاحِدًا فَرَدَّہُ اللہُ عَلَيْكَ وَزَادَكَ خَمْسِينَ دِينَارًا

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شحص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کر نے والے سے جزاک اللہ خیراً (اللہ تعالیٰ تم کو بہتربدلادے)کہا،اس نے اس کی پوری پوری تعریف کردی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن جید غریب ہے،ہم اسے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے،میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لا علمی کا اظہا رکیا،۳-مکی بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن جریج مکی کے پاس تھے،ایک مانگنے والاآیا اوران سے کچھ مانگا،ابن جریج نے اپنے خزانچی سے کہا: اسے ایک دیناردے دو،خازن نے کہا: میرے پاس صرف ایک دینارہے اگرمیں اسے دے دوں تو آپ اورآپ کے اہل وعیال بھوکے رہ جائیں گے،یہ سن کرابن جریج غصہ ہوگئے اورفرمایا: اسے دیناردے دو،ہم ابن جریج کے پاس ہی تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس ایک خط اورتھیلی لے کر آیاجسے ان کے بعض دوستوں نے بھیجا تھا،خط میں لکھاتھا: میں نے پچاس دیناربھیجے ہیں،ابن جریج نے تھیلی کھولی اورشمارکیا تو اس میں اکاون دینارتھے،ابن جریج نے اپنے خازن سے کہا:تم نے ایک دیناردیاتواللہ تعالیٰ نے تم کواسے مزیدپچاس دینارکے ساتھ لوٹا دیا۔

حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ عَنْ الْجَرِيرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَتَعَوَّذُ مِنْ الْجَانِّ وَعَيْنِ الْإِنْسَانِ حَتَّی نَزَلَتْ الْمُعَوِّذَتَانِ فَلَمَّا نَزَلَتَا أَخَذَ بِہِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَاہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ جنوں اورانسان کی نظربدسے پناہ مانگاکرتے تھے،یہاں تک کہ معوذتین (سورۃ الفلق اورسورۃ الناس)نازل ہوئیں،جب یہ سورتیں اترگئیں تو آ پ نے ان دونوں کو لے لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑدیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ فَسَأَلْنَاہُمْ الْقِرَی فَلَمْ يَقْرُونَا فَلُدِغَ سَيِّدُہُمْ فَأَتَوْنَا فَقَالُوا ہَلْ فِيكُمْ مَنْ يَرْقِي مِنْ الْعَقْرَبِ قُلْتُ نَعَمْ أَنَا وَلَكِنْ لَا أَرْقِيہِ حَتَّی تُعْطُونَا غَنَمًا قَالَ فَأَنَا أُعْطِيكُمْ ثَلَاثِينَ شَاةً فَقَبِلْنَا فَقَرَأْتُ عَلَيْہِ الْحَمْدُ لِلَّہِ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَبَرَأَ وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ قَالَ فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْہَا شَيْءٌ فَقُلْنَا لَا تَعْجَلُوا حَتَّی تَأْتُوا رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَيْہِ ذَكَرْتُ لَہُ الَّذِي صَنَعْتُ قَالَ وَمَا عَلِمْتَ أَنَّہَا رُقْيَةٌ اقْبِضُوا الْغَنَمَ وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَہْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُہُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ وَرَخَّصَ الشَّافِعِيُّ لِلْمُعَلِّمِ أَنْ يَأْخُذَ عَلَی تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ أَجْرًا وَيَرَی لَہُ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَی ذَلِكَ وَاحْتَجَّ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ ہُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ وَہُوَ أَبُو بِشْرٍ وَرَوَی شُعْبَةُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا،ہم نے ایک قوم کے پاس پڑاؤڈالا اوران سے ضیافت کی درخواست کی،لیکن ان لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی،اسی دوران ان کے سردارکو بچھونے ڈنک ماردیا،چنانچہ انہوں نے ہمارے پاس آکرکہا: کیا آپ میں سے کوئی بچھوکے ڈنک سے جھاڑ پھونک کرتاہے؟ میں نے کہا: ہاں،میں کرتاہوں،لیکن اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کچھ بکریاں نہ دے دو،انہوں نے کہا: ہم تم کو تیس بکریاں دیں گے،چنانچہ ہم نے قبول کرلیا اور میں نے سات بارسورہ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ صحت یاب ہوگیا اورہم نے بکریاں لے لیں ۱؎،ہمارے دل میں بکریوں کے متعلق کچھ خیال آیا ۲؎،لہذا ہم نے کہا: جلدی نہ کرو،یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ جائیں،جب ہم آپﷺ کے پاس پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ سے بیان کردیا،آپ نے فرمایا: تم نے کیسے جانا کہ سورہ فاتحہ رقیہ (جھاڑ پھونک کی دعا)ہے؟ تم لوگ بکریاں لے لواوراپنے ساتھ اس میں میرابھی حصہ لگاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-شعبہ،ابوعوانہ ہشام اورکئی لوگوں نے یہ حدیث عن أبی المتوکل،عن أبی سعید،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،۳-تعلیم قرآن پر معلم کے لیے اجرت لینے کو امام شافعی نے جائز کہا ہے اوروہ معلم کے لیے اجرت کی شرط لگانے کو درست سمجھتے ہیں،انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مَرُّوا بِحَيٍّ مِنْ الْعَرَبِ فَلَمْ يَقْرُوہُمْ وَلَمْ يُضَيِّفُوہُمْ فَاشْتَكَی سَيِّدُہُمْ فَأَتَوْنَا فَقَالُوا ہَلْ عِنْدَكُمْ دَوَاءٌ قُلْنَا نَعَمْ وَلَكِنْ لَمْ تَقْرُونَا وَلَمْ تُضَيِّفُونَا فَلَا نَفْعَلُ حَتَّی تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَجَعَلُوا عَلَی ذَلِكَ قَطِيعًا مِنْ الْغَنَمِ قَالَ فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنَّا يَقْرَأُ عَلَيْہِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَبَرَأَ فَلَمَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لَہُ قَالَ وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّہَا رُقْيَةٌ وَلَمْ يَذْكُرْ نَہْيًا مِنْہُ وَقَالَ كُلُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَہْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي وَحْشِيَّةَ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ ہُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کچھ صحابہ (جن میں شامل میں بھی تھا) عرب کے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے،انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی،اسی دوران ان کا سرداربیمارہوگیا،چنانچہ ان لوگوں نے ہمارے پاس آکرکہا:آپ لوگوں کے پاس کوئی علاج ہے؟ ہم نے کہا: ہاں،لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی ہے اس لیے ہم اس وقت تک علاج نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت نہ متعین کردو،انہوں نے اس کی اجرت میں بکری کا ایک گلہ مقررکیا،ہم میں سے ایک آدمی (یعنی میں خود) اس کے اوپر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے لگا تو وہ صحت یاب ہوگیا،پھرجب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اورآپ سے اس واقعہ کو بیان کیاتو آپ نے فرمایا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ جھاڑ پھونک (کی دعاء) ہے؟ابوسعیدخدری نے آپ سے اس پر کوئی نکیر ذکرنہیں کی،آپ نے فرمایا: کھاؤاوراپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-یہ حدیث اعمش کی اس روایت سے جو جعفربن ایاس کے واسطہ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے،۳-کئی لوگوں نے یہ حدیث عن أبی بشر جعفر بن أبی وحشیۃ،عن أبی المتوکل،عن أبی سعید کی سند سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ،عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: ((نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الكَلْبِ،وَمَہْرِ البَغِيِّ،وَحُلْوَانِ الكَاہِنِ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کتے کی قیمت،زانیہ عورت کی کمائی اورکاہن کے نذرانے لینے سے منع فرمایا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی بْنُ وَاصِلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ القَاسِمِ الأَسَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ دَلْہَمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ،عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ،[ص:414] عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((تَعَلَّمُوا القُرْآنَ وَالفَرَائِضَ وَعَلِّمُوا النَّاسَ فَإِنِّي مَقْبُوضٌ)): ہَذَا حَدِيثٌ فِيہِ اضْطِرَابٌ،وَرَوَی أَبُو أُسَامَةَ ہَذَا الحَدِيثَ،عَنْ عَوْفٍ،عَنْ رَجُلٍ،عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ جَابِرٍ،عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ،عَنْ عَوْفٍ بِہَذَا نَحْوِہِ بِمَعْنَاہُ،وَمُحَمَّدُ بْنُ القَاسِمِ الأَسَدِيُّ قَدْ ضَعَّفَہُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَغَيْرُہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قرآن اورعلم فرائض سیکھواور لوگوں کو سکھاؤ اس لیے کہ میں وفات پانے والاہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں اضطراب ہے۔ابواسامہ نے یہ حدیث عن عوف،عن رجل عن سلیمان بن جابر،عن ابن مسعود،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے۔اوراسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ محمد بن قاسم اسدی کو احمد بن حنبل وغیرہ نے ضعیف کہاہے۔

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ،عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،عَنْ أَبِي قَيْسٍ الأَوْدِيِّ،عَنْ ہُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی أَبِي مُوسَی،وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ فَسَأَلَہُمَا عَنِ الِابْنَةِ وَابْنَةِ الِابْنِ وَأُخْتٍ لِأَبٍ وَأُمٍّ؟ فَقَالاَ: لِلِابْنَةِ النِّصْفُ،وَلِلأُخْتِ مِنَ الأَبِ وَالأُمِّ مَا بَقِيَ،وَقَالَا لَہُ: انْطَلِقْ إِلَی عَبْدِ اللہِ،فَاسْأَلْہُ فَإِنَّہُ سَيُتَابِعُنَا،فَأَتَی عَبْدَ اللہِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَہُ وَأَخْبَرَہُ بِمَا قَالَا: قَالَ عَبْدُ اللہِ: قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا،وَمَا أَنَا مِنَ الْمُہْتَدِينَ،وَلَكِنِّي أَقْضِي فِيہِمَا كَمَا قَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((لِلِابْنَةِ النِّصْفُ،وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ،وَلِلأُخْتِ مَا بَقِيَ))،: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو قَيْسٍ الأَوْدِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَرْوَانَ الكُوفِيُّ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ،عَنْ أَبِي قَيْسٍ

ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں: ابوموسیٰ اور سلمان بن ربیعہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے ان سے بیٹی،پوتی اور حقیقی بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا،ان دونوں نے جواب دیا: بیٹی کو آدھی میراث اور حقیقی بہن کو باقی حصہ ملے گا،انہوں نے اس آدمی سے یہ بھی کہاکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو،وہ بھی ہماری طرح جواب دیں گے،وہ آدمی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا،ان سے مسئلہ بیان کیا اور ابوموسیٰ اورسلمان بن ربیعہ نے جوکہا تھا اسے بھی بتایا،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں بھی ویسا ہی جواب دوں تب تومیں گمراہ ہوگیا اور ہدایت یافتہ نہ رہا،میں اس سلسلے میں اسی طرح فیصلہ کروں گا جیسا رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا: بیٹی کو آدھا ملے گا،پوتی کو چھٹا حصہ ملے گاتاکہ (بیٹیوں کامکمل حصہ) دوتہائی پورا ہوجائے اور باقی حصہ بہن کو ملے گا ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے بھی ابوقیس عبدالرحمٰن بن ثروان اودی کوفی سے یہ حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ التَّمِيمِيِّ عَنْ حَبيِبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ شَہَادَةِ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ وَحَجِّ الْبَيْتِ وَفِي الْبَاب عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَسُعَيْرُ بْنُ الْخِمْسِ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے:(۱) گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں،(۲) صلاۃ قائم کرنا،(۳) زکاۃ دینا (۴)رمضان کیصیام رکھنا،(۵) بیت اللہ کا حج کرنا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن عمر کے واسطہ سے کئی سندوں سے مروی ہے،اسی طرح یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عمر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے،۳-اس باب میں جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُہُمْ بِأَہْلِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي قِلَابَةَ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ وَقَدْ رَوَی أَبُو قِلَابَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعٍ لِعَائِشَةَ عَنْ عَائِشَةَ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَأَبُو قِلَابَةَ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدٍ الْجَرْمِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ ذَكَرَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ أَبَا قِلَابَةَ فَقَالَ كَانَ وَاللہِ مِنْ الْفُقَہَاءِ ذَوِي الْأَلْبَابِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق والا ہو،اورجو اپنے بال بچوں پر سب سے زیادہ مہر بان ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اور میں نہیں جانتا کہ ابوقلابہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے،۳-ابوقلابہ نے عائشہ کے رضاعی بھائی عبداللہ بن یزید کے واسطہ سے عائشہ سے اس حدیث کے علاوہ بھی اور حدیثیں روایت کی ہیں،۴-اس باب میں ابوہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللہِ ہُرَيْمُ بْنُ مِسْعَرٍ الْأَزْدِيُّ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فَوَعَظَہُمْ ثُمَّ قَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَہْلِ النَّارِ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْہُنَّ وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ لِكَثْرَةِ لَعْنِكُنَّ يَعْنِي وَكُفْرِكُنَّ الْعَشِيرَ قَالَ وَمَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَغْلَبَ لِذَوِي الْأَلْبَابِ وَذَوِي الرَّأْيِ مِنْكُنَّ قَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْہُنَّ وَمَا نُقْصَانُ دِينِہَا وَعَقْلِہَا قَالَ شَہَادَةُ امْرَأَتَيْنِ مِنْكُنَّ بِشَہَادَةِ رَجُلٍ وَنُقْصَانُ دِينِكُنَّ الْحَيْضَةُ تَمْكُثُ إِحْدَاكُنَّ الثَّلَاثَ وَالْأَرْبَعَ لَا تُصَلِّي وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا تو اس میں آپ نے لوگوں کو نصیحت کی پھر (عورتوں کی طرف متوجہ ہوکر) فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ وخیرات کرتی رہو کیوں کہ جہنم میں تمہاری ہی تعداد زیادہ ہوگی ۱؎ ان میں سے ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہوگا؟ آپ نے فرمایا: تمہارے بہت زیادہ لعن طعن کرنے کی وجہ سے،یعنی تمہاری اپنے شوہروں کی ناشکری کرنے کے سبب،آپ نے (مزید) فرمایا: میں نے کسی ناقص عقل و دین کو تم عورتوں سے زیادہ عقل و سمجھ رکھنے والے مردوں پر غالب نہیں دیکھا۔ایک عورت نے پوچھا: ان کی عقل اور ان کے دین کی کمی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تم میں سے دو عورتوں کی شہادت (گواہی) ایک مرد کی شہادت کے برابر ہے ۲؎،اور تمہارے دین کی کمی یہ ہے کہ تمہیں حیض کا عارضہ لاحق ہوتاہے جس سے عورت (ہرمہینے) تین چاردن صلاۃ پڑھنے سے رک جاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری اورا بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ بَابًا أَدْنَاہَا إِمَاطَةُ الْأَذَی عَنْ الطَّرِيقِ وَأَرْفَعُہَا قَوْلُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی سُہَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَرَوَی عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْإِيمَانُ أَرْبَعَةٌ وَسِتُّونَ بَابًا قَالَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کی تہتر شاخیں (ستردروازے) ہیں۔سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دورکردیناہے،اور سب سے بلند لا إلہ الا اللہ کا کہنا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ایسے ہی سہیل بن ابی صالح نے عبداللہ بن دینار سے،عبداللہ نے ابوصالح سے اورابوصالح نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے،۳-عمارہ بن غزیہ نے یہ حدیث ابوصالح سے،ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے،اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔آپ نے فرمایا ہے ایمان کی چونسٹھ شاخیں ہیں۔اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ بَيْنَ الْكُفْرِ وَالْإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَقَالَ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ أَوْ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُہُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والی چیز صلاۃ کا ترک کرناہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ،عَنِ الأَعْمَشِ،بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ،وَقَالَ: ((بَيْنَ العَبْدِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ أَوِ الكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُہُ: طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ

جابر رضی اللہ عنہ سے اس سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: بندے اور شرک یا بندے اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز صلاۃ کا چھوڑ دینا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الزُّبَيْرِ اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ تَدْرُسَ

جابر رضی اللہ عنہ سے اس سند بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندے اورکفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز صلاۃ کا چھوڑ دینا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَی قَالَا حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ ح و حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ الشَّقِيقِيُّ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعَہْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَہُمْ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَہَا فَقَدْ كَفَرَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمارے اور منافقین کے درمیان صلاۃ کا معاہدہ ہے ۱؎ تو جس نے صلاۃ چھوڑدی اس نے کفر کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ قَالَ كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنْ الْأَعْمَالِ تَرْكُہُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَبَا مُصْعَبٍ الْمَدَنِيَّ يَقُولُ مَنْ قَالَ الْإِيمَانُ قَوْلٌ يُسْتَتَابُ فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا ضُرِبَتْ عُنُقُہُ

عبداللہ بن شقیق عقیلی کہتے ہیں: صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم) صلاۃ کے سواکسی عمل کے چھوڑدینے کو کفرنہیں سمجھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ابومصعب مدنی کوکہتے ہوئے سنا کہ جو یہ کہے کہ ایمان صرف قول (یعنی زبان سے اقرار کرنے) کا نام ہے اس سے توبہ کرائی جائے گی،اگر اس نے توبہ کرلی تو ٹھیک،ورنہ اس کی گردن ماردی جائے گی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيہِ عِلْمًا سَہَّلَ اللہُ لَہُ طَرِيقًا إِلَی الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے،تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان(وہموار) کردیتاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْعَتَكِيُّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ كَانَ فِي سَبِيلِ اللہِ حَتَّی يَرْجِعَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ فَلَمْ يَرْفَعْہُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں(شمار) ہو گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض اہل علم نے اسے غیر مرفوع روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُعَلَّی حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ خَيْثَمَةَ عَنْ أَبِي دَاوُدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَخْبَرَةَ عَنْ سَخْبَرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ ضَعِيفُ الْإِسْنَادِ أَبُو دَاوُدَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَلَا نَعْرِفُ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ سَخْبَرَةَ كَبِيرَ شَيْءٍ وَلَا لِأَبِيہِ وَاسْمُ أَبِي دَاوُدَ نُفَيْعٌ الْأَعْمَی تَكَلَّمَ فِيہِ قَتَادَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ

سخبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جوعلم حاصل کرے گا تو یہ اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند ضعیف ہے،۲-راوی ابوداودنفیع اعمی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،۳-ہم عبداللہ بن سخبرہ سے مروی زیاہ حدیثیں نہیں جانتے اور نہ ان کے باپ کی (یعنی یہ دونوں باپ بیٹے غیر معروف قسم کے لوگ ہیں)،ابوداود کانام نفیع الاعمیٰ ہے۔ان کے بارے میں قتادہ اور دوسرے بہت سے اہل علم نے کلام کیا ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَمَّا أَصْبَحْنَا أَتَيْنَا رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَخْبَرْتُہُ بِالرُّؤْيَا فَقَالَ إِنَّ ہَذِہِ لَرُؤْيَا حَقٍّ فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَإِنَّہُ أَنْدَی وَأَمَدُّ صَوْتًا مِنْكَ فَأَلْقِ عَلَيْہِ مَا قِيلَ لَكَ وَلْيُنَادِ بِذَلِكَ قَالَ فَلَمَّا سَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ نِدَاءَ بِلَالٍ بِالصَّلَاةِ خَرَجَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ يَجُرُّ إِزَارَہُ وَہُوَ يَقُولُ يَا رَسُولَ اللہِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَلِلَّہِ الْحَمْدُ فَذَلِكَ أَثْبَتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ أَتَمَّ مِنْ ہَذَا الْحَدِيثِ وَأَطْوَلَ وَذَكَرَ فِيہِ قِصَّةَ الْأَذَانِ مَثْنَی مَثْنَی وَالْإِقَامَةِ مَرَّةً مَرَّةً وَعَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدٍ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ رَبِّہِ وَيُقَالُ ابْنُ عَبْدِ رَبٍّ وَلَا نَعْرِفُ لَہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا يَصِحُّ إِلَّا ہَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ فِي الْأَذَانِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ لَہُ أَحَادِيثُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ عَمُّ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے (مدینہ منورہ میں ایک رات) صبح کی توہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اپنا خواب بتایا ۱؎ توآپ نے فرمایا: یہ ایک سچا خواب ہے،تم اٹھو بلال کے ساتھ جاؤ وہ تم سے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں۔اور جو تمہیں بتایاگیا ہے،وہ ان پرپیش کرو،وہ اسے زور سے پکارکرکہیں،جب عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سنی تو اپنا تہ بند کھینچتے ہوئے رسول اللہﷺ کے پاس آئے،اور عرض کیا: اللہ کے رسول!قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بناکربھیجاہے،میں نے (بھی)اسی طرح دیکھا ہے جو انہوں نے کہا،رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے،یہ بات اور پکی ہوگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-اورابراہیم بن سعد نے یہ حدیث محمد بن اسحاق سے اس سے بھی زیادہ کامل اورزیادہ لمبی روایت کی ہے۔اور اس میں انہوں نے اذان کے کلمات کو دودوبار اوراقامت کے کلمات کو ایک ایک بارکہنے کاواقعہ ذکرکیاہے،۴-عبداللہ بن زید ہی ابن عبدربہ ہیں اور انہیں ابن عبدرب بھی کہاجاتاہے،سوائے اذان کے سلسلے کی اس ایک حدیث کے ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی نبی اکرمﷺ سے کوئی اوربھی حدیث صحیح ہے،البتہ عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی کی کئی حدیثیں ہیں جنہیں وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں،اور یہ عباد بن تمیم کے چچاہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ الْمُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلَوَاتِ وَلَيْسَ يُنَادِي بِہَا أَحَدٌ فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَی وَقَالَ بَعْضُہُمْ اتَّخِذُوا قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْيَہُودِ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلَاةِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس وقت مسلمان مدینہ آئے تووہ اکٹھے ہوکر اوقاتِ صلاۃ کا اندازہ لگاتے تھے،کوئی صلاۃ کے لیے پکار نہ لگاتا تھا،ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ۱؎ چنانچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنالو،بعض نے کہا:کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن(یعنی کسی جانور کا سینگ) بنالو۔ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس پرعمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو صلاۃ کے لیے پکارے۔تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلال اٹھو جاؤ صلاۃ کے لیے پکارو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی (اُس) روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔(جسے بخاری ومسلم اور دیگرمحدثین نے روایت کیا ہے) 2؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ كَانَ أَذَانُ رَسُولِ اللہِ ﷺ شَفْعًا شَفْعًا فِي الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ رَوَاہُ وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ زَيْدٍ رَأَی الْأَذَانَ فِي الْمَنَامِ و قَالَ شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ زَيْدٍ رَأَی الْأَذَانَ فِي الْمَنَامِ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَی وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْأَذَانُ مَثْنَی مَثْنَی وَالْإِقَامَةُ مَثْنَی مَثْنَی وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَہْلُ الْكُوفَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ابْنُ أَبِي لَيْلَی ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی كَانَ قَاضِيَ الْكُوفَةِ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيہِ شَيْئًا إِلَّا أَنَّہُ يَرْوِي عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِيہِ

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اذان اوراقامت دونوں دہری ہوتی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن زید کی حدیث کو وکیع نے بطریق الأَعْمَشِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ،عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان (کا واقعہ) دیکھا،اور شعبہ نے بطریق عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ،عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی یہ روایت کی ہے کہ محمدرسول ﷺ کے اصحاب نے ہم سے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان (کاواقعہ)دیکھا،۲-یہ ابن ابی لیلیٰ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے عبداللہ بن زید سے نہیں سنا ہے،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اذان اور اقامت دونوں دہری ہیں یہی سفیان ثوری،ابن مبارک اور اہل کو فہ کا قول ہے،۴-ابن ابی لیلیٰ سے مراد محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ ہیں۔وہ کوفہ کے قاضی تھے،انہوں نے اپنے والد سے نہیں سناہے البتہ وہ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں اوروہ ان کے والدسے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ بِلَالٍ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُثَوِّبَنَّ فِي شَيْءٍ مِنْ الصَّلَوَاتِ إِلَّا فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بِلَالٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْرَائِيلَ الْمُلَائِيِّ وَأَبُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَسْمَعْ ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ قَالَ إِنَّمَا رَوَاہُ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ وَأَبُو إِسْرَائِيلَ اسْمُہُ إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ وَلَيْسَ ہُوَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ التَّثْوِيبِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ التَّثْوِيبُ أَنْ يَقُولَ فِي أَذَانِ الْفَجْرِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ و قَالَ إِسْحَقُ فِي التَّثْوِيبِ غَيْرَ ہَذَا قَالَ التَّثْوِيبُ الْمَكْرُوہُ ہُوَ شَيْءٌ أَحْدَثَہُ النَّاسُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَاسْتَبْطَأَ الْقَوْمَ قَالَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ قَالَ وَہَذَا الَّذِي قَالَ إِسْحَقُ ہُوَ التَّثْوِيبُ الَّذِي قَدْ كَرِہَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ وَالَّذِي أَحْدَثُوہُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَالَّذِي فَسَّرَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ أَنَّ التَّثْوِيبَ أَنْ يَقُولَ الْمُؤَذِّنُ فِي أَذَانِ الْفَجْرِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ وَہُوَ قَوْلٌ صَحِيحٌ وَيُقَالُ لَہُ التَّثْوِيبُ أَيْضًا وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ وَرَأَوْہُ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّہُ كَانَ يَقُولُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ وَرُوِيَ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ مَسْجِدًا وَقَدْ أُذِّنَ فِيہِ وَنَحْنُ نُرِيدُ أَنْ نُصَلِّيَ فِيہِ فَثَوَّبَ الْمُؤَذِّنُ فَخَرَجَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ مِنْ الْمَسْجِدِ وَقَالَ اخْرُجْ بِنَا مِنْ عِنْدِ ہَذَا الْمُبْتَدِعِ وَلَمْ يُصَلِّ فِيہِ قَالَ وَإِنَّمَا كَرِہَ عَبْدُ اللہِ التَّثْوِيبَ الَّذِي أَحْدَثَہُ النَّاسُ بَعْدُ

بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: فجرکے سوا کسی بھی صلاۃ میں تثویب ۱؎ نہ کرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۲-بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ہم صرف ابواسرائیل ملائی کی سند سے جانتے ہیں۔اور ابواسرائیل نے یہ حدیث حکم بن عتیبہ سے نہیں سنی۔بلکہ انہوں نے اسے حسن بن عمارہ سے اورحسن نے حکم بن عتیبہ سے روایت کیا ہے،۳-ابواسرائیل کا نام اسماعیل بن ابی اسحاق ہے،اور وہ اہل الحدیث کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں،۴-اہل علم کا تثویب کی تفسیر کے سلسلے میں اختلاف ہے؛ بعض کہتے ہیں: تثویب فجر کی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم(صلاۃ نیند سے بہتر ہے) کہنے کانام ہے ابن مبارک اور احمد کا یہی قول ہے،اسحاق کہتے ہیں: تثویب اس کے علاوہ ہے،تثویب مکروہ ہے،یہ ایسی چیز ہے جسے لوگوں نے نبی اکرمﷺ کے بعد ایجاد کی ہے،جب موذن اذان دیتا اور لوگ تاخیر کرتے تو وہ اذان اور اقامت کے درمیان: قد قامت الصلاۃ،حی علی الصلاۃ،حی علی الفلاح کہتا،۴-اور جو اسحاق بن راہویہ نے کہاہے دراصل یہی وہ تثویب ہے جسے اہل علم نے ناپسند کیاہے اور اسی کو لوگوں نے نبی اکرمﷺ کے بعد ایجاد کیاہے،ابن مبارک اور احمد کی جوتفسیر ہے کہ تثویب یہ ہے کہ مؤذن فجر کی اذان میں:الصلاۃ خیر من النومکہے تویہ کہنا صحیح ہے،اسے بھی تثویب کہاجاتاہے اور یہ وہ تثویب ہے جسے اہل علم نے پسند کیا اور درست جانا ہے،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ فجرمیں الصلاۃ خیر من النومکہتے تھے،اور مجاہد سے مروی ہے کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک مسجد میں داخل ہواجس میں اذان دی جاچکی تھی۔ہم اس میں صلاۃ پڑھنا چاہ رہے تھے۔اتنے میں موذن نے تثویب کی،تو عبداللہ بن عمر مسجد سے باہر نکلے اورکہا: اس بدعتی کے پاس سے ہمارے ساتھ نکل چلو،اور اس مسجدمیں انہوں نے صلاۃ نہیں پڑھی،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس تثویب کوجسے لوگوں نے بعد میں ایجاد کرلیاتھاناپسندکیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ فُرِضَتْ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِہِ الصَّلَوَاتُ خَمْسِينَ ثُمَّ نُقِصَتْ حَتَّی جُعِلَتْ خَمْسًا ثُمَّ نُودِيَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّہُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَإِنَّ لَكَ بِہَذِہِ الْخَمْسِ خَمْسِينَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَبِي قَتَادَةَ وَمَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ پر معراج کی رات پچاس صلاتیں فرض کی گئیں،پھرکم کی گئیں یہاں تک کہ (کم کرتے کرتے) پانچ کردی گئیں۔پھر پکار کر کہاگیا: اے محمد! میری بات اٹل ہے،تمہیں ان پانچ صلاتوں کا ثواب پچاس کے برابر ملے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔۲-اس باب میں عبادہ بن صامت،طلحہ بن عبیداللہ،ابوذر،ابوقتادہ،مالک بن صعصہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَعْلَی بْنُ عَطَاءٍ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيُّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ شَہِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَجَّتَہُ فَصَلَّيْتُ مَعَہُ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ قَالَ فَلَمَّا قَضَی صَلَاتَہُ وَانْحَرَفَ إِذَا ہُوَ بِرَجُلَيْنِ فِي أُخْرَی الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّيَا مَعَہُ فَقَالَ عَلَيَّ بِہِمَا فَجِيءَ بِہِمَا تُرْعَدُ فَرَائِصُہُمَا فَقَالَ مَا مَنَعَكُمَا أَنْ تُصَلِّيَا مَعَنَا فَقَالَا يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا كُنَّا قَدْ صَلَّيْنَا فِي رِحَالِنَا قَالَ فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَہُمْ فَإِنَّہَا لَكُمَا نَافِلَةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ مِحْجَنٍ الدِّيلِيِّ وَيَزِيدَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالُوا إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ وَحْدَہُ ثُمَّ أَدْرَكَ الْجَمَاعَةَ فَإِنَّہُ يُعِيدُ الصَّلَوَاتِ كُلَّہَا فِي الْجَمَاعَةِ وَإِذَا صَلَّی الرَّجُلُ الْمَغْرِبَ وَحْدَہُ ثُمَّ أَدْرَكَ الْجَمَاعَةَ قَالُوا فَإِنَّہُ يُصَلِّيہَا مَعَہُمْ وَيَشْفَعُ بِرَكْعَةٍ وَالَّتِي صَلَّی وَحْدَہُ ہِيَ الْمَكْتُوبَةُ عِنْدَہُمْ

یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺکے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک رہا۔میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں فجرپڑھی،جب آپ نے صلاۃ پوری کرلی اورہماری طرف مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے آخر میں (سب سے پیچھے) دوآدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ صلاۃ نہیں پڑھی۔آپ نے فرمایا: انہیں میرے پاس لاؤ،وہ لائے گئے،ان کے مونڈھے ڈر سے پھڑک رہے تھے۔آپ نے پوچھا:تم دونوں نے ہمارے ساتھ صلاۃ کیوں نہیں پڑھی؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لی تھی۔آپ نے فرمایا: ایسانہ کیا کرو،جب تم اپنے ڈیروں میں صلاۃ پڑھ لو پھر مسجد آؤجس میں جماعت ہورہی ہوتو لوگوں کے ساتھ بھی پڑھ لو ۱؎ یہ تمہارے لیے نفل ہوجائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یزید بن اسود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں محجن دیلی اوریزید بن عامر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم میں سے کئی لوگوں کا یہی قول ہے۔اوریہی سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ جب آدمی تنہا صلاۃ پڑھ چکا ہو پھر اسے جماعت مل جائے تو وہ جماعت کے ساتھ دوبارہ صلاۃ پڑھ لے۔اور جب آدمی تنہا مغرب پڑھ چکا ہو پھرجماعت پائے تو وہ ان کے ساتھ صلاۃ پڑھے اور ایک رکعت اور پڑھ کر اسے جفت بنادے،اور جو صلاۃاس نے تنہا پڑھی ہے وہی ان کے نزدیک فرض ہوگی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُہَا وَشَرُّہَا آخِرُہَا وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُہَا وَشَرُّہَا أَوَّلُہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُبَيٍّ وَعَائِشَةَ وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَسْتَغْفِرُ لِلصَّفِّ الْأَوَّلِ ثَلَاثًا وَلِلثَّانِي مَرَّةً

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی صف ہے ۱؎ اور سب سے بری آخری صف اور عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری صف ۲؎ ہے اور سب سے بری پہلی صف ۳؎۔ ٍ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،ابن عباس،ابوسعید،ابی بن کعب،عائشہ،عرباض بن ساریہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ پہلی صف والوں کے لیے تین بار استغفار کرتے تھے اور دوسری کے لیے ایک بار۔

و قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:لَوْ أَنَّ النَّاسَ يَعْلَمُونَ مَا فِي النِّدَاءِ،وَالصَّفِّ الأَوَّلِ،ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلاَّ أَنْ يَسْتَہِمُوا عَلَيْہِ لاَسْتَہَمُوا عَلَيْہِ. قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِيُّ،حَدَّثَنَا مَعْنٌ،حَدَّثَنَا مَالِكٌ،عَنْ سُمَيٍّ،عَنْ أَبِي صَالِحٍ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اذان اورپہلی صف میں کیاثواب ہے،اور وہ اسے قرعہ اندازی کے بغیر نہ پاسکتے تو اس کے لیے قرعہ اندازی کرتے۔

و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،عَنْ مَالِكٍ نَحْوَہُ.

نیز قتیبہ نے مالک سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُہُمْ لِكِتَابِ اللہِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُہُمْ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُہُمْ ہِجْرَةً فَإِنْ كَانُوا فِي الْہِجْرَةِ سَوَاءً فَأَكْبَرُہُمْ سِنًّا وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِہِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَی تَكْرِمَتِہِ فِي بَيْتِہِ إِلَّا بِإِذْنِہِ قَالَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِہِ أَقْدَمُہُمْ سِنًّا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ وَعَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا أَحَقُّ النَّاسِ بِالْإِمَامَةِ أَقْرَؤُہُمْ لِكِتَابِ اللہِ وَأَعْلَمُہُمْ بِالسُّنَّةِ وَقَالُوا صَاحِبُ الْمَنْزِلِ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا أَذِنَ صَاحِبُ الْمَنْزِلِ لَغَيْرِہِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِہِ وَكَرِہَہُ بَعْضُہُمْ وَقَالُوا السُّنَّةُ أَنْ يُصَلِّيَ صَاحِبُ الْبَيْتِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَقَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِہِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَی تَكْرِمَتِہِ فِي بَيْتِہِ إِلَّا بِإِذْنِہِ فَإِذَا أَذِنَ فَأَرْجُو أَنَّ الْإِذْنَ فِي الْكُلِّ وَلَمْ يَرَ بِہِ بَأْسًا إِذَا أَذِنَ لَہُ أَنْ يُصَلِّيَ بِہِ

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) کا سب سے زیادہ علم رکھنے والاہو،اگرلوگ قرآن کے علم میں برابر ہوں تو جوسب سے زیادہ سنت کا جاننے والا ہووہ امامت کرے،اور اگر وہ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہووہ امامت کرے،اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جوعمرمیں سب سے بڑا ہووہ امامت کرے،آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ کسی آدمی کے گھرمیں اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھاجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ا بوسعید،انس بن مالک،مالک بن حویرث اور عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے،ان کا کہناہے کہ لوگوں میں امامت کا حق دار وہ ہے جو اللہ کی کتاب (قرآن) اور سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتاہو۔نیز وہ کہتے ہیں کہ گھرکا مالک خود امامت کازیادہ مستحق ہے،اور بعض نے کہاہے: جب گھرکا مالک کسی دوسرے کو اجازت دے دے تو اس کے صلاۃ پڑھانے میں کوئی حرج نہیں،لیکن بعض لوگوں نے اسے بھی مکروہ جاناہے،وہ کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ گھرکا مالک خود پڑھائے ۱؎،۴-احمد بن حنبل نبی اکرمﷺ کے فرمان: آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اورنہ اس کے گھرمیں اس کی مخصوص نشست پر اس کی اجازت کے بغیربیٹھاجائے کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب وہ اجازت دے دے تو میں امید رکھتاہوں کہ یہ اجازت مسند پر بیٹھنے اورامامت کرنے دونوں سے متعلق ہوگی،انہوں نے اس کے صلاۃپڑھانے میں کوئی حرج نہیں جاناکہ جب وہ اجازت دے دے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ قَالَ لَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ إِنَّ الرُّكَبَ سُنَّتْ لَكُمْ فَخُذُوا بِالرُّكَبِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَأَبِي أُسَيْدٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ وَأَبِي مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ لَا اخْتِلَافَ بَيْنَہُمْ فِي ذَلِكَ إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَبَعْضِ أَصْحَابِہِ أَنَّہُمْ كَانُوا يُطَبِّقُونَ وَالتَّطْبِيقُ مَنْسُوخٌ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ ہم سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: گھٹنوں کو پکڑ نا تمہارے لیے مسنون کیا گیاہے،لہذا تم(رکوع میں) گھٹنے پکڑے رکھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد،انس،ابواسید،سہل بن سعد،محمد بن مسلمہ اور ابومسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام،تابعین اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔اس سلسلے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔سوائے اس کے جوابن مسعود اور ان کے بعض شاگردوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ تطبیق ۱؎ کرتے تھے،اورتطبیق اہل علم کے نزدیک منسوخ ہے۔

قَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ كُنَّا نَفْعَلُ ذَلِكَ فَنُہِينَا عَنْہُ وَأُمِرْنَا أَنْ نَضَعَ الْأَكُفَّ عَلَی الرُّكَبِ قَالَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ سَعْدٍ بِہَذَا وَأَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ الْمُنْذِرِ وَأَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ اسْمُہُ مَالِكُ بْنُ رَبِيعَةَ وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُہُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ حَبِيبٍ وَأَبُو يَعْفُورٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ نِسْطَاسٍ وَأَبُو يَعْفُورٍ الْعَبْدِيُّ اسْمُہُ وَاقِدٌ وَيُقَالُ وَقْدَانُ وَہُوَ الَّذِي رَوَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی وَكِلَاہُمَا مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایسا کرتے تھے (یعنی تطبیق کرتے تھے) پھر ہمیں اس سے روک دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ہم ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حُنَيْنٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ لُبْسِ الْقَسِّيِّ وَالْمُعَصْفَرِ وَعَنْ تَخَتُّمِ الذَّہَبِ وَعَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي الرُّكُوعِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ كَرِہُوا الْقِرَاءَةَ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ریشمی اورکسم کے رنگے ہوئے کپڑے پہننے،سونے کی انگوٹھی پہننے اور رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔۳-صحابہ کرام،تابعین عظام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کایہی قول ہے،ان لوگوں نے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے کومکروہ کہا ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ اللَّيْثِيِّ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ يُصَلِّي فَكَانَ إِذَا كَانَ فِي وِتْرٍ مِنْ صَلَاتِہِ لَمْ يَنْہَضْ حَتَّی يَسْتَوِيَ جَالِسًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ إِسْحَقُ وَبَعْضُ أَصْحَابِنَا وَمَالِكٌ يُكْنَی أَبَا سُلَيْمَانَ

ابواسحاق مالک بن حویرث لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو صلاۃ پڑھتے دیکھا،آپ کی صلاۃاس طرح سے تھی کہ جب آپ طاق رکعت میں ہوتے تو اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک کہ آپ اچھی طرح بیٹھ نہ جاتے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-مالک بن حویرث کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔اوریہی اسحاق بن راہویہ اور ہمارے بعض اصحاب بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَطَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ فَكَانَ يَقُولُ التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّہِ سَلَامٌ عَلَيْكَ أَيُّہَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُہُ سَلَامٌ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِينَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُمَيْدٍ الرُّؤَاسِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ نَحْوَ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَرَوَی أَيْمَنُ بْنُ نَابِلٍ الْمَكِّيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ وَہُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَذَہَبَ الشَّافِعِيُّ إِلَی حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي التَّشَہُّدِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ہمیں تشہدسکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن سکھاتے تھے اور فرماتے: التَّحِیَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّیِّبَاتُ لِلّہِ،سَلاَمٌ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ،سَلاَمٌ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ،أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ،وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ.امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اور عبدالرحمٰن بن حمید رواسی نے بھی یہ حدیث ابوالزبیر سے لیث بن سعد کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۳-اور ایمن بن نابل مکی نے یہ حدیث ابوالزبیرسے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کی ہے اور یہ غیر محفوظ ہے،۴-امام شافعی تشہد کے سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرف گئے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ہُلْبٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَؤُمُّنَا فَيَنْصَرِفُ عَلَی جَانِبَيْہِ جَمِيعًا عَلَی يَمِينِہِ وَعَلَی شِمَالِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ہُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ يَنْصَرِفُ عَلَی أَيِّ جَانِبَيْہِ شَاءَ إِنْ شَاءَ عَنْ يَمِينِہِ وَإِنْ شَاءَ عَنْ يَسَارِہِ وَقَدْ صَحَّ الْأَمْرَانِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَيُرْوَی عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّہُ قَالَ إِنْ كَانَتْ حَاجَتُہُ عَنْ يَمِينِہِ أَخَذَ عَنْ يَمِينِہِ وَإِنْ كَانَتْ حَاجَتُہُ عَنْ يَسَارِہِ أَخَذَ عَنْ يَسَارِہِ

ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری امامت فرماتے (توسلام پھیرنے کے بعد)اپنے دونوں طرف پلٹتے تھے (کبھی) دائیں اور(کبھی) بائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ہلب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،انس،عبداللہ بن عمرو،اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ امام اپنے جس جانب چاہے پلٹ کر بیٹھے چاہے تو دائیں طرف اور چاہے تو بائیں طرف،نبی اکرمﷺ سے دونوں ہی باتیں ثابت ہیں ۱؎ اورعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اگر آپ کی ضرورت دائیں طرف ہوتی تو دائیں طرف پلٹتے اوربائیں طرف ہوتی تو بائیں طرف پلٹتے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ بِالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ وَشِبْہِہِمَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ خَبَّابٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي قَتَادَةَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَرَأَ فِي الظُّہْرِ قَدْرَ تَنْزِيلِ السَّجْدَةِ وَرُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَی مِنْ الظُّہْرِ قَدْرَ ثَلَاثِينَ آيَةً وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ آيَةً وَرُوِي عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ كَتَبَ إِلَی أَبِي مُوسَی أَنْ اقْرَأْ فِي الظُّہْرِ بِأَوْسَاطِ الْمُفَصَّلِ وَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ كَنَحْوِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ يَقْرَأُ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ وَرُوِي عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّہُ قَالَ تَعْدِلُ صَلَاةُ الْعَصْرِ بِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ فِي الْقِرَاءَةِ و قَالَ إِبْرَاہِيمُ تُضَاعَفُ صَلَاةُ الظُّہْرِ عَلَی صَلَاةِ الْعَصْرِ فِي الْقِرَاءَةِ أَرْبَعَ مِرَارٍ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ظہر اور عصر میں والسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ،وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ اور ان جیسی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں خباب،ابوسعید،ابوقتادہ،زید بن ثابت اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ظہر میں الم تنزیل یعنی سورۂ سجدہ کے بقدرقرأت کی،۴-یہ بھی مروی ہے کہ آپ ﷺظہر کی پہلی رکعت میں تیس آیتوں کے بقدر اور دوسری رکعت میں پندرہ آیتوں کے بقدرقرأت کرتے تھے،عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم ظہر میں وساط مفصل پڑھاکرو ۱؎،۶-بعض اہل علم کی رائے ہے کہ عصر کی قرأت مغرب کی قرأت کی طرح ہوگی،ان میں(امام) قصار مفصل پڑھے گا ۲؎،۷-اورابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ ظہر کی قرأت عصر کی قرأت سے چار گنا ہوگی۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ الصُّبْحَ فَثَقُلَتْ عَلَيْہِ الْقِرَاءَةُ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنِّي أَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ وَرَاءَ إِمَامِكُمْ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ إِي وَاللہِ قَالَ فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَإِنَّہُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي قَتَادَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ الزُّہْرِيُّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ وَہَذَا أَصَحُّ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ يَرَوْنَ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فجرپڑھی،آپ پر قرأت دشوارہوگئی،صلاۃ سے فارغ ہونے کے بعدآپ نے فرمایا: مجھے لگ رہاہے کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟ہم نے عرض کیا: جی ہاں،اللہ کی قسم ہم قرأت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا: تم ایسانہ کیا کروسوائے سورئہ فاتحہ کے اس لیے کہ جو اسے نہیں پڑھتا اس کی صلاۃ نہیں ہوتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث زہری نے بھی محمود بن ربیع سے اور محمود نے عبادہ بن صامت سے اور عبادہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔آپ نے فرمایا: اس شخص کی صلاۃ نہیں جس نے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی،یہ سب سے صحیح روایت ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ،عائشہ،انس،ابوقتادہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-صحابہ اورتابعین میں سے اکثر اہل علم کاامام کے پیچھے قرأت کے سلسلے میں عمل اسی حدیث پر ہے۔ائمہ کرام میں سے مالک بن انس،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی یہی ہے،یہ سبھی لوگ امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُصَلِّي عَلَی الْخُمْرَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَأُمِّ سُلَيْمٍ وَعَائِشَةَ وَمَيْمُونَةَ وَأُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الْأَسَدِ وَلَمْ تَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبِہِ يَقُولُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَدْ ثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ الصَّلَاةُ عَلَی الْخُمْرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْخُمْرَةُ ہُوَ حَصِيرٌ قَصِيرٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺخمرہ(چھوٹی چٹائی) پر صلاۃ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام حبیبہ،ابن عمر،ام سلیم،عائشہ،میمونہ،ام کلثوم بنت ابی سلمہ بن عبدالاسد (ام کلثوم بنت ابی سلمہ نے نبی اکرمﷺ سے نہیں سناہے) اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کا یہی خیال ہے،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے خمرہ پر صلاۃ ثابت ہے،۴-خمرہ چھوٹی چٹائی کوکہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَسْتَحِبُّ الصَّلَاةَ فِي الْحِيطَانِ قَالَ أَبُو دَاوُدَ يَعْنِي الْبَسَاتِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ وَالْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ قَدْ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُہُ وَأَبُو الزُّبَيْرِ اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ تَدْرُسَ وَأَبُو الطُّفَيْلِ اسْمُہُ عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ باغات میں صلاۃ پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ ابوداود کہتے ہیں: حیطان سے مراد بساتین ہیں (باغات)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: معاذ کی حدیث غریب ہے،اسے ہم حسن بن ابی جعفر ہی کی روایت سے جانتے ہیں،اورحسن بن ابی جعفر کو یحییٰ بن سعید وغیرہ نے ضعیف قراردیاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ رَدِيفَ الْفَضْلِ عَلَی أَتَانٍ فَجِئْنَا وَالنَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي بِأَصْحَابِہِ بِمِنًی قَالَ فَنَزَلْنَا عَنْہَا فَوَصَلْنَا الصَّفَّ فَمَرَّتْ بَيْنَ أَيْدِيہِمْ فَلَمْ تَقْطَعْ صَلَاتَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ قَالُوا لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَيْءٌ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر(اپنے بھائی) فضل رضی اللہ عنہ کے پیچھے سوار تھا،ہم آئے اور نبی اکرمﷺ منیٰ میں صحابہ کو صلاۃ پڑھارہے تھے،ہم گدھی سے اترے اور صف میں مل گئے۔اوروہ(گدھی) ان لوگوں کے سامنے پھرنے لگی،تواس نے ان کی صلاۃ باطل نہیں کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،فضل بن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ اوران کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ صلاۃ کو کوئی چیزباطل نہیں کرتی،سفیان ثوری اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔ وضاحت ۱؎: اس حدیث میں ہے کہ کوئی بھی چیزصلاۃ کوباطل نہیں کرتی،جبکہ اگلی حدیث میں ہے کہ کتا،گدھااورعورت کے مصلی کے آگے سے گزرنے سے صلاۃباطل ہوجاتی ہے،ان دونوں حدیثوں میں اس طرح جمع کیا گیاہے،۱-صحیح بخاری میںوہ گدھی ان لوگوں کے سامنے سے گزری تو اس سے ان کی صلاۃباطل نہیں ہوئیکا جملہ نہیں ہے اصل واقعہ صرف یہ ہے کہ گدھی یا وہ دونوں صرف صف کے بعض حصوں سے گزرے تھے جبکہ امام (آپﷺ) کاسترہ صف کے ان حصوں کا سترہ بھی ہوگیاتھا (آپ خصوصامیدان میں بغیرسترہ کے صلاۃ پڑھتے ہی نہیں تھے) ۲-پہلی حدیث یا اس معنی کی دوسری حدیثوں سے اس بات پر استدلال کسی طرح واضح نہیں ہے،۳-جبکہ اگلی حدیث قولی میں امت کے لیے خاص حکم ہے،اور زیادہ صحیح حدیث ہے،اس لیے مذکورہ تینوں چیزوں کے مصلی کے آگے سے گزرنے سے صلاۃ باطل ہوجاتی ہے (باطل کا معنی اگلی حدیث کے حاشیہ میں ملاحظہ کریں)۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ صَلَّی بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَنَہَضَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَسَبَّحَ بِہِ الْقَوْمُ وَسَبَّحَ بِہِمْ فَلَمَّا صَلَّی بَقِيَّةَ صَلَاتِہِ سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّہْوِ وَہُوَ جَالِسٌ ثُمَّ حَدَّثَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَعَلَ بِہِمْ مِثْلَ الَّذِي فَعَلَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَسَعْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ابْنِ أَبِي لَيْلَی مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ قَالَ أَحْمَدُ لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَی و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ابْنُ أَبِي لَيْلَی ہُوَ صَدُوقٌ وَلَا أَرْوِي عَنْہُ لِأَنَّہُ لَا يَدْرِي صَحِيحَ حَدِيثِہِ مِنْ سَقِيمِہِ وَكُلُّ مَنْ كَانَ مِثْلَ ہَذَا فَلَا أَرْوِي عَنْہُ شَيْئًا وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ رَوَاہُ سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُبَيْلٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَجَابِرٌ الْجُعْفِيُّ قَدْ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ تَرَكَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَغَيْرُہُمَا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا قَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مَضَی فِي صَلَاتِہِ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ مِنْہُمْ مَنْ رَأَی قَبْلَ التَّسْلِيمِ وَمِنْہُمْ مَنْ رَأَی بَعْدَ التَّسْلِيمِ وَمَنْ رَأَی قَبْلَ التَّسْلِيمِ فَحَدِيثُہُ أَصَحُّ لِمَا رَوَی الزُّہْرِيُّ وَيَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ عَبْدِ اللہِ ابْنِ بُحَيْنَةَ

عامر بن شراخیل شعبی کہتے ہیں: ہمیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے صلاۃ پڑھائی،دورکعت کے بعد (بیٹھنے کے بجائے) وہ کھڑے ہوگئے،تولوگوں نے انہیں سبحان اللہ کہہ کریاددلایاکہ وہ بیٹھ جائیں تو انہوں نے سبحان اللہ کہہ کرانہیں اشارہ کیا کہ وہ لوگ کھڑے ہوجائیں،پھر جب انہوں نے اپنی بقیہ صلاۃ پڑھ لی تو سلام پھیرا پھربیٹھے بیٹھے سہو کے دوسجدے کئے۔پھر لوگوں سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں کے ساتھ ایساہی کیا تھا جیسے انہوں نے (مغیرہ نے) کیاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ان سے کئی اوربھی سندوں سے مروی ہے،۲-بعض اہل علم نے ابن ابی لیلیٰ کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاہے۔احمد کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ کی حدیث لائق استدلال نہیں۔محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ صدوق (سچے) ہیں لیکن میں ان سے روایت نہیں کرتا اس لیے کہ یہ نہیں معلوم کہ ان کی حدیثیں کون سی صحیح ہیں اور کون سی ضعیف ہیں،اورجو بھی ایسا ہو میں اس سے روایت نہیں کرتا۔۴-یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اوربھی سندوں سے مروی ہے،۵-اسے سفیان نے بطریق: جَابِرٍ،عَنْ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُبَیْلٍ،عَنْ قَیْسِ بْنِ أَبِی حَازِمٍ،عَنْ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ روایت کیا ہے۔اورجابر جعفی کوبعض اہل علم نے ضعیف قراردیاہے،یحییٰ بن سعید اورعبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ نے ان سے حدیثیں نہیں لی ہیں۔۵-اس باب میں عقبہ بن عامر،سعد اور عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۶-اسی پراہل علم کاعمل ہے کہ آدمی جب دورکعتیں پڑھ کر کھڑاہوجائے تو اپنی صلاۃجاری رکھے اور(اخیرمیں) دوسجدے کرلے،۷-ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرے اوربعض کا ٰخیال ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد کرے۔۸-جس کا خیال ہے کہ سلام پھیر نے سے پہلے کرے اس کی حدیث زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ اُسے زہری اور یحییٰ بن سعید انصاری نے عبدالرحمٰن بن اعرج سے اور عبدالرحمٰن نے عبداللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ صَلَّی بِنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَلَمَّا صَلَّی رَكْعَتَيْنِ قَامَ وَلَمْ يَجْلِسْ فَسَبَّحَ بِہِ مَنْ خَلْفَہُ فَأَشَارَ إِلَيْہِمْ أَنْ قُومُوا فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ سَلَّمَ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّہْوِ وَسَلَّمَ وَقَالَ ہَكَذَا صَنَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ ہمیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے صلاۃ پڑھائی،جب دورکعتیں پڑھ چکے تو (تشہد میں)بغیر بیٹھے کھڑے ہوگئے۔توجولوگ ان کے پیچھے تھے انہوں نے سبحان اللہ کہا،تو انہوں نے انہیں اشارہ کیاکہ تم بھی کھڑے ہوجاؤ پھر جب وہ اپنی صلاۃ سے فارغ ہوئے توانہوں نے سلام پھیرااورسہو کے دوسجدے کئے اور سلام پھیرا،اور کہا: ایسے ہی رسول اللہﷺ نے کیاتھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اوربھی سندوں سے نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ و قَالَ عَلِيٌّ كُنْتُ إِذَا اسْتَأْذَنْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ يُصَلِّي سَبَّحَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ا بوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صلاۃ میں مردوں کے لیے سبحان اللہ کہہ کرامام کواس کے سہو پرمتنبہ کرنا اورعورتوں کے لیے دستک دینا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،سہل بن سعد،جابر،ابوسعید،ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں نبی اکرمﷺ سے اندرآنے کی اجازت مانگتا اور آپ صلاۃ پڑھ رہے ہوتے توآپ سبحان اللہ کہتے،۴-اہل علم کا اسی پر عمل ہے احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی الظُّہْرَ خَمْسًا فَقِيلَ لَہُ أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ظہر پانچ رکعت پڑھی تو آپ سے پوچھاگیا: کیاصلاۃ بڑھا دی گئی ہے؟ (یعنی چار کے بجائے پانچ رکعت کردی گئی ہے) تو آپ نے سلام پھیرنے کے بعد دوسجدے کئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّہْوِ بَعْدَ الْكَلَامِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے سہو کے دونوں سجدے بات کرنے کے بعدکئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے ۱ ؎،۲-اس باب میں معاویہ،عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ وضاحت ۱ ؎: یہ حکم نیچے والی حدیث میں موجودہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَجَدَہُمَا بَعْدَ السَّلَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ أَيُّوبُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ الظُّہْرَ خَمْسًا فَصَلَاتُہُ جَائِزَةٌ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّہْوِ وَإِنْ لَمْ يَجْلِسْ فِي الرَّابِعَةِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا صَلَّی الظُّہْرَ خَمْسًا وَلَمْ يَقْعُدْ فِي الرَّابِعَةِ مِقْدَارَ التَّشَہُّدِ فَسَدَتْ صَلَاتُہُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَبَعْضِ أَہْلِ الْكُوفَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے سہو کے دونوں سجدے سلام کے بعد کئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-(ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی) یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے ایوب اور دیگرکئی لوگوں نے بھی ابن سیرین سے روایت کیا ہے،۳-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۴-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ظہر بھول کر پانچ رکعت پڑھ لے تو اس کی صلاۃ درست ہے وہ سہوکے دوسجدے کرلے اگرچہ وہ چوتھی (رکعت)میں نہ بیٹھا ہو،یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۵-اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ظہر پانچ رکعت پڑھ لے اور چوتھی رکعت میں نہ بیٹھا ہو تو اس کی صلاۃ فاسد ہوجائے گی۔یہ قول سفیان ثوری اور بعض کوفیوں کا ہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ وَہُوَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ انْصَرَفَ مِنْ اثْنَتَيْنِ فَقَالَ لَہُ ذُو الْيَدَيْنِ أَقُصِرَتْ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَقَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَصَلَّی اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِہِ أَوْ أَطْوَلَ ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ مِثْلَ سُجُودِہِ أَوْ أَطْوَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَابْنِ عُمَرَ وَذِي الْيَدَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْكُوفَةِ إِذَا تَكَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ نَاسِيًا أَوْ جَاہِلًا أَوْ مَا كَانَ فَإِنَّہُ يُعِيدُ الصَّلَاةَ وَاعْتَلُّوا بِأَنَّ ہَذَا الْحَدِيثَ كَانَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاةِ قَالَ وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ فَرَأَی ہَذَا حَدِيثًا صَحِيحًا فَقَالَ بِہِ و قَالَ ہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الصَّائِمِ إِذَا أَكَلَ نَاسِيًا فَإِنَّہُ لَا يَقْضِي وَإِنَّمَا ہُوَ رِزْقٌ رَزَقَہُ اللہُ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَفَرَّقَ ہَؤُلَاءِ بَيْنَ الْعَمْدِ وَالنِّسْيَانِ فِي أَكْلِ الصَّائِمِ بِحَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ و قَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ إِنْ تَكَلَّمَ الْإِمَامُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِہِ وَہُوَ يَرَی أَنَّہُ قَدْ أَكْمَلَہَا ثُمَّ عَلِمَ أَنَّہُ لَمْ يُكْمِلْہَا يُتِمُّ صَلَاتَہُ وَمَنْ تَكَلَّمَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَہُوَ يَعْلَمُ أَنَّ عَلَيْہِ بَقِيَّةً مِنْ الصَّلَاةِ فَعَلَيْہِ أَنْ يَسْتَقْبِلَہَا وَاحْتَجَّ بِأَنَّ الْفَرَائِضَ كَانَتْ تُزَادُ وَتُنْقَصُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَإِنَّمَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ وَہُوَ عَلَی يَقِينٍ مِنْ صَلَاتِہِ أَنَّہَا تَمَّتْ وَلَيْسَ ہَكَذَا الْيَوْمَ لَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتَكَلَّمَ عَلَی مَعْنَی مَا تَكَلَّمَ ذُو الْيَدَيْنِ لِأَنَّ الْفَرَائِضَ الْيَوْمَ لَا يُزَادُ فِيہَا وَلَا يُنْقَصُ قَالَ أَحْمَدُ نَحْوًا مِنْ ہَذَا الْكَلَامِ و قَالَ إِسْحَقُ نَحْوَ قَوْلِ أَحْمَدَ فِي ہَذَا الْبَابِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ(ظہریا عصرکی) دورکعت پڑھ کر (مقتدیوں کی طرف) پلٹے تو ذوالیدین نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا صلاۃ کم کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ تو آپﷺنے پوچھا: کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ہاں (آپ نے دوہی رکعت پڑھی ہیں) تورسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور آخری دونوں رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیرا،پھر اللہ اکبرکہا،پھراپنے پہلے سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمباسجدہ کیا،پھر اللہ اکبرکہا اور سراٹھا یا،پھراپنے اسی سجدہ کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ کیا۔(یعنی سجدہ سہو کیا) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمران بن حصین،ابن عمر،ذوالیدین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اس حدیث کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔بعض اہل کوفہ کہتے ہیں کہ جب کوئی صلاۃ میں بھول کر یا لاعلمی میں یا کسی بھی وجہ سے بات کربیٹھے تو اُسے نئے سرے سے صلاۃ دہرانی ہوگی۔وہ اس حدیث میں مذکور واقعہ کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ یہ واقعہ صلاۃ میں بات چیت کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہے ۱؎،۴-رہے امام شافعی تو انہوں نے اس حدیث کوصحیح جاناہے اور اسی کے مطابق انہوں نے فتویٰ دیاہے،ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اُس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو صائم کے سلسلے میں مروی ہے کہ جب وہ بھول کر کھالے تواس پر صوم کی قضا نہیں،کیوں کہ وہ اللہ کا دیا ہوا رزق ہے۔شافعی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے صائم کے قصداً اوربھول کرکھانے میں جو تفریق کی ہے وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی وجہ سے ہے،۵-امام احمد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر امام یہ سمجھ کر کہ اس کی صلاۃ پوری ہوچکی ہے کوئی بات کرلے پھر اسے معلوم ہو کہ اس کی صلاۃ پوری نہیں ہوئی ہے تووہ اپنی صلاۃ پوری کرلے،اورجو امام کے پیچھے مقتدی ہو اوربات کر لے اوریہ جانتا ہو کہ ابھی کچھ صلاۃ اس کے ذمہ باقی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے دوبارہ پڑھے،انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ رسول اللہﷺکے زمانے میں فرائض کم یازیادہ کئے جاسکتے تھے۔اور ذوالیدین رضی اللہ عنہ نے جو بات کی تھی تو وہ محض اس وجہ سے کہ انہیں یقین تھاکہ صلاۃ کامل ہوچکی ہے اور اب کسی کے لئے اس طرح بات کرنا جائز نہیں جو ذوالیدین کے لیے جائزہوگیا تھا،کیوں کہ اب فرائض میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ۱؎،۶-احمد کا قول بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے،اسحاق بن راہویہ نے بھی اس باب میں احمدجیسی بات کہی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ جُلُودِ السِّبَاعِ أَنْ تُفْتَرَشَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ جُلُودِ السِّبَاعِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ أَنَّہُ كَرِہَ جُلُودَ السِّبَاعِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِيہِ غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ نَہَی عَنْ جُلُودِ السِّبَاعِ وَہَذَا أَصَحُّ

ابوالملیح سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے درندوں کی کھال (استعمال کرنے) سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ قَال سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّہْرَانِ فَسَعَی أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ خَلْفَہَا فَأَدْرَكْتُہَا فَأَخَذْتُہَا فَأَتَيْتُ بِہَا أَبَا طَلْحَةَ فَذَبَحَہَا بِمَرْوَةٍ فَبَعَثَ مَعِي بِفَخِذِہَا أَوْ بِوَرِكِہَا إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَأَكَلَہُ قَالَ قُلْتُ أَكَلَہُ قَالَ قَبِلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَمَّارٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ وَيُقَالُ مُحَمَّدُ بْنُ صَيْفِيٍّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِأَكْلِ الْأَرْنَبِ بَأْسًا وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَكْلَ الْأَرْنَبِ وَقَالُوا إِنَّہَا تَدْمَی

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے مقام مرالظہران میں ایک خرگوش کا پیچھاکیا،صحابہ کرام اس کے پیچھے دوڑے،میں نے اسے پالیا اورپکڑلیا،پھر اسے ابوطلحہ کے پاس لا یا،انہوں نے اس کو پتھرسے ذبح کیا اورمجھے اس کی ران دے کرنبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا،چنانچہ آپ نے اسے کھایا۔راوی ہشام بن زیدکہتے ہیں: میں نے (راوی حدیث اپنے دادا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے) پوچھا: کیاآپ نے اسے کھایا؟ کہا: آپ ﷺنے اسے قبول کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،عمار،محمدبن صفوان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ خرگوش کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ہیں،۴-جب کہ بعض اہل علم خرگوش کھانے کو مکروہ سمجھتے ہیں،یہ لوگ کہتے ہیں: اسے (یعنی مادہ خرگوش کو) حیض کا خون آتا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرٍ الضَّبُعُ صَيْدٌ ہِيَ قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ آكُلُہَا قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ لَہُ أَقَالَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَلَمْ يَرَوْا بِأَكْلِ الضَّبُعِ بَأْسًا وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثٌ فِي كَرَاہِيَةِ أَكْلِ الضَّبُعِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَكْلَ الضَّبُعِ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ يَحْيَی الْقَطَّانُ وَرَوَی جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ قَوْلَہُ وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ أَصَحُّ وَابْنُ أَبِي عَمَّارٍ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ الْمَكِّيُّ

ابن ابی عمار کہتے ہیں: میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا لکڑبگھابھی شکار ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں،میں نے پوچھا: اسے کھا سکتا ہوں؟ کہا: ہاں،میں نے پوچھا: کیا یہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے؟ کہا: ہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یحییٰ قطان کہتے ہیں: جریربن حازم نے یہ حدیث اس سند سے روایت کی ہے: عبد اللہ بن عبیدبن عمیرنے ابن ابی عمارسے،ابن ابی عمار نے جابرسے،جابرنے عمر رضی اللہ عنہ کے قول سے روایت کی ہے،ابن جریج کی حدیث زیادہ صحیح ہے،۳-بعض اہل علم کا یہی مذہب ہے،وہ لوگ لکڑبگھاکھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۴-نبی اکرمﷺ سے لکڑبگھاکھانے کی کراہت کے سلسلے میں ایک حدیث آئی ہے،لیکن اس کی سندقوی نہیں ہے،۵-بعض اہل علم نے بجوکھانے کو مکروہ سمجھاہے،ابن مبارک کابھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ أَبِي أُمَيَّةَ عَنْ حِبَّانَ بْنِ جَزْءٍ عَنْ أَخِيہِ خُزَيْمَةَ بْنِ جَزْءٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ أَكْلِ الضَّبُعِ فَقَالَ أَوَ يَأْكُلُ الضَّبُعَ أَحَدٌ وَسَأَلْتُہُ عَنْ الذِّئْبِ فَقَالَ أَوَيَأْكُلُ الذِّئْبَ أَحَدٌ فِيہِ خَيْرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ أَبِي أُمَيَّةَ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فِي إِسْمَعِيلَ وَعَبْدِ الْكَرِيمِ أَبِي أُمَيَّةَ وَہُوَ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ قَيْسِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ وَعَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ مَالِكٍ الْجَزَرِيُّ ثِقَةٌ

خزیمہ بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے لکڑبگھاکھانے کے بارے میں پوچھا،توآپ نے فرمایا:بھلاکوئی لکڑبگھاکھاتا ہے؟ میں نے آپ سے بھیڑیے کے بارے میں پوچھا،توآپ نے فرمایا: بھلا کوئی نیک آدمی بھیڑیا کھاتا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سندقوی نہیں ہے ہم اسے عبدالکریم ابی امیہ کے واسطہ سے صرف اسماعیل بن مسلم کی روایت سے جانتے ہیں،۲-بعض محدثین نے اسماعیل اورعبدالکریم ابی امیہ کے بارے میں کلام کیا ہے،(حدیث کی سند میں مذکور) یہ عبدالکریم،عبدالکریم بن قیس بن ابی المخارق ہیں،۳-اورعبدالکریم بن مالک جزری ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَا يَأْكُلْ أَحَدُكُمْ بِشِمَالِہِ وَلَا يَشْرَبْ بِشِمَالِہِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِہِ وَيَشْرَبُ بِشِمَالِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَحَفْصَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی مَالِكٌ وَابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرَوَی مَعْمَرٌ وَعُقَيْلٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرِوَايَةُ مَالِكٍ وَابْنُ عُيَيْنَةَ أَصَحُّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی نہ بائیں ہاتھ سے کھائے اورنہ بائیں ہاتھ سے پیئے،اس لیے کہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتاہے اوربائیں ہاتھ سے پیتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح مالک اورابن عیینہ نے بسندزہری عن ابی بکر بن عبیداللہ عن ابن عمر روایت کی ہے،معمراورعقیل نے اسے زہری سے،بسند سالم بن عبداللہعن ابن عمر روایت کی ہے،مالک اورابن عیینہ کی روایت زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں جابر،عمربن ابی سلمہ،سلمہ بن الاکوع،انس بن مالک اورحفصہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَأْكُلْ بِيَمِينِہِ وَلْيَشْرَبْ بِيَمِينِہِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْكُلُ بِشِمَالِہِ وَيَشْرَبُ بِشِمَالِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے اوردائیں ہاتھ سے پیئے،اس لیے کہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتاہے اوربائیں ہاتھ سے پیتاہے ۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَہْلٍ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَہْدِيٍّ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ أَكَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَحْمَ حُبَارَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ رَوَی عَنْہُ ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ وَيُقَالُ بُرَيْدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ سَفِينَةَ

سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حباری کا گوشت کھایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-ابراہیم بن عمربن سفینہ سے ابن ابی فدیک نے بھی روایت کی ہے،انہیں برید بن عمربن سفینہ بھی کہاگیاہے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْكُلُ الْقِثَّاءَ بِالرُّطَبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعِدٍ

عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺتازہ کھجورکے ساتھ ککڑی کھاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ہم اسے صرف ابراہیم بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَاضْرِبُوا الْہَامَ تُورَثُوا الْجِنَانَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشَ وَشُرَيْحِ بْنِ ہَانِئٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: سلام کو عام کرو اور اسے پھیلاؤ،کھانا کھلاؤ اور کافروں کا سرمارو(یعنی ان سے جہاد کرو)جنت کے وارث بن جاؤگے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ابوہریرہ کے واسطہ سے ابن زیاد کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو،ابن عمر،انس،عبداللہ بن سلام،عبدالرحمٰن بن عائش اورشریح بن ہانی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،شریح بن ہانی نے اپنے والد سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اعْبُدُوا الرَّحْمَنَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَأَفْشُوا السَّلَامَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رحمن کی عبادت کرو،کھاناکھلاؤ اورسلام کو عام کرواور اسے پھیلاؤ،جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوگے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الشَّيْطَانَ حَسَّاسٌ لَحَّاسٌ فَاحْذَرُوہُ عَلَی أَنْفُسِكُمْ مَنْ بَاتَ وَفِي يَدِہِ رِيحُ غَمَرٍ فَأَصَابَہُ شَيْءٌ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ حَدِيثِ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شیطان بہت تاڑ نے اور چاٹنے والاہے،اس سے خود کو بچاؤ،جو شخص رات گزارے اور اس کے ہاتھ میں چکنا ئی کی بوہو،پھر اسے کو ئی بلا پہنچے تو وہ صرف اپنے آپ کو برابھلاکہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-یہ حدیث عن سہیل بن ابی صالح عن ابیہ عن ابی ہریرۃ عن النبیﷺ کی سند سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ الْبَغْدَادِيُّ الصَّاغَانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِيُّ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ بَاتَ وَفِي يَدِہِ رِيحُ غَمَرٍ فَأَصَابَہُ شَيْءٌ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص رات گزارے اوراس کے ہاتھ میں چکنائی کی بوہو پھر اسے کوئی بلا پہنچے تو وہ صر ف اپنے آپ کو برابھلاکہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے اعمش کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنْ أُمِّہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنَّا نَنْبِذُ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فِي سِقَاءٍ تُوكَأُ فِي أَعْلَاہُ لَہُ عَزْلَاءُ نَنْبِذُہُ غُدْوَةً وَيَشْرَبُہُ عِشَاءً وَنَنْبِذُہُ عِشَاءً وَيَشْرَبُہُ غُدْوَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم لوگ رسول اللہﷺ کے لیے مشک میں نبیذ بناتے تھے،اس کے اوپر کا منہ بندکردیا جاتا تھا،اس کے نیچے ایک سوراخ ہوتا تھا،ہم صبح میں نبیذ کوبھگوتے تھے تو آپ شام کو پیتے تھے اور شام کو بھگوتے تھے توآپ صبح کو پیتے تھے ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے یونس بن عبید کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۳-اس باب میں جابر،ابوسعید اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیئے توبرتن میں سانس نہ چھوڑے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ قَالَ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِلَبَنٍ قَدْ شِيبَ بِمَاءٍ وَعَنْ يَمِينِہِ أَعْرَابِيٌّ وَعَنْ يَسَارِہِ أَبُو بَكْرٍ فَشَرِبَ ثُمَّ أَعْطَی الْأَعْرَابِيَّ وَقَالَ الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں دودھ پیش کیا گیا جس میں پانی ملا ہوا تھا،آپ کے دائیں طرف ایک اعرابی تھا اوربائیں ابوبکر رضی اللہ عنہ،آپ نے دودھ پیا،پھر (بچا ہوا دودھ) اعرابی کودیا اور فرمایا: دائیں طرف والا زیادہ مستحق ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،سہل بن سعد،ابن عمراورعبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ رِضَی الرَّبِّ فِي رِضَی الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَہَذَا أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَكَذَا رَوَی أَصْحَابُ شُعْبَةَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ غَيْرَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّی يَقُولُ مَا رَأَيْتُ بِالْبَصْرَةِ مِثْلَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ وَلَا بِالْكُوفَةِ مِثْلَ عَبْدِ اللہِ بْنِ إِدْرِيسَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ

عبداللہ عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: رب کی رضا والد کی رضامیں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ۔اس سند سے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے (موقوفاً) اسی جیسی حدیث مروی ہے۔شعبہ نے اس کو مرفوع نہیں کیا ہے اوریہ زیادہ صحیح ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-شعبہ کے شاگردوں نے اسی طرح عن شعبۃ،عن یعلی بن عطاء،عن أبیہ،عن عبد اللہ بن عمرو کی سند سے موقوفا روایت کی ہے،ہم خالدبن حارث کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں،جس نے شعبہ سے اس حدیث کو مرفوعا روایت کی ہو،۲-خالد بن حارث ثقہ ہیں،مامون ہیں،کہتے ہیں: میں نے بصرہ میں خالد بن حارث جیسااورکوفہ میں عبداللہ بن ادریس جیسا کسی کو نہیں دیکھا،۳-اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ رِضَی الرَّبِّ فِي رِضَی الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَہَذَا أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَكَذَا رَوَی أَصْحَابُ شُعْبَةَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ غَيْرَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّی يَقُولُ مَا رَأَيْتُ بِالْبَصْرَةِ مِثْلَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ وَلَا بِالْكُوفَةِ مِثْلَ عَبْدِ اللہِ بْنِ إِدْرِيسَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے ان کے پاس آکرکہا: میری ایک بیوی ہے،اورمیری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے،(میں کیا کروں؟) ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے،اگرتم چاہوتو اس دروازہ کو ضائع کردواورچاہو تو اس کی حفاظت کرو ۱؎۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی إن امی(میری ماں) کہا اور کبھی إن أب (میرا باپ) کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ النَّہْشَلِيِّ عَنْ مَرْزُوقٍ أَبِي بَكْرٍ التَّيْمِيِّ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيہِ رَدَّ اللہُ عَنْ وَجْہِہِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جوشخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجود گی میں) بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا الْغِيبَةُ قَالَ ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَہُ قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِيہِ مَا أَقُولُ قَالَ إِنْ كَانَ فِيہِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اغْتَبْتَہُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيہِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَہَتَّہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے کہا: اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس انداز سے اپنے بھائی کاتمہاراذکر کرنا جسے وہ ناپسندکرے،اس نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے اگروہ چیز اس میں موجودہو جسے میں بیان کررہاہوں؟ آپ نے فرمایا: جو تم بیان کررہے ہواگر وہ اس میں موجودہے تو تم نے اس کی غیبت(چغلی) کی،اورجوتم بیان کررہے ہو اگروہ اس میں موجود نہیں ہے توتم نے اس پر تہمت باندھی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبرزہ،ابن عمراورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّہُ لَيْسَ لِي مِنْ بَيْتِي إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ أَفَأُعْطِي قَالَ نَعَمْ وَلَا تُوكِي فَيُوكَی عَلَيْكِ يَقُولُ لَا تُحْصِي فَيُحْصَی عَلَيْكِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا عَنْ أَيُّوبَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ

اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے،کیا میں اس میں سے صدقہ وخیرات کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگادی جائے گی ۱؎۔لاَ تُوکِی فَیُوکَی عَلَیْکِ کا مطلب یہ ہے کہ شمارکرکے صدقہ نہ کروورنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کرے گا اوربرکت ختم کردے گا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض راویوں نے اس حدیث کو عن ابن أبی ملیکۃ،عن عباد بن عبداللہ بن زبیر،عن أسماء بنت أبی بکر رضی اللہ عنہما کی سند سے روایت کی ہے ۳؎،کئی لوگوں نے اس حدیث کی روایت ایوب سے کی ہے اوراس میں عبادبن عبیداللہ بن زبیر کا ذکر نہیں کیا،۳-اس باب میں عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنْ اللہِ قَرِيبٌ مِنْ الْجَنَّةِ قَرِيبٌ مِنْ النَّاسِ بَعِيدٌ مِنْ النَّارِ وَالْبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنْ اللہِ بَعِيدٌ مِنْ الْجَنَّةِ بَعِيدٌ مِنْ النَّاسِ قَرِيبٌ مِنْ النَّارِ وَلَجَاہِلٌ سَخِيٌّ أَحَبُّ إِلَی اللہِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَالِمٍ بَخِيلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَقَدْ خُولِفَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ إِنَّمَا يُرْوَی عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَائِشَةَ شَيْءٌ مُرْسَلٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سخی آدمی اللہ سے قریب ہے،جنت سے قریب ہے،لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دورہے،بخیل آدمی اللہ سے دورہے،جنت سے دورہے،لوگوں سے دورہے،اورجہنم سے قریب ہے،جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عابدسے کہیں زیادہ محبوب ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے عن یحیی بن سعید،عن الأعرج،عن أبی ہریرۃ کی سند سے صرف سعد بن محمد کی روایت سے جانتے ہیں،اور یحییٰ بن سعیدسے اس حدیث کی روایت کر نے میں سعید بن محمد کی مخالفت کی گئی ہے،(سعیدبن محمد نے تو اس سندسے روایت کی ہے جو اوپرمذکورہے) جب کہ یہ عن یحیی بن سعید عن عائشہ کی سند سے بھی مرسلاً مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّہُ قَالَ أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَسَمِعَتْہُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِہِ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَہُ جَائِزَتَہُ قَالُوا وَمَا جَائِزَتُہُ قَالَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَالضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَہُوَ صَدَقَةٌ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ یہ حدیث بیان فرمارہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اورکانوں نے آپ سے سنا،آپ نے فرمایا: جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتاہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے ،صحابہ نے عرض کیا،مہمان کی عزت وتکریم اورآؤ بھگت کیاہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ایک دن اورایک رات،اورمہمان نوازی تین دن تک ہے اورجو اس کے بعدہووہ صدقہ ہے،جوشخص اللہ اوریومِ آخرت پر ایمان رکھتاہو،وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الضِّيَافَةُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَجَائِزَتُہُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَمَا أُنْفِقَ عَلَيْہِ بَعْدَ ذَلِكَ فَہُوَ صَدَقَةٌ وَلَا يَحِلُّ لَہُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَہُ حَتَّی يُحْرِجَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَقَدْ رَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ ہُوَ الْكَعْبِيُّ وَہُوَ الْعَدَوِيُّ اسْمُہُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو وَمَعْنَی قَوْلِہِ لَا يَثْوِي عِنْدَہُ يَعْنِي الضَّيْفَ لَا يُقِيمُ عِنْدَہُ حَتَّی يَشْتَدَّ عَلَی صَاحِبِ الْمَنْزِلِ وَالْحَرَجُ ہُوَ الضِّيقُ إِنَّمَا قَوْلُہُ حَتَّی يُحْرِجَہُ يَقُولُ حَتَّی يُضَيِّقَ عَلَيْہِ

ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ضیافت (مہمان نوازی) تین دین تک ہے،اورمہمان کا عطیہ (یعنی اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کرنا) ایک دن اورایک رات تک ہے،اس کے بعد جو کچھ اس پر خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہے،مہمان کے لیے جائزنہیں کہ میزبان کے پاس (تین دن کے بعد بھی) ٹھہرارہے جس سے اپنے میز بان کو پریشانی و مشقت میں ڈال دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-مالک بن انس اورلیث بن سعد نے اس حدیث کی روایت سعید مقبری سے کی ہے،۳-ابوشریح خزاعی کی نسبت الکعبی اورالعدوی ہے،اور ان کانام خویلد بن عمرو ہے،۴-اس باب میں عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۵-لا یثوی عندہ کامطلب یہ ہے کہ مہمان گھر والے کے پاس ٹھہرانہ رہے تاکہ اس پر گراں گزرے،۶-الحرج کا معنی الضیق (تنگی ہے) اورحتی یحرجہ کا مطلب ہے یضیق علیہیہاں تک کہ وہ اسے پریشانی و مشقت میں ڈال دے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أُرَاہُ رَفَعَہُ قَالَ أَحْبِبْ حَبِيبَكَ ہَوْنًا مَا عَسَی أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْمًا مَا وَأَبْغِضْ بَغِيضَكَ ہَوْنًا مَا عَسَی أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْمًا مَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيث عَنْ أَيُّوبَ بِإِسْنَادٍ غَيْرِ ہَذَا رَوَاہُ الْحَسَنُ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ وَہُوَ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ أَيْضًا بِإِسْنَادٍ لَہُ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالصَّحِيحُ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفٌ قَوْلُہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے دوست سے اعتدال اورتوسط کے ساتھ دوستی رکھوشایدوہ کسی دن تمہارا دشمن ہوجائے اور اپنے دشمن سے اعتدال اور توسط کے ساتھ دشمنی کرو شاید وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-یہ حدیث ایوب کے واسطہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے،حسن بن ابی جعفرنے اپنی سندسے اس کی روایت کی ہے،جو علی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ تک پہنچتی ہے،یہ روایت بھی ضعیف ہے،اس روایت کے سلسلے میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ علی سے موقوفا مروی ہے اور یہ ان کا اپناقول ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ الرَّجُلُ أَمُرُّ بِہِ فَلَا يَقْرِينِي وَلَا يُضَيِّفُنِي فَيَمُرُّ بِي أَفَأُجْزِيہِ قَالَ لَا اقْرِہِ قَالَ وَرَآَّنِي رَثَّ الثِّيَابِ فَقَالَ ہَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ قُلْتُ مِنْ كُلِّ الْمَالِ قَدْ أَعْطَانِيَ اللہُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ قَالَ فَلْيُرَ عَلَيْكَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْأَحْوَصِ اسْمُہُ عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ نَضْلَةَ الْجُشَمِيُّ وَمَعْنَی قَوْلِہِ اقْرِہِ أَضِفْہُ وَالْقِرَی ہُوَ الضِّيَافَةُ

مالک بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! ایک ایساآدمی ہے جس کے پاس سے میں گزرتاہوں تو میری ضیافت نہیں کرتا اور وہ بھی کبھی کبھی میرے پاس سے گزرتا ہے،کیا میں اس سے بدلہ لوں؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: نہیں،(بلکہ) اس کی ضیافت کرو،آپ ﷺنے میرے بدن پر پرانے کپڑے دیکھے تو پوچھا،تمہارے پاس مال ودولت ہے؟ میں نے کہا: اللہ نے مجھے ہرقسم کا مال اونٹ اوربکری عطاء کی ہے،آپ نے فرمایا: تمہارے اوپراس ما ل کا اثر نظرآناچاہئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اقْرِہِ کامعنی ہے تم اس کی ضیافت کروقری ضیافت کو کہتے ہیں،۳-اس باب میں عائشہ،جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-ابوالاحوص کانام عوف بن مالک نضلہ جشمی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُمَيْعٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَكُونُوا إِمَّعَةً تَقُولُونَ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وَإِنْ أَسَاءُوا فَلَا تَظْلِمُوا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم لوگ ہر ایک کے پیچھے دوڑنے والانہ بنویعنی اگرلوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں گے توہم بھی بھلائی کریں گے اوراگرہمارے اوپر ظلم کریں گے توہم بھی ظلم کریں گے،بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو،اوراگربدسلوکی کریں توتم ظلم نہ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِمْرَانَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَرْجِسَ الْمُزَنِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ السَّمْتُ الْحَسَنُ وَالتُّؤَدَةُ وَالِاقْتِصَادُ جُزْءٌ مِنْ أَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِمْرَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَرْجِسَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَاصِمٍ وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ

عبداللہ بن سرجس مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اچھی خصلت،غوروخوص کرنا اورمیانہ روی نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،لیکن اس میں عاصمکے واسطہ کا ذکرنہیں کیا،نصربن علی کی روایت ہی صحیح ہے(جو اوپرمذکورہے)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِأَشَجِّ عَبْدِ الْقَيْسِ إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّہُمَا اللہُ الْحِلْمُ وَالْأَنَاةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ الْأَشَجِّ الْعَصَرِيِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے منذربن عائذ اشج عبدالقیس سے فرمایا: تمہارے اندر دوخصلتیں (خوبیاں)ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسندہیں: بردباری اور غوروفکرکی عادت ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں اشج عصری سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُہَيْمِنِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْأَنَاةُ مِنْ اللہِ وَالْعَجَلَةُ مِنْ الشَّيْطَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فِي عَبْدِ الْمُہَيْمِنِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلٍ وَضَعَّفَہُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَالْأَشَجُّ بْنُ عَبْدِ الْقَيْسِ اسْمُہُ الْمُنْذِرُ بْنُ عَائِذٍ

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سوچ سمجھ کر کام کرنا اور جلدبازی نہ کرنا اللہ کی طرف سے ہے اورجلدبازی شیطان کی طرف سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-بعض محدثین نے عبدالمہیمن بن عباس بن سہل کے بارے میں کلام کیاہے،اور حافظے کے تعلق سے انہیں ضعیف کہا ہے،۳-اشج بن عبدالقیس کا نام منذربن عائذہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا وُہَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَہْلِہَا فَمَا بَقِيَ فَہُوَ لِأَوْلَی رَجُلٍ ذَكَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ ابْنِ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اللہ کی جانب سے متعین میراث کے حصوں کو حصہ داروں تک پہنچادو،پھر اس کے بعد جو بچے وہ میت کے قریبی مرد رشتہ دار کا ہے۔اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض لوگوں نے یہ حدیث عن ابن طاؤس،عن أبیہ،عن النبی ﷺ کی سند سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ عَاہَرَ بِحُرَّةٍ أَوْ أَمَةٍ فَالْوَلَدُ وَلَدُ زِنَا لَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی غَيْرُ ابْنِ لَہِيعَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ وَلَدَ الزِّنَا لَا يَرِثُ مِنْ أَبِيہِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی آزاد عورت یاکسی لونڈی کے ساتھ زناکرے تو (اس سے پیدا ہونے والا) لڑکا ولدزنا ہوگا،نہ وہ (اس زانی کا) وارث ہوگا۔نہ زانی (اس کا) وارث ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن لہیعہ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی اس حدیث کوعمرو بن شعیب سے روایت کیا ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ ولد زنا اپنے باپ کا وارث نہیں ہوگا۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ مَرَضًا أَشْفَيْتُ مِنْہُ عَلَی الْمَوْتِ فَأَتَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعُودُنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّہِ قَالَ لَا قُلْتُ فَثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثُ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ إِنْ تَدَعْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَہُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ فِيہَا حَتَّی اللُّقْمَةَ تَرْفَعُہَا إِلَی فِي امْرَأَتِكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أُخَلَّفُ عَنْ ہِجْرَتِي قَالَ إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلًا تُرِيدُ بِہِ وَجْہَ اللہِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِہِ رِفْعَةً وَدَرَجَةً وَلَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّی يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ اللہُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي ہِجْرَتَہُمْ وَلَا تَرُدَّہُمْ عَلَی أَعْقَابِہِمْ لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ لَيْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ يُوصِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ وَقَدْ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمارپڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا،رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے،کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں،میں نے عرض کیا: دوتہائی مال کی؟ آپ نے فرمایا: نہیں،میں نے عرض کیا: آدھا مال کی؟ آپ ﷺنے کہا: نہیں،میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: ایک تہائی کی وصیت کرواور ایک تہائی بھی بہت ہے ۱؎،تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج وغریب چھوڑ کرجاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں،تم جو بھی خرچ کرتے ہواس پرتم کو ضرور اجر ملتاہے،یہاں تک کہ اس لقمہ پربھی جس کو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا؟آپ نے فرمایا: تم میرے بعد زندہ رہ کر اللہ کی رضامندی کی خاطر جوبھی عمل کروگے اس کی وجہ سے تمہارے درجات میں بلندی اور اضافہ ہوتاجائے گا،شاید کہ تم میرے بعد زندہ رہو یہاں تک کہ تم سے کچھ قومیں نفع اٹھائیں گی اور دوسری نقصان اٹھائیں گی ۲؎،(پھر آپ نے دعاکی) اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت برقرار رکھ اور ایڑیوں کے بل انہیں نہ لوٹا دنیا لیکن بیچارے سعد بن خولہ جن پر رسول اللہ ﷺ افسوس کرتے تھے،(ہجرت کے بعد) مکہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سعدبن ابی وقاص سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے،۳-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۴-اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنا آدمی کے لیے جائزنہیں ہے،۴-بعض اہل علم ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ وضاحت ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہواکہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے،اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے،اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا ہے،البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے،یہ بھی معلوم ہواکہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہترہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَبِيتُ لَيْلَتَيْنِ وَلَہُ مَا يُوصِي فِيہِ إِلَّا وَوَصِيَّتُہُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان کو یہ اس بات کاحق نہیں کہ وہ دو راتیں ایسی حالت میں گزارے کہ وہ کوئی وصیت کرنا چاہتاہو اور اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجو د نہ ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث عن الزہری،عن سالم،عن ابن عمر،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ قَال سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيہِ أَمْرٌ مُبْتَدَعٌ أَوْ مُبْتَدَأٌ أَوْ فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْہُ فَقَالَ فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْہُ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَةِ فَإِنَّہُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ الشَّقَاءِ فَإِنَّہُ يَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَأَنَسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جوعمل ہم کرتے ہیں اس کے بارے میں آپ کاکیا خیال ہے،وہ نیاشروع ہونے والا امر ہے یا ایسا امر ہے جس سے فراغت ہوچکی ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ابن خطاب! وہ ایسا امر ہے جس سے فراغت ہوچکی ہے،اور ہر آدمی کے لیے وہ امر آسان کردیاگیا ہے (جس کے لیے وہ پیدا کیاگیا ہے)،چنانچہ جو آدمی سعادت مندوں میں سے ہے وہ سعادت والا کام کرتاہے اور جو بدبختوں میں سے ہے وہ بدبختی والاکام کرتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،حذیفہ بن اسید،انس اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ وَوَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ إِذْ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا قَدْ عُلِمَ وَقَالَ وَكِيعٌ إِلَّا قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُہُ مِنْ النَّارِ وَمَقْعَدُہُ مِنْ الْجَنَّةِ قَالُوا أَفَلَا نَتَّكِلُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ لَا اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،آپ زمین کرید رہے تھے کہ اچانک آپ نے آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا پھر فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی ایسانہیں ہے جس کا حال معلوم نہ ہو،(وکیع کی روایت میں ہے:تم میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں جس کی جنت یاجہنم کی جگہ نہ لکھ دی گئی ہو)،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم لوگ (تقدیر کے لکھے ہوئے پر) بھروسہ نہ کرلیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں،تم لوگ عمل کرو اس لیے کہ ہرآدمی کے لیے وہ چیز آسان کردی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیاگیاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ وَسَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الضُّرَيْسِ عَنْ أَبِي مَوْدُودٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَسِيدٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَلْمَانَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ الضُّرَيْسِ وَأَبُو مَوْدُودٍ اثْنَانِ أَحَدُہُمَا يُقَالُ لَہُ فِضَّةُ وَہُوَ الَّذِي رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ اسْمُہُ فِضَّةُ بَصْرِيٌّ وَالْآخَرُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ أَحَدُہُمَا بَصْرِيٌّ وَالْآخَرُ مَدَنِيٌّ وَكَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ

سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دعاکے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے ۱؎ اور نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث سلمان کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابواسید سے بھی روایت ہے،۳-ہم اسے صرف یحییٰ بن ضریس کی روایت سے جانتے ہیں،۴-ابومودود دو راویوں کی کنیت ہے،ایک کو فضہ کہاجاتاہے،اور یہ وہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے،ان کا نام فضہ ہے اوردوسرے ابومودود کانام عبدالعزیز بن ابوسلیمان ہے،ان میں سے ایک بصرہ کے رہنے والے ہیں اور دوسرے مدینہ کے،دونوں ایک ہی دور میں تھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي قَبِيلٍ عَنْ شُفَيِّ بْنِ مَاتِعٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَفِي يَدِہِ كِتَابَانِ فَقَالَ أَتَدْرُونَ مَا ہَذَانِ الْكِتَابَانِ فَقُلْنَا لَا يَا رَسُولَ اللہِ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنَا فَقَالَ لِلَّذِي فِي يَدِہِ الْيُمْنَی ہَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيہِ أَسْمَاءُ أَہْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءُ آبَائِہِمْ وَقَبَائِلِہِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَی آخِرِہِمْ فَلَا يُزَادُ فِيہِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْہُمْ أَبَدًا ثُمَّ قَالَ لِلَّذِي فِي شِمَالِہِ ہَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيہِ أَسْمَاءُ أَہْلِ النَّارِ وَأَسْمَاءُ آبَائِہِمْ وَقَبَائِلِہِمْ ثُمَّ أُجْمِلَ عَلَی آخِرِہِمْ فَلَا يُزَادُ فِيہِمْ وَلَا يُنْقَصُ مِنْہُمْ أَبَدًا فَقَالَ أَصْحَابُہُ فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنْ كَانَ أَمْرٌ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ فَقَالَ سَدِّدُوا وَقَارِبُوا فَإِنَّ صَاحِبَ الْجَنَّةِ يُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ وَإِنَّ صَاحِبَ النَّارِ يُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ وَإِنْ عَمِلَ أَيَّ عَمَلٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِيَدَيْہِ فَنَبَذَہُمَا ثُمَّ قَالَ فَرَغَ رَبُّكُمْ مِنْ الْعِبَادِ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرٍ عَنْ أَبِي قَبِيلٍ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَأَبُو قَبِيلٍ اسْمُہُ حُيَيُّ بْنُ ہَانِئٍ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک بار) ہماری طرف نکلے اس وقت آپ کے ہاتھ میں دوکتابیں تھیں۔آپ نے پوچھا: تم لوگ جانتے ہویہ دونوں کتابیں کیاہیں؟ ہم لوگوں نے کہا: نہیں،سوائے اس کے کہ آپ ہمیں بتادیں۔داہنے ہاتھ والی کتاب کے بارے میں آپ نے فرمایا: یہ رب العالمین کی کتاب ہے،اس کے اندر جنتیوں،ان کے آباء واجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں،پھر آخر میں ان کا میزان ذکر کردیاگیاہے۔لہذا ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہوگا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہوگا،پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا:یہ رب العالمین کی کتاب ہے،اس کے اندر جہنمیوں،ان کے آباء واجداد اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور آخر میں ان کا میزان ذکرکردیاگیاہے،اب ان میں نہ تو کسی کا اضافہ ہوگا اور نہ ان میں سے کوئی کم ہوگا۔صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر عمل کس لیے کریں جب کہ اس معاملہ سے فراغت ہوچکی ہے؟ آپ نے فرمایا: سیدھی راہ پرچلو اور میانہ روی اختیار کرو،اس لیے کہ جنتی کا خاتمہ جنتی کے عمل پہ ہوگا،اگر چہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمی کے عمل پہ ہوگا اگر چہ اس سے پہلے وہ جو بھی عمل کرے،پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا،پھران دونوں کتابوں کو پھینک دیا اور فرمایا: تمہارا رب بندوں سے فارغ ہوچکا ہے،ایک فریق جنت میں جائے گا اور ایک فریق جہنم میں جائے گا۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَرَادَ اللہُ بِعَبْدٍ خَيْرًا اسْتَعْمَلَہُ فَقِيلَ كَيْفَ يَسْتَعْمِلُہُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ يُوَفِّقُہُ لِعَمَلٍ صَالِحٍ قَبْلَ الْمَوْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اس سے عمل کراتاہے،عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کیسے عمل کراتاہے؟ آپ نے فرمایا: موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ ذَكَرَ الْجَيْشَ الَّذِي يُخْسَفُ بِہِمْ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ لَعَلَّ فِيہِمْ الْمُكْرَہُ قَالَ إِنَّہُمْ يُبْعَثُونَ عَلَی نِيَّاتِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ نے اس لشکرکا ذکرکیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا،توام سلمہ نے عرض کیا: ہوسکتا ہے اس میں کچھ مجبورلوگ بھی ہوں،آپ نے فرمایا: وہ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،یہ حدیث عن نافع بن جبیر عن عائشۃ عن النبی ﷺ کی سند سے بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُصْعَبٍ أَبُو يَزِيدَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِہَادِ كَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ظالم بادشاہ کے سامنے حق کہنا سب سے بہتر جہاد ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا فَسَدَ أَہْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لَا يَضُرُّہُمْ مَنْ خَذَلَہُمْ حَتَّی تَقُومَ السَّاعَةُ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ ہُمْ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَوَالَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا بَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَيْنَ تَأْمُرُنِي قَالَ ہَا ہُنَا وَنَحَا بِيَدِہِ نَحْوَ الشَّامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

قرہ بن ایاس المزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب ملک شام والوں میں خرابی پیدا ہوجائے گی تو تم میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہے گی،میری امت کے ایک گروہ کوہمیشہ اللہ کی مدد سے حاصل رہے گی،اس کی مددنہ کرنے والے قیامت تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن حوالہ،ابن عمر،زیدبن ثابت اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-محمدبن اسماعیل بخاری نے کہاکہ علی بن مدینی نے کہا: ان سے مراد اہل حدیث ہیں۔معاویۃبن حیدۃ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کہاں جانے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے ملک شام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: وہاں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ أَحَدُہُمْ دِينَہُ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم لوگ نیک اعمال کی طرف جلدی کرو،ان فتنوں کے خوف سے جو سخت تاریک رات کی طرح ہیں جس میں آدمی صبح کے وقت مومن اورشام کے وقت کافرہوگا،شام کے وقت مومن اورصبح کے وقت کافرہوگا،دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ ہِنْدٍ بِنْتِ الْحَارِثِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَيْقَظَ لَيْلَةً فَقَالَ سُبْحَانَ اللہِ مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنْ الْفِتْنَةِ مَاذَا أُنْزِلَ مِنْ الْخَزَائِنِ مَنْ يُوقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ يَا رُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٌ فِي الْآخِرَةِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ ایک رات بیدارہوئے اورفرمایا: سبحان اللہ! آج کی رات کتنے فتنے اورکتنے خزانے نازل ہوئے! حجرہ والیوں(امہات المومنین) کوکوئی جگانے والاہے؟ سنو! دنیامیں کپڑا پہننے والی بہت سی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ تَكُونُ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ فِتَنٌ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيہَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ أَقْوَامٌ دِينَہُمْ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَجُنْدَبٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَأَبِي مُوسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت سے پہلے سخت تاریک رات کی طرح فتنے (ظاہر) ہوں گے،جن میں آدمی صبح کو مومن ہوگااورشام میں کافرہوجائے گا،شام میں مومن ہوگا اورصبح کو کافرہوجائے گا،دنیاوی سازو سامان کے بدلے کچھ لوگ اپنادین بیچ دیں گے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،جندب،نعمان بن بشیر اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ كَانَ يَقُولُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا وَيُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا قَالَ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُحَرِّمًا لِدَمِ أَخِيہِ وَعِرْضِہِ وَمَالِہِ وَيُمْسِي مُسْتَحِلًّا لَہُ وَيُمْسِي مُحَرِّمًا لِدَمِ أَخِيہِ وَعِرْضِہِ وَمَالِہِ وَيُصْبِحُ مُسْتَحِلًّا لَہُ

حسن بصری کہتے ہیں کہ اس حدیث صبح کو آدمی مومن ہوگا اورشام کو کافرہوجائے گا اورشام کو مومن ہوگا اورصبح کو کافرہوجائے گا،کا مطلب یہ ہے کہ آدمی صبح کو اپنے بھائی کی جان،عزت اورمال کو حرام سمجھے گا اورشام کو حلال سمجھے گا

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَرَجُلٌ سَأَلَہُ فَقَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَيْنَا أُمَرَاءُ يَمْنَعُونَا حَقَّنَا وَيَسْأَلُونَا حَقَّہُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا فَإِنَّمَا عَلَيْہِمْ مَا حُمِّلُوا وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا،اس وقت آپ سے ایک آدمی سوال کرتے ہوئے کہہ رہا تھا: آپ بتائیے اگرہمارے اوپرایسے حکام حکمرانی کریں جوہمارا حق نہ دیں اوراپنے حق کا مطالبہ کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کا حکم سنواوران کی اطاعت کرو،اس لیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کے جواب دہ ہیں اورتم اپنی ذمہ داریوں کے جواب دہ ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عُدَيْسَةَ بِنْتِ أُہْبَانَ بْنِ صَيْفِيٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَتْ جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ إِلَی أَبِي فَدَعَاہُ إِلَی الْخُرُوجِ مَعَہُ فَقَالَ لَہُ أَبِي إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ عَہِدَ إِلَيَّ إِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ أَنْ أَتَّخِذَ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ فَقَدْ اتَّخَذْتُہُ فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ بِہِ مَعَكَ قَالَتْ فَتَرَكَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدٍ

عدیسہ بنت اہبان غفاری کہتی ہیں کہ میرے والد کے پاس علی رضی اللہ عنہ آئے اوران کو اپنے ساتھ لڑائی کے لیے نکلنے کو کہا،ان سے میرے والد نے کہا: میرے دوست اورآپ کے چچازاد بھائی (رسول اللہﷺ) نے مجھے وصیت کی کہ جب لوگوں میں اختلاف ہوجائے تو میں لکڑی کی تلوار بنالوں،لہذا میں نے بنالی ہے،اگرآپ چاہیں تو اسے لے کر آپ کے ساتھ نکلوں،عدیسہ کہتی ہیں:چنانچہ علی نے میرے والد کو چھوڑدیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف عبداللہ بن عبیداللہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَرْوَانَ عَنْ ہُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ فِي الْفِتْنَةِ كَسِّرُوا فِيہَا قَسِيَّكُمْ وَقَطِّعُوا فِيہَا أَوْتَارَكُمْ وَالْزَمُوا فِيہَا أَجْوَافَ بُيُوتِكُمْ وَكُونُوا كَابْنِ آدَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَرْوَانَ ہُوَ أَبُو قَيْسٍ الْأَوْدِيُّ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فتنہ کے بارے میں فرمایا: اس وقت تم اپنی کمانیں توڑڈالو،کمانوں کی تانت کاٹ ڈالو،اپنے گھروں کے اندرچپکے بیٹھے رہواورآدم کے بیٹے (ہابیل) کے مانند ہوجائو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أَبِي الْہُذَيْلِ يَقُولُ كَانَ نَاسٌ مِنْ رَبِيعَةَ عِنْدَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ لَتَنْتَہِيَنَّ قُرَيْشٌ أَوْ لَيَجْعَلَنَّ اللہُ ہَذَا الْأَمْرَ فِي جُمْہُورٍ مِنْ الْعَرَبِ غَيْرِہِمْ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ كَذَبْتَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ قُرَيْشٌ وُلَاةُ النَّاسِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن ابی ہذیل کہتے ہیں: قبیلہ ربیعہ کے کچھ لوگ عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس تھے،قبیلہء بکربن وائل کے ایک آدمی نے کہا: قریش باز رہیں ۱؎،ورنہ اللہ تعالیٰ خلافت کو ان کے علاوہ جمہور عرب میں کردے گا،عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جھوٹ اور غلط کہہ رہے ہو،میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: قریش قیامت تک خیر(اسلام) وشر(جاہلیت)میں لوگوں کے حاکم ہیں ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،ابن عمراورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَةَ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَذْہَبُ الدُّنْيَا حَتَّی يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُہُ اسْمِي قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ میرے گھرانے کا ایک آدمی جومیرا ہم نام ہوگا عرب کا بادشاہ نہ بن جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوسعیدخدری،ام سلمہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَلِي رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَيْتِي يُوَاطِئُ اسْمُہُ اسْمِي قَالَ عَاصِمٌ وَأَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ لَوْ لَمْ يَبْقَ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا يَوْمٌ لَطَوَّلَ اللہُ ذَلِكَ الْيَوْمَ حَتَّی يَلِيَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے گھرانے کاایک آدمی جومیراہم نام ہوگا حکومت کرے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اگردنیا کا صرف ایک دن بھی باقی رہے تواللہ تعالیٰ اس دن کولمبا کردے گا یہاں تک کہ وہ آدمی حکومت کرلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُرَاقَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّہُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ بَعْدَ نُوحٍ إِلَّا قَدْ أَنْذَرَ الدَّجَّالَ قَوْمَہُ وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوہُ فَوَصَفَہُ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَعَلَّہُ سَيُدْرِكُہُ بَعْضُ مَنْ رَآنِي أَوْ سَمِعَ كَلَامِي قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ فَكَيْفَ قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ قَالَ مِثْلُہَا يَعْنِي الْيَوْمَ أَوْ خَيْرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جُزَيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ

ابوعبیدہ بن جرّا ح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: نوح علیہ السلام کے بعدکوئی نبی ایسانہیں ہے جس نے اپنی امت کودجال سے نہ ڈرایا ہواورمیں بھی تمہیں اس سے ڈرارہاہوں،پھررسول اللہﷺ نے ہم سے اس کا حال بیان کیا اورفرمایا: ہوسکتاہے مجھے دیکھنے والے یا میری بات سننے والے کچھ لوگ اسے پالیں،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس دن ہمارے دل کیسے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: آج کی طرح یااس سے بہتر۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ابوعبیدہ بن جراح کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن بُسر،عبداللہ بن حارث بن جزی،عبداللہ بن مغفل اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّكُمْ مَنْصُورُونَ وَمُصِيبُونَ وَمَفْتُوحٌ لَكُمْ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَتَّقِ اللہَ وَلْيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَلْيَنْہَ عَنْ الْمُنْكَرِ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: (دشمنوں پر) تمہاری مددکی جائے گی،تمہیں ما ل ودولت ملے گی اورتمہارے لیے قلعے کے دروازے کھولے جائیں گے،پس تم میں سے جوشخص ایسا وقت پائے اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے،بھلائی کا حکم دے اوربرائی سے روکے اورجوشخص مجھ پرجان بوجھ کر جھوٹ بولے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ الْكُوفِيِّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ شَاكِرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيہِمْ عَلَی دِينِہِ كَالْقَابِضِ عَلَی الْجَمْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَعُمَرُ بْنُ شَاكِرٍ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ قَدْ رَوَی عَنْہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسازمانہ آئے گاکہ ان میں اپنے دین پر صبرکر نے والا آدمی ایسا ہوگا جیسے ہاتھ میں چنگاری پکڑنے والا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-عمربن شاکرایک بصری شیخ ہیں،ان سے کئی اہل علم نے حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَقَفَ عَلَی أُنَاسٍ جُلُوسٍ فَقَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِكُمْ مِنْ شَرِّكُمْ قَالَ فَسَكَتُوا فَقَالَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ رَجُلٌ بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ أَخْبِرْنَا بِخَيْرِنَا مِنْ شَرِّنَا قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ يُرْجَی خَيْرُہُ وَيُؤْمَنُ شَرُّہُ وَشَرُّكُمْ مَنْ لَا يُرْجَی خَيْرُہُ وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہﷺ کچھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے پاس آکرٹھہرے اور فرمایا: کیا میں تمہارے اچھے لوگوں کو تمہارے برے لوگوں میں سے نہ بتادوں؟ لوگ خاموش رہے،آپ نے تین مرتبہ یہی فرمایا،ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ آپ ہمارے اچھے لوگوں کو برے لوگوں میں سے بتادیجئے،آپ نے فرمایا:تم میں بہتروہ ہے جس سے خیرکی امیدرکھی جائے اورجس کے شرسے مامون(بے خوف) رہاجائے اورتم میں سے براوہ ہے جس سے خیرکی امیدنہ رکھی جائے اورجس کے شرسے مامون(بے خوف) نہ رہا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ،عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ،عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ،قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: ((خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ،ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثَلَاثًا،ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ مِنْ بَعْدِہِمْ يَتَسَمَّنُونَ وَيُحِبُّونَ السِّمَنَ يُعْطُونَ الشَّہَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوہَا)): ((وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الأَعْمَشِ،عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ)) وَأَصْحَابُ الأَعْمَشِ إِنَّمَا رَوَوْا عَنِ الأَعْمَشِ،عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ،عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ،[ص:549] حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنِ الأَعْمَشِ قَالَ: حَدَّثَنَا ہِلَالُ بْنُ يَسَافٍ،عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ، وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ. وَمَعْنَی ہَذَا الحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ العِلْمِ يُعْطُونَ الشَّہَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوہَا إِنَّمَا يَعْنِي شَہَادَةَ الزُّورِ يَقُولُ: يَشْہَدُ أَحَدُہُمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُسْتَشْہَدَ،وَبَيَانُ ہَذَا فِي

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: سب سے اچھے لوگ میرے زمانہ کے ہیں (یعنی صحابہ)،پھروہ لوگ جو ان کے بعدآئیں گے(یعنی تابعین)،پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (یعنی اتباع تابعین) ۱؎،آپﷺنے یہ بات تین مرتبہ دہرائی،پھر ان کے بعدایسے لوگ آئیں گے جو موٹاہونا چاہیں گے،موٹاپاپسند کریں گے اورگواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دیں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اعمش کے واسطہ سے علی بن مدرک کی روایت سے غریب ہے،۲-اعمش کے دیگر شاگردوں نے عن الأعمش،عن ہلال بن یساف،عن عمران بن حصین کی سندسے روایت کی ہے۔اس سند سے بھی عمران بن حصین سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔اوریہ محمدبن فضیل کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: حدیث کے الفاظ یُعْطُونَ الشَّہَادَۃَ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلُوہَا سے جھوٹی گواہی مرادہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ان کاکہناہے کہ گواہی طلب کیے بغیروہ گواہی دیں گے۔

حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي،ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ،ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ،ثُمَّ يَفْشُو الكَذِبُ حَتَّی يَشْہَدَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَشْہَدُ،وَيَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ)) وَمَعْنَی حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ: خَيْرُ الشُّہَدَاءِ الَّذِي يَأْتِي بِشَہَادَتِہِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَہَا،ہُوَ عِنْدَنَا إِذَا أُشْہِدَ الرَّجُلُ عَلَی الشَّيْءِ أَنْ يُؤَدِّيَ شَہَادَتَہُ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الشَّہَادَةِ،ہَكَذَا وَجْہُ الحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ العِلْمِ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے اچھے اوربہترلوگ ہمارے زمانے والے ہیں،پھروہ لوگ جوان کے بعدہوں گے،پھروہ لوگ جو ان کے بعدہوں گے،پھرجھوٹ عام ہوجائے گا یہاں تک کہ آدمی گواہی طلب کیے بغیرگواہی دے گا،اورقسم کھلائے بغیر قسم کھائے گا۔ اورنبی اکرمﷺ کی وہ حدیث کہ سب سے بہترگواہ وہ ہے،جوگواہی طلب کیے بغیر گواہی دے تواس کا مفہوم ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب کسی سے کسی چیز کی گواہی(حق بات کی خاطر) دلوائی جائے تووہ گواہی دے،گواہی دینے سے بازنہ رہے،بعض اہل علم کے نزدیک دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عِيسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لَا يَرَی بِہَا بَأْسًا يَہْوِي بِہَا سَبْعِينَ خَرِيفًا فِي النَّارِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتاہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتاچلاجائے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِہِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ وَيْلٌ لَہُ وَيْلٌ لَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے: تباہی وبربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتاہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ قَالَ فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَسَاءَ عَمَلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اورعمل نیک ہو،اس آدمی نے پھر پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بدترشخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ

کعب بن عیاض رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا: ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیزمیں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس حدیث کو ہم معاویہ بن صالح کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ قَال سَمِعْتُ خَوْلَةَ بِنْتَ قَيْسٍ وَكَانَتْ تَحْتَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ ہَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ مَنْ أَصَابَہُ بِحَقِّہِ بُورِكَ لَہُ فِيہِ وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِيمَا شَاءَتْ بِہِ نَفْسُہُ مِنْ مَالِ اللہِ وَرَسُولِہِ لَيْسَ لَہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا النَّارُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْوَلِيدِ اسْمُہُ عُبَيْدُ سَنُوطَی

حمزہ بن عبدالمطلب کی بیوی خولہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے ۱؎ جس نے اسے حلال طریقے سے حاصل کیااس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور کتنے ایسے ہیں جواللہ اور اس کے رسول کے مال کو حرام وناجائزطریقہ سے حاصل کرنے والے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آ گ تیار ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ ہِلَالٍ الصَّوَّافُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لُعِنَ عَبْدُ الدِّينَارِ لُعِنَ عَبْدُ الدِّرْہَمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيث مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا أَتَمَّ مِنْ ہَذَا وَأَطْوَلَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:دینارکا بندہ ملعون ہے،درہم کا بندہ ملعون ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث اس سند کے علاوہ عن أبی صالح عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سندسے مروی ہے اوریہ بھی سند اس سے زیادہ مکمل اور طویل ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ وَأَبُو دَاوُدَ قَالَا حَدَّثَنَا زُہَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِي مُوسَی بْنُ وَرْدَانَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الرَّجُلُ عَلَی دِينِ خَلِيلِہِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی اپنے دوست کے دین پرہوتا ہے،اس لیے تم میں سے ہرشخص کویہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ شَيْبَانَ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ يُرَائِي يُرَائِي اللہُ بِہِ وَمَنْ يُسَمِّعْ يُسَمِّعْ اللہُ بِہِ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ لَا يَرْحَمْ النَّاسَ لَا يَرْحَمْہُ اللہُ وَفِي الْبَاب عَنْ جُنْدَبٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو ریاکاری کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے ظاہرکردے گا،اور جو اللہ کی عبادت شہرت کے لیے کرے گا تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے رسوا وذلیل کرے گا،فرمایا: جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں جندب اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ أَبُو عُثْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ حَدَّثَہُ أَنَّ شُفَيًّا الْأَصْبَحِيَّ حَدَّثَہُ أَنَّہُ دَخَلَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا ہُوَ بِرَجُلٍ قَدْ اجْتَمَعَ عَلَيْہِ النَّاسُ فَقَالَ مَنْ ہَذَا فَقَالُوا أَبُو ہُرَيْرَةَ فَدَنَوْتُ مِنْہُ حَتَّی قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْہِ وَہُوَ يُحَدِّثُ النَّاسَ فَلَمَّا سَكَتَ وَخَلَا قُلْتُ لَہُ أَنْشُدُكَ بِحَقٍّ وَبِحَقٍّ لَمَا حَدَّثْتَنِي حَدِيثًا سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَقَلْتَہُ وَعَلِمْتَہُ فَقَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَقَلْتُہُ وَعَلِمْتُہُ ثُمَّ نَشَغَ أَبُو ہُرَيْرَةَ نَشْغَةً فَمَكَثَ قَلِيلًا ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي ہَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُہُ ثُمَّ نَشَغَ أَبُو ہُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَی ثُمَّ أَفَاقَ فَمَسَحَ وَجْہَہُ فَقَالَ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنَا وَہُوَ فِي ہَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُہُ ثُمَّ نَشَغَ أَبُو ہُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَی ثُمَّ أَفَاقَ وَمَسَحَ وَجْہَہُ فَقَالَ أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنَا مَعَہُ فِي ہَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَہُ أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُہُ ثُمَّ نَشَغَ أَبُو ہُرَيْرَةَ نَشْغَةً شَدِيدَةً ثُمَّ مَالَ خَارًّا عَلَی وَجْہِہِ فَأَسْنَدْتُہُ عَلَيَّ طَوِيلًا ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ حَدَّثَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَّ اللہَ تَبَارَكَ وَتَعَالَی إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَنْزِلُ إِلَی الْعِبَادِ لِيَقْضِيَ بَيْنَہُمْ وَكُلُّ أُمَّةٍ جَاثِيَةٌ فَأَوَّلُ مَنْ يَدْعُو بِہِ رَجُلٌ جَمَعَ الْقُرْآنَ وَرَجُلٌ يَقْتَتِلُ فِي سَبِيلِ اللہِ وَرَجُلٌ كَثِيرُ الْمَالِ فَيَقُولُ اللہُ لِلْقَارِئِ أَلَمْ أُعَلِّمْكَ مَا أَنْزَلْتُ عَلَی رَسُولِي قَالَ بَلَی يَا رَبِّ قَالَ فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا عُلِّمْتَ قَالَ كُنْتُ أَقُومُ بِہِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّہَارِ فَيَقُولُ اللہُ لَہُ كَذَبْتَ وَتَقُولُ لَہُ الْمَلَائِكَةُ كَذَبْتَ وَيَقُولُ اللہُ بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ إِنَّ فُلَانًا قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ وَيُؤْتَی بِصَاحِبِ الْمَالِ فَيَقُولُ اللہُ لَہُ أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَيْكَ حَتَّی لَمْ أَدَعْكَ تَحْتَاجُ إِلَی أَحَدٍ قَالَ بَلَی يَا رَبِّ قَالَ فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا آتَيْتُكَ قَالَ كُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ وَأَتَصَدَّقُ فَيَقُولُ اللہُ لَہُ كَذَبْتَ وَتَقُولُ لَہُ الْمَلَائِكَةُ كَذَبْتَ وَيَقُولُ اللہُ تَعَالَی بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ فُلَانٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ وَيُؤْتَی بِالَّذِي قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللہِ فَيَقُولُ اللہُ لَہُ فِي مَاذَا قُتِلْتَ فَيَقُولُ أُمِرْتُ بِالْجِہَادِ فِي سَبِيلِكَ فَقَاتَلْتُ حَتَّی قُتِلْتُ فَيَقُولُ اللہُ تَعَالَی لَہُ كَذَبْتَ وَتَقُولُ لَہُ الْمَلَائِكَةُ كَذَبْتَ وَيَقُولُ اللہُ بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ فُلَانٌ جَرِيءٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی رُكْبَتِي فَقَالَ يَا أَبَا ہُرَيْرَةَ أُولَئِكَ الثَّلَاثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللہِ تُسَعَّرُ بِہِمْ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ و قَالَ الْوَلِيدُ أَبُو عُثْمَانَ فَأَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ أَنَّ شُفَيًّا ہُوَ الَّذِي دَخَلَ عَلَی مُعَاوِيَةَ فَأَخْبَرَہُ بِہَذَا قَالَ أَبُو عُثْمَانَ وَحَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ أَنَّہُ كَانَ سَيَّافًا لِمُعَاوِيَةَ فَدَخَلَ عَلَيْہِ رَجُلٌ فَأَخْبَرَہُ بِہَذَا عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ قَدْ فُعِلَ بِہَؤُلَاءِ ہَذَا فَكَيْفَ بِمَنْ بَقِيَ مِنْ النَّاسِ ثُمَّ بَكَی مُعَاوِيَةُ بُكَاءً شَدِيدًا حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ ہَالِكٌ وَقُلْنَا قَدْ جَاءَنَا ہَذَا الرَّجُلُ بِشَرٍّ ثُمَّ أَفَاقَ مُعَاوِيَةُ وَمَسَحَ عَنْ وَجْہِہِ وَقَالَ صَدَقَ اللہُ وَرَسُولُہُ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَہَا نُوَفِّ إِلَيْہِمْ أَعْمَالَہُمْ فِيہَا وَہُمْ فِيہَا لَا يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَہُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيہَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عقبہ بن مسلم سے شفیا اصبحی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ مدینہ میں داخل ہوئے،اچانک ایک آدمی کو دیکھا جس کے پاس کچھ لوگ جمع تھے،انہوں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواباً عرض کیا: یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں،شفیا اصبحی کا بیان ہے کہ میں ان کے قریب ہوا یہاں تک کہ ان کے سامنے بیٹھ گیا اور وہ لوگوں سے حدیث بیان کررہے تھے،جب وہ حدیث بیان کرچکے اور تنہا رہ گئے تو میں نے ان سے کہا: میں آپ سے اللہ کا باربار واسطہ دے کر پوچھ رہاہوں کہ آپ مجھ سے ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہو اور اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہو۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ٹھیک ہے،یقینا میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جسے مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے بیان کیاہے اورمیں نے اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہے۔پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے،تھوڑی دیر بعد جب افاقہ ہواتو فرمایا: یقینا میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے اسی گھر میں بیان کیاتھا جہاں میرے سواکوئی نہیں تھا،پھر دوبارہ ابوہریرہ نے چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے،پھر جب افاقہ ہواتو اپنے چہرے کو پونچھا اور فرمایا: ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے بیان کیا ہے اوراس گھر میں میرے اور آپ کے سواکوئی نہیں تھا،پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئے،اپنے چہرے کوپونچھااور پھر جب افاقہ ہواتو فرمایا:ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے بیان کیا ہے او ر اس گھر میں میرے اورآپ کے سوا کوئی نہیں تھا،پھر ابوہریرہ نے زو رکی چیخ ماری اور بے ہوش ہوکر منہ کے بل زمین پر گرپڑے،میں نے بڑی دیر تک انہیں اپناسہارا دیئے رکھا پھر جب افاقہ ہواتوفرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے: قیامت کے دن جب ہرامت گھٹنوں کے بل پڑی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزول فرمائے گا،پھر اس وقت فیصلہ کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو بلایا جائے گا جو قرآن کا حافظ ہوگا،دوسرا شہید ہوگا اور تیسرا مالدار ہوگا،اللہ تعالیٰ حافظ قرآن سے کہے گا:کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر نازل کردہ کتاب کی تعلیم نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا: یقینا اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو علم تجھے سکھایا گیا اس کے مطابق تونے کیاعمل کیا؟ وہ کہے گا: میں اس قرآن کے ذریعے راتوں دن تیری عبادت کرتاتھا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تونے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ تونے جھوٹ کہا،پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: (قرآن سیکھنے سے) تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں،سوتجھے کہاگیا،پھر صاحب مال کوپیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ا س سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے ہرچیز کی وسعت نہ دے رکھی تھی،یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھا؟ وہ عرض کرے گا: یقینا میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا:میں نے تجھے جوچیزیں دی تھیں اس میں کیاعمل کیا؟ وہ کہے گا: صلہ رحمی کرتاتھا اور صدقہ وخیرات کرتاتھا،اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے،پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بلکہ تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں سخی کہاجائے،سوتمہیں سخی کہاگیا،اس کے بعد شہید کو پیش کیاجائے گا،اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تجھے کس لیے قتل کیاگیا؟ وہ عرض کرے گا: مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیاگیا چنانچہ میں نے جہاد کیایہاں تک کہ شہید ہوگیا،اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: تونے جھوٹ کہا،فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے،پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے بہادر کہاجائے سوتجھے کہاگیا: پھر رسول اللہ ﷺ نے میرے زانو پر اپنا ہاتھ مارکرفرمایا: ابوہریرہ! یہی وہ پہلے تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑ کائی جائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ولید ابوعثمان کہتے ہیں: عقبہ بن مسلم نے مجھے خبردی کہ شفیا اصبحی ہی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر انہیں اس حدیث سے باخبر کیا تھا۔ابوعثمان کہتے ہیں: علاء بن ابی حکیم نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے جلاد تھے،پھرمعاویہ کے پاس ایک آدمی پہنچا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے اس حدیث سے انہیں باخبر کیا تو معاویہ نے کہا: ان تینوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا تو باقی لوگوں کے ساتھ کیاہوگا،یہ کہہ کر معاویہ زاروقطار رونے لگے یہاں تک کہ ہم نے سمجھاکہ وہ زندہ نہیں بچیں گے،اور ہم لوگوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ شخص شر لے کر آیاہے،پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو افاقہ ہواتو انہوں نے اپنے چہرے کو صاف کیا اور فرمایا: یقینا اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایاہے اور اس آیت کریمہ کی تلاوت کی مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ إِلَیْہِمْ أَعْمَالَہُمْ فِیہَا وَہُمْ فِیہَا لاَ یُبْخَسُونَ أُولَئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الآخِرَۃِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیہَا وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنِي الْمُحَارِبِيُّ عَنْ عَمَّارِ بْنِ سَيْفٍ الضَّبِّيِّ عَنْ أَبِي مُعَانٍ الْبَصْرِيِّ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَعَوَّذُوا بِاللہِ مِنْ جُبِّ الْحَزَنِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا جُبُّ الْحَزَنِ قَالَ وَادٍ فِي جَہَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْہُ جَہَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ وَمَنْ يَدْخُلُہُ قَالَ الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُونَ بِأَعْمَالِہِمْ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جُب حزن (غم کی وادی) سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جُب حزن کیاچیز ہے؟ آپ نے فرمایا: جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہرروز سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے،پھر صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس میں کون لوگ داخل ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ریاکار قراء (اس میں داخل ہوں گے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْكُمْ مِنْ رَجُلٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُہُ رَبُّہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَيْسَ بَيْنَہُ وَبَيْنَہُ تُرْجُمَانٌ فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْہُ فَلَا يَرَی شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَہُ ثُمَّ يَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْہُ فَلَا يَرَی شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَہُ ثُمَّ يَنْظُرُ تِلْقَاءَ وَجْہِہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقِيَ وَجْہَہُ حَرَّ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ يَوْمًا بِہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ الْأَعْمَشِ فَلَمَّا فَرَغَ وَكِيعٌ مِنْ ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ مَنْ كَانَ ہَا ہُنَا مِنْ أَہْلِ خُرَاسَانَ فَلْيَحْتَسِبْ فِي إِظْہَارِ ہَذَا الْحَدِيثِ بِخُرَاسَانَ لِأَنَّ الْجَہْمِيَّةَ يُنْكِرُونَ ہَذَا اسْمُ أَبِي السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمِ بْنِ خَالِدِ بْنِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ الْكُوفِيُّ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اوردونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا،وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تواسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی،پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی،پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تواسے ایسا کرنا چاہیے،اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ا بوسائب کہتے ہیں: ایک دن اس حدیث کو ہم سے وکیع نے اعمش کے واسطہ سے بیان کیا پھر جب وکیع یہ حدیث بیان کرکے فارغ ہوئے تو کہا: اہل خراسان میں سے جوبھی یہاں موجود ہوں انہیں چاہیے کہ وہ اس حدیث کو خراسان میں بیان کرکے اور اسے پھیلاکرثواب حاصل کریں۔ امام ترمذ ی کہتے ہیں کہ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کیوں کہ جہمیہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۲؎۔ ابوسائب کانام سلمہ بن جنادہ بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرہ کوفی ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ نُمَيْرٍ أَبُو مِحْصَنٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ الرَّحَبِيُّ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہِ حَتَّی يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمُرِہِ فِيمَ أَفْنَاہُ وَعَنْ شَبَابِہِ فِيمَ أَبْلَاہُ وَمَالِہِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَہُ وَفِيمَ أَنْفَقَہُ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آدمی کاپاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا،اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا،اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پرکہاں تک عمل کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اسے ہم عن ابن مسعود عن النبی ﷺ کی سند سے صرف حسین بن قیس ہی کی روایت سے جانتے ہیں اورحسین بن قیس اپنے حفظ کے قبیل سے ضعیف ہیں،۳-اس باب میں ابوبرزہ اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّی يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِہِ فِيمَا أَفْنَاہُ وَعَنْ عِلْمِہِ فِيمَ فَعَلَ وَعَنْ مَالِہِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَہُ وَفِيمَ أَنْفَقَہُ وَعَنْ جِسْمِہِ فِيمَ أَبْلَاہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ جُرَيْجٍ ہُوَ بَصْرِيٌّ وَہُوَ مَوْلَی أَبِي بَرْزَةَ وَأَبُو بَرْزَةَ اسْمُہُ نَضْلَةُ بْنُ عُبَيْدٍ

ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیاجائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا،اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا،اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سعید بن عبداللہ بن جریج بصری ہیں اور وہ ابوبرزہ کے آزاد کردہ غلام ہیں،ابوبرزہ کانام نضلہ بن عبید ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ شِعَارُ الْمُؤْمِنِ عَلَی الصِّرَاطِ رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پل صراط پر مومن کا شعار یہ ہوگا: میرے رب! مجھے سلامت رکھ،مجھے سلامت رکھ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث مغیرہ بن شعبہ کی روایت سے غریب ہے،اسے ہم صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق (واسطی ہی) کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْہَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيُّ أَبُو الْخَطَّابِ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَنْ يَشْفَعَ لِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَ أَنَا فَاعِلٌ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ فَأَيْنَ أَطْلُبُكَ قَالَ اطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَی الصِّرَاطِ قَالَ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عَلَی الصِّرَاطِ قَالَ فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيزَانِ قُلْتُ فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانِ قَالَ فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ فَإِنِّي لَا أُخْطِئُ ہَذِہِ الثَّلَاثَ الْمَوَاطِنَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ قیامت کے دن میرے لیے شفاعت فرمائیں،آپ نے فرمایا: ضرور کروں گا۔میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟آپ نے فرمایا: سب سے پہلے مجھے پل صراط پر ڈھونڈھنا،میں نے عرض کیا: اگرپل صراط پر آپ سے ملاقات نہ ہوسکے،تو فرمایا: تو اس کے بعد میزان کے پاس ڈھونڈھنا،میں نے کہا: اگر میزان کے پاس بھی ملاقات نہ ہوسکے تو؟ فرمایا: اس کے بعد حوض کوثر پر ڈھونڈھنا،اس لیے کہ میں ان تین جگہوں میں سے کسی جگہ پر ضرور ملوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ سَلْمَانَ أَبُو عُمَرَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ شِرَّةً وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةً فَإِنْ كَانَ صَاحِبُہَا سَدَّدَ وَقَارَبَ فَارْجُوہُ وَإِنْ أُشِيرَ إِلَيْہِ بِالْأَصَابِعِ فَلَا تَعُدُّوہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنْ الشَّرِّ أَنْ يُشَارَ إِلَيْہِ بِالْأَصَابِعِ فِي دِينٍ أَوْ دُنْيَا إِلَّا مَنْ عَصَمَہُ اللہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہرچیز کی ایک حرص ونشاط ہوتی ہے،اور ہر حرص ونشاط کی ایک کمزوری ہوتی ہے،تو اگر اس کا اپنانے والا معتدل مناسب رفتارچلا اور حق کے قریب ہوتا رہا تو اس کی بہتری کی امید رکھو،اور اگراس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیاجائے تو اسے کچھ شمار میں نہ لاؤ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آدمی کے بگاڑ کے لیے اتناہی کافی ہے کہ اس کے دین یا دنیا کے بارے میں اس کی طرف انگلیاں اٹھائی جائیں،مگر جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ أَبَانَ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُرَّةَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اسْتَحْيُوا مِنْ اللہِ حَقَّ الْحَيَاءِ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا نَسْتَحْيِي وَالْحَمْدُ لِلَّہِ قَالَ لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنْ اللہِ حَقَّ الْحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَی وَالْبَطْنَ وَمَا حَوَی وَلْتَذْكُرْ الْمَوْتَ وَالْبِلَی وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ اسْتَحْيَا مِنْ اللہِ حَقَّ الْحَيَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبَانَ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الصَّبَّاحِ بْنِ مُحَمَّدٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کرو جیساکہ اس سے شرم وحیا کرنے کا حق ہے ۱؎،ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاکرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر اداکرتے ہیں،آپ نے فرمایا: حیا کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے،اللہ سے شرم و حیا کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ۲؎،اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ۳؎،اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑجانے کو یاد کیاکرو،اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب وزینت کوترک کردے پس جس نے یہ سب پورا کیا توحقیقت میں ا سی نے اللہ تعالیٰ سے حیا کی جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے۔۲-اس حدیث کو اس سند سے ہم صرف ابان بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں،اور انہوں نے صباح بن محمد سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْنٍ الْمَدَنِيُّ الْغِفَارِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ بِمَنْزِلَةِ الصَّائِمِ الصَّابِرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کھانا کھاکر اللہ کا شکر ادا کرنے والا (اجروثواب میں) صبر کرنے والے صائم کے برابر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّہَا مِائَةَ سَنَةٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایسے درخت ہیں کہ سوار ان کے سایہ میں سوبرس تک چلتا رہے (پھربھی اس کاسایہ ختم نہ ہوگا)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں انس اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ شَيْبَانَ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّہَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُہَا وَقَالَ ذَلِكَ الظِّلُّ الْمَمْدُودُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مَنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایسے درخت ہیں کہ سوار ان کے سایہ میں سوبرس تک چلتا رہے پھر بھی ان کا سایہ ختم نہ ہوگا،نیز آپ نے فرمایا: یہی ظل ممدود ہے(یعنی جس کا ذکر قرآن میں ہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ الْفُرَاتِ الْقَزَّازُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ إِلَّا وَسَاقُہَا مِنْ ذَہَبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جنت میں کوئی درخت ایسا نہیں ہے جس کا تنا سونے کانہ ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا الْكَوْثَرُ قَالَ ذَاكَ نَہْرٌ أَعْطَانِيہِ اللہُ يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنْ الْعَسَلِ فِيہَا طَيْرٌ أَعْنَاقُہَا كَأَعْنَاقِ الْجُزُرِ قَالَ عُمَرُ إِنَّ ہَذِہِ لَنَاعِمَةٌ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَكَلَتُہَا أَحْسَنُ مِنْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ ہُوَ ابْنُ أَخِي ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِيِّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مُسْلِمٍ قَدْ رَوَی عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھاگیا: کوثر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ ایک نہر ہے اللہ نے ہمیں جنت کے اندر دی ہے،یہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے،اس میں ایسے پرندے ہیں جن کی گردنیں اونٹ کی گردنوں کی طرح ہیں،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تو واقعی نعمت میں ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:انہیں کھانے والے ان سے زیادہ نعمت میں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-محمد بن عبداللہ بن مسلم،یہ ابن شہاب زہری کے بھتیجے ہیں،۳-عبداللہ بن مسلم نے ابن عمر اور انس بن مالک سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يَقُولُ لِأَہْلِ الْجَنَّةِ يَا أَہْلَ الْجَنَّةِ فَيَقُولُونَ لَبَّيْكَ رَبَّنَا وَسَعْدَيْكَ فَيَقُولُ ہَلْ رَضِيتُمْ فَيَقُولُونَ مَا لَنَا لَا نَرْضَی وَقَدْ أَعْطَيْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ فَيَقُولُ أَنَا أُعْطِيكُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالُوا أَيُّ شَيْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِكَ قَالَ أُحِلُّ عَلَيْكُمْ رِضْوَانِي فَلَا أَسْخَطُ عَلَيْكُمْ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جنت والوں سے کہے گا: اے جنت والو! وہ کہیں گے: لبیک اور سعدیک اے ہمارے رب! اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کیاتم راضی ہوگئے؟ وہ کہیں گے:ہم کیوں نہیں راضی ہوں گے جب کہ تونے ہمیں ان نعمتوں سے نوازا ہے جو تونے اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہیں،اللہ تعالیٰ کہے گا: میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بہترچیزدوں گا۔وہ پوچھیں گے: اس سے بہترکون سی چیز ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمہارے اوپر اپنی رضامندی نازل کروں گا اور تم سے کبھی نہیں ناراض ہوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ وَثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ حُفَّتْ الْجَنَّةُ بِالْمَكَارِہِ وَحُفَّتْ النَّارُ بِالشَّہَوَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی ہے اورجہنم شہوتوں سے گھری ہوئی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ لَمَّا خَلَقَ اللہُ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ أَرْسَلَ جِبْرِيلَ إِلَی الْجَنَّةِ فَقَالَ انْظُرْ إِلَيْہَا وَإِلَی مَا أَعْدَدْتُ لِأَہْلِہَا فِيہَا قَالَ فَجَاءَہَا وَنَظَرَ إِلَيْہَا وَإِلَی مَا أَعَدَّ اللہُ لِأَہْلِہَا فِيہَا قَالَ فَرَجَعَ إِلَيْہِ قَالَ فَوَعِزَّتِكَ لَا يَسْمَعُ بِہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَہَا فَأَمَرَ بِہَا فَحُفَّتْ بِالْمَكَارِہِ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَيْہَا فَانْظُرْ إِلَی مَا أَعْدَدْتُ لِأَہْلِہَا فِيہَا قَالَ فَرَجَعَ إِلَيْہَا فَإِذَا ہِيَ قَدْ حُفَّتْ بِالْمَكَارِہِ فَرَجَعَ إِلَيْہِ فَقَالَ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خِفْتُ أَنْ لَا يَدْخُلَہَا أَحَدٌ قَالَ اذْہَبْ إِلَی النَّارِ فَانْظُرْ إِلَيْہَا وَإِلَی مَا أَعْدَدْتُ لِأَہْلِہَا فِيہَا فَإِذَا ہِيَ يَرْكَبُ بَعْضُہَا بَعْضًا فَرَجَعَ إِلَيْہِ فَقَالَ وَعِزَّتِكَ لَا يَسْمَعُ بِہَا أَحَدٌ فَيَدْخُلَہَا فَأَمَرَ بِہَا فَحُفَّتْ بِالشَّہَوَاتِ فَقَالَ ارْجِعْ إِلَيْہَا فَرَجَعَ إِلَيْہَا فَقَالَ وَعِزَّتِكَ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ لَا يَنْجُوَ مِنْہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ جنت اور جہنم کو پیدا کرچکا تو جبرئیل کو جنت کی طرف بھیجا اور کہا:جنت اور اس میں جنتیوں کے لیے جو کچھ ہم نے تیار کررکھا ہے،اسے جاکر دیکھو،آپ نے فرمایا: وہ آئے اورجنت کو اور جنتیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جوتیار کررکھا ہے اسے دیکھا: آپ نے فرمایا: پھر اللہ کے پاس واپس گئے اور عرض کیا: تیری عزت کی قسم! جوبھی اس کے بارے میں سن لے اس میں ضرور داخل ہوگا،پھر اللہ نے حکم دیا تو وہ ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھیر دی گئی،اور اللہ نے کہا: اس کی طرف دوبارہ جاؤ اور اس میں جنتیوں کے لیے ہم نے جوتیار کیا ہے اسے دیکھو۔آپ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام جنت کی طرف دوبارہ گئے تو وہ ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھری ہوئی تھی چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لوٹ کر آئے اور عرض کیا؛ مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی داخل ہی نہیں ہوگا،اللہ نے کہا: جہنم کی طرف جاؤ اور جہنم کو اور جو کچھ جہنمیوں کے لیے میں نے تیار کیاہے اسے جاکردیکھو،(انہوں نے دیکھا کہ) اس کا ایک حصہ دوسرے پر چڑھ رہاہے،وہ اللہ کے پاس آئے اور عرض کیا: تیری عزت کی قسم! اس کے بارے میں جو بھی سن لے اس میں د اخل نہیں ہوگا۔پھر اللہ نے حکم دیا تو وہ شہوات سے گھیر دی گئی۔اللہ تعالیٰ نے کہا: اس کی طرف دوبارہ جاؤ،وہ اس کی طرف دوبارہ گئے اور (واپس آکر) عرض کیا: تیری عزت کی قسم! مجھے ڈرہے کہ اس سے کوئی نجات نہیں پائے گا بلکہ اس میں داخل ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَمُجْتَمَعًا لِلْحُورِ الْعِينِ يُرَفِّعْنَ بِأَصْوَاتٍ لَمْ يَسْمَعْ الْخَلَائِقُ مِثْلَہَا قَالَ يَقُلْنَ نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَا نَبِيدُ وَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَا نَبْؤُسُ وَنَحْنُ الرَّاضِيَاتُ فَلَا نَسْخَطُ طُوبَی لِمَنْ كَانَ لَنَا وَكُنَّا لَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثِ عَلِيٍّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں حورعین کے لیے ایکمحفل ہوگی اس میں وہ اپنا نغمہ ایسا بلندکرے گا کہ مخلوق نے کبھی اس جیسی آواز نہیں سنی ہوگی،آپ نے فرمایا: وہ کہیں گی: ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی فنا نہیں ہوں گی،ہم ناز ونعمت والی ہیں کبھی محتاج نہیں ہوں گی،ہم خوش رہنے والی ہیں کبھی ناراض نہیں ہوں گی،اس کے لیے خوش خبری اور مبارک ہو اس کے لیے جو ہمارے لیے ہے اور ہم اس کے لیے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی کی حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابوسعیدخدری اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فِي قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ فَہُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ قَالَ السَّمَّاعُ وَمَعْنَی السَّمَّاعِ مِثْلَ مَا وَرَدَ فِي الْحَدِيثِ أَنَّ الْحُورَ الْعِينَ يُرَفِّعْنَ بِأَصْوَاتِہِنَّ

یحیی بن ابی کثیر آیت کریمہ:فَہُمْ فِی رَوْضَۃٍ یُحْبَرُونَ (وہ جنت میں خوش کردیئے جائیں گے) کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد سماع ہے اور سماع کامفہوم وہی ہے جو حدیث میں آیا ہے کہ حورعین اپنے نغمے کی آواز بلند کریں گی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ نِصْفَ النَّہَارِ قُلْنَا مَا بَعَثَ إِلَيْہِ فِي ہَذِہِ السَّاعَةِ إِلَّا لِشَيْءٍ سَأَلَہُ عَنْہُ فَسَأَلْنَاہُ فَقَالَ نَعَمْ سَأَلَنَا عَنْ أَشْيَاءَ سَمِعْنَاہَا مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ نَضَّرَ اللہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَہُ حَتَّی يُبَلِّغَہُ غَيْرَہُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلَی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ لَيْسَ بِفَقِيہٍ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دوپہر کے وقت مروان کے پاس سے نکلے (لوٹے)،ہم نے کہا:مروان کوان سے کوئی چیز پوچھنا ہوگی تبھی ان کو اس وقت بلابھیجا ہوگا،پھر ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہاں،انہوں نے ہم سے کئی چیزیں پوچھیں جسے ہم نے رسول اللہﷺ سے سنا تھا۔میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جومجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچادے،کیوں کہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچادیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اورعقلمند ہوتے ہیں۔اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تورکھتے ہیں،لیکن فقیہہ نہیں ہوتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-زید بن ثابت کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،معاذ بن جبل،جبیر بن مطعم،ابوالدرداء اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ نَضَّرَ اللہُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَہُ كَمَا سَمِعَ فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَی مِنْ سَامِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: اللہ اس شخص کو تروتازہ (اور خوش) رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی پھر اس نے اسے جیسا کچھ مجھ سے سنا تھا ہوبہو دوسروں تک پہنچادیا کیوں کہ بہت سے لوگ جنہیں بات (حدیث) پہنچائی جائے پہنچانے والے سے کہیں زیادہ بات کو توجہ سے سننے اور محفوظ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کو عبدالملک بن عمیر نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نَضَّرَ اللہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاہَا وَحَفِظَہَا وَبَلَّغَہَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلَی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ عَلَيْہِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّہِ وَمُنَاصَحَةُ أَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَلُزُومُ جَمَاعَتِہِمْ فَإِنَّ الدَّعْوَةَ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِہِمْ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری بات کو سنے اور توجہ سے سنے،اسے محفوظ رکھے اور دوسروں تک پہنچائے،کیوں کہ بہت سے علم کی سمجھ رکھنے والے علم کو اس تک پہنچادیتے ہیں جو ان سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔تین چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان کا دل دھوکہ نہیں کھاسکتا،(۱) عمل خالص اللہ کے لیے (۲) مسلمانوں کے ائمہ کے ساتھ خیر خواہی (۳) اور مسلمانوں کی جماعت سے جڑ کر رہنا،کیوں کہ دعوت ان کا چاروں طرف سے احاطہ کرتی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ وَغَيْرِہِ رَفَعَہُ قَالَ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَی أَرِيكَتِہِ يَأْتِيہِ أَمْرٌ مِمَّا أَمَرْتُ بِہِ أَوْ نَہَيْتُ عَنْہُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللہِ اتَّبَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَكَانَ ابْنُ عُيَيْنَةَ إِذَا رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَلَی الِانْفِرَادِ بَيَّنَ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ مِنْ حَدِيثِ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ وَإِذَا جَمَعَہُمَا رَوَی ہَكَذَا وَأَبُو رَافِعٍ مَوْلَی النَّبِيِّ ﷺ اسْمُہُ أَسْلَمُ

ابورافع رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پرٹیک لگائے ہواور اس کے پاس میرے امر یا نہی کی قسم کا کوئی حکم پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں کچھ نہیں جانتا،ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض راویوں نے سفیان سے،سفیان نے ابن منکدر سے اور ابن منکدر نے نبی اکرم ﷺ سے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے۔اور بعض نے یہ حدیث سالم ابوالنضر سے،سالم نے عبید اللہ بن ابورافع سے،عبیداللہ نے اپنے والد ابورافع سے اور ابورافع نے نبی اکرم ﷺسے روایت کی ہے۔۳-ابن عیینہ جب اس حدیث کو علیحدہ بیان کرتے تھے تو محمد بن منکدر کی حدیث کو سالم بن نضر کی حدیث سے جداجدا بیان کرتے تھے اور جب دونوں حدیثوں کو جمع کردیتے تو اسی طرح روایت کرتے (جیسا کہ اس حدیث میں ہے)۔۴-ابورافع نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کانام اسلم ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ جَابِرٍ اللَّخْمِيِّ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَا ہَلْ عَسَی رَجُلٌ يَبْلُغُہُ الْحَدِيثُ عَنِّي وَہُوَ مُتَّكِئٌ عَلَی أَرِيكَتِہِ فَيَقُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللہِ فَمَا وَجَدْنَا فِيہِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاہُ وَمَا وَجَدْنَا فِيہِ حَرَامًا حَرَّمْنَاہُ وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَمَا حَرَّمَ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اوروہ کہے:ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصلے کی چیز) بس اللہ کی کتاب ہے۔اس میں جوچیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے،اور اس میں جوچیز حرام پائیں گے بس اسی کوہم حرام جانیں گے،یاد رکھو! بلاشک وشبہ رسول اللہ ﷺ نے جو چیز حرام قراردے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحَرِيرِيُّ الْبَلْخِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيِّ عَنْ عَوْفٍ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ عَشْرٌ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ عِشْرُونَ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ثَلَاثُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَسَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہا: السلام علیکم نبی اکرمﷺ نے فرمایا: (اس کے لیے) دس نیکیاں ہیں،پھر ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (اس کے لیے) بیس نیکیاں ہیں،پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (اس کے لیے) تیس نیکیاں ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں علی،ابوسعید اور سہل بن حنیف سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَہَا إِنَّ جِبْرِيلَ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ قَالَتْ وَعَلَيْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُہُ وَفِي الْبَاب عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي نُمَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ الزُّہْرِيُّ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: جبرئیل تمہیں سلام کہتے ہیں،توانہوں نے جواب میں کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ان پربھی سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں بنی نمیر کے ایک شخص سے بھی روایت ہے وہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں،۳-زہری نے بھی یہ حدیث ابوسلمہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ بَغْدَادِيٌّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَكَرِيَّا عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ السَّلَامُ قَبْلَ الْكَلَامِ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَدْعُوا أَحَدًا إِلَی الطَّعَامِ حَتَّی يُسَلِّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ ذَاہِبٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ زَاذَانَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بات چیت شروع کرنے سے پہلے سلام کیاکرو۔اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی کو کھانے پر نہ بلاؤ جب تک کہ وہ سلام نہ کرلے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث منکر ہے ہم اس حدیث کو اس سند کے سوا کسی اور سند سے نہیں جانتے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سناہے کہ عنبسہ بن عبدالرحمٰن حدیث بیان کرنے میں ضعیف اور بہکنے والے،اور محمد بن زاذان منکرالحدیث ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا أَرَادَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ أَنْ يَكْتُبَ إِلَی الْعَجَمِ قِيلَ لَہُ إِنَّ الْعَجَمَ لَا يَقْبَلُونَ إِلَّا كِتَابًا عَلَيْہِ خَاتَمٌ فَاصْطَنَعَ خَاتَمًا قَالَ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی بَيَاضِہِ فِي كَفِّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے جب عجمی (بادشاہوں) کوخطوط بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو آپ کو بتایاگیا کہ عجمی بغیر مہر لگاہوا خط قبول نہیں کرتے چنانچہ آپ نے (مہر کے لیے) ایک انگوٹھی بنوائی،گویا کہ میں آپ کی ہتھیلی میں اس کی چمک کو اس وقت دیکھ رہاہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَكِيمِ بْنِ دَيْلَمَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ كَانَ الْيَہُودُ يَتَعَاطَسُونَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ يَرْجُونَ أَنْ يَقُولَ لَہُمْ يَرْحَمُكُمْ اللہُ فَيَقُولُ يَہْدِيكُمُ اللہُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ وَسَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہود نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے تو یہ امید لگاکرچھینکتے کہ آپ ﷺان کے لیے یرحمکم اللہ (اللہ تم پر رحم کرے) کہیں گے۔مگر آپ (اس موقع پرصرف) یہدیکم اللہ ویصلح بالکم (اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کردے) فرماتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوایوب،سالم بن عبید،عبداللہ بن جعفر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّہُ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ فِي سَفَرٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَقَالَ عَلَيْكَ وَعَلَی أُمِّكَ فَكَأَنَّ الرَّجُلَ وَجَدَ فِي نَفْسِہِ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْ إِلَّا مَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْكَ وَعَلَی أُمِّكَ إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلْيَقُلْ لَہُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْہِ يَرْحَمُكَ اللہُ وَلْيَقُلْ يَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِہِ عَنْ مَنْصُورٍ وَقَدْ أَدْخَلُوا بَيْنَ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ وَسَالِمٍ رَجُلًا

سالم بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے،ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا:السلام علیکم (اس کے جواب میں) سالم رضی اللہ عنہ نے کہا:علیک وعلی وأمک (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر)،یہ بات اس شخص کو ناگوارمعلوم ہوئی تو سالم نے کہا:بھئی میں نے تووہی کہاہے جو نبی اکرمﷺنے کہا ہے۔نبی اکرمﷺکے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہاالسلام علیکم تو نبی اکرمﷺ نے کہا:علیک وعلی أمک،(تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو)۔(آپ نے آگے فرمایا) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے الحمد للہ رب العالمین کہناچاہیے۔اور جواب دینے والا یرحمک اللہ اور (چھینکنے والا)یغفر اللہ لی ولکمکہے،(نہ کہ السلام علیککہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ایک ایسی حدیث ہے جس میں منصور سے روایت کرنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے،لوگوں نے ہلال بن یساف اور سالم کے درمیان ایک اور راوی کو داخل کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَخِيہِ عِيسَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی كُلِّ حَالٍ وَلْيَقُلْ الَّذِي يَرُدُّ عَلَيْہِ يَرْحَمُكَ اللہُ وَلْيَقُلْ ہُوَ يَہْدِيكُمُ اللہُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ ہَكَذَا رَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَكَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَی يَضْطَرِبُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ أَحْيَانًا عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَيَقُولُ أَحْيَانًا عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الثَّقَفِيُّ الْمَرْوَزِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَخِيہِ عِيسَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ علی کل حال (تمام تعریفیں ہرحال میں اللہ کے لیے ہیں) کہے۔اور جو اس کاجواب دے وہ یرحمک اللہ کہے،اور اس کے جواب میں چھینکنے والا کہےیہدیکم اللہ ویصلح بالکم۔(اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست فرمادے)۔ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے ابن ابی لیلیٰ کے واسطہ سے اسی سندسے اسی جیسی حدیث روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اسی طرح شعبہ نے یہ حدیث ابن ابی لیلیٰ سے ابن ابی لیلیٰ نے ابوایوب کے واسطہ سے نبیﷺ سے روایت کی ہے،۲-ابن ابی لیلیٰ کواس حدیث میں اضطراب تھا،کبھی کہتے: ابوایوب روایت کرتے ہیں نبی اکرمﷺ سے،اور کبھی کہتے: علی روایت کرتے ہیں نبی اکرمﷺ سے۔بیان کیا مجھ سے محمد بن بشار اورمحمد بن یحییٰ ثقفی مروزی نے،دونوں کہتے ہیں: بیان کیاہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اوریحییٰ بن سعید قطان نے ابن ابی لیلیٰ سے،ابن ابی لیلیٰ نے اپنے بھائی عیسیٰ سے،عیسیٰ نے عبدالرحمٰن ابن ابی لیلیٰ سے،عبدالرحمٰن نے علی رضی اللہ عنہ سے اورعلی نے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عَفَّانُ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْہِمْ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ وَكَانُوا إِذَا رَأَوْہُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاہِيَتِہِ لِذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کوئی شخص انہیں یعنی(صحابہ) کورسول اللہ سے زیادہ محبوب نہ تھا کہتے ہیں:(لیکن) وہ لوگ آپ کو دیکھ کر (ادباً) کھڑے نہ ہوتے تھے۔اس لیے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ آپ ﷺ اسے ناپسند کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ قَالَ خَرَجَ مُعَاوِيَةُ فَقَامَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الزُّبَيْرِ وَابْنُ صَفْوَانَ حِينَ رَأَوْہُ فَقَالَ اجْلِسَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ سَرَّہُ أَنْ يَتَمَثَّلَ لَہُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّہِيدِ عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ

-ابومجلز کہتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ باہر نکلے،عبداللہ بن زبیر اور ابن صفوان انہیں دیکھ کر (احتراما) کھڑے ہوگئے۔تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تم دونوں بیٹھ جاؤ۔میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے سامنے باادب کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوامامہ سے بھی روایت ہے۔ ہم سے بیان کیا ہناد نے وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا ابواسامہ نے اورابواسامہ نے حبیب بن شہید سے حبیب بن شہید نے ابومجلز سے ابومجلز نے معاویہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُصُّ أَوْ يَأْخُذُ مِنْ شَارِبِہِ وَكَانَ إِبْرَاہِيمُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ يَفْعَلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ اپنی مونچھیں کاٹتے تھے۔اور فرماتے تھے کہ خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام بھی ایساہی کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ لَمْ يَأْخُذْ مِنْ شَارِبِہِ فَلَيْسَ مِنَّا وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُہَيْبٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی مونچھوں کے بال نہ لیے (یعنی انہیں نہیں کاٹا) تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ہُوَ الْجُرَشِيُّ الْيَمَامِيُّ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَقَدْ قُدْتُ نَبِيَّ اللہِ ﷺ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ عَلَی بَغْلَتِہِ الشَّہْبَاءِ حَتَّی أَدْخَلْتُہُ حُجْرَةَ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا قُدَّامُہُ وَہَذَا خَلْفُہُ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرمﷺ کے شہباء نامی خچرکو جس پر آپ،اورحسن وحسین سوار تھے۔آپﷺکے حجرہ کے پاس(صحن میں) لیتاچلاگیا،یہ(حسن) آپ کے آگے اور وہ (حسین) آپ کے پیچھے بیٹھے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس میں ابن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي حَسَّانَ قَال سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ إِنَّ اللہَ طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرَمَ جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ فَنَظِّفُوا أُرَاہُ قَالَ أَفْنِيَتَكُمْ وَلَا تَشَبَّہُوا بِالْيَہُودِ قَالَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِمُہَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ فَقَالَ حَدَّثَنِيہِ عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ نَظِّفُوا أَفْنِيَتَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَخَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ يُضَعَّفُ وَيُقَالُ ابْنُ إِيَاسٍ

صالح بن ابی حسان کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب کوکہتے ہوئے سنا: اللہ طیّب (پاک) ہے اورپاکی (صفائی وستھرائی) کو پسند کرتاہے۔اللہ مہربان ہے اور مہربانی کو پسند کرتاہے۔اور اللہ سخی وفیاض ہے اور جو دوسخا کو پسند کرتاہے،تو پاک وصاف رکھو۔(میرا خیال ہے کہ انہوں نے اس سے آگے کہا) اپنے گھروں کے صحنوں اور گھروں کے سامنے کے میدانوں کو،اور یہودسے مشابہت نہ اختیار کرو۔(صالح کہتے ہیں) میں نے اس (روایت) کا مہاجر بن مسمار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہاکہ مجھ سے اس کو عامر بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا۔البتہ مہاجر نے نظفوا فنیتکم کہاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-خالد بن الیاس ضعیف سمجھے جاتے ہیں اور انہیں خالد بن إیاس بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ وَاللَّفْظُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا طَلْحَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيہِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةُ تَمَاثِيلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتاہو،اورنہ اس گھر میں داخل ہوتے ہیں جس میں جاندار مجسموں کی تصویر ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ إِسْحَقَ أَخْبَرَہُ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللہِ بْنُ أبِي طَلْحَةَ عَلَی أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ نَعُودُہُ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَدْخُلُ بَيْتًا فِيہِ تَمَاثِيلُ أَوْ صُورَةٌ شَكَّ إِسْحَقُ لَا يَدْرِي أَيُّہُمَا قَالَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبرد ی ہے: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں مجسمے ہوں یا تصویر ہو،(اس حدیث میں اسحاق راوی کوشک ہوگیا کہ ان کے استاد نے تماثیل اور صورۃ دونوں میں سے کیا کہا؟ انہیں یاد نہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ حَدَّثَنَا مُجَاہِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ أَتَيْتُكَ الْبَارِحَةَ فَلَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَكُونَ دَخَلْتُ عَلَيْكَ الْبَيْتَ الَّذِي كُنْتَ فِيہِ إِلَّا أَنَّہُ كَانَ فِي بَابِ الْبَيْتِ تِمْثَالُ الرِّجَالِ وَكَانَ فِي الْبَيْتِ قِرَامُ سِتْرٍ فِيہِ تَمَاثِيلُ وَكَانَ فِي الْبَيْتِ كَلْبٌ فَمُرْ بِرَأْسِ التِّمْثَالِ الَّذِي بِالْبَابِ فَلْيُقْطَعْ فَلْيُصَيَّرْ كَہَيْئَةِ الشَّجَرَةِ وَمُرْ بِالسِّتْرِ فَلْيُقْطَعْ وَيُجْعَلْ مِنْہُ وِسَادَتَيْنِ مُنْتَبَذَتَيْنِ يُوطَآَنِ وَمُرْ بِالْكَلْبِ فَيُخْرَجْ فَفَعَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَكَانَ ذَلِكَ الْكَلْبُ جَرْوًا لِلْحَسَنِ أَوْ الْحُسَيْنِ تَحْتَ نَضَدٍ لَہُ فَأَمَرَ بِہِ فَأُخْرِجَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي طَلْحَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل علیہ السلام نے آکر کہا: کل رات میں آپ کے پاس آیا تھا لیکن مجھے آپ کے پاس گھرمیں آنے سے اس بات نے روکاکہ آپ جس گھر میں تھے اس کے دروازے پرمردوں کی تصویریں تھیں اور گھر کے پردے پربھی تصویریں تھیں۔اور گھر میں کتا بھی تھا،تو آپ ایساکریں کہ دروازے کی تماثیل(مجسموں) کے سرکو اڑوا دیجئے کہ وہ مجسمے پیڑ جیسے ہوجائیں،اور پردے پھڑواکر ان کے دوتکیے بنوادیجئے جو پڑے رہیں اور روندے اور استعمال کیے جائیں۔اور کتے کو نکال بھگائیے،تو رسول اللہ ﷺ نے ایساہی کیا۔اوروہ کتا ایک پلا تھا حسن یا حسین کاان کی چارپائی کے نیچے رہتاتھا،چنانچہ آپ نے اسے بھگادینے کا حکم دیا اور اسے بھگادیاگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ الْأَشْعَثِ وَہُوَ ابْنُ سَوَّارٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَإِلَی الْقَمَرِ وَعَلَيْہِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَإِذَا ہُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنْ الْقَمَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَشْعَثِ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ ﷺ کودیکھا،پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کوبھی دیکھنے لگا (کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے ۱؎،اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آرہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اشعث کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَأَنْہَيَنَّ أَنْ يُسَمَّی رَافِعٌ وَبَرَكَةُ وَيَسَارٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ہَكَذَا رَوَاہُ أَبُو أَحْمَدَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ وَرَوَاہُ غَيْرُہُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبُو أَحْمَدَ ثِقَةٌ حَافِظٌ وَالْمَشْہُورُ عِنْدَ النَّاسِ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَيْسَ فِيہِ عَنْ عُمَرَ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اگرمیں زندہ رہا توان شاء اللہ) رافع،برکت اور یسارنام رکھنے سے منع کردوں گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اسی طرح اسے ابواحمد نے سفیان سے ابوسفیان نے ابوزبیر سے ابوزبیر نے جابر سے اور انہوں نے عمر سے روایت کی ہے۔اورابو احمد کے علاوہ نے سفیان سے سفیان نے ابو زبیر سے اورابوزبیر نے جابر سے جابر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،۳-ابواحمد ثقہ ہیں حافظ ہیں،۴-لوگوں میں یہ حدیث عن جابر عن النبی ﷺ مشہور ہے اور اس حدیث میں عن عمر (عمرسے روایت ہے)کی سندسے کاذکر نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ عُمَيْلَةَ الْفَزَارِيِّ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تُسَمِّ غُلَامَكَ رَبَاحٌ وَلَا أَفْلَحُ وَلَا يَسَارٌ وَلَا نَجِيحٌ يُقَالُ أَثَمَّ ہُوَ فَيُقَالُ لَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے غلام کانام رباح،افلح،یسار اور نجیح نہ رکھو (کیوں کہ) پوچھا جائے کہ کیاوہ یہاں ہے؟ توکہا جائے گا: نہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَخْنَعُ اسْمٍ عِنْدَ اللہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ تَسَمَّی بِمَلِكِ الْأَمْلَاكِ قَالَ سُفْيَانُ شَاہَانْ شَاہْ وَأَخْنَعُ يَعْنِي وَأَقْبَحُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدترنام اس شخص کا ہوگا جس کانام ملک الاملاک ہوگا،سفیان کہتے ہیں: ملک الاملاک کا مطلب ہے: شہنشاہ۔اور اخنع کے معنی اقبح ہیں یعنی سب سے بدترا ور حقیرترین۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ يَجْمَعَ أَحَدٌ بَيْنَ اسْمِہِ وَكُنْيَتِہِ وَيُسَمِّيَ مُحَمَّدًا أَبَا الْقَاسِمِ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَجْمَعَ الرَّجُلُ بَيْنَ اسْمِ النَّبِيِّ ﷺ وَكُنْيَتِہِ وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ بَعْضُہُمْرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ سَمِعَ رَجُلًا فِي السُّوقِ يُنَادِي يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَال لَمْ أَعْنِكَ فَقَال النَّبِيُّ ﷺ لَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِہَذَا وَفِي ہَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدُلُّ عَلَی كَرَاہِيَةِ أَنْ يُكَنَّی أَبَا الْقَاسِمِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرمﷺ نے منع فرمایاہے کہ کوئی شخص آپ کانام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ جمع کرکے محمد ابوالقاسم نام رکھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم مکروہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نبی اکرمﷺ کانام اور آپ کی کنیت ایک ساتھ رکھے۔لیکن بعض لوگوں نے ایساکیا ہے۔انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو بازار میں ابوالقاسم کہہ کر پکار تے ہوئے سنا تو آپ اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔تو اس نے کہا: میں نے آپ کو نہیں پکاراہے۔(یہ سن کر) آپ نے فرمایا: میری کنیت نہ رکھو۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ابوالقاسم کنیت رکھنا مکروہ ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا سَمَّيْتُمْ بِي فَلَا تَكْتَنُوا بِي قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میرے نام پر نام رکھو تو میری کنیت نہ رکھو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ القَطَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا فِطْرُ بْنُ خَلِيفَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُنْذِرٌ وَہُوَ الثَّوْرِيُّ،عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ،عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ،أَنَّہُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ إِنْ وُلِدَ لِي بَعْدَكَ أُسَمِّيہِ مُحَمَّدًا وَأُكَنِّيہِ بِكُنْيَتِكَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ)) قَالَ: ((فَكَانَتْ رُخْصَةً لِي)) ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول!آپ کاکیا خیال ہے اگر آپ کے انتقال کے بعدمیرے یہاں لڑکا پیداہوتوکیا میں اس کانام محمداور اس کی کنیت آپ کی کنیت پررکھ سکتاہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔(ایساکرسکتے ہو) علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ صرف میرے لیے رخصت واجازت تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنِ سِنَانٍ حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ بَصْرِيٌّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي كَرَجُلٍ بَنَی دَارًا فَأَكْمَلَہَا وَأَحْسَنَہَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَدْخُلُونَہَا وَيَتَعَجَّبُونَ مِنْہَا وَيَقُولُونَ لَوْلَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری مثال اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی مثال،اس شخص کی طرح ہے جس نے گھربنایا،گھر کو مکمل کیا اور اسے خوبصورت بنایا،سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے ۱؎۔لوگ اس گھر میں آنے لگے اور اسے دیکھ کر تعجب کرنے لگے،اور کہنے لگے: کاش یہ ایک اینٹ کی جگہ (بھی) خالی نہ ہوتی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابی بن کعب اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْہَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَہْرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْہُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ ہَلْ يَبْقَی مِنْ دَرَنِہِ شَيْءٌ قَالُوا لَا يَبْقَی مِنْ دَرَنِہِ شَيْءٌ قَالَ فَذَلِكَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللہُ بِہِنَّ الْخَطَايَا وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ الْقُرَشِيُّ عَنْ ابْنِ الْہَادِ نَحْوَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بھلابتاؤ تو صحیح،اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اوروہ اس نہر میں ہردن پانچ بار نہائے تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل رہے گا؟ صحابہ نے کہا: اس کے جسم پر تھوڑا بھی میل نہیں رہے گا۔آپ نے فرمایا: یہی مثال ہے پانچوں صلاۃ کی،ان صلاۃ کی برکت سے اللہ تعالیٰ گناہوں کو مٹادیتاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-قتیبہ کہتے ہیں: ہم سے بکر بن مضر قرشی نے ابن الہاد کے واسطہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔۳-اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَی أَبِي أَحْمَدَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَعْثًا وَہُمْ ذُو عَدَدٍ فَاسْتَقْرَأَہُمْ فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْہُمْ مَا مَعَہُ مِنْ الْقُرْآنِ فَأَتَی عَلَی رَجُلٍ مِنْہُمْ مِنْ أَحْدَثِہِمْ سِنًّا فَقَالَ مَا مَعَكَ يَا فُلَانُ قَالَ مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ قَالَ أَمَعَكَ سُورَةُ الْبَقَرَةِ فَقَالَ نَعَمْ قَالَ فَاذْہَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُہُمْ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِہِمْ وَاللہِ يَا رَسُولَ اللہِ مَا مَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ إِلَّا خَشْيَةَ أَلَّا أَقُومَ بِہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْرَءُوہُ فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَہُ فَقَرَأَہُ وَقَامَ بِہِ كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُہُ فِي كُلِّ مَكَانٍ وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَہُ فَيَرْقُدُ وَہُوَ فِي جَوْفِہِ كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِئَ عَلَی مِسْكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَی أَبِي أَحْمَدَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ اللَّيْثِ فَذَكَرَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے (بھیجتے وقت) ان سے (قرآن) پڑھوا یا،تو ان میں سے ہرایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کرسنایا۔جب ایک نوعمر نوجوان کانمبر آیا توآپ نے اس سے کہا: اے فلاں! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں اور سورہ بقرہ یاد ہے۔آپ نے کہا: کیاتمہیں سورہ بقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں،آپ نے فرمایا: جاؤ تم ان سب کے امیر ہو۔ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے سورہ بقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے (صلاۃ تہجدمیں)برابر پڑھ نہ سکوں گا۔آپ نے فرمایا: قرآن سیکھو،اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔کیوں کہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا،اور اس پرعمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو،اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سوگیا اس کا علم اس کے سینے میں بندرہا۔اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کردی گئی ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس حدیث کو لیث بن سعد نے سعید مقبری سے،اورسعید نے ابواحمد کے آزاد کردہ غلام عطا سے اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلا ً روایت کیاہے،اور انہوں نے اس روایت میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ قَال سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَذَاكَ الَّذِي أَقْعَدَنِي مَقْعَدِي ہَذَا وَعَلَّمَ الْقُرْآنَ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ حَتَّی بَلَغَ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اورسکھلائے،ابوعبدالرحمٰن سلمی (راوی حدیث) کہتے ہیں: یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے اپنی اس نشست گاہ (مسند) پربٹھارکھاہے،عثمان کے زمانہ میں قرآن کی تعلیم دینی شروع کی(اوردیتے رہے) یہاں تک حجاج بن یوسف کے زمانہ میں یہ سلسلہ چلتارہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُكُمْ أَوْ أَفْضَلُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُثْمَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَسُفْيَانُ لَا يَذْكُرُ فِيہِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ وَقَدْ رَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ وَشُعْبَةَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُثْمَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ وَشُعْبَةَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَہَكَذَا ذَكَرَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ وَشْعْبَةَ غَيْرَ مَرَّةٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عُثْمَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَصْحَابُ سُفْيَانَ لَا يَذْكُرُونَ فِيہِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَہُوَ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ زَادَ شُعْبَةُ فِي إِسْنَادِ ہَذَا الْحَدِيثِ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ وَكَأَنَّ حَدِيثَ سُفْيَانَ أَصَحُّ قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ مَا أَحَدٌ يَعْدِلُ عِنْدِي شُعْبَةَ وَإِذَا خَالَفَہُ سُفْيَانُ أَخَذْتُ بِقَوْلِ سُفْيَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَبَا عَمَّارٍ يَذْكُرُ عَنْ وَكِيعٍ قَالَ قَالَ شُعْبَةُ سُفْيَانُ أَحْفَظُ مِنِّي وَمَا حَدَّثَنِي سُفْيَانُ عَنْ أَحَدٍ بِشَيْءٍ فَسَأَلْتُہُ إِلَّا وَجَدْتُہُ كَمَا حَدَّثَنِي وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَعْدٍ

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر یاتم میں سب سے افضل وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھلائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-عبدالرحمٰن بن مہدی اورکئی دوسروں نے اسی طرح بسند سفیان الثوری عن علقمہ بن مرثدعن ابی عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۳-سفیان اس کی سند میں سعد بن عبیدہ کا ذکر نہیں کرتے ہیں،۴-یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث بسند سفیان و شعبہ عن علقمہ بن مرثدعن سعد بن عبیدہ عن ابی عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبی ﷺ روایت کی۔ہم سے بیان کیا اسے محمد بن بشار نے،وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا یحییٰ بن سعید نے سفیان اورشعبہ کے واسطہ سے،۵-محمد بن بشار کہتے ہیں: ایسا ہی یحییٰ بن سعید نے اس روایت کو سفیان اور شعبہ کے واسطہ سے،ایک نہیں کئی بارذکر کیا،اوران دونوں نے بسندعلقمہ بن مرثد عن سعد بن عبیدہ عن ابی عبدالرحمٰن عن عثمان عن النبی ﷺ روایت کی،۶-محمد بن بشار کہتے ہیں: اصحاب سفیان اس روایت میں عن سفیان عن سعد بن عبیدہ کاذکر نہیں کرتے ہیں۔محمد بن بشار کہتے ہیں۔اور یہ زیادہ صحیح ہے،۷-شعبہ نے اس حدیث کی سند میں سعد بن عبیدہ کا اضافہ کیا ہے گویا کہ سفیان کی حدیث (جو شعبہ کے ہم سبق ہیں) زیادہ صحیح ہے۔علی بن عبداللہ(ابن المدینی) کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میرے نزدیک شعبہ کے برابر کوئی (ثقہ) نہیں ہے۔اور جب سفیان ان کی مخالفت کرتے ہیں تو میں سفیان کی بات لے لیتاہوں،۸-میں نے ابوعمار کو وکیع کے واسطہ سے ذکر کرتے ہوئے سنا ہے: شعبہ نے کہا: سفیان مجھ سے زیادہ قوی حافظہ والے ہیں۔(اور اس کی دلیل یہ ہے کہ) مجھ سے سفیان نے کسی شخص سے کوئی چیز روایت کی تومیں نے اس شخص سے وہ چیز (براہ راست) پوچھی تو میں نے ویسا ہی پایا جیسا سفیان مجھ سے بیان کیاتھا،۹-اس باب میں علی اور سعد سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ

علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اورسکھلائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم علی بن ابی طالب کی روایت سے جسے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِہِ شَيْءٌ مِنْ الْقُرْآنِ كَالْبَيْتِ الْخَرِبِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ یاد نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ وَأَبُو نُعَيْمٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہاجائے گا:(قرآن) پڑھتاجا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہرکر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔پس تیری منزل وہ ہوگی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔بندارنے ہم سے بطریق: عبدالرحمٰن بن مہدی،عن سفیان،عن عاصماسی جیسی حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَلِّہِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الْكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ زِدْہُ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ ارْضَ عَنْہُ فَيَرْضَی عَنْہُ فَيُقَالُ لَہُ اقْرَأْ وَارْقَ وَتُزَادُ بِكُلِّ آيَةٍ حَسَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَةَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الصَّمَدِ عَنْ شُعْبَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قرآن قیامت کے دن پیش ہوگا پس کہے گا: اے میرے رب! اسے (یعنی صاحب قرآن کو) جوڑا پہنا،تو اسے کرامت (عزت وشرافت) کا تاج پہنایاجائے گا۔پھر وہ کہے گا: اے میرے رب! اسے اور دے،تو اسے کرامت کا جوڑا پہنایاجائے گا۔وہ پھرکہے گا: اے میرے رب اس سے راضی وخوش ہوجا،تو وہ اس سے راضی وخوش ہوجائے گا۔اس سے کہاجائے گا پڑھتا جا اورچڑھتا جا،تیرے لیے ہر آیت کے ساتھ ایک نیکی کا اضافہ کیاجاتارہے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔محمد بن بندارنے اس حدیث کو ہم سے بطریق محمدبن جعفر،عن شعبۃ،عن عاصم بن بہدلۃ،عن ابی صالح عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ،موقوفاً اسی طرح روایت کی اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث عبدالصمد کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ شعبہ سے روایت کرتے ہیں (یعنی موقوفاً زیادہ صحیح ہے)۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَالَ اخْتِمْہُ فِي شَہْرٍ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ اخْتِمْہُ فِي عِشْرِينَ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ اخْتِمْہُ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ اخْتِمْہُ فِي عَشْرٍ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ اخْتِمْہُ فِي خَمْسٍ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ فَمَا رَخَّصَ لِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَمْ يَفْقَہْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَہُ اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ و قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ وَلَا نُحِبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَأْتِيَ عَلَيْہِ أَكْثَرُ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا وَلَمْ يَقْرَأْ الْقُرْآنَ لِہَذَا الْحَدِيثِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يُقْرَأُ الْقُرْآنُ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ لِلْحَدِيثِ الَّذِي رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَخَّصَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَرُوِي عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّہُ كَانَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ يُوتِرُ بِہَا وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّہُ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ فِي الْكَعْبَةِ وَالتَّرْتِيلُ فِي الْقِرَاءَةِ أَحَبُّ إِلَی أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن پڑھ ڈالوں؟ آپ نے فرمایا: مہینے میں ایک بارختم کرو،میں نے کہا میں اس سے بڑھ کر (یعنی کم مدت میں) ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ نے فرمایا: توبیس دن میں ختم کرو۔میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی یعنی اور بھی کم مدت میں ختم کرنے کی طاقت رکھتاہوں۔آپ نے فرمایا: پندرہ دن میں ختم کرلیاکرو۔میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتاہوں۔آپ نے کہا:دس دن میں ختم کرلیاکرو۔میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتاہوں،آپ نے فرمایا: پانچ دن میں ختم کرلیاکرو۔میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتاہوں۔تو آپ نے مجھے پانچ دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث بطریق: ابی بردۃ،عن عبداللہ بن عمرو غریب سمجھی گئی ہے،۳-یہ حدیث کئی سندوں سے عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے۔عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن تین دن سے کم مدت میں پڑھا،اس نے قرآن کونہیں سمجھا ،۴-عبداللہ بن عمرو سے (یہ بھی) مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: قرآن چالیس دن میں پڑھ ڈالاکرو،۵-اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: ہم اس حدیث کی بناپر کسی آدمی کے لیے یہ پسند نہیں کرتے کہ اس پر چالیس دن سے زیادہ گزرجائیں اور وہ قرآن پاک ختم نہ کرچکاہو،۶-اس حدیث کی بناپر جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن پڑھ کر نہ ختم کیاجائے،۷-اور بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے،۸-اور عثمان بن عفان سے متعلق ہے مروی ہے کہ وہ وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے،۹-سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے اندر ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھا،۱۰-قرأت میں ترتیل (ٹھہرٹھہرکر پڑھنا) اہل علم کے نزدیک پسندیدہ ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي النَّضْرِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ ہُوَ ابْنُ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَہُ اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَرْبَعِينَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: چالیس دن میں قرآن پورا پڑھ لیاکرو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعضوں نے معمر سے،اورمعمر نے سماک بن فضل کے واسطہ سے وہب بن منہہ سے روایت کی ہے،کہ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ قرآن چالیس دن میں پڑھاکریں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا الْہَيْثَمُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللہِ قَالَ الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ قَالَ وَمَا الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ قَالَ الَّذِي يَضْرِبُ مِنْ أَوَّلِ الْقُرْآنِ إِلَی آخِرِہِ كُلَّمَا حَلَّ ارْتَحَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِسْنَادُہُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ الْہَيْثَمِ بْنِ الرَّبِيعِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: حال اور مرتحل(اترنے اور کوچ کرنے والا)عمل۔اس نے کہا: حال اور مرتحل (اترنے اور کوچ کرنے والا) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: جو قرآن شروع سے لے کر آخرتک پڑھتاہے،جب بھی وہ اترتاہے کوچ کردیتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف ابن عباس کی اس روایت سے جانتے ہیں جو اس سند سے آئی ہے او ر اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔مجھ سے بیان کیا محمد بن بشار نے،وہ کہتے ہیں: بیان کیامجھ سے مسلم بن ابراہیم نے،وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے صالح مری نے قتادہ کے واسطہ سے اورقتادہ نے زرارہ بن اوفیٰ کے واسطہ سے نبی ﷺ اسی جیسی اسی معنی کی حدیث روایت کی،لیکن اس میں ابن عباس سے روایت کاذکر نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت میرے نزدیک نضر بن علی کی اس راویت سے جسے وہ ہیثم بن ربیع سے روایت کرتے ہیں (یعنی: پہلی سندسے) زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَمْ يَفْقَہْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرڈالا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔بیان کیامجھ سے محمد بن بشار نے،وہ کہتے ہیں:بیان کیا مجھ سے محمد بن جعفر نے،وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے اس سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ وَہُوَ الْخَزَّازُ وَيَزِيدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ كِلَاہُمَا عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ يَزِيدُ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ أَبُو عَامِرٍ الْقَاسِمَ قَالَتْ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ قَوْلِہِ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِہِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِہِ قَالَ فَإِذَا رَأَيْتِيہِمْ فَاعْرِفِيہِمْ و قَالَ يَزِيدُ فَإِذَا رَأَيْتُمُوہُمْ فَاعْرِفُوہُمْ قَالَہَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ ۱؎ مِنْہُ ابْتِغَائَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَائَ تَأْوِیلِہِ ۲؎ کی تفسیر پوچھی۔تو آپ نے فرمایا: ’’جب تم انہیں دیکھو تو انہیں پہچان لو (کہ یہی لوگ اصحاب زیغ ہیں)۔یزید کی روایت میں ہے ’’جب تم لوگ انہیں دیکھو تو انہیں پہچان لو‘‘ یہ بات عائشہ نے دو یا تین بار کہی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ ہَذِہِ الْآيَةِ ہُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْہُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ سَمَّاہُمْ اللہُ فَاحْذَرُوہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِي عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَإِنَّمَا ذَكَرَ يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ التُّسْتَرِيُّ عَنْ الْقَاسِمِ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ أَيْضًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے آیت ’’الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ‘‘ کی تفسیر پوچھی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم ان لوگوں کو آیات متشابہات کے پیچھے پڑے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ نے نام لیا ہے اور ایسے لوگوں سے بچو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث ایوب سے بھی مروی ہے،اور ایوب نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے،۳-ایسے ہی یہ حدیث متعدد لوگوں نے ابن ابی ملیکہ سے عائشہ سے روایت کی ہے۔لیکن ان لوگوں نے اپنی اپنی روایات میں ’’قاسم بن محمد‘‘ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ان کا ذکر صرف ’’یزید بن ابراہیم تستری‘‘ نے اس حدیث میں ’’عن القاسم‘‘ کہہ کر کیا ہے،۴-ابن ابی ملیکہ عبداللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ ہیں،انہوں نے بھی عائشہ سے سنا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ وُلَاةً مِنْ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ وَلِيِّي أَبِي وَخَلِيلُ رَبِّي ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللہُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ وَلَمْ يَقُلْ فِيہِ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ وَأَبُو الضُّحَی اسْمُہُ مُسْلِمُ بْنُ صُبَيْحٍ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي نُعَيْمٍ وَلَيْسَ فِيہِ عَنْ مَسْرُوقٍ

۲۹۹۵-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر نبی کا نبیوں میں سے کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے،اور میرے دوست میرے باپ اور میرے رب کے گہرے دوست ابراہیم ہیں۔پھر آپ نے آیت إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاللہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِینَ ۱؎ پڑھی‘‘۔۱-اس سند سے ابوالضحیٰ نے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔اور اس سند میں مسروق کا ذکر نہیں ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوالضحیٰ کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ مسروق سے روایت کرتے ہیں۔اور ابوالضحیٰ کا نام مسلم بن صبیح ہے۔ابوالضحیٰ نے اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے،ابو نعیم کی روایت کی طرح روایت کی۔اور اس میں بھی مسروق کا ذکر نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ ہُوَ فِيہَا فَاجِرٌ لِيَقْتَطِعَ بِہَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللہَ وَہُوَ عَلَيْہِ غَضْبَانُ فَقَالَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ فِيَّ وَاللہِ كَانَ ذَلِكَ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْ الْيَہُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي فَقَدَّمْتُہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَكَ بَيِّنَةٌ فَقُلْتُ لَا فَقَالَ لِلْيَہُودِيِّ احْلِفْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِذَنْ يَحْلِفُ فَيَذْہَبُ بِمَالِي فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللہِ وَأَيْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کسی امر پر قسم کھائی اور وہ جھوٹا ہو اور قسم اس لیے کھائی تاکہ وہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ناحق لے لے تو جب وہ (قیامت میں) اللہ سے ملے گا،اس وقت اللہ اس سخت غضبناک ہوگا‘‘۔اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم اللہ کی! یہ حدیث میرے بارے میں ہے۔میرے اور ایک یہودی شخص کے درمیان ایک (مشترک) زمین تھی،اس نے اس میں میری حصہ داری کا انکار کر دیا،تو میں اسے لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچا،آپ ﷺ نے مجھ سے کہا: کیا تمہارے پاس کوئی دلیل وثبوت ہے؟ میں نے کہا: نہیں،پھر آپ نے یہودی سے کہا: تم قسم کھاؤ،میں نے کہا: اللہ کے رسول! تب تو یہ قسم کھا کر میرا مال لے جائے گا،تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت: إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلاً ۱؎ نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَكْرٍ السَّہْمِيُّ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ أَوْ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا قَالَ أَبُو طَلْحَةَ وَكَانَ لَہُ حَائِطٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ حَائِطِي لِلَّہِ وَلَوْ اسْتَطَعْتُ أَنْ أُسِرَّہُ لَمْ أُعْلِنْہُ فَقَالَ اجْعَلْہُ فِي قَرَابَتِكَ أَوْ أَقْرَبِيكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب یہ آیت: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۱؎ یا مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَنًا ۲؎ نازل ہوئی۔اس وقت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک باغ تھا،انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باغ اللہ کی رضا کے لیے صدقہ ہے،اگر میں اسے چھپا سکتا (تو چھپاتا) اعلان نہ کرتا ۳؎ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کر دو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کو مالک بن انس نے اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ کے واسطہ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَزِيدَ قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْزُومِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَامَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ مَنْ الْحَاجُّ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الشَّعِثُ التَّفِلُ فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الْعَجُّ وَالثَّجُّ فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ مَا السَّبِيلُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ يَزِيدَ الْخُوزِيِّ الْمَكِّيِّ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فِي إِبْرَاہِيمَ بْنِ يَزِيدَ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کے پاس کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! (واقعی) حاجی کون ہے؟۔آپ نے فرمایا: ’’وہ حاجی جس کا سر گرد وغبار سے اٹ گیا ہو جس نے زیب وزینت اور خوشبو چھوڑ دی ہو،جس کے بدن سے بو آنے لگی ہو‘‘ پھر ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: کون سا حج سب سے بہتر ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’وہ حج جس میں لبیک بآواز بلند پکارا جائے۔اور ہدی اور قربانی کے جانوروں کا (خوب خوب) خون بہایا جائے۔ایک اور شخص نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! (من استطاع سبیلاً میں) سبیل سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’زاد راہ (توشہ) اور سواری‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کو ہم نہیں جانتے سوائے ابراہیم بن یزید خوزی مکی کی روایت سے،اور بعض محدثین نے ابراہیم بن یزید کے بارے میں ان کے حافظہ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَمَّا أَنْزَلَ اللہُ ہَذِہِ الْآيَةَ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ الْآيَةَ دَعَا رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللہُمَّ ہَؤُلَاءِ أَہْلِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ ۱؎ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی،فاطمہ اور حسن وحسین رضی اللہ عنہم کو بلایا پھر کہا: ’’یا اللہ! یہ لوگ میرے اہل ہیں‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ وَحَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي غَالِبٍ قَالَ رَأَی أَبُو أُمَامَةَ رُءُوسًا مَنْصُوبَةً عَلَی دَرَجِ مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَقَالَ أَبُو أُمَامَةَ كِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوہُ ثُمَّ قَرَأَ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ أَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ لَوْ لَمْ أَسْمَعْہُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّی عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُكُمُوہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو غَالِبٍ يُقَالُ اسْمُہُ حَزَوَّرٌ وَأَبُو أُمَامَةَ الْبَاہِلِيُّ اسْمُہُ صُدَيُّ بْنُ عَجْلَانَ وَہُوَ سَيِّدُ بَاہِلَةَ

ابو غالب کہتے ہیں: ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے دمشق کی مسجد کی سیڑھیوں پر (حروراء کے مقتول خوارج کے) سر لٹکتے ہوئے دیکھے،تو کہا: یہ جہنم کے کتے ہیں،آسمان کے سایہ تلے بدترین مقتول ہیں جب کہ بہترین مقتول وہ ہیں جنہیں انہوں نے قتل کیا ہے،پھر انہوں نے یہ آیت یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہٌ ۱؎ پڑھی میں نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے؟ کہا: میں نے اسے اگر ایک بار یا دو بار یا تین بار یا چار بار یہاں تک انہوں نے سات بار گنا،نہ سنا ہوتا تو تم لوگوں سے میں اسے نہ بیان کرتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابو غالب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا نام حزور ہے۔۳-اور ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ کا نام صدی بن عجلان ہے،وہ قبیلہ باہلہ کے سردار تھے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ فِي قَوْلِہِ تَعَالَی كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ قَالَ إِنَّكُمْ تَتِمُّونَ سَبْعِينَ أُمَّةً أَنْتُمْ خَيْرُہَا وَأَكْرَمُہَا عَلَی اللہِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ نَحْوَ ہَذَا وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے قول کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ۱؎ کی تفسیر کرتے ہوئے سنا: ’’تم ستر امتوں کا تتمہ (وتکملہ) ہو،تم اللہ کے نزدیک ان سب سے بہتر اور سب سے زیادہ باعزت ہو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-متعدد لوگوں نے بہز بن حکیم سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے،لیکن ان راویوں نے اس میں آیت کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كُسِرَتْ رَبَاعِيَتُہُ يَوْمَ أُحُدٍ وَشُجَّ وَجْہُہُ شَجَّةً فِي جَبْہَتِہِ حَتَّی سَالَ الدَّمُ عَلَی وَجْہِہِ فَقَالَ كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ فَعَلُوا ہَذَا بِنَبِيِّہِمْ وَہُوَ يَدْعُوہُمْ إِلَی اللہِ فَنَزَلَتْ لَيْسَ لَكَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْہِمْ أَوْ يُعَذِّبَہُمْ إِلَی آخِرِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جنگ احد میں نبی اکرم ﷺ کے سامنے کے چاروں دانت (رباعیہ) توڑ دیئے گئے،اور پیشانی زخمی کر دی گئی،یہاں تک کہ خون آپ کے مبارک چہرے پر بہ پڑا۔آپ نے فرمایا: ’’بھلا وہ قوم کیوں کر کامیاب ہوگی جو اپنے نبی کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرے،جب کہ حال یہ ہو کہ وہ نبی انہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہو۔تو یہ آیت لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ ۱؎ نازل ہوئی‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ شُجَّ فِي وَجْہِہِ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُہُ وَرُمِيَ رَمْيَةً عَلَی كَتِفِہِ فَجَعَلَ الدَّمُ يَسِيلُ عَلَی وَجْہِہِ وَہُوَ يَمْسَحُہُ وَيَقُولُ كَيْفَ تُفْلِحُ أُمَّةٌ فَعَلُوا ہَذَا بِنَبِيِّہِمْ وَہُوَ يَدْعُوہُمْ إِلَی اللہِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی لَيْسَ لَكَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْہِمْ أَوْ يُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ غَلِطَ يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ فِي ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے چہرے سے خون بہایا گیا،آپ کے دانت توڑ دیئے گئے،آپ کے کندھے پر پتھر مارا گیا،جس سے آپ کے چہرے پر خون بہنے لگا،آپ اسے پونچھتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے: وہ امت کیسے فلاح یاب ہوگی جس کا نبی انہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہو اور وہ اس کے ساتھ ایسا (برا) سلوک کر رہے ہوں۔اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت: لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُوْنَ نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-میں نے عبد بن حمید کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ یزید بن ہارون اس معاملے میں غلطی کر گئے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ اللہُمَّ الْعَنْ أَبَا سُفْيَانَ اللہُمَّ الْعَنْ الْحَارِثَ بْنَ ہِشَامٍ اللہُمَّ الْعَنْ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ قَالَ فَنَزَلَتْ لَيْسَ لَكَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْہِمْ أَوْ يُعَذِّبَہُمْ فَتَابَ اللہُ عَلَيْہِمْ فَأَسْلَمُوا فَحَسُنَ إِسْلَامُہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ وَقَدْ رَوَاہُ الزُّہْرِيُّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ لَمْ يَعْرِفْہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ وَعَرَفَہُ مِنْ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن فرمایا: ’’اے اللہ! لعنت نازل فرما ابوسفیان پر،اے اللہ! لعنت نازل فرما حارث بن ہشام پر،اے اللہ! لعنت نازل فرما صفوان بن امیہ پر،تو آپ پر یہ آیت لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ نازل ہوئی۔تو اللہ نے انھیں توبہ کی توفیق دی،انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلام بہترین اسلام ثابت ہوا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ روایت ’’عمر بن حمزۃ،عن سالم،عن أبیہ‘‘کے طریق سے غریب ہے،۳-زہری نے بھی اسے سالم سے اور انہوں نے بھی اپنے باپ سے روایت کیا ہے،۴-محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو عمر بن حمزہ کی روایت سے نہیں جانا بلکہ زہری کی روایت سے جانا ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ ابْنُ الْحَارِثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَدْعُو عَلَی أَرْبَعَةِ نَفَرٍ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی لَيْسَ لَكَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْہِمْ أَوْ يُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ فَہَدَاہُمْ اللہُ لِلْإِسْلَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرَوَاہُ يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ چار افراد کے لیے بدعا فرماتے تھے،تو اللہ تعالیٰ نے آیت: لَیْسَ لَکَ مِنْ الأَمْرِ شَیْئٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْہِمْ أَوْ یُعَذِّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُوْنَ نازل فرمائی۔پھر اللہ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت وتوفیق بخش دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔یعنی: اس سند سے بطریق ’’نافع،عن ابن عمر‘‘۲-اس حدیث کو یحییٰ بن ایوب نے بھی ابن عجلان سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ قَال سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ إِنِّي كُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللہُ مِنْہُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي وَإِذَا حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہِ اسْتَحْلَفْتُہُ فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُہُ وَإِنَّہُ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَہَّرُ ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللہَ إِلَّا غَفَرَ لَہُ ثُمَّ قَرَأَ ہَذِہِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ ذَكَرُوا اللہَ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَرَفَعُوہُ وَرَوَاہُ مِسْعَرٌ وَسُفْيَانُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَلَمْ يَرْفَعَاہُ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ مِسْعَرٍ فَأَوْقَفَہُ وَرَفَعَہُ بَعْضُہُمْ وَرَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَأَوْقَفَہُ وَلَا نَعْرِفُ لِأَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ حَدِيثًا إِلَّا ہَذَا

اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنی تو اللہ نے مجھے جتنا فائدہ پہنچانا چاہا پہنچایا،اور جب مجھ سے آپ کا کوئی صحابی حدیث بیان کرتا تو میں اسے قسم کھلاتا پھر جب وہ میرے کہنے سے قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا۔اور بے شک مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور بالکل سچ بیان کی،کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا جو کوئی بھی شخص کوئی گناہ کرتا ہے پھر وہ کھڑا ہوتا ہے پھر پاکی حاصل کرتا ہے پھر صلاۃ پڑھتا ہے،اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اسے بخش دیتا ہے،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللہَ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کو شعبہ اور دیگر کئی لوگوں نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے اسے مرفوع روایت کیا ہے جب کہ مسعر اور سفیان نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا۔اور بعض لوگوں نے اسے مسعر سے موقوفاً روایت کیا ہے۔اور بعض لوگوں نے اسے مرفوعا روایت کیا ہے۔اور سفیان ثوری نے عثمان بن مغیرہ سے موقوفاً روایت کیا ہے،۲-اسماء بن حکم سے اس روایت کے سوا کوئی دوسری روایت ہم نہیں جانتے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ رَفَعْتُ رَأْسِي يَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ وَمَا مِنْہُمْ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا يَمِيدُ تَحْتَ حَجَفَتِہِ مِنْ النُّعَاسِ فَذَلِكَ قَوْلُہُ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عَبَادَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ الزُّبَيْرِ مِثْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: احد کی لڑائی کے دن میں اپنا سر بلند کر کے (ادھر ادھر) دیکھنے لگا،اس دن کوئی ایسا نہ تھا جس کا سر نیند سے (بوجھل) اپنے سینے کے نیچے جھکا نہ جا رہا ہو،اللہ تعالیٰ کے قول ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَۃً نُعَاسًا ۱؎ کا مفہوم ومراد یہی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔عبد بن حمید نے زبیر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ قَالَ غُشِينَا وَنَحْنُ فِي مَصَافِّنَا يَوْمَ أُحُدٍ حَدَّثَ أَنَّہُ كَانَ فِيمَنْ غَشِيَہُ النُّعَاسُ يَوْمَئِذٍ قَالَ فَجَعَلَ سَيْفِي يَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُہُ وَيَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُہُ وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَی الْمُنَاقِدُونَ لَيْسَ لَہُمْ ہَمٌّ إِلَّا أَنْفُسُہُمْ أَجْبَنُ قَوْمٍ وَأَرْعَبُہُ وَأَخْذَلُہُ لِلْحَقِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم جنگ احد میں اپنی صف (پوزیشن) میں تھے اور ہم پر غنودگی طاری ہو گئی۔وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اس دن غنودگی (نیند) نے آ گھیرا تھا،حالت یہ ہو گئی تھی کہ تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹی جا رہی تھی،میں اسے پکڑ رہا تھا اور میرے ہاتھ سے گر جا رہی تھی،میں اسے سنبھال رہا تھا۔دوسرا گروہ منافقوں کا تھا جنہیں صرف اپنی جانوں کی حفاظت کی فکر تھی،وہ لوگوں میں سب سے زیادہ بزدل،سب سے زیادہ مرعوب ہو جانے والے (ڈرپوک) اور حق کا سب سے زیادہ ساتھ چھوڑ نے والے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ خُصَيْفٍ حَدَّثَنَا مِقْسَمٌ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ فِي قَطِيفَةٍ حَمْرَاءَ افْتُقِدَتْ يَوْمَ بَدْرٍ فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ لَعَلَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَخَذَہَا فَأَنْزَلَ اللہُ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ نَحْوَ ہَذَا وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ مِقْسَمٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد باری مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَغُلَّ کے بارے میں کہتے ہیں: جنگ بدر کے دن (مال غنیمت میں آئی ہوئی) ایک سرخ رنگ کی چادر کھو گئی،بعض لوگوں نے کہا: شاید رسول اللہ ﷺ نے لے لی ہو تو آیت: مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَغُلَّ ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-عبدالسلام بن حرب نے خصیف سے اسی جیسی روایت کی ہے،۳-اور بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق: ’’خصیف عن مقسم‘‘ روایت کی ہے،لیکن ان لوگوں نے اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ قَال سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ قَال سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ لَقِيَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ لِي يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ اسْتُشْہِدَ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا قَالَ أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللہُ بِہِ أَبَاكَ قَالَ قُلْتُ بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ مَا كَلَّمَ اللہُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَہُ كِفَاحًا فَقَالَ يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ قَالَ يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّہُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّہُمْ إِلَيْہَا لَا يُرْجَعُونَ قَالَ وَأُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللہِ أَمْوَاتًا الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرٍ شَيْئًا مِنْ ہَذَا وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ إِبْرَاہِيمَ وَرَوَاہُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَہْلِ الْحَدِيثِ ہَكَذَا عَنْ مُوسَی بْنِ إِبْرَاہِيمَ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے ملے اور فرمایا: ’’جابر! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد شہید کر دیئے گئے،جنگ اُحد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا،اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں،آپ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن) اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا،پھر ان سے (بغیر پردہ کے) آمنے سامنے بات کی،کہا: اے میرے بندے! مجھ سے کسی چیز کے حاصل کرنے کی تمنا و آرزو کر،میں تجھے دوں گا،انہوں نے کہا: رب! مجھے دو بارہ زندہ فرما،تاکہ میں تیری راہ میں دو بارہ شہید کیا جاؤں،رب عزوجل نے فرمایا: ’’میری طرف سے یہ فیصلہ پہلے ہو چکا ہے أَنَّہُمْ إِلَیْہَا لاَ یُرْجَعُونَ کہ لوگ دنیا میں دو بارہ نہ بھیجے جائیں گے،راوی کہتے ہیں: آیت وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا ۱؎ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-عبداللہ بن محمد بن عقیل نے اس حدیث کا کچھ حصہ جابر سے روایت کیا ہے،۳-اور اس حدیث کو ہم صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں،۴-اسے علی بن عبداللہ بن مدینی اور کئی بڑے محدثین نے موسیٰ بن ابراہیم کے واسطہ سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِہِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ يُرْزَقُونَ فَقَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ فَأُخْبِرْنَا أَنَّ أَرْوَاحَہُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ وَتَأْوِي إِلَی قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ فَاطَّلَعَ إِلَيْہِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً فَقَالَ ہَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ قَالُوا رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْہِمْ الثَّانِيَةَ فَقَالَ ہَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّہُمْ لَمْ يُتْرَكُوا قَالُوا تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ مِثْلَہُ وَزَادَ فِيہِ وَتُقْرِئُ نَبِيَّنَا السَّلَامَ وَتُخْبِرُہُ عَنَّا أَنَّا قَدْ رَضِينَا وَرُضِيَ عَنَّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے آیتوَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَکی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: لوگو! سن لو،ہم نے (رسول اللہ ﷺ سے) اس کی تفسیر پوچھی تھی تو ہمیں بتایا گیا کہ شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں ہیں،جنت میں جہاں چاہتی گھومتی پھرتی ہیں اور شام میں عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ایک بار تمہارے رب نے انہیں جھانک کر ایک نظر دیکھا اور پوچھا: تمہیں کوئی چیز مزید چاہیے تو میں عطا کروں؟ انہوں نے کہا: رب! ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیے۔ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں گھومتی ہیں۔پھر (ایک دن) دو بارہ اللہ نے ان کی طرف جھانکا اور فرمایا: کیا تمہیں مزید کچھ چاہیے تو میں عطا کر دوں؟ جب انہوں نے دیکھا کہ (اللہ دینے پر ہی تلا ہوا ہے،بغیر مانگے اور لیے) چھٹکارا نہیں ہے تو انہوں نے کہا: ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں دو بارہ لوٹا دے،تاکہ ہم دنیا میں واپس چلے جائیں۔پھر تیری راہ میں دو بارہ قتل کئے جائیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے ابن ابی عمر نے ابن مسعود سے اسی طرح روایت کی،مگر اس میں اتنا اضافہ کیا کہ ’’ہمارا سلام ہمارے نبی سے کہہ دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ ہم (اپنے رب سے) راضی وخوش ہیں اور وہ ہم سے راضی وخوش ہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔(یعنی: اوپر والی سند سے،کیونکہ دوسری سند میں انقطاع ہے)

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَامِعٍ وَہُوَ ابْنُ أَبِي رَاشِدٍ وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَعْيَنَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَا مِنْ رَجُلٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاةَ مَالِہِ إِلَّا جَعَلَ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي عُنُقِہِ شُجَاعًا ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا مِصْدَاقَہُ مِنْ كِتَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاہُمْ اللہُ مِنْ فَضْلِہِ الْآيَةَ و قَالَ مَرَّةً قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِصْدَاقَہُ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ اقْتَطَعَ مَالَ أَخِيہِ الْمُسْلِمِ بِيَمِينٍ لَقِيَ اللہَ وَہُوَ عَلَيْہِ غَضْبَانُ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِصْدَاقَہُ مِنْ كِتَابِ اللہِ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللہِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کرتا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی گردن میں ایک سانپ ڈال دے گا،پھر آپ نے اس کے ثبوت کے لیے قرآن کی یہ آیت وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ بِمَا آتَاہُمْ اللہُ مِنْ فَضْلِہِ ۱؎ پڑھی راوی نے ایک مرتبہ یہ کہا کہ آپ نے اس کی مناسبت سے یہ آیت سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۲؎ تلاوت فرمائی،اور فرمایا: ’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا مال جھوٹی قسم کھا کر لے لے وہ اللہ سے ایسی حالت میں ملے گا کہ اللہ اس سے برہم (اور سخت غصے میں) ہوگا،پھر آپ نے اس کی مصداق آیت: إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُونَ بِعَہْدِ اللہِپڑھی‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ وَسَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ مَوْضِعَ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنْ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں ایک کوڑے برابر جگہ دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے،اس کو سمجھنے کے لیے چاہو تو یہ آیت پڑھ لو فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ قَالَ اذْہَبْ يَا رَافِعُ لِبَوَّابِہِ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ لَہُ لَئِنْ كَانَ كُلُّ امْرِئٍ فَرِحَ بِمَا أُوتِيَ وَأَحَبَّ أَنْ يُحْمَدَ بِمَا لَمْ يَفْعَلْ مُعَذَّبًا لَنُعَذَّبَنَّ أَجْمَعُونَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَا لَكُمْ وَلِہَذِہِ الْآيَةِ إِنَّمَا أُنْزِلَتْ ہَذِہِ فِي أَہْلِ الْكِتَابِ ثُمَّ تَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ وَإِذْ أَخَذَ اللہُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَہُ وَتَلَا لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَأَلَہُمْ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ شَيْءٍ فَكَتَمُوہُ وَأَخْبَرُوہُ بِغَيْرِہِ فَخَرَجُوا وَقَدْ أَرَوْہُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوہُ بِمَا قَدْ سَأَلَہُمْ عَنْہُ فَاسْتُحْمِدُوا بِذَلِكَ إِلَيْہِ وَفَرِحُوا بِمَا أُوتُوا مِنْ كِتْمَانِہِمْ مَا سَأَلَہُمْ عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف نے انہیں بتایا کہ مروان بن حکم نے اپنے دربان ابو رافع سے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور ان سے کہو،اگر اپنے کیے پر خوش ہونے والا اور بن کیے پر تعریف چاہنے والا ہر شخص سزا کا مستحق ہو جائے،تب تو ہم سب ہی مستحق سزا بن جائیں گے،ابن عباس نے کہا: تمہیں اس آیت سے کیا مطلب؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے،پھر ابن عباس نے یہ آیت وَإِذْ أَخَذَ اللہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ ۱؎ پڑھی اور لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا ۲؎ کی تلاوت کی۔اور کہا: نبی اکرم ﷺ نے ان (یہود) سے کسی چیز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے وہ چیز چھپا لی،اور اس سے ہٹ کر کوئی اور چیز بتا دی اور چلے گئے،پھر آپ پر یہ ظاہر کیا کہ آپ نے ان سے جو کچھ پوچھا تھا اس کے متعلق انہوں نے بتا دیا ہے،اور آپ سے اس کی تعریف سننی چاہی،اور انہوں نے اپنی کتاب سے چھپا کر آپ کو جو جواب دیا اور آپ نے انہیں جو مخاطب کر لیا اس پر خوش ہوئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ ہَذِہِ الْآيَةَ فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَكًّا قَالَ حَمَّادٌ ہَكَذَا وَأَمْسَكَ سُلَيْمَانُ بِطَرَفِ إِبْہَامِہِ عَلَی أُنْمُلَةِ إِصْبَعِہِ الْيُمْنَی قَالَ فَسَاخَ الْجَبَلُ وَخَرَّ مُوسَی صَعِقًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: فَلَمَّا تَجَلَّی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا ۱؎ حماد (راوی) نے کہا: اس طرح،پھر سلیمان (راوی) نے اپنی داہنی انگلی کے پور پر اپنے انگوٹھے کا کنارا رکھا،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’(بس اتنی سی دیر میں) پہاڑ زمین میں دھنس گیا،اور موسیٰ چیخ مار کر گر پڑے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس سند سے معاذ نے حماد بن سلمہ سے،حماد بن سلمہ نے ثابت سے اور ثابت نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُہَنِيِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ ہَذِہِ الْآيَةِ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّيَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِينَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُسْأَلُ عَنْہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَہْرَہُ بِيَمِينِہِ فَأَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ ہَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ ثُمَّ مَسَحَ ظَہْرَہُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ ہَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ فَفِيمَ الْعَمَلُ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّةِ حَتَّی يَمُوتَ عَلَی عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلَہُ اللہُ الْجَنَّةَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَہُ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ حَتَّی يَمُوتَ عَلَی عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَہْلِ النَّارِ فَيُدْخِلَہُ اللہُ النَّارَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ وَقَدْ ذَكَرَ بَعْضُہُمْ فِي ہَذَا الْإِسْنَادِ بَيْنَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ وَبَيْنَ عُمَرَ رَجُلًا مَجْہُولًا

مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے آیت وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ ۱؎ کا مطلب پوچھا گیا،تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ سے اسی آیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ نے آدم کو پیدا کیا پھر اپنا داہنا ہاتھ ان کی پیٹھ پر پھیرا اور ان کی ایک ذریت (نسل) کو نکالا،اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جنت ہی کا کام کریں گے،پھر (دو بارہ) ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے ایک ذریت (ایک نسل) نکالی اور کہا کہ میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور جہنمیوں کا کام کریں گے‘‘۔ایک شخص نے کہا: پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ کے رسول! ۲؎ راوی کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ جنتی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جنتیوں کے کام میں لگا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں کا کام کرتا ہوا مر جاتا ہے تو اللہ اسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے۔اور جب اللہ جہنمی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جہنمیوں کے کام میں لگا دیتا ہے،یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کا کام کرتا ہوا مرتا ہے تو اللہ اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-مسلم بن یسار نے عمر سے سنا نہیں ہے،۳-بعض راویوں نے اس اسناد میں مسلم بن یسار اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی غیر معروف راوی کا ذکر کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَمَّا خَلَقَ اللہُ آدَمَ مَسَحَ ظَہْرَہُ فَسَقَطَ مِنْ ظَہْرِہِ كُلُّ نَسَمَةٍ ہُوَ خَالِقُہَا مِنْ ذُرِّيَّتِہِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْہُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی آدَمَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ مَنْ ہَؤُلَاءِ قَالَ ہَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَرَأَی رَجُلًا مِنْہُمْ فَأَعْجَبَہُ وَبِيصُ مَا بَيْنَ عَيْنَيْہِ فَقَالَ أَيْ رَبِّ مَنْ ہَذَا فَقَالَ ہَذَا رَجُلٌ مِنْ آخِرِ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ يُقَالُ لَہُ دَاوُدُ فَقَالَ رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمْرَہُ قَالَ سِتِّينَ سَنَةً قَالَ أَيْ رَبِّ زِدْہُ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعِينَ سَنَةً فَلَمَّا قُضِيَ عُمْرُ آدَمَ جَاءَہُ مَلَكُ الْمَوْتِ فَقَالَ أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَوَلَمْ تُعْطِہَا ابْنَكَ دَاوُدَ قَالَ فَجَحَدَ آدَمُ فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُہُ وَنُسِّيَ آدَمُ فَنُسِّيَتْ ذُرِّيَّتُہُ وَخَطِئَ آدَمُ فَخَطِئَتْ ذُرِّيَّتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔پھر ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کی بیچ میں نور کی ایک ایک چمک رکھ دی،پھر انہیں آدم کے سامنے پیش کیا،تو آدم نے کہا: میرے رب! کون ہیں یہ لوگ؟ اللہ نے کہا: یہ تمہاری ذریت (اولاد) ہیں،پھر انہوں نے ان میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی چمک انہیں بہت اچھی لگی‘‘،انہوں نے کہا: اے میرے رب! یہ کون ہے؟ اللہ نے فرمایا: ’’تمہاری اولاد کی آخری امتوں میں سے ایک فرد ہے۔اسے داود کہتے ہیں: انہوں نے کہا: میرے رب! اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے کہا: ساٹھ سال،انہوں نے کہا: میرے رب! میری عمر میں سے چالیس سال لے کر اس کی عمر میں اضافہ فرما دے،پھر جب آدم کی عمر پوری ہو گئی،ملک الموت ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کیا میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی نہیں ہیں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو نے اپنے بیٹے داود کودے نہیں دیئے تھے؟ آپ نے فرمایا: ’’تو آدم نے انکار کیا،چنانچہ ان کی اولاد بھی انکاری بن گئی۔آدم بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔آدم نے غلطی کی تو ان کی اولاد بھی خطا کار بن گئی‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ کے واسطہ سے اور نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَمَّا حَمَلَتْ حَوَّاءُ طَافَ بِہَا إِبْلِيسُ وَكَانَ لَا يَعِيشُ لَہَا وَلَدٌ فَقَالَ سَمِّيہِ عَبْدَ الْحَارِثِ فَسَمَّتْہُ عَبْدَ الْحَارِثِ فَعَاشَ وَكَانَ ذَلِكَ مِنْ وَحْيِ الشَّيْطَانِ وَأَمْرِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ قَتَادَةَ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ عُمَرُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب حوا حاملہ ہوئیں تو ان کے پاس شیطان آیا،ان کے بچے جیتے نہ تھے،تو اس نے کہا: (اب جب تیرا بچہ پیدا ہو) تو اس کا نام عبدالحارث رکھ،چنانچہ حوّا نے اس کا نام عبدالحارث ہی رکھا تو وہ جیتا رہا۔ایسا انہوں نے شیطانی وسوسے اور اس کے مشورے سے کیا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے۔ہم اسے مرفوع صرف عمر بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں،۲-بعض راویوں نے یہ حدیث عبدالصمد سے روایت کی ہے،لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے،۳-عمر بن ابراہیم بصری شیخ ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ،حَدَّثَنَا أَبُوْنُعًيْمٍ،حَدَّثَنَا ہِشَامُ ابْنُ سَعْدٍ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ،عَنْ أَبِيْ صَالِحْ،عَنْ أَبِيْ ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: لَمَّا خُلِقَ آدَمُ،الحَدِيْثَ.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب آدم پیدا کئے گئے …‘‘ (آگے) پوری حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَی نَجْرَانَ فَقَالُوا لِي أَلَسْتُمْ تَقْرَءُونَ يَا أُخْتَ ہَارُونَ وَقَدْ كَانَ بَيْنَ عِيسَی وَمُوسَی مَا كَانَ فَلَمْ أَدْرِ مَا أُجِيبُہُمْ فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ أَلَا أَخْبَرْتَہُمْ أَنَّہُمْ كَانُوا يُسَمُّونَ بِأَنْبِيَائِہِمْ وَالصَّالِحِينَ قَبْلَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ إِدْرِيسَ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے نجران بھیجا(وہاں نصاریٰ آباد تھے) انہوں نے مجھ سے کہا: کیا آپ لوگ یَا أُخْتَ ہَارُونَ ۱؎ نہیں پڑھتے؟ جب کہ موسیٰ وعیسیٰ کے درمیان(فاصلہ) تھا جو تھا ۲؎ میری سمجھ میں نہیں آ یا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ میں لوٹ کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو بتایا،تو آپ نے فرمایا: تم نے انہیں کیوں نہیں بتادیا کہ لوگ اپنے سے پہلے کے انبیا وصالحین کے ناموں پر نام رکھاکرتے تھے ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے،اور ہم اسے صرف ابن ادریس ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ أَبُو الْمُغِيرَةِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنْذِرْہُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ قَالَ يُؤْتَی بِالْمَوْتِ كَأَنَّہُ كَبْشٌ أَمْلَحُ حَتَّی يُوقَفَ عَلَی السُّورِ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُقَالُ يَا أَہْلَ الْجَنَّةِ فَيَشْرَئِبُّونَ وَيُقَالُ يَا أَہْلَ النَّارِ فَيَشْرَئِبُّونَ فَيُقَالُ ہَلْ تَعْرِفُونَ ہَذَا فَيَقُولُونَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ فَيُضْجَعُ فَيُذْبَحُ فَلَوْلَا أَنَّ اللہَ قَضَی لِأَہْلِ الْجَنَّةِ الْحَيَاةَ فِيہَا وَالْبَقَاءَ لَمَاتُوا فَرَحًا وَلَوْلَا أَنَّ اللہَ قَضَی لِأَہْلِ النَّارِ الْحَيَاةَ فِيہَا وَالْبَقَاءَ لَمَاتُوا تَرَحًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ ۱؎ پڑھی (پھر) فرمایا: موت چتکبری بھیڑ کی صورت میں لائی جائے گی اور جنت وجہنم کے درمیان دیوار پر کھڑی کردی جائے گی،پھر کہاجائے گا: اے جنتیو! جنتی گردن اٹھاکر دیکھیں گے،پھر کہاجایے گا: اے جہنمیو! جہنمی گردن اٹھاکر دیکھنے لگیں گے،پوچھا جائے گا: کیا تم اسے پہچانتے ہو؟ وہ سب کہیں گے: ہاں،یہ موت ہے،پھراسے پہلو کے بل پچھاڑ کر ذبح کردیا جائے گا،اگر اہل جنت کے لیے زندگی وبقاء کافیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو وہ خوشی سے مرجاتے،اور اگر اہل جہنم کے لیے جہنم کی زندگی اور جہنم میں ہمیشگی کافیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو وہ غم سے مرجاتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ قَتَادَةَ فِي قَوْلِہِ وَرَفَعْنَاہُ مَكَانًا عَلِيًّا قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ نَبِيَّ اللہِ ﷺ قَالَ لَمَّا عُرِجَ بِي رَأَيْتُ إِدْرِيسَ فِي السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ وَہَمَّامٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ بِطُولِہِ وَہَذَا عِنْدَنَا مُخْتَصَرٌ مِنْ ذَاكَ

قتادہ آیت وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا ۱؎ کے تعلق سے کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں نے ادریس علیہ السلام کو چوتھے آسمان پر دیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،اورسعید بن ابی عروہ،ہمام اور کئی دیگر راویوں نے قتادہ سے،قتادہ نے انس سے اورانس نے مالک بن صعصعہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے حدیث معراج پوری کی پوری روایت کی،اور یہ ہمارے نزدیک اس سے مختصرہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری خدری رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَعْلَی بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِجِبْرِيلَ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُورُنَا قَالَ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ إِلَی آخِرِ الْآيَةَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے کہا: جتنا آپ ہمارے پاس آتے ہیں،اس سے زیادہ آنے سے آپ کو کیاچیز روک رہی ہے؟ اس پر آیت وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّکَ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم سے حسین بن حریث نے بیان کیاکہ ہم سے وکیع نے بیان کیا اوروکیع نے عمر بن ذر سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ قَالَ سَأَلْتُ مُرَّةَ الْہَمْدَانِيَّ عَنْ قَوْلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُہَا فَحَدَّثَنِي أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَہُمْ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثُمَّ يَصْدُرُونَ مِنْہَا بِأَعْمَالِہِمْ فَأَوَّلُہُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ كَالرِّيحِ ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِہِ ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ كَمَشْيِہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ السُّدِّيِّ وَلَمْ يَرْفَعْہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُہَا قَالَ يَرِدُونَہَا ثُمَّ يَصْدُرُونَ بِأَعْمَالِہِمْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ السُّدِّيِّ بِمِثْلِہِ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ قُلْتُ لِشُعْبَةَ إِنَّ إِسْرَائِيلَ حَدَّثَنِي عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ شُعْبَةُ وَقَدْ سَمِعْتُہُ مِنْ السُّدِّيِّ مَرْفُوعًا وَلَكِنِّي عَمْدًا أَدَعُہُ

سدی کہتے ہیں:میں نے مرہ ہمدانی سے آیت وَإِنْ مِنْکُمْ إِلا وَارِدُہَا ۱؎ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ جہنم میں جائیں گے،پھر اس سے اپنے اعمال کے سہارے نکلیں گے،پہلا گروہ (جن کے اعمال بہت اچھے ہوں گے) بجلی چمکنے کی سی تیزی سے نکل آئے گا۔پھرہوا کی رفتار سے،پھر گھوڑے کے تیز دوڑنے کی رفتار سے،پھر سواری لیے ہوئے اونٹ کی رفتار سے،پھر دوڑتے شخص کی،پھر پیدل چلنے کی رفتار سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس حدیث کو شعبہ نے سدی سے روایت کیا ہے،لیکن انہوں نے اسے مرفوعاًروایت نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنِ السُّدِّيِّ،عَنْ مُرَّةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ،وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُہَا [مريم: 71] قَالَ: ((يَرِدُونَہَا ثُمَّ يَصْدُرُونَ بِأَعْمَالِہِمْ)) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،عَنْ شُعْبَةَ،عَنِ السُّدِّيِّ،بِمِثْلِہِ،قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ،قُلْتُ لِشُعْبَةَ: إِنَّ إِسْرَائِيلَ،حَدَّثَنِي عَنِ السُّدِّيِّ،عَنْ مُرَّةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،قَالَ شُعْبَةُ: وَقَدْ سَمِعْتُہُ مِنَ السُّدِّيِّ ((مَرْفُوعًا وَلَكِنِّي أَدَعُہُ عَمْدًا))

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے وَإِنْ مِنْکُمْ إِلاَّ وَارِدُہَاکے تعلق سے فرمایا: لوگ جہنم میں جائیں گے پھر اپنے اعمال (صالحہ) کے ذریعہ نکل آئیں گے۔سدی نے مرہ سے اورمرہ نے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کی۔شعبہ کہتے ہیں: میں نے اسے سدی سے مرفوعاً ہی سنا ہے،لیکن میں جان بوجھ کر چھوڑ دیتاہوں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا أَحَبَّ اللہُ عَبْدًا نَادَی جِبْرِيلَ إِنِّي قَدْ أَحْبَبْتُ فُلَانًا فَأَحِبَّہُ قَالَ فَيُنَادِي فِي السَّمَاءِ ثُمَّ تَنْزِلُ لَہُ الْمَحَبَّةُ فِي أَہْلِ الْأَرْضِ فَذَلِكَ قَوْلُ اللہِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَہُمْ الرَّحْمَنُ وُدًّا وَإِذَا أَبْغَضَ اللہُ عَبْدًا نَادَی جِبْرِيلَ إِنِّي أَبْغَضْتُ فُلَانًا فَيُنَادِي فِي السَّمَاءِ ثُمَّ تَنْزِلُ لَہُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو جبرئیل کو بلاکر کہتا ہے: میں نے فلاں کو اپنا حبیب بنالیا ہے تم بھی اس سے محبت کرو،آپﷺ نے فرمایا:پھر جبرئیل آسمان میں اعلان کردیتے ہیں،اور پھر زمین والوں کے دلوں میں محبت پیداہوجاتی ہے،یہی ہے اللہ تعالیٰ کے قول: إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمْ الرَّحْمَنُ وُدًّا ۱؎ کامطلب ومفہوم۔اور اللہ جب کسی بندے کو نہیں چاہتا(اس سے بغض ونفرت رکھتاہے)تو جبرئیل کوبلاکر کہتا ہے،میں فلاں کو پسند نہیں کرتاپھر وہ آسمان میں پکار کرسب کو اس سے باخبر کردیتے ہیں۔تو زمین میں ا س کے لیے(لوگوں کے دلوں میں) نفرت وبغض پیدا ہوجاتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی جیسی حدیث عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے باپ سے اوران کے باپ نے ابوصالح سے اورابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے،نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ قَال سَمِعْتُ خَبَّابَ بْنَ الْأَرَتِّ يَقُولُ جِئْتُ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ السَّہْمِيَّ أَتَقَاضَاہُ حَقًّا لِي عِنْدَہُ فَقَالَ لَا أُعْطِيكَ حَتَّی تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ فَقُلْتُ لَا حَتَّی تَمُوتَ ثُمَّ تُبْعَثَ قَالَ وَإِنِّي لَمَيِّتٌ ثُمَّ مَبْعُوثٌ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ إِنَّ لِي ہُنَاكَ مَالًا وَوَلَدًا فَأَقْضِيكَ فَنَزَلَتْ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا الْآيَةَ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مسروق کہتے ہیں: میں نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں عاص بن وائل سہمی (کافر) کے پاس اس سے اپنا ایک حق لینے کے لیے گیا،اس نے کہا:جب تک تم محمد (ﷺ کی رسالت) کا انکار نہیں کردیتے میں تمہیں دے نہیں سکتا۔میں نے کہا:نہیں،میں رسول اللہ ﷺ کی نبوت ورسالت کا انکار نہیں کرسکتا۔چاہے تم یہ کہتے کہتے مرجاؤ۔پھرزندہ ہو پھر یہی کہو۔اس نے پوچھاکیا: میں مروں گا؟ پھر زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا؟ میں نے کہا: ہاں،اس نے کہا: وہاں بھی میرے پاس مال ہوگا،اولاد ہوگی،اس وقت میں تمہارا حق تمہیں لوٹا دوں گا۔اس موقع پر آیت أَفَرَأَیْتَ الَّذِی کَفَرَ بِآیَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَیَنَّ مَالاً وَوَلَدًا ۱؎ نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سندسے بھی ابومعاویہ نے اسی طرح اعمش سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمَّا نَزَلَتْ يَا أَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ إِلَی قَوْلِہِ وَلَكِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِيدٌ قَالَ أُنْزِلَتْ عَلَيْہِ ہَذِہِ الْآيَةُ وَہُوَ فِي سَفَرٍ فَقَالَ أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِكَ فَقَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ ذَلِكَ يَوْمَ يَقُولُ اللہُ لِآدَمَ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ فَقَالَ يَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ قَالَ تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ إِلَی النَّارِ وَوَاحِدٌ إِلَی الْجَنَّةِ قَالَ فَأَنْشَأَ الْمُسْلِمُونَ يَبْكُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَارِبُوا وَسَدِّدُوا فَإِنَّہَا لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّا كَانَ بَيْنَ يَدَيْہَا جَاہِلِيَّةٌ قَالَ فَيُؤْخَذُ الْعَدَدُ مِنْ الْجَاہِلِيَّةِ فَإِنْ تَمَّتْ وَإِلَّا كَمُلَتْ مِنْ الْمُنَافِقِينَ وَمَا مَثَلُكُمْ وَالْأُمَمِ إِلَّا كَمَثَلِ الرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ أَوْ كَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبْعَ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرُوا ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرُوا ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَہْلِ الْجَنَّةِ فَكَبَّرُوا قَالَ لَا أَدْرِي قَالَ الثُّلُثَيْنِ أَمْ لَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌ إِلَی قَوْلِہِ وَلَکِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِیدٌ ۱؎ تک نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ اس وقت سفرمیں تھے،آپ نے لوگوں سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔آپ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن اللہ آدم (علیہ السلام) سے کہے گا ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ (جہنم میں جانے والی جماعت کو چھانٹ کر بھیجو) آدم علیہ السلام کہیں گے: اے میرے رب بَعْثَ النَّارِکیا ہے؟ اللہ فرمایے گا:نوسونناوے (۹۹۹) افراد جہنم میں اور (ان کے مقابل میں) ایک شخص جنت میں جائے گا،یہ سن کر مسلمان (صحابہ) رونے لگے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی نزدیکی حاصل کرو اور ہرکام صحیح اور درست ڈھنگ سے کرتے رہو،(اہل جنت میں سے ہو جاؤ گے)،کیونکہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبوت کا سلسلہ چلا ہواور اس سے پہلے جاہلیت (کی تاریکی پھیلی ہوئی) نہ ہو،آپ نے فرمایا: یہ (۹۹ کی تعداد) عدد انہیں (ادوار) جاہلیت کے افراد سے پوری کی جائے گی۔یہ تعداد اگر جاہلیت سے پوری نہ ہوئی توان کے ساتھ منافقین کو ملا کر پوری کی جائے گی،اور تمہاری اور (پچھلی) امتوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ داغ،نشان،تل جانور کے اگلے پیر میں،یا سیاہ نشان اونٹ کے پہلو (پسلی) میں ہو ۲؎ پھر آپ نے فرمایا: مگر مجھے امید ہے کہ جنت میں جانے والوں میں ایک چوتھائی تعداد تم لوگوں کی ہوگی،یہ سن کر (لوگوں نے خوش ہوکر) نعرئہ تکبیر بلند کیا،پھر آپ نے فرمایا: مجھے توقع ہے جنتیوں کی ایک تہائی تعداد تم ہوگے،لوگوں نے پھر تکبیر بلند کی،آپ نے پھر فرمایا: مجھے امید ہے کہ جنت میں آدھا آدھا تم لوگ ہوگے،لوگوں نے پھر صدائے تکبیر بلندکی (اس سے آگے) مجھے معلوم نہیں ہے کہ آپ نے دوتہائی بھی فرمایا یا نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی راویوں سے عمران بن حصین کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللہِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَتَفَاوَتَ بَيْنَ أَصْحَابِہِ فِي السَّيْرِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ صَوْتَہُ بِہَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ يَا أَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ إِلَی قَوْلِہِ عَذَابَ اللہِ شَدِيدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ أَصْحَابُہُ حَثُّوا الْمَطِيَّ وَعَرَفُوا أَنَّہُ عِنْدَ قَوْلٍ يَقُولُہُ فَقَالَ ہَلْ تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِكَ قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ ذَاكَ يَوْمٌ يُنَادِي اللہُ فِيہِ آدَمَ فَيُنَادِيہِ رَبُّہُ فَيَقُولُ يَا آدَمُ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ فَيَقُولُ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ فَيَئِسَ الْقَوْمُ حَتَّی مَا أَبَدَوْا بِضَاحِكَةٍ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللہِ ﷺ الَّذِي بِأَصْحَابِہِ قَالَ اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِہِ إِنَّكُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا كَانَتَا مَعَ شَيْءٍ إِلَّا كَثَّرَتَاہُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَمَنْ مَاتَ مِنْ بَنِي آدَمَ وَبَنِي إِبْلِيسَ قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ الْقَوْمِ بَعْضُ الَّذِي يَجِدُونَ فَقَالَ اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِہِ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ أَوْ كَالرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے،اور چلنے میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہوگئے تھے،آپ نے بآوازبلند یہ دونوں آیتیں: یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیمٌسے لے کر عَذَابَ اللہِ شَدِیدٌ تک تلاوت فرمائی،جب صحابہ نے یہ سناتو اپنی سواریوں کو ابھار کر ان کی رفتاربڑھادی،اور یہ جان لیا کہ کوئی بات ہے جسے آپ فرمانے والے ہیں،آپ نے فرمایا: کیاتم جانتے ہو یہ کون سادن ہے؟،صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں،آپ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے اور وہ اپنے رب کو جواب دیں گے،اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: بھیجو جہنم میں جانے والی جماعت کو،آدم علیہ السلام کہیں گے: اے ہمارے رب!بعث النار کیا ہے؟ اللہ کہے گا: ایک ہزار افراد میں سے نوسو ننانوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا،یہ سن کر لوگ مایوس ہوگئے،ایسالگا کہ اب یہ زندگی بھرکبھی ہنسیں گے نہیں،پھرجب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی یہ (مایوسانہ) کیفیت وگھبراہٹ دیکھی تو فرمایا: اچھے بھلے کام کرو اور خوش ہوجاؤ (اچھے اعمال کے صلے میں جنت پاؤگے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم ایسی دومخلوق کے ساتھ ہوکہ وہ جس کے بھی ساتھ ہوجائیں اس کی تعداد بڑھادیں،ایک یاجوج وماجوج اور دوسرے وہ جو اولاد آدم اور اولاد ابلیس میں سے (حالت کفر میں) مرچکے ہیں،آپ کی اس بات سے لوگوں کے رنج وفکر کی اس کیفیت میں کچھ کمی آئی جسے لوگ شدت سے محسوس کررہے تھے اور اپنے دلوں میں موجود پارہے تھے۔آپ نے فرمایا: نیکی کا عمل جاری رکھو،اور ایک دوسرے کو خوشخبری دو،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! تم تو لوگوں میں بس ایسے ہو جیسے اونٹ (جیسے بڑے جانور) کے پہلو (پسلی) میں کوئی داغ یانشان ہو،یا چوپائے کی اگلی دست میں کوئی تل ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّمَا سُمِّيَ الْبَيْتَ الْعَتِيقَ لِأَنَّہُ لَمْ يَظْہَرْ عَلَيْہِ جَبَّارٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا نام بیت عتیق ۱؎ (آزاد گھر) اس لیے رکھاگیا کہ اس پر کسی جابر وظالم کا غلبہ وقبضہ نہیں ہوسکاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث زہری کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔اس سند سے زہری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي وَإِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ مَكَّةَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجُوا نَبِيَّہُمْ لَيَہْلِكُنَّ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِيرٌ الْآيَةَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّہُ سَيَكُونُ قِتَالٌ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَغَيْرُہُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَدْ رَوَاہُ بَطْرُ يَحِدَةِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلًا وَلَيْسَ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب نبی اکرمﷺمکہ سے نکالے گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان لوگوں نے اپنے نبی کو (اپنے وطن سے) نکال دیا ہے،یہ لوگ ضرور ہلا ک ہوں گے،تو اللہ تعالیٰ نے آیت أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ ۱؎ نازل فرمائی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: (جب یہ آیت نازل ہوئی تو) میں نے یہ سمجھ لیا کہ اب (مسلمانوں اور کافروں میں) لڑائی ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔اس کو عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ نے سفیان سے،سفیان نے اعمش سے،اعمش نے مسلم بطین سے مسلم نے سعید بن جبیرکے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے،اس روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کا ذکر نہیں ہے،اسی طرح اورکئی راویوں نے سفیان سے،سفیان نے اعمش سے،اوراعمش نے مسلم بطین کے واسطہ سے،سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کی ہے،اس میں ا بن عباس سے روایت کا ذکر نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ لَمَّا أُخْرِجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ مَكَّةَ قَالَ رَجُلٌ أَخْرَجُوا نَبِيَّہُمْ فَنَزَلَتْ أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِيرٌ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ النَّبِيُّ ﷺ وَأَصْحَابُہُ

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ جب نبیﷺ مکہ سے نکالے گئے،ایک آدمی نے کہا: ان لوگوں نے اپنے نبی کونکال دیا تو اس پرآیت أُذِنَ لِلَّذِینَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌنازل ہوئی،یعنی نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ناحق نکال دیا گیا ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ بِشْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ دَاعٍ دَعَا إِلَی شَيْءٍ إِلَّا كَانَ مَوْقُوفًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَازِمًا بِہِ لَا يُفَارِقُہُ وَإِنْ دَعَا رَجُلٌ رَجُلًا ثُمَّ قَرَأَ قَوْلَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ وَقِفُوہُمْ إِنَّہُمْ مَسْئُولُونَ مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کسی نے بھی کسی چیز کی طرف دعوت دی قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ چمٹااورٹھہرا رہے گا،وہ اسے چھوڑ کر آگے نہیں جاسکتا اگر چہ ایک آدمی نے ایک آدمی ہی کو بلایاہو پھر آپ نے آیت وَقِفُوہُمْ إِنَّہُمْ مَسْئُولُونَ مَا لَکُمْ لاَتَنَاصَرُونَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ زُہَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ قَوْلِ اللہِ تَعَالَی وَأَرْسَلْنَاہُ إِلَی مِائَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ قَالَ عِشْرُونَ أَلْفًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آیت کریمہ: وَأَرْسَلْنَاہُ إِلَی مِائَۃِ أَلْفٍ أَوْ یَزِیدُونَ ۱؎ کے بارے میں پوچھاتوآپ نے فرمایا: ایک لاکھ بیس ہزار تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللہِ وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَہُ ہُمْ الْبَاقِينَ قَالَ حَامٌ وَسَامٌ وَيَافِثُ قَالَ أَبُو عِيسَی يُقَالُ يَافِتُ وَيَافِثُ بِالتَّاءِ وَالثَّاءِ وَيُقَالُ يَفِثُ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ بَشِيرٍ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے اللہ تعالیٰ کے قول وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہُ ہُمُ الْبَاقِینَ ۱؎ کی تفسیر میں فرمایا: (نوح کے تین بیٹے) حام،سام اور یافث تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف سعید بن بشیر کی روایت سے ہی جانتے ہیں،۲-یافت ت سے اور یافث ث سے دونوں طرح سے کہاجاتاہے یفث بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ سَامٌ أَبُو الْعَرَبِ وَحَامٌ أَبُو الْحَبَشِ وَيَافِثُ أَبُو الرُّومِ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:سام ابوالعرب (عربوں کے باپ) ہیں اور حام ابوالحبش (اہل حبشہ کے باپ) ہیں اور یافث ابوالروم (رومیوں کے باپ) ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ قَال سَمِعْتُ طَاوُسًا قَالَ سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ ہَذِہِ الْآيَةِ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَی فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قُرْبَی آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَعَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَمْ يَكُنْ بَطْنٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَّا كَانَ لَہُ فِيہِمْ قَرَابَةٌ فَقَالَ إِلَّا أَنْ تَصِلُوا مَا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ الْقَرَابَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

طاؤس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت قُلْ لاَ أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبَی ۱؎ کے بارے میں پوچھا گیا،اس پر سعید بن جبیرنے کہا: قربیٰ سے مراد آل محمدہیں،ابن عباس نے کہا: (تم نے رشتہ داری کی تشریح میں جلدبازی کی ہے) قریش کی کوئی شاخ ایسی نہیں تھی جس میں آپ کی رشتہ داری نہ ہو،(آیت کامفہوم ہے) اللہ نے کہا: میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا (بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ) ہمارے اور تمہارے درمیان جو رشتہ داری ہے اس کا پاس ولحاظ رکھو اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابن عباس سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ الْوَازِعِ قَالَ حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ بَنِي مُرَّةَ قَالَ قَدِمْتُ الْكُوفَةَ فَأُخْبِرْتُ عَنْ بِلَالِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ فَقُلْتُ إِنَّ فِيہِ لَمُعْتَبَرًا فَأَتَيْتُہُ وَہُوَ مَحْبُوسٌ فِي دَارِہِ الَّتِي قَدْ كَانَ بَنَی قَالَ وَإِذَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْہُ قَدْ تَغَيَّرَ مِنْ الْعَذَابِ وَالضَّرْبِ وَإِذَا ہُوَ فِي قُشَاشٍ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّہِ يَا بِلَالُ لَقَدْ رَأَيْتُكَ وَأَنْتَ تَمُرُّ بِنَا تُمْسِكُ بِأَنْفِكَ مِنْ غَيْرِ غُبَارٍ وَأَنْتَ فِي حَالِكَ ہَذَا الْيَوْمَ فَقَالَ مِمَّنْ أَنْتَ فَقُلْتُ مِنْ بَنِي مُرَّةَ بْنِ عَبَّادٍ فَقَالَ أَلَا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا عَسَی اللہُ أَنْ يَنْفَعَكَ بِہِ قُلْتُ ہَاتِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِيہِ أَبِي مُوسَی أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يُصِيبُ عَبْدًا نَكْبَةٌ فَمَا فَوْقَہَا أَوْ دُونَہَا إِلَّا بِذَنْبٍ وَمَا يَعْفُو اللہُ عَنْہُ أَكْثَرُ قَالَ وَقَرَأَ وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

بنی مرہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں کوفہ آیا مجھے بلال بن ابوبردہ ۱؎ کے حالات کا علم ہواتومیں نے (جی میں) کہاکہ ان میں عبرت وموعظت ہے،میں ان کے پاس آیا،وہ اپنے اس گھر میں محبوس ومقید تھے جسے انہوں نے خود (اپنے عیش وآرام کے لیے) بنوایاتھا،عذاب اور مارپیٹ کے سبب ان کی ہرچیز کی صورت وشکل بدل چکی تھی،وہ چیتھڑا پہنے ہوئے تھے،میں نے کہا: اے بلال! تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں،میں نے آپ کواس وقت بھی دیکھاہے جب آپ بغیر دھول اور گردوغبار کے (نزاکت ونفاست سے) ناک پکڑ کر ہمارے پاس سے گزرجاتے تھے،اور آج آپ اس حالت میں ہیں ہو؟ انہوں نے کہا: تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے کہا: نبی مرہ بن عباد سے،انہوں نے کہا: کیا میں تم سے ایک ایسی حدیث نہ بتاؤں جس سے امید ہے کہ اللہ تمہیں اس سے فائدہ پہنچائے گا،میں نے کہا: پیش فرمائیے،انہوں نے کہا: مجھ سے میرے باپ ابوبردہ نے بیان کیااوروہ اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کسی بندے کو چھوٹی یا بڑی جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اس کے گناہ کے سبب ہی پہنچتی ہے،اور اللہ اس کے جن گناہوں سے درگزر فرمادیتاہے وہ تو بہت ہوتے ہیں۔پھر انہوں نے آیت پڑھیوَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیرٍ(الشوری:30) پڑھی ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَيَّاةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَخِي عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ لَمَّا أُرِيدَ عُثْمَانُ جَاءَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلَامٍ فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ مَا جَاءَ بِكَ قَالَ جِئْتُ فِي نَصْرِكَ قَالَ اخْرُجْ إِلَی النَّاسِ فَاطْرُدْہُمْ عَنِّي فَإِنَّكَ خَارِجٌ خَيْرٌ لِي مِنْكَ دَاخِلٌ فَخَرَجَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلَامٍ إِلَی النَّاسِ فَقَالَ أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّہُ كَانَ اسْمِي فِي الْجَاہِلِيَّةِ فُلَانٌ فَسَمَّانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ عَبْدَ اللہِ وَنَزَلَ فِيَّ آيَاتٌ مِنْ كِتَابِ اللہِ نَزَلَتْ فِيَّ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ إِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ وَنَزَلَتْ فِيَّ قُلْ كَفَی بِاللہِ شَہِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْكِتَابِ إِنَّ لِلَّہِ سَيْفًا مَغْمُودًا عَنْكُمْ وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ قَدْ جَاوَرَتْكُمْ فِي بَلَدِكُمْ ہَذَا الَّذِي نَزَلَ فِيہِ نَبِيُّكُمْ فَاللہَ اللہَ فِي ہَذَا الرَّجُلِ أَنْ تَقْتُلُوہُ فَوَاللہِ إِنْ قَتَلْتُمُوہُ لَتَطْرُدُنَّ جِيرَانَكُمْ الْمَلَائِكَةَ وَلَتَسُلُّنَّ سَيْفَ اللہِ الْمَغْمُودَ عَنْكُمْ فَلَا يُغْمَدُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ فَقَالُوا اقْتُلُوا الْيَہُودِيَّ وَاقْتُلُوا عُثْمَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بھتیجے کہتے ہیں کہ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جان سے مارڈالنے کا ارادہ کرلیاگیا تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے،عثمان نے ان سے کہا: تم کس مقصد سے یہاں آئے ہو؟ انہوں نے کہا: میں آپ کی مدد میں(آپ کو بچانے کے لیے) آیاہوں،انہوں نے کہا: تم لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں مجھ سے دور ہٹا دو،تمہارا میرے پاس رہنے سے باہر رہنا زیادہ بہتر ہے،چنانچہ عبداللہ بن سلام لوگوں کے پاس آئے اور انہیں مخاطب کرکے کہا: لوگو! میرانام جاہلیت میں فلاں تھا (یعنی حصین)پھر رسول اللہ ﷺ نے میرانام عبداللہ رکھا،میرے بارے میں کتاب اللہ کی کئی آیات نازل ہوئیں،میرے بارے میں آیت: وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّن بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی مِثْلِہِ فَآمَنَ وَاسْتَکْبَرْتُمْ إِنَّ اللہَ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ (الأحقاف:10) ۱؎ اور میرے ہی حق میں شَہِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِندَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ (الرعد:43) ۲؎ آیت اتری ہے،بیشک اللہ کے پاس ایسی تلوار ہے جو تمہیں نظر نہیں آتی،بیشک تمہارے اس شہر میں جس میں تمہارے بنی بھیجے گئے،فرشتے تمہارے پڑوسی ہیں،تو ڈرو اللہ سے،ڈرو اللہ سے اس شخص (عثمان) کے قتل کردینے سے،قسم ہے اللہ کی اگر تم لوگوں نے انہیں قتل کرڈالا تو تم اپنے پڑوسی فرشتوں کو اپنے سے دور کردو گے (بھگادوگے) اور اللہ کی وہ تلوار جو تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہے تمہارے خلاف سونت دی جائے گی،پھر وہ قیامت تک میان میں ڈالی نہ جاسکے گی،راوی کہتے ہیں:لوگوں نے (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سن کر) کہا: اس یہودی کو قتل کردو،اور عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی مار ڈالو قتل کردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس حدیث کو شعیب بن صفوان نے عبدالملک بن عمیر سے اورعبدالملک بن عمیرنے ابن محمد بن عبداللہ بن سلام سے اورابن محمد نے اپنے دادا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا رَأَی مَخِيلَةً أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ فَإِذَا مَطَرَتْ سُرِّيَ عَنْہُ قَالَتْ فَقُلْتُ لَہُ فَقَالَ وَمَا أَدْرِي لَعَلَّہُ كَمَا قَالَ اللہ تَعَالَی فَلَمَّا رَأَوْہُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِہِمْ قَالُوا ہَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺجب برسنے والا کوئی بادل دیکھتے تو آگے بڑھتے پیچھے ہٹتے (اندر آتے باہر جاتے) مگر جب بارش ہونے لگتی تو اسے دیکھ خوش ہوجاتے،میں نے عرض کیا: ایساکیوں کرتے ہیں؟ آپﷺنے فرمایا: میں (صحیح) جانتا تو نہیں شاید وہ کچھ ایسا ہی نہ ہو جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے فَلَمَّا رَأَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِہِمْ قَالُوا ہَذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا (الأحقاف: 24) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ دَاوُدَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ ہَلْ صَحِبَ النَّبِيَّ ﷺ لَيْلَةَ الْجِنِّ مِنْكُمْ أَحَدٌ قَالَ مَا صَحِبَہُ مِنَّا أَحَدٌ وَلَكِنْ قَدْ افْتَقَدْنَاہُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَہُوَ بِمَكَّةَ فَقُلْنَا اغْتِيلَ أَوْ اسْتُطِيرَ مَا فُعِلَ بِہِ فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِہَا قَوْمٌ حَتَّی إِذَا أَصْبَحْنَا أَوْ كَانَ فِي وَجْہِ الصُّبْحِ إِذَا نَحْنُ بِہِ يَجِيءُ مِنْ قِبَلِ حِرَاءَ قَالَ فَذَكَرُوا لَہُ الَّذِي كَانُوا فِيہِ فَقَالَ أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَأَتَيْتُہُمْ فَقَرَأْتُ عَلَيْہِمْ فَانْطَلَقَ فَأَرَانَا آثَارَہُمْ وَآثَارَ نِيرَانِہِمْ قَالَ الشَّعْبِيُّ وَسَأَلُوہُ الزَّادَ وَكَانُوا مِنْ جِنِّ الْجَزِيرَةِ فَقَالَ كُلُّ عَظْمٍ يُذْكَرُ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا كَانَ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ أَوْ رَوْثَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَلَا تَسْتَنْجُوا بِہِمَا فَإِنَّہُمَا زَادُ إِخْوَانِكُمْ الْجِنِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا:کیا جنوں والی رات میں آپ لوگوں میں سے کوئی نبی اکرمﷺکے ساتھ تھا؟ انہوں نے کہا: ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا،آپ مکہ میں تھے اس وقت کی بات ہے،ایک رات ہم نے آپ کو نائب پایا،ہم نے کہا: آپ کا اغوا کرلیاگیا ہے یا(جن) اڑا لے گئے ہیں،آپ کے ساتھ کیاکیاگیا ہے؟ بری سے بری رات جو کوئی قوم گزار سکتی ہے ہم نے ویسی ہی اضطراب وبے چینی کی رات گزاری،یہاں تک کہ جب صبح ہوئی،یا صبح تڑکے کا وقت تھا اچانک ہم نے دیکھا کہ آپ حرا کی جانب سے تشریف لارہے ہیں،لوگوں نے آپ سے اپنی اس فکر وتشویش کا ذکر کیا جس سے وہ رات کے وقت دوچار تھے،آپﷺنے فرمایا: جنوں کا قاصد (مجھے بلانے) آیا،تو میں ان کے پاس گیا،اور انہیں قرآن پڑھ کر سنایا،ابن مسعود کہتے ہیں:ـ پھر آپ اٹھ کر چلے اورہمیں ان کے آثار (نشانات وثبوت) دکھائے،اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔شعبی کہتے ہیں: جنوں نے آپ سے توشہ مانگا،اور وہ جزیرہ کے رہنے والے جن تھے،آپ نے فرمایا: ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیاجائے گا تمہارے ہاتھ میں پہنچ کر پہلے سے زیادہ گوشت والی بن جائے گی،ہر مینگنی اور لید (گوبر) تمہارے جانوروں کا چارہ ہے،پھر رسول اللہ ﷺنے (صحابہ سے) فرمایا: (اسی وجہ سے) ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کرو کیوں کہ یہ دونوں چیزیں تمہارے بھائی جنوں کی خوراک ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ مَا قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی الْجِنِّ وَلَا رَآہُمْ انْطَلَقَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِہِ عَامِدِينَ إِلَی سُوقِ عُكَاظٍ وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ وَأُرْسِلَتْ عَلَيْہِمْ الشُّہُبُ فَرَجَعَتْ الشَّيَاطِينُ إِلَی قَوْمِہِمْ فَقَالُوا مَا لَكُمْ قَالُوا حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّہُبُ فَقَالُوا مَا حَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلَّا أَمْرٌ حَدَثَ فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَہَا فَانْظُرُوا مَا ہَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ قَالَ فَانْطَلَقُوا يَضْرِبُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَہَا يَبْتَغُونَ مَا ہَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ فَانْصَرَفَ أُولَئِكَ النَّفَرُ الَّذِينَ تَوَجَّہُوا نَحْوَ تِہَامَةَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدًا إِلَی سُوقِ عُكَاظٍ وَہُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِہِ صَلَاةَ الْفَجْرِ فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَہُ فَقَالُوا ہَذَا وَاللہِ الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ قَالَ فَہُنَالِكَ رَجَعُوا إِلَی قَوْمِہِمْ فَقَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَہْدِي إِلَی الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِہِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا فَأَنْزَلَ اللہُ عَلَی نَبِيِّہِ ﷺ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنْ الْجِنِّ وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْہِ قَوْلُ الْجِنِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے نہ قرآن جنوں کو پڑھ کر سنایا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے ۱؎ (ہوایہ ہے) کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کی جماعت کے ساتھ عکّاظ بازار جارہے تھے،(بعثت محمدی کے تھوڑے عرصہ بعد) شیطانوں اور ان کے آسمانی خبریں حاصل کرنے کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی تھی اور ان پر شعلے برسائے جانے لگے تھے،تو وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ گئے،ان کی قوم نے کہا: کیا بات ہے؟ کیسے لوٹ آئے؟ انہوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان دخل اندازی کردی گئی ہے،آسمانی خبریں سننے سے روکنے کے لیے ہم پر تارے پھینکے گئے ہیں،قوم نے کہا: لگتا ہے (دنیا میں) کوئی نئی چیز ظہور پذیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے،تم زمین کے مشرق ومغرب میں چاروں طرف پھیل جاؤ اور دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے اور ہمارے آسمان سے خبریں حاصل کرنے کے درمیان حائل ہوئی (اور رکاوٹ بنی) ہے چنانچہ وہ زمین کے چاروں کونے مغربین ومشرقین میں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے،شیاطین کا جو گروہ تہامہ کی طرف نکلاتھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا (اس وقت) آپ سوق عکّاظ جاتے ہوئے مقام نخلہ میں تھے،اور اپنے صحابہ کے ساتھ فجر کی صلاۃ پڑھ رہے تھے،جب انہوں نے قرآن سنا تو پوری توجہ سے کان لگا کر سننے لگے،(سن چکے تو) انہوں نے کہا: یہ ہے قسم اللہ کی! وہ چیز جوتمہارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حائل ہوئی ہے،ابن عباس کہتے ہیں: یہیں سے وہ لوگ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے،(وہاں جاکر) کہا:اے میری قوم! إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا یَہْدِی إِلَی الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِہِ وَلَنْ نُشْرِکَ بِرَبِّنَا أَحَدًا ۲؎ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرمﷺپر آیت قُلْ أُوحِیَ إِلَیَّ أَنَّہُ اسْتَمَعَ نازل فرمائی،اور آپ پر جن کا قول وحی کیاگیا ۳؎۔ اور اسی سند سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ بھی جنوں کاہی قول ہے،انہوں نے اپنی قوم سے کہا: لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُوہُ کَادُوا یَکُونُونَ عَلَیْہِ لِبَدًا ۴؎۔ ابن عباس کہتے ہیں: جب انہوں نے آپ کوصلاۃ پڑھتے دیکھا اور دیکھا کہ آپ کے صحابہ آپ کی اقتداء کرتے ہوئے آپ کی طرح صلاۃ پڑھ رہے ہیں اور آپ کے سجدہ کی طرح سجدہ کررہے ہیں تو وہ آپ کے اصحاب کی آپ کی اطاعت دیکھ کر حیرت میں پڑگئے،انہوں نے اپنی قوم سے کہا: لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُوہُ کَادُوا یَکُونُونَ عَلَیْہِ لِبَدًا ۵؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الْجِنُّ يَصْعَدُونَ إِلَی السَّمَاءِ يَسْتَمِعُونَ الْوَحْيَ فَإِذَا سَمِعُوا الْكَلِمَةَ زَادُوا فِيہَا تِسْعًا فَأَمَّا الْكَلِمَةُ فَتَكُونُ حَقًّا وَأَمَّا مَا زَادُوہُ فَيَكُونُ بَاطِلًا فَلَمَّا بُعِثَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مُنِعُوا مَقَاعِدَہُمْ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِإِبْلِيسَ وَلَمْ تَكُنْ النُّجُومُ يُرْمَی بِہَا قَبْلَ ذَلِكَ فَقَالَ لَہُمْ إِبْلِيسُ مَا ہَذَا إِلَّا مِنْ أَمْرٍ قَدْ حَدَثَ فِي الْأَرْضِ فَبَعَثَ جُنُودَہُ فَوَجَدُوا رَسُولَ اللہِ ﷺ قَائِمًا يُصَلِّي بَيْنَ جَبَلَيْنِ أُرَاہُ قَالَ بِمَكَّةَ فَلَقُوہُ فَأَخْبَرُوہُ فَقَالَ ہَذَا الَّذِي حَدَثَ فِي الْأَرْضِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جن آسمان کی طرف چڑھ کر وحی سننے جایا کرتے تھے،اور جب وہ ایک بات سن لیتے تو اس میں اور بڑھا لیتے،تو جوبات وہ سنتے وہ توحق ہوتی لیکن جو بات وہ اس کے ساتھ بڑھادیتے وہ باطل ہوتی،اور جب رسول اللہ ﷺ مبعوث فرمادیئے گئے تو انہیں(جنوں کو) ان کی نشست گاہوں سے روک دیاگیا توانہوں نے اس بات کاذکر ابلیس سے کیا: اس سے پہلے انہیں تارے پھینک پھینک کر نہ مارا جاتا تھا،ابلیس نے کہا: زمین میں کوئی نیا حادثہ وقوع پذیر ہوا ہے جبھی ایسا ہوا ہے،اس نے پتا لگانے کے لیے اپنے لشکر کو بھیجا،انہیں رسول اللہ ﷺ دوپہاڑوں کے درمیان کھڑے صلاۃ پڑھتے ہوئے ملے۔ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ واقعہ مکہ میں پیش آیا،وہ لوگ آپ سے ملے اور جاکر اسے بتایا،پھر اس نے کہا یہی وہ حادثہ ہے جو زمین پر ظہور پذیر ہوا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْہِ الْقُرْآنُ يُحَرِّكُ بِہِ لِسَانَہُ يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَہُ فَأَنْزَلَ اللہُ لَا تُحَرِّكْ بِہِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہِ قَالَ فَكَانَ يُحَرِّكُ بِہِ شَفَتَيْہِ وَحَرَّكَ سُفْيَانُ شَفَتَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يُحْسِنُ الثَّنَاءَ عَلَی مُوسَی بْنِ أَبِي عَائِشَةَ خَيْرًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ پرقرآن نازل ہوتا تو جلدی جلدی زبان چلانے (دہرانے) لگتے تاکہ اسے یاد ومحفوظ کرلیں،اس پر اللہ نے آیت لاَ تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ ۱؎ نازل ہوئی۔(راوی) اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے،(ان کے شاگرد) سفیان نے بھی اپنے ہونٹ ہلاکر دکھائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان نے کہا کہ سفیان ثوری موسیٰ بن ابی عائشہ کو اچھا سمجھتے تھے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي شَبَابَةُ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ ثُوَيْرٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَدْنَی أَہْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَمَنْ يَنْظُرُ إِلَی جِنَانِہِ وَأَزْوَاجِہِ وَخَدَمِہِ وَسُرُرِہِ مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ وَأَكْرَمُہُمْ عَلَی اللہِ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ يَنْظُرُ إِلَی وَجْہِہِ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وُجُوہٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ مِثْلَ ہَذَا مَرْفُوعًا وَرَوَی عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبْجَرَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَرَوَی الْأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَ فِيہِ عَنْ مُجَاہِدٍ غَيْرَ الثَّوْرِيِّ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ وَثُوَيْرٌ يُكْنَی أَبَا جَہْمٍ وَأَبُو فَاخِتَةَ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ عِلَاقَةَ

ثویر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنتیوں میں کمتر درجے کا جنتی وہ ہوگا جو جنت میں اپنے باغوں کو،اپنی بیویوں کو،اپنے خدمت گزاروں کو،اور اپنے (سجے سجائے) تختوں (مسہریوں) کو ایک ہزار سال کی مسافت کی دوری سے دیکھے گا،اور ان میں اللہ عزوجل کے یہاں بڑے عزت وکرامت والا شخص وہ ہوگا جو صبح وشام اللہ کا دیدار کرے گا،پھر آپ نے آیت وُجُوہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَۃٌ إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ۱؎ پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے اور کئی راویوں نے یہ حدیث اسی طرح اسرائیل سے مرفوعاً (ہی)روایت کی ہے،۲-عبدالملک بن ابجر نے ثویر سے،ثویر نے ابن عمر سے روایت کی ہے،اور اسے ابن عمر کے قول سے روایت کیاہے اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔ اشجعی نے سفیان سے،سفیان نے ثویر سے،ثویر نے مجاہد سے اورمجاہد نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے،اوران کے قول سے روایت کی ہے اور اسے انہوں نے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے،اور میں ثوری کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند میں مجاہد کانام لیا ہو،۴-اسے ہم سے بیان کیا ابوکریب نے،و ہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا عبیداللہ اشجعی نے اورعبیداللہ اشجعی نے روایت کی سفیان سے،ثویر کی کنیت ابوجہم ہے اور ابوفاختہ کانام سعید بن علاقہ ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ قَالَ قَالَ أَبُو جَہْلٍ لَئِنْ رَأَيْتُ مُحَمَّدًا يُصَلِّي لَأَطَأَنَّ عَلَی عُنُقِہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَوْ فَعَلَ لَأَخَذَتْہُ الْمَلَائِكَةُ عِيَانًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ ۱؎ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ابوجہل نے کہا: اگر میں نے محمد (ﷺ) کو صلاۃ پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن کو لاتوں سے روندوں گا،یہ بات آپ نے سنی تو فرمایا: اگر وہ ایسا کرتاتو فرشتے اسے دیکھتے ہی دبوچ لیتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي فَجَاءَ أَبُو جَہْلٍ فَقَالَ أَلَمْ أَنْہَكَ عَنْ ہَذَا أَلَمْ أَنْہَكَ عَنْ ہَذَا أَلَمْ أَنْہَكَ عَنْ ہَذَا فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَزَبَرَہُ فَقَالَ أَبُو جَہْلٍ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا بِہَا نَادٍ أَكْثَرُ مِنِّي فَأَنْزَلَ اللہُ فَلْيَدْعُ نَادِيَہُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللہِ لَوْ دَعَا نَادِيَہُ لَأَخَذَتْہُ زَبَانِيَةُ اللہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَفِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ صلاۃ پڑھ رہے تھے کہ ابوجہل آگیا،اس نے کہا: میں نے تمہیں اس (صلاۃ) سے منع نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے تجھے اس (صلاۃ) سے منع نہیں کیا تھا؟ نبی اکرم ﷺ نے صلاۃ سے سلام پھیرا اور اسے ڈانٹا،ابوجہل نے کہا: تجھے خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ سے زیادہ کسی کے ہمنشیں نہیں ہیں،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ ۱؎ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:قسم اللہ کی! اگر وہ اپنے ہم نشینوں کو بلالیتا تو عذاب پرمتعین اللہ کے فرشتے اسے دھردبوچتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ كَانَ عُمَرُ يَسْأَلُنِي مَعَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَتَسْأَلُہُ وَلَنَا بَنُونَ مِثْلُہُ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ إِنَّہُ مِنْ حَيْثُ تَعْلَمُ فَسَأَلَہُ عَنْ ہَذِہِ الْآيَةِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ فَقُلْتُ إِنَّمَا ہُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَعْلَمَہُ إِيَّاہُ وَقَرَأَ السُّورَةَ إِلَی آخِرِہَا فَقَالَ لَہُ عُمَرُ وَاللہِ مَا أَعْلَمُ مِنْہَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي بِشْرٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ فَقَالَ لَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَتَسْأَلُہُ وَلَنَا أَبْنَاءٌ مِثْلُہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کی موجود گی میں عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے (مسئلہ) پوچھتے تھے (ایک بار) عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ ان ہی سے کیوں پوچھتے ہیں جب کہ ہمارے بھی ان کے جیسے بچے ہیں (کیابات ہے؟) عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب دیا وہ جس مقام ومرتبہ پر ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔پھر انہوں نے ان سے اس آیت إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ کے بارے میں پوچھا،(ابن عباس کہتے ہیں:) میں نے کہا:اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر ہے،اللہ نے آپ کو آگاہ کیا ہے،انہوں نے یہ پوری سورہ شروع سے آخرتک پڑھی،عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: قسم اللہ کی! میں نے اس سورہ سے وہی سمجھا اور جانا جو تونے سمجھا اور جانا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم سے بیان کیا محمد بن بشار نے،وہ کہتے ہیں:ہم سے بیان کیا محمد بن جعفر نے،وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا شعبہ نے اور انہوں نے روایت کی اسے اسی سند کے ساتھ اسی طرح ابوبشر سے مگر فرق صرف اتنا ہے کہ وہ کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: أَتَسْأَلُہُ وَلَنَا أَبْنَائٌ مِثْلُہُ ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو الْعَقَدِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ اسْتَعِيذِي بِاللہِ مِنْ شَرِّ ہَذَا فَإِنَّ ہَذَا ہُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے چاند کی طرف دیکھ کرفرمایا: عائشہ! اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو،کیوں کہ یہ غاسق ہے جب یہ ڈوب جائے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ حَدَّثَنِي قَيْسٌ وَہُوَ ابْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ قَدْ أَنْزَلَ اللہُ عَلَيَّ آيَاتٍ لَمْ يُرَ مِثْلُہُنَّ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ إِلَی آخِرِ السُّورَةِ وَ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ إِلَی آخِرِ السُّورَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اللہ نے مجھ پر کچھ ایسی آیتیں نازل کی ہیں کہ ان جیسی آیتیں کہیں د یکھی نہ گئی ہیں،وہ ہیں قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ آخر سورہ تک اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ آخر سورہ تک۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ قَالَ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَہُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ اللہُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّہُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ وَاہْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَہْدِي لِأَحْسَنِہَا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَہَا إِنَّہُ لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَہَا إِلَّا أَنْتَ آمَنْتُ بِكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ فَإِذَا رَكَعَ قَالَ اللہُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ قَالَ اللہُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرَضِينَ وَمِلْءَ مَا بَيْنَہُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ فَإِذَا سَجَدَ قَالَ اللہُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْہِيَ لِلَّذِي خَلَقَہُ فَصَوَّرَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ فَتَبَارَكَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ثُمَّ يَكُونُ آخِرَ مَا يَقُولُ بَيْنَ التَّشَہُّدِ وَالسَّلَامِ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صلاۃ میں کھڑے ہوتے تو پڑھتے: وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ،إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لاَ شَرِیکَ لَہُ،وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ،اللہُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ،لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ أَنْتَ رَبِّی وَأَنَا عَبْدُکَ،ظَلَمْتُ نَفْسِی وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی جَمِیعًا إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ وَاہْدِنِی لأَحْسَنِ الأَخْلاَقِ لاَ یَہْدِی لأَحْسَنِہَا إِلاَّ أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّی سَیِّئَہَا إِنَّہُ لاَ یَصْرِفُ عَنِّی سَیِّئَہَا إِلاَّ أَنْتَ آمَنْتُ بِکَ تَبَارَکْتَ وَتَعَالَیْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ۔ پھر جب آپ رکوع کرتے تو پڑھتے: اللہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَکَ سَمْعِی وَبَصَرِی وَمُخِّی وَعِظَامِی وَعَصَبِی۔پھر آپ جب سراٹھاتے توکہتے: اللہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِینَ وَمِلْئَ مَا بَیْنَہُمَا وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ۔پھر جب آپ سجدہ فرماتے تو کہتے: اللہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِی خَلَقَہُ فَصَوَّرَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ۔پھرآپ سب سے آخر میں تشہد اور سلام کے درمیان جو دعا پڑھتے تھے،وہ دعا یہ تھی: اللہُمَّ اغْفِرْ لِی مَاقَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّی أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَإِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ وَيُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ حَدَّثَنِي عَمِّي وَقَالَ يُوسُفُ أَخْبَرَنِي أَبِي حَدَّثَنِي الْأَعْرَجُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ قَالَ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَہُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ اللہُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّہُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ وَاہْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَہْدِي لِأَحْسَنِہَا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَہَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَہَا إِلَّا أَنْتَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّہُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ فَإِذَا رَكَعَ قَالَ اللہُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَعِظَامِي وَعَصَبِي فَإِذَا رَفَعَ قَالَ اللہُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاءِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَہُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ فَإِذَا سَجَدَ قَالَ اللہُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْہِي لِلَّذِي خَلَقَہُ فَصَوَّرَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ فَتَبَارَكَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ثُمَّ يَقُولُ مِنْ آخِرِ مَا يَقُولُ بَيْنَ التَّشَہُّدِ وَالتَّسْلِيمِ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّي أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تو (تکبیر تحریمہ کے بعد) کہتے: وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ،إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ،لاَ شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِینَ،اللہُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ أَنْتَ رَبِّی وَأَنَا عَبْدُکَ،ظَلَمْتُ نَفْسِی وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی جَمِیعًا إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّأَنْتَ،وَاہْدِنِی لأَحْسَنِ الأَخْلاَقِ لاَ یَہْدِی لأَحْسَنِہَا إِلاَّ أَنْتَ،وَاصْرِفْ عَنِّی سَیِّئَہَا لاَیَصْرِفُ عَنِّی سَیِّئَہَا إِلاَّ أَنْتَ،لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ کُلُّہُ فِی یَدَیْکَ،وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْکَ أَنَا بِکَ وَإِلَیْکَ،تَبَارَکْتَ وَتَعَالَیْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ۔ پھر جب آپ رکو ع کرتے تو پڑھتے: اللہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَکَ سَمْعِی وَبَصَرِی وَعِظَامِی وَعَصَبِی۔پھر جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو آپ کہتے: اللہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَائِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا بَیْنَہُمَا وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ۔پھر جب سجدہ میں جاتے تو کہتے: اللہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ فَصَوَّرَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ۔پھر آپ سب سے آخر میں تشہد اور سلام کے درمیان پڑھتے: اللہُمَّ اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَاأَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہِ مِنِّی أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْہَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ رَفَعَ يَدَيْہِ حَذْوَ مَنْكِبَيْہِ وَيَصْنَعُ ذَلِكَ أَيْضًا إِذَا قَضَی قِرَاءَتَہُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُہَا إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنْ الرُّكُوعِ وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْہِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِہِ وَہُوَ قَاعِدٌ فَإِذَا قَامَ مِنْ سَجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْہِ كَذَلِكَ فَكَبَّرَ وَيَقُولُ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بَعْدَ التَّكْبِيرِ وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَہُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ اللہُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّہُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ وَاہْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَہْدِي لِأَحْسَنِہَا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَہَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَہَا إِلَّا أَنْتَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ وَلَا مَنْجَا وَلَا مَلْجَأَ إِلَّا إِلَيْكَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ ثُمَّ يَقْرَأُ فَإِذَا رَكَعَ كَانَ كَلَامُہُ فِي رُكُوعِہِ أَنْ يَقُولَ اللہُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ وَأَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعَظْمِي لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنْ الرُّكُوعِ قَالَ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ثُمَّ يُتْبِعُہَا اللہُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ فَإِذَا سَجَدَ قَالَ فِي سُجُودِہِ اللہُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ وَأَنْتَ رَبِّي سَجَدَ وَجْہِي لِلَّذِي خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ تَبَارَكَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ وَيَقُولُ عِنْدَ انْصِرَافِہِ مِنْ الصَّلَاةِ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَہِي لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ الشَّافِعِيِّ وَبَعْضُ أَصْحَابِنَا وَأَحْمَدُ لَا يَرَاہُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ يَقُولُ ہَذَا فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ وَلَا يَقُولُہُ فِي الْمَكْتُوبَةِ سَمِعْت أَبَا إِسْمَعِيلَ يَعْنِي التِّرْمِذِيَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ بْنِ يُوسُفَ يَقُولُ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ الْہَاشِمِيَّ يَقُولُ وَذَكَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ ہَذَا عِنْدَنَا مِثْلُ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب فرض صلاۃ پڑھنے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے برابر اٹھاتے،اور ایسا اس وقت بھی کرتے تھے جب اپنی قرأت پوری کرلیتے تھے اور رکوع کا ارادہ کرتے تھے،اور ایسا ہی کرتے تھے جب رکوع سے سراٹھا تے تھے ۱؎،بیٹھے ہونے کی حالت میں اپنی صلاۃ کے کسی حصے میں بھی رفع یدین نہ کرتے تھے،پھر جب دونوں سجدے کرکے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اسی طرح،پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے اور صلاۃ شروع کرتے وقت تکبیر (تحریمہ) کے بعد پڑھتے: وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ اللہُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ أَنْتَ رَبِّی وَأَنَا عَبْدُکَ ظَلَمْتُ نَفْسِی وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی جَمِیعًا إِنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ وَاہْدِنِی لأَحْسَنِ الأَخْلاَقِ لاَ یَہْدِی لأَحْسَنِہَا إِلاَّ أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّی سَیِّئَہَا لاَیَصْرِفُ عَنِّی سَیِّئَہَا إِلاَّ أَنْتَ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ أَنَا بِکَ وَإِلَیْکَ وَلاَ مَنْجَا وَلاَ مَلْجَأَ إِلاَّ إِلَیْکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ۔ (یہ دعا پڑھنے کے بعد) پھر قرأت کرتے،رکوع میں جاتے،رکوع میں آپ یہ دعا پڑھتے: اللہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ وَأَنْتَ رَبِّی خَشَعَ سَمْعِی وَبَصَرِی وَمُخِّی وَعَظْمِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ پھر جب آپ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے توکہتے: سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ۔سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہنے کے فوراً بعد آپ پڑھتے: اللہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ۔اس کے بعد جب سجدہ کرتے تو سجدوں میں پڑھتے: اللہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ وَأَنْتَ رَبِّی سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ تَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ۔اور جب صلاۃ سے سلام پھیر نے چلتے تو (سلام پھیر نے سے پہلے) پڑھتے: اللہُمَّ اغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَاأَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَہِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور اسی پرعمل ہے امام شافعی اور ہمارے بعض اصحاب کا،۳-امام احمد بن حنبل ایسا خیال نہیں رکھتے،۴-اہل کوفہ اور ان کے علاوہ کے بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ انہیں نفلی صلاتوں میں پڑھتے تھے نہ کہ فرض صلاتوں میں ۲؎ ۳-میں نے ابواسماعیل ترمذی محمد بن اسماعیل بن یوسف کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے سلیمان بن داود ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا،انہوں نے ذکر کیا اسی حدیث کا پھر کہا: یہ حدیث میرے نزدیک ایسے ہی مستند اور قوی ہے،جیسے زہری کی وہ حدیث قوی و مستند ہوتی ہے جسے وہ سالم بن عبداللہ سے اور سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِہِ قَالَ بِسْمِ اللہِ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللہِ اللہُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْہَلَ أَوْ يُجْہَلَ عَلَيْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب گھر سے نکلتے تویہ دعا پڑھتے تھے: بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ،اللہُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْ نَضِلَّ أَوْ نَظْلِمَ أَوْ نُظْلَمَ أَوْ نَجْہَلَ أَوْ یُجْہَلَ عَلَیْنَا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ نَبِيَّ اللہِ ﷺ كَانَ يَدْعُو عِنْدَ الْكَرْبِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِيمُ الْحَكِيمُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ تکلیف کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ الْحَلِیمُ الْحَکِیمُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیمُ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم سے بیان کیا محمد بن بشار نے،وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیاابن ابوعدی نے،اورانہوں نے ہشام سے،ہشام نے قتادہ سے،قتادہ نے ابوالعالیہ سے،اورابوالعالیہ نے ابن عباس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مذکورہ روایت کے مثل روایت کی،۳-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ الْمُغِيرَةِ الْمَخْزُومِيُّ الْمَدِينِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَہَمَّہُ الْأَمْرُ رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَی السَّمَاءِ فَقَالَ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِيمِ وَإِذَا اجْتَہَدَ فِي الدُّعَاءِ قَالَ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی مشکل معاملے سے دوچار ہوتے تو اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے پھر کہتے: سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ (اللہ پاک و برتر ہے۔)اور جب جی جان لگا کر دعاکرتے تو کہتے: یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ (اے زندہ ذات! اے کائنات کانظام چلانے والے۔) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ ابْنِ الْہَادِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِذَا رَأَی أَحَدُكُمْ الرُّؤْيَا يُحِبُّہَا فَإِنَّمَا ہِيَ مِنْ اللہِ فَلْيَحْمَدْ اللہَ عَلَيْہَا وَلْيُحَدِّثْ بِمَا رَأَی وَإِذَا رَأَی غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَہُہُ فَإِنَّمَا ہِيَ مِنْ الشَّيْطَانِ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللہِ مِنْ شَرِّہَا وَلَا يَذْكُرْہَا لِأَحَدٍ فَإِنَّہَا لَا تَضُرُّہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَابْنُ الْہَادِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْہَادِ الْمَدِينِيُّ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ رَوَی عَنْہُ مَالِكٌ وَالنَّاسُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے: تم میں سے جب کوئی اچھااور پسندیدہ خواب دیکھے تو سمجھے کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور اس پر اللہ کا شکر اداکرے اور جو دیکھا ہوا سے لوگوں سے بیان کرے،اور جب خراب اورناپسندیدہ چیزوں میں سے کوئی چیز دیکھے تو سمجھے کہ یہ شیطان کی جانب سے ہے پھر اللہ سے اس کے شر سے پناہ مانگے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرے،تو یہ چیز اسے کچھ نقصان نہ پہنچائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے،۲-ابن الہاد کانام یزید بن عبداللہ بن اسامہ بن ہاد مدینی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ان سے امام مالک اور دوسرے لوگوں نے روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رُفِعَتْ الْمَائِدَةُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْہِ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيہِ غَيْرَ مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبُّنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے سے جب دستر خوان اٹھا لیاجاتا تو آپ کہتے: الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ غَیْرَ مُوَدَّعٍ وَلا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبَّنَا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ رِيَاحِ بْنِ عَبِيدَةَ قَالَ حَفْصٌ عَنْ ابْنِ أَخِي أَبِي سَعِيدٍ و قَالَ أَبُو خَالِدٍ عَنْ مَوْلًی لِأَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَكَلَ أَوْ شَرِبَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِينَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کھاپی چکتے توکہتے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِینَ ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَكَلَ طَعَامًا فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي أَطْعَمَنِي ہَذَا وَرَزَقَنِيہِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو مَرْحُومٍ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ

معاذ بن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کھانا کھایا پھر کھانے سے فارغ ہوکر کہا: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَطْعَمَنِی ہَذَا وَرَزَقَنِیہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلاَ قُوَّۃٍ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اور ابومرحوم کانام عبدالرحیم بن میمون ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْجَنْبِيِّ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ بَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ قَاعِدٌ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّی فَقَالَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَجِلْتَ أَيُّہَا الْمُصَلِّي إِذَا صَلَّيْتَ فَقَعَدْتَ فَاحْمَدْ اللہَ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ وَصَلِّ عَلَيَّ ثُمَّ ادْعُہُ قَالَ ثُمَّ صَلَّی رَجُلٌ آخَرُ بَعْدَ ذَلِكَ فَحَمِدَ اللہَ وَصَلَّی عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّہَا الْمُصَلِّي ادْعُ تُجَبْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ عَنْ أَبِي ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ وَأَبُو ہَانِئٍ اسْمُہُ حُمَيْدُ بْنُ ہَانِئٍ وَأَبُو عَلِيٍّ الْجَنْبِيُّ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے ساتھ (مسجد میں) تشریف فرما تھے،اس وقت ایک شخص مسجد میں آیا،اس نے صلاۃ پڑھی،اور یہ دعاکی: اے اللہ! میری مغفرت کردے اور مجھ پر رحم فرما،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے مصلی! تو نے جلدی کی،جب تو صلاۃ پڑھ کر بیٹھے تو اللہ کے شایان شان اس کی حمد بیان کر اور پھر مجھ پر صلاۃ(درود) بھیج،پھر اللہ سے دعا کر،کہتے ہیں:اس کے بعد پھر ایک اور شخص نے صلاۃ پڑھی،اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور نبی اکرم ﷺ پردرود بھیجا تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے مصلی! دعاکر،تیری دعاقبول کی جائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس حدیث کو حیوہ بن شریح نے ابوہانی خولانی سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ أَنَّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يَقُولُ سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُلًا يَدْعُو فِي صَلَاتِہِ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ عَجِلَ ہَذَا ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ لَہُ أَوْ لِغَيْرِہِ إِذَا صَلَّی أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ اللہِ وَالثَّنَاءِ عَلَيْہِ ثُمَّ لْيُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ لْيَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

فضالہ بن عیبد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو صلاۃکے اندر ۱؎ دعاکرتے ہوئے سنا،اس نے نبی اکرم ﷺ پرصلاۃ(درود) نہ بھیجا،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس نے جلدی کی،پھرآپ نے اسے بلایا،اوراس سے اور اس کے علاوہ دوسروں کو خطاب کرکے کہا،جب تم میں سے کوئی بھی صلاۃ پڑھ چکے ۲؎ تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان کرے،پھر نبی اکرم ﷺ پر صلاۃ(درود) بھیجے،پھر اس کے بعدوہ جو چاہے دعامانگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ الْقَدَّاحِ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ اسْمُ اللہِ الْأَعْظَمُ فِي ہَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَإِلَہُكُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ وَفَاتِحَةِ آلِ عِمْرَانَ الم اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے (ایک آیت) وَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ ۱؎،اور (دوسری آیت) آل عمران کی شروع کی آیت الم اللہُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ وَہُوَ رَجُلٌ صَالِحٌ حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ادْعُوا اللہَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللہَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ سَمِعْت عَبَّاسًا الْعَنْبَرِيَّ يَقُولُ اكْتُبُوا عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيِّ فَإِنَّہُ ثِقَةٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اللہ سے دعا مانگو اور اس یقین کے ساتھ مانگو کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی،اور (اچھی طرح) جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواہی اور بے توجہی سے مانگی ہوئی غفلت اور لہو لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-میں نے عباس عنبری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عبداللہ بن معاویہ جمحی کی بیان کردہ روایتیں لکھ لو کیوں کہ وہ ثقہ راوی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ زُہَيْرِ بْنِ الْأَقْمَرِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ ہَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے: اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ قَلْبٍ لاَ یَخْشَعُ وَمِنْ دُعَائٍ لاَ یُسْمَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لاَ تَشْبَعُ،وَمِنْ عِلْمٍ لاَ یَنْفَعُ،أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَؤُلاَئِ الأَرْبَعِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سندسے (یعنی) عبداللہ بن عمرو کی روایت حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں جابر،ابوہریرہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ التَّسْبِيحُ نِصْفُ الْمِيزَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ يَمْلَؤُہُ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ لَيْسَ لَہَا دُونَ اللہِ حِجَابٌ حَتَّی تَخْلُصَ إِلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تسبیح (سبحان اللہ کہنے سے) نصف میزان (آدھا پلڑا) بھرجائے گا،اور الحمد للہ میزان (پلڑے کے باقی خالی حصے) کو پورا بھر دے گا،اور لا إلہ الا اللہ کے تو اللہ تک پہنچنے میں کوئی حجاب ورکاوٹ ہے ہی نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ جُرَيٍّ النَّہْدِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ قَالَ عَدَّہُنَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي يَدِي أَوْ فِي يَدِہِ التَّسْبِيحُ نِصْفُ الْمِيزَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ يَمْلَؤُہُ وَالتَّكْبِيرُ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَالصَّوْمُ نِصْفُ الصَّبْرِ وَالطُّہُورُ نِصْفُ الْإِيمَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ

بنی سلیم کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے ہاتھ کی انگلیوں یا اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر گن کر بتایا کہ سبحان اللہ نصف میزان رہے گا اور الحمد اللہ اس پورے پلڑے کو بھردے گا اور اللہ اکبر آسمان وزمین کے درمیان کی ساری جگہوں کو بھردے گا،روزہ آدھا ہے،اور پاکی نصف ایمان ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور اس حدیث کو شعبہ اور سفیان ثوری نے ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ الرُّحَيْلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ أَخِي زُہَيْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا كَرَبَہُ أَمْرٌ قَالَ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ وَبِإِسْنَادِہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلِظُّوا بِيَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کوئی کام سخت تکلیف وپریشانی میں ڈال دیتا تو آپ یہ دعا پڑھتے: یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیثُ ۱؎۔ اسی سند کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ(اے بڑائی وبزرگی والے) کولازم پکڑو۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَلِظُّوا بِيَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ بِمَحْفُوظٍ وَإِنَّمَا يُرْوَی ہَذَا عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا أَصَحُّ وَمُؤَمَّلٌ غَلِطَ فِيہِ فَقَالَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ وَلَا يُتَابَعُ فِيہِ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ کولازم پکڑو (یعنی:اپنی دعاؤں میں برابر پڑھتے رہاکرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،محفوظ نہیں ہے،۲-یہ حدیث حماد بن سلمہ نے حمید سے،انہوں نے حسن بصری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے (مرسلاً)روایت کی ہے،اور یہ زیادہ صحیح ہے۔اور مومل سے اس میں غلطی ہوئی ہے،چنانچہ انہوں نے عن حمید عن أنس دیا،جبکہ اس میں ان کا کوئی متابع نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ قَالَ قَالَ لِي يَا مُحَمَّدُ إِذَا اشْتَكَيْتَ فَضَعْ يَدَكَ حَيْثُ تَشْتَكِي وَقُلْ بِسْمِ اللہِ أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ مِنْ وَجَعِي ہَذَا ثُمَّ ارْفَعْ يَدَكَ ثُمَّ أَعِدْ ذَلِكَ وِتْرًا فَإِنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَنِي أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ حَدَّثَہُ بِذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ ہَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ

ثابت بنانی اپنے شاگرد محمد بن سالم سے کہتے ہیں: جب تمہیں درد ہوتو جہاں درد اور تکلیف ہو وہاں ہاتھ رکھو پھر پڑھو: بِسْمِ اللہِ أَعُوذُ بِعِزَّۃِ اللہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ مِنْ وَجَعِی ہَذَا ۱؎،پھر (دردکی جگہ سے) ہاتھ ہٹا لو پھر ایسے ہی طاق (تین یا پانچ یا سات) بار کرو،کیوں کہ انس بن مالک نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایسا ہی بیان کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،اور محمد بن سالم یہ بصری شیخ ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ عَنْ أَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ قَالُوا فَمَاذَا نَقُولُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ سَلُوا اللہَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ زَادَ يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ ہَذَا الْحَرْفَ قَالُوا فَمَاذَا نَقُولُ قَالَ سَلُوا اللہَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا لوٹائی نہیں جاتی،(یعنی قبول ہوجاتی ہے) لوگوں نے پوچھا: اس دوران ہم کون سی دعامانگیں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: دنیا اور آخرت (دونوں) میں عافیت مانگو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے،یحییٰ بن ابان نے اس حدیث میں اس عبارت کا اضافہ کیا ہے کہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا: دنیا و آخرت میں عافیت (یعنی امن وسکون) مانگو۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُو أَحْمَدَ وَأَبُو نُعَيْمٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَكَذَا رَوَی أَبُو إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ الْكُوفِيِّ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَہَذَا أَصَحُّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے،(یعنی ضرور قبول ہوتی ہے۔)امام ترمذی کہتے ہیں: ابواسحاق ہمدانی نے بریدبن ابی مریم کوفی سے اور برید کوفی نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے ایسے ہی روایت کی ہے،اور یہ زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سَبَقَ الْمُفْرِدُونَ قَالُوا وَمَا الْمُفْرِدُونَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الْمُسْتَہْتَرُونَ فِي ذِكْرِ اللہِ يَضَعُ الذِّكْرُ عَنْہُمْ أَثْقَالَہُمْ فَيَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِفَافًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہلکے پھلکے لوگ آگے نکل گئے،لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ ہلکے پھلکے لوگ کون ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ کی یاد وذکر میں ڈوبے رہنے والے لوگ،ذکر ان کا بوجھ ان کے اوپر سے اتار کر رکھ دے گا اورقیامت کے دن ہلکے پھلکے آئیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَأَنْ أَقُولَ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْہِ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ساری کائنات سے کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں: سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ ۱؎ کہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ سَعْدَانَ الْقُمِّيِّ عَنْ أَبِي مُجَاہِدٍ عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُہُمْ الصَّائِمُ حَتَّی يُفْطِرَ وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُہَا اللہُ فَوْقَ الْغَمَامِ وَيَفْتَحُ لَہَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ وَيَقُولُ الرَّبُّ وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَسَعْدَانُ الْقُمِّيُّ ہُوَ سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ عِيسَی بْنُ يُونُسَ وَأَبُو عَاصِمٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَأَبُو مُجَاہِدٍ ہُوَ سَعْدٌ الطَّائِيُّ وَأَبُو مُدِلَّةَ ہُوَ مَوْلَی أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ وَإِنَّمَا نَعْرِفُہُ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَيُرْوَی عَنْہُ ہَذَا الْحَدِيثُ أَتَمَّ مِنْ ہَذَا وَأَطْوَلَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی: ایک صائم،جب تک کہ صوم نہ کھول لے،(دوسرے) امام عادل،(تیسرے) مظلوم،اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے،اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں،اوررب کہتاہے: میری عزت (قدرت) کی قسم! میں تیری مدد کروں گا،بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-سعدان قمی یہ سعد ان بن بشر ہیں،ان سے عیسیٰ بن یونس،ابوعاصم اور کئی بڑے محدثین نے روایت کی ہے۳-اور ابومجاہد سے مراد سعد طائی ہیں۴-اور ابو مدلہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں ہم انہیں صرف اسی حدیث کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہی حدیث ان سے اس حدیث سے زیادہ مکمل اور لمبی روایت کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اللہُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي وَزِدْنِي عِلْمًا الْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی كُلِّ حَالٍ وَأَعُوذُ بِاللہِ مِنْ حَالِ أَہْلِ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی: اللہُمَّ انْفَعْنِی بِمَا عَلَّمْتَنِی وَعَلِّمْنِی مَا یَنْفَعُنِی وَزِدْنِی عِلْمًا الْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ وَأَعُوذُ بِاللہِ مِنْ حَالِ أَہْلِ النَّارِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَہُ حِينَ يَذْكُرُنِي فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِہِ ذَكَرْتُہُ فِي نَفْسِي وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُہُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْہُمْ وَإِنْ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ مِنْہُ ذِرَاعًا وَإِنْ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْہِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُہُ ہَرْوَلَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی عَنْ الْأَعْمَشِ فِي تَفْسِيرِ ہَذَا الْحَدِيثِ مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ ذِرَاعًا يَعْنِي بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ وَہَكَذَا فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذَا الْحَدِيثَ قَالُوا إِنَّمَا مَعْنَاہُ يَقُولُ إِذَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ الْعَبْدُ بِطَاعَتِي وَمَا أَمَرْتُ أُسْرِعُ إِلَيْہِ بِمَغْفِرَتِي وَرَحْمَتِي وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّہُ قَالَ فِي ہَذِہِ الْآيَةِ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ قَالَ اذْكُرُونِي بِطَاعَتِي أَذْكُرْكُمْ بِمَغْفِرَتِي حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی وَعَمْرُو بْنُ ہَاشِمٍ الرَّمْلِيُّ عَنْ ابْنِ لَہِيعَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ بِہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کہتاہے:میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتاہوں ۱؎،جب وہ مجھے یاد کرتاہے تو اس کے ساتھ ہوتاہوں،اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے تو میں بھی اسے جی میں یاد کرتاہوں اور اگر وہ مجھے جماعت (لوگوں) میں یاد کرتاہے تو میں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتاہوں(یعنی فرشتوں میں) اگر کوئی مجھ سے قریب ہونے کے لیے ایک بالشت آگے بڑھتاہے تو اس سے قریب ہونے کے لیے میں ایک ہاتھ آگے بڑھتاہوں،اور اگر کوئی میری طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتاہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں،اگر کوئی میری طرف چل کر آتاہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتاہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کی تفسیر میں اعمش سے مروی ہے کہ اللہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتاہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتاہوں،اس سے مراد یہ ہے کہ میں اپنی رحمت و مغفرت کامعاملہ اس کے ساتھ کرتاہوں،۳-اور اسی طرح بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد جب بندہ میری اطاعت اور میرے مامورات پر عمل کرکے میری قربت حاصل کرنا چاہتاہے تو میں اپنی رحمت و مغفرت لے کر اس کی طرف تیزی سے لپکتاہوں۔سعید بن جبیراس آیت: فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ کے بارے میں فرماتے ہیں: اذکرونی سے مراد یہ ہے کہ میری اطاعت کے ساتھ مجھے یاد کرو میں تمہاری مغفرت میں تجھے یاد کروں گا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ قَالَا أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ قَالَ حَدَّثَنِي عَمَّارٌ مَوْلَی بَنِي ہَاشِمٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ (۶۵) سال کے تھے ۱؎۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ حَدَّثَنَا عَمَّارٌ مَوْلَی بَنِي ہَاشِمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تُوُفِّيَ وَہُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنُ الْإِسْنَادِ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی اکر م ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ (۶۵) سال کے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَقَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَكَثَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَكَّةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ سَنَةً يَعْنِي يُوحَی إِلَيْہِ وَتُوُفِّيَ وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ سَنَةً وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَدَغْفَلِ بْنِ حَنْظَلَةَ وَلَا يَصِحُّ لِدَغْفَلٍ سَمَاعٌ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا رُؤْيَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تیرہ (۱۳) سال رہے یعنی آپ پر تیرہ سال تک وحی کی جاتی رہی اور آپ کی وفات ترسٹھ (۶۳) سال کی عمر میں ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث عمر وبن دینار کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں عائشہ،انس اور دغفل بن حنظلہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور دغفل کا نبی اکرم ﷺ سے نہ تو سماع صحیح ہے اورنہ ہی رؤیت۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّہُ قَالَ سَمِعْتُہُ يَخْطُبُ يَقُولُ مَاتَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی توآپ ترسٹھ سال کے تھے اور ابوبکر اور عمر بھی ترسٹھ سال کے تھے اور میں بھی(اس وقت) ترسٹھ سال کاہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ وَالْحُسَيْنُ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أُخْبِرْتُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَقَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ مَہْدِيٍّ فِي حَدِيثِہِ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَاتَ وَہُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ ابْنُ أَخِي الزُّہْرِيِّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ ہَذَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ سال کے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور اسے زہری کے بھتیجے (محمد بن عبداللہ بن مسلم) نے بھی زہری سے اور زہری نے عروہ کے واسطہ سے عائشہ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ رِبْعِيٍّ وَہُوَ ابْنُ حِرَاشٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ابْنِ عُمَيْرٍ عَنْ مَوْلًی لِرِبْعِيٍّ عَنْ رِبْعِيٍّ عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ نَحْوَہُ وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُدَلِّسُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ فَرُبَّمَا ذَكَرَہُ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ وَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ زَائِدَةَ وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ہِلَالٍ مَوْلَی رِبْعِيٍّ عَنْ رِبْعِيٍّ عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ أَيْضًا عَنْ رِبْعِيٍّ عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ سَالِمٌ الْأَنْعُمِيُّ كُوفِيٌّ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ حُذَيْفَةَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اقتداء کرو ان دونوں کی جو میرے بعد ہوں گے،یعنی ابوبکر وعمر کی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود سے بھی روایت ہے،۳-سفیان ثوری نے یہ حدیث عبدالملک بن عمیر سے اور عبدالملک بن عمیر نے ربعی کے آزاد کردہ غلام کے واسطہ سے ربعی سے اور ربعی نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ ۳۶۶۲/م-ہم سے احمد بن منیع اور کئی دوسرے راویوں نے بیان کیا ہے،وہ سب کہتے ہیں: ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ہے اور سفیان نے عبدالملک بن عمیر سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے،کبھی تو انہوں نے اسے عن زائدۃ عن عبدالملک بن عمیر ذکرکیا اورکبھی انہوں نے اس میں عن زائدۃ ذکر نہیں کیا،۲-ابراہیم بن سعد نے یہ حدیث سفیان ثوری سے،سفیان نے عبدالملک بن عمیر سے،عبدالملک نے ربعی کے آزاد کردہ غلام ہلال سے،ہلال نے ربعی سے اور ربعی نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ربعی سے آئی ہے،جسے انہوں نے حذیفہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،۴-سالم انعمی کوفی نے یہ حدیث ربعی بن حراش کے واسطہ سے حذیفہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سَالِمٍ أَبِي الْعَلَاءِ الْمُرَادِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ ہَرِمٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ إِنِّي لَا أَدْرِي مَا بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي وَأَشَارَ إِلَی أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا،لہذا تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی جانب اشارہ کیا۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ہَذَانِ سَيِّدَا كُہُولِ أَہْلِ الْجَنَّةِ مِنْ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ لَا تُخْبِرْہُمَا يَا عَلِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

-انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے سلسلہ میں فرمایا: یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے،خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے،سوائے انبیاء و مرسلین کے،(آپ نے فرمایا:) علی ان دونوں کو اس بات کی خبر مت دینا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُوَقَّرِيُّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِذْ طَلَعَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَذَانِ سَيِّدَا كُہُولِ أَہْلِ الْجَنَّةِ مِنْ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ يَا عَلِيُّ لَا تُخْبِرْہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْوَلِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُوَقَّرِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَلَمْ يَسْمَعْ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَلِيٍّ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا اچانک ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما نمودار ہوئے،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں،خواہ وہ اگلے ہوں یاپچھلے،سوائے انبیا و مرسلین کے لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-ولید بن محمد موقری حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں اور علی بن حسین نے علی نہیں سنا ہے،۳-علی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندسے بھی آئی ہے،۴-اس باب میں انس اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ ذَكَرَ دَاوُدُ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُہُولِ أَہْلِ الْجَنَّةِ مِنْ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ لَا تُخْبِرْہُمَا يَا عَلِيُّ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں،خواہ وہ اگلے ہوں یاپچھلے،سوائے نبیوں اور رسولوں کے،لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ أَلَسْتُ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ أَلَسْتُ صَاحِبَ كَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَہَذَا أَصَحُّ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ فَذَكَرَ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَہَذَا أَصَحُّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں وہ شخص نہیں ہوں جوسب سے پہلے اسلام لایا؟ کیا میں ایسی ایسی خوبیوں کا مالک نہیں ہوں؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-بعض نے یہ حدیث شعبہ سے،شعبہ نے جریری سے،جریری نے ابونضرہ سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں: ابوبکر نے کہا،اوریہ زیادہ صحیح ہے۔ہم سے اسے محمد بن بشار نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے شعبہ سے اور شعبہ نے جریری کے واسطہ سے ابونضرہ سے روایت کی،وہ کہتے ہیں: ابوبکر نے کہا: پھر انہوں نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی جیسی روایت ذکر کی لیکن اس میں ابوسعیدخدری کا واسطہ ذکر نہیں کیا اور یہ زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَخْرُجُ عَلَی أَصْحَابِہِ مِنْ الْمُہَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَہُمْ جُلُوسٌ فِيہِمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَلَا يَرْفَعُ إِلَيْہِ أَحَدٌ مِنْہُمْ بَصَرَہُ إِلَّا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَإِنَّہُمَا كَانَا يَنْظُرَانِ إِلَيْہِ وَيَنْظُرُ إِلَيْہِمَا وَيَتَبَسَّمَانِ إِلَيْہِ وَيَتَبَسَّمُ إِلَيْہِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَكَمِ بْنِ عَطِيَّةَ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُہُمْ فِي الْحَكَمِ بْنِ عَطِيَّةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ مہاجرین و انصار میں سے اپنے صحابہ کے پاس نکل کر آتے اور وہ بیٹھے ہوتے،ان میں ابوبکر وعمر بھی ہوتے،تو ان میں سے کوئی اپنی نگاہ آپ کی طرف نہیں اٹھاتاتھا،سوائے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے یہ دونوں آپ کو دیکھتے اور مسکراتے اور آپ ان دونوں کو دیکھتے اور مسکراتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس حدیث کو ہم صرف حکم بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳-بعض محدثین نے حکم بن عطیہ کے بارے میں کلام کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ ذَاتَ يَوْمٍ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ أَحَدُہُمَا عَنْ يَمِينِہِ وَالْآخَرُ عَنْ شِمَالِہِ وَہُوَ آخِذٌ بِأَيْدِيہِمَا وَقَالَ ہَكَذَا نُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَسَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ لَيْسَ عِنْدَہُمْ بِالْقَوِيِّ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک دن نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے،ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما میں سے ایک آپ کے دائیں جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب،اور آپ ان دونوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپ نے فرمایا: اسی طرح ہم قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-سعید بن مسلمہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں،۳-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی نافع کے واسطہ سے ابن عمر سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَی الْقَطَّانُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ حَدَّثَنِي كَثِيرٌ أَبُو إِسْمَعِيلَ عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ أَنْتَ صَاحِبِي عَلَی الْحَوْضِ وَصَاحِبِي فِي الْغَارِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے جیساکہ غارمیں میرے رفیق تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن،صحیح،غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ الْمُطَّلِبِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْطَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَأَی أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ ہَذَانِ السَّمْعُ وَالْبَصَرُ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ حَنْطَبٍ لَمْ يُدْرِكْ النَّبِيَّ ﷺ

عبداللہ بن حنطب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو فرمایا: یہ دونوں (اسلام کے) کا ن اور آنکھ ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث مرسل ہے عبداللہ بن حنطب نے نبی اکرم ﷺ کو نہیں پایا،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يُسْمِعْ النَّاسَ مِنْ الْبُكَاءِ فَأْمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ فَقَالَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَہُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يُسْمِعْ النَّاسَ مِنْ الْبُكَاءِ فَأْمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ مَا كُنْتُ لِأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي مُوسَی وَابْنِ عَبَّاسٍ وَسَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ زَمْعَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں،اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر جب آپ کی جگہ (صلاۃ پڑھانے) کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو قرأت نہیں سنا سکیں گے ۱؎،اس لیے آپ عمر کو حکم دیجئے کہ وہ صلاۃ پڑھائیں،پھر آپ نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں۔عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو میں نے حفصہ سے کہا: تم ان سے کہو کہ ابوبکر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو رونے کے سبب قرأت نہیں سناسکیں گے،اس لیے آپ عمر کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو صلاۃپڑھائیں،تو حفصہ نے (ایسا ہی) کیا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم وہی تو ہو جنہوں نے یوسف علیہ السلام کو تنگ کیا ۲؎،ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں،تو حفصہ نے عائشہ سے (بطور شکایت) کہا کہ مجھے تم سے کبھی کوئی بھلائی نہیں پہنچی۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،ابوموسیٰ اشعری،ابن عباس،سالم بن عبید اور عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ عِيسَی بْنِ مَيْمُونٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَنْبَغِي لِقَوْمٍ فِيہِمْ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّہُمْ غَيْرُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی قوم کے لیے مناسب نہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجود گی میں ان کے سوا کوئی اور ان کی امامت کرے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللہِ نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللہِ ہَذَا خَيْرٌ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ الْجِہَادِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِہَادِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَہْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا عَلَی مَنْ دُعِيَ مِنْ ہَذِہِ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ فَہَلْ يُدْعَی أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّہَا قَالَ نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑا خرچ کرے گا اسے جنت میں پکاراجائے گا کہ اے اللہ کے بندے! یہ وہ خیر ہے (جسے تیرے لیے تیار کیاگیا ہے) تو جو اہل صلاۃ میں سے ہوگا اسے صلاۃ کے دروازے سے پکارا جائے گا،اور جو اہل جہاد میں سے ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا،اورجو اہل صدقہ میں سے ہوگا اسے صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا،اورجو اہل صیام میں سے ہوگا،وہ باب ریان سے پکارا جائے گا،اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر فداہوں،اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی کو ان سارے دروازوں سے پکارا جائے (اس لیے کہ ایک دروازے سے داخل ہو جانا کافی ہے) مگر کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جو ان سبھی دروازوں سے پکارا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں،اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں میں سے ہوگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَزَّازُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ عِنْدِي مَالًا فَقُلْتُ الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُہُ يَوْمًا قَالَ فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا أَبْقَيْتَ لِأَہْلِكَ قُلْتُ مِثْلَہُ وَأَتَی أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَہُ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَبْقَيْتَ لِأَہْلِكَ قَالَ أَبْقَيْتُ لَہُمْ اللہَ وَرَسُولَہُ قُلْتُ وَاللہِ لَا أَسْبِقُہُ إِلَی شَيْءٍ أَبَدًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا،میں نے (دل میں) کہا: اگر میں ابوبکر سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا،پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا،تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: اپنے گھروالوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی (ان کے لیے بھی چھوڑا ہوں) اور ابوبکر وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا،تو آپ نے پوچھا: ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: ان کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں،میں نے (اپنے جی میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيہِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَكَلَّمَتْہُ فِي شَيْءٍ وَأَمَرَہَا بِأَمْرٍ فَقَالَتْ أَرَأَيْتَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنْ لَمْ أَجِدْكَ قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَائْتِي أَبَا بَكْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکر کسی مسئلہ میں آپ سے بات کی اور آپ نے اسے کسی بات کا حکم دیا تو وہ بولی: مجھے بتائیے اللہ کے رسول! اگر میں آپ کو نہ پاؤں؟(تو کس کے پاس جاؤں) آپ نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پانا تو ابوبکر کے پاس جانا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ قَال سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَيْنَمَا رَجُلٌ رَاكِبٌ بَقَرَةً إِذْ قَالَتْ لَمْ أُخْلَقْ لِہَذَا إِنَّمَا خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ آمَنْتُ بِذَلِكَ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَمَا ہُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس دوران کہ ایک شخص ایک گائے پر سوار تھا اچانک وہ گائے بول پڑی کہ میں اس کے لیے نہیں پیدا کی گئی ہوں،میں تو کھیت جو تنے کے لیے پیدا کی گئی ہوں(یہ کہہ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا اس پر ایمان ہے اور ابوبکر وعمر کا بھی،ابوسلمہ کہتے ہیں: حالاں کہ وہ دونوں اس دن وہاں لوگوں میں موجود نہیں تھے،واللہ اعلم ۱؎۔ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے شعبہ نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی اکرم ﷺ نے (مسجد کی طرف کھلنے والے) سارے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۲-اس باب میں ابوسعید خدری سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يَحْيَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَمِّہِ إِسْحَقَ بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَنْتَ عَتِيقُ اللہِ مِنْ النَّارِ فَيَوْمَئِذٍ سُمِّيَ عَتِيقًا ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَعْنٍ وَقَالَ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیاگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-بعض راویوں نے یہ حدیث معن سے روایت کی ہے اور سند میں عن موسی بن طلحۃ عن عائشۃ کہا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا تَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا لَہُ وَزِيرَانِ مِنْ أَہْلِ السَّمَاءِ وَوَزِيرَانِ مِنْ أَہْلِ الْأَرْضِ فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَہْلِ السَّمَاءِ فَجِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَہْلِ الْأَرْضِ فَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُہُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ وَيُرْوَی عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا وَتَلِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُكْنَی أَبَا إِدْرِيسَ وَہُوَ شِيعِيٌّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں،رہے میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے تو وہ جبرئیل اور میکائیل علیہماالسلام ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حدیث حسن غریب ہے،۲-اور ابوالجحاف کانام داود بن ابوعوف ہے،سفیان ثوری سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوالجحاف نے بیان کیا (اوروہ ایک پسندیدہ شخص تھے)۳-اور تلیدبن سلیمان کی کنیت ابوادریس ہے اور یہ اہل تشیع میں سے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللہِ ﷺ جَيْشًا وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْہِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَمَضَی فِي السَّرِيَّةِ فَأَصَابَ جَارِيَةً فَأَنْكَرُوا عَلَيْہِ وَتَعَاقَدَ أَرْبَعَةٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالُوا إِذَا لَقِينَا رَسُولَ اللہِ ﷺ أَخْبَرْنَاہُ بِمَا صَنَعَ عَلِيٌّ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِذَا رَجَعُوا مِنْ السَّفَرِ بَدَءُوا بِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَسَلَّمُوا عَلَيْہِ ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَی رِحَالِہِمْ فَلَمَّا قَدِمَتْ السَّرِيَّةُ سَلَّمُوا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَامَ أَحَدُ الْأَرْبَعَةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَلَمْ تَرَ إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَنَعَ كَذَا وَكَذَا فَأَعْرَضَ عَنْہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثُمَّ قَامَ الثَّانِي فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِہِ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِہِ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالُوا فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالْغَضَبُ يُعْرَفُ فِي وَجْہِہِ فَقَالَ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ مَا تُرِيدُونَ مِنْ عَلِيٍّ إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ وَہُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ(لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا،چنانچہ وہ اس سریہ(لشکر) میں گئے،پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کرلیا ۱؎ لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیاہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے،اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ ﷺ سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے،پھر اپنے گھروں کو جاتے،چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیااور لوگوں نے آپ کوسلام کیا توان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اورا س نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کومعلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا،پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی توآپ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا،پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی،تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیر لیا،پھر چوتھا شخص کھڑا ہواتو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔آپ نے فرمایا: تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیاچاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیاچاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ۱؎ اور وہ دوست ہیں ہراس مومن کاجو میرے بعدآئے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف جعفر بن سلیمان کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَرِيحَةَ أَوْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ شَكَّ شُعْبَةُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللہِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَأَبُو سَرِيحَةَ ہُوَ حُذَيْفَةُ بْنُ أَسِيدٍ الْغِفَارِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ ﷺ

ابوسریحہ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبداللہ سے اور میمون نے زید بن ارقم سے،انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے،اور ابوسریحہ نبی اکرم ﷺ کے صحابی حذیفہ بن اسید غفاری ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَتَّابٍ سَہْلُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَحِمَ اللہُ أَبَا بَكْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَہُ وَحَمَلَنِي إِلَی دَارِ الْہِجْرَةِ وَأَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِہِ رَحِمَ اللہُ عُمَرَ يَقُولُ الْحَقَّ وَإِنْ كَانَ مُرًّا تَرَكَہُ الْحَقُّ وَمَا لَہُ صَدِيقٌ رَحِمَ اللہُ عُثْمَانَ تَسْتَحْيِيہِ الْمَلَائِكَةُ رَحِمَ اللہُ عَلِيًّا اللہُمَّ أَدِرْ الْحَقَّ مَعَہُ حَيْثُ دَارَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْمُخْتَارُ بْنُ نَافِعٍ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ التَّيْمِيُّ كُوفِيٌّ وَہُوَ ثِقَةٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے،انہوں نے اپنی لڑکی سے میری شادی کردی اور مجھے دارلہجرۃ (مدینہ) لے کر آئے اوربلال کو اپنے مال سے (خرید کر) آزاد کیا،اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے وہ حق بات کہتے ہیں،اگر چہ وہ کڑوی ہو،حق نے انہیں ایسے حال میں چھوڑا ہے کہ (اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ) ان کا کوئی دوست نہیں،اللہ عثمان پر رحم کرے ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں،اللہ علی پر رحم فرمایے،اے اللہ! حق کو ان کے ساتھ پھیر جہاں وہ پھریں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-مختار بن نافع کثیر الغرائب اوربصری شیخ ہیں،۳-ابوحیان تیمی کانام یحییٰ بن سعید بن حیان تیمی ہے اور یہ کوفی ہیں اور ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ شَرِيكٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بِالرَّحَبِيَّةِ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إِلَيْنَا نَاسٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فِيہِمْ سُہَيْلُ بْنُ عَمْرٍو وَأُنَاسٌ مِنْ رُؤَسَاءِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ خَرَجَ إِلَيْكَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا وَإِخْوَانِنَا وَأَرِقَّائِنَا وَلَيْسَ لَہُمْ فِقْہٌ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا خَرَجُوا فِرَارًا مِنْ أَمْوَالِنَا وَضِيَاعِنَا فَارْدُدْہُمْ إِلَيْنَا قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَہُمْ فِقْہٌ فِي الدِّينِ سَنُفَقِّہُہُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَتَنْتَہُنَّ أَوْ لَيَبْعَثَنَّ اللہُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ بِالسَّيْفِ عَلَی الدِّينِ قَدْ امْتَحَنَ اللہُ قَلْبَہُ عَلَی الْإِيمَانِ قَالُوا مَنْ ہُوَ يَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ لَہُ أَبُو بَكْرٍ مَنْ ہُوَ يَا رَسُولَ اللہِ وَقَالَ عُمَرُ مَنْ ہُوَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ ہُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ وَكَانَ أَعْطَی عَلِيًّا نَعْلَہُ يَخْصِفُہَا ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ رِبْعِيٍّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَہْدِيٍّ يَقُولُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ أَثْبَتُ أَہْلِ الْكُوفَةِ

ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے رحبیہ(مخصوص بیٹھک) میں بیان کیا،حدیبیہ کے دن مشرکین میں سے کچھ لوگ ہماری طرف نکلے،ان میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کچھ اور سردار بھی تھے یہ سب آکر کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہمارے بیٹوں،بھائیوں اور غلاموں میں سے کچھ آپ کی طرف نکل کر آگئے ہیں،انہیں دین کی سمجھ نہیں وہ ہمارے مال اور سامانوں کے درمیان سے بھاگ آئے ہیں،آپ انہیں واپس کردیجئے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے گروہ قریش! تم اپنی نفسیانیت سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ایسے شخص کو بھیجے گا جو تمہاری گردنیں اسی دین کی خاطرتلوار سے اڑائے گا،اللہ نے اس کے دل کو ایمان کے لیے جانچ لیا ہے،لوگوں نے عرض کیا: وہ کون شخص ہے؟ اللہ کے رسول! اور آپ سے ابوبکر نے بھی پوچھا: وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ اور عمر نے بھی کہ وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: وہ جوتی ٹانکنے والا ہے،اور آپ نے علی کو اپنا جوتا دے رکھا تھا،وہ اسے ٹانک رہے تھے،(راوی کہتے ہیں:) پھر علی ہماری جانب متوجہ ہوئے اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: جو میرے اوپر جھوٹ باندھے اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنالے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے اس سند سے صرف ربعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی سے روایت کرتے ہیں،۲-میں نے جارود سے سنا وہ کہہ رہے تھے: میں نے وکیع کو کہتے ہوئے سنا کہ ربعی بن حراش نے اسلام میں کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا،۳-اور مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے خبردی اور وہ عبداللہ بن ابی اسود سے روایت کررہے تھے،وہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی کو کہتے سنا: منصور بن معتمر اہل کوفہ میں سب سے ثقہ آدمی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ وَہُوَ أَبُو الْيَقْظَانِ عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا أَظَلَّتْ الْخَضْرَاءُ وَلَا أَقَلَّتْ الْغَبْرَاءُ أَصْدَقَ مِنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَبِي ذَرٍّ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر کسی کو پناہ دی جو ابوذر رضی اللہ عنہ سے زیادہ سچا ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوالدرداء اور ابوذر سے حدیثیں آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ ہُوَ سِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا أَظَلَّتْ الْخَضْرَاءُ وَلَا أَقَلَّتْ الْغَبْرَاءُ مِنْ ذِي لَہْجَةٍ أَصْدَقَ وَلَا أَوْفَی مِنْ أَبِي ذَرٍّ شِبْہِ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْہِ السَّلَام فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ كَالْحَاسِدِ يَا رَسُولَ اللہِ أَفَتَعْرِفُ ذَلِكَ لَہُ قَالَ نَعَمْ فَاعْرِفُوہُ لَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ يَمْشِي فِي الْأَرْضِ بِزُہْدِ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْہِ السَّلَام

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے کسی کو پناہ دی جو ابوذر سے-جو عیسیٰ بن مریم کے مشابہ ہیں-زیادہ زبان کا سچا اور اس کا پاس ولحاظ رکھنے والاہو،یہ سن کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رشک کے انداز میں بولے: اللہ کے رسول! کیا ہم یہ بات انہیں بتادیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،بتادو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اور بعضوں نے اس حدیث کوروایت کیا ہے اس میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ابوذر زمین پر عیسیٰ بن مریم کی زاہدانہ چال چلتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ فَرَضَ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ وَخَمْسِ مِائَةٍ وَفَرَضَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ فِي ثَلَاثَةِ آلَافٍ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ لِأَبِيہِ لِمَ فَضَّلْتَ أُسَامَةَ عَلَيَّ فَوَاللہِ مَا سَبَقَنِي إِلَی مَشْہَدٍ قَالَ لِأَنَّ زَيْدًا كَانَ أَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْ أَبِيكَ وَكَانَ أُسَامَةُ أَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْكَ فَآثَرْتُ حُبَّ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَلَی حُبِّي قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

اسلم عدوی مولیٰ عمرسے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے لیے بیت المال سے ساڑھے تین ہزار کا،وظیفہ مقرر کیا،اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے تین ہزار کا تو عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ سے عرض کیا: آپ نے اسامہ کو مجھ پر ترجیح دی؟ اللہ کی قسم! وہ مجھ سے کسی غزوہ میں آگے نہیں رہے،تو انہوں نے کہا: اس لیے کہ زید رسول اللہ ﷺ کو تمہارے باپ سے اور اسامہ تم سے زیادہ محبوب تھے،اس لیے میں نے رسول اللہ ﷺ کے محبوب کو اپنے محبوب پر ترجیح دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ مَا كُنَّا نَدْعُو زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلَّا زَيْدَ ابْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّی نَزَلَتْ ادْعُوہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمد ہی کہہ کر پکارتے تھے یہاں تک کہ آیت کریمہ ادْعُوہُمْ لآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَخْلَدٍ الْبَصْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الرُّومِيِّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي جَبَلَةُ بْنُ حَارِثَةَ أَخُو زَيْدٍ قَالَ قَدِمْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ ابْعَثْ مَعِي أَخِي زَيْدًا قَالَ ہُوَ ذَا قَالَ فَإِنْ انْطَلَقَ مَعَكَ لَمْ أَمْنَعْہُ قَالَ زَيْدٌ يَا رَسُولَ اللہِ وَاللہِ لَا أَخْتَارُ عَلَيْكَ أَحَدًا قَالَ فَرَأَيْتُ رَأْيَ أَخِي أَفْضَلَ مِنْ رَأْيِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ الرُّومِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْہِرٍ

زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بھائی جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورمیں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئے،آپ نے فرمایا: وہ موجود ہیں اگر تمہارے ساتھ جانا چاہ رہے ہیں تو میں انہیں نہیں روکوں گا،یہ سن کر زید نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں آپ کے مقابلہ میں کسی اور کو اختیارنہیں کرسکتا،جبلہ کہتے ہیں: تو میں نے دیکھا کہ میرے بھائی کی رائے میری رائے سے افضل تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف ابن رومی کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ علی بن مسہر سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَعَثَ بَعْثًا وَأَمَّرَ عَلَيْہِمْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ فَطَعَنَ النَّاسُ فِي إِمْرَتِہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنْ تَطْعَنُوا فِي إِمْرَتِہِ فَقَدْ كُنْتُمْ تَطْعَنُونَ فِي إِمْرَةِ أَبِيہِ مِنْ قَبْلُ وَايْمُ اللہِ إِنْ كَانَ لَخَلِيقًا لِلْإِمَارَةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ وَإِنَّ ہَذَا مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ بَعْدَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس کا امیر اسامہ بن زید کو بنایا تو لوگ ان کی امارت پر تنقید کرنے لگے چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر تم ان کی امارت میں طعن کرتے ہو تو اس سے پہلے ان کے باپ کی امارت پر بھی طعن کرچکے ہو ۱؎،قسم اللہ کی! وہ (زید) امارت کے مستحق تھے اور وہ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھے،اور ان کے بعد یہ بھی (اسامہ) لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔عبداللہ بن دینار نے عمر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مالک بن انس کی حدیث ہی جیسی حدیث روایت کی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ ذَكْوَانَ أَبَا صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلَا نَصِيفَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ نَصِيفَہُ يَعْنِي نِصْفَ مُدِّہِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَكَانَ حَافِظًا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِیِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ہم سے حسن بن خلال نے بیان کیا اور وہ حافظ تھے،وہ کہتے ہیں: ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا اور ابومعاویہ نے اعمش سے،اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوسعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اللہَ اللہَ فِي أَصْحَابِي اللہَ اللہَ فِي أَصْحَابِي لَا تَتَّخِذُوہُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّہُمْ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَہُمْ وَمَنْ آذَاہُمْ فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَی اللہَ وَمَنْ آذَی اللہَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو،اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے معاملہ میں،اللہ سے ڈرو،اللہ سے ڈرو،میرے صحابہ کے معاملہ میں،اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا،جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا،جس نے انہیں ایذاء پہنچا ئی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی،اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانُ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ خِدَاشٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مَنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ إِلَّا صَاحِبَ الْجَمَلِ الْأَحْمَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی بیعت رضوان میں شریک رہے) وہ ضرور جنت میں داخل ہوں گے،سوائے سرخ اونٹ والے کے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عَبْدًا لِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ جَاءَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ يَشْكُو حَاطِبًا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ لَيَدْخُلَنَّ حَاطِبٌ النَّارَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُہَا فَإِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر حاطب کی شکایت کرنے لگا،اس نے کہا: اللہ کے رسول! حاطب ضرور جہنم میں جائیں گے،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے غلط کہا وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے،کیوں کہ وہ بدر اور حدیبیہ دونوں میں موجود رہے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ نَاجِيَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ أَبِي طَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي يَمُوتُ بِأَرْضٍ إِلَّا بُعِثَ قَائِدًا وَنُورًا لَہُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ أَبِي طَيْبَةَ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَہُوَ أَصَحُّ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ میں سے جو بھی کسی سرزمین پر مرے گا تو وہ قیامت کے دن اس سرزمین والوں کا پیشوا اور ان کے لیے نور بنا کر اٹھایا جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-یہ حدیث عبداللہ بن مسلم ابوطیبہ سے مروی ہے اور انہوں نے اسے بریدہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے،اور یہ زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ عُمَرَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا لَعْنَةُ اللہِ عَلَی شَرِّكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالنَّضْرُ مَجْہُولٌ وَسَيْفٌ مَجْہُولٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم ایسے لوگوں کودیکھو جو میرے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو: اللہ کی لعنت ہوتمہارے شر پر۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے،ہم اسے عبیداللہ بن عمر(عمری) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور نضر اور سیف دونوں مجہول راوی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ التَّمِيمِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ جِئْتُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ قَالَ فَرَآنِي مُقْبِلًا فَقَالَ ہُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَقُلْتُ مَا لِي لَعَلَّہُ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ قُلْتُ مَنْ ہُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہُمْ الْأَكْثَرُونَ إِلَّا مَنْ قَالَ ہَكَذَا وَہَكَذَا وَہَكَذَا فَحَثَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَعَنْ يَمِينِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَہَا إِلَّا جَاءَتْہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَہُ تَطَؤُہُ بِأَخْفَافِہَا وَتَنْطَحُہُ بِقُرُونِہَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاہَا عَادَتْ عَلَيْہِ أُولَاہَا حَتَّی يُقْضَی بَيْنَ النَّاسِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مِثْلُہُ وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ لُعِنَ مَانِعُ الصَّدَقَةِ وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ہُلْبٍ عَنْ أَبِيہِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاسْمُ أَبِي ذَرٍّ جُنْدَبُ بْنُ السَّكَنِ وَيُقَالُ ابْنُ جُنَادَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ الدَّيْلَمِ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ مُزَاحِمٍ قَالَ الْأَكْثَرُونَ أَصْحَابُ عَشَرَةِ آلَافٍ قَالَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مُنِيرٍ مَرْوَزِيٌّ رَجُلٌ صَالِحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا،آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھاتوفرمایا: رب کعبہ کی قسم! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے ۲؎ میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔میں نے عرض کیا: کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں؟تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہی لوگ جوبہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جوایسا ایساکرے-آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھرکراپنے سامنے اوراپنے دائیں اوراپنے بائیں طرف اشارہ کیا-پھرفرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،جوبھی آدمی اونٹ اور گائے چھو ڑ کرمرااوراس نے اس کی زکاۃ ادانہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہوکر آئیں گے جتناوہ تھے ۳؎ اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے،اوراپنی سینگوں سے ماریں گے،جب ان کاآخری جانور بھی گزرچکے گاتو پھر پہلالوٹادیا جائے گا ۴؎ یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت ہے،۳-علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زکاۃ روک لینے والے پر لعنت کی گئی ہے ۵؎،۴-(یہ حدیث) قبیصہ بن ہلب نے اپنے والدہلب سے روایت کی ہے،نیزجابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۵-ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ الأکثرون سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس دس ہزار (درہم یا دینار) ہوں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ التِّنِّيسِيُّ عَنْ صَدَقَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ مُوسَی بْنِ يَسَارٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي الْعَسَلِ فِي كُلِّ عَشَرَةِ أَزُقٍّ زِقٌّ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَيَّارَةَ الْمُتَعِيِّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ فِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ وَلَا يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ كَبِيرُ شَيْءٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ فِي الْعَسَلِ شَيْءٌ وَصَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ لَيْسَ بِحَافِظٍ وَقَدْ خُولِفَ صَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ نَافِعٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شہد میں ہردس مشک پر ایک مشک زکاۃ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابوہریرہ،ابوسیارہ متعی اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۲-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی سند میں کلام ہے ۱؎ نبی اکرمﷺ سے اس باب میں کچھ زیادہ صحیح چیزیں مروی نہیں اوراسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ شہد میں کوئی زکاۃ نہیں ۲؎،۴-صدقہ بن عبداللہ حافظ نہیں ہیں۔نافع سے اس حدیث کو روایت کرنے میں صدقہ بن عبداللہ کی مخالفت کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ سَأَلَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ صَدَقَةِ الْعَسَلِ قَالَ قُلْتُ مَا عِنْدَنَا عَسَلٌ نَتَصَدَّقُ مِنْہُ وَلَكِنْ أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ حَكِيمٍ أَنَّہُ قَالَ لَيْسَ فِي الْعَسَلِ صَدَقَةٌ فَقَالَ عُمَرُ عَدْلٌ مَرْضِيٌّ فَكَتَبَ إِلَی النَّاسِ أَنْ تُوضَعَ يَعْنِي عَنْہُمْ

نافع کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبدالعزیزنے شہد کی زکاۃ کے بارے میں پوچھاتومیں نے کہاکہ ہمارے پاس شہدنہیں کہ ہم اس کی زکاۃ دیں،لیکن ہمیں مغیرہ بن حکیم نے خبردی ہے کہ شہد میں زکاۃ نہیں ہے۔تو عمربن عبدالعزیزنے کہا: یہ مبنی بر عدل اورپسندیدہ بات ہے۔چنانچہ انہوں نے لوگوں کو لکھا کہ ان سے شہد کی زکاۃ معاف کردی جائے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ الْعَامِلُ عَلَی الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللہِ حَتَّی يَرْجِعَ إِلَی بَيْتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَيَزِيدُ بْنُ عِيَاضٍ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ أَصَحُّ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: صحیح ڈھنگ سے صدقہ وصول کرنے والا،اللہ کی راہ میں لڑنے والے غازی کی طرح ہے،جب تک کہ وہ اپنے گھر لوٹ نہ آئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور یزید بن عیاض محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں،۳-محمد بن اسحاق کی یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ ﷺ فَأَخَذَ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَجَعَلَہَا فِي فُقَرَائِنَا وَكُنْتُ غُلَامًا يَتِيمًا فَأَعْطَانِي مِنْہَا قَلُوصًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہﷺ کا مصدق(زکاۃ وصول کرنے والا) آیا اوراس نے زکاۃ ہمارے مال داروں سے لی اوراسے ہمارے فقراء کو دے دیا۔میں اس وقت ایک یتیم لڑکا تھا،تواس نے مجھے بھی اس میں سے ایک اونٹنی دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوجحیفہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَہَا فَكَثُرَ دَيْنُہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَصَدَّقُوا عَلَيْہِ فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْہِ فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِغُرَمَائِہِ خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَجُوَيْرِيَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک شخص ۱؎ کے پھلوں میں جو اس نے خریدے تھے،کسی آفت کی وجہ سے جو اسے لاحق ہوئی نقصان ہوگیااور اس پر قرض زیادہ ہوگیا،تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے صدقہ دو چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا،مگروہ اس کے قرض کی مقدار کو نہ پہنچا،تو رسول اللہﷺ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا: جتنا مل رہاہے لے لو،اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،جویریہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ الْمُلَائِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَأُتِيَ بِشَاةٍ مَصْلِيَّةٍ فَقَالَ كُلُوا فَتَنَحَّی بَعْضُ الْقَوْمِ فَقَالَ إِنِّي صَائِمٌ فَقَالَ عَمَّارٌ مَنْ صَامَ الْيَوْمَ الَّذِي يَشُكُّ فِيہِ النَّاسُ فَقَدْ عَصَی أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَمَّارٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ كَرِہُوا أَنْ يَصُومَ الرَّجُلُ الْيَوْمَ الَّذِي يُشَكُّ فِيہِ وَرَأَی أَكْثَرُہُمْ إِنْ صَامَہُ فَكَانَ مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ أَنْ يَقْضِيَ يَوْمًا مَكَانَہُ

صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ ایک بھنی ہوئی بکری لائی گئی تو انہوں نے کہا: کھاؤ۔یہ سن کرایک صاحب الگ گوشے میں ہوگئے اور کہا: میں صائم ہوں،اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے کسی ایسے دن صوم رکھا جس میں لوگوں کوشبہ ہو ۱؎ (کہ رمضان کا چاند ہوا ہے یا نہیں) اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اورانس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہے،۳-صحابہ کرام اوران کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہی سفیان ثوری،مالک بن انس،عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمداور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ان لوگوں نے اس دن صوم رکھنے کو مکروہ قراردیا ہے جس میں شبہ ہو،(کہ رمضان کاچاند ہوا ہے یانہیں) اور ان میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اگروہ اس دن صوم رکھے اوروہ ماہ رمضان کادن ہوتووہ اس کے بدلے ایک دن کی قضاکرے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْہُ إِلَی مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ قَالَ فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَہَا وَاسْتُہِلَّ عَلَيَّ ہِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ فَرَأَيْنَا الْہِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّہْرِ فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْہِلَالَ فَقَالَ مَتَی رَأَيْتُمْ الْہِلَالَ فَقُلْتُ رَأَيْنَاہُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَأَنْتَ رَأَيْتَہُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فَقُلْتُ رَآہُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ قَالَ لَكِنْ رَأَيْنَاہُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّی نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاہُ فَقُلْتُ أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِہِ قَالَ لَا ہَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَہْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَہُمْ

کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا،تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی،اور(اسی درمیان) رمضان کاچاند نکل آیا،اورمیں شام ہی میں تھاکہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ۱؎،پھر میں مہینے کے آخرمیں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاندکا ذکرکیا اورکہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھاتھا؟ میں نے کہا: ہم نے اُسے جمعہ کی رات کو دیکھاتھا،توانہوں نے کہا: کیاتم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھاتھا؟تومیں نے کہا: لوگوں نے اسے دیکھااورانہوں نے صیام رکھے اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی صوم رکھا،اس پرابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیکن ہم نے اسے ہفتہ (سنیچر) کی رات کو دیکھا،تو ہم برابرصوم سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کرلیں،یاہم ۲۹کا چانددیکھ لیں،تومیں نے کہا: کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اورصوم رکھنے پر اکتفانہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں،ہمیں رسول اللہﷺ نے ایساہی حکم دیاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خودچانددیکھنے کااعتبارہوگا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْہِ صِيَامُ شَہْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْہُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالصَّحِيحُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفٌ قَوْلُہُ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا الْبَابِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ يُصَامُ عَنْ الْمَيِّتِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَا إِذَا كَانَ عَلَی الْمَيِّتِ نَذْرُ صِيَامٍ يَصُومُ عَنْہُ وَإِذَا كَانَ عَلَيْہِ قَضَاءُ رَمَضَانَ أَطْعَمَ عَنْہُ و قَالَ مَالِكٌ وَسُفْيَانُ وَالشَّافِعِيُّ لَا يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ قَالَ وَأَشْعَثُ ہُوَ ابْنُ سَوَّارٍ وَمُحَمَّدٌ ہُوَ عِنْدِي ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو اس حالت میں مرے کہ اس پر ایک ماہ کا صوم باقی ہو تو اس کی طرف سے ہردن کے بدلے ایک مسکین کوکھانا کھلایا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کوہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،۲-صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمرسے موقوف ہے یعنی انہیں کا قول ہے،۳-اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے صیام رکھے جائیں گے۔یہ قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔یہ دونوں کہتے ہیں: جب میت پر نذروالے صیام ہوں تو اس کی طرف سے صوم رکھا جائے گا،اور جب اس پر رمضان کی قضا واجب ہو تو اس کی طرف سے مسکینوں اورفقیروں کو کھانا کھلایاجائے گا،مالک،سفیان اور شافعی کہتے ہیں کہ کوئی کسی کی طرف سے صوم نہیں رکھے گا۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ،حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ،عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:مَنْ أَكَلَ أَوْ شَرِبَ نَاسِيًا فَلاَ يُفْطِرْ فَإِنَّمَا ہُوَ رِزْقٌ رَزَقَہُ اللہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے بھول کرکچھ کھاپی لیا،وہ صوم نہ توڑے،یہ روزی ہے جو اللہ نے اُسے دی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ،حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ،عَنْ عَوْفٍ،عَنْ ابْنِ سِيرِينَ وَخَلاَّسٍ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ أَوْ نَحْوَہُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأُمِّ إِسْحَاقَ الْغَنَوِيَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ،وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،وَالشَّافِعِيُّ،وَأَحْمَدُ،وَإِسْحَاقُ،وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِذَا أَكَلَ فِي رَمَضَانَ نَاسِيًا فَعَلَيْہِ الْقَضَاءُ وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ

اس سند سے بھی ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری اورام اسحاق غنویہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۴-مالک بن انس کہتے ہیں کہ جب کوئی رمضان میں بھول کر کھاپی لے توا س پرصیام کی قضا لازم ہے،پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ عَلَی ہَذَا اللَّفْظِ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ مُفْطِرًا فَإِذَا بَقِيَ مِنْ شَعْبَانَ شَيْءٌ أَخَذَ فِي الصَّوْمِ لِحَالِ شَہْرِ رَمَضَانَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مَا يُشْبِہُ قَوْلَہُمْ حَيْثُ قَالَ ﷺ لَا تَقَدَّمُوا شَہْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُہُ أَحَدُكُمْ وَقَدْ دَلَّ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّمَا الْكَرَاہِيَةُ عَلَی مَنْ يَتَعَمَّدُ الصِّيَامَ لِحَالِ رَمَضَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب آدھا شعبان رہ جائے تو صوم نہ رکھو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ہم اسے ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲-اوراس حدیث کا مفہوم بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی پہلے سے صوم نہ رکھ رہاہو،پھر جب شعبان ختم ہونے کے کچھ دن باقی رہ جائیں توماہ رمضان کی تعظیم میں صوم رکھنا شروع کردے۔نیزابوہریرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے وہ چیزیں روایت کی ہے جو ان لوگوں کے قول سے ملتاجلتاہے جیساکہ آپ ﷺ نے فرمایا: ماہ رمضان کے استقبال میں پہلے سے صوم نہ رکھو اس کے کہ ان ایام میں کوئی ایسا صوم پڑجائے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کراہت اس شخص کے لئے ہے جوعمداً رمضان کی تعظیم میں صوم رکھے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَصُومُ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا أَنْ يَصُومَ قَبْلَہُ أَوْ يَصُومَ بَعْدَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَجُنَادَةَ الْأَزْدِيِّ وَجُوَيْرِيَةَ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَكْرَہُونَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَخْتَصَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ لَا يَصُومُ قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی جمعہ کے دن صوم نہ رکھے،إلا یہ کہ وہ اس سے پہلے یااس کے بعدبھی صوم رکھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،جابر،جنادہ ازدی،جویریہ،انس اور عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔یہ لوگ آدمی کے لئے مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ جمعہ کے دن کو صوم کے لیے مخصوص کرلے،نہ اس سے پہلے صوم رکھے اور نہ اس کے بعد۔احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ وضاحت ۱؎: اس ممانعت کی وجہ کیا ہے،اس سلسلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں،سب سے صحیح وجہ اس کایوم عیدہونا ہے،اس کی صراحت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں ہے جس کی تخریج حاکم وغیرہ نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے یوم الجمعۃ یوم عید فلا تجعلوا یوم عیدکم صیامکم إلا أن تصوموا قبلہ وبعدہجمعہ کا دن عیدکادن ہے،اس لیے اپنے عیدوالے دن صوم نہ رکھاکرو،إلا یہ کہ اس سے ایک دن قبل-جمعرات کابھی-صوم رکھویا اس سے ایک دن بعد سنیچرکے دن کا بھی۔ اورابن ابی شیبہ نے بھی اسی مفہوم کی ایک حدیث علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جس کی سند حسن ہے اس کے الفاظ یہ ہیںمن کان منکم متطوعاً من الشہر فلیصم یوم الخمیس ولا یصم یوم الجمعۃ فإنہ یوم طعام وشراب تم میں سے جوکوئی کسی مہینے کے نفلی صیام رکھ رہا ہو،وہ جمعرات کے دن کا صوم رکھے،جمعہ کے دن کا صوم نہ رکھے،اس لیے کہ یہ کھانے پینے کا دن ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُرَيْرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْہِ قَالَا حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا ہَارُونُ بْنُ سَلْمَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ صِيَامِ الدَّہْرِ فَقَالَ إِنَّ لِأَہْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا صُمْ رَمَضَانَ وَالَّذِي يَلِيہِ وَكُلَّ أَرْبِعَاءَ وَخَمِيسٍ فَإِذَا أَنْتَ قَدْ صُمْتَ الدَّہْرَ وَأَفْطَرْتَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ ہَارُونَ بْنِ سَلْمَانَ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ

مسلم قرشی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے صیام دہر (سال بھرکے صیام) کے بارے میں پوچھا،یا آپ سے صیام دہرکے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: تم پر تمہارے گھروالوں کابھی حق ہے،رمضان کے صیام رکھو،اور اس مہینے کے رکھو جو اس سے متصل ہے،اور ہربدھ اور جمعرات کے صیام رکھو،جب تم نے یہ صیام رکھ لئے،تو اب گویاتم نے سال بھر صوم رکھا اور افطار کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-مسلم قرشی رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲-بعض لوگوں نے بطریق ہارون بن سلمان عن مسلم بن عبیداللہ عن عبیداللہ بن مسلم روایت کی ہے،۳-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْبَدٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَی اللہِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَہِنْدِ بْنِ أَسْمَاءَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيِّ عَنْ عَمِّہِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ ذَكَرُوا عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ حَثَّ عَلَی صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی لَا نَعْلَمُ فِي شَيْءٍ مِنْ الرِّوَايَاتِ أَنَّہُ قَالَ صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ كَفَّارَةُ سَنَةٍ إِلَّا فِي حَدِيثِ أَبِي قَتَادَةَ وَبِحَدِيثِ أَبِي قَتَادَةَ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں اللہ سے امیدرکھتاہوں کہ عاشوراء ۱؎ کے دن کا صوم ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں علی،محمد بن صیفی،سلمہ بن الاکوع،ہند بن اسماء،ابن عباس،ربیع بنت معوذ بن عفراء،عبدالرحمٰن بن سلمہ خزاعی،جنہوں نے اپنے چچا سے روایت کی ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،رسول اللہﷺنے عاشوراء کے دن کے صوم رکھنے پر ابھارا،۲-ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے علاوہ ہم نہیں جانتے کہ کسی اور روایت میں آپ نے یہ فرمایاہو کہ عاشوراء کے دن کا صوم ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔احمد اور اسحاق کا قول بھی ابوقتادہ کی حدیث کے مطابق ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ وَعُمْرَةَ الثَّانِيَةِ مِنْ قَابِلٍ وَعُمْرَةَ الْقَضَاءِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةَ الثَّالِثَةِ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ وَالرَّابِعَةِ الَّتِي مَعَ حَجَّتِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی ابْنُ عُيَيْنَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے چار عمرے کئے: حدیبیہ کاعمرہ،دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضا کا عمرہ،تیسرا عمرہ جعرانہ ۱؎ کا،چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں انس،عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ابن عیینہ نے بسندعمروبن دینا رعن عکرمہ روایت کی کہ نبی اکرمﷺ نے چارعمرے کئے،اس میں عکرمہ نے ابن عباس کاذکرنہیں کیا ہے،پھرترمذی نے اپنی سندسے اسے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ ... آگے اسی طرح کی حدیث ذکرکی۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَاءَةً عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَفْرَدَ الْحَجَّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حج افراد ۱؎ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ نُبَيْہِ بْنِ وَہْبٍ قَالَ أَرَادَ ابْنُ مَعْمَرٍ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَہُ فَبَعَثَنِي إِلَی أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَہُوَ أَمِيرُ الْمَوْسِمِ بِمَكَّةَ فَأَتَيْتُہُ فَقُلْتُ إِنَّ أَخَاكَ يُرِيدُ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَہُ فَأَحَبَّ أَنْ يُشْہِدَكَ ذَلِكَ قَالَ لَا أُرَاہُ إِلَّا أَعْرَابِيًّا جَافِيًا إِنَّ الْمُحْرِمَ لَا يَنْكِحُ وَلَا يُنْكَحُ أَوْ كَمَا قَالَ ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ عُثْمَانَ مِثْلَہُ يَرْفَعُہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ وَمَيْمُونَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَابْنُ عُمَرَ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ فُقَہَاءِ التَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْمُحْرِمُ قَالُوا فَإِنْ نَكَحَ فَنِكَاحُہُ بَاطِلٌ

نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی چاہی،توانہوں نے مجھے ابان بن عثمان کے پاس بھیجا،وہ مکہ میں امیر حج تھے۔میں ان کے پاس آیا اورمیں نے ان سے کہا: آپ کے بھائی اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں،توانہوں نے کہا: میں انہیں ایک گنواراعرابی سمجھتاہوں،محرم نہ خود نکاح کرسکتا اور نہ کسی کا نکاح کراسکتاہے-أو کما قال-پھر انہوں نے(اپنے والد) عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے اسی کے مثل بیان کیا،وہ اسے مرفوع روایت کر رہے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابورافع اور میمونہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض صحابہ کرام جن میں عمربن خطاب،علی بن ابی طالب اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں اسی پر عمل ہے،اوریہی بعض تابعین فقہا ء کابھی قول ہے اور مالک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔یہ لوگ محرم کے لیے نکاح کرناجائز نہیں سمجھتے،ان لوگوں کاکہناہے کہ اگرمحرم نے نکاح کرلیا تواس کا نکاح باطل ہوگا ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَيْمُونَةَ وَہُوَ حَلَالٌ وَبَنَی بِہَا وَہُوَ حَلَالٌ وَكُنْتُ أَنَا الرَّسُولَ فِيمَا بَيْنَہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَہُ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ رَبِيعَةَ وَرَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ رَبِيعَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَہُوَ حَلَالٌ رَوَاہُ مَالِكٌ مُرْسَلًا قَالَ وَرَوَاہُ أَيْضًا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ رَبِيعَةَ مُرْسَلًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَرُوِي عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہُوَ حَلَالٌ وَيَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ ہُوَ ابْنُ أُخْتِ مَيْمُونَةَ

ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میمونہ سے نکاح کیا اور آپ حلال تھے پھران کے خلوت میں گئے تب بھی آپ حلال تھے،اور میں ہی آپ دونوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اورہم حمادبن زیدکے علاوہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے مطرورّاق کے واسطے سے ربیعہ سے مسنداً روایت کیاہو،۳-اورمالک بن انس نے ربیعہ سے،اورربیعہ نے سلیمان بن یسار سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔اسے مالک نے مرسلا ً روایت کیا ہے،اور سلیمان بن ہلال نے بھی اسے ربیعہ سے مرسلا ً روایت کیا ہے،۴-یزید بن اصم ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے شادی کی اور آپ حلال تھے یعنی محرم نہیں تھے۔یزید بن اصم میمونہ کے بھانجے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْمُہَزِّمِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ فَاسْتَقْبَلَنَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ فَجَعَلْنَا نَضْرِبُہُ بِسِيَاطِنَا وَعِصِيِّنَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ كُلُوہُ فَإِنَّہُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْمُہَزِّمِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبُو الْمُہَزِّمِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ شُعْبَةُ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ لِلْمُحْرِمِ أَنْ يَصِيدَ الْجَرَادَ وَيَأْكُلَہُ وَرَأَی بَعْضُہُمْ عَلَيْہِ صَدَقَةً إِذَا اصْطَادَہُ وَأَكَلَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے نکلے تھے کہ ہمارے سامنے ٹڈی کا ایک دل آگیا،ہم انہیں اپنے کوڑوں اور لاٹھیوں سے مارنے لگے تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اسے کھاؤ،کیونکہ یہ سمندر کا شکار ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف ابوالمھزم کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے،۲-ابوالمہزم کانام یزید بن سفیان ہے۔شعبہ نے ان میں کلام کیا ہے،۳-اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو ٹڈی کا شکار کرنے اور اسے کھانے کی رخصت دی ہے،۴-اور بعض کا خیال ہے کہ اگروہ اس کا شکار کرے اوراُسے کھائے تواس پرفدیہ ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَأَتَی الْمَقَامَ فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّی فَصَلَّی خَلْفَ الْمَقَامِ ثُمَّ أَتَی الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ قَالَ نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللہُ بِہِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا وَقَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ يَبْدَأُ بِالصَّفَا قَبْلَ الْمَرْوَةِ فَإِنْ بَدَأَ بِالْمَرْوَةِ قَبْلَ الصَّفَا لَمْ يُجْزِہِ وَبَدَأَ بِالصَّفَا وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّی رَجَعَ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّی خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ فَإِنْ ذَكَرَ وَہُوَ قَرِيبٌ مِنْہَا رَجَعَ فَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَإِنْ لَمْ يَذْكُرْ حَتَّی أَتَی بِلَادَہُ أَجْزَأَہُ وَعَلَيْہِ دَمٌ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِنْ تَرَكَ الطَّوَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ حَتَّی رَجَعَ إِلَی بِلَادِہِ فَإِنَّہُ لَا يُجْزِيہِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ الطَّوَافُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَاجِبٌ لَا يَجُوزُ الْحَجُّ إِلَّا بِہِ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جس وقت مکہ آئے توآپ نے بیت اللہ کے سات چکرلگائے اور یہ آیت پڑھی: وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی (البقرۃ: ۱۲۵) (مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ یعنی وہاں صلاۃ پڑھو)،پھر مقام ابراہیم کے پیچھے صلاۃ پڑھی،پھرحجر اسود کے پاس آئے اور اس کا استلام کیا پھرفرمایا: ہم (سعی) اسی سے شروع کریں گے جس سے اللہ نے شروع کیاہے۔چنانچہ آپ نے صفا سے سعی شروع کی اور یہ آیت پڑھی: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللہِ(البقرۃ: ۱۵۸) (صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ا سی پر اہل علم کاعمل ہے کہ سعی مروہ کے بجائے صفا سے شروع کی جائے۔اگر کسی نے صفا کے بجائے مروہ سے سعی شروع کردی تویہ سعی کافی نہ ہوگی اورسعی پھرسے صفاسے شروع کرے گا،۳-اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کی،یہاں تک کہ واپس گھرچلاگیا،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی نے صفا ومروہ کے درمیان سعی نہیں کی یہاں تک کہ وہ مکہ سے باہرنکل آیا پھر اسے یاد آیا،اور وہ مکے کے قریب ہے تو واپس جا کر صفا ومروہ کی سعی کرے۔اور اگراسے یاد نہیں آیا یہاں تک کہ وہ اپنے ملک واپس آگیاتواسے کافی ہوجائے گا لیکن اس پر دم لازم ہوگا،یہی سفیان ثوری کا قول ہے۔اوربعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے صفا ومروہ کے درمیان سعی چھوڑدی یہاں تک کہ اپنے ملک واپس آگیاتویہ اسے کافی نہ ہوگا۔یہ شافعی کا قول ہے،وہ کہتے ہیں کہ صفا ومروہ کے درمیان سعی واجب ہے،اس کے بغیر حج درست نہیں۔

أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قِرَاءَةً عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَرَأَ فِي رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ بِسُورَتَيْ الْإِخْلَاصِ قُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے طواف کی دورکعت میں اخلاص کی دونوں سورتیں یعنی قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ پڑھیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ كَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يَقْرَأَ فِي رَكْعَتَيْ الطَّوَافِ بِقُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ وَحَدِيثُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ فِي ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ

محمد(بن علی الباقر) سے روایت ہے کہ وہ طواف کی دونوں رکعتوں میں: قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سفیان کی جعفر بن محمدعن أبیہ کی روایت عبدالعزیز بن عمران کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-اور (سفیان کی روایت کردہ) جعفر بن محمدکی حدیث جسے وہ اپنے والد (کے عمل سے) سے روایت کرتے ہیں (عبدالعزیز کی روایت کردہ) جعفر بن محمد کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ اپنے والد سے اور وہ جابر سے اور وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں ۱؎،۳-عبدالعزیز بن عمران حدیث میں ضعیف ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ بِلَالٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ يُصَلِّ وَلَكِنَّہُ كَبَّرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ وَشَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بِلَالٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالصَّلَاةِ فِي الْكَعْبَةِ بَأْسًا و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ النَّافِلَةِ فِي الْكَعْبَةِ وَكَرِہَ أَنْ تُصَلَّی الْمَكْتُوبَةُ فِي الْكَعْبَةِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ أَنْ تُصَلَّی الْمَكْتُوبَةُ وَالتَّطَوُّعُ فِي الْكَعْبَةِ لِأَنَّ حُكْمَ النَّافِلَةِ وَالْمَكْتُوبَةِ فِي الطَّہَارَةِ وَالْقِبْلَةِ سَوَاءٌ

بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے کعبہ کے اندر صلاۃ پڑھی۔جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: آپ نے صلاۃ نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیرکہی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں اسامہ بن زید،فضل بن عباس،عثمان بن طلحہ اور شیبہ بن عثمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔وہ کعبہ کے اندر صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،۴-مالک بن انس کہتے ہیں: کعبے میں نفل صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،اور انہوں نے کعبہ کے اندر فرض صلاۃ پڑھنے کومکروہ کہا ہے،۵-شافعی کہتے ہیں:کعبہ کے اندرفرض اورنفل کوئی بھی صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ نفل اور فرض کاحکم وضو اور قبلے کے بارے میں ایک ہی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنْ الْجَنَّةِ وَہُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنْ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْہُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: حجر اسود جنت سے اترا،وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا،لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کردیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ رَجَاءٍ أَبِي يَحْيَی قَال سَمِعْتُ مُسَافِعًا الْحَاجِبَ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ الرُّكْنَ وَالْمَقَامَ يَاقُوتَتَانِ مِنْ يَاقُوتِ الْجَنَّةِ طَمَسَ اللہُ نُورَہُمَا وَلَوْ لَمْ يَطْمِسْ نُورَہُمَا لَأَضَاءَتَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا يُرْوَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا قَوْلُہُ وَفِيہِ عَنْ أَنَسٍ أَيْضًا وَہُوَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا: حجراسود اور مقام ابراہیم دونوں جنت کے یاقوت میں سے دویاقوت ہیں،اللہ نے ان کانورختم کردیا،اگر اللہ ان کانور ختم نہ کرتا تو وہ مشرق ومغرب کے سارے مقام کو روشن کردیتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-یہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا سے موقوفاً ان کاقول روایت کیاجاتاہے،۳-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا رَمَی النَّبِيُّ ﷺ الْجَمْرَةَ نَحَرَ نُسُكَہُ ثُمَّ نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّہُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَہُ فَأَعْطَاہُ أَبَا طَلْحَةَ ثُمَّ نَاوَلَہُ شِقَّہُ الْأَيْسَرَ فَحَلَقَہُ فَقَالَ اقْسِمْہُ بَيْنَ النَّاسِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ہِشَامٍ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:جب نبی اکرمﷺ نے جمرہ کی رمی کرلی تو اپنے ہدی کے اونٹ نحر(ذبح) کیے۔پھر سرمونڈنے والے کو اپنے سرکا داہنا جانب ۱؎ دیا اور اس نے سرمونڈا،تو یہ بال آپ نے ابوطلحہ کو دیا،پھر اپنا بایاں جانب اسے دیا تو اس نے اسے بھی مونڈا توآپ نے فرمایا: یہ بال لوگوں میں تقسیم کردو ۲؎۔ ابن ابی عمرکی سندسے ہشام سے اسی طرح حدیث روایت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عِيسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ فَقَالَ اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ وَسَأَلَہُ آخَرُ فَقَالَ نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا قَدَّمَ نُسُكًا قَبْلَ نُسُكٍ فَعَلَيْہِ دَمٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھاکہ میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈالیا؟ آپ نے فرمایا: اب ذبح کرلو کوئی حرج نہیں ایک دوسرے نے پوچھا: میں نے رمی سے پہلے نحر(ذبح)کرلیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اب رمی کرلو کوئی حرج نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،جابر،ابن عباس،ابن عمر،اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے۔یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کسی نسک کویعنی رمی یا نحر یا حلق وغیرہ میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے کرلے تو اس پردم (ذبیحہ) لازم ہوگا۔(مگریہ بات بغیردلیل کے ہے)

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ أَتَتْ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ أَفَأَشْتَرِطُ قَالَ نَعَمْ قَالَتْ كَيْفَ أَقُولُ قَالَ قُولِي لَبَّيْكَ اللہُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ مَحِلِّي مِنْ الْأَرْضِ حَيْثُ تَحْبِسُنِي قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَيَقُولُونَ إِنْ اشْتَرَطَ فَعَرَضَ لَہُ مَرَضٌ أَوْ عُذْرٌ فَلَہُ أَنْ يَحِلَّ وَيَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِہِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَقَالُوا إِنْ اشْتَرَطَ فَلَيْسَ لَہُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِہِ وَيَرَوْنَہُ كَمَنْ لَمْ يَشْتَرِطْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: ضباعہ بنت زبیرنے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر کہا: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں،تو کیا میں شرط لگاسکتی ہوں؟(کہ اگر کوئی عذر شرعی لاحق ہوا تو احرام کھول دوں گی) آپ نے فرمایا: ہاں،توانہوں نے پوچھا: میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: لَبَّیْکَ اللّہُمَّ لَبَّیْکَ،لَبَّیْکَ مَحِلِّی مِنَ الأَرْضِ حَیْثُ تَحْبِسُنِی (حاضرہوں اے اللہ حاضرہوں حاضرہوں،میرے احرام کھولنے کی جگہ وہ ہے جہاں تومجھے روک دے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے،وہ حج میں شرط لگالینے کو درست سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط کرلی پھر اسے کوئی مرض یا عذر لاحق ہوا تو اس کے لیے جائزہے کہ وہ حلال ہوجائے اور اپنے احرام سے نکل آئے۔یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۴-بعض اہل علم حج میں شرط لگانے کے قائل نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط لگابھی لی تو اسے احرام سے نکلنے کا حق نہیں،یہ لوگ اسے اس شخص کی طرح سمجھتے ہیں جس نے شرط نہیں لگائی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ جَابِرٍ وَہُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ حِضْتُ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَقْضِيَ الْمَنَاسِكَ كُلَّہَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی الْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّہَا مَا خَلَا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ أَيْضًا حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ الْجَزَرِيُّ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ عِكْرِمَةَ وَمُجَاہِدٍ وَعَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّ النُّفَسَاءَ وَالْحَائِضَ تَغْتَسِلُ وَتُحْرِمُ وَتَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّہَا غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفَ بِالْبَيْتِ حَتَّی تَطْہُرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے حیض آگیا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس طریق کے علاوہ سے بھی عائشہ سے مروی ہے۔۲-اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے کہ حائضہ خانہ کعبہ کے طواف کے علاوہ سبھی مناسک اداکرے گی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا یہ حدیث رسول اللہﷺ سے بیان کی ہے کہ نفاس اورحیض والی عورتیں غسل کریں گی،تلبیہ پکاریں گی اور تمام مناسک حج ادا کریں گی البتہ وہ خانہ کعبہ کا طواف نہیں کریں گی جب تک کہ پاک نہ ہوجائیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَی عَنْ نُبَيْہِ بْنِ وَہْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ مَعْمَرٍ اشْتَكَی عَيْنَيْہُ وَہُوَ مُحْرِمٌ فَسَأَلَ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ فَقَالَ اضْمِدْہُمَا بِالصَّبِرِ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ يَذْكُرُہَا عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَقُولُ اضْمِدْہُمَا بِالصَّبِرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ يَتَدَاوَی الْمُحْرِمُ بِدَوَاءٍ مَا لَمْ يَكُنْ فِيہِ طِيبٌ

نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبید اللہ بن معمر کی آنکھیں دُکھنے لگیں،وہ احرام سے تھے،انہوں نے ابان بن عثمان سے مسئلہ پوچھا،توانہوں نے کہا: ان میں ایلوے کالیپ کرلو،کیونکہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس کا ذکر کرتے سناہے،وہ رسول اللہﷺ سے روایت کررہے تھے آپ نے فرمایا: ان پرایلوے کا لیپ کرلو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہ لوگ محرم کے ایسی دوا سے علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جس میں خوشبونہ ہو۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ حَيَّانَ قَال سَمِعْتُ مَرْوَانَ الْأَصْفَرَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَلِيًّا قَدِمَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْ الْيَمَنِ فَقَالَ بِمَ أَہْلَلْتَ قَالَ أَہْلَلْتُ بِمَا أَہَلَّ بِہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ لَوْلَا أَنَّ مَعِي ہَدْيًا لَأَحْلَلْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پاس یمن سے آئے تو آپ نے پوچھا: تم نے کیا تلبیہ پکارا،اور کون سا احرام باندھا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے وہی تلبیہ پکارا،اور اسی کا احرام باندھا ہے جس کا تلبیہ رسول اللہﷺ نے پکارا،اورجو احرام رسول اللہﷺ نے باندھا ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: اگر میرے ساتھ ہدی کے جانور نہ ہوتے تو میں احرام کھول دیتا ۲؎،امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلَاةِ إِلَّا أَنَّكُمْ تَتَكَلَّمُونَ فِيہِ فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيہِ فَلَا يَتَكَلَّمَنَّ إِلَّا بِخَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ وَغَيْرُہُ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا وَلَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَتَكَلَّمَ الرَّجُلُ فِي الطَّوَافِ إِلَّا لِحَاجَةٍ أَوْ يَذْكُرُ اللہَ تَعَالَی أَوْ مِنْ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بیت اللہ کے گرد طواف صلاۃ کے مثل ہے۔البتہ اس میں تم بول سکتے ہو(جب کہ صلاۃمیں تم بول نہیں سکتے) تو جواس میں بولے وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ابن طاؤس وغیرہ نے ابن عباس سے موقوفاًروایت کی ہے۔ہم اسے صرف عطاء بن سائب کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں،۲-اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے،یہ لوگ اس بات کو مستحب قرار دیتے ہیں کہ آدمی طواف میں بلاضرورت نہ بولے (اوراگربولے)تواللہ کا ذکرکرے یا پھر علم کی کوئی بات کہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ الْمُثَنَّی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْمُؤْمِنُ يَمُوتُ بِعَرَقِ الْجَبِينِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْرِفُ لِقَتَادَةَ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ

بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مومن پیشانی کے پسینہ کے ساتھ مرتا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن بریدہ سے قتادہ کے سماع کا علم نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الصَّبْرُ فِي الصَّدْمَةِ الْأُولَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَی قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صبروہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ وَمَنْصُورٌ وَہِشَامٌ فَأَمَّا خَالِدٌ وَہِشَامٌ فَقَالَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَحَفْصَةَ وَقَالَ مَنْصُورٌ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ تُوُفِّيَتْ إِحْدَی بَنَاتِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ اغْسِلْنَہَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ وَاغْسِلْنَہَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاہُ فَأَلْقَی إِلَيْنَا حِقْوَہُ فَقَالَ أَشْعِرْنَہَا بِہِ قَالَ ہُشَيْمٌ وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ ہَؤُلَاءِ وَلَا أَدْرِي وَلَعَلَّ ہِشَامًا مِنْہُمْ قَالَتْ وَضَفَّرْنَا شَعْرَہَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ قَالَ ہُشَيْمٌ أَظُنُّہُ قَالَ فَأَلْقَيْنَاہُ خَلْفَہَا قَالَ ہُشَيْمٌ فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ عَنْ حَفْصَةَ وَمُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ وَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِہَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّہُ قَالَ غُسْلُ الْمَيِّتِ كَالْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لَيْسَ لِغُسْلِ الْمَيِّتِ عِنْدَنَا حَدٌّ مُؤَقَّتٌ وَلَيْسَ لِذَلِكَ صِفَةٌ مَعْلُومَةٌ وَلَكِنْ يُطَہَّرُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا قَالَ مَالِكٌ قَوْلًا مُجْمَلًا يُغَسَّلُ وَيُنْقَی وَإِذَا أُنْقِيَ الْمَيِّتُ بِمَاءٍ قَرَاحٍ أَوْ مَاءٍ غَيْرِہِ أَجْزَأَ ذَلِكَ مِنْ غُسْلِہِ وَلَكِنْ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُغْسَلَ ثَلَاثًا فَصَاعِدًا لَا يُقْصَرُ عَنْ ثَلَاثٍ لِمَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اغْسِلْنَہَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَإِنْ أَنْقَوْا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَجْزَأَ وَلَا نَرَی أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ ﷺ إِنَّمَا ہُوَ عَلَی مَعْنَی الْإِنْقَاءِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَلَمْ يُؤَقِّتْ وَكَذَلِكَ قَالَ الْفُقَہَاءُ وَہُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَتَكُونُ الْغَسَلَاتُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَيَكُونُ فِي الْآخِرَةِ شَيْءٌ مِنْ كَافُورٍ

ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہوگیاتو آپ نے فرمایا: اسے طاق بارغسل دو،تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار،اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو،آخر میں کافور ملالینا ،یافرمایا: تھوڑا ساکافور ملالینا اور جب تم غسل سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔ چنانچہ جب ہم (نہلاکر) فارغ ہوگئے،توہم نے آپ کو اطلاع دی،آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا: اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اوردوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں،مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں،یہ ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ہشیم کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھرہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ۳؎ ہشیم کہتے ہیں: پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کررہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام سلیم رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،۴-ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے،۵-مالک بن انس کہتے ہیں: ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے،بس اُسے پاک کردیاجائے گا،۶-شافعی کہتے ہیں کہ مالک کاقول کہ اسے غسل دیاجائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے،جب میت بیری یاکسی اور چیز کے پانی سے پاک کردیا جائے تو بس اتنا کافی ہے،البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیاجائے۔تین بار سے کم غسل نہ دیاجائے،اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے اسے تین بار یاپانچ بار غسل دو،اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کردیں تو یہ بھی کافی ہے،ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکا تین یا پانچ بار کا حکم دینامحض پاک کرنے کے لیے ہے،آپ نے کوئی حدمقررنہیں کی ہے،ایسے ہی دوسرے فقہا ء نے بھی کہاہے۔وہ حدیث کے مفہوم کوخوب جاننے والے ہیں،۷-احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہرمرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہوگا،البتہ آخری بار اس میں کافور ملالیں گے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ فَإِنْ يَكُنْ خَيْرًا تُقَدِّمُوہَا إِلَيْہِ وَإِنْ يَكُنْ شَرًّا تَضَعُوہُ عَنْ رِقَابِكُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جنازہ تیزی سے لے کر چلو ۱؎،اگروہ نیک ہوگا تو اسے خیرکی طرف جلدی پہنچا دوگے،اور اگر وہ برا ہوگا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر(جلد) رکھ دوگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِہِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ شَيْئًا مَا نَسِيتُہُ قَالَ مَا قَبَضَ اللہُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيہِ ادْفِنُوہُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيُّ يُضَعَّفُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ فَرَوَاہُ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین کے سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوا ۱؎ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو میں بھولا نہیں ہوں،آپ نے فرمایا: جتنے بھی نبی ہوئے ہیں اللہ نے ان کی روح وہیں قبض کی ہے جہاں وہ دفن کیاجاناپسندکرتے تھے (اس لیے) تم لوگ انہیں ان کے بسترہی کے مقام پردفن کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،عبدالرحمٰن بن ابی بکر ملیکی اپنے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانے جاتے ہیں،۲-یہ حدیث اس کے علاوہ طریق سے بھی مروی ہے۔ابن عباس نے ابوبکر صدیق سے اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ وَاقِدٍ وَہُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مَسْعُودِ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّہُ ذُكِرَ الْقِيَامُ فِي الْجَنَائِزِ حَتَّی تُوضَعَ فَقَالَ عَلِيٌّ قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثُمَّ قَعَدَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَفِيہِ رِوَايَةُ أَرْبَعَةٍ مِنْ التَّابِعِينَ بَعْضُہُمْ عَنْ بَعْضٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَہَذَا أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَہَذَا الْحَدِيثُ نَاسِخٌ لِلْأَوَّلِ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا و قَالَ أَحْمَدُ إِنْ شَاءَ قَامَ وَإِنْ شَاءَ لَمْ يَقُمْ وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَدْ رُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ قَامَ ثُمَّ قَعَدَ وَہَكَذَا قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ قَالَ أَبُو عِيسَی مَعْنَی قَوْلِ عَلِيٍّ قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي الْجَنَازَةِ ثُمَّ قَعَدَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَأَی الْجَنَازَةَ قَامَ ثُمَّ تَرَكَ ذَلِكَ بَعْدُ فَكَانَ لَا يَقُومُ إِذَا رَأَی الْجَنَازَةَ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے جنازے کے لیے جب تک کہ وہ رکھ نہ دیاجائے کھڑے رہنے کاذکرکیاگیا تو علی نے کہا: رسول اللہ ﷺ کھڑے رہتے تھے پھرآپ بیٹھنے لگے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس میں چار تابعین کی روایت ہے جو ایک دوسرے سے روایت کررہے ہیں،۳-شافعی کہتے ہیں: اس باب میں یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔یہ حدیث پہلی حدیث جب تم جنازہ دیکھو،تو کھڑے ہوجاؤ کی ناسخ ہے،۴-اس باب میں حسن بن علی اور ابن عباس سے بھی احادیث آئی ہیں،۵-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۶-احمد کہتے ہیں کہ چاہے تو کھڑا ہوجائے اور چاہے تو کھڑا نہ ہو۔انہوں نے اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ نبی اکرمﷺ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ کھڑے ہوجایاکرتے تھے پھر بیٹھے رہنے لگے۔اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کابھی قول ہے،۷-علی کے قول (رسول اللہ ﷺ جنازے کے لیے کھڑے ہوجایاکرتے تھے پھرآپ بیٹھے رہنے لگے کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنازہ دیکھتے تو کھڑے ہوجاتے پھر بعد میں آپ اس سے رُک گئے۔جب کوئی جنازہ دیکھتے تو کھڑے نہیں ہوتے)۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ فَرْقَدٍ قَال سَمِعْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ الَّذِي أَلْحَدَ قَبْرَ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَبُو طَلْحَةَ وَالَّذِي أَلْقَی الْقَطِيفَةَ تَحْتَہُ شُقْرَانُ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ جَعْفَرٌ وَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ قَال سَمِعْتُ شُقْرَانَ يَقُولُ أَنَا وَاللہِ طَرَحْتُ الْقَطِيفَةَ تَحْتَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الْقَبْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ شُقْرَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ فَرْقَدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ

عثمان بن فرقدکہتے ہیں کہ میں نے جعفربن محمدسے سناوہ اپنے باپ سے روایت کررہے تھے جس آدمی نے رسول اللہ ﷺکی قبر بغلی بنائی،وہ ابوطلحہ ہیں اور جس نے آپ کے نیچے چادر بچھائی وہ رسول اللہ ﷺ کے مولی ٰشقران ہیں،جعفر کہتے ہیں:اورمجھے عبید اللہ بن ابی رافع نے خبردی وہ کہتے ہیں کہ میں نے شقران کو کہتے سنا: اللہ کی قسم! میں نے قبر میں رسول اللہ کے نیچے چادر ۱؎ بچھائی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-شقران کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جُعِلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ قَطِيفَةٌ حَمْرَاءُ قَالَ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَيَحْيَی عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ وَاسْمُہُ عِمْرَانُ بْنُ أَبِي عَطَاءٍ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ وَاسْمُہُ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ وَكِلَاہُمَا مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ كَرِہَ أَنْ يُلْقَی تَحْتَ الْمَيِّتِ فِي الْقَبْرِ شَيْءٌ وَإِلَی ہَذَا ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی قبر میں ایک لال چادر رکھی گئی۔اورمحمدبن بشار نے دوسری جگہ اس سند میں ابوجمرہ کہاہے اوریہ زیادہ صحیح ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے بھی روایت کی ہے،ان کانام عمران بن ابی عطاہے،اور ابوجمرہ ضبعی سے بھی روایت کی گئی ہے،ان کانام نصر بن عمران ہے۔یہ دونوں ابن عباس کے شاگرد ہیں،۳-ابن عباس سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قبر میں میت کے نیچے کسی چیز کے بچھانے کومکروہ جاناہے۔بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَہَی النَّبِيُّ ﷺ أَنْ تُجَصَّصَ الْقُبُورُ وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْہَا وَأَنْ يُبْنَی عَلَيْہَا وَأَنْ تُوطَأَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي تَطْيِينِ الْقُبُورِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ أَنْ يُطَيَّنَ الْقَبْرُ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اس بات سے منع فرمایاہے کہ قبریں پختہ کی جائیں ۱ ؎،ان پر لکھا جائے۲؎ اور ان پر عمارت بنائی جائے ۳؎ اورانہیں رونداجائے ۴؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ او ربھی طرق سے جابر سے مروی ہے،۳-بعض اہل علم نے قبروں پرمٹی ڈلنے کی اجازت دی ہے،انہیں میں سے حسن بصری بھی ہیں،۴-شافعی کہتے ہیں: قبروں پرمٹی ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ التَّشَہُّدَ فِي الصَّلَاةِ وَالتَّشَہُّدَ فِي الْحَاجَةِ قَالَ التَّشَہُّدُ فِي الصَّلَاةِ التَّحِيَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّہَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُہُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِينَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَالتَّشَہُّدُ فِي الْحَاجَةِ إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّہِ نَسْتَعِينُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنَعُوذُ بِاللہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا فَمَنْ يَہْدِہِ اللہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا ہَادِيَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَيَقْرَأُ ثَلَاثَ آيَاتٍ قَالَ عَبْثَرٌ فَفَسَّرَہُ لَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ رَوَاہُ الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ لِأَنَّ إِسْرَائِيلَ جَمَعَہُمَا فَقَالَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ وَأَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ قَالَ أَہْلُ الْعِلْمِ إِنَّ النِّكَاحَ جَائِزٌ بِغَيْرِ خُطْبَةٍ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِہِ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صلاۃ کے تشہد اور حاجت کے تشہدکو(الگ الگ) سکھایا،وہ کہتے ہیں صلاۃ کا تشہد یہ ہے: التَّحِیَّاتُ لِلّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلاَمُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ،السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ،أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ (تمام زبانی،بدنی اورمالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔اے نبی: سلامتی ہوآپ پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں) اور حاجت کاتشہد یہ ہے:إِنَّ الْحَمْدَ لِلّہِ نَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنَعُوذُ بِاللہِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا فَمَنْ یَہْدِہِ اللہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُضْلِلْ فَلاَ ہَادِیَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ (سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں،ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں،ہم اپنے دلوں کی شرارتوں اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔جسے اللہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کردے،اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں۔میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں)۔اور پھرآپ تین آیتیں پڑھتے۔عبثر (راوی حدیث) کہتے ہیں: توہمیں سفیان ثوری نے بتایا کہ وہ تینوں آیتیں یہ تھی: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے اور حالت اسلام ہی میں مرو) (آل عمران: ۱۰۲) وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِی تَسَائَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا (اللہ سے ڈرو،جس کے نام سے تم سوال کرتے ہواور جس کے واسطے سے ناطے جوڑتے ہو،بلاشبہ اللہ تمہارا نگہبان ہے) (النساء: ۱) یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلاً سَدِیدًا (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو،اور راست اور پکی بات کہو) (الأحزاب: ۷۰)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اسے اعمش نے بطریق: أبی اسحاق،عن أبی الأحوص،عن عبداللہ،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے۔نیز اسے شعبہ نے بطریق: أبی إسحاق،عن أبی عبیدۃ،عن عبداللہ،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،اوریہ دونوں طریق صحیح ہیں،اس لیے کہ اسرائیل نے دونوں کو جمع کردیا ہے،یعنی عن أبی إسحاق السبیعی عن أبی الأحوص وأبی عبیدۃ عن عبداللہ بن مسعود عن النبی ﷺ ،۳-اس باب میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۴-اہل علم نے کہاہے کہ نکاح بغیر خطبے کے بھی جائز ہے۔اہل علم میں سے سفیان ثوری وغیرہ کایہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُلُّ خُطْبَةٍ لَيْسَ فِيہَا تَشَہُّدٌ فَہِيَ كَالْيَدِ الْجَذْمَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسے سبھی خطبے جس میں تشہد نہ ہو اس ہاتھ کی طرح ہیں جس میں کوڑھ ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُہَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَعْتَقَ صَفِيَّةَ وَجَعَلَ عِتْقَہَا صَدَاقَہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ صَفِيَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَكَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُجْعَلَ عِتْقُہَا صَدَاقَہَا حَتَّی يَجْعَلَ لَہَا مَہْرًا سِوَی الْعِتْقِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے صفیہ کو آزاد کیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر قراردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی حدیث آئی ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۴-اور بعض اہل علم نے اس کی آزادی کواس کا مہرقرار دینے کومکروہ کہاہے،یہاں تک کہ اس کا مہر آزادی کے علاوہ کسی اور چیز کومقررکیاجائے۔لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَقُولَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَلَكِنَّہُ قَالَ السُّنَّةُ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْبِكْرَ عَلَی امْرَأَتِہِ أَقَامَ عِنْدَہَا سَبْعًا وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَی امْرَأَتِہِ أَقَامَ عِنْدَہَا ثَلَاثًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَفَعَہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَرْفَعْہُ بَعْضُہُمْ قَالَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً بِكْرًا عَلَی امْرَأَتِہِ أَقَامَ عِنْدَہَا سَبْعًا ثُمَّ قَسَمَ بَيْنَہُمَا بَعْدُ بِالْعَدْلِ وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَی امْرَأَتِہِ أَقَامَ عِنْدَہَا ثَلَاثًا وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ إِذَا تَزَوَّجَ الْبِكْرَ عَلَی امْرَأَتِہِ أَقَامَ عِنْدَہَا ثَلَاثًا وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ أَقَامَ عِنْدَہَا لَيْلَتَيْنِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگرمیں چاہوں توکہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا: سنت ۱؎ یہ ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کے ہوتے ہوے کسی کنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں سات رات ٹھہرے،اورجب غیرکنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں تین رات ٹھہرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے محمد بن اسحاق نے مرفوع کیا ہے،انہوں نے بسند ایوب عن ابی قلابہ عن انس روایت کی ہے اور بعض نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،۳-اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۴-بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی اور کنواری سے شادی کرے،تو اس کے پاس سات رات ٹھہرے،پھراس کے بعد ان کے درمیان باری تقسیم کرے،اورپہلی بیوی کے ہوتے ہوئے جب کسی غیرکنواری(بیوہ یامطلقہ) سے شادی کرے تو اس کے پاس تین رات ٹھہرے۔مالک،شافعی،احمداور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵-تابعین میں سے بعض اہل علم نے کہاکہ جب کوئی اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے کنواری سے شادی کرے تو وہ اس کے پاس تین رات ٹھہرے اور جب غیرکنواری سے شادی کرے تو اس کے ہاں دو رات ٹھہرے۔لیکن پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَلَمْ يَفْرِضْ لَہَا صَدَاقًا وَلَمْ يَدْخُلْ بِہَا حَتَّی مَاتَ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ لَہَا مِثْلُ صَدَاقِ نِسَائِہَا لَا وَكْسَ وَلَا شَطَطَ وَعَلَيْہَا الْعِدَّةُ وَلَہَا الْمِيرَاثُ فَقَامَ مَعْقِلُ بْنُ سِنَانٍ الْأَشْجَعِيُّ فَقَالَ قَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ امْرَأَةٍ مِنَّا مِثْلَ الَّذِي قَضَيْتَ فَفَرِحَ بِہَا ابْنُ مَسْعُودٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْجَرَّاحِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ كِلَاہُمَا عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَبِہِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ وَلَمْ يَدْخُلْ بِہَا وَلَمْ يَفْرِضْ لَہَا صَدَاقًا حَتَّی مَاتَ قَالُوا لَہَا الْمِيرَاثُ وَلَا صَدَاقَ لَہَا وَعَلَيْہَا الْعِدَّةُ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ لَوْ ثَبَتَ حَدِيثُ بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ لَكَانَتْ الْحُجَّةُ فِيمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِي عَنْ الشَّافِعِيِّ أَنَّہُ رَجَعَ بِمِصْرَ بَعْدُ عَنْ ہَذَا الْقَوْلِ وَقَالَ بِحَدِيثِ بِرْوَعَ بِنْتِ وَاشِقٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے ایک عورت سے شادی کی لیکن اس نے نہ اس کا مہر مقرر کیا اورنہ اس سے صحبت کی یہاں تک کہ وہ مرگیا،تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس عورت کے لیے اپنے خاندان کی عورتوں کے جیسا مہر ہوگا۔نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔اسے عدت بھی گزارنی ہوگی اور میراث میں بھی اس کا حق ہوگا۔تو معقل بن سنان اشجعی نے کھڑے ہوکر کہا: بروع بنت واشق جوہمارے قبیلے کی عورت تھی،کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فیصلہ فرمایاتھا جیسا آپ نے کیا ہے۔تواس سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ خوش ہوئے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جراح سے بھی روایت ہے۔۳-یزیدبن ہارون اورعبدالرزاق نے بسند سفیان عن منصورسے اسی طرح روایت کی ہے،۴-ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ اور بھی طرق سے مروی ہے،۵-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے ۲؎ یہی ثوری،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۶-اورصحابہ کرام میں سے بعض اہل علم صحابہ کہتے ہیں:جن میں علی بن ابی طالب،زید بن ثابت،ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی عورت سے شادی کرے،اوراس نے اس سے ابھی دخول نہ کیاہو اور نہ ہی اس کا مہر مقرر کیاہو اوروہ مرجائے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس عورت کو میراث میں حق ملے گا،لیکن کوئی مہر نہیں ہوگا ۳؎ اور اسے عدت گزارنی ہوگی۔یہی شافعی کابھی قول ہے۔وہ کہتے ہیں: اگر بروع بنت واشق کی حدیث صحیح ہو تو نبی اکرمﷺ سے مروی ہونے کی وجہ سے حجت ہوگی۔اور شافعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بعد میں مصر میں اس قول سے رجوع کرلیا اور بروع بنت واشق کی حدیث کے مطابق فتویٰ دیا۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَلِجُوا عَلَی الْمُغِيبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَی الدَّمِ قُلْنَا وَمِنْكَ قَالَ وَمِنِّي وَلَكِنَّ اللہَ أَعَانَنِي عَلَيْہِ فَأَسْلَمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُہُمْ فِي مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ و سَمِعْت عَلِيَّ بْنَ خَشْرَمٍ يَقُولُ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فِي تَفْسِيرِ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَكِنَّ اللہَ أَعَانَنِي عَلَيْہِ فَأَسْلَمُ يَعْنِي أَسْلَمُ أَنَا مِنْہُ قَالَ سُفْيَانُ وَالشَّيْطَانُ لَا يُسْلِمُ وَلَا تَلِجُوا عَلَی الْمُغِيبَاتِ وَالْمُغِيبَةُ الْمَرْأَةُ الَّتِي يَكُونُ زَوْجُہَا غَائِبًا وَالْمُغِيبَاتُ جَمَاعَةُ الْمُغِيبَةِ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم لوگ ایسی عورتوں کے گھروں میں داخل نہ ہو،جن کے شوہرگھروں پر نہ ہوں،اس لیے کہ شیطان تم میں سے ہرایک کے اندر ایسے ہی دوڑتاہے جیسے خون جسم میں دوڑتاہے،ہم نے عرض کیا: آپ کے بھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں میرے بھی،لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری مدد کی ہے،اس لیے میں (اس کے شرسے) محفوظ رہتاہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔بعض لوگوں نے مجالد بن سعید کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے،۲-سفیان بن عیینہ نبی اکرمﷺکے قول ولکن اللہ اعاننی علیہ فاسلم(لیکن اللہ نے میری مدد کی ہے اس لیے میں محفوظ رہتاہوں) کی تشریح میں کہتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ میں اس شیطان سے محفوظ رہتاہوں،نہ یہ کہ وہ اسلام لے آیاہے (کیونکہ): شیطان مسلمان نہیں ہوتا،۳-ولاتلجوا علی المغیبات میں مغیبۃ سے مراد وہ عورت ہے،جس کا شوہر موجودنہ ہو،مغیبات،مغیبۃ کی جمع ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہِيَ حَائِضٌ فَقَالَ ہَلْ تَعْرِفُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ فَإِنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ وَہِيَ حَائِضٌ فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَہُ أَنْ يُرَاجِعَہَا قَالَ قُلْتُ فَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ قَالَ فَمَہْ أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ

یونس بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہوتو انہوں نے کہا: کیاتم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی،عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھاتوآپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کرلیں،یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی؟ کہا: تو اور کیا ہوگی؟ (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی)،بھلابتاؤ اگرو ہ عاجز ہوجاتا یا دیوانہ ہوجاتا تو واقع ہوتی یانہیں؟! ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَی آلِ طَلْحَةَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ طَلَّقَ امْرَأَتَہُ فِي الْحَيْضِ فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ مُرْہُ فَلْيُرَاجِعْہَا ثُمَّ لِيُطَلِّقْہَا طَاہِرًا أَوْ حَامِلًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَكَذَلِكَ حَدِيثُ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ طَلَاقَ السُّنَّةِ أَنْ يُطَلِّقَہَا طَاہِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِنْ طَلَّقَہَا ثَلَاثًا وَہِيَ طَاہِرٌ فَإِنَّہُ يَكُونُ لِلسُّنَّةِ أَيْضًا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَا تَكُونُ ثَلَاثًا لِلسُّنَّةِ إِلَّا أَنْ يُطَلِّقَہَا وَاحِدَةً وَاحِدَةً وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَإِسْحَقَ وَقَالُوا فِي طَلَاقِ الْحَامِلِ يُطَلِّقُہَا مَتَی شَاءَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ يُطَلِّقُہَا عِنْدَ كُلِّ شَہْرٍ تَطْلِيقَةً

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی،ان کے والدعمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے مسئلہ پوچھاتو آپ نے فرمایا: اُسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرلے،پھرطہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یونس بن جبیر کی حدیث جسے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں،حسن صحیح ہے۔اور اسی طرح سالم بن عبداللہ کی بھی جسے وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں،۲-یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ طلاقِ سنّی یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے،۴-بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے طہر کی حالت میں تین طلاقیں دیں،تو یہ بھی طلاقِ سنّی ہوگی۔یہ شافعی اوراحمد بن حنبل کا قول ہے،۵-اوربعض کہتے ہیں کہ تین طلاق طلاق سنی نہیں ہوگی،سوائے اس کے کہ وہ ایک ایک طلاق الگ الگ کرکے دے۔یہ سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۶-اور یہ لوگ حاملہ کے طلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسے جب چاہے طلاق دے سکتا ہے،یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۷-اوربعض کہتے ہیں: اسے بھی وہ ہرماہ ایک طلاق دے گا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَيَّرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَاخْتَرْنَاہُ أَفَكَانَ طَلَاقًا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ بِمِثْلِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْخِيَارِ فَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُمَا قَالَا إِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ وَرُوِيَ عَنْہُمَا أَنَّہُمَا قَالَا أَيْضًا وَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ وَإِنْ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَلَا شَيْءَ وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّہُ قَالَ إِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَوَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ وَإِنْ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَوَاحِدَةٌ يَمْلِكُ الرَّجْعَةَ و قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِنْ اخْتَارَتْ زَوْجَہَا فَوَاحِدَةٌ وَإِنْ اخْتَارَتْ نَفْسَہَا فَثَلَاثٌ وَذَہَبَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَالْفِقْہِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ فِي ہَذَا الْبَابِ إِلَی قَوْلِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَذَہَبَ إِلَی قَوْلِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اختیار دیا(چاہیں تو ہم آپ کے نکاح میں رہیں اور چاہیں تو نہ رہیں) ہم نے آپ کو اختیار کیا۔کیا یہ طلاق مانی گئی تھی؟ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-(ساتھ رہنے اور نہ رہنے کے) اختیاردینے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کاکہناہے کہ اگرعورت نے خودکواختیارکرلیا تو طلاق بائنہ ہوگی۔اور انہی دونوں کا یہ قول بھی ہے کہ ایک طلاق ہوگی اور اسے رجعت کا اختیار ہوگا۔اور اگر اس نے اپنے شوہرہی کو اختیار کیا تو اس پر کچھ نہ ہوگایعنی کوئی طلاق واقع نہ ہوگی ۲؎،۴-اورعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے خودکو اختیار کیا تو طلاق بائن ہوگی اور اگر اس نے اپنے شوہرکو اختیار کیا تو ایک ہوگی لیکن رجعت کا اختیار ہوگا،۵-زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اپنے شوہرکواختیار کیا تو ایک ہوگی اور اگر خودکو اختیار کیا تو تین ہوں گی،۶-صحابہ کرام اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اکثر اہل علم و فقہ اس باب میں عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں اور یہی ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے،۷-البتہ احمدبن حنبل کا قول وہی ہے جو علی رضی اللہ عنہ کا ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَی أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ بِہَذِہِ الْأَحَادِيثِ الثَّلَاثَةِ قَالَتْ زَيْنَبُ دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوہَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيہِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُہُ فَدَہَنَتْ بِہِ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْہَا ثُمَّ قَالَتْ وَاللہِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا

حمیدبن نافع سے روایت ہے،زینب بنت ابی سلمہ نے انہیں یہ تینوں حدیثیں بتائیں (ان میں سے ایک یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے والد ابوسفیان صخربن حرب کا انتقال ہوا،توانہوں نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یا کسی دوسری چیز کی زردی تھی،پھر انہوں نے ا سے ایک لڑکی کو لگایا پھر اپنے دونوں رخسار وں پر لگایا،پھرکہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی،لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے اس پر وہ چارماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔

قَالَتْ زَيْنَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوہَا فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْہُ ثُمَّ قَالَتْ وَاللہِ مَا لِي فِي الطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا

(دوسری حدیث یہ ہے:)زینب کہتی ہیں: پھرمیں زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے بھائی کاانتقال ہواتوانہوں نے خوشبو منگائی اوراس میں سے لگایا پھرکہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی،لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ اورآخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے شوہرکے،وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی۔

قَالَتْ زَيْنَبُ وَسَمِعْتُ أُمِّي أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْہَا زَوْجُہَا وَقَدْ اشْتَكَتْ عَيْنَيْہَا أَفَنَكْحَلُہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ لَا ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا ہِيَ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاہِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَی رَأْسِ الْحَوْلِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ فُرَيْعَةَ بِنْتِ مَالِكٍ أُخْتِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَحَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْنَبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا تَتَّقِي فِي عِدَّتِہَا الطِّيبَ وَالزِّينَةَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

(تیسری حدیث یہ ہے:)زینب کہتی ہیں: میں نے اپنی ماں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کوکہتے سناکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول!میری بیٹی کا شوہرمرگیا ہے،اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں،کیا ہم اس کو سرمہ لگادیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔دو یا تین مرتبہ اس عورت نے آپ سے پوچھا اور آپ نے ہربار فرمایا: نہیں،پھر آپ نے فرمایا: (اب تو اسلام میں) عدت چار ماہ دس دن ہے،حالاں کہ جاہلیت میں تم میں سے (فوت شدہ شوہروالی بیوہ) عورت سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-زینب کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری کی بہن فریعہ بنت مالک،اور حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم کا اسی پر عمل ہے کہ جس عورت کا شوہر مرگیا ہو وہ اپنی عدت کے دوران خوشبو اور زینت سے پرہیز کرے گی۔سفیان ثوری،مالک بن انس،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ أَنْبَأَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ عَامِرٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ آلَی رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ نِسَائِہِ وَحَرَّمَ فَجَعَلَ الْحَرَامَ حَلَالًا وَجَعَلَ فِي الْيَمِينِ كَفَّارَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ دَاوُدَ رَوَاہُ عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ وَغَيْرُہُ عَنْ دَاوُدَ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مُرْسَلًا وَلَيْسَ فِيہِ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مَسْلَمَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ وَالْإِيلَاءُ ہُوَ أَنْ يَحْلِفَ الرَّجُلُ أَنْ لَا يَقْرَبَ امْرَأَتَہُ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ فَأَكْثَرَ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِيہِ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْہُرٍ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْہُرٍ يُوقَفُ فَإِمَّا أَنْ يَفِيءَ وَإِمَّا أَنْ يُطَلِّقَ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِذَا مَضَتْ أَرْبَعَةُ أَشْہُرٍ فَہِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے ایلاء ۱؎ کیا اور (ان سے صحبت کرنا اپنے اوپر)حرام کرلیا۔پھر آپ نے حرام کو حلال کرلیا اور قسم کا کفارہ اداکردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-مسلمہ بن علقمہ کی حدیث کوجسے انہوں نے داودسے روایت کی ہے: علی بن مسہر وغیرہ نے بھی داودسے (روایت کی ہے مگر) داودنے شعبی سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایلاء کیا۔اس میں مسروق اورعائشہ کے واسطے کاذکرنہیں ہے،اوریہ مسلمہ بن علقمہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-اس باب میں انس اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ایلاء یہ ہے کہ آدمی چارماہ یا اس سے زیادہ دنوں تک اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھالے،۳-جب چارماہ گزرجائیں تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب چارماہ گزرجائیں تواسے قاضی کے سامنے کھڑا کیاجائے گا،یا تورجوع کرلے یا طلاق دے دے۔۴-صحابہ کرام وغیرہم میں بعض اہل علم کاکہناہے کہ جب چارماہ گزرجائیں توایک طلاق بائن خودبخود پڑجاتی ہے۔سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِہَاتٌ لَا يَدْرِي كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ أَمِنْ الْحَلَالِ ہِيَ أَمْ مِنْ الْحَرَامِ فَمَنْ تَرَكَہَا اسْتِبْرَاءً لِدِينِہِ وَعِرْضِہِ فَقَدْ سَلِمَ وَمَنْ وَاقَعَ شَيْئًا مِنْہَا يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحَرَامَ كَمَا أَنَّہُ مَنْ يَرْعَی حَوْلَ الْحِمَی يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَہُ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًی أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللہِ مَحَارِمُہُ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اوراپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑگیا یعنی انہیں اختیارکرلیاتوقریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلاہوجائے،جیسے وہ شخص جوسرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرارہاہو،قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہوجائے،جان لوکہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔دوسری سند سے مؤلف نے شعبی سے اورانہوں نے نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،اسے کئی رواۃنے شعبی سے اورشعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ أَنْبَأَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ وَبَيْعِ الْحَصَاةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا بَيْعَ الْغَرَرِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَمِنْ بُيُوعِ الْغَرَرِ بَيْعُ السَّمَكِ فِي الْمَاءِ وَبَيْعُ الْعَبْدِ الْآبِقِ وَبَيْعُ الطَّيْرِ فِي السَّمَاءِ وَنَحْوُ ذَلِكَ مِنْ الْبُيُوعِ وَمَعْنَی بَيْعِ الْحَصَاةِ أَنْ يَقُولَ الْبَائِعُ لِلْمُشْتَرِي إِذَا نَبَذْتُ إِلَيْكَ بِالْحَصَاةِ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكَ وَہَذَا شَبِيہٌ بِبَيْعِ الْمُنَابَذَةِ وَكَانَ ہَذَا مِنْ بُيُوعِ أَہْلِ الْجَاہِلِيَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب مین ابن عمر،ابن عباس،ابوسعید اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے،وہ بیع غرر کو مکروہ سمجھتے ہیں،۴-شافعی کہتے ہیں: مچھلی کی بیع جوپانی میں ہو،بھاگے ہوئے غلام کی بیع،آسمان میں اڑتے پرندوں کی بیع اور اسی طرح کی دوسری بیع،بیع غررکی قبیل سے ہیں،۵-اوربیع حصاۃ سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا خرید نے والے سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کنکری پھینک دوں تو میرے اورتیرے درمیان میں بیع واجب ہوگئی۔یہ بیع منابذہ کے مشابہ ہے۔اور یہ جاہلیت کی بیع کی قسموں میں سے ایک قسم تھی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ وَہِبَتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رَوَی يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ نَہَی عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ وَہِبَتِہِ وَہُوَ وَہْمٌ وَہِمَ فِيہِ يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ وَرَوَی عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سُلَيْمٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء ۱؎ کوبیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم اسے صرف بروایت عبداللہ بن دینار جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن عمرسے روایت کی ہے،۳-یحییٰ بن سلیم نے یہ حدیث بطریق: عبد اللہ بن عمر،عن نافع،عن ابن عمر،عن النبی ﷺ روایت کی ہے کہ آپ نے ولاء کو بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔اس سند میں وہم ہے۔اس کے اندر یحییٰ بن سلیم سے وہم ہواہے،۴-عبدالوھاب ثقفی،اورعبداللہ بن نمیر اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق: عبید اللہ بن عمر،عن عبد اللہ بن دینار،عن ابن عمر،عن النبی ﷺ روایت کی ہے اور یہ یحییٰ بن سلیم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۵-اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ أَيُّمَا امْرِئٍ أَفْلَسَ وَوَجَدَ رَجُلٌ سِلْعَتَہُ عِنْدَہُ بِعَيْنِہَا فَہُوَ أَوْلَی بِہَا مِنْ غَيْرِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہُوَ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْكُوفَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو (قرض دار) آدمی مفلس ہوجائے اور (قرض دینے والا) آدمی اپنا سامان اس کے پاس بعینہ پائے تو وہ اس سامان کا دوسرے سے زیادہ مستحق ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سمرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے اوریہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،اوربعض اہل علم کہتے ہیں: وہ بھی دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہوگا،یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَا تَسْتَقْبِلُوا السُّوقَ وَلَا تُحَفِّلُوا وَلَا يُنَفِّقْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا بَيْعَ الْمُحَفَّلَةِ وَہِيَ الْمُصَرَّاةُ لَا يَحْلُبُہَا صَاحِبُہَا أَيَّامًا أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ لِيَجْتَمِعَ اللَّبَنُ فِي ضَرْعِہَا فَيَغْتَرَّ بِہَا الْمُشْتَرِي وَہَذَا ضَرْبٌ مِنْ الْخَدِيعَةِ وَالْغَرَرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’(بازار میں آنے والے قافلہ ٔ تجارت کا بازار سے پہلے) استقبال نہ کرو،جانور کے تھن میں دودھ نہ روکو (تاکہ خریدار دھوکہ کھا جائے) اور (جھوٹا خریدار بن کر) ایک دوسرے کا سامان نہ فروخت کراؤ‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہ لوگ ایسے جانور کی بیع کو جس کا دودھ تھن میں روک لیا گیا ہو جائز نہیں سمجھتے،۴-محفلۃ ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کا دودھ تھن میں چھوڑے رکھا گیا ہو،اس کا مالک کچھ دن سے اسے نہ دوہتا ہوتاکہ اس کی تھن میں دودھ جمع ہو جائے اور خریدار اس سے دھوکہ کھا جائے۔یہ فریب اور دھوکہ ہی کی ایک شکل ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ لَيْثًا يُحَدِّثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبَّادٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّہُ قَالَ يَا نَبِيَّ اللہِ إِنِّي اشْتَرَيْتُ خَمْرًا لِأَيْتَامٍ فِي حِجْرِي قَالَ أَہْرِقْ الْخَمْرَ وَاكْسِرْ الدِّنَانَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي طَلْحَةَ رَوَی الثَّوْرِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبَّادٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ كَانَ عِنْدَہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ

بوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں نے ان یتیموں کے لیے شراب خریدی تھی جو میری پرورش میں ہیں۔(اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: شراب بہادو اور مٹکے توڑ دو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ثوری نے بطریق: السدی،عن یحیی بن عباد،عن أنس روایت کیا ہے کہ ابوطلحہ آپ کے پاس تھے ۱؎،اور یہ لیث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،عائشہ،ابو سعید،ابن مسعود،ابن عمر،اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ وَہُوَ بِمَكَّةَ يَقُولُ إِنَّ اللہَ وَرَسُولَہُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ فَإِنَّہُ يُطْلَی بِہَا السُّفُنُ وَيُدْہَنُ بِہَا الْجُلُودُ وَيَسْتَصْبِحُ بِہَا النَّاسُ قَالَ لَا ہُوَ حَرَامٌ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ قَاتَلَ اللہُ الْيَہُودَ إِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَيْہِمْ الشُّحُومَ فَأَجْمَلُوہُ ثُمَّ بَاعُوہُ فَأَكَلُوا ثَمَنَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ کے اندر رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: اللہ اور اس کے رسول نے شراب،مردار،خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قراردیاہے،عرض کیاگیا،اللہ کے رسول!مجھے مردار کی چربی کے بارے میں بتائیے،اسے کشتیوں پہ ملاجاتاہے،چمڑوں پہ لگایاجاتاہے،اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں،یہ جائزنہیں،یہ حرام ہے،پھر آپ نے اسی وقت فرمایا: یہود پر اللہ کی مارہو،اللہ نے ان کے لیے چربی حرام قراردے دی،تو انہوں نے اس کو پگھلایا پھراسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمراور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کااسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَقَالَ قُتَيْبَةُ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَا تَنَاجَشُوا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا النَّجْشَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالنَّجْشُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الَّذِي يَفْصِلُ السِّلْعَةَ إِلَی صَاحِبِ السِّلْعَةِ فَيَسْتَامُ بِأَكْثَرَ مِمَّا تَسْوَی وَذَلِكَ عِنْدَمَا يَحْضُرُہُ الْمُشْتَرِي يُرِيدُ أَنْ يَغْتَرَّ الْمُشْتَرِي بِہِ وَلَيْسَ مِنْ رَأْيِہِ الشِّرَاءُ إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَخْدَعَ الْمُشْتَرِيَ بِمَا يَسْتَامُ وَہَذَا ضَرْبٌ مِنْ الْخَدِيعَةِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنْ نَجَشَ رَجَلٌ فَالنَّاجِشُ آثِمٌ فِيمَا يَصْنَعُ وَالْبَيْعُ جَائِزٌ لِأَنَّ الْبَائِعَ غَيْرُ النَّاجِشِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم نجش نہ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوربعض اہل علم کااسی پرعمل ہے،ان لوگوں نے نجش کو ناجائزکہا ہے،۴-نجش یہ ہے کہ ایساآدمی جوسامان کے اچھے بُرے کی تمیزرکھتاہوسامان والے کے پاس آئے اور اصل قیمت سے بڑھا کر سامان کی قیمت لگائے اور یہ ایسے وقت ہوجب خریداراس کے پاس موجودہو،مقصدصرف یہ ہوکہ اس سے خریدار دھوکہ کھاجائے اوروہ(دام بڑھاچڑھاکر لگانے والا) خریدنے کا خیال نہ رکھتاہو بلکہ صرف یہ چاہتاہو کہ اس کی قیمت لگانے کی وجہ سے خریدار دھوکہ کھاجائے۔یہ دھوکہ ہی کی ایک قسم ہے،۵-شافعی کہتے ہیں: اگر کوئی آدمی نجش کرتا ہے تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ یعنی نجش کرنے والا گنہگار ہوگا اور بیع جائز ہوگی،اس لیے کہ بیچنے والاتونجش نہیں کررہاہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَی اللہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَدْنَاہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللہِ وَأَبْعَدَہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ جَائِرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بیٹھنے میں اس کے سب سے قریب عادل حکمراں ہوگا،اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور اس سے سب سے دوربیٹھنے والا ظالم حکمراں ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ مَعَ الْقَاضِي مَا لَمْ يَجُرْ فَإِذَا جَارَ تَخَلَّی عَنْہُ وَلَزِمَہُ الشَّيْطَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے ۱؎ جب تک وہ ظلم نہیں کرتا،اورجب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اسے چھوڑکرالگ ہوجاتاہے۔اور اس سے شیطان چمٹ جاتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اس کو صرف عمران بن قطان کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ كَتَبَ أَبِي إِلَی عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ وَہُوَ قَاضٍ أَنْ لَا تَحْكُمْ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَأَنْتَ غَضْبَانُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا يَحْكُمْ الْحَاكِمُ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَہُوَ غَضْبَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو بَكْرَةَ اسْمُہُ نُفَيْعٌ

عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کو جوقاضی تھے خط لکھا کہ تم غصہ کی حالت میں فریقین کے بارے میں فیصلے نہ کرو،کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: حاکم غصہ کی حالت میں فریقین کے درمیان فیصلے نہ کرے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوبکرہ کانام نفیع ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ وَابْنِ حَدِيدَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا يَصِحُّ قَالَ و سَمِعْت عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ حَدِيثُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے بھی مروی ہے انہوں عبداللہ بن عمروسے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳-اورابوسلمہ سے ان کے باپ کے واسطے سے بھی مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے،۴-میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کوکہتے سنا کہ ابوسلمہ (بن عبد الرحمن) کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اس باب میں سب سے زیادہ اچھی اورسب سے زیادہ صحیح ہے۔(جو آگے آرہی ہے) ۵-اس باب میں عبداللہ بن عمرو،عائشہ،ابن حدیدہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ خَالِہِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ مَرَّ بِي خَالِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ وَمَعَہُ لِوَاءٌ فَقُلْتُ أَيْنَ تُرِيدُ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَی رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيہِ أَنْ آتِيَہُ بِرَأْسِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ قُرَّةَ الْمُزَنِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْبَرَاءِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ عَدِيٍّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ عَنْ أَبِيہِ وَرُوِي عَنْ أَشْعَثَ عَنْ عَدِيٍّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْبَرَاءِ عَنْ خَالِہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے ماموں ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے اوران کے ہاتھ میں ایک جھنڈاتھا،میں نے پوچھا:آپ کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کہا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجاہے جس نے اپنے باپ کی (دوسری) بیوی سے شادی کررکھی ہے تاکہ میں اس کا سرلے کرآؤں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-براء کی حدیث حسن غریب ہے،۲-محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عدی بن ثابت سے اورعدی نے عبداللہ بن یزید سے اورعبداللہ نے براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،۳-یہ حدیث اشعث سے بھی مروی ہے انہوں نے عدی سے اورعدی نے یزید بن براء سے اوریزیدنے براء رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،۴-نیزیہ اشعث سے مروی ہے انہوں نے عدی سے اورعدی نے یزید بن البراء سے اوریزید نے اپنے ماموں سے اور ان کے ماموں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،۵-اس باب میں قرہ مزنی سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَہُوَ حُرٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مُسْنَدًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عُمَرَ شَيْئًا مِنْ ہَذَا حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ وَعَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَہُوَ حُرٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَاصِمًا الْأَحْوَلَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَہُوَ حُرٌّ رَوَاہُ ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يُتَابَعْ ضَمْرَةُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ وَہُوَ حَدِيثٌ خَطَأٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہوجائے تووہ (رشتہ دار) آزاد ہوجائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو ہم صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے مسنداً (مرفوعاً) جانتے ہیں،۲-اور بعض لوگوں نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو قتادہ سے اورقتادہ نے حسن سے اورحسن نے عمر رضی اللہ عنہ سے (موقوفاً) روایت کیا ہے۔اس سندسے محمد بن بکربُرسانی نے بیان کیا انہوں نے حماد بن سلمہ سے اورحمادنے قتادہ اورعاصم احول سے اورقتادہ اورعاصم نے حسن بصری سے اورحسن نے سمرہ سے اور سمرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص کسی محرم قرابت دار کامالک ہوجائے تو وہ آزاد ہوجائے گا،۳-محمد بن بکر کے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے عاصم احول کا ذکر کیاہواورانہوں (عاصم) نے حمادبن سلمہ سے روایت کی ہو،۴-بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے،۵-ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:جو شخص کسی محرم قرابت دار کا مالک ہوجائے تو وہ آزاد ہوجائے گا۔اسے ضمرہ بن ربیعہ نے ثوری سے روایت کیا ہے،انہوں نے عبداللہ بن دینار سے،اورعبداللہ نے ابن عمر سے اور ابن عمرنے نبی اکرمﷺسے۔اس حدیث کی روایت میں لوگوں نے ضمرہ کی متابعت نہیں کی ہے۔محدثین کے نزدیک یہ حدیث غلط ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ أَحَقٌّ مَا بَلَغَنِي عَنْكَ قَالَ وَمَا بَلَغَكَ عَنِّي قَالَ بَلَغَنِي أَنَّكَ وَقَعْتَ عَلَی جَارِيَةِ آلِ فُلَانٍ قَالَ نَعَمْ فَشَہِدَ أَرْبَعَ شَہَادَاتٍ فَأَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ماعزبن مالک رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تمہارے بارے میں جومجھے خبرملی ہے کیا وہ صحیح ہے؟ ماعز رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بارے میں آپ کوکیا خبرملی ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے خبرملی ہے کہ تم نے فلاں قبیلے کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہا ں،پھرانہوں نے چارمرتبہ اقرارکیا،تو آپ نے حکم دیا،توانہیں رجم کردیاگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-اس حدیث کوشعبہ نے سماک بن حرب سے،انہوں نے سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کیا ہے،انہوں نے اس سند میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے،۳-اس باب میں سائب بن یزید سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ رَجَمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَرَجَمَ أَبُو بَكْرٍ وَرَجَمْتُ وَلَوْلَا أَنِّي أَكْرَہُ أَنْ أَزِيدَ فِي كِتَابِ اللہِ لَكَتَبْتُہُ فِي الْمُصْحَفِ فَإِنِّي قَدْ خَشِيتُ أَنْ تَجِيءَ أَقْوَامٌ فَلَا يَجِدُونَہُ فِي كِتَابِ اللہِ فَيَكْفُرُونَ بِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عُمَرَ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رجم کیا،اورمیں نے بھی رجم کیا،اگرمیں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتاتواس کو ۱؎ مصحف میں لکھ دیتا،کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اورکتاب اللہ میں حکم رجم(سے متعلق آیت) نہ پاکر اس کا انکار کردیں۔ ابوعیسیٰ(ترمذی) کہتے ہیں: ۱-عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور دوسری سندوں سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے،۳-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ إِنَّ اللہَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْہِ الْكِتَابَ فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْہِ آيَةُ الرَّجْمِ فَرَجَمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَرَجَمْنَا بَعْدَہُ وَإِنِّي خَائِفٌ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ فَيَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللہِ فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَہَا اللہُ أَلَا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَی مَنْ زَنَی إِذَا أَحْصَنَ وَقَامَتْ الْبَيِّنَةُ أَوْ كَانَ حَبَلٌ أَوْ اعْتِرَافٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا،اور آپ پر کتاب نازل کی،آپ پرجوکچھ نازل کیاگیا اس میں آیت رجم بھی تھی ۱؎،چنانچہ رسول اللہ ﷺنے رجم کیا اور آپ کے بعدہم نے بھی رجم کیا،(لیکن) مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ درازہوجائے گا توکہنے والے کہیں گے: اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے،ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہوجائیں گے،خبردار! جب زانی شادی شدہ ہو اورگواہ موجود ہوں،یا جس عورت کے ساتھ زناکیا گیا ہووہ حاملہ ہوجائے،یا زانی خود اعتراف کرلے تو رجم کرنا واجب ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور کئی سندوں سے یہ حدیث عمر رضی اللہ عنہ سے آئی ہے،۳-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْمُہَلِّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُہَيْنَةَ اعْتَرَفَتْ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِالزِّنَا فَقَالَتْ إِنِّي حُبْلَی فَدَعَا النَّبِيُّ ﷺ وَلِيَّہَا فَقَالَ أَحْسِنْ إِلَيْہَا فَإِذَا وَضَعَتْ حَمْلَہَا فَأَخْبِرْنِي فَفَعَلَ فَأَمَرَ بِہَا فَشُدَّتْ عَلَيْہَا ثِيَابُہَا ثُمَّ أَمَرَ بِرَجْمِہَا فَرُجِمَتْ ثُمَّ صَلَّی عَلَيْہَا فَقَالَ لَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَا رَسُولَ اللہِ رَجَمْتَہَا ثُمَّ تُصَلِّي عَلَيْہَا فَقَالَ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَہْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْہُمْ وَہَلْ وَجَدْتَ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِہَا لِلَّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرمﷺ کے پاس زنا کا اقرارکیا،اورعرض کیا: میں حاملہ ہوں،نبی اکرمﷺنے اس کے ولی کوطلب کیا اورفرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جب بچہ جنے تومجھے خبرکرو،چنانچہ اس نے ایساہی کیا،اور پھرآپ نے حکم دیا،چنانچہ اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے ۱؎ پھرآپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا،چنانچہ اسے رجم کردیاگیا،پھر آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اسے رجم کیا ہے،پھر اس کی صلاۃ پڑھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگریہ مدینہ کے سترآدمیوں کے درمیان تقسیم کردی جائے توسب کوشامل ہوجائے گی ۲؎،عمر!اس سے اچھی کوئی چیز تمہاری نظرمیں ہے کہ اس نے اللہ کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ وَجَدْتُمُوہُ وَقَعَ عَلَی بَہِيمَةٍ فَاقْتُلُوہُ وَاقْتُلُوا الْبَہِيمَةَ فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا شَأْنُ الْبَہِيمَةِ قَالَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي ذَلِكَ شَيْئًا وَلَكِنْ أَرَی رَسُولَ اللہِ كَرِہَ أَنْ يُؤْكَلَ مِنْ لَحْمِہَا أَوْ يُنْتَفَعَ بِہَا وَقَدْ عُمِلَ بِہَا ذَلِكَ الْعَمَلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس آدمی کو جانورکے ساتھ وطی (جماع) کرتے ہوئے پاؤتو اسے قتل کردواور(ساتھ میں)جانورکو بھی قتل کردو۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھاگیا: جانورکوقتل کرنے کی کیاوجہ ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں کچھ نہیں سناہے،لیکن میراخیال ہے کہ جس جانورکے ساتھ یہ برافعل کیا گیا ہو،اس کا گوشت کھانے اور اس سے فائداٹھانے کو رسول اللہ ﷺنے ناپسندسمجھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمروبن ابی عمرو کی حدیث کوجسے وہ بطریق: عکرمۃ،عن ابن عباس،عن النبی ﷺروایت کرتے ہیں۔ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور سفیان ثوری نے بطریق: عاصم،عن زرین،عن ابن عباس (موقوفاً علیہ) روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں: جانور سے وطی (جماع)کرنے والے پر کوئی حدنہیں ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَأَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ جَدِّہِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي مُوسَی حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو ہمارے خلاف ہتھیاراٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۱؎۔اس باب میں ابن عمر،ابن زبیر،ابوہریرہ اورسلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ يَا يَہُودِيُّ فَاضْرِبُوہُ عِشْرِينَ وَإِذَا قَالَ يَا مُخَنَّثُ فَاضْرِبُوہُ عِشْرِينَ وَمَنْ وَقَعَ عَلَی ذَاتِ مَحْرَمٍ فَاقْتُلُوہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ رَوَاہُ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ وَقُرَّةُ بْنُ إِيَاسٍ الْمُزَنِيُّ أَنَّ رَجُلًا تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيہِ فَأَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِقَتْلِہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا قَالُوا مَنْ أَتَی ذَاتَ مَحْرَمٍ وَہُوَ يَعْلَمُ فَعَلَيْہِ الْقَتْلُ و قَالَ أَحْمَدُ مَنْ تَزَوَّجَ أُمَّہُ قُتِلَ و قَالَ إِسْحَقُ مَنْ وَقَعَ عَلَی ذَاتِ مَحْرَمٍ قُتِلَ

-عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب کوئی آدمی دوسرے کو یہودی کہہ کرپکارے تو اسے بیس کوڑے لگاؤ،اورجب مخنث(ہجڑا) کہہ کرپکارے تو اسے بیس کوڑے لگاؤ،اورجوکسی محرم کے ساتھ زناکرے اسے قتل کردو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-ابراہیم بن اسماعیل بن علیہ حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ کئی سندوں سے مروی ہے،۴-براء بن عازب اورقرہ بن ایاس مزنی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تو نبی اکرمﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا،۵-ہمارے اصحاب (محدثین) کا اسی پر عمل ہے،یہ لوگ کہتے ہیں: جوجانتے ہوے کسی محرم کے ساتھ زناکرے تو اس پر قتل واجب ہے،۶-(امام) احمد کہتے ہیں:جواپنی ماں سے نکاح کرے گا اسے قتل کیاجائے گا،۷-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جو کسی محرم کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کیاجائے گا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْلَا أَنَّ الْكِلَابَ أُمَّةٌ مِنْ الْأُمَمِ لَأَمَرْتُ بِقَتْلِہَا كُلِّہَا فَاقْتُلُوا مِنْہَا كُلَّ أَسْوَدَ بَہِيمٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَأَبِي رَافِعٍ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ أَنَّ الْكَلْبَ الْأَسْوَدَ الْبَہِيمَ شَيْطَانٌ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ الْبَہِيمُ الَّذِي لَا يَكُونُ فِيہِ شَيْءٌ مِنْ الْبَيَاضِ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ صَيْدَ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ الْبَہِيمِ

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اگریہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تومیں تمام کتوں کومارڈالنے کا حکم دیتا،سو اب تم ان میں سے ہر کالے سیاہ کتے کو مارڈالو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن مغفل کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،جابر،ابورافع،اور ابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض احادیث میں مروی ہے کہ کالا کتاشیطان ہوتاہے ۲؎،۴-أسود بہیم اس کتے کوکہتے ہیں جس میں سفیدی بالکل نہ ہو،۵-بعض اہل علم نے کالے کتے کے کئے شکارکومکروہ سمجھاہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الْقَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ مَعَہُمْ خَيْلٌ فَرَمَاہُ رَجُلٌ بِسَہْمٍ فَحَبَسَہُ اللہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِہَذِہِ الْبَہَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا فَعَلَ مِنْہَا ہَذَا فَافْعَلُوا بِہِ ہَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَبَايَةَ عَنْ أَبِيہِ وَہَذَا أَصَحُّ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہَكَذَا رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ نَحْوَ رِوَايَةِ سُفْيَانَ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے،لوگوں کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کربھاگ گیا،ان کے پاس گھوڑے بھی نہ تھے،ایک آدمی نے اس کو تیرمارا سو اللہ نے اس کو روک دیا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان چوپایوں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں،اس لیے اگران میں سے کوئی ایسا کرے (یعنی بدک جائے) تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو ۱؎۔اس سند سے بھی رافع رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،اس میں یہ نہیں ذکرہے کہ عبایہ نے اپنے والد سے روایت کی،یہ زیادہ صحیح ہے،۱-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۲-اسی طرح شعبہ نے اسے سعید بن مسروق سے سفیان کی حدیث کی طرح روایت ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالَا أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْہُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ فِي الْعَقِيقَةِ عَلَی مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ وَعَنْ الْجَارِيَةِ شَاةٌ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا أَنَّہُ عَقَّ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِشَاةٍ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ

ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے حسن کے کان میں صلاۃ کی اذان کی طرح اذان دی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرمﷺ سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ایک جیسی اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی،بعض اہل علم کامسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْقُطَعِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ عَقَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الْحَسَنِ بِشَاةٍ وَقَالَ يَا فَاطِمَةُ احْلِقِي رَأْسَہُ وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِہِ فِضَّةً قَالَ فَوَزَنَتْہُ فَكَانَ وَزْنُہُ دِرْہَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْہَمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَإِسْنَادُہُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا،اورفرمایا: فاطمہ! اس کا سرمونڈدواوراس کے بال کے برابرچاندی صدقہ کرو،فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابریا اس سے کچھ کم ہوا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس کی سند متصل نہیں ہے،اورراوی ابوجعفرالصادق محمد بن علی بن حسین نے علی بن ابی طالب کو نہیں پایاہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا أَزْہَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِكَبْشَيْنِ فَذَبَحَہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے خطبہ دیا،پھر(منبرسے) اترے پھر آپ نے دومینڈھے منگائے اوران کو ذبح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(یہ عید الاضحی کی صلاۃ کے بعد کیا تھا،دیکھیے اگلی حدیث)۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ الْمُطَّلِبِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ شَہِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الْأَضْحَی بِالْمُصَلَّی فَلَمَّا قَضَی خُطْبَتَہُ نَزَلَ عَنْ مِنْبَرِہِ فَأُتِيَ بِكَبْشٍ فَذَبَحَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِيَدِہِ وَقَالَ بِسْمِ اللہِ وَاللہُ أَكْبَرُ ہَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ إِذَا ذَبَحَ بِسْمِ اللہِ وَاللہُ أَكْبَرُ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْطَبٍ يُقَالُ إِنَّہُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ جَابِرٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ عیدالاضحی کے دن عیدگاہ گیا،جب آپ خطبہ ختم کرچکے تو منبرسے نیچے اترے،پھر ایک مینڈھالایاگیا تو آپﷺ نے اس کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا،اور(ذبح کرتے وقت) یہ کلمات کہے: بِسْمِ اللہِ،وَاللہُ أَکْبَرُ،ہَذَا عَنِّی وَعَمَّنْ لَمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-اہل علم صحابہ اوردیگرلوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ جانورذبح کرتے وقت آدمی یہ کہے بسم اللہ واللہ اکبرابن مبارک کا بھی یہی قول ہے،کہاجاتاہے،۳-راوی مطلب بن عبداللہ بن حنطب کاسماع جابرسے ثابت نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْہَادِ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ سَعِيدِ ابْنِ مَرْجَانَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً أَعْتَقَ اللہُ مِنْہُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْہُ عُضْوًا مِنْ النَّارِ حَتَّی يَعْتِقَ فَرْجَہُ بِفَرْجِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَمْرِو بْنِ عَبْسَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَابْنُ الْہَادِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْہَادِ وَہُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ قَدْ رَوَی عَنْہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جس نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا،اللہ اس غلام کے ہر عضوکے بدلے آزاد کرنے والے کے ایک ایک عضوکوآگ سے آزاد کرے گا،یہاں تک کہ اس (غلام)کی شرم گاہ کے بدلے اس کی شرم گاہ کو آزاد کرے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح،غریب ہے،۲-اس باب میں عائشہ،عمروبن عبسہ،ابن عباس،واثلہ بن اسقع،ابوامامہ،عقبہ بن عامراورکعب بن مرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الرُّعَيْنِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَالِكٍ الْيَحْصُبِيِّ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أُخْتِي نَذَرَتْ أَنْ تَمْشِيَ إِلَی الْبَيْتِ حَافِيَةً غَيْرَ مُخْتَمِرَةٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ اللہَ لَا يَصْنَعُ بِشَقَاءِ أُخْتِكَ شَيْئًا فَلْتَرْكَبْ وَلْتَخْتَمِرْ وَلْتَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری بہن نے نذرمانی ہے کہ وہ چادر اوڑھے بغیر ننگے پاؤں چل کرخانہ کعبہ تک جائے گی،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری بہن کی سخت کوشی پر کچھ نہیں کرے گا! ۱؎ اسے چاہئے کہ وہ سوار ہوجائے،چادراوڑھ لے اورتین دن کے صیام رکھے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،احمداوراسحاق کابھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ہُوَ أَخُو سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَغَيْرِہِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَيُّمَا امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا كَانَ فَكَاكَہُ مِنْ النَّارِ يُجْزِي كُلُّ عُضْوٍ مِنْہُ عُضْوًا مِنْہُ وَأَيُّمَا امْرِئٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ كَانَتَا فَكَاكَہُ مِنْ النَّارِ يُجْزِي كُلُّ عُضْوٍ مِنْہُمَا عُضْوًا مِنْہُ وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ أَعْتَقَتْ امْرَأَةً مُسْلِمَةً كَانَتْ فَكَاكَہَا مِنْ النَّارِ يُجْزِي كُلُّ عُضْوٍ مِنْہَا عُضْوًا مِنْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْحَدِيثِ مَا يَدُلُّ عَلَی أَنَّ عِتْقَ الذُّكُورِ لِلرِّجَالِ أَفْضَلُ مِنْ عِتْقِ الْإِنَاثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَنْ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا كَانَ فَكَاكَہُ مِنْ النَّارِ يُجْزِي كُلُّ عُضْوٍ مِنْہُ عُضْوًا مِنْہُ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ اوردوسرے صحابہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جومسلمان کسی مسلمان کو آزاد کرے گا،تویہ آزاد کرنا اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگا،اس آزاد کیے گئے مرد کا ہرعضو اس آزاد کرنے والے کے عضوکی طرف سے کفایت کرے گا،جومسلمان دومسلمان عورتوں کو آزاد کرے گا،تو یہ دونوں اس کے لیے جہنم سے خلاصی کا باعث ہوں گی،ان دونوں آزاد عورتوں کا ہرعضواس کے عضوکی طرف سے کفایت کرے گا،جومسلمان عورت کسی مسلمان عورت کوآزاد کرے گی،تویہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگی،اس آزاد کی گئی عورت کاہرعضواس آزادکرنے والے کے عضوکی طرف سے کفایت کرے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث دلیل ہے کہ مردوں کے لیے مرد آزاد کرنا عورت کے آزاد کرنے سے افضل ہے،اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان مرد کوآزاد کیاوہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوگا،اس آزاد کئے گئے مرد کا ہرعضواس کے عضوکی طرف سے کفایت کرے گا۔راوی نے پوری حدیث بیان کی جواپنی سندوں کے اعتبارسے صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عُمَرَ الشَّيْبَانِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ أَخْبَرَنِي حُيَيٌّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِہَا فَرَّقَ اللہُ بَيْنَہُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ كَرِہُوا التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِہَا وَبَيْنَ الْوَلَدِ وَالْوَالِدِ وَبَيْنَ الْإِخْوَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی قَدْ سَمِعْتُ البُخَارِيَّ يَقُولُ سَمِعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: جس نے ماں اوراس کے بچہ کے درمیان جدائی پیدا کی،اللہ قیامت کے دن اسے اس کے دوستوں سے جداکردے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے،وہ لوگ قیدیوں میں ماں اوربچے کے درمیان،باپ اوربچے کے درمیان اوربھائیوں کے درمیان جدائی کوناپسندسمجھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي بَعْثٍ فَقَالَ إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا وَفُلَانًا لِرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ فَأَحْرِقُوہُمَا بِالنَّارِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حِينَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ إِنِّي كُنْتُ أَمَرْتُكُمْ أَنْ تُحْرِقُوا فُلَانًا وَفُلَانًا بِالنَّارِ وَإِنَّ النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِہَا إِلَّا اللہُ فَإِنْ وَجَدْتُمُوہُمَا فَاقْتُلُوہُمَا وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ ذَكَرَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ بَيْنَ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ وَبَيْنَ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَجُلًا فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ رِوَايَةِ اللَّيْثِ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ أَشْبَہُ وَأَصَحُّ قَالَ الْبُخَارِيُّ وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ مُحَمَّدٌ وَحَدِيثُ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ فِي ہَذَا الْبَابِ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک لشکرمیں بھیجااورفرمایا: اگرتم قریش کے فلاں فلاں دوآدمیوں کو پاؤتوانہیں جلا دو،پھرجب ہم نے روانگی کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ فلاں فلاں کو جلادوحالانکہ آگ سے صرف اللہ ہی عذاب دے گا اس لیے اب اگر تم ان کو پاؤ تو قتل کردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔۲-محمدبن اسحاق نے اس حدیث میں سلیمان بن یسار اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک اورآدمی کا ذکرکیا ہے،کئی اور لوگوں نے لیث کی روایت کی طرح روایت کی ہے،لیث بن سعد کی حدیث زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں ابن عباس اورحمزہ بن عمرواسلمی رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے۔۴-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُہُمْ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ رَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا فَإِنْ أَعْطَاہُ وَفَی لَہُ وَإِنْ لَمْ يُعْطِہِ لَمْ يَفِ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلَی ذَلِكَ الْأَمْرُ بِلَا اخْتِلَافٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گااوران کے لیے دردناک عذاب ہے: ایک وہ آدمی جس نے کسی امام سے بیعت کی پھر اگر امام نے اسے (اس کی مرضی کے مطابق) دیاتواس نے بیعت پوری کی اوراگرنہیں دیا توبیعت پوری نہیں کی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے اوربلااختلاف اسی کے موافق حکم ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَتَقَدَّمَ سَرْعَانُ النَّاسِ فَتَعَجَّلُوا مِنْ الْغَنَائِمِ فَاطَّبَخُوا وَرَسُولُ اللہِ ﷺ فِي أُخْرَی النَّاسِ فَمَرَّ بِالْقُدُورِ فَأَمَرَ بِہَا فَأُكْفِئَتْ ثُمَّ قَسَمَ بَيْنَہُمْ فَعَدَلَ بَعِيرًا بِعَشْرِ شِيَاہٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبَايَةَ عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِيہِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ وَہَذَا أَصَحُّ وَعَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ سَمِعَ مِنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَكَمِ وَأَنَسٍ وَأَبِي رَيْحَانَةَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک سفرمیں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے،جلدباز لوگ آگے بڑھے اور غنیمت سے (کھانے پکانے کی چیزیں) جلدی لیا اور(تقسیم سے پہلے اسے) پکانے لگے،رسول اللہ ﷺ ان سے پیچھے آنے والے لوگوں کے ساتھ تھے،آپ ہانڈیوں کے قریب سے گزرے توآپ نے حکم دیا اوروہ الٹ دی گئیں،پھرآپ نے ان کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا،آپ نے ایک اونٹ کودس بکریوں کے برابرقراردیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سفیان ثوری نے یہ حدیث بطریق: عن أبیہ سعید،عن عبایۃ،عن جدہ رافع بن خدیج روایت کی ہے،اس سند میں عبایہ نے اپنے باپ کے واسطے کا نہیں ذکرکیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم سے اس حدیث کومحمودبن غیلان نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے وکیع نے بیان کیا،اوروکیع سفیان سے روایت کرتے ہیں۔یہ روایت زیادہ صحیح ہے،عبایہ بن رفاعہ کاسماع ان کے دادارافع بن خدیج سے ثابت ہے،۲-اس باب میں ثعلبہ بن حکم،انس،ابوریحانہ،أبوالدرداء،عبد الرحمن بن سمرہ،زید بن خالد،جابر،ابوہریرہ اورابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ انْتَہَبَ فَلَيْسَ مِنَّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو لوٹ پاٹ مچائے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَی بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ جَہَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَ غَازِيًا فِي أَہْلِہِ فَقَدْ غَزَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا سامان سفرتیارکیا حقیقت میں اس نے جہاد کیا اورجس نے غازی کے اہل وعیال میں اس کی جانشینی کی (اس کے اہل وعیال کی خبرگیری کی) حقیقت میں اس نے جہاد کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،یہ دوسری سندسے بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی،عَنْ عَطَائٍ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: مَنْ جَہَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ خَلَفَہُ فِي أَہْلِہِ فَقَدْ غَزَا. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

زیدبن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے کسی مجاہد کا سامان سفرتیارکیا،یا اس کے گھروالے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہاد کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ،عَنْ عَطَاءٍ،عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ.

اس سند سے بھی زید بن خالد جہنی سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ جَہَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَ غَازِيًا فِي أَہْلِہِ فَقَدْ غَزَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مجاہد کا سامان سفرتیارکیا حقیقت میں اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھروالے کی خبرگیری کی حقیقت میں اس نے جہادکیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ رُزَيْقٍ أَبُو شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ عَيْنَانِ لَا تَمَسُّہُمَا النَّارُ عَيْنٌ بَكَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللہِ وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَأَبِي رَيْحَانَةَ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شُعَيْبِ بْنِ رُزَيْقٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: دو آنکھوں کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی: ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے تر ہوئی ہو اورایک وہ آنکھ جس نے راہ ِجہاد میں پہرہ دیتے ہوے رات گزاری ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف شعیب بن رزیق ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں عثمان اور ابوریحانہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّہُ سَمِعَہُ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَدْخُلُ عَلَی أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُہُ وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَدَخَلَ عَلَيْہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمًا فَأَطْعَمَتْہُ وَجَلَسَتْ تَفْلِي رَأْسَہُ فَنَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَہُوَ يَضْحَكُ قَالَتْ فَقُلْتُ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللہِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ ہَذَا الْبَحْرِ مُلُوكٌ عَلَی الْأَسِرَّةِ أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَی الْأَسِرَّةِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ اللہَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْہُمْ فَدَعَا لَہَا ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَہُ فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَہُوَ يَضْحَكُ قَالَتْ فَقُلْتُ مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللہِ نَحْوَ مَا قَالَ فِي الْأَوَّلِ قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ اللہَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْہُمْ قَالَ أَنْتِ مِنْ الْأَوَّلِينَ قَالَ فَرَكِبَتْ أُمُّ حَرَامٍ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِہَا حِينَ خَرَجَتْ مِنْ الْبَحْرِ فَہَلَكَتْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأُمُّ حَرَامٍ بِنْتُ مِلْحَانَ ہِيَ أُخْتُ أُمِّ سُلَيْمٍ وَہِيَ خَالَةُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺام حرام بنت ملحان کے گھر جب بھی جاتے،وہ آپ کو کھانا کھلاتیں،ام حرام رضی اللہ عنہا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے عقدمیں تھیں،ایک دن رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر میں جوئیں دیکھنے بیٹھ گئیں،آپ سوگئے،پھر آپﷺ بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے،ام حرام کہتی ہیں: میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو کیا چیز ہنسارہی ہے؟ آپ نے (جواب میں) فرمایا: میرے سامنے میری امت کے کچھ مجاہدین پیش کئے گئے،وہ اس سمندرکے سینہ پر سوارتھے،تختوں پر بیٹھے ہوئے بادشاہ لگتے تھے۔راوی کو شک ہے کہ آ پ نے ملوک علی الأسرۃ کہا،یا مثل الملوک علی الأسرۃ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعاء کردیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں کردے،چنانچہ آپ نے ان کے لیے دعافرمائی،آپ پھراپناسررکھ کرسوگئے،پھر ہنستے ہوئے بیدارہوئے،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کوکیا چیزہنسارہی ہے؟ فرمایا: میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہادکرتے ہوئے پیش کئے گئے،آپ نے اسی طرح فرمایا جیسے اس سے پہلے فرمایاتھا،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!اللہ سے دعاء کردیجئے کہ مجھے ان لوگوں میں کردے،آپ نے فرمایا: تم (سمندرمیں)پہلے(جہادکرنے) والے لوگوں میں سے ہو۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں ام حرام سمندری سفر پر (ایک جہاد میں) نکلیں تو وہ سمندرسے نکلتے وقت اپنی سواری سے گرگئیں اور ہلاک ہوگئیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ام حرام بنت ملحان ام سلیم کی بہن اورانس بن مالک کی خالہ ہیں،(اورنبی اکرمﷺکے ننہال میں سے قریبی رشتہ دارتھیں)۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَوْ أَنَّ النَّاسَ يَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ مِنْ الْوِحْدَةِ مَا سَرَی رَاكِبٌ بِلَيْلٍ يَعْنِي وَحْدَہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر لوگ تنہائی کا وہ نقصان جان لیتے جو میں جانتاہوں تو کوئی سواررات میں تنہانہ چلے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الرَّاكِبُ شَيْطَانٌ وَالرَّاكِبَانِ شَيْطَانَانِ وَالثَّلَاثَةُ رَكْبٌ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَاصِمٍ وَہُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ مُحَمَّدٌ ہُوَ ثِقَةٌ صَدُوقٌ وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ لَا أَرْوِي عَنْہُ شَيْئًا وَحَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اکیلا سوار شیطان ہے،دوسواربھی شیطان ہیں اورتین سوار قافلہ والے ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ عَبَّأَنَا النَّبِيُّ ﷺ بِبَدْرٍ لَيْلًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْہُ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ سَمِعَ مِنْ عِكْرِمَةَ وَحِينَ رَأَيْتُہُ كَانَ حَسَنَ الرَّأْيِ فِي مُحَمَّدِ بْنِ حُمَيْدٍ الرَّازِيِّ ثُمَّ ضَعَّفَہُ بَعْدُ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مقام بدر میں رات کے وقت ہمیں مناسب جگہوں پر متعین کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابوایوب سے بھی روایت ہے،یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے لا علمی کااظہارکیا اورکہا: محمدبن اسحاق کا سماع عکرمہ سے ثابت ہے،اور جب میں نے بخاری سے ملاقات کی تھی تو وہ محمد بن حمید الرازی کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے،پھربعدمیں ان کو ضعیف قراردیا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَنْبَأَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ سَمِعْتُہُ يَقُولُ يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ يَدْعُو عَلَی الْأَحْزَابِ فَقَالَ اللہُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اہْزِمْ الْأَحْزَابَ اللہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کو (غزوہ احزاب میں) کفارکے لشکروں پر بددعاء کرتے ہوئے سنا،آپ نے ان الفاظ میں بددعاء کیاللہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیعَ الْحِسَابِ اہْزِمْ الأَحْزَابَ،اللہُمَّ اہْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ نَہَانَا رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ رُكُوبِ الْمَيَاثِرِ قَالَ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمُعَاوِيَةَ وَحَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ نَحْوَہُ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ریشمی زین پر سوار ہو نے سے منع فرمایا:راوی کہتے ہیں: اس حدیث میں ایک قصہ مذکورہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-براء رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی اورمعاویہ رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،شعبہ نے بھی اشعث بن ابی شعثاء سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،اس حدیث میں ایک قصہ مذکورہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اسْتَجَدَّ ثَوْبًا سَمَّاہُ بِاسْمِہِ عِمَامَةً أَوْ قَمِيصًا أَوْ رِدَاءً ثُمَّ يَقُولُ اللہُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ كَسَوْتَنِيہِ أَسْأَلُكَ خَيْرَہُ وَخَيْرَ مَا صُنِعَ لَہُ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَابْنِ عُمَرَ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ نَحْوَہُ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کانام لیتے جیسے عمامہ (پگڑی)،قمیص یاچادر،پھرکہتے: اللہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ،أَنْتَ کَسَوْتَنِیہِ أَسْأَلُکَ خَیْرَہُ،وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَہُ،وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ (اللہ!تیرے ہی لیے تعریف ہے،تو نے ہی مجھے یہ پہنایا ہے،میں تم سے اس کی خیراوراس چیز کی خیرکا طلب گارہوں جس کے لیے یہ بنایاگیا ہے،اوراس کی شراوراس چیز کے شرسے تیری پناہ مانگتاہوں جس کے لیے یہ بنایاگیاہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اس باب میں عمراورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اس سند سے بھی ابوسعید رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ،عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ،عَنْ الشَّعْبِيِّ،عَنْ عَلْقَمَةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: لاَتَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلاَبِالْعِظَامِ،فَإِنَّہُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنْ الْجِنِّ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،وَسَلْمَانَ،وَجَابِرٍ،وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ وَغَيْرُہُ،عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ،عَنْ الشَّعْبِيِّ،عَنْ عَلْقَمَةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ لَيْلَةَ الْجِنِّ،الْحَدِيثَ بِطُولِہِ،فَقَالَ الشَّعْبِيُّ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لاَتَسْتَنْجُوا بِالرَّوْثِ وَلاَبِالْعِظَامِ فَإِنَّہُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنْ الْجِنِّ. وَكَأَنَّ رِوَايَةَ إِسْمَاعِيلَ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گوبر اور ہڈی سے استنجا نہ کرو کیوں کہ وہ تمہارے بھائیوں جنوں کی خوراک ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں۱-اس باب میں ابوہریرہ،سلمان،جابر،ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث مروی ہیں۲-اسماعیل بن ابراہیم وغیرہ نے بسند داودابن ابی ہندعن شعبی عن علقمہ روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لیلۃ الجن میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے ۲؎ آگے انہوں نے پوری حدیث ذکرکی جولمبی ہے،شعبی کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا گوبر اور ہڈی سے استنجا نہ کرو کیوں کہ یہ تمہارے بھائیوں (جنوں)کی خوراک ہے،۳-گویااسماعیل بن ابراہیم کی روایت حفص بن غیاث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۳؎،۴-اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے،۵-اوراس باب میں جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی مَرْدَوَيْہِ قَالَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ يَبُولَ الرَّجُلُ فِي مُسْتَحَمِّہِ وَقَالَ إِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَيُقَالُ لَہُ أَشْعَثُ الْأَعْمَی وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ الْبَوْلَ فِي الْمُغْتَسَلِ وَقَالُوا عَامَّةُ الْوَسْوَاسِ مِنْہُ وَرَخَّصَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ ابْنُ سِيرِينَ وَقِيلَ لَہُ إِنَّہُ يُقَالُ إِنَّ عَامَّةَ الْوَسْوَاسِ مِنْہُ فَقَالَ رَبُّنَا اللہُ لَا شَرِيكَ لَہُ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ قَدْ وُسِّعَ فِي الْبَوْلِ فِي الْمُغْتَسَلِ إِذَا جَرَی فِيہِ الْمَاءُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْآمُلِيُّ عَنْ حِبَّانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺنے اس بات سے منع فرمایاہے کہ آدمی اپنے غسل خانہ میں پیشاب کرے ۱؎ اورفرمایا: زیادہ تروسوسے اسی سے پیداہوتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے،۲-یہ حدیث غریب ہے ۲؎ ہم اسے صرف اشعث بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں،انہیں اشعث اعمی بھی کہاجاتاہے،۳-اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے غسل خانے میں پیشاب کرنے کو مکروہ قراردیاہے،ان لوگوں کا کہناہے کہ زیادہ تر وسو سے اسی سے جنم لیتے ہیں،۴-بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے جن میں سے ابن سیرین بھی ہیں،ابن سیرین سے کہاگیا:کہاجاتا ہے کہ اکثروسوسے اسی سے جنم لیتے ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے،اس کاکوئی شریک نہیں۳؎،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ غسل خانے میں پیشاب کرنے کو جائز قرار دیاگیاہے،بشرطیکہ اس میں سے پانی بہ جاتا ہو۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنْ النَّارِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ ہُوَ ابْنُ جَزْءٍ الزُّبَيْدِيُّ وَمُعَيْقِيبٍ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ وَشُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ وَبُطُونِ الْأَقْدَامِ مِنْ النَّارِ قَالَ وَفِقْہُ ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّہُ لَا يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَی الْقَدَمَيْنِ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْہِمَا خُفَّانِ أَوْ جَوْرَبَانِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایڑیوں کے دھونے میں کوتاہی برتنے والوں کے لیے خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمر،عائشہ،جابر،عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی معیقیب،خالد بن ولید،شرحبیل بن حسنہ،عمرو بن العاص اور یزید بن ابی سفیان سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ ان ایڑیوں اورقدم کے تلوؤں کے لیے جو وضومیں سوکھی رہ جائیں خرابی ہے یعنی جہنم کی آگ ہے اس حدیث کا مطلب یہ ہواکہ پیروں کا مسح جائز نہیں اگر ان پر موزے یا جراب نہ ہوں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي حَيَّةَ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَعَائِشَةَ وَالرُّبَيِّعِ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَأَبِي رَافِعٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْروٍ وَمُعَاوِيَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ أَحْسَنُ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ لِأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَلِيٍّ رِضْوَانُ اللہِ عَلَيْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوُضُوءَ يُجْزِئُ مَرَّةً مَرَّةً وَمَرَّتَيْنِ أَفْضَلُ وَأَفْضَلُہُ ثَلَاثٌ وَلَيْسَ بَعْدَہُ شَيْءٌ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ لَا آمَنُ إِذَا زَادَ فِي الْوُضُوءِ عَلَی الثَّلَاثِ أَنْ يَأْثَمَ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَزِيدُ عَلَی الثَّلَاثِ إِلَّا رَجُلٌ مُبْتَلًی

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضوتین تین بار دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں عثمان،عائشہ،ربیع،ابن عمر،ابوامامہ،ابو رافع،عبداللہ بن عمرو،معاویہ،ابوہریرہ،جابر،عبداللہ بن زید اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اورصحیح ہے کیوں کہ یہ علی رضی اللہ عنہ سے اوربھی سندوں سے مروی ہے،۳-اہل علم کا اس پرعمل ہے کہ اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھونا کافی ہے،دودو بارافضل ہے اور اس سے بھی زیادہ افضل تین تین بار دھوناہے،اس سے آگے کی گنجائش نہیں،ابن مبارک کہتے ہیں: جب کوئی اعضائے وضو کوتین بار سے زیادہ دھوئے تو مجھے اس کے گناہ میں پڑنے کا خطرہ ہے،امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: تین سے زائد بار اعضائے وضو کووہی دھوئے گا جو(دیوانگی اوروسوسہ)میں مبتلاہوگا ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَی مَا يَمْحُو اللہُ بِہِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِہِ الدَّرَجَاتِ قَالُوا بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَی الْمَكَارِہِ وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَی الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ نَحْوَہُ و قَالَ قُتَيْبَةُ فِي حَدِيثِہِ فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبِيدَةَ وَيُقَالُ عُبَيْدَةُ بْنُ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيِّ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہُوَ ابْنُ يَعْقُوبَ الْجُہَنِيُّ الْحُرَقِيُّ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیزیں نہ بتاؤں جن سے اللہ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتاہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!کیوں نہیں،آپ ضرور بتائیں،آپ نے فرمایا: ناگواری کے باوجودمکمل وضوکرنا ۱؎ اورمسجدوں کی طرف زیادہ چل کرجانا ۲؎ اورصلاۃکے بعدصلاۃکا انتظار کرنا،یہی سرحدکی حقیقی پاسبانی ہے ۳؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ،عَنْ الْعَلاَءِ نَحْوَہُ،و قَالَ قُتَيْبَةُ فِي حَدِيثِہِ: فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ،فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ،فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ،ثَلاَثًا. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَعَبِيدَةَ-وَيُقَالُ عُبَيْدَةُ بْنُ عَمْرٍو-وَعَائِشَةَ،وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيِّ،وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَلاَءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہُوَ ابْنُ يَعْقُوبَ الْجُہَنِيُّ الْحُرَقِيُّ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ.

اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس طرح روایت ہے،لیکن قتیبہ نے اپنی روایت میں فَذَلِکُمْ الرِّبَاطُ فَذَلِکُمْ الرِّبَاطُ فَذَلِکُمْ الرِّبَاطُ تین بارکہاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،عبداللہ بن عمرو،ابن عباس،عَبیدہ-یا۔۔۔عُبیدہ بن عمرو-عائشہ،عبدالرحمٰن بن عائش الحضرمی اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالُوا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ مُجَاہِدًا يُحَدِّثُ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ عَلَی قَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّہُمَا يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا ہَذَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِہِ وَأَمَّا ہَذَا فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي مُوسَی وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَةَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي بَكْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی مَنْصُورٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ طَاوُسٍ وَرِوَايَةُ الْأَعْمَشِ أَصَحُّ قَالَ و سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبَانَ الْبَلْخِيَّ مُسْتَمْلِي وَكِيعٍ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ الْأَعْمَشُ أَحْفَظُ لِإِسْنَادِ إِبْرَاہِيمَ مِنْ مَنْصُورٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا گزر دوقبروں کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا:یہ دونوں قبروالے عذاب دیئے جارہے ہیں،اورکسی بڑی چیزمیں عذاب نہیں دیئے جارہے(کہ جس سے بچنامشکل ہوتا) رہا یہ تویہ اپنے پیشاب سے بچتانہیں تھا ۱؎ اوررہا یہ تویہ چغلی کیا کرتا تھا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابوموسیٰ،عبدالرحمٰن بن حسنہ،زید بن ثابت،اورابو بکر ۃ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وضو واجب نہیں جب تک آواز نہ ہو یا بونہ آئے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الْمَسْجِدِ فَوَجَدَ رِيحًا بَيْنَ أَلْيَتَيْہِ فَلَا يَخْرُجْ حَتَّی يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ وَعَلِيِّ بْنِ طَلْقٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ الْعُلَمَاءِ أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْہِ الْوُضُوءُ إِلَّا مِنْ حَدَثٍ يَسْمَعُ صَوْتًا أَوْ يَجِدُ رِيحًا و قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ إِذَا شَكَّ فِي الْحَدَثِ فَإِنَّہُ لَا يَجِبُ عَلَيْہِ الْوُضُوءُ حَتَّی يَسْتَيْقِنَ اسْتِيقَانًا يَقْدِرُ أَنْ يَحْلِفَ عَلَيْہِ وَقَالَ إِذَا خَرَجَ مِنْ قُبُلِ الْمَرْأَةِ الرِّيحُ وَجَبَ عَلَيْہَا الْوُضُوءُ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَقَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجدمیں ہو اور وہ اپنی سرین سے ہوا نکلنے کا شبہ پائے تو وہ (مسجد سے) نہ نکلے جب تک کہ وہ ہواکے خارج ہونے کی آوازنہ سن لے،یا بغیرآوازکے پیٹ سے خارج ہونے والی ہواکی بونہ محسوس کرلے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن زید،علی بن طلق،عائشہ،ابن عباس،ابن مسعود اور ابو سعیدخدری سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوریہی علماء کا قول ہے کہ وضوحدث ہی سے واجب ہوتا ہے کہ وہ حدث کی آوازسن لے یا بومحسوس کرلے،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ جب حدث میں شک ہوتو وضو واجب نہیں ہوتا،جب تک کہ ایسا یقین نہ ہوجائے کہ اس پر قسم کھاسکے،نیزکہتے ہیں کہ جب عورت کی اگلی شرم گاہ سے ہواخارج ہو تو اس پروضو واجب ہوجاتاہے،یہی شافعی اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ أَحَدِكُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّی يَتَوَضَّأَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جب تم میں کسی کو حدث ہوجائے (یعنی اس کا وضوٹوٹ جائے) ۱؎ تو اللہ اس کی صلاۃ قبول نہیں کرتا جب تک کہ وہ وضونہ کرلے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الرَّازِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ فَقَالَ تَوَضَّئُوا مِنْہَا وَسُئِلَ عَنْ الْوُضُوءِ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ فَقَالَ لَا تَتَوَضَّئُوا مِنْہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَأُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرَوَی عُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الرَّازِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ ذِي الْغُرَّةِ الْجُہَنِيِّ وَرَوَی حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ فَأَخْطَأَ فِيہِ وَقَالَ فِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ وَالصَّحِيحُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الرَّازِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ إِسْحَقُ صَحَّ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثَانِ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَدِيثُ الْبَرَاءِ وَحَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ أَنَّہُمْ لَمْ يَرَوْا الْوُضُوءَ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے اونٹ کے گوشت کے بارے پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: اس سے وضو کرو اور بکری کے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: اس سے وضو نہ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں جابر بن سمرہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-یہی قول احمد،عبداللہ اور اسحاق بن راہویہ کاہے،۳-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس باب میں رسول اللہﷺسے دوحدیثیں صحیح ہیں: ایک براء بن عازب کی (جسے مولف نے ذکرکیا اور اس کے طرق پر بحث کی ہے) اور دوسری جابر بن سمرہ کی،۴-یہی قول احمداور اسحاق بن راہویہ کاہے۔اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ ان لوگوں کی رائے ہے کہ اونٹ کے گوشت سے وضو نہیں ہے اوریہی سفیان ثوری اوراہل کوفہ کاقول ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ وَہُوَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْہَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ حَدَّثَنَا وَقَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَاءَ فَأَفْطَرَ فَتَوَضَّأَ فَلَقِيتُ ثَوْبَانَ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ صَدَقَ أَنَا صَبَبْتُ لَہُ وَضُوءَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی و قَالَ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ مَعْدَانُ بْنُ طَلْحَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَابْنُ أَبِي طَلْحَةَ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَأَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ مِنْ التَّابِعِينَ الْوُضُوءَ مِنْ الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ فِي الْقَيْءِ وَالرُّعَافِ وُضُوءٌ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَقَدْ جَوَّدَ حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ہَذَا الْحَدِيثَ وَحَدِيثُ حُسَيْنٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَرَوَی مَعْمَرٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فَأَخْطَأَ فِيہِ فَقَالَ عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ الْأَوْزَاعِيَّ وَقَالَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَإِنَّمَا ہُوَ مَعْدَانُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے قئی کی تو صوم توڑدیااوروضوکیا (معدان کہتے ہیں کہ) پھر میں نے ثوبان رضی اللہ عنہ سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور میں نے ان سے اس بات کاذکرکیا توانہوں نے کہاکہ ابوالدرداء نے سچ کہا،میں نے ہی آپ ﷺ پرپانی ڈالا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-صحابہ اورتابعین میں سے بہت سے اہل علم کی رائے ہے کہ قئی اورنکسیر سے وضو (ٹوٹ جاتا)ہے۔اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،احمد،اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے ۱؎ اوربعض اہل علم نے کہاہے کہ قئی اورنکسیرسے وضونہیں ٹوٹتا یہ مالک اورشافعی کا قول ہے ۲؎،۲-حدیث کے طرق کوذکرکرنے کے بعد امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حسین المعلم کی حدیث اس باب میں سب سے صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الزُّبَيْرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ يَبُولُ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا يُكْرَہُ ہَذَا عِنْدَنَا إِذَا كَانَ عَلَی الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ذَلِكَ وَہَذَا أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي ہَذَا الْبَابِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ حَنْظَلَةَ وَعَلْقَمَةَ بْنِ الْفَغْوَاءِ وَجَابِرٍ وَالْبَرَاءِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا،آپ پیشاب کررہے تھے،توآپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور ہمارے نزدیک سلام کا جواب دینا اس صورت میں مکروہ قرار دیا جاتا ہے جب آدمی پاخانہ یاپیشاب کررہاہو،بعض اہل علم نے اس کی یہی تفسیرکی ہے ۱؎،۲-یہ سب سے عمدہ حدیث ہے جواس باب میں روایت کی گئی ہے،۳-اور اس باب میں مہاجر بن قنفذ،عبداللہ بن حنظلہ،علقمہ بن شفواء،جابر اور براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ ہُوَ ابْنُ السَّبَّاقِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ كُنْتُ أَلْقَی مِنْ الْمَذْيِ شِدَّةً وَعَنَاءً فَكُنْتُ أُكْثِرُ مِنْہُ الْغُسْلَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ وَسَأَلْتُہُ عَنْہُ فَقَالَ إِنَّمَا يُجْزِئُكَ مِنْ ذَلِكَ الْوُضُوءُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ بِمَا يُصِيبُ ثَوْبِي مِنْہُ قَالَ يَكْفِيكَ أَنْ تَأْخُذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَتَنْضَحَ بِہِ ثَوْبَكَ حَيْثُ تَرَی أَنَّہُ أَصَابَ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ فِي الْمَذْيِ مِثْلَ ہَذَا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَذْيِ يُصِيبُ الثَّوْبَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لَا يُجْزِئُ إِلَّا الْغَسْلُ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَقَ وَقَالَ بَعْضُہُمْ يُجْزِئُہُ النَّضْحُ و قَالَ أَحْمَدُ أَرْجُو أَنْ يُجْزِئَہُ النَّضْحُ بِالْمَاءِ

سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے مذی کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دوچار ہونا پڑتاتھا،میں اس کی وجہ سے کثرت سے غسل کیا کرتاتھا،میں نے اس کا ذکر رسول اللہﷺ سے کیا اور اس سلسلے میں پوچھاتو آپ نے فرمایا: اس کے لیے تمہیں وضو کافی ہے،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگروہ کپڑے میں لگ جائے توکیا کروں؟ آپ نے فرمایا: تو ایک چلو پانی لے اوراسے کپڑے پر جہاں جہاں دیکھے کہ وہ لگی ہے چھڑک لے یہ تمہارے لیے کافی ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم مذی کے سلسلہ میں اس طرح کی روایت محمدبن اسحاق کے طریق سے ہی جانتے ہیں،۳-کپڑے میں مذی لگ جانے کے سلسلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے،بعض کا قول ہے کہ دھونا ضروری ہے،یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے،اور بعض اس بات کے قائل ہیں کہ پانی چھڑک لیناکافی ہوگا۔امام احمد کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ پانی چھڑک لینا کافی ہوگا ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ الأَسْوَدِ،عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَنَامُ،وَہُوَ جُنُبٌ وَلاَ يَمَسُّ مَاءً.

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺسوتے اور پانی کو ہاتھ نہ لگاتے اورآپ جنبی ہوتے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ سُفِيانَ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَہَذَا قَوْلُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَغَيْرِہِ. وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الأَسْوَدِ،عَنْ عَائِشَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ،أَنَّہُ كَانَ يَتَوَضَّأُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ. وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الأَسْوَدِ. وَقَدْ رَوَی عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ہَذَا الْحَدِيثَ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ. وَيَرَوْنَ أَنَّ ہَذَا غَلَطٌ مِنْ أَبِي إِسْحَاقَ

اس سند سے بھی ابو اسحاق سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہی سعید بن مسیب وغیرہ کاقول ہے،۲-کئی سندوں سے عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ سونے سے پہلے وضو کرتے تھے،۳-یہ ابواسحاق سبیعی کی حدیث(رقم ۱۱۸) سے جسے انہوں نے اسودسے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے،اورابواسحاق سبیعی سے یہ حدیث شعبہ،ثوری اوردیگر کئی لوگوں نے بھی روایت کی ہے اور ان کے خیا ل میں اس میں غلطی ابواسحاق سبیعی سے ہوئی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ قَالَ الْأَنْصَارِيُّ فَيَمُرُّ النِّسَاءُ مُتَلَفِّفَاتٍ بِمُرُوطِہِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنْ الْغَلَسِ و قَالَ قُتَيْبَةُ مُتَلَفِّعَاتٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَقَيْلَةَ بِنْتِ مَخْرَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ الزُّہْرِيُّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَہُ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَسْتَحِبُّونَ التَّغْلِيسَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺجب فجرپڑھالیتے تو پھرعورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی لوٹتیں وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،انس،اورقیلہ بنت مخرمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوراسی کو صحابہ کرام جن میں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں اوران کے بعد کے تابعین میں سے بہت سے اہل علم نے پسند کیا ہے،اوریہی شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ فجرغلس (اندھیرے) میں پڑھنا مستحب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَہَنَّمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَالْمُغِيرَةِ وَالْقَاسِمِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ أَبِيہِ وَأَبِي مُوسَی وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ قَالَ وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا وَلَا يَصِحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ تَأْخِيرَ صَلَاةِ الظُّہْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا الْإِبْرَادُ بِصَلَاةِ الظُّہْرِ إِذَا كَانَ مَسْجِدًا يَنْتَابُ أَہْلُہُ مِنْ الْبُعْدِ فَأَمَّا الْمُصَلِّي وَحْدَہُ وَالَّذِي يُصَلِّي فِي مَسْجِدِ قَوْمِہِ فَالَّذِي أُحِبُّ لَہُ أَنْ لَا يُؤَخِّرَ الصَّلَاةَ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَمَعْنَی مَنْ ذَہَبَ إِلَی تَأْخِيرِ الظُّہْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ ہُوَ أَوْلَی وَأَشْبَہُ بِالِاتِّبَاعِ وَأَمَّا مَا ذَہَبَ إِلَيْہِ الشَّافِعِيُّ أَنَّ الرُّخْصَةَ لِمَنْ يَنْتَابُ مِنْ الْبُعْدِ وَالْمَشَقَّةِ عَلَی النَّاسِ فَإِنَّ فِي حَدِيثِ أَبِي ذَرٍّ مَا يَدُلُّ عَلَی خِلَافِ مَا قَالَ الشَّافِعِيُّ قَالَ أَبُو ذَرٍّ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَأَذَّنَ بِلَالٌ بِصَلَاةِ الظُّہْرِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ يَا بِلَالُ أَبْرِدْ ثُمَّ أَبْرِدْ فَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ عَلَی مَا ذَہَبَ إِلَيْہِ الشَّافِعِيُّ لَمْ يَكُنْ لِلْإِبْرَادِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ مَعْنًی لِاجْتِمَاعِہِمْ فِي السَّفَرِ وَكَانُوا لَا يَحْتَاجُونَ أَنْ يَنْتَابُوا مِنْ الْبُعْدِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب گرمی سخت ہو تو صلاۃ ٹھنڈا ہونے پر پڑھو ۱؎ کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعید،ابوذر،ابن عمر،مغیرہ،اور قاسم بن صفوان کے باپ ابوموسیٰ،ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اس سلسلے میں عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،لیکن یہ صحیح نہیں،۴-اہل علم میں کچھ لوگوں نے سخت گرمی میں ظہر تاخیر سے پڑھنے کو پسند کیاہے۔یہی ابن مبارک،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔شافعی کہتے ہیں: ظہرٹھنڈا کرکے پڑھنے کی بات اس وقت کی ہے جب مسجدوالے دورسے آتے ہوں،رہا اکیلے صلاۃ پڑھنے والا اور وہ شخص جو اپنے ہی لوگوں کی مسجد میں صلاۃ پڑھتا ہوتو میں اس کے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ وہ سخت گرمی میں بھی صلاۃ کو دیرسے نہ پڑھے،۵-جولوگ گرمی کی شدت میں ظہرکودیرسے پڑھنے کی طرف گئے ہیں ان کامذہب زیادہ بہتر اور اتباع کے زیادہ لائق ہے،رہی وہ بات جس کی طرف شافعی کارجحان ہے کہ یہ رخصت اس کے لیے ہے جو دور سے آتا ہوتاکہ لوگوں کو پریشانی نہ ہوتو ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس چیز پردلالت کرتی ہیں جو امام شافعی کے قول کے خلاف ہیں۔ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک سفرمیں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے،بلال نے صلاۃِ ظہر کے لیے اذان دی،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بلال! ٹھنڈا ہوجانے دو،ٹھنڈا ہوجانے دو (یہ حدیث آگے آرہی ہے)،اب اگر بات ایسی ہوتی جس کی طرف شافعی گئے ہیں،تو اس وقت ٹھنڈا کرنے کا کوئی مطلب نہ ہوتا،اس لیے کہ سفرمیں سب لوگ اکٹھا تھے،انہیں دور سے آنے کی ضرورت نہ تھی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُہَاجِرٍ أَبِي الْحَسَنِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ فِي سَفَرٍ وَمَعَہُ بِلَالٌ فَأَرَادَ أَنْ يُقِيمَ فَقَالَ أَبْرِدْ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبْرِدْ فِي الظُّہْرِ قَالَ حَتَّی رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَہَنَّمَ فَأَبْرِدُوا عَنْ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک سفر میں تھے،ساتھ میں بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنے کا ارادہ کیا توآپ نے فرمایا: ٹھنڈا ہوجانے دو۔انہوں نے پھر اقامت کہنے کا ارادہ کیاتورسول اللہ ﷺ نے پھر فرمایا: ظہر کوٹھنڈاکرکے پڑھو۔وہ کہتے ہیں(ظہرتاخیرسے پڑھی گئی) یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ لیاتب انہوں نے اقامت کہی پھرآپ نے صلاۃپڑھی،پھرفرمایا: گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے۔لہذا صلاۃٹھنڈے میں پڑھاکرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ،عَنْ أَيُّوبَ،عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ،عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّہَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَشَدَّ تَعْجِيلاً لِلظُّہْرِ مِنْكُمْ،وَأَنْتُمْ أَشَدُّ تَعْجِيلاً لِلْعَصْرِ مِنْہُ.

ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ظہرمیں تم لوگوں سے زیادہ جلدی کرتے تھے اور تم لوگ عصرمیں رسول اللہﷺ سے زیادہ جلدی کرتے ہو ۱؎۔

قَالَ أَبُو عِيسَی: وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ عُلَيَّةَ،عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ،عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ،عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ نَحْوَہُ. وَوَجَدْتُ فِي كِتَابِي أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ.

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسماعیل بن علیہ سے بطریق ابْنِ جُرَیْجٍ،عَنْ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ،عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ اسی طرح روایت کی گئی ہے۔اورمجھے اپنی کتاب میں اس کی سند یوں ملی کہ مجھے علی بن حجر نے خبردی انہوں نے اسماعیل بن ابراہیم سے اور اسماعیل نے ابن جریج سے روایت کی ہے۔

وَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْبَصْرِيُّ،قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ،عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ بِہَذَا الإِسْنَادِ،نَحْوَہُ،وَہَذَا أَصَحُّ.

اسماعیل بن علیہ کی ابن جریج سے روایت زیادہ صحیح ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ أَنَّہُ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ إِنَّ اللہَ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ ہِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ جَعَلَہُ اللہُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَی أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ وَقَدْ وَہِمَ بَعْضُ الْمُحَدِّثِينَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَاشِدٍ الزُّرَقِيِّ وَہُوَ وَہَمٌ فِي ہَذَا وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ اسْمُہُ حُمَيْلُ بْنُ بَصْرَةَ و قَالَ بَعْضُہُمْ جَمِيلُ بْنُ بَصْرَةَ وَلَا يَصِحُّ وَأَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ رَجُلٌ آخَرُ يَرْوِي عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَہُوَ ابْنُ أَخِي أَبِي ذَرٍّ

خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ(حجرے سے نکل کر) ہمارے پاس آئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک ایسی صلاۃ کا اضافہ کیا ہے ۱؎،جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہترہے،وہ وترہے،اللہ نے اس کا وقت تمہارے لیے صلاۃِعشاء سے لے کر فجرکے طلوع ہونے تک رکھاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-خارجہ بن حذافہ کی حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف یزید بن ابی حبیب ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-بعض محدثین کواس حدیث میں وہم ہوا ہے،انہوں نے عبداللہ بن راشدزرقی کہاہے،یہ وہم ہے (صحیح زوفیہے) ۳-اس باب میں ابوہریرہ،عبداللہ بن عمرو،بریدہ،اور ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-ابوبصرہ غفاری کانام حُمیل بن بصرہ ہے،اور بعض لوگوں نے جمیل بن بصرہ کہا ہے،لیکن یہ صحیح نہیں،اور ابوبصرہ غفاری ایک دوسرے شخص ہیں جوابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اوروہ ابوذرکے بھتیجے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّہَا كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ إِذَا ہَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ لِيَقُلْ اللہُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللہُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِہِ فَيَسِّرْہُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيہِ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعِيشَتِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِہِ فَاصْرِفْہُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْہُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِہِ قَالَ وَيُسَمِّي حَاجَتَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي وَہُوَ شَيْخٌ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ رَوَی عَنْہُ سُفْيَانُ حَدِيثًا وَقَدْ رَوَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔آپ فرماتے: تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دورکعت پڑھے،پھر کہے: اللہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ،وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ،وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیمِ،فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ،وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ،وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ،اللہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی،یاکہے فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ-فَیَسِّرْہُ لِی،ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیہِ،وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی-یا کہے فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ-فَاصْرِفْہُ عَنِّی،وَاصْرِفْنِی عَنْہُ وَاقْدُرْ لِی الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ،ثُمَّ أَرْضِنِی بِہِ (اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے تجھ سے بھلائی طلب کرتاہوں،اور تیری طاقت کے ذریعے تجھ سے طاقت طلب کرتاہوں،اورتجھ سے تیر ے فضل کاسوال کرتاہوں،تو قدرت رکھتاہے اورمیں قدرت نہیں رکھتا،توعلم والاہے اورمیں لا علم ہوں،تو تمام غیبوں کوخوب جاننے والا ہے،اے اللہ اگر تو جانتاہے کہ یہ کام میرے حق میں،میرے دین،میری روزی اورانجام کے اعتبارسے (یا آپ نے فرمایا:یامیری دنیااورآخرت کے لحاظ سے)بہترہے،تو اسے تو میرے لیے آسان بنادے اورمجھے اس میں برکت عطافرما،اورا گر توجانتا ہے کہ یہ کام میرے حق میں،میرے دین،میری روزی اورانجام کے اعتبارسے یافرمایامیری دنیا اور آخرت کے لحاظ سے میرے لیے بُراہے تو اسے تومجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے خیر مقدر فرما دے وہ جہاں بھی ہو،پھر مجھے اس پر راضی کردے۔)آپ نے فرمایا: اور اپنی حاجت کانام لے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابی الموالی کی روایت سے جانتے ہیں،یہ ایک مدنی ثقہ شیخ ہیں،ان سے سفیان نے بھی ایک حدیث روایت کی ہے،اور عبدالرحمٰن سے دیگرکئی ائمہ نے بھی روایت کی ہے،یہی عبدالرحمٰن بن زیدبن ابی الموالی ہیں،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعوداور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ حَدَّثَنِي مُوسَی بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ كَيْسَانَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ شَدَّادٍ أَخْبَرَہُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَوْلَی النَّاسِ بِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرُہُمْ عَلَيَّ صَلَاةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ بِہَا عَشْرًا وَكَتَبَ لَہُ بِہَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مجھ سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ۱؎ وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ صلاۃ(درود) بھیجے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-نبی اکرمﷺسے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایاـ: جو مجھ پر ایک بار صلاۃ(درود) بھیجتا ہے،اللہ اس پر اس کے بدلے دس بار صلاۃ(درود) بھیجتاہے ۲؎،اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں(یہی حدیث آگے آرہی ہے)۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ بِہَا عَشْرًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَعَمَّارٍ وَأَبِي طَلْحَةَ وَأَنَسٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا صَلَاةُ الرَّبِّ الرَّحْمَةُ وَصَلَاةُ الْمَلَائِكَةِ الِاسْتِغْفَارُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو مجھ پر ایک بار صلاۃ(درود) بھیجے گا،اللہ اس کے بدلے اس پر دس بار صلاۃ(درود) بھیجے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف،عامر بن ربیعہ،عمار،ابوطلحہ،انس اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-سفیان ثوری اوردیگر کئی اہل علم سے مروی ہے کہ رب کے صلاۃ(درود) سے مراد اس کی رحمت ہے اور فرشتوں کے صلاۃ(درود) سے مراد استغفار ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ الْبَلْخِيُّ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ أَبِي قُرَّةَ الْأَسَدِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْہُ شَيْءٌ حَتَّی تُصَلِّيَ عَلَی نَبِيِّكَ ﷺ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دعا آسمان اور زمین کے درمیان رکی رہتی ہے،اس میں سے ذراسی بھی اوپر نہیں جاتی جب تک کہ تم اپنے نبی ﷺ پر صلاۃ(درود) نہیں بھیج لیتے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَا يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّہَ فِي الدِّينِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ عَبَّاسٌ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہُوَ ابْنُ يَعْقُوبَ وَہُوَ مَوْلَی الْحُرَقَةِ وَالْعَلَاءُ ہُوَ مِنْ التَّابِعِينَ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِہِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَعْقُوبَ وَالِدُ الْعَلَاءِ وَہُوَ أَيْضًا مِنْ التَّابِعِينَ سَمِعَ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَيَعْقُوبَ جَدُّ الْعَلَاءِ ہُوَ مِنْ كِبَارِ التَّابِعِينَ أَيْضًا قَدْ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَرَوَی عَنْہُ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمارے بازار میں کوئی خرید وفروخت نہ کرے جب تک کہ وہ دین میں خوب سمجھ نہ پیدا کرلے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب یہ باپ بیٹے اور دادا تینوں تابعی ہیں،علاء کے دادا اور یعقوب کبار تابعین میں سے ہیں،انہوں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو پایاہے اور ان سے روایت بھی کی ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ إِسْمَعِيلَ السُّدِّيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ الْبَہِيِّ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا كُنْتُ أَقْضِي مَا يَكُونُ عَلَيَّ مِنْ رَمَضَانَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ حَتَّی تُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَقَدْ رَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ ہَذَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رمضان کے جوصیام مجھ پررہ جاتے انہیں میں شعبان ہی میں قضا کرپاتی تھی۔جب تک کہ رسول اللہﷺ کی وفات نہیں ہوگئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْبَغْدَادِيُّ الْوَرَّاقُ وَأَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ حَدَّثَنِي إِسْمَعِيلُ بْنُ كَثِيرٍ قَال سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَخْبِرْنِي عَنْ الْوُضُوءِ قَالَ أَسْبِغْ الْوُضُوءَ وَخَلِّلْ بَيْنَ الْأَصَابِعِ وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ أَہْلُ الْعِلْمِ السُّعُوطَ لِلصَّائِمِ وَرَأَوْا أَنَّ ذَلِكَ يُفْطِرُہُ وَفِي الْبَابِ مَا يُقَوِّي قَوْلَہُمْ

لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے۔آپ نے فرمایا: کامل طریقے سے وضو کرو،انگلیوں کے درمیان خلال کرواور ناک میں پانی سُرکنے میں مبالغہ کرو،إلا یہ کہ تم صوم سے ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم نے صائم کے لیے ناک میں پانی سُرکنے میں مبالغہ کرنے کو مکروہ کہاہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس سے صوم ٹوٹ جاتاہے،۳-اس باب میں دوسری روایات بھی ہیں جن سے ان کے قول کی تقویت ہوتی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْن أَبِي ہِلَالٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاہُ اللہُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ رَبِيعَةُ بْنُ سَيْفٍ إِنَّمَا يَرْوِي عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَلَا نَعْرِفُ لِرَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ سَمَاعًا مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مرتا ہے،اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے،ربیعہ بن سیف ابوعبدالرحمٰن حبلی سے روایت کرتے ہیں اور وہ عبداللہ بن عمرو سے۔اورہم نہیں جانتے کہ ربیعہ بن سیف کی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سماع ہے یا نہیں۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ الْوَرَّاقُ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْلَی عَنْ أَبِي فَرْوَةَ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ عَنْ زَيْدٍ وَہُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَبَّرَ عَلَی جَنَازَةٍ فَرَفَعَ يَدَيْہِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ وَوَضَعَ الْيُمْنَی عَلَی الْيُسْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا فَرَأَی أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ يَدَيْہِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ عَلَی الْجَنَازَةِ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرْفَعُ يَدَيْہِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَذُكِرَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ فِي الصَّلَاةِ عَلَی الْجَنَازَةِ لَا يَقْبِضُ يَمِينَہُ عَلَی شِمَالِہِ وَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَقْبِضَ بِيَمِينِہِ عَلَی شِمَالِہِ كَمَا يَفْعَلُ فِي الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی يَقْبِضُ أَحَبُّ إِلَيَّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازے میں اللہ اکبر کہا تو پہلی تکبیر پر آپ نے رفع الیدین کیا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صر ف اسی طریق سے جانتے ہیں،۳-اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے،صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ آدمی جنازے میں ہرتکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے گا،یہ ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: صرف پہلی باراپنے دونوں ہاتھ اٹھائے گا۔یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ۲؎،۵-ابن مبارک کہتے ہیں کہ صلاۃ جنازہ میں داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کونہیں پکڑے گا،۶-اوربعض اہل علم کہتے ہیں: وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑے گا جیسے وہ دوسری صلاۃمیں کرتاہے،۷-امام ترمذی کہتے ہیں: ہاتھ باندھنا مجھے زیادہ پسند ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ وَزَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الْبَصْرِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ التَّبَتُّلِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَزَادَ زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ فِي حَدِيثِہِ وَقَرَأَ قَتَادَةُ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی الْأَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَيُقَالُ كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے بے شادی زندگی گزارنے سے منع فرمایاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-زید بن اخزم نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ قتادہ نے یہ آیت کریمہ: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّیَّۃً ۲؎ (ہم آپ سے پہلے کئی رسول بھیج چکے ہیں،ہم نے انہیں بیویاں عطاکیں اور اولا دیں)پڑھی ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اشعث بن عبدالملک نے یہ حدیث بطریق: الحسن،عن سعد بن ہشام،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے،۳-کہاجاتا ہے کہ یہ دونوں ہی حدیثیں صحیح ہیں،۴-اس باب میں سعد،انس بن مالک،عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ رَدَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ وَلَوْ أَذِنَ لَہُ لَاخْتَصَيْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون کوبغیرشادی کے زندگی گزارنے کی اجازت نہیں دی،اگرآپ انہیں اس کی اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ فِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ أَنَّ فِي الْمُوضِحَةِ خَمْسًا مِنْ الْإِبِلِ

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: موضحہ (ہڈی کھل جانے والے زخم) ۱؎ میں پانچ اونٹ ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور اہل علم کے نزدیک اسی پرعمل ہے،سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول یہی ہے کہ موضحہ (ہڈی کھل جانے والے زخم)میں پانچ اونٹ ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ خَرَجَتْ جَارِيَةٌ عَلَيْہَا أَوْضَاحٌ فَأَخَذَہَا يَہُودِيٌّ فَرَضَخَ رَأْسَہَا بِحَجَرٍ وَأَخَذَ مَا عَلَيْہَا مِنْ الْحُلِيِّ قَالَ فَأُدْرِكَتْ وَبِہَا رَمَقٌ فَأُتِيَ بِہَا النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ مَنْ قَتَلَكِ أَفُلَانٌ قَالَتْ بِرَأْسِہَا لَا قَالَ فَفُلَانٌ حَتَّی سُمِّيَ الْيَہُودِيُّ فَقَالَتْ بِرَأْسِہَا أَيْ نَعَمْ قَالَ فَأُخِذَ فَاعْتَرَفَ فَأَمَرَ بِہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَرُضِخَ رَأْسُہُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا قَوَدَ إِلَّا بِالسَّيْفِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی،ایک یہودی نے اسے پکڑکر پتھر سے اس کاسر کچل دیا اور اس کے پاس جوزیور تھے وہ اس سے چھین لیا،پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی،چنانچہ اسے نبی اکرمﷺ کے پاس لایا گیا،آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے ماراہے،فلاں نے؟ اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں،آپ نے پوچھا: فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کانام لیا گیا(جس نے اس کا سرکچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تویہودی پکڑاگیا،اور اس نے اعترافِ جرم کرلیا،پھر رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا،اور اس کا سردوپتھروں کے درمیان کچل دیاگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے،احمداور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں: قصاص صرف تلوار سے لیاجائے گا ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ ہُوَ الْبَصْرِيُّ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَلَا مَنْ قَتَلَ نَفْسًا مُعَاہِدًا لَہُ ذِمَّةُ اللہِ وَذِمَّةُ رَسُولِہِ فَقَدْ أَخْفَرَ بِذِمَّةِ اللہِ فَلَا يُرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَہَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: خبردار! جس نے کسی ایسے ذمی ۱؎ کو قتل کیا جسے اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی پناہ حاصل تھی تو اس نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا،لہذا وہ جنت کی خوشبونہیں پاسکے گا،حالانکہ اس کی خوشبوستر سال کی مسافت(دوری) سے آئے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺ سے ابوہریرہ کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے،۳-اس باب میں ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي سَعْدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَدَی الْعَامِرِيَّيْنِ بِدِيَةِ الْمُسْلِمِينَ وَكَانَ لَہُمَا عَہْدٌ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو سَعْدٍ الْبَقَّالُ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ الْمَرْزُبَانِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے قبیلہ عامر کے دوآدمیوں کو مسلمانوں کے برابر دیت دی،(کیونکہ)ان دونوں کا رسول اللہ ﷺ سے عہدوپیمان تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-حدیث کے راوی ابوسعد بقال کا نام سعید بن مرزبان ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ الْجَوَّابِ أَبُو الْجَوَّابِ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ جَيْشَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَی أَحَدِہِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَعَلَی الْآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ فَقَالَ إِذَا كَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ قَالَ فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا فَأَخَذَ مِنْہُ جَارِيَةً فَكَتَبَ مَعِي خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ يَشِي بِہِ فَقَدِمْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَرَأَ الْكِتَابَ فَتَغَيَّرَ لَوْنُہُ ثُمَّ قَالَ مَا تَرَی فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللہَ وَرَسُولَہُ وَيُحِبُّہُ اللہُ وَرَسُولُہُ قَالَ قُلْتُ أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ غَضَبِ اللہِ وَغَضَبِ رَسُولِہِ وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ فَسَكَتَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَحْوَصِ بْنِ جَوَّابٍ قَوْلُہُ يَشِي بِہِ يَعْنِي النَّمِيمَةَ

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے دولشکرروانہ کیا ۱؎،ایک پر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے پرخالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو امیرمقررکیا اورفرمایا:جب جنگ ہوتوعلی امیرہوں گے ۲؎ ،علی رضی اللہ عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس میں سے ایک لونڈی لے لی،خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے مجھ کو خط کے ساتھ نبی اکرمﷺ کے پاس روانہ کیا،میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا،آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیرہوگیا،پھر آپ نے فرمایا: اس آدمی کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے،اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں اللہ اوراس کے رسول کے غصہ سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں میں توصرف قاصدہوں،لہذا آپ خاموش ہوگئے ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اس کو صرف احوص بن جواب کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابن عمرسے بھی حدیث مروی ہے،۳- یشی بہ کا معنی چغل خوری ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ قَال سَمِعْتُ نُبَيْحًا الْعَنَزِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي لِتَدْفِنَہُ فِي مَقَابِرِنَا فَنَادَی مُنَادِي رَسُولِ اللہِ ﷺ رُدُّوا الْقَتْلَی إِلَی مَضَاجِعِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَنُبَيْحٌ ثِقَةٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:احدکے دن میری پھوپھی میرے باپ کو لے کر آئیں تاکہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کریں،تو رسول اللہ ﷺ کے ایک منادی نے پکارا:مقتولوں کو ان کی قتل گاہوں میں لوٹادو(دفن کرو) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور نبیح ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَہُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْہِ بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَمْ يَكُنْ بِالْقَصِيرِ وَلَا بِالطَّوِيلِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَأَبِي رِمْثَةَ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ ﷺ سے خوبصورت نہیں دیکھا،آ پ کے بال شانوں کو چھوتے تھے،آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی،آپ نہ کوتاہ قدتھے اورنہ لمبے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابربن سمرہ،ابورمثہ اورابوجحیفہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ ہِلَالٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ كِسَاءً مُلَبَّدًا وَإِزَارًا غَلِيظًا فَقَالَتْ قُبِضَ رُوحُ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي ہَذَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوبردہ کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے سامنے ایک اونی چادراورموٹا تہ بندنکالا اورکہا: رسول اللہ ﷺ کی وفات انہی دونوں کپڑوں میں ہوئی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی اورابن مسعود رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ كَانَ عَلَی مُوسَی يَوْمَ كَلَّمَہُ رَبُّہُ كِسَاءُ صُوفٍ وَجُبَّةُ صُوفٍ وَكُمَّةُ صُوفٍ وَسَرَاوِيلُ صُوفٍ وَكَانَتْ نَعْلَاہُ مِنْ جِلْدِ حِمَارٍ مَيِّتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ وَحُمَيْدٌ ہُوَ ابْنُ عَلِيٍّ الْكُوفِيُّ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حُمَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَعْرَجُ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَحُمَيْدُ بْنُ قَيْسٍ الْأَعْرَجُ الْمَكِّيُّ صَاحِبُ مُجَاہِدٍ ثِقَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْكُمَّةُ الْقَلَنْسُوَةُ الصَّغِيرَةُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس دن موسیٰ علیہ السلام سے ان کے رب نے گفتگوکی اس دن موسیٰ علیہ السلام کے بدن پر پرانی چادر،اونی جبہ،اونی ٹوپی،اوراونی سراویل(پائجامہ) تھا اوران کے جوتے مرے ہوئے گدھے کے چمڑے کے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف حمیداعرج کی روایت سے جانتے ہیں،حمید سے مراد حمید بن علی کوفی ہیں،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا کہ حمید بن علی اعرج منکرالحدیث ہیں اورحمید بن قیس اعرج مکی جومجاہد کے شاگردہیں،وہ ثقہ ہیں،۳-کمہ: چھوٹی ٹوپی کو کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنْ الْإِيمَانِ وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنْ النِّفَاقِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ قَالَ وَالْعِيُّ قِلَّةُ الْكَلَامِ وَالْبَذَاءُ ہُوَ الْفُحْشُ فِي الْكَلَامِ وَالْبَيَانُ ہُوَ كَثْرَةُ الْكَلَامِ مِثْلُ ہَؤُلَاءِ الْخُطَبَاءِ الَّذِينَ يَخْطُبُونَ فَيُوَسِّعُونَ فِي الْكَلَامِ وَيَتَفَصَّحُونَ فِيہِ مِنْ مَدْحِ النَّاسِ فِيمَا لَا يُرْضِي اللہَ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حیا اورکم گوئی ایمان کی دوشاخیں ہیں،جب کہ فحش کلامی اورکثرت کلام نفاق کی دوشاخیں ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب،ہم اسے صرف ابوغسان محمدبن مطرف ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲- عیّ کامعنی کم گوئی اور بذاء کا معنی فحش گوئی ہے،بیان کا معنی کثرت کلام ہے،مثلاوہ مقررین جولمبی تقریریں کرتے ہیں اورلوگوں کی تعریف میں ایسی فصاحت بگھاڑتے ہیں جواللہ کو پسند نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ وَأَبِي مُوسَی وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ظلم کرناقیامت کے دن تاریکیوں کا سبب ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ابن عمرکی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو،عائشہ،ابوموسیٰ،ابوہریرہ،اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا حَلِيمَ إِلَّا ذُو عَثْرَةٍ وَلَا حَكِيمَ إِلَّا ذُو تَجْرِبَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: غلطی کرنے والے ہی بردبارہوتے ہیں اورتجربہ والے ہی دانا ہوتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْخُزَاعِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَخَّصَ فِي الرُّقْيَةِ مِنْ الْحُمَةِ وَالْعَيْنِ وَالنَّمْلَةِ وحَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ وَأَبُو نُعَيْمٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَخَّصَ فِي الرُّقْيَةِ مِنْ الْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ سُفْيَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَأَبِي خُزَامَةَ عَنْ أَبِيہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے بچھوکے ڈنک،نظربداورپسلی میں نکلنے والے دانے کے سلسلے میں،جھاڑ پھونک کی اجازت دی ہے۔اس سند سے انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بچھوکے ڈنک اورپسلی میں نکلنے والے دانے کے سلسلے میں جھاڑ پھونک کرانے کی اجازت دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث میرے نزدیک اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے معاویہ بن ہشام نے سفیان سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں بریدہ،عمران بن حصین،جابر،عائشہ،طلق بن علی،عمروبن حزم اورابوخزامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِہِ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جھاڑ پھونک صرف نظربداورپسلی میں نکلنے والے دانے کی وجہ سے ہی جائزہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: شعبہ نے یہ حدیث عن حصین عن الشعبی عن بریدۃ عن النبی ﷺ کی سند سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَنِي حَيَّةُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا شَيْءَ فِي الْہَامِ وَالْعَيْنُ حَقٌّ

حابس تمیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: الّو(کے سلسلے میں لوگوں کے اعتقاد) کی کوئی حقیقت نہیں ہے اورنظربدکا اثرحقیقی چیزہے (یعنی سچ ہے)۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَقَ الْحَضْرَمِيُّ حَدَّثَنَا وُہَيْبٌ عَنْ ابْنِ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْہُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَحَدِيثُ حَيَّةَ بْنِ حَابِسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ حَيَّةَ بْنِ حَابِسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ وَحَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ لَا يَذْكُرَانِ فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگرکوئی چیز تقدیرپرسبقت (پہل) کرسکتی تو اس پرنظربدضرورسبقت (پہل)کرتی،اور جب لوگ تم سے غسل کرائیں توتم غسل کرلو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-حیہ بن حابس کی روایت (جواوپرمذکورہے) غریب ہے،۳-شیبان نے اسے عن یحیی بن أبی کثیر،عن حیۃ بن حابس،عن أبیہ،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کیا ہے جب کہ علی بن مبارک اورحرب بن شدادنے اس سندمیں ابوہریرہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے،۴-اس باب میں عبداللہ بن عمروسے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِہِ،وَمَنْ تَرَكَ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي البَابِ عَنْ جَابِرٍ،وَأَنَسٍ،وَقَدْ رَوَاہُ الزُّہْرِيُّ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَطْوَلَ مِنْ ہَذَا وَأَتَمَّ مَعْنَی ضَيَاعًا: ضَائِعًا لَيْسَ لَہُ شَيْءٌ،فَأَنَا أَعُولُہُ وَأُنْفِقُ عَلَيْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے (مرنے کے بعد) کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے،اور جس نے ایسی اولاد چھوڑی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت میرے ذمہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-زہری نے یہ حدیث عن أبی سلمۃ،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے اورو ہ حدیث اس سے طویل اور مکمل ہے،۳-اس باب میں جابر اورانس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-ضیاعًا کا معنی یہ ہے کہ ایسی اولاد جس کے پاس کچھ نہ ہوتو میں ان کی کفالت کروں گا اور ان پر خرچ کروں گا ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاذٍ الصَّنْعَانِيُّ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْہُ وَنَحْنُ نَسِيرُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنْ النَّارِ قَالَ لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ وَإِنَّہُ لَيَسِيرٌ عَلَی مَنْ يَسَّرَہُ اللہُ عَلَيْہِ تَعْبُدُ اللہَ وَلَا تُشْرِكْ بِہِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَيْتَ ثُمَّ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَی أَبْوَابِ الْخَيْرِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ قَالَ ثُمَّ تَلَا تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ حَتَّی بَلَغَ يَعْمَلُونَ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّہِ وَعَمُودِہِ وَذِرْوَةِ سَنَامِہِ قُلْتُ بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعَمُودُہُ الصَّلَاةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِہِ الْجِہَادُ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلَاكِ ذَلِكَ كُلِّہِ قُلْتُ بَلَی يَا نَبِيَّ اللہِ فَأَخَذَ بِلِسَانِہِ قَالَ كُفَّ عَلَيْكَ ہَذَا فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللہِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِہِ فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَہَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَی وُجُوہِہِمْ أَوْ عَلَی مَنَاخِرِہِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا،ا یک دن صبح کے وقت میں آپ ﷺسے قریب ہوا،ہم سب چل رہے تھے،میں نے آپ سے عرض کیا:اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں لے جائے،اور جہنم سے دوررکھے؟ آپ نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔اور بے شک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کردے۔تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ،صلاۃ قائم کرو،زکاۃ دو،رمضان کے صیام رکھو،اوربیت اللہ کا حج کرو۔پھر آپ نے فرمایا: کیامیں تمہیں بھلائی کے دروازے (راستے) نہ بتاؤں؟ صوم ڈھال ہے،صدقہ گناہ کو ایسے بجھادیتاہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتاہے،اور آدھی رات کے وقت آدمی کا صلاۃ (تہجد) پڑھنا،پھر آپ نے آیت تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ کی تلاوت یَعْمَلُونَ تک فرمائی ۱؎،آپ نے پھر فرمایا: کیا میں تمہیں دین کی اصل،اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول (ضرور بتائیے)آپ نے فرمایا: دین کی اصل اسلام ہے۲؎ اور اس کا ستون (عمود) صلاۃ ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔پھرآپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ان تمام باتوں کا جس چیز پر دارومدار ہے وہ نہ بتادوں؟ میں نے کہا:ہاں،اللہ کے نبی! پھر آپ نے اپنی زبان پکڑی،اور فرمایا: اسے اپنے قابو میں رکھو،میں نے کہا: اللہ کے نبی!کیا ہم جوکچھ بولتے ہیں اس پرپکڑے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے،معاذ! لوگ اپنی زبانوں کے بڑ بڑ ہی کی وجہ سے تو اوندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ أَبِي السَّمْحِ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّجُلَ يَتَعَاہَدُ الْمَسْجِدَ فَاشْہَدُوا لَہُ بِالْإِيمَانِ فَإِنَّ اللہَ تَعَالَی يَقُولُ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ آمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَی الزَّكَاةَ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی شخص کو مسجد میں پابندی سے آتے جاتے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ آمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ الآیَۃَ ۱؎ ۔ وضاحت ۱؎: اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں،نمازوں کے پابند ی کرتے ہیں،زکاۃ دیتے ہیں،اللہ کے سواکسی سے نہ ڈرتے،توقع ہے کہ یہی لوگ یقینا ً ہدایت یافتہ ہیں۔(سورۃ توبہ:۱۸)

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي ہَارُونَ الْعَبْدِيِّ قَالَ كُنَّا نَأْتِي أَبَا سَعِيدٍ فَيَقُولُ مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّہُونَ فِي الدِّينِ فَإِذَا أَتَوْكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِہِمْ خَيْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ كَانَ شُعْبَةُ يُضَعِّفُ أَبَا ہَارُونَ الْعَبْدِيَّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ مَا زَالَ ابْنُ عَوْنٍ يَرْوِي عَنْ أَبِي ہَارُونَ الْعَبْدِيِّ حَتَّی مَاتَ وَأَبُو ہَارُونَ اسْمُہُ عُمَارَةُ بْنُ جُوَيْنٍ

ابوہارون کہتے ہیں کہ ہم ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کے پاس (علم دین حاصل کرنے کے لیے)آتے،تو وہ کہتے: اللہ کے رسول ﷺ کی وصیت کے مطابق تمہیں خوش آمدید،رسول اللہﷺ نے فرمایا:لوگ تمہارے پیچھے ہیں ۱؎ کچھ لوگ تمہارے پاس زمین کے گوشہ گوشہ سے علم دین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے تو جب وہ تمہارے پاس آئیں توتم ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی بن عبداللہ بن المدینی نے کہا: یحییٰ بن سعید کہتے تھے: شعبہ ابوہارون عبدی کو ضعیف قراردیتے تھے،۲-یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: ابن عون جب تک زندہ رہے ہمیشہ ابوہارون عبدی سے روایت کرتے رہے،۳-ابوہارون کانام عمارہ بن جوین ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ أَبِي ہَارُونَ الْعَبْدِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَأْتِيكُمْ رِجَالٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَتَعَلَّمُونَ فَإِذَا جَاءُوكُمْ فَاسْتَوْصُوا بِہِمْ خَيْرًا قَالَ فَكَانَ أَبُو سَعِيدٍ إِذَا رَآنَا قَالَ مَرْحَبًا بِوَصِيَّةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي ہَارُونَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: تمہارے پاس پورب سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آئیں گے پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔راوی حدیث کہتے ہیں: ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ جب وہ ہمیں (طالبان علم دین کو) دیکھتے تو رسول اللہ ﷺ کی وصیت کے مطابق ہمیں خوش آمدید کہتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف ابو ہارون کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَمَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَيْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ قَالَ فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا أَرَادَ بِذَلِكَ قَالَ أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ رَوَاہُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيُّ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرُ ہَذَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بغیر خوف اور بارش ۱؎ کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کوایک ساتھ جمع کیا ۲؎۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی اکرمﷺ کااس سے کیا منشأ تھی؟کہا: آپﷺ کا منشأیہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۲-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے،ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے خلاف بھی مرفوعا مروی ہے ۳؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حَنَشٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَی بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَنَشٌ ہَذَا ہُوَ أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ وَہُوَ حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ وَہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ أَحْمَدُ وَغَيْرُہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ إِلَّا فِي السَّفَرِ أَوْ بِعَرَفَةَ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ لِلْمَرِيضِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْمَطَرِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے بغیرعذرکے دوصلاتیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ہوا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-حنش ہی ابوعلی رحبی ہیں اوروہی حسین بن قیس بھی ہے۔یہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہے،احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے،۲-اوراسی پر اہل علم کاعمل ہے کہ سفر یا عرفہ کے سوا دو صلاتیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں،۳-تابعین میں سے بعض اہل علم نے مریض کو دوصلاتیں ایک ساتھ جمع کرنے کی رخصت دی ہے۔یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بارش کے سبب بھی دوصلاتیں جمع کی جاسکتی ہیں۔شافعی،احمد،اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔البتہ شافعی مریض کے لیے دوصلاتیں ایک ساتھ جمع کر نے کو درست قرار نہیں دیتے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ يَشْفَعَ الْأَذَانَ وَيُوتِرَ الْإِقَامَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیاگیاتھا کہ وہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے۔۳-صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی قول ہے،اور مالک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ الْمُہَاجِرِ عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ الْمَسْجِدِ بَعْدَ مَا أُذِّنَ فِيہِ بِالْعَصْرِ فَقَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ أَمَّا ہَذَا فَقَدْ عَصَی أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلَی ہَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ أَنْ لَا يَخْرُجَ أَحَدٌ مِنْ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الْأَذَانِ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ أَنْ يَكُونَ عَلَی غَيْرِ وُضُوءٍ أَوْ أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْہُ وَيُرْوَی عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّہُ قَالَ يَخْرُجُ مَا لَمْ يَأْخُذْ الْمُؤَذِّنُ فِي الْإِقَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا عِنْدَنَا لِمَنْ لَہُ عُذْرٌ فِي الْخُرُوجِ مِنْہُ وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُہُ سُلَيْمُ بْنُ أَسْوَدَ وَہُوَ وَالِدُ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ وَقَدْ رَوَی أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِيہِ

ابوالشعثاء سُلیم بن اسود کہتے ہیں کہ ایک شخص عصرکی اذان ہو چکنے کے بعدمسجد سے نکلا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رہا یہ تواس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی روایت حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث ہے،۳-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ اذان ہوجانے کے بعد بغیرکسی عذرکے مثلاً بے وضو ہو یا کوئی ناگزیرضرورت آپڑی ہو جس کے بغیرچارہ نہ ہو کوئی مسجد سے نہ نکلے ۱؎،۴-ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ جب تک مؤذن اقامت شروع نہیں کرتاوہ باہر نکل سکتاہے،۵-ہمارے نزدیک یہ اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس نکلنے کے لیے کوئی عذر موجود ہو۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ عَلَی صَلَاةِ الرَّجُلِ وَحْدَہُ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ تَفْضُلُ صَلَاةُ الْجَمِيعِ عَلَی صَلَاةِ الرَّجُلِ وَحْدَہُ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَعَامَّةُ مَنْ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِنَّمَا قَالُوا خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَّا ابْنَ عُمَرَ فَإِنَّہُ قَالَ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: با ِجماعت صلاۃ تنہاصلاۃ پر ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،ابی بن کعب،معاذ بن جبل،ابوسعید،ابوہریرہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نافع نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صلاۃ باجماعت آدمی کی تنہا صلاۃ پر ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہے۔۴-عام رواۃ نے (صحابہ) نبی اکرمﷺ سے پچیس درجے نقل کیا ہے،صرف ابن عمر نے ستائیس درجے کی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ صَلَاةَ الرَّجُلِ فِي الْجَمَاعَةِ تَزِيدُ عَلَی صَلَاتِہِ وَحْدَہُ بِخَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی کی با جماعت صلاۃ اس کی تنہا صلاۃ سے پچیس گنا بڑھ کر ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ فِتْيَتِي أَنْ يَجْمَعُوا حُزَمَ الْحَطَبِ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَتُقَامَ ثُمَّ أُحَرِّقَ عَلَی أَقْوَامٍ لَا يَشْہَدُونَ الصَّلَاةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَمُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُمْ قَالُوا مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يُجِبْ فَلَا صَلَاةَ لَہُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذَا عَلَی التَّغْلِيظِ وَالتَّشْدِيدِ وَلَا رُخْصَةَ لِأَحَدٍ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ اپنے کچھ نوجوانوں کو میں لکڑی کے گٹھر اکٹھا کرنے کا حکم دوں،پھرصلاۃ کا حکم دوں توکھڑی کی جائے،پھرمیں ان لوگوں(کے گھروں) کو آگ لگادوں جو صلاۃ میں حاضر نہیں ہوتے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،ابوالدرداء،ابن عباس،معاذ بن انس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ جو اذان سُنے اور صلاۃمیں نہ آئے تو اس کی صلاۃ نہیں ہوتی،۴-بعض اہل علم نے کہاہے کہ یہ برسبیل تغلیظ ہے(لیکن)،کسی کو بغیرعذرکے جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں۔

قَالَ مُجَاہِدٌ وَسُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ رَجُلٍ يَصُومُ النَّہَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ لَا يَشْہَدُ جُمْعَةً وَلَا جَمَاعَةً قَالَ ہُوَ فِي النَّارِ قَالَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ وَمَعْنَی الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَشْہَدَ الْجَمَاعَةَ وَالْجُمُعَةَ رَغْبَةً عَنْہَا وَاسْتِخْفَافًا بِحَقِّہَا وَتَہَاوُنًا بِہَا

مجاہد کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو دن کو صوم رکھتاہو او ر رات کو قیام کرتاہو۔اور جمعہ میں حاضر نہ ہوتا ہو؛ تو انہوں نے کہا: وہ جہنم میں ہوگا۔ مجاہد کہتے ہیں: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جماعت اور جمعہ میں ان سے بے رغبتی کرتے ہوئے،انہیں حقیر جانتے ہوئے اور ان میں سستی کرتے ہوئے حاضرنہ ہوتا ہو۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَدَّتَہُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللہِ ﷺ لِطَعَامٍ صَنَعَتْہُ فَأَكَلَ مِنْہُ ثُمَّ قَالَ قُومُوا فَلْنُصَلِّ بِكُمْ قَالَ أَنَسٌ فَقُمْتُ إِلَی حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ فَنَضَحْتُہُ بِالْمَاءِ فَقَامَ عَلَيْہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَصَفَفْتُ عَلَيْہِ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَہُ وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا فَصَلَّی بِنَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا كَانَ مَعَ الْإِمَامِ رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ قَامَ الرَّجُلُ عَنْ يَمِينِ الْإِمَامِ وَالْمَرْأَةُ خَلْفَہُمَا وَقَدْ احْتَجَّ بَعْضُ النَّاسِ بِہَذَا الْحَدِيثِ فِي إِجَازَةِ الصَّلَاةِ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہُ وَقَالُوا إِنَّ الصَّبِيَّ لَمْ تَكُنْ لَہُ صَلَاةٌ وَكَأَنَّ أَنَسًا كَانَ خَلْفَ النَّبِيِّ ﷺ وَحْدَہُ فِي الصَّفِّ وَلَيْسَ الْأَمْرُ عَلَی مَا ذَہَبُوا إِلَيْہِ لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقَامَہُ مَعَ الْيَتِيمِ خَلْفَہُ فَلَوْلَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَعَلَ لِلْيَتِيمِ صَلَاةً لَمَا أَقَامَ الْيَتِيمَ مَعَہُ وَلَأَقَامَہُ عَنْ يَمِينِہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُوسَی بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّہُ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَأَقَامَہُ عَنْ يَمِينِہِ وَفِي ہَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ أَنَّہُ إِنَّمَا صَلَّی تَطَوُّعًا أَرَادَ إِدْخَالَ الْبَرَكَةِ عَلَيْہِمْ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ رضی اللہ عنہا نے کھانا پکایا اور اس کو کھانے کے لیے رسول اللہﷺکو مدعوکیا،آپ نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا: اٹھوچلو ہم تمہیں صلاۃ پڑھائیں،انس کہتے ہیںـ:تومیں اُٹھ کراپنی ایک چٹائی کے پاس آیا جوزیادہ استعمال کی وجہ سے کالی ہوگئی تھی،میں نے اسے پانی سے دھویا،پھررسول اللہﷺ اس پر کھڑے ہوئے،میں نے اوریتیم نے آپ کے پیچھے اس پر صف لگائی اور دادی ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں،تو آپ نے ہمیں دورکعات پڑھائیں،پھرآپﷺ ہماری طرف پلٹے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب امام کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت ہو تو مرد امام کے دائیں طرف کھڑا ہو اور عورت ان دونوں کے پیچھے۔۳-بعض لوگوں نے اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ جب آدمی صف کے پیچھے تنہا ہو تو اس کی صلاۃ جائز ہے،وہ کہتے ہیں کہ بچے پر صلاۃ توتھی ہی نہیں گویا عملاً انس رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے پیچھے تنہاہی تھے،لیکن ان کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے کیونکہ نبی اکرمﷺ نے انس کو اپنے پیچھے یتیم کے ساتھ کھڑا کیاتھا،اور اگر نبی اکرمﷺ یتیم کی صلاۃ کو صلاۃ نہ مانتے تو یتیم کو ان کے ساتھ کھڑا نہ کرتے بلکہ انس کو اپنے دائیں طرف کھڑا کرتے،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی تو آ پ نے انہیں اپنی دائیں طرف کھڑا کیا،اس حدیث میں دلیل ہے کہ آپ نے نفل صلاۃ پڑھی تھی اور انہیں برکت پہنچانے کاارادہ کیاتھا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ہُلْبٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَہُ بِيَمِينِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ہُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَہُ عَلَی شِمَالِہِ فِي الصَّلَاةِ وَرَأَی بَعْضُہُمْ أَنْ يَضَعَہُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ وَرَأَی بَعْضُہُمْ أَنْ يَضَعَہُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَہُمْ وَاسْمُ ہُلْبٍ يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ

ہلب طائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کواپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ہلب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں وائل بن حجر،غطیف بن حارث،ابن عباس،ابن مسعود اور سہیل بن سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام،تابعین اوران کے بعد کے اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ آدمی صلاۃ میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ۱؎،اوربعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے،ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ،قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ أَبِيہِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ يَرْفَعُ يَدَيْہِ حَتَّی يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْہِ،وَإِذَا رَكَعَ،وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنْ الرُّكُوعِ،وَزَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِہِ: وَكَانَ لاَيَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپ صلاۃ شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا تے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے،اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے(تو بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے) ۱؎۔ ابن ابی عمر (ترمذی کے دوسرے استاذ)نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے،دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔

قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،حَدَّثَنَا الزُّہْرِيُّ بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عُمَرَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ،وَعَلِيٍّ،وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ،وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ،وَأَنَسٍ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ،وَأَبِي حُمَيْدٍ،وَأَبِي أُسَيْدٍ،وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ،وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ،وَأَبِي قَتَادَةَ،وَأَبِي مُوسَی الأَشْعَرِيِّ،وَجَابِرٍ،وَعُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَبِہَذَا يَقُولُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ: ابْنُ عُمَرَ،وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِاللہِ،وَأَبُو ہُرَيْرَةَ،وَأَنَسٌ،وَابْنُ عَبَّاسٍ،وَعَبْدُاللہِ بْنُ الزُّبَيْرِ،وَغَيْرُہُمْ،وَمِنْ التَّابِعِينَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ،وَعَطَائٌ،وَطَاوُسٌ،وَمُجَاہِدٌ،وَنَافِعٌ،وَسَالِمُ بْنُ عَبْدِاللہِ،وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ،وَغَيْرُہُمْ. وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ،وَمَعْمَرٌ،وَالأَوْزَاعِيُّ،وَابْنُ عُيَيْنَةَ،وَعَبْدُاللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ،وَالشَّافِعِيُّ،وَأَحْمَدُ،وَإِسْحَاقُ. و قَالَ عَبْدُاللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ: قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ يَدَيْہِ،وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ،وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْہِ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الآمُلِيُّ،حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ زَمْعَةَ،عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ. قَالَ: و حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی،قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ،قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يَرَی رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاَةِ. و قَالَ يَحْيَی: وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،قَالَ: كَانَ مَعْمَرٌ يَرَی رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلاَةِ. و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَقُولُ: كَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَعُمَرُ بْنُ ہَارُونَ،وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَہُمْ إِذَا افْتَتَحُوا الصَّلاَةَ،وَإِذَا رَكَعُوا،وَإِذَا رَفَعُوا رُئُوسَہُمْ

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،علی،وائل بن حجر،مالک بن حویرث،ا نس،ابوہریرہ،ابوحمید،ابواسید،سہل بن سعد،محمد بن مسلمہ،ابوقتادۃ،ابوموسیٰ اشعری،جابر اور عمیر لیثی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-یہی صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر،جابر بن عبداللہ،ابوہریرہ،انس،ابن عباس،عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ شامل ہیں اور تابعین میں سے حسن بصری،عطاء،طاؤس،مجاہد،نافع،سالم بن عبداللہ،سعید بن جبیر وغیرہ کہتے ہیں،اور یہی مالک،معمر،اوزاعی،ابن عیینہ،عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴-عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: جواپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث(دلیل) صحیح ہے،پھرانہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے،۵-اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نبی اکرم ﷺ نے صرف پہلی مرتبہ اپنے ددنوں ہاتھ اٹھائے والی ثابت نہیں ہے،۶-مالک بن انس صلاۃ میں رفع یدین کوصحیح سمجھتے تھے،۷-عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمربھی صلاۃ میں رفع الیدین کوصحیح سمجھتے تھے،۸-اور میں نے جارود بن معاذ کوکہتے سنا کہ سفیان بن عیینہ،عمر بن ہارون اور نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب صلاۃ شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سراٹھاتے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ يَزِيدَ الْہُذَلِيِّ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ فَقَالَ فِي رُكُوعِہِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَدْ تَمَّ رُكُوعُہُ وَذَلِكَ أَدْنَاہُ وَإِذَا سَجَدَ فَقَالَ فِي سُجُودِہِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَی ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَدْ تَمَّ سُجُودُہُ وَذَلِكَ أَدْنَاہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ لَمْ يَلْقَ ابْنَ مَسْعُودٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَنْقُصَ الرَّجُلُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ مِنْ ثَلَاثِ تَسْبِيحَاتٍ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ أَسْتَحِبُّ لِلْإِمَامِ أَنْ يُسَبِّحَ خَمْسَ تَسْبِيحَاتٍ لِكَيْ يُدْرِكَ مَنْ خَلْفَہُ ثَلَاثَ تَسْبِيحَاتٍ وَہَكَذَا قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تو رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِتین مرتبہ کہے تو اس کارکوع پورا ہوگیا اور یہ سب سے کم تعداد ہے۔اور جب سجدہ کرے تواپنے سجدے میں تین مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی کہے تو اس کا سجدہ پوراہوگیا اور یہ سب سے کم تعداد ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود کی حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔عون بن عبداللہ بن عتبہ کی ملاقات ابن مسعود سے نہیں ہے ۱؎،۲-اس باب میں حذیفہ اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا عمل اسی پرہے،وہ اس بات کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی رکوع اور سجدے میں تین تسبیحات سے کم نہ پڑھے،۴-عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے،انہوں نے کہاکہ میں امام کے لیے مستحب سمجھتاہوں کہ وہ پانچ تسبیحات پڑھے تاکہ پیچھے والے لوگوں کو تین تسبیحات مل جائیں اوراسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہاہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ،قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ،عَنْ الأَعْمَشِ قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَيْفَةَ: أَنَّہُ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ ﷺ،فَكَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِہِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ،وَفِي سُجُودِہِ،سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَی،وَمَا أَتَی عَلَی آيَةِ رَحْمَةٍ إِلاَّ وَقَفَ وَسَأَلَ،وَمَا أَتَی عَلَی آيَةِ عَذَابٍ إِلاَّ وَقَفَ وَتَعَوَّذَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی توآپ اپنے رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ اور سجدے میںسُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی پڑھ رہے تھے۔اور جب بھی رحمت کی کسی آیت پر پہنچتے تو ٹھیرتے اور سوال کرتے اور جب عذاب کی کسی آیت پرآتے تو ٹھیر تے اور(عذاب سے) پناہ مانگتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

قَالَ: و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،عَنْ شُعْبَةَ: نَحْوَہُ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حُذَيْفَةَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ أَنَّہُ صَلَّی بِاللَّيْلِ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ،فَذَكَرَ الْحَدِيثَ

اس سند سے بھی شعبہ سے اسی طرح مروی ہے۔حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃِ تہجد پڑھی،پھر روای نے پوری حدیث ذکر کی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ اشْتَكَی بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ مَشَقَّةَ السُّجُودِ عَلَيْہِمْ إِذَا تَفَرَّجُوا فَقَالَ اسْتَعِينُوا بِالرُّكَبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَكَأَنَّ رِوَايَةَ ہَؤُلَاءِ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ اللَّيْثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے نبی اکرمﷺسے سجدے میں دونوں ہاتھوں کو دونوں پہلوؤں سے اورپیٹ کوران سے جدارکھنے کی صورت میں (تکلیف کی) شکایت کی،توآپ نے فرمایا: گھٹنوں سے (ان پر ٹیک لگا کر) مددلے لیاکرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم سے ابو صالح کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے صرف اسی طریق سے (یعنی لیث عن ابن عجلان کے طریق سے) جانتے ہیں اورسفیان بن عیینہ اور دیگرکئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق: سُمَیٍّ،عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِی عَیَّاشٍ،عَنِ النَّبِیِّ ﷺ (اسی طرح) روایت کی ہے،ان لوگوں کی روایت لیث کی روایت کے مقابلے میں شاید زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ عَلَّمَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا قَعَدْنَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ أَنْ نَقُولَ التَّحِيَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّہَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُہُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِينَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَأَبِي مُوسَی وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ قَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَہُوَ أَصَحُّ حَدِيثٍ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي التَّشَہُّدِ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ خُصَيْفٍ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْمَنَامِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ النَّاسَ قَدْ اخْتَلَفُوا فِي التَّشَہُّدِ فَقَالَ عَلَيْكَ بِتَشَہُّدِ ابْنِ مَسْعُودٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا للہ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ جب ہم دو رکعتوں کے بعد بیٹھیں تو یہ دعا پڑھیں:التَّحِیَّاتُ لِلّہِ،وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ،السَّلاَمُ عَلَیْکَ،أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہُ،السَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِینَ،أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ،وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ(تمام قولی،بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں،سلام ہوآپ پر اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں،سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر،میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ان سے کئی سندوں سے مروی ہے،اوریہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے جو تشہد میں نبی اکرمﷺ سے مروی ہیں،۲-اس باب میں ابن عمر،جابر،ابوموسیٰ اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام ان کے بعدتابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۴-ہم سے احمد بن محمدبن موسیٰ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبردی،اوروہ معمر سے اوروہ خصیف سے روایت کرتے ہیں،خصیف کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو خواب میں دیکھاتو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں تشہد کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا ہے؟توآپ نے فرمایا: تم پر ابن مسعود کا تشہد لازم ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِہِ وَعَنْ يَسَارِہِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَالْبَرَاءِ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَمَّارٍ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَعَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنے دائیں اور بائیں السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ،السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ کہہ کرسلام پھیرتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد بن ابی وقاص،ابن عمر،جابر بن سمرہ،براء،ابوسعید،عمار،وائل بن حجر،عدی بن عمیرہ اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۳-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے،اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،عَنْ عَاصِمٍ الأحْوَلِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ،عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا سَلَّمَ لاَ يَقْعُدُ،إِلاَّ مِقْدَارَ مَا يَقُولُ: اللّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ،وَمِنْكَ السَّلاَمُ،تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سلام پھیرتے تو اللّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ (اے اللہ تو سلام ہے،تجھ سے سلامتی ہے،بزرگی اور عزت والے! تو بڑی برکت والاہے) کہنے کے بقدرہی بیٹھتے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ،حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ،عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ بِہَذَا الإِسْنَادِ: نَحْوَہُ،وَقَالَ: تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ثَوْبَانَ،وَابْنِ عُمَرَ،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَأَبِي سَعِيدٍ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ،وَالْمُغِيرَةِ ابْنِ شُعْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَی خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ: نَحْوَ حَدِيثِ عَاصِمٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَقُولُ بَعْدَ التَّسْلِيمِ: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ،وَحْدَہُ لاَ شَرِيكَ لَہُ،لَہُ الْمُلْكُ،وَلَہُ الْحَمْدُ،يُحْيِي وَيُمِيتُ،وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ،اللّہُمَّ لاَمَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ،وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ،وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ. وَرُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ كَانَ يَقُولُ:سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ،وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِينَ،وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

اس سند سے بھی عاصم الاحول سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے اوراس میںتَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ (یا کے ساتھ) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،خالد الحذاء نے یہ حدیث بروایت عائشہ عبداللہ بن حارث سے عاصم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۲-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ سلام پھیرنے کے بعد لاَإِلَہَ إِلاَّ اللہُ،وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ،وَلَہُ الْحَمْدُ،یُحْیِی وَیُمِیتُ،وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ،اللّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ،وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ،وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ (اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں،وہ تنہا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں،بادشاہت اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں،وہی زندگی اورموت دیتاہے،وہ ہرچیز پر قادر ہے،اے اللہ! جوتودے اسے کوئی روکنے والانہیں اور جسے تونہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں،اور تیرے آگے کسی نصیب والے کا کوئی نصیب کام نہیں آتا)کہتے تھے،یہ بھی مروی ہے کہ آ پسُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُونَ،وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرْسَلِینَ،وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (پاک ہے تیرا رب جو عزت والاہے ہر اس برائی سے جویہ بیان کرتے ہیں اور سلامتی ہو رسولوں پر اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جوسارے جہاں کا رب ہے)بھی کہتے تھے ۱؎،۳-اس باب میں ثوبان،ابن عمر،ابن عباس،ابوسعید،ابوہریرہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنِي أَبُو أَسْمَاءَ الرَّحَبِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْبَانُ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنْصَرِفَ مِنْ صَلَاتِہِ اسْتَغْفَرَ اللہَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَمَّارٍ اسْمُہُ شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب صلاۃ سے (مقتدیوں کی طرف) پلٹنے کا ارادہ کرتے تو تین بار استغفر اللہ (میں اللہ کی مغفرت چاہتاہوں) کہتے،پھراللّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ،وَمِنْکَ السَّلاَمُ،تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عَلَاقَةَ عَنْ عَمِّہِ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَی قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ السَّائِبِ وَأَبِي بَرْزَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ قُطْبَةَ بْنِ مَالِكٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَرَأَ فِي الصُّبْحِ بِالْوَاقِعَةِ وَرُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْفَجْرِ مِنْ سِتِّينَ آيَةً إِلَی مِائَةٍ وَرُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ قَرَأَ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَرُوِي عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ كَتَبَ إِلَی أَبِي مُوسَی أَنْ اقْرَأْ فِي الصُّبْحِ بِطِوَالِ الْمُفَصَّلِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَعَلَی ہَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ

قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فجر میں پہلی رکعت میں والنخل باسقات پڑھتے سنا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-قطبہ بن مالک کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمرو بن حریث،جابر بن سمرہ،عبداللہ بن سائب،ابوبرزہ اورام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اورنبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فجر میں سورہ ٔ واقعہ پڑھی،۴-یہ بھی مروی ہے کہ آپ فجر میں ساٹھ سے لے کر سوآیتیں پڑھا کرتے تھے،۵-اوریہ بھی مروی ہے کہ آپ نے إذا الشمس کورت پڑھی،۶-اور عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ا بوموسیٰ اشعری کو لکھا کہ فجر میں طوال مفصل پڑھاکرو ۱؎،۷-اہل علم کا اسی پرعمل ہے اور یہی سفیان ثوری،ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا دَامَ يَنْتَظِرُہَا وَلَا تَزَالُ الْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلَی أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي الْمَسْجِدِ اللہُمَّ اغْفِرْ لَہُ اللہُمَّ ارْحَمْہُ مَا لَمْ يُحْدِثْ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَمَا الْحَدَثُ يَا أَبَا ہُرَيْرَةَ قَالَ فُسَاءٌ أَوْ ضُرَاطٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی برابرصلاۃ ہی میں رہتاہے جب تک وہ اس کا انتظار کرتاہے اورفرشتے اس کے لیے برابر دعاکرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں رہتاہے،کہتے ہیںاللّہُمَّ اغْفِرْ لَہُ (اللہ! اسے بخش دے) اللّہُمَّ ارْحَمْہُ (اے اللہ! اس پر رحم فرما)جب تک وہ حدث نہیں کرتا،توحضرموت کے ایک شخص نے پوچھا: حدث کیاہے ابوہریرہ؟ توابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آہستہ سے یازورسے ہوا خارج کرنا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوسعید،انس،عبداللہ بن سعود اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُخَالِطُنَا حَتَّی إِنْ كَانَ يَقُولُ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ قَالَ وَنُضِحَ بِسَاطٌ لَنَا فَصَلَّی عَلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ لَمْ يَرَوْا بِالصَّلَاةِ عَلَی الْبِسَاطِ وَالطُّنْفُسَةِ بَأْسًا وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَاسْمُ أَبِي التَّيَّاحِ يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہم سے گھل مل جایا کرتے تھے۔یہاں تک کہ آپ میرے چھوٹے بھائی سے کہتے: ابوعمیر! نغیر(بلبل) کا کیاہوا؟ہماری چٹائی ۱؎ پرچھڑکاؤکیاگیا پھر آپ نے اس پر صلاۃ پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم کاعمل اسی پر ہے۔وہ چادر اور قالین پرصلاۃ پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنِي حَبِيبُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ أَبِي حَيٍّ الْمُؤَذِّنِ الْحِمْصِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ أَنْ يَنْظُرَ فِي جَوْفِ بَيْتِ امْرِئٍ حَتَّی يَسْتَأْذِنَ فَإِنْ نَظَرَ فَقَدْ دَخَلَ وَلَا يَؤُمَّ قَوْمًا فَيَخُصَّ نَفْسَہُ بِدَعْوَةٍ دُونَہُمْ فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ خَانَہُمْ وَلَا يَقُومُ إِلَی الصَّلَاةِ وَہُوَ حَقِنٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ثَوْبَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ السَّفْرِ بْنِ نُسَيْرٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَكَأَنَّ حَدِيثَ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ أَبِي حَيٍّ الْمُؤَذِّنِ عَنْ ثَوْبَانَ فِي ہَذَا أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَأَشْہَرُ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے جائزنہیں کہ وہ کسی کے گھر کے اندرجھانک کردیکھے جب تک کہ گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ لے لے۔اگر اس نے (جھانک کر)دیکھا تو گویا وہ اندر داخل ہوگیا۔اورکوئی لوگوں کی امامت اس طرح نہ کرے کہ ان کو چھوڑ کردعاکو صرف اپنے لیے خاص کرے،اگر اس نے ایسا کیا تواس نے ا ن سے خیانت کی،اورنہ کوئی صلاۃ کے لیے کھڑا ہواورحال یہ ہوکہ وہ پاخانہ اور پیشاب کوروکے ہوئے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث معاویہ بن صالح سے بھی مروی ہے،معاویہ نے اس کو بطریق: سَفْرِ بْنِ نُسَیْرٍ،عَنْ یَزِیدَ بْنِ شُرَیْحٍ،عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ روایت کی ہے،نیزیہ حدیث یزید بن شریح ہی کے واسطے سے بطریق: أَبِی ہُرَیْرَۃَ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ روایت کی گئی ہے۔یزید بن شریح کی حدیث بطریق: أَبِی حَیٍّ الْمُؤَذِّنِ،عَنْ ثَوْبَانَ سند کے اعتبار سے سب سے عمدہ اور مشہور ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فِي مَرَضِہِ الَّذِي مَاتَ فِيہِ قَاعِدًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ إِذَا صَلَّی الْإِمَامُ جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا وَرُوِيَ عَنْہَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ فِي مَرَضِہِ وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَصَلَّی إِلَی جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ وَأَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْہَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا وَرُوِي عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ وَہُوَ قَاعِدٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے اپنی اس بیماری میں جس میں آپ کی وفات ہوئی ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب امام بیٹھ کرصلاۃ پڑھے توتم بھی بیٹھ کرصلاۃ پڑھو،اوران سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺاپنی بیماری میں نکلے اور ابوبکر لوگوں کو صلاۃ پڑھارہے تھے تو آپ نے ابوبکر کے پہلو میں صلاۃ پڑھی،لوگ ابوبکر کی اقتداء کررہے تھے اور ابوبکر نبی اکرمﷺ کی اقتداء کررہے تھے۔ اورانہیں سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کرصلاۃ پڑھی۔ اور انس بن مالک سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کرصلاۃ پڑھی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي مَرَضِہِ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا فِي ثَوْبٍ مُتَوَشِّحًا بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَہَكَذَا رَوَاہُ يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ ثَابِتٍ وَمَنْ ذَكَرَ فِيہِ عَنْ ثَابِتٍ فَہُوَ أَصَحُّ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیماری میں ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کر صلاۃ پڑھی اور آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح اسے یحییٰ بن ایوب نے بھی حمید سے،اورحمیدنے ثابت سے اور ثابت نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے،۳-نیزاسے اوربھی کئی لوگوں نے حمید سے اورحمیدنے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،اوران لوگوں نے اس میں ثابت کے واسطے کا ذکرنہیں کیاہے،لیکن جس نے ثابت کے واسطے کاذکر کیاہے،وہ زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ صُہَيْبٍ قَالَ مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ يُصَلِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْہِ فَرَدَّ إِلَيَّ إِشَارَةً وَقَالَ لَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ إِشَارَةً بِإِصْبَعِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بِلَالٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَعَائِشَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس سے گزرااور آپ صلاۃ پڑھ رہے تھے،میں نے سلام کیا تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا،راوی (ابن عمر)کہتے ہیں کہ میرایہی خیال ہے کہ صہیب نے کہا: آپ نے اپنی انگلی کے اشارے سے جواب دیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: صہیب کی حدیث حسن ہے ۲؎،۲-اس باب میں بلال،ابوہریرہ،انس،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ لِبِلَالٍ كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَرُدُّ عَلَيْہِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْہِ وَہُوَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ كَانَ يُشِيرُ بِيَدِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ صُہَيْبٍ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ عَنْ بُكَيْرٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قُلْتُ لِبِلَالٍ كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَصْنَعُ حَيْثُ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْہِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ كَانَ يَرُدُّ إِشَارَةً وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ لِأَنَّ قِصَّةَ حَدِيثِ صُہَيْبٍ غَيْرُ قِصَّةِ حَدِيثِ بِلَالٍ وَإِنْ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَوَی عَنْہُمَا فَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْہُمَا جَمِيعًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی اکرمﷺصحابہ کوجب وہ سلام کرتے اورآپ صلاۃ میں ہوتے توکیسے جواب دیتے تھے؟ توبلال نے کہا: آپ اپنے ہاتھ کے اشارہ سے جواب دیتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اورصہیب کی حدیث حسن ہے،ہم اسے صرف لیث ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے بکیر سے روایت کی ہے اوریہ زید ابن اسلم سے بھی مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال سے پوچھا: نبی اکرمﷺ کس طرح جواب دیتے تھے جب لوگ مسجد بنی عمرو بن عوف میں آپ کو سلام کرتے تھے؟ توانہوں نے جواب دیا کہ آپ اشارے سے جواب دیتے تھے۔میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں،اس لیے کہ صہیب رضی اللہ عنہ کا قصہ بلال رضی اللہ عنہ کے قصے کے علاوہ ہے،ا گرچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان دونوں سے روایت کی ہے،تو اس بات کا احتمال ہے کہ انہوں نے دونوں سے سُنا ہو۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قِيلَ لِلنَّبِيِّ ﷺ أَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ قَالَ طُولُ الْقُنُوتِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ حُبْشِيٍّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا: کون سی صلاۃ افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا: جس میں قیام لمباہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے اور یہ دیگرسندوں سے بھی جابربن عبداللہ سے مروی ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن حبشی اورانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ عَبْدِ اللہِ ابْنِ بُحَيْنَةَ الْأَسَدِيِّ حَلِيفِ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ فِي صَلَاةِ الظُّہْرِ وَعَلَيْہِ جُلُوسٌ فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَہُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَہُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ وَسَجَدَہُمَا النَّاسُ مَعَہُ مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنْ الْجُلُوسِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ

عبداللہ ابن بحینہ اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ صلاۃِ ظہر میں کھڑے ہوگئے جب کہ آپ کو بیٹھنا تھا؛چنانچہ جب صلاۃ پوری کرچکے توسلام پھیرنے سے پہلے آپ نے اسی جگہ بیٹھے بیٹھے دوسجدے کئے،آپ نے ہر سجدے میں اللہ اکبرکہا،اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدئہ سہوکیے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن بحینہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث آئی ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عِيَاضٍ يَعْنِي ابْنَ ہِلَالٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ أَحَدُنَا يُصَلِّي فَلَا يَدْرِي كَيْفَ صَلَّی فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا صَلَّی أَحَدُكُمْ فَلَمْ يَدْرِ كَيْفَ صَلَّی فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَہُوَ جَالِسٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي الْوَاحِدَةِ وَالثِّنْتَيْنِ فَلْيَجْعَلْہُمَا وَاحِدَةً وَإِذَا شَكَّ فِي الثِّنْتَيْنِ وَالثَّلَاثِ فَلْيَجْعَلْہُمَا ثِنْتَيْنِ وَيَسْجُدْ فِي ذَلِكَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا شَكَّ فِي صَلَاتِہِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّی فَلْيُعِدْ

عیاض یعنی ابن ہلال کہتے ہیں کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم میں سے کوئی صلاۃ پڑھتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں (یا وہ کیا کرے؟) تو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کوئی شخص صلاۃ پڑھے اور یہ نہ جان سکے کہ کتنی پڑھی ہے؟ تو وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دوسجدے کرلے۔(یقینی بات پربنا کرنے کے بعد) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عثمان،ابن مسعود،عائشہ،ابوہریرہ وغیرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-یہ حدیث ابوسعید سے دیگر کئی سندوں سے بھی مروی ہے،۴-نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جب تم سے کسی کو ایک اور دو میں شک ہوجائے تواسے ایک ہی مانے اور جب دواور تین میں شک ہو تو اسے دومانے اور سلام پھیرنے سے پہلے سہو کے دوسجدے کرے۔اسی پر ہمارے اصحاب (محدثین) کاعمل ہے ۱؎ اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب کسی کواپنی صلاۃ میں شبہ ہوجائے اوروہ نہ جان سکے کہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ تو وہ پھر سے لوٹائے ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْتِي أَحَدَكُمْ فِي صَلَاتِہِ فَيَلْبِسُ عَلَيْہِ حَتَّی لَا يَدْرِيَ كَمْ صَلَّی فَإِذَا وَجَدَ ذَلِكَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَہُوَ جَالِسٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی کے پاس شیطان اس کی صلاۃ میں آتاہے اور اُسے شبہ میں ڈال دیتاہے،یہاں تک آدمی نہیں جان پاتاکہ اس نے کتنی رکعت پڑھی ہیں؟ چنانچہ تم میں سے کسی کو اگر اس قسم کا شبہ محسوس ہوتو اسے چاہئے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دوسجدے کرلے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ إِذَا سَہَا أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِہِ فَلَمْ يَدْرِ وَاحِدَةً صَلَّی أَوْ ثِنْتَيْنِ فَلْيَبْنِ عَلَی وَاحِدَةٍ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثِنْتَيْنِ صَلَّی أَوْ ثَلَاثًا فَلْيَبْنِ عَلَی ثِنْتَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَدْرِ ثَلَاثًا صَلَّی أَوْ أَرْبَعًا فَلْيَبْنِ عَلَی ثَلَاثٍ وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ رَوَاہُ الزُّہْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی شخص صلاۃ بھول جائے اور یہ نہ جان سکے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو؟ توایسی صورت میں اسے ایک مانے،اور اگر وہ یہ نہ جاسکے کہ اس نے دو پڑھی ہے یا تین تو ایسی صورت میں دو پربناکرے،اور اگر وہ یہ نہ جان سکے کہ اس نے تین پڑھی ہے یا چارتو تین پربنا کرے،اور سلام پھیرنے سے پہلے سہوکے دوسجدے کرلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَمَقْتُ النَّبِيَّ ﷺ شَہْرًا فَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ بِقُلْ يَا أَيُّہَا الْكَافِرُونَ وَقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحَفْصَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَلَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي أَحْمَدَ وَالْمَعْرُوفُ عِنْدَ النَّاسِ حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ وَقَدْ رَوَی عَنْ أَبِي أَحْمَدَ عَنْ إِسْرَائِيلَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا وَأَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ثِقَةٌ حَافِظٌ قَالَ سَمِعْت بُنْدَارًا يَقُولُ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ حِفْظًا مِنْ أَبِي أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيِّ وَأَبُو أَحْمَدَ اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ الْكُوفِيُّ الْأَسَدِيُّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کو ایک مہینے تک دیکھتا رہا،فجرسے پہلے کی دونوں رکعتوں میں آپ قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-اور ہم ثوری کی روایت کو جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے صرف ابواحمد زبیری ہی کے طریق سے جانتے ہیں،(جب کہ) لوگوں (محدثین) کے نزدیک معروف عن اسرائیل عن أبی اسحاق ہے بجائے سفیان ابی اسحاق کے،۳-اورابواحمدزبیری کے واسطہ سے بھی اسرائیل سے روایت کی گئی ہے،۴-ابواحمد زبیری ثقہ اور حافظ ہیں،میں نے بُندارکوکہتے سناہے کہ میں نے ابواحمد زبیری سے زیادہ اچھے حافظے والا نہیں دیکھا،ابواحمد کانام محمد بن عبداللہ بن زبیر کوفی اسدی ہے،۵-اس باب میں ابن مسعود،انس،ابوہریرہ،ابن عباس،حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا صَلَّی أَحَدُكُمْ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيَضْطَجِعْ عَلَی يَمِينِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا صَلَّی رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فِي بَيْتِہِ اضْطَجَعَ عَلَی يَمِينِہِ وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُفْعَلَ ہَذَا اسْتِحْبَابًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی فجر کی دورکعت (سنت) پڑھے تو دائیں کروٹ پر لیٹے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ جب فجر کی دونوں رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹتے،۴-بعض اہل علم کی رائے ہے کہ ایسا استحباباً کیاجائے۔ وضاحت ۱؎: اس حدیث سے ثابت ہو تا ہے فجرکی سنت کے بعدتھوڑی دیر دائیں پہلوپرلیٹنامسنون ہے،بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے،لیکن یہ رائے صحیح نہیں،قولی اورفعلی دونوں قسم کی حدیثوں سے اس کی مشروعیت ثابت ہے،بعض لوگوں نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اعمش مدلّس راوی ہیں انہوں نے ابوصالح سے عن کے ذریعہ روایت کی ہے اورمدلس کاعنعنہ مقبول نہیں ہوتا،اس کا جواب یہ دیاجاتا ہے کہ ابوصالح سے اعمش کا عنعنہ اتصال پر محمول ہوتا ہے،حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیںہومدلس ربما دلّس عن ضعیف ولا یدری بہ فمتی قال نا فلان فلاکلام،ومتی قال عن تطرق إلیہ احتمال التدلیس إلافی شیوخ لہ أکثرعنہم کابراہیم وأبی وائل وابی صالح السمّان،فإن روایتہ عن ہذا الصنف محمولۃ علی الاتصال ہاں،یہ لیٹنا محض خانہ پری کے لیے نہ ہو،جیسا کہ بعض علاقوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ صرف پہلو زمین سے لگا کر فوراً اٹھ بیٹھتے ہیں،نبی اکرم ﷺ اس وقت تک لیٹے رہتے تھے جب تک کہ بلال رضی اللہ عنہ آکر اقامت کے وقت کی خبر نہیں دیتے تھے۔مگرخیال ہے کہ اس دوران اگرنیندآنے لگے تو اُٹھ جاناچاہئے،اور واقعتا نیند آجانے کی صورت میں جاکروضوکرناچاہئے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو جَمْرَةَ الضُّبَعِيُّ اسْمُہُ نَصْرُ بْنُ عِمْرَانَ الضُّبَعِيُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوحمزہ ضبعی کانام نصر بن عمران ضبعی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ،عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ تِسْعَ رَكَعَاتٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ،وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ رات کو نورکعتیں پڑھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،زید بن خالد اورفضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وَرَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،عَنْ الأَعْمَشِ نَحْوَ ہَذَا،حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ،عَنْ سُفْيَانَ،عَنْ الأَعْمَشِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَأَكْثَرُ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ،وَأَقَلُّ مَا وُصِفَ مِنْ صَلاَتِہِ بِاللَّيْلِ تِسْعُ رَكَعَاتٍ

سفیان ثوری نے بھی یہ حدیث اسی طرح اعمش سے روایت کی ہے،ہم سے اسے محمود بن غیلان نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا اور انہوں نے سفیان سے اور سفیان نے اعمش سے روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: رات کی صلاۃ کے سلسلے میں نبی اکرمﷺ سے زیادہ سے زیادہ وتر کے ساتھ تیرہ رکعتیں مروی ہیں،اورکم سے کم نورکعتیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا لَمْ يُصَلِّ مِنْ اللَّيْلِ مَنَعَہُ مِنْ ذَلِكَ النَّوْمُ أَوْ غَلَبَتْہُ عَيْنَاہُ صَلَّی مِنْ النَّہَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَسَعْدُ بْنُ ہِشَامٍ ہُوَ ابْنُ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيُّ وَہِشَامُ بْنُ عَامِرٍ ہُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ الْمُثَنَّی عَنْ بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ كَانَ زُرَارَةُ بْنُ أَوْفَی قَاضِيَ الْبَصْرَةِ وَكَانَ يَؤُمُّ فِي بَنِي قُشَيْرٍ فَقَرَأَ يَوْمًا فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ خَرَّ مَيِّتًا فَكُنْتُ فِيمَنْ احْتَمَلَہُ إِلَی دَارِہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺجب راتمیں تہجدنہیں پڑھ پاتے تھے اور نینداس میں رکاوٹ بن جاتی یا آپ پر نیندکا غلبہ ہوجاتا تو دن میں(اس کے بدلہ میں) بارہ رکعتیں پڑھتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سعد بن ہشام ہی ابن عامر انصاری ہیں اور ہشام بن عامر نبی اکرمﷺ کے اصحاب میں سے ہیں۔بہز بن حکیم سے روایت ہے کہ زرارہ بن اوفیٰ بصرہ کے قاضی تھے۔وہ بنی قشیر کی امامت کرتے تھے،انہوں نے ایک دن فجر میں آیت کریمہ فَإِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ فَذَلِکَ یَوْمَئِذٍ یَوْمٌ عَسِیرٌ (جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن سخت دن ہوگا)پڑھی تووہ بے ہوش ہوکر گرپڑے اور مرگئے۔میں بھی ان لوگوں میں شامل تھاجو انہیں اٹھاکر ان کے گھر لے گئے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يَنْزِلُ اللہُ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا كُلَّ لَيْلَةٍ حِينَ يَمْضِي ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلُ فَيَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَہُ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَہُ مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَہُ فَلَا يَزَالُ كَذَلِكَ حَتَّی يُضِيءَ الْفَجْرُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَرِفَاعَةَ الْجُہَنِيِّ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ أَوْجُہٍ كَثِيرَةٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ يَنْزِلُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ يَبْقَی ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ وَہُوَ أَصَحُّ الرِّوَايَاتِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہررات کو جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے ۱؎ آسمان دنیا پراترتا ہے ۲؎ اورکہتا ہے: میں بادشاہ ہوں،کون ہے جو مجھے پکارے تاکہ میں اس کی پکار سنوں،کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں،کون ہے جومجھ سے مغفرت طلب کرے تاکہ میں اسے معاف کردوں۔وہ برابراسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہوجاتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں علی بن ابی طالب،ابوسعید،رفاعہ جہنی،جبیر بن مطعم،ابن مسعود،ابودرداء اور عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۳-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی سندوں سے نبی اکرمﷺ مروی ہے،۴-نیزآپ سے یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب وقت رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتاہے اترتا ہے،اور یہ سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الْجَعْدِ يَعْنِي الضَّمْرِيَّ وَكَانَتْ لَہُ صُحْبَةٌ فِيمَا زَعَمَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَہَاوُنًا بِہَا طَبَعَ اللہُ عَلَی قَلْبِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَسَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي الْجَعْدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ اسْمِ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ فَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَہُ وَقَالَ لَا أَعْرِفُ لَہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا ہَذَا الْحَدِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو

ابوالجعدضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جو جمعہ تین بارسستی ۱؎ سے حقیرجان کر چھوڑ دے گاتواللہ اس کے دل پر مہرلگادے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوالجعدکی حدیث حسن ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے ابوالجعدضمری کا نام پوچھاتووہ نہیں جان سکے،۳-اس حدیث کے علاوہ میں ان کی کوئی اورحدیث نہیں جانتاجسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہو،۴-ہم اس حدیث کو صرف محمد بن عمروکی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ تَخَطَّی رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ اتَّخَذَ جِسْرًا إِلَی جَہَنَّمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُہَنِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا أَنْ يَتَخَطَّی الرَّجُلُ رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَشَدَّدُوا فِي ذَلِكَ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ وَضَعَّفَہُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

معاذبن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:جمعہ کے دن جس نے لوگوں کی گردنیں پھاندیں اس نے جہنم کی طرف لے جانے والاپل بنالیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں جابرسے بھی روایت ہے۔سہل بن معاذبن انس جہنی کی حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف رشدبن سعدکی روایت سے جانتے ہیں،۲-البتہ اہل علم کا عمل اسی پرہے۔انہوں نے اس بات کو مکروہ سمجھاہے،کہ آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے اورانہوں نے اس میں سختی سے کام لیا ہے۔اوران کے حفظ کے تعلق سے انہیں ضعیف گرداناہے۔بعض اہل علم نے رشدین بن سعد پر کلام کیا ہے

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَانَ الْأَذَانُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ وَإِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَی الزَّوْرَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺاورابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں(پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتااور(دوسری)جب صلاۃ کھڑی ہوتی ۱؎ پھرجب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے توانہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ مُخَوَّلِ بْنِ رَاشِدٍ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقْرَأُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وَہَلْ أَتَی عَلَی الْإِنْسَانِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُخَوَّلٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺجمعہ کے دن فجرکی صلاۃ میںالم تَنْزِیلُ السَّجْدَۃَ وَہَلْ أَتَی عَلَی الإِنْسَانِ پڑھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد،ابن مسعوداورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-سفیان ثوری،شعبہ اور کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث مخول بن راشد سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي إِسْحَقَ الْحَضْرَمِيُّ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَی مَكَّةَ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ كَمْ أَقَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِمَكَّةَ قَالَ عَشْرًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ أَقَامَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِہِ تِسْعَ عَشْرَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَنَحْنُ إِذَا أَقَمْنَا مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ وَإِنْ زِدْنَا عَلَی ذَلِكَ أَتْمَمْنَا الصَّلَاةَ وَرُوِي عَنْ عَلِيٍّ أَنَّہُ قَالَ مَنْ أَقَامَ عَشْرَةَ أَيَّامٍ أَتَمَّ الصَّلَاةَ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ قَالَ مَنْ أَقَامَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَتَمَّ الصَّلَاةَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّہُ قَالَ إِذَا أَقَامَ أَرْبَعًا صَلَّی أَرْبَعًا وَرَوَی عَنْہُ ذَلِكَ قَتَادَةُ وَعَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ وَرَوَی عَنْہُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي ہِنْدٍ خِلَافَ ہَذَا وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ بَعْدُ فِي ذَلِكَ فَأَمَّا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَہْلُ الْكُوفَةِ فَذَہَبُوا إِلَی تَوْقِيتِ خَمْسَ عَشْرَةَ وَقَالُوا إِذَا أَجْمَعَ عَلَی إِقَامَةِ خَمْسَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ و قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ إِذَا أَجْمَعَ عَلَی إِقَامَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ إِذَا أَجْمَعَ عَلَی إِقَامَةِ أَرْبَعَةٍ أَتَمَّ الصَّلَاةَ وَأَمَّا إِسْحَقُ فَرَأَی أَقْوَی الْمَذَاہِبِ فِيہِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لِأَنَّہُ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ تَأَوَّلَہُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا أَجْمَعَ عَلَی إِقَامَةِ تِسْعَ عَشْرَةَ أَتَمَّ الصَّلَاةَ ثُمَّ أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ عَلَی أَنَّ الْمُسَافِرَ يَقْصُرُ مَا لَمْ يُجْمِعْ إِقَامَةً وَإِنْ أَتَی عَلَيْہِ سِنُونَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرمﷺ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے۔آپ نے دورکعتیں پڑھیں،یحییٰ بن ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا:رسول اللہﷺ مکہ میں کتنے دن رہے،انہوں نے کہادس دن ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اورابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ اپنے سفر میں انیس دن ٹھہرے اور دورکعتیں اداکرتے رہے۔ابن عباس کہتے ہیں؛ چنانچہ جب ہم انیس دن یا اس سے کم ٹھہرتے تو دورکعتیں پڑھتے۔اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرتے توپوری پڑھتے،۴-علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جو دس دن ٹھہرے وہ پوری صلاۃ پڑھے،۵-ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جو پندرہ دن قیام کرے وہ پوری صلاۃ پڑھے۔اوران سے بارہ دن کا قول بھی مروی ہے،۶-سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب چاردن قیام کرے تو چار رکعت پڑھے۔ان سے اسے قتادہ اور عطا خراسانی نے روایت کیاہے،اور داود بن ابی ہند نے ان سے اس کے خلاف روایت کیاہے،۷-اس کے بعد اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہوگیا۔سفیان ثوری اور اہل کوفہ پندرہ دن کی تحدید کی طرف گئے اوران لوگوں نے کہاکہ جب وہ پندرہ دن ٹھہر نے کی نیت کرلے تو پوری صلاۃ پڑھے،۸-اوزاعی کہتے ہیں: جب وہ بارہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو صلاۃپوری پڑھے،۹-مالک بن انس،شافعی،اور احمد کہتے ہیں: جب چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو صلاۃپوری پڑھے،۱۰-اوراسحاق بن راہویہ کی رائے ہے کہ سب سے قوی مذہب ابن عباس کی حدیث ہے،اس لیے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،پھریہ کہ نبی اکرمﷺ کے بعدوہ اس پر عمل پیرارہے جب وہ انیس دن ٹھہرتے توصلاۃپوری پڑھتے۔پھر اہل علم کا اجماع اس بات پر ہوگیاکہ مسافر جب تک قیام کی نیت نہ کرے وہ قصر کرتا رہے،اگرچہ اس پر کئی سال گزرجائیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَافَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سَفَرًا فَصَلَّی تِسْعَةَ عَشَرَ يَوْمًا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَنَحْنُ نُصَلِّي فِيمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ تِسْعَ عَشْرَةَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ فَإِذَا أَقَمْنَا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ صَلَّيْنَا أَرْبَعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سفر کیا،توآپ نے انیس دن تک دو دو رکعتیں پڑھیں ۱؎،ابن عباس کہتے ہیں: تو ہم لوگ بھی انیس یا اس سے کم دنوں (کے سفر) میں د و دو رکعتیں پڑھتے تھے۔اور جب ہم اس سے زیادہ قیام کرتے تو چار رکعت پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ سَعِيدِ ابْنِ أَبِي ہِلاَلٍ عَنْ عُمَرَ الدِّمَشْقِيِّ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: سَجَدْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِحْدَی عَشْرَةَ سَجْدَةً مِنْہَا الَّتِي فِي النَّجْمِ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ گیارہ سجدے کئے۔ان میں سے ایک وہ تھا جو سورۂ نجم میں ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِلاَلٍ عَنْ عُمَرَ،وَہُوَ ابْنُ حَيَّانَ الدِّمَشْقِيُّ،قَال: سَمِعْتُ مُخْبِرًا يُخْبِرُ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَہُ بِلَفْظِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ وَكِيعٍ عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ وَہْبٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ،وَابْنِ مَسْعُودٍ،وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ،وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَبِي الدَّرْدَاءِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ،لاَ نَعْرِفُہُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِلاَلٍ عَنْ عُمَرَ الدِّمَشْقِيِّ

اس سند سے بھی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی اکرمﷺ سے اسی طرح انہیں الفاظ کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ سفیان بن وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے انہوں نے عبداللہ بن وہب سے روایت کی ہے ۱؎،۲-اس باب میں علی،ابن عباس،ابوہریرہ،ابن مسعود،زید بن ثابت اور عمر و بن عاص رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ابوالدرداء کی حدیث غریب ہے،ہم اِسے صرف سعید بن ابی ہلال کی روایت سے جانتے ہیں،اورسعیدنے عمر دمشقی سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا صَلَّی الْفَجْرَ قَعَدَ فِي مُصَلَّاہُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب فجر پڑھتے تو اپنے مصلے پر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا أَبُو ظِلَالٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللہَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّی رَكْعَتَيْنِ كَانَتْ لَہُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ أَبِي ظِلَالٍ فَقَالَ ہُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ قَالَ مُحَمَّدٌ وَاسْمُہُ ہِلَالٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے صلاۃِ فجر جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتارہا یہاں تک کہ سورج نکل گیا،پھراس نے دورکعتیں پڑھیں،تو اسے ایک حج اورایک عمرے کاثواب ملے گا۔وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پورا،پورا،پورا،یعنی حج وعمرے کا پورا ثواب ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے (سندمیں موجودراوی) ابوظلال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ مقارب الحدیث ہیں،محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ان کا نام ہلال ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ أَحْمَدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ قَالَ صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ خُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ غُرٌّ مِنْ السُّجُودِ مُحَجَّلُونَ مِنْ الْوُضُوءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن میری امت کی پیشانی سجدے سے اور ہاتھ پاؤں وضوسے چمک رہے ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن بُسر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ عَنْ عَمَّارٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَخَّصَ لِلْجُنُبِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ أَوْ يَشْرَبَ أَوْ يَنَامَ أَنْ يَتَوَضَّأَ وُضُوءَہُ لِلصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جنبی کو جب وہ کھانا،پینا اور سوناچاہے اس بات کی رخصت دی کہ وہ اپنی صلاۃ کے وضو کی طرح وضو کرلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حُوسِبَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَلَمْ يُوجَدْ لَہُ مِنْ الْخَيْرِ شَيْءٌ إِلَّا أَنَّہُ كَانَ رَجُلًا مُوسِرًا وَكَانَ يُخَالِطُ النَّاسَ وَكَانَ يَأْمُرُ غِلْمَانَہُ أَنْ يَتَجَاوَزُوا عَنْ الْمُعْسِرِ فَقَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ نَحْنُ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْہُ تَجَاوَزُوا عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْيَسَرِ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو

ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلی امتوں میں سے ایک آدمی کا حساب (اس کی موت کے بعد)لیاگیا،تواس کے پاس کوئی نیکی نہیں ملی،سوائے اس کے کہ وہ ایک مال دار آدمی تھا،لوگوں سے لین دین کرتاتھا اوراپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ (تقاضے کے وقت) تنگ دست سے درگزر کریں،تو اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا: ہم اس سے زیادہ اس کے (در گزرکے) حقدار ہیں،تم لوگ اسے معاف کردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ أَبِي الْمِنْہَالِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَدِينَةَ وَہُمْ يُسْلِفُونَ فِي الثَّمَرِ فَقَالَ مَنْ أَسْلَفَ فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَی أَجَلٍ مَعْلُومٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَجَازُوا السَّلَفَ فِي الطَّعَامِ وَالثِّيَابِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا يُعْرَفُ حَدُّہُ وَصِفَتُہُ وَاخْتَلَفُوا فِي السَّلَمِ فِي الْحَيَوَانِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ السَّلَمَ فِي الْحَيَوَانِ جَائِزًا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَكَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ السَّلَمَ فِي الْحَيَوَانِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ أَبُو الْمِنْہَالِ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُطْعِمٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے اوراہل مدینہ پھلوں میں سلف کیا کرتے تھے یعنی قیمت پہلے اداکردیتے تھے،آپ نے فرمایا: جو سلف کرے وہ متعین ناپ تول اورمتعین مدّت میں سلف کرے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن ابی اوفی اور عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔یہ لوگ غلہ،کپڑا،اور جن چیزوں کی حد اور صفت معلوم ہو اس کی خریداری کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں،۴-جانور خرید نے کے لیے پیشگی رقم دینے میں اختلاف ہے،۴-بعض اہل علم جانورخریدنے کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں۔شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور خریدنے کے لیے پیشگی دینے کو مکروہ سمجھا ہے۔سفیان اور اہل کوفہ کایہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ،حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ،حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: مَا مِنْ إِمَامٍ يُغْلِقُ بَابَہُ دُونَ ذَوِي الْحَاجَةِ وَالْخَلَّةِ وَالْمَسْكَنَةِ،إِلاَّ أَغْلَقَ اللہُ أَبْوَابَ السَّمَائِ دُونَ خَلَّتِہِ وَحَاجَتِہِ وَمَسْكَنَتِہِ. فَجَعَلَ مُعَاوِيَةُ رَجُلاً عَلَی حَوَائِجِ النَّاسِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ. وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ الْجُہَنِيُّ،يُكْنَی أَبَا مَرْيَمَ.

عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سناہے: جوبھی حاکم حاجت مندوں،محتاجوں اور مسکینوں کے لیے اپنے دروازے بندرکھتاہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضرورت،حاجت اور مسکنت کے لیے اپنے دروازے بند رکھتاہے،جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سناتولوگوں کی ضرورت کے لیے ایک آدمی مقرر کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲-یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی مروی ہے،۳-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-عمرو بن مرہ جہنی کی کنیت ابومریم ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ حَمْزَةَ،عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ،عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ،عَنْ أَبِي مَرْيَمَ صَاحِبِ رَسُولِ اللہِ ﷺ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاہُ. وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ،شَامِيٌّ. وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ،كُوفِيٌّ. وَأَبُو مَرْيَمَ ہُوَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ الْجُہَنِيُّ.

ابومریم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺسے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔ یزید بن ابی مریم شام کے رہنے والے ہیں اور برید بن ابی مریم کو فہ کے رہنے والے ہیں اور ابومریم کانام عمرو بن مرہ جہنی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہِ مِنْ بَعْضٍ فَإِنْ قَضَيْتُ لِأَحَدٍ مِنْكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيہِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ فَلَا يَأْخُذْ مِنْہُ شَيْئًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہومیں ایک انسان ہی ہوں،ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں د وسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوادوں تو گویا میں اُسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہاہوں،لہذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اورعائشہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ الثَّعْلَبِيِّ عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَيَّرَ غُلَامًا بَيْنَ أَبِيہِ وَأُمِّہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَجَدِّ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَيْمُونَةَ اسْمُہُ سُلَيْمٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالُوا يُخَيَّرُ الْغُلَامُ بَيْنَ أَبَوَيْہِ إِذَا وَقَعَتْ بَيْنَہُمَا الْمُنَازَعَةُ فِي الْوَلَدِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَالَا مَا كَانَ الْوَلَدُ صَغِيرًا فَالْأُمُّ أَحَقُّ فَإِذَا بَلَغَ الْغُلَامُ سَبْعَ سِنِينَ خُيِّرَ بَيْنَ أَبَوَيْہِ ہِلَالُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ ہُوَ ہِلَالُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أُسَامَةَ وَہُوَ مَدَنِيٌّ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَفُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے ایک بچے کو اختیار دیا کہ چاہے وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے اور چاہے اپنی ماں کے ساتھ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عبدالحمید بن جعفر کے دادا رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ماں باپ کے درمیان بچے کے سلسلے میں اختلاف ہوجائے تو بچے کو اختیار دیاجائے گا چاہے وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے اور چاہے وہ اپنی ماں کے ساتھ رہے۔یہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ان کاکہنا ہے کہ جب بچہ کم سن ہوتو اس کی ماں زیادہ مستحق ہے۔اور جب وہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو اختیار دیاجائے،چاہے تو باپ کے ساتھ رہے یا چاہے تو ماں کے ساتھ رہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ يُحَدِّثَانِ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاہُ نَحَلَ ابْنًا لَہُ غُلَامًا فَأَتَی النَّبِيَّ ﷺ يُشْہِدُہُ فَقَالَ أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَہُ مِثْلَ مَا نَحَلْتَ ہَذَا قَالَ لَا قَالَ فَارْدُدْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ التَّسْوِيَةَ بَيْنَ الْوَلَدِ حَتَّی قَالَ بَعْضُہُمْ يُسَوِّي بَيْنَ وَلَدِہِ حَتَّی فِي الْقُبْلَةِ وَقَالَ بَعْضُہُمْ يُسَوِّي بَيْنَ وَلَدِہِ فِي النُّحْلِ وَالْعَطِيَّةِ يَعْنِي الذَّكَرُ وَالْأُنْثَی سَوَاءٌ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَقَالَ بَعْضُہُمْ التَّسْوِيَةُ بَيْنَ الْوَلَدِ أَنْ يُعْطَی الذَّكَرُ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ مِثْلَ قِسْمَةِ الْمِيرَاثِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا،وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں،تو آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو ایسا ہی غلام عطیہ میں دیا ہے ۱؎ جیسا اس کو دیا ہے؟‘‘ کہا: نہیں،آپ نے فرمایا: ’’تو اسے واپس لے لو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲-یہ اور بھی سندوں سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔۳-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔یہ لوگ اولاد کے درمیان (عطیہ دینے میں) برابری کو ملحوظ رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں،یہاں تک کہ بعض لوگوں نے تو کہا ہے کہ بوسہ لینے میں بھی اپنی اولاد کے درمیان برابری برقرار رکھے،۴-اور بعض اہل علم کہتے ہیں: بخشش اور عطیہ میں اپنی اولاد یعنی بیٹا اور بیٹی کے درمیان بھی برابری برقرار رکھے۔یہی سفیان ثوری کا قول ہے،۵-اور بعض اہل علم کہتے ہیں: اولاد کے درمیان برابری یہی ہے کہ میراث کی طرح لڑکے کو لڑکی کے دوگنا دیا جائے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتْ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ مُرْسَلًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَبِہِ يَقُولُ بَعْضُ فُقَہَاءِ التَّابِعِينَ مِثْلَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَغَيْرِہِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْمَدِينَةِ مِنْہُمْ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ وَرَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ الشُّفْعَةَ إِلَّا لِلْخَلِيطِ وَلَا يَرَوْنَ لِلْجَارِ شُفْعَةً إِذَا لَمْ يَكُنْ خَلِيطًا وَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ الشُّفْعَةُ لِلْجَارِ وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ وَقَالَ الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِہِ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حدبندی ہوجائے اور راستے الگ الگ کردیے جائیں تو شفعہ نہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے بعض لوگوں نے ابوسلمہ سے اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے،۳-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا جن میں عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان بھی شامل ہیں اسی پرعمل ہے اور بعض تابعین فقہا جیسے عمر بن عبدالعزیز وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔اوریہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے،جن میں یحییٰ بن سعید انصاری،ربیعہ بن ابوعبدالرحمٰن اور مالک بن انس شامل ہیں،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،یہ لوگ صرف ساجھی دار کے لیے ہی حق شفعہ کے قائل ہیں۔اور جب پڑورسی ساجھی دار نہ ہو تو اس کے لیے حق شفعہ کے قائل نہیں۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ پڑوسی کے لیے بھی شفعہ ہے اور ان لوگوں نے مرفوع حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں: گھر کا پڑوسی گھر کا زیادہ حق دار ہے ۲؎ ،نیز فرماتے ہیں: پڑوسی اپنے سے لگی ہوئی زمین یامکان کازیادہ حق دارہے اوریہی ثوری،ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ قُرَيْشًا أَہَمَّہُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ فَقَالُوا مَنْ يُكَلِّمُ فِيہَا رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالُوا مَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْہِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَكَلَّمَہُ أُسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ فَقَالَ إِنَّمَا أَہْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّہُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيہِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوہُ وَإِذَا سَرَقَ فِيہِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْہِ الْحَدَّ وَايْمُ اللہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ مَسْعُودِ ابْنِ الْعَجْمَاءِ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُقَالُ مَسْعُودُ بْنُ الْأَعْجَمِ وَلَہُ ہَذَا الْحَدِيثُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش قبیلہ ٔبنو مخزوم کی ایک عورت ۱؎ کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی،کافی فکر مند ہوئے،وہ کہنے لگے: اس کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: رسول اللہ ﷺ کے چہیتے اسامہ بن زید کے علاوہ کون اس کی جرأت کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کررہے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے،اور جب کمزورحال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے،اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں مسعود بن عجماء،ابن عمر اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-مسعود بن عجماء کو مسعودبن اعجم بھی کہاجاتاہے،ان سے صرف یہی ایک حدیث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَيَحْيَی بْنُ أَكْثَمَ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ضَرَبَ وَغَرَّبَ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ ضَرَبَ وَغَرَّبَ وَأَنَّ عُمَرَ ضَرَبَ وَغَرَّبَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ إِدْرِيسَ فَرَفَعُوہُ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ إِدْرِيسَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ضَرَبَ وَغَرَّبَ وَأَنَّ عُمَرَ ضَرَبَ وَغَرَّبَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ وَہَكَذَا رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ رِوَايَةِ ابْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ نَحْوَ ہَذَا وَہَكَذَا رَوَاہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ضَرَبَ وَغَرَّبَ وَأَنَّ عُمَرَ ضَرَبَ وَغَرَّبَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ النَّفْيُ رَوَاہُ أَبُو ہُرَيْرَةَ وَزَيْدُ بْنُ خَالِدٍ وَعُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ وَغَيْرُہُمْ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِيٌّ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ وَأَبُو ذَرٍّ وَغَيْرُہُمْ وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَہَاءِ التَّابِعِينَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے (غیرشادی شدہ زانی اور زانیہ کو)کوڑے لگائے اورشہربدرکیا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی کوڑے لگایے اورشہربدرکیا،اورعمر رضی اللہ عنہ نے بھی کوڑے لگایے اورشہربدرکیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث غریب ہے،۲-اسے کئی لوگوں نے عبداللہ بن ادریس سے روایت کیا ہے،اوران لوگوں نے اسے مرفوع کیا ہے،(جب کہ) بعض لوگوں نے اس حدیث کو بطریق: عبد اللہ بن ادریس،عن عبید اللہ بن عبد اللہ العمری،عن نافع،عن ابن عمر (موقوفاً) روایت کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (غیرشادی شدہ زانی کو) کوڑے لگائے اورشہربدرکیا،عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا،۳-اس باب میں ابوہریرہ،زیدبن خالداورعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ہم سے اسے ابوسعید اشج نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ادریس نے بیان کیا،نیز اسی طرح یہ حدیث عبداللہ بن ادریس کے علاوہ کئی ایک نے عبیداللہ بن عمر سے روایت کی ہے،اسی طرح اسے محمد بن اسحاق نے نافع سے،نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے (موقوفاً) روایت کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا،اور عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا،لیکن اس میں ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ یہ حدیث نبی اکرمﷺ سے آئی ہے،۱-حالانکہ رسول اللہ ﷺ سے مروی شہربدر کرنے کی روایت صحیح ہے،۲-اسے ابوہریرہ،زیدبن خالد اورعبادہ بن صامت وغیرہ رضی اللہ عنہم نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے،۳-نبی اکرمﷺ کے صحابہ میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے،ان لوگوں میں ابوبکر،عمر،علی،ابی بن کعب،عبداللہ بن مسعود اورابوذروغیرہم رضی اللہ عنہم شامل ہیں،اسی طرح یہ حدیث کئی تابعین فقہاء سے مروی ہے،سفیان ثوری مالک بن انس،عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ وَأَيُّوبَ بْنِ مِسْكِينٍ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ قَالَ: رُفِعَ إِلَی النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَجُلٌ وَقَعَ عَلَی جَارِيَةِ امْرَأَتِہِ،فَقَالَ: لأَقْضِيَنَّ فِيہَا بِقَضَائِ رَسُولِ اللہِ ﷺ: لَئِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْہَا لَہُ لأَجْلِدَنَّہُ مِائَةً،وَإِنْ لَمْ تَكُنْ أَحَلَّتْہَا لَہُ رَجَمْتُہُ.

حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہواجس نے اپنی بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کیاتھا،انہوں نے کہا: میں اس میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا: اگراس کی بیوی نے اسے لونڈی کے ساتھ جماع کی اجازت دی ہے تو (بطور تأدیب) اسے سو کوڑے ماروں گا اوراگر اس نے اجازت نہیں دی ہے تو(بطور حد) اسے رجم کروں گا۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ،عَنْ أَبِي بِشْرٍ،عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ،عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ نَحْوَہُ. وَيُرْوَی عَنْ قَتَادَةَ أَنَّہُ قَالَ: كُتِبَ بِہِ إِلَی حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ،وَأَبُو بِشْرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ حَبِيبِ ابْنِ سَالِمٍ ہَذَا أَيْضًا،إِنَّمَا رَوَاہُ عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ. قَالَ أَبُوعِيسَی: حَدِيثُ النُّعْمَانِ فِي إِسْنَادِہِ اضْطِرَابٌ،قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ ہَذَاالْحَدِيثَ،إِنَّمَا رَوَاہُ عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَقَدِ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَی جَارِيَةِ امْرَأَتِہِ،فَرُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ: عَلِيٌّ وَابْنُ عُمَرَ أَنَّ عَلَيْہِ الرَّجْمَ،و قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: لَيْسَ عَلَيْہِ حَدٌّ،وَلَكِنْ يُعَزَّرُ،وَذَہَبَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ إِلَی مَا رَوَی النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.

اس سندسے بھی نعمان بن بشیرسے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: حبیب بن سالم کے پاس یہ مسئلہ لکھ کر بھیجاگیا ۱؎۔ ابوبشرنے بھی یہ حدیث حبیب بن سالم سے نہیں سنی،انہوں نے اسے خالد بن عرفطہ سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-نعمان کی حدیث کی سند میں اضطراب ہے میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ قتادہ نے اس حدیث کوحبیب بن سالم سے نہیں سناہے،انہوں نے اسے خالدبن عرفطہ سے روایت کیا ہے،۲-اس باب میں سلمہ بن محبق سے بھی روایت ہے،۳-بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کرنے والے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،چنانچہ نبی اکرمﷺ کے کئی صحابہ سے مروی ہے جن میں علی اورابن عمربھی شامل ہیں کہ اس پر رجم واجب ہے،ابن مسعودکہتے ہیں: اس پر کوئی حدنہیں ہے،البتہ اس کی تأدیبی سزاہوگی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا مسلک اس (حدیث) کے مطابق ہے جو نبی اکرمﷺسے بواسطہ نعمان بن بشیرآئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ ح وَالْحَجَّاجُ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ عَنْ عَائِذِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا أَہْلُ صَيْدٍ قَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ فَأَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ قُلْتُ وَإِنْ قَتَلَ قَالَ وَإِنْ قَتَلَ قُلْتُ إِنَّا أَہْلُ رَمْيٍ قَالَ مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ فَكُلْ قَالَ قُلْتُ إِنَّا أَہْلُ سَفَرٍ نَمُرُّ بِالْيَہُودِ وَالنَّصَارَی وَالْمَجُوسِ فَلَا نَجِدُ غَيْرَ آنِيَتِہِمْ قَالَ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَہَا فَاغْسِلُوہَا بِالْمَاءِ ثُمَّ كُلُوا فِيہَا وَاشْرَبُوا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَائِذُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ ہُوَ أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ وَاسْمُ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ جُرْثُومٌ وَيُقَالُ جُرْثُمُ بْنُ نَاشِبٍ وَيُقَالُ ابْنُ قَيْسٍ

ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لو گ شکاری ہیں؟(شکارکے احکام بتائیے؟) آپ نے فرمایا: جب تم (شکارکے لیے) اپنا کتاچھوڑو اوراس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لوپھروہ تمہارے لیے شکارکو روک رکھے تو اسے کھاؤ؟ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکارکو مارڈالے،آپ نے فرمایا: اگرچہ مارڈالے،میں نے عرض کیا: ہم لوگ تیراندازہیں(تواس کے بارے میں فرمائیے؟)آ پ نے فرمایا: تمہارا تیر جوشکار کرے اسے کھاؤ،میں نے عرض کیا: ہم سفرکرنے والے لوگ ہیں،یہودونصاریٰ اورمجوس کی بستیوں سے گزرتے ہیں اور ان کے برتنوں کے علاوہ ہمارے پاس کوئی برتن نہیں ہوتا(توکیاہم ان کے برتنوں میں کھالیں؟) آپ نے فرمایا: اگر تم اس کے علاوے کوئی برتن نہ پاسکو تو اسے پانی سے دھولوپھر اس میں کھاؤپئو ۱؎۔ اس باب میں عدی بن حاتم سے بھی روایت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوثعلبہ خشنی کا نام جرثوم ہے،انہیں جرثم بن ناشب اورجرثم بن قیس بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا نُرْسِلُ كِلَابًا لَنَا مُعَلَّمَةً قَالَ كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ وَإِنْ قَتَلْنَ قَالَ وَإِنْ قَتَلْنَ مَا لَمْ يَشْرَكْہَا كَلْبٌ غَيْرُہَا قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ قَالَ مَا خَزَقَ فَكُلْ وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِہِ فَلَا تَأْكُلْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ وَسُئِلَ عَنْ الْمِعْرَاضِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکارکے لیے) روانہ کرتے ہیں(یہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ،میں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مارڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ (شکار کو) مارڈالیں (پھربھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو،عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عر ض کیا:اللہ کے رسول! ہم لوگ معراض(ہتھیار کی چوڑان)سے شکارکرتے ہیں،(اس کا کیا حکم ہے؟)آپ نے فرمایا: جو(ہتھیارکی نوک سے)پھٹ جائے اسے کھاؤ اورجو اس کے عرض (بغیردھاردارحصے یعنی چوڑان)سے مرجائے اسے مت کھاؤ۔اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث روایت کی گئی ہے،مگراس میں ہے و سئل عن المعراض (یعنی آپ سے معراض کے بارے میں پوچھاگیا)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مُجَالِدٍ ح قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ذَكَاةُ الْجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَأَبُو الْوَدَّاكِ اسْمُہُ جَبْرُ بْنُ نَوْفٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جنین ۱؎ کی ماں کا ذبح ہی جنین کے ذبح کے لیے کافی ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوریہ اس سندکے علاوہ سے بھی ابوسعیدخدری سے ہے،۳-اس باب میں جابر،ابوامامہ،ابوالدرداء،اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-صحابہ کرام اوران کے علاوہ لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے،اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ ضَحَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ ذَبَحَہُمَا بِيَدِہِ وَسَمَّی وَكَبَّرَ وَوَضَعَ رِجْلَہُ عَلَی صِفَاحِہِمَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَجَابِرٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَبِي رَافِعٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي بَكْرَةَ أَيْضًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے سینگ والے دوچتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی،آپ نے ان دونوں کواپنے ہاتھ سے ذبح کیا،بسم اللہ پڑھی اوراللہ اکبرکہا اور(ذبح کرتے وقت) اپناپاؤں ان کے پہلؤں پررکھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،عائشہ،ابوہریرہ،ابوایوب،جابر،ابوالدرداء،ابورافع،ابن عمراورابوبکرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحَی فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً وَفِي الْبَعِيرِ عَشَرَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْأَسَدِ السُّلَمِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَی

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لو گ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفرمیں تھے کہ قربانی کا دن آگیا،چنانچہ ہم نے گائے کی قربانی میں سات آدمیوں اور اونٹ کی قربانی میں دس آدمیوں کوشریک کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف فضل بن موسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابوالأ سد سلمی عن أبیہ عن جدہ اور ابوایوب سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ بِالْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ إِسْحَقُ يُجْزِئُ أَيْضًا الْبَعِيرُ عَنْ عَشَرَةٍ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر(ذبح) کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام میں سے اہل علم اور ان کے علاوہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے،۳-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اونٹ دس آدمی کی طرف سے بھی کفایت کرجائے گا،انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عَمْرٍو أَوْ عُمَرَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ رَأَی ہِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالصَّحِيحُ ہُوَ عَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ قَدْ رَوَی عَنْہُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ نَحْوَ ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ كَانَ يَقُولُ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ وَإِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ ذَہَبَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ فَقَالُوا لَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعَرِہِ وَأَظْفَارِہِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَبْعَثُ بِالْہَدْيِ مِنْ الْمَدِينَةِ فَلَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ مِنْہُ الْمُحْرِمُ

ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوماہ ذی الحجہ کاچانددیکھے اور قربانی کرنا چاہتاہووہ (جب تک قربانی نہ کرلے) اپنا بال اورناخن نہ کاٹے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ـ یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-(عمرواورعمرمیں کے بارے میں) صحیح عمروبن مسلم ہے،ان سے محمدبن عمرو بن علقمہ اورکئی لوگوں نے حدیث روایت کی ہے،دوسری سندسے اسی جیسی حدیث سعید بن مسیب سے آئی ہے،سعید بن مسیب ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں،۳-بعض اہل علم کا یہی قول ہے،سعیدبن مسیب بھی اسی کے قائل ہیں،احمداوراسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے موافق ہے،۴-بعض اہل علم نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے،وہ لوگ کہتے ہیں: بال اورناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے،شافعی کا یہی قول ہے،وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں،نبی اکرمﷺقربانی کاجانور مدینہ روانہ کرتے تھے اورمحرم جن چیزوں سے اجتناب کرتاہے،آپ ان میں سے کسی چیز سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأَيْلِيِّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللہَ فَلْيُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللہَ فَلَا يَعْصِہِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأَيْلِيِّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ قَالُوا لَا يَعْصِي اللہَ وَلَيْسَ فِيہِ كَفَّارَةُ يَمِينٍ إِذَا كَانَ النَّذْرُ فِي مَعْصِيَةٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص نذرمانے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو وہ اللہ کی اطاعت کرے،اورجوشخص نذرمانے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تووہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے ۔اس سند سے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے بھی قاسم بن محمد سے روایت کیا ہے،۳-بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا یہی قول ہے،مالک اورشافعی کا بھی یہی قول ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور جب نذراللہ کی نافرمانی کی بابت ہو تو اس میں قسم کا کفارہ نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ نَذَرَتْ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ إِلَی بَيْتِ اللہِ فَسُئِلَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّ اللہَ لَغَنِيٌّ عَنْ مَشْيِہَا مُرُوہَا فَلْتَرْكَبْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَالُوا إِذَا نَذَرَتْ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ فَلْتَرْكَبْ وَلْتُہْدِ شَاةً

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک عورت نے نذرمانی کہ وہ بیت اللہ تک (پیدل) چل کرجائے گی،نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیاگیا توآپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے (پیدل) چلنے سے بے نیاز ہے،اسے حکم دو کہ وہ سوار ہو کرجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس کی حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،عقبہ بن عامر اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب عورت (حج کو پیدل) چل کر جانے کی نذرمان لے تووہ سوارہوجائے اورایک بکری دم میں دے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِشَيْخٍ كَبِيرٍ يَتَہَادَی بَيْنَ ابْنَيْہِ فَقَالَ مَا بَالُ ہَذَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ قَالَ إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ ہَذَا نَفْسَہُ قَالَ فَأَمَرَہُ أَنْ يَرْكَبَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَأَی رَجُلًا فَذَكَرَ نَحْوَہُ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جواپنے دوبیٹوں کے سہارے (حج کے لیے) چل رہاتھا آپ نے پوچھا: کیامعاملہ ہے ان کا؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول انہوں نے (پیدل) چلنے کی نذرمانی ہے،آپ نے فرمایا: اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بے نیاز پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کاحکم دیا۔اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔اور یہ صحیح حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ اسْتَفْتَی رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَی أُمِّہِ تُوُفِّيَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِيَہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ اقْضِ عَنْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک نذرکے بارے جوان کی ماں پر واجب تھی اوراسے پوری کرنے سے پہلے وہ مرگئیں،فتویٰ پوچھا،تونبی اکرمﷺ نے فرمایا: ان کی طرف سے نذرتم پوری کرو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْعَدَنِيُّ الْمَكِّيُّ وَيُكْنَی بِأَبِي عَبْدِ اللہِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ ہُوَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ مُسَاحِقٍ عَنْ ابْنِ عِصَامٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِيہِ وَكَانَتْ لَہُ صُحْبَةٌ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا بَعَثَ جَيْشًا أَوْ سَرِيَّةً يَقُولُ لَہُمْ إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا أَوْ سَمِعْتُمْ مُؤَذِّنًا فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ

عصام مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب کوئی لشکریاسریہ بھیجتے تو ان سے فرماتے: جب تم کوئی مسجد دیکھو یا موذن کی آواز سنوتوکسی کونہ مارو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اوریہ ابن عیینہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ حِينَ خَرَجَ إِلَی خَيْبَرَ أَتَاہَا لَيْلًا وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَيْلٍ لَمْ يُغِرْ عَلَيْہِمْ حَتَّی يُصْبِحَ فَلَمَّا أَصْبَحَ خَرَجَتْ يَہُودُ بِمَسَاحِيہِمْ وَمَكَاتِلِہِمْ فَلَمَّا رَأَوْہُ قَالُوا مُحَمَّدٌ وَافَقَ وَاللہِ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اللہُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ خیبرروانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے،اورآپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہوجاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ۱؎،پھر جب صبح ہوگئی تو یہود اپنے پھاوڑے اورٹوکریوں کے ساتھ نکلے،جب انہوں نے آپ کو دیکھا توکہا:محمد ہیں،اللہ کی قسم،محمد لشکر کے ہمراہ آگئے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اکبر! خیبربرباد ہوگیا،جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح،بڑی بری ہوتی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا ظَہَرَ عَلَی قَوْمٍ أَقَامَ بِعَرْصَتِہِمْ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْغَارَةِ بِاللَّيْلِ وَأَنْ يُبَيِّتُوا وَكَرِہَہُ بَعْضُہُمْ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا بَأْسَ أَنْ يُبَيَّتَ الْعَدُوُّ لَيْلًا وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَافَقَ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ يَعْنِي بِہِ الْجَيْشَ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کسی قوم پر غالب آتے توان کے میدان میں تین دن تک قیام کرتے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-حمید کی حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے آئی ہے۔حسن صحیح ہے،۳-اہل علم کی ایک جماعت نے رات میں حملہ کرنے اورچھاپہ مارنے کی اجازت دی ہے،۴-بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں،۵-احمداوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ رات میں دشمن پرچھاپہ مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے،۶-وافق محمد الخمیس میں الخمیس سے مرادلشکرہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ ہِلَالٍ الصَّوَّافُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مَعَہَا مِنْ الْأَنْصَارِ يَسْقِينَ الْمَاءَ وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَی قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺام سلیم اور ان کے ہمراہ رہنے والی انصارکی چندعورتوں کے ساتھ جہاد میں نکلتے تھے،وہ پانی پلاتی اورزخمیوں کاعلاج کرتی تھیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ربیع بنت معوذ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ أُمَيْمَةَ بِنْتَ رُقَيْقَةَ تَقُولُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي نِسْوَةٍ فَقَالَ لَنَا فِيمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ قُلْتُ اللہُ وَرَسُولُہُ أَرْحَمُ بِنَا مِنَّا بِأَنْفُسِنَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ بَايِعْنَا قَالَ سُفْيَانُ تَعْنِي صَافِحْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّمَا قَوْلِي لِمِائَةِ امْرَأَةٍ كَقَوْلِي لِامْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ نَحْوَہُ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ لَا أَعْرِفُ لِأُمَيْمَةَ بِنْتِ رُقَيْقَةَ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَأُمَيْمَةُ امْرَأَةٌ أُخْرَی لَہَا حَدِيثٌ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ

امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کئی عورتوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺسے بیعت کی،آپ نے ہم سے فرمایا: اطاعت اس میں لازم ہے جوتم سے ہوسکے اورجس کی تمہیں طاقت ہو،میں نے کہا: اللہ اوراس کے رسول ہم پر خود ہم سے زیادہ مہربان ہیں،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!ہم سے بیعت لیجئے (سفیان بن عیینہ کہتے ہیں:ان کامطلب تھامصافحہ کیجئے)،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سوعورتوں کے لیے میراقول میرے اس قول جیسا ہے جو ایک عورت کے لیے ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،ہم اسے صرف محمدبن منکدرہی کی روایت سے جانتے ہیں،سفیان ثوری،مالک بن انس اورکئی لوگوں نے محمدبن منکدرسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں امیمہ بنت رقیقہ کی اس کے علاوہ دوسری کوئی حدیث نہیں جانتاہوں،۳-امیمہ نام کی ایک دوسری عورت بھی ہیں جن کی رسول اللہ ﷺسے ایک حدیث آئی ہے۔۴-اس باب میں عائشہ،عبداللہ بن عمراوراسماء بنت یزید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا أَبُومُعَاوِيَةَ،عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ،عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ،عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَعَثَ سَرِيَّةً إِلَی خَثْعَمٍ،فَاعْتَصَمَ نَاسٌ بِالسُّجُودِ فَأَسْرَعَ فِيہِم الْقَتْلَ،فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَأَمَرَ لَہُمْ بِنِصْفِ الْعَقْلِ وَقَالَ: أَنَا بَرِيئٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْہُرِ الْمُشْرِكِينَ،قَالُوا: يَارَسُولَ اللہِ! وَلِمَ قَالَ: لاَتَرَايَا نَارَاہُمَا.`

جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺنے قبیلہء خثعم کی طرف ایک سریہ روانہ کیا،(کافروں کے درمیان رہنے والے مسلمانوں میں سے) کچھ لوگوں نے سجدہ کے ذریعہ پناہ چاہی،پھر بھی انہیں قتل کرنے میں جلدی کی گئی،نبی اکرمﷺ کو اس کی خبرملی تو آپ نے ان کو آدھی دیت دینے کا حکم دیااورفرمایا: میں ہراس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتاہے ،لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آخرکیوں؟ آپ نے فرمایا: (مسلمان کو کافروں سے اتنی دوری پر سکونت پذیر ہوناچاہئے کہ) وہ دونوں ایک دوسرے (کے کھانا پکانے) کی آگ نہ دیکھ سکیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا عَبْدَةُ،عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ،عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ جَرِيرٍ وَہَذَا أَصَحُّ. وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَأَكْثَرُ أَصْحَابِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَعَثَ سَرِيَّةً وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ جَرِيرٍ،وَرَوَاہُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ،عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ،عَنْ قَيْسٍ،عَنْ جَرِيرٍ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ،قَالَ: وسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ: الصَّحِيحُ حَدِيثُ قَيْسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ،وَرَوَی سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لاَ تُسَاكِنُوا الْمُشْرِكِينَ وَلاَ تُجَامِعُوہُمْ فَمَنْ سَاكَنَہُمْ أَوْ جَامَعَہُمْ فَہُوَ مِثْلُہُمْ.

عبدہ نے یہ حدیث بطریق: إسماعیل بن أبی خلد،عن قیس بن أبی حازم،عن النبی ﷺ (مرسلاً) ابومعاویہ کے مثل حدیث روایت کی ہے،اس میں انہوں (عبدہ) نے جریرکے واسطے کا ذکرنہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ روایت زیادہ صحیح ہے،۲-اسماعیل بن ابی خالدکے اکثرشاگرداسماعیل کے واسطہ سے قیس بن ابی حازم سے(مرسلاً) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ روانہ کیا،ان لوگوں نے اس میں جریر کے واسطے کا ذکر نہیں کیا،اور حماد بن سلمہ نے بطریق: الحجاج بن أرطاۃ،عن إسماعیل بن أبی خالد،عن قیس بن أبی حازم،عن جریر بن عبد اللہ (مرفوعا) ابومعاویہ کے مثل اس کی روایت کی ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا:صحیح یہ ہے کہ قیس کی حدیث نبی اکرمﷺ سے مرسل ہے،نیز سمرہ بن جندب نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،آپ نے فرمایا: مشرکوں کے ساتھ نہ رہو اور نہ ان کی ہم نشینی اختیارکرو،جوان کے ساتھ رہے گا یاان کی ہم نشینی اختیارکرے گا وہ بھی انھیں میں سے مانا جائے گا،۳-اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ مَالِكِ بْنِ الْبَرْصَاءِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ يَقُولُ لَا تُغْزَی ہَذِہِ بَعْدَ الْيَوْمِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ وَمُطِيعٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ حَدِيثُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ فَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ

حارث بن مالک بن برصاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن میں نے نبی اکرمﷺ کوفرماتے سنا: مکہ میں آج کے بعدقیامت تک (کافروں سے)جہادنہیں کیاجائے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔یعنی زکریابن ابی زائدہ کی حدیث جو شعبی کے واسطہ سے آئی ہے،۲-ہم اس حدیث کو صرف ان ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں ابن عباس،سلیمان بن صرد اورمطیع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ أَنَّہُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ الشُّہَدَاءُ أَرْبَعَةٌ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللہَ حَتَّی قُتِلَ فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْہِ أَعْيُنَہُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ہَكَذَا وَرَفَعَ رَأْسَہُ حَتَّی وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُہُ قَالَ فَمَا أَدْرِي أَقَلَنْسُوَةَ عُمَرَ أَرَادَ أَمْ قَلَنْسُوَةَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا ضُرِبَ جِلْدُہُ بِشَوْكِ طَلْحٍ مِنْ الْجُبْنِ أَتَاہُ سَہْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَہُ فَہُوَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللہَ حَتَّی قُتِلَ فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَی نَفْسِہِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللہَ حَتَّی قُتِلَ فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ قَدْ رَوَی سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ وَقَالَ عَنْ أَشْيَاخٍ مِنْ خَوْلَانَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي يَزِيدَ و قَالَ عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ لَيْسَ بِہِ بَأْسٌ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: شہیدچارطرح کے ہیں: پہلا وہ اچھے ایمان والامومن جو دشمن سے مقابلہ اوراللہ سے کئے گئے وعدہ کوسچ کردکھائے یہاں تک کہ شہیدہوجائے،یہی وہ شخص ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ اس طرح آنکھیں اٹھاکر دیکھیں گے اور (راوی فضالہ بن عبید نے اس کی کیفیت کو بیان کر نے کے لئے کہا)اپنا سراٹھایا یہاں تک کہ ٹوپی(سرسے) گرگئی،راوی ابویزیدخولانی کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم فضالہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی ٹوپی مراد لی یا نبی اکرمﷺ کی،آپ نے فرمایا: دوسرا وہ اچھے ایمان والامومن جو دشمن کا مقابلہ اس طرح کرے گویا کہ بزدلی کی وجہ سے اس کی جلد(کھال) طلح (ایک بڑاخارداردرخت) کے کاٹے سے زخمی ہوگئی ہو،پیچھے سے (ایک انجان) تیرآکراسے لگے اورمارڈالے،یہ دوسرے درجہ میں ہے،تیسرا وہ مومن جو نیک عمل کے ساتھ براعمل بھی کرے،جب دشمن سے مقابلہ کرے تو اللہ سے کئے گئے وعدہ کو سچ کردکھائے (یعنی بہادری سے لڑتارہے)یہاں تک کہ شہیدہوجائے،یہ تیسرے درجہ میں ہے،چوتھاوہ مومن شخص جو اپنے نفس پرظلم کرے (یعنی کثرت گناہ کی وجہ سے،اور بہادری سے لڑتارہے)یہاں تک کہ شہیدہوجائے،یہ چوتھے درجہ میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف عطاء بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں،میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا:یہ حدیث سعید بن ابی ایوب نے عطاء بن دینارسے روایت کی ہے اورانہوں نے خولان کے مشائخ سے روایت کی ہے اس میں انہوں نے ابویزید کا ذکرنہیں کیا،اور عطاء بن دینار نے کہا: (کہ اس حدیث میں)کچھ حرج نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْعَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيُّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللہِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا وَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: راہ جہاد کی ایک صبح دنیا اوردنیا کی ساری چیزوں سے بہترہے اورجنت کی ایک کوڑے ۱؎ کی جگہ دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابن عباس،ابوایوب اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالْحَجَّاجُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَی عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ہُوَ أَبُو حَازِمٍ الزَّاہِدُ وَہُوَ مَدَنِيٌّ وَاسْمُہُ سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ وَأَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَی عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہُوَ أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ الْكُوفِيُّ وَاسْمُہُ سَلْمَانُ وَہُوَ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جہادکی ایک صبح یا ایک شام دنیا اور اس میں جوکچھ ہے اس سے بہترہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-جس ابوحازم نے سہل بن سعد سے روایت کی ہے وہ ابوحازم زاہدہیں،مدینہ کے رہنے والے ہیں اوران کا نام سلمہ بن دینارہے،اوریہ ابوحازم جنہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے یہ ابوحازم اشجعی ہیں،کوفہ کے رہنے والے ان کانام سلمان ہے اوریہ عزۃ اشجعیہ کے آزادکردہ غلام ہیں۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِلَالٍ عَنْ ابْنِ أَبِي ذُبَابٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ بِشِعْبٍ فِيہِ عُيَيْنَةٌ مِنْ مَاءٍ عَذْبَةٌ فَأَعْجَبَتْہُ لِطِيبِہَا فَقَالَ لَوْ اعْتَزَلْتُ النَّاسَ فَأَقَمْتُ فِي ہَذَا الشِّعْبِ وَلَنْ أَفْعَلَ حَتَّی أَسْتَأْذِنَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ مُقَامَ أَحَدِكُمْ فِي سَبِيلِ اللہِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہِ فِي بَيْتِہِ سَبْعِينَ عَامًا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللہُ لَكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ الْجَنَّةَ اغْزُو فِي سَبِيلِ اللہِ مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللہِ فَوَاقَ نَاقَةٍ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: صحابہ میں سے ایک آدمی کسی پہاڑی کی گھاٹی سے گزرا جس میں میٹھے پانی کا ایک چھوٹاساچشمہ تھا،وہ جگہ اور چشمہ اپنی لطافت کی وجہ سے اسے بہت پسندآیا،اس نے کہا (سوچا): کاش میں لوگوں سے الگ تھلگ ہوکراس گھاٹی میں قیام پذیرہوجاتا،لیکن میں ایساہرگز نہیں کروں گا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کرلوں اس نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا،آپ نے فرمایا: ایسانہ کرو،اس لیے کہ تم میں سے کسی کا اللہ کے راستے میں کھڑارہنا اپنے گھرمیں سترسال صلاۃ پڑھتے رہنے سے بہترہے،کیا تم لوگ نہیں چاہتے ہوکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اورتم کو جنت میں داخل کردے؟ اللہ کی راہ میں جہادکرو،جس نے اللہ کی راہ میں دومرتبہ دودھ دوہنے کے درمیان کے وقفہ کے برابرجہادکیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَغَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ أَوْ مَوْضِعُ يَدِہِ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا وَلَوْ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ أَہْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَتْ إِلَی الْأَرْضِ لَأَضَاءَتْ مَا بَيْنَہُمَا وَلَمَلَأَتْ مَا بَيْنَہُمَا رِيحًا وَلَنَصِيفُہَا عَلَی رَأْسِہَا خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: راہ جہاد کی ایک صبح یا ایک شام ساری دنیا سے بہترہے،اور تم میں سے کسی کی کمان یا ہاتھ کے برابرجنت کی جگہ دنیااور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے ۱؎،اگرجنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف نکل آئے تو زمین وآسمان کے درمیان کی ساری چیزیں روشن ہوجائیں اورخوشبو سے بھرجائیں اوراس کے سر کا دوپٹہ دنیااور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَی اللہِ عَوْنُہُمْ الْمُجَاہِدُ فِي سَبِيلِ اللہِ وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کی مدداللہ کے نزدیک ثابت ہے ۱؎ ایک اللہ کی راہ میں جہادکرنے والا،دوسراوہ مکاتب غلام جو زرکتابت اداکرناچاہتاہو،اورتیسرا وہ شادی کرنے والا جو پاکدامنی حاصل کرنا چاہتاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ وَأَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ كُنْتُ إِلَی جَنْبِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ فَقِيلَ لَہُ كَمْ غَزَا النَّبِيُّ ﷺ مِنْ غَزْوَةٍ قَالَ تِسْعَ عَشْرَةَ فَقُلْتُ كَمْ غَزَوْتَ أَنْتَ مَعَہُ قَالَ سَبْعَ عَشْرَةَ قُلْتُ أَيَّتُہُنَّ كَانَ أَوَّلَ قَالَ ذَاتُ الْعُشَيْرِ أَوْ الْعُشَيْرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے بغل میں تھا کہ ان سے پوچھاگیا: نبی اکرم ﷺ نے کتنے غزوات کیے؟ کہا: انیس ۱؎،میں نے پوچھا: آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کتنے غزوات میں شریک رہے؟ کہا: سترہ میں،میں نے پوچھا: کون ساغزوہ پہلے ہواتھا؟ کہا: ذات العشیریاذات العُشیرہ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْمُہَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ عَمَّنْ سَمِعَ النَّبِيِّ ﷺ يَقُولُ إِنْ بَيَّتَكُمْ الْعَدُوُّ فَقُولُوا حم لَا يُنْصَرُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَہَكَذَا رَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ مِثْلَ رِوَايَةِ الثَّوْرِيِّ وَرُوِيَ عَنْہُ عَنْ الْمُہَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

مہلب بن ابی صفرۃ ان لوگوں سے روایت کرتے ہیں جنہوں نے نبی اکرمﷺ سے سنا،آپ فرمارہے تھے: اگررات میں تم پر دشمن حملہ کریں توتم حم لا ینصرونکہو ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-بعض لوگوں نے اسی طرح ثوری کی روایت کے مثل ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے،اور ابواسحاق سے یہ حدیث بواسطہ مہلب بن ابی صفرۃ نبی اکرمﷺ سے مرسل طریقہ سے بھی آئی ہے،۲-اس باب میں سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ رَكِبَ النَّبِيُّ ﷺ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ يُقَالُ لَہُ مَنْدُوبٌ فَقَالَ مَا كَانَ مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاہُ لَبَحْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ ابوطلحہ کے گھوڑے پرسوار ہوگئے اس گھوڑے کو مندوب کہا جاتاتھا: کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی،اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندرپایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَأَبُو دَاوُدَ قَالُوا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ فَاسْتَعَارَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَرَسًا لَنَا يُقَالُ لَہُ مَنْدُوبٌ فَقَالَ مَا رَأَيْنَا مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاہُ لَبَحْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

نس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مدینہ میں گھبراہٹ کا ماحول تھا،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے مندوب نامی گھوڑے کوہم سے عاریۃ لیا ہم نے کوئی گھبراہٹ نہیں دیکھی اورگھوڑے کو چال میں ہم نے سمندرپایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ وَأَجْوَدِ النَّاسِ وَأَشْجَعِ النَّاسِ قَالَ وَقَدْ فَزِعَ أَہْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا قَالَ فَتَلَقَّاہُمْ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَہُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَہُ فَقَالَ لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَجَدْتُہُ بَحْرًا يَعْنِي الْفَرَسَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ سب سے جری(نڈر)،سب سے سخی،اورسب سے بہادرتھے،ایک رات مدینہ والے گھبراگئے،ان لوگوں نے کوئی آواز سنی،چنانچہ نبی اکرمﷺنے تلوار لٹکائے ابوطلحہ کے ایک ننگی پیٹھ والے گھوڑے پر سوار ہوکر لوگوں کے پاس پہنچے اورفرمایا: تم لوگ فکرنہ کرو،تم لوگ فکرنہ کرو،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں نے چال میں گھوڑے کو سمندرپایا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَنَعَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ فَنَقَشَ فِيہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ ثُمَّ قَالَ لَا تَنْقُشُوا عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ لَا تَنْقُشُوا عَلَيْہِ نَہَی أَنْ يَنْقُشَ أَحَدٌ عَلَی خَاتَمِہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنائی،اس میں محمدرسول اللہ نقش کرایا،پھرفرمایا: تم لوگ اپنی انگوٹھی پر یہ نقش مت کرانا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔لاَ تَنْقُشُوا عَلَیْہِ کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے منع فرمایا کو ئی دوسرا اپنی انگوٹھی پر محمدرسول اللہنقش نہ کرائے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ وَالْحَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ قَالَا حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ نَزَعَ خَاتَمَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب پاخانہ جاتے تو اپنی انگوٹھی اتاردیتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ثُمَامَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ النَّبِيِّ ﷺ مُحَمَّدٌ سَطْرٌ وَرَسُولُ سَطْرٌ وَاللہِ سَطْرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺکی انگوٹھی کانقش اس طرح تھامحمدایک سطر،رسول ایک سطراوراللہایک سطرمیں،امام ترمذی کہتے ہیں: انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ ثُمَامَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ نَقْشُ خَاتَمِ النَّبِيِّ ﷺ ثَلَاثَةَ أَسْطُرٍ مُحَمَّدٌ سَطْرٌ وَرَسُولُ سَطْرٌ وَاللہِ سَطْرٌ وَلَمْ يَذْكُرْ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی فِي حَدِيثِہِ ثَلَاثَةَ أَسْطُرٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی انگوٹھی کا نقش تین سطروں میں تھامحمدایک سطر میں رسول ایک سطرمیں اوراللہایک سطرمیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-محمدبن یحیی نے اپنی روایت میں تین سطروں کا ذکر نہیں کیا ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَبْعَةً لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ حَسَنَ الْجِسْمِ أَسْمَرَ اللَّوْنِ وَكَانَ شَعْرُہُ لَيْسَ بِجَعْدٍ وَلَا سَبْطٍ إِذَا مَشَی يَتَوَكَّأُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالْبَرَاءِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَأُمِّ ہَانِئٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ حُمَيْدٍ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ میانہ قدتھے،آپ نہ لمبے تھے نہ کوتاہ قد،گندمی رنگ کے سڈول جسم والے تھے،آپ کے بال نہ گھنگھریالے تھے نہ سیدھے،آپ جب چلتے تو پیراٹھاکرچلتے جیساکوئی اوپرسے نیچے اترتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس سند سے حمیدکی روایت سے انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں عائشہ،براء،ابوہریرہ،ابن عباس،ابوسعید،جابر،وائل بن حجراورام ہانی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ وَكَانَ لَہُ شَعْرٌ فَوْقَ الْجُمَّةِ وَدُونَ الْوَفْرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ ہَذَا الْحَرْفَ وَكَانَ لَہُ شَعْرٌ فَوْقَ الْجُمَّةِ وَدُونَ الْوَفْرَةِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ ثِقَةٌ كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يُوَثِّقُہُ وَيَأْمُرُ بِالْكِتَابَةِ عَنْہُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھی،آپ کے بال جمہ سے چھوٹے اوروفرہ سے بڑے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-دوسری سندوں سے یہ حدیث عائشہ سے یوں مروی ہے،کہتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھی،راویوں نے اس حدیث میں یہ جملہ نہیں بیان کیا ہے،وکان لہ شعر فوق الجمۃ ودون الوفرۃ ۳-عبدالرحمٰن بن ابی زنادثقہ ہیں،مالک بن انس ان کی توثیق کرتے تھے اور ان کی روایت لکھنے کا حکم دیتے تھے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ہَاشِمِ بْنِ الْبَرِيدِ وَأَبُو سَعْدٍ الصَّغَانِيُّ عَنْ أَبِي الْأَشْہَبِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ عَرْفَجَةَ بْنِ أَسْعَدَ قَالَ أُصِيبَ أَنْفِي يَوْمَ الْكُلَابِ فِي الْجَاہِلِيَّةِ فَاتَّخَذْتُ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَأَنْتَنَ عَلَيَّ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَہَبٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ عَنْ أَبِي الْأَشْہَبِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ وَقَدْ رَوَی سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ طَرَفَةَ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي الْأَشْہَبِ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُمْ شَدُّوا أَسْنَانَہُمْ بِالذَّہَبِ وَفِي الْحَدِيثِ حُجَّةٌ لَہُمْ و قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ سَلْمُ بْنُ زَرِينٍ وَہُوَ وَہْمٌ وَزَرِيرٌ أَصَحُّ وَأَبُو سَعْدٍ الصَّغَانِيُّ اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسِّرٍ

عرفجہ بن اسعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایام جاہلیت میں کلاب ۱ ؎ (ایک لڑائی) کے دن میری ناک کٹ گئی،میں نے چاندی کی ایک ناک لگائی تو اس سے بدبوآنے لگی،اس لیے رسول اللہ ﷺ نے مجھے سونے کی ایک ناک لگانے کاحکم دیا ۲؎۔اس سند سے بھی ابو شہب سے اسی جیسی حدیث روایت ہے، امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن طرفہ کی روایت سے جانتے ہیں،سلیم بن زریرنے بھی عبدالرحمٰن بن طرفہ سے ابوشہاب کی حدیث جیسی روایت کی ہے،۳-اہل علم میں سے کئی ایک سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دانتوں کوسونے (کے تار) سے باندھا،اس حدیث میں ان کے لیے دلیل موجودہے،۴-عبدالرحمٰن بن مہدی نے (سلم بن زریر کے بجائے) سلم بن زرین کہاہے،یہاں ان سے وہم ہواہے وزریر زیادہ صحیح ہے،راوی ابوسعید صغانی کانام محمدبن میسرہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَمْشِي أَحَدُكُمْ فِي نَعْلٍ وَاحِدَةٍ لِيُنْعِلْہُمَا جَمِيعًا أَوْ لِيُحْفِہِمَا جَمِيعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی ایک جوتاپہن کر نہ چلے،دونوں پہن لے یا دونوں اتاردے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقُ وَأَبُو يَحْيَی الْحِمَّانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَرَدْتِ اللُّحُوقَ بِي فَلْيَكْفِكِ مِنْ الدُّنْيَا كَزَادِ الرَّاكِبِ وَإِيَّاكِ وَمُجَالَسَةَ الْأَغْنِيَاءِ وَلَا تَسْتَخْلِقِي ثَوْبًا حَتَّی تُرَقِّعِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ صَالِحِ بْنِ حَسَّانَ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ صَالِحُ بْنُ حَسَّانَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَصَالِحُ بْنُ أَبِي حَسَّانَ الَّذِي رَوَی عَنْہُ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ثِقَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَإِيَّاكِ وَمُجَالَسَةَ الْأَغْنِيَاءِ عَلَی نَحْوِ مَا رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ رَأَی مَنْ فُضِّلَ عَلَيْہِ فِي الْخَلْقِ وَالرِّزْقِ فَلْيَنْظُرْ إِلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْہُ مِمَّنْ فُضِّلَ ہُوَ عَلَيْہِ فَإِنَّہُ أَجْدَرُ أَنْ لَا يَزْدَرِيَ نِعْمَةَ اللہِ عَلَيْہِ وَيُرْوَی عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ صَحِبْتُ الْأَغْنِيَاءَ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا أَكْبَرَ ہَمًّا مِنِّي أَرَی دَابَّةً خَيْرًا مِنْ دَابَّتِي وَثَوْبًا خَيْرًا مِنْ ثَوْبِي وَصَحِبْتُ الْفُقَرَاءَ فَاسْتَرَحْتُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اگرتم (آخرت میں) مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو دنیا سے مسافرکے سامان سفرکے برابر حاصل کر نے پر اکتفاکرو،مالداروں کی صحبت سے بچواورکسی کپڑے کو اس وقت تک پرانا نہ سمجھ یہاتک کہ اس میں پیو ند لگالو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف صالح بن حسان کی روایت سے جانتے ہیں۔۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: صالح بن حسان منکرحدیث ہیں اور صالح بن ابی حسان جن سے ابن ابی ذئب نے روایت کی ہے وہ ثقہ ہیں،۴-نبی اکرمﷺ کے فرمان إیاک ومجالسۃ الأغیناء کا مطلب اسی طرح ہے جیساکہ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جو شخص اس آدمی کو دیکھے جس کو صورت اوررزق میں اس پر فضیلت دی گئی ہو،تواسے چاہئے کہ اپنے سے کم ترکو دیکھے جس کے اوپراس کو فضیلت دی گئی ہے،کیوں کہ اس کے لیے مناسب ہے کہ اپنے اوپرکی گئی اللہ کی نعمت کی تحقیرنہ کرے،۴-عون بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں: میں مالداروں کے ساتھ رہاتو اپنے سے زیادہ کسی کو غمزدہ نہیں دیکھا،کیوں کہ میں اپنے سے بہترسواری اوراپنے سے بہترکپڑادیکھتاتھا اور جب میں غریبوں کے ساتھ رہاتو میں نے راحت محسوس کی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ أَكْلِ الضَّبِّ فَقَالَ لَا آكُلُہُ وَلَا أُحَرِّمُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَثَابِتِ بْنِ وَدِيعَةَ وَجَابِرٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي أَكْلِ الضَّبِّ فَرَخَّصَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَكَرِہَہُ بَعْضُہُمْ وَيُرْوَی عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ أُكِلَ الضَّبُّ عَلَی مَائِدَةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَإِنَّمَا تَرَكَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَقَذُّرًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے ضب (گوہ) کھانے کے بارے میں پوچھاگیا؟ توآپ نے فرمایا: میں نہ تواسے کھاتاہوں اورنہ حرام کہتا ہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،ابوسعیدخدری،ابن عباس،ثابت بن ودیعہ،جابر اورعبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ضب کھانے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض اہل علم صحابہ نے رخصت دی ہے،۴-اوربعض نے اسے مکروہ سمجھا ہے،ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے دسترخوان پرضب کھایا گیا،رسول اللہ ﷺ نے طبعی کراہیت کی بنا پر اسے چھوڑدیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ وَالْحَسَنِ ابْنَیْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيہِمَا عَنْ عَلِيٍّ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ زَمَنَ خَيْبَرَ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَہْلِيَّةِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ وَالْحَسَنِ ہُمَا ابْنَا مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ يُكْنَی أَبَا ہَاشِمٍ قَالَ الزُّہْرِيُّ وَكَانَ أَرْضَاہُمَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَذَكَرَ نَحْوَہُ و قَالَ غَيْرُ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَكَانَ أَرْضَاہُمَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبرکے موقع پر عورتوں سے نکاح متعہ کرنے سے ۱؎ اور پالتوگدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم سے سعید بن عبدالرحمٰن مخزومی نے بسندسفیانعن الزہری عن عبداللہ وحسن نے اسی جیسی حدیث بیان کی،عبداللہ وحسن دونوں محمد بن حنیفہ کے بیٹے ہیں،اورعبداللہ بن محمد الحنفیہ کی کنیت ابوہاشم ہے،زہری کہتے ہیں: ان دونوں میں زیادہ پسندیدہ حسن بن محمد بن حنفیہ ہیں،پھر انہوں۔ابن عیینہ سے روایت کرنے والے سعید بن عبدالرحمٰن کے علاوہ دوسرے لوگوں نے کہاہے: ان دونوں میں زیادہ پسندیدہ عبداللہ بن محمد بن حنفیہ ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ حَرَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ كُلَّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ وَالْمُجَثَّمَةَ وَالْحِمَارَ الْإِنْسِيَّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَالْبَرَاءِ وَابْنِ أَبِي أَوْفَی وَأَنَسٍ وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَأَبِي ثَعْلَبَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ وَغَيْرُہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ہَذَا الْحَدِيثَ وَإِنَّمَا ذَكَرُوا حَرْفًا وَاحِدًا نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبرکے دن ہرکچلی دانت والے درندہ جانور،مجثمہ ۱؎ اورپالتوگدھے کو حرام قراردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-عبدالعزیز بن محمد اوردوسرے لوگوں نے بھی اسے محمد بن عمروسے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے صرف ایک جملہ بیان کیا ہے نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ کُلِّ ذِی نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ۔(یعنی صرف کچلی والے درندوں کا ذکر کیا،مجثمہ اور پالتو گدھے کا ذکر نہیں کیا)،۳-اس باب میں علی،جابر،براء،ابن ابی اوفیٰ،انس،عرباض بن ساریہ،ابوثعلبہ،ابن عمراورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ حَدَّثَنَا عَطَاءٌ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَكَلَ مِنْ ہَذِہِ قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ الثُّومِ ثُمَّ قَالَ الثُّومِ وَالْبَصَلِ وَالْكُرَّاثِ فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسْجِدِنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَقُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ وَابْنِ عُمَرَ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص ان میں سے لہسن کھائے،یا لہسن،پیاز اورگندنا ۱؎-کھائے وہ ہماری مسجدوں میں ہمارے قریب نہ آئے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،ابوایوب،ابوہریرہ،ابوسعیدخدری،جابربن سمرہ،قرہ بن ایاس مزنی اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ نَزَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی أَيُّوبَ وَكَانَ إِذَا أَكَلَ طَعَامًا بَعَثَ إِلَيْہِ بِفَضْلِہِ فَبَعَثَ إِلَيْہِ يَوْمًا بِطَعَامٍ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْہُ النَّبِيُّ ﷺ فَلَمَّا أَتَی أَبُو أَيُّوبَ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ فِيہِ ثُومٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَحَرَامٌ ہُوَ قَالَ لَا وَلَكِنِّي أَكْرَہُہُ مِنْ أَجْلِ رِيحِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ (ہجرت کے بعد) ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھرٹھہرے،آپ جب بھی کھانا کھاتے تو اس کا کچھ حصہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجتے،آپ نے ایک دن(پورا) کھانا (واپس) بھیجا،اس میں سے نبی اکرم ﷺ نے کچھ نہیں کھایا،جب ابوایوب نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اورآپ سے اس کا ذکرکیا تو آپ نے فرمایا: اس میں لہسن ہے؟،انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا وہ حرام ہے؟آپ نے فرمایا: نہیں،لیکن اس کی بوکی وجہ سے میں اسے ناپسند کرتاہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَمَّا أَنَا فَلَا آكُلُ مُتَّكِئًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ وَرَوَی زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ وَسُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ ہَذَا الْحَدِيثَ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ

ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میں ٹیک لگاکرنہیں کھاتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم اسے صرف علی بن اقمرکی روایت سے جانتے ہیں،علی بن اقمر سے اس حدیث کو زکریا بن ابی زائدہ،سفیان بن سعید ثوری اورکئی لوگوں نے روایت کیا ہے،شعبہ نے یہ حدیث سفیان ثوری سے علی بن اقمرکے واسطہ سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں علی،عبداللہ بن عمرواورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ مُرَّةَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ كَمُلَ مِنْ الرِّجَالِ كَثِيرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنْ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَفَضْلُ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَی سَائِرِ الطَّعَامِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مردوں میں سے بہت سارے مرد درجہ کمال کو پہنچے ۱؎ اورعورتوں میں سے صرف مریم بنت عمران اورفرعون کی بیوی آسیہ درجہ کمال کو پہنچیں اورتمام عورتوں پر عائشہ کو اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح تمام کھانوں پرثرید کو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ اورانس سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ الْبِتْعِ فَقَالَ كُلُّ شَرَابٍ أَسْكَرَ فَہُوَ حَرَامٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ سے شہدکی نبیذ کے بارے میں پوچھاگیا توآپ نے فرمایا:ہر شراب جونشہ پیدا کردے وہ حرام ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي مُوسَی وَالْأَشَجِّ الْعُصَرِيِّ وَدَيْلَمَ وَمَيْمُونَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَمُعَاوِيَةَ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَقُرَّةَ الْمُزَنِيِّ وعَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَكِلَاہُمَا صَحِيحٌ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ہرنشہ آورچیز حرام ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابوسلمہ سے ابوہریرہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،دونوں حدیثیں صحیح ہیں،کئی لوگوں نے اسے اسی طرح عن محمد بن عمرو،عن أبی سلمۃ،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ اور عن أبی سلمۃ،عن ابن عمر،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں عمر،علی،ابن مسعود،انس،ابوسعیدخدری،ابوموسیٰ اشج عصری،دیلم،میمونہ،ابن عباس،قیس بن سعد،نعمان بن بشیر،معاویہ،وائل بن حجر،قرہ مزنی،عبداللہ بن مغفل،ام سلمہ،بریدہ،ابوہریرہ اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ وَيَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَا أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ طَاوُسٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی ابْنَ عُمَرَ فَقَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ طَاوُسٌ وَاللہِ إِنِّي سَمِعْتُہُ مِنْہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی وَأَبِي سَعِيدٍ وَسُوَيْدٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

طاؤس سے روایت ہے: ایک آدمی ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اورپوچھا: کیا رسول اللہﷺ نے مٹکے کی نبیذسے منع فرمایاہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ۱؎،طاوس کہتے ہیں: اللہ کی قسم میں نے ان سے یہ بات سنی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن ابی اوفی،ابوسعیدخدری،سوید،عائشہ،ابن زبیراورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی أَنْ يُنْبَذَ الْبُسْرُ وَالرُّطَبُ جَمِيعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے گدر (ادھ پکی)کھجوراورتازہ کھجورکو ملا کرنبیذ بنانے سے منع فرمایا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ أَنْ يُخْلَطَ بَيْنَہُمَا وَنَہَی عَنْ الزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ أَنْ يُخْلَطَ بَيْنَہُمَا وَنَہَی عَنْ الْجِرَارِ أَنْ يُنْبَذَ فِيہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي قَتَادَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَمَعْبَدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أُمِّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے گدر(ادھ پکی) کھجوراورپختہ کھجور ایک ساتھ ملا کرنبیذ بنانے سے منع فرمایا: اورآپ نے مٹکوں میں نبیذ بنانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،انس،ابوقتادہ،ابن عباس،ام سلمہ اورمعبدبن کعب عن أمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا بَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّكَ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمَّكَ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أَبَاكَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَبَہْزُ بْنُ حَكِيمٍ ہُوَ أَبُو مُعَاوِيَةَ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي بَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَرَوَی عَنْہُ مَعْمَرٌ وَالثَّوْرِيُّ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ

معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا اللہ کے رسول!میں کس کے ساتھ نیک سلوک اور صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ ،میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ،میں نے عرض کیا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ،میں نے عرض کیا: پھرکس کے ساتھ؟ فرمایا:پھر اپنے باپ کے ساتھ،پھررشتہ داروں کے ساتھ پھرسب سے زیادہ قریبی رشتہ دار پھراس کے بعدکا،درجہ بدرجہ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،شعبہ نے بہز بن حکیم کے بارے میں کلام کیا ہے،محدثین کے نزدیک وہ ثقہ ہیں،ان سے معمر،ثوری،حماد بن سلمہ اورکئی ائمہ حدیث نے روایت کی ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،عبداللہ بن عمرو،عائشہ اورابوالدرداء رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ لِمِيقَاتِہَا قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الْجِہَادُ فِي سَبِيلِ اللہِ ثُمَّ سَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللہِ ﷺ وَلَوْ اسْتَزَدْتُہُ لَزَادَنِي قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُہُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ وَہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاہُ الشَّيْبَانِيُّ وَشُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: وقت پرصلاۃ اداکرنا،میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کو ن سا عمل زیادہ بہترہے؟ آپ نے فرمایا: ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا ،میں نے پوچھا: اللہ کے رسول!پھر کون ساعمل؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہادکرنا،پھررسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے،حالانکہ اگر میں زیادہ پوچھتاتوآپ زیادہ بتاتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے ابوعمرو شیبانی،شعبہ اورکئی لوگوں نے ولیدبن عیزارسے روایت کی ہے،۳-یہ حدیث ابوعمروشیبانی کے واسطہ سے ابن مسعودسے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَہْلَ وُدِّ أَبِيہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَسِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: سب سے بہتر سلوک اور سب سے اچھابرتاؤ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ صلہ رحمی کرے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ سندصحیح ہے،یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کئی سندوں سے آئی ہے،۲-اس باب میں ابواسید رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدًا إِلَّا أَنْ يَجِدَہُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَہُ فَيُعْتِقَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ وَقَدْ رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ہَذَا الْحَدِيثَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی لڑکا اپنے باپ کا احسان نہیں چکاسکتاہے سوائے اس کے کہ اسے (یعنی باپ کو) غلام پائے اورخرید کر آزادکردے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،ہم اسے صرف سہیل بن ابی صالح کی روایت سے جانتے ہیں،۲-سفیان ثوری اورکئی لوگوں نے بھی یہ حدیث سہیل بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَئِسَ أَنْ يَعْبُدَہُ الْمُصَلُّونَ وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَہُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَسُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُہُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ مصلی اس کی عبادت کریں گے،لیکن وہ ان کے درمیان جھگڑا کرانے کی کوشش میں رہتا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں انس اورسلیمان بن عمروبن احوص عن أبیہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ ہُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّی ظَنَنْتُ أَنَّہُ سَيُوَرِّثُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے جبریل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ وصیت (تاکید) کرتے رہے،یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وراثت میں (بھی) شریک ٹھہرادیں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ وَبَشِيرٍ أَبِي إِسْمَعِيلَ عَنْ مُجَاہِدٍ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو ذُبِحَتْ لَہُ شَاةٌ فِي أَہْلِہِ فَلَمَّا جَاءَ قَالَ أَہْدَيْتُمْ لِجَارِنَا الْيَہُودِيِّ أَہْدَيْتُمْ لِجَارِنَا الْيَہُودِيِّ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّی ظَنَنْتُ أَنَّہُ سَيُوَرِّثُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَالْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي شُرَيْحٍ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا

مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کے لیے ان کے گھرمیں ایک بکری ذبح کی گئی،جب وہ آئے تو پوچھا: کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر (گوشت کا) ہدیہ بھیجا؟ کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر ہدیہ بھیجا ہے؟ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے: مجھے جبریل پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وارث بنادیں گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث مجاہد سے عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے،۳-اس باب میں عائشہ،ابن عباس،ابوہریرہ،انس،مقداد بن اسود،عقبہ بن عامر،ابوشریح اورابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ شَرِيكٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ الْأَصْحَابِ عِنْدَ اللہِ خَيْرُہُمْ لِصَاحِبِہِ وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَ اللہِ خَيْرُہُمْ لِجَارِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک سب سے بہتر دوست وہ ہے جو لوگوں میں اپنے دوست کے لیے بہترہے،اوراللہ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہترہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْمُنْكَدِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ وَإِنَّ مِنْ الْمَعْرُوفِ أَنْ تَلْقَی أَخَاكَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ وَأَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَاءِ أَخِيكَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہربھلائی صدقہ ہے،اوربھلائی یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھ ملواوراپنے ڈول سے اس کے ڈول میں پانی ڈال دو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَلَاعَنُوا بِلَعْنَةِ اللہِ وَلَا بِغَضَبِہِ وَلَا بِالنَّارِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم لوگ (کسی پر) اللہ کی لعنت نہ بھیجو،نہ اس کے غضب کی لعنت بھیجواورنہ جہنم کی لعنت بھیجو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،ابوہریرہ،ابن عمراورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِيءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن طعنہ دینے والا،لعنت کرنے والا،بے حیا اور بدزبان نہیں ہوتا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث عبداللہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا لَعَنَ الرِّيحَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَا تَلْعَنْ الرِّيحَ فَإِنَّہَا مَأْمُورَةٌ وَإِنَّہُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَہُ بِأَہْلٍ رَجَعَتْ اللَّعْنَةُ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَہُ غَيْرَ بِشْرِ بْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک آدمی نے ہواپرلعنت بھیجی تو آپ نے فرمایا: ہواپر لعنت نہ بھیجواس لیے کہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابندہے،اورجس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بشر بن عمرکے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوعابیان کیاہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْہَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيہِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيہِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيہِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيہِ أُہْبِطَ مِنْہَا وَفِيہِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يُصَلِّي فَيَسْأَلُ اللہَ فِيہَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاہُ إِيَّاہُ قَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ سَلَامٍ فَذَكَرْتُ لَہُ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ بِتِلْكَ السَّاعَةِ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي بِہَا وَلَا تَضْنَنْ بِہَا عَلَيَّ قَالَ ہِيَ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَی أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقُلْتُ كَيْفَ تَكُونُ بَعْدَ الْعَصْرِ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَہُوَ يُصَلِّي وَتِلْكَ السَّاعَةُ لَا يُصَلَّی فِيہَا فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلَامٍ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ فَہُوَ فِي صَلَاةٍ قُلْتُ بَلَی قَالَ فَہُوَ ذَاكَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ أَخْبِرْنِي بِہَا وَلَا تَضْنَنْ بِہَا عَلَيَّ لَا تَبْخَلْ بِہَا عَلَيَّ وَالضَّنُّ الْبُخْلُ وَالظَّنِينُ الْمُتَّہَمُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے بہتردن جس میں سورج نکلا جمعہ کادن ہے،اسی دن آدم پیداکیے گئے،اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے،اسی دن وہ جنت سے (زمین پر اتارے گئے،) اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جسے مسلم بندہ صلاۃ کی حالت میں پائے اوراللہ سے اس میں کچھ طلب کرے تو اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن سلام سے ملا اور ان سے اس حدیث کاذکر کیا توانہوں نے کہا: میں یہ گھڑی اچھی طرح جانتاہوں،میں نے کہا:مجھے بھی اس کے بارے میں بتائیے اوراس سلسلہ میں مجھ سے بخل نہ کیجئے،انہوں نے کہا:یہ عصرکے بعدسے لے کر سورج ڈوبنے کے درمیان ہے،اس پرمیں نے کہا: یہ عصرکے بعدکیسے ہوسکتی ہے جب کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: اسے مسلمان بندہ حالتِ صلاۃ میں پائے اور یہ وقت ایساہے جس میں صلاۃ نہیں پڑھی جاتی؟ توعبد اللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جوشخص صلاۃ کے انتظار میں کسی جگہ بیٹھارہے تووہ بھی صلاۃہی میں ہوتا ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں،ضرورفرمایا ہے توانہوں نے کہا: تویہی مرادہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے،۲-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۳-اورآپ کے اس قول أخبرنی بہا ولا تضنن بہا علی کے معنی ہیں اسے مجھے بتانے میں بخل نہ کیجئے،ضنّ کے معنی بخل کے ہیں اور ظنین کے معنی،متہم کے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَعَبْدُ الرَّحِيمِ وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَيَاءُ مِنْ الْإِيمَانِ وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَالْبَذَاءُ مِنْ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي بَكْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا ایک جزء ہے اورایمان والے جنت میں جائیں گے اوربے حیائی کا تعلق ظلم سے ہے اورظالم جہنم میں جائیں گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابوبکرہ،ابوامامہ اورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَی الْيَمَنِ فَقَالَ اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّہَا لَيْسَ بَيْنَہَا وَبَيْنَ اللہِ حِجَابٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَعْبَدٍ اسْمُہُ نَافِذٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے معاذ بن جبل کو (حاکم بناکر) یمن روانہ کرتے وقت فرمایا: مظلوم کی دعا سے ڈرو،اس لیے کہ اس کے اوراللہ کے درمیان کوئی پردہ آڑے نہیں آتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،ابوہریرہ،عبداللہ بن عمراورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّہِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَكُمْ أَخْلَاقًا وَإِنَّ أَبْغَضَكُمْ إِلَيَّ وَأَبْعَدَكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ وَالْمُتَفَيْہِقُونَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ قَدْ عَلِمْنَا الثَّرْثَارُونَ وَالْمُتَشَدِّقُونَ فَمَا الْمُتَفَيْہِقُونَ قَالَ الْمُتَكَبِّرُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ بْنِ سَعِيدٍ وَہَذَا أَصَحُّ وَالثَّرْثَارُ ہُوَ الْكَثِيرُ الْكَلَامِ وَالْمُتَشَدِّقُ الَّذِي يَتَطَاوَلُ عَلَی النَّاسِ فِي الْكَلَامِ وَيَبْذُو عَلَيْہِمْ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے نزدیک تم میں سے (دنیامیں) سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے ہیں،اورمیرے نزدیک تم میں (دنیامیں) سب سے زیادہ قابل نفرت اورقیامت کے دن مجھ سے دوربیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی،بلا احتیاط بولنے والے،زبان درازاورتکبرکرنے والےمُتَفَیْہِقُونَ ہیں،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نیثرثارون (باتونی) اور متشدقون (بلااحتیاط بولنے والے) کو تو جان لیا لیکن متفیہقون کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: تکبرکرنے والے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۳-بعض لوگوں نے یہ حدیث عن المبارک بن فضالۃ،عن محمد بن المنکدر،عن جابر،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے اور اس میں عن عبدربہ بن سعید کے واسطہ کا ذکرنہیں کیا،اور یہ زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۴-ثرثار باتونی کوکہتے ہیں: اورمتشدق اس آدمی کو کہتے ہیں: جو لوگوں کے ساتھ گفتگومیں بڑائی جتاتے اورفحش کلامی کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْحَارِثِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا: حقیقی بھائی وارث ہوں گے نہ کہ علاتی بھائی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ہم اس حدیث کو صرف ابواسحاق کی روایت سے جانتے ہیں،ابواسحاق سبیعی روایت کرتے ہیں حارث سے اور حارث علی رضی اللہ عنہ سے،۲-بعض اہل علم نے حارث کے بارے میں کلام کیا ہے،۳-عام اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا الزُّہْرِيُّ قَالَ مَرَّةً قَالَ قَبِيصَةُ و قَالَ مَرَّةً رَجُلٌ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ جَاءَتْ الْجَدَّةُ أُمُّ الْأُمِّ وَأُمُّ الْأَبِ إِلَی أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ إِنَّ ابْنَ ابْنِي أَوْ ابْنَ بِنْتِي مَاتَ وَقَدْ أُخْبِرْتُ أَنَّ لِي فِي كِتَابِ اللہِ حَقًّا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا أَجِدُ لَكِ فِي الْكِتَابِ مِنْ حَقٍّ وَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَضَی لَكِ بِشَيْءٍ وَسَأَسْأَلُ النَّاسَ قَالَ فَسَأَلَ النَّاسَ فَشَہِدَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَعْطَاہَا السُّدُسَ قَالَ وَمَنْ سَمِعَ ذَلِكَ مَعَكَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ فَأَعْطَاہَا السُّدُسَ ثُمَّ جَاءَتْ الْجَدَّةُ الْأُخْرَی الَّتِي تُخَالِفُہَا إِلَی عُمَرَ قَالَ سُفْيَانُ وَزَادَنِي فِيہِ مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ وَلَمْ أَحْفَظْہُ عَنْ الزُّہْرِيِّ وَلَكِنْ حَفِظْتُہُ مِنْ مَعْمَرٍ أَنَّ عُمَرَ قَالَ إِنْ اجْتَمَعْتُمَا فَہُوَ لَكُمَا وَأَيَّتُكُمَا انْفَرَدَتْ بِہِ فَہُوَ لَہَا

قبیصہ بن ذؤیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دادی یانانی نے آکر کہا: میرا پوتا یانواسہ مرگیا ہے اور مجھے بتایاگیا ہے کہ اللہ کی کتاب (قرآن)میں میرے لیے متعین حصہ ہے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ کی کتاب (قرآن) میں تمہارے لیے کوئی حصہ نہیں پاتا ہوں اور نہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے تمہارے لیے کسی حصہ کافیصلہ کیا،البتہ میں لوگوں سے اس بارے میں پوچھوں گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھاتو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے چھٹا حصہ دیا،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے ساتھ اس کو کس نے سناہے؟ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: محمد بن مسلمہ نے۔چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے چھٹا حصہ دے دیا،پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس کے علاوہ دوسری دادی آئی(اگر پہلے والی دادی تھی تو عمر کے پاس نانی آئی اور اگر پہلی والی نانی تھی تو عمر کے پاس دادی آئی) سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: زہری کے واسطہ سے روایت کرتے ہوئے معمر نے اس حدیث میں مجھ سے کچھ زیادہ باتیں بیان کی ہیں،لیکن زہری کے واسطہ سے مروی روایت مجھے یاد نہیں،البتہ مجھے معمر کی روایت یادہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم دونوں (دادی اور نانی) وارث ہوتو چھٹے حصے میں دونوں شریک ہوں گی،اور جو منفرد ہو تو چھٹا حصہ اسے ملے گا۔

حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ،عَنْ ابْنِ شِہَابٍ،عَنْ عُثْمَانَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خَرَشَةَ،عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ: جَاءَتِ الجَدَّةُ إِلَی أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُہُ مِيرَاثَہَا،قَالَ: فَقَالَ لَہَا: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللہِ شَيْءٌ،وَمَا لَكِ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ شَيْءٌ،فَارْجِعِي حَتَّی أَسْأَلَ النَّاسَ،فَسَأَلَ النَّاسَ فَقَالَ المُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: ((حَضَرْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَعْطَاہَا السُّدُسَ)) فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: ہَلْ مَعَكَ غَيْرُكَ؟ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ الأَنْصَارِيُّ،فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ المُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ،فَأَنْفَذَہُ لَہَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثُمَّ جَاءَتِ الجَدَّةُ الأُخْرَی إِلَی عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ تَسْأَلُہُ مِيرَاثَہَا،فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللہِ شَيْءٌ،وَلَكِنْ ہُوَ ذَاكَ السُّدُسُ،فَإِنْ اجْتَمَعْتُمَا فِيہِ فَہُوَ بَيْنَكُمَا،وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِہِ فَہُوَ لَہَا: وَفِي البَابِ عَنْ بُرَيْدَةَ،وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ

قبیصہ بن ذؤیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دادی یانانی میراث سے اپنا حصہ پوچھنے آئی،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تمہارے لیے اللہ کی کتاب(قرآن) میں کچھ نہیں ہے اور تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی کچھ نہیں ہے،تم لوٹ جاؤ یہاں تک کہ میں لوگوں سے اس بارے میں پوچھ لوں،انہوں نے لوگوں سے اس بارے میں پوچھا تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا،آپ نے دادی یانانی کو چھٹا حصہ دیا،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے ساتھ کوئی اور بھی تھا؟ محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اسی طرح کی بات کہی جیسی مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہی تھی۔چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے حکم جاری کردیا،پھر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دوسری دادی (اگر پہلی دادی تھی تو دوسری نانی تھی اور اگر پہلی نانی تھی تودوسری دادی تھی) میراث سے اپنا حصہ پوچھنے آئی۔انہوں نے کہا: تمہارے لیے اللہ کی کتاب(قرآن) میں کچھ نہیں ہے البتہ وہی چھٹا حصہ ہے،اگر تم دونوں (دادی اور نانی) اجتماعی طورپر وارث ہوتو چھٹا حصہ تم دونوں کے درمیان تقسیم کیاجائے گا،اور تم میں سے جو منفرد اور اکیلی ہوتو وہ اسی کو ملے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوریہ (مالک کی) روایت سفیان بن عیینہ کی روایت کی بنسبت زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں بریدہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَی أَبِي عُبَيْدَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اللہُ وَرَسُولُہُ مَوْلَی مَنْ لَا مَوْلَی لَہُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:اللہ اور اس کے رسول ولی(سرپرست) ہیں جس کا کوئی ولی(سرپرست) نہیں ہے اور ماموں اس آدمی کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام المومنین عائشہ اور مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَاوُوسٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَہُ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ أَرْسَلَہُ بَعْضُہُمْ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ وَاخْتَلَفَ فِيہِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ فَوَرَّثَ بَعْضُہُمْ الْخَالَ وَالْخَالَةَ وَالْعَمَّةَ وَإِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ ذَہَبَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي تَوْرِيثِ ذَوِي الْأَرْحَامِ وَأَمَّا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَلَمْ يُوَرِّثْہُمْ وَجَعَلَ الْمِيرَاثَ فِي بَيْتِ الْمَالِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ماموں اس آدمی کا وارث ہے جس کاکوئی وارث نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض لوگوں نے اسے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ کا ذکرنہیں کیا،۳-اس مسئلہ میں صحابہ کرام کا اختلاف ہے،بعض لوگوں نے ماموں،خالہ اور پھوپھی کو وارث ٹھہرایا ہے۔ذوی الارحام (قرابت داروں) کو وارث بنانے کے بارے میں اکثر اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،۴-لیکن زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں وارث نہیں ٹھہرایا ہے یہ میراث کو بیت المال میں رکھنے کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاہِلِيِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ فِي خُطْبَتِہِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ إِنَّ اللہَ قَدْ أَعْطَی لِكُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّہُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ وَمَنْ ادَّعَی إِلَی غَيْرِ أَبِيہِ أَوْ انْتَمَی إِلَی غَيْرِ مَوَالِيہِ فَعَلَيْہِ لَعْنَةُ اللہِ التَّابِعَةُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا تُنْفِقُ امْرَأَةٌ مِنْ بَيْتِ زَوْجِہَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِہَا قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ وَلَا الطَّعَامَ قَالَ ذَلِكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا ثُمَّ قَالَ الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ وَأَنَسٍ وَہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَرِوَايَةُ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ وَأَہْلِ الْحِجَازِ لَيْسَ بِذَلِكَ فِيمَا تَفَرَّدَ بِہِ لِأَنَّہُ رَوَی عَنْہُمْ مَنَاكِيرَ وَرِوَايَتُہُ عَنْ أَہْلِ الشَّامِ أَصَحُّ ہَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَال سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ أَصْلَحُ حَدِيثًا مِنْ بَقِيَّةَ وَلِبَقِيَّةَ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنْ الثِّقَاتِ و سَمِعْت عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ زَكَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ يَقُولُ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ الْفَزَارِيُّ خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا عَنْ غَيْرِ الثِّقَاتِ

ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے ہرحق والے کو اس کا حق دے دیاہے،لہذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں،لڑکا (ولدزنا) بستر والے کی طرف منسوب ہوگا(نہ کہ زانی کی طرف)،اور زانی رجم کامستحق ہے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسری طرف نسبت کی یا اپنے موالی کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیااس پرقیامت کے دن تک جاری رہنے والی لعنت ہو،کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے،عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا:یہ ہمارے مالوں میں سب سے بہتر ہے۔(یعنی اس کی زیادہ حفاظت ہونی چاہیے) پھر آپ نے فرمایا: عاریۃ (منگنی) لی ہوئی چیز واپس لوٹائی جائے گی،منیحہ ۱؎ واپس کی جائے گی،قرض اداکیاجائے گا،اور ضامن ذمہ دار ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوامامہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے،۳-اسماعیل بن عیاش کی وہ روایت جسے وہ اہل عراق اور اہل شام سے روایت کرنے میں منفرد ہیں،قوی نہیں ہے۔اس لیے کہ انہوں نے ان سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں،اہل شام سے ان کی روایت زیادہ صحیح ہے۔اسی طرح محمدبن اسماعیل بخاری نے کہا:۴-احمد بن حنبل کہتے ہیں: اسماعیل بن عیاش حدیث روایت کرنے کے اعتبار سے بقیہ سے زیادہ صحیح ہیں،بقیہ نے ثقہ راویوں سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی ہیں،۵-ابواسحاق فزاری کہتے ہیں: ثقہ راویوں کے سے بقیہ جو حدیثیں بیان کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی حدیثیں مت لو،خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے،۶-اس باب میں عمرو بن خارجہ اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ عَلَی نَاقَتِہِ وَأَنَا تَحْتَ جِرَانِہَا وَہِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِہَا وَإِنَّ لُعَابَہَا يَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَسَمِعْتُہُ يَقُولُ إِنَّ اللہَ أَعْطَی كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّہُ وَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ وَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاہِرِ الْحَجَرُ وَمَنْ ادَّعَی إِلَی غَيْرِ أَبِيہِ أَوْ انْتَمَی إِلَی غَيْرِ مَوَالِيہِ رَغْبَةً عَنْہُمْ فَعَلَيْہِ لَعْنَةُ اللہِ لَا يَقْبَلُ اللہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا قَالَ و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لَا أُبَالِي بِحَدِيثِ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ فَوَثَّقَہُ وَقَالَ إِنَّمَا يَتَكَلَّمُ فِيہِ ابْنُ عَوْنٍ ثُمَّ رَوَی ابْنُ عَوْنٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمر وبن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرمﷺ اپنی اونٹنی پرخطبہ دے رہے تھے،اس وقت میں اس کی گردن کے نیچے تھا،وہ جگالی کررہی تھی اور اس کا لعاب میرے کندھوں کے درمیان بہہ رہاتھا،آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہرحق والے کا حق دے دیاہے،کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں،لڑکا (ولد زنا) بستر والے کی طرف منسوب ہوگا،اور زانی رجم کا مستحق ہے،جوشخص اپنے باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرے یا(غلام) اپنے مالکوں کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے انہیں ناپسند کرتے ہوئے اس پر اللہ کی لعنت ہے،اللہ ایسے شخص کا نہ نفلی عبادت قبول کرے گا نہ فریضہ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-احمدبن حنبل کہتے ہیں: میں شہر بن حوشب کی حدیث کی پرواہ نہیں کرتا ہوں،۳-امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل سے شہربن حوشب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے توثیق کی اور کہا: ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیاہے،پھر ابن عون نے خود ہلال بن ابوزینب کے واسطہ سے شہر بن حوشب سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ الطَّائِيِّ قَالَ أَوْصَی إِلَيَّ أَخِي بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِہِ فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَقُلْتُ إِنَّ أَخِي أَوْصَی إِلَيَّ بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِہِ فَأَيْنَ تَرَی لِي وَضْعَہُ فِي الْفُقَرَاءِ أَوْ الْمَسَاكِينِ أَوْ الْمُجَاہِدِينَ فِي سَبِيلِ اللہِ فَقَالَ أَمَّا أَنَا فَلَوْ كُنْتُ لَمْ أَعْدِلْ بِالْمُجَاہِدِينَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَثَلُ الَّذِي يَعْتِقُ عِنْدَ الْمَوْتِ كَمَثَلِ الَّذِي يُہْدِي إِذَا شَبِعَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں:میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی،میں نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا: میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی ہے،آپ کی کیارائے ہے؟ میں اسے کہاں خرچ کروں،فقراء میں،مسکینوں میں یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں؟ انہوں نے کہا: میری بات یہ ہے کہ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو مجاہدین کے برابر کسی کونہ سمجھتا،میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے:جوشخص مرتے وقت غلام آزاد کرتاہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو آسودہ ہونے کے بعد ہدیہ کرتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ تَسْتَعِينُ عَائِشَةَ فِي كِتَابَتِہَا وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِہَا شَيْئًا فَقَالَتْ لَہَا عَائِشَةُ ارْجِعِي إِلَی أَہْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ لِي وَلَاؤُكِ فَعَلْتُ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَہْلِہَا فَأَبَوْا وَقَالُوا إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ وَيَكُونَ لَنَا وَلَاؤُكِ فَلْتَفْعَلْ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللہِ مَنْ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللہِ فَلَيْسَ لَہُ وَإِنْ اشْتَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَائِشَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: بریرہ اپنے زرکتابت کے بارے میں ان سے تعاون مانگنے آئیں اور زرکتابت میں سے کچھ نہیں اداکیاتھا۔ام المومنین عائشہ نے ان سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری زرکتابت اداکردوں اورتمہاری ولاء (میراث)کا حق مجھے حاصل ہو،تو میں اداکردوں گی۔بریرہ نے اپنے گھروالوں سے اس کا ذکر کیا،تو انہوں نے انکارکردیا اورکہا: اگر وہ چاہتی ہوں کہ تمہیں آزاد کرکے ثواب حاصل کریں اور تمہارا حق ولاء (میراث)ہمارے لیے ہو تو وہ تمہیں آزاد کردیں،ام المومنین عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیاتو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:اسے خریدو اور آزاد کردو اس لیے کہ حق ولاء(میراث) اسی کو حاصل ہے جو آزاد کرے پھر رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: لوگوں کوکیا ہوگیا ہے،وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں موجود نہیں؟ جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب(قرآن) میں موجود نہیں تو وہ اس کا مستحق نہیں ہوگا،اگرچہ وہ سوبار شرط لگائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔۲-عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آزاد کرنے والے ہی کو حق ولاء(میراث) حاصل ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ دِينَارٍ سَمِعَ عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ وَعَنْ ہِبَتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ نَہَی عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ وَعَنْ ہِبَتِہِ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ وَيُرْوَی عَنْ شُعْبَةَ قَالَ لَوَدِدْتُ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ دِينَارٍ حِينَ حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِيثِ أَذِنَ لِي حَتَّی كُنْتُ أَقُومُ إِلَيْہِ فَأُقَبِّلُ رَأْسَہُ وَرَوَی يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ وَہْمٌ وَہِمَ فِيہِ يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ وَالصَّحِيحُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَكَذَا رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَتَفَرَّدَ عَبْدُ اللہِ بْنُ دِينَارٍ بِہَذَا الْحَدِيثِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے ولاء کے بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم اسے صرف عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے ابن عمر کی روایت سے جانتے ہیں،اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،آپ نے ولاء بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔شعبہ،سفیان ثوری اور مالک بن انس نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن دینار سے روایت ہے۔شعبہ سے مروی ہے،انہوں نے کہا: میری خواہش تھی کہ عبداللہ بن دینار اس حدیث کو بیان کرتے وقت مجھے اجازت دے دیتے اور میں کھڑا ہوکر ان کا سرچوم لیتا،۳-یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کی روایت کرتے وقت سندیوں بیان کی ہے عن عبید اللہ بن عمر،عن عمر،عن نافع،عن ابن عمر،عن النبی ﷺ لیکن اس سند میں وہم ہے اور یہ وہم یحییٰ بن سلیم کی جانب سے ہواہے،صحیح سندیوں ہے عن عبیداللہ بن عمر،عن عبداللہ بن دینار،عن ابن عمر،عن النبی ﷺ ۱؎ عبیدا للہ بن عمر سے اسی طرح کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: عبیداللہ بن دینار اس حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رَبِيعَةَ الْبُنَانِيُّ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَی الْمِلَّةِ فَأَبَوَاہُ يُہَوِّدَانِہِ أَوْ يُنَصِّرَانِہِ أَوْ يُشَرِّكَانِہِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ فَمَنْ ہَلَكَ قَبْلَ ذَلِكَ قَالَ اللہُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ بِہِ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَالْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَقَالَ يُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَغَيْرُہُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ وَفِي الْبَاب عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہربچہ فطرت (اسلام) پرپیداہوتاہے ۱؎،پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی،نصرانی،یا مشرک بناتے ہیں عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! جو اس سے پہلے ہی مرجائے؟۲؎ آپ نے فرمایا: اللہ خوب جانتاہے کہ وہ کیا عمل کرتے ۔ ۲۱۳۸/م-اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،(لیکن) اس میں یولد علی الملۃ کی بجائے الفطرۃ (فطرف اسلام پر پیدا ہوتاہے) کے الفاظ ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے شعبہ اور دوسرے لوگوں نے بھی عن الأعمش عن أبی صالح عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،اس روایت میں بھی یولد علی الفطرۃ کے الفاظ ہیں،۳-اس باب میں اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ المَخْزُومِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ،عَنْ أَبِيہِ،أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللہِ،أَرَأَيْتَ رُقًی نَسْتَرْقِيہَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَی بِہِ وَتُقَاةً نَتَّقِيہَا ہَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللہِ شَيْئًا؟ فَقَالَ: ((ہِيَ مِنْ قَدَرِ اللہِ)): ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ،[ص:454] وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا،عَنْ سُفْيَانَ،عَنِ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَبِي خِزَامَةَ،عَنْ أَبِيہِ،وَہَذَا أَصَحُّ ہَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ،عَنِ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَبِي خُزَامَةَ،عَنْ أَبِيہِ

ابو خزامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دم جن سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں،دوائیں جن سے علاج کرتے ہیں اور بچاؤ کی چیزیں جن سے بچاؤ کرتے ہیں،آپ بتائیے کیا یہ اللہ کی تقدیر میں سے کچھ لوٹا سکتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ سب بھی تو اللہ کی تقدیر سے ہیں‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف زہری کی روایت سے جانتے ہیں،کئی لوگوں نے یہ حدیث ’’عن سفیان عن الزہری عن أبی خزامۃ عن أبیہ‘‘ کی سند سے روایت کی ہے،یہ زیادہ صحیح ہے۔اسی طرح کئی لوگوں نے ’’عن الزہری عن أبی خزامۃ عن أبیہ‘‘ کی سند سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاہُ بِمَا قَضَی اللہُ لَہُ وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْكُہُ اسْتِخَارَةَ اللہِ وَمِنْ شَقَاوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُہُ بِمَا قَضَی اللہُ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ وَيُقَالُ لَہُ أَيْضًا حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ وَہُوَ أَبُو إِبْرَاہِيمَ الْمَدَنِيُّ وَلَيْسَ ہُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے فیصلے پر راضی ہونا ابن آدم کی سعادت (نیک بختی) ہے،اللہ سے خیرطلب نہ کرنا ابن آدم کی شقاوت(بدبختی) ہے اور اللہ کے فیصلے پر ناراض ہونا ابن آدم کی شقاوت (بدبختی) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف محمد بن ابی حمید کی روایت سے جانتے ہیں،انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہاجاتاہے،ان کی کنیت ابوابراہیم ہے،اور مدینہ کے رہنے والے ہیں،یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَی الْقَزَّازُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ أُمِّ مَالِكٍ الْبَہْزِيَّةِ قَالَتْ ذَكَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِتْنَةً فَقَرَّبَہَا قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ خَيْرُ النَّاسِ فِيہَا قَالَ رَجُلٌ فِي مَاشِيَتِہِ يُؤَدِّي حَقَّہَا وَيَعْبُدُ رَبَّہُ وَرَجُلٌ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِہِ يُخِيفُ الْعَدُوَّ وَيُخِيفُونَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَاہُ اللَّيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ أُمِّ مَالِكٍ الْبَہْزِيَّةِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ام مالک بہزیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فتنے کا ذکرکیا اور فرمایا: وہ بہت جلد ظاہر ہوگا،میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس وقت سب سے بہترکون شخص ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ایک وہ آدمی جو اپنے جانوروں کے درمیان ہو اور ان کاحق اداکر نے کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتاہو،اوردوسرا وہ آدمی جو اپنے گھوڑے کا سرپکڑے ہو،وہ دشمن کو ڈراتاہواوردشمن اسے ڈراتے ہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲-لیث بن ابی سلیم نے بھی یہ حدیث عن طاؤوس عن أم مالک البہزیۃ عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں ام مبشر،ابوسعیدخدری اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَمَّا خَرَجَ إِلَی حُنَيْنٍ مَرَّ بِشَجَرَةٍ لِلْمُشْرِكِينَ يُقَالُ لَہَا ذَاتُ أَنْوَاطٍ يُعَلِّقُونَ عَلَيْہَا أَسْلِحَتَہُمْ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ كَمَا لَہُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ سُبْحَانَ اللہِ ہَذَا كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَی اجْعَلْ لَنَا إِلَہًا كَمَا لَہُمْ آلِہَةٌ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَتَرْكَبُنَّ سُنَّةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُہُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوواقدلیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ حنین کے لیے نکلے توآپ کاگزرمشرکین کے ایک درخت کے پاس سے ہوا جسے ذات انواط کہاجاتاتھا،اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیارلٹکاتے تھے ۱؎،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقررفرمادیجئے جیساکہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:سبحان اللہ! یہ توو ہی بات ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنادیجئے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کروگے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوواقدلیثی کانام حارث بن عوف ہے،۳-اس باب میں ابوسعیدخدری اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الْمُعَلَّی بْنِ زِيَادٍ رَدَّہُ إِلَی مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ رَدَّہُ إِلَی مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ رَدَّہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْعِبَادَةُ فِي الْہَرْجِ كَالْہِجْرَةِ إِلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الْمُعَلَّی

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب میری امت میں تلوار چل پڑے گی تووہ قیامت تک نہ رکے گی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ قَالَ دَخَلْنَا عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فَشَكَوْنَا إِلَيْہِ مَا نَلْقَی مِنْ الْحَجَّاجِ فَقَالَ مَا مِنْ عَامٍ إِلَّا الَّذِي بَعْدَہُ شَرٌّ مِنْہُ حَتَّی تَلْقَوْا رَبَّكُمْ سَمِعْتُ ہَذَا مِنْ نَبِيِّكُمْ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زبیربن عدی کہتے ہیں کہ ہم لوگ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اوران سے حجاج کے مظالم کی شکایت کی،تو انہوں نے کہا: آنے والا ہرسال (گذرے ہوئے سال سے) براہوگا،یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جاملو،اسے میں نے تمہارے نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی لَا يُقَالَ فِي الْأَرْضِ اللہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک روئے زمین پر اللہ اللہ کہاجائے گا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔اس سند سے انس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً اسی جیسی حدیث مروی ہے۔یہ پہلی حدیث (روایت) سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَعَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُہُمْ الشَّعَرُ وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّی تُقَاتِلُوا قَوْمًا كَأَنَّ وُجُوہَہُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَمْرِو بْنِ تَغْلِبَ وَمُعَاوِيَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایسی قوم سے لڑوجس کے جوتے بال کے ہوں گے،اورقیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم ایسی قوم سے لڑوجس کے چہرے تہہ بہ تہہ جمی ہوئی ڈھالوں کے مانندہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکرصدیق،بریدہ،ابوسعید،عمروبن تغلب اورمعاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضُ الْمَالُ حَتَّی لَا يَقْبَلَہُ أَحَدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب تمہارے درمیان عیسی بن مریم حاکم اورمنصف بن کراتریں گے،وہ صلیب کوتوڑیں گے،سورکو قتل کریں گے،جزیہ ختم کردیں گے،اورمال کی زیادتی اس طرح ہوجائے گی کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَا حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ سُبَيْعٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ الدَّجَّالُ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَہَا خُرَاسَانُ يَتْبَعُہُ أَقْوَامٌ كَأَنَّ وُجُوہَہُمْ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ شَوْذَبٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي التَّيَّاحِ

ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے بیان فرمایا: دجال مشرق(پورب) میں ایک جگہ سے نکلے گا جسے خراسان کہاجاتا ہے،اس کے پیچھے ایسے لوگ ہوں گے جن کے چہرے تہ بہ تہ ڈھال کی طرح ہوں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-عبداللہ بن شوذب اورکئی لوگوں نے اسے ابوالتیاح سے روایت کیا ہے،ہم اسے صرف ابوتیاح کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں ابوہریرہ اورعائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَأْتِي الدَّجَّالُ الْمَدِينَةَ فَيَجِدُ الْمَلَائِكَةَ يَحْرُسُونَہَا فَلَا يَدْخُلُہَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ إِنْ شَاءَ اللہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ وَمِحْجَنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دجال مدینہ(کے قریب) آئے گا توفرشتوں کو اس کی نگرانی کرتے ہوے پائے گا،اللہ نے چاہا تو اس میں دجال اورطاعون نہیں داخل ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،فاطمہ بنت قیس،اسامہ بن زید،سمرہ بن جندب اورمحجن رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْكُفْرُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَالسَّكِينَةُ لِأَہْلِ الْغَنَمِ وَالْفَخْرُ وَالرِّيَاءُ فِي الْفَدَّادِينَ أَہْلِ الْخَيْلِ وَأَہْلِ الْوَبَرِ يَأْتِي الْمَسِيحُ إِذَا جَاءَ دُبُرَ أُحُدٍ صَرَفَتْ الْمَلَائِكَةُ وَجْہَہُ قِبَلَ الشَّامِ وَہُنَالِكَ يَہْلَكُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایمان یمن کی طرف سے نکلا ہے اورکفر مشرق(پورب) کی طرف سے،سکون و اطمینان والی زندگی بکری والوں کی ہے،اورفخروریاکاری فدادین یعنی گھوڑے اوراونٹ والوں میں ہے،جب مسیح دجال احدکے پیچھے آئے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیردیں گے اورشام ہی میں وہ ہلاک ہوجائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ ضَبَّةَ بْنِ مِحْصَنٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّہُ سَيَكُونُ عَلَيْكُمْ أَئِمَّةٌ تَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ فَمَنْ أَنْكَرَ فَقَدْ بَرِيءَ وَمَنْ كَرِہَ فَقَدْ سَلِمَ وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ أَفَلَا نُقَاتِلُہُمْ قَالَ لَا مَا صَلُّوا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: عنقریب تمہارے اوپر ایسے حکمراں ہوں گے جن کے بعض کاموں کو تم اچھا جانوگے اوربعض کاموں کوبرا جانوگے،پس جوشخص ان کے برے اعمال پر نکیرکرے وہ مداہنت اور نفاق سے بری رہا اور جس نے دل سے براجانا تو وہ محفوظ رہا،لیکن جو ان سے راضی ہو اوران کی اتباع کرے (وہ ہلاک ہوگیا)،عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں،جب تک وہ صلاۃپڑھتے رہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشْقَرُ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَا حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ شُورَی بَيْنَكُمْ فَظَہْرُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِہَا وَإِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ شِرَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ بُخَلَاءَكُمْ وَأُمُورُكُمْ إِلَی نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الْأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَہْرِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ وَصَالِحٌ الْمُرِّيُّ فِي حَدِيثِہِ غَرَائِبُ يَنْفَرِدُ بِہَا لَا يُتَابَعُ عَلَيْہَا وَہُوَ رَجُلٌ صَالِحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تمہارے حکمراں،تمہارے اچھے لوگ ہوں،اورتمہارے مال دار لوگ،تمہارے سخی لوگ ہوں اورتمہارے کام باہمی مشورے سے ہوں تو زمین کی پیٹھ تمہارے لیے اس کے پیٹ سے بہترہے،اورجب تمہارے حکمراں تمہارے برے لوگ ہوں،اورتمہارے مال دارتمہارے بخیل لوگ ہوں اور تمہارے کام عورتوں کے ہاتھ میں چلے جائیں تو زمین کا پیٹ تمہارے لیے اس کی پیٹھ سے بہترہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف صالح المری کی روایت سے جانتے ہیں،اورصالح المری کی حدیث میں ایسے غرائب ہیں جن کی روایت کر نے میں وہ منفرد ہیں،کو ئی ان کی متابعت نہیں کرتا،حالاں کہ وہ بذات خودنیک آدمی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ يَعْنِي ابْنَ زيَادٍ حَدَّثَنَا الْمُخْتَارُ بْنُ فُلْفُلٍ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ لَكِنْ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ رُؤْيَا الْمُسْلِمِ وَہِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأُمِّ كُرْزٍ وَأَبِي أَسِيدٍ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رسالت اورنبوت کاسلسلہ ختم ہوچکا ہے،لہذا میرے بعدکوئی رسول اورکوئی نبی نہ ہوگا ،انس کہتے ہیں: یہ بات لوگوں پر گراں گزری تو آپ نے فرمایا: البتہ بشارتیں باقی ہیں،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بشارتیں کیاہیں؟ آپ نے فرمایا: مسلمان کاخواب اوریہ نبوت کا ایک حصہ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے یعنی مختاربن فلفل کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،حذیفہ بن اسید،ابن عباس،ام کُرز اورابواسید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ المُبَارَكِ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ المَسْعُودِيِّ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،عَنْ عِيسَی بْنِ طَلْحَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَی مِنْ خَشْيَةِ اللہِ حَتَّی يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ،وَلَا يَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ)) وَفِي البَاب عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ،وَابْنِ عَبَّاسٍ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ہُوَ: مَوْلَی آلِ طَلْحَةَ وَہُوَ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ رَوَی عَنْہُ شُعْبَةُ،وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے خوف اورڈر سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جاسکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے اور اللہ کی راہ کا گردو غبار اورجہنم کا دھواں دونوں اکٹھا نہیں ہوسکتے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوریحانہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-محمد بن عبدالرحمٰن آل طلحہ کے آزادکردہ غلام ہیں مدنی ہیں،ثقہ ہیں،ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَال سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللہِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللہُ لَہُ بِہَا رِضْوَانَہُ إِلَی يَوْمِ يَلْقَاہُ وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللہِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللہُ عَلَيْہِ بِہَا سَخَطَہُ إِلَی يَوْمِ يَلْقَاہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَ ہَذَا قَالُوا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيہِ عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ جَدِّہِ

صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کوئی اللہ کی رضامندی کی ایسی بات کہتاہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے اس کا مرتبہ کہاں تک پہنچے گا حالاں کہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضامندی لکھ دیتاہے جس دن وہ اس سے ملے گا،اور تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہیں ہوتاکہ اس کی وجہ سے ا س کا وبال کہاں تک پہنچے گا جب کہ اللہ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے ہے جس دن وہ اس سے ملے گا اپنی ناراضگی لکھ دیتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوراسے اسی طرح سے کئی لوگوں نے محمد بن عمرو سے اسی کے مثل روایت کیا ہے یعنی عن محمد بن عمرو،عن أبیہ،عن جدہ عن بلال بن الحارث کی سندسے،۳-اس حدیث کو مالک نے عن محمد بن عمرو،عن أبیہ،عن بلال بن الحارث کی سند سے روایت کیاہے لیکن اس میں عن أبیہ کا ذکر نہیں ہے،۴-اس باب میں ام حبیبہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَی حُبِّ اثْنَتَيْنِ طُولِ الْحَيَاةِ وَكَثْرَةِ الْمَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: دوچیزوں کی محبت میں بوڑھے کادل جوان رہتا ہے: لمبی زندگی کی محبت،دوسرے مال کی محبت ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يَہْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْہُ اثْنَتَانِ الْحِرْصُ عَلَی الْعُمُرِ وَالْحِرْصُ عَلَی الْمَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی بوڑھا ہوجاتاہے البتہ اس کے اندر دوچیزیں جوان رہتی ہیں ایک (لمبی)زندگی کی خواہش،دوسرے مال کی حرص۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ انْتَہَی إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ يَقُولُ أَلْہَاكُمْ التَّكَاثُرُ قَالَ يَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِي مَالِي وَہَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلَّا مَا تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپ أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ...کی تلاوت کر رہے تھے توآپ نے فرمایا:ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال،میرامال،حالاں کہ تمہارا مال صرف وہ ہے جوتم نے صدقہ کردیا اور اسے آگے چلادیا ۱؎،اور کھایا اور اسے ختم کردیا یا پہنا اور اسے پرانا کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيْسَ الْغِنَی عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُہُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مالداری ساز وسامان کی کثرت کانام نہیں ہے،بلکہ اصل مالداری نفس کی مالداری ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ المُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ الحِمْصِيُّ،وَحَبِيبُ بْنُ صَالِحٍ،عَنْ يَحْيَی بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ،عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ،قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: ((مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ. بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَہُ،فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہِ)) حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ،نَحْوَہُ،وَقَالَ المِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ: ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برانہیں بھرا،آدمی کے لیے چندلقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کوسیدھارکھیں اوراگرزیادہ ہی کھاناضروری ہوتو پیٹ کاایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے،ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کو ہم سے حسن بن عرفہ نے بیان کیا وہ کہتے ہیں:ہم سے اسماعیل بن عیاش نے اسی جیسی حدیث بیان کی،اورسندیوں بیان کی عن المقدام بن معدیکرب عن النبی ﷺ اس میں انہوں نےسمعت النبی ﷺ کاذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ،عَنْ حُمَيْدٍ،عَنْ أَنَسٍ،أَنَّہُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللہِ مَتَی قِيَامُ السَّاعَةِ؟ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَی الصَّلَاةِ،فَلَمَّا قَضَی صَلَاتَہُ قَالَ: ((أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ قِيَامِ السَّاعَةِ))؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللہِ. قَالَ: ((مَا أَعْدَدْتَ لَہَا))؟ قَالَ: يَا رَسُولَ اللہِ مَا أَعْدَدْتُ لَہَا كَبِيرَ صَلَاةٍ وَلَا صَوْمٍ إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللہَ وَرَسُولَہُ. فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ)) فَمَا رَأَيْتُ فَرِحَ المُسْلِمُونَ بَعْدَ الإِسْلَامِ فَرَحَہُمْ بِہَذَا : ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک آدمی نے رسول اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: اللہ کے رسول!قیامت کب آئے گی؟ نبی اکرمﷺ صلاۃ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے،پھرجب صلاۃ سے فارغ ہوئے توفرمایا: قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس آدمی نے کہا: میں موجودہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: قیامت کے لیے تم نے کیا تیاری کررکھی ہے،اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے کوئی زیادہ صوم وصلاۃ اکٹھانہیں کی ہے (یعنی نوافل وغیرہ) مگر یہ بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہوں،تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: آدمی اس کے ساتھ ہوگاجس سے محبت کرتاہے،اور تم بھی اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو۔انس کابیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں نے مسلمانوں کو اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا آپ کے اس قول سے وہ سب خوش نظر آرہے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَلَہُ مَا اكْتَسَبَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَصَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتاہے اور اسے وہی بدلہ ملے گا جو کچھ اس نے کمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن بصری کی روایت سے حسن غریب ہے،اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اورانس بن مالک نبی اکرمﷺسے روایت کرتے ہیں،۲-یہ حدیث نبی اکرمﷺسے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے،۳-اس باب میں علی،عبداللہ بن مسعود،صفوان بن عسال،ابوہریرہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ جَہْوَرِيُّ الصَّوْتِ قَالَ يَا مُحَمَّدُ الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِہِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَحْمُودٍ

صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک دیہاتی جس کی آواز بہت بھاری تھی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے محمد! ایک آدمی قوم سے محبت کرتاہے البتہ وہ ان سے عمل میں پیچھے ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے محمود بن غیلان کی حدیث جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُتَحَابُّونَ فِي جَلَالِي لَہُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُہُمْ النَّبِيُّونَ وَالشُّہَدَاءُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ ثَوْبَ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میری عظمت وبزرگی کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن نور(روشنی) کے ایسے منبر ہوں گے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوالدرداء،ابن مسعود،عبادہ بن صامت،ابوہریرہ اور ابومالک اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّہُمْ اللہُ فِي ظِلِّہِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ إِمَامٌ عَادِلٌ وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَةِ اللہِ وَرَجُلٌ كَانَ قَلْبُہُ مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتَّی يَعُودَ إِلَيْہِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللہِ فَاجْتَمَعَا عَلَی ذَلِكَ وَتَفَرَّقَا وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللہَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَةٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاہَا حَتَّی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ مِثْلَ ہَذَا وَشَكَّ فِيہِ وَقَالَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَوْ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ رَوَاہُ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَلَمْ يَشُكَّ فِيہِ يَقُولُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْعَنْبَرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ حَدَّثَنِي خُبَيْبٌ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ بِمَعْنَاہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ كَانَ قَلْبُہُ مُعَلَّقًا بِالْمَسَاجِدِ وَقَالَ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ

ابوہریرہ یا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اس کے (عرش کے) سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگااپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا: ان میں سے ایک انصاف کرنے والاحکمراں ہے،دوسرا وہ نوجوان ہے جو اللہ کی عبادت میں پلابڑھا ۱؎،تیسرا وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا ہواہو ۲؎ چوتھا وہ دو آدمی جنہوں نے صرف اللہ کی رضاکے لیے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی،اسی کے واسطے جمع ہوتے ہیں اور اسی کے واسطے الگ ہوتے ہیں ۳؎،پانچواں وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور عذاب الٰہی کے خوف میں آنسو بہائے،چھٹا وہ آدمی جسے خوبصورت عورت گناہ کی دعوت دے،لیکن وہ کہے کہ مجھے اللہ کا خوف ہے،ساتواں وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیاتواسے چھپایایہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث امام مالک بن انس سے اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی اسی کے مثل مروی ہے،ان میں بھی راوی نے شک کا اظہار کیا ہے اور کہاہے عن أبی ہریرۃ أو عن أبی سعید اورعبید اللہ بن عمر عمری نے اس حدیث کو خبیب بن عبدالرحمٰن سے بغیر شک کے روایت کیا ہے،اس میں انہوں نے صرف عن أبی ہریرۃ کہا ہے۔اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے،اس میں انہوں نے مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ کی بجائے مُعَلَّقًا بِالْمَسَاجِدِاورذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ کی بجائےذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍکہا۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَ عَرْضَاتٍ فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ وَأَمَّا الْعَرْضَةُ الثَّالِثَةُ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الْأَيْدِي فَآخِذٌ بِيَمِينِہِ وَآخِذٌ بِشِمَالِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَا يَصِحُّ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ عَلِيٍّ الرِّفَاعِيِّ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَا يَصِحُّ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي مُوسَی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی،دوبار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے،اور تیسری بار ان لوگوں کے اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں اڑرہے ہوں گے،تو کوئی اسے اپنے داہنے ہاتھ میں پکڑے ہوگا اورکوئی بائیں ہاتھ میں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ حسن کاسماع ابوہریرہ سے ثابت نہیں ہے،۲-بعض لوگوں نے اس حدیث کو عن علی الرفاعی،عن الحسن،عن أبی موسی عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کیا ہے،۳-یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے کیوں کہ حسن کاسماع ابوموسیٰ اشعری سے بھی ثابت نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا قَالَ أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُہَا قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ أَخْبَارَہَا أَنْ تَشْہَدَ عَلَی كُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ بِمَا عَمِلَ عَلَی ظَہْرِہَا أَنْ تَقُولَ عَمِلَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَہَذِہِ أَخْبَارُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ:یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا کی تلاوت کی اور فرمایا: کیاتم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کی خبریں کیاہوں گی؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں،آپ نے فرمایا: اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہرمرد اورعورت کے خلاف گواہی دے گی،جوکام بھی انہوں نے زمین پرکیا ہوگا،وہ کہے گی کہ اس نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام کیا،آپ نے فرمایا: یہی اس کی خبریں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَإِذَا ہُوَ مُتَّكِئٌ عَلَی رَمْلِ حَصِيرٍ فَرَأَيْتُ أَثَرَہُ فِي جَنْبِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ چٹائی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے سو میں نے دیکھا کہ چٹائی کانشان آپ کے پہلو پر اثر کرگیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے۔(وہی آپ کا ازواج مطہرات سے ایلاء کرنے کا قصہ۔)

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَعِنْدَنَا شَطْرٌ مِنْ شَعِيرٍ فَأَكَلْنَا مِنْہُ مَا شَاءَ اللہُ ثُمَّ قُلْتُ لِلْجَارِيَةِ كِيلِيہِ فَكَالَتْہُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ فَنِيَ قَالَتْ فَلَوْ كُنَّا تَرَكْنَاہُ لَأَكَلْنَا مِنْہُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی قَوْلِہَا شَطْرٌ تَعْنِي شَيْئًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی،اس وقت ہمارے پاس تھوڑی سی جوتھی،پھرجتنی مدت تک اللہ تعالیٰ نے چاہا ہم نے اسی سے کھایا،پھر ہم نے لونڈی کو جو تولنے کے لیے کہا،تو اس نے تولا،پھربقیہ جو بھی جلد ہی ختم ہوگی،لیکن اگر ہم اسے چھوڑ دیتے اور نہ تولتے تو اس میں سے اس سے زیادہ مدت تک کھاتے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہاں عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول شطر کا معنی قدرے اور تھوڑا ہے۔

حَدَّثَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ قَالَ الْبِنَاءُ كُلُّہُ وَبَالٌ قُلْتُ أَرَأَيْتَ مَا لَا بُدَّ مِنْہُ قَالَ لَا أَجْرَ وَلَا وِزْرَ

ابوحمزہ سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں:گھرمکان سب کا سب ہر عمارت باعث وبال ہے،میں نے کہا: اس مکان کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے،جسے بنائے بغیرچارہ نہیں انہوں نے کہا: نہ اس میں کوئی اجر ہے اور نہ کوئی گناہ۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ تَرَكَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلَّہِ وَہُوَ يَقْدِرُ عَلَيْہِ دَعَاہُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَی رُءُوسِ الْخَلَائِقِ حَتَّی يُخَيِّرَہُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الْإِيمَانِ شَاءَ يَلْبَسُہَا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ حُلَلِ الْإِيمَانِ يَعْنِي مَا يُعْطَی أَہْلُ الْإِيمَانِ مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ

معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص زینت کا لباس خالص اللہ کی رضامندی اور اس کی تواضع کی خاطر چھوڑدے باوجودیکہ وہ اسے میسر ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے بلائے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے،اورپہنے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-حلل الإیمان سے جنت کے وہ لباس مراد ہیں جو اہل ایمان کو دیئے جائیں گے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرَی ظُہُورُہَا مِنْ بُطُونِہَا وَبُطُونُہَا مِنْ ظُہُورِہَا فَقَامَ إِلَيْہِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ لِمَنْ ہِيَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ ہِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَأَدَامَ الصِّيَامَ وَصَلَّی لِلَّہِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ ہَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَہُوَ كُوفِيٌّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ الْقُرَشِيُّ مَدَنِيٌّ وَہُوَ أَثْبَتُ مِنْ ہَذَا

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کابیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا۔ایک دیہاتی نے کھڑے ہوکرعرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کن لوگوں کے لیے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: یہ اس کے لیے ہوں گے جو اچھی گفتگو کرے،کھانا کھلائے،پابندی سے صوم رکھے اور جب لوگ سورہے ہوں تو اللہ کی رضا کے لیے رات میں صلاۃ پڑھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-بعض اہل علم نے عبدالرحمٰن بن اسحاق کے بارے میں ان کے حافظہ کے تعلق سے کلام کیاہے،یہ کوفی ہیں اور عبدالرحمٰن بن اسحاق جو قریشی ہیں وہ مدینہ کے رہنے والے ہیں اور یہ عبدالرحمٰن کوفی سے اثبت ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ جَنَّتَيْنِ آنِيَتُہُمَا وَمَا فِيہِمَا مِنْ فِضَّةٍ وَجَنَّتَيْنِ آنِيَتُہُمَا وَمَا فِيہِمَا مِنْ ذَہَبٍ وَمَا بَيْنَ الْقَوْمِ وَبَيْنَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَی رَبِّہِمْ إِلَّا رِدَاءُ الْكِبْرِيَاءِ عَلَی وَجْہِہِ فِي جَنَّةِ عَدْنٍ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ دُرَّةٍ مُجَوَّفَةٍ عَرْضُہَا سِتُّونَ مِيلًا فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْہَا أَہْلٌ مَا يَرَوْنَ الْآخَرِينَ يَطُوفُ عَلَيْہِمْ الْمُؤْمِنُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَی قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لَا يُعْرَفُ اسْمُہُ وَأَبُو مُوسَی الْأَشْعَرِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ قَيْسٍ وَأَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ اسْمُہُ سَعْدُ بْنُ طَارِقِ بْنِ أَشْيَمَ

ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جنت میں دو ایسے باغ ہیں کہ جن کے برتن اور اس کی تمام چیزیں چاندی کی ہیں اور دو ایسے باغ ہیں جس کے برتن اور جس کی تمام چیزیں سونے کی ہیں،جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف وہ کبریائی چادرحائل ہوگی جو اس کے چہرے پر ہے ۱؎۔ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں موتی کاایک لمبا چوڑا خیمہ ہے جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہے۔اس کے ہرگوشے میں مومن کے گھر والے ہوں گے،مومن ان پر گھومے گا تو (اندورونی ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يُعْطَی الْمُؤْمِنُ فِي الْجَنَّةِ قُوَّةَ كَذَا وَكَذَا مِنْ الْجِمَاعِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ أَوَ يُطِيقُ ذَلِكَ قَالَ يُعْطَی قُوَّةَ مِائَةٍ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جنت میں مومن کو جماع کی اتنی اتنی طاقت دی جائے گی،عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کیاوہ اس کی طاقت رکھے گا؟ آپ نے فرمایا: اسے سو آدمی کی طاقت دی جائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح غریب ہے،۲-قتادہ کی یہ حدیث جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں اسے ہم صرف عمران القطان کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ وَذُكِرَ لَہُ سِدْرَةُ الْمُنْتَہَی قَالَ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّ الْفَنَنِ مِنْہَا مِائَةَ سَنَةٍ أَوْ يَسْتَظِلُّ بِظِلِّہَا مِائَةُ رَاكِبٍ شَكَّ يَحْيَی فِيہَا فِرَاشُ الذَّہَبِ كَأَنَّ ثَمَرَہَا الْقِلَالُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا،اس وقت آپ کے سامنے سدرۃ المنتہی کا ذکر آیاتھا۔آپ نے فرمایا: اس کی شاخوں کے سائے میں سوار سوسال تک چلے گا،یا اس کے سائے میں سوسوار رہیں گے،(یہ شک حدیث کے راوی یحییٰ کی طرف سے ہے۔) اس پر سونے کے بسترے ہیں اور اس کے پھل مٹکے جیسے (بڑے) ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَدْنَی أَہْلِ الْجَنَّةِ الَّذِي لَہُ ثَمَانُونَ أَلْفَ خَادِمٍ وَاثْنَتَانِ وَسَبْعُونَ زَوْجَةً وَتُنْصَبُ لَہُ قُبَّةٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ وَيَاقُوتٍ كَمَا بَيْنَ الْجَابِيَةِ إِلَی صَنْعَاءَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کم درجے کا جتنی وہ ہے جس کے لیے اسّی ہزار خادم اور بہتر بیویاں ہوں گی۔اس کے لیے موتی،زمرد اور یاقوت کا خیمہ نصب کیاجائے گا جو مقام جابیہ سے صنعاء (یمن) تک کے برابر ہوگا۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اسی سند سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جو جنتی بھی مرے خواہ وہ چھوٹا ہویا بڑا وہ جنت میں تیس برس کاہوگا،اس سے زیادہ اس کی عمر ہرگز نہیں ہوگی،اور اسی طرح جہنمی بھی۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اسی سند سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنتیوں کے اوپر تاج ہوں گے،جس کا کم ترموتی بھی پورب پچھم کو روشن کردے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف رشدین کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُؤْمِنُ إِذَا اشْتَہَی الْوَلَدَ فِي الْجَنَّةِ كَانَ حَمْلُہُ وَوَضْعُہُ وَسِنُّہُ فِي سَاعَةٍ كَمَا يَشْتَہِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ فِي الْجَنَّةِ جِمَاعٌ وَلَا يَكُونُ وَلَدٌ ہَكَذَا رُوِيَ عَنْ طَاوُسٍ وَمُجَاہِدٍ وَإِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ و قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا اشْتَہَی الْمُؤْمِنُ الْوَلَدَ فِي الْجَنَّةِ كَانَ فِي سَاعَةٍ وَاحِدَةٍ كَمَا يَشْتَہِي وَلَكِنْ لَا يَشْتَہِي قَالَ مُحَمَّدٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّةِ لَا يَكُونُ لَہُمْ فِيہَا وَلَدٌ وَأَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ اسْمُہُ بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ بَكْرُ بْنُ قَيْسٍ أَيْضًا

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب مومن جنت میں لڑکے کی خواہش کرے گاتو حمل ٹھہرنا،ولادت ہونا اور اس کی عمر بڑھنا یہ سب کچھ اس کی خواہش کے مطابق ایک ساعت میں ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض لوگ کہتے ہیں: جنت میں جماع تو ہوگا مگر بچہ نہیں پیداہوگا۔طاؤس،مجاہد اور ابراہیم نخعی سے اسی طرح مروی ہے،۳-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نبی اکرمﷺ کی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں: جب جنت میں مومن بچے کی خواہش کرے گا تویہ ایک ساعت میں ہوجائے گا،جیسے ہی وہ خواہش کرے گا لیکن وہ ایسی خواہش نہیں کرے گا،۴-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جنتی کے لیے جنت میں کوئی بچہ نہیں ہوگا،۵-ابوصدیق ناجی کانام بکر بن عمرو ہے،انہیں بکر بن قیس بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَدِّہِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُوشِكُ الْفُرَاتُ يَحْسِرُ عَنْ كَنْزٍ مِنْ ذَہَبٍ فَمَنْ حَضَرَہُ فَلَا يَأْخُذْ مِنْہُ شَيْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ يَحْسِرُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَہَبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قریب ہے کہ دریائے فرات سونے کا خزانہ اگلے،لہذا (اس وقت) جوموجود ہو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ،عَنْ أَبِي الزِّنَادِ،عَنِ الأَعْرَجِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ،إِلَّا أَنَّہُ قَالَ: ((يَحْسِرُ عَنْ جَبَلٍ مِنْ ذَہَبٍ)): ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،مگر اس میں یہ فرق ہے کہ آپ نے فرمایا: سونے کا پہاڑ اُگلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عِيَاضٍ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ قَالَ عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ عَلَی مِنْبَرِنَا ہَذَا مِنْبَرِ الْبَصْرَةِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ الصَّخْرَةَ الْعَظِيمَةَ لَتُلْقَی مِنْ شَفِيرِ جَہَنَّمَ فَتَہْوِي فِيہَا سَبْعِينَ عَامًا وَمَا تُفْضِي إِلَی قَرَارِہَا قَالَ وَكَانَ عُمَرُ يَقُولُ أَكْثِرُوا ذِكْرَ النَّارِ فَإِنَّ حَرَّہَا شَدِيدٌ وَإِنَّ قَعْرَہَا بَعِيدٌ وَإِنَّ مَقَامِعَہَا حَدِيدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی لَا نَعْرِفُ لِلْحَسَنِ سَمَاعًا مِنْ عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ وَإِنَّمَا قَدِمَ عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ الْبَصْرَةَ فِي زَمَنِ عُمَرَ وَوُلِدَ الْحَسَنُ لِسَنَتَيْنِ بَقِيَتَا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ

حسن بصری کہتے ہیں کہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمارے اس بصرہ کے منبر پربیان کیاکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر ایک بڑابھاری پتھر جہنم کے کنارہ سے ڈالا جائے تو وہ ستربرس تک اس میں گرتا جائے گا پھر بھی اس کی تہہ تک نہیں پہنچے گا۔عتبہ کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ کہاکرتے تھے: جہنم کوکثرت یاد کرو،اس لیے کہ اس کی گرمی بہت سخت ہے۔اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے اور اس کے آنکس(آنکڑے) لوہے کے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ہم عتبہ بن غزوان سے حسن بصری کا سماع نہیں جانتے ہیں،عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بصرہ آئے تھے،اور حسن بصری کی ولادت اس وقت ہوئی جب عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے دوسال باقی تھے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی عَنْ ابْنِ لَہِيعَةَ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ الصَّعُودُ جَبَلٌ مِنْ نَارٍ يَتَصَعَّدُ فِيہِ الْكَافِرُ سَبْعِينَ خَرِيفًا وَيَہْوِي فِيہِ كَذَلِكَ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: صعود جہنم کا ایک پہاڑ ہے،اس پر کافر سترسال میں چڑھے گا اور اتنے ہی سال میں نیچے گرے گا اور یہ عذاب اسے ہمیشہ ہوتارہے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يَحْيَی بْنِ طَلْحَةَ حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِہِ الْعُلَمَاءَ أَوْ لِيُمَارِيَ بِہِ السُّفَہَاءَ أَوْ يَصْرِفَ بِہِ وُجُوہَ النَّاسِ إِلَيْہِ أَدْخَلَہُ اللہُ النَّارَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِسْحَقُ بْنُ يَحْيَی بْنِ طَلْحَةَ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ عِنْدَہُمْ تُكُلِّمَ فِيہِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: جو شخص علم اس واسطے سیکھے کہ اس کے ذریعہ علماء کی برابری کرے ۱؎،کم علم اور بے وقوفوں سے بحث وتکرار کرے یا اس علم کے ذریعہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-اسحاق بن یحیی بن طلحہ محدثین کے نزدیک کچھ بہت زیادہ قوی نہیں ہیں،ان کے حافظہ کے سلسلے میں کلام کیاگیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْہُنَائِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ عَنْ خَالِدِ بْنِ دُرَيْكٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا لِغَيْرِ اللہِ أَوْ أَرَادَ بِہِ غَيْرَ اللہِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جس نے علم کو غیر اللہ کے لیے سیکھا یاوہ اس علم کے ذریعہ اللہ کی رضا کے بجائے کچھ اور حاصل کرناچاہتا ہے تو ایسا شخص اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے ایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَجْلِسُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَيَسْمَعُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُہُ وَلَا يَحْفَظُہُ فَشَكَا ذَلِكَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ الْحَدِيثَ فَيُعْجِبُنِي وَلَا أَحْفَظُہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اسْتَعِنْ بِيَمِينِكَ وَأَوْمَأَ بِيَدِہِ لِلْخَطِّ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُہُ لَيْسَ بِذَلِكَ الْقَائِمِ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ الْخَلِيلُ بْنُ مُرَّةَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک انصاری شخص نبی اکرم ﷺ کی مجلس میں بیٹھا کرتاتھا۔وہ آپ کی حدیثیں سنتااوریہ حدیثیں اسے بہت پسند آتی تھیں،لیکن وہ انہیں یاد نہیں رکھ پاتاتھا تو اس نے اپنے یاد نہ رکھ پانے کی رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی۔اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کی حدیثیں سنتاہوں اور وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں(مگر) میں انہیں یادنہیں رکھ پاتا ہوں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے داہنے ہاتھ کا سہارا لو(اور یہ کہتے ہوئے) آپ نے ہاتھ سے لکھ لینے کا اشارہ فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند قوی ومستحکم نہیں ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل کو کہتے ہوئے سنا: خلیل بن مرہ منکر الحدیث ہے،۳-اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ فَذَكَرَ الْقِصَّةَ فِي الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو شَاہٍ اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اكْتُبُوا لِأَبِي شَاہٍ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اوردوران خطبہ آپ نے کوئی قصہ (کوئی واقعہ) بیان کیا تو ابوشاہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے لیے لکھوا دیجئے (یعنی کسی سے لکھادیجئے) تورسول اللہ ﷺ نے (صحابہ سے) کہا ابوشاہ کے لیے لکھ دو۔حدیث میں پورا واقعہ مذکورہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی جیسی روایت بیان کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَخِيہِ وَہُوَ ہَمَّامُ بْنُ مُنَبِّہٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو فَإِنَّہُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لَا أَكْتُبُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَوَہْبُ بْنُ مُنَبِّہٍ عَنْ أَخِيہِ ہُوَ ہَمَّامُ بْنُ مُنَبِّہٍ

ہمام بن منبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سوائے عبداللہ بن عمروکے رسول اللہ ﷺ سے حدیث بیان کرنے والا مجھ سے زیاد ہ کوئی نہیں ہے اورمیرے اور عبداللہ بن عمرو کے درمیان یہ فرق تھا کہ وہ (احادیث) لکھ لیتے تھے اور میں لکھتانہیں تھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور روایت میں وہب بن منبہ،عن أخیہ جو آیا،تو أخیہ سے مراد ہمام بن منبہ ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی كَانَ لَہُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ يَتَّبِعُہُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْہِ مِنْ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ يَتَّبِعُہُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِہِمْ شَيْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر کے برابر ہدایت کی طرف بلانے والے کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی اتباع کرنے والوں کے اجروثواب میں کچھ بھی کمی ہو،اور جس نے ضلالت (وگمراہی) کی طرف بلایا تو جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابرگمراہی کی طرف بلانے والے کو بھی گناہ ملے گا بغیر اس کے کہ اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی کمی ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْہَا فَلَہُ أَجْرُہُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنْ اتَّبَعَہُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِہِمْ شَيْئًا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْہَا كَانَ عَلَيْہِ وِزْرُہُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنْ اتَّبَعَہُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَيْئًا وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجروثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجرو ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا،اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہوگا اور (دوسرے) جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پرگناہ ہوگا،بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے جریر بن عبداللہ سے آئی ہے،اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-یہ حدیث منذر بن جریر بن عبداللہ سے بھی آئی ہے،جسے وہ اپنے والد جریر بن عبداللہ سے اورجریر نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،۴-یہ حدیث عبیداللہ بن جریر سے بھی آئی ہے،اورعبید اللہ اپنے والد جریر سے اور جریر نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،۵-اس باب میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَيْرِنَا لَا تَشَبَّہُوا بِالْيَہُودِ وَلَا بِالنَّصَارَی فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَہُودِ الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ وَتَسْلِيمَ النَّصَارَی الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُہُ ضَعِيفٌ وَرَوَی ابْنُ الْمُبَارَكِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ لَہِيعَةَ فَلَمْ يَرْفَعْہُ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیروں (یعنی مسلموں) سے مشابہت اختیار کرے،نہ یہود کی مشابہت کرو اور نہ نصاریٰ کی،یہودیوں کا سلام انگلیوں کا اشارہ ہے اور نصاریٰ کا سلام ہتھیلیوں کا اشارہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند ضعیف ہے،۲-ابن مبارک نے یہ حدیث ابن لھیعہ سے روایت کی ہے،اور اسے انہوں نے مرفوع نہیں کیا ہے۔ وضاحت ۱؎: یعنی یہود ونصاری اور کفار کی کسی بھی فعل میں مشابہت نہ کرو،خصوصا سلام کی ان دوخصلتوں میں ممکن ہے یہ لوگ السلام علیکم اور وعلیکم السلام کہنے کے بجائے صرف اشارہ پر اکتفا کرتے رہے ہوں،زبان سے سلام ادا کرنا انبیاء کی سنت ہے،اس لیے اس سنت کو اپناتے ہوئے عذر کی جگہوں میں اشارہ کو بھی شامل کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں،جیسے کسی بہرے کو سلام کرنا وغیرہ،اسی طرح بعض مخصوص حالات میں صرف اشارہ پر اکتفا کرنا بھی صحیح ہے،جیسے گونگے کا سلام کرنا اور حالت صلاۃ میں اشارہ سے جواب دینا وغیرہ۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِمَجْلِسٍ وَفِيہِ أَخْلَاطٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَالْيَہُودِ فَسَلَّمَ عَلَيْہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اوریہوددونوں تھے تو آپ نے انہیں سلام کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ كَشَفَ سِتْرًا فَأَدْخَلَ بَصَرَہُ فِي الْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ يُؤْذَنَ لَہُ فَرَأَی عَوْرَةَ أَہْلِہِ فَقَدْ أَتَی حَدًّا لَا يَحِلُّ لَہُ أَنْ يَأْتِيَہُ لَوْ أَنَّہُ حِينَ أَدْخَلَ بَصَرَہُ اسْتَقْبَلَہُ رَجُلٌ فَفَقَأَ عَيْنَيْہِ مَا عَيَّرْتُ عَلَيْہِ وَإِنْ مَرَّ الرَّجُلُ عَلَی بَابٍ لَا سِتْرَ لَہُ غَيْرِ مُغْلَقٍ فَنَظَرَ فَلَا خَطِيئَةَ عَلَيْہِ إِنَّمَا الْخَطِيئَةُ عَلَی أَہْلِ الْبَيْتِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (گھر میں داخل ہونے کی) اجازت ملنے سے پہلے ہی جس نے (دروازے کا) پردہ کھسکا کر کسی کے گھر کے اندر جھانکا،اور گھر والے کی بیوی کی پردہ دری کی تو اس نے ایک ایسا کام کیا جس کا کرنا اس کے لیے حلال نہ تھا،جس وقت اس نے اپنی نگاہ اندر ڈالی تھی کاش اس وقت اس کا سامنا کسی ایسے شخص سے ہوجاتا جو اس کی دونوں آنکھیں پھوڑدیتا تو میں اس پر اسے خوں بہانہ دیتا۔اور اگر کوئی شخص ایسے دروازے کے سامنے سے گزرا جس پرکوئی پردہ پڑاہوا نہیں ہے اوردروازہ بندبھی نہیں ہے پھر اس کی نظر اٹھ گئی تو اس کی کچھ خطا نہیں۔غلطی وکوتاہی تو گھروالے کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اس طرح کی حدیث صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں ابوہریرہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ وَلَمْ يَسْمَعْہُ مِنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَرَّ بِنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَہُمْ جُلُوسٌ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ إِنْ كُنْتُمْ لَا بُدَّ فَاعِلِينَ فَرُدُّوا السَّلَامَ وَأَعِينُوا الْمَظْلُومَ وَاہْدُوا السَّبِيلَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:(سند میں اس بات کی صراحت ہے کہ ابواسحاق نے براء سے سنا نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے،لیکن شواہدکی بناء پر صحیح ہے،بالخصوص شعبہ کی روایت ہو نے کی وجہ سے قوی ہے)انصار کے کچھ لوگ راستے میں بیٹھے ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ کاان کے پاس سے گزرہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: (یوں تو راستے میں بیٹھنا اچھانہیں ہے) لیکن اگر تم بیٹھنا ضروری سمجھتے ہو تو سلام کا جواب دیاکرو،مظلوم کی مدد کیاکرو،اور (بھولے بھٹکے ہوئے کو)راستہ بتادیاکرو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ وَأَبُو أُسَامَةَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ قَالَ يَہُودِيٌّ لِصَاحِبِہِ اذْہَبْ بِنَا إِلَی ہَذَا النَّبِيِّ فَقَالَ صَاحِبُہُ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّہُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَہُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ فَأَتَيَا رَسُولَ اللہِ ﷺ فَسَأَلَاہُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ لَہُمْ لَا تُشْرِكُوا بِاللہِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَی ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَہُ وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ يَوْمَ الزَّحْفِ وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَہُودَ أَنْ لَا تَعْتَدُوا فِي السَّبْتِ قَالَ فَقَبَّلُوا يَدَہُ وَرِجْلَہُ فَقَالَا نَشْہَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي قَالُوا إِنَّ دَاوُدَ دَعَا رَبَّہُ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِہِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَہُودُ وَفِي الْبَاب عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ وَابْنِ عُمَرَ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: چلو اس نبی کے پاس لے چلتے ہیں۔اس کے ساتھی نے کہانبی نہ کہو۔ورنہ اگر انہوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی،پھروہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے،اور آپ سے (موسیٰ علیہ السلام کودی گئیں) نوکھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔آپ نے ان سے کہا (۱) کسی کواللہ کا شریک نہ بناؤ (۲) چوری نہ کرو (۳) زنانہ کرو (۴) ناحق کسی کو قتل نہ کرو (۵) کسی بے گناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کردے (۶) جادو نہ کرو(۷) سود مت کھاؤ (۸) پارساعورت پرزناکی تہمت مت لگاؤ (۹) اوردشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیرکر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔اورخاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ سبت (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو،(آپ کاجواب سن کر) انہوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔آپ نے فرمایا:پھرتمہیں میری پیروی کرنے سے کیاچیز روکتی ہے؟ انہوں نے کہا: داود علیہ السلام نے اپنے رب سے دعاکی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے۔اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع (پیروی) کی تویہودی ہمیں مارڈالیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں یزید بن اسود،ابن عمر اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مونچھیں کاٹو اور ڈاڑھیاں بڑھاؤ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ نَافِعٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَمَرَنَا بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ وَإِعْفَاءِ اللِّحَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ہُوَ مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ ثِقَةٌ وَعُمَرُ بْنُ نَافِعٍ ثِقَةٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ يُضَعَّفُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مونچھیں کٹوانے اور ڈاڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن عمر کے آزاد کردہ غلام ابوبکربن نافع ثقہ آدمی ہیں،۳-عمر بن نافع یہ بھی ثقہ ہیں،۴-عبداللہ بن نافع ابن عمر کے آزاد کردہ غلام ہیں اورحدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَعَبْدُ الرَّحِيمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ رَأَی رَسُولُ اللہِ ﷺ رَجُلًا مُضْطَجِعًا عَلَی بَطْنِہِ فَقَالَ إِنَّ ہَذِہِ ضَجْعَةٌ لَا يُحِبُّہَا اللہُ وَفِي الْبَاب عَنْ طِہْفَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ يَعِيشَ بْنِ طِہْفَةَ عَنْ أَبِيہِ وَيُقَالُ طِخْفَةُ وَالصَّحِيحُ طِہْفَةُ وَقَالَ بَعْضُ الْحُفَّاظِ الصَّحِيحُ طِخْفَةُ وَيُقَالُ طِغْفَةُ يَعِيشُ ہُوَ مِنْ الصَّحَابَةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اپنے پیٹ کے بل (اوندھے منہ) لیٹا ہوا دیکھا تو فرمایا: یہ ایسا لیٹنا ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوسلمہ سے روایت کی ہے اورابوسلمہ نے یعیش بن طہفہ کے واسطہ سے ان کے باپ طہفہ سے روایت کی ہے،انہیں طخفہ بھی کہاجاتاہے،لیکن صحیح طہفہ ہی ہے۔اور بعض حفاظ کہتے ہیں: طخفہ صحیح ہے۔اور انہیں طغفہ اور یعیش بھی کہاجاتاہے۔اور وہ صحابہ میں سے ہیں،۲-اس باب میں طہفہ اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَلْ لَكُمْ أَنْمَاطٌ قُلْتُ وَأَنَّی تَكُونُ لَنَا أَنْمَاطٌ قَالَ أَمَا إِنَّہَا سَتَكُونُ لَكُمْ أَنْمَاطٌ قَالَ فَأَنَا أَقُولُ لِامْرَأَتِي أَخِّرِي عَنِّي أَنْمَاطَكِ فَتَقُولُ أَلَمْ يَقُلْ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّہَا سَتَكُونُ لَكُمْ أَنْمَاطٌ قَالَ فَأَدَعُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس انماط (غالیچے)ہیں؟ میں نے کہا: غالیچے ہمارے پاس کہاں سے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہارے پاس عنقریب انماط (غالیچے) ہوں گے۔(تو اب وہ زمانہ آگیا ہے) میں اپنی بیوی سے کہتاہوں کہ تم اپنے انماط (غالیچے) مجھ سے دور رکھو۔تو وہ کہتی ہے: کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہ کہاتھا کہ تمہارے پاس انماط ہوں گے،تو میں اس سے درگزرکرجاتا ہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ نَبْہَانَ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّہُ حَدَّثَہُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْہُ أَنَّہَا كَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَمَيْمُونَةَ قَالَتْ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَہُ أَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَدَخَلَ عَلَيْہِ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أُمِرْنَا بِالْحِجَابِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ احْتَجِبَا مِنْہُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَلَيْسَ ہُوَ أَعْمَی لَا يُبْصِرُنَا وَلَا يَعْرِفُنَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ کے پاس تھیں اور میمونہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں،اسی دوران کہ ہم دونوں آپ کے پاس بیٹھی تھیں،عبداللہ بن ام مکتوم آئے اور آپ کے پاس پہنچ گئے۔یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہمیں پردے کاحکم دیا جاچکا تھا۔تورسول اللہﷺنے فرمایا: تم دونوں ان سے پردہ کرو،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وہ اندھے نہیں ہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں؟ اور نہ ہمیں پہچان سکتے ہیں؟ تورسول اللہﷺنے فرمایا: کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟کیا تم دونوں انہیں دیکھتی نہیں ہو؟ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّہُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بِالْمَدِينَةِ يَخْطُبُ يَقُولُ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَہْلَ الْمَدِينَةِ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَنْہَی عَنْ ہَذِہِ الْقُصَّةِ وَيَقُولُ إِنَّمَا ہَلَكَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ حِينَ اتَّخَذَہَا نِسَاؤُہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ

حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں خطبہ کے دوران کہتے ہوئے سنا: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان زائدبالوں کے استعمال سے منع کرتے ہوئے سناہے اور آپ کہتے تھے: جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اسے اپنا لیا تو وہ ہلاک ہوگئے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث متعدد سندوں سے معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْبَسُوا الْبَيَاضَ فَإِنَّہَا أَطْہَرُ وَأَطْيَبُ وَكَفِّنُوا فِيہَا مَوْتَاكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سفید کپڑے پہنو،کیوں کہ یہ پاکیزہ اور عمدہ لباس ہیں،اور انہیں سفید کپڑوں کا اپنے مردوں کو کفن دو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ ذَاتَ غَدَاةٍ وَعَلَيْہِ مِرْطٌ مِنْ شَعَرٍ أَسْوَدَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ (گھر سے) نکلے،اس وقت آپ کالے بالوں کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ حَدَّثَنِي مَوْلَی أَسْمَاءَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ يَذْكُرُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْہُ فِي الْآخِرَةِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَحُذَيْفَةَ وَأَنَسٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ وَقَدْ ذَكَرْنَاہُ فِي كِتَابِ اللِّبَاسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَی أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَاسْمُہُ عَبْدُ اللہِ وَيُكْنَی أَبَا عَمْرٍو وَقَدْ رَوَی عَنْہُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے دنیا میں حریر (ریشمی کپڑا) پہنا تووہ اسے آخرت (یعنی جنت) میں نہ پہنے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے اسماء بنت ابی بکر کے آزاد کردہ غلام ابو عمرو سے مروی ہے۔ان کانام عبداللہ اور ان کی کنیت ابوعمرو ہے،ان سے عطاء بن ابی رباح اور عمرو بن دینار نے روایت کی ہے،۳-اس باب میں علی،حذیفہ،انس رضی اللہ عنہم اور دیگر کئی لوگوں سے بھی احادیث آئی ہیں،جن کا ذکر ہم کتاب اللباس میں کرچکے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَي حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ الْمُہَاجِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَلْ تَدْرُونَ مَا ہَذِہِ وَمَا ہَذِہِ وَرَمَی بِحَصَاتَيْنِ قَالُوا اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ ہَذَاكَ الْأَمَلُ وَہَذَاكَ الْأَجَلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

-بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دوکنکریاں پھینکتے ہوئے فرمایا: کیاتم جانتے ہو یہ کیا ہے اور یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو بہتر معلوم ہے۔آپ نے فرمایا: یہ امید (وآرزو)ہے اور یہ اجل (موت) ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّمَا أَجَلُكُمْ فِيمَا خَلَا مِنْ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَی مَغَارِبِ الشَّمْسِ وَإِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ الْيَہُودِ وَالنَّصَارَی كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالًا فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي إِلَی نِصْفِ النَّہَارِ عَلَی قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتْ الْيَہُودُ عَلَی قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّہَارِ إِلَی صَلَاةِ الْعَصْرِ عَلَی قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتْ النَّصَارَی عَلَی قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تَعْمَلُونَ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَی مَغَارِبِ الشَّمْسِ عَلَی قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ فَغَضِبَتْ الْيَہُودُ وَالنَّصَارَی وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلًا وَأَقَلُّ عَطَاءً قَالَ ہَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا قَالُوا لَا قَالَ فَإِنَّہُ فَضْلِي أُوتِيہِ مَنْ أَشَاءُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہاری مدت گزری ہوئی امتوں کے مقابل میں عصر سے مغرب تک کی درمیانی مدت کی طرح ہے(یعنی بہت مختصر تھوڑی) تمہاری مثال اور یہود ونصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کئی مزدور رکھے۔اس نے کہا: میرے یہاں کون فی کس ایک قیراط پر دوپہر تک کام کرتاہے؟ تویہود نے ایک ایک قیراط پرکام کیا،پھر اس نے کہا: میرے یہاں کون مزدوری کرتاہے دوپہر سے عصر تک فی کس ایک ایک قیراط پر؟ تونصاریٰ نے ایک قیراط پرکام کیا۔پھر تم (مسلمان) کام کرتے ہوعصر سے سورج ڈوبنے تک فی کس دو دو قیراط پر۔(یہ دیکھ کر) یہود ونصاریٰ غصہ ہوگئے،انہوں نے کہا: ہماراکام زیادہ ہے اور مزدوری تھوڑی ہے؟،اللہ نے فرمایا: کیا تمہارا حق کچھ کم کرکے میں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔تو اس نے کہا: یہ میرا فضل وانعام ہے میں جسے چاہوں دوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ،قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَالِمٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((إِنَّمَا النَّاسُ كَإِبِلٍ مِائَةٍ لَا يَجِدُ الرَّجُلُ فِيہَا رَاحِلَةً)): ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ سواونٹ کی طرح ہیں۔آدمی ان میں سے ایک بھی سواری کے قابل نہیں پاتا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ المَخْزُومِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنِ الزُّہْرِيِّ،بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ،وَقَالَ: ((لَا تَجِدُ فِيہَا رَاحِلَةً))،أَوْ قَالَ: ((لَا تَجِدُ فِيہَا إِلَّا رَاحِلَةً))

سفیان بن عیینہ زہری سے اسی سند سے اسی طرح روایت کرتے ہیں اور انہوں نے کہا: تم ان میں ایک بھی سواری کے قابل نہ پاؤگے،یا یہ کہا:تم ان میں سے صرف ایک سواری کے قابل پاسکوگے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَجَعَلَتْ الذُّبَابُ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيہَا وَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اور میری امت کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے آگ جلائی تو مکھیاں اور پتنگے اس میں پڑنے لگے (یہی حال تمہارا اور ہماراہے) میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں بچارہاہوں اور تم ہوکہ اس میں(جہنم کی آگ میں) بلاسوچے سمجھے گھسے چلے جارہے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ ضَرَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ خِبَاءَہُ عَلَی قَبْرٍ وَہُوَ لَا يَحْسِبُ أَنَّہُ قَبْرٌ فَإِذَا فِيہِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِہِ الْمُلْكُ حَتَّی خَتَمَہَا فَأَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي ضَرَبْتُ خِبَائِي عَلَی قَبْرٍ وَأَنَا لَا أَحْسِبُ أَنَّہُ قَبْرٌ فَإِذَا فِيہِ إِنْسَانٌ يَقْرَأُ سُورَةَ تَبَارَكَ الْمُلْكِ حَتَّی خَتَمَہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہِيَ الْمَانِعَةُ ہِيَ الْمُنْجِيَةُ تُنْجِيہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کردیا اور انہیں معلوم نہیں ہواکہ وہاں قبر ہے،(انہوں نے آوازسنی) اس قبر میں کوئی انسان سورہ تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ پڑھ رہاتھا،یہاں تک کہ اس نے پوری سورہ ختم کردی۔وہ صحابی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے پھر آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پر نصب کردیا،مجھے گمان نہیں تھا کہ اس جگہ پر قبر ہے۔مگر اچانک کیا سنتا ہوں کہ اس جگہ ایک انسان سورہتبارک الملک پڑھ رہاہے اور پڑھتے ہوئے اس نے پوری سورہ ختم کردی۔آپ نے فرمایا: یہ سورہ مانعہ ہے،یہ نجات دینے والی ہے،اپنے پڑھنے والے کو عذاب قبر سے بچاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبَّاسٍ الْجُشَمِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ سُورَةً مِنْ الْقُرْآنِ ثَلَاثُونَ آيَةً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتَّی غُفِرَ لَہُ وَہِيَ سُورَةُ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِہِ الْمُلْكُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قرآن کی تیس آیتوں کی ایک سورہ نے ایک آدمی کی شفاعت(سفارش) کی تو اسے بخش دیاگیا،یہ سورہ (تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا ہُرَيْمُ بْنُ مِسْعَرٍ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لَا يَنَامُ حَتَّی يَقْرَأَ الم تَنْزِيلُ وَتَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِہِ الْمُلْكُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ مِثْلَ ہَذَا وَرَوَاہُ مُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَرَوَی زُہَيْرٌ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي الزُّبَيْرِ سَمِعْتَ مِنْ جَابِرٍ فَذَكَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ إِنَّمَا أَخْبَرَنِيہِ صَفْوَانُ أَوِ ابْنُ صَفْوَانَ وَكَأَنَّ زُہَيْرًا أَنْكَرَ أَنْ يَكُونَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ حَدَّثَنَا ہُرَيْمُ بْنُ مِسْعَرٍ حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ عَنْ لَيْثٍ عَنْ طَاوُسٍ قَالَ تَفْضُلَانِ عَلَی كُلِّ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ بِسَبْعِينَ حَسَنَةً

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب تک الم تنزیل اورتبارک الذی بیدہ الملک پڑھ نہ لیتے سوتے نہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو کئی ایک رواۃ نے لیث بن ابی سلیم سے اسی طرح روایت کیا ہے،۲-مغیرہ بن مسلم نے ابوزبیر سے،اور ابوزبیر نے جابر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-زہیر روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے ابوزبیر سے کہا: آپ نے جابرسے سنا ہے،تو انہوں نے یہی حدیث بیان کی؟ ابوالزبیر نے کہا: مجھے صفوان یاابن صفوان نے اس کی خبر دی ہے۔گویا کہ زہیر نے ابوالزبیر سے جابر کے واسطہ سے اس حدیث کی روایت کاانکار کیا ہے۔ہم سے ہناد نے بیان کیاہے،وہ کہتے ہیں: ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیااورابوالاحوص نے لیث سے،لیث نے ابوزبیر سے اورابوزبیر نے جابر کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔بیان کیا ہم سے ہریم بن مسعر نے،وہ کہتے ہیں: بیان کیا ہم سے فضیل نے،اورفضیل نے لیث کے واسطہ سے طاؤس سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں: یہ دونوں سورتیں الم تنزیل اور تبارک الذی بیدہ الملک قرآن کی ہرسورت پر ستر نیکیوں کے بقدر فضیلت رکھتی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّہُ مَرَّ عَلَی قَاصٍّ يَقْرَأُ ثُمَّ سَأَلَ فَاسْتَرْجَعَ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلْيَسْأَلْ اللہَ بِہِ فَإِنَّہُ سَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ بِہِ النَّاسَ و قَالَ مَحْمُودٌ وَہَذَا خَيْثَمَةُ الْبَصْرِيُّ الَّذِي رَوَی عَنْہُ جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ وَلَيْسَ ہُوَ خَيْثَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَخَيْثَمَةُ ہَذَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ يُكْنَی أَبَا نَصْرٍ قَدْ رَوَی عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَحَادِيثَ وَقَدْ رَوَی جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ خَيْثَمَةَ ہَذَا أَيْضًا أَحَادِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاكَ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک قصہ گو کے پاس سے گزرے جو قرآن پڑھ رہاتھا (پڑھ کر) وہ مانگنے لگا۔تو انہوں نے إنا للہ وإنا إلیہ راجعون پڑھا،پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے جو قرآن پڑھے تو اسے اللہ ہی سے مانگنانی چاہیے۔کیوں کہ عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو قرآن پڑھ پڑھ کر لوگوں سے مانگیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،اس کی سند ویسی قوی نہیں ہے،۲-محمودبن غیلان کہتے ہیں: یہ خیثمہ بصری ہیں جن سے جابر جعفی نے روایت کی ہے۔یہ خیثمہ بن عبدالرحمٰن نہیں ہیں۔اور خیثمہ شیخ بصری ہیں ان کی کنیت ابونصر ہے اورانہوں نے انس بن مالک سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔اورجابر جعفی نے بھی خیثمہ سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ عَنْ أَبِي الْمُبَارَكِ عَنْ صُہَيْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا آمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنْ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَقَدْ خُولِفَ وَكِيعٌ فِي رِوَايَتِہِ و قَالَ مُحَمَّدٌ أَبُو فَرْوَةَ يَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ الرُّہَاوِيُّ لَيْسَ بِحَدِيثِہِ بَأْسٌ إِلَّا رِوَايَةَ ابْنِہِ مُحَمَّدٍ عَنْہُ فَإِنَّہُ يَرْوِي عَنْہُ مَنَاكِيرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِيہِ ہَذَا الْحَدِيثَ فَزَادَ فِي ہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ صُہَيْبٍ وَلَا يُتَابَعُ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ عَلَی رِوَايَتِہِ وَہُوَ ضَعِيفٌ وَأَبُو الْمُبَارَكِ رَجُلٌ مَجْہُولٌ

صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال جانا وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سندزیادہ قوی نہیں ہے،وکیع کی روایت میں وکیع سے اختلاف کیاگیا ہے،۲-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابوفروہ کہتے ہیں: یزید بن سنان رہاوی کی روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔سوائے اس روایت کے جسے ان کے بیٹے محمد ان سے روایت کرتے ہیں،اس لیے کہ وہ ان سے مناکیر روایت کرتے ہیں،۳-محمدبن یزید بن سنان نے اپنے باپ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے اور اس کی سند میں اتنا اضافہ کیا ہے: عن مجاہد عن سعید بن المسیب عن صہیب محمد بن یزید کی روایت کی کسی نے متابعت نہیں کی،وہ ضعیف ہیں،اور ابوالمبارک ایک مجہول شخص ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ الْجَاہِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاہِرِ بِالصَّدَقَةِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الَّذِي يُسِرُّ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ أَفْضَلُ مِنْ الَّذِي يَجْہَرُ بِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَنَّ صَدَقَةَ السِّرِّ أَفْضَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ صَدَقَةِ الْعَلَانِيَةِ وَإِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لِكَيْ يَأْمَنَ الرَّجُلُ مِنْ الْعُجْبِ لِأَنَّ الَّذِي يُسِرُّ الْعَمَلَ لَا يُخَافُ عَلَيْہِ الْعُجْبُ مَا يُخَافُ عَلَيْہِ مِنْ عَلَانِيَتِہِ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: بلند آوازسے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسا کھلے عام صدقہ دینے والا،اور آہستگی وخاموشی سے قرآن پڑھنے والا ایسا ہے جیسے چھپاکر صدقہ دینے والا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس حدیث کامعنی ومطلب یہ ہے کہ جوشخص آہستگی سے قرآن پڑھتا ہے وہ اس شخص سے افضل ہے جو بلندآوازسے قرآن پڑھتا ہے،اس لیے کہ اہل علم کے نزدیک چھپاکر صدقہ دینا برسرعام صدقہ دینے سے افضل ہے۔مفہوم یہ ہے کہ اہل علم کے نزدیک اس سے آدمی عجب (خودنمائی) سے محفوظ رہتاہے۔کیوں کہ جوشخص چھپا کر عمل کرتاہے اس کے عجب میں پڑنے کا اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا اس کے کھلے عام عمل کرنے میں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَعْرِضُ نَفْسَہُ بِالْمَوْقِفِ فَقَالَ أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلْنِي إِلَی قَوْمِہِ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ موقف (عرفات)میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتے تھے: ہے کوئی جومجھے اپنی قوم میں لے چلے،کیوں کہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام (قرآن) کی تبلیغ سے روک دیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا شِہَابُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ وَذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُہُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ وَفَضْلُ كَلَامِ اللہِ عَلَی سَائِرِ الْكَلَامِ كَفَضْلِ اللہِ عَلَی خَلْقِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتاہے: جس کو قرآن نے میری یادنے مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا۔میں اسے اس سے زیادہ دوں گا جتنا میں مانگنے والوں کو دیتاہوں۔اللہ کے کلام کی فضیلت دوسرے سارے کلام پرایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی اپنی ساری مخلوقات پرہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُ الْوَہَّابِ قَالُوا حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيُّ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُہَيْرٍ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ تَعَالَی خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الْأَرْضِ فَجَاءَ مِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا،چنانچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال،کوئی سفید،کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج وگرم مزاج،بد باطن وپاک طینت لوگ پیدا ہوئے‘‘ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي قَوْلِہِ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا قَالَ دَخَلُوا مُتَزَحِّفِينَ عَلَی أَوْرَاكِہِمْ أَيْ مُنْحَرِفِينَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت کریمہ: وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً ۱؎ کے بارے میں فرمایا: ’’بنی اسرائیل چوتڑ کے بل کھسکتے ہوئے داخل ہوئے‘‘۔۲۹۵۶/۱-اور اسی سند کے ساتھ نبی اکرم ﷺ سے (آیت) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ ۲؎ کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل نے حَبَّۃٌ فِی شَعْرَۃٍ ۳؎ کہا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ السَّمَّانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ فَصَلَّی كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَی حِيَالِہِ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَنَزَلَتْ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ أَبِي الرَّبِيعِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ وَأَشْعَثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ

عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک انتہائی اندھیری رات میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے،کوئی نہ جان سکا کہ قبلہ کدھر ہے۔چنانچہ جو جس رخ پر تھا اس نے اُسی رخ پر صلاۃ پڑھ لی،جب صبح ہوئی توہم نے نبی اکرم ﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو (اس وقت) یہ آیت فَأَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ ۱؎ نازل ہوئی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي عَلَی رَاحِلَتِہِ تَطَوُّعًا أَيْنَمَا تَوَجَّہَتْ بِہِ وَہُوَ جَاءٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَی الْمَدِينَةِ ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عُمَرَ ہَذِہِ الْآيَةَ وَلِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ الْآيَةَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ فَفِي ہَذَا أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی عَنْ قَتَادَةَ أَنَّہُ قَالَ فِي ہَذِہِ الْآيَةِ وَلِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ قَالَ قَتَادَةُ ہِيَ مَنْسُوخَةٌ نَسَخَہَا قَوْلُہُ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَيْ تِلْقَاءَہُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ وَيُرْوَی عَنْ مُجَاہِدٍ فِي ہَذِہِ الْآيَةِ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ قَالَ فَثَمَّ قِبْلَةُ اللہِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ النَّضْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ عَنْ مُجَاہِدٍ بِہَذَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مکہ سے مدینہ آتے ہوئے نفل صلاۃ اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔اونٹنی جدھر بھی چاہتی منہ پھیرتی ۱؎،ابن عمر نے پھر یہ آیت وَلِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۲؎ پڑھی۔ابن عمر کہتے ہیں: یہ آیت اسی تعلق سے نازل ہوئی ہے ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-قتادہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: آیت: وَلِلّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ (البقرۃ: 115) منسوخ ہے،اور اسے منسوخ کرنے والی آیت فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۴؎ ہے بیان کیا اسے مجھ سے محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے،وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا یزید بن زریع نے اور یزید بن زریع نے سعید کے واسطہ سے قتادہ سے روایت کی۔مجاہد سے اس آیت: فَأَیْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ سے متعلق مروی ہے،وہ کہتے ہیں: جدھر منہ کرو ادھر قبلہ ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ لَوْ صَلَّيْنَا خَلْفَ الْمَقَامِ فَنَزَلَتْ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہم مقام (مقام ابراہیم) کے پیچھے صلاۃ پڑھتے،تو آیت: وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی ۱؎ نازل ہوئی ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قُلْتُ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ لَوْ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّی فَنَزَلَتْ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر آپ مقام ابراہیم کو مصلی (صلاۃ پڑھنے کی جگہ) بنا لیتے (تو کیا ہی اچھی بات ہوتی) تو آیت وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا قَالَ عَدْلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُدْعَی نُوحٌ فَيُقَالُ ہَلْ بَلَّغْتَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيُدْعَی قَوْمُہُ فَيُقَالُ ہَلْ بَلَّغَكُمْ فَيَقُولُونَ مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ وَمَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ فَيُقَالُ مَنْ شُہُودُكَ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہُ قَالَ فَيُؤْتَی بِكُمْ تَشْہَدُونَ أَنَّہُ قَدْ بَلَّغَ فَذَلِكَ قَوْلُ اللہِ تَعَالَی وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَہِيدًا وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَہُ

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت: جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا ۱؎ کے سلسلے میں فرمایا: ’’وسط سے مراد عدل ہے‘‘ (یعنی انصاف پسند)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اس سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(قیامت کے دن) نوح علیہ السلام طلب کئے جائیں گے،پھر ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے (اپنی امت کو) پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں۔پھر ان کی قوم بلائی جائے گی،اور اس سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تم لوگوں تک (میرا پیغام) پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں تھا،اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اور آیا،(نوح علیہ السلام سے) کہا جائے گا: تمہارے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے محمد ﷺ اور ان کی امت،آپ نے فرمایا: ’’تو تم گواہی کے لیے پیش کئے جاؤ گے،تم گواہی دوگے کہ ہاں،انہوں نے پہنچایا ہے۔یہی مفہوم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا ۲؎ کا،وسط کا معنی بیچ اور درمیانی ہے‘‘۔۲-اس سند سے بھی اسی طرح روایت کی۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَدِينَةَ صَلَّی نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَہْرًا وَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُحِبُّ أَنْ يُوَجَّہَ إِلَی الْكَعْبَةِ فَأَنْزَلَ اللہُ قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَوُجِّہَ نَحْوَ الْكَعْبَةِ وَكَانَ يُحِبُّ ذَلِكَ فَصَلَّی رَجُلٌ مَعَہُ الْعَصْرَ قَالَ ثُمَّ مَرَّ عَلَی قَوْمٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَہُمْ رُكُوعٌ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَقَالَ ہُوَ يَشْہَدُ أَنَّہُ صَلَّی مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَنَّہُ قَدْ وُجِّہَ إِلَی الْكَعْبَةِ قَالَ فَانْحَرَفُوا وَہُمْ رُكُوعٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو سولہ یا سترہ مہینے تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے صلاۃ پڑھتے رہے،حالانکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ کعبہ کی طرف کر دیا جائے،تو اللہ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَائِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۱؎۔پھر آپ کعبہ کی طرف پھیر دئے گئے،اور آپ یہی چاہتے ہی تھے۔ایک آدمی نے آپ کے ساتھ صلاۃ عصر پڑھی،پھر وہ کچھ انصاری لوگوں کے پاس سے گزرا وہ لوگ بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے صلاۃ پڑھ رہے تھے۔اور رکوع کی حالت میں تھے،اس شخص نے (اعلان کرتے ہوئے) کہا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ پھیر کر صلاۃ پڑھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔یہ سن کر لوگ حالت رکوع ہی میں (کعبہ کی طرف) پھر گئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانُوا رُكُوعًا فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ وَابْنِ عُمَرَ وَعُمَارَةَ بْنِ أَوْسٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: لوگ فجر کی صلاۃ ۱؎ میں حالت رکوع میں تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمرو بن عوف مزنی،ابن عمر،عمارہ بن اوس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا وُجِّہَ النَّبِيُّ ﷺ إِلَی الْكَعْبَةِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ بِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ مَاتُوا وَہُمْ يُصَلُّونَ إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی وَمَا كَانَ اللہُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو جب کعبہ کی طرف منہ کر کے صلاۃ پڑھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گاجو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے صلاۃ پڑھتے تھے،اور وہ گزر گئے تو (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَال سَمِعْتُ الزُّہْرِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَةَ مَا أَرَی عَلَی أَحَدٍ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ شَيْئًا وَمَا أُبَالِي أَنْ لَا أَطُوفَ بَيْنَہُمَا فَقَالَتْ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي طَافَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ وَإِنَّمَا كَانَ مَنْ أَہَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِہِمَا وَلَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ لَكَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِہِمَا قَالَ الزُّہْرِيُّ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ فَأَعْجَبَہُ ذَلِكَ وَقَالَ إِنَّ ہَذَا الْعِلْمُ وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ إِنَّمَا كَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنْ الْعَرَبِ يَقُولُونَ إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ ہَذَيْنِ الْحَجَرَيْنِ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِيَّةِ وَقَالَ آخَرُونَ مِنْ الْأَنْصَارِ إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ نُؤْمَرْ بِہِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللہِ قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأُرَاہَا قَدْ نَزَلَتْ فِي ہَؤُلَاءِ وَہَؤُلَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا ومروہ کے درمیان طواف نہ کرے،اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بُری بات کہہ دی۔رسول اللہ ﷺ نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ۱؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا ومروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے،تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا ۲؎ نازل فرمائی۔اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہو تو آیت اس طرح ہوتی فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا (یعنی اس پر صفا ومروہ کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)۔زہری کہتے ہیں: میں نے اس بات کا ذکر ابو بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے کیا تو انہیں یہ بات بڑی پسند آئی۔کہا: یہ ہے علم ودانائی کی بات۔اور (بھئی) میں نے تو کئی اہل علم کو کہتے سنا ہے کہ جو عرب صفا ومروہ کے درمیان طواف نہ کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہمارا طواف ان دونوں پتھروں کے درمیان جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔اور کچھ دوسرے انصاری لوگوں نے کہا: ہمیں تو خانہ کعبہ کے طواف کا حکم ملا ہے نہ کہ صفا ومروہ کے درمیان طواف کا۔(اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے آیت: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ نازل فرمائی ۳؎۔ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت انہیں لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقَالَ كَانَا مِنْ شَعَائِرِ الْجَاہِلِيَّةِ فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَكْنَا عَنْہُمَا فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِہِمَا قَالَ ہُمَا تَطَوُّعٌ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللہَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عاصم الأحول کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ دونوں جاہلیت کے شعائر میں سے تھے ۱؎،پھر جب اسلام آیا تو ہم ان دونوں کے درمیان طواف کرنے سے رک گئے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ (صفا ومروہ شعائر الٰہی میں سے ہیں) نازل فرمائی۔تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس کے لیے ان دونوں کے درمیان طواف (سعی) کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ان کے درمیان طواف (سعی) نفل ہے اور جو کوئی بھلائی کام ثواب کی خاطر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا قدردان اور علم رکھنے والا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِيمَ مُصَلًّی فَصَلَّی خَلْفَ الْمَقَامِ ثُمَّ أَتَی الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَہُ ثُمَّ قَالَ نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللہُ وَقَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب مکہ تشریف لائے اور آپ بیت اللہ کا سات طواف کیا تو میں نے آپ کو یہ آیت پڑھتے سنا: وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی (مقام ابراہیم کو صلاۃ پڑھنے کی جگہ بنا لو)۔آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے صلاۃ پڑھی،پھر حجر اسود کے پاس آ کر اسے چوما،پھر فرمایا: ’’ہم (سعی) وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ نے (اس کا ذکر) شروع کیا ہے۔اور آپ نے پڑھا إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآئِرِ اللّہِ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الْإِفْطَارُ فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يُفْطِرَ لَمْ يَأْكُلْ لَيْلَتَہُ وَلَا يَوْمَہُ حَتَّی يُمْسِيَ وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ صَائِمًا فَلَمَّا حَضَرَ الْإِفْطَارُ أَتَی امْرَأَتَہُ فَقَالَ ہَلْ عِنْدَكِ طَعَامٌ قَالَتْ لَا وَلَكِنْ أَنْطَلِقُ فَأَطْلُبُ لَكَ وَكَانَ يَوْمَہُ يَعْمَلُ فَغَلَبَتْہُ عَيْنُہُ وَجَاءَتْہُ امْرَأَتُہُ فَلَمَّا رَأَتْہُ قَالَتْ خَيْبَةً لَكَ فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّہَارُ غُشِيَ عَلَيْہِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَائِكُمْ فَفَرِحُوا بِہَا فَرَحًا شَدِيدًا وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: شروع میں کے صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی آدمی صوم رکھتا اور افطار کا وقت ہوتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا،تو پھر وہ ساری رات اور سارا دن نہ کھاتا یہاں تک کہ شام ہو جاتی۔قیس بن صِرمہ انصاری کا واقعہ ہے کہ وہ صیام سے تھے جب افطار کا وقت آیاتو وہ اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے کہا: ہے تو نہیں،لیکن میں جاتی ہوں اور آپ کے لیے کہیں سے ڈھونڈھ لاتی ہوں،وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے تھے اس لیے ان کی آنکھ لگ گئی۔وہ لوٹ کر آئیں تو انہیں سوتا ہوا پایا،کہا: ہائے رے تمہاری محرومی وبدقسمتی۔پھر جب دوپہر ہو گئی تو قیس پر غشی طاری ہو گئی،نبی اکرم ﷺ سے یہ بات ذکر کی گئی تو اس وقت یہ آیت: أُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إِلَی نِسَآئِکُمْ ۱؎ نازل ہوئی،لوگ اس آیت سے بہت خوش ہوئے۔(اس کے بعدیہ حکم نازل ہو گیا) کُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ ذَرٍّ عَنْ يُسَيِّعٍ الْكِنْدِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ قَالَ الدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَةُ وَقَرَأَ وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِلَی قَوْلِہِ دَاخِرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت: وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ کی تفسیر میں فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے۔پھر آپ نے سورہ مومن کی آیتوَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ سے دَاخِرِینَ ۱؎ تک پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اسے منصور نے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَخْبَرَنَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ قَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّمَا ذَاكَ بَيَاضُ النَّہَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّيْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ذَلِكَ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت: حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنْ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ نازل ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اس سے مراد رات کی تاریکی سے دن کی سفیدی (روشنی) کا نمودار ہو جانا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔-عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے اس سند سے بھی سابقہ حدیث کے ہم مثل حدیث نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ الصَّوْمِ فَقَالَ حَتَّی يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ قَالَ فَأَخَذْتُ عِقَالَيْنِ أَحَدُہُمَا أَبْيَضُ وَالْآخَرُ أَسْوَدُ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْہِمَا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْہُ سُفْيَانُ قَالَ إِنَّمَا ہُوَ اللَّيْلُ وَالنَّہَارُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے صوم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الأَسْوَدِ (یہاں تک کہ سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے) تو میں نے دو ڈوریاں لیں۔ایک سفید تھی دوسری کالی،میں انہیں کو دیکھ کر (سحری کے وقت ہونے یا نہ ہونے کا) فیصلہ کرنے لگا۔رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کچھ باتیں کہیں (ابن ابی عمر کہتے ہیں: میرے استاد) سفیان انہیں یاد نہ رکھ سکے،آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس سے مراد رات اور دن ہے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ قَالَ كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنْ الرُّومِ فَخَرَجَ إِلَيْہِمْ مِنْ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُہُمْ أَوْ أَكْثَرُ وَعَلَی أَہْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ وَعَلَی الْجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَی صَفِّ الرُّومِ حَتَّی دَخَلَ فِيہِمْ فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا سُبْحَانَ اللہِ يُلْقِي بِيَدَيْہِ إِلَی التَّہْلُكَةِ فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَتَأَوَّلُونَ ہَذِہِ الْآيَةَ ہَذَا التَّأْوِيلَ وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللہُ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوہُ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَإِنَّ اللہَ قَدْ أَعَزَّ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوہُ فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْہَا فَأَنْزَلَ اللہُ عَلَی نَبِيِّہِ ﷺ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَی التَّہْلُكَةِ فَكَانَتْ التَّہْلُكَةُ الْإِقَامَةَ عَلَی الْأَمْوَالِ وَإِصْلَاحِہَا وَتَرْكَنَا الْغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللہِ حَتَّی دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

اسلم ابو عمران تجیبی کہتے ہیں: ہم روم شہر میں تھے،رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہیں جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے،عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فوج کے سپہ سالار تھے۔ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔لوگ چیخ پڑے،کہنے لگے: سبحان اللہ! اللہ پاک وبرتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔(یہ سن کر) ۱بوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو،یہ آیت توہم انصار کے بارے میں اتری ہے،جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مدد گار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہو گئے ہیں (یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہو گئی ہیں) اللہ نے اسلام کو قوت وطاقت بخش دی۔اس کے (حمایتی) ومدد گار بڑھ گئے،اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہو جاتے تو جو نقصان ہو گیا ہے اس کمی کو پورا کر لیتے،چنانچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔اللہ نے فرمایا: ’’وَأَنفِقُواْ فِی سَبِیلِ اللّہِ وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۱؎ تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے،اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے (یہی وجہ تھی کہ) ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت وہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سرزمین روم میں مدفون ہوئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَفِيَّ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ وَإِيَّايَ عَنَی بِہَا فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِہِ أَذًی مِنْ رَأْسِہِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِالْحُدَيْبِيَةِ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِكُونَ وَكَانَتْ لِي وَفْرَةٌ فَجَعَلَتْ الْہَوَامُّ تَسَاقَطُ عَلَی وَجْہِي فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ كَأَنَّ ہَوَامَّ رَأْسِكَ تُؤْذِيكَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاحْلِقْ وَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ قَالَ مُجَاہِدٌ الصِّيَامُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَالطَّعَامُ لِسِتَّةِ مَسَاكِينَ وَالنُّسُكُ شَاةٌ فَصَاعِدًا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْقِلٍ عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَصْبِہَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَعْقِلٍ نَحْوَ ہَذَا

مجاہد کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ آیت: فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیضاً أَوْ بِہِ أَذًی مِّن رَّأْسِہِ فَفِدْیَۃٌ مِّن صِیَامٍ أَوْ صَدَقَۃٍ أَوْ نُسُکٍ ۱؎ میرے بارے میں اتری ہم حدیبیہ میں تھے،احرام باندھے ہوئے تھے،مشرکوں نے ہمیں روک رکھا تھا،میرے بال کانوں کے لو کے برابر تھے،سر کے جوئیں چہرے پر گرنے لگیں،نبی اکرم ﷺ کا گزر ہمارے پاس سے ہوا (ہمیں دیکھ کر) آپ نے فرمایا: ’’لگتا ہے تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں،آپ نے فرمایا: ’’سرکو مونڈ ڈالو‘‘،پھر یہ آیت (مذکورہ) اتری۔مجاہد کہتے ہیں: صیام تین دن ہیں،کھانا چھ مسکینوں ۱؎ کو کھلانا ہے۔اور قربانی (کم ازکم) ایک بکری،اور اس سے زیادہ بھی ہے۔کعب بن عجرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اس سند سے بھی اسی طرح روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔کعب بن عجرہ سے اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن اصبہانی نے بھی عبداللہ بن معقل سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ أَتَی عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنَا أُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَی جَبْہَتِي أَوْ قَالَ حَاجِبَيَّ فَقَالَ أَتُؤْذِيكَ ہَوَامُّ رَأْسِكَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاحْلِقْ رَأْسَكَ وَانْسُكْ نَسِيكَةً أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ قَالَ أَيُّوبُ لَا أَدْرِي بِأَيَّتِہِنَّ بَدَأَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔اس وقت میں ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میری پیشانی یا بھوؤں پر بکھر رہی تھیں،آپ نے فرمایا: ’’کیا تمہارے سرکی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں،آپ نے فرمایا: ’’اپنا سر مونڈ ڈالو اور بدلہ میں قربانی کر دو،یا تین دن صوم رکھ لو،یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو‘‘۔ایوب (راوی) کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں رہا کہ (میرے استاذ نے) کون سی چیز پہلے بتائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ أَيَّامُ مِنًی ثَلَاثٌ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْہِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْہِ وَمَنْ أَدْرَكَ عَرَفَةَ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَہَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاہُ الثَّوْرِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ

عبدالرحمٰن بن یعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حج عرفات کی حاضری ہے،حج عرفات کی حاضری ہے۔حج عرفات کی حاضری ہے،منی (میں قیام) کے دن تین ہیں۔مگر جو جلدی کر کے دو دنوں ہی میں واپس ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔اور جو تین دن پورے کر کے گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۲؎ اور جو طلوع فجر سے پہلے عرفہ پہنچ گیا،اس نے حج کو پا لیا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ نے کہا: یہ ثوری کی سب سے عمدہ حدیث ہے،جسے انہوں نے روایت کی ہے،۳-اسے شعبہ نے بھی بکیر بن عطاء سے روایت کیا ہے،۴-اس حدیث کو ہم صرف بکیر بن عطاء کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَی اللہِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو‘‘ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَتْ الْيَہُودُ إِذَا حَاضَتْ امْرَأَةٌ مِنْہُمْ لَمْ يُؤَاكِلُوہَا وَلَمْ يُشَارِبُوہَا وَلَمْ يُجَامِعُوہَا فِي الْبُيُوتِ فَسُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ ذَلِكَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الْمَحِيضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَأَمَرَہُمْ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يُؤَاكِلُوہُنَّ وَيُشَارِبُوہُنَّ وَأَنْ يَكُونُوا مَعَہُنَّ فِي الْبُيُوتِ وَأَنْ يَفْعَلُوا كُلَّ شَيْءٍ مَا خَلَا النِّكَاحَ فَقَالَتْ الْيَہُودُ مَا يُرِيدُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيہِ قَالَ فَجَاءَ عَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأَخْبَرَاہُ بِذَلِكَ وَقَالَا يَا رَسُولَ اللہِ أَفَلَا نَنْكِحُہُنَّ فِي الْمَحِيضِ فَتَمَعَّرَ وَجْہُ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّہُ قَدْ غَضِبَ عَلَيْہِمَا فَقَامَا فَاسْتَقْبَلَتْہُمَا ہَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي أَثَرِہِمَا فَسَقَاہُمَا فَعَلِمَا أَنَّہُ لَمْ يَغْضَبْ عَلَيْہِمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہودیوں کے یہاں جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تھی تو وہ اسے اپنے ساتھ نہ کھلاتے تھے نہ پلاتے تھے۔اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ گھر میں رہنے دیتے تھے،جب نبی اکرم ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت: وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ أَذًی ۱؎ نازل فرمائی،پھر آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ کھلائیں پلائیں اور ان کے ساتھ گھروں میں رہیں۔اور ان کے ساتھ جماع کے سوا (بوس وکنار وغیرہ) سب کچھ کریں،یہودیوں نے کہا: یہ شخص ہمارا کوئی کام نہیں چھوڑتا جس میں ہماری مخالفت نہ کرتا ہو،عباد بن بشیر اور اسید بن حضیر نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ کو یہودیوں کی یہ بات بتائی اور کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے حالت حیض میں جماع (بھی) نہ کریں؟ یہ سن کر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ آپ ان دونوں سے سخت ناراض ہو گئے ہیں۔وہ اٹھ کر (اپنے گھر چلے) ان کے نکلتے ہی آپ ﷺ کے پاس دودھ کا ہدیہ آ گیا،تو آپ ﷺ نے (انہیں بلانے کے لیے) ان کے پیچھے آدمی بھیجا (وہ آگئے) تو آپ نے ان دونوں کو دودھ پلایا،جس سے انہوں نے جانا کہ آپ ان دونوں سے غصہ نہیں ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ،عَنْ ثَابِتٍ،عَنْ أَنَسٍ،نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ ابْنِ المُنْكَدِرِ،سَمِعَ جَابِرًا،يَقُولُ: كَانَتِ اليَہُودُ تَقُولُ: مَنْ أَتَی امْرَأَتَہُ فِي قُبُلِہَا مِنْ دُبُرِہَا كَانَ الوَلَدُ أَحْوَلَ ،فَنَزَلَتْ: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّی شِئْتُمْ [البقرة: 223]: ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

انس رضی اللہ عنہ سے اس سند سے بھی اسی کے ہم معنی روایت ہے۔جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہود کہتے تھے کہ جو اپنی بیوی سے پیچھے کی طرف سے آگے کی شرم گاہ میں (جماع کرے) تو بھینگا لڑکا پیدا ہوگا،اس پر آیت: نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُواْ حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ،عَنْ ابْنِ سَابِطٍ،عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ تَعَالَی: نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّی شِئْتُمْ [البقرة: 223] يَعْنِي: صِمَامًا وَاحِدًا : ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ،وَابْنُ خُثَيْمٍ ہُوَ: عَبْدُ اللہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ،وَابْنُ سَابِطٍ ہُوَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَابِطٍ الجُمَحِيُّ المَكِّيُّ،وَحَفْصَةُ ہِيَ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ. وَيُرْوَی فِي سِمَامٍ وَاحِدٍ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت کریمہ: نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُواْ حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ کی تفسیر میں فرمایا: ’’اس سے مراد ایک سوراخ (یعنی قبل اگلی شرم گاہ) میں دخول ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَشْعَرِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ ہَلَكْتُ قَالَ وَمَا أَہْلَكَكَ قَالَ حَوَّلْتُ رَحْلِي اللَّيْلَةَ قَالَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ شَيْئًا قَالَ فَأُنْزِلَتْ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ ہَذِہِ الْآيَةَ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّی شِئْتُمْ أَقْبِلْ وَأَدْبِرْ وَاتَّقِ الدُّبُرَ وَالْحَيْضَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَيَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَشْعَرِيُّ ہُوَ يَعْقُوبُ الْقُمِّيُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو ہلاک ہو گیا،آپ نے فرمایا: ’’کس چیز نے تمہیں ہلاک کر دیا؟ کہا: رات میں نے سواری تبدیل کر دی (یعنی میں نے بیوی سے آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے صحبت کر لی) ابن عباس کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے (یہ سن کر) انہیں کوئی جواب نہ دیا،تو آپ پر یہ آیت: نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّی شِئْتُمْ نازل ہوئی،بیوی سے آگے سے صحبت کرو چاہے پیچھے کی طرف سے کرو،مگر دبر سے اور حیض سے بچو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّہُ زَوَّجَ أُخْتَہُ رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَكَانَتْ عِنْدَہُ مَا كَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَہَا تَطْلِيقَةً لَمْ يُرَاجِعْہَا حَتَّی انْقَضَتْ الْعِدَّةُ فَہَوِيَہَا وَہَوِيَتْہُ ثُمَّ خَطَبَہَا مَعَ الْخُطَّابِ فَقَالَ لَہُ يَا لُكَعُ أَكْرَمْتُكَ بِہَا وَزَوَّجْتُكَہَا فَطَلَّقْتَہَا وَاللہِ لَا تَرْجِعُ إِلَيْكَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَيْكَ قَالَ فَعَلِمَ اللہُ حَاجَتَہُ إِلَيْہَا وَحَاجَتَہَا إِلَی بَعْلِہَا فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی وَإِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ إِلَی قَوْلِہِ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ فَلَمَّا سَمِعَہَا مَعْقِلٌ قَالَ سَمْعًا لِرَبِّي وَطَاعَةً ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ أُزَوِّجُكَ وَأُكْرِمُكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْحَسَنِ وَہُوَ عَنْ الْحَسَنِ غَرِيبٌ وَفِي ہَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَی أَنَّہُ لَا يَجُوزُ النِّكَاحُ بِغَيْرِ وَلِيٍّ لِأَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ كَانَتْ ثَيِّبًا فَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ إِلَيْہَا دُونَ وَلِيِّہَا لَزَوَّجَتْ نَفْسَہَا وَلَمْ تَحْتَجْ إِلَی وَلِيِّہَا مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَإِنَّمَا خَاطَبَ اللہُ فِي ہَذِہِ الْآيَةِ الْأَوْلِيَاءَ فَقَالَ لَا تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ فَفِي ہَذِہِ الْآيَةِ دَلَالَةٌ عَلَی أَنَّ الْأَمْرَ إِلَی الْأَوْلِيَاءِ فِي التَّزْوِيجِ مَعَ رِضَاہُنَّ

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم کے زمانے میں اپنی بہن کی شادی ایک مسلمان شخص سے کر دی۔وہ اس کے یہاں کچھ عرصے تک رہیں،پھر اس نے انہیں ایسی طلاق دی کہ اس کے بعد ان سے رجوع نہ کیا یہاں تک کہ عدت کی مدت ختم ہو گئی۔پھر دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی خواہش وچاہت پیدا ہوئی اور (دوسرے) پیغام نکاح دینے والوں کے ساتھ اس نے بھی پیغام نکاح دیا۔معقل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: بیوقوف! میں نے تمہاری شادی اس سے کر کے تیری عزت افزائی کی تھی پھر بھی تو اسے طلاق دے بیٹھا،قسم اللہ کی! اب وہ تمہاری طرف زندگی بھر کبھی بھی لوٹ نہیں سکتی،اور اللہ معلوم تھا کہ اس شخص کو اس عورت کی حاجت وخواہش ہے اور اس عورت کو اس شخص کی حاجت وچاہت ہے۔تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ سے وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ۱؎ تک نازل فرمائی۔جب معقل رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سنی تو کہا: اب اپنے رب کی بات سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں (یہ کہہ کر) بلایا اور کہا: میں تمہاری شادی (دو بارہ) کیے دیتا ہوں اور تجھے عزت بخشتا ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ کئی سندوں سے حسن بصری سے مروی ہے۔حسن بصری کے واسطہ سے یہ غریب ہے،۳-اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہے۔اس لیے کہ معقل بن یسار کی بہن ثیبہ تھیں۔اگر ولی کی بجائے معاملہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ اپنی شادی آپ کر سکتی تھیں اور وہ اپنے ولی معقل بن یسار کی محتاج نہ ہوتیں۔آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو خطاب کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اپنے (سابق) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔تو اس آیت میں اس بات کا ثبوت ہے کہ نکاح کا معاملہ عورتوں کی رضامندی کے ساتھ اولیاء کے ہاتھ میں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَی عَائِشَةَ قَالَ أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا أَنْ أَكْتُبَ لَہَا مُصْحَفًا فَقَالَتْ إِذَا بَلَغْتَ ہَذِہِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی فَلَمَّا بَلَغْتُہَا آذَنْتُہَا فَأَمْلَتْ عَلَيَّ حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَی وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِينَ وَقَالَتْ سَمِعْتُہَا مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَفِي الْبَاب عَنْ حَفْصَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ابو یونس کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھ کر تیار کر دوں۔اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تم آیت: حَافِظُواْ عَلَی الصَّلَوَاتِ والصَّلاَۃِ الْوُسْطَی ۱؎ پر پہنچو تو مجھے خبر دو،چنانچہ جب میں اس آیت پرپہنچا اور میں نے انہیں خبر دی،تو انہوں نے مجھے بول کر لکھایاحَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَۃِ الْوُسْطَی وَصَلاَۃِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِینَ ۱؎ (صلاتوں پر مداومت کرو اور درمیانی صلاۃ کا خاص خیال کرو۔اور صلاۃ عصر کا بھی خاص دھیان رکھو۔اور اللہ کے آگے خضوع وخشوع سے کھڑے ہوا کرو)۔اور انہوں نے کہا کہ میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ نَبِيَّ اللہِ ﷺ قَالَ صَلَاةُ الْوُسْطَی صَلَاةُ الْعَصْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’صلاۃ الوسطیٰ (بیچ کی صلاۃ) صلاۃ عصر ہے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ أَنَّ عَلِيًّا حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ اللہُمَّ امْلَأْ قُبُورَہُمْ وَبُيُوتَہُمْ نَارًا كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَی حَتَّی غَابَتْ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَلِيٍّ وَأَبُو حَسَّانَ الْأَعْرَجُ اسْمُہُ مُسْلِمٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جنگ احزاب کے دن فرمایا: ’’اے اللہ! ان کفار ومشرکین کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے جیسے کہ انہوں نے ہمیں درمیانی صلاۃ (صلاۃ عصر) پڑھنے سے روکے رکھا،یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ سے متعدد سندوں سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ وَأَبُو دَاوُدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ صَلَاةُ الْوُسْطَی صَلَاةُ الْعَصْرِ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَبِي ہَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’صلاۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی صلاۃ ہے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں زید بن ثابت،ابو ہاشم بن عتبہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَيَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ كُنَّا نَتَكَلَّمُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الصَّلَاةِ فَنَزَلَتْ وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِينَ فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَہُ وَزَادَ فِيہِ وَنُہِينَا عَنْ الْكَلَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُہُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں صلاۃ کے اندر باتیں کیا کرتے تھے،تو جب آیت قوموا للہ قانتین (البقرۃ: ۲۳۸) نازل ہوئی تو ہمیں چپ رہنے کا حکم ملا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی کہتے ہیں: اسماعیل بن ابی خالد نے اسی طرح بیان کیا اور انہوں نے اس میں ’’نہینا عن الکلام‘‘ کا اضافہ کیا۔(ہم بات چیت سے روک دیئے گئے)۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي مَالِكٍ عَنْ الْبَرَاءِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ قَالَ نَزَلَتْ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ كُنَّا أَصْحَابَ نَخْلٍ فَكَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي مِنْ نَخْلِہِ عَلَی قَدْرِ كَثْرَتِہِ وَقِلَّتِہِ وَكَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي بِالْقِنْوِ وَالْقِنْوَيْنِ فَيُعَلِّقُہُ فِي الْمَسْجِدِ وَكَانَ أَہْلُ الصُّفَّة لَيْسَ لَہُمْ طَعَامٌ فَكَانَ أَحَدُہُمْ إِذَا جَاعَ أَتَی الْقِنْوَ فَضَرَبَہُ بِعَصَاہُ فَيَسْقُطُ مِنْ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ فَيَأْكُلُ وَكَانَ نَاسٌ مِمَّنْ لَا يَرْغَبُ فِي الْخَيْرِ يَأْتِي الرَّجُلُ بِالْقِنْوِ فِيہِ الشِّيصُ وَالْحَشَفُ وَبِالْقِنْوِ قَدْ انْكَسَرَ فَيُعَلِّقُہُ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ تَعَالَی يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنْ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيہِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيہِ قَالَ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أُہْدِيَ إِلَيْہِ مِثْلُ مَا أَعْطَاہُ لَمْ يَأْخُذْہُ إِلَّا عَلَی إِغْمَاضٍ أَوْ حَيَاءٍ قَالَ فَكُنَّا بَعْدَ ذَلِكَ يَأْتِي أَحَدُنَا بِصَالِحِ مَا عِنْدَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَالِكٍ ہُوَ الْغِفَارِيُّ وَيُقَالُ اسْمُہُ غَزْوَانُ وَقَدْ رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ السُّدِّيِّ شَيْئًا مِنْ ہَذَا

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آیت وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ ۱؎ ہم گروہ انصار کے بارے میں اتری ہے۔ہم کھجور والے لوگ تھے،ہم میں سے کوئی آدمی اپنی کھجوروں کی کم وبیش پیداوار ومقدار کے اعتبار سے زیادہ یا تھوڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آتا۔بعض لوگ کھجور کے ایک دو گچھے لے کر آتے،اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتے،اہل صفہ کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ گچھے کے پاس آتا اور اسے چھڑی سے جھاڑتا کچی اور پکی کھجوریں اور گرتیں پھر وہ انہیں کھا لیتا۔کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں خیر سے رغبت ودلچسپی نہ تھی،وہ ایسے گچھے لاتے جس میں خراب،ردی اور گلی سڑی کھجوریں ہوتیں اور بعض گچھے ٹوٹے بھی ہوتے،وہ انہیں لٹکا دیتے۔اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آیت یَا ایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ إِلاَّ أَنْ تُغْمِضُوا فِیہِ ۲؎ نازل فرمائی۔لوگوں نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کو ویسا ہی ہدیہ دیا جائے جیسا دین سے بیزار لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیا تو وہ اسے نہیں لے گا اور لے گا بھی تو منہ موڑ کر،اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنے پاس موجود عمدہ چیز میں سے لانے لگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-سفیان ثوری نے سدی سے اس روایت میں سے کچھ روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ مُرَّةَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّہُ مِنْ اللہِ فَلْيَحْمَدْ اللہَ وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَی فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللہِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ثُمَّ قَرَأَ الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمْ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہُوَ حَدِيثُ أَبِي الْأَحْوَصِ لَا نَعْلَمُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’آدمی پر شیطان کا اثر (وسوسہ) ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی اثر (الہام) ہوتا ہے۔شیطان کا اثر یہ ہے کہ انسان سے برائی کا وعدہ کرتا ہے،اور حق کو جھٹلاتا ہے۔اور فرشتے کا اثر یہ ہے کہ وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے،اور حق کی تصدیق کرتا ہے۔تو جو شخص یہ پائے ۱؎ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔اور جو دوسرا اثر پائے یعنی شیطان کا تو شیطان سے اللہ کی پناہ حاصل کرے۔پھر آپ نے آیت الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمْ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَائِ ۲؎ پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوالاحوص کی یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف ابوالا ٔحوص کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللہَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ يَا أَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ قَالَ وَذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَہُ إِلَی السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّی يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَإِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ وَأَبُو حَازِمٍ ہُوَ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُہُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’لوگو! اللہ پاک ہے اور حلال وپاک چیز کوہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔اللہ نے فرمایا: ’’یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ ۱؎ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے یَا ایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ ۲؎ (پھر) آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے،پریشان حال اور غبار آلود ہے۔آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے (میرے رب! اے میرے رب!) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے،اس پینا حرام ہے،اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہوگی‘‘ ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف فضیل بن مرزوق کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ قَالَ حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيًّا يَقُولُ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللہُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ الْآيَةَ أَحْزَنَتْنَا قَالَ قُلْنَا يُحَدِّثُ أَحَدُنَا نَفْسَہُ فَيُحَاسَبُ بِہِ لَا نَدْرِي مَا يُغْفَرُ مِنْہُ وَلَا مَا لَا يُغْفَرُ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ بَعْدَہَا فَنَسَخَتْہَا لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَا اكْتَسَبَتْ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت إِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَشَائُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَشَائُ ۱؎ نازل ہوئی۔تو اس نے ہم سب کو فکر وغم میں مبتلا کر دیا۔ہم نے کہا: ہم میں سے کوئی اپنے دل میں باتیں کرے پھر اس کا حساب لیا جائے۔ہمیں معلوم نہیں اس میں سے کیا بخشا جائے گا اور کیا نہیں بخشا جائے؟۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی لاَ یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ ۲؎ اور اس آیت نے اس سے پہلی والی آیت کو منسوخ کر دیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أُمَيَّةَ أَنَّہَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ عَنْ قَوْلِ اللہِ تَعَالَی إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللہُ وَعَنْ قَوْلِہِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِہِ فَقَالَتْ مَا سَأَلَنِي عَنْہَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ ہَذِہِ مُعَاتَبَةُ اللہِ الْعَبْدَ فِيمَا يُصِيبُہُ مِنْ الْحُمَّی وَالنَّكْبَةِ حَتَّی الْبِضَاعَةُ يَضَعُہَا فِي كُمِّ قَمِيصِہِ فَيَفْقِدُہَا فَيَفْزَعُ لَہَا حَتَّی إِنَّ الْعَبْدَ لَيَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِہِ كَمَا يَخْرُجُ التِّبْرُ الْأَحْمَرُ مِنْ الْكِيرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ

امیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول إِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ ۱؎ (اور (دوسرے) قول مَنْ یَعْمَلْ سُوئًا یُجْزَ بِہِ ۲؎ کا مطلب پوچھا،تو انہوں نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے ان کا مطلب پوچھا ہے تب سے (تمہارے سوا) کسی نے مجھ سے ان کا مطلب نہیں پوچھا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’یہ اللہ کی جانب سے بخار اور مصیبت (وغیرہ) میں مبتلا کر کے بندے کی سرزنش ہے۔یہاں تک کہ وہ سامان جو وہ اپنی قمیص کی آستین میں رکھ لیتا ہے پھر گم کر دیتا ہے پھر وہ گھبراتا اور اس کے لیے پریشان ہوتا ہے،یہاں تک کہ بندہ اپنے گناہوں سے ویسے ہی پاک وصاف ہو جاتا ہے جیسا کہ سرخ سونا بھٹی سے (صاف ستھرا) نکلتا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوہُ يُحَاسِبْكُمْ بِہِ اللہُ قَالَ دَخَلَ قُلُوبَہُمْ مِنْہُ شَيْءٌ لَمْ يَدْخُلْ مِنْ شَيْءٍ فَقَالُوا لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ قُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا فَأَلْقَی اللہُ الْإِيمَانَ فِي قُلُوبِہِمْ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ الْآيَةَ لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْہَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا قَالَ قَدْ فَعَلْتُ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا قَالَ قَدْ فَعَلْتُ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِہِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا الْآيَةَ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ وَآدَمُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُقَالُ ہُوَ وَالِدُ يَحْيَی بْنِ آدَمَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت إِنْ تُبْدُوا مَا فِی أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللہُ نازل ہوئی تو لوگوں کے دلوں میں ایسا خوف وخطر پیدا ہوا جو اور کسی چیز سے پیدا نہ ہوا تھا۔لوگوں نے یہ بات نبی اکرم ﷺ سے کہی تو آپ نے فرمایا: ’’(پہلے تو) تم ’’سمعنا واطعنا‘‘کہو یعنی ہم نے سنا اور ہم نے بے چون وچرا بات مان لی،(چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کہا) تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا۔اور اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ سے لے کر آخری آیت لاَ یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَتُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا،اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا (تمہاری دعا قبول کر لی) ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا اللہ نے فرمایا: ’’میں نے تمہارا کہا کر دیا،اے اللہ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی طاقت ہم میں نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما،اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما‘‘،اللہ نے فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا (یعنی تمہاری دعا قبول کر لی)‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دوسری سند سے بھی مروی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مِسْعَرٍ وَغَيْرِہِ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْيَہُودِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ عَلَيْنَا أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا فَقَالَ لَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنِّي أَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: امیرالمومنین! اگر یہ آیت الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الإِسْلاَمَ دِینًا ۱؎ ہمارے اوپر (ہماری توریت میں) نازل ہوتی توہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی تھی،عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی۔یہ آیت یوم عرفہ (نویں ذی الحجہ) کو جمعہ کے دن نازل ہوئی تھی ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ قَالَ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا وَعِنْدَہُ يَہُودِيٌّ فَقَالَ لَوْ أُنْزِلَتْ ہَذِہِ عَلَيْنَا لَاتَّخَذْنَا يَوْمَہَا عِيدًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنَّہَا نَزَلَتْ فِي يَوْمِ عِيدٍ فِي يَوْمِ جُمْعَةٍ وَيَوْمِ عَرَفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ

عمار بن ابی عمار کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الإِسْلاَمَ دِینًا پڑھی،ان کے پاس ایک یہودی بیٹھا ہوا تھا۔اس نے کہا: اگر یہ آیت ہم (یہودیوں) پر نازل ہوئی ہوتی تو جس دن یہ آیت نازل ہوئی ہے اس دن کو ہم عید (تہوار) کا دن بنا لیتے یہ سن کر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ آیت عید ہی کے دن نازل ہوئی ہے۔اس دن جمعہ اور عرفہ کا دن تھا۔(اور یہ دونوں دن مسلمانوں کی عید کے دن ہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَمِينُ الرَّحْمَنِ مَلْأَی سَحَّاءُ لَا يُغِيضُہَا اللَّيْلُ وَالنَّہَارُ قَالَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَإِنَّہُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَمِينِہِ وَعَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ وَبِيَدِہِ الْأُخْرَی الْمِيزَانُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَتَفْسِيرُ ہَذِہِ الْآيَةِ وَقَالَتْ الْيَہُودُ يَدُ اللہِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيہِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَہَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَتْہُ الْأَئِمَّةُ نُؤْمِنُ بِہِ كَمَا جَاءَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُفَسَّرَ أَوْ يُتَوَہَّمَ ہَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ مِنْہِمْ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَابْنُ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ تُرْوَی ہَذِہِ الْأَشْيَاءُ وَيُؤْمَنُ بِہَا وَلَا يُقَالُ كَيْفَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتا ہے،(کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش وعطا کرتا رہتا ہے،رات ودن لُٹا نے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیں ہوتی،آپ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟) جب سے اللہ نے آسمان پیدا کیے ہیں کتنا خرچ کر چکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کر چکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔اس کا عرش پانی پر ہے،اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم)‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔یہ حدیث اس آیت وَقَالَتِ الْیَہُودُ یَدُ اللہِ مَغْلُولَۃٌ غُلَّتْ أَیْدِیہِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوطَتَانِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَائُ ۱؎ کی تفسیر ہے،اس حدیث کے بارے میں ائمہ دین کی روایت یہ ہے کہ ان پر ویسے ہی ایمان لائیں گے جیسے کہ ان کا ذکر آیا ہے،ان کی نہ کوئی تفسیر کی جائے گی اور نہ ہی کسی طرح کا وہم وقیاس لڑایا جائے گا۔ایسا ہی بہت سے ائمہ کرام: سفیان ثوری،مالک بن انس،سفیان بن عیینہ،ابن مبارک وغیر ہم نے کہا ہے۔یہ چیزیں ایسی ہی بیان کی جائیں گی جیسی بیان کی گئی ہیں اور ان پر ایمان رکھا جائے گا لیکن ان کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا ۲؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُحْرَسُ حَتَّی نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنْ النَّاسِ فَأَخْرَجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَأْسَہُ مِنْ الْقُبَّةِ فَقَالَ لَہُمْ يَا أَيُّہَا النَّاسُ انْصَرِفُوا فَقَدْ عَصَمَنِي اللہُ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُحْرَسُ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ کی حفاظت ونگرانی کی جاتی تھی۔یہاں تک کہ جب آیت وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ۱؎ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر خیمہ سے باہر نکالا اور پہرہ داروں سے کہا: تم (اپنے گھروں کو) لوٹ جاؤ کیونکہ میری حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لے لی ہے ۲؎۔اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔بعض نے یہ حدیث جریری کے واسطہ سے،عبداللہ بن شقیق سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کی حفاظت ونگہبانی کی جاتی تھی،اور انہوں نے اس روایت میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ فِي الْمَعَاصِي نَہَتْہُمْ عُلَمَاؤُہُمْ فَلَمْ يَنْتَہُوا فَجَالَسُوہُمْ فِي مَجَالِسِہِمْ وَوَاكَلُوہُمْ وَشَارَبُوہُمْ فَضَرَبَ اللہُ قُلُوبَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ وَلَعَنَہُمْ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ قَالَ فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَقَالَ لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ حَتَّی تَأْطُرُوہُمْ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ يَزِيدُ وَكَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ لَا يَقُولُ فِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَبَعْضُہُمْ يَقُولُ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہو گئے تو انہیں ان کے علماء نے روکا مگر وہ لوگ باز نہ آئے،اس کے باوجود وہ (علمائ) ان کی مجلسوں میں ان کے ساتھ بیٹھے،ان کے ساتھ مل کر مل کر کھائے پئے تو اللہ نے بعض کے دل بعض سے ملا دیئے ۱؎ اور ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی،اور ایسا اس وجہ سے ہوا کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور مقررہ حدود سے آگے بڑھ جاتے تھے،پھر رسول اللہ ﷺ سنبھل کر بیٹھ گئے۔حالانکہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے،آپ نے فرمایا: ’’نہیں،قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! تم اس وقت تک نجات نہ پاؤ گے جب تک کہ (تم ان بدکاروں کو برائی سے روک نہ دو)۔ان کو بھلائی کی طرف موڑ نہ دو‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کہتے ہیں: یزید نے کہا کہ سفیان ثوری اس روایت میں عبداللہ بن مسعود کا نام نہیں لیتے ہیں،۳-یہ حدیث محمد بن مسلم بن ابی الوضاح سے بھی روایت کی گئی ہے،وہ علی بن بذیمہ سے،علی بن بذیمہ ابو عبیدہ سے اور ابو عبیدہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں،۴-بعض راوی اسے ابو عبیدہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسل روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَمَّا وَقَعَ فِيہِمْ النَّقْصُ كَانَ الرَّجُلُ فِيہِمْ يَرَی أَخَاہُ عَلَی الذَّنْبِ فَيَنْہَاہُ عَنْہُ فَإِذَا كَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْہُ مَا رَأَی مِنْہُ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَہُ وَشَرِيبَہُ وَخَلِيطَہُ فَضَرَبَ اللہُ قُلُوبَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيہِمْ الْقُرْآنُ فَقَالَ لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ فَقَرَأَ حَتَّی بَلَغَ وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللہِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْہِ مَا اتَّخَذُوہُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْہُمْ فَاسِقُونَ قَالَ وَكَانَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ لَا حَتَّی تَأْخُذُوا عَلَی يَدِ الظَّالِمِ فَتَأْطُرُوہُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ وَأَمْلَاہُ عَلَيَّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ أَبِي الْوَضَّاحِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ

ابو عبیدہ (بن عبداللہ بن مسعود) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل میں جب کوتاہیاں وبرائیاں پیدا ہوئیں تو اس وقت حال یہ تھا کہ آدمی اپنے بھائی کو گناہ میں مبتلا دیکھتا تو اسے اس گناہ کے کرنے سے روکتا،لیکن جب دوسرا دن آتا تو جو کچھ اس نے اسے کرتے دیکھا تھا وہ چیز اسے اس کا ہم نوالہ وہم پیالہ اور ہم مجلس ہونے سے نہ روکتی،نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے دل ایک دوسرے سے ملا دیئے اور انہی لوگوں کے متعلق قرآن نازل ہوا،آپ نے لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَسے لے کر وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللہِ وَالنَّبِیِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوہُمْ أَوْلِیَائَ وَلَکِنَّ کَثِیرًا مِنْہُمْ فَاسِقُونَ ۱؎ تک پڑھا۔یہ باتیں کرتے وقت نبی اکرم ﷺ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے،لیکن جب گفتگو اس مقام پر پہنچی تو آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا: ’’نہیں،تم نجات نہ پاؤ گے،تم عذاب الٰہی سے بچ نہ سکو گے جب تک کہ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ نہ لو،اور اسے پوری طرح حق کی طرف موڑ نہ دو‘‘۔اس سند سے محمد بن مسلم نے علی بن بذیمہ سے علی بن بذیمہ نے ابو عبیدہ سے،اور ابو عبیدہ نے عبداللہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ۲؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ أَبِي مَيْسَرَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّہُ قَالَ اللہُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانَ شِفَاءٍ فَنَزَلَتْ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ يَسْأَلُونَكَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ الْآيَةَ فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْہِ فَقَالَ اللہُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانَ شِفَاءٍ فَنَزَلَتْ الَّتِي فِي النِّسَاءِ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَی فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْہِ ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ بَيِّنَ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانَ شِفَاءٍ فَنَزَلَتْ الَّتِي فِي الْمَائِدَةِ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ إِلَی قَوْلِہِ فَہَلْ أَنْتُمْ مُنْتَہُونَ فَدُعِيَ عُمَرُ فَقُرِئَتْ عَلَيْہِ فَقَالَ انْتَہَيْنَا انْتَہَيْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِسْرَائِيلَ ہَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ اللہُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانَ شِفَاءٍ فَذَكَرَ نَحْوَہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے دعا کی اے اللہ شراب کے بارے میں ہمارے لیے تسلی بخش صاف صاف حکم بیان فرما،تو سورہ بقرہ کی پوری آیت یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ۱؎ نازل ہوئی۔جب یہ آیت نازل ہو چکی) تو عمر رضی اللہ عنہ بلائے گئے اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی۔(یہ آیت سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: اے اللہ! ہمارے لیے شراب کا واضح حکم بیان فرمایا: ’’تو سورہ نساء کی آیت یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَقْرَبُوا الصَّلاۃَ وَأَنْتُمْ سُکَارَی۲؎ نازل ہوئی،عمر پھر بلائے گئے اور انہیں یہ آیت بھی پڑھ کر سنائی گئی،انہوں نے پھر کہا: اے اللہ! ہمارے لیے شراب کا حکم صاف صاف بیان فرما دے۔تو سورہ مائدہ کی آیت إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَنْ یُوقِعَ بَیْنَکُمْ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِسے فَہَلْ أَنْتُمْ مُنْتَہُونَ ۳؎ تک نازل ہوئی،عمر رضی اللہ عنہ پھر بلائے گئے اور آیت پڑھ کر انہیں سنائی گئی،تو انہوں نے کہا: ہم باز رہے ہم باز رہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسرائیل سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔مولف نے اسرائیل کے مرسل طریق سے بسند ابی اسحاق عن ابی میسرہ عمرو بن شرحبیل عن عمر بن الخطاب روایت کی کہ آپ نے کہا: اے اللہ! ہمارے لیے شراب کا حکم صاف صاف بیان فرما۔پھر گزری ہوئی حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: اور یہ روایت محمد بن یوسف کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۴؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ مَاتَ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ الْخَمْرُ فَلَمَّا حُرِّمَتْ الْخَمْرُ قَالَ رِجَالٌ كَيْفَ بِأَصْحَابِنَا وَقَدْ مَاتُوا يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَی الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ أَيْضًا

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: شراب کے حرام ہونے سے پہلے نبی اکرم ﷺ کے کچھ صحابہ انتقال فرما گئے۔پھر جب شراب حرام ہو گئی تو کچھ لوگوں نے کہا: ہمارے ان ساتھیوں کا کیا ہوگا جو شراب پیتے تھے اور انتقال کر گئے،تو آیت نازل ہوئی لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے بھی ابواسحاق کے واسطہ سے براء سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ قَالَ الْبَرَاءُ مَاتَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَہُمْ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ فَلَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُہَا قَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَكَيْفَ بِأَصْحَابِنَا الَّذِينَ مَاتُوا وَہُمْ يَشْرَبُونَہَا فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَی الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اس سند سے ابو اسحاق نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کے کچھ صحابہ انتقال کر گئے،وہ لوگ شراب پیتے تھے،پھر شراب کی حرمت آ گئی تو نبی اکرم ﷺ کے کچھ صحابہ نے کہا: ہمارے ان ساتھیوں کا کیا حال ہوگا؟ جو شراب پیتے تھے اور وہ مر چکے ہیں؟ تو (اس وقت) آیت لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ الَّذِينَ مَاتُوا وَہُمْ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ لَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَی الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ شراب پیتے تھے اور مر گئے ان کا کیا ہوگا؟ اس وقت آیت لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۱؎ نازل ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْہِرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ لَيْسَ عَلَی الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْتَ مِنْہُمْ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم انہی میں سے ہو‘‘ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ الْفَلَّاسُ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي إِذَا أَصَبْتُ اللَّحْمَ انْتَشَرْتُ لِلنِّسَاءِ وَأَخَذَتْنِي شَہْوَتِي فَحَرَّمْتُ عَلَيَّ اللَّحْمَ فَأَنْزَلَ اللہُ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمْ اللہُ حَلَالًا طَيِّبًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ سَعْدٍ مُرْسَلًا لَيْسَ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَاہُ خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں گوشت کھا لیتا ہوں تو عورت کے لیے بے چین ہو جاتا ہوں،مجھ پر شہوت چھا جاتی ہے۔چنانچہ میں نے اپنے آپ پر گوشت کھانا حرام کر لیا ہے۔(اس پر) اللہ نے آیت یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ وَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ اللہُ حَلاَلاً طَیِّبًا ۱؎ نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض محدثین نے اسے عثمان بن سعد سے مرسلاً روایت کیا ہے،اس میں ابن عباس سے روایت کا ذکر نہیں ہے،۳-خالد حذاء نے بھی اس حدیث کو عکرمہ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا مُنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْہِ سَبِيلًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ فِي كُلِّ عَامٍ فَسَكَتَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ فِي كُلِّ عَامٍ قَالَ لَا وَلَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ فَأَنْزَلَ اللہُ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلاً (جو لوگ خانہ کعبہ تک پہنچ سکتے ہوں ان پر اللہ کے حکم سے حج کرنا فرض ہے۔آل عمران: ۹۷) تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہر سال؟ آپ خاموش رہے،لوگوں نے پھر کہا: اللہ کے رسول! کیا ہر سال فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال کے لیے فرض ہو جاتا،پھر اللہ نے یہ آیت اتاری: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ ’’اے ایمان والو! بہت سی ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار معلوم ہو‘‘ (المائدۃ: ۱۰۱)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-اور اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ أَبُو عَبْدِ اللہِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي مُوسَی بْنُ أَنَسٍ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوكَ فُلَانٌ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: ’’تمہارا باپ فلاں ہے،راوی کہتے ہیں: پھر یہ آیت نازل ہوئی: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْیَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ (اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کر دی جائیں تو تم کو برا لگے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّہُ قَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ ہَذِہِ الْآيَةَ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَيْتُمْ وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ظَالِمًا فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَی يَدَيْہِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّہُمْ اللہُ بِعِقَابٍ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ مَرْفُوعًا وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ قَيْسٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ قَوْلَہُ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ ۱؎ اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا بھی ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں پھر بھی اس کے ہاتھ پکڑ نہ لیں (اسے ظلم کرنے سے روک نہ دیں) تو قریب ہے کہ ان پر اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آ جائے (اور وہ ان سب کو اپنی گرفت میں لے لے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-کئی ایک نے یہ حدیث اسماعیل بن خالد سے مرفوعاً اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۳-بعض لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے بلکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول کے طور پر اسماعیل سے،اسماعیل نے قیس سے اور قیس نے ابو بکر سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ جَارِيَةَ اللَّخْمِيُّ عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ قَالَ أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ فَقُلْتُ لَہُ كَيْفَ تَصْنَعُ بِہَذِہِ الْآيَةِ قَالَ أَيَّةُ آيَةٍ قُلْتُ قَوْلُہُ تَعَالَی يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَيْتُمْ قَالَ أَمَا وَاللہِ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْہَا خَبِيرًا سَأَلْتُ عَنْہَا رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ بَلْ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنَاہَوْا عَنْ الْمُنْكَرِ حَتَّی إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَہَوًی مُتَّبَعًا وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِہِ فَعَلَيْكَ بِخَاصَّةِ نَفْسِكَ وَدَعْ الْعَوَامَّ فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا الصَّبْرُ فِيہِنَّ مِثْلُ الْقَبْضِ عَلَی الْجَمْرِ لِلْعَامِلِ فِيہِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ مِثْلَ عَمَلِكُمْ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَزَادَنِي غَيْرُ عُتْبَةَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنَّا أَوْ مِنْہُمْ قَالَ بَلْ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابو امیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر پوچھا: اس آیت کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: آیت یہ ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا عَلَیْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُمْ انہوں نے کہا: آگاہ رہو! قسم اللہ کی تم نے اس کے متعلق ایک واقف کار سے پوچھا ہے،میں نے خود اس آیت کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا،آپ نے فرمایا: ’’بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو،یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ لوگ بخالت کے راستے پر چل پڑے ہیں،خواہشات نفس کے پیرو ہو گئے ہیں،دنیا کو آخرت پر حاصل دی جا رہی ہے اور ہر عقل ورائے والا بس اپنی ہی عقل ورائے پر مست اور مگن ہے تو تم خود اپنی فکر میں لگ جاؤ،اپنے آپ کو سنبھالو،بچاؤ اور عوام کو چھوڑ دو،کیوں کہ تمہارے پیچھے ایسے دن آنے والے ہیں کہ اس وقت صبر کرنا (کسی بات پر جمے رہنا) ایسا مشکل کام ہوگا جتنا کہ انگارے کو مٹھی میں پکڑے رہنا،اس زمانہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے والے کو تم جیسے پچاس کام کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا۔(اس حدیث کے راوی) عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عتبہ کے سوا اور کئی راویوں نے مجھ سے اور زیادہ بیان کیا ہے۔کہا گیا: اللہ کے رسول! (ابھی آپ نے جو بتایا ہے کہ پچاس عمل صالح کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا تو) یہ پچاس عمل صالح کرنے والے ہم میں سے مراد ہیں یا اس زمانہ کے لوگوں میں سے مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں،بلکہ اس زمانہ کے،تم میں سے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ بَاذَانَ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ فِي ہَذِہِ الْآيَةِ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا شَہَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَر أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ قَالَ بَرِئَ مِنْہَا النَّاسُ غَيْرِي وَغَيْرَ عَدِيَّ بْنِ بَدَّاءٍ وَكَانَا نَصْرَانِيَّيْنِ يَخْتَلِفَانِ إِلَی الشَّامِ قَبْلَ الْإِسْلَامِ فَأَتَيَا الشَّامَ لِتِجَارَتِہِمَا وَقَدِمَ عَلَيْہِمَا مَوْلًی لِبَنِي ہَاشِمٍ يُقَالُ لَہُ بُدَيْلُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ بِتِجَارَةٍ وَمَعَہُ جَامٌ مِنْ فِضَّةٍ يُرِيدُ بِہِ الْمَلِكَ وَہُوَ عُظْمُ تِجَارَتِہِ فَمَرِضَ فَأَوْصَی إِلَيْہِمَا وَأَمَرَہُمَا أَنْ يُبَلِّغَا مَا تَرَكَ أَہْلَہُ قَالَ تَمِيمٌ فَلَمَّا مَاتَ أَخَذْنَا ذَلِكَ الْجَامَ فَبِعْنَاہُ بِأَلْفِ دِرْہَمٍ ثُمَّ اقْتَسَمْنَاہُ أَنَا وَعَدِيُّ بْنُ بَدَّاءٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا إِلَی أَہْلِہِ دَفَعْنَا إِلَيْہِمْ مَا كَانَ مَعَنَا وَفَقَدُوا الْجَامَ فَسَأَلُونَا عَنْہُ فَقُلْنَا مَا تَرَكَ غَيْرَ ہَذَا وَمَا دَفَعَ إِلَيْنَا غَيْرَہُ قَالَ تَمِيمٌ فَلَمَّا أَسْلَمْتُ بَعْدَ قُدُومِ رَسُولِ اللہِ ﷺ الْمَدِينَةَ تَأَثَّمْتُ مِنْ ذَلِكَ فَأَتَيْتُ أَہْلَہُ فَأَخْبَرْتُہُمْ الْخَبَرَ وَأَدَّيْتُ إِلَيْہِمْ خَمْسَ مِائَةِ دِرْہَمٍ وَأَخْبَرْتُہُمْ أَنَّ عِنْدَ صَاحِبِي مِثْلَہَا فَأَتَوْا بِہِ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَسَأَلَہُمْ الْبَيِّنَةَ فَلَمْ يَجِدُوا فَأَمَرَہُمْ أَنْ يَسْتَحْلِفُوہُ بِمَا يُقْطَعُ بِہِ عَلَی أَہْلِ دِينِہِ فَحَلَفَ فَأَنْزَلَ اللہُ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا شَہَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ إِلَی قَوْلِہِ أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِہِمْ فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَحَلَفَا فَنُزِعَتْ الْخَمْسُ مِائَةِ دِرْہَمٍ مِنْ عَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِصَحِيحٍ وَأَبُو النَّضْرِ الَّذِي رَوَی عَنْہُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ ہَذَا الْحَدِيثَ ہُوَ عِنْدِي مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْكَلْبِيُّ يُكْنَی أَبَا النَّضْرِ وَقَدْ تَرَكَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ وَہُوَ صَاحِبُ التَّفْسِيرِ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْكَلْبِيُّ يُكْنَی أَبَا النَّضْرِ وَلَا نَعْرِفُ لِسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ الْمَدَنِيِّ رِوَايَةً عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْءٌ مِنْ ہَذَا عَلَی الِاخْتِصَارِ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ اس آیت یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ إِذَا حَضَر أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ ۱؎ کے سلسلے میں کہتے ہیں: میرے اور عدی بن بداء کے سواء سبھی لوگ اس آیت کی زد میں آنے سے محفوظ ہیں،ہم دونوں نصرانی تھے،اسلام سے پہلے شام آتے جاتے تھے تو ہم دونوں اپنی تجارت کی غرض سے شام گئے،ہمارے پاس بنی ہاشم کا ایک غلام بھی پہنچا،اسے بدیل بن ابی مریم کہا جاتا تھا،وہ بھی تجارت کی غرض سے آیا تھا،اس کے پاس چاندی کا ایک پیالہ تھا جسے وہ بادشاہ کے ہاتھ بیچ کر اچھے پیسے حاصل کرنا چاہتا تھا،یہی اس کی تجارت کے سامان میں سب سے بڑی چیز تھی۔(اتفاق ایسا ہوا کہ) وہ بیمار پڑ گیا،تو اس نے ہم دونوں کو وصیت کی اور ہم سے عرض کیا کہ وہ جو کچھ چھوڑ کر مرے وہ اسے اس کے گھر والوں کو پہنچا دیں۔جب وہ مرگیا تو ہم نے یہ پیالہ لے لیا اور ہزار درہم میں اسے بیچ دیا،پھر ہم نے اور عدی بن بدّاء نے اسے آپس میں تقسیم کر لیا،پھر ہم اس کے بیوی بچوں کے پاس آئے اور جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ ہم نے انہیں واپس دے دیا،جب انہیں چاندی کا جام نہ ملا تو انہوں نے ہم سے اس کے متعلق پوچھا،ہم نے کہا کہ جو ہم نے آپ کو لا کر دیا اس کے سوا اس نے ہمارے پاس کچھ نہ چھوڑا تھا،پھر جب رسول اللہ ﷺ کے مدینہ جانے کے بعد میں نے اسلام قبول کر لیا،تو میں اس گناہ سے ڈر گیا،چنانچہ میں اس کے گھر والوں کے پاس آیا اور پیالہ کی صحیح خبر انہیں دے دی،اور اپنے حصہ کے پانچ سو درہم انہیں ادا کر دیے،اور انہیں یہ بھی بتایا کہ میری طرح (عدی بن بدائ) کے پاس بھی پیالہ کی قیمت کے پانچ سو درہم ہیں پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس پکڑ کر لائے،آپ نے ان سے ثبوت مانگا تو وہ لوگ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔پھر آپ نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس سے اس چیز کی قسم لیں جسے اس کے اہل دین اہم اور عظیم تر سمجھتے ہوں تو اس نے قسم کھالی۔اس پر آیت یَا ایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ إِذَا حَضَر أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ سے لے کر أَوْ یَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَیْمَانٌ بَعْدَ أَیْمَانِہِمْ ۲؎ تک نازل ہوئی۔تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور (بدیل کے وارثوں میں سے) ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ عدی جھوٹا ہے،پھر اس سے پانچ سو درہم چھین لیے گئے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،اور اس کی سند صحیح نہیں ہے،۲-ابو النضر جن سے محمد بن اسحاق نے یہ حدیث روایت کی ہے،وہ میرے نزدیک محمد بن سائب کلبی ہیں،ابو النضر ان کی کنیت ہے،محدثین نے ان سے روایت کرنی چھوڑ دی ہے،وہ صاحب تفسیر ہیں (یعنی مفسرین میں جو کلبی مشہور ہیں وہ یہی شخص ہیں) میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: محمد بن سائب کلبی کی کنیت ابو النضر ہے،۳-اور ہم سالم ابو النضر مدینی کی کوئی روایت ام ہانی کے آزاد کردہ غلام صالح سے نہیں جانتے۔اس حدیث کا کچھ حصہ مختصراً کسی اور سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (جو آگے آ رہا ہے)۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَہْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ فَمَاتَ السَّہْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ فِيہَا مُسْلِمٌ فَلَمَّا قَدِمْنَا بِتَرِكَتِہِ فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا بِالذَّہَبِ فَأَحْلَفَہُمَا رَسُولُ اللہِ ﷺ ثُمَّ وُجِدَ الْجَامُ بِمَكَّةَ فَقِيلَ اشْتَرَيْنَاہُ مِنْ عَدِيٍّ وَتَمِيمٍ فَقَامَ رَجُلَانِ مِنْ أَوْلِيَاءِ السَّہْمِيِّ فَحَلَفَا بِاللہِ لَشَہَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَہَادَتِہِمَا وَأَنَّ الْجَامَ لِصَاحِبِہِمْ قَالَ وَفِيہِمْ نَزَلَتْ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا شَہَادَةُ بَيْنِكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہُوَ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: بنی سہم کا ایک شخص،تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ (سفر پر) نکلا اور یہ سہمی (جو تمیم داری اور عدی کا ہم سفر تھا) ایک ایسی سرزمین میں انتقال کر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا،جب اس کے دونوں ساتھی اس کا ترکہ لے کر آئے تو اس کے گھر والے (ورثائ) کو اس کے متروکہ سامان میں چاندی کا وہ پیالہ نہ ملا جس پر سونے کا جڑاؤ تھا،چنانچہ (جب مقدمہ پیش ہوا) رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سے قسم کھلائی۔(اور انہوں نے قسم کھالی کہ ہمیں پیالہ نہیں ملا تھا) لیکن وہ پیالہ سہمی کے گھر والوں کو مکہ میں کسی اور کے پاس مل گیا،انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمیم اور عدی سے اسے خریدا ہے۔تب سہمی کے وارثین میں سے دو شخص کھڑے ہوئے۔اور انہوں نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ ہماری شہادت ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے۔اور پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: انہیں لوگوں کے بارے میں یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ والی آتی نازل ہوئی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،یہ ابن ابی زائدہ کی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أُنْزِلَتْ الْمَائِدَةُ مِنْ السَّمَاءِ خُبْزًا وَلَحْمًا وَأُمِرُوا أَنْ لَا يَخُونُوا وَلَا يَدَّخِرُوا لِغَدٍ فَخَانُوا وَادَّخَرُوا وَرَفَعُوا لِغَدٍ فَمُسِخُوا قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَدْ رَوَاہُ أَبُو عَاصِمٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ خِلَاسٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ مَوْقُوفًا وَلَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ وَلَا نَعْلَمُ لِلْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ أَصْلًا

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(عیسیٰ علیہ السلام کی قوم پر) آسمان سے روٹی اور گوشت کا دسترخوان اتارا گیا اور حکم دیا گیا کہ خیانت نہ کریں نہ اگلے دن کے لیے ذخیرہ کریں،مگر انہوں نے خیانت بھی کی اور جمع بھی کیا اور اگلے دن کے لیے اٹھا بھی رکھا تو ان کے چہرے مسخ کر کے بندر اور سور جیسے بنا دیے گئے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کو ابو عاصم اور کئی دوسرے لوگوں بطریق: سعید بن ابی عروبۃ،عن قتادۃ عن خلاس،عن عمار بن یاسر موقوفاً روایت کیا ہے۔اور ہم اسے صرف حسن بن قزعہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔سفیان نے اس سند سے سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح روایت کی ہے،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔اور یہ حسن قزعہ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔اور ہمیں مرفوع حدیث کی کوئی اصل معلوم نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُوسٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ يُلَقَّی عِيسَی حُجَّتَہُ فَلَقَّاہُ اللہُ فِي قَوْلِہِ وَإِذْ قَالَ اللہُ يَا عِيسَی ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَہَيْنِ مِنْ دُونِ اللہِ قَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فَلَقَّاہُ اللہُ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ الْآيَةَ كُلَّہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عیسیٰ علیہ السلام اپنا جواب القاء کیے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو اپنا جواب اپنے اس قول کے جواب میں القاء کرے گا وَإِذْ قَالَ اللہُ یَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ ا انْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَأُمِّیَ إِلَہَیْنِ مِنْ دُونِ اللہِ ۱؎ ابوہریرہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اس کا جواب یہ القاء کرے گا سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی أَنْ أَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ‘‘ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ حُيَيٍّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ آخِرُ سُورَةٍ أُنْزِلَتْ الْمَائِدَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ آخِرُ سُورَةٍ أُنْزِلَتْ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ بَعْدَ الْمَائِدَةِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ مائدہ (اور سورہ الفتح) ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: آخری سورہ جو نازل ہوئی ہے وہ إِذَا جَائَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ صُہَيْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِيَادَةٌ قَالَ إِذَا دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ نَادَی مُنَادٍ إِنَّ لَكُمْ عِنْدَ اللہِ مَوْعِدًا يُرِيدُ أَنْ يُنْجِزَكُمُوہُ قَالُوا أَلَمْ يُبَيِّضْ وُجُوہَنَا وَيُنْجِنَا مِنْ النَّارِ وَيُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ قَالَ فَيُكْشَفُ الْحِجَابُ قَالَ فَوَاللہِ مَا أَعْطَاہُمْ اللہُ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْہِمْ مِنْ النَّظَرِ إِلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ہَكَذَا رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ مَرْفُوعًا رَوَاہُ سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَوْلَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ صُہَيْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے آیت: لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَۃٌ ۱؎ کی تفسیر اس طرح فرمائی: جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکارکر کہے گا: اللہ کے پاس تمہارے لیے اس کی طرف سے کیا ہوا ایک وعدہ ہے اور وہ چاہتاہے کہ تم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کردے۔توو ہ جنتی کہیں گے: کیا اللہ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کردیئے ہیں اور ہمیں آگ سے نجات نہیں دی ہے اور ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ہے؟ (اب کون سی نعمت باقی رہ گئی ہے؟) آپ نے فرمایا: پھر پردہ اٹھادیاجائے گا،آپ نے فرمایا: قسم اللہ کی! اللہ نے انہیں کوئی ایسی چیز دی ہی نہیں جو انہیں اس کے دیدار سے زیادہ لذیذ اور محبوب ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-حماد بن سلمہ کی حدیث ایسی ہی ہے،۲-کئی ایک نے اسے حما د بن سلمہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔سلیمان بن مغیرہ نے یہ حدیث ثابت سے اورثابت نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے ان کے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ یہ روایت صہیب سے ہے اورصہیب رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مِصْرَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ عَنْ ہَذِہِ الْآيَةِ لَہُمْ الْبُشْرَی فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا قَالَ مَا سَأَلَنِي عَنْہَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْہَا فَقَالَ مَا سَأَلَنِي عَنْہَا أَحَدٌ غَيْرُكَ مُنْذُ أُنْزِلَتْ فَہِيَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاہَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَی لَہُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ مِصْرَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَذَكَرَ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَةَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَيْسَ فِيہِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ وَفِي الْبَاب عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ

عطاء بن یسار ایک مصری شخ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے اس آیت لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ۱؎ کی تفسیر پوچھی توانہوں نے کہا:جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی مجھ سے کسی نے اس آیت کے متعلق نہیں پوچھا (اورمیں نے جب رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے مجھ سے تمہارے سوا کسی نے اس کے متعلق نہیں پوچھا۔یہ بشارت اچھے خواب ہیں جنہیں مسلمان دیکھتا ہے یااس کے لیے (کسی اورکو) دکھایا جاتاہے۔ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت کی۔ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔اور اس سند میں عطا ء بن یسار سے روایت کا ذکر نہیں ہے ۲؎،۳-اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْہَالٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَمَّا أَغْرَقَ اللہُ فِرْعَوْنَ قَالَ آمَنْتُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِہِ بَنُو إِسْرَائِيلَ فَقَالَ جِبْرِيلُ يَا مُحَمَّدُ فَلَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا آخُذُ مِنْ حَالِ الْبَحْرِ فَأَدُسُّہُ فِي فِيہِ مَخَافَةَ أَنْ تُدْرِكَہُ الرَّحْمَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جب اللہ نے فرعون کو ڈبویا تو اس نے (اس موقع پر) کہاکہ میں اس بات پر ایمان لایاکہ اس معبود کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں (یونس: ۹۰) پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا: اے محمد! کاش اس وقت میری حالت دیکھی ہوتی۔میں اس ڈر سے کہ کہیں اس (مردود) کو اللہ کی رحمت حاصل نہ ہوجائے،میں سمندر سے کیچڑ نکال نکال کر اس کے منہ میں ٹھونسنے لگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ذَكَرَ أَحَدُہُمَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ ذَكَرَ أَنَّ جِبْرِيلَ ﷺ جَعَلَ يَدُسُّ فِي فِي فِرْعَوْنَ الطِّينَ خَشْيَةَ أَنْ يَقُولَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ فَيَرْحَمَہُ اللہُ أَوْ خَشْيَةَ أَنْ يَرْحَمَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے ذکر کیا کہ (جب فرعون ڈوبنے لگا) جبرئیل علیہ السلام فرعون کے منہ میں مٹی ٹھونسنے لگے،اس ڈر سے کہ وہ کہیں لا إلٰہ إلا اللہ نہ کہہ دے تو اللہ کو اس پر رحم آجائے۔راوی کو شک ہوگیا ہے کہ آپ نے خَشْیَۃَ أَنْ یَقُولَ لا إِلَہَ إِلا اللہُ فَیَرْحَمَہُ اللہُ کہایاخَشْیَۃَ أَنْ یَرْحَمَہُ اللہُ کہا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ وَاصِلٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّہِ نِدًّا وَہُوَ خَلَقَكَ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا قَالَ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا قَالَ أَنْ تَزْنِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ وَالْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم ا للہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی ایک ذات نے تمہیں پیداکیا ہے۔(اس کا کوئی شریک نہیں ہے) میں نے کہا: پھر کونساگناہ بہت بڑا ہے؟ فرمایا: یہ ہے کہ تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مارڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا،میں نے کہا: پھر کون ساگناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا:تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زناکرے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔اس سندسے بھی ابووائل نے عمر و بن شرحبیل سے اورعمروبن شرحبیل نے عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے بنی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ أَبُو زَيْدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّہِ نِدًّا وَہُوَ خَلَقَكَ وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مِنْ أَجْلِ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ أَوْ مِنْ طَعَامِكَ وَأَنْ تَزْنِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ قَالَ وَتَلَا ہَذِہِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا يُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيہِ مُہَانًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ وَالْأَعْمَشِ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَاصِلٍ لِأَنَّہُ زَادَ فِي إِسْنَادِہِ رَجُلًا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ وَاصِلٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ وَہَكَذَا رَوَی شُعْبَةُ عَنْ وَاصِلٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَمْرَو بْنَ شُرَحْبِيلَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: کونسا گناہ بڑاہے؟ آپ نے فرمایا: بڑاگناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراؤ،جب کہ اسی نے تم کو پیداکیا ہے،اورتم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ رہے گاتو تمہارے ساتھ کھائے پیئے گا،یاتمہارے کھانے میں سے کھائے گا،اور تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زناکرو،اور آپ نے یہ آیت وَالَّذِینَ لا یَدْعُونَ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ وَلاَ یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُونَ وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ یَلْقَ أَثَامًا یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا پڑ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سفیان کی وہ روایت جسے انہوں نے منصور اور اعمش سے روایت کی ہے،واصل کی روایت کے مقابلہ میں زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ انہوں نے اس حدیث کی سند میں ایک راوی (عمروبن شرحبیل) کا اضافہ کیا ہے ۲؎۔اس سندسے شعبہ نے واصل سے،واصل نے ابووائل سے اور ابووائل عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-اسی طرح شعبہ نے واصل سے واصل نے ابووائل سے اورابووائل نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس میں عمر وبن شرحبیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِعَمِّہِ قُلْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ أَشْہَدُ لَكَ بِہَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي بِہَا قُرَيْشٌ أَنَّ مَا يَحْمِلُہُ عَلَيْہِ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِہَا عَيْنَكَ فَأَنْزَلَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّكَ لَا تَہْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللہَ يَہْدِي مَنْ يَشَاءُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا: آپ لا إلہ إلا اللہ (کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے) کہہ دیجئے میں آپ کے ایمان کی قیامت کے روز گواہی دوں گا،انہوں نے کہا: اگر یہ ڈرنہ ہوتا کہ قریش مجھے طعنہ دیں گے کہ موت کی گھبراہٹ سے اس نے ایمان قبول کرلیا ہے تو میں تمہارے سامنے ہی اس کلمے کا اقرار کرلیتا تواس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت یہ نازل فرمائی: إِنَّکَ لاَ تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَنْ یَشَائُ آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے،بلکہ اللہ ہدایت دیتاہے جسے چاہتاہے (القصص:۵۶)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف یزید بن کیسان کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ الزُّبَيْرِ قَالَ كَانَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ دِرْعَانِ فَنَہَضَ إِلَی صَخْرَةٍ فَلَمْ يَسْتَطِعْ فَأَقْعَدَ تَحْتَہُ طَلْحَةَ فَصَعِدَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّی اسْتَوَی عَلَی الصَّخْرَةِ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ أَوْجَبَ طَلْحَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ دوزرہیں پہنے ہوئے تھے،آپ ایک چٹان پر چڑھنے لگے لیکن چڑھ نہ سکے تو اپنے نیچے طلحہ کو بٹھایا اورچڑھے یہاں تک کہ چٹان پرسیدھے کھڑے ہوگئے،تو میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: طلحہ نے اپنے لیے (جنت) واجب کرلی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُوسَی الطُّلَحِيُّ مِنْ وَلَدِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ الصَّلْتِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ سَرَّہُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَی شَہِيدٍ يَمْشِي عَلَی وَجْہِ الْأَرْضِ فَلْيَنْظُرْ إِلَی طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الصَّلْتِ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الصَّلْتِ بْنِ دِينَارٍ وَفِي صَالِحِ بْنِ مُوسَی مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِمَا

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس کو اس بات سے خوشی ہوکہ وہ کسی شہید کو (دنیاہی میں)زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ طلحہ کو دیکھ لے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف صلت کی روایت سے جانتے ہیں،۲-بعض اہل علم نے صلت بن دینار اورصالح بن موسیٰ کے سلسلہ میں ان دونوں کے حفظ کے تعلق سے کلام کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ يَحْيَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَمِّہِ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی مُعَاوِيَةَ فَقَالَ أَلَا أُبَشِّرُكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں:میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا: کیا میں تمہیں یہ خوش خبری نہ سناؤں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے سلسلہ میں اللہ نے فرمایاہے کہ وہ اپنا کام پورا کرچکے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ مَنْصُورٍ الْعَنَزِيُّ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَلْقَمَةَ الْيَشْكُرِيِّ قَال سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ سَمِعَتْ أُذُنِي مِنْ فِي رَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ يَقُولُ طَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ جَارَايَ فِي الْجَنَّةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عقبہ بن علقمہ یشکری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرے کانوں نے رسول اللہ ﷺ کے زبان مبارک سے سنا ہے آپ فرمارہے تھے: طلحہ اور زبیر دونوں میرے جنت کے پڑوسی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَی عَنْ مُوسَی وَعِيسَی ابْنَيْ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيہِمَا طَلْحَةَ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالُوا لِأَعْرَابِيٍّ جَاہِلٍ سَلْہُ عَمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ مَنْ ہُوَ وَكَانُوا لَا يَجْتَرِئُونَ ہُمْ عَلَی مَسْأَلَتِہِ يُوَقِّرُونَہُ وَيَہَابُونَہُ فَسَأَلَہُ الْأَعْرَابِيُّ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ سَأَلَہُ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ إِنِّي اطَّلَعْتُ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ وَعَلَيَّ ثِيَابٌ خُضْرٌ فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ قَالَ الْأَعْرَابِيُّ أَنَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ ہَذَا مِمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي كُرَيْبٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَہْلِ الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي كُرَيْبٍ ہَذَا الْحَدِيثَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يُحَدِّثُ بِہَذَا عَنْ أَبِي كُرَيْبٍ وَوَضَعَہُ فِي كِتَابِ الْفَوَائِدِ

طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک جاہل اعرابی سے کہا: تم نبی اکرم ﷺ سے من قضی نحبہ کے متعلق پوچھو کہ اس سے کون مراد ہے،صحابہ کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ ﷺ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ آپ ﷺکی ان پر اتنی ہیبت طاری رہتی تھی کہ وہ آپ سے سوال کی جرأت نہیں کرپاتے تھے،چنانچہ اس اعرابی نے آپ سے پوچھا تو آپ نے اپنا منہ پھیر لیا،اس نے پھر پوچھا: آپ نے پھر منہ پھیر لیا پھر میں مسجد کے دروازے سے نکلا،میں سبز کپڑے پہنے ہوئے تھا،تو جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا توفرمایا: ممن قضیٰ نحبہ کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ اعرابی بولا: میں موجود ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: یہ عن قضی نحبہ میں سے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف ابوکریب کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ یونس بن بکیر سے روایت کرتے ہیں،۲-کبار محدثین میں سے متعدد لوگوں نے ابوکریب سے روایت کی ہے،۳-میں نے اسے محمد بن اسماعیل بخاری کو ابوکریب کے واسطہ سے بیان کرتے سنا ہے،اور انہوں نے اس حدیث کواپنی کتاب کتاب الفوائد میں رکھا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ وَسَعِيدٌ فِي الْجَنَّةِ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِي الْجَنَّةِ أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَاءَةً عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر جنتی ہیں،عمر جنتی ہیں،عثمان جنتی ہیں،علی جنتی ہیں،طلحہ جنتی ہیں،زبیر جنتی ہیں،عبدالرحمٰن بن عوف جنتی ہیں،سعد جنتی ہیں،سعید(بن زید) جنتی ہیں اور ابوعبیدہ بن جراح جنتی ہیں ۱؎۔(رضی اللہ علیہم اجمعین) ابومصعب نے ہمیں خبردی کہ انہوں نے عبدالعزیز بن محمد کے آگے پڑھا اور عبدالعزیز نے عبدالرحمٰن بن حمید سے اور عبدالرحمٰن نے اپنے والد حمید کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی لیکن اس میں عبدالرحمٰن بن عوف کے واسطہ کا ذکر نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث عبدالرحمٰن بن حمید سے بطریق: حمید،عن سعیدبن زید عن النبیﷺبھی آئی ہے،(اوراسی طرح آئی ہے)،اور یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔(جوآگے آرہی ہے)

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مِسْمَارٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ مُوسَی بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ حَدَّثَہُ فِي نَفَرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ عَشَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ أَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَطَلْحَةُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ وَأَبُو عُبَيْدَةَ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ فَعَدَّ ہَؤُلَاءِ التِّسْعَةَ وَسَكَتَ عَنْ الْعَاشِرِ فَقَالَ الْقَوْمُ نَنْشُدُكَ اللہَ يَا أَبَا الْأَعْوَرِ مَنْ الْعَاشِرُ قَالَ نَشَدْتُمُونِي بِاللہِ أَبُو الْأَعْوَرِ فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی أَبُو الْأَعْوَرِ ہُوَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ وَسَمِعْتُ مُحَمَّدًا يَقُولُ ہُوَ أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ

حمید سے روایت ہے کہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ان سے کئی اشخاص کی موجود گی میں بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دس آدمی جنتی ہیں،ابوبکر جنتی ہیں،عمر جنتی ہیں عثمان،علی،زبیر،طلحہ،عبدالرحمٰن،ابوعبیدہ اور سعد بن ابی وقاص (جنتی ہیں) وہ کہتے ہیں: تو انہوں نے ان نو (۹) کو گن کر بتایا اور دسویں آدمی کے بارے میں خاموش رہے،تو لوگوں نے کہا: اے ابوالا ٔعور ہم اللہ کا واسطہ دے کرآپ سے پوچھ رہے ہیں کہ دسواں کون ہے؟ توانہوں نے کہا: تم لوگوں نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے (اس لیے میں بتارہاہوں) ابوالاعور جنتی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا ہے کہ یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-ابوالأعور سے مراد خود سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ صَخْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَقُولُ إِنَّ أَمْرَكُنَّ مِمَّا يُہِمُّنِي بَعْدِي وَلَنْ يَصْبِرَ عَلَيْكُنَّ إِلَّا الصَّابِرُونَ قَالَ ثُمَّ تَقُولُ عَائِشَةُ فَسَقَی اللہُ أَبَاكَ مِنْ سَلْسَبِيلِ الْجَنَّةِ تُرِيدُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَكَانَ قَدْ وَصَلَ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ ﷺ بِمَالٍ يُقَالُ بِيعَتْ بِأَرْبَعِينَ أَلْفًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (اپنی بیویوں سے) فرماتے تھے: تم لوگوں کامعاملہ مجھے پریشان کئے رہتاہے کہ میرے بعد تمہارا کیا ہوگا؟ تمہارے حقوق کی ادائیگی کے معاملہ میں صرف صبر کرنے والے ہی صبر کرسکیں گے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (ابوسلمہ سے)کہا: اللہ تمہارے والد یعنی عبدالرحمٰن بن عوف کو جنت کی نہر سلسبیل سے سیراب کرے،انہوں نے آپﷺ کی بیویوں کے ساتھ ایک ایسے مال کے ذریعہ جوچالیس ہزار (دینار) میں بکا اچھے سلوک کا مظاہرہ کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ حَبِيبٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ أَوْصَی بِحَدِيقَةٍ لِأُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِيعَتْ بِأَرْبَعِ مِائَةِ أَلْفٍ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوسلمہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے لیے ایک باغ کی وصیت کی جسے چار لاکھ (درہم) میں بیچاگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَتْ بَنُو سَلِمَةَ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِينَةِ فَأَرَادُوا النُّقْلَةَ إِلَی قُرْبِ الْمَسْجِدِ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِ الْمَوْتَی وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَہُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ آثَارَكُمْ تُكْتَبُ فَلَا تَنْتَقِلُوا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ وَأَبُو سُفْيَانَ ہُوَ طَرِيفٌ السَّعْدِيُّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بنوسلمہ (قبیلہ کے لوگ) مدینہ کے کسی نواحی علاقہ میں رہتے تھے۔انہوں نے وہاں سے منتقل ہوکر مسجد (نبوی) کے قریب آکر آباد ہونے کا ارادہ کیا تویہ آیت إِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتَی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَہُمْ ۱؎ نازل ہوئی،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے قدم لکھے جاتے ہیں،اس لیے تم اپنے گھر نہ بدلو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ثوری سے مروی یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ حِينَ غَابَتْ الشَّمْسُ وَالنَّبِيُّ ﷺ جَالِسٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَتَدْرِي يَا أَبَا ذَرٍّ أَيْنَ تَذْہَبُ ہَذِہِ قَالَ قُلْتُ اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ فَتَسْتَأْذِنُ فِي السُّجُودِ فَيُؤْذَنُ لَہَا وَكَأَنَّہَا قَدْ قِيلَ لَہَا اطْلُعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا قَالَ ثُمَّ قَرَأَ وَذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَہَا قَالَ وَذَلِكَ فِي قِرَاءَةِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں مسجد میں سورج ڈوبنے کے وقت داخل ہوا،آپ وہاں تشریف فرماتھے۔آپ نے فرمایا: ابوذر!کیا تم جانتے ہو یہ (سورج) کہاں جاتاہے؟،ابوذر کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی کومعلوم،آپ نے فرمایا: وہ جاکر سجدہ کی اجازت مانگتاہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے گویا کہ اس سے کہاجاتاہے وہیں سے نکلو جہاں سے آئے ہو۔پھر وہ (قیامت کے قریب) اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے گا۔ابوذر کہتے ہیں:پھر آپ نے وَذَلِکَ مُسْتَقَرٌّ لَہَا (یہی اس کے ٹھہر نے کی جگہ ہے) پڑھا۔راوی کہتے ہیں: یہی عبداللہ بن مسعود کی قرأت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ يَقُولُ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِہِ فَكَلَّمْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَسَكَتَ ثُمَّ كَلَّمْتُہُ فَسَكَتَ ثُمَّ كَلَّمْتُہُ فَسَكَتَ فَحَرَّكْتُ رَاحِلَتِي فَتَنَحَّيْتُ وَقُلْتُ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ نَزَرْتَ رَسُولَ اللہِ ﷺ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ كَلُّ ذَلِكَ لَا يُكَلِّمُكَ مَا أَخْلَقَكَ بِأَنْ يَنْزِلَ فِيكَ قُرْآنٌ قَالَ فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي قَالَ فَجِئْتُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيَّ ہَذِہِ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِنْہَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْہِ الشَّمْسُ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ مَالِكٍ مُرْسَلًا

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں تھے،میں نے آپ سے کچھ کہا،آپ خاموش رہے،میں نے پھر آپ سے بات کی آپ پھر خاموش رہے،میں نے پھر بات کی آپ (اس باربھی) خاموش رہے،میں نے اپنی سواری کو جھٹکا دیا اور ایک جانب (کنارے) ہوگیا،اور (اپنے آپ سے) کہا: ابن خطاب! تیری ماں تجھ پرروئے،تو نے رسول اللہ ﷺ سے تین بار اصرار کیا،اور آپ نے تجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی،تو اس کا مستحق اورسزاوار ہے کہ تیرے بارے میں کوئی آیت نازل ہو (اور تجھے سرزنش کی جائے) عمر بن خطاب کہتے ہیں: ابھی کچھ بھی دیر نہ ہوئی تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا،وہ مجھے پکار رہاتھا،عمر بن خطاب کہتے ہیں: میں رسول اللہﷺ کے پاس گیا،آپ نے فرمایا: ابن خطاب! آج رات مجھ پر ایک ایسی سورہ نازل ہوئی ہے جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج نکلتاہے اور وہ سورہ یہ ہے إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِینًا ۱؎ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-بعض نے اس حدیث کو مالک سے مرسلاً (بلاعاً) روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ نَزَلَتْ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ لِيَغْفِرَ لَكَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ مَرْجِعَہُ مِنْ الْحُدَيْبِيَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَيَّ آيَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عَلَی الْأَرْضِ ثُمَّ قَرَأَہَا النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْہِمْ فَقَالُوا ہَنِيئًا مَرِيئًا يَا رَسُولَ اللہِ قَدْ بَيَّنَ اللہُ لَكَ مَاذَا يُفْعَلُ بِكَ فَمَاذَا يُفْعَلُ بِنَا فَنَزَلَتْ عَلَيْہِ لِيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ حَتَّی بَلَغَ فَوْزًا عَظِيمًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيہِ عَنْ مُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺپر حدیبیہ سے واپسی کے وقت لِیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ(الفتح:2) ۱؎ نازل ہوئی،تونبی اکرمﷺنے فرمایا: مجھ پر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے زمین کی ساری چیزوں سے زیادہ محبوب ہے،پھر آپ نے وہ آیت سب کو پڑھ کر سنائی،لوگوں نے (سن کر) ہنیأ مریئًا کہا،(آپ کے لیے خوش گوار اور مبارک ہو،اے اللہ کے نبی! اللہ نے آپ کو بتادیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا مگر ہمارے ساتھ کیاکیا جائے گا؟ اس پر آیت لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُسے لے کر سے فَوْزًا عَظِیمًا (الفتح:5) تک نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں مجمع بن جاریہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ ثَمَانِينَ ہَبَطُوا عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَصْحَابِہِ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِيمِ عِنْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَہُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَقْتُلُوہُ فَأُخِذُوا أَخْذًا فَأَعْتَقَہُمْ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَأَنْزَلَ اللہُ وَہُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَہُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْہُمْ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اورصحابہ پرحملہ آور ہونے کے لیے اسی (۸۰) کی تعدادمیں کافر تنعیم پہاڑ سے صلاۃ فجر کے وقت اترے،وہ چاہتے تھے کہ نبی اکرمﷺ کو قتل کردیں،مگر سب کے سب پکڑے گئے۔رسول اللہ ﷺ نے انہیں چھوڑ دیا،اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت: کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَلْزَمَہُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَی قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ قَالَ وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺنے وَأَلْزَمَہُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوَی کے متعلق فرمایا: اس سے مراد لا إلہ إلا اللہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اسے ہم حسن بن قزعہ کے سوا کسی اور کو مرفوع روایت کرتے ہوئے نہیں جانتے،۳-میں نے ابوزرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس سند کے سوا کسی اور سند سے اسے مرفوع نہیں جانا۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سَلَّامٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ رَبِيعَةَ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَذَكَرْتُ عِنْدَہُ وَافِدَ عَادٍ فَقُلْتُ أَعُوذُ بِاللہِ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ وَافِدِ عَادٍ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَمَا وَافِدُ عَادٍ قَالَ فَقُلْتُ عَلَی الْخَبِيرِ سَقَطْتَ إِنَّ عَادًا لَمَّا أُقْحِطَتْ بَعَثَتْ قَيْلًا فَنَزَلَ عَلَی بَكْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَسَقَاہُ الْخَمْرَ وَغَنَّتْہُ الْجَرَادَتَانِ ثُمَّ خَرَجَ يُرِيدُ جِبَالَ مَہْرَةَ فَقَالَ اللہُمَّ إِنِّي لَمْ آتِكَ لِمَرِيضٍ فَأُدَاوِيَہُ وَلَا لِأَسِيرٍ فَأُفَادِيَہُ فَاسْقِ عَبْدَكَ مَا كُنْتَ مُسْقِيَہُ وَاسْقِ مَعَہُ بَكْرَ بْنَ مُعَاوِيَةَ يَشْكُرُ لَہُ الْخَمْرَ الَّتِي سَقَاہُ فَرُفِعَ لَہُ سَحَابَاتٌ فَقِيلَ لَہُ اخْتَرْ إِحْدَاہُنَّ فَاخْتَارَ السَّوْدَاءَ مِنْہُنَّ فَقِيلَ لَہُ خُذْہَا رَمَادًا رِمْدِدًا لَا تَذَرُ مِنْ عَادٍ أَحَدًا وَذُكِرَ أَنَّہُ لَمْ يُرْسَلْ عَلَيْہِمْ مِنْ الرِّيحِ إِلَّا قَدْرُ ہَذِہِ الْحَلْقَةِ يَعْنِي حَلْقَةَ الْخَاتَمِ ثُمَّ قَرَأَ إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ الرِّيحَ الْعَقِيمَ مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْہِ إِلَّا جَعَلَتْہُ كَالرَّمِيمِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَلَّامٍ أَبِي الْمُنْذِرِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ وَيُقَالُ لَہُ الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ

ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی ربیعہ کے ایک شخص نے کہا: میں مدینہ آیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،وہاں آپ کے پاس (دوران گفتگو) میں نے قوم عاد کے قاصد کا ذکر کیا،اورمیں نے کہا: میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں عاد کے قاصد جیسا بن جاؤں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عاد کے قاصد کا قصہ کیا ہے؟ میں نے کہا: (اچھاہوا) آپ نے واقف کار سے پوچھا (میں آپ کو بتاتاہوں) قوم عاد جب قحط سے دوچار ہوئی تو اس نے قیل (نامی شخص) کو (امداد وتعاون حاصل کرنے کے لیے مکہ) بھیجا،وہ (آکر) بکر بن معاویہ کے پاس ٹھہرا،بکر نے اسے شراب پلائی،اور دو مشہور مغنیاں اسے اپنے نغموں سے محظوظ کرتی رہیں،پھر قیل نے وہاں سے نکل کر مہرہ کے پہاڑوں کا رخ کیا (مہرہ ایک قبیلہ کے دادا کانام ہے) اس نے (دعا مانگی) کہا: اے اللہ! میں تیرے پاس کوئی مریض لے کر نہیں آیا کہ اس کا علاج کراؤں،اورنہ کسی قیدی کے لیے آیا اسے آزاد کرالوں،تو اپنے بندے کو پلا (یعنی مجھے) جو تجھے پلانا ہے اور اس کے ساتھ بکر بن معاویہ کو بھی پلا (اس نے یہ دعا کرکے) اس شراب کا شکریہ ادا کیا،جو بکر بن معاویہ نے اسے پلائی تھی،(انجام کار) اس کے لیے (آسمان پر) کئی بدلیاں چھائیں اور اس سے کہاگیا کہ تم ان میں سے کسی ایک کو اپنے لیے چن لو،اس نے ان میں سے کالی رنگ کی بدلی کو پسند کرلیا،کہاگیا: اسے لے لو اپنی ہلاکت وبربادی کی صورت میں،عاد قوم کے کسی فرد کو بھی نہ باقی چھوڑے گی،اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ عاد پر ہوا (آندھی) اس حلقہ یعنی انگوٹھی کے حلقہ کے برابر ہی چھوڑی گئی۔پھر آپ نے آیت إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیحَ الْعَقِیمَ مَا تَذَرُ مِن شَیْئٍ أَتَتْ عَلَیْہِ إِلاَّ جَعَلَتْہُ کَالرَّمِیمِ [الذاریات:41-42]پڑھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کوکئی لوگوں نے سلام ابو منذر سے،سلام نے عاصم بن ابی النجود سے،عاصم نے ابووائل سے اورابووائل نے (عن رجل من ربیعۃ کی جگہ) حارث بن حسان سے روایت کیا ہے۔(یہ روایت آگے آرہی ہے) ۲-حارث بن حسان کو حارث بن یزید بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّحْوِيُّ أَبُو المُنْذِرِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ،عَنْ أَبِي وَائِلٍ،عَنِ الحَارِثِ بْنَ يَزِيدَ البَكْرِيِّ،قَالَ: قَدِمْتُ المَدِينَةَ فَدَخَلْتُ المَسْجِدَ فَإِذَا ہُوَ غَاصٌّ بِالنَّاسِ،وَإِذَا رَايَاتٌ سُودٌ تَخْفُقُ،وَإِذَا بِلَالٌ مُتَقَلِّدٌ السَّيْفَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللہِ ﷺ،قُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ قَالُوا: يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ العَاصِ وَجْہًا،فَذَكَرَ الحَدِيثَ بِطُولِہِ نَحْوًا مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ بِمَعْنَاہُ. وَيُقَالُ لَہُ: الحَارِثُ بْنُ حَسَّانَ

حارث بن یزید البکری کہتے ہیں: میں مدینہ آیا،مسجد نبوی میں گیا،وہ لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی،کالے جھنڈ ہوا میں اڑرہے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے تلوار لٹکائے ہوئے کھڑے تھے،میں نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ کا ارادہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو (فوجی دستہ کے ساتھ) کسی طرف بھیجنے کا ہے،پھر پوری لمبی حدیث سفیان بن عیینہ کی حدیث کی طرح اسی کے ہم معنی بیان کی۔ حارث بن یزید کو حارث بن حسان بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ قَعَدْنَا نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَتَذَاكَرْنَا فَقُلْنَا لَوْ نَعْلَمُ أَيَّ الْأَعْمَالِ أَحَبَّ إِلَی اللہِ لَعَمِلْنَاہُ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَلَامٍ فَقَرَأَہَا عَلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ فَقَرَأَہَا عَلَيْنَا ابْنُ سَلَامٍ قَالَ يَحْيَی فَقَرَأَہَا عَلَيْنَا أَبُو سَلَمَةَ قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ فَقَرَأَہَا عَلَيْنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ عَبْدُ اللہِ فَقَرَأَہَا عَلَيْنَا ابْنُ كَثِيرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ خُولِفَ مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ فِي إِسْنَادِ ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ وَرَوَی ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ أَوْ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ وَرَوَی الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ كَثِيرٍ

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم چند صحابہ بیٹھے ہوئے تھے،آپس میں باتیں کرنے لگے،ہم نے کہا: اگر ہم جان پاتے کہ کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے تو ہم اسی پر عمل کرتے،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمَوَاتِ وَمَا فِی الأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ ۱؎ عبداللہ بن سلام کہتے ہیں: یہ سورہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے پڑھ کر سنائی،ابوسلمہ کہتے ہیں: یہ سورہ ہمارے سامنے ابن سلام نے پڑھی،اور یحییٰ کہتے ہیں: یہ سورہ ہمارے سامنے ابوسلمہ نے پڑھ کر سنائی،اور محمد بن کثیر کہتے ہیں: ہمارے سامنے اسے اوزاعی نے پڑھ کرسنایا،اور عبداللہ کہتے ہیں: یہ سورہ ہمیں ابن کثیر نے پڑھ کر سنائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی اوزاعی سے روایت کرنے میں محمد بن کثیر کی مخالفت کی گئی ہے۔(اس کی تفصیل یہ ہے)۲-ابن مبارک نے اوزاعی سے روایت کی،اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے،یحییٰ نے ہلال بن ابومیمونہ سے،ہلال نے عطاء بن یسارسے،اورعطاء نے عبداللہ بن سلام سے،یا ابوسلمہ کے واسطہ سے عبداللہ بن سلام سے،۳-ولید بن مسلم نے اوزاعی سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے جس طرح محمد بن کثیر نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعيدٍ الْأَمَوِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ ہَذَا مَا عَرَضْنَا عَلَی ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أُنْزِلَ عَبَسَ وَتَوَلَّی فِي ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَی أَتَی رَسُولَ اللہِ ﷺ فَجَعَلَ يَقُولُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرْشِدْنِي وَعِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ رَجُلٌ مِنْ عُظَمَاءِ الْمُشْرِكِينَ فَجَعَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعْرِضُ عَنْہُ وَيُقْبِلُ عَلَی الْآخَرِ وَيَقُولُ أَتَرَی بِمَا أَقُولُ بَأْسًا فَيَقُولُ لَا فَفِي ہَذَا أُنْزِلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أُنْزِلَ عَبَسَ وَتَوَلَّی فِي ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: عَبَسَ وَتَوَلَّی والی سورہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم نابینا کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے،وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے،آکر کہنے لگے: اللہ کے رسول! مجھے وعظ ونصیحت فرمائیے،اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس مشرکین کے اکابرین میں سے کوئی بڑا شخص موجود تھا،تو رسول اللہ ﷺ ان سے اعراض کرنے لگے اور دوسرے (مشرک) کی طرف توجہ فرماتے رہے اور اس سے کہتے رہے میں جو تمہیں کہہ رہاہوں اس میں تم کچھ حرج اور نقصان پارہے ہو؟ وہ کہتا نہیں،اسی سلسلے میں یہ آیتیں نازل کی گئیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض نے یہ حدیث ہشام بن عروہ سے،ا نہوں نے اپنے باپ عروہ سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں عَبَسَ وَتَوَلَّی ابن ام مکتوم کے حق میں اتری ہے اوراس کی سند میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ہِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا فَقَالَتْ امْرَأَةٌ أَيُبْصِرُ أَوْ يَرَی بَعْضُنَا عَوْرَةَ بَعْضٍ قَالَ يَا فُلَانَةُ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْہُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَوَاہُ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ أَيْضًا وَفِيہِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا

-عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی اکرمﷺنے فرمایا: تم لوگ (قیامت کے دن) جمع کیے جاؤگے ننگے پیر،ننگے جسم،بے ختنہ کے،ایک عورت (ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: کیا ہم میں سے بعض بعض کی شرم گاہ دیکھے گا؟ آپ نے فرمایا: اے فلانی! اس دن ہر ایک کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسرے کی فکر سے غافل وبے نیاز کردے گی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ مختلف سندوں سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور اسے سعید بن جبیر نے بھی روایت کیا ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ ہَلَكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ اللہَ يَقُولُ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَہُ بِيَمِينِہِ إِلَی قَوْلِہِ يَسِيرًا قَالَ ذَلِكِ الْعَرْضُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس سے حساب کی جانچ پڑتال کرلی گئی وہ ہلاک (برباد) ہوگیا،میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تو فرماتا ہے فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَسِیْراً ۱؎ آپ نے فرمایا: وہ حساب وکتاب نہیں ہے،وہ تو صرف نیکیوں کو پیش کردینا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہم سے بیان کیا سوید بن نصر نے وہ کہتے ہیں: ہمیں خبردی عبداللہ بن مبارک نے،اوروہ روایت کرتے ہیں عثمان بن اسود سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح،۳-ہم سے بیان کیا محمد بن ابان اور کچھ دیگر لوگوں نے انہوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا عبدالوہاب ثقفی نے اورانہوں نے ایوب سے،ایوب نے ابن ابوملیکہ سے اورابن ابی ملیکہ نے عائشہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح روایت کی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْہَمَذَانِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ ہَمَّامٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ جس کا حساب ہوا (یوں سمجھو کہ) وہ عذاب میں پڑا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے قتادہ کی روایت سے جسے وہ انس سے،اور انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو سَعْدٍ ہُوَ الصَّغَانِيُّ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَالُوا لِرَسُولِ اللہِ ﷺ انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ فَأَنْزَلَ اللہُ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اللہُ الصَّمَدُ وَالصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ لَأَنَّہُ لَيْسَ شَيْءٌ يُولَدُ إِلَّا سَيَمُوتُ وَلَا شَيْءٌ يَمُوتُ إِلَّا سَيُورَثُ وَإِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمُوتُ وَلَا يُورَثُ وَلَمْ يَكُنْ لَہُ كُفُوًا أَحَدٌ قَالَ لَمْ يَكُنْ لَہُ شَبِيہٌ وَلَا عِدْلٌ وَلَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْءٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ عَنْ الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ذَكَرَ آلِہَتَہُمْ فَقَالُوا انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ قَالَ فَأَتَاہُ جِبْرِيلُ بِہَذِہِ السُّورَةِ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ فَذَكَرَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعْدٍ وَأَبُو سَعْدٍ اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ اسْمُہُ عِيسَی وَأَبُو الْعَالِيَةِ اسْمُہُ رُفَيْعٌ وَكَانَ عَبْدًا أَعْتَقَتْہُ امْرَأَةٌ سَابِيَةٌ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ اپنے رب کا نسب ہمیں بتائیے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اللہُ الصَّمَدُ ۱؎ نازل فرمائی،اور صمد وہ ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہواہو،-اس لیے (اصول یہ ہے کہ) جو بھی کوئی چیز پیدا ہوگی وہ ضرور مرے گی اور جو بھی کوئی چیز مرے گی اس کا وارث ہو گا،اور اللہ عزوجل کی ذات ایسی ہے کہ نہ وہ مرے گی اور نہ ہی اس کاکوئی وارث ہو گا،وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ (اور نہ اس کا کوئی کفو (ہمسر) ہے،راوی کہتے ہیں: کفو یعنی اس کے مشابہ اور برابر کوئی نہیں ہے،اور نہ ہی اس جیسا کوئی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی،عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيِّ،عَنِ الرَّبِيعِ،عَنْ أَبِي العَالِيَةِ،أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ ذَكَرَ آلِہَتَہُمْ فَقَالُوا: انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ. قَالَ: فَأَتَاہُ جِبْرِيلُ بِہَذِہِ السُّورَةِ: قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ،فَذَكَرَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ،عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ. وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعْدٍ. وَأَبُو سَعْدٍ اسْمُہُ: مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ،وَأَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ اسْمُہُ: عِيسَی،وَأَبُو العَالِيَةِ اسْمُہُ: رُفَيْعٌ وَكَانَ عَبْدًا أَعْتَقَتْہُ امْرَأَةٌ سَائِبَةً

ابولعالیہ (رفیع بن مہران) سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ان کے (یعنی مشرکین کے) معبودوں کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ ہم سے اپنے رب کا نسب بیان کیجئے،آپ نے بتایا کہ جبرئیل علیہ السلام ان کے پاس یہ سورہ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ لے کر آئے،پھر انہوں نے اسی طرح حدیث بیان کی،اور اس کی سند میں ابی بن کعب سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ابو سعد کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،ابوسعد کا نام محمد بن میسر ہے،اور ابوجعفر رازی کانام عیسیٰ ہے،ابوالعالیہ کانام رفیع ہے یہ ایک غلام تھے جنہیں ایک قیدی عورت نے آزاد کیا تھا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَةِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللہَ فِيہِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَی نَبِيِّہِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْہِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَہُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعْنَی قَوْلِہِ تِرَةً يَعْنِي حَسْرَةً وَنَدَامَةً و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْعَرَبِيَّةِ التِّرَةُ ہُوَ الثَّأْرُ

بوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کی یاد نہ کریں،اور نہ اپنے نبی اکرمﷺ پر (درود) بھیجیں تو یہ چیز ان کے لیے حسرت وندامت کا باعث بن سکتی ہے۔اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے،اور چاہے تو انہیں بخش دے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے،۳-اور آپ کے قول ترۃ کے معنی ہیں حسرت وندامت کے،بعض عربی داں حضرات کہتے ہیں: ترۃ کے معنی بدلہ کے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ الْكُوفِيُّ وَاسْمُہُ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ جَلَسَ فِي مَجْلِسٍ فَكَثُرَ فِيہِ لَغَطُہُ فَقَالَ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ مِنْ مَجْلِسِہِ ذَلِكَ سُبْحَانَكَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ إِلَّا غُفِرَ لَہُ مَا كَانَ فِي مَجْلِسِہِ ذَلِكَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُہَيْلٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس سے بہت سی لغو اور بیہودہ باتیں ہوجائیں،اور وہ اپنی مجلس سے اٹھ جانے سے پہلے پڑھ لے: سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ ۱؎ تواس کی اس مجلس میں اس سے ہونے والی لغزشیں معاف کردی جاتی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،اور ہم اسے سہیل کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابو برزہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ يُعَدُّ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الْمَجْلِسِ الْوَاحِدِ مِائَةُ مَرَّةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَقُومَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک مجلس میں مجلس سے اٹھنے سے پہلے سو سو مرتبہ: رَبِّ اغْفِرْ لِی وَتُبْ عَلَیَّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ ۱؎ گنا جاتاتھا۔ سفیان نے محمد بن سوقہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح اسی کے ہم معنی حدیث روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بِشْرٍ الْخَثْعَمِيِّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا سَافَرَ فَرَكِبَ رَاحِلَتَہُ قَالَ بِإِصْبَعِہِ وَمَدَّ شُعْبَةُ إِصْبَعَہُ قَالَ اللہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَہْلِ اللہُمَّ اصْحَبْنَا بِنُصْحِكَ وَاقْلِبْنَا بِذِمَّةٍ اللہُمَّ ازْوِ لَنَا الْأَرْضَ وَہَوِّنْ عَلَيْنَا السَّفَرَ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ قَالَ أَبُو عِيسَی كُنْتُ لَا أَعْرِفُ ہَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ حَتَّی حَدَّثَنِي بِہِ سُوَيْدٌ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ ابْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر پر نکلتے اور اپنی سواری پر سوار ہوتے تو اپنی انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے: اللہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَۃُ فِی الأَہْلِ،اللہُمَّ اصْحَبْنَا بِنُصْحِکَ وَاقْلِبْنَا بِذِمَّۃٍ اللہُمَّ،ازْوِ لَنَا الأَرْضَ وَہَوِّنْ عَلَیْنَا السَّفَرَ،اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-میں اسے نہیں جانتاتھا مگر ابن ابی عدی کی روایت سے یہاں تک کہ سوید نے مجھ سے یہ حدیث (مندرجہ ذیل سندسے) سوید بن نصر کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا عبداللہ بن مبارک نے،وہ کہتے ہیں: ہم سے شعبہ نے اسی سند کے ساتھ اسی طرح اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی ۲؎،۲-یہ حدیث ابوہریرہ کی روایت سے حسن غریب ہے،ہم اسے صرف شعبہ کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيِّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا سَافَرَ يَقُولُ اللہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَہْلِ اللہُمَّ اصْحَبْنَا فِي سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِي أَہْلِنَا اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرَ وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ وَمِنْ الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ وَمِنْ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ وَمِنْ سُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَہْلِ وَالْمَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْرِ أَيْضًا وَمَعْنَی قَوْلِہِ الْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ أَوْ الْكَوْرِ وَكِلَاہُمَا لَہُ وَجْہٌ يُقَالُ إِنَّمَا ہُوَ الرُّجُوعُ مِنْ الْإِيمَانِ إِلَی الْكُفْرِ أَوْ مِنْ الطَّاعَةِ إِلَی الْمَعْصِيَةِ إِنَّمَا يَعْنِي مِنْ الرُّجُوعِ مِنْ شَيْءٍ إِلَی شَيْءٍ مِنْ الشَّرِّ

عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر کرتے توکہتے: اللہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیفَۃُ فِی الأَہْلِ،اللہُمَّ اصْحَبْنَا فِی سَفَرِنَا وَاخْلُفْنَا فِی أَہْلِنَا،اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرَ وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ،وَمِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْنِ،وَمِنْ دَعْوَۃِ الْمَظْلُومِ وَمِنْ سُوئِ الْمَنْظَرِ فِی الأَہْلِ وَالْمَالِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْنِ کی جگہالْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْر بھی مروی ہے،اور الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْر یا بَعْدَ الْکَوْنِ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں،کہتے ہیں:اس کامعنی یہ ہے کہ پناہ مانگتاہوں ایمان سے کفر کی طرف لوٹنے سے یا طاعت سے معصیت کی طرف لوٹنے سے،مطلب یہ ہے کہ اس سے مراد خیر سے شرکی طرف لوٹنا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ السُّلَيْمِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا وَدَّعَ رَجُلًا أَخَذَ بِيَدِہِ فَلَا يَدَعُہَا حَتَّی يَكُونَ الرَّجُلُ ہُوَ يَدَعُ يَدَ النَّبِيِّ ﷺ وَيَقُولُ اسْتَوْدِعْ اللہَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَآخِرَ عَمَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب کسی شخص کو رخصت کرتے تواس کاہاتھ پکڑتے ۱؎ اور اس کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ شخص خود ہی آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیتا اور آپ کہتے: اسْتَوْدِعْ اللہَ دِینَکَ وَأَمَانَتَکَ وَآخِرَ عَمَلِکَ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-یہ حدیث دوسری سند سے بھی ابن عمر سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ عَنْ حَنْظَلَةَ عَنْ سَالِمٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ لِلرَّجُلِ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا ادْنُ مِنِّي أُوَدِّعْكَ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُوَدِّعُنَا فَيَقُولُ أَسْتَوْدِعُ اللہَ دِينَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ

سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ جب کوئی آدمی سفر کا ارادہ کرتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما اس سے کہتے: میرے قریب آؤ میں تمہیں اسی طرح سے الوداع کہوں گا جس طرح رسول اللہ ﷺ ہمیں الوداع کہتے اور رخصت کرتے تھے،آپ ہمیں رخصت کرتے وقت کہتے تھے: اسْتَوْدِعُ اللہَ دِینَکَ وَأَمَانَتَکَ وَآخِرَ عَمَلِکَ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے جو سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے آئی ہے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا سَيَّارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَقِيتُ إِبْرَاہِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ وَأَنَّہَا قِيعَانٌ وَأَنَّ غِرَاسَہَا سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی،اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا،ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتادیناکہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے،اس کا پانی بہت میٹھا ہے،اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے ۱؎ اور اس کی باغبانی: سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ سے ہوتی ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مُوسَی الْجُہَنِيُّ حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لِجُلَسَائِہِ أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ أَلْفَ حَسَنَةٍ فَسَأَلَہُ سَائِلٌ مِنْ جُلَسَائِہِ كَيْفَ يَكْسِبُ أَحَدُنَا أَلْفَ حَسَنَةٍ قَالَ يُسَبِّحُ أَحَدُكُمْ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ تُكْتَبُ لَہُ أَلْفُ حَسَنَةٍ وَتُحَطُّ عَنْہُ أَلْفُ سَيِّئَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہم نشینوں سے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز وناکام رہے گا کہ ایک دن میں ہزار نیکیاں کمالے؟ آپ کے ہم نشینوں میں سے ایک پوچھنے والے نے پوچھا: ہم میں سے کوئی کس طرح ہزار نیکیاں کمائے گا؟ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی سومرتبہ تسبیح پڑھے گا (یعنی سبحان اللہ) تو اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی۔اور اس کی ہزار برائیاں مٹادی جائیں گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَی الْمُطَّلِبِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُ النَّبِيَّ ﷺ يَدْعُو بِہَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کو اکثر وبیشتر ان الفاظ سے دعاء مانگتے سنتاتھا: اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَدْعُو يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَةِ الْمَسِيحِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعاکرتے تھے: اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الْمَسِیحِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِہِ اللہُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنِي حُبُّہُ عِنْدَكَ اللہُمَّ مَا رَزَقْتَنِي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّةً لِي فِيمَا تُحِبُّ اللہُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْہُ فَرَاغًا لِي فِيمَا تُحِبُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ اسْمُہُ عُمَيْرُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ خُمَاشَةَ

عبداللہ بن یزید اخطمی انصاری سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی دعامیں کہتے تھے: اللہُمَّ ارْزُقْنِی حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یَنْفَعُنِی حُبُّہُ عِنْدَکَ اللہُمَّ مَا رَزَقْتَنِی مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّۃً لِی فِیمَا تُحِبُّ اللہُمَّ وَمَا زَوَیْتَ عَنِّی مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْہُ فَرَاغًا لِی فِیمَا تُحِبُّ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي رَاشِدٍ الْحُبْرَانِيِّ قَالَ أَتَيْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقُلْتُ لَہُ حَدِّثْنَا مِمَّا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأَلْقَی إِلَيَّ صَحِيفَةً فَقَالَ ہَذَا مَا كَتَبَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيہَا إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ عَلِّمْنِي مَا أَقُولُ إِذَا أَصْبَحْتُ وَإِذَا أَمْسَيْتُ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ قُلْ اللہُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَةِ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ رَبَّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكَہُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِہِ وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَی نَفْسِي سُوءًا أَوْ أَجُرَّہُ إِلَی مُسْلِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوراشد حبرانی کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے کہا: آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو حدیثیں سن رکھی ہیں ان میں سے کوئی حدیث ہمیں سنائیے،تو انہوں نے ایک لکھا ہوا ورق ہمارے آگے بڑھادیا،اور کہا: یہ وہ کاغذ ہے جسے رسول اللہ نے ہمیں لکھ کر دیا ہے ۱؎،جب میں نے اسے دیکھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی دعا بتادیجئے جسے میں صبح اور شام میں پڑھاکروں،آپ نے فرمایا: ابوبکر!(یہ دعا) پڑھاکرو: اللہُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ رَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَمَلِیکَہُ،أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِی،وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ،وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلَی نَفْسِی سُوئًا أَوْ أَجُرَّہُ إِلَی مُسْلِمٍ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَرَّ بِشَجَرَةٍ يَابِسَةِ الْوَرَقِ فَضَرَبَہَا بِعَصَاہُ فَتَنَاثَرَ الْوَرَقُ فَقَالَ إِنَّ الْحَمْدُ لِلَّہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ لَتُسَاقِطُ مِنْ ذُنُوبِ الْعَبْدِ كَمَا تَسَاقَطَ وَرَقُ ہَذِہِ الشَّجَرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُ لِلْأَعْمَشِ سَمَاعًا مِنْ أَنَسٍ إِلَّا أَنَّہُ قَدْ رَآہُ وَنَظَرَ إِلَيْہِ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے جس کی پتیاں سوکھ گئی تھیں،آپ نے اس پر اپنی چھڑی ماری تو پتیاں جھڑ پڑیں،آپ نے فرمایا: الْحَمْدُ لِلَّہِ وَسُبْحَانَ اللہِ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ کہنے سے بندے کے گناہ ایسے ہی جھڑ جاتے ہیں جیسے اس درخت کی پتیاں جھڑگئیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اعمش کا انس سے سماع ہم نہیں جانتے،ہاں یہ بات ضرور ہے کہ انہوں نے انس کو دیکھا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ الْجُلَاحِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ شَبِيبٍ السَّبَأِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَشْرَ مَرَّاتٍ عَلَی إِثْرِ الْمَغْرِبِ بَعَثَ اللہُ مَسْلَحَةً يَحْفَظُونَہُ مِنْ الشَّيْطَانِ حَتَّی يُصْبِحَ وَكَتَبَ اللہُ لَہُ بِہَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ مُوجِبَاتٍ وَمَحَا عَنْہُ عَشْرَ سَيِّئَاتٍ مُوبِقَاتٍ وَكَانَتْ لَہُ بِعَدْلِ عَشْرِ رِقَابٍ مُؤْمِنَاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَلَا نَعْرِفُ لِعُمَارَةَ سَمَاعًا مِنْ النَّبِيِّ ﷺ

عمارہ بن شبیب سبائی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے مغرب کے بعد دس بار کہا: لاَإِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَشَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ اللہ اس کی صبح تک حفاظت کے لیے مسلح فرشتے بھیجے گا جو اس کی شیطان سے حفاظت کریں گے اور اس کے لیے ان کے عوض دس نیکیاں لکھی جائیں گی جو اسے اجر وثواب کامستحق بنائیں گی اور اس کی مہلک برائیاں اورگناہ مٹادیں گی اوراسے دس مسلمان غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اور ہم عمارہ کا نبی اکرم ﷺ سے سماع نہیں جانتے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ قَالَ أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ مَيْمُونٍ صَاحِبُ الْأَنْمَاطِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْہِ يَدَيْہِ أَنْ يَرُدَّہُمَا صِفْرًا خَائِبَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ حی وکریم ہے یعنی زندہ و موجود ہے اور شریف ہے اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلادے تو وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو خالی اور ناکام ونامراد واپس کردے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،بعض دوسروں نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَدْعُو بِإِصْبَعَيْہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَحِّدْ أَحِّدْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ إِذَا أَشَارَ الرَّجُلُ بِإِصْبَعَيْہِ فِي الدُّعَاءِ عِنْدَ الشَّہَادَةِ لَا يُشِيرُ إِلَّا بِإِصْبَعٍ وَاحِدَةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنی دو انگلیوں کے اشارے سے دعاکرتاتھا تو آپ نے اس سے کہا: ایک سے ایک سے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-یہی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی تشہد میں انگلیوں سے اشارہ کرتے وقت صرف ایک انگلی سے اشارہ کرے۔

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَی الْحِمَّانِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ أَبِي نُصَيْرَةَ عَنْ مَوْلًی لِأَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا أَصَرَّ مَنْ اسْتَغْفَرَ وَلَوْ فَعَلَہُ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي نُصَيْرَةَ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص گناہ کرکے توبہ کرلے اور اپنے گناہ پر نادم ہو تو وہ چاہے دن بھر میں ستر بار بھی گناہ کرڈالے وہ گناہ پر مُصر اور بضد نہیں ماناجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف ابونصیرہ کی روایت سے جانتے ہیں۳-اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَسُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا الْأَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ ثَوْبًا جَدِيدًا فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِہِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِي حَيَاتِي ثُمَّ عَمَدَ إِلَی الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِہِ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا فَقَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِہِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِي حَيَاتِي ثُمَّ عَمَدَ إِلَی الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِہِ كَانَ فِي كَنَفِ اللہِ وَفِي حِفْظِ اللہِ وَفِي سَتْرِ اللہِ حَيًّا وَمَيِّتًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ

ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عمر بن خطاب نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی کَسَانِی مَا أُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِی حَیَاتِی ۱؎،پھرانہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا: جس نے نیا کپڑا پہناپھر یہ دعا پڑھی: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی کَسَانِی مَا أُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی وَأَتَجَمَّلُ بِہِ فِی حَیَاتِی پھر اس نے اپنا پرانا (اتارا ہوا) کپڑا لیا اورا سے صدقہ میں دے دیا،تو وہ اللہ کی حفاظت و پناہ میں ر ہے گا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔یحییٰ بن ابی ایوب نے یہ حدیث عبید اللہ بن زحر سے،عبید اللہ بن زحر نے علی بن یزید سے اور علی بن یزید نے قاسم کے واسطہ سے ابوامامہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ قِرَاءَةً عَلَيْہِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ بَعْثًا قِبَلَ نَجْدٍ فَغَنِمُوا غَنَائِمَ كَثِيرَةً وَأَسْرَعُوا الرَّجْعَةَ فَقَالَ رَجَلٌ مِمَّنْ لَمْ يَخْرُجْ مَا رَأَيْنَا بَعْثًا أَسْرَعَ رَجْعَةً وَلَا أَفْضَلَ غَنِيمَةً مِنْ ہَذَا الْبَعْثِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَی قَوْمٍ أَفْضَلُ غَنِيمَةً وَأَسْرَعُ رَجْعَةً قَوْمٌ شَہِدُوا صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ جَلَسُوا يَذْكُرُونَ اللہَ حَتَّی طَلَعَتْ عَلَيْہِمْ الشَّمْسُ أُولَئِكَ أَسْرَعُ رَجْعَةً وَأَفْضَلُ غَنِيمَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ وَہُوَ أَبُو إِبْرَاہِيمَ الْأَنْصَارِيُّ الْمَدِينِيُّ وَہُوَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نجد کی طرف ایک فوج بھیجی تو اس نے بہت ساری غنیمت حاصل کیا اور جلدہی لوٹ آئی،(جنگ میں) نہ جانے والوں میں سے ایک نے کہا:میں نے اس فوج سے بہترکوئی فوج نہیں دیکھی جو اس فوج سے زیادہ جلد لوٹ آنے والی اور زیادہ مال غنیمت لے کر آنے والی ہو۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے لوگوں کی ایک جماعت نہ بتاؤں جو زیادہ غنیمت والی اور جلد واپس آجانے والی ہو؟ یہ وہ لوگ ہیں جو صلاۃِ فجر میں حاضر ہوتے ہیں پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ سورج نکل آتاہے یہ لوگ (ان سے) جلد لوٹ آنے والے اور (ان سے) زیادہ مال غنیمت لانے والے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-حماد بن ابی حمید یہ محمد بن ابی حمید ہیں،اور یہ ابوابراہیم انصاری مدنی ہیں ۱؎۔حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْعُمْرَةِ فَقَالَ أَيْ أُخَيَّ أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ وَلَا تَنْسَنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے (اجازت دیتے ہوئے) کہا: اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا،بھولنا نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَيَّارٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ مُكَاتَبًا جَاءَہُ فَقَالَ إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَتِي فَأَعِنِّي قَالَ أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيہِنَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَيْنًا أَدَّاہُ اللہُ عَنْكَ قَالَ قُلْ اللہُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام نے ۱؎ ان کے پاس آکرکہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کرپارہاہوں،آپ ہماری کچھ مدد فرمادیجئے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھادوں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس صیر پہاڑ کے برابر بھی قرض ہوتوتیری جانب سے اللہ اسے ادا فرمادے گا،انہوں نے کہا: کہو: اللہُمَّ اکْفِنِی بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِی بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ اصْطَفَی مِنْ وَلَدِ إِبْرَاہِيمَ إِسْمَعِيلَ وَاصْطَفَی مِنْ وَلَدِ إِسْمَعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ وَاصْطَفَی مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي ہَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي ہَاشِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا ۱؎ اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا،اور بنی کنانہ میں سے قریش کا،اور قریش میں سے بنی ہاشم کا،اور بنی ہاشم میں سے میراانتخاب فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنِي وَاثِلَةُ بْنُ الْأَسْقَعِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ اصْطَفَی كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَعِيلَ وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ وَاصْطَفَی ہَاشِمًا مِنْ قُرَيْشٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي ہَاشِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کا انتخاب فرمایا اور کنانہ سے قریش کا اور قریش میں سے ہاشم کا اور بنی ہاشم میں سے میراانتخاب فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَی الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ قُرَيْشًا جَلَسُوا فَتَذَاكَرُوا أَحْسَابَہُمْ بَيْنَہُمْ فَجَعَلُوا مَثَلَكَ مَثَلَ نَخْلَةٍ فِي كَبْوَةٍ مِنْ الْأَرْضِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِہِمْ مِنْ خَيْرِ فِرَقِہِمْ وَخَيْرِ الْفَرِيقَيْنِ ثُمَّ تَخَيَّرَ الْقَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ قَبِيلَةٍ ثُمَّ تَخَيَّرَ الْبُيُوتَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ بُيُوتِہِمْ فَأَنَا خَيْرُہُمْ نَفْسًا وَخَيْرُہُمْ بَيْتًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْحَارِثِ ہُوَ ابْنُ نَوْفَلٍ

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قریش کے لوگ بیٹھے اور انہوں نے قریش میں اپنے حسب کا ذکر کیا تو آپ کی مثال کھجور کے ایک ایسے درخت سے دی جو کسی کوڑے خانہ پر (اگا) ہوتو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا،اس نے اس میں سے دوگروہوں کو پسند کیا،اور مجھے ان میں سب سے اچھے گروہ (یعنی اولاد اسماعیل) میں پیدا کیا،پھر اس نے قبیلوں کو چنا اور مجھے بہتر قبیلے میں سے کیا،پھر گھروں کو چنا اور مجھے ان گھروں میں سب سے بہتر گھر میں کیا،تو میں ذاتی طورپر بھی ان میں سب سے بہتر ہوں اور گھرانے کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ قَالَ جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَكَأَنَّہُ سَمِعَ شَيْئًا فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ أَنَا فَقَالُوا أَنْتَ رَسُولُ اللہِ عَلَيْكَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِہِمْ ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِہِمْ فِرْقَةً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِہِمْ قَبِيلَةً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِہِمْ بَيْتًا وَخَيْرِہِمْ نَفْسًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ

مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے،گویا انہوں نے کوئی چیز سنی تھی،تو نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں سلامتی ہو آپ پر،آپ نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں،اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے ان کے سب سے بہتر مخلوق میں کیا،پھر ان کے دوگروہ کئے تو مجھے ان کے بہتر گروہ میں کیا،پھرانہیں قبیلوں میں بانٹا تو مجھے ان کے سب سے بہتر قبیلہ میں کیا،پھر ان کے کئی گھر کیے تو مجھے ان کے سب سے بہتر گھر میں کیا اور شخصی طورپر بھی مجھے ان میں سب سے بہتر بنایا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-جس طرح اسماعیل بن ابی خالد نے یزید بن ابی زیاد سے اور یزید بن ابی زیاد نے عبداللہ بن حارث کے واسطہ سے عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے اسی طرح سفیان ثوری نے بھی یزید بن ابی زیاد سے روایت کی ہے۔(وہ یہی روایت ہے)۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ مَتَی وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ قَالَ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا: جب آدم روح اورجسم کے درمیان تھے ۱؎۔(یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہورہی تھی)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا إِذَا بُعِثُوا وَأَنَا خَطِيبُہُمْ إِذَا وَفَدُوا وَأَنَا مُبَشِّرُہُمْ إِذَا أَيِسُوا لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَی رَبِّي وَلَا فَخْرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے تو میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی اور جب وہ دربار الٰہی میں آئیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا،اور جب وہ مایوس اور ناامید ہوجائیں گے تو میں انہیں خوش خبری سنانے والا ہوں گا،حمد کا پرچم اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا،اور میں اپنے رب کے نزدیک اولاد آدم میں سب سے بہتر ہوں اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ يَزِيدَ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ فَأُكْسَی حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ الْخَلَائِقِ يَقُومُ ذَلِكَ الْمَقَامَ غَيْرِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا،پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا،میرے علاوہ وہاں مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہوسکے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ لَيْثٍ وَہُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ حَدَّثَنِي كَعْبٌ حَدَّثَنِي أَبُو ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سَلُوا اللہَ لِيَ الْوَسِيلَةَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا الْوَسِيلَةُ قَالَ أَعْلَی دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ لَا يَنَالُہَا إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا ہُوَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادُہُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ وَكَعْبٌ لَيْسَ ہُوَ بِمَعْرُوفٍ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَی عَنْہُ غَيْرَ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وسیلہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا: یہ جنت کا سب سے اونچا درجہ ہے جسے صرف ایک ہی شخص پاسکتاہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اس کی سندزیادہ قوی نہیں ہے،۲-کعب غیر معروف شخص ہیں،ہم لیث بن سلیم کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے ہیں جس نے ان سے روایت کی ہو۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا زُہَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَثَلِي فِي النَّبِيِّينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی دَارًا فَأَحْسَنَہَا وَأَكْمَلَہَا وَأَجْمَلَہَا وَتَرَكَ مِنْہَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِالْبِنَاءِ وَيَعْجَبُونَ مِنْہُ وَيَقُولُونَ لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ وَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ وَخَطِيبَہُمْ وَصَاحِبَ شَفَاعَتِہِمْ غَيْرُ فَخْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھابنایا،مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا،لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی،لوگ اس میں پھرتے تھے اور ا س کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے،کا ش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہوجاتی،تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے۔اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہوگا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور (اوراس پرمجھے) کوئی گھمنڈنہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ أَخْبَرَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلَّی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ بِہَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّہَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللہِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا ہُوَ وَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْہِ الشَّفَاعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ مُحَمَّدٌ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ ہَذَا قُرَشِيٌّ مِصْرِيٌّ مَدَنِيٌّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ شَامِيٌّ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم موذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو موذن کہتاہے ۱؎ پھر میرے اوپرصلاۃ(درود) بھیجوکیوں کہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا،پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیوں کہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتاہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس سند میں مذکور عبدالرحمٰن بن جبیر قرشی،مصری اور مدنی ہیں اور نفیر کے پوتے عبدالرحمٰن بن جبیر شامی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا پرچم ہوگا اور اس پرمجھے گھمنڈنہیں،اور آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی علیہم السلام ہوں گے سب میرے پرچم کے نیچے ہوں گے،اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کے لیے زمین شق ہوگی،اور سب سے پہلے قبرسے میں اٹھوں گا اوراس پر مجھے گھمنڈنہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے،۲-اسے اسی سند سے ابونضرہ سے روایت ہے،وہ اسے ابن عباس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَہْرَامٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَنْتَظِرُونَہُ قَالَ فَخَرَجَ حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْہُمْ سَمِعَہُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَسَمِعَ حَدِيثَہُمْ فَقَالَ بَعْضُہُمْ عَجَبًا إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِہِ خَلِيلًا اتَّخَذَ إِبْرَاہِيمَ خَلِيلًا وَقَالَ آخَرُ مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ كَلَامِ مُوسَی كَلَّمَہُ تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ فَعِيسَی كَلِمَةُ اللہِ وَرُوحُہُ وَقَالَ آخَرُ آدَمُ اصْطَفَاہُ اللہُ فَخَرَجَ عَلَيْہِمْ فَسَلَّمَ وَقَالَ قَدْ سَمِعْتُ كَلَامَكُمْ وَعَجَبَكُمْ إِنَّ إِبْرَاہِيمَ خَلِيلُ اللہِ وَہُوَ كَذَلِكَ وَمُوسَی نَجِيُّ اللہِ وَہُوَ كَذَلِكَ وَعِيسَی رُوحُ اللہِ وَكَلِمَتُہُ وَہُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاہُ اللہُ وَہُوَ كَذَلِكَ أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللہِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللہُ لِي فَيُدْخِلُنِيہَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِينَ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَكْرَمُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ وَلَا فَخْرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ بیٹھے آپ کے حجرے سے نکلنے کا انتظار کررہے تھے،کہتے ہیں: پھر آپ نکلے یہاں تک کہ جب آپ ان کے قریب آئے تو انہیں آپس میں بحث کرتے سنا،آپ نے ان کی باتیں سنیں،کوئی کہہ رہاتھا،تعجب ہے اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا،دوسرے نے کہا: موسیٰ سے اس کا کلام کرنا کتنا زیادہ تعجب خیز معاملہ ہے،اور ایک نے کہا: عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں،اور ایک دوسرے نے کہا: آدم کو اللہ نے توچن لیا ہے،تو آپ نکل کر ان کے سامنے آئے اور انہیں سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ابراہیم علیہ السلام کے خلیل اللہ ہونے پر تعجب میں پڑنے کوبھی،واقعی وہ ایسے ہی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے اللہ کے نجی اللہ ہو نے پر،اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے کلمۃ اللہ اورروح اللہ ہونے پر،اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور آدم کے اللہ کا برگزیدہ ہونے پر،اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں،سن لو! میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں،قیامت کے دن حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور قیامت کے دن میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو شفاعت(سفارش) کرے گا اور جس کی شفاعت(سفارش) سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو جنت کی کنڈی ہلائے گاتو اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا،پھر وہ مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور میں اگلوں اور پچھلوں میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنِي أَبُو مَوْدُودٍ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَصِفَةُ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَہُ فَقَالَ أَبُو مَوْدُودٍ وَقَدْ بَقِيَ فِي الْبَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ ہَكَذَا قَالَ عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ وَالْمَعْرُوفُ الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ الْمَدَنِيُّ

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ عیسیٰ بن مریم انہیں کے ساتھ دفن کئے جائیں گے۔ابوقتیبہ کہتے ہیں کہ ابومودود نے کہا: حجرہ ٔ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،سند میں راوی نے عثمان بن ضحاک کہا اور مشہور ضحاک بن عثمان مدنی ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ ہِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَدِينَةَ أَضَاءَ مِنْہَا كُلُّ شَيْءٍ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيہِ أَظْلَمَ مِنْہَا كُلُّ شَيْءٍ وَلَمَّا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ الْأَيْدِي وَإِنَّا لَفِي دَفْنِہِ حَتَّی أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ (پہلے پہل) مدینہ میں د اخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پر نور ہوگئی،پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہرچیز تاریک ہوگئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَہُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْہِ بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَمْ يَكُنْ بِالْقَصِيرِ وَلَا بِالطَّوِيلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو جس کے بال کا ن کی لو کے نیچے ہوں سرخ جوڑے ۱؎ میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا،آپ کے بال آپ کے دونوں کندھوں سے لگے ہوتے تھے ۲؎،اور آپ کے دونوں کندھوں میں کافی فاصلہ ہوتاتھا ۳؎،نہ آپ پستہ قد تھے نہ بہت لمبے ۴؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا زُہَيْرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَاءَ أَكَانَ وَجْہُ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِثْلَ السَّيْفِ قَالَ لَا مِثْلَ الْقَمَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابواسحاق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے براء سے پوچھا:کیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں،بلکہ چاند کی مانند تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ ہُرْمُزَ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ شَثْنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ ضَخْمَ الرَّأْسِ ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ طَوِيلَ الْمَسْرُبَةِ إِذَا مَشَی تَكَفَّأَ تَكَفُّؤًا كَأَنَّمَا انْحَطَّ مِنْ صَبَبٍ لَمْ أَرَ قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ مِثْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْمَسْعُودِيِّ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نہ لمبے تھے نہ پستہ قد،آپ کی ہتھیلیاں اور پاؤں گوشت سے پُر تھے،آپ بڑے سراور موٹے جوڑوں والے تھے،(یعنی گھٹنے اور کہنیاں گوشت سے پُر اور فربہ تھیں)،سینہ سے ناف تک باریک بال تھے،جب چلتے تو آگے جھکے ہوئے ہوتے گویا آپ اوپر سے نیچے اتررہے ہیں،میں نے نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کسی کو آپ جیسادیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے میرے باپ وکیع نے بیان کیا اور انہوں نے مسعودی سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي حَلِيمَةَ مِنْ قَصْرِ الْأَحْنَفِ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ مَوْلَی غُفْرَةَ حَدَّثَنِي إِبْرَاہِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَمْ يَكُنْ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ وَلَا بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ وَكَانَ رَبْعَةً مِنْ الْقَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ كَانَ جَعْدًا رَجِلًا وَلَمْ يَكُنْ بِالْمُطَہَّمِ وَلَا بِالْمُكَلْثَمِ وَكَانَ فِي الْوَجْہِ تَدْوِيرٌ أَبْيَضُ مُشْرَبٌ أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ أَہْدَبُ الْأَشْفَارِ جَلِيلُ الْمُشَاشِ وَالْكَتَدِ أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ إِذَا مَشَی تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا بَيْنَ كَتِفَيْہِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَہُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ أَجْوَدُ النَّاسِ كَفَّا وَأَشْرَحُہُمْ صَدْرًا وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَہْجَةً وَأَلْيَنُہُمْ عَرِيكَةً وَأَكْرَمُہُمْ عِشْرَةً مَنْ رَآہُ بَدِيہَةً ہَابَہُ وَمَنْ خَالَطَہُ مَعْرِفَةً أَحَبَّہُ يَقُولُ نَاعِتُہُ لَمْ أَرَ قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ مِثْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ سَمِعْتُ الْأَصْمَعِيَّ يَقُولُ فِي تَفْسِيرِہِ صِفَةَ النَّبِيِّ ﷺ الْمُمَّغِطُ الذَّاہِبُ طُولًا وَسَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا يَقُولُ تَمَغَّطَ فِي نُشَّابَةٍ أَيْ مَدَّہَا مَدًّا شَدِيدًا وَأَمَّا الْمُتَرَدِّدُ فَالدَّاخِلُ بَعْضُہُ فِي بَعْضٍ قِصَرًا وَأَمَّا الْقَطَطُ فَالشَّدِيدُ الْجُعُودَةِ وَالرَّجِلُ الَّذِي فِي شَعْرِہِ حُجُونَةٌ أَيْ يَنْحَنِي قَلِيلًا وَأَمَّا الْمُطَہَّمُ فَالْبَادِنُ الْكَثِيرُ اللَّحْمِ وَأَمَّا الْمُكَلْثَمُ فَالْمُدَوَّرُ الْوَجْہِ وَأَمَّا الْمُشْرَبُ فَہُوَ الَّذِي فِي نَاصِيَتِہِ حُمْرَةٌ وَالْأَدْعَجُ الشَّدِيدُ سَوَادِ الْعَيْنِ وَالْأَہْدَبُ الطَّوِيلُ الْأَشْفَارِ وَالْكَتَدُ مُجْتَمَعُ الْكَتِفَيْنِ وَہُوَ الْكَاہِلُ وَالْمَسْرُبَةُ ہُوَ الشَّعْرُ الدَّقِيقُ الَّذِي ہُوَ كَأَنَّہُ قَضِيبٌ مِنْ الصَّدْرِ إِلَی السُّرَّةِ وَالشَّثْنُ الْغَلِيظُ الْأَصَابِعِ مِنْ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ وَالتَّقَلُّعُ أَنْ يَمْشِيَ بِقُوَّةٍ وَالصَّبَبُ الْحُدُورُ يَقُولُ انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ وَصَبَبٍ وَقَوْلُہُ جَلِيلُ الْمُشَاشِ يُرِيدُ رُءُوسَ الْمَنَاكِبِ وَالْعِشْرَةُ الصُّحْبَةُ وَالْعَشِيرُ الصَّاحِبُ وَالْبَدِيہَةُ الْمُفَاجَأَةُ يُقَالُ بَدَہْتُہُ بِأَمْرٍ أَيْ فَجَأْتُہُ

ابراہیم بن محمدجو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں ان سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جب نبی اکرم ﷺ کا حلیہ بیان کرتے تو کہتے: نہ آپ بہت لمبے تھے نہ بہت پستہ قد،بلکہ لوگوں میں درمیانی قد کے تھے،آپ کے بال نہ بہت گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے،بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تھے،نہ آپ بہت موٹے تھے اور نہ چہرہ بالکل گول تھا،ہاں اس میں کچھ گولائی ضرورتھی،آپ گورے سفید سرخی مائل،سیاہ چشم،لمبی پلکوں والے،بڑے جوڑوں والے اور بڑے شانہ والے تھے،آپ کے جسم پر زیادہ بال نہیں تھے،صرف بالوں کا ایک خط سینہ سے ناف تک کھنچا ہوا تھا،دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم گوشت سے پُر تھے جب چلتے زمین پر پیر جما کر چلتے،پلٹتے تو پورے بدن کے ساتھ پلٹتے،آپ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت تھی،آپ خاتم النبیین تھے،لوگوں میں آپ سب سے زیادہ سخی تھے،آپ کھلے دل کے تھے،یعنی آپ کا سینہ بغض وحسد سے آئینہ کے مانند پاک وصاف ہوتاتھا،اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے،نرم مزاج اور سب سے بہتر رہن سہن والے تھے،جو آپ کو یکایک دیکھتا ڈرجاتا اور جو آپ کو جان اور سمجھ کر آپ سے گھل مل جاتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا،آپ کی توصیف کرنے والا کہتا: نہ آپ سے پہلے میں نے کسی کو آپ جیسا دیکھا ہے اور نہ آپ کے بعد۔ﷺ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،اس کی سند متصل نہیں ہے،۲-(نسائی کے شیخ)ابوجعفر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کے حلیہ ٔ مبارک کی تفسیر میں اصمعی کو کہتے ہوئے سنا کہ الممغط کے معنی لمبائی میں جانے والے کے ہیں،میں نے ایک اعرابی کو سنا وہ کہہ رہاتھا تمغط فی نشابۃ یعنی اس نے اپنا تیر بہت زیادہ کھینچا اور متردد ایسا شخص ہے جس کا بدن ٹھنگنے پن کی وجہ سے بعض بعض میں گھسا ہوا ہو اور قطط سخت گھونگھریا لے بال کو کہتے ہیں،اور رَجِل اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے بالوں میں تھوڑی خمید گی ہو اور مطہم ایسے جسم والے کو کہتے ہیں جو موٹا اور زیادہ گوشت والاہو اور مکلثم جس کا چہرہ گول ہو اور مشدب وہ شخص ہے جس کی پیشانی میں سرخی ہو اور ادعج وہ شخص ہے جس کے آنکھوں کی سیاہی خوب کالی ہو اور اہدب وہ ہے جس کی پلکیں لمبی ہوں اور کتد دونوں شانوں کے ملنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور مسربۃ وہ باریک بال ہیں جو ایک خط کی طرح سینہ سے ناف تک چلے گئے ہوں اور شثن وہ شخص ہے جس کے ہتھیلیوں اور پیروں کی انگلیاں موٹی ہوں،اور تقلع سے مراد پیر جماجما کر طاقت سے چلنا ہے اور صبب اتر نے کے معنی میں ہے،عرب کہتے ہیں انحدر نافی صبوب وصبب یعنی ہم بلندی سے اترے جلیل المشاش سے مراد شانوں کے سرے ہیں،یعنی آپ بلند شانہ والے تھے،اورعشرۃ سے مراد رہن سہن ہے اور عشیرہ کے معنیٰ رہن سہن والے کے ہیں اور بدیھۃ کے معنی یکایک اور یکبار گی کے ہیں،عرب کہتے ہیں بَدَہْتُہُ بِأَمْرٍ میں ایک معاملہ کولے کر اس کے پاس اچانک آیا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ عَلَی حِرَاءَ ہُوَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِيٌّ وَعُثْمَانُ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّكَتْ الصَّخْرَةُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ اہْدَأْ إِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَہِيدٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ،ابوبکر،عمر،علی،عثمان،طلحہ،اور زبیر رضی اللہ عنہم حرا پہاڑ ۱؎ پر تھے،تو وہ چٹان جس پر یہ لوگ تھے ہلنے لگی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ٹھہری رہ،تجھ پر نبی،صدیق اور شہید ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں عثمان،سعید بن زید،ابن عباس،سہل بن سعد،انس بن مالک،اور بریرہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ حَدَّثَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ صَعِدَ أُحُدًا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِہِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَہِيدَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے اور ابوبکر،عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم بھی توو ہ ان کے ساتھ ہل اٹھا،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ٹھہرارہ اے احد! تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دوشہید ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ عَنْ شَيْخٍ مِنْ بَنِي زُہْرَةَ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ وَرَفِيقِي يَعْنِي فِي الْجَنَّةِ عُثْمَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَہُوَ مُنْقَطِعٌ

طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کا ایک رفیق ہوتاہے،اور میرے رفیق یعنی جنت میں عثمان ہوں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،اس کی سند قوی نہیں اور یہ منقطع ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو عَنْ زَيْدٍ ہُوَ ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْہِمْ فَوْقَ دَارِہِ ثُمَّ قَالَ أُذَكِّرُكُمْ بِاللہِ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ حِرَاءَ حِينَ انْتَفَضَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اثْبُتْ حِرَاءُ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَہِيدٌ قَالُوا نَعَمْ قَالَ أُذَكِّرُكُمْ بِاللہِ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً وَالنَّاسُ مُجْہَدُونَ مُعْسِرُونَ فَجَہَّزْتُ ذَلِكَ الْجَيْشَ قَالُوا نَعَمْ ثُمَّ قَالَ أُذَكِّرُكُمْ بِاللہِ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ بِئْرَ رُومَةَ لَمْ يَكُنْ يَشْرَبُ مِنْہَا أَحَدٌ إِلَّا بِثَمَنٍ فَابْتَعْتُہَا فَجَعَلْتُہَا لِلْغَنِيِّ وَالْفَقِيرِ وَابْنِ السَّبِيلِ قَالُوا اللہُمَّ نَعَمْ وَأَشْيَاءَ عَدَّدَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عُثْمَانَ

ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کامحاصرہ کیاگیا تو انہوں نے اپنے مکان کے کوٹھے سے جھانک کر بلوائیوں کودیکھا پھر کہا: میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یاد دلاتاہوں: کیا تم جانتے ہوکہ حرا پہاڑ سے جس وقت وہ ہلا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایاتھا کہحرا ٹھہرے رہو! کیوں کہ تجھ پر ایک نبی،ایک صدیق اور ایک شہید کے علاوہ کوئی اور نہیں؟،ان لوگوں نے کہا: ہاں،پھر عثمان نے کہا: میں تمہیں اللہ کا حوالہ دے کر یا دلاتاہوں،کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سلسلے میں فرمایاتھا: کون (اس غزوہ کا) خرچ دے گا جو اللہ کے نزدیک مقبول ہوگا (اورلوگ اس وقت پریشانی اور تنگی میں تھے) تو میں نے (خرچ دے کر) اس لشکر کو تیار کیا؟،لوگوں نے کہا: ہاں،پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر یاد دلاتاہوں: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ بئر رومہ کا پانی بغیر قیمت کے کوئی پی نہیں سکتاتھا تو میں نے اسے خرید کر غنی،محتاج اور مسافر سب کے لیے وقف کردیا؟،لوگوں نے کہا: ہاں،ہمیں معلوم ہے اور اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں انہوں نے گنوائیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی ابوعبدالرحمٰن کی روایت سے جسے وہ عثمان سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَيُكْنَی أَبَا مُحَمَّدٍ مَوْلًی لِآلِ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ہِشَامٍ عَنْ فَرْقَدٍ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَبَّابٍ قَالَ شَہِدْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَہُوَ يَحُثُّ عَلَی جَيْشِ الْعُسْرَةِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ عَلَيَّ مِائَةُ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا فِي سَبِيلِ اللہِ ثُمَّ حَضَّ عَلَی الْجَيْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ عَلَيَّ مِائَتَا بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا فِي سَبِيلِ اللہِ ثُمَّ حَضَّ عَلَی الْجَيْشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ عَلَيَّ ثَلَاثُ مِائَةِ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِہَا وَأَقْتَابِہَا فِي سَبِيلِ اللہِ فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَنْزِلُ عَنْ الْمِنْبَرِ وَہُوَ يَقُولُ مَا عَلَی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ہَذِہِ مَا عَلَی عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ ہَذِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ السَّكَنِ بْنِ الْمُغِيرَةِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ

عبدالرحمٰن بن خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ جیش عسرہ (غزوئہ تبوک) کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے،تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع سازوسامان کے،آپ نے پھر اس کی ترغیب دلائی،تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دوسو اونٹ ہیں مع سازوسامان کے،آپ نے پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع سازوسامان کے،میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں،اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،ہم اسے صرف سکن بن مغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ الرَّمْلِيُّ حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَوْذَبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ جَاءَ عُثْمَانُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ بِأَلْفِ دِينَارٍ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ وَكَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ كِتَابِي فِي كُمِّہِ حِينَ جَہَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَيَنْثُرُہَا فِي حِجْرِہِ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُقَلِّبُہَا فِي حِجْرِہِ وَيَقُولُ مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ مَرَّتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:عثمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے،(حسن بن واقع جو راوی حدیث ہیں کہتے ہیں: دوسری جگہ میری کتاب میں یوں ہے کہ وہ اپنی آستین میں لے کر آئے)،جس وقت انہوں نے جیش عسرہ کو تیار کیا،اور اسے آپ کی گود میں ڈال دیا،میں نبی اکرم ﷺکو اسے اپنی گود میں الٹتے پلٹتے دیکھااور یہ کہتے سناکہ آج کے بعد سے عثمان کوکوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا،ایسا آپ نے دوبار فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِبَيْعَةِ الرِّضْوَانِ كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِلَی أَہْلِ مَكَّةَ قَالَ فَبَايَعَ النَّاسَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ عُثْمَانَ فِي حَاجَةِ اللہِ وَحَاجَةِ رَسُولِہِ فَضَرَبَ بِإِحْدَی يَدَيْہِ عَلَی الْأُخْرَی فَكَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللہِ ﷺ لِعُثْمَانَ خَيْرًا مِنْ أَيْدِيہِمْ لِأَنْفُسِہِمْ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کو بیعت رضوان ۱؎ کا حکم دیا گیا تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے قاصد بن کر اہل مکہ کے پاس گئے ہوئے تھے،جب آپ نے لوگوں سے بیعت لی،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں،پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پر مارا تو رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ جسے آپ نے عثمان کے لیے استعمال کیا لوگوں کے ہاتھوں سے بہترتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي الْحَجَّاجِ الْمَنْقَرِيِّ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ شَہِدْتُ الدَّارَ حِينَ أَشْرَفَ عَلَيْہِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ ائْتُونِي بِصَاحِبَيْكُمْ اللَّذَيْنِ أَلَّبَاكُمْ عَلَيَّ قَالَ فَجِيءَ بِہِمَا فَكَأَنَّہُمَا جَمَلَانِ أَوْ كَأَنَّہُمَا حِمَارَانِ قَالَ فَأَشْرَفَ عَلَيْہِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللہِ وَالْإِسْلَامِ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَلَيْسَ بِہَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِ رُومَةَ فَقَالَ مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَجْعَلَ دَلْوَہُ مَعَ دِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ بِخَيْرٍ لَہُ مِنْہَا فِي الْجَنَّةِ فَاشْتَرَيْتُہَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمْ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أَشْرَبَ حَتَّی أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ قَالُوا اللہُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللہِ وَالْإِسْلَامِ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَہْلِہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ يَشْتَرِي بُقْعَةَ آلِ فُلَانٍ فَيَزِيدَہَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ مِنْہَا فِي الْجَنَّةِ فَاشْتَرَيْتُہَا مِنْ صُلْبِ مَالِي فَأَنْتُمْ الْيَوْمَ تَمْنَعُونِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيہَا رَكْعَتَيْنِ قَالُوا اللہُمَّ نَعَمْ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللہِ وَالْإِسْلَامِ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنِّي جَہَّزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِي قَالُوا اللہُمَّ نَعَمْ ثُمَّ قَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللہِ وَالْإِسْلَامِ ہَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ عَلَی ثَبِيرِ مَكَّةَ وَمَعَہُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّكَ الْجَبَلُ حَتَّی تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُہُ بِالْحَضِيضِ قَالَ فَرَكَضَہُ بِرِجْلِہِ وَقَالَ اسْكُنْ ثَبِيرُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَہِيدَانِ قَالُوا اللہُمَّ نَعَمْ قَالَ اللہُ أَكْبَرُ شَہِدُوا لِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ أَنِّي شَہِيدٌ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عُثْمَانَ

ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں کہ میں اس وقت گھرمیں موجود تھا جب عثمان رضی اللہ عنہ نے کوٹھے سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہاتھا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ،جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے،چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے یعنی بڑے موٹے اورطاقتور،تو عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں جھانک کردیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئر رومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کون بئررومہ کو جنت میں اپنے لیے اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کردے گا؟،یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا،تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو،یہاں تک کہ میں سمندر کا(کھارا) پانی پی رہاہوں؟ لوگوں نے کہا: ہاں،یہی بات ہے،انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کہ مسجد لوگوں کے لیے تنگ ہوگئی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟،تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دورکعت صلاۃ پڑھنے نہیں دے رہے ہو،لوگوں نے کہا: ہاں،بات یہی ہے،پھرانہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتاہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر،عمر رضی اللہ عنہما تھے اور میں تھا،تو پہاڑ لرزنے لگا،یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تورسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا: ٹھہر اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی،ایک صدیق اور دوشہیدوں کے سوا کوئی اورنہیں،لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی،یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور عثمان سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ سے بھی آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ أَنَّ خُطَبَاءَ قَامَتْ بِالشَّامِ وَفِيہِمْ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَامَ آخِرُہُمْ رَجُلٌ يُقَالُ لَہُ مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ فَقَالَ لَوْلَا حَدِيثٌ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَا قُمْتُ وَذَكَرَ الْفِتَنَ فَقَرَّبَہَا فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ فِي ثَوْبٍ فَقَالَ ہَذَا يَوْمَئِذٍ عَلَی الْہُدَی فَقُمْتُ إِلَيْہِ فَإِذَا ہُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قَالَ فَأَقْبَلْتُ عَلَيْہِ بِوَجْہِہِ فَقُلْتُ ہَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ حَوَالَةَ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ

ابواشعث صنعانی سے روایت ہے کہ مقررین ملک شام میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے،ان میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے بھی کچھ لوگ تھے،پھر سب سے آخر میں ایک شخص کھڑا ہوا جسے مرّہ بن کعب رضی اللہ عنہ کہاجاتا تھا،اس نے کہا: اگر میں نے ایک حدیث رسول اللہ ﷺ سے نہ سنی ہوتی تو میں کھڑا نہ ہوتا،پھر انہوں نے فتنوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس کا ظہور قریب ہے،پھر ایک شخص منہ پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو مرّہ نے کہا: یعنی نبی اکرم ﷺ کا قول نقل کیا: یہ اس دن ہدایت پر ہوگا،تومیں اسے دیکھنے کے لیے اس کی طرف اٹھا،تو کیا دیکھتاہوں کہ وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں،پھر میں نے ان کا منہ مرہ کی طرف کرکے کہا: وہ یہی ہیں،انہوں نے کہا: ہاں وہ یہی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۲-اس باب میں ابن عمر،عبداللہ بن حوّالہ اور کعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ يَا عُثْمَانُ إِنَّہُ لَعَلَّ اللہَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا فَإِنْ أَرَادُوكَ عَلَی خَلْعِہِ فَلَا تَخْلَعْہُ لَہُمْ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اے عثمان! شاید اللہ تمہیں کوئی کرتا ۱؎ پہنائے،اگرلوگ اسے اتارنا چاہیں تو تم اسے ان کے لیے نہ اتارنا،اس میں حدیث ایک طویل قصہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوْہَبٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَی قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ مَنْ ہَؤُلَاءِ قَالُوا قُرَيْشٌ قَالَ فَمَنْ ہَذَا الشَّيْخُ قَالُوا ابْنُ عُمَرَ فَأَتَاہُ فَقَالَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ فَحَدِّثْنِي أَنْشُدُكَ اللہَ بِحُرْمَةِ ہَذَا الْبَيْتِ أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَتَعْلَمُ أَنَّہُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْہَدْہَا قَالَ نَعَمْ قَالَ أَتَعْلَمُ أَنَّہُ تَغَيَّبَ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْہَدْ قَالَ نَعَمْ قَالَ اللہُ أَكْبَرُ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرَ تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ مَا سَأَلْتَ عَنْہُ أَمَّا فِرَارُہُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْہَدُ أَنَّ اللہَ قَدْ عَفَا عَنْہُ وَغَفَرَ لَہُ وَأَمَّا تَغَيُّبُہُ يَوْمَ بَدْرٍ فَإِنَّہُ كَانَتْ عِنْدَہُ أَوْ تَحْتَہُ ابْنَةُ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَكَ أَجْرُ رَجُلٍ شَہِدَ بَدْرًا وَسَہْمُہُ وَأَمَرَہُ أَنْ يَخْلُفَ عَلَيْہَا وَكَانَتْ عَلِيلَةً وَأَمَّا تَغَيُّبُہُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَكَانَ عُثْمَانَ بَعَثَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عُثْمَانَ إِلَی مَكَّةَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَہَبَ عُثْمَانُ إِلَی مَكَّةَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِيَدِہِ الْيُمْنَی ہَذِہِ يَدُ عُثْمَانَ وَضَرَبَ بِہَا عَلَی يَدِہِ فَقَالَ ہَذِہِ لِعُثْمَانَ قَالَ لَہُ اذْہَبْ بِہَذَا الْآنَ مَعَكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ ٔ قریش کے لوگ ہیں،اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر ہیں تووہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہاہوں آپ مجھے بتائیے،میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں،کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں،پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں،پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر میں موجود نہیں تھے،تمہارے انہوں نے کہا: ہاں،اس مصری نے ازراہ تعجب اللہ اکبر کہا ۱؎،اس پر ابن عمر نے اس سے کہا: آؤمیں تیرے سوالوں کو تم پر واضح کردوں: رہا ان (عثمان) کا احد کے دن بھاگنا ۲؎ تو تو گواہ رہ کہ اللہ نے اسے معاف کردیا اور بخش دیا ہے۳؎ اور رہی بدر کے دن،ان کی غیر حاضری تو ان کے نکاح میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: تمہیں اس آدمی کے برابر ثو اب اور اس کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا،جو بدر میں حاضر ہوگا،اور رہی ان کی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عثمان سے بڑھ کر وادی مکہ میں کوئی باعزت ہوتا تو عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ رسول اللہ ﷺ اسی کو بھیجتے،رسول اللہ ﷺ نے عثمان کو مکہ بھیجا اور بیعت رضوان عثمان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ عثمان کاہاتھ ہے ،اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے،تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا: اب یہ جواب تم اپنے ساتھ لیتا جاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ حَيٌّ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کہتے تھے: ابوبکر،عمر،اور عثمان ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا شَاذَانُ الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ سِنَانِ بْنِ ہَارُونَ الْبُرْجُمِيِّ عَنْ كُلَيْبِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِتْنَةً فَقَالَ يُقْتَلُ فِيہَا ہَذَا مَظْلُومًا لِعُثْمَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کیا تو فرمایا: اس فتنہ میں یہ عثمان بھی مظلوم قتل کیاجائے گا(یہ بات آپ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق کہی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر کی یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ الْبَغْدَادِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ زُفَرَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِجَنَازَةِ رَجُلٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْہِ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْہِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا رَأَيْنَاكَ تَرَكْتَ الصَّلَاةَ عَلَی أَحَدٍ قَبْلَ ہَذَا قَالَ إِنَّہُ كَانَ يَبْغَضُ عُثْمَانَ فَأَبْغَضَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ صَاحِبُ مَيْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ جِدًّا وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ صَاحِبُ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہُوَ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ وَيُكْنَی أَبَا الْحَارِثِ وَمُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ الْأَلْہَانِيُّ صَاحِبُ أَبِي أُمَامَةَ ثِقَةٌ يُكْنَی أَبَا سُفْيَانَ شَامِيٌّ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ اس پر صلاۃِجنازہ پڑھیں توآپ نے اس پرصلاۃ نہیں پڑھی،آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اس سے پہلے ہم نے آپ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی پر جنازہ کی صلاۃ نہ پڑھی ہو؟ آپ نے فرمایا: یہ عثمان سے بغض رکھتاتھا،تو اللہ نے اسے مبغوض کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-میمون بن مہران کے شاگرد محمد بن زیادہ حدیث میں بہت ضعیف گردانے جاتے ہیں ۱؎،اور محمد بن زیاد جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں یہ بصری ہیں اورثقہ ہیں،ان کی کنیت ابوحارث ہے اورمحمد بن زیاد الہانی جو ابوامامہ کے شاگرد ہیں،ثقہ ہیں،ان کی کنیت ابوسفیان ہے،یہ شامی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ انْطَلَقْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَدَخَلَ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ فَقَضَی حَاجَتَہُ فَقَالَ لِي يَا أَبَا مُوسَی أَمْلِكْ عَلَيَّ الْبَابَ فَلَا يَدْخُلَنَّ عَلَيَّ أَحَدٌ إِلَّا بِإِذْنٍ فَجَاءَ رَجُلٌ يَضْرِبُ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ ہَذَا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ ہَذَا أَبُو بَكْرٍ يَسْتَأْذِنُ قَالَ ائْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّةِ فَدَخَلَ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّةِ وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ ہَذَا فَقَالَ عُمَرُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ ہَذَا عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ قَالَ افْتَحْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّةِ فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَدَخَلَ وَبَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّةِ فَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ الْبَابَ فَقُلْتُ مَنْ ہَذَا قَالَ عُثْمَانُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ ہَذَا عُثْمَانُ يَسْتَأْذِنُ قَالَ افْتَحْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّةِ عَلَی بَلْوَی تُصِيبُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ چلا،آپ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے اور اپنی حاجت پوری کی،پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: ابوموسیٰ! تم دروازہ پر رہو کوئی بغیر اجازت کے اندر داخل نہ ہونے پائے،پھر ایک شخص نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا،تومیں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر ہوں،تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ابوبکر اجازت مانگ رہے ہیں،آپ نے فرمایا: انہیں آنے دو،اور انہیں جنت کی بشارت دے دو،چنانچہ وہ اندر آئے اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دی،پھر ایک دوسرے شخص آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا،میں نے کہا: کون ہے؟ انہوں نے کہا: عمر ہوں،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ عمر اجازت مانگ رہے ہیں،آپ نے فرمایا: ان کے لیے دروازہ کھول دو اور انہیں جنت کی بشارت دے دو،چنانچہ میں نے دروازہ کھول دیا،وہ اندر آگئے،اور میں نے انہیں جنت کی بشارت دے دی،پھر ایک تیسرے شخص آئے اورانہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا،تومیں نے کہا: کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: عثمان ہوں،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ عثمان اجازت مانگ رہے ہیں،آپ نے فرمایا: ان کے لیے بھی دروازہ کھول دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت دے دو،ساتھ ہی ایک آزمائش کی جو انہیں پہنچ کر رہے گی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی ابوعثمان نہدی سے آئی ہے،۳-اس باب میں جابر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي وَيَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ حَدَّثَنِي أَبُو سَہْلَةَ قَالَ قَالَ عُثْمَانُ يَوْمَ الدَّارِ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَدْ عَہِدَ إِلَيَّ عَہْدًا فَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ

بوسہلہ کا بیان ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے جس دن وہ گھر میں محصور تھے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے عہد لیا تھا اور میں اس عہد پر صابر یعنی قائم ہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو الْأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ بَيَانٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلَا رَآنِي إِلَّا ضَحِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب سے میں اسلام لایاہوں رسول اللہ ﷺ نے مجھے (اجازت مانگنے پر اندر داخل ہو نے سے)منع نہیں فرمایا ۱؎ اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا آپ مسکرائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسٍ عَنْ جَرِيرٍ قَالَ مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ مُنْذُ أَسْلَمْتُ وَلَا رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے جب سے میں اسلام لایاہوں مجھے (اندرجانے سے)منع نہیں کیا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا آپ مسکرائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِسْحَقَ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَی فِي بَيْتِ الزُّبَيْرِ مِصْبَاحًا فَقَالَ يَا عَائِشَةُ مَا أُرَی أَسْمَاءَ إِلَّا قَدْ نُفِسَتْ فَلَا تُسَمُّوہُ حَتَّی أُسَمِّيَہُ فَسَمَّاہُ عَبْدَ اللہِ وَحَنَّكَہُ بِتَمْرَةٍ بِيَدِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (خواب میں) زبیر کے گھر میں ایک چراغ دیکھا تو آپ نے عائشہ سے فرمایا: عائشہ! میں یہی سمجھاہوں کہ اسماء کے یہاں ولادت ہونے والی ہے،تو اس کانام تم لوگ نہ رکھنا،میں رکھوں گا،تو آپ ﷺنے ان کا نام عبداللہ رکھا،اور اپنے ہاتھ سے ایک کھجور کے ذریعہ ان کی تحنیک کی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ مَا غِرْتُ عَلَی خَدِيجَةَ وَمَا بِي أَنْ أَكُونَ أَدْرَكْتُہَا وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِكَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَہَا وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيَتَتَبَّعُ بِہَا صَدَائِقَ خَدِيجَةَ فَيُہْدِيہَا لَہُنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجات میں سے کسی پر مجھے اتنا رشک نہیں آیا جتنا خدیجہ پر آیا،اور اگر میں ان کو پالیتی تو میرا کیا حال ہوتا؟ اور اس کی وجہ محض یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ انہیں کثرت سے یاد کرتے تھے،ا گر آپ بکری بھی ذبح کرتے تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر خدیجہ کی سہیلیوں کو ہدیہ بھیجتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا حَسَدْتُ أَحَدًا مَا حَسَدْتُ خَدِيجَةَ وَمَا تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَّا بَعْدَ مَا مَاتَتْ وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَشَّرَہَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيہِ وَلَا نَصَبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ مِنْ قَصَبٍ قَالَ إِنَّمَا يَعْنِي بِہِ قَصَبَ اللُّؤْلُؤِ

ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کسی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا،حالاں کہ مجھ سے تو آپ نے نکاح اس وقت کیا تھا جب وہ انتقال کرچکی تھیں،اور اس رشک کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنت میں موتی کے ایک ایسے گھر کی بشارت دی تھی جس میں نہ شور وشغف ہو اور نہ تکلیف و ایذا کی کوئی بات۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-من قصبٍ سے مراد موتی کے بانس ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَال سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ خَيْرُ نِسَائِہَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ وَخَيْرُ نِسَائِہَا مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر (اپنے زمانہ میں) خدیجہ بنت خویلد تھیں اور دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر (اپنے زمانہ میں) مریم بنت عمران تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں،انس،ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُوَيْہِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ساری دنیا کی عورتوں میں سے تمہیں مریم بنت عمران،خدیجہ بنت خویلد،فاطمہ بنت محمد،اور فرعون کی بیوی آسیہ کافی ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ قَال سَمِعْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يُحَدِّثُ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَہُ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ فَقَرَأَ عَلَيْہِ لَمْ يَكُنْ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقَرَأَ فِيہَا إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللہِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَہُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَہُ وَقَرَأَ عَلَيْہِ لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْہِ ثَانِيًا وَلَوْ كَانَ لَہُ ثَانِيًا لَابْتَغَی إِلَيْہِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ وَيَتُوبُ اللہُ عَلَی مَنْ تَابَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ رَوَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَہُ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ وَقَدْ رَوَاہُ قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ إِنَّ اللہَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں،چنانچہ آپ نے انہیں لَمْ یَکُنِ الَّذِینَ کَفَرُواپڑھ کر سنایا،اس میں یہ بات بھی کہ بے شک دین والی،اللہ کے نزدیک تمام ادیان وملل سے کٹ کر اللہ کی جانب یکسوہوجانے والی مسلمان عورت ہے،نہ یہودی،نصرانی اورمجوسی عورت،جو کوئی نیکی کرے گا تو اس کی ناقدری ہرگز نہیں کی جائے گی اور آپ نے انہیں یہ بھی بتایا کہ انسان کے پاس مال سے بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ دوسری بھی چاہے گا،اور اگر اسے دوسری مل جائے تو تیسری چاہے گا،اور انسان کا پیٹ صرف مٹی ہی بھرسکے گی اور اللہ اسی کی توبہ قبول کرتاہے جو واقعی توبہ کرے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث اس کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،اسے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزی نے اپنے والد سے انہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں،۳-اسے قتادہ نے انس سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ابی بن کعب سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَتَّی إِذَا كُنَّا بِحَرَّةِ السُّقْيَا الَّتِي كَانَتْ لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ائْتُونِي بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ إِنَّ إِبْرَاہِيمَ كَانَ عَبْدَكَ وَخَلِيلَكَ وَدَعَا لِأَہْلِ مَكَّةَ بِالْبَرَكَةِ وَأَنَا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ أَدْعُوكَ لِأَہْلِ الْمَدِينَةِ أَنْ تُبَارِكَ لَہُمْ فِي مُدِّہِمْ وَصَاعِہِمْ مِثْلَيْ مَا بَارَكْتَ لِأَہْلِ مَكَّةَ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ جب ہم حرّہ سقیا ۱؎ میں پہنچے جو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا محلہ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے وضو کاپانی دو،چنانچہ آپ نے وضو کیا،پھر آپ قبلہ رخ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے اللہ! ابراہیم تیرے بندے اور تیرے دوست ہیں اور انہوں نے اہل مکہ کے لیے برکت کی دعا فرمائی،اور میں تیرا بندہ اور تیرا رسول ہوں،اور تجھ سے اہل مدینہ کے لیے دعا کرتاہوں کہ تو ان کے مُد اور ان کی صاع میں اہل مکہ کو جوتو نے برکت دی ہے اس کی دوگنا برکت فرما،اور ہر برکت کے ساتھ دو برکتیں (یعنی اہل مکہ کی دوگنی برکت عطا فرما ۲؎)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،عبداللہ بن زید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا أَبُو نُبَاتَةَ يُونُسُ بْنُ يَحْيَی بْنِ نُبَاتَةَ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ وَرْدَانَ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّی عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

علی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان (مسجدنبوی) جو حصہ ہے وہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،اور یہ حدیث ابوہریرہ سے اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مرفوعاً آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ الزَّاہِدُ عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ رَبَاحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي ہَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاہُ مِنْ الْمَسَاجِدِ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جو حصہ ہے وہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک صلاۃ دوسری اور مسجدوں کے ایک ہزار صلاۃ سے بہتر ہے سوائے مسجد حرام کے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ يَمُوتَ بِالْمَدِينَةِ فَلْيَمُتْ بِہَا فَإِنِّي أَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوتُ بِہَا وَفِي الْبَاب عَنْ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ

-عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مدینہ میں مرسکتاہو تو اسے چاہیے کہ وہیں مرے کیوں کہ جو وہاں مرے گا میں اس کے حق میں سفارش کروں گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے یعنی ایوب سختیانی کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں سبیعہ بنت حارث اسلمیہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا أَنَّ مَوْلَاةً لَہُ أَتَتْہُ فَقَالَتْ اشْتَدَّ عَلَيَّ الزَّمَانُ وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَخْرُجَ إِلَی الْعِرَاقِ قَالَ فَہَلَّا إِلَی الشَّامِ أَرْضِ الْمَنْشَرِ اصْبِرِي لَكَاعِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ صَبَرَ عَلَی شِدَّتِہَا وَلَأْوَائِہَا كُنْتُ لَہُ شَہِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُہَيْرٍ وَسُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی ان کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی میں گردش زمانہ کی شکارہوں اورعراق جانا چاہتی ہوں،تو انہوں نے کہا: تو شام کیوں نہیں چلی جاتی جو حشر ونشر کی سرزمین ہے،اور صبر کر اے کمینی! کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اس کی(مدینہ کی) سختی اور تنگی ٔ معیشت پر صبر کیا تومیں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ یا سفارشی ہوں گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث عبیداللہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری،سفیان بن ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ أَخْبَرَنَا أَبِي جُنَادَةُ بْنُ سَلْمٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ آخِرُ قَرْيَةٍ مِنْ قُرَی الْإِسْلَامِ خَرَابًا الْمَدِينَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جُنَادَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ تَعَجَّبَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اسلام کے شہروں میں ویرانی کے اعتبار سے مدینہ سب سے آخری شہرہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف جنادہ کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ ہشام بن عروہ سے روایت کرتے ہیں،۲-محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔(یعنی ایسی بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے)۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَلَی الْإِسْلَامِ فَأَصَابَہُ وَعَكٌ بِالْمَدِينَةِ فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَی رَسُولُ اللہِ ﷺ فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ ثُمَّ جَاءَہُ فَقَالَ أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَی فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَہَا وَتُنَصِّعُ طَيِّبَہَا وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے اسلام پر بیعت کی،پھر اسے مدینہ میں بخار آگیاتو وہ اعرابی نبی اکرم ﷺ پاس آیا اور کہنے لگا،آپ مجھے میری بیعت پھیردیں،تو رسول اللہ ﷺ نے انکار کیا،پھر وہ دوبارہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ میری بیعت مجھے پھیر دیں تو پھر آپ نے انکار کیا،پھروہ اعرابی مدینہ چھوڑ کر چلاگیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مدینہ ایک بھٹی کے مثل ہے جو دور کردیتاہے اپنے کھوٹ کو اور خالص کردیتاہے پاک کو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّہُ كَانَ يَقُولُ لَوْ رَأَيْتُ الظِّبَاءَ تَرْتَعُ بِالْمَدِينَةِ مَا ذَعَرْتُہَا إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْہَا حَرَامٌ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَسَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر میں مدینہ میں ہرنوں کو چرتے دیکھوں تو انہیں نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اس کی دونوں پتھریلی زمینوں ۱؎ کے درمیان کا حصہ حرم ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد،عبداللہ بن زید،انس،ابوایوب،زید بن ثابت،رافع بن خدیج،سہل بن حنیف اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ طَلَعَ لَہُ أُحُدٌ فَقَالَ ہَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ اللہُمَّ إِنَّ إِبْرَاہِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَإِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو احد پہاڑ نظر آیا تو آپ نے فرمایا: یہ ایسا پہاڑ ہے کہ یہ ہم سے محبت کرتاہے اور ہم اس سے،اے اللہ! ابراہیم نے مکہ کو حرام کیا اور میں اس (مدینہ) کی دونوں پتھریلی زمینوں کے بیچ کے حصہ کو حرام قراردے رہاہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ عِيسَی بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْعَامِرِيِّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ أَوْحَی إِلَيَّ أَيَّ ہَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ نَزَلْتَ فَہِيَ دَارُ ہِجْرَتِكَ الْمَدِينَةَ أَوْ الْبَحْرَيْنِ أَوْ قِنَّسْرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَی تَفَرَّدَ بِہِ أَبُو عَمَّارٍ

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ نے میری طرف وحی کی کہ مدینہ،بحرین اور قنسرین ان تینوں میں سے جہاں بھی تم جاؤ وہی تمہارا دار الہجرت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف فضل بن موسیٰ کی روایت سے جانتے ہیں اور ان سے ابوعمار یعنی حسین بن حریث روایت کرنے میں منفرد ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَصْبِرُ عَلَی لَأْوَاءِ الْمَدِينَةِ وَشِدَّتِہَا أَحَدٌ إِلَّا كُنْتُ لَہُ شَہِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ وَصَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ أَخُو سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مدینہ کی تنگی معیشت اور اس کی سختیوں پر جو صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ اور سفارشی ہوں گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری،سفیان بن ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صالح بن ابی صالح سہیل بن ابی صالح کے بھائی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَہَرَ فِيہَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ ہَلْ قَرَأَ مَعِي أَحَدٌ مِنْكُمْ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِنِّي أَقُولُ مَالِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ قَالَ فَانْتَہَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِيمَا جَہَرَ فِيہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ الصَّلَوَاتِ بِالْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَابْنُ أُكَيْمَةَ اللَّيْثِيُّ اسْمُہُ عُمَارَةُ وَيُقَالُ عَمْرُو بْنُ أُكَيْمَةَ وَرَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّہْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ وَذَكَرُوا ہَذَا الْحَرْفَ قَالَ قَالَ الزُّہْرِيُّ فَانْتَہَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَلَيْسَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ مَا يَدْخُلُ عَلَی مَنْ رَأَی الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ لِأَنَّ أَبَا ہُرَيْرَةَ ہُوَ الَّذِي رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثَ وَرَوَی أَبُو ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَہِيَ خِدَاجٌ فَہِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ فَقَالَ لَہُ حَامِلُ الْحَدِيثِ إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ اقْرَأْ بِہَا فِي نَفْسِكَ وَرَوَی أَبُو عُثْمَانَ النَّہْدِيُّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنِي النَّبِيُّ ﷺ أَنْ أُنَادِيَ أَنْ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَاخْتَارَ أَكْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ أَنْ لَا يَقْرَأَ الرَّجُلُ إِذَا جَہَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ وَقَالُوا يَتَتَبَّعُ سَكَتَاتِ الْإِمَامِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فَرَأَی أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ أَنَا أَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ يَقْرَءُونَ إِلَّا قَوْمًا مِنْ الْكُوفِيِّينَ وَأَرَی أَنَّ مَنْ لَمْ يَقْرَأْ صَلَاتُہُ جَائِزَةٌ وَشَدَّدَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي تَرْكِ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ فَقَالُوا لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَحْدَہُ كَانَ أَوْ خَلْفَ الْإِمَامِ وَذَہَبُوا إِلَی مَا رَوَی عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَرَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ خَلْفَ الْإِمَامِ وَتَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ ﷺ لَا صَلَاةَ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَإِسْحَقُ وَغَيْرُہُمَا وَأَمَّا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَا كَانَ وَحْدَہُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّی رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَہَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ ﷺ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ ہَذَا إِذَا كَانَ وَحْدَہُ وَاخْتَارَ أَحْمَدُ مَعَ ہَذَا الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَأَنْ لَا يَتْرُكَ الرَّجُلُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَإِنْ كَانَ خَلْفَ الْإِمَامِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس صلاۃ سے فارغ ہونے کے بعدجس میں آپ نے بلندآواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا: کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا: ہاں اللہ کے رسول! (میں نے کی ہے)آپ نے فرمایا: تبھی تو میں یہ کہہ رہاتھا:آخرکیابات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جارہی ہے اورمجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے،وہ(زہری) کہتے ہیں: توجب لوگوں نے رسول اللہﷺ سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہﷺ کے ان صلاتوں میں قرأت کرنے سے رک گئے جن میں آپ بلند آواز سے قرأت کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابن اکیمہ لیثی کا نام عمارہ ہے انہیں عمروبن اکیمہ بھی کہاجاتا ہے،زہری کے دیگرتلامذہ نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اسے ان الفاظ کے ساتھ ذکرکیا ہے قَالَ الزُّہْرِیُّ فَانْتَہَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَۃِ حِینَ سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ (زہری نے کہا کہ لوگ قرأت سے رک گئے جس وقت ان لوگوں نے اسے رسول اللہﷺ سے سنا) ۳-اس باب میں ابن مسعود،عمران بن حصین اورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو ان لوگوں کے لیے رکاوٹ کا سبب بنے جن کی رائے امام کے پیچھے بھی قرأت کی ہے،اس لیے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں جنہوں نے یہ حدیث روایت کی ہے اورانہوں نے ہی نبی اکرمﷺ سے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایاجس نے کوئی صلاۃ پڑھی اوراس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تووہ ناقص ہے،ناقص ہے،ناتمام ہے تو ان سے ایک شخص نے جس نے ان سے یہ حدیث اخذکی تھی پوچھا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتاہوں (توکیا کروں؟) تو انہوں نے کہا: تم اِسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر۔ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے نبی اکرمﷺنے یہ حکم دیا کہ میں اعلان کر دوں کہ سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتی،۵-اکثرمحدّثین نے اس بات کو پسندکیا ہے کہ جب امام بلند آواز سے قرأت کرے تومقتدی قرأت نہ کرے،اورکہاہے کہ وہ امام کے سکتوں کا تتبع کرتا رہے،(یعنی وہ امام کے سکتوں کے درمیان پڑھ لیا کرے)،۶-امام کے پیچھے قرأت کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے،صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم امام کے پیچھے قرأت کے قائل ہیں،مالک بن انس،عبداللہ بن مبارک شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے قرأت کرتاہوں اور لوگ بھی کرتے ہیں سوائے کوفیوں میں سے چند لوگوں کے،اورمیراخیال ہے کہ جو نہ پڑھے اس کی بھی صلاۃ درست ہے،۷-اوراہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس سلسلہ میں سختی برتی ہے،ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سورئہ فاتحہ کا چھوڑنا جائز نہیں اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہو،یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیرسورئہ فاتحہ کے صلاۃ کفایت نہیں کرتی،یہ لوگ اس حدیث کی طرف گئے ہیں جسے عبادہ بن صامت نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔اورخود عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرمﷺ کے بعدامام کے پیچھے قرأت کی ہے،ان کا عمل نبی اکرمﷺ کے اسی قول پررہاہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں،یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا بھی قول ہے،۸-رہے احمدبن حنبل تو وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے قول سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتی کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اکیلے صلاۃپڑھ ہا ہوتب سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں ہوگی۔انہوں نے جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جس نے کوئی رکعت پڑھی اوراس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی صلاۃ نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱؎ ۔احمدبن حنبل کہتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے صحابہ میں ایک شخص ہیں اورانہوں نے نبی اکرمﷺ کے قول سورئہ فاتحہ کے بغیرصلاۃنہیں ہوتیکی تفسیر یہ کی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو اکیلے پڑھ رہا ہو۔ان سب کے باوجود احمدبن حنبل نے امام کے پیچھے سورئہ فاتحہ پڑھنے ہی کو پسندکیا ہے اورکہاہے کہ آدمی سورئہ فاتحہ کو نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہو۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَہْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ مَنْ صَلَّی رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس نے کوئی رکعت ایسی پڑھی جس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس نے صلاۃ ہی نہیں پڑھی،سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْہِ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِي مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَسَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُہَنِيِّ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ طَلْحَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَالُوا سُتْرَةُ الْإِمَامِ سُتْرَةٌ لِمَنْ خَلْفَہُ

طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم سے کوئی اپنے آگے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو صلاۃ پڑھے اور اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے آگے سے کون گزراہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-طلحہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،سہل بن ابی حثمہ،ابن عمر،سبرہ بن معبد جہنی،ابوجحیفہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَمَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ ہِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ قَال سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ وَلَيْسَ بَيْنَ يَدَيْہِ كَآخِرَةِ الرَّحْلِ أَوْ كَوَاسِطَةِ الرَّحْلِ قَطَعَ صَلَاتَہُ الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ وَالْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ فَقُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ مِنْ الْأَبْيَضِ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي سَأَلْتَنِي كَمَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَالْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَيْہِ قَالُوا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ أَحْمَدُ الَّذِي لَا أَشُكُّ فِيہِ أَنَّ الْكَلْبَ الْأَسْوَدَ يَقْطَعُ الصَّلَاةَ وَفِي نَفْسِي مِنْ الْحِمَارِ وَالْمَرْأَةِ شَيْءٌ قَالَ إِسْحَقُ لَا يَقْطَعُہَا شَيْءٌ إِلَّا الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب آدمی صلاۃ پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی آخری (لکڑی یاکہا:کجاوے کی بیچ کی لکڑی کی طرح) کوئی چیزنہ ہوتو: کالے کتے،عورت اور گدھے کے گزرنے سے اس کی صلاۃ باطل ہوجائے گی ۱؎ میں نے ابوذر سے کہا: لال،اور سفید کے مقابلے میں کالے کی کیا خصوصیت ہے؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! تم نے مجھ سے ایسے ہی پوچھا ہے جیسے میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا: کالا کتا شیطان ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری،حکم بن عمرو بن غفاری،ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں؛ وہ کہتے ہیں کہ گدھا،عورت اور کالا کتا صلاۃ کوباطل کردیتا ہے۔احمدبن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا کتا صلاۃ باطل کر دیتاہے لیکن گدھے اور عورت کے سلسلے میں مجھے کچھ تذبذب ہے،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کالے کتے کے سوا کوئی اور چیز صلاۃ باطل نہیں کرتی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ہُوَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنَا سَعْدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ قَال سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّہُ عَلَی الرَّضْفِ قَالَ شُعْبَةُ ثُمَّ حَرَّكَ سَعْدٌ شَفَتَيْہِ بِشَيْءٍ فَأَقُولُ حَتَّی يَقُومَ فَيَقُولُ حَتَّی يَقُومَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِلَّا أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ لَا يُطِيلَ الرَّجُلُ الْقُعُودَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ وَلَا يَزِيدَ عَلَی التَّشَہُّدِ شَيْئًا وَقَالُوا إِنْ زَادَ عَلَی التَّشَہُّدِ فَعَلَيْہِ سَجْدَتَا السَّہْوِ ہَكَذَا رُوِيَ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَغَيْرِہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب پہلی دونوں رکعتوں میں بیٹھتے توایسالگتاگویا آپ گرم پتھرپر بیٹھے ہیں ۱؎،شعبہ (راوی) کہتے ہیں: پھرسعد نے اپنے دونوں ہونٹوں کوکسی چیز کے ساتھ حرکت دی ۲؎ تو میں نے کہا: یہاں تک کہ آپ کھڑے ہوجاتے؟ تو انہوں نے کہا: یہاں تک کہ آپ کھڑے ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،مگر ابوعبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے،۲-اہل علم کاعمل اسی پر ہے،وہ اسی کو پسندکرتے ہیں کہ آدمی پہلی دونوں رکعتوں میں قعدہ کولمبانہ کرے اورتشہد سے زیادہ کچھ نہ پڑھے،ان لوگوں کاکہنا ہے کہ اگراس نے تشہد سے زیادہ کوئی چیزپڑھی تو اس پرسہوکے دوسجدے لازم ہوجائیں گے،شعبی وغیرہ سے اسی طرح مروی ہے۳؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ التَّثَاؤُبُ فِي الصَّلَاةِ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَكْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَجَدِّ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ التَّثَاؤُبَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ إِبْرَاہِيمُ إِنِّي لَأَرُدُّ التَّثَاؤُبَ بِالتَّنَحْنُحِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صلاۃمیں جمائی آنا شیطان کی طرف سے ہے،جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے توجہاں تک ہو سکے اسے روکے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعید خدری اورعدی بن ثابت کے دادا (عبیدبن عازب) سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے صلاۃ میں جمائی لینے کو مکروہ کہا ہے،ابراہیم کہتے ہیں کہ میں جمائی کو کھنکھار سے لوٹا دیتا ہوں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ وَاللہِ إِنِّي لَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ فَأُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَتَنَ أُمُّہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی! جب صلاۃ میں ہوتا ہوں اوراُس وقت بچّے کا رونا سنتاہوں تو اس ڈر سے صلاۃ کو ہلکی کردیتا ہوں کہ اس کی ماں کہیں فتنے میں نہ مبتلا ہوجائے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوقتادہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَشْعَثُ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی بِہِمْ فَسَہَا فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ تَشَہَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ عَنْ أَبِي الْمُہَلَّبِ وَہُوَ عَمُّ أَبِي قِلَابَةَ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی مُحَمَّدٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْمُہَلَّبِ وَأَبُو الْمُہَلَّبِ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ أَيْضًا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ وَہُشَيْمٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ بِطُولِہِ وَہُوَ حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَلَّمَ فِي ثَلَاثِ رَكَعَاتٍ مِنْ الْعَصْرِ فَقَامَ رَجُلٌ يُقَالُ لَہُ الْخِرْبَاقُ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي التَّشَہُّدِ فِي سَجْدَتَيْ السَّہْوِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ يَتَشَہَّدُ فِيہِمَا وَيُسَلِّمُ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَيْسَ فِيہِمَا تَشَہُّدٌ وَتَسْلِيمٌ وَإِذَا سَجَدَہُمَا قَبْلَ السَّلَامِ لَمْ يَتَشَہَّدْ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَا إِذَا سَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّہْوِ قَبْلَ السَّلَامِ لَمْ يَتَشَہَّدْ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے انہیں صلاۃ پڑھائی آپ سے سہو ہوگیا ؛توآپ نے دوسجدے کئے پھر تشہد پڑھا،پھر سلام پھیرا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-عبدالوھاب ثقفی،ھشیم اور ان کے علاوہ کئی اورلوگوں نے بطریق: خَالِدٍ الْحَذَّاءِ،عَنْ أَبِی قِلاَبَۃَ یہ حدیث ذرا لمبے سیاق کے ساتھ روایت کی ہے،اور وہ یہی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عصرمیں صرف تین ہی رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ایک آدمی اٹھا جسے خرباقکہاجاتا تھا (اور اس نے پوچھا: کیا صلاۃ میں کمی کردی گئی ہے،یا آپ بھول گئے ہیں) ۳-سجدئہ سہوکے تشہد کے سلسلہ میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں کہ سجدہ سہوکے بعد تشہد پڑھے گا اور سلام پھیرے گا۔اور بعض کہتے کہ سجدہ سہو میں تشہد اور سلام نہیں ہے اورجب سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے تو تشہد نہ پڑھے،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ جب سلام سے پہلے سجدئہ سہوکرے توتشہد نہ پڑھے (اختلاف تو سلام کے بعد میں ہے)۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَطَاءٍ رَجُلٍ مِنْ بَنِي شَيْبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

سعید بن یزید (ابومسلمہ)کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہﷺ اپنے جوتوں میں صلاۃ پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،عبداللہ بن ابی حبیبۃ،عبداللہ بن عمرو،عمرو بن حریث،شداد بن اوس ثقفی،ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اورعطاء سے بھی جو بنی شیبہ کے ایک فرد تھے احادیث آئی ہیں،۳-اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ يَحْيَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيُّ عَنْ عَمِّ أَبِيہِ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَعَطَسْتُ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيہِ مُبَارَكًا عَلَيْہِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَی فَلَمَّا صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ انْصَرَفَ فَقَالَ مَنْ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَہَا الثَّانِيَةَ مَنْ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَہَا الثَّالِثَةَ مَنْ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعٍ ابْنُ عَفْرَاءَ أَنَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ كَيْفَ قُلْتَ قَالَ قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيہِ مُبَارَكًا عَلَيْہِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَی فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَقَدْ ابْتَدَرَہَا بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ مَلَكًا أَيُّہُمْ يَصْعَدُ بِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رِفَاعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَكَأَنَّ ہَذَا الْحَدِيثَ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ فِي التَّطَوُّعِ لِأَنَّ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ قَالُوا إِذَا عَطَسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ إِنَّمَا يَحْمَدُ اللہَ فِي نَفْسِہِ وَلَمْ يُوَسِّعُوا فِي أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ

رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کے پیچھے صلاۃپڑھی،مجھے چھینک آئی تو میں نےالْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی کہا جب رسول اللہﷺ صلاۃپڑھ کرپلٹے توآپ نے پوچھا:صلاۃ میں کون بول رہا تھا؟توکسی نے جواب نہیں دیا،پھر آپ نے یہی بات دوبارہ پوچھی کہ صلاۃ میں کون بول رہا تھا؟ اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا،پھرآپ نے یہی بات تیسری بار پوچھی کہ صلاۃ میں کون بول رہا تھا؟رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول! آپ نے پوچھا:تم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا:یوں کہاتھا الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی تونبی اکرمﷺ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے کون لے کر آسمان پر چڑھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-رفاعہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں انس،وائل بن حجر اورعامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کے نزدیک یہ واقعہ نفل کا ہے ۱؎ اس لیے کہ تابعین میں سے کئی لوگوں کا کہناہے کہ جب آدمی فرض صلاۃ میں چھینکے تو الحمدللہ اپنے جی میں کہے اس سے زیادہ کی ان لوگوں نے اجازت نہیں دی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ جَدِّہِ قَيْسٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَصَلَّيْتُ مَعَہُ الصُّبْحَ ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي فَقَالَ مَہْلًا يَا قَيْسُ أَصَلَاتَانِ مَعًا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قَالَ فَلَا إِذَنْ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ لَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ و قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ سَمِعَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ مِنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ وَإِنَّمَا يُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلًا وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ مَكَّةَ بِہَذَا الْحَدِيثِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ہُوَ أَخُو يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ وَقَيْسٌ ہُوَ جَدُّ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَيُقَالُ ہُوَ قَيْسُ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ ہُوَ قَيْسُ بْنُ قَہْدٍ وَإِسْنَادُ ہَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ قَيْسٍ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ فَرَأَی قَيْسًا وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ

قیس (بن عمروبن سہل) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نکلے اورجماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی،تومیں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی،پھر نبی اکرمﷺ پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں صلاۃپڑھنے جارہاہوں،توآپ نے فرمایا: قیس ذرا ٹھہرو،کیا دوصلاتیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جارہے ہو؟) میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔آپ نے فرمایا: تب کوئی حرج نہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کواس کے مثل صرف سعدبن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں،۲-سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے،۳-یہ حدیث مرسلاً بھی روایت کی جاتی ہے،۴-اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہاہے کہ آدمی کے فجرکی فرض صلاۃپڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،۵-سعد بن سعید یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں،اور قیس یحیی بن سعید انصاری کے دادا ہیں۔انہیں قیس بن عمرو بھی کہاجاتاہے اور قیس بن قہد بھی،۶-اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سناہے،بعض لوگوں نے یہ حدیث سعد بن سعید سے اورسعد نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نکلے تو قیس کودیکھا،اوریہ عبدالعزیزکی حدیث سے جسے انہوں نے سعد بن سعیدسے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّہْرِ وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ ظہر سے پہلے دورکعتیں ۱؎ اور اس کے بعددورکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں علی اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔ وضاحت ۱؎: اس سے پہلے والی روایت میں ظہرسے پہلے چاررکعتوں کا ذکرہے اوراس میں دوہی رکعت کا ذکرہے دونوں صحیح ہیں،حالات وظروف کے لحاظ سے ان دونوں میں سے کسی پربھی عمل کیاجاسکتا ہے۔البتہ دونوں پرعمل زیادہ افضل ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ الْجَحْدَرِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِہَا وَنِعْمَتْ وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُ أَصْحَابِ قَتَادَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ اخْتَارُوا الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَأَوْا أَنْ يُجْزِئَ الْوُضُوءُ مِنْ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَی أَنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ ﷺ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنَّہُ عَلَی الِاخْتِيَارِ لَا عَلَی الْوُجُوبِ حَدِيثُ عُمَرَ حَيْثُ قَالَ لِعُثْمَانَ وَالْوُضُوءُ أَيْضًا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَمَرَ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَلَوْ عَلِمَا أَنَّ أَمْرَہُ عَلَی الْوُجُوبِ لَا عَلَی الِاخْتِيَارِ لَمْ يَتْرُكْ عُمَرُ عُثْمَانَ حَتَّی يَرُدَّہُ وَيَقُولَ لَہُ ارْجِعْ فَاغْتَسِلْ وَلَمَا خَفِيَ عَلَی عُثْمَانَ ذَلِكَ مَعَ عِلْمِہِ وَلَكِنْ دَلَّ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيہِ فَضْلٌ مِنْ غَيْرِ وُجُوبٍ يَجِبُ عَلَی الْمَرْءِ فِي ذَلِكَ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن وضوکیا تواس نے رخصت کواختیارکیا اورخوب ہے یہ رخصت،اورجس نے غسل کیا توغسل افضل ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-قتادہ کے بعض تلامذہ نے تو یہ حدیث قتادہ سے اورقتادہ نے حسن بصری سے اورحسن بصری نے سمرہ بن جندب سے (مرفوعاً) روایت کی ہے۔اوربعض نے قتادہ سے اورقتادہ نے حسن سے اورحسن نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ،عائشہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-صحابہ کرام اوران کے بعدکے اہل علم کاعمل اسی پر ہے،انہوں نے جمعہ کے دن کے غسل کو پسندکیا ہے،ان کاخیال ہے کہ غسل کے بدلے وضوبھی کافی ہوجائے گا،۵-شافعی کہتے ہیں: جمعہ کے روز نبی اکرمﷺ کے غسل کے حکم کے وجوبی ہونے کے بجائے اختیاری ہونے پر جوچیزیں دلالت کرتی ہیں ان میں سے عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے جس میں انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہاہے کہ تم نے صرف وضوپر اکتفاکیاہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیاہے،اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ یہ حکم واجبی ہے،اختیاری نہیں توعمر رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کولوٹائے بغیر نہ چھوڑتے اوران سے کہتے:جاؤغسل کرو،اورنہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ سے اس بات کے جاننے کے باوجودکہ نبی اکرمﷺ نے جمعہ کو غسل کر نے کا حکم دیا ہے اس کے وجوب کی حقیقت مخفی رہتی،بلکہ اس حدیث میں صاف دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل افضل ہے نہ کہ واجب۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَی الْجُمُعَةَ فَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ غُفِرَ لَہُ مَا بَيْنَہُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَمَنْ مَسَّ الْحَصَی فَقَدْ لَغَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرمایا: جس نے وضوکیا اوراچھی طرح کیا ۱؎ پھرجمعہ کے لیے آیا ۲؎،امام کے قریب بیٹھا،غورسے خطبہ سنااورخاموش رہاتواس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے اورمزید تین دن کے ۳؎ کے گناہ ۴؎ بخش دیئے جائیں گے۔اور جس نے کنکریاں ہٹائیں تو اس نے لغوکیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ،حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جمعہ کی صلاۃاس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ،حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ،عَنْ أَنَسٍ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَہُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ،وَجَابِرٍ،وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَہُوَ الَّذِي أَجْمَعَ عَلَيْہِ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ وَقْتَ الْجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ،كَوَقْتِ الظُّہْرِ. وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ،وَأَحْمَدَ،وَإِسْحَاقَ. وَرَأَی بَعْضُہُمْ أَنَّ صَلاَةَ الْجُمُعَةِ إِذَا صُلِّيَتْ قَبْلَ الزَّوَالِ أَنَّہَا تَجُوزُ أَيْضًا. و قَالَ أَحْمَدُ: وَمَنْ صَلاَّہَا قَبْلَ الزَّوَالِ فَإِنَّہُ لَمْ يَرَ عَلَيْہِ إِعَادَةً

اس سندسے بھی انس رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سلمہ بن الاکوع،جابر اورزبیر بن عوام رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوراسی پر اکثراہل علم کا اجماع ہے کہ جمعہ کاوقت ظہرکے وقت کی طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے،یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴-اوربعض کی رائے ہے کہ جمعہ کی صلاۃ جب زوال سے پہلے پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔احمد کہتے ہیں: جس نے جمعہ کی صلاۃ زوال سے پہلے پڑھ لی تو اس پر دہرانا ضرروی نہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ اسْتَخْلَفَ مَرْوَانُ أَبَا ہُرَيْرَةَ عَلَی الْمَدِينَةِ وَخَرَجَ إِلَی مَكَّةَ فَصَلَّی بِنَا أَبُو ہُرَيْرَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَرَأَ سُورَةَ الْجُمُعَةِ وَفِي السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالَ عُبَيْدُ اللہِ فَأَدْرَكْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ فَقُلْتُ لَہُ تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ كَانَ عَلِيٌّ يَقْرَأُ بِہِمَا بِالْكُوفَةِ قَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقْرَأُ بِہِمَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَأَبِي عِنَبَةَ الْخَوْلَانِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَی وَہَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

عبیداللہ بن أبی رافع کہتے ہیں: مروان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کومدینے میں اپنا نائب مقررکیا اوروہ خود مکہ کی طرف نکلے،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں جمعہ کے دن صلاۃ پڑھائی توانہو ں نے (پہلی رکعت میں) سورہ جمعہ پڑھی اور دوسری رکعت میںإِذَا جَاءَکَ الْمُنَافِقُونَ،عبیداللہ کہتے ہیں: تومیں ابوہریرہ سے ملا،میں نے ان سے کہا: آپ نے دوایسی سورتیں پڑھی ہیں جنہیں علی رضی اللہ عنہ کو فہ میں پڑھتے ہیں،اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے ان دونوں سورتوں کو رسول اللہﷺکو پڑھتے سنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،نعمان بن بشیر اور ابوعنبہ خولانی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ جمعہ کی صلاۃ میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی اور ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِپڑھتے تھے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصَّلَاةِ رَكْعَةً فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالُوا مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الْجُمُعَةِ صَلَّی إِلَيْہَا أُخْرَی وَمَنْ أَدْرَكَہُمْ جُلُوسًا صَلَّی أَرْبَعًا وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے صلاۃ میں ایک رکعت پالی اس نے صلاۃ پالی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت پالی تو وہ دوسری رکعت (خودسے)پڑھ لے اور جس نے لوگوں کو سجدے میں پایا تو وہ چار رکعت (ظہر کی صلاۃ) پڑھے۔اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاحَةَ فِي سَرِيَّةٍ فَوَافَقَ ذَلِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَغَدَا أَصْحَابُہُ فَقَالَ أَتَخَلَّفُ فَأُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ أَلْحَقُہُمْ فَلَمَّا صَلَّی مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ رَآہُ فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَغْدُوَ مَعَ أَصْحَابِكَ فَقَالَ أَرَدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ مَعَكَ ثُمَّ أَلْحَقَہُمْ قَالَ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَدْرَكْتَ فَضْلَ غَدْوَتِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَقَالَ شُعْبَةُ لَمْ يَسْمَعْ الْحَكَمُ مِنْ مِقْسَمٍ إِلَّا خَمْسَةَ أَحَادِيثَ وَعَدَّہَا شُعْبَةُ وَلَيْسَ ہَذَا الْحَدِيثُ فِيمَا عَدَّ شُعْبَةُ فَكَأَنَّ ہَذَا الْحَدِيثَ لَمْ يَسْمَعْہُ الْحَكَمُ مِنْ مِقْسَمٍ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي السَّفَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَلَمْ يَرَ بَعْضُہُمْ بَأْسًا بِأَنْ يَخْرُجَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي السَّفَرِ مَا لَمْ تَحْضُرْ الصَّلَاةُ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا أَصْبَحَ فَلَا يَخْرُجْ حَتَّی يُصَلِّيَ الْجُمُعَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ایک سریہ میں بھیجا،اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا،ان کے ساتھی صبح سویرے روانہ ہوگئے،انہوں نے(اپنے جی میں) کہا: میں پیچھے رہ جاتاہوں،اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھ لیتاہوں۔پھر میں ان لوگوں سے جاملوں گا،چنانچہ جب انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی،تو آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: تمہیں کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے روک دیا؟،عرض کیا: میں نے چاہا کہ میں آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھ لوں پھرمیں ان سے جاملوں گا۔آپ نے فرمایا:اگرتم جو کچھ زمین میں ہے سب خرچ کرڈالو توبھی ان کے صبح روانہ ہونے کاثواب نہیں پاسکو گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم صرف اسی سند سے اسے جانتے ہیں،۲-یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ شعبہ کہتے ہیں کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ حدیثیں سنی ہیں اور شعبہ نے انہیں گن کربتایا تو یہ حدیث شعبہ کی گنی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی۔گویا حکم نے یہ حدیث مقسم سے نہیں سنی ہے،۳-جمعہ کے دن سفر کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔بعض لوگوں نے جمعہ کے دن سفر پر نکلنے میں کوئی حرج نہیں جانا ہے جب کہ صلاۃ کا وقت نہ ہواہو اور بعض کہتے ہیں،جب جمعہ کی صبح ہوجائے تو جمعہ پڑھے بغیر نہ نکلے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ہُوَ عَامِرُ بْنُ وَاثِلَةَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ زَيْغِ الشَّمْسِ أَخَّرَ الظُّہْرَ إِلَی أَنْ يَجْمَعَہَا إِلَی الْعَصْرِ فَيُصَلِّيَہُمَا جَمِيعًا،وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ عَجَّلَ الْعَصْرَ إِلَی الظُّہْرِ،وَصَلَّی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا،ثُمَّ سَارَ وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّی يُصَلِّيَہَا مَعَ الْعِشَاءِ،وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَائَ فَصَلاَّہَا مَعَ الْمَغْرِبِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ،وَابْنِ عُمَرَ،وَأَنَسٍ،وَعَبْدِاللہِ بْنِ عَمْرٍو،وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ،وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَالصَّحِيحُ عَنْ أُسَامَةَ. وَرَوَی عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ عَنْ قُتَيْبَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ غزوۂ تبوک میں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخرکرتے یہاں تک کہ اسے عصر کے ساتھ ملادیتے اوردونوں کوایک ساتھ پڑھتے،اورجب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو عصر کو پہلے کرکے ظہر سے ملا دیتے اور ظہر اور عصرکو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے۔اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملاکر پڑھتے،اور جب مغرب کے بعد کوچ فرماتے تو عشا کو پہلے کرکے مغرب کے ساتھ ملاکر پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اورصحیح یہ ہے کہ اسامہ سے مروی ہے،۲-نیزیہ حدیث علی بن مدینی نے احمد بن حنبل سے اور احمدبن حنبل نے قتیبہ سے روایت کی ہے ۱؎،۳-اس باب میں علی،ابن عمر،انس،عبداللہ بن عمرو،عائشہ،ابن عباس،اسامہ بن زید اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا اللُّؤْلُؤِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الأَعْيَنُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ: بِہَذَا الْحَدِيثِ يَعْنِي حَدِيثَ مُعَاذٍ. وَحَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِہِ قُتَيْبَةُ لاَ نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاہُ عَنْ اللَّيْثِ غَيْرَہُ. وَحَدِيثُ اللَّيْثِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَالْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ حَدِيثُ مُعَاذٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ مُعَاذٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَمَعَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ بَيْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ. رَوَاہُ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ. وَبِہَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ. وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَقُولاَنِ: لاَ بَأْسَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي السَّفَرِ فِي وَقْتِ إِحْدَاہُمَا

اس سند سے بھی قتیبہ سے یہ حدیث یعنی معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-قتیبہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں ہم ان کے علاوہ کسی کونہیں جانتے جس نے اسے لیث سے روایت کیا ہو،۳-لیث کی حدیث جسے انہوں نے یزیدبن ابی حبیب سے،اوریزیدنے ابوالطفیل سے اورابوالطفیل نے معاذ سے روایت کی ہے غریب ہے،۴-اہل علم کے نزدیک معروف معاذ کی (وہ) حدیث ہے جسے ابوالزبیرنے ابوالطفیل سے اورابوالطفیل نے معاذسے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے غزوۂ تبوک میں ظہر اورعصرکوایک ساتھ اور مغرب وعشاء کوایک ساتھ جمع کیا ۱؎،۵-اسے قرہ بن خالد،سفیان ثوری،مالک اور دیگرکئی لوگوں نے بھی ابوالزبیر مکی سے روایت کیا ہے،۶-اوراسی حدیث کے مطابق شافعی کابھی قول ہے،احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ سفرمیں دوصلاۃ کو کسی ایک کے وقت میں ملاکرایک ساتھ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ اسْتُغِيثَ عَلَی بَعْضِ أَہْلِہِ فَجَدَّ بِہِ السَّيْرُ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّی غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَہُمَا ثُمَّ أَخْبَرَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا جَدَّ بِہِ السَّيْرُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ان کی ایک بیوی ۱؎ کے حالت نزع میں ہونے کی خبردی گئی تو انہیں چلنے کی جلدی ہوئی چنانچہ انہوں نے مغرب کو مؤخر کیایہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی،وہ سواری سے اترکر مغرب اورعشاء دونوں کوایک ساتھ جمع کیا،پھرلوگوں کو بتایا کہ رسول اللہﷺکو جب چلنے کی جلدی ہوتی توآپ ایساہی کرتے تھے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔لیث کی حدیث(رقم۵۵۴) جسے انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ائْذَنُوا لِلنِّسَاءِ بِاللَّيْلِ إِلَی الْمَسَاجِدِ فَقَالَ ابْنُہُ وَاللہِ لَا نَأْذَنُ لَہُنَّ يَتَّخِذْنَہُ دَغَلًا فَقَالَ فَعَلَ اللہُ بِكَ وَفَعَلَ أَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَتَقُولُ لَا نَأْذَنُ لَہُنَّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مجاہد کہتے ہیں: ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس تھے انہو ں نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: عورتوں کو رات میں مسجد جانے کی اجازت دو،ان کے بیٹے بلال نے کہا: اللہ کی قسم! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے۔وہ اسے فساد کا ذریعہ بنالیں گی،توابن عمرنے کہا: اللہ تجھے ایساایساکرے،میں کہتاہوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،اور توکہتاہے کہ ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ا بوہریرہ،عبداللہ بن مسعود کی بیوی زینب اور زید بن خالد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّی تَرَوْنِي خَرَجْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَحَدِيثُ أَنَسٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنْ يَنْتَظِرَ النَّاسُ الْإِمَامَ وَہُمْ قِيَامٌ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا كَانَ الْإِمَامُ فِي الْمَسْجِدِ فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَإِنَّمَا يَقُومُونَ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاةُ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب صلاۃ کی اقامت کہہ دی جائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہوجب تک کہ مجھے نکل کر آتے نہ دیکھ لو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،لیکن ان کی حدیث غیر محفوظ ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے لوگوں کے کھڑے ہوکر امام کا انتظار کرنے کومکروہ کہاہے،۴-بعض کہتے ہیں کہ جب امام مسجد میں ہو اور صلاۃ کھڑی کردی جائے تو وہ لوگ اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ کہے،ابن مبارک کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ عَنْ عَلِيٍّ الْأَزْدِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّہَارِ مَثْنَی مَثْنَی قَالَ أَبُو عِيسَی اخْتَلَفَ أَصْحَابُ شُعْبَةَ فِي حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ فَرَفَعَہُ بَعْضُہُمْ وَأَوْقَفَہُ بَعْضُہُمْ وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللہِ الْعُمَرِيِّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی وَرَوَی الثِّقَاتُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ صَلَاةَ النَّہَارِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی وَبِالنَّہَارِ أَرْبَعًا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ فَرَأَی بَعْضُہُمْ أَنَّ صَلَاةَ اللَّيْلِ وَالنَّہَارِ مَثْنَی مَثْنَی وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ و قَالَ بَعْضُہُمْ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَی مَثْنَی وَرَأَوْا صَلَاةَ التَّطَوُّعِ بِالنَّہَارِ أَرْبَعًا مِثْلَ الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّہْرِ وَغَيْرِہَا مِنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: رات اور دن کی صلاۃ دو دو رکعت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں شعبہ کے تلامذہ میں اختلاف ہے،بعض نے اسے مرفوعاً بیان کیا ہے اور بعض نے موقوفاً،۲-عبداللہ عمری بطریق: نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ روایت کی ہے۔صحیح وہی ہے جو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے،۳-ثقات نے عبداللہ بن عمر کے واسطے سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،اس میں ان لوگوں نے دن کی صلاۃ کا ذکرنہیں کیاہے ۱؎،۴-عبید اللہ سے مروی ہے،انہوں نے نافع سے،اورنافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ رات کودو دو رکعت پڑھتے تھے اور دن کو چار چار رکعت،۵-اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں رات اوردن دونوں کی صلاۃ دودو رکعت ہے،یہی شافعی اوراحمد کا قول ہے،اوربعض کہتے ہیں: رات کی صلاۃ دو دو رکعت ہے،ان کی رائے میں دن کی نفل صلاۃ چار رکعت ہے مثلاً ظہر وغیرہ سے پہلے کی چار نفل رکعتیں،سفیان ثوری،ابن مبارک،اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جِئْتُ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ يُصَلِّي فِي الْبَيْتِ وَالْبَابُ عَلَيْہِ مُغْلَقٌ فَمَشَی حَتَّی فَتَحَ لِي ثُمَّ رَجَعَ إِلَی مَكَانِہِ وَوَصَفَتْ الْبَابَ فِي الْقِبْلَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں گھرآ ئی،رسول اللہﷺ صلاۃ پڑھ رہے تھے اوردروازہ بند تھا،تو آپ چل کر آئے اور میرے لیے دروازہ کھولا۔پھر اپنی جگہ لوٹ گئے،اور انہوں نے بیان کیاکہ دروازہ قبلے کی طرف تھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْہَرَوِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ كَامِلٍ الْمَرْوَزِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَتَبَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ فَلَمْ يُخْرِجْہُ إِلَی عُمَّالِہِ حَتَّی قُبِضَ فَقَرَنَہُ بِسَيْفِہِ فَلَمَّا قُبِضَ عَمِلَ بِہِ أَبُو بَكْرٍ حَتَّی قُبِضَ وَعُمَرُ حَتَّی قُبِضَ وَكَانَ فِيہِ فِي خَمْسٍ مِنْ الْإِبِلِ شَاةٌ وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ وَفِي خَمْسَ عَشَرَةَ ثَلَاثُ شِيَاہٍ وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاہٍ وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَی خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيہَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَی خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيہَا حِقَّةٌ إِلَی سِتِّينَ فَإِذَا زَادَتْ فَجَذَعَةٌ إِلَی خَمْسٍ وَسَبْعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيہَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَی تِسْعِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِيہَا حِقَّتَانِ إِلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ وَفِي الشَّاءِ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَی عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَإِذَا زَادَتْ فَشَاتَانِ إِلَی مِائَتَيْنِ فَإِذَا زَادَتْ فَثَلَاثُ شِيَاہٍ إِلَی ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَی ثَلَاثِ مِائَةِ شَاةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ ثُمَّ لَيْسَ فِيہَا شَيْءٌ حَتَّی تَبْلُغَ أَرْبَعَ مِائَةِ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّہُمَا يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ ہَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ و قَالَ الزُّہْرِيُّ إِذَا جَاءَ الْمُصَدِّقُ قَسَّمَ الشَّاءَ أَثْلَاثًا ثُلُثٌ خِيَارٌ وَثُلُثٌ أَوْسَاطٌ وَثُلُثٌ شِرَارٌ وَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنْ الْوَسَطِ وَلَمْ يَذْكُرْ الزُّہْرِيُّ الْبَقَرَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَبَہْزِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَہَاءِ وَقَدْ رَوَی يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ وَإِنَّمَا رَفَعَہُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ـ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے زکاۃ کی دستاویز تحریرکرائی،ابھی اسے عمال کے پاس روانہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی،اور اسے آپ نے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا ۱؎،آپ وفات فرماگئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے،ان کے بعدعمر رضی اللہ عنہ بھی اسی پرعمل پیرا رہے،یہاں تک کہ وہ بھی فوت ہوگئے،اس کتاب میں تحریر تھا: پانچ اونٹوں میں،ایک بکری زکاۃ ہے۔دس میں دو بکریاں،پندرہ میں تین بکریاں اور بیس میں چار بکریاں ہیں۔پچیس سے لے کر پینتیس تک میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے،جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پینتالیس تک میں دوسال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے۔اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ساٹھ تک میں تین سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے۔اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو پچہتر تک میں چار سال کی ایک اونٹنی کی زکاۃ ہے اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو نوے تک میں دوسال کی دواونٹوں کی زکاۃ ہے۔اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو ان میں ایک سو بیس تک تین سال کی دواونٹوں کی زکاۃ ہے۔جب ایک سوبیس سے زائد ہوجائیں تو ہر پچاس میں تین سال کی ایک اونٹنی اور ہر چالیس میں دوسال کی ایک اونٹنی زکاۃ میں دینی ہوگی۔ اور بکریوں کے سلسلہ میں اس طرح تھا:چالیس بکریوں میں ایک بکری کی زکاۃ ہے،ایک سوبیس تک،اورجب اس سے زیادہ ہوجائیں تودو سو تک میں دوبکریوں کی زکاۃ ہے،اور جب اس سے زیادہ ہوجائیں تو تین سو تک میں تین بکریوں کی زکاۃ ہے۔اور جب تین سو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ہرسو پر ایک بکری کی زکاۃ ہے۔پھر اس میں کچھ نہیں یہاں تک کہ وہ چارسو کو پہنچ جائیں،اور (زکاۃ والے) متفرق(مال) کو جمع نہیں کیاجائے گا ۲؎ اورجومال جمع ہواسے صدقے کے خوف سے متفرق نہیں کیا جائے گا ۳؎ اورجن میں دوساجھی دار ہوں۴؎ تو وہ اپنے اپنے حصہ کی شراکت کے حساب سے دیں گے۔صدقے میں کوئی بوڑھا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا۔ زہری کہتے ہیں: جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ بکریوں کو تین حصوں میں تقسیم کرے،پہلی تہائی بہتر قسم کی ہوگی،دوسری تہائی اوسط درجے کی اور تیسری تہائی خراب قسم کی ہوگی،پھر صدقہ وصول کرنے والا اوسط درجے والی بکریوں میں سے لے۔زہر ی نے گائے کا ذکر نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر کی حدیث حسن ہے،۲-یونس بن یزید اوردیگرکئی لوگوں نے بھی یہ حدیث زہری سے،اورزہری نے سالم سے روایت کی ہے،اوران لوگوں نے اسے مرفوع بیان نہیں کیا۔صرف سفیان بن حسین ہی نے اسے مرفوعاًروایت کیاہے،۳-اوراسی پر عام فقہاء کا عمل ہے،۴-اس باب میں ابوبکر صدیق بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ معاویۃ بن حیدۃ قشیری ہے ابوذر اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ،عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی الْمَازِنِيِّ،عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ،وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ،وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،وَابْنِ عُمَرَ،وَجَابِرٍ،وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو.

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: پانچ اونٹوں ۱؎ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے،اور پانچ اوقیہ ۲؎ چاندنی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ وسق ۳؎ غلّے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ،ابن عمر،جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ وَمَالِكُ ابْنُ أَنَسٍ،عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْہُ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ: أَنْ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ. وَالْوَسْقُ سِتُّونَ صَاعًا. وَخَمْسَةُ أَوْسُقٍ ثَلاَثُ مِائَةِ صَاعٍ. وَصَاعُ النَّبِيِّ ﷺ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَثُلُثٌ،وَصَاعُ أَہْلِ الْكُوفَةِ ثَمَانِيَةُ أَرْطَالٍ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ. وَالأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْہَمًا،وَخَمْسُ أَوَاقٍ مِائَتَا دِرْہَمٍ،وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ. يَعْنِي لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ مِنْ الإِبِلِ،فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مِنْ الإِبِلِ فَفِيہَا بِنْتُ مَخَاضٍ،وَفِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الإِبِلِ فِي كُلِّ خَمْسٍ مِنَ الإِبِلِ شَاةٌ.

اس سند سے بھی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے جیسے عبدالعزیز بن محمد کی حدیث ہے جسے انہوں نے عمروبن یحیی سے روایت کی ہے (جو اوپرگزرچکی ہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ان سے یہ روایت اوربھی کئی طرق سے مروی ہے،۳-اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے۔ایک وسق ساٹھ صاع کاہوتا ہے۔اور پانچ وسق میں تین سوصاع ہوتے ہیں۔نبی اکرمﷺکا صاع ساڑھے پانچ رطل کا تھااور اہل کوفہ کا صاع آٹھ رطل کا،پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکاۃ نہیں ہے،ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔اور پانچ اوقیہ کے دو سودرہم ہوتے ہیں۔اسی طرح سے پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔جب پچیس اونٹ ہوجائیں توان میں ایک سال کی اونٹنی کی زکاۃ ہے اور پچیس اونٹ سے کم میں ہرپانچ اونٹ پر ایک بکری زکاۃ ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ وَشُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِ فِي فَرَسِہِ وَلَا فِي عَبْدِہِ صَدَقَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ لَيْسَ فِي الْخَيْلِ السَّائِمَةِ صَدَقَةٌ وَلَا فِي الرَّقِيقِ إِذَا كَانُوا لِلْخِدْمَةِ صَدَقَةٌ إِلَّا أَنْ يَكُونُوا لِلتِّجَارَةِ فَإِذَا كَانُوا لِلتِّجَارَةِ فَفِي أَثْمَانِہِمْ الزَّكَاةُ إِذَا حَالَ عَلَيْہَا الْحَوْلُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان پرنہ اس کے گھوڑوں میں زکاۃ ہے اور نہ ہی اس کے غلاموں میں زکاۃہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوراسی پراہل علم کاعمل ہے کہ پالتو گھوڑوں میں جنہیں دانہ چارہ باندھ کرکھلاتے ہیں زکاۃ نہیں اور نہ ہی غلاموں میں ہے،جب کہ وہ خدمت کے لئے ہوں الاّ یہ کہ وہ تجارت کے لئے ہوں۔اور جب وہ تجارت کے لئے ہوں تو ان کی قیمت میں زکاۃ ہوگی جب ان پر سال گزرجائے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ ح و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ رَيْحَانَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ وَقَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ ہَذَا الْحَدِيثَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ لَا تَحِلُّ الْمَسْأَلَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ قَوِيًّا مُحْتَاجًا وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَہُ شَيْءٌ فَتُصُدِّقَ عَلَيْہِ أَجْزَأَ عَنْ الْمُتَصَدِّقِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَوَجْہُ ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی الْمَسْأَلَةِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کسی مالدار کے لیے مانگناجائزنہیں اور نہ کسی طاقتوراور صحیح سالم شخص کے لیے مانگنا جائزہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے،۲-اور شعبہ نے بھی یہ حدیث اسی سند سے سعد بن ابراہیم سے روایت کی ہے،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ،حبشی بن جنادہ اور قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اوراس حدیث کے علاوہ میں نبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ کسی مالدار کے لئے مانگنا جائز نہیں اورنہ کسی ہٹے کٹے کے لیے مانگنا جائز ہے اور جب آدمی طاقتور وتوانا ہو لیکن محتاج ہواور اس کے پاس کچھ نہ ہو اور اسے صدقہ دیا جائے تو اہل علم کے نزدیک اس دینے والے کی زکاۃ اداہوجائے گی۔بعض اہل علم نے اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ لا تحل لہ الصدقۃ کا مطلب ہے کہ اس کے لئے مانگنا درست نہیں ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ مُجَالِدٍ،عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ،عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ السَّلُولِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ،وَہُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ. أَتَاہُ أَعْرَابِيٌّ فَأَخَذَ بِطَرَفِ رِدَائِہِ،فَسَأَلَہُ إِيَّاہُ فَأَعْطَاہُ،وَذَہَبَ فَعِنْدَ ذَلِكَ حَرُمَتِ الْمَسْأَلَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاَ تَحِلُّ لِغَنِيٍّ،وَلاَ لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ،إِلاَّ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ،وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِہِ مَالَہُ كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْہِہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ،وَرَضْفًا يَأْكُلُہُ مِنْ جَہَنَّمَ،وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ

حبشی بن جنادہ سلولی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو حجۃ الوداع میں فرماتے سناآپ عرفہ میں کھڑے تھے،آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادر کا کنارا پکڑ کر آپ سے مانگا،آپ نے اسے دیااور وہ چلاگیا،اس وقت مانگنا حرام ہوا،تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی مال دار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی ہٹے کٹے صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوافقر والے کے اورکسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے۔اورجو لوگوں سے اس لیے مانگے کہ اس کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائے تو یہ مال قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہوگا۔اوروہ جہنم کا ایک گرم پتھر ہوگا جسے وہ کھارہاہو گا،تو جو چاہے اسے کم کرلے اور جوچاہے زیادہ کرلے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ،عَنْ عَبْدِالرَّحِيمِ بْنِ سُلَيْمَانَ،نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

اس سند سے بھی عبدالرحیم بن سلیمان سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَدُّوَيْہِ حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ الزَّكَاةِ فَقَالَ إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّكَاةِ ثُمَّ تَلَا ہَذِہِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوہَكُمْ الْآيَةَ

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے زکاۃ کے بارے میں پوچھا،یا نبی اکرمﷺسے زکاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے ۱؎ پھر آپ نے سورہ بقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: لَیْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوہَکُمْ(نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیرلو) ۲؎ الآیۃ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الطُّفَيْلِ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّكَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُہُ لَيْسَ بِذَاكَ وَأَبُو حَمْزَةَ مَيْمُونٌ الْأَعْوَرُ يُضَعَّفُ وَرَوَی بَيَانٌ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ سَالِمٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ قَوْلَہُ وَہَذَا أَصَحُّ

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند کوئی خاص نہیں ہے ۱؎،۲-ابوحمزہ میمون الاعور کو ضعیف گرداناجاتا ہے،۳-بیان اور اسماعیل بن سالم نے یہ حدیث شعبی سے روایت کی ہے اوراسے شعبی ہی کا قول قراردیا ہے اوریہی زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ بَيَانِ بْنِ بِشْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ فَيَحْتَطِبَ عَلَی ظَہْرِہِ فَيَتَصَدَّقَ مِنْہُ فَيَسْتَغْنِيَ بِہِ عَنْ النَّاسِ خَيْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلًا أَعْطَاہُ أَوْ مَنَعَہُ ذَلِكَ فَإِنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا أَفْضَلُ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَی وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَعَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَمَسْعُودِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عَبَّاسٍ وَثَوْبَانَ وَزِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ وَأَنَسٍ وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ وَقَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ وَسَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ عَنْ قَيْسٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھراپنی پیٹھ پررکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہترہے کہ وہ کسی سے مانگے،وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والاہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎،اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-وہ بیان کی حدیث سے جسے انہوں نے قیس سے روایت کی ہے غریب جانی جاتی ہے،۳-اس باب میں حکیم بن حزام،ابوسعید خدری،زبیر بن عوام،عطیہ سعدی،عبداللہ بن مسعود،مسعود بن عمرو،ابن عباس،ثوبان،زیاد بن حارث صدائی،انس،حبشی بن جنادہ،قبیصہ بن مخارق،سمرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنْ الْمَسْأَلَةَ كَدٌّ يَكُدُّ بِہَا الرَّجُلُ وَجْہَہُ إِلَّا أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ سُلْطَانًا أَوْ فِي أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مانگنا ایک زخم ہے جس سے آدمی اپنا چہرہ زخمی کرلیتاہے،سوائے اس کے کہ آدمی حاکم سے مانگے ۱؎ یا کسی ایسے کام کے لیے مانگے جوضروری اورناگزیرہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالْأَضْحَی يَوْمَ تُضَحُّونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذَا الْحَدِيثَ فَقَالَ إِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا أَنَّ الصَّوْمَ وَالْفِطْرَ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَعُظْمِ النَّاسِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: صیام کادن وہی ہے جس دن تم سب صوم رکھتے ہواور افطار کا دن وہی ہے جب سب عیدالفطر مناتے ہو اور اضحٰی کادن وہی ہے جب سب عید مناتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے کہ صوم اورعیدالفطر اجتماعیت اور سواد أعظم کے ساتھ ہونا چاہئے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ ذَرَعَہُ الْقَيْءُ فَلَيْسَ عَلَيْہِ قَضَاءٌ وَمَنْ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَثَوْبَانَ وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ہِشَامٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِيسَی بْنِ يُونُسَ و قَالَ مُحَمَّدٌ لَا أُرَاہُ مَحْفُوظًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُہُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَثَوْبَانَ وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَاءَ فَأَفْطَرَ وَإِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ صَائِمًا مُتَطَوِّعًا فَقَاءَ فَضَعُفَ فَأَفْطَرَ لِذَلِكَ ہَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ مُفَسَّرًا وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ الصَّائِمَ إِذَا ذَرَعَہُ الْقَيْءُ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْہِ وَإِذَا اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جسے قے آجائے اس پر صوم کی قضالازم نہیں ۱؎ اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے صوم کی قضا کرنی چاہئے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے بسندہشام عن ابن سیرین عن أبی ہریرہ عن النبی ﷺ عیسیٰ بن یونس ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا،۲-یہ حدیث دوسری اورسندوں سے بھی ابوہریرہ سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں ہے،۳-اس باب میں ابوالدرداء،ثوبان اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-ابوالدرداء،ثوبان اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے قے کی تو آپ نے صوم توڑ دیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرمﷺنفلی صوم سے تھے۔قے ہوئی توآپ نے کچھ کمزوری محسوس کی اس لیے صوم توڑد یا،بعض روایات میں اس کی تفسیر اسی طرح مروی ہے،۵-اور اہل علم کا عمل ابوہریرہ کی حدیث پر ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ صائم کوجب قے آجائے توا س پر قضا لازم نہیں ہے۔اورجب قے جان بوجھ کر کرے تواسے چاہئے کہ قضا کرے۔سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ وَأَبَو عَمَّارٍ وَالْمَعْنَی وَاحِدٌ وَاللَّفْظُ لَفْظُ أَبِي عَمَّارٍ قَالَا أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ ہَلَكْتُ قَالَ وَمَا أَہْلَكَكَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ قَالَ ہَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ رَقَبَةً قَالَ لَا قَالَ فَہَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لَا قَالَ فَہَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لَا قَالَ اجْلِسْ فَجَلَسَ فَأُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِعَرَقٍ فِيہِ تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ الضَّخْمُ قَالَ تَصَدَّقْ بِہِ فَقَالَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْہَا أَحَدٌ أَفْقَرَ مِنَّا قَالَ فَضَحِكَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّی بَدَتْ أَنْيَابُہُ قَالَ فَخُذْہُ فَأَطْعِمْہُ أَہْلَكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي مَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا مِنْ جِمَاعٍ وَأَمَّا مَنْ أَفْطَرَ مُتَعَمِّدًا مِنْ أَكْلٍ أَوْ شُرْبٍ فَإِنَّ أَہْلَ الْعِلْمِ قَدْ اخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ عَلَيْہِ الْقَضَاءُ وَالْكَفَّارَةُ وَشَبَّہُوا الْأَكْلَ وَالشُّرْبَ بِالْجِمَاعِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ عَلَيْہِ الْقَضَاءُ وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْہِ لِأَنَّہُ إِنَّمَا ذُكِرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ الْكَفَّارَةُ فِي الْجِمَاعِ وَلَمْ تُذْكَرْ عَنْہُ فِي الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَقَالُوا لَا يُشْبِہُ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ الْجِمَاعَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَقَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ لِلرَّجُلِ الَّذِي أَفْطَرَ فَتَصَدَّقَ عَلَيْہِ خُذْہُ فَأَطْعِمْہُ أَہْلَكَ يَحْتَمِلُ ہَذَا مَعَانِيَ يَحْتَمِلُ أَنْ تَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَی مَنْ قَدَرَ عَلَيْہَا وَہَذَا رَجُلٌ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی الْكَفَّارَةِ فَلَمَّا أَعْطَاہُ النَّبِيُّ ﷺ شَيْئًا وَمَلَكَہُ فَقَالَ الرَّجُلُ مَا أَحَدٌ أَفْقَرَ إِلَيْہِ مِنَّا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ خُذْہُ فَأَطْعِمْہُ أَہْلَكَ لِأَنَّ الْكَفَّارَةَ إِنَّمَا تَكُونُ بَعْدَ الْفَضْلِ عَنْ قُوتِہِ وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ لِمَنْ كَانَ عَلَی مِثْلِ ہَذَا الْحَالِ أَنْ يَأْكُلَہُ وَتَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَيْہِ دَيْنًا فَمَتَی مَا مَلَكَ يَوْمًا مَا كَفَّرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص نے آکرکہا: اللہ کے رسول! میں ہلاک ہوگیا،آپ نے پوچھا:تمہیں کس چیز نے ہلاک کردیا؟ اس نے عرض کیا: میں رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کربیٹھا۔آپ نے پوچھا: کیاتم ایک غلام یا لونڈی آزاد کرسکتے ہو؟ اس نے کہا:نہیں،آ پ نے پوچھا: کیا مسلسل دوماہ کے صیام رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا:نہیں،توآپ نے پوچھا: کیاساٹھ مسکین کو کھانا کھلاسکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں،تو آپ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ تووہ بیٹھ گیا۔اتنے میں آپﷺ کے پاس ایک بڑاٹوکرہ لایاگیا جس میں کھجوریں تھیں،آپ نے فرمایا: اسے لے جاکرصدقہ کردو،اس نے عرض کیا: ان دو نوں ملے ہوئے علاقو ں کے درمیان کی بستی (یعنی مدینہ میں) مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔نبی اکرمﷺ ہنس پڑے،یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے ساتھ والے دانت دکھائی دینے لگے۔آ پ نے فرمایا: اسے لے لو اورلے جاکر اپنے گھروالوں ہی کو کھلادو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،عائشہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اس شخص کے بارے میں جورمضان میں جان بوجھ کربیوی سے جماع کرکے صوم توڑدے،اسی حدیث پرعمل ہے،۴-اور جو جان بوجھ کر کھاپی کر صوم توڑے،تو اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں: اس پرصیام کی قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہے،ان لوگوں نے کھانے پینے کو جماع کے مشابہ قرار دیاہے۔سفیان ثوری،ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔بعض کہتے ہیں: اس پر صرف صیام کی قضا لازم ہے،کفارہ نہیں۔اس لئے کہ نبی اکرمﷺ سے جوکفارہ مذکورہے وہ جماع سے متعلق ہے،کھانے پینے کے بارے میں آپ سے کفارہ مذکورنہیں ہے،ان لوگوں نے کہا ہے کہ کھانا پینا جماع کے مشابہ نہیں ہے۔یہ شافعی اور احمد کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کا اس شخص سے جس نے صوم توڑدیا،اورآپ نے اس پر صدقہ کیایہ کہناکہ اسے لے لو اورلے جاکر اپنے گھر والوں ہی کوکھلادو ،کئی باتوں کا احتمال رکھتا ہے: ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کفارہ اس شخص پر ہوگا جو اس پرقادرہو،اور یہ ایسا شخص تھا جسے کفارہ دینے کی قدرت نہیں تھی،تو جب نبی اکرمﷺ نے اسے کچھ دیا اور وہ اس کا مالک ہوگیا تواس ا ٓدمی نے عرض کیا: ہم سے زیادہ اس کاکوئی محتاج نہیں۔تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اسے لے لو اور جاکراپنے گھروالوں ہی کو کھلادو،اس لیے کہ روزانہ کی خوراک سے بچنے کے بعد ہی کفارہ لازم آتا ہے،تو جواس طرح کی صورت حال سے گزررہاہو اس کے لیے شافعی نے اسی بات کو پسند کیا ہے کہ وہی اسے کھالے اور کفارہ اس پر فرض رہے گا،جب کبھی وہ مالدار ہوگاتو کفارہ اداکرے گا۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُقَبِّلُ فِي شَہْرِ الصَّوْمِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَحَفْصَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ فَرَخَّصَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْقُبْلَةِ لِلشَّيْخِ وَلَمْ يُرَخِّصُوا لِلشَّابِّ مَخَافَةَ أَنْ لَا يَسْلَمَ لَہُ صَوْمُہُ وَالْمُبَاشَرَةُ عِنْدَہُمْ أَشَدُّ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْقُبْلَةُ تُنْقِصُ الْأَجْرَ وَلَا تُفْطِرُ الصَّائِمَ وَرَأَوْا أَنَّ لِلصَّائِمِ إِذَا مَلَكَ نَفْسَہُ أَنْ يُقَبِّلَ وَإِذَا لَمْ يَأْمَنْ عَلَی نَفْسِہِ تَرَكَ الْقُبْلَةَ لِيَسْلَمَ لَہُ صَوْمُہُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ ماہصیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر بن خطاب،حفصہ،ابوسعید خدری،ام سلمہ،ابن عباس،انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صائم کے بوسہ لینے کے سلسلے میں صحابہ کرام وغیرہم کا اختلاف ہے۔بعض صحابہ نے بوڑھے کے لیے بوسہ لینے کی رخصت دی ہے۔اورنوجوانوں کے لیے اس اندیشے کے پیش نظررخصت نہیں دی کہ اس کا صوم محفوظ وماموں نہیں رہ سکے گا۔جماع ان کے نزدیک زیادہ سخت چیز ہے۔بعض اہل علم نے کہاہے: بوسہ اجر کم کردیتاہے لیکن اس سے صائم کا صوم نہیں ٹوٹتا،ان کا خیال ہے کہ صائم کواگراپنے نفس پر قابو(کنٹرول) ہو تووہ بوسہ لے سکتاہے اور جب وہ اپنے آپ پرکنٹرول نہ رکھ سکے تو بوسہ نہ لے تاکہ اس کاصوم محفوظ ومامون رہے۔یہ سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ،حَدَّثَنَا أَيُّوبُ،عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَفْطَرَ بِعَرَفَةَ وَأَرْسَلَتْ إِلَيْہِ أُمُّ الْفَضْلِ بِلَبَنٍ فَشَرِبَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَأُمِّ الْفَضْلِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَلَمْ يَصُمْہُ (يَعْنِي يَوْمَ عَرَفَةَ) وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ؛ فَلَمْ يَصُمْہُ،وَمَعَ عُمَرَ؛ فَلَمْ يَصُمْہُ،وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ يَصُمْہُ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ الإِفْطَارَ بِعَرَفَةَ لِيَتَقَوَّی بِہِ الرَّجُلُ عَلَی الدُّعَاءِ. وَقَدْ صَامَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ يَوْمَ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عرفات میں صوم نہیں رکھا،ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ کے پاس دودھ بھیجا تو آپ نے اسے پیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ا بن عمر اورام الفضل رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے اس دن کا (یعنی یوم عرفہ کا)صوم نہیں رکھااورابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیاتو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا،عمر کے ساتھ حج کیا،تو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا،اورعثمان کے ساتھ حج کیاتو انہوں نے بھی اسے نہیں رکھا،۴-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔یہ لوگ عرفات میں صوم نہ رکھنے کو مستحب سمجھتے ہیں تاکہ آدمی دعاکی زیادہ سے زیادہ قدرت رکھ سکے،۵-اوربعض اہل علم نے عرفہ کے دن عرفات میں صوم رکھاہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ،عَنْ أَبِيہِ قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَةَ فَقَالَ: حَجَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَلَمْ يَصُمْہُ،وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ فَلَمْ يَصُمْہُ،وَمَعَ عُمَرَ فَلَمْ يَصُمْہُ،وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ يَصُمْہُ. وَأَنَا لاَ أَصُومُہُ وَلاَ آمُرُ بِہِ وَلاَ أَنْہَی عَنْہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ أَبِيہِ،عَنْ رَجُلٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبُو نَجِيحٍ اسْمُہُ يَسَارٌ وَقَدْ سَمِعَ مِنْ ابْنِ عُمَرَ

ابو نجیح یسار کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرفہ کے دن عرفات میں صوم رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہاکہ میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ حج کیا۔آپ نے اس دن کا صوم نہیں رکھا۔ابوبکر کے ساتھ حج کیا،انہوں نے بھی نہیں رکھا،عمر کے ساتھ کیا۔انہوں نے بھی نہیں رکھا۔عثمان کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی نہیں رکھا (رضی اللہ عنہم)،میں بھی اس دن (وہاں عرفات میں) صوم نہیں رکھتا ہوں،البتہ نہ تو میں اس کا حکم دیتاہوں اورنہ ہی اس سے روکتاہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث ابن ابی نجیح سے بطریق: عن أبیہ عن رجل ۱ ؎ عن ابن عمر بھی مروی ہے۔ابونجیح کا نام یسار ہے اور انہوں نے ابن عمرسے سُناہے

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ قَالَ انْتَہَيْتُ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ وَہُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَہُ فِي زَمْزَمَ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَيُّ يَوْمٍ ہُوَ أَصُومُہُ قَالَ إِذَا رَأَيْتَ ہِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ ثُمَّ أَصْبِحْ مِنْ التَّاسِعِ صَائِمًا قَالَ فَقُلْتُ أَہَكَذَا كَانَ يَصُومُہُ مُحَمَّدٌ ﷺ قَالَ نَعَمْ

حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں ابن عباس کے پاس پہنچا،وہ زمزم پراپنی چادر کا تکیہ لگائے ہوئے تھے،میں نے پوچھا: مجھے یوم عاشوراء کے بارے میں بتائیے کہ وہ کون سا دن ہے جس میں میں صوم رکھوں؟ انہوں نے کہا: جب تم محرم کاچاند دیکھو تو دن گنو،اور نویں تاریخ کو صوم رکھ کرصبح کرو۔میں نے پوچھا: کیا اسی طرح سے محمدﷺ رکھتے تھے؟ کہا: ہاں(اسی طرح رکھتے تھے)۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِصَوْمِ عَاشُورَاءَ يَوْمُ الْعَاشِرِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ يَوْمُ التَّاسِعِ و قَالَ بَعْضُہُمْ يَوْمُ الْعَاشِرِ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْيَہُودَ وَبِہَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دسویں تاریخ کو عاشوراء کا صوم رکھنے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا عاشورا ء کے دن کے سلسلے میں اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں:عاشوراء نواں دن ہے اوربعض کہتے ہیں: دسوان دن ۱؎ ابن عباس سے مروی ہے کہ نویں اور دسویں دن کا صوم رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو۔شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّہْرِ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَثَوْبَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ صِيَامَ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ بِہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ ہُوَ حَسَنٌ ہُوَ مِثْلُ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَہْرٍ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَيُرْوَی فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ وَيُلْحَقُ ہَذَا الصِّيَامُ بِرَمَضَانَ وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ أَنْ تَكُونَ سِتَّةَ أَيَّامٍ فِي أَوَّلِ الشَّہْرِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ إِنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ مُتَفَرِّقًا فَہُوَ جَائِزٌ قَالَ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ وَسَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ وَرْقَاءَ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ وَسَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ہُوَ أَخُو يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فِي سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ إِسْرَائِيلَ أَبِي مُوسَی عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ كَانَ إِذَا ذُكِرَ عِنْدَہُ صِيَامُ سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ فَيَقُولُ وَاللہِ لَقَدْ رَضِيَ اللہُ بِصِيَامِ ہَذَا الشَّہْرِ عَنْ السَّنَةِ كُلِّہَا

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے صیام رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) صیام رکھے تو یہی صوم دہر ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-عبدالعزیز بن محمد نے اس حدیث کو بطریق: صفوان بن سلیم بن سعید،عن عمر بن ثابت،عن أبی أیوب،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،۳-شعبہ نے یہ حدیث بطریق: ورقاء بن عمر،عن سعد بن سعید روایت کی ہے،سعد بن سعید،یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں،۴-بعض محدّثین نے سعد بن سعید پر حافظے کے اعتبار سے کلام کیا ہے۔۵-حسن بصری سے روایت ہے کہ جب ان کے پاس شوال کے چھ دن کے صیام کا ذکر کیا جاتا تووہ کہتے: اللہ کی قسم،اللہ تعالیٰ اس ماہ کے صیام سے پورے سال راضی ہے،۶-اس باب میں جابر،ابوہریرہ اور ثوبان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۷-ایک جماعت نے اس حدیث کی روسے شوال کے چھ دن کے صیام کو مستحب کہاہے،۸-ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے،یہ ہرماہ تین دن کے صیام کے مثل ہیں،۹-ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ صیام رمضان سے ملادیئے جائیں،۱۰-اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ صیام مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں،۱۱-ابن مبارک سے نے یہ بھی کہاـ: اگر کوئی شوال کے چھ دن کے صیام الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ قَالَ الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً وَجَبَ عَلَيْہِ الْحَجُّ وَإِبْرَاہِيمُ ہُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْخُوزِيُّ الْمَكِّيُّ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر پوچھا:اللہ کے رسول! کیا چیز حج واجب کرتی ہے؟ آپ نے فرمایا: سفرخرچ اور سواری ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابراہیم ہی ابن یزید خوزی مکی ہیں اور ان کے حافظہ کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان پر کلام کیا ہے،۳-اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ آدمی جب سفرخرچ اور سواری کا مالک ہوجائے تو اس پر حج واجب ہوجاتاہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَاخْتَارُوہُ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو لبیک بعمرۃ وحجۃ فرماتے سنا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں،اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیارکیاہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَرَّ بِہِ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ فَأَہْدَی لَہُ حِمَارًا وَحْشِيًّا فَرَدَّہُ عَلَيْہِ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا فِي وَجْہِہِ مِنْ الْكَرَاہِيَةِ فَقَالَ إِنَّہُ لَيْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَيْكَ وَلَكِنَّا حُرُمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ وَكَرِہُوا أَكْلَ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا وَجْہُ ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا إِنَّمَا رَدَّہُ عَلَيْہِ لَمَّا ظَنَّ أَنَّہُ صِيدَ مِنْ أَجْلِہِ وَتَرَكَہُ عَلَی التَّنَزُّہِ وَقَدْ رَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّہْرِيِّ عَنْ الزُّہْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثَ وَقَالَ أَہْدَی لَہُ لَحْمَ حِمَارٍ وَحْشٍ وَہُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایاکہ رسول اللہﷺ ابواء یا ودّان میں ان کے پاس سے گزرے،توانہوں نے آپ کوایک نیل گائے ہدیہ کیا،توآپ نے اسے لوٹادیا۔ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے،جب رسول اللہﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا: ہم تمہیں لوٹاتے نہیں لیکن ہم محرم ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے اور انہوں نے محرم کے لئے شکار کا گوشت کھانے کومکروہ کہا ہے،۳-شافعی کہتے ہیں: ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے وہ گوشت صرف اس لئے لوٹادیا کہ آپ کو گمان ہوا کہ وہ آپ ہی کی خاطر شکار کیاگیا ہے۔سوآپ نے اسے تنزیہاً چھوڑدیا،۴-زہری کے بعض تلامذہ نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے۔اوراس میں أہدی لہ حمارا وحشیاًکے بجائےأہدی لہ لحم حمارٍ وحشٍ ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے،۵-اس باب میں علی اور زید بن ارقم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ صَالِحٍ الْبَلْخِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اغْتَسَلَ النَّبِيُّ ﷺ لِدُخُولِہِ مَكَّةَ بِفَخٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ كَانَ يَغْتَسِلُ لِدُخُولِ مَكَّةَ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ يُسْتَحَبُّ الِاغْتِسَالُ لِدُخُولِ مَكَّةَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُہُمَا وَلَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مکے میں داخل ہونے کے لیے (مقام) فخ میں ۱؎ غسل کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غیر محفوظ ہے،۲-صحیح وہ روایت ہے جسے نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ مکے میں داخل ہونے کے لئے غسل کرتے تھے۔اوریہی شافعی بھی کہتے ہیں کہ مکے میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے،۳-عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں۔احمد بن حنبل اورعلی بن مدینی وغیرہمانے ان کی تضعیف کی ہے اور ہم اس حدیث کو صرف انہی کے طریق سے مرفوع جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي قَزَعَةَ الْبَاہِلِيِّ عَنْ الْمُہَاجِرِ الْمَكِّيِّ قَالَ سُئِلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ أَيَرْفَعُ الرَّجُلُ يَدَيْہِ إِذَا رَأَی الْبَيْتَ فَقَالَ حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَكُنَّا نَفْعَلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْبَيْتِ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي قَزَعَةَ وَأَبُو قَزَعَةَ اسْمُہُ سُوَيْدُ بْنُ حُجَيْرٍ

مہاجر مکی کہتے ہیں کہ جابربن عبداللہ سے پوچھا گیا: جب آدمی بیت اللہ کو دیکھے توکیا اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے؟ انہوں نے کہا: ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ حج کیا،توکیا ہم ایسا کرتے تھے؟۔ امام ترمذی کہتے ہیں: بیت اللہ کودیکھ کر ہاتھ اٹھانے کی حدیث ہم شعبہ ہی کے طریق سے جانتے ہیں،شعبہ ابوقزعہ سے روایت کرتے ہیں،اورابوقزعہ کانام سوید بن حجیر ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ عَنْ أُمِّہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَدْخُلَ الْبَيْتَ فَأُصَلِّيَ فِيہِ فَأَخَذَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِيَدِي فَأَدْخَلَنِي الْحِجْرَ فَقَالَ صَلِّي فِي الْحِجْرِ إِنْ أَرَدْتِ دُخُولَ الْبَيْتِ فَإِنَّمَا ہُوَ قِطْعَةٌ مِنْ الْبَيْتِ وَلَكِنَّ قَوْمَكِ اسْتَقْصَرُوہُ حِينَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ فَأَخْرَجُوہُ مِنْ الْبَيْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ ہُوَ عَلْقَمَةُ بْنُ بِلَالٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہوکراس میں صلاۃ پڑھوں،رسول اللہﷺ نے میراہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ۱؎ کے اندرکردیااور فرمایا:اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہوتو حطیم میں صلاۃ پڑھ لو،یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے،لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کردیا،اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُہَاجِرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ عَنْ أُمِّہِ مُسَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ أَلَا نَبْنِي لَكَ بَيْتًا يُظِلُّكَ بِمِنًی قَالَ لَا مِنًی مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیاہم آپ کے لیے منی میں ایک گھر نہ بنادیں جو آپ کو سایہ دے۔آپ نے فرمایا: نہیں ۱؎،منیٰ میں اس کا حق ہے جو وہاں پہلے پہنچے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ وَقَفَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِعَرَفَةَ فَقَالَ ہَذِہِ عَرَفَةُ وَہَذَا ہُوَ الْمَوْقِفُ وَعَرَفَةُ كُلُّہَا مَوْقِفٌ ثُمَّ أَفَاضَ حِينَ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَجَعَلَ يُشِيرُ بِيَدِہِ عَلَی ہِينَتِہِ وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا يَلْتَفِتُ إِلَيْہِمْ وَيَقُولُ يَا أَيُّہَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ ثُمَّ أَتَی جَمْعًا فَصَلَّی بِہِمْ الصَّلَاتَيْنِ جَمِيعًا فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَی قُزَحَ فَوَقَفَ عَلَيْہِ وَقَالَ ہَذَا قُزَحُ وَہُوَ الْمَوْقِفُ وَجَمْعٌ كُلُّہَا مَوْقِفٌ ثُمَّ أَفَاضَ حَتَّی انْتَہَی إِلَی وَادِي مُحَسِّرٍ فَقَرَعَ نَاقَتَہُ فَخَبَّتْ حَتَّی جَاوَزَ الْوَادِيَ فَوَقَفَ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ ثُمَّ أَتَی الْجَمْرَةَ فَرَمَاہَا ثُمَّ أَتَی الْمَنْحَرَ فَقَالَ ہَذَا الْمَنْحَرُ وَمِنًی كُلُّہَا مَنْحَرٌ وَاسْتَفْتَتْہُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمٍ فَقَالَتْ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ أَدْرَكَتْہُ فَرِيضَةُ اللہِ فِي الْحَجِّ أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْہُ قَالَ حُجِّي عَنْ أَبِيكِ قَالَ وَلَوَی عُنُقَ الْفَضْلِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللہِ لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ قَالَ رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنْ الشَّيْطَانَ عَلَيْہِمَا ثُمَّ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ قَالَ احْلِقْ أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ قَالَ وَجَاءَ آخَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ قَالَ ثُمَّ أَتَی الْبَيْتَ فَطَافَ بِہِ ثُمَّ أَتَی زَمْزَمَ فَقَالَ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَنْہُ لَنَزَعْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشٍ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الثَّوْرِيِّ مِثْلَ ہَذَا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ فِي وَقْتِ الظُّہْرِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ فِي رَحْلِہِ وَلَمْ يَشْہَدْ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ إِنْ شَاءَ جَمَعَ ہُوَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِثْلَ مَا صَنَعَ الْإِمَامُ قَالَ وَزَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ ہُوَ ابْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْہِ السَّلَام

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عرفات میں قیام کیا اور فرمایا: یہ عرفہ ہے،یہی وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے،عرفہ (عرفات) کاپوراٹھہر نے کی جگہ ہے،پھر آپ جس وقت سورج ڈوب گیا تووہاں سے لوٹے۔اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا،اورآپ اپنی عام رفتارسے چلتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے،اور لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے،آپ ان کی طرف متوجہ ہوکرکہتے جاتے تھے: لوگو! سکون ووقار کولازم پکڑو،پھر آپ مزدلفہ آئے اورلوگوں کو دونوں صلاتیں(مغرب اورعشاء قصرکرکے) ایک ساتھ پڑھائیں،جب صبح ہوئی توآپ قزح ۱؎ آکرٹھہرے،اور فرمایا: یہ قزح ہے اوریہ بھی موقف ہے اورمزدلفہ پورا کاپورا موقف ہے،پھرآپ لوٹے یہاں تک کہ آپ وادی محسر ۲؎ پہنچے اور آپ نے اپنی اونٹنی کو مارا تو وہ دوڑی یہاں تک کہ اس نے وادی پارکرلی،پھر آپ نے وقوف کیا۔اورفضل بن عباس رضی اللہ عنہا کو(اونٹنی پر) پیچھے بٹھایا،پھرآپ جمرہ آئے اور رمی کی،پھر منحر (قربانی کی جگہ) آئے اور فرمایا: یہ منحر ہے،اور منیٰ پورا کاپورا منحر(قربانی کرنے کی جگہ) ہے،قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے آپ سے مسئلہ پوچھا،اس نے عرض کیا: میرے والدبوڑھے ہوچکے ہیں اور ان پر اللہ کا فریضہ حج واجب ہوچُکاہے۔کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں توکافی ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں،اپنے باپ کی طرف سے حج کرلے۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپﷺ نے فضل کی گردن موڑدی،اس پر آپ سے،عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول!آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی؟ توآپ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں جوان ہیں تومیں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا۳؎،پھر ایک شخص نے آپ کے پاس آکرکہا: اللہ کے رسول! میں نے سرمنڈا نے سے پہلے طواف افاضہ کرلیا۔آپ نے فرمایا: سرمنڈوالو یابال کتروالو کوئی حرج نہیں ہے۔پھرایک دوسرے شخص نے آکرکہا: اللہ کے رسول! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کرلی،آپ نے فرمایا: رمی کرلو کوئی حرج نہیں ۴؎ پھر آپ بیت اللہ آئے اور اس کا طواف کیا،پھر زمزم پرآئے،اور فرمایا: بنی عبدالمطلب! اگریہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کردیں گے تو میں بھی (تمہارے ساتھ) پانی کھینچتا۔(اورلوگوں کوپلاتے) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ہم اسے علی کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔یعنی عبدالرحمٰن بن حارث بن عیاش کی سند سے،اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ثوری سے اسی کے مثل روایت کی ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،ان کا خیال ہے کہ عرفہ میں ظہر کے وقت ظہراورعصرکو ملاکرایک ساتھ پڑھے،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں: جب آدمی اپنے ڈیرے (خیمے) میں صلاۃ پڑھے اورامام کے ساتھ صلاۃ میں شریک نہ ہو تو چاہے دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ جمع اورقصرکرکے پڑھ لے،جیساکہ امام نے کیاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَرْمِي الْجِمَارَ بِمِثْلِ حَصَی الْخَذْفِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ عَنْ أُمِّہِ وَہِيَ أُمُّ جُنْدُبٍ الْأَزْدِيَّةُ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنْ تَكُونَ الْجِمَارُ الَّتِي يُرْمَی بِہَا مِثْلَ حَصَی الْخَذْفِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کودیکھاکہ آپ ایسی کنکریوں سے رمی جمار کررہے تھے جو انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے درمیان پکڑی جاسکتی تھیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سلیمان بن عمرو بن احوص(جواپنی ماں ام جندب ازدیہ سے روایت کرتے ہیں)،ابن عباس،فضل بن عباس،عبدالرحمٰن بن عثمان تمیمی اور عبدالرحمٰن بن معاذ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور اسی کو اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ کنکریاں جن سے رمی کی جاتی ہے ایسی ہوں جو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑ ی جاسکیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ جَمْعٍ إِلَی مِنًی فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّی رَمَی الْجَمْرَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْفَضْلِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْحَاجَّ لَا يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ حَتَّی يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

فضل بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپناردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھاکر لے گئے) آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-فضل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابن مسعود،اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ حاجی تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ جمرہ کی رمی نہ کرلے۔یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَنْزِلُونَ الْأَبْطَحَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي رَافِعٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَقَدْ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ نُزُولَ الْأَبْطَحِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرَوْا ذَلِكَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ أَحَبَّ ذَلِكَ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَنُزُولُ الْأَبْطَحِ لَيْسَ مِنْ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا ہُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَہُ النَّبِيُّ ﷺ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ،ابوبکر،عمر،اور عثمان رضی اللہ عنہم ابطح ۱؎ میں قیام کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ہم اسے صرف عبدالرزاق کی سند سے جانتے ہیں،وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں،۲-اس باب میں عائشہ،ابورافع اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم نے ابطح میں قیام کو مستحب قراردیاہے،واجب نہیں،جوچاہے وہاں قیام کرے،۴-شافعی کہتے ہیں: ابطح کا قیام حج کے مناسک میں سے نہیں ہے۔یہ تو بس ایک مقام ہے جہاں نبی اکرمﷺ نے قیام فرمایا۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْءٍ إِنَّمَا ہُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی التَّحْصِيبُ نُزُولُ الْأَبْطَحِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں ۱؎،یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہﷺ نے قیام فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-تحصیب کے معنی ابطح میں قیام کرنے کے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْوَاسِطِيُّ قَال سَمِعْتُ ابْنَ نُمَيْرٍ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ كُنَّا إِذَا حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَكُنَّا نُلَبِّي عَنْ النِّسَاءِ وَنَرْمِي عَنْ الصِّبْيَانِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ عَلَی أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا يُلَبِّي عَنْہَا غَيْرُہَا بَلْ ہِيَ تُلَبِّي عَنْ نَفْسِہَا وَيُكْرَہُ لَہَا رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ حج کیا تو ہم عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہتے اور بچوں کی طرف سے رمی کرتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲-اہل علم کااس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کی طرف سے کوئی دوسراتلبیہ نہیں کہے گا،بلکہ وہ خود ہی تلبیہ کہے گی البتہ اس کے لیے تلبیہ میں آواز بلندکرنامکروہ ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَرَنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَطَافَ لَہُمَا طَوَافًا وَاحِدًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالُوا الْقَارِنُ يَطُوفُ طَوَافًا وَاحِدًا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَطُوفُ طَوَافَيْنِ وَيَسْعَی سَعْيَيْنِ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

جابر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حج اور عمرہ دونوں کو ملاکرایک ساتھ کیا اور ان کے لیے ایک ہی طواف کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے،۳-صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ حج قران کرنے والا ایک ہی طواف کرے گا۔یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قو ل ہے،۴-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کاکہناہے کہ وہ دوطواف اور دوسعی کرے گا۔یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ أَجْزَأَہُ طَوَافٌ وَاحِدٌ وَسَعْيٌ وَاحِدٌ عَنْہُمَا حَتَّی يَحِلَّ مِنْہُمَا جَمِيعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِہِ الدَّرَاوَرْدِيُّ عَلَی ذَلِكَ اللَّفْظِ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ وَہُوَ أَصَحُّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اس کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے یہاں تک کہ وہ ان دونوں کا احرام کھول دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اسے ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے میں عبدالعزیز دراوردی منفرد ہیں،اسے دوسرے کئی اور لوگوں نے بھی عبیداللہ بن عمر (العمری) سے روایت کیا ہے،لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُزَاحِمُ عَلَی الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يَفْعَلُہُ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّكَ تُزَاحِمُ عَلَی الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ يُزَاحِمُ عَلَيْہِ فَقَالَ إِنْ أَفْعَلْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ مَسْحَہُمَا كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا وَسَمِعْتُہُ يَقُولُ مَنْ طَافَ بِہَذَا الْبَيْتِ أُسْبُوعًا فَأَحْصَاہُ كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ وَسَمِعْتُہُ يَقُولُ لَا يَضَعُ قَدَمًا وَلَا يَرْفَعُ أُخْرَی إِلَّا حَطَّ اللہُ عَنْہُ خَطِيئَةً وَكَتَبَ لَہُ بِہَا حَسَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبید بن عمیر کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہا حجراسوداوررکن یمانی پرایسی بھیڑلگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔تومیں نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! آپ دونوں رکن پرایسی بھیڑلگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ توانہوں نے کہا: اگر میں ایساکرتاہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: ان پر ہاتھ پھیر نا گناہوں کا کفارہ ہے۔اور میں نے آپ کو فرماتے سناہے: جس نے اس گھر کاطواف سات مرتبہ (سات چکر) کیا اور اسے گنا،تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سناہے: وہ جتنے بھی قدم رکھے اور اٹھائے گا اللہ ہرایک کے بدلے اس کی ایک غلطی معاف کرے گا اورایک نیکی لکھے گا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-حماد بن زید نے بطریق: عطا بن السائب،عن ابن عبید بن عمیر،عن ابن عمر روایت کی ہے اوراس میں انہوں نے ابن عبیدکے باپ کے واسطے کا ذکرنہیں کیاہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَدَّہِنُ بِالزَّيْتِ وَہُوَ مُحْرِمٌ غَيْرِ الْمُقَتَّتِ قَالَ أَبُو عِيسَی الْمُقَتَّتُ الْمُطَيَّبُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ فِي فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ وَرَوَی عَنْہُ النَّاسُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ حالت احرام میں زیتون کا تیل لگاتے تھے اوریہ (تیل) بغیر خوشبو کے ہوتاتھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف فرقدسبخی کی روایت سے جانتے ہیں،اورفرقدنے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے۔یحییٰ بن سعید نے فرقد سبخی کے سلسلے میں کلام کیا ہے،اورفرقدسے لوگوں نے روایت کی ہے،۲-مقتت کے معنی خوشبو دار کے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَہَا إِلَّا رَفَعَہُ اللہُ بِہَا دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِيئَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَسَدِ بْنِ كُرْزٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْہَرَ وَأَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کوکوئی کانٹابھی چبھتا ہے،یااس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند اور اس کے بدلے اس کاایک گناہ معاف کردیتا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد بن ابی وقاص،ابوعبیدہ بن جراح،ابوہریرہ،ابوامامہ،ابوسعید خدری،انس،عبداللہ بن عمرو بن العاص،اسد بن کرز،جابر بن عبداللہ،عبدالرحمٰن بن ازہر اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ شَيْءٍ يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا حَزَنٍ وَلَا وَصَبٍ حَتَّی الْہَمُّ يَہُمُّہُ إِلَّا يُكَفِّرُ اللہُ بِہِ عَنْہُ سَيِّئَاتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ فِي ہَذَا الْبَابِ قَالَ و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ لَمْ يُسْمَعْ فِي الْہَمِّ أَنَّہُ يَكُونُ كَفَّارَةً إِلَّا فِي ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن کو جوبھی تکان،غم،اوربیماری حتی کہ فکر لاحق ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہ مٹادیتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق: عطاء بن یسار،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۳-وکیع کہتے ہیں: اس حدیث کے علاوہ کسی حدیث میں ہمّ(فکر) کے بارے میں نہیں سناگیا کہ وہ بھی گناہوں کاکفارہ ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَہُوَ مَيِّتٌ وَہُوَ يَبْكِي أَوْ قَالَ عَيْنَاہُ تَذْرِفَانِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ قَالُوا إِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَبَّلَ النَّبِيَّ ﷺ وَہُوَ مَيِّتٌ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا-وہ انتقال کرچکے تھے-آپ رو رہے تھے۔یا (راوی نے) کہا: آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں،وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کا بوسہ لیا ۲؎ اور آپ انتقال فرماچکے تھے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مِنْ غُسْلِہِ الْغُسْلُ وَمِنْ حَمْلِہِ الْوُضُوءُ يَعْنِي الْمَيِّتَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُغَسِّلُ الْمَيِّتَ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِذَا غَسَّلَ مَيِّتًا فَعَلَيْہِ الْغُسْلُ و قَالَ بَعْضُہُمْ عَلَيْہِ الْوُضُوءُ و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ أَسْتَحِبُّ الْغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَلَا أَرَی ذَلِكَ وَاجِبًا وَہَكَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ و قَالَ أَحْمَدُ مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا أَرْجُو أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْہِ الْغُسْلُ وَأَمَّا الْوُضُوءُ فَأَقَلُّ مَا قِيلَ فِيہِ و قَالَ إِسْحَقُ لَا بُدَّ مِنْ الْوُضُوءِ قَالَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ لَا يَغْتَسِلُ وَلَا يَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میت کو نہلانے سے غسل اوراسے اٹھانے سے وضوہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ موقوفاًبھی مروی ہے،۳-اس باب میں علی اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کوغسل دے۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تواس پر غسل ہے،۵-بعض کہتے ہیں: اس پر وضو ہے۔مالک بن انس کہتے ہیں: میت کوغسل دینے سے غسل کرنامیرے نزدیک مستحب ہے،میں اسے واجب نہیں سمجھتا ۱؎ اسی طرح شافعی کابھی قول ہے،۶-احمد کہتے ہیں: جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پرغسل واجب نہیں ہوگا۔رہی وضو کی بات تویہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہاگیا ہے،۷-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: وضو ضروری ہے ۲؎،عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہاکہ جس نے میت کو غسل دیا،وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُفِّنَ النَّبِيُّ ﷺ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ لَيْسَ فِيہَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ قَالَ فَذَكَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَہُمْ فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ فَقَالَتْ قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَكِنَّہُمْ رَدُّوہُ وَلَمْ يُكَفِّنُوہُ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ کو تین سفید ۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایاگیا ۲؎ نہ ان میںقمیص ۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔لوگوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ کودوکپڑوں اورایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ توام المومنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کردیاتھا،آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَفَّنَ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي نَمِرَةٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَصَحُّ الْأَحَادِيثِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ عَائِشَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يُكَفَّنُ الرَّجُلُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ إِنْ شِئْتَ فِي قَمِيصٍ وَلِفَافَتَيْنِ وَإِنْ شِئْتَ فِي ثَلَاثِ لَفَائِفَ وَيُجْزِي ثَوْبٌ وَاحِدٌ إِنْ لَمْ يَجِدُوا ثَوْبَيْنِ وَالثَّوْبَانِ يُجْزِيَانِ وَالثَّلَاثَةُ لِمَنْ وَجَدَہَا أَحَبُّ إِلَيْہِمْ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا تُكَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺ کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔اوران سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں علی ۱؎،ابن عباس،عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے،۵-سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں،اور چاہے تین لفافوں میں۔اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے،اوردو کپڑے بھی کافی ہوجاتے ہیں،اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔وہ کہتے ہیں: عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایاجائے ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَی عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اتَّبَعَ الْجَنَازَةَ لَمْ يَقْعُدْ حَتَّی تُوضَعَ فِي اللَّحْدِ فَعَرَضَ لَہُ حَبْرٌ فَقَالَ ہَكَذَا نَصْنَعُ يَا مُحَمَّدُ قَالَ فَجَلَسَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَقَالَ خَالِفُوہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَبِشْرُ بْنُ رَافِعٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی جنازے کے ساتھ جاتے تو جب تک جنازہ لحد (بغلی قبر)میں رکھ نہ دیاجاتا،نہیں بیٹھتے۔ایک یہودی عالم نے آپ کے پاس آکرکہا: محمد!ہم بھی ایساہی کرتے ہیں،تو رسول اللہ ﷺ بیٹھنے لگ گئے اور فرمایا:تم ان کی مخالفت کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-بشر بن رافع حدیث میں زیادہ قوی نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَيُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْيَزَنِيِّ قَالَ كَانَ مَالِكُ بْنُ ہُبَيْرَةَ إِذَا صَلَّی عَلَی جَنَازَةٍ فَتَقَالَّ النَّاسَ عَلَيْہَا جَزَّأَہُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی عَلَيْہِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ فَقَدْ أَوْجَبَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَمَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مَالِكِ بْنِ ہُبَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ ہَكَذَا رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ وَرَوَی إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ ہَذَا الْحَدِيثَ وَأَدْخَلَ بَيْنَ مَرْثَدٍ وَمَالِكِ بْنِ ہُبَيْرَةَ رَجُلًا وَرِوَايَةُ ہَؤُلَاءِ أَصَحُّ عِنْدَنَا

مرثد بن عبداللہ یزنی کہتے ہیں کہ مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ جب صلاۃِجنازہ پڑھتے اور لوگ کم ہوتے تو ان کی تین صفیں ۱؎ بنادیتے،پھر کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: جس کی صلاۃِجنازہ تین صفوں نے پڑھی تو اس نے (جنت) واجب کرلی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اسی طرح کئی لوگوں نے محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔ابراہیم بن سعد نے بھی یہ حدیث محمد بن اسحاق سے روایت کی ہے۔اورانہوں نے سند میں مرثد اور مالک بن ہبیرہ کے درمیان ایک شخص کوداخل کردیا ہے۔ہمارے نزدیک ان لوگوں کی روایت زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں عائشہ،ام حبیبہ،ابوہریرہ اور ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ أَيُّوبَ و حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيعٍ كَانَ لِعَائِشَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَمُوتُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَتُصَلِّي عَلَيْہِ أُمَّةٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ أَنْ يَكُونُوا مِائَةً فَيَشْفَعُوا لَہُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيہِ و قَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ فِي حَدِيثِہِ مِائَةٌ فَمَا فَوْقَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ أَوْقَفَہُ بَعْضُہُمْ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جومسلمان مرجائے اورمسلمانوں کی ایک جماعت جس کی تعداد سوکوپہنچتی ہواس کی صلاۃ جنازہ پڑھے اور اس کے لیے شفاعت کرے تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے ۱؎۔علی بن حجر نے اپنی حدیث میں کہا: مِائَۃٌ فَمَا فَوْقَہَا(سویا اس سے زائد لوگ)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض نے اسے موقوفاً روایت کیا ہے،مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ،عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ،عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ،عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ،عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: لاَ تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ وَلاَ تُصَلُّوا إِلَيْہَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ،وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ بِہَذَا الإِسْنَادِ،نَحْوَہُ.

ابومرثدغنوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: قبروں پر نہ بیٹھو ۱؎ اور نہ انہیں سامنے کرکے صلاۃ پڑھو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ،عمرو بن حزم اور بشیر بن خصاصیہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالاَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ،عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ،عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ،عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيِّ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،نَحْوَہُ. وَلَيْسَ فِيہِ (عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ) وَہَذَا الصَّحِيحُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ ابْنِ الْمُبَارَكِ خَطَأٌ،أَخْطَأَ فِيہِ ابْنُ الْمُبَارَكِ،وَزَادَ فِيہِ (عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ) وَإِنَّمَا ہُوَ بُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ وَاثِلَةَ،ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ. وَلَيْسَ فِيہِ (عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ) وَبُسْرُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ قَدْ سَمِعَ مِنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ.

اس طریق سے بھی ابومرشد غنوی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔البتہ اس سند میں ابوادریس کا واسطہ نہیں ہے اور یہی صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ ابن مبارک کی روایت غلط ہے،اس میں ابن مبارک سے غلطی ہوئی ہے انہوں نے اس میں ابوادریس خولانی کاواسطہ بڑھادیا ہے،صحیح یہ ہے کہ بسربن عبداللہ نے بغیرواسطے کے براہ راست واثلہ سے روایت کی ہے،اسی طرح کئی اور لوگوں نے عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے روایت کی ہے اور اس میں ابوادریس کے واسطے کا ذکر نہیں ہے۔اور بسر بن عبداللہ نے واثلہ بن اسقع سے سنا ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ بِحُبْشِيٍّ قَالَ فَحُمِلَ إِلَی مَكَّةَ فَدُفِنَ فِيہَا فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَةُ أَتَتْ قَبْرَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَتْ وَكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمَةَ حِقْبَةً مِنْ الدَّہْرِ حَتَّی قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا فَلَمَّا تَفَرَّقْنَا كَأَنِّي وَمَالِكًا لِطُولِ اجْتِمَاعٍ لَمْ نَبِتْ لَيْلَةً مَعَا ثُمَّ قَالَتْ وَاللہِ لَوْ حَضَرْتُكَ مَا دُفِنْتَ إِلَّا حَيْثُ مُتَّ وَلَوْ شَہِدْتُكَ مَا زُرْتُكَ

عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر حبشہ میں وفات پاگئے توانہیں مکہ لاکر دفن کیا گیا،جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا (مکہ) آئیں تو عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر آکر انہوں نے یہ اشعار پڑھے۔(ہم دونوں ایک عرصے تک ایک ساتھ ایسے رہے تھے جیسے بادشاہ جزیمہ کے دوہم نشین،یہاں تک کہ یہ کہاجانے لگا کہ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدانہ ہوں گے۔پھر جب ہم جدا ہوئے تو مدت دراز تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ایسا لگنے لگا گویا میں اور مالک ایک رات بھی کبھی ایک ساتھ نہ رہے ہوں۔پھرکہا: اللہ کی قسم! اگر میں تمہارے پاس موجود ہوتی توتجھے وہیں دفن کیاجاتا جہاں تیرا انتقال ہوا اور اگر میں حاضر رہی ہوتی تو تیری زیارت کونہ آتی۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ مُرَّ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْہَا خَيْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَجَبَتْ ثُمَّ قَالَ أَنْتُمْ شُہَدَاءُ اللہِ فِي الْأَرْضِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا،لوگوں نے اس کی تعریف کی ۱؎ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:(جنت) واجب ہوگئی پھر فرمایا: تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،کعب بن عجرہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَہَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَزَّازُ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَجَلَسْتُ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَمَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْہَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ وَجَبَتْ فَقُلْتُ لِعُمَرَ وَمَا وَجَبَتْ قَالَ أَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشْہَدُ لَہُ ثَلَاثَةٌ إِلَّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُ قَالَ قُلْنَا وَاثْنَانِ قَالَ وَاثْنَانِ قَالَ وَلَمْ نَسْأَلْ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ الْوَاحِدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْأَسْوَدِ الدِّيلِيُّ اسْمُہُ ظَالِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سُفْيَانَ

ابوالاسود الدیلی کہتے ہیں: میں مدینے آیا،تو عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آکر بیٹھااتنے میں کچھ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی تعریف کی عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واجب ہوگئی،میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا چیز واجب ہوگئی؟تو انہوں نے کہا: میں وہی بات کہہ رہاہوں جو رسول اللہ ﷺ نے کہی ہے۔آپ نے فرمایا: جس کسی بھی مسلمان کے (نیک ہونے کی) تین آدمی گواہی دیں،اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔ہم نے عرض کیا: اگر دو آدمی گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا: دو آدمی بھی ہم نے رسول اللہ ﷺ سے ایک کی گواہی کے بارے میں نہیں پوچھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً فَدَخَلَ بِہَا فَلَا يَحِلُّ لَہُ نِكَاحُ ابْنَتِہَا وَإِنْ لَمْ يَكُنْ دَخَلَ بِہَا فَلْيَنْكِحْ ابْنَتَہَا وَأَيُّمَا رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً فَدَخَلَ بِہَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِہَا فَلَا يَحِلُّ لَہُ نِكَاحُ أُمِّہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِہِ وَإِنَّمَا رَوَاہُ ابْنُ لَہِيعَةَ وَالْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ وَالْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ وَابْنُ لَہِيعَةَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ امْرَأَةً ثُمَّ طَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِہَا حَلَّ لَہُ أَنْ يَنْكِحَ ابْنَتَہَا وَإِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ الِابْنَةَ فَطَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِہَا لَمْ يَحِلَّ لَہُ نِكَاحُ أُمِّہَا لِقَوْلِ اللہِ تَعَالَی وَأُمَّہَاتُ نِسَائِكُمْ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے ساتھ دخول کیاتو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح کرنا درست نہیں ہے،اور اگر اس نے اس کے ساتھ دخول نہیں کیا ہے تووہ اس کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے۔اور جس مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا تو اس نے اس سے دخول کیا ہو یانہ کیا ہو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح کرنا حلال نہیں ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے،اسے صرف ابن لہیعہ اور مثنیٰ بن صالح نے عمروبن شعیب سے روایت کیا ہے۔اورمثنی بن صالح اور ابن لہیعہ حدیث کے سلسلے میں ضعیف قرار دیے جاتے ہیں۔۲-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کسی کی ماں سے شادی کرلے اور پھر اسے دخول سے پہلے طلاق دے دے تو اس کے لیے اس کی بیٹی سے نکاح جائز ہے،اور جب آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح کرے اور اسے دخول سے پہلے طلاق دے دے تو اس کے لیے اس کی ماں سے نکاح جائزنہیں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے وأمہات نسائکم (النساء: ۲۳) یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَتْ إِنِّي كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي فَبَتَّ طَلَاقِي فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ وَمَا مَعَہُ إِلَّا مِثْلُ ہُدْبَةِ الثَّوْبِ فَقَالَ أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَی رِفَاعَةَ لَا حَتَّی تَذُوقِي عُسَيْلَتَہُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَنَسٍ وَالرُّمَيْصَاءِ أَوْ الْغُمَيْصَاءِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَيْرَہُ فَطَلَّقَہَا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِہَا أَنَّہَا لَا تَحِلُّ لِلزَّوْجِ الْأَوَّلِ إِذَا لَمْ يَكُنْ جَامَعَ الزَّوْجُ الْآخَرُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رفاعہ قرظی کی بیوی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکرکہا: میں رفاعہ کے نکاح میں تھی۔انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور میری طلاق طلاق بتہ ہوئی ہے۔پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کرلی،ان کے پاس صرف کپڑے کے پلو کے سواکچھ نہیں ہے ۱؎،آپ نے فرمایا: توکیا تم رفاعہ کے پاس لوٹ جانا چاہتی ہو؟ ایسانہیں ہوسکتاجب تک کہ تم ان (عبدالرحمٰن) کی لذت نہ چکھ لو اور وہ تمہاری لذت نہ چکھ لیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،انس،رمیصاء،یا غمیصاء اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ آدمی جب اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے پھر وہ کسی اور سے شادی کرلے اور وہ دوسراشخص دخول سے پہلے اسے طلاق دے دے تو اس کے لیے پہلے شوہر سے نکاح درست نہیں جب تک کہ دوسرے شوہر نے اس سے جماع نہ کرلیاہو۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ جَاءَ عَمِّي مِنْ الرَّضَاعَةِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَہُ حَتَّی أَسْتَأْمِرَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ فَإِنَّہُ عَمُّكِ قَالَتْ إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ قَالَ فَإِنَّہُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ كَرِہُوا لَبَنَ الْفَحْلِ وَالْأَصْلُ فِي ہَذَا حَدِيثُ عَائِشَةَ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے رضاعی چچا آئے،وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے،تومیں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺسے اجازت لے لوں،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ تیرے پاس آسکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچاہیں،اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے،مرد نے نہیں،تو آپ نے فرمایا: تیرے چچاہیں،وہ تیرے پاس آسکتے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے انہوں نے لبن فحل (مرد کے دودھ) کوحرام کہاہے۔اس باب میں اصل عائشہ کی حدیث ہے،۳-اوربعض اہل علم نے لبن فحل (مردکے دودھ) کی رخصت دی ہے۔پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ لَہُ جَارِيتَانِ أَرْضَعَتْ إِحْدَاہُمَا جَارِيَةً وَالْأُخْرَی غُلَامًا أَيَحِلُّ لِلْغُلَامِ أَنْ يَتَزَوَّجَ بِالْجَارِيَةِ فَقَالَ لَا اللِّقَاحُ وَاحِدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا تَفْسِيرُ لَبَنِ الْفَحْلِ وَہَذَا الْأَصْلُ فِي ہَذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ان سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس کے پاس دولونڈیاں ہوں،ان میں سے ایک نے ایک لڑکی کو دودھ پلایا ہے اور دوسری نے ایک لڑکے کو۔تو کیا اس لڑکے کے لیے جائز ہے کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرے۔انہوں نے (ابن عباس) نے کہا: نہیں۔اس لیے کہ لقاح ایک ہی ہے ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہی اس باب میں اصل ہے۔احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا فَخَيَّرَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا وَلَوْ كَانَ حُرًّا لَمْ يُخَيِّرْہَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: بریرہ کے شوہرغلام تھے،رسول اللہ ﷺنے بریرہ کواختیار دیا،توانہوں نے خود کو اختیار کیا،(عروہ کہتے ہیں:) اگربریرہ کے شوہرآزاد ہوتے تو آپ بریرہ کو اختیار نہ دیتے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ حُرًّا فَخَيَّرَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رَوَی ہِشَامٌ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ عَبْدًا وَرَوَی عِكْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَأَيْتُ زَوْجَ بَرِيرَةَ وَكَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَہُ مُغِيثٌ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَالُوا إِذَا كَانَتْ الْأَمَةُ تَحْتَ الْحُرِّ فَأُعْتِقَتْ فَلَا خِيَارَ لَہَا وَإِنَّمَا يَكُونُ لَہَا الْخِيَارُ إِذَا أُعْتِقَتْ وَكَانَتْ تَحْتَ عَبْدٍ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرَوَی الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ حُرًّا فَخَيَّرَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَرَوَی أَبُو عَوَانَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ فِي قِصَّةِ بَرِيرَةَ قَالَ الْأَسْوَدُ وَكَانَ زَوْجُہَا حُرًّا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ کے شوہرآزاد تھے،پھربھی رسول اللہ ﷺنے انہیں اختیاردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح ہشام نے اپنے والد عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے روایت کی ہے،وہ کہتی ہیں کہ بریرہ کا شوہرغلام تھا،۳-عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں: میں نے بریرہ کے شوہر کودیکھا ہے،وہ غلام تھے اور انہیں مغیث کہاجاتاتھا،۴-اسی طرح کی ابن عمر سے روایت کی گئی ہے،۵-بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب لونڈی آزادمردکے نکا ح میں ہو اور وہ آزاد کردی جائے تو اسے اختیارنہیں ہوگا۔اسے اختیار صرف اس صورت میں ہوگا،جب وہ آزاد کی جائے اور وہ کسی غلام کی زوجیت میں ہو۔یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۶-لیکن اعمش نے بطریق: إبراہیم،عن الأسود،عن عائشۃ روایت کی ہےکہ بریرہ کے شوہر آزاد تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اختیار دیا۔ اورابوعوانہ نے بھی اس حدیث کوبطریق: الأعمش،عن إبراہیم،عن الأسود،عن عائشۃ بریرہ کے قصہ کے سلسلہ میں روایت کیا ہے،اسود کہتے ہیں: بریرہ کے شوہر آزاد تھے،۷-تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔اوریہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ أَيُّوبَ وَقَتَادَةُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا أَسْوَدَ لِبَنِي الْمُغِيرَةِ يَوْمَ أُعْتِقَتْ بَرِيرَةُ وَاللہِ لَكَأَنِّي بِہِ فِي طُرُقِ الْمَدِينَةِ وَنَوَاحِيہَا وَإِنَّ دُمُوعَہُ لَتَسِيلُ عَلَی لِحْيَتِہِ يَتَرَضَّاہَا لِتَخْتَارَہُ فَلَمْ تَفْعَلْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةُ ہُوَ سَعِيدُ بْنُ مِہْرَانَ وَيُكْنَی أَبَا النَّضْرِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں بریرہ کے شوہر بنی مغیرہ کے ایک کالے کلوٹے غلام تھے،جس دن بریرہ آزاد کی گئیں،اللہ کی قسم،گویا میں انہیں مدینے کے گلی کوچوں اور کناروں میں اپنے سامنے دیکھ رہاہوں کہ ان کے آنسو ان کی داڑھی پر بہہ رہے ہیں،وہ انہیں منارہے ہیں کہ وہ انہیں ساتھ میں رہنے کے لیے چن لیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ قُلْتُ لِأَيُّوبَ ہَلْ عَلِمْتَ أَنَّ أَحَدًا قَالَ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ إِنَّہَا ثَلَاثٌ إِلَّا الْحَسَنَ فَقَالَ لَا إِلَّا الْحَسَنَ ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ غَفْرًا إِلَّا مَا حَدَّثَنِي قَتَادَةُ عَنْ كَثِيرٍ مَوْلَی بَنِي سَمُرَةَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ثَلَاثٌ قَالَ أَيُّوبُ فَلَقِيتُ كَثِيرًا مَوْلَی بَنِي سَمُرَةَ فَسَأَلْتُہُ فَلَمْ يَعْرِفْہُ فَرَجَعْتُ إِلَی قَتَادَةَ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ نَسِيَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ بِہَذَا وَإِنَّمَا ہُوَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مَوْقُوفٌ وَلَمْ يُعْرَفْ حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ حَافِظًا صَاحِبَ حَدِيثٍ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ ہِيَ وَاحِدَةٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ و قَالَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ و قَالَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا جَعَلَ أَمْرَہَا بِيَدِہَا وَطَلَّقَتْ نَفْسَہَا ثَلَاثًا وَأَنْكَرَ الزَّوْجُ وَقَالَ لَمْ أَجْعَلْ أَمْرَہَا بِيَدِہَا إِلَّا فِي وَاحِدَةٍ اسْتُحْلِفَ الزَّوْجُ وَكَانَ الْقَوْلُ قَوْلَہُ مَعَ يَمِينِہِ وَذَہَبَ سُفْيَانُ وَأَہْلُ الْكُوفَةِ إِلَی قَوْلِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ وَأَمَّا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فَقَالَ الْقَضَاءُ مَا قَضَتْ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَأَمَّا إِسْحَقُ فَذَہَبَ إِلَی قَوْلِ ابْنِ عُمَرَ

حماد بن زیدکا بیان ہے کہ میں نے ایوب (سختیانی) سے پوچھا: کیا آپ حسن بصری کے علاوہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں،جس نے أمرک بیدک کے سلسلہ میں کہاہو کہ یہ تین طلاق ہے؟ انہوں نے کہا: حسن بصری کے۔علاوہ مجھے کسی اورکاعلم نہیں،پھر انہوں نے کہا: اللہ!معاف فرمائے۔ہاں وہ روایت ہے جو مجھ سے قتادہ نے بسند کثیرمولیٰ بنی سمرہ عن ابی سلمہ عن ابی ہریرہ روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ آپ نے فرمایا: یہ تین طلاقیں ہیں۔ ایوب کہتے ہیں: پھرمیں کثیرمولیٰ بنی سمرہ سے ملاتو میں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا مگروہ اسے نہیں جان سکے۔پھر میں قتادہ کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا: وہ بھول گئے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف سلیمان بن حرب ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے،۳-میں نے اس حدیث کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا توانہوں نے کہا: ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا انہوں نے اسے حماد بن زید سے روایت کیا ہے اور یہ ابوہریرہ سے موقوفاً مروی ہے،اوروہ ابوہریرہ کی حدیث کومرفوع نہیں جان سکے،۴-اہل علم کا أمرک بیدک کے سلسلے میں اختلاف ہے،بعض صحابہ کرام وغیرہم جن میں عمربن خطاب،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بھی ہیں کہتے ہیں کہ یہ ایک (طلاق) ہوگی۔اوریہی تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں سے کئی اہل علم کا بھی قول ہے،۵-عثمان بن عفان اور زید بن ثابت کہتے ہیں کہ فیصلہ وہ ہوگا جو عورت کہے گی،۶-ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب شوہرکہے کہ اس کا معاملہ اس (عورت) کے ہاتھ میں ہے،اور عورت خود سے تین طلاق قراردے لے۔اورشوہرانکارکرے اور کہے: میں نے صرف ایک طلاق کے سلسلہ میں کہاتھاکہ اس کا معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو شوہر سے قسم لی جائے گی اور شوہر کاقول اس کی قسم کے ساتھ معتبر ہوگا،۷-سفیان اور اہل کوفہ عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں،۸-اور مالک بن انس کاکہنا ہے کہ فیصلہ وہ ہوگا جوعورت کہے گی،یہی احمد کابھی قول ہے،۹-اوررہے اسحاق بن راہویہ تو وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کی طرف گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ وَلَا عِتْقَ لَہُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ وَلَا طَلَاقَ لَہُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي ہَذَا الْبَابِ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَالْحَسَنِ وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَشُرَيْحٍ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَہَاءِ التَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ قَالَ فِي الْمَنْصُوبَةِ إِنَّہَا تَطْلُقُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ وَالشَّعْبِيِّ وَغَيْرِہِمَا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُمْ قَالُوا إِذَا وَقَّتَ نُزِّلَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّہُ إِذَا سَمَّی امْرَأَةً بِعَيْنِہَا أَوْ وَقَّتَ وَقْتًا أَوْ قَالَ إِنْ تَزَوَّجْتُ مِنْ كُورَةِ كَذَا فَإِنَّہُ إِنْ تَزَوَّجَ فَإِنَّہَا تَطْلُقُ وَأَمَّا ابْنُ الْمُبَارَكِ فَشَدَّدَ فِي ہَذَا الْبَابِ وَقَالَ إِنْ فَعَلَ لَا أَقُولُ ہِيَ حَرَامٌ و قَالَ أَحْمَدُ إِنْ تَزَوَّجَ لَا آمُرُہُ أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَہُ و قَالَ إِسْحَقُ أَنَا أُجِيزُ فِي الْمَنْصُوبَةِ لِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَإِنْ تَزَوَّجَہَا لَا أَقُولُ تَحْرُمُ عَلَيْہِ امْرَأَتُہُ وَوَسَّعَ إِسْحَقُ فِي غَيْرِ الْمَنْصُوبَةِ وَذُكِرَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ حَلَفَ بِالطَّلَاقِ أَنَّہُ لَا يَتَزَوَّجُ ثُمَّ بَدَا لَہُ أَنْ يَتَزَوَّجَ ہَلْ لَہُ رُخْصَةٌ بِأَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِ الْفُقَہَاءِ الَّذِينَ رَخَّصُوا فِي ہَذَا فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ إِنْ كَانَ يَرَی ہَذَا الْقَوْلَ حَقَّا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُبْتَلَی بِہَذِہِ الْمَسْأَلَةِ فَلَہُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِہِمْ فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَرْضَ بِہَذَا فَلَمَّا ابْتُلِيَ أَحَبَّ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِہِمْ فَلَا أَرَی لَہُ ذَلِكَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذرنہیں جس کا وہ اختیارنہ رکھتا ہو،اورنہ اسے ایسے شخص کوآزادکرنے کا اختیارہے جس کا وہ مالک نہ ہو،اورنہ اسے ایسی عورت کوطلاق دینے کاحق حاصل ہے جس کا وہ مالک نہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،معاذ بن جبل،جابر،ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اور یہ سب سے بہتر حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے،۳-یہی صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا قول ہے۔اورعلی بن ابی طالب،ابن عباس،جابر بن عبداللہ،سعید بن المسیب،حسن،سعید بن جبیر،علی بن حسین،شریح،جابر بن زید رضی اللہ عنہم،اورفقہاء تابعین میں سے بھی کئی لوگوں سے یہی مروی ہے۔اوریہی شافعی کا بھی قول ہے،۴-اورابن مسعود سے مروی ہے انہوں نے منصوبہ ۱؎ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ طلاق ہوجائے گی،۵-اوراہل علم میں سے ابراہیم نخعی اورشعبی وغیرہ سے مروی ہے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب و ہ کسی وقت کی تحدیدکرے ۲؎ توطلاق واقع ہوجائے گی۔اوریہی سفیان ثوری اور مالک بن انس کابھی قول ہے کہ جب اس نے کسی متعین عورت کانام لیا،یا کسی وقت کی تحدید کی یا یوں کہا: اگر میں نے فلاں محلے کی عورت سے شادی کی تو اسے طلاق ہے۔تواگراس نے شادی کرلی تواُسے طلاق واقع ہوجائے گی،۶-البتہ ابن مبارک نے اس باب میں شدت سے کام لیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو میں یہ بھی نہیں کہتا کہ وہ اس پر حرام ہوگی،۷-اوراحمد کہتے ہیں: اگر اس نے شادی کی تو میں اسے یہ حکم نہیں دوں گا کہ وہ اپنی بیوی سے علاحدگی اختیار کرلے،۸-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعودکی حدیث کی روسے منسوبہ عورت سے نکاح کی اجازت دیتا ہوں،اگر اس نے اس سے شادی کرلی،تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی عورت اس پر حرام ہوگی۔اور غیرمنسوبہ عورت کے سلسلے میں اسحاق بن راہویہ نے وسعت دی ہے،۹-اورعبداللہ بن مبارک سے منقول ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا کہ جس نے طلاق کی قسم کھائی ہو کہ وہ شادی نہیں کرے گا،پھر اسے سمجھ میں آیا کہ وہ شادی کرلے۔توکیا اس کے لیے رخصت ہے کہ ان فقہاء کا قول اختیار کرے جنہوں نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے؟توعبداللہ بن مبارک نے کہا: اگروہ اس معاملے میں پڑنے سے پہلے ان کے رخصت کے قول کو درست سمجھتاہوتو اس کے لیے ان کے قول پر عمل درست ہے اور اگر وہ پہلے اس قول سے مطمئن نہ رہاہو،اب آزمایش میں پڑجانے پران کے قول پرعمل کرنا چاہے تومیں اس کے لیے ایسا کرنادرست نہیں سمجھتا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيِّ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ مَاہَكَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثٌ جِدُّہُنَّ جِدٌّ وَہَزْلُہُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ہُوَ ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ الْمَدَنِيُّ وَابْنُ مَاہَكَ ہُوَ عِنْدِي يُوسُفُ بْنُ مَاہَكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ انہیں سنجیدگی سے کرنا بھی سنجیدگی ہے اورہنسی مذاق میں کرنابھی سنجیدگی ہے نکاح،طلاق اور رجعت ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۳-عبدالرحمٰن،حبیب بن اردک مدنی کے بیٹے ہیں اور ابن ماہک میرے نزدیک یوسف بن ماہک ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ أَنْبَأَنَا مَعْنٌ أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ عَمَّتِہِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ وَہِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَخْبَرَتْہَا أَنَّہَا جَاءَتْ رَسُولَ اللہِ ﷺ تَسْأَلُہُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَی أَہْلِہَا فِي بَنِي خُدْرَةَ وَأَنَّ زَوْجَہَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَہُ أَبَقُوا حَتَّی إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ لَحِقَہُمْ فَقَتَلُوہُ قَالَتْ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَنْ أَرْجِعَ إِلَی أَہْلِي فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُہُ وَلَا نَفَقَةً قَالَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَعَمْ قَالَتْ فَانْصَرَفْتُ حَتَّی إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ أَوْ فِي الْمَسْجِدِ نَادَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَہُ فَقَالَ كَيْفَ قُلْتِ قَالَتْ فَرَدَدْتُ عَلَيْہِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَہُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي قَالَ امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّی يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَہُ قَالَتْ فَاعْتَدَدْتُ فِيہِ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا قَالَتْ فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ فَأَخْبَرْتُہُ فَاتَّبَعَہُ وَقَضَی بِہِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ أَنْبَأَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فَذَكَرَ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَمْ يَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِہَا حَتَّی تَنْقَضِيَ عِدَّتُہَا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَاءَتْ وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ زَوْجِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ فریعہ بنت مالک بن سنان رضی اللہ عنہا جوابوسعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبردی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں،وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھروالوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں(ہوایہ تھا کہ)ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے،جب وہ مقام قدوم کے کنارے پران سے ملے،توان غلاموں نے انہیں مارڈالا۔فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھاکہ میں اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کانہ تو کوئی مکان چھوڑ اہے اورنہ کچھ خرچ۔تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں،چنانچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے آواز دی۔(یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے) پھر آپ نے پوچھا: تم نے کیسے کہا؟میں نے وہی قصہ دہرادیاجومیں نے آپ سے اپنے شوہرکے بارے میں ذکرکیاتھا،آپ نے فرمایا:تم اپنے گھرہی میں رہویہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہوجائے،چنانچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اورمجھ سے اس بارے میں پوچھاتو میں نے ان کو بتایا۔چنانچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے،یہ لوگ عدت گزارنے والی عورت کے لیے درست نہیں سمجھتے ہیں کہ اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہوجب تک کہ وہ اپنی عدت نہ گزارلے۔یہی سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳-اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں عدت نہ گزارے تو اس کو اختیار ہے جہاں چاہے عدت گزارے،۴-(امام ترمذی) کہتے ہیں: پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَنَحْنُ نُسَمَّی السَّمَاسِرَةَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ إِنَّ الشَّيْطَانَ وَالْإِثْمَ يَحْضُرَانِ الْبَيْعَ فَشُوبُوا بَيْعَكُمْ بِالصَّدَقَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَرِفَاعَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاہُ مَنْصُورٌ وَالْأَعْمَشُ وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ وَلَا نَعْرِفُ لِقَيْسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ ہَذَا حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ وَشَقِيقٌ ہُوَ أَبُو وَائِلٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے،ہم (اس وقت) سماسرہ ۱؎ (دلال) کہلاتے تھے،آپ نے فرمایا:اے تاجروں کی جماعت! خریدوفروخت کے وقت شیطان اور گناہ سے سابقہ پڑہی جاتاہے،لہذا تم اپنی خریدوفرخت کو صدقہ کے ساتھ ملا لیاکرو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-قیس بن ابی غرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے منصورنے بسند اعمش عن حبیب بن أبی ثابت،اور دیگرکئی لوگوں نے بسند أبی وائل عن قیس بن ابی غرزہ سے روایت کیا ہے۔ہم اس کے علاوہ قیس کی کوئی اورحدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو،۳-مؤلف نے بسند ابی معاویہ عن الأ عمش عن أبی وائل شقیق بن سلمۃ عن قیس بن ابی غرزہ عن النبی ﷺاسی جیسی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے،۴-یہ حدیث صحیح ہے،۵-اس باب میں براء بن عازب اور رفاعہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّہَدَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمَہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ جَابِرٍ وَہُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: سچا اور امانت دار تاجر(قیامت کے دن) انبیاء،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،ہم اسے بروایت ثوری صرف اسی سند سے جانتے ہیں انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے،۲-اور ابوحمزہ کانام عبداللہ بن جابرہے اوروہ بصرہ کے شیخ ہیں،۳-دوسری سندسے سفیان ثوری نے ابوحمزہ سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی الْمُصَلَّی فَرَأَی النَّاسَ يَتَبَايَعُونَ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ فَاسْتَجَابُوا لِرَسُولِ اللہِ ﷺ وَرَفَعُوا أَعْنَاقَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ إِلَيْہِ فَقَالَ إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنْ اتَّقَی اللہَ وَبَرَّ وَصَدَقَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُقَالُ إِسْمَعِيلُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ رِفَاعَةَ أَيْضًا

رفاعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺکے ہمراہ عیدگاہ کی طرف نکلے،آپ نے لوگوں کو خرید وفروخت کرتے دیکھا تو فرمایا: اے تاجروں کی جماعت!تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی بات سننے لگے اورانہوں نے آپ کی طرف اپنی گردنیں اور نگاہیں اونچی کرلیں،آ پ نے فرمایا:تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جواللہ سے ڈرے نیک کام کرے اورسچ بولے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسماعیل بن عبید بن رفاعہ کو اسماعیل بن عبید اللہ بن رفاعہ بھی کہاجاتاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ لَيْثٍ صَاحِبُ الْكَرَابِيسِيِّ الْبَصْرِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ وَہْبٍ قَالَ قَالَ لِي الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ ہَوْذَةَ أَلَا أُقْرِئُكَ كِتَابًا كَتَبَہُ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ قُلْتُ بَلَی فَأَخْرَجَ لِي كِتَابًا ہَذَا مَا اشْتَرَی الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ ہَوْذَةَ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللہِ ﷺ اشْتَرَی مِنْہُ عَبْدًا أَوْ أَمَةً لَا دَاءَ وَلَا غَائِلَةَ وَلَا خِبْثَةَ بَيْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ لَيْثٍ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ ہَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْحَدِيثِ

عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ھوذہ نے کہا: کیا میں تمہیں ایک تحریر نہ پڑھاؤں جو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے لکھی تھی؟ میں نے کہا: کیوں نہیں،ضرورپڑھائیے،پھر انہوں نے ایک تحریر نکالی،(جس میں لکھاتھا) یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے محمد ﷺ سے خریدی ہے،انہوں نے آپ سے غلام یا لونڈی کی خریداری اس شرط کے ساتھ کیکہ اس میں نہ کوئی بیماری ہو،نہ وہ بھگیوڑوہو اورنہ حرام مال کا ہو،یہ مسلمان کی مسلمان سے بیع ہے ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف عباد بن لیث کی روایت سے جانتے ہیں۔ان سے یہ حدیث محدّثین میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الذَّہَبُ بِالذَّہَبِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ فَمَنْ زَادَ أَوْ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَی بِيعُوا الذَّہَبَ بِالْفِضَّةِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ وَبِيعُوا الْبُرَّ بِالتَّمْرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ وَبِيعُوا الشَّعِيرَ بِالتَّمْرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَبِلَالٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ وَقَالَ بِيعُوا الْبُرُّ بِالشَّعِيرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ عَنْ عُبَادَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ الْحَدِيثَ وَزَادَ فِيہِ قَالَ خَالِدٌ قَالَ أَبُو قِلَابَةَ بِيعُوا الْبُرَّ بِالشَّعِيرِ كَيْفَ شِئْتُمْ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ أَنْ يُبَاعَ الْبُرُّ بِالْبُرِّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ فَإِذَا اخْتَلَفَ الْأَصْنَافُ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُبَاعَ مُتَفَاضِلًا إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ وَہَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ بِيعُوا الشَّعِيرَ بِالْبُرِّ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ تُبَاعَ الْحِنْطَةُ بِالشَّعِيرِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: سونے کو سونے سے،چاندی کو چاندی سے،کھجور کو کھجور سے،گیہوں کو گیہوں سے،نمک کونمک سے اور جوکو جو سے برابربرابر بیچو،جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔سونے کو چاندی سے نقداًنقد،جیسے چاہو بیچو،گیہوں کو کھجو ر سے نقداًنقد جیسے چاہو بیچو،اور جو کو کھجور سے نقداًنقدجیسے چاہو بیچو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالدسے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ گیہوں کو جو سے نقدا نقد جیسے چاہوبیچو،۳-بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اورخالدنے ابوقلابہ سے اورابوقلابہ نے ابوالاشعث سے اورابوالاشعث نے عبادہ سے اور عبادہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے: خالد کہتے ہیں:ابوقلابہ نے کہا: گیہوں کو جو سے جیسے سے چاہو بیچو۔پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی،۴-اس باب میں ابوسعید،ابوہریرہ،بلال اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۵-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ لوگ گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے صرف برابر برابر ہی بیچنے کو جائز سمجھتے ہیں اور جب اجناس مختلف ہوجائیں تو کمی،بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بیع نقداًنقد ہو۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا یہی قول ہے۔سفیان ثوری،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: اس کی دلیل نبی اکرمﷺکا یہ فرمان ہے کہ جوکوگیہوں سے نقدا نقدجیسے چاہو بیچو،۶-اہل علم کی ایک جماعت نے جوسے بھی گیہوں کے بیچنے کو مکروہ سمجھا ہے،الا یہ کہ وزن میں مساوی ہوں،پہلاقول ہی زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ عَنْ شَرِيكٍ وَقَيْسٌ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَی مَنْ ائْتَمَنَكَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَالُوا إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَلَی آخَرَ شَيْءٌ فَذَہَبَ بِہِ فَوَقَعَ لَہُ عِنْدَہُ شَيْءٌ فَلَيْسَ لَہُ أَنْ يَحْبِسَ عَنْہُ بِقَدْرِ مَا ذَہَبَ لَہُ عَلَيْہِ وَرَخَّصَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَقَالَ إِنْ كَانَ لَہُ عَلَيْہِ دَرَاہِمُ فَوَقَعَ لَہُ عِنْدَہُ دَنَانِيرُ فَلَيْسَ لَہُ أَنْ يَحْبِسَ بِمَكَانِ دَرَاہِمِہِ إِلَّا أَنْ يَقَعَ عِنْدَہُ لَہُ دَرَاہِمُ فَلَہُ حِينَئِذٍ أَنْ يَحْبِسَ مِنْ دَرَاہِمِہِ بِقَدْرِ مَا لَہُ عَلَيْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جوتمہارے پاس امانت رکھے اُسے امانت لوٹاؤ ۱؎ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ (بھی)خیانت نہ کرو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کا کسی دوسرے کے ذمّہ کوئی چیز ہواور وہ اسے لے کرچلاجائے پھر اس جانے والے کی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں آئے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس میں سے اتنا روک لے جتنا وہ اس کالے کرگیاہے،۳-تابعین میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے،اوریہی ثوری کا بھی قول ہے،وہ کہتے ہیں: اگراس کے ذمہ درہم ہو اور(بطور امانت) اس کے پاس اس کے دینار آگئے تواس کے لیے جائزنہیں کہ وہ اپنے دراہم کے بدلے اسے روک لے،البتہ اس کے پاس اس کے دراہم آجائیں تو اس وقت اس کے لیے درست ہوگا کہ اس کے دراہم میں سے اتناروک لے جتنا اس کے ذمہ اس کا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ فَالْقَوْلُ قَوْلُ الْبَائِعِ وَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللہِ لَمْ يُدْرِكْ ابْنَ مَسْعُودٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا وَہُوَ مُرْسَلٌ أَيْضًا قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قُلْتُ لِأَحْمَدَ إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ وَلَمْ تَكُنْ بَيِّنَةٌ قَالَ الْقَوْلُ مَا قَالَ رَبُّ السِّلْعَةِ أَوْ يَتَرَادَّانِ قَالَ إِسْحَقُ كَمَا قَالَ وَكُلُّ مَنْ كَانَ الْقَوْلُ قَوْلَہُ فَعَلَيْہِ الْيَمِينُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ مِنْہُمْ شُرَيْحٌ وَغَيْرُہُ نَحْوُ ہَذَا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بائع اورمشتری میں اختلاف ہوجائے تو بات بائع کی مانی جائے گی،اور مشتری کو اختیار ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث مرسل ہے،عون بن عبداللہ نے ابن مسعود کو نہیں پایا،۲-اورقاسم بن عبدالرحمٰن سے بھی یہ حدیث مروی ہے،انہوں نے ابن مسعود سے اورابن مسعودنے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے۔اور یہ روایت بھی مرسل ہے،۳-اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: جب بائع اورمشتری میں اختلاف ہوجائے اور کوئی گواہ نہ ہو تو کس کی بات تسلیم کی جائے گی؟ انہوں نے کہا: بات وہی معتبر ہوگی جوسامان کامالک کہے گا،یا پھر دونوں اپنی اپنی چیزواپس لے لیں یعنی بائع سامان واپس لے لے اورمشتری قیمت۔اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی کہاہے جو احمدنے کہاہے،۴-اوربات جس کی بھی مانی جائے اس کے ذمہ قسم کھانا ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: تابعین میں سے بعض اہل علم سے اسی طرح مروی ہے،انہیں میں شریح بھی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ قَارِظٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ كَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِيثٌ وَمَہْرُ الْبَغِيِّ خَبِيثٌ وَثَمَنُ الْكَلْبِ خَبِيثٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا ثَمَنَ الْكَلْبِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ

-رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پچھنا لگانے والے کی کمائی خبیث (گھٹیا) ہے۱؎ زانیہ کی اجرت ناپاک ۲؎ ہے اور کتے کی قیمت ناپاک ہے ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،علی،ابن مسعود،ابومسعود،جابر،ابوہریرہ،ابن عباس،ابن عمر اور عبداللہ ابن جعفر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ان لوگوں نے کتے کی قیمت کوناجائزجاناہے،یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔اوربعض اہل علم نے شکاری کتے کی قیمت کی اجازت دی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ ح و حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَہْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاہِنِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت،زانیہ کی کمائی اور کاہن کی مٹھائی سے منع فرمایاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَا أَنْبَأَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِہِ اضْطِرَابٌ وَلَا يَصِحُّ فِي ثَمَنِ السِّنَّوْرِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ عَنْ جَابِرٍ وَاضْطَرَبُوا عَلَی الْأَعْمَشِ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ ثَمَنَ الْہِرِّ وَرَخَّصَ فِيہِ بَعْضُہُمْ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرَوَی ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔بلی کی قیمت کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے،۲-یہ حدیث اعمش سے مروی ہے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور اس نے جابر سے،یہ لوگ اعمش سے اس حدیث کی روایت میں اضطراب کا شکارہیں،۳-اورابن فضل نے اس سندکے علاوہ دوسری سندسے بطریق: الأعمش،عن أبی حازم،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۴-اہل علم کی ایک جماعت نے بلی کی قیمت کو ناجائزکہاہے،۵-اور بعض لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے،یہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ زَيْدٍ الصَّنْعَانِيُّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَہَی النَّبِيُّ ﷺ عَنْ أَكْلِ الْہِرِّ وَثَمَنِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعُمَرُ بْنُ زَيْدٍ لَا نَعْرِفُ كَبِيرَ أَحَدٍ رَوَی عَنْہُ غَيْرَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اورہم عبدالرزاق کے علاوہ کسی بڑے محدث کونہیں جانتے جس نے عمروبن زیدسے روایت کی ہو۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ إِلَّا أَنَّہُ قَدْ أَذِنَ لِأَہْلِ الْعَرَايَا أَنْ يَبِيعُوہَا بِمِثْلِ خَرْصِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ہَكَذَا رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ ہَذَا الْحَدِيثَ وَرَوَی أَيُّوبُ وَعُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺنے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا،البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگاکراسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث کو محمد بن اسحاق نے اسی طرح روایت کیا ہے۔اورایوب،عبیداللہ بن عمر اور مالک بن انس نے نافع سے اورنافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺنے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایاہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اوراسی سند سے ابن عمرنے زید بن ثابت سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔اور یہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَی ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ كَذَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ نَحْوَہُ وَرُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَوْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ وسق سے کم میں عرایاکے بیچنے کی اجازت دی ہے یاایسے ہی کچھ آپ نے فرمایا۔راوی کو شک ہے کہ حدیث کے یہی الفاظ ہیں یا کچھ فرق ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے سابقہ حدیث کی طرح روایت آئی ہے۔مالک ۱؎ سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے پانچ وسق میں یا پانچ وسق سے کم میں عرایاکو بیچنے کی اجازت دی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَالُوا إِنَّ الْعَرَايَا مُسْتَثْنَاةٌ مِنْ جُمْلَةِ نَہْيِ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ نَہَی عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَحَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَقَالُوا لَہُ أَنْ يَشْتَرِيَ مَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ وَمَعْنَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرَادَ التَّوْسِعَةَ عَلَيْہِمْ فِي ہَذَا لِأَنَّہُمْ شَكَوْا إِلَيْہِ وَقَالُوا لَا نَجِدُ مَا نَشْتَرِي مِنْ الثَّمَرِ إِلَّا بِالتَّمْرِ فَرَخَّصَ لَہُمْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ أَنْ يَشْتَرُوہَا فَيَأْكُلُوہَا رُطَبًا

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اندازہ لگاکر عرایاکو بیچنے کی اجازت دی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔جس میں شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی میں شامل ہیں۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے منجملہ جن چیزوں سے منع فرمایاہے اس سے عرایا مستثنیٰ ہے،اس لیے کہ آپ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ان لوگوں نے زید بن ثابت اور ابوہریرہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ان کاکہناہے کہ اس کے لیے پانچ وسق سے کم خریدنا جائز ہے،۳-بعض اہل علم کے نزدیک اس کامفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺکے پیش نظر اس سلسلہ میں توسّع اورگنجائش دیناہے،اس لیے کہ عرایا والوں نے آپ سے شکایت کی اورعرض کیاکہ خشک کھجور کے سواہمیں کوئی اور چیز میسر نہیں جس سے ہم تازہ کھجور خرید سکیں۔تو آپ نے انہیں پانچ وسق سے کم میں خریدنے کی اجازت دیدی تاکہ وہ تازہ کھجور کھاسکیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ حَدَّثَنَا بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَی بَنِي حَارِثَةَ أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ وَسَہْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ حَدَّثَاہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ إِلَّا لِأَصْحَابِ الْعَرَايَا فَإِنَّہُ قَدْ أَذِنَ لَہُمْ وَعَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ بِالزَّبِيبِ وَعَنْ كُلِّ ثَمَرٍ بِخَرْصِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

رافع بن خدیج اورسہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع مزابنہ یعنی سوکھی کھجوروں کے عوض درخت پرلگی کھجور بیچنے سے منع فرمایا،البتہ آپ نے عرایا والوں کو اجازت دی،اور خشک انگور کے عوض تر انگور بیچنے سے اوراندازہ لگاکرکوئی بھی پھل بیچنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي صَالِحِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَہُ أَظَلَّہُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِہِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْيَسَرِ وَأَبِي قَتَادَةَ وَحُذَيْفَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعُبَادَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص کسی تنگ دست (قرض دار) کومہلت دے یااس کاکچھ قرض معاف کردے،تو اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابویسر(کعب بن عمرو)،ابوقتادہ،حذیفہ،ابن مسعود،عبادہ اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَ نْصَارِيُّ،حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَی الْقَزَّازُ،حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ،ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،عَنْ مَالِكٍ،عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: إِذَا تَوَضَّأَ الْعَبْدُ الْمُسْلِمُ أَوْ الْمُؤْمِنُ فَغَسَلَ وَجْہَہُ،خَرَجَتْ مِنْ وَجْہِہِ كُلُّ خَطِيئَةٍ نَظَرَ إِلَيْہَا بِعَيْنَيْہِ مَعَ الْمَاءِ،أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ،أَوْ نَحْوَ ہَذَا،وَإِذَا غَسَلَ يَدَيْہِ خَرَجَتْ مِنْ يَدَيْہِ كُلُّ خَطِيئَةٍ بَطَشَتْہَا يَدَاہُ مَعَ الْمَاءِ،أَوْ مَعَ آخِرِ قَطْرِ الْمَاءِ،حَتَّی يَخْرُجَ نَقِيًّا مِنْ الذُّنُوبِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَہُوَ حَدِيثُ مَالِكٍ،عَنْ سُہَيْلٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ. وَأَبُو صَالِحٍ وَالِدُ سُہَيْلٍ-ہُوَ أَبُوصَالِحٍ السَّمَّانُ-وَاسْمُہُ ذَكْوَانُ،وَأَبُو ہُرَيْرَةَ اخْتُلِفَ فِي اسْمِہِ،فَقَالُوا: عَبْدُ شَمْسٍ،وَقَالُوا: عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو،وَہَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ،وَہُوَ الأَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ،وَثَوْبَانَ،وَالصُّنَابِحِيِّ،وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ،وَسَلْمَانَ،وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو. وَالصُّنَابِحِيُّ الَّذِي رَوَی عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ لَيْسَ لَہُ سَمَاعٌ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ،وَاسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُسَيْلَةَ،وَيُكْنَی أَبَا عَبْدِ اللہِ،رَحَلَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ وَہُوَ فِي الطَّرِيقِ،وَقَدْ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ. وَالصُّنَابِحُ بْنُ الاَعْسَرِ الأحْمَسِيُّ صَا حِبُ النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَہُ الصُّنَابِحِيُّ أَيْضًا،وَإِنَّمَا حَدِيثُہُ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأمَمَ فَلاَ تَقْتَتِلُنَّ بَعْدِي ۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب مسلمان یامومن بندہ وضوکرتا اوراپنا چہرہ دھوتا ہے توپانی کے ساتھ یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ تمام گناہ جھڑجاتے ہیں ۱؎،جو اس کی آنکھوں نے کئے تھے یااسی طرح کی کوئی اور بات فرمائی،پھرجب وہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے تو پانی کے ساتھ یاپانی کے آخری قطرے کے ساتھ وہ تمام گناہ جھڑجاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے ہیں،یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک وصاف ہوکرنکلتاہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۳؎،۲-اس باب میں عثمان بن عفان،ثوبان،صنابحی،عمروبن عبسہ،سلمان اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صنابحی جنہوں نے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،ان کا سماع رسول اللہ ﷺ سے نہیں ہے،ان کا نام عبدالرحمٰن بن عسیلہ،اورکنیت ابوعبداللہ ہے،انہوں نے رسول اللہﷺ کے پاس سفرکیا،راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہﷺ کا انتقال ہوگیا،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے متعدد احادیث روایت کی ہیں۔ اورصنابح بن اعسراحمسی صحابی رسول ہیں،ان کو صنابحی بھی کہاجاتاہے،انہی کی حدیث ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: میں تمہارے ذریعہ سے دوسری امتوں میں اپنی اکثریت پرفخرکروں گا تومیرے بعدتم ہرگز ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ أَحْمَدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ-يُقَالُ: ہُوَ مِنْ وَلَدِ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ صَاحِبِ النَّبِيِّ ﷺ-حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،عَنْ الأَوْزَاعِيِّ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ اللَّيْلِ فَلاَيُدْخِلْ يَدَہُ فِي الإِنَاءِ حَتَّی يُفْرِغَ عَلَيْہَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاْثًا،فَإِنَّہُ لاَيَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُہُ. وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،وَجَابِرٍ،وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأُحِبُّ لِكُلِّ مَنْ اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ،قَائِلَةً كَانَتْ أَوْ غَيْرَہَا: أَنْ لاَيُدْخِلَ يَدَہُ فِي وَضُوئِہِ حَتَّی يَغْسِلَہَا. فَإِنْ أَدْخَلَ يَدَہُ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَہَا كَرِہْتُ ذَلِكَ لَہُ،وَلَمْ يُفْسِدْ ذَلِكَ الْمَاءَ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَی يَدِہِ نَجَاسَةٌ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ مِنْ اللَّيْلِ،فَأَدْخَلَ يَدَہُ فِي وَضُوئِہِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَہَا،فَأَعْجَبُ إِلَيَّ أَنْ يُہْرِيقَ الْمَاءَ. وقَالَ إِسْحَاقُ: إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ بِاللَّيْلِ أَوْ بِالنَّہَارِ فَلاَيُدْخِلْ يَدَہُ فِي وَضُوئِہِ حَتَّی يَغْسِلَہَا.

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو نیندسے اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن ۱؎ میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پردویاتین بارپانی نہ ڈال لے،کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کاہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابن عمر،جابراور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۳-شافعی کہتے ہیں: میں ہرسوکراٹھنے والے کے لیے-چاہے وہ دوپہرمیںقیلولہ کرکے اٹھاہویا کسی اوروقت میں-پسندکرتا ہوں کہ وہ جب تک اپنا ہاتھ نہ دھوئے اسے وضوکے پانی میں نہ ڈالے اوراگر اس نے دھونے سے پہلے ہاتھ ڈال دیا تو میں اس کے اس فعل کومکروہ سمجھتاہوں لیکن اس سے پانی فاسدنہیں ہوگا بشرطیکہ اس کے ہاتھ میں کوئی نجاست نہ لگی ہو ۲؎،احمدبن حنبل کہتے ہیں: جب کوئی رات کوجاگے اوردھونے سے پہلے پانی میں ہاتھ ڈال دے تو اس پانی کومیرے نزدیک بہادینابہترہے،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب وہ رات یا دن کسی بھی وقت نیندسے جاگے تو اپنا ہاتھ وضوکے پانی میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھونہ لے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ مُوسَی الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی مَالِكٌ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی وَلَمْ يَذْكُرُوا ہَذَا الْحَرْفَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ وَإِنَّمَا ذَكَرَہُ خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ ثِقَةٌ حَافِظٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْمَضْمَضَةُ وَالِاسْتِنْشَاقُ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ يُجْزِئُ و قَالَ بَعْضُہُمْ تَفْرِيقُہُمَا أَحَبُّ إِلَيْنَا و قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنْ جَمَعَہُمَا فِي كَفٍّ وَاحِدٍ فَہُوَ جَائِزٌ وَإِنْ فَرَّقَہُمَا فَہُوَ أَحَبُّ إِلَيْنَا

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کودیکھاکہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا،تین بارآپ نے ایساکیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۲-عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث حسن غریب ہے،۳-مالک،سفیان،ابن عیینہ اوردیگرکئی لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن یحییٰ سے روایت کی ہے۔لیکن ان لوگوں نے یہ بات ذکرنہیں کی کہ نبی اکرم ﷺْ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اورناک میں پانی ڈالا،اسے صرف خالدہی نے ذکرکیاہے اور خالد محدّثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں۔بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا کافی ہوگا،اوربعض نے کہا ہے کہ دونوں کے لیے الگ الگ پانی لیناہمیںزیادہ پسندہے،شافعی کہتے ہیں کہ اگران دونوں کو ایک ہی چلومیں جمع کرے تو جائز ہے لیکن اگرالگ الگ چلّوسے کرے تویہ ہمیںزیادہ پسندہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا وَغَسَلَ يَدَيْہِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ وَمَسَحَ بِرَأْسِہِ وَغَسَلَ رِجْلَيْہِ مَرَّتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذُكِرَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ بَعْضَ وُضُوئِہِ مَرَّةً وَبَعْضَہُ ثَلَاثًا وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بَعْضَ وُضُوئِہِ ثَلَاثًا وَبَعْضَہُ مَرَّتَيْنِ أَوْ مَرَّةً

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضوکیا تو آپ نے اپنا چہرہ تین بار دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ دودو بار دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا اور اپنے دونوں پیر دو دو بار دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس کے علاوہ اوربھی حدیثوں میں یہ بات مذکورہے کہ آپ ﷺ نے بعض اعضائے وضو کو ایک ایک بار اور بعض کو تین تین بار دھویا،۳-بعض اہل علم نے اس بات کی اجازت دی ہے،ان کی رائے میں وضومیں بعض اعضاء کوتین بار،بعض کو دو بار اور بعض کوایک باردھونے میں کوئی حرج نہیں۔

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الثَّعْلَبِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيِّ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ وَأَبِي عُثْمَانَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ اللہُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَہِّرِينَ فُتِحَتْ لَہُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّہَا شَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ قَدْ خُولِفَ زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ وَرَوَی عَبْدُ اللہِ بْنُ صَالِحٍ وَغَيْرُہُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عُمَرَ وَعَنْ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ عُمَرَ وَہَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِہِ اضْطِرَابٌ وَلَا يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ كَبِيرُ شَيْءٍ قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَبُو إِدْرِيسَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ شَيْئًا

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یوں کہے: أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ،اللہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ التَّوَّابِینَ وَاجْعَلْنِی مِنْ الْمُتَطَہِّرِینَ (میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں،اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں،اے اللہ!مجھے توبہ کرنے والوں اورپاک رہنے والوں میں سے بنادے) تواس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں انس اورعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-امام ترمذی نے عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے طرق ۱؎ ذکرکرنے کے بعد فرما یا کہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے،۳-اس باب میںزیادہ تر چیزیں نبی اکرم ﷺسے صحیح ثابت نہیں ہیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاہِرًا أَوْ غَيْرَ طَاہِرٍ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ أَنْتُمْ قَالَ كُنَّا نَتَوَضَّأُ وُضُوءًا وَاحِدًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْمَشْہُورُ عَنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَنَسٍ وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ يَرَی الْوُضُوءَ لِكُلِّ صَلَاةٍ اسْتِحْبَابًا لَا عَلَی الْوُجُوبِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ ہر صلاۃ کے لیے وضوکرتے باوضوہوتے یابے وضو۔حمید کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایک ہی وضوکرتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: حمید کی حدیث بواسطہ انس اس سندسے غریب ہے،اور محدثین کے نزدیک مشہور عمرو بن عامروالی حدیث ہے جوبواسطہ انس مروی ہے،اوربعض اہل علم ۲؎ کی رائے ہے کہ ہرصلاۃ کے لیے وضومستحب ہے نہ کہ واجب۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ہُوَ ابْنُ مَہْدِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأنْصَارِيِّ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ قُلْتُ فَأَنْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي الصَّلَوَاتِ كُلَّہَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ نُحْدِثْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ

عمروبن عامرانصاری کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا: نبی اکرم ﷺ ہر صلاۃ کے لئے وضو کرتے تھے،میں نے(انس سے) پوچھا: پھر آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم حدث نہ کرتے ساری صلاتیں ایک ہی وضو سے پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور حمید کی حدیث جو انس سے مروی ہے جید غریب حسن ہے۔

وَقَدْ رُوِيَ فِي حَدِيثٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ تَوَضَّأَ عَلَی طُہْرٍ كَتَبَ اللہُ لَہُ بِہِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ قَالَ وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ الْأَفْرِيقِيُّ عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ عَنْ الْأَفْرِيقِيِّ وَہُوَ إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ذَكَرَ لِہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ہَذَا الْحَدِيثُ فَقَالَ ہَذَا إِسْنَادٌ مَشْرِقِيٌ قَالَ سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جووضوپروضوکرے گا اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث افریقی نے ابوغطیف سے اورابوغطیف نے ابن عمر سے اورابن عمرنے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،ہم سے اسے حسین بن حریث مروزی نے محمد بن یزید واسطی کے واسطے سے بیان کیاہے اور محمدبن یزید نے افریقی سے روایت کی ہے اور یہ سند ضعیف ہے،۲-علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں: انہوں نے اس حدیث کا ذکر ہشام بن عروہ سے کیاتو انہوں نے کہاکہ یہ سند مشرقی ہے ۱؎،۳-میں نے احمد بن حسن کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے احمدبن حنبل کوکہتے سناہے: میں نے اپنی آنکھ سے یحیی بن سعید القطان کے مثل کسی کو نہیں دیکھا۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ سَمِعَ جَابِرًا قَالَ سُفْيَانُ وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنَا مَعَہُ فَدَخَلَ عَلَی امْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَذَبَحَتْ لَہُ شَاةً فَأَكَلَ وَأَتَتْہُ بِقِنَاعٍ مِنْ رُطَبٍ فَأَكَلَ مِنْہُ ثُمَّ تَوَضَّأَ لِلظُّہْرِ وَصَلَّی ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَتَتْہُ بِعُلَالَةٍ مِنْ عُلَالَةِ الشَّاةِ فَأَكَلَ ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيرَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي رَافِعٍ وَأُمِّ الْحَكَمِ وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ وَأُمِّ عَامِرٍ وَسُوَيْدِ بْنِ النُّعْمَانِ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَا يَصِحُّ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ فِي ہَذَا الْبَابِ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِہِ إِنَّمَا رَوَاہُ حُسَامُ بْنُ مِصَكٍّ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالصَّحِيحُ إِنَّمَا ہُوَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَكَذَا رَوَاہُ الْحُفَّاظُ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَعِكْرِمَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ وَعَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَہَذَا أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ رَأَوْا تَرْكَ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ وَہَذَا آخِرُ الْأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَكَأَنَّ ہَذَا الْحَدِيثَ نَاسِخٌ لِلْحَدِيثِ الْأَوَّلِ حَدِيثِ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتْ النَّارُ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ (مدینہ میں) نکلے،میں آپ کے ساتھ تھا،آپ ایک انصاری عورت کے پاس آئے،اس نے آپ کے لیے ایک بکری ذبح کی آپ نے (اسے) تناول فرمایا،وہ ترکھجور وں کا ایک طبق بھی لے کر آئی توآپ نے اس میں سے بھی کھایا،پھر ظہرکے لیے وضو کیا اور ظہر کی صلاۃ پڑھی،آپ نے واپس پلٹنے کاارادہ کیا ہی تھا کہ وہ بکری کے بچے ہوے گوشت میں سے کچھ گوشت لے کرآئی توآپ نے (اسے بھی) کھایا،پھرآپ نے عصرکی صلاۃپڑھی اور(دوبارہ) وضونہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابو بکرصدیق،ابن عباس،ابوہریرہ،ابن مسعود،ابورافع،ام حکم،عمروبن امیہ،ام عامر،سوید بن نعمان اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ابوبکرکی وہ حدیث جسے ابن عباس نے ان سے روایت کیا ہے سنداً ضعیف ہے ابن عباس کی مرفوعاً حدیث زیادہ صحیح ہے اور حفاظ نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔۲-صحابہ کرام تابعین عظام اور ان کے بعدکے لوگوں میں سے اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری ابن مبارک شافعی احمد اوراسحاق بن راہویہ کااسی پر عمل ہے کہ آگ پرپکی ہوئی چیز سے وضو واجب نہیں،اوریہی رسول اللہﷺ کاآخری فعل ہے،گویا یہ حدیث پہلی حدیث کی ناسخ ہے جس میں ہے کہ آگ کی پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ حُمَيْدَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ كَبْشَةَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَتْ عِنْدَ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ دَخَلَ عَلَيْہَا قَالَتْ فَسَكَبْتُ لَہُ وَضُوءًا قَالَتْ فَجَاءَتْ ہِرَّةٌ تَشْرَبُ فَأَصْغَی لَہَا الْإِنَاءَ حَتَّی شَرِبَتْ قَالَتْ كَبْشَةُ فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَيْہِ فَقَالَ أَتَعْجَبِينَ يَا بِنْتَ أَخِي فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّہَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّمَا ہِيَ مِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ أَوْ الطَّوَّافَاتِ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ مَالِكٍ وَكَانَتْ عِنْدَ أَبِي قَتَادَةَ وَالصَّحِيحُ ابْنُ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِثْلِ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ لَمْ يَرَوْا بِسُؤْرِ الْہِرَّةِ بَأْسًا وَہَذَا أَحَسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي ہَذَا الْبَابِ وَقَدْ جَوَّدَ مَالِكٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ وَلَمْ يَأْتِ بِہِ أَحَدٌ أَتَمَّ مِنْ مَالِكٍ

کبشہ بنت کعب (جو ابن ابو قتادہ کے نکاح میں تھیں)کہتی ہیں: ابوقتادہ میرے پاس آئے تو میں نے ان کے لیے (ایک برتن) وضو کا پانی میں ڈالا،اتنے میں ایک بلی آکرپینے لگی توانہوں نے برتن کو اس کے لیے جھکا دیا تاکہ وہ (آسانی سے) پی لے،کبشہ کہتی ہیں: ابوقتادہ نے مجھے دیکھا کہ میں ان کی طرف تعجب سے دیکھ رہی ہوں توانہوں نے کہا: بھتیجی!کیا تم کوتعجب ہورہا ہے؟ میں نے کہا:ہاں،توانہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:یہ (بلی) نجس نہیں،یہ تو تمہارے پاس برابر آنے جانے والوں یا آنے جانے والیوں میں سے ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث مروی ہیں،۲-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۳-صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثراہل علم مثلاً شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ بلی کے جھوٹے میں کوئی حرج نہیں،اوریہ سب سے اچھی حدیث ہے جو اس باب میں روایت کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ أَخْبَرَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ عَنْ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ أَعْلَی الْخُفِّ وَأَسْفَلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ الْفُقَہَاءِ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَإِسْحَقُ وَہَذَا حَدِيثٌ مَعْلُولٌ لَمْ يُسْنِدْہُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ غَيْرُ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ وَمُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَا لَيْسَ بِصَحِيحٍ لِأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ رَوَی ہَذَا عَنْ ثَوْرٍ عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ قَالَ حُدِّثْتُ عَنْ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ مُرْسَلٌ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يُذْكَرْ فِيہِ الْمُغِيرَةُ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے موزے کے اوپر اور نیچے دونوں جانب مسح کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-صحابہ کرام،تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے اور مالک،شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،۲-یہ حدیث معلول ہے۔میں نے ابوزرعہ اور محمد بن اسماعیل (بخاری) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توان دونوں نے کہاکہ یہ صحیح نہیں ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَقِيَہُ وَہُوَ جُنُبٌ قَالَ فَانْبَجَسْتُ أَيْ فَانْخَنَسْتُ فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ أَيْنَ كُنْتَ أَوْ أَيْنَ ذَہَبْتَ قُلْتُ إِنِّي كُنْتُ جُنُبًا قَالَ إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ فَانْخَنَسْتُ يَعْنِي تَنَحَّيْتُ عَنْہُ وَقَدْ رَخَّصَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي مُصَافَحَةِ الْجُنُبِ وَلَمْ يَرَوْا بِعَرَقِ الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ بَأْسًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ان سے ملے اور وہ جنبی تھے،وہ کہتے ہیں: تومیں آنکھ بچاکر نکل گیا اور جاکر میں نے غسل کیا پھرخدمت میں آیا تو آپ نے پوچھا:تم کہاں تھے؟ یا: کہاں چلے گئے تھے(راوی کوشک ہے)۔میں نے عرض کیا: میں جنبی تھا۔آپ نے فرمایا: مسلمان کبھی نجس نہیں ہوتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں حذیفہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوران کے قول فَانْخَنَسْتُ کے معنی تنحیت عنہ کے ہیں۔(یعنی میں نظر بچاکر نکل گیا)،۴-بہت سے اہل علم نے جنبی سے مصافحہ کی اجازت دی ہے اور کہاہے کہ جنبی اور حائضہ کے پسینے میں کوئی حرج نہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ طَہُورُ الْمُسْلِمِ وَإِنْ لَمْ يَجِدْ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيُمِسَّہُ بَشَرَتَہُ فَإِنَّ ذَلِكَ خَيْرٌ و قَالَ مَحْمُودٌ فِي حَدِيثِہِ إِنَّ الصَّعِيدَ الطَّيِّبَ وَضُوءُ الْمُسْلِمِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَامِرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَلَمْ يُسَمِّہِ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَہَاءِ أَنَّ الْجُنُبَ وَالْحَائِضَ إِذَا لَمْ يَجِدَا الْمَاءَ تَيَمَّمَا وَصَلَّيَا وَيُرْوَی عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ كَانَ لَا يَرَی التَّيَمُّمَ لِلْجُنُبِ وَإِنْ لَمْ يَجِدْ الْمَاءَ وَيُرْوَی عَنْہُ أَنَّہُ رَجَعَ عَنْ قَوْلِہِ فَقَالَ يَتَيَمَّمُ إِذَا لَمْ يَجِدْ الْمَاءَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے،پھرجب وہ پانی پالے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پربہائے،یہی اس کے لیے بہتر ہے۔ محمود (بن غیلان)نے اپنی روایت میں یوں کہاہے: پاک مٹی مسلمان کا وضو ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،عبداللہ بن عمرو اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر فقہاء کا قول یہی ہے کہ جنبی یا حائضہ جب پانی نہ پائیں توتیمم کرکے صلاۃ پڑھیں،۶-ابن مسعود رضی اللہ عنہ جنبی کے لئے تیمم درست نہیں سمجھتے تھے اگرچہ وہ پانی نہ پائے۔ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیاتھا اوریہ کہاتھا کہ وہ جب پانی نہیں پائے گا،تیمم کرے گا،یہی سفیان ثوری،مالک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامَرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا زُہَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَمِّہِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أُمِّہِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَتْ كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَسْتَفْتِيہِ وَأُخْبِرُہُ فَوَجَدْتُہُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً فَمَا تَأْمُرُنِي فِيہَا قَدْ مَنَعَتْنِي الصِّيَامَ وَالصَّلَاةَ قَالَ أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ فَإِنَّہُ يُذْہِبُ الدَّمَ قَالَتْ ہُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ قَالَ فَتَلَجَّمِي قَالَتْ ہُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ قَالَ فَاتَّخِذِي ثَوْبًا قَالَتْ ہُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ أَيَّہُمَا صَنَعْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ فَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْہِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ فَقَالَ إِنَّمَا ہِيَ رَكْضَةٌ مِنْ الشَّيْطَانِ فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللہِ ثُمَّ اغْتَسِلِي فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَہُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَہَا وَصُومِي وَصَلِّي فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْہُرْنَ لِمِيقَاتِ حَيْضِہِنَّ وَطُہْرِہِنَّ فَإِنْ قَوِيتِ عَلَی أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّہْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْہُرِينَ وَتُصَلِّينَ الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فَافْعَلِي وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الصُّبْحِ وَتُصَلِّينَ وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي وَصُومِي إِنْ قَوِيتِ عَلَی ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہُوَ أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاہُ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ وَابْنُ جُرَيْجٍ وَشَرِيكٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَمِّہِ عِمْرَانَ عَنْ أُمِّہِ حَمْنَةَ إِلَّا أَنَّ ابْنَ جُرَيجٍ يَقُولُ عُمَرُ بْنُ طَلْحَةَ وَالصَّحِيحُ عِمْرَانُ بْنُ طَلْحَةَ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ ہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ إِذَا كَانَتْ تَعْرِفُ حَيْضَہَا بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِہِ وَإِقْبَالُہُ أَنْ يَكُونَ أَسْوَدَ وَإِدْبَارُہُ أَنْ يَتَغَيَّرَ إِلَی الصُّفْرَةِ فَالْحُكْمُ لَہَا عَلَی حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ وَإِنْ كَانَتْ الْمُسْتَحَاضَةُ لَہَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ قَبْلَ أَنْ تُسْتَحَاضَ فَإِنَّہَا تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِہَا ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ وَتُصَلِّي وَإِذَا اسْتَمَرَّ بِہَا الدَّمُ وَلَمْ يَكُنْ لَہَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ وَلَمْ تَعْرِفْ الْحَيْضَ بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِہِ فَالْحُكْمُ لَہَا عَلَی حَدِيثِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ و قَالَ الشَّافِعِيُّ الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا اسْتَمَرَّ بِہَا الدَّمُ فِي أَوَّلِ مَا رَأَتْ فَدَامَتْ عَلَی ذَلِكَ فَإِنَّہَا تَدَعُ الصَّلَاةَ مَا بَيْنَہَا وَبَيْنَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَإِذَا طَہُرَتْ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّہَا أَيَّامُ حَيْضٍ فَإِذَا رَأَتْ الدَّمَ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا فَإِنَّہَا تَقْضِي صَلَاةَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ يَوْمًا ثُمَّ تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ ذَلِكَ أَقَلَّ مَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَہُوَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي أَقَلِّ الْحَيْضِ وَأَكْثَرِہِ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَقَلُّ الْحَيْضِ ثَلَاثَةٌ وَأَكْثَرُہُ عَشَرَةٌ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَبِہِ يَأْخُذُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَرُوِيَ عَنْہُ خِلَافُ ہَذَا و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ أَقَلُّ الْحَيْضِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ وَأَكْثَرُہُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَأَبِي عُبَيْدٍ

حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلارہتی تھی،میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اورآپ کو اس کی خبردینے کے لیے حاضرہوئی،میں نے آپﷺ کواپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا: اللہ کے رسول!میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلارہتی ہوں،اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں،اس نے تومجھے صوم وصلاۃ دونوں سے روک دیا ہے؟آپ نے فرمایا: میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہاہوں اس سے خون بندہوجائے گا،انہوں نے عرض کیا: وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھنے سے نہیں رکے گا) آپ نے فرمایا: تو لنگوٹ باندھ لیاکرو،کہا: خون اس سے بھی زیادہ آرہا ہے،توآپ نے فرمایا: تم لنگوٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھ لیا کرو،کہا: یہ اس سے بھی زیادہ ہے،مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے،تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تو میں تجھے دوباتوں کا حکم دیتاہوں ان دونوں میں سے تم جوبھی کرلو تمہارے لیے کا فی ہوگا اوراگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو توتم زیادہ بہترجانتی ہو،آپ نے فرمایا:یہ توصرف شیطان کی چوٹ (مار)ہے توچھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں توحیض کے شمارکر پھرغسل کرلے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک وصاف ہوگئی ہو تو چوبیس یاتئیس دن صلاۃ پڑھ اورصیام رکھ،یہ تمہارے لیے کا فی ہے،اوراسی طرح کرتی رہو جیساکہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں،اوراگرتم اس بات پر قادرہو کہ ظہر کوکچھ دیر سے پڑھو اورعصر کوقدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کرکے پاک صاف ہو جااورظہراورعصرکوایک ساتھ پڑھ لیاکرو،پھر مغرب کوذرا دیرکرکے اورعشاء کو کچھ پہلے کرکے پھرغسل کرکے یہ دونوں صلاتیں ایک ساتھ پڑھ لے تو ایساکرلیاکرو،اورصبح کے لیے الگ غسل کرکے فجر پڑھو،اگر تم قادرہوتو اس طرح کرو اورصوم رکھو،پھررسول اللہﷺ نے فرمایا:ان دونوں باتوں ۱؎ میں سے یہ دوسری صورت ۲؎ مجھے زیادہ پسند ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمدبن حنبل نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے،۳-احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ عورت جب اپنے حیض کے آنے اورجانے کوجانتی ہو،اور آنا یہ ہے کہ خون کالا ہو اور جانا یہ ہے کہ وہ زردی میں بدل جائے تواس کا حکم فاطمہ بن ابی حبیش رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہوگا ۳؎ اور اگر مستحاضہ کے لیے استحاضہ سے پہلے(حیض کے) ایام معروف ہیں تو وہ اپنے حیض کے دنوں میں صلاۃ چھوڑ دے گی پھرغسل کرے گی اور ہر صلاۃ کے لیے وضو کرے گی۔اورجب خون جاری رہے اور (حیض کے) ایام معلوم نہ ہوں اور نہ ہی وہ حیض کے آنے جانے کو جانتی ہو تو اس کاحکم حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق ہوگا ۴؎ اسی طرح ابوعبید نے کہاہے۔ شافعی کہتے ہیں:جب مستحاضہ کوپہلی بارجب اس نے خون دیکھاتبھی سے برابرخون جاری ر ہے تووہ خون شروع ہونے سے لے کرپندرہ دن تک صلاۃچھوڑ ے رہے گی،پھر اگروہ پندرہ دن میں یا اس سے پہلے پاک ہوجاتی ہے تو گویا یہی اس کے حیض کے دن ہیں اور اگر وہ پندرہ دن سے زیادہ خون دیکھے،تو وہ چودہ دن کی صلاۃ قضا کرے گی اور اس کے بعد عورتوں کے حیض کی اقل مدت جو ایک دن اور ایک رات ہے،کی صلاۃ چھوڑ دے گی،۴-حیض کی کم سے کم مدت اورسب سے زیادہ مدت میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں: حیض کی سب سے کم مدت تین دن اور سب سے زیادہ مدت دس دن ہے،یہی سفیان ثوری،اور اہل کوفہ کا قول ہے اور اسی کو ابن مبارک بھی اختیار کرتے ہیں۔ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے،بعض اہل علم جن میں عطا بن ابی رباح بھی ہیں،کہتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے،اوریہی مالک،اوزاعی،شافعی،احمد،اسحاق بن راہویہ اور ابوعبید کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ أَبُو بَدْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِي سَہْلٍ عَنْ مُسَّةَ الْأَزْدِيَّةِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَتْ النُّفَسَاءُ تَجْلِسُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فَكُنَّا نَطْلِي وُجُوہَنَا بِالْوَرْسِ مِنْ الْكَلَفِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَہْلٍ عَنْ مُسَّةَ الْأَزْدِيَّةِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَاسْمُ أَبِي سَہْلٍ كَثِيرُ بْنُ زِيَادٍ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی ثِقَةٌ وَأَبُو سَہْلٍ ثِقَةٌ وَلَمْ يَعْرِفْ مُحَمَّدٌ ہَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَہْلٍ وَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ عَلَی أَنَّ النُّفَسَاءَ تَدَعُ الصَّلَاةَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا إِلَّا أَنْ تَرَی الطُّہْرَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّہَا تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي فَإِذَا رَأَتْ الدَّمَ بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ فَإِنَّ أَكْثَرَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا لَا تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَہَاءِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَيُرْوَی عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ أَنَّہُ قَالَ إِنَّہَا تَدَعُ الصَّلَاةَ خَمْسِينَ يَوْمًا إِذَا لَمْ تَرَ الطُّہْرَ وَيُرْوَی عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَالشَّعْبِيِّ سِتِّينَ يَوْمًا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک بیٹھی رہتی تھیں،اور جھائیوں کے سبب ہم اپنے چہروں پر ورس (نامی گھاس ہے) ملتی تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف ابوسہل ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-صحابہ کرام،تابعین او ران کے بعدکے لوگوں میں سے تمام اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن تک صلاۃ نہیں پڑھیں گی۔البتہ اگروہ اس سے پہلے پاک ہو لیں توغسل کرکے صلاۃ پڑھنے لگ جائیں،اگر چالیس دن کے بعدبھی وہ خون دیکھیں تو اکثر اہل علم کاکہناہے کہ چالیس دن کے بعد وہ صلاۃنہ چھوڑیں،یہی اکثر فقہاء کا قول ہے۔سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔حسن بصری کہتے ہیں کہ پچاس دن تک صلاۃ چھوڑے رہے جب وہ پاکی نہ دیکھے،عطاء بن ابی رباح اور شعبی سے ساٹھ دن تک مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَرْقَمِ قَالَ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَأَخَذَ بِيَدِ رَجُلٍ فَقَدَّمَہُ وَكَانَ إِمَامَ قَوْمِہِ وَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ وَوَجَدَ أَحَدُكُمْ الْخَلَاءَ فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلَاءِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَثَوْبَانَ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَرْقَمِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَيَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَرْقَمِ وَرَوَی وُہَيْبٌ وَغَيْرُہُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ رَجُلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَرْقَمِ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَا لَا يَقُومُ إِلَی الصَّلَاةِ وَہُوَ يَجِدُ شَيْئًا مِنْ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَقَالَا إِنْ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ فَوَجَدَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَلَا يَنْصَرِفْ مَا لَمْ يَشْغَلْہُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ وَبِہِ غَائِطٌ أَوْ بَوْلٌ مَا لَمْ يَشْغَلْہُ ذَلِكَ عَنْ الصَّلَاةِ

عروہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے امام تھے،صلاۃ کھڑی ہوئی تو انہوں نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑ کر اسے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا اور کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: جب صلاۃ کے لیے اقامت ہوچکی ہو اور تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی ضرورت محسوس کرے تو وہ پہلے قضائے حاجت کے لیے جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابوہریرہ،ثوبان اور ابو امامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوریہی قول نبی اکرم ﷺ کے صحابہ اور تابعین میں کئی لوگوں کا ہے۔احمد،اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ جب آدمی کوپیشاب پاخانہ کی حاجت محسوس ہوتو وہ صلاۃ کے لیے نہ کھڑا ہو۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگروہ صلاۃ میں شامل ہوگیا،پھر صلاۃ کے دوران اس کو اس میں سے کچھ محسوس ہو تو وہ اس وقت تک صلاۃ نہ توڑے جب تک یہ حاجت (صلاۃ سے) اس کی توجہ نہ ہٹا دے۔بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پاخانے یا پیشاب کی حاجت کے ساتھ صلاۃ پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ یہ چیزیں صلاۃ سے اس کی توجہ نہ ہٹا دیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ تَعْجِيلًا لِلظُّہْرِ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَلَا مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَلَا مِنْ عُمَرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَخَبَّابٍ وَأَبِي بَرْزَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَأَنَسٍ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ مِنْ أَجْلِ حَدِيثِہِ الَّذِي رَوَی عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَہُ مَا يُغْنِيہِ قَالَ يَحْيَی وَرَوَی لَہُ سُفْيَانُ وَزَائِدَةُ وَلَمْ يَرَ يَحْيَی بِحَدِيثِہِ بَأْسًا قَالَ مُحَمَّدٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي تَعْجِيلِ الظُّہْرِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ظہر کو رسول اللہﷺ سے بڑھ کرجلدی کرنے والا میں نے کسی کونہیں دیکھا،اورنہ ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کرجلدی کرنے والاکسی کودیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں جابر بن عبداللہ،خباب،ابوبرزہ،ابن مسعود،زیدبن ثابت،انس اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں اورعائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲-اوراسی کوصحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں اہل علم نے اختیار کیاہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ صَلَّی الظُّہْرَ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَہُوَ أَحْسَنُ حَدِيثٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے صلاۃِ ظہر اس وقت پڑھی جس وقت سورج ڈھل گیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے اوریہ اس باب میں سب سے اچھی حدیث ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عَوْفٌ قَالَ أَحْمَدُ وَحَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ہُوَ الْمُہَلَّبِيُّ وَإِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ جَمِيعًا عَنْ عَوْفٍ عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ ہُوَ أَبُو الْمِنْہَالِ الرِّيَاحِيُّ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَكْرَہُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي بَرْزَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ النَّوْمَ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيثَ بَعْدَہَا وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُہُمْ و قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ عَلَی الْكَرَاہِيَةِ وَرَخَّصَ بَعْضُہُمْ فِي النَّوْمِ قَبْلَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فِي رَمَضَانَ وَسَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ ہُوَ أَبُو الْمِنْہَالِ الرِّيَاحِيُّ

ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوبرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،عبداللہ بن مسعود اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور اکثر اہل علم نے صلاۃِ عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات کرنے کو مکروہ کہاہے،اوربعض نے اس کی اجازت دی ہے،عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: اکثر حدیثیں کراہت پردلالت کرنے والی ہیں،اور بعض لوگوں نے رمضان میں عشاء سے پہلے سونے کی اجازت دی ہے۔ وضاحت ۱؎: عشاء سے پہلے سونے کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عشا ء فوت ہوجانے کاخدشہ رہتا ہے،اورعشاء کے بعدبات کرنا اس لیے ناپسندیدہ ہے کہ اس سے سونے میں تاخیرہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے تہجدیا فجرکے لیے اٹھنامشکل ہوجاتاہے امام نووی نے علمی مذاکرہ وغیرہ کو جوجائزاورمستحب بتایا ہے تو یہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ صلاۃفجروقت پراداکی جائے،اگر رات کوتعلیم وتعلم یا وعظ وتذکیرمیں اتناوقت صرف کردیاجائے کہ فجرکے وقت اٹھانہ جاسکے تو یہ جوازواستحباب بھی محل نظر ہوگا۔(دیکھئے اگلی حدیث اوراس کا حاشیہ)

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ غَنَّامٍ عَنْ عَمَّتِہِ أُمِّ فَرْوَةَ وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَتْ النَّبِيَّ ﷺ قَالَتْ سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ لِأَوَّلِ وَقْتِہَا

قاسم بن غنّام کی پھوپھی ام فروہ رضی اللہ عنہا (جنہوں نے نبی اکرمﷺ سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھاگیا: کون ساعمل سب سے افضل ہے؟ توآپ نے فرمایا: اول وقت میں صلاۃ پڑھنا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْجُہَنِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَہُ يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْہَا الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَہَا كُفْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا: علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: صلاۃ کو جب اس کا وقت ہوجائے،جنازہ کوجب آجائے،اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)مل جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنْ الصَّلَاةِ رِضْوَانُ اللہِ وَالْوَقْتُ الْآخِرُ عَفْوُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ فَرْوَةَ لَا يُرْوَی إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ وَلَيْسَ ہُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَاضْطَرَبُوا عَنْہُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَہُوَ صَدُوقٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صلاۃ اول وقت میں ا للہ کی رضامندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-اور اس باب میں علی،ابن عمر،عائشہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-ام فروہ کی (اوپر والی) حدیث (نمبر:۱۷۰) عبداللہ بن عمرعمری ہی سے روایت کی جاتی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں،اس حدیث میں لوگ ان سے روایت کرنے میں اضطراب کا شکارہیں اور وہ صدوق ہیں،یحیی بن سعید نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان پر کلام کیاہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ قَالَ سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ الصَّلَاةُ عَلَی مَوَاقِيتِہَا قُلْتُ وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ وَمَاذَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ وَالْجِہَادُ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی الْمَسْعُودِيُّ وَشُعْبَةُ وَسُلَيْمَانُ ہُوَ أَبُو إِسْحَقَ الشَّيْبَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ ہَذَا الْحَدِيثَ

ابوعمرو شیبانی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کون ساعمل سب سے اچھا ہے؟انہوں نے بتلایاکہ میں نے اس کے بارے میں رسول اللہﷺ سے پوچھاتو آپ نے فرمایا:صلاۃ کو اس کے وقت پر پڑھنا۔میں نے عرض کیا: اور کیاہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا،میں نے عرض کیا: (اس کے بعد)اورکیا ہے؟ اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہادکرنا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِلَالٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ صَلَاةً لِوَقْتِہَا الْآخِرِ مَرَّتَيْنِ حَتَّی قَبَضَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَالْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنْ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَی فَضْلِ أَوَّلِ الْوَقْتِ عَلَی آخِرِہِ اخْتِيَارُ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَكُونُوا يَخْتَارُونَ إِلَّا مَا ہُوَ أَفْضَلُ وَلَمْ يَكُونُوا يَدَعُونَ الْفَضْلَ وَكَانُوا يُصَلُّونَ فِي أَوَّلِ الْوَقْتِ قَالَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ عَنْ الشَّافِعِيِّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کوئی صلاۃ اس کے آخری وقت میں دوبار نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے اوراس کی سند متصل نہیں ہے،۲-شافعی کہتے ہیں: صلاۃ کا اول وقت افضل ہے اورجوچیزیں اوّل وقت کی افضیلت پر دلالت کرتی ہیں منجملہ انہیں میں سے نبی اکرمﷺ،ابوبکر،اورعمر رضی اللہ عنہما کا اسے پسندفرمانا ہے۔یہ لوگ اسی چیزکو معمول بناتے تھے جو افضل ہو اور افضل چیزکونہیں چھوڑتے تھے۔اوریہ لوگ صلاۃ کو اوّل وقت میں پڑھتے تھے۔

وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَال:مَنْ خَشِيَ مِنْكُمْ أَنْ لاَ يَسْتَيْقِظَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ،فَلْيُوتِرْ مِنْ أَوَّلِہِ،وَمَنْ طَمِعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ،فَلْيُوتِرْ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَإِنَّ قِرَائَةَ الْقُرْآنِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ مَحْضُورَةٌ،وَہِيَ أَفْضَلُ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ أَبِي سُفْيَانَ،عَنْ جَابِرٍ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم میں سے جسے اندیشہ ہوکہ وہ رات کے آخری پہر میں نہیں اٹھ سکے گا،تو وہ رات کے شروع میں ہی وتر پڑھ لے۔اور جو رات کے آخری حصہ میں اٹھنے کی امید رکھتاہو تو وہ رات کے آخری حصہ میں وترپڑھے،کیونکہ رات کے آخری حصے میں قرآن پڑھنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔یہ افضل وقت ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ يَقْرَأُ فِيہِنَّ بِتِسْعِ سُوَرٍ مِنْ الْمُفَصَّلِ يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِثَلَاثِ سُوَرٍ آخِرُہُنَّ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَيُرْوَی أَيْضًا عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَكَذَا رَوَی بَعْضُہُمْ فَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أُبَيٍّ وَذَكَرَ بَعْضُہُمْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أُبَيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَی ہَذَا وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ بِثَلَاثٍ قَالَ سُفْيَانُ إِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِخَمْسٍ وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِثَلَاثٍ وَإِنْ شِئْتَ أَوْتَرْتَ بِرَكْعَةٍ قَالَ سُفْيَانُ وَالَّذِي أَسْتَحِبُّ أَنْ أُوتِرَ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ہِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ كَانُوا يُوتِرُونَ بِخَمْسٍ وَبِثَلَاثٍ وَبِرَكْعَةٍ وَيَرَوْنَ كُلَّ ذَلِكَ حَسَنًا

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے،ان میں مفصل میں سے نو سورتیں پڑھتے ہررکعت میں تین تین سورتیں پڑھتے،اورسب سے آخرمیں قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌپڑھتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں عمران بن حصین،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا،ابن عباس،ابوایوب انصاری اور عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے اسے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔نیزیہ بھی مروی ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابزیٰ نے نبی اکرمﷺ سے (براہِ راست) روایت کی ہے۔اسی طرح بعض لوگوں نے روایت کی ہے،اس میں انہوں نے ابی کے واسطے کا ذکرنہیں کیاہے۔اور بعض نے ابی کے واسطے کا ذکر کیاہے۔۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہی ہے کہ آدمی وتر تین رکعت پڑھے،۳-سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگرتم چاہو تو پانچ رکعت وتر پڑھو،اور چاہو تو تین رکعت پڑھو،اور چاہو تو صرف ایک رکعت پڑھو۔اورمیں تین رکعت ہی پڑھنے کو مستحب سمجھتاہوں۔ابن مبارک اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے،۴-محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ لوگ وترکبھی پانچ رکعت پڑھتے تھے،کبھی تین اورکبھی ایک،وہ ہرایک کو مستحسن سمجھتے تھے ۲؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْہَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ وَرْدَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ الْتَمِسُوا السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَی فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَی غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ يُضَعَّفُ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَيُقَالُ لَہُ حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ وَيُقَالُ ہُوَ أَبُو إِبْرَاہِيمَ الْأَنْصَارِيُّ وَہُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَی فِيہَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَی أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ أَحْمَدُ أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَی فِيہَا إِجَابَةُ الدَّعْوَةِ أَنَّہَا بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَتُرْجَی بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جمعہ کے روز اس گھڑی کوجس میں دعاکی قبولیت کی امید کی جاتی ہے عصرسے لے کر سورج ڈوبنے تک کے درمیان تلاش کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے،۳-محمد بن ابی حمید ضعیف گردانے جاتے ہیں،بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان کی تضعیف کی ہے،انہیں حمادبن ابی حمیدبھی کہا جاتاہے،نیزکہاجاتاہے کہ یہی ابوابراہیم انصاری ہیں اوریہ منکرالحدیث ہیں،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ گھڑی جس میں قبولیت دعاکی امید کی جاتی ہے عصرکے بعدسے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے،یہی احمداوراسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔احمد کہتے ہیں: اس گھڑی کے سلسلے میں جس میں دعاکی قبولیت کی امیدکی جاتی ہے زیادہ ترحدیثیں یہی آئی ہیں کہ یہ عصرکے بعدسے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے،نیز سورج ڈھلنے کے بعدبھی اس کے ہونے کی امیدکی جاتی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يَسْأَلُ اللہَ الْعَبْدُ فِيہَا شَيْئًا إِلَّا آتَاہُ اللہُ إِيَّاہُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ أَيَّةُ سَاعَةٍ ہِيَ قَالَ حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ إِلَی الِانْصِرَافِ مِنْہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَی وَأَبِي ذَرٍّ وَسَلْمَانَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ وَأَبِي لُبَابَةَ وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عمروبن عوف مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جوکچھ بھی اس میں مانگتاہے اللہ اسے عطاکرتاہے،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!یہ کون سی گھڑی ہے؟ آپ نے فرمایا: صلاۃ(جمعہ) کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر اسسے پلٹنے یعنی صلاۃ ختم ہونے تک ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمروبن عوف کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوموسیٰ،ابوذر،سلمان،عبداللہ بن سلام،ابولبابہ،سعدبن عبادہ اورابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی قَبَضَہُ اللہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَأَبِي لَيْلَی وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف ۱؎ کرتے تھے،یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ اور عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابی بن کعب،ابولیلیٰ،ابوسعید،انس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّی الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ فِي مُعْتَكَفِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا رَوَاہُ مَالِكٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدِ عَنْ عَمْرَةَ مُرْسَلًا وَرَوَاہُ الْأَوْزَاعِيُّ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ إِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّی الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ فِي مُعْتَكَفِہِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْتَغِبْ لَہُ الشَّمْسُ مِنْ اللَّيْلَةِ الَّتِي يُرِيدُ أَنْ يَعْتَكِفَ فِيہَا مِنْ الْغَدِ وَقَدْ قَعَدَ فِي مُعْتَكَفِہِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر پڑھتے پھراپنے معتکف (جائے اعتکاف) میں داخل ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث یحییٰ بن سعیدسے بواسطہ عمرۃ مرسلاً بھی مروی ہے (اس میں عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں)،۲-اوراسے مالک اوردیگرکئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے اوریحییٰ نے عمرۃ سے مرسلاً ہی روایت کی ہے،۳-اوراوزاعی،سفیان ثوری اور دیگرلوگوں نے بطریق: یحیی بن سعید،عن عروۃ،عن عائشۃ روایت کی ہے،۴-بعض اہل علم کے نزدیک عمل اسی حدیث پر ہے،وہ کہتے ہیں: جب آدمی اعتکاف کا ارادہ کرے تو فجر پڑھے،پھراپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ)میں داخل ہوجائے،احمد اور اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کایہی قول ہے۔بعض کہتے ہیں: جب آدمی اعتکاف کا ارادہ کرے تواگلے دن جس میں وہ اعتکاف کرناچاہتاہے کی رات کا سورج ڈوب جائے تو وہ اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں بیٹھاہو،یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ نُمَيْرِ بْنِ عُرَيْبٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْغَنِيمَةُ الْبَارِدَةُ الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ عَامِرُ بْنُ مَسْعُودٍ لَمْ يُدْرِكْ النَّبِيَّ ﷺ وَہُوَ وَالِدُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ عَامِرٍ الْقُرَشِيِّ الَّذِي رَوَی عَنْہُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ

عامر بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ٹھنڈا ٹھنڈا بغیرمحنت کامالِ غنیمت یہ ہے کہ صوم سردی میں ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث مرسل ہے۔عامر بن مسعود نے نبی اکرمﷺ کو نہیں پایا۔یہ ابراہیم بن عامر قرشی کے والد ہیں جن سے شعبہ اور ثوری نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ أَبِي الشِّمَالِ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ الْحَيَاءُ وَالتَّعَطُّرُ وَالسِّوَاكُ وَالنِّكَاحُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَثَوْبَانَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي نَجِيحٍ وَجَابِرٍ وَعَكَّافٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ أَبِي الشِّمَالِ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ حَفْصٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ ہُشَيْمٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أَبِي الشِّمَالِ وَحَدِيثُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ وَعَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ أَصَحُّ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چارباتیں انبیاء و رسل کی سنت میں سے ہیں: حیاکرنا،عطر لگانا،مسواک کرنااور نکاح کرنا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوایوبانصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم سے محمود بن خداش بغدادی نے بطریق: عن عباد بن العوام،عن الحجاج،عن مکحول،عن أبی الشمال،عن أبی أیوب،عن النبی ﷺ حفص کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۳-یہ حدیث ہشیم،محمد بن یزید واسطی،ابومعاویہ اوردیگرکئی لوگوں نے بطریق: الحجاج،عن مکحول،عن أبی أیوب روایت کی ہے اور اس میں ان لوگوں نے ابو الشمال کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔حفص بن غیاث اور عباد بن عوام کی حدیث زیادہ صحیح ہے،۴-اس باب میں عثمان،ثوبان،ابن مسعود،عائشہ،عبداللہ بن عمرو،ابونجیح،جابراورعکاف رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ شَبَابٌ لَا نَقْدِرُ عَلَی شَيْءٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ عَلَيْكُمْ بِالْبَاءَةِ فَإِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَعَلَيْہِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَہُ وِجَاءٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عُمَارَةَ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ ہَذَا وَرَوَی أَبُو مُعَاوِيَةَ وَالْمُحَارِبِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی كِلَاہُمَا صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرمﷺ کے ساتھ نکلے،ہم نوجوان تھے،ہمارے پاس (شادی وغیرہ امور میں سے) کسی چیز کی مقدرت نہ تھی۔تو آپ نے فرمایا: اے نوجوانوں کی جماعت! تمہارے اوپر ۱؎ نکاح لازم ہے،کیونکہ یہ نگاہ کونیچی کرنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والاہے۔اورجو تم میں سے نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر صوم کااہتمام ضروری ہے،کیونکہ صوم اس کے لیے ڈھال ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس سند سے کئی لوگوں نے اسی کے مثل اعمش سے روایت کی ہے،۳-اورابومعاویہ اور محاربی نے یہ حدیث بطریق: الأعمش،عن ابراہیم،عن علقمۃ،عن عبد اللہ،عن النبی ﷺ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،۴-دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ ابْنِ وَثِيمَةَ النَّصْرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَہُ وَخُلُقَہُ فَزَوِّجُوہُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَدْ خُولِفَ عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَاہُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ مُحَمَّدٌ وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَشْبَہُ وَلَمْ يَعُدَّ حَدِيثَ عَبْدِ الْحَمِيدِ مَحْفُوظًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کاپیغام دے،جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہوتو اس سے شادی کردو۔اگر ایسا نہیں کروگے توزمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپاہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں عبدالحمید بن سلیمان کی مخالفت کی گئی ہے،اسے لیث بن سعد نے بطریق: ابن عجلان،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ مرسلاً(منقطعاً) روایت کی ہے(یعنی: ابن وشیمہ کا ذکر نہیں کیا ہے)،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کاکہناہے کہ لیث کی حدیث اشبہ(قریب تر) ہے،انہوں (بخاری) نے عبدالحمید کی حدیث کو محفوظ شمارنہیں کیا،۳-اس باب میں ابوحاتم مزنی اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ ہُرْمُزَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَسَعِيدٍ ابْنَيْ عُبَيْدٍ عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَہُ وَخُلُقَہُ فَأَنْكِحُوہُ إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَإِنْ كَانَ فِيہِ قَالَ إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَہُ وَخُلُقَہُ فَأَنْكِحُوہُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو حَاتِمٍ الْمُزَنِيُّ لَہُ صُحْبَةٌ وَلَا نَعْرِفُ لَہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ

ابوحاتم مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کاپیغام لے کر) آئے،جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کردو۔اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اورفساد برپاہوگا ۱؎ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر اس میں کچھ ہو؟ آپ نے تین باریہی فرمایا: جب تمہارے پاس کوئی ایساشخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کردو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابوحاتم مزنی کوشرف صحبت حاصل ہے،ہم اس کے علاوہ ان کی کوئی حدیث نہیں جانتے جو انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَتَی أَہْلَہُ قَالَ بِسْمِ اللہِ اللہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا فَإِنْ قَضَی اللہُ بَيْنَہُمَا وَلَدًا لَمْ يَضُرَّہُ الشَّيْطَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے یعنی اس سے صحبت کر نے کا ارادہ کرے اور یہ دعا پڑھے:ـ بِسْمِ اللہِ اللّہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا (اللہ کے نام سے،اے اللہ! تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور اسے بھی شیطان سے محفوظ رکھ جو تو ہمیں عطاکرے یعنی ہماری اولادکو) تو اگر اللہ نے ان کے درمیان اولاد دینے کا فیصلہ کیا ہوگا تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللہِ إِلَّا بِإِحْدَی ثَلَاثٍ الثَّيِّبُ الزَّانِي وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِكُ لِدِينِہِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی مسلمان شخص کا خون جواس بات کی گواہی دیتاہوکہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؛ حلال نہیں سوائے تین باتوں میں سے کسی ایک کے: یا تو وہ شادی شد ہ زانی ہو،یا جان کو جان کے بدلے ماراجائے،یا وہ اپنا دین چھوڑکر جماعت مسلمین سے الگ ہوگیا ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عثمان،عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَی جَيْشٍ أَوْصَاہُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِہِ بِتَقْوَی اللہِ وَمَنْ مَعَہُ مِنْ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا فَقَالَ اغْزُوا بِسْمِ اللہِ وَفِي سَبِيلِ اللہِ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تُمَثِّلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَنَسٍ وَسَمُرَةَ وَالْمُغِيرَةِ وَيَعْلَی بْنِ مُرَّةَ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَكَرِہَ أَہْلُ الْعِلْمِ الْمُثْلَةَ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کسی لشکرپر امیرمقررکرکے بھیجتے تو خاص طورسے اسے اپنے بارے میں ا للہ سے ڈرنے کی وصیت فرماتے،اورجو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے انہیں بھلائی کی وصیت کرتے،چنانچہ آپ نے فرمایا:اللہ کے نام سے اس کے راستے میں جہادکرو،جو کفر کرے اس سے لڑو،جہادکرو،مگرمال غنیمت میں خیانت نہ کرو،بدعہدی نہ کرو،مثلہ ۱؎ نہ کرواورنہ کسی بچے کو قتل کرو،حدیث میں کچھ تفصیل ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،شدادبن اوس،عمران بن حصین،انس،سمرہ،مغیرہ،یعلی بن مرہ اورابوایوب سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم نے مثلہ کو حرام کہا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَہُ وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُہُ شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ

شدادبن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے ہرکام کو اچھے طریقے سے کرنا ضروری قراردیا ہے،لہذا جب تم قتل ۱؎ کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو،اور جب تم ذبح کروتو اچھے طریقے سے ذبح کرو،تمہارے ہر آدمی کو چاہئے کہ اپنی چھری تیزکرلے اوراپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ دِيَةُ عَقْلِ الْكَافِرِ نِصْفُ دِيَةِ عَقْلِ الْمُؤْمِنِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي دِيَةِ الْيَہُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ فَذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي دِيَةِ الْيَہُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ إِلَی مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ و قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ دِيَةُ الْيَہُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ نِصْفُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ وَبِہَذَا يَقُولُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّہُ قَالَ دِيَةُ الْيَہُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ أَرْبَعَةُ آلَافِ دِرْہَمٍ وَدِيَةُ الْمَجُوسِيِّ ثَمَانُ مِائَةِ دِرْہَمٍ وَبِہَذَا يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ دِيَةُ الْيَہُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ مِثْلُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مسلمان کافر کے بدلے قصاص میں قتل نہیں کیاجائے گا،اور اسی سند سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: کافر کی دیت مومن کی دیت کا نصف ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-یہودی اورنصرانی کی دیت میں اہل علم کا اختلاف ہے،یہودی اورنصرانی کی دیت کی بابت بعض اہل علم کا مسلک نبی اکرمﷺ سے مروی حدیث کے موافق ہے،۳-عمربن عبد العزیزکہتے ہیں: یہودی اورنصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے،احمد بن حنبل اسی کے قائل ہیں۔عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہودی اورنصرانی کی دیت چارہزار درہم اورمجوسی کی آٹھ سودرہم ہے۔ ۱-مالک بن انس،شافعی اوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۲-بعض اہل علم کہتے ہیں: یہودی اورنصرانی کی دیت مسلمانوں کی دیت کے برابرہے،سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ عَنْ أُمِّ الْحُصَيْنِ الْأَحْمَسِيَّةِ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَعَلَيْہِ بُرْدٌ قَدْ الْتَفَعَ بِہِ مِنْ تَحْتِ إِبْطِہِ قَالَتْ فَأَنَا أَنْظُرُ إِلَی عَضَلَةِ عَضُدِہِ تَرْتَجُّ سَمِعْتُہُ يَقُولُ يَا أَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا اللہَ وَإِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ فَاسْمَعُوا لَہُ وَأَطِيعُوا مَا أَقَامَ لَكُمْ كِتَابَ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أُمِّ حُصَيْنٍ

ام حصین احمسیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے سنا،آپ کے جسم پر ایک چادرتھی جسے اپنی بغل کے نیچے سے لپیٹے ہوئے تھے،(گویا میں)آپ کے بازو کا پھڑکتاہواگوشت دیکھ رہی ہوں،میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگو! اللہ سے ڈرو،اوراگرکان کٹا ہواحبشی غلام بھی تمہاراحاکم بنادیاجائے تو اس کی بات مانواور اس کی اطاعت کرو،جب تک وہ تمہارے لیے کتاب اللہ کو قائم کرے (یعنی کتاب اللہ کے موافق حکم دے) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-(یہ حدیث) دوسری سندوں سے بھی ام حصین سے مروی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ اورعرباض بن ساریہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ عُرِضْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ فَلَمْ يَقْبَلْنِي ثُمَّ عُرِضْتُ عَلَيْہِ مِنْ قَابِلٍ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَقَبِلَنِي قَالَ نَافِعٌ فَحَدَّثْتُ بِہَذَا الْحَدِيثِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَقَالَ ہَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ ثُمَّ كَتَبَ أَنْ يُفْرَضَ لِمَنْ بَلَغَ الْخَمْسَ عَشْرَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ہَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الذُّرِّيَّةِ وَالْمُقَاتِلَةِ وَلَمْ يَذْكُرْ أَنَّہُ كَتَبَ أَنْ يُفْرَضَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ إِسْحَقَ بْنِ يُوسُفَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک لشکرمیں مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا،میں چودہ سال کا تھا،تو آپ نے مجھے (جہادمیں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا،پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکرمیں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا،توآپ نے مجھے (لشکرمیں) قبول کرلیا،نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمربن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اوربڑے کے درمیان یہی حدہے،پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہوجائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیاجائے ۱؎۔اس سندسے عمرسے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث مروی ہے اور اس میں ہے کہ عمربن عبدالعزیزنے کہا: یہ چھوٹے اورلڑنے والے کے درمیان حدہے،انہوں نے یہ نہیں بیان کیا کہ عمربن عبدالعزیزنے مال غنیمت میں سے حصہ متعین کرنے کا فرمان جاری کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اسحاق بن یوسف کی حدیث جوسفیان ثوری کی روایت سے آئی ہے،وہ حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا اعْتَمَّ سَدَلَ عِمَامَتَہُ بَيْنَ كَتِفَيْہِ قَالَ نَافِعٌ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَسْدِلُ عِمَامَتَہُ بَيْنَ كَتِفَيْہِ قَالَ عُبَيْدُ اللہِ وَرَأَيْتُ الْقَاسِمَ وَسَالِمًا يَفْعَلَانِ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَلَا يَصِحُّ حَدِيثُ عَلِيٍّ فِي ہَذَا مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب نبی اکرمﷺ عمامہ باندھتے تو اسے اپنے شانوں کے بیچ لٹکالیتے۔ نافع کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے عمامہ کو شانوں کے بیچ لٹکاتے تھے۔عبیداللہ بن عمر کہتے ہیں: میں نے قاسم اورسالم کو بھی ایساکرتے ہوئے دیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،لیکن ان کی حدیث سند کے اعتبارسے صحیح نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَكْثَمَ وَالْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ قَالَا حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ أَوْفَی بْنِ دَلْہَمٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ صَعِدَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمِنْبَرَ فَنَادَی بِصَوْتٍ رَفِيعٍ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِہِ وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَی قَلْبِہِ لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ وَلَا تُعَيِّرُوہُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِہِمْ فَإِنَّہُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيہِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللہُ عَوْرَتَہُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللہُ عَوْرَتَہُ يَفْضَحْہُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِہِ قَالَ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَی الْبَيْتِ أَوْ إِلَی الْكَعْبَةِ فَقَالَ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللہِ مِنْكِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ وَرَوَی إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ السَّمَرْقَنْدِيُّ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ نَحْوَہُ وَرُوِي عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ ہَذَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ منبرپر تشریف لائے،بلندآواز سے پکارااورفرمایا: اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچاہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو،ان کو عارمت دلاؤ اوران کے عیب نہ تلاش کرو،اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے،اوراللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتاہے،اسے رسوا وذلیل کردیتا ہے،اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندرہو۔ راوی (نافع)کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا:کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو! اورتمہاری حرمت کتنی عظیم ہے،لیکن اللہ کی نظرمیں مومن (کامل) کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اسحاق بن ابراہیم سمرقندی نے بھی حسین بن واقدسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۳-ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَرَاہُ رَفَعَہُ قَالَ مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِيدَةٍ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَحَدِيدَتُہُ فِي يَدِہِ يَتَوَجَّأُ بِہَا فِي بَطْنِہِ فِي نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا أَبَدًا وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِسُمٍّ فَسُمُّہُ فِي يَدِہِ يَتَحَسَّاہُ فِي نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا أَبَدًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے لوہے کے ہتھیار سے اپنی جان لی،وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہوگااور وہ اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں بھونکتارہے گا،اور جس نے زہر کھاکر خود کشی کی،تو اس کے ہاتھ میں وہ زہر ہوگا،اور وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اسے پیتارہے گا ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِيدَةٍ فَحَدِيدَتُہُ فِي يَدِہِ يَتَوَجَّأُ بِہَا فِي بَطْنِہِ فِي نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيہَا أَبَدًا وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِسُمٍّ فَسُمُّہُ فِي يَدِہِ يَتَحَسَّاہُ فِي نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيہَا أَبَدًا وَمَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَہُوَ يَتَرَدَّی فِي نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيہَا أَبَدًا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِسُمٍّ عُذِّبَ فِي نَارِ جَہَنَّمَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيہَا أَبَدًا وَہَكَذَا رَوَاہُ أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الرِّوَايَاتِ إِنَّمَا تَجِيءُ بِأَنَّ أَہْلَ التَّوْحِيدِ يُعَذَّبُونَ فِي النَّارِ ثُمَّ يُخْرَجُونَ مِنْہَا وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّہُمْ يُخَلَّدُونَ فِيہَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے لوہے سے اپنی جان لی،اس کے ہاتھ میں وہ ہتھیارہوگا اوروہ اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں بھونکتارہے گا،اورجس نے زہرکھاکرخودکشی کی،تو اس کے ہاتھ میں زہر ہوگا اوروہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اسے پیتارہے گا،اورجس نے پہاڑسے گرکر خودکشی کی،وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ گرتا رہے گا۔اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،جس طرح شعبہ کے طریق سے مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے اورپہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-اسی طرح کئی لوگوں نے یہ حدیث عن الأعمش،عن أبی صالح،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،۳-محمدبن عجلان نے عن سعید المقبری،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،آپ نے فرمایا: جس نے زہرکھاکرخودکشی کی،وہ جہنم میں عذاب سے دوچارہوگا ،اس حدیث میں راوی نے یہ نہیں ذکرکیا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا،ابوالزنادنے بھی اسی طرح عن الأعرج،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،یہ زیادہ صحیح ہے،اس لیے کہ روایتوں میں آتا ہے کہ عذاب دیے جانے کے بعداہل توحید کوجہنم سے نکالاجائے گا اوریہ مذکورنہیں ہے کہ ان کو ہمیشہ جہنم میں رکھا جائے گا۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الدَّوَاءِ الْخَبِيثِ قَالَ أَبُو عِيسَی يَعْنِي السُّمَّ

بوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے خبیث دوااستعمال کرنے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: خبیث دواسے وہ دوامراد ہے جس میں زہر ہو ۱؎۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي خُزَامَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ رُقًی نَسْتَرْقِيہَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَی بِہِ وَتُقَاةً نَتَّقِيہَا ہَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللہِ شَيْئًا قَالَ ہِيَ مِنْ قَدَرِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ فَقَالَ بَعْضُہُمْ عَنْ أَبِي خِزَامَةَ عَنْ أَبِيہِ و قَالَ بَعْضُہُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي خِزَامَةَ عَنْ أَبِيہِ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ ابْنِ عُيَيْنَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي خِزَامَةَ عَنْ أَبِيہِ وَہَذَا أَصَحُّ وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي خِزَامَةَ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ

ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! جس دم سے ہم جھاڑپھونک کرتے ہیں،جس دواسے علاج کرتے ہیں اورجن بچاؤ کی چیزوں سے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں(ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟) کیا یہ اللہ کی تقدیر میں کچھ تبدیلی کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: یہ سب بھی اللہ کی لکھی ہوئی تقدیرہی کا حصہ ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-دونوں روایتیں سفیان ابن عیینہ سے مروی ہیں،ان کے بعض شاگردوں نے سند میں عن أبی خزامۃ،عن أبیہ کہاہے اور بعض نے عن ابن أبی خزامۃ،عن أبیہ کہا ہے،ابن عیینہ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اسے عن الزہری،عن أبی خزامۃ،عن أبیہ روایت کی ہے،یہ زیادہ صحیح ہے،۳-ہم اس روایت کے علاوہ ابوخزامہ سے ان کی دوسری کوئی روایت نہیں جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْہِ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی،عَنْ عِيسَی،أَخِيہِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ عُكَيْمٍ أَبِي مَعْبَدِ الجُہَنِيِّ،أَعُودُہُ وَبِہِ حُمْرَةٌ،فَقُلْنَا: أَلَا تُعَلِّقُ شَيْئًا؟ قَالَ: المَوْتُ أَقْرَبُ مِنْ ذَلِكَ،قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ((مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْہِ)): وَحَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُكَيْمٍ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی،وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُكَيْمٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ،وَكَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ ﷺ يَقُولُ: كَتَبَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ،عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی،نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ: وَفِي البَابِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ

عیسیٰ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں عبداللہ بن عکیم ابومعبدجہنی کے ہاں ان کی عیادت کر نے گیا،ان کو حمرہ کا مرض تھا ۱؎ ہم نے کہا: کوئی تعویذوغیرہ کیوں نہیں لٹکالیتے ہیں؟ انہوں نے کہا: موت اس سے زیادہ قریب ہے،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپردکر دیاگیا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن عکیم کی حدیث کو ہم صرف محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی روایت سے جانتے ہیں،عبداللہ بن عکیم نے نبی اکرمﷺ سے حدیث نہیں سنی ہے لیکن وہ آپﷺ کے زمانہ میں تھے،وہ کہتے تھے: رسول اللہﷺ نے ہم لوگوں کے پاس لکھ کربھیجا ہے۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن عکیم سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ الحَارِثِ،عَنْ عَلِيٍّ أَنَّہُ قَالَ: إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ ہَذِہِ الآيَةَ: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَيْنٍ [النساء: 12] ((وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَضَی بِالدَّيْنِ قَبْلَ الوَصِيَّةِ،وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي العَلَّاتِ،الرَّجُلُ يَرِثُ أَخَاہُ لِأَبِيہِ وَأُمِّہِ دُونَ أَخِيہِ لِأَبِيہِ))،حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ الحَارِثِ،عَنْ عَلِيٍّ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،بِمِثْلِہِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تم لوگ یہ آیت پڑھتے ہو مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ (تم سے کی گئی وصیت اورقرض اداکرنے کے بعد (میراث تقسیم کی جائے گی ۱؎) رسول اللہﷺ نے فرمایا: وصیت سے پہلے قرض اداکیا جائے گا۔(اگر حقیقی بھائی اور علاتی بھائی دونوں موجود ہوں تو) حقیقی بھائی وارث ہوں گے،علاتی بھائی (جن کے باپ ایک اور ماں دوسری ہو) وارث نہیں ہوں گے،آدمی اپنے حقیقی بھائی کووارث بناتاہے علاتی بھائی کو نہیں۔اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ عَنْ كَہْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ قَالَ أَوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مَعْبَدٌ الْجُہَنِيُّ قَالَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَتَّی أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَقُلْنَا لَوْ لَقِينَا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَسَأَلْنَاہُ عَمَّا أَحْدَثَ ہَؤُلَاءِ الْقَوْمُ قَالَ فَلَقِينَاہُ يَعْنِي عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ وَہُوَ خَارِجٌ مِنْ الْمَسْجِدِ قَالَ فَاكْتَنَفْتُہُ أَنَا وَصَاحِبِي قَالَ فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ وَيَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ قَالَ فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْہُمْ أَنِّي مِنْہُمْ بَرِيءٌ وَأَنَّہُمْ مِنِّي بُرَءَاءُ وَالَّذِي يَحْلِفُ بِہِ عَبْدُ اللہِ لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا مَا قُبِلَ ذَلِكَ مِنْہُ حَتَّی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِہِ وَشَرِّہِ قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ فَقَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَی عَلَيْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَأَلْزَقَ رُكْبَتَہُ بِرُكْبَتِہِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَلَائِكَتِہِ وَكُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ خَيْرِہِ وَشَرِّہِ قَالَ فَمَا الْإِسْلَامُ قَالَ شَہَادَةُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَإِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ قَالَ فَمَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللہَ كَأَنَّكَ تَرَاہُ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ يَرَاكَ قَالَ فِي كُلِّ ذَلِكَ يَقُولُ لَہُ صَدَقْتَ قَالَ فَتَعَجَّبْنَا مِنْہُ يَسْأَلُہُ وَيُصَدِّقُہُ قَالَ فَمَتَی السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَمَا أَمَارَتُہَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَہَا وَأَنْ تَرَی الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ أَصْحَابَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ عُمَرُ فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ بِثَلَاثٍ فَقَالَ يَا عُمَرُ ہَلْ تَدْرِي مَنْ السَّائِلُ ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا كَہْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ كَہْمَسٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ نَحْوُ ہَذَا عَنْ عُمَرَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالصَّحِيحُ ہُوَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ

یحیی بن یعمر کہتے ہیں: سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے،میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں(سفرپر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے،ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا:کاش ہماری نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہوجائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے،چنانچہ (خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے،ملاقات ہوگئی،پھر میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا ۱؎ میں نے یہ اندازہ لگاکرکہ میرا ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری اور حق مجھے سونپ دے گا،عرض کیا: ابوعبدالرحمٰن!کچھ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن میں غوروفکراور تلاش وجستجو (کا دعویٰ)بھی کرتے ہیں۔اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے،اورامر(معاملہ) ازسرے نواور ابتدائی ہے ۲؎ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جب تم ان سے ملو (اور تمہارا ان کا آمناسامنا ہو) تو انہیں بتادو کہ میں ان سے بری (وبیزار)ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں،قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھاتاہے عبداللہ!(یعنی اللہ کی) اگر ان میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابربھی سونا خرچ کرڈالے تو جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پرایمان نہیں لے آتا اس کا یہ خرچ مقبول نہ ہوگا،پھر انہوں نے حدیث بیان کرنی شروع کی اور کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے،اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے،وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب آیااور اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملاکر بیٹھ گیا پھر کہا: اے محمد!ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کے رسولوں پر،آخرت کے دن پر اوراچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔اس نے (پھر) پوچھا: اور اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں،صلاۃ قائم کرنا،زکاۃ دینا،بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان کے صیام رکھنا،اس نے (پھر) پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو،اور اگر تم اللہ کو دیکھنے کا تصور اپنے اندر پیدا نہ کرسکو تو یہ یقین کرکے اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے،وہ شخص آپ ﷺ کے ہر جواب پر کہتا جاتاتھا کہ آپ نے درست فرمایا۔اور ہم اس پر حیرت کرتے تھے کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ وہ خود ہی آپ سے پوچھتاہے اور خود ہی آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتاجاتاہے،اس نے (پھر) پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے پوچھا گیا ہے،وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا،اس نے کہا: اس کی علامت (نشانی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس وقت حالت یہ ہوگی کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۳؎،اس وقت تم دیکھو گے کہ ننگے پیر چلنے والے،ننگے بدن رہنے والے،محتاج بکریوں کے چرانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں بنانے میں فخر کرنے والے ہوں گے،عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مجھے اس واقعہ کے تین دن بعدملے تو آپ نے فرمایا: عمر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔تمہارے پاس تمہیں دین کی بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے۔اس سند سے بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔اس سند سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔متعدد سندوں سے ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے،۳-کبھی ایسا بھی ہواہے کہ یہ حدیث ابن عمر کے واسطہ سے آئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،لیکن صحیح یہ ہے کہ ابن عمر روایت کرتے ہیں،عمر رضی اللہ عنہ سے اور عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ سے،۲-اس باب میں طلحہ بن عبید اللہ،انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَرَّ بِرَجُلٍ وَہُوَ يَعِظُ أَخَاہُ فِي الْحَيَاءِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَيَاءُ مِنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ فِي حَدِيثِہِ إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَمِعَ رَجُلًا يَعِظُ أَخَاہُ فِي الْحَيَاءِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي بَكْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیا (شرم اور پاکدامنی) اختیار کرنے پر نصیحت کررہاتھا،اس پر رسول اللہ ﷺ نے (بطور تاکید) فرمایا: حیا ایمان کا ایک حصہ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-احمد بن منیع نے اپنی روایت میں کہا: نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو حیاکے بارے میں ا پنے بھائی کو پھٹکارتے ہوئے سنا،۳-اس باب میں ا بوہریرہ،ابوبکرہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي وَجَدِّي جَمِيعًا عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَقْعَدَہُ وَأَلْقَی عَلَيْہِ الْأَذَانَ حَرْفًا حَرْفًا قَالَ إِبْرَاہِيمُ مِثْلَ أَذَانِنَا قَالَ بِشْرٌ فَقُلْتُ لَہُ أَعِدْ عَلَيَّ فَوَصَفَ الْأَذَانَ بِالتَّرْجِيعِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي مَحْذُورَةَ فِي الْأَذَانِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ بِمَكَّةَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں بٹھاکراذان کا ایک ایک لفظ سکھایا۔ ابراہیم بن عبد العزیز بن عبدالملک بن ابی محذورہ کہتے ہیں: اس طرح جیسے ہماری اذان ہے۔بشرکہتے ہیں تو میں نے ان سے یعنی ابراہیم سے کہا: اسے مجھ پردہرایئے تو انہوں نے ترجیع ۱؎ کے ساتھ اذان کاذکرکیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اذان کے سلسلے میں ابومحذورہ والی حدیث صحیح ہے،کئی سندوں سے مروی ہے،۲-اور اسی پر مکہ میں عمل ہے اور یہی شافعی کا قول ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْأَحْوَلِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَلَّمَہُ الْأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً وَالْإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَحْذُورَةَ اسْمُہُ سَمُرَةُ بْنُ مِعْيَرٍ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا فِي الْأَذَانِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ أَنَّہُ كَانَ يُفْرِدُ الْإِقَامَةَ

ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے انہیں اذان کے انیس کلمات ۱؎ اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم اذان کے سلسلے میں اسی طرف گئے ہیں،۳-ابومحذورہ سے یہ بھی روایت ہے کہ وہ اقامت اکہری کہتے تھے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ،حَدَّثَنَا الْمُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُنْعِمِ،ہُوَ صَاحِبُ السِّقَائِ،قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُسْلِمٍ،عَنْ الْحَسَنِ وَعَطَائٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لِبِلاَلٍ:يَا بِلاَلُ! إِذَا أَذَّنْتَ فَتَرَسَّلْ فِي أَذَانِكَ،وَإِذَا أَقَمْتَ فَاحْدُرْ،وَاجْعَلْ بَيْنَ أَذَانِكَ وَإِقَامَتِكَ قَدْرَ مَا يَفْرُغُ الآكِلُ مِنْ أَكْلِہِ،وَالشَّارِبُ مِنْ شُرْبِہِ،وَالْمُعْتَصِرُ إِذَا دَخَلَ لِقَضَائِ حَاجَتِہِ،وَلاَتَقُومُوا حَتَّی تَرَوْنِي۔

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: بلال! جب تم اذان دو تو ٹھہر ٹھہرکر دو اور جب اقامت کہوتوجلدی جلدی کہو،اور اپنی اذان واقامت کے درمیان اس قدر وقفہ رکھو کہ کھانے پینے والا اپنے کھانے پینے سے اور پاخانہ پیشاب کی حاجت محسوس کرنے والا اپنی حاجت سے فارغ ہوجائے اور اس وقت تک (اقامت کہنے کے لیے) کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ،حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ،عَنْ عَبْدِ الْمُنْعِمِ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ جَابِرٍ ہَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُہُ إِلاَّ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ،مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالْمُنْعِمِ،وَہُوَ إِسْنَادٌ مَجْہُولٌ. وَعَبْدُ الْمُنْعِمِ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.

اس سند سے بھی عبدالمنعم سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے یعنی عبدالمنعم ہی کی روایت سے جانتے ہیں،اور یہ مجہول سند ہے،عبدالمنعم بصرہ کے شیخ ہیں۔(یعنی ضعیف راوی ہیں)

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ وَيَعْلَی بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الْأَفْرِيقِيِّ عَنْ زِيَادِ بْنِ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أُؤَذِّنَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَأَذَّنْتُ فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ يُقِيمَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ قَدْ أَذَّنَ وَمَنْ أَذَّنَ فَہُوَ يُقِيمُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ زِيَادٍ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ الْأَفْرِيقِيِّ وَالْأَفْرِيقِيُّ ہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُہُ قَالَ أَحْمَدُ لَا أَكْتُبُ حَدِيثَ الْأَفْرِيقِيِّ قَالَ وَرَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يُقَوِّي أَمْرَہُ وَيَقُولُ ہُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ مَنْ أَذَّنَ فَہُوَ يُقِيمُ

زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فجرکی اذان دینے کا حکم دیا تو میں نے اذان دی،پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنی چاہی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: قبیلہ صداء کے ایک شخص نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی اقامت کہے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۲-زیاد رضی اللہ عنہ کی روایت کو ہم صرف افریقی کی سند سے جانتے ہیں اور افریقی محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔یحیی بن سعید قطان وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔احمد کہتے ہیں: میں افریقی کی حدیث نہیں لکھتا،لیکن میں نے محمد بن اسماعیل کو دیکھا وہ ان کے معاملے کوقوی قراردے رہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ یہ مقارب الحدیث ہیں،۳-اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ النَّاجِيِّ الْبَصْرِيِّ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَيُّكُمْ يَتَّجِرُ عَلَی ہَذَا فَقَامَ رَجُلٌ فَصَلَّی مَعَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَأَبِي مُوسَی وَالْحَكَمِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ مِنْ التَّابِعِينَ قَالُوا لَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ الْقَوْمُ جَمَاعَةً فِي مَسْجِدٍ قَدْ صَلَّی فِيہِ جَمَاعَةٌ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ آخَرُونَ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ يُصَلُّونَ فُرَادَی وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَمَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ يَخْتَارُونَ الصَّلَاةَ فُرَادَی وَسُلَيْمَانُ النَّاجِيُّ بَصْرِيٌّ وَيُقَالُ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَسْوَدِ وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُہُ عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد) آیا رسول اللہﷺ صلاۃ پڑھ چکے تھے توآپ نے فرمایا: تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟ ۱؎ ایک شخص کھڑا ہوا ور اس نے اس کے ساتھ صلاۃ پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابو امامہ،ابوموسیٰ اور حکم بن عمیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس مسجد میں لوگ جماعت سے صلاۃ پڑھ چکے ہوں اس میں (دوسری) جماعت سے صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴-اوربعض دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ وہ تنہا تنہا صلاۃ پڑھیں،یہی سفیان،ابن مبارک،مالک،شافعی کا قول ہے،یہ لوگ تنہاتنہا صلاۃ پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُسَوِّي صُفُوفَنَا فَخَرَجَ يَوْمًا فَرَأَی رَجُلًا خَارِجًا صَدْرُہُ عَنْ الْقَوْمِ فَقَالَ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللہُ بَيْنَ وُجُوہِكُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَالْبَرَاءِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاةِ إِقَامَةُ الصَّفِّ وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ كَانَ يُوَكِّلُ رِجَالًا بِإِقَامَةِ الصُّفُوفِ فَلَا يُكَبِّرُ حَتَّی يُخْبَرَ أَنَّ الصُّفُوفَ قَدْ اسْتَوَتْ وَرُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ أَنَّہُمَا كَانَا يَتَعَاہَدَانِ ذَلِكَ وَيَقُولَانِ اسْتَوُوا وَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ تَقَدَّمْ يَا فُلَانُ تَأَخَّرْ يَا فُلَانُ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ہماری صفیں سیدھی کرتے تھے۔چنانچہ ایک دن آپ نکلے تو دیکھاکہ ایک شخص کاسینہ لوگوں سے آگے نکلاہواہے،آپ نے فرمایا: تم اپنی صفیں سیدھی رکھو ۱؎ اورنہ اللہ تمہارے درمیان اختلاف پیدافرمادے گا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر بن سمرہ،براء،جابر بن عبداللہ،انس،ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:صفیں سیدھی کرنا صلاۃ کی تکمیل ہے،۴-عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ صفیں سیدھی کرنے کاکام کچھ لوگوں کے سپردکردیتے تھے توموذن اس وقت تک اقامت نہیں کہتا جب تک اسے یہ نہ بتادیاجاتا کہ صفیں سیدھی ہوچکی ہیں،۵-علی اور عثمان رضی اللہ عنہما سیبھی مروی ہے کہ یہ دونوں بھی اس کی پابندی کرتے تھے اور کہتے تھے: استووا (صف میں سیدھے ہوجاؤ)اور علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے: فلاں! آگے بڑھو،فلاں! پیچھے ہٹو۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا أَمَّ أَحَدُكُمْ النَّاسَ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ فِيہِمْ الصَّغِيرَ وَالْكَبِيرَ وَالضَّعِيفَ وَالْمَرِيضَ فَإِذَا صَلَّی وَحْدَہُ فَلْيُصَلِّ كَيْفَ شَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَأَنَسٍ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَمَالِكِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَبِي وَاقِدٍ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ وَأَبِي مَسْعُودٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا أَنْ لَا يُطِيلَ الْإِمَامُ الصَّلَاةَ مَخَافَةَ الْمَشَقَّةِ عَلَی الضَّعِيفِ وَالْكَبِيرِ وَالْمَرِيضِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو الزِّنَادِ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ ذَكْوَانَ وَالْأَعْرَجُ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ہُرْمُزَ الْمَدِينِيُّ وَيُكْنَی أَبَا دَاوُدَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرے توچاہئے کہ ہلکی صلاۃ پڑھائے،کیونکہ ان میں چھوٹے،بڑے،کمزور اور بیمارسبھی ہوتے ہیں اور جب وہ تنہا صلاۃ پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عدی بن حاتم،انس،جابر بن سمرہ،مالک بن عبداللہ،ابو واقد،عثمان،ابو مسعود،جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-یہی اکثر اہل علم کا قول ہے،ان لوگوں نے اسی کو پسند کیا کہ امام صلاۃ لمبی نہ پڑھائے تاکہ کمزور،بوڑھے اور بیمارلوگوں کو پریشانی نہ ہو۔ وضاحت ۱؎: ہلکی صلاۃ پڑھائے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ارکان کی ادائیگی میں اطمینان وسکون اور خشوع وخضوع اوراعتدال نہ ہو،تعدیل ارکان فرض ہے،نیز اگلی حدیث سے واضح ہے کہ نبی اکرمﷺ ہلکی صلاۃ پڑھاتے تھے تب بھی کامل صلاۃ پڑھاتے حتی کہ مغرب میں بھی سورہ طوریا سورہ المرسلات پڑھتے تھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ أَخَفِّ النَّاسِ صَلَاةً فِي تَمَامٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاسْمُ أَبِي عَوَانَةَ وَضَّاحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی سَأَلْتُ قُتَيْبَةَ قُلْتُ أَبُو عَوَانَةَ مَا اسْمُہُ قَالَ وَضَّاحٌ قُلْتُ ابْنُ مَنْ قَالَ لَا أَدْرِي كَانَ عَبْدًا لِامْرَأَةٍ بِالْبَصْرَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ ہلکی اورسب زیادہ مکمل صلاۃ پڑھنے والے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ عَنْ طُعْمَةَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی لِلَّہِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَی كُتِبَتْ لَہُ بَرَاءَتَانِ بَرَاءَةٌ مِنْ النَّارِ وَبَرَاءَةٌ مِنْ النِّفَاقِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ مَوْقُوفًا وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ إِلَّا مَا رَوَی سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ عَنْ طُعْمَةَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ وَإِنَّمَا يُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ الْبَجَلِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَوْلَہُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ خَالِدِ بْنِ طَہْمَانَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ الْبَجَلِيِّ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَرَوَی إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَہَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَہُوَ حَدِيثٌ مُرْسَلٌ وَعُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ لَمْ يُدْرِكْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ يُكْنَی أَبَا الْكَشُوثَی وَيُقَالُ أَبُو عُمَيْرَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے اللہ کی رضا کے لیے چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ باجماعت صلاۃ پڑھی تو اس کے لیے دوقسم کی برأت لکھی جائے گی: ایک آگ سے برأت،دوسری نفاق سے برأت۔ امام ترمذی کہتے ہیں: انس سے یہ حدیث موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے،اور ہم نہیں جانتے کہ ابوقتیبہ سلمہ بن قتیبہ کے سوا کسی نے اسے مرفوع روایت کیا ہویہ حدیث حبیب بن ابی حبیب بجلی سے بھی روایت کی جاتی ہے انہوں نے اسے انس بن مالک سے روایت کیا ہے اور اسے انس ہی کا قول قراردیاہے،اسے مرفوع نہیں کیا،نیزاسماعیل بن عیاش نے یہ حدیث بطریق عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ،عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ اسی طرح روایت کی ہے،اوریہ حدیث غیر محفوظ اور مرسل ۱؎ ہے،عمارہ بن غزیہ نے انس بن مالک کازمانہ نہیں پایا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ وَأَبُو أُسَيْدٍ وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَذَكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَكَعَ فَوَضَعَ يَدَيْہِ عَلَی رُكْبَتَيْہِ كَأَنَّہُ قَابِضٌ عَلَيْہِمَا وَوَتَّرَ يَدَيْہِ فَنَحَّاہُمَا عَنْ جَنْبَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي حُمَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُجَافِيَ الرَّجُلُ يَدَيْہِ عَنْ جَنْبَيْہِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ

عباس بن سہل بن سعد کا بیان ہے کہ ابوحمید،ابواسید،سہل بن سعد،اور محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہم) چاروں اکٹھا ہوئے توان لوگوں نے رسول اللہﷺ کی صلاۃ کا ذکر کیا،ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہﷺ کی صلاۃ کو تم میں سب سے زیادہ جانتاہوں: آپﷺ نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پررکھے گویا آپ انہیں پکڑے ہوئے ہیں،اورآپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو کمان کی تانت کی طرح (ٹائٹ)بنایا اور انہیں اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا رکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوحمید کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-اسی کو اہل علم نے اختیار کیاہے کہ آدمی رکوع اورسجدے میں ا پنے دونوں ہاتھوں کواپنے دونوں پہلوؤں سے جدارکھے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ الْبَدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ لَا يُقِيمُ فِيہَا الرَّجُلُ يَعْنِي صُلْبَہُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَرِفَاعَةَ الزُّرَقِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ يَرَوْنَ أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ صُلْبَہُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ مَنْ لَمْ يُقِمْ صُلْبَہُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ فَصَلَاتُہُ فَاسِدَةٌ لِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ فِيہَا صُلْبَہُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَأَبُو مَعْمَرٍ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَخْبَرَةَ وَأَبُو مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيُّ الْبَدْرِيُّ اسْمُہُ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو

ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس شخص کی صلاۃ کافی نہ ہوگی جو رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابومسعود انصاری کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی بن شیبان،انس،ابوہریرہ اور رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی رکھے،۴-شافعی،احمد،اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جس نے رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہیں رکھی تو اس کی صلاۃ فاسد ہے،اس لیے کہ نبی اکرمﷺ کی حدیث ہے: اس شخص کی صلاۃ کافی نہ ہو گی جو رکوع اور سجدے میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مُنِيرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ إِذَا سَجَدَ يَضَعُ رُكْبَتَيْہِ قَبْلَ يَدَيْہِ وَإِذَا نَہَضَ رَفَعَ يَدَيْہِ قَبْلَ رُكْبَتَيْہِ قَالَ زَادَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فِي حَدِيثِہِ قَالَ يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ وَلَمْ يَرْوِ شَرِيكٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ إِلَّا ہَذَا الْحَدِيثَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاہُ مِثْلَ ہَذَا عَنْ شَرِيكٍ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ رُكْبَتَيْہِ قَبْلَ يَدَيْہِ وَإِذَا نَہَضَ رَفَعَ يَدَيْہِ قَبْلَ رُكْبَتَيْہِ وَرَوَی ہَمَّامٌ عَنْ عَاصِمٍ ہَذَا مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا: جب آپ سجدہ کرتے تواپنے دونوں گھٹنے اپنے دونوں ہاتھ سے پہلے رکھتے،اور جب اٹھتے تواپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم کسی کونہیں جانتے جس نے اسے شریک سے اس طرح روایت کیاہو،۲-اکثر ہل علم کے نزدیک اسی پرعمل ہے،ان کی رائے ہے کہ آدمی اپنے دونوں گھٹنے اپنے دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھے اور جب اٹھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے اٹھائے،۳-ہمام نے عاصم ۲؎ سے اسے مرسلاً روایت کیا ہے۔اس میں انہوں نے وائل بن حجر کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ مِنْ السُّنَّةِ أَنْ يُخْفِيَ التَّشَہُّدَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: سنت سے یہ ہے ۱؎ کہ تشہد آہستہ پڑھاجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اوراہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُمِّہِ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَہُوَ عَاصِبٌ رَأْسَہُ فِي مَرَضِہِ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ فَقَرَأَ بِالْمُرْسَلَاتِ قَالَتْ فَمَا صَلَّاہَا بَعْدُ حَتَّی لَقِيَ اللہَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ الْفَضْلِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالْأَعْرَافِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كِلْتَيْہِمَا وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ كَتَبَ إِلَی أَبِي مُوسَی أَنْ اقْرَأْ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّہُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ قَالَ وَعَلَی ہَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَذَكَرَ عَنْ مَالِكٍ أَنَّہُ كَرِہَ أَنْ يُقْرَأَ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ بِالسُّوَرِ الطِّوَالِ نَحْوَ الطُّورِ وَالْمُرْسَلَاتِ قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا أَكْرَہُ ذَلِكَ بَلْ أَسْتَحِبُّ أَنْ يُقْرَأَ بِہَذِہِ السُّوَرِ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ان کی ماں ام الفضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری طرف اس حال میں نکلے کہ آپ بیماری میں اپنے سرپر پٹی باندھے ہوئے تھے،مغرب پڑھائی توسورۂ مرسلات پڑھی،پھر اس کے بعد آپ نے یہ سورت نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جاملے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ام الفضل کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جبیر بن مطعم،ابن عمر،ابوایوب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اور نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں دونوں رکعتوں میں سورۂ اعراف پڑھی،اورآپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آ پ نے مغرب میں سورۂ طورپڑھی،۵-عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کولکھا کہ تم مغرب میں قصار مفصل پڑھاکرو،۶-اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے،۷-اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ابن مبارک،احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،۸-امام شافعی کہتے ہیں کہ امام مالک کے سلسلہ میں ذکرکیاگیا ہے کہ انہوں نے مغرب میں طور اورمرسلات جیسی لمبی سورتیں پڑھنے کو مکروہ جاناہے۔شافعی کہتے ہیں: لیکن میں مکروہ نہیں سمجھتا،بلکہ مغرب میں ان سورتوں کے پڑھے جانے کو مستحب سمجھتاہوں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ إِسْرَائِيلَ حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْكِنْدِيِّ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ امْرَأَةً خَرَجَتْ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ تُرِيدُ الصَّلَاةَ فَتَلَقَّاہَا رَجُلٌ فَتَجَلَّلَہَا فَقَضَی حَاجَتَہُ مِنْہَا فَصَاحَتْ فَانْطَلَقَ وَمَرَّ عَلَيْہَا رَجُلٌ فَقَالَتْ إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا وَمَرَّتْ بِعِصَابَةٍ مِنْ الْمُہَاجِرِينَ فَقَالَتْ إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا فَانْطَلَقُوا فَأَخَذُوا الرَّجُلَ الَّذِي ظَنَّتْ أَنَّہُ وَقَعَ عَلَيْہَا وَأَتَوْہَا فَقَالَتْ نَعَمْ ہُوَ ہَذَا فَأَتَوْا بِہِ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَلَمَّا أَمَرَ بِہِ لِيُرْجَمَ قَامَ صَاحِبُہَا الَّذِي وَقَعَ عَلَيْہَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ أَنَا صَاحِبُہَا فَقَالَ لَہَا اذْہَبِي فَقَدْ غَفَرَ اللہُ لَكِ وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلًا حَسَنًا وَقَالَ لِلرَّجُلِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْہَا ارْجُمُوہُ وَقَالَ لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَہَا أَہْلُ الْمَدِينَةِ لَقُبِلَ مِنْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ سَمِعَ مِنْ أَبِيہِ وَہُوَ أَكْبَرُ مِنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ وَعَبْدُ الْجَبَّارِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيہِ

وائل بن حجر کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت صلاۃ کے لیے نکلی،اسے ایک آدمی ملا،اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اوراس سے اپنی حاجت پوری کی(یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)،وہ عورت چیخنے لگی اوروہ چلاگیا،پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزراتو یہ عورت بولی: اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایساایسا(یعنی زنا)کیا ہے ۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تویہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایساایسا(یعنی زنا)کیا ہے،(یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جاکر انہوں نے اس آدمی کوپکڑلیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے،وہ بولی: ہاں،وہ یہی ہے،پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لائے،چنانچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کاحکم دیا،تو اس عورت کے ساتھ زناکرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول!اس کے ساتھ زناکرنے والا میں ہوں،پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا: تو جااللہ نے تیری بخشش کردی ہے ۲؎ اورآپ نے اس آدمی کو (جوقصوروارنہیں تھا) اچھی بات کہی ۳؎ اور جس آدمی نے زناکیاتھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا: اسے رجم کرو،آپ نے یہ بھی فرمایا: اس (زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کرلیں تو ان سب کی توبہ قبول ہوجائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے،یہ عبدالجباربن وائل سے بڑے ہیں اورعبدالجبارکاسماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّ عَلِيًّا حَرَّقَ قَوْمًا ارْتَدُّوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَوْ كُنْتُ أَنَا لَقَتَلْتُہُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَنْ بَدَّلَ دِينَہُ فَاقْتُلُوہُ وَلَمْ أَكُنْ لِأُحَرِّقَہُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللہِ فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا فَقَالَ صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْمُرْتَدِّ وَاخْتَلَفُوا فِي الْمَرْأَةِ إِذَا ارْتَدَّتْ عَنْ الْإِسْلَامِ فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ تُقْتَلُ وَہُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْہُمْ تُحْبَسُ وَلَا تُقْتَلُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِہِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ

عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسے لوگوں کو زندہ جلادیاجو اسلام سے مرتدہوگئے تھے،جب ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی ۱؎ تو انہوں نے کہا: اگر(علی کی جگہ) میں ہوتاتوانہیں قتل کرتا،کیونکہ رسول اللہ ﷺ کافرمان ہے:جواپنے دین (اسلام) کو بدل ڈالے اسے قتل کرو،اور میں انہیں جلاتانہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ کے عذابِ خاص جیساتم لوگ عذاب نہ دو،پھر اس بات کی خبرعلی رضی اللہ عنہ کوہوئی تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سچ کہا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح حسن ہے،۲-مرتد کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پرعمل ہے،۳-جب عورت اسلام سے مرتدہوجائے تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے،اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے: اسے قتل کیاجائے گا،اوزاعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۴-اور اہل علم کی دوسری جماعت کہتی ہے: اسے قتل نہیں بلکہ قید کیا جائے گا،سفیان ثوری اور ان کے علاوہ بعض اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ وَجَدْتُمُوہُ غَلَّ فِي سَبِيلِ اللہِ فَاحْرِقُوا مَتَاعَہُ قَالَ صَالِحٌ فَدَخَلْتُ عَلَی مَسْلَمَةَ وَمَعَہُ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ فَوَجَدَ رَجُلًا قَدْ غَلَّ فَحَدَّثَ سَالِمٌ بِہَذَا الْحَدِيثِ فَأَمَرَ بِہِ فَأُحْرِقَ مَتَاعُہُ فَوُجِدَ فِي مَتَاعِہِ مُصْحَفٌ فَقَالَ سَالِمٌ بِعْ ہَذَا وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا الْحَدِيثُ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ إِنَّمَا رَوَی ہَذَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ وَہُوَ أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ وَہُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ قَالَ مُحَمَّدٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْغَالِّ فَلَمْ يَأْمُرْ فِيہِ بِحَرْقِ مَتَاعِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ کی راہ میں مال (غنیمت)میں خیانت کرتے ہوئے پاؤ اس کا سامان جلادو۔ صالح کہتے ہیں: میں مسلمہ کے پاس گیا،ان کے ساتھ سالم بن عبداللہ تھے تومسلمہ نے ایک ایسے آدمی کوپایا جس نے مال غینمت میں خیانت کی تھی،چنانچہ سالم نے(ان سے)یہ حدیث بیان کی،تو مسلمہ نے حکم دیا پھراس (خائن)کا سامان جلادیاگیا اور اس کے سامان میں ایک مصحف بھی پایاگیاتو سالم نے کہا: اسے بیچ دواور اس کی قیمت صدقہ کردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا: اسے صالح بن محمدبن زائدہ نے روایت کیا ہے،یہی ابوواقدلیثی ہے،یہ منکرالحدیث ہے،۳-بخاری کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ سے دوسری احادیث بھی آئی ہیں،آپ نے ان میں اس (خائن)کے سامان جلانے کا حکم نہیں دیا ہے،۴-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،اوزاعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ وَہُمْ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الْإِبِلِ وَيَقْطَعُونَ أَلْيَاتِ الْغَنَمِ فَقَالَ مَا قُطِعَ مِنْ الْبَہِيمَةِ وَہِيَ حَيَّةٌ فَہِيَ مَيْتَةٌ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُہُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ

ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ مدینہ تشریف لائے،وہاں کے لوگ (زندہ) اونٹوں کے کوہان اور(زندہ) بکریوں کیپٹھ کاٹتے تھے،آپ نے فرمایا: زندہ جانورکاکاٹاہواگوشت مردار ہے ۱؎۔اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اس حدیث کو صرف زیدبن اسلم کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ وَاقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالْأَبْتَرَ فَإِنَّہُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ وَيُسْقِطَانِ الْحُبْلَی قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي لُبَابَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَتْلِ جِنَّانِ الْبُيُوتِ وَہِيَ الْعَوَامِرُ وَيُرْوَی عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا و قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ إِنَّمَا يُكْرَہُ مِنْ قَتْلِ الْحَيَّاتِ قَتْلُ الْحَيَّةِ الَّتِي تَكُونُ دَقِيقَةً كَأَنَّہَا فِضَّةٌ وَلَا تَلْتَوِي فِي مِشْيَتِہَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سانپوں کو مارو،خاص طور سے اس سانپ کو ماروجس کی پیٹھ پہ دو(کالی) لکیریں ہوتی ہیں اوراس سانپ کو جس کی دم چھوٹی ہوتی ہے اس لیے کہ یہ دونوں بینائی کو زائل کردیتے ہیں اورحمل کوگرادیتے ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اس کے بعدگھروں میں رہنے والے سانپوں کوجنہیں عوامر (بستیوں میں رہنے والے سانپ) کہاجاتاہے،مارنے سے منع فرمایا ۲؎: ابن عمراس حدیث کو زید بن خطاب۳؎ سے بھی روایت کرتے ہیں،۳-اس باب میں ابن مسعود،عائشہ،ابوہریرہ اورسہل بن سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: سانپوں کے اقسام میں سے اس سانپ کو بھی مارنامکروہ ہے جو پتلا (اورسفید) ہوتاہے گویا کہ وہ چاندی ہو،وہ چلنے میں بل نہیں کھا تابلکہ سیدھا چلتاہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِبُيُوتِكُمْ عُمَّارًا فَحَرِّجُوا عَلَيْہِنَّ ثَلَاثًا فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْہُنَّ شَيْءٌ فَاقْتُلُوہُنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَرَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي السَّائِبِ مَوْلَی ہِشَامِ بْنِ زُہْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ وَرَوَی مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ عَنْ صَيْفِيٍّ نَحْوَ رِوَايَةِ مَالِكٍ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:تمہارے گھروں میں گھریلوسانپ رہتے ہیں،تم انہیں تین بارآگاہ کردو تم تنگی میں ہو (یعنی دیکھو دوبارہ نظر نہ آنا ورنہ تنگی وپریشانی سے دوچار ہوگا) پھر اگر اس تنبیہ کے بعدکوئی سانپ نظرآئے تو اسے مارڈالو۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو عبیداللہ بن عمرنے بسند صیفی عن أبی سعید الخدری روایت کیا ہے جب کہ مالک بن انس نے اس حدیث کو بسند صیفی عن أبی السائب مولی ہشام بن زہرہ عن أبی سعید الخدری عن النبی ﷺ روایت کیا،اس حدیث میں ایک قصہ بھی مذکورہے ۱؎۔ ہم سے اس حدیث کو انصاری نے بسند معن عن مالک عن صیفی عن أبی السائب عن أبی سعیدالخدری سے روایت کیا ہے،اور یہ عبیداللہ بن عمرکی روایت سے زیادہ صحیح ہے،محمدبن عجلان نے بھی صیفی سے مالک کی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ قَالَ أَبُو لَيْلَی قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا ظَہَرَتْ الْحَيَّةُ فِي الْمَسْكَنِ فَقُولُوا لَہَا إِنَّا نَسْأَلُكِ بِعَہْدِ نُوحٍ وَبِعَہْدِ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ أَنْ لَا تُؤْذِيَنَا فَإِنْ عَادَتْ فَاقْتُلُوہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَی

ابولیلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب گھر میں سانپ نکلے تواس سے کہو:ہم نوح اور سلیمان بن داود کے عہدواقرارکی روسے یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں نہ ستاؤ پھر اگروہ دوبارہ نکلے تواسے ماردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اس حدیث کو ثابت بنانی کی روایت سے صرف ابن ابی لیلیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا نَلْقَی الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَتْ مَعَنَا مُدًی فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا أَنْہَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ فَكُلُوہُ مَا لَمْ يَكُنْ سِنًّا أَوْ ظُفُرًا وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَی الْحَبَشَةِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ عَبَايَةَ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَبَايَةَ عَنْ أَبِيہِ وَہَذَا أَصَحُّ وَعَبَايَةُ قَدْ سَمِعَ مِنْ رَافِعٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ أَنْ يُذَكَّی بِسِنٍّ وَلَا بِعَظْمٍ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا: اللہ کے رسول!کل ہم دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس (جانورذبح کرنے کے لیے)چھری نہیں ہے(توکیاحکم ہے؟)،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو خون بہادے ۱؎ اور اس پر اللہ کانام یعنی بسم اللہ پڑھا گیا ہوتو اسے کھاؤ،بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے،اور میں تم سے دانت اورناخن کی ۲؎ تفسیربیان کرتاہوں: دانت،ہڈی ہے اورناخن حبشیوں کی چھری ہے۳؎۔ محمدبن بشارکی سند سے یہ بیان کیا،سفیان ثوری کہتے ہیں عبایہ بن رفاعہ سے،اورعبایہ نے رافع بن خدیج سے اوررافع نے نبی اکرمﷺسے اسی جیسی حدیث روایت کی،اس میں عبایۃ عن أبیہ کا ذکرنہیں ہے اور یہی بات زیادہ صحیح ہے،عبایہ نے رافع سے سناہے،اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ دانت اورہڈی سے ذبح کرنادرست نہیں سمجھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَأْكُلُ أَحَدُكُمْ مِنْ لَحْمِ أُضْحِيَّتِہِ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا كَانَ النَّہْيُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ مُتَقَدِّمًا ثُمَّ رَخَّصَ بَعْدَ ذَلِكَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی تین دن سے زیادہ قربانی کاگوشت نہ کھائے ۱؎۔اس باب میں عائشہ اورانس سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺ کی طرف سے یہ ممانعت پہلے تھی،اس کے بعدآپ نے اجازت دے دی۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ أَنَّہُمْ دَخَلُوا عَلَی حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَسَأَلُوہَا عَنْ الْعَقِيقَةِ فَأَخْبَرَتْہُمْ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْہَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَمَرَہُمْ عَنْ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ وَعَنْ الْجَارِيَةِ شَاةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأُمِّ كُرْزٍ وَبُرَيْدَةَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَنَسٍ وَسَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَفْصَةُ ہِيَ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ

یوسف بن ماہک سے روایت ہے: لوگ حفصہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس گئے اور ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے بیان کیا کہ (اُن کی پھوپھی)ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کوبتایاکہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ایک جیسی اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-حفصہ،عبدالرحمٰن بن ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں،۳-اس باب میں علی،ام کرز،بریدہ،سمرہ،ابوہریرہ،عبداللہ بن عمرو،انس،سلمان بن عامر اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَہْرِيقُوا عَنْہُ دَمًا وَأَمِيطُوا عَنْہُ الْأَذَی حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ الرَّبَابِ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ لازم ہے،لہذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (جانور ذبح کرو) اوراس سے گندگی دورکرو۔اس سند سے بھی سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ سِبَاعٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ أُمَّ كُرْزٍ أَخْبَرَتْہُ أَنَّہَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ الْعَقِيقَةِ فَقَالَ عَنْ الْغُلَامِ شَاتَانِ وَعَنْ الْأُنْثَی وَاحِدَةٌ وَلَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھاتوآپ نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دوبکریاں اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی،وہ جانورنریاہومادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ الْأُضْحِيَّةِ الْكَبْشُ وَخَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قربانی کے جانوروں میں سب سے بہتر مینڈھاہے اورسب سے بہترکفن حلہ (تہبنداورچادر)ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-عفیربن معدان حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَثِيرًا مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَحْلِفُ بِہَذِہِ الْيَمِينِ لَا وَمُقَلِّبِ الْقُلُوبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قسم کھاتے تھے تو اکثرلا ومقلب القلوبکہتے تھے (نہیں،دلوں کے بدلنے والے کی قسم) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ كَاذِبًا فَہُوَ كَمَا قَالَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا إِذَا حَلَفَ الرَّجُلُ بِمِلَّةٍ سِوَی الْإِسْلَامِ فَقَالَ ہُوَ يَہُودِيٌّ أَوْ نَصْرَانِيٌّ إِنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا فَفَعَلَ ذَلِكَ الشَّيْءَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ قَدْ أَتَی عَظِيمًا وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْہِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْمَدِينَةِ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَإِلَی ہَذَا الْقَوْلِ ذَہَبَ أَبُو عُبَيْدٍ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ عَلَيْہِ فِي ذَلِكَ الْكَفَّارَةُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہوگیاجیسے اس نے کہا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جب کوئی اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی قسم کھائے اوریہ کہے: اگراس نے ایسا ایساکیاتویہودی یا نصرانی ہوگا،پھر اس نے وہ کام کرلیا،تو بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس نے بہت بڑاگناہ کیا لیکن اس پر کفارہ واجب نہیں ہے،یہ اہل مدینہ کا قول ہے،مالک بن انس بھی اسی کے قائل ہیں اورابوعبیدنے بھی اسی کو اختیار کیا ہے،۳-اورصحابہ وتابعین وغیرہ میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس صورت میں اس پر کفارہ واجب ہے،سفیان،احمداوراسحاق کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَہُ عَلَيْہِ بَيِّنَةٌ فَلَہُ سَلَبُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ وَأَنَسٍ وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مُحَمَّدٍ ہُوَ نَافِعٌ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لِلْإِمَامِ أَنْ يُخْرِجَ مِنْ السَّلَبِ الْخُمُسَ و قَالَ الثَّوْرِيُّ النَّفَلُ أَنْ يَقُولَ الْإِمَامُ مَنْ أَصَابَ شَيْئًا فَہُوَ لَہُ وَمَنْ قَتَلَ قَتِيلًا فَلَہُ سَلَبُہُ فَہُوَ جَائِزٌ وَلَيْسَ فِيہِ الْخُمُسُ و قَالَ إِسْحَقُ السَّلَبُ لِلْقَاتِلِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ شَيْئًا كَثِيرًا فَرَأَی الْإِمَامُ أَنْ يُخْرِجَ مِنْہُ الْخُمُسَ كَمَا فَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کسی کافرکوقتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: حدیث میں ایک قصہ مذکور ہے ۱ ؎۔ اس سند سے بھی ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۲-اس باب میں عوف بن مالک،خالد بن ولید،انس اورسمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام اوردیگرلوگوں میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،اوزاعی،شافعی اوراحمد کا بھی یہی قول ہے،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ مقتول کے سامان سے خمس نکالنے کاامام کو اختیارہے،ثوری کہتے ہیں: نفل یہی ہے کہ امام اعلان کردے کہ جو کافروں کا سامان چھین لے وہ اسی کا ہوگا اور جو کسی کافر کو قتل کرے تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا اور ایسا کرنا جائزہے،اس میں خمس واجب نہیں ہے،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ مقتول کا مال قاتل کا ہے مگر جب سامان زیادہ ہو اور امام اس میں سے خمس نکالناچاہے جیسا کہ عمربن خطاب نے کیا۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ شُعْبَةَ أَخْبَرَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ قَال سَمِعْتُ قَبِيصَةَ بْنَ ہُلْبٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ طَعَامِ النَّصَارَی فَقَالَ لَا يَتَخَلَّجَنَّ فِي صَدْرِكَ طَعَامٌ ضَارَعْتَ فِيہِ النَّصْرَانِيَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ سَمِعْت مَحْمُودًا وَقَالَ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ قَبِيصَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ قَالَ مَحْمُودٌ وَقَالَ وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ مُرَيِّ بْنِ قَطَرِيٍّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ الرُّخْصَةِ فِي طَعَامِ أَہْلِ الْكِتَابِ

ہلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ سے نصاریٰ کے کھانا کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:کوئی کھاناتمہارے دل میں شک نہ پیداکرے کہ اس کے سلسلہ میں نصرانیت سے تمہاری مشابہت ہوجائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔اس سند سے بھی ہلب رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے۔ اس سند سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے بھی اس جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ اہل کتاب کے کھانے کے سلسلے میں رخصت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَخْبَرَہُ أَنَّ امْرَأَةً وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللہِ ﷺ مَقْتُولَةً فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ذَلِكَ وَنَہَی عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَرَبَاحٍ وَيُقَالُ رِيَاحُ بْنُ الرَّبِيعِ وَالْأَسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ كَرِہُوا قَتْلَ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيَاتِ وَقَتْلِ النِّسَاءِ فِيہِمْ وَالْوِلْدَانِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرَخَّصَا فِي الْبَيَاتِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺکے کسی غزوے میں ایک عورت مقتول پائی گئی،تو آپ ﷺنے اس کی مذمت کی اورعورتوں وبچوں کے قتل سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں بریدہ،رباح،ان کو رباح بن ربیع بھی کہتے ہیں،اسود بن سریع ابن عباس اورصعب بن جثامہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے،یہ لوگ عورتوں اوربچوں کے قتل کوحرام سمجھتے ہیں،سفیان ثوری اورشافعی کا بھی یہی قول ہے،۴-کچھ اہل علم نے رات میں ان پر چھاپہ مارنے کی اوراس میں عورتوں اوربچوں کے قتل کی رخصت دی ہے،احمداوراسحاق بن راہویہ کایہی قول ہے،ان دونوں نے رات میں چھاپہ مارنے کی رخصت دی ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَخْبَرَنِي الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ خَيْلَنَا أُوطِئَتْ مِنْ نِسَاءِ الْمُشْرِكِينَ وَأَوْلَادِہِمْ قَالَ ہُمْ مِنْ آبَائِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے گھوڑوں نے مشرکین کی عورتوں اوربچوں کو روندڈالاہے،آپ نے فرمایا: وہ بھی اپنے آباواجداد کی قسم سے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ بَجَالَةَ بْنِ عَبْدَةَ قَالَ كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَلَی مَنَاذِرَ فَجَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ انْظُرْ مَجُوسَ مَنْ قِبَلَكَ فَخُذْ مِنْہُمْ الْجِزْيَةَ فَإِنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ أَخْبَرَنِي أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنْ مَجُوسِ ہَجَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

بجالہ بن عبدہ کہتے ہیں:میں مقام مناذرمیں جزء بن معاویہ کا منشی تھا،ہمارے پاس عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیاکہ تمہاری طرف جومجوس ہوں ان کو دیکھواوران سے جزیہ لو کیونکہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مجھے خبردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام ہجرکے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ بَجَالَةَ أَنَّ عُمَرَ كَانَ لَا يَأْخُذُ الْجِزْيَةَ مِنْ الْمَجُوسِ حَتَّی أَخْبَرَہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَخَذَ الْجِزْيَةَ مِنْ مَجُوسِ ہَجَرَ وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

بجالہ بن عبدہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مجوس سے جزیہ نہیں لیتے تھے یہاں تک کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان کو خبردی کہ نبی اکرمﷺ نے مقام ہجرکے مجوسیوں سے جزیہ لیا،اس حدیث میں اس سے زیادہ تفصیل ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي كَبْشَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْجِزْيَةَ مِنْ مَجُوسِ الْبَحْرَيْنِ وَأَخَذَہَا عُمَرُ مِنْ فَارِسَ وَأَخَذَہَا عُثْمَانُ مِنْ الْفُرْسِ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا فَقَالَ ہُوَ مَالِكٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین کے مجوسیوں سے،اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما نے فارس کے مجوسیوں سے جزیہ لیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مالک روایت کرتے ہیں زہری سے اورزہری نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ فِي قَوْلِہِ تَعَالَی لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنْ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ قَالَ جَابِرٌ بَايَعْنَا رَسُولَ اللہِ ﷺ عَلَی أَنْ لَا نَفِرَّ وَلَمْ نُبَايِعْہُ عَلَی الْمَوْتِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَابْنِ عُمَرَ وَعُبَادَةَ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عِيسَی بْنِ يُونُسَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَلَمْ يُذْكَرْ فِيہِ أَبُو سَلَمَةَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ: لَقَدْ رَضِیَ اللہُ عَنْ الْمُؤْمِنِینَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ ۱؎ کے بارے میں روایت ہے،جابرکہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے فرار نہ ہونے کی بیعت کی تھی،ہم نے آپ سے موت کے اوپر بیعت نہیں کی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث بسندعیسیٰ بن یونس عن الأوزاعی،عن یحیی بن أبی کثیر،عن جابر مروی ہے،اس میں یحییٰ بن ابی کثیراورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ابوسلمہ کے واسطے کا ذکرنہیں ہے،۲-اس باب میں سلمہ بن الاکوع،ابن عمر،عبادہ اورجریربن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ قَالَ قُلْتُ لِسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَلَی أَيِّ شَيْءٍ بَايَعْتُمْ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ قَالَ عَلَی الْمَوْتِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں: میں نے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے پوچھا: حد یبیہ کے دن آپ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کس بات پربیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كُنَّا نُبَايِعُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فَيَقُولُ لَنَا فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كِلَاہُمَا وَمَعْنَی كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ قَدْ بَايَعَہُ قَوْمٌ مِنْ أَصْحَابِہِ عَلَی الْمَوْتِ وَإِنَّمَا قَالُوا لَا نَزَالُ بَيْنَ يَدَيْكَ حَتَّی نُقْتَلَ وَبَايَعَہُ آخَرُونَ فَقَالُوا لَا نَفِرُّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ سے سمع وطاعت (یعنی آپ کے حکم سننے اور آپ کی اطاعت کرنے) پر بیعت کرتے تھے،پھر آپ ہم سے فرماتے: جتناتم سے ہوسکے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-حدیث جابراورحدیث سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہما دونوں حدیثوں کا معنی صحیح ہے،(ان میں تعارض نہیں ہے) بعض صحابہ نے آپﷺ سے موت پربیعت کی تھی،ان لوگوں نے کہاتھا: ہم آپ کے سامنے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ قتل کردیئے جائیں،اوردوسرے لوگوں نے آپ سے بیعت کرتے ہوئے کہاتھا: ہم نہیں بھاگیں گے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ لَمْ نُبَايِعْ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَلَی الْمَوْتِ إِنَّمَا بَايَعْنَاہُ عَلَی أَنْ لَا نَفِرَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺ سے موت پربیعت نہیں کی تھی،ہم نے توآپ سے بیعت کی تھی کہ نہیں بھاگیں گے۔(چاہے اس کا انجام کبھی موت ہی کیوں نہ ہوجائے) امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُہَلَّبِيُّ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِوَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ آمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ قَالَ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے وفدعبدالقیس سے فرمایا: میں تم لوگوں کو حکم دیتاہوں کہ مال غنیمت سے خمس (یعنی پانچواں حصہ) اداکرو،امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ الطَّائِيِّ أَنَّہُ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ قَالَ خِدْمَةُ عَبْدٍ فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ ظِلُّ فُسْطَاطٍ أَوْ طَرُوقَةُ فَحْلٍ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ہَذَا الْحَدِيثُ مُرْسَلًا وَخُولِفَ زَيْدٌ فِي بَعْضِ إِسْنَادِہِ

عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: کو ن ساصدقہ افضل ہے؟آپ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں(کسی مجاہد کو) غلام کاعطیہ دینا یا(مجاہدین کے لیے) خیمہ کا سایہ کرنا،یا اللہ کے راستے میں جوان اونٹنی دینا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-معاویہ بن صالح سے یہ حدیث مرسل طریقہ سے بھی آئی ہے،۲-بعض اسناد(طرق) میں زید (بن حباب)کی مخالفت کی گئی ہے،اس حدیث کو ولید بن جمیل نے قاسم ابوعبدالرحمٰن سے،قاسم نے ابوامامہ سے،اورابوامامہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،ہم سے اس حدیث کو زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے۔

قَالَ وَرَوَی الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَفْضَلُ الصَّدَقَاتِ ظِلُّ فُسْطَاطٍ فِي سَبِيلِ اللہِ وَمَنِيحَةُ خَادِمٍ فِي سَبِيلِ اللہِ أَوْ طَرُوقَةُ فَحْلٍ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَہُوَ أَصَحُّ عِنْدِي مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہاد میں(مجاہدین کے لیے) خیمہ کاسایہ کرنا،خادم کا عطیہ دینااورجوان اونٹنی دینا سب سے افضل و بہتر صدقہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-میرے نزدیک یہ معاویہ بن صالح کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ لَيُدْخِلُ بِالسَّہْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَةً الْجَنَّةَ صَانِعَہُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِہِ الْخَيْرَ وَالرَّامِيَ بِہِ وَالْمُمِدَّ بِہِ وَقَالَ ارْمُوا وَارْكَبُوا وَلَأَنْ تَرْمُوا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا كُلُّ مَا يَلْہُو بِہِ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ إِلَّا رَمْيَہُ بِقَوْسِہِ وَتَأْدِيبَہُ فَرَسَہُ وَمُلَاعَبَتَہُ أَہْلَہُ فَإِنَّہُنَّ مِنْ الْحَقِّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَزْرَقِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ وَعَمْرِو بْنِ عَبْسَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عبدالرحمٰن ابن ابی الحسین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرے گا:تیربنانے والے کو جو بناتے وقت ثواب کی نیت رکھتاہو،تیراندازکو اورتیردینے والے کو’،آپ نے فرمایا:’ تیرانداز ی کرو اورسواری سیکھو،تمہارا تیراندازی کرنا میرے نزدیک تمہارے سواری کر نے سے زیادہ پسندیدہ ہے،ہر وہ چیز جس سے مسلمان کھیلتاہے باطل ہے سوائے کمان سے اس کا تیر اندازی کرنا،گھوڑے کو تربیت دینا اوراپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا،یہ تینوں چیزیں اس کے لیے درست ہیں اس سند سے عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں کعب بن مرہ،عمروبن عبسہ اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِي نَجِيحٍ السُّلَمِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ رَمَی بِسَہْمٍ فِي سَبِيلِ اللہِ فَہُوَ لَہُ عَدْلُ مُحَرَّرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَأَبُو نَجِيحٍ ہُوَ عَمْرُو بْنُ عَبْسَةَ السُّلَمِيُّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ الْأَزْرَقِ ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدٍ

ابونجیح عمروبن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے اللہ کی راہ میں ایک تیرمارا،وہ (ثواب میں) ایک غلام آزاد کر نے کے برابرہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-ابونجیح کانام عمروبن عبسہ سلمی ہے،۳-عبداللہ بن ازرق سے مراد عبداللہ بن زید ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ وَشُعْبَةَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ يَسْتَأْذِنُہُ فِي الْجِہَادِ فَقَالَ أَلَكَ وَالِدَانِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِيہِمَا فَجَاہِدْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْعَبَّاسِ ہُوَ الشَّاعِرُ الْأَعْمَی الْمَكِّيُّ وَاسْمُہُ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،آپ نے پوچھا: کیاتمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: ہاں،آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ فِي قَوْلِہِ أَطِيعُوا اللہَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ حُذَافَةَ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَدِيٍّ السَّہْمِيُّ بَعَثَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی سَرِيَّةٍ أَخْبَرَنِيہِ يَعْلَی بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ

ابن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ: أَطِیعُوا اللہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ کی تفسیر میں کہتے ہیں: عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی سہمی کو رسول اللہ ﷺ نے (اکیلا) سریہ بناکربھیجا ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَجْرَی الْمُضَمَّرَ مِنْ الْخَيْلِ مِنْ الْحَفْيَاءِ إِلَی ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ وَبَيْنَہُمَا سِتَّةُ أَمْيَالٍ وَمَا لَمْ يُضَمَّرْ مِنْ الْخَيْلِ مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ إِلَی مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ وَبَيْنَہُمَا مِيلٌ وَكُنْتُ فِيمَنْ أَجْرَی فَوَثَبَ بِي فَرَسِي جِدَارًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے تضمیر کیے ہوئے گھوڑوں کی مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑکرائی،ان دونوں کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے،اورجو تضمیر کیے ہوئے نہیں تھے ان کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک گھڑ دوڑ کرائی،ان دونوں کے درمیان ایک میل کا فاصلہ ہے،گھڑدوڑ کے مقابلہ میں میں بھی شامل تھا،چنانچہ میرا گھوڑا مجھے لے کر ایک دیوار کودگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ثوری کی روایت سے یہ حدیث صحیح حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،جابر،عائشہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ نَافِعِ بْنِ أَبِي نَافِعٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا سَبَقَ إِلَّا فِي نَصْلٍ أَوْ خُفٍّ أَوْ حَافِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ فرمایا: مقابلہ صرف تیر،اونٹ اور گھوڑوں میں جائز ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَعَنَ اللہُ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ وَالْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ قَالَ نَافِعٌ الْوَشْمُ فِي اللِّثَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَمُعَاوِيَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے بال میں جوڑے لگانے والی،بال میں جوڑے لگوانے والی،گدناگوندنے والی اورگدناگوندوانے والی پرلعنت بھیجی ہے۔ نافع کہتے ہیں: گدنامسوڑے میں ہوتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابن مسعود،اسماء بنت ابی بکر،ابن عباس،معقل بن یساراورمعاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ وَالْفَضْلُ بْنُ مُوسَی وَزَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ الْقَمِيصُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ تَفَرَّدَ بِہِ وَہُوَ مَرْوَزِيٌّ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي تُمَيْلَةَ عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے نزدیک سب سے پسندیدہ لباس قمیص تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عبدالمومن بن خالدکی روایت سے جانتے ہیں،وہ اسے روایت کرنے میں منفرد ہیں،وہ مروزی ہیں،۳-بعض لوگوں نے اس حدیث کو اس سند سے روایت کی ہے،عن أبی تمیلۃ،عن عبدالمؤمن بن خالد عن عبداللہ بن بریدۃ،عن أمہ،عن أم سلمۃ ۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ الْقَمِيصُ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَصَحُّ وَإِنَّمَا يُذْكَرُ فِيہِ أَبُو تُمَيْلَةَ عَنْ أُمِّہِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے نزدیک سب سے پسندیدہ لباس قمیص تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: محمدبن اسماعیل کو کہتے سنا: عبداللہ بن بریدہ کی حدیث جو ان کی ماں کے واسطہ سے ام سلمہ سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے،ابوتمیلہ اس حدیث میں عن امہ کا واسطہ ضروربیان کرتے تھے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ أَحَبَّ الثِّيَابِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ الْقَمِيصُ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک پسندیدہ لباس قمیص تھی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيِّ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ كَانَ كُمُّ يَدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِلَی الرُّسْغِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

اسماء بنت یزید بن سکن انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بازوکی آستین کلائی(پہنچوں) تک ہوتی تھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا لَبِسَ قَمِيصًا بَدَأَ بِمَيَامِنِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ غَيْرَ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ قمیص پہنتے تو داہنی طرف سے (پہننا) شروع کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: کئی لوگوں نے یہ حدیث بسندشعبہ عن ابی ہریرہ موقوف روایت کی ہے،شعبہ سے روایت کرنے والے عبدالصمد بن عبدالوارث کے علاوہ ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اسے مرفوع طریقہ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ يُونُسَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ مَا أَكَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی خُوَانٍ وَلَا فِي سُكُرُّجَةٍ وَلَا خُبِزَ لَہُ مُرَقَّقٌ قَالَ فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ فَعَلَامَ كَانُوا يَأْكُلُونَ قَالَ عَلَی ہَذِہِ السُّفَرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَيُونُسُ ہَذَا ہُوَ يُونُسُ الْإِسْكَافُ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے کبھی خوان (میز وغیرہ)پرنہیں کھایا،نہ چھوٹی طشتریوں اور پیالیوں میں کھایا،اورنہ آپ کے لیے کبھی پتلی روٹی پکائی گئی۔ یونس کہتے ہیں: میں نے قتادہ سے پوچھا: پھر کس چیز پر کھاتے تھے؟ کہا: انہی دسترخوانوں پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-محمدبن بشارکہتے ہیں: یہ یونس،یونس اسکاف ہیں،۳-عبدالوارث بن سعیدنے بسندسعید بن ابی عروبہ عن قتادہ عن انس عن النبی ﷺ اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ أَنَّ فَأْرَةً وَقَعَتْ فِي سَمْنٍ فَمَاتَتْ فَسُئِلَ عَنْہَا النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ أَلْقُوہَا وَمَا حَوْلَہَا وَكُلُوہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ مَيْمُونَةَ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ أَصَحُّ وَرَوَی مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَہُوَ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَذَكَرَ فِيہِ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْہُ فَقَالَ إِذَا كَانَ جَامِدًا فَأَلْقُوہَا وَمَا حَوْلَہَا وَإِنْ كَانَ مَائِعًا فَلَا تَقْرَبُوہُ ہَذَا خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيہِ مَعْمَرٌ قَالَ وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ

ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہیاگھی میں گرکرمرگئی،رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھاگیا توآپ نے فرمایا: اسے اورجوکچھ چکنائی اس کے اردگردہے اسے پھینک دو ۱؎ اور(بچاہوا)گھی کھالو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث اس سند سے بھی آئی ہےعن الزہری عن عبیداللہ عن ابن عباس أن النبی ﷺ ،راویوں نے اس میںعن میمونۃ کا واسطہ نہیں بیان کیا ہے،۳-میمونہ کے واسطہ سے ابن عباس کی حدیث زیادہ صحیح ہے،۴-معمرنے بطریق: الزہری،عن ابن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ جیسی حدیث روایت کی ہے،یہ حدیث (سند) غیرمحفوظ ہے،میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ معمرکی حدیث جسے وہ عن الزہری عن سعید بن المسیب عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے اس کے بارے میں پوچھاگیا توآپ نے فرمایا: جب گھی جماہواہو توچوہیا اوراس کے اردگردکا گھی پھینک دواوراگرپگھلاہواہو تو اس کے قریب نہ جاؤ یہ خطاہے،اس میں معمرسے خطا ہوئی ہے،صحیح زہری ہی کی حدیث ہے جوعن عبیداللہ عن ابن عباس عن میمونۃ کی سند سے آئی ہے ۲؎،۵-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ طَعَامُ الِاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةَ وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی جَابِرٌ وَابْنُ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِہَذَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دوآدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اورتین آدمیوں کا کھانا چارآدمیوں کے لیے کافی ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-جابراورابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ایک آدمی کا کھانا دوآدمیوں کو کفایت کرجائے گا،دوآدمی کا کھانا چارآدمیوں کوکفایت کرجائے گا اورچارآدمی کا کھانا آٹھ آدمیوں کو کفایت کرجائے گا،۳-اس باب میں جابراورابن عمرسے بھی احادیث آئی ہیں۔اس سند سے جابر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی الثَّوْرِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ گندگی کھانے والے جانورکے گوشت کھانے اور ان کے دودھ پینے سے منع فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ثوری نے اسے عن ابن أبی نجیح عن مجاہد عن النبی ﷺ کی سند سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں عبداللہ بن عباس سے بھی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الْمُجَثَّمَةِ وَلَبَنِ الْجَلَّالَةِ وَعَنْ الشُّرْبِ مِنْ فِي السِّقَاءِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے مجثمہ اور گندگی کھانے والے جانورکے دودھ اورمشک کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمدبن بشارکہتے ہیں: ہم سے ابن عدی نے عن سعید بن أبی عروبۃ عن قتادۃ عن عکرمۃ عن ابن عباس عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی ہے،۳-اس باب میں عبداللہ بن عمروسے بھی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ عَنْ أَبِي الْعَوَّامِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زَہْدَمٍ الْجَرْمِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی أَبِي مُوسَی وَہُوَ يَأْكُلُ دَجَاجَةً فَقَالَ ادْنُ فَكُلْ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَأْكُلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ زَہْدَمٍ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَہْدَمٍ وَأَبُو الْعَوَّامِ ہُوَ عِمْرَانُ الْقَطَّانُ

زہدم جرمی کہتے ہیں: میں ابوموسیٰ کے پاس گیا،وہ مرغی کھارہے تھے،کہا: قریب ہوجاؤاور کھاؤ اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے کھاتے دیکھا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے،زہدم سے یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،ہم اسے صرف زہدم ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ زَہْدَمٍ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَأْكُلُ لَحْمَ دَجَاجٍ قَالَ وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ ہَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ وَعَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ زَہْدَمٍ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مرغ کا گوشت کھاتے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث میں کچھ اورباتیں بھی ہیں،۳-ایوب سختیانی نے بھی اس حدیث کو عن القاسم التمیمی عن أبی قلابۃ عن زہدم کی سند سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سَوِيَّةَ أَبُو الْہُذَيْلِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عِكْرَاشٍ عَنْ أَبِيہِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ بَعَثَنِي بَنُو مُرَّةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِصَدَقَاتِ أَمْوَالِہِمْ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَدِمْتُ عَلَيْہِ الْمَدِينَةَ فَوَجَدْتُہُ جَالِسًا بَيْنَ الْمُہَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَانْطَلَقَ بِي إِلَی بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَ ہَلْ مِنْ طَعَامٍ فَأُتِينَا بِجَفْنَةٍ كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالْوَذْرِ وَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْہَا فَخَبَطْتُ بِيَدِي مِنْ نَوَاحِيہَا وَأَكَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ بَيْنِ يَدَيْہِ فَقَبَضَ بِيَدِہِ الْيُسْرَی عَلَی يَدِي الْيُمْنَی ثُمَّ قَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ فَإِنَّہُ طَعَامٌ وَاحِدٌ ثُمَّ أُتِينَا بِطَبَقٍ فِيہِ أَلْوَانُ الرُّطَبِ أَوْ مِنْ أَلْوَانِ الرُّطَبِ عُبَيْدُ اللہِ شَكَّ قَالَ فَجَعَلْتُ آكُلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي الطَّبَقِ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ فَإِنَّہُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ ثُمَّ أُتِينَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَدَيْہِ وَمَسَحَ بِبَلَلِ كَفَّيْہِ وَجْہَہُ وَذِرَاعَيْہِ وَرَأْسَہُ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ ہَذَا الْوُضُوءُ مِمَّا غَيَّرَتْ النَّارُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْعَلَاءِ بْنِ الْفَضْلِ وَقَدْ تَفَرَّدَ الْعَلَاءُ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَلَا نَعْرِفُ لِعِكْرَاشٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا ہَذَا الْحَدِيثَ

عکراش بن ذؤیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بنومرہ بن عبیدنے اپنی زکاۃ کا مال دے کر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا،میں آپ کے پاس مدینہ آیا تو آپ کو مہاجرین اورانصارکے بیچ بیٹھا پایا،پھرآپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر لے گئے اورپوچھا: کھانے کے لیے کچھ ہے؟چنانچہ ایک پیالہ لا یاگیا جس میں زیادہ ثرید (شوربامیں ترکی ہوئی روٹی) اوربوٹیاں تھیں،ہم اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے،میں پیالہ کے کناروں پر اپنا ہاتھ مارنے لگا اوررسول اللہ ﷺ اپنے سامنے سے کھانے لگے،پھرآپ نے اپنے بائیں ہاتھ سے میرادایاں ہاتھ پکڑ کر فرمایا: عکراش! ایک جگہ سے کھاؤاس لیے کہ یہ ایک ہی قسم کا کھانا ہے،پھر ہمارے پاس ایک طبق لایا گیا جس میں مختلف قسم کی کھجوریں تھیں،میں اپنے سامنے سے کھانے لگا،اوررسول اللہ ﷺ کا ہاتھ طبق میں گھومنے لگا،آپ نے فرمایا: عکراش! جہاں سے چاہو کھاؤ،اس لیے کہ یہ ایک قسم کا نہیں ہے،پھر ہمارے پاس پانی لا یا گیا،رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اورہتھیلیوں کی تری سے چہرے،بازواورسرپرمسح کیا اور فرمایا: عکراش! یہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کا وضوہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف علاء بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں،علاء اس حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہیں،۳-ہم نبی اکرم ﷺ سے عکراش کی صرف اسی حدیث کو جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ يُخْبِرُہُمْ ذَاكَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا كَفَی أَحَدَكُمْ خَادِمُہُ طَعَامَہُ حَرَّہُ وَدُخَانَہُ فَلْيَأْخُذْ بِيَدِہِ فَلْيُقْعِدْہُ مَعَہُ فَإِنْ أَبَی فَلْيَأْخُذْ لُقْمَةً فَلْيُطْعِمْہَا إِيَّاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو خَالِدٍ وَالِدُ إِسْمَعِيلَ اسْمُہُ سَعْدٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا خادم تمہارے کھانے کی گرمی اوردھواں برداشت کرے،تو(مالک کو چاہیے کہ کھاتے وقت) اس کا ہاتھ پکڑکر اپنے ساتھ بٹھا لے،اگروہ انکار کرے تو ایک لقمہ لے کر ہی اسے کھلادے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْہَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّہُ دَخَلَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَعِنْدَہُ طَعَامٌ قَالَ ادْنُ يَا بُنَيَّ وَسَمِّ اللہَ وَكُلْ بِيَمِينِكَ وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِي وَجْزَةَ السَّعْدِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ وَأَبُو وَجْزَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ

عمربن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے،آپ کے پاس کھانا رکھا تھا،آپ نے فرمایا: بیٹے! قریب ہوجاؤ،بسم اللہ پڑھواوراپنے داہنے ہاتھ سے جو تمہارے قریب ہے اسے کھاؤ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ہشام بن عروہ سےعن ابی وجزۃ السعدی عن رجل من مزینۃ عن عمربن ابی سلمۃ کی سند سے مروی ہے،اس حدیث کی روایت کرنے میں ہشام بن عروہ کے شاگردوں کا اختلاف ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللہِ فَإِنْ نَسِيَ فِي أَوَّلِہِ فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللہِ فِي أَوَّلِہِ وَآخِرِہِ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَأْكُلُ طَعَامًا فِي سِتَّةٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَأَكَلَہُ بِلُقْمَتَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَمَا إِنَّہُ لَوْ سَمَّی لَكَفَاكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأُمُّ كُلْثُومٍ ہِيَ بِنْتُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم لوگوں میں سے کوئی کھانا کھائے توبسم اللہ پڑھ لے،اگرشروع میں بھول جائے تو یہ کہے بسم اللہ فی أولہ وآخرہ۔اسی سند سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ چھ صحابہ کے ساتھ کھاناکھارہے تھے،اچانک ایک اعرابی آیا اوردولقمہ میں پورا کھانا کھالیا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر اس نے بسم اللہ پڑھ لی ہوتی تو یہ کھانا تم سب کے لیے کافی ہوتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَيُّوبَ وَہُوَ ابْنُ حَبِيبٍ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا الْمُثَنَّی الْجُہَنِيَّ يَذْكُرُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ النَّفْخِ فِي الشُّرْبِ فَقَالَ رَجُلٌ الْقَذَاةُ أَرَاہَا فِي الْإِنَاءِ قَالَ أَہْرِقْہَا قَالَ فَإِنِّي لَا أَرْوَی مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ قَالَ فَأَبِنْ الْقَدَحَ إِذَنْ عَنْ فِيكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پینے کی چیزمیں پھونکنے سے منع فرمایا،ایک آدمی نے عرض کیا: برتن میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھوں تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: اسے بہادو،اس نے عرض کیا: میں ایک سانس میں سیراب نہیں ہوپاتاہوں،آپ نے فرمایا: تب (سانس لیتے وقت) پیالہ اپنے منہ سے ہٹالو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاءِ أَوْ يُنْفَخَ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے برتن میں سانس لینے اورپھونکنے سے منع فرمایا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ عِيسَی بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أُنَيْسٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ إِلَی قِرْبَةٍ مُعَلَّقَةٍ فَخَنَثَہَا ثُمَّ شَرِبَ مِنْ فِيہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِصَحِيحٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَلَا أَدْرِي سَمِعَ مِنْ عِيسَی أَمْ لَا

عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا،آپ ایک لٹکی ہوئی مشکیزہ کے پاس گئے،اسے جھکایا،پھر اس کے منہ سے پانی پیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ام سلیم سے بھی روایت ہے۔(جو آگے آرہی ہے)،۲-اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے،عبداللہ بن عمرحدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں،میں نہیں جانتاہوں کہ انہوں نے عیسیٰ سے حدیث سنی ہے یانہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ جَدَّتِہِ كَبْشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَشَرِبَ مِنْ فِي قِرْبَةٍ مُعَلَّقَةٍ قَائِمًا فَقُمْتُ إِلَی فِيہَا فَقَطَعْتُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَيَزِيدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ہُوَ أَخُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ وَہُوَ أَقْدَمُ مِنْہُ مَوْتًا

کبشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ میرے گھرتشریف لائے،آپ نے ایک لٹکی ہوئی مشکیزہ کے منہ سے کھڑے ہوکر پانی پیا،پھر میں مشکیزہ کے منہ کے پاس گئی اور اس کو کاٹ لیا ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ حَدَّثَنَا قَيْسٌ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ لَا يَرْحَمُہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوشخص لوگوں پرمہربانی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی نہیں کرے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف،ابوسعیدخدری،ابن عمر،ابوہریرہ اورعبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ قَالَ كَتَبَ بِہِ إِلَيَّ مَنْصُورٌ وَقَرَأْتُہُ عَلَيْہِ سَمِعَ أَبَا عُثْمَانَ مَوْلَی الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ يَقُولُ لَا تُنْزَعُ الرَّحْمَةُ إِلَّا مِنْ شَقِيٍّ قَالَ وَأَبُو عُثْمَانَ الَّذِي رَوَی عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ لَا يُعْرَفُ اسْمُہُ وَيُقَالُ ہُوَ وَالِدُ مُوسَی بْنِ أَبِي عُثْمَانَ الَّذِي رَوَی عَنْہُ أَبُو الزِّنَادِ وَقَدْ رَوَی أَبُو الزِّنَادِ عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ حَدِيثٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے سنا: صرف بدبخت ہی (کے دل) سے رحم ختم کیاجاتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ابوعثمان جنہوں نے ابوہریرہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ان کا نام نہیں معلوم ہے،کہاجاتا ہے،وہ اس موسیٰ بن ابوعثمان کے والد ہیں جن سے ابوالزنادنے روایت کی ہے،ابوالزنادنے عن موسی بن أبی عثمان عن أبیہ عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ کی سند سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي قَابُوسَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُہُمْ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ الرَّحِمُ شُجْنَةٌ مِنْ الرَّحْمَنِ فَمَنْ وَصَلَہَا وَصَلَہُ اللہُ وَمَنْ قَطَعَہَا قَطَعَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے،تم لوگ زمین والوں پر رحم کر و تم پر آسمان والا رحم کر ے گا،رحم رحمن سے مشتق (نکلا) ہے،جس نے اس کو جوڑا اللہ اس کو (اپنی رحمت سے) جوڑے گا اور جس نے اس کو توڑا اللہ اس کو اپنی رحمت سے کاٹ دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللہُ عَنْہُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَی مُعْسِرٍ فِي الدُّنْيَا يَسَّرَ اللہُ عَلَيْہِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ عَلَی مُسْلِمٍ فِي الدُّنْيَا سَتَرَ اللہُ عَلَيْہِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللہُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی أَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دورکی،اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دورفرمادے گا،جس نے دنیامیں کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا اورآخرت دونوں میں آسانی کرے گا،اور جس نے دنیا میں کسی مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اورآخرت میں اس کے عیب کی پردہ پوشی کرے گا،جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددمیں لگا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مددمیں ہوتا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس حدیث کو ابوعوانہ اورکئی لوگوں نے عن الأعمش عن أبی صالح عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،لیکن اس میں حدثت عن أبی صالحکے الفاظ نہیں بیان کیے ہیں،۳-اس باب میں ابن عمراورعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ آخَی النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَہُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ فَقَالَ لَہُ ہَلُمَّ أُقَاسِمُكَ مَالِي نِصْفَيْنِ وَلِيَ امْرَأَتَانِ فَأُطَلِّقُ إِحْدَاہُمَا فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا فَتَزَوَّجْہَا فَقَالَ بَارَكَ اللہُ لَكَ فِي أَہْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّونِي عَلَی السُّوقِ فَدَلُّوہُ عَلَی السُّوقِ فَمَا رَجَعَ يَوْمَئِذٍ إِلَّا وَمَعَہُ شَيْءٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ قَدْ اسْتَفْضَلَہُ فَرَآہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ وَعَلَيْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ فَقَالَ مَہْيَمْ قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ فَمَا أَصْدَقْتَہَا قَالَ نَوَاةً قَالَ حُمَيْدٌ أَوْ قَالَ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَہَبٍ وَزْنُ ثَلَاثَةِ دَرَاہِمَ وَثُلُثٍ و قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَہَبٍ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاہِمَ سَمِعْتُ إِسْحَقَ بْنَ مَنْصُورٍ يَذْكُرُ عَنْہُمَا ہَذَا

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (ہجرت کر کے) مدینہ آئے تونبی اکرمﷺ نے ان کے اورسعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا،سعد بن ربیع نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا: آؤ تمہارے لیے اپناآدھاما ل بانٹ دوں،اورمیرے پاس دوبیویاں ہیں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتاہوں،جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے شادی کرلو،عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور تمہاری اولاد میں برکت دے،مجھے بازارکا راستہ بتاؤ،انہوں نے ان کو بازار کا راستہ بتادیا،اس دن وہ (بازار سے) کچھ پنیر اورگھی لے کرہی لوٹے جونفع میں انہیں حاصل ہوا تھا،اس کے (کچھ دنوں) بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کے اوپر زردی کا اثردیکھا تو پوچھا: کیابات ہے؟ (یہ زردی کیسی) کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے،آپ نے پوچھا: اس کو مہرمیں تم نے کیا دیا؟ کہا: ایک (سونے کی) گٹھلی،(یاگٹھلی کے برابر سونا) آپ نے فرمایا: ولیمہ کروا گرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-احمدکہتے ہیں:گٹھلی کے برابرسوناسوا تین درہم کے برابر ہوتا ہے،۳-اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: گٹھلی کے برابر سونا،پانچ درہم کے برابر ہوتا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُرَشِيُّ الْيَمَامِيُّ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَبَسُّمُكَ فِي وَجْہِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَہْيُكَ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالْعَظْمَ عَنْ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَحُذَيْفَةَ وَعَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُہُ سِمَاكُ بْنُ الْوَلِيدِ الْحَنَفِيُّ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے،تمہارا بھلائی کا حکم دینا اوربرائی سے روکنا صدقہ ہے،بھٹک جانے والی جگہ میں کسی آدمی کو تمہارا راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے،نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے،پتھر،کانٹا اورہڈی کو راستے سے ہٹا نا تمہارے لیے صدقہ ہے،اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،جابر،حذیفہ،عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَطَاءٍ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَہِيَ أَمَانَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَإِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑکر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ہم اسے صرف ابن ابی ذئب کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَی أَہْلِہِ صَدَقَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آدمی کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو،عمروبن امیہ ضمری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَفْضَلُ الدِّينَارِ دِينَارٌ يُنْفِقُہُ الرَّجُلُ عَلَی عِيَالِہِ وَدِينَارٌ يُنْفِقُہُ الرَّجُلُ عَلَی دَابَّتِہِ فِي سَبِيلِ اللہِ وَدِينَارٌ يُنْفِقُہُ الرَّجُلُ عَلَی أَصْحَابِہِ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ أَبُو قِلَابَةَ بَدَأَ بِالْعِيَالِ ثُمَّ قَالَ فَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَی عِيَالٍ لَہُ صِغَارٍ يُعِفُّہُمْ اللہُ بِہِ وَيُغْنِيہِمْ اللہُ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتردینا روہ دینارہے،جسے آدمی اپنے اہل وعیال پرخرچ کرتاہے،اوروہ دینار ہے جسے آدمی اپنے جہاد کی سواری پرخرچ کرتا ہے،اوروہ دینار ہے جسے آدمی اپنے مجاہدساتھیوں پر خرچ کرتاہے،ابوقلابہ کہتے ہیں: آپ نے بال بچوں کے نفقہ (اخراجات) سے شروعا ت کی پھر فرمایا: اس آدمی سے بڑا اجروثواب والا کون ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پرخرچ کرتاہے،جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں حرام چیزوں سے بچاتاہے اور انہیں مالداربناتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَنَا عِنْدَہُ فَقَالَ بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ أَوْ أَخُو الْعَشِيرَةِ ثُمَّ أَذِنَ لَہُ فَأَلَانَ لَہُ الْقَوْلَ فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ لَہُ يَا رَسُولَ اللہِ قُلْتَ لَہُ مَا قُلْتَ ثُمَّ أَلَنْتَ لَہُ الْقَوْلَ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنْ تَرَكَہُ النَّاسُ أَوْ وَدَعَہُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کی اجازت مانگی،اس وقت میں آپ کے پاس تھی،آپ نے فرمایا: یہ قوم کا برابیٹا ہے،یا قوم کا بھائی براہے،پھر آپ نے اس کواندرآنے کی اجازت دے دی اور اس سے نرم گفتگوکی،جب وہ نکل گیا تو میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو اس کو براکہاتھا،پھرآپ نے اس سے نرم گفتگوکی ۱؎،آپ نے فرمایا: عائشہ! لوگوں میں سب سے براوہ ہے جس کی بدزبانی سے بچنے کے لیے لوگ اسے چھوڑدیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقُولُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَاہْدِنِي وَارْزُقْنِي حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ يَرَوْنَ ہَذَا جَائِزًا فِي الْمَكْتُوبَةِ وَالتَّطَوُّعِ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلَاءِ مُرْسَلًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ دونوں سجدوں کے درمیان اللہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَاجْبُرْنِی وَاہْدِنِی وَارْزُقْنِی (اے اللہ! مجھے بخش دے،مجھ پر رحم فرما،میرے نقصان کی تلافی فرما،مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطافرما)کہتے تھے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَی بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ بَكْرٍ السَّہْمِيُّ و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَكْرٍ عَنْ فَائِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ كَانَتْ لَہُ إِلَی اللہِ حَاجَةٌ أَوْ إِلَی أَحَدٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلْيَتَوَضَّأْ فَلْيُحْسِنْ الْوُضُوءَ ثُمَّ لِيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ لِيُثْنِ عَلَی اللہِ وَلْيُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ لِيَقُلْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَہُ وَلَا ہَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَہُ وَلَا حَاجَةً ہِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَہَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَفَائِدٌ ہُوَ أَبُو الْوَرْقَاءِ

عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ سے کوئی ضرورت ہو یابنی آدم میں سے کسی سے کوئی کام ہوتو پہلے وہ اچھی طرح وضو کرے،پھر دورکعتیں اداکرے،پھر اللہ کی حمد وثنا بیان کرے اورنبی اکرمﷺ پر صلاۃ(درود) وسلام بھیجے،پھر کہے:لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ،سُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ،الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ أَسْأَلُکَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِکَ،وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ،وَالْغَنِیمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلاَمَۃَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ،لاَ تَدَعْ لِی ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتَہُ،وَلاَ ہَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتَہُ،وَلاَ حَاجَۃً ہِیَ لَکَ رِضًا إِلاَّ قَضَیْتَہَا،یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ (اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں،وہ حلیم(بردبار) ہے،کریم (بزرگی والا)ہے،پاک ہے اللہ جوعرش عظیم کا رب ہے،تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو رب العالمین(سارے جہانوں کا پالنہار) ہے،میں تجھ سے تیری رحمت کوواجب کرنے والی چیزوں کااورتیری بخشش کے یقینی ہونے کا سوال کرتاہوں،اورہرنیکی میں سے حصہ پانے کااور ہرگناہ سے سلامتی کاسوال کرتاہوں،اے ارحم الراحمین!تومیراکوئی گناہ باقی نہ چھوڑمگرتواسے بخش دے اورنہ کوئی غم چھوڑ،مگر تو اُسے دور فرمادے اورنہ کوئی ایسی ضرورت چھوڑجس میں تیری خوشنودی ہومگرتواُسے پوری فرمادے) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس کی سند میں کلام ہے،فائدبن عبدالرحمٰن کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف قراردیا جاتاہے،اور فائد ہی ابوالورقاء ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ مَمْلَكٍ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَا شَيْءٌ أَثْقَلُ فِي مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ اللہَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيءَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مومن کے میزان میں اخلاقِ حسنہ سے بھاری کوئی چیز نہیں ہو گی اوراللہ تعالیٰ بے حیا بدزبان سے نفرت کرتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابوہریرہ،انس اوراسامہ بن شریک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ اللَّيْثِ الْكُوفِيُّ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ مَا مِنْ شَيْءٍ يُوضَعُ فِي الْمِيزَانِ أَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَيَبْلُغُ بِہِ دَرَجَةَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: میزان میں رکھی جانے والی چیزوں میں سے اخلاقِ حسنہ(اچھے اخلاق) سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں ہے،اور اخلاق حسنہ کا حامل اس کی بدولت صائم اورمصلی کے درجہ تک پہنچ جائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّةَ فَقَالَ تَقْوَی اللہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ وَسُئِلَ عَنْ أَكْثَرِ مَا يُدْخِلُ النَّاسَ النَّارَ فَقَالَ الْفَمُ وَالْفَرْجُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ ہُوَ ابْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَوْدِيُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کوبکثرت جنت میں داخل کرے گی توآپ نے فرمایا:اللہ کاڈراوراچھے اخلاق پھرآپ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جولوگوں کوبکثرت جہنم میں داخل کرے گی توآپ نے فرمایا: منہ اورشرم گاہ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا أَبُو وَہْبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ وَصَفَ حُسْنَ الْخُلُقِ فَقَالَ ہُوَ بَسْطُ الْوَجْہِ وَبَذْلُ الْمَعْرُوفِ وَكَفُّ الْأَذَی

عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے کہ انہوں نے اخلاقِ حسنہ کا وصف بیان کرتے ہوے کہا: اخلاقِ حسنہ لوگوں سے مسکراکر ملناہے،بھلائی کرناہے اوردوسروں کو تکلیف نہ دیناہے۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعُودُنِي فَوَجَدَنِي قَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَأَتَی وَمَعَہُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَہُمَا مَاشِيَانِ فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِہِ فَأَفَقْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي أَوْ كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي فَلَمْ يُجِبْنِي شَيْئًا وَكَانَ لَہُ تِسْعُ أَخَوَاتٍ حَتَّی نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ يَسْتَفْتُونَكَ قُلْ اللہُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ الْآيَةَ قَالَ جَابِرٌ فِيَّ نَزَلَتْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں بیمار ہواتو رسول اللہ ﷺ میری عیادت کرنے آئے،آپ نے مجھے بے ہوش پایا،آپ کے ساتھ ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما بھی تھے،وہ پیدل چل کر آئے،آپ ﷺ نے وضو کیا اور اپنے وضو کا بچاہوا پانی میرے اوپر ڈال دیا،میں ہوش میں آگیا،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں؟ یا میں اپنے مال (کی تقسیم) کیسے کروں؟ (یہ راوی کاشک ہے) آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا-جابر رضی اللہ عنہ کے پاس نوبہنیں تھیں-یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی:یَسْتَفْتُونَکَ قُلْ اللہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلاَلَۃِ(لوگ آپ سے (کلالہ ۱؎ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں،آپ کہہ دیجئے: اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتاہے۔النساء: ۱۷۶) جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ وَابْنُ نُمَيْرٍ وَوَكِيعٌ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَوْہِبٍ وَقَالَ بَعْضُہُمْ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ وَہْبٍ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَا السُّنَّةُ فِي الرَّجُلِ مِنْ أَہْلِ الشِّرْكِ يُسْلِمُ عَلَی يَدَيْ رَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہُوَ أَوْلَی النَّاسِ بِمَحْيَاہُ وَمَمَاتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ وَہْبٍ وَيُقَالُ ابْنُ مَوْہِبٍ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ وَقَدْ أَدْخَلَ بَعْضُہُمْ بَيْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ وَہْبٍ وَبَيْنَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ وَلَا يَصِحُّ رَوَاہُ يَحْيَی بْنُ حَمْزَةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ وَزَادَ فِيہِ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ عِنْدِي لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ و قَالَ بَعْضُہُمْ يُجْعَلُ مِيرَاثُہُ فِي بَيْتِ الْمَالِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ

تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: اس مشرک کے بارے میں شریعت کاکیاحکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھ پراسلام لائے؟ آپﷺ نے فرمایا:وہ(مسلمان) اس (نومسلم) کی زندگی اور موت کا میں تمام لوگوں سے زیادہحق دار ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم اس حدیث کو صرف عبداللہ بن وہب کی روایت سے جانتے ہیں،ان کو ابن موہب بھی کہاجاتاہے،یہ تمیم داری سے روایت کرتے ہیں۔بعض لوگوں نے عبداللہ بن وہب اور تمیم داری کے درمیان قبیصہ بن ذؤیب کو داخل کیاہے جو صحیح نہیں،یحیی بن حمزہ نے عبدالعزیز بن عمر سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی سند میں قبیصہ بن ذؤیب کا اضافہ کیا ہے،۲-بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے،میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے،۳-بعض لوگوں نے کہاہے: اس کی میراث بیت المال میں رکھی جائے گی،شافعی کا یہی قول ہے،انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی(اس) حدیث سے استدلال کیاہے إن الولاء لمن اعتق (حق ولا ء (میراث) اس شخص کو حاصل ہے جو آزاد کرے)۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ أَبُو مُوسَی الْمُسْتَمْلِيُّ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رُؤْبَةَ التَّغْلَبِيُّ عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ النَّصْرِيِّ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَرْأَةُ تَحُوزُ ثَلَاثَةَ مَوَارِيثَ عَتِيقَہَا وَلَقِيطَہَا وَوَلَدَہَا الَّذِي لَاعَنَتْ عَلَيْہِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عورت تین قسم کی میراث اکٹھا کرتی ہے: اپنے آزاد کیے ہوئے غلام کی میراث،اس لڑکے کی میراث جسے راستے سے اٹھا کر اس کی پرورش کی ہو،اور اس لڑکے کی میراث جس کو لعان کرکے اپنے ساتھ لے گئی ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث اس سند سے صرف محمد بن حرب کی روایت سے معروف ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَی دِينِكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ آمَنَّا بِكَ وَبِمَا جِئْتَ بِہِ فَہَلْ تَخَافُ عَلَيْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللہِ يُقَلِّبُہَا كَيْفَ يَشَاءُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَائِشَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أَنَسٍ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أَنَسٍ أَصَحُّ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھتے تھے یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک اے دلوں کے الٹنے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لے آئے کیا آپ کو ہمارے سلسلے میں اندیشہ رہتاہے؟آپ نے فرمایا: ہاں،لوگوں کے دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا چاہتاہے انہیں الٹتا پلٹتا رہتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-کئی لوگوں نے اسی طرح عن الأعمش عن أبی سفیان عن أنس کی سند سے روایت کی ہے۔بعض لوگوں نے عن الأعمش عن أبی سفیان عن جابر عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،لیکن ابوسفیان کی حدیث جو انس سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں نواس بن سمعان،ام سلمہ،عبداللہ بن عمرو اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِہِ وَشَرِّہِ حَتَّی يَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَہُ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَہُ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَہُ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُبَادَةَ وَجَابِرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَيْمُونٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مَيْمُونٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اچھی اوربری تقدیر پر ایمان لے آئے،اور یہ یقین کرلے کہ جو کچھ اسے لاحق ہو ا ہے چوکنے والانہ تھا اور جوکچھ چوک گیا ہے اسے لاحق ہونے والانہ تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف عبداللہ بن میمون کی روایت سے جانتے ہیں،۲-عبداللہ بن میمون منکرحدیث ہیں،۳-اس باب میں عبادہ،جابر اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

قال الألباني في السلسلة الصحيحة 5 / 566: أخرجہ الترمذي (2 / 21) و ابن عدي في الكامل (217 / 1) عن عبد اللہ بن ميمون عن جعفر بن محمد عن أبيہ عن جابر بن عبد اللہ مرفوعا . و قال الترمذي : حديث غريب،لا نعرفہ إلا من حديث عبد اللہ بن ميمون،و ہو منكر الحديث . قلت: لكن الحديث صحيح،فإنہ جاء مفرقا في أحاديث: الأول: عن عمرو بن شعيب عن أبيہ عن جدہ مرفوعا إلی قولہ: خيرہ و شرہ . أخرجہ الآجري في الشريعة (ص 188) و أبو الحسن القزويني في مجلس من الأمالي (198 / 1) و اللالكائي في السنة (1 / 141 / 2) و أبو سعد الجنزروذي في العاشر من أحاديث ہشام بن عمار (5 / 2) من طرق عنہ . قلت: و ہذا إسناد حسن . الثاني: عن عكرمة بن عمار عن شداد عن ابن عمر مرفوعا بہ نحوہ . أخرجہ اللالكائي . الثالث: عن إسماعيل بن أبي الحكم الثقفي قال: حدثني ابن أبي حازم عن أبيہ عن سہل بن سعد الساعدي مرفوعا بہ . أخرجہ اللالكائي أيضا،و الطبراني في الكبير (6 / 212 / 5900) . و قال الہيثمي (7 / 206): و إسماعيل بن أبي الحكم الثقفي لم أعرفہ،و بقية رجالہ ثقات . و تعقبہ الشيخ حمدي السلفي بأنہ-أعني الہيثمي-قد قال في الثقفي ہذا في حديث آخر (4 / 80): وثقہ أبو حاتم،و لم يتكلم فيہ أحد . و أقول: لم يوثقہ أبو حاتم،فقد قال ابنہ في الجرح (1 / 1 / 165): روی عنہ أبو زرعة،سئل أبي عنہ؟ فقال : شيخ . و ہذہ اللفظة: شيخ ،لا تعني أنہ ثقة،و إنما يستشہد بہ كما نص ابنہ في كتابہ (1 / 37) . نعم،رواية أبي زرعة عنہ توثيق لہ كما ہو معلوم . فالإسناد حسن إن شاء اللہ تعالی . الرابع: من طريقين عن أنس بن مالك مرفوعا بہ . أخرجہ ابن عساكر في التاريخ (2 / 60 / 2 و 11 / 38 / 1) . الخامس: عن الوليد بن عبادة عن أبيہ عبادة بن الصامت في حديث: و لن تؤمن باللہ حتی تؤمن بالقدر خيرہ و شرہ،و تعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك و ما أخطأك لم يكن ليصيبك،سمعت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم يقول: القدر علی ہذا من مات علی غير ہذا دخل النار . أخرجہ الآجري و كذا أحمد و ابن أبي عاصم و ہو حديث صحيح كما حققتہ في تخريج السنة لابن أبي عاصم (رقم 111) . السادس و السابع و الثامن و التاسع: عن أبي بن كعب و عبد اللہ بن مسعود و حذيفة بن اليمان و زيد بن ثابت مرفوعا في حديث لہم في القدر: و لو أنفقت مثل أحد ذہبا في سبيل اللہ ما قبلہ اللہ منك حتی تؤمن بالقدر،و تعلم أن ما أصابك ... الحديث،و فيہ: و لو مت علی غير ہذا لدخلت النار . و إسنادہ صحيح، أخرجہ جماعة من أصحاب السنن و المسانيد و غيرہم،و ہو مخرج في المشكاة ( 115)،و تخريج السنة (245) . العاشر: عن أنس مرفوعا: لا يجد عبد حلاوة الإيمان حتی يعلم أن ما أصابہ ... الحديث . أخرجہ ابن أبي عاصم (247) بإسناد حسن عنہ .

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کوئی بندہ چار چیزوں پر ایمان لائے بغیرمومن نہیں ہوسکتا: (۱) گواہی دے کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں اور میں اللہ کارسول ہوں،اس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجاہے،(۲) موت پر ایمان لائے،(۳) مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لائے،(۴) تقدیر پرایمان لائے۔اس سند سے بھی علی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،مگر اس میں سندیوں بیان کیا ہے ربعی عن رجل ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوداود کی شعبہ سے مروی حدیث میرے نزدیک نضر کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،اسی طرح کئی لوگوں نے عن منصور،عن ربعی،عن علی کی سند سے روایت کی ہے،۲-وکیع کہتے ہیں: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ ربعی بن خراش نے اسلام میں ایک بار بھی جھوٹ نہیں بولاہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَأْخُذْ أَحَدُكُمْ عَصَا أَخِيہِ لَاعِبًا أَوْ جَادًّا فَمَنْ أَخَذَ عَصَا أَخِيہِ فَلْيَرُدَّہَا إِلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدَ وَجَعْدَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ لَہُ صُحْبَةٌ قَدْ سَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ وَہُوَ غُلَامٌ وَقُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ وَہُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ وَوَالِدُہُ يَزِيدُ بْنُ السَّائِبِ لَہُ أَحَادِيثُ ہُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالسَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ ہُوَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ

یزید بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں سے کوئی شخص کھیل کود میں ہو یا سنجیدگی میں اپنے بھائی کی لاٹھی نہ لے اور جو اپنے بھائی کی لاٹھی لے،تو وہ اسے واپس کردے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-سائب بن یزید کوشرف صحبت حاصل ہے بچپن میں انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کئی حدیثیں سنی ہیں،نبی اکرم ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمرسات سال تھی،ان کے والد یزید بن سائب ۱؎ کی بہت ساری حدیثیں ہیں،وہ نبی اکرمﷺ کے اصحاب میں سے ہیں،اور نبی اکرم ﷺ سے حدیثیں روایت کی ہیں،سائب بن یزید نمرکے بہن کے بیٹے ہیں،۳-اس باب میں ابن عمر،سلیمان بن صرد،جعدہ،اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ حَجَّ يَزِيدُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ حَجَّةَ الْوَدَاعِ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ثَبْتًا صَاحِبَ حَدِيثٍ وَكَانَ السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ جَدَّہُ وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ يَقُولُ حَدَّثَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ وَہُوَ جَدِّي مِنْ قِبَلِ أُمِّي

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کے ساتھ (میرے والد)یزید رضی اللہ عنہ نے حجۃ الوداع کیا،اس وقت میں سات سال کا تھا۔ یحیی بن سعیدقطان کہتے ہیں: محمد بن یوسف ثبت اورصاحب حدیث ہیں،سائب بن یزید ان کے ناناتھے،محمد بن یوسف کہتے تھے: مجھ سے سائب بن یزید نے حدیث بیان کی ہے،اوروہ میرے ناناہیں۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مَعْدِيُّ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فَہُوَ فِي ذِمَّةِ اللہِ فَلَا يُتْبِعَنَّكُمْ اللہُ بِشَيْءٍ مِنْ ذِمَّتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ جُنْدَبٍ وَابْنِ عُمَرَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے فجرپڑھ لی وہ اللہ کی پناہ میں ہے،پھر (اس بات کا خیال رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے درپے نہ ہوجائے اس کی پناہ توڑنے کی وجہ سے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں جندب اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَی حُدُودِ اللہِ وَالْمُدْہِنِ فِيہَا كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَہَمُوا عَلَی سَفِينَةٍ فِي الْبَحْرِ فَأَصَابَ بَعْضُہُمْ أَعْلَاہَا وَأَصَابَ بَعْضُہُمْ أَسْفَلَہَا فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِہَا يَصْعَدُونَ فَيَسْتَقُونَ الْمَاءَ فَيَصُبُّونَ عَلَی الَّذِينَ فِي أَعْلَاہَا فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَعْلَاہَا لَا نَدَعُكُمْ تَصْعَدُونَ فَتُؤْذُونَنَا فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِہَا فَإِنَّا نَنْقُبُہَا مِنْ أَسْفَلِہَا فَنَسْتَقِي فَإِنْ أَخَذُوا عَلَی أَيْدِيہِمْ فَمَنَعُوہُمْ نَجَوْا جَمِيعًا وَإِنْ تَرَكُوہُمْ غَرِقُوا جَمِيعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کے حدودپر قائم رہنے والے (یعنی اس کے احکام کی پابندی کرنے والے) اور اس کی مخالفت کرنے والوں کی مثال اس قوم کی طرح ہے،جوقرعہ اندازی کے ذریعہ ایک کشتی میں سوار ہوئی،بعض لوگوں کو کشتی کے بالائی طبقہ میں جگہ ملی اوربعض لوگوں کو نچلے حصہ میں،نچلے طبقہ والے اوپر چڑھ کر پانی لیتے تھے تو بالائی طبقہ والوں پر پانی گرجاتا تھا،لہذا بالائی حصہ والوں نے کہا: ہم تمہیں اوپرنہیں چڑھنے دیں گے تاکہ ہمیں تکلیف پہنچاؤ(یہ سن کر)نچلے حصہ والوں نے کہا: ہم کشتی کے نیچے سوراخ کرکے پانی لیں گے،اب اگر بالائی طبقہ والے ان کے ہاتھ پکڑکر روکیں گے تو تمام نجات پاجائیں گے اوراگر انہیں ایسا کرنے سے منع نہیں کریں گے تو تمام کے تمام ڈوب جائیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَی الْقَزَّازُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمًا صَلَاةَ الْعَصْرِ بِنَہَارٍ ثُمَّ قَامَ خَطِيبًا فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا يَكُونُ إِلَی قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا أَخْبَرَنَا بِہِ حَفِظَہُ مَنْ حَفِظَہُ وَنَسِيَہُ مَنْ نَسِيَہُ وَكَانَ فِيمَا قَالَ إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللہَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيہَا فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ وَكَانَ فِيمَا قَالَ أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا ہَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَہُ قَالَ فَبَكَی أَبُو سَعِيدٍ فَقَالَ قَدْ وَاللہِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَہِبْنَا فَكَانَ فِيمَا قَالَ أَلَا إِنَّہُ يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ غَدْرَتِہِ وَلَا غَدْرَةَ أَعْظَمُ مِنْ غَدْرَةِ إِمَامِ عَامَّةٍ يُرْكَزُ لِوَاؤُہُ عِنْدَ اسْتِہِ فَكَانَ فِيمَا حَفِظْنَا يَوْمَئِذٍ أَلَا إِنَّ بَنِي آدَمَ خُلِقُوا عَلَی طَبَقَاتٍ شَتَّی فَمِنْہُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا وَمِنْہُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ كَافِرًا وَمِنْہُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ كَافِرًا وَمِنْہُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا أَلَا وَإِنَّ مِنْہُمْ الْبَطِيءَ الْغَضَبِ سَرِيعَ الْفَيْءِ وَمِنْہُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ أَلَا وَإِنَّ مِنْہُمْ سَرِيعَ الْغَضَبِ بَطِيءَ الْفَيْءِ أَلَا وَخَيْرُہُمْ بَطِيءُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ أَلَا وَشَرُّہُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ بَطِيءُ الْفَيْءِ أَلَا وَإِنَّ مِنْہُمْ حَسَنَ الْقَضَاءِ حَسَنَ الطَّلَبِ وَمِنْہُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ حَسَنُ الطَّلَبِ وَمِنْہُمْ حَسَنُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ أَلَا وَإِنَّ مِنْہُمْ السَّيِّئَ الْقَضَاءِ السَّيِّئَ الطَّلَبِ أَلَا وَخَيْرُہُمْ الْحَسَنُ الْقَضَاءِ الْحَسَنُ الطَّلَبِ أَلَا وَشَرُّہُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ أَلَا وَإِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَی حُمْرَةِ عَيْنَيْہِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِہِ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَلْصَقْ بِالْأَرْضِ قَالَ وَجَعَلْنَا نَلْتَفِتُ إِلَی الشَّمْسِ ہَلْ بَقِيَ مِنْہَا شَيْءٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَا إِنَّہُ لَمْ يَبْقَ مِنْ الدُّنْيَا فِيمَا مَضَی مِنْہَا إِلَّا كَمَا بَقِيَ مِنْ يَوْمِكُمْ ہَذَا فِيمَا مَضَی مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ وَأَبِي مَرْيَمَ وَأَبِي زَيْدِ بْنِ أَخْطَبَ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَذَكَرُوا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ حَدَّثَہُمْ بِمَا ہُوَ كَائِنٌ إِلَی أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہﷺنے ہمیں عصرکچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے،اورآپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی،یادرکھنے والوں نے اسے یادرکھا اوربھولنے والے بھول گئے،آپ نے جوباتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: دنیا میٹھی اور سرسبزہے،اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ۱؎،پھر دیکھے گاکہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار!دنیاسے اورعورتوں سے بچ کے رہو ۲؎،آپ نے یہ بھی فرمایا: خبردار! حق جان لینے کے بعد کسی آدمی کو لوگوں کا خوف اسے بیان کرنے سے نہ روک دے،ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے کہا:اللہ کی قسم! ہم نے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں اور(بیان کرنے سے) ڈرگئے آپ نے یہ بھی بیان فرمایا: خبردار! قیامت کے دن ہر عہد توڑنے والے کے لیے اس کے عہد توڑنے کے مطابق ایک جھنڈا ہو گا اور امام عام کے عہد توڑنے سے بڑھ کر کوئی عہد توڑنا نہیں،اس عہد کے توڑنے والے کا جھنڈااس کے سرین کے پاس نصب کیاجائے گا،اس دن کی جو باتیں ہمیں یاد رہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی: جان لو! انسان مختلف درجہ کے پیداکیے گئے ہیں کچھ لوگ پیدائشی مومن ہوتے ہیں،مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اورایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتے ہیں،کچھ لوگ کافرپیداہوتے ہیں،کافربن کرزندگی گزارتے ہیں اورکفر کی حالت میں مرتے ہیں،کچھ لوگ مومن پیداہوتے ہیں،مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اورکفرکی حالت میں ان کی موت آتی ہے،کچھ لو گ کافرپیداہو تے ہیں،کافربن کرزندہ رہتے ہیں،اورایمان کی حالت میں ان کی موت آتی ہے،کچھ لوگوں کو غصہ دیرسے آتا ہے اورجلد ٹھنڈاہوجاتا ہے،کچھ لوگوں کوغصہ جلدآتا ہے اوردیر سے ٹھنڈاہوتا ہے،یہ دونوں برابرہیں،جان لو! کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں جلدغصہ آتا ہے اوردیرسے ٹھنڈاہوتا ہے،جان لو! ان میں سب سے بہتروہ ہیں جودیرسے غصہ ہوتے ہیں اورجلد ٹھنڈے ہوجاتے ہیں،اورسب سے برے وہ ہیں جو جلد غصہ ہوتے ہیں اوردیر سے ٹھنڈے ہوتے ہیں،جان لو! کچھ لوگ اچھے ڈھنگ سے قرض اداکرتے ہیں اوراچھے ڈھنگ سے قرض وصول کرتے ہیں،کچھ لوگ بدسلوکی سے قرض اداکرتے ہیں،اوربدسلوکی سے وصول کرتے ہیں،جان لو! ان میں سب سے اچھاوہ ہے جو اچھے ڈھنگ سے قرض اداکرتاہے اوراچھے ڈھنگ سے وصول کرتا ہے،اورسب سے براوہ ہے جوبرے ڈھنگ سے اداکرتا ہے،اوربدسلوکی سے وصول کرتاہے،جان لو! غصہ انسان کے دل میں ایک چنگاری ہے کیا تم غصہ ہو نے والے کی آنکھوں کی سرخی اوراس کی گردن کی رگوں کو پھولتے ہوئے نہیں دیکھتے ہو؟ لہذا جس شخص کو غصہ کا احساس ہو وہ زمین سے چپک جائے ،ابوسعیدخدری کہتے ہیں: ہم لوگ سورج کی طرف مڑکر دیکھنے لگے کہ کیا ابھی ڈوبنے میں کچھ باقی ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جان لو! دنیاکے گزرے ہوئے حصہ کی بہ نسبت اب جو حصہ باقی ہے وہ اتناہی ہے جتنا حصہ آج کا تمہارے گزرے ہوئے دن کی بہ نسبت باقی ہے ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں حذیفہ،ابومریم،ابوزیدبن اخطب اورمغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،ان لوگوں نے بیان کیاکہ نبی اکرمﷺ نے ان سے قیامت تک ہونے والی چیزوں کو بیان فرمایا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ عِنْدَ فِتْنَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَشْہَدُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّہَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ الْقَاعِدُ فِيہَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ خَيْرٌ مِنْ الْمَاشِي وَالْمَاشِي خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي قَالَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي وَبَسَطَ يَدَہُ إِلَيَّ لِيَقْتُلَنِي قَالَ كُنْ كَابْنِ آدَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَخَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ وَأَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي وَاقِدٍ وَأَبِي مُوسَی وَخَرَشَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَزَادَ فِي ہَذَا الْإِسْنَادِ رَجُلًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

بسربن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں ہونے والے فتنہ کے وقت کہا: میں گواہی دیتاہوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عنقریب ایک ایسافتنہ ہوگا جس میں بیٹھنے والا کھڑا ہونے والے سے بہترہوگا،کھڑاہونے والا چلنے والے سے بہترہوگا اورچلنے والادوڑنے والے سے بہترہوگا،میں نے عرض کیا: آپ بتائیے اگرکوئی میرے گھر میں گھس آئے اورقتل کرنے کے لیے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھائے تو میں کیاکروں؟ آپ نے فرمایا: آدم کے بیٹے (ہابیل) کی طرح ہوجانا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض لوگوں نے اسے لیث بن سعدسے روایت کرتے ہوے سندمیں رجلا (ایک آدمی) کااضافہ کیا ہے،۳-سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت سے نبی اکرمﷺ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے،۴-اس باب میں ابوہریرہ،خباب بن ارت،ابوبکرہ،ابن مسعود،ابوواقد،ابوموسیٰ اشعری اورخرشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا الْفَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ أَبُو فَضَالَةَ الشَّامِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا فَعَلَتْ أُمَّتِي خَمْسَ عَشْرَةَ خَصْلَةً حَلَّ بِہَا الْبَلَاءُ فَقِيلَ وَمَا ہُنَّ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِذَا كَانَ الْمَغْنَمُ دُوَلًا وَالْأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا وَأَطَاعَ الرَّجُلُ زَوْجَتَہُ وَعَقَّ أُمَّہُ وَبَرَّ صَدِيقَہُ وَجَفَا أَبَاہُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ وَكَانَ زَعِيمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَہُمْ وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّہِ وَشُرِبَتْ الْخُمُورُ وَلُبِسَ الْحَرِيرُ وَاتُّخِذَتْ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَلَعَنَ آخِرُ ہَذِہِ الْأُمَّةِ أَوَّلَہَا فَلْيَرْتَقِبُوا عِنْدَ ذَلِكَ رِيحًا حَمْرَاءَ أَوْ خَسْفًا وَمَسْخًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاہُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ غَيْرَ الْفَرَجِ بْنِ فَضَالَةَ وَالْفَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ قَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَضَعَّفَہُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَقَدْ رَوَاہُ عَنْہُ وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب میری امت پندرہ چیزیں کر نے لگے تو اس پر مصیبت نازل ہوگی،عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: جب مال غنیمت کودولت،امانت کو غنیمت اور زکاۃ کوتاوان سمجھا جائے،آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے،اور اپنی ماں کی نافرمانی کرے گا،اپنے دوست پر احسان کرے اور اپنے باپ پرظلم کرے،مساجد میں آواز یں بلندہونے لگیں،رذیل آدمی قوم کا لیڈربن جائے گا،شر کے خوف سے آدمی کی عزت کی جائے،شراب پی جائے،ریشم پہناجائے،(گھروں میں) گانے والی لونڈیاں اورباجے رکھے جائیں اوراس امت کے آخرمیں آنے والے پہلے والوں پر لعنت بھیجیں تواس وقت تم سرخ آندھی یا زمین دھنسنے اورصورت تبدیل ہونے کا انتظارکرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف اسی سند سے علی بن ابوطالب کی روایت سے جانتے ہیں،۲-ہم فرج بن فضالہ کے علاوہ دوسرے کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث یحیی بن سعید انصاری سے روایت کی ہواورفرج بن فضالہ کے بارے میں کچھ محدثین نے کلام کیا ہے اوران کے حافظے کیتعلق سے انہیں ضعیف کہا ہے،ان سے وکیع اورکئی ائمہ نے روایت حدیث کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ عَنْ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ رُمَيْحٍ الْجُذَامِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اتُّخِذَ الْفَيْءُ دُوَلًا وَالْأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّينِ وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ وَعَقَّ أُمَّہُ وَأَدْنَی صَدِيقَہُ وَأَقْصَی أَبَاہُ وَظَہَرَتْ الْأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ وَسَادَ الْقَبِيلَةَ فَاسِقُہُمْ وَكَانَ زَعِيمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَہُمْ وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّہِ وَظَہَرَتْ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتْ الْخُمُورُ وَلَعَنَ آخِرُ ہَذِہِ الْأُمَّةِ أَوَّلَہَا فَلْيَرْتَقِبُوا عِنْدَ ذَلِكَ رِيحًا حَمْرَاءَ وَزَلْزَلَةً وَخَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا وَآيَاتٍ تَتَابَعُ كَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْكُہُ فَتَتَابَعَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب مال غنیمت کو دولت،امانت کو مال غنیمت اور زکاۃ کو تاوان سمجھا جائے،دین کی تعلیم کسی دوسرے مقصدسے حاصل کی جائے،آدمی اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے،اوراپنی ماں کی نافرمانی کرے،اپنے دوست کوقریب کرے اور اپنے باپ کو دورکرے گا،مساجد میں آوازیں بلندہونے لگیں،فاسق وفاجر آدمی قبیلہ کا سرداربن جائے،گھٹیا اوررذیل آدمی قوم کا لیڈربن جائے گا،شرکے خوف سے آدمی کی عزت کی جائے گی،گانے والی عورتیں اورباجے عام ہوجائیں،شراب پی جائے اوراس امت کے آخرمیں آنے والے اپنے سے پہلے والوں پر لعنت بھیجیں گے تواس وقت تم سرخ آندھی،زلزلہ،زمین دھنسنے،صورت تبدیل ہونے،پتھر برسنے اورمسلسل ظاہرہونے والی علامتوں کا انتظارکرو،جواس پرانی لڑی کی طرح مسلسل نازل ہوں گی جس کا دھاگہ ٹوٹ گیاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ فِي ہَذِہِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَا رَسُولَ اللہِ وَمَتَی ذَاكَ قَالَ إِذَا ظَہَرَتْ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتْ الْخُمُورُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس امت میں خسف،مسخ اور قذف واقع ہوگا ۱؎،ایک مسلمان نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایساکب ہوگا؟ آپ نے فرمایا: جب ناچنے والیاں اورباجے عام ہوجائیں گے اورشراب خوب پی جائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیثعن الأعمش،عن الرحمن بن سابط،عن النبی ﷺ کی سند سے مرسلاً مروی ہے،۲-یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ لَوْ اسْتَخْلَفْتَ قَالَ إِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدْ اسْتَخْلَفَ أَبُو بَكْرٍ وَإِنْ لَمْ أَسْتَخْلِفْ لَمْ يَسْتَخْلِفْ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: کاش!آپ کسی کو خلیفہ نامزد کردیتے،انہوں نے کہا: اگرمیں کسی کو خلیفہ مقررکروں تو ابوبکرنے خلیفہ مقررکیا ہے اوراگرکسی کو خلیفہ نہ مقرر کروں تو رسول اللہﷺ نے خلیفہ نہیں مقررکیا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث میں ایک قصہ بھی مذکورہے ۲؎،۲-یہ حدیث صحیح ہے،اورکئی سندوں سے ابن عمرسے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْہَانَ قَالَ حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ قَالَ وَخِلَافَةَ عُمَرَ وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ ثُمَّ قَالَ لِي أَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ قَالَ فَوَجَدْنَاہَا ثَلَاثِينَ سَنَةً قَالَ سَعِيدٌ فَقُلْتُ لَہُ إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الْخِلَافَةَ فِيہِمْ قَالَ كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ ہُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ الْمُلُوكِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ قَالَا لَمْ يَعْہَدْ النَّبِيُّ ﷺ فِي الْخِلَافَةِ شَيْئًا وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْہَانَ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُمْہَانَ

سعیدبن جمہان کہتے ہیں کہ ہم سے سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری امت میں تیس سال تک خلافت رہے گی،پھراس کے بعدملوکیت آجائے گی ،پھر مجھ سے سفینہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت،عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت،عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت اورعلی رضی اللہ عنہ کی خلافت،شمارکرو ۱؎،راوی حشرج بن نباتہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے تیس سال پایا،سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ رضی اللہ عنہ سے کہا: بنوامیہ یہ سمجھتے ہیں کہ خلافت ان میں ہے؟ کہا: بنوزرقاء جھوٹ اورغلط کہتے ہیں،بلکہ ان کا شمار تو بدترین بادشاہوں میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-کئی لوگوں نے یہ حدیث سعید بن جمہان سے روایت کی ہے،ہم اسے صرف سعید بن جمہان ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں عمراورعلی رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے خلافت کے بارے میں کسی چیز کی وصیت نہیں فرمائی۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّمَا أَخَافُ عَلَی أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَی الْحَقِّ ظَاہِرِينَ لَا يَضُرُّہُمْ مَنْ يَخْذُلُہُمْ حَتَّی يَأْتِيَ أَمْرُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ وَذَكَرَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاہِرِينَ عَلَی الْحَقِّ فَقَالَ عَلِيٌّ ہُمْ أَہْلُ الْحَدِيثِ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں اپنی امت پر گمراہ کن اماموں (حاکموں) سے ڈرتاہوں ۱؎،نیزفرمایا: میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پرغالب رہے گی،ان کی مددنہ کرنے والے انہیں کو ئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ میں نے علی بن مدینی کوکہتے سنا کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کی یہ حدیث میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پرغالب رہے گی ذکرکی اور کہا: وہ اہل حدیث ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا وَمَنْ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ وَمَنْ أَتَی أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتَنَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبَي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس نے بادیہ(صحراء وبیابان) کی سکونت اختیار کی وہ سخت طبیعت والاہوگیا،جس نے شکارکاپیچھاکیاوہ غافل ہوگیا اورجوبادشاہ کے دروازے پر آیا وہ فتنوں کا شکارہوگیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔ وضاحت ۱؎: معلوم ہواکہ صحراء وبیابان کی سکونت اختیار کرنے والا اگر جمعہ و جماعت میں حاضر نہیں ہوتاہے اور علماء کی مجالس سے دوررہتاہے تو ایسا شخص تمدن وتہذیب سے دور،سخت طبیعت والاہوگا،اسی طرح جو لہو و لعب کی غرض سے شکار کا عادی ہوا وہ غفلت میں مبتلا ہوجائے گا،البتہ جو رزق کی خاطر شکار کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ عمل اس کے لیے جائز ہے۔کیوں کہ بعض صحابہ کرام نے بھی یہ عمل اپنا یا ہے،باد شاہوں کے دربار میں حاضری دینے والا اگر مداہنت سے کام لیتاہے تو فتنہ میں پڑ جائے گا،البتہ جو بادشاہوں کے پاس رہ کر انہیں نصیحت کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے تو یہ اس کے لیے افضل جہاد ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَاصِمٍ الْعَدَوِيِّ عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَنَحْنُ تِسْعَةٌ خَمْسَةٌ وَأَرْبَعَةٌ أَحَدُ الْعَدَدَيْنِ مِنْ الْعَرَبِ وَالْآخَرُ مِنْ الْعَجَمِ فَقَالَ اسْمَعُوا ہَلْ سَمِعْتُمْ أَنَّہُ سَيَكُونُ بَعْدِي أُمَرَاءُ فَمَنْ دَخَلَ عَلَيْہِمْ فَصَدَّقَہُمْ بِكَذِبِہِمْ وَأَعَانَہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْہُ وَلَيْسَ بِوَارِدٍ عَلَيَّ الْحَوْضَ وَمَنْ لَمْ يَدْخُلْ عَلَيْہِمْ وَلَمْ يُعِنْہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ وَلَمْ يُصَدِّقْہُمْ بِكَذِبِہِمْ فَہُوَ مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ وَہُوَ وَارِدٌ عَلَيَّ الْحَوْضَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ مِسْعَرٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ ہَارُونُ فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَاصِمٍ الْعَدَوِيِّ عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ ہَارُونُ وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ وَلَيْسَ بِالنَّخَعِيِّ عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مِسْعَرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ وَابْنِ عُمَرَ

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ہماری طرف نکلے اورہم لوگ نوآدمیتھے،پانچ اورچار،ان میں سے کوئی ایک گنتی والے عرب اوردوسری گنتی والے عجم تھے ۱؎ آپ نے فرمایا: سنو: کیا تم لوگوں نے سنا؟ میرے بعدایسے امراء ہوں گے جوان کے پاس جائے ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کرے اوران کے ظلم پر ان کی مدد کرے،وہ مجھ سے نہیں ہے اور نہ میں اس سے ہوں اورنہ وہ میرے حوض پر آئے گا،اورجوشخص ان کے پاس نہ جائے،ان کے ظلم پر ان کی مدد نہ کرے اورنہ ان کی جھوٹی باتوں کی تصدیق کر ے،وہ مجھ سے ہے،اور میں اس سے ہوں اوروہ میرے حوض پر آئے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح غریب ہے،۲-ہم اسے مسعرکی روایت سے اسی سند سے جانتے ہیں۔ہارون کہتے ہیں: ہم سے محمدبن عبدالوہاب نے عن سفیان،عن أبی حصین،عن الشعبی،عن عاصم العدوی،عن کعب بن عجرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی ہے۔ہارون کہتے ہیں: ہم سے محمد نے عن سفیان عن زبید عن إبراہیم،عن کعب بن عجرۃ عن النبی ﷺ کی سند سے مسعرکی حدیث جیسی حدیث بیان کی ہے،اور ابراہیم سے مراد ابراہیم نخعی نہیں ہیں۔اس باب میں حذیفہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ عَصَمَنِي اللہُ بِشَيْءٍ سَمِعْتُہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَمَّا ہَلَكَ كِسْرَی قَالَ مَنْ اسْتَخْلَفُوا قَالُوا ابْنَتَہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَہُمْ امْرَأَةً قَالَ فَلَمَّا قَدِمَتْ عَائِشَةُ يَعْنِي الْبَصْرَةَ ذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَعَصَمَنِي اللہُ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک چیز سے بچالیا جسے میں نے رسول اللہﷺ سے سن رکھا تھا،جب کسریٰ ہلاک ہوگیا تو آپ نے پوچھا: ان لوگوں نے کسے خلیفہ بنایاہے؟ صحابہ نے کہا: اس کی لڑکی کو،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: وہ قوم ہرگزکامیاب نہیں ہوسکتی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنایا،جب عائشہ رضی اللہ عنہا آئیں یعنی بصرہ کی طرف تو اس وقت میں نے رسول اللہﷺ کی یہ حدیث یاد کی ۱؎،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بچالیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ مَنْ رَأَی مِنْكُمْ رُؤْيَا فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا رَأَيْتُ كَأَنَّ مِيزَانًا نَزَلَ مِنْ السَّمَاءِ فَوُزِنْتَ أَنْتَ وَأَبُو بَكْرٍ فَرَجَحْتَ أَنْتَ بِأَبِي بَكْرٍ وَوُزِنَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ وَوُزِنَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَحَ عُمَرُ ثُمَّ رُفِعَ الْمِيزَانُ فَرَأَيْنَا الْكَرَاہِيَةَ فِي وَجْہِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک دن فرمایا: تم میں سے کس نے خواب دیکھاہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں نے دیکھاکہ آسمان سے ایک ترازواترا،آپ اورابوبکرتولے گئے تو آپ ابوبکرسے بھاری نکلے،ابوبکر اورعمرتولے گئے،تو ابوبکربھاری نکلے،عمراورعثمان تولے گئے تو عمربھاری نکلے پھر ترازواٹھالیا گیا،ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ﷺکے چہرے پر ناگواری کے آثاردیکھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ وَرَقَةَ فَقَالَتْ لَہُ خَدِيجَةُ إِنَّہُ كَانَ صَدَّقَكَ وَلَكِنَّہُ مَاتَ قَبْلَ أَنْ تَظْہَرَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أُرِيتُہُ فِي الْمَنَامِ وَعَلَيْہِ ثِيَابٌ بَيَاضٌ وَلَوْ كَانَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ لَكَانَ عَلَيْہِ لِبَاسٌ غَيْرُ ذَلِكَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَيْسَ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ بِالْقَوِيِّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ سے ورقہ (بن نوفل) کے بارے میں پوچھا گیا تو خدیجہ نے کہا: انہوں نے رسول اللہﷺکی تصدیق کی تھی مگروہ آپ کی نبوت کے ظہورسے پہلے وفات پاگئے،یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے خواب میں انہیں دکھایاگیاہے،اس وقت ان کے جسم پر سفید کپڑے تھے،اگروہ جہنمی ہوتے تو ان کے جسم پرکوئی دوسرا لباس ہوتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-محدثین کے نزدیک عثمان بن عبدالرحمٰن قوی نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ رُؤْيَا النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ قَالَ: ((رَأَيْتُ النَّاسَ اجْتَمَعُوا فَنَزَعَ أَبُو بَكْرٍ ذَنُوبًا أَوْ ذَنُوبَيْنِ فِيہِ ضَعْفٌ وَاللہُ يَغْفِرُ لَہُ،ثُمَّ قَامَ عُمَرُ فَنَزَعَ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًّا يَفْرِي فَرْيَہُ حَتَّی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ)). وَفِي البَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ ((وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ))

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نبی اکرمﷺ کے اس خواب کے بار ے میں مروی ہے جس میں آپ نے ابوبکر اور عمرکودیکھا،آپ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ لوگ (ایک کنویں پر) جمع ہوگئے ہیں،پھر ابوبکرنے ایک یادوڈول کھینچے اوران کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ ان کی مغفرت کرے،پھر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوے اورانہوں نے ڈول کھینچا تو وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا،میں نے کسی مضبوط اورطاقت ورشخص کو نہیں دیکھا جس نے ایساکام کیا ہو،یہاں تک کہ لوگوں نے اپنی آرام گاہوں میں جگہ پکڑی (یعنی سب آسودہ ہوگئے ۱ ؎)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ،عَنْ رُؤْيَا النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((رَأَيْتُ امْرَأَةً سَوْدَاءَ ثَائِرَةَ الرَّأْسِ خَرَجَتْ مِنَ المَدِينَةِ حَتَّی قَامَتْ بِمَہْيَعَةَ وَہِيَ الجُحْفَةُ وَأَوَّلْتُہَا وَبَاءَ المَدِينَةِ يُنْقَلُ إِلَی الجُحْفَةِ)). ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ))

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرمﷺ کے خواب کے بارے میں روایت ہے،آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے پراگندہ بالوں والی ایک کالی عورت کو دیکھا جو مدینہ سے نکلی اورمہیعہ میں ٹھہرگئی (مہیعہ،جحفہ کا دوسرانام ہے)،میں نے اس کی تعبیریہ کی کہ وہ مدینہ کی (بخاروالی) وباہے جو جحفہ چلی جائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ أَيُّوبَ،عَنْ ابْنِ سِيرِينَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((فِي آخِرِ الزَّمَانِ لَا تَكَادُ رُؤْيَا المُؤْمِنِ تَكْذِبُ وَأَصْدَقُہُمْ رُؤْيَا [ص:542] أَصْدَقُہُمْ حَدِيثًا،وَالرُّؤْيَا ثَلَاثٌ،الحَسَنَةُ بُشْرَی مِنَ اللہِ،وَالرُّؤْيَا يُحَدِّثُ الرَّجُلُ بِہَا نَفْسَہُ،وَالرُّؤْيَا تَحْزِينٌ مِنَ الشَّيْطَانِ،فَإِذَا رَأَی أَحَدُكُمْ رُؤْيَا يَكْرَہُہَا فَلَا يُحَدِّثْ بِہَا أَحَدًا وَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ)) قَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ: ((يُعْجِبُنِي القَيْدُ وَأَكْرَہُ الغُلَّ)). القَيْدُ: ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: آخروقت میں مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے،اورخواب ان لوگوں کاسچاہوگا جن کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی،خواب تین قسم کے ہوتے ہیں: اچھے خواب جواللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں،وہ خواب جسے انسان دل میں سوچتارہتا ہے،اوروہ خواب جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور غم کاسبب ہوتا ہے،لہذاجب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خوب دیکھے تواسے کسی سے بیان نہ کرے،اسے چاہئے کہ اٹھ کر صلاۃ پڑھے،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں خواب میں قیددیکھنااچھاسمجھتاہوں اوربیڑی دیکھنا برا سمجھتا ہوں،قیدکی تعبیرثابت قدمی ہے،ابوہریرہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مومن کاخواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سے یہ حدیث مرفوعاً روایت کی ہے اورحماد بن زیدنے ایوب سے اسے موقوفاًروایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الجَوْہَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ،عَنْ شُعَيْبٍ وَہُوَ ابْنُ أَبِي حَمْزَةَ،عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ وَہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ،عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: رَأَيْتُ فِي المَنَامِ كَأَنَّ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَہَبٍ فَہَمَّنِي شَأْنُہُمَا فَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنْ أَنْفُخَہُمَا فَنَفَخْتُہُمَا فَطَارَا فَأَوَّلْتُہُمَا كَاذِبَيْنِ يَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِي يُقَالُ لِأَحَدِہِمَا: مَسْلَمَةُ صَاحِبُ الْيَمَامَةِ وَالْعَنْسِيُّ صَاحِبُ صَنْعَاءَ ((.)) ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھاکہ میرے ہاتھ میں سونے کے دوکنگن ہیں،ان کے حال نے مجھے غم میں ڈال دیا،پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان پر پھونکوں،لہذا میں نے پھونکاتو وہ دونوں اڑگئے،میں نے ان دونوں کنگنوں کی تعبیر (نبوت کا دعوی کرنے والے) دوجھوٹوں سے کی جو میرے بعدنکلیں گے: ایک کانام مسیلمہ ہوگا جویمامہ کارہنے والا ہوگا اوردوسرے کانام عنسی ہوگا،جو صنعاء کارہنے والا ہوگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ: كَانَ أَبُو ہُرَيْرَةَ،يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ ظُلَّةً يَنْطِفُ مِنْہَا السَّمْنُ وَالعَسَلُ وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَسْتَقُونَ بِأَيْدِيہِمْ فَالمُسْتَكْثِرُ وَالمُسْتَقِلُّ وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلًا مِنَ السَّمَاءِ إِلَی الأَرْضِ [ص:543] وَأَرَاكَ يَا رَسُولَ اللہِ أَخَذْتَ بِہِ فَعَلَوْتَ ثُمَّ أَخَذَ بِہِ رَجُلٌ بَعْدَكَ فَعَلَا ثُمَّ أَخَذَ بِہِ رَجُلٌ بَعْدَہُ فَعَلَا،ثُمَّ أَخَذَ بِہِ رَجُلٌ فَقُطِعَ بِہِ،ثُمَّ وُصِلَ لَہُ فَعَلَا بِہِ،فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَيْ رَسُولَ اللہِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي وَاللہِ لَتَدَعَنِّي أَعْبُرُہَا فَقَالَ: ((اعْبُرْہَا))،فَقَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَظُلَّةُ الإِسْلَامِ،وَأَمَّا مَا يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالعَسَلِ فَہُوَ القُرْآنُ لِينُہُ وَحَلَاوَتُہُ،وَأَمَّا المُسْتَكْثِرُ وَالمُسْتَقِلُّ فَہُوَ المُسْتَكْثِرُ مِنَ القُرْآنِ وَالمُسْتَقِلُّ مِنْہُ،وَأَمَّا السَّبَبُ الوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَی الأَرْضِ فَہُوَ الحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْہِ فَأَخَذْتَ بِہِ فَيُعْلِيكَ اللہُ ثُمَّ يَأْخُذُ بِہِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِہِ ثُمَّ يَأْخُذُ بَعْدَہُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِہِ ثُمَّ يَأْخُذُ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِہِ ثُمَّ يُوصَلُ لَہُ فَيَعْلُو،أَيْ رَسُولَ اللہِ لَتُحَدِّثَنِّي أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ((أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا))،قَالَ: أَقْسَمْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَتُخْبِرَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ((لَا تُقْسِمْ)). ((ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ))

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے: ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرکہا: میں نے رات کوخواب میں بادل کا ایک ٹکڑادیکھا جس سے گھی اورشہد ٹپک رہا تھا،اورلوگوں کو میں نے دیکھا وہ اپنے ہاتھوں میں لے کراسے پی رہے ہیں،کسی نے زیادہ پیااورکسی نے کم،اورمیں نے ایک رسی دیکھی جو آسمان سے زمین تک لٹک رہی تھی،اللہ کے رسول! اورمیں نے آپ کو دیکھاکہ آپ وہ رسی پکڑکراوپر چلے گئے،پھر آپ کے بعد ایک اورشخص اسے پکڑکر اوپر چلاگیا،پھر اس کے بعد ایک اورشخص نے پکڑاوروہ بھی اوپرچلاگیا،پھر اسے ایک اورآدمی نے پکڑاتورسی ٹوٹ گئی،پھروہ جوڑدی گئی تو وہ بھی اوپر چلا گیا،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول!-میرے باپ ماں آپ پر قربان ہوں-اللہ کی قسم! مجھے اس کی تعبیربیان کرنے کی اجازت دیجئے،آپ نے فرمایا: بیان کرو،ابوبکر نے کہا: ابرکے ٹکڑے سے مراداسلام ہے اوراس سے جو گھی اورشہدٹپک رہا تھا وہ قرآن ہے اوراس کی شیرینی اورنرمی مرادہے،زیادہ اورکم پینے والوں سے مراد قرآن حاصل کرنے والے ہیں،اورآسمان سے زمین تک لٹکنے والی اس رسی سے مرادحق ہے جس پر آپ قائم ہیں،آپ اسے پکڑے ہوئے ہیں پھر اللہ تعالیٰ آپ کو اوپر اٹھالے گا،پھر اس کے بعد ایک اورآدمی پکڑے گا اوروہ بھی پکڑکراوپرچڑھ جائے گا،اس کے بعد ایک اورآدمی پکڑے گا،تو وہ بھی پکڑ کر اوپر چڑھ جائے گا،پھر اس کے بعد ایک تیسراآدمی پکڑے گا تو رسی ٹوٹ جائے گی،پھر اس کے لیے جوڑدی جائے گی اور وہ بھی چڑھ جائے گا،اللہ کے رسول! بتائیے میں نے صحیح بیان کیایاغلط؟نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تم نے کچھ صحیح بیان کیا اور کچھ غلط،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے باپ ماں آپ پر قربان! میں قسم دیتاہوں آپ بتائیے میں نے کیا غلطی کی ہے؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: قسم نہ دلاؤ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ أَبِي رَجَاءٍ،عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ،قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا صَلَّی بِنَا الصُّبْحَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ بِوَجْہِہِ وَقَالَ: ((ہَلْ رَأَی أَحَدٌ مِنْكُمُ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا)). ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی ہَذَا الحَدِيثُ عَنْ عَوْفٍ،وَجَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ،عَنْ أَبِي رَجَاءٍ،عَنْ سَمُرَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قِصَّةٍ طَوِيلَةٍ،)) وَہَكَذَا رَوَی لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،ہَذَا الحَدِيثَ عَنْ وَہْبِ بْنِ جَرِيرٍ،مُخْتَصَرًا

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب ہمیں فجر پڑھاکرفارغ ہوتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اورفرماتے: کیا تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے؟ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث ایک طویل قصے کے ضمن میں عوف اورجریربن حازم سے مروی ہے،جسے یہ دونوں رجاء سے،رجاء سمرہ سے اورسمرہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں ۳-محمدبن بشارنے اسی طرح یہ حدیث وہب بن جریر سے اختصارکے ساتھ روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ الْأَسَدِيِّ عَنْ فَاتِكِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ أَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ خَطِيبًا فَقَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ عَدَلَتْ شَہَادَةُ الزُّورِ إِشْرَاكًا بِاللہِ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنْ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ وَاخْتَلَفُوا فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ زِيَادٍ وَلَا نَعْرِفُ لِأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ سَمَاعًا مِنْ النَّبِيِّ ﷺ

ایمن بن خریم سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوے اورفرمایا: لوگو! جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابرہے،پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (الحج: ۳۰) توبتوں کی گندگی سے بچے رہو (ان کی پرستش نہ کرو) اورجھوٹ بولنے سے بچے رہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف سفیان بن زیاد کی روایت سے جانتے ہیں۔اورلوگوں نے سفیان بن زیادسے اس حدیث کی روایت کرنے میں اختلاف کیا ہے،۳-نیز ہم ایمن بن خریم کا نبی اکرمﷺ سے سماع بھی نہیں جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَہُوَ ابْنُ زِيَادٍ الْعُصْفُرِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ النُّعْمَانِ الْأَسَدِيِّ عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ الْأَسَدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ صَلَّی صَلَاةَ الصُّبْحِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا فَقَالَ عُدِلَتْ شَہَادَةُ الزُّورِ بِالشِّرْكِ بِاللہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ تَلَا ہَذِہِ الْآيَةَ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا عِنْدِي أَصَحُّ وَخُرَيْمُ بْنُ فَاتِكٍ لَہُ صُحْبَةٌ وَقَدْ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ وَہُوَ مَشْہُورٌ

خریم بن فاتک اسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فجرپڑھائی،جب پلٹے تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اورفرمایا: جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے،آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی پھرآپ نے یہ مکمل آیت تلاوت فرمائی وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ۔۔(اورجھوٹی بات سے اجتناب کرو)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے،۲-خریم بن فاتک کو شرف صحابیت حاصل ہے،نبی اکرمﷺ سے انہوں نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں،اورمشہورصحابی ہیں۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ المُفَضَّلِ،عَنْ الجُرَيْرِيِّ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ،عَنْ أَبِيہِ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَكْبَرِ الكَبَائِرِ))؟ قَالُوا: بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ،قَالَ: ((الإِشْرَاكُ بِاللہِ،وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ،وَشَہَادَةُ الزُّورِ أَوْ قَوْلُ الزُّورِ)) قَالَ: ((فَمَا زَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُہَا حَتَّی قُلْنَا لَيْتَہُ سَكَتَ)): ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ)) وَفِي البَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیاتمہیں بڑے بڑے (کبیرہ) گناہوں کے بارے میں نہ بتادوں؟ صحابہ نے عر ض کیا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا،ماں باپ کی نافرمانی کرنااورجھوٹی گواہی دینا یاجھوٹی بات بولنا،ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا: کاش! آپ خاموش ہوجاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ مُوسَی،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((أَكْثِرُوا ذِكْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ)) يَعْنِي الْمَوْتَ وَفِي البَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ: ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ))

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یادکیا کرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب،۲-اس باب میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ بَحِيرٍ،أَنَّہُ سَمِعَ ہَانِئًا،مَوْلَی عُثْمَانَ قَالَ: كَانَ عُثْمَانُ،إِذَا وَقَفَ عَلَی قَبْرٍ بَكَی حَتَّی يَبُلَّ لِحْيَتَہُ،فَقِيلَ لَہُ: تُذْكَرُ الجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ ہَذَا؟ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: ((إِنَّ القَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الآخِرَةِ،فَإِنْ نَجَا مِنْہُ فَمَا بَعْدَہُ أَيْسَرُ مِنْہُ،وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْہُ فَمَا بَعْدَہُ أَشَدُّ مِنْہُ))

ہانی مولی عثمان کہتے ہیں: عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر ستان پرٹھہرتے تو اتناروتے کہ آپ کی داڑھی ترہوجاتی،ان سے کسی نے کہاکہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیاجاتاہے تو نہیں روتے ہیں اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رورہے ہیں؟توکہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے: آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے،سواگر کسی نے قبرکے عذاب سے نجات پائی تواس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے،عثمان رضی اللہ عنہ نے مزید کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:گھبراہٹ اور سختی کے اعتبار سے قبر کی طرح کسی اورمنظر کو نہیں دیکھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اسے ہم صرف ہشام بن یوسف کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ بَشِيرٍ أَبِي إِسْمَعِيلَ عَنْ سَيَّارٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ نَزَلَتْ بِہِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَہَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُہُ وَمَنْ نَزَلَتْ بِہِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَہَا بِاللہِ فَيُوشِكُ اللہُ لَہُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کرکے لوگوں سے بیان کرتاپھرے ۱؎ تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہو گا،اور جو فاقہ کا شکار ہو اوراسے اللہ کے حوالے کرکے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیریاسویر روزی دے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ أَنَّ أَعْرَابِيًّا قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَنْ خَيْرُ النَّاسِ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی عمرلمبی ہو اور عمل نیک ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابی ہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِبَعْضِ جَسَدِي فَقَالَ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَہْلِ الْقُبُورِ فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي يَا عَبْدَ اللہِ مَا اسْمُكَ غَدًا قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

-عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بدن کے بعض حصے کوپکڑکرفرمایا: تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافریا راہ گیر ہو،اور اپناشمار قبروالوں میں کرو۔مجاہد کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا:جب تم صبح کرو توشام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو،اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کرلواس لیے کہ اللہ کے بندے! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہوگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اعمش نے مجاہد سے،مجاہدنے ابن عمر سے اس حدیث کی اسی طرح سے روایت کی ہے۔اس سند سے بھی ابن عمر سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَذَا ابْنُ آدَمَ وَہَذَا أَجَلُہُ وَوَضَعَ يَدَہُ عِنْدَ قَفَاہُ ثُمَّ بَسَطَہَا فَقَالَ وَثَمَّ أَمَلُہُ وَثَمَّ أَمَلُہُ وَثَمَّ أَمَلُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ ابن آدم ہے اور یہ اس کی موت ہے اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی پر رکھا پھر اسے دراز کیا اور فرمایا:یہ اس کی امید ہے،یہ اس کی امید ہے،یہ اس کی امیدہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي السَّفَرِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا فَقَالَ مَا ہَذَا فَقُلْنَا قَدْ وَہَی فَنَحْنُ نُصْلِحُہُ قَالَ مَا أَرَی الْأَمْرَ إِلَّا أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ يُحْمِدَ وَيُقَالُ ابْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسو ل اللہ ﷺہمارے پاس سے گزرے،ہم اپنا چھپرکا مکان درست کررہے تھے،آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ گھر بوسیدہ ہوچکا ہے،لہذا ہم اس کو ٹھیک کررہے ہیں،آپ نے فرمایا: میں تومعاملے(موت) کو اس سے بھی زیادہ قریب دیکھ رہاہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي،عَنْ بَيَانٍ،عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ،قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ،يَقُولُ: ((إِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ أَہْرَاقَ دَمًا فِي سَبِيلِ اللہِ،وَإِنِّي لَأَوَّلُ رَجُلٍ رَمَی بِسَہْمٍ فِي سَبِيلِ اللہِ،وَلَقَدْ رَأَيْتُنِي أَغْزُو فِي العِصَابَةِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ﷺ مَا نَأْكُلُ إِلَّا وَرَقَ الشَّجَرِ وَالحُبْلَةِ،حَتَّی إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ أَوِ البَعِيرُ،وَأَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي فِي الدِّينِ،لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي)): ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ))

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں خون بہایا (یعنی کافر کو قتل کیا) اور میں پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر پھینکا،میں نے اپنے آپ کو محمدﷺ کے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے دیکھا ہے،کھانے کے لیے ہم درختوں کے پتے اور حبلہ(خاردار درخت کے پھل) کے علاوہ اور کچھ نہیں پاتے تھے،یہاں تک کہ ہم لوگ بکریوں اور اونٹوں کی طرح قضائے حاجت میں مینگنیاں نکالتے تھے،اورقبیلہء بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں طعن وتشنیع کرتے ہیں،اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑا ہی محروم ہوں اور میرے تمام اعمال ضائع وبرباد ہوگئے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَال سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ إِنِّي أَوَّلُ رَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ رَمَی بِسَہْمٍ فِي سَبِيلِ اللہِ وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا الْحُبْلَةَ وَہَذَا السَّمُرَ حَتَّی إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي فِي الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ

سعد بن مالک (ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عرب کا پہلا شخص ہوں جس نے راہ خدا میں تیر پھینکا،اور ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کرتے وقت دیکھاہے کہ ہمارے پاس خاردار درختوں کے پھل اور کیکرکے درخت کے علاوہ کھانے کے لیے کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہم لوگ قضائے حاجت میں بکریوں کی طرح مینگنیاں نکالاکرتے تھے ۱؎،اور اب قبیلہء بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں ملامت کرنے لگے ہیں،اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑاہی محروم ہوں اور میرے اعمال ضائع ہوگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عتبہ بن غزوان سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَلَيْہِ ثَوْبَانِ مُمَشَّقَانِ مِنْ كَتَّانٍ فَتَمَخَّطَ فِي أَحَدِہِمَا ثُمَّ قَالَ بَخٍ بَخٍ يَتَمَخَّطُ أَبُو ہُرَيْرَةَ فِي الْكَتَّانِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَإِنِّي لَأَخِرُّ فِيمَا بَيْنَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَحُجْرَةِ عَائِشَةَ مِنْ الْجُوعِ مَغْشِيًّا عَلَيَّ فَيَجِيءُ الْجَائِي فَيَضَعُ رِجْلَہُ عَلَی عُنُقِي يَرَی أَنَّ بِيَ الْجُنُونَ وَمَا بِي جُنُونٌ وَمَا ہُوَ إِلَّا الْجُوعُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے،آپ کے پاس گیروسے رنگے ہوئے دو کتان کے کپڑے تھے،انہوں نے ایک کپڑے میں ناک پونچھی اور کہا: واہ واہ،ابوہریرہ! کتان میں ناک پونچھتا ہے،حالاں کہ ایک وہ زمانہ بھی تھا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے،اور حجرہ عائشہ کے درمیان بھوک کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوکرگرپڑتا تو کوئی آنے والاآتا اور میری گردن پر اپناپاؤں رکھ دیتا اور سمجھتا کہ میں پاگل ہوں،حالاں کہ میں پاگل نہیں ہوتا تھا ایسا صرف بھوک کی شدت کی وجہ سے ہوتاتھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اور اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ أَخْبَرَنِي أَبُو ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَہُ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ إِذَا صَلَّی بِالنَّاسِ يَخِرُّ رِجَالٌ مِنْ قَامَتِہِمْ فِي الصَّلَاةِ مِنْ الْخَصَاصَةِ وَہُمْ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ حَتَّی يَقُولَ الْأَعْرَابُ ہَؤُلَاءِ مَجَانِينُ أَوْ مَجَانُونَ فَإِذَا صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ انْصَرَفَ إِلَيْہِمْ فَقَالَ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا لَكُمْ عِنْدَ اللہِ لَأَحْبَبْتُمْ أَنْ تَزْدَادُوا فَاقَةً وَحَاجَةً قَالَ فَضَالَةُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب لوگوں کو صلاۃ پڑھاتے توصف میں کھڑے بہت سے لوگ بھوک کی شدت کی وجہ سے گرپڑتے تھے،یہ لوگ اصحاب صفہ تھے،یہاں تک کہ اعراب(دیہاتی لوگ) کہتے کہ یہ سب پاگل اورمجنون ہیں،پھر رسول اللہ ﷺجب صلاۃ سے فارغ ہوتے تو ان کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: اگر تم لوگوں کو اللہ کے نزدیک اپنا مرتبہ معلوم ہوجائے تو تم اس سے کہیں زیادہ فقر وفاقہ اورحاجت کو پسند کرتے ۱؎،فضالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اس وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ فِي سَاعَةٍ لَا يَخْرُجُ فِيہَا وَلَا يَلْقَاہُ فِيہَا أَحَدٌ فَأَتَاہُ أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ خَرَجْتُ أَلْقَی رَسُولَ اللہِ ﷺ وَأَنْظُرُ فِي وَجْہِہِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْہِ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ فَقَالَ مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ قَالَ الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ فَانْطَلَقُوا إِلَی مَنْزِلِ أَبِي الْہَيْثَمِ بْنِ التَّيْہَانِ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ رَجُلًا كَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّاءِ وَلَمْ يَكُنْ لَہُ خَدَمٌ فَلَمْ يَجِدُوہُ فَقَالُوا لِامْرَأَتِہِ أَيْنَ صَاحِبُكِ فَقَالَتْ انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَاءَ فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَاءَ أَبُو الْہَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُہَا فَوَضَعَہَا ثُمَّ جَاءَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ ﷺ وَيُفَدِّيہِ بِأَبِيہِ وَأُمِّہِ ثُمَّ انْطَلَقَ بِہِمْ إِلَی حَدِيقَتِہِ فَبَسَطَ لَہُمْ بِسَاطًا ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَی نَخْلَةٍ فَجَاءَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَفَلَا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِہِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا أَوْ قَالَ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِہِ وَبُسْرِہِ فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ مِنْ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظِلٌّ بَارِدٌ وَرُطَبٌ طَيِّبٌ وَمَاءٌ بَارِدٌ فَانْطَلَقَ أَبُو الْہَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَہُمْ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ قَالَ فَذَبَحَ لَہُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا فَأَتَاہُمْ بِہَا فَأَكَلُوا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَلْ لَكَ خَادِمٌ قَالَ لَا قَالَ فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا فَأُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَہُمَا ثَالِثٌ فَأَتَاہُ أَبُو الْہَيْثَمِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ اخْتَرْ مِنْہُمَا فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللہِ اخْتَرْ لِي فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ خُذْ ہَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُہُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِہِ مَعْرُوفًا فَانْطَلَقَ أَبُو الْہَيْثَمِ إِلَی امْرَأَتِہِ فَأَخْبَرَہَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَتْ امْرَأَتُہُ مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ مَا قَالَ فِيہِ النَّبِيُّ ﷺ إِلَّا أَنْ تَعْتِقَہُ قَالَ فَہُوَ عَتِيقٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ اللہَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً إِلَّا وَلَہُ بِطَانَتَانِ بِطَانَةٌ تَأْمُرُہُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَاہُ عَنْ الْمُنْكَرِ وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوہُ خَبَالًا وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ يَوْمًا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَذَكَرَ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَحَدِيثُ شَيْبَانَ أَتَمُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ وَأَطْوَلُ وَشَيْبَانُ ثِقَةٌ عِنْدَہُمْ صَاحِبُ كِتَابٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتاتھا،پھر آپ کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں ا س لیے نکلاتاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں او ر آپ پرسلام پیش کروں،کچھ وقفے کے بعد عمر بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے،آپ نے پوچھا: عمر!تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی،آپ نے فرمایا: مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے ۱؎،پھر سب مل کر ابوالہیشم بن تیہان انصاری کے گھر پہنچے،ان کے پاس بہت زیادہ کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں مگران کا کوئی خادم نہیں تھا،ان لوگوں نے ابوالھیثم کو گھر پر نہیں پایا توان کی بیوی سے پوچھا: تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیاکہ وہ ہمارے لیے میٹھاپانی لانے گئے ہیں،گفتگو ہورہی تھی کہ اسی دوران!ابوالہیشم ایک بھری ہوئی مشک لیے آ پہنچے،انہوں نے مشک کو رکھا اور رسول اللہ ﷺ سے لپٹ گئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فداہوں،پھر سب کو وہ اپنے باغ میں لے گئے اور ان کے لیے ایک بستر بچھایا پھر کھجور کے درخت کے پاس گئے اور وہاں سے کھجوروں کا گچھا لے کر آئے اور اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھ دیا۔آپ نے فرمایا: ہمارے لیے اس میں سے تازہ کھجوروں کو چن کر کیوں نہیں لائے؟ عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے چاہا کہ آپ خود ان میں سے چن لیں،یا یہ کہاکہ آپ حضرات پکی کھجوروں کوکچی کھجوروں میں سے خود پسند کرلیں،بہر حال سب نے کھجور کھائی اور ان کے اس لائے ہوئے پانی کو پیا،اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقینا یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیاجائے گا اوروہ نعمتیں یہ ہیں: باغ کا ٹھنڈا سایہ،پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی،پھر ابوالھیثم اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کریں تو آپ ﷺ نے ان سے کہا: دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرنا،چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق انہوں نے بکری کا ایک مادہ بچہ یا نربچہ ذبح کیا اور اسے پکاکر ان حضرات کے سامنے پیش کیا،ان سبھوں نے اسے کھایااور پھر آپ نے ابوالھیثم سے پوچھا؟ کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیاتوآپ نے فرمایا:جب ہمارے پاس کوئی قیدی آئے تو تم ہم سے ملنا،پھرنبی اکرم ﷺ کے پاس دوقیدی لائے گئے جن کے ساتھ تیسرا نہیں تھا،ابوالھیثم بھی آئے تو آپ ﷺنے ان سے کہا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کوپسند کرلو،انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! آپ خود ہمارے لیے پسند کردیجئے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک جس سے مشورہ لیاجائے وہ امین ہوتاہے۔لہذا تم اس کو لے لو(ایک غلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کیونکہ ہم نے اسے صلاۃ پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور اس غلام کے ساتھ اچھاسلوک کرنا،پھر ابوالھیثم اپنی بیوی کے پاس گئے اور رسول اللہﷺکی باتوں سے اسے باخبر کیا،ان کی بیوی نے کہا کہ تم نبی اکرمﷺ کی وصیت کو پورا نہ کرسکو گے مگریہ کہ اس غلام کو آزاد کردو،اس لیے ابوالھیثم نے فوراً اسے آزاد کردیا،نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کسی نبی یا خلیفہ کو نہیں بھیجا ہے مگر اس کے ساتھ دورازدارساتھی ہوتے ہیں،ایک اسے بھلائی کا حکم دیتاہے اور برائی سے روکتاہے،جب کہ دوسرا ساتھی اسے خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا،پس جسے برے ساتھی سے بچالیا گیا گو یا وہ بڑی آفت سے نجات پاگیا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ،عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ يَوْمًا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ،فَذَكَرَ نَحْوَ ہَذَا الحَدِيثِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ ((وَحَدِيثُ شَيْبَانَ أَتَمُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ وَأَطْوَلُ وَشَيْبَانُ ثِقَةٌ عِنْدَہُمْ صَاحِبُ كِتَابٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہَذَا الحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الوَجْہِ)) وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،أَيْضًا

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے(مُرسل) روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اور ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما گھر سے نکلے،اس کے بعد راوی نے مذکورہ حدیث جیسی حدیث بیان کی،لیکن اس میں ابوہریرہ کا ذکرنہیں کیا،شیبان کی (سابقہ) حدیث ابوعوانہ کی (اس) حدیث سے زیادہ مکمل اور زیادہ طویل ہے،شیبان محدثین کے نزدیک ثقہ اور صاحب کتاب ہیں ۱؎،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سندسے بھی مروی ہے،اور یہ حدیث ابن عباس سے بھی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ شَكَوْنَا إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ الْجُوعَ وَرَفَعْنَا عَنْ بُطُونِنَا عَنْ حَجَرٍ حَجَرٍ فَرَفَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ حَجَرَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے (جنگ خندق کے دوران) رسول اللہ ﷺ سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا جن پر ایک ایک پتھر بندھاہواتھا سو آپ نے اپنے مبارک پیٹ سے کپڑا اٹھایا تواس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ،عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ،قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ،يَقُولُ: أَلَسْتُمْ فِي طَعَامٍ وَشَرَابٍ مَا شِئْتُمْ؟ لَقَدْ ((رَأَيْتُ نَبِيَّكُمْ ﷺ وَمَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بِہِ بَطْنَہُ)) وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ : وَرَوَی أَبُو عَوَانَةَ،وَغَيْرُ وَاحِدٍ،عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ،نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي الأَحْوَصِ،وَرَوَی شُعْبَةُ،ہَذَا الحَدِيثَ عَنْ سِمَاكٍ،عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ،عَنْ عُمَرَ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم لوگ جو چاہتے ہو کھاتے پیتے ہو حالاں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کواس حال میں دیکھاکہ ردی کھجور یں بھی اس مقدارمیں آپ کومیسرنہ تھیں جن سے آپ اپنا پیٹ بھرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ابوعوانہ اور ان کے علاوہ کئی لوگوں نے سماک بن حرب سے ابوالاحوص کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،شعبہ نے یہ حدیثعن سماک عن النعمان بن بشیر عن عمر کی سند سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنِي الْمَسْعُودِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ نَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَلَی حَصِيرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِہِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ لَوْ اتَّخَذْنَا لَكَ وِطَاءً فَقَالَ مَا لِي وَمَا لِلدُّنْيَا مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک چٹائی پرسوگئے،نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کا نشان پڑگیاتھا،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے ایک بچھونا بنادیں تو بہتر ہوگا،آپﷺ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیامطلب ہے،میری اور دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سوار ہو جو ایک درخت کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بیٹھے،پھر وہاں سے کوچ کرجائے اور درخت کو اسی جگہ چھوڑ دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ح و حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مَا النَّجَاةُ قَالَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَی خَطِيئَتِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نجات کی کیاصورت ہے؟ آپ نے فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھو،اپنے گھرکی وسعت میں مقیدرہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي الصَّہْبَاءِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَفَعَہُ قَالَ إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّہَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ اتَّقِ اللہَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي الصَّہْبَاءِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَحْسِبُہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَہُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: انسان جب صبح کرتاہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: توہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے ۱؎۔اس سند سے ابوسعید خدری سے موقوفا اسی جیسی حدیث مروی ہے اور یہ روایت محمد بن موسی کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف حماد بن زید کی روایت سے جانتے ہیں اس حدیث کو حماد بن زیدسے کئی راویوں نے روایت کیا ہے،لیکن یہ ساری روایتیں غیرمرفوع ہیں۔اس سند سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،مگر صالح بن عبد اللہ نے شک کے ساتھ روایت کی ہے کہ شاید ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے مرفوعا روایت کی ہے،پھر اسی طرح سے پوری حدیث بیان کی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ يَتَكَفَّلْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْہِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْہِ أَتَكَفَّلْ لَہُ بِالْجَنَّةِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَہْلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ

-سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مجھ سے اپنی دونوں ڈاڑھوں اور دونوں ٹانگوں کے بیچ کا ضامن ہو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث سہل بن سعدکی روایت سے حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ وَقَاہُ اللہُ شَرَّ مَا بَيْنَ لَحْيَيْہِ وَشَرَّ مَا بَيْنَ رِجْلَيْہِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی أَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَی عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ اسْمُہُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ وَہُوَ كُوفِيٌّ وَأَبُو حَازِمٍ الَّذِي رَوَی عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ ہُوَ أَبُو حَازِمٍ الزَّاہِدُ مَدَنِيٌّ وَاسْمُہُ سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جسے اللہ نے اس کی ٹانگوں اور ڈاڑھوں کے درمیان کی چیز کے شرو فساد سے بچالیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کا نام سلمان ہے،یہ عزہ ٔ اشجعیہ کے آزادکردہ غلام ہیں اور کوفی ہیں اورسہل بن سعد سے روایت کرنے والے راوی ابوحازم کانام سلمہ بن دینار ہے جو زاہد مدنی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَاعِزٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الثَّقَفِيِّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ حَدِّثْنِي بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِہِ قَالَ قُلْ رَبِّيَ اللہُ ثُمَّ اسْتَقِمْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَيَّ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِہِ ثُمَّ قَالَ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الثَّقَفِيِّ

سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے ایسی بات بیان فرمائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑلوں،آپ نے فرمایا: کہو:میرارب (معبود حقیقی) اللہ ہے پھر اسی عہد پر قائم رہو،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!آپ کو مجھ سے کس چیز کا زیادہ خوف ہے؟ آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: اسی کا زیادہ خوف ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث سفیان بن عبداللہ ثقفی سے کئی سندوں سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عَبْدِ الْوَہَّابِ بْنِ الْوَرْدِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْمَدِينَةِ قَالَ كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَی عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا أَنْ اكْتُبِي إِلَيَّ كِتَابًا تُوصِينِي فِيہِ وَلَا تُكْثِرِي عَلَيَّ فَكَتَبَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا إِلَی مُعَاوِيَةَ سَلَامٌ عَلَيْكَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ الْتَمَسَ رِضَا اللہِ بِسَخَطِ النَّاسِ كَفَاہُ اللہُ مُؤْنَةَ النَّاسِ وَمَنْ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللہِ وَكَلَہُ اللہُ إِلَی النَّاسِ وَالسَّلَامُ عَلَيْكَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا كَتَبَتْ إِلَی مُعَاوِيَةَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَاہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

عبدالوہاب بن ورد سے روایت ہے کہ ان سے مدینہ کے ایک شخص نے بیان کیا: معاویہ رضی اللہ عنہ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک خط لکھا کہ مجھے ایک خط لکھیئے اور اس میں کچھ وصیت کیجئے۔چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا: دعا وسلام کے بعد معلوم ہوکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جو لوگوں کی ناراضگی میں اللہ تعالیٰ کی رضاکاطالب ہو تو لوگوں سے پہنچنے والی تکلیف کے سلسلے میں اللہ اس کے لیے کافی ہوگا اور جو اللہ کی ناراضگی میں لوگوں کی رضا کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کو اسے تکلیف دینے کے لیے مقرر کردے گا،(والسلام علیک تم پراللہ کی سلامتی نازل ہو) ۱؎۔اس سند سے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،لیکن یہ مرفوع نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ أَسْلَمَ الْعِجْلِيِّ عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا الصُّورُ قَالَ قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک اعرابی (دیہاتی) نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: صور کیاچیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک سنکھ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-کئی لوگوں نے سلیمان تیمی سے اس حدیث کی روایت کی ہے،اسے ہم صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَلَاءِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَيْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدْ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْإِذْنَ مَتَی يُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَيَنْفُخُ فَكَأَنَّ ذَلِكَ ثَقُلَ عَلَی أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَہُمْ قُولُوا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ عَلَی اللہِ تَوَكَّلْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں کیسے آرام کروں جب کہ صوروالے اسرافیل علیہ السلام صور کو منہ میں لیئے ہوئے اس حکم پر کان لگائے ہوئے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم صادر ہو اور اس میں پھونک ماری جائے،گویا یہ امر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرسخت گذرا،تو آپ نے فرمایا: کہو: حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ،عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا یعنی اللہ ہمارے لیے کافی ہے کیا ہی اچھا کار ساز ہے وہ اللہ ہی پر ہم نے توکل کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث عطیہ سے کئی سندوں سے ابوسعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كُنَّا عَلَيْہِ عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَقُلْتُ أَيْنَ الصَّلَاةُ قَالَ أَوَلَمْ تَصْنَعُوا فِي صَلَاتِكُمْ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں وہ چیزیں نہیں دیکھتاجن پر ہم نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عمل کرتے تھے،راوی حدیث ابوعمران جونی نے کہا:کیا آپ صلاۃ نہیں دیکھتے؟ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: کیاتم لوگوں نے صلاۃ میں وہ سب نہیں کیا جو تم جانتے ہو؟! ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ابوعمران جونی کی روایت سے غریب حسن ہے،۲-یہ حدیث انس کے واسطے سے اس کے علاوہ اور کئی سندوں سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا ہَاشِمٌ وَہُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنِي زَيْدٌ الْخَثْعَمِيُّ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ الْخَثْعَمِيَّةِ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَی وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَی بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَہَا وَلَہَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَی بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا وَطَغَی وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَہَی بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُہَاتِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُہُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ ہَوًی يُضِلُّہُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ

اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: براہے وہ بندہ جو تکبر کرے اور اترائے اور اللہ بزرگ وبرترکوبھول جائے،اور براہے وہ بندہ جومظلوموں پر قہر ڈھائے اور ظلم و زیادتی کرے اور اللہ جبار برتر کو بھول جائے،اور براہے وہ بندہ جولہو ولعب میں مشغول ہو اور قبروں اور ہڈیوں کے سڑگل جانے کو بھول جائے،اور براہے وہ بندہ جو حد سے آگے بڑھ جائے اور سرکشی کا راستہ اپنائے اور اپنی پیدائش اورموت کو بھول جائے،اور براہے وہ بندہ جو دین کے بدلے دنیا کو طلب کرے،اور براہے وہ بندہ جو اپنے دین کو شبہات سے ملائے،اور براہے وہ بندہ جسے لالچ اپنی طرف کھینچ لے،اور براہے وہ بندہ جسے اس کا ہوائے نفسانی گمراہ کردے اور براہے وہ بندہ جسے حرص ذلیل ورسوا کردے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور اس کی سند قوی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عِمْرَانٌ الْقَطَّانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ كَمَا تَكُونُونَ عِنْدِي لَأَظَلَّتْكُمْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيْدِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگرتمہاری وہی کیفیت رہے،جیسی میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے پروں سے تم پر سایہ کریں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث حنظلہ اسیدی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اس سند کے علاوہ دیگر سندوں سے بھی مروی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت آئی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا ذَہَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللہَ اذْكُرُوا اللہَ جَاءَتْ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُہَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيہِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيہِ قَالَ أُبَيٌّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلَاةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلَاتِي فَقَالَ مَا شِئْتَ قَالَ قُلْتُ الرُّبُعَ قَالَ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَہُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ النِّصْفَ قَالَ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَہُوَ خَيْرٌ لَكَ قَالَ قُلْتُ فَالثُّلُثَيْنِ قَالَ مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَہُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ أَجْعَلُ لَكَ صَلَاتِي كُلَّہَا قَالَ إِذًا تُكْفَی ہَمَّكَ وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب دوتہائی رات گزر جاتی تو رسول اللہ ﷺ اٹھتے اور فرماتے: لوگو! اللہ کو یاد کرو،اللہ کو یاد کرو،کھڑ کھڑا نے والی آگئی ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسری آ لگی ہے،موت اپنی فوج لے کر آگئی ہے۔موت اپنی فوج لے کر آگئی ہے،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت صلاۃ(درود) پڑھاکرتاہوں سواپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کرلوں؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو،میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے،میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اورا گر اس سے زیادہ کرلوتوتمہارے حق میں بہتر ہے،میں نے عرض کیا دوتہائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کرلوتو تمہارے حق میں بہتر ہے،میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھاکروں؟۔آپ نے فرمایا: اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہوگا اوراس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَہْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ قَالَ جَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِلسَّائِلِ أَتَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ نَعَمْ قَالَ سَأَلْتَ وَلِلسَّائِلِ حَقٌّ إِنَّہُ لَحَقٌّ عَلَيْنَا أَنْ نَصِلَكَ فَأَعْطَاہُ ثَوْبًا ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا مِنْ مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا إِلَّا كَانَ فِي حِفْظٍ مِنْ اللہِ مَا دَامَ مِنْہُ عَلَيْہِ خِرْقَةٌ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

حصین کہتے ہیں کہ ایک سائل نے آکر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کچھ مانگا تو ابن عباس نے سائل سے کہا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہوکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے؟ اس نے کہا: ہاں،آپ نے کہا: کیاتم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں،آپ نے کہا: کیاتم رمضان کے صیام رکھتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں،آپ نے کہا: تم نے سوال کیا اور سائل کاحق ہوتاہے،بے شک ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں،چنانچہ انہوں نے اسے ایک کپڑا دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جوکوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کو کوئی کپڑا پہناتا ہے تو وہ اللہ کی امان میں اس وقت تک رہتاہے جب تک اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی اس پر باقی رہتاہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَيَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيِّ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْہِ وَقِيلَ قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْہِ فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْہَ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْہَہُ لَيْسَ بِوَجْہِ كَذَّابٍ وَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ تَكَلَّمَ بِہِ أَنْ قَالَ أَيُّہَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے،اور کہنے لگے: اللہ کے رسول آگئے،اللہ کے رسول آگئے،اللہ کے رسول آگئے،چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں،پھر جب میں نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کاچہرہ نہیں ہوسکتا،اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی لوگو! سلام پھیلاؤ،کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سورہے ہوں توصلاۃ پڑھو،تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْدِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَنْ يَحْرُمُ عَلَی النَّارِ أَوْ بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَيْہِ النَّارُ عَلَی كُلِّ قَرِيبٍ ہَيِّنٍ سَہْلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیامیں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پریا جہنم کی آگ ان پرحرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے،آسانی کرنے والے،اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَةَ أَيُّ شَيْءٍ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَصْنَعُ إِذَا دَخَلَ بَيْتَہُ قَالَتْ كَانَ يَكُونَ فِي مَہْنَةِ أَہْلِہِ فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ قَامَ فَصَلَّی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اسود بن یزیدکہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا: رسول اللہ ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے توکیاکرتے تھے؟ کہا: آپ ﷺ اپنے گھروالوں کے کام کاج میں مشغول ہوجاتے تھے،پھر جب صلاۃ کا وقت ہوجاتا توکھڑے ہوتے اور صلاۃ پڑھنے لگتے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَيْدٍ التَّغْلَبِيِّ عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا اسْتَقْبَلَہُ الرَّجُلُ فَصَافَحَہُ لَا يَنْزِعُ يَدَہُ مِنْ يَدِہِ حَتَّی يَكُونَ الرَّجُلُ يَنْزِعُ وَلَا يَصْرِفُ وَجْہَہُ عَنْ وَجْہِہِ حَتَّی يَكُونَ الرَّجُلُ ہُوَ الَّذِي يَصْرِفُہُ وَلَمْ يُرَ مُقَدِّمًا رُكْبَتَيْہِ بَيْنَ يَدَيْ جَلِيسٍ لَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے سامنے جب کوئی شخص آتا اور آپ سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں نکالتے جب تک وہ شخص خود اپنا ہاتھ نہ نکال لیتا،اور آپ اپنا رخ اس کی طرف سے نہیں پھیرتے،جب تک کہ وہ خوداپنا رخ نہ پھیر لیتا،اور آپ نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فِي حُلَّةٍ لَہُ يَخْتَالُ فِيہَا فَأَمَرَ اللہُ الْأَرْضَ فَأَخَذَتْہُ فَہُوَ يَتَجَلْجَلُ فِيہَا أَوْ قَالَ يَتَلَجْلَجُ فِيہَا إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سے اگلی امتوں میں سے ایک شخص ایک جوڑا پہن کر اس میں اتراتا ہوا نکلا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا اور زمین نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا،پس وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلاجارہاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ يَغْشَاہُمْ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَيُسَاقُونَ إِلَی سِجْنٍ فِي جَہَنَّمَ يُسَمَّی بُولَسَ تَعْلُوہُمْ نَارُ الْأَنْيَارِ يُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَہْلِ النَّارِ طِينَةَ الْخَبَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: متکبر(گھمنڈکرنے والے) لوگوں کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایاجائے گا،انہیں ہرجگہ ذلت ڈھانپے رہے گی،پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام بولس ہے۔اس میں انہیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی،وہ اس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے جسے طینۃ الخبال کہتے ہیں،یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَہُوَ يَقْدِرُ عَلَی أَنْ يُنَفِّذَہُ دَعَاہُ اللہُ عَلَی رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّی يُخَيِّرَہُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

معاذبن انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے غصہ پر قابو پالیا اس حال میں کہ اس کے کر گزرنے پر قادر تھا،تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اختیار دے گاکہ وہ جنت کی حوروں میں سے جسے چاہے پسند کرلے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الْغِفَارِيُّ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيہِ سَتَرَ اللہُ عَلَيْہِ كَنَفَہُ وَأَدْخَلَہُ جَنَّتَہُ رِفْقٌ بِالضَّعِيفِ وَشَفَقَةٌ عَلَی الْوَالِدَيْنِ وَإِحْسَانٌ إِلَی الْمَمْلُوكِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ہُوَ أَخُو مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین خصلتیں ایسی ہیں کہ یہ جس کے اندر پائی جائیں تو قیامت کے روز اللہ اپنی رحمت کے سایہ تلے رکھے گا،اور اسے اپنی جنت میں داخل کرے گا۔(أ) ضعیفوں کے ساتھ نرم برتاؤکرے (ب) ماں باپ کے ساتھ شفقت ومحبت کابرتاؤ کرے،(ج) لونڈیوں اور غلاموں پر احسان کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ اللہُ تَعَالَی يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ ہَدَيْتُہُ فَسَلُونِي الْہُدَی أَہْدِكُمْ وَكُلُّكُمْ فَقِيرٌ إِلَّا مَنْ أَغْنَيْتُ فَسَلُونِي أَرْزُقْكُمْ وَكُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَيْتُ فَمَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ أَنِّي ذُو قُدْرَةٍ عَلَی الْمَغْفِرَةِ فَاسْتَغْفَرَنِي غَفَرْتُ لَہُ وَلَا أُبَالِي وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا زَادَ ذَلِك فِي مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا عَلَی أَشْقَی قَلْبِ عَبْدٍ مِنْ عِبَادِي مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي جَنَاحَ بَعُوضَةٍ وَلَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَحَيَّكُمْ وَمَيِّتَكُمْ وَرَطْبَكُمْ وَيَابِسَكُمْ اجْتَمَعُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْكُمْ مَا بَلَغَتْ أُمْنِيَّتُہُ فَأَعْطَيْتُ كُلَّ سَائِلٍ مِنْكُمْ مَا سَأَلَ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي إِلَّا كَمَا لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ مَرَّ بِالْبَحْرِ فَغَمَسَ فِيہِ إِبْرَةً ثُمَّ رَفَعَہَا إِلَيْہِ ذَلِكَ بِأَنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ أَفْعَلُ مَا أُرِيدُ عَطَائِي كَلَامٌ وَعَذَابِي كَلَامٌ إِنَّمَا أَمْرِي لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْتُہُ أَنْ أَقُولَ لَہُ كُنْ فَيَكُونُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ مَعْدِي كَرِبَ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو،سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں،اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت مانگومیں تمہیں ہدایت دوں گا،اور تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جسے میں غنی (مالدار) کردوں،اس لیے تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں رزق دوں گا،اور تم سب گنہگار ہو،سوائے اس کے جسے میں عافیت دوں سو جسے یہ معلوم ہے کہ میں بخشنے پر قادر ہوں پھروہ مجھ سے مغفرت چاہتا ہے تو میں اسے معاف کردیتاہوں،اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر تمہارے اگلے اور پچھلے،تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک وتر سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ متقی و پرہیز گار بندے کی طرح ہوجائیں تو بھی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر برابر اضافہ نہ ہوگا،اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے،تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک وتر سب میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ شقی وبدبخت کی طرح ہوجائیں تو بھی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر برابرکمی نہ ہوگی،اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے،تمہارے زندے اور مردے اور تمہارے خشک وتر سب ایک ہی زمین پر جمع ہوجائیں اور تم میں سے ہر انسان مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی آرزوئیں پہنچیں اور میں تم میں سے ہرسائل کودیدوں توبھی میری سلطنت میں کچھ بھی فرق واقع نہ ہوگا مگر اتناہی کہ تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے سے گزرے اوراس میں ایک سوئی ڈبو کرنکال لے،اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ میں سخی،بزرگ ہوں،جوچاہتاہوں کرتاہوں،میرا دینا صرف کہہ دینا،اور میرا عذاب صرف کہہ دینا ہے،کسی چیز کے لیے جب میںچاہتاہوں تو میرا حکم یہی ہے کہ میں کہتاہوں ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض لوگوں نے اسی طرح اس حدیث کو بطریق: شہر بن حوشب،عن معدی کرب،عن أبی ذر،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الرَّازِيِّ عَنْ سَعْدٍ مَوْلَی طَلْحَةَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُحَدِّثُ حَدِيثًا لَوْ لَمْ أَسْمَعْہُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ حَتَّی عَدَّ سَبْعَ مَرَّاتٍ وَلَكِنِّي سَمِعْتُہُ أَكَثَرَ مِنْ ذَلِكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ كَانَ الْكِفْلُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا يَتَوَرَّعُ مِنْ ذَنْبٍ عَمِلَہُ فَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَأَعْطَاہَا سِتِّينَ دِينَارًا عَلَی أَنْ يَطَأَہَا فَلَمَّا قَعَدَ مِنْہَا مَقْعَدَ الرَّجُلِ مِنْ امْرَأَتِہِ أَرْعَدَتْ وَبَكَتْ فَقَالَ مَا يُبْكِيكِ أَأَكْرَہْتُكِ قَالَتْ لَا وَلَكِنَّہُ عَمَلٌ مَا عَمِلْتُہُ قَطُّ وَمَا حَمَلَنِي عَلَيْہِ إِلَّا الْحَاجَةُ فَقَالَ تَفْعَلِينَ أَنْتِ ہَذَا وَمَا فَعَلْتِہِ اذْہَبِي فَہِيَ لَكِ وَقَالَ لَا وَاللہِ لَا أَعْصِي اللہَ بَعْدَہَا أَبَدًا فَمَاتَ مِنْ لَيْلَتِہِ فَأَصْبَحَ مَكْتُوبًا عَلَی بَابِہِ إِنَّ اللہَ قَدْ غَفَرَ لِلْكِفْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَدْ رَوَاہُ شَيْبَانُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ ہَذَا وَرَفَعُوہُ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ الْأعْمَشِ فَلَمْ يَرْفَعْہُ وَرَوَی أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ فَأَخْطَأَ فِيہِ وَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَہُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ الرَّازِيُّ ہُوَ كُوفِيٌّ وَكَانَتْ جَدَّتُہُ سُرِّيَّةً لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَرَوَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الرَّازِيِّ عُبَيْدَةُ الضَّبِّيُّ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک حدیث سنی ہے اگرمیں نے اسے ایک یا دو بار سنی ہوتی یہاں تک کہ سات مرتبہ گنا تو میں اسے تم سے بیان نہ کرتا،لیکن میں نے اسے اس سے زیادہ مرتبہ سنا ہے،آپ ﷺ فرمارہے تھے: بنی اسرائیل میں کفل نامی ایک شخص تھا جو کسی گناہ کے کرنے سے پرہیز نہیں کرتاتھا،چنانچہ اس کے پاس ایک عورت آئی،اس نے اسے ساٹھ دینار اس لیے دیے کہ وہ اس سے بدکاری کرے گا،لیکن جب وہ اس کے آگے بیٹھا جیساکہ مرد اپنی بیوی کے آگے بیٹھتا ہے تووہ کانپ اٹھی اور رونے لگی،اس شخص نے پوچھا: تم کیوں روتی ہو کیا میں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے؟ وہ بولی: نہیں،لیکن آج میں وہ کام کررہی ہوں جومیں نے کبھی نہیں کیا اور اس کام کے کرنے پر مجھے سخت ضرورت نے مجبور کیا ہے،چنانچہ اس نے کہا: تم ایسا غلط کام کرنے جارہی ہے جسے تم نے کبھی نہیں کیا،اس لیے تم جاؤ،وہ سب دینار بھی تمہارے لیے ہیں،پھر اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم! اب اس کے بعد میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا،پھر اسی رات میں اس کا انتقا ل ہوگیا،چنانچہ صبح کو اس کے دروازے پر لکھا ہواتھا بے شک اللہ تعالیٰ نے کفل کو بخش دیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسے شیبان اور دیگر لوگوں نے اعمش سے اسی طرح مرفوعا ً روایت کیا ہے،اوربعض لوگوں نے اسے اعمش سے غیر مرفوع روایت کیاہے،ابوبکر بن عیاش نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے لیکن اس میں غلطی کی ہے،اورعن عبداللہ بن عبداللہ،عن سعید بن جبیر،عن ابن عمر کہاہے جو کہ غیر محفوظ ہے۔

حارث بن سوید کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دوحدیثیں بیان کیں،ایک اپنی طرف سے اور دوسری نبی اکرم ﷺ کی طرف سے (یعنی ایک موقوف اور دوسری مرفوع) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: مومن اپنے گناہ کو ایسادیکھتا ہے گویاوہ پہاڑ کی جڑ میں ہے۔ڈرتاہے کہ اس پر وہ گر نہ پڑے ۱؎،اور فاجر اپنے گناہ کو ایک مکھی کے مانند دیکھتاہے جو اس کی ناک پر بیٹھی ہوئی ہے،اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ اڑگئی ۲؎۔

و قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَلَّہُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ رَجُلٍ بِأَرْضِ فَلَاةٍ دَوِيَّةٍ مَہْلَكَةٍ مَعَہُ رَاحِلَتُہُ عَلَيْہَا زَادُہُ وَطَعَامُہُ وَشَرَابُہُ وَمَا يُصْلِحُہُ فَأَضَلَّہَا فَخَرَجَ فِي طَلَبِہَا حَتَّی إِذَا أَدْرَكَہُ الْمَوْتُ قَالَ أَرْجِعُ إِلَی مَكَانِي الَّذِي أَضْلَلْتُہَا فِيہِ فَأَمُوتُ فِيہِ فَرَجَعَ إِلَی مَكَانِہِ فَغَلَبَتْہُ عَيْنُہُ فَاسْتَيْقَظَ فَإِذَا رَاحِلَتُہُ عِنْدَ رَأْسِہِ عَلَيْہَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ وَمَا يُصْلِحُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یقینااللہ تم میں سے ایک شخص کی توبہ پر اس شخص سے کہیں زیادہ خوش ہوتاہے جو کسی بے آب وگیاہ چٹیل میدان میں ہے اور اس کے ساتھ اس کی اونٹنی ہے جس پر اس کا توشہ،کھانا پانی اور دیگر ضرورتوں کی چیز رکھی ہوئی ہے،پھر اس کی اونٹنی کھوجاتی ہے اور وہ اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑتاہے،یہاں تک کہ جب وہ ہلاکت کے قریب پہنچ جاتاہے تو وہ سوچتا ہے: میں اسی جگہ لوٹ جاؤں جہاں سے میری اونٹنی کھوگئی تھی،اور وہیں مرجاؤں چنانچہ وہ لوٹ کر اسی جگہ پہنچتا ہے،اور اس پر نیند طاری ہوجاتی ہے،پھر جب بیدار ہوتاہے تو کیادیکھتاہے کہ اس کی اونٹنی اس کے سرکے پاس موجود ہے اس پر اس کا کھاناپانی اورحاجت کی چیز بھی موجود ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،نعمان بن بشیر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم ﷺ سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَاہِلِيُّ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ مَسْعَدَةَ عَنْ قَتَادَةَ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سارے انسان خطا کارہیں اور خطاکاروں میں سب سے بہتروہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اسے ہم صرف علی بن مسعدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَہُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ الْكَعْبِيِّ الْخُزَاعِيِّ وَاسْمُہُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جوشخص اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے،اور جو اللہ اور یوم آخرت پرایمان رکھتا ہوتو اسے چاہیے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو الْمَعَافِرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَمَتَ نَجَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ ہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو خاموش رہا اس نے نجات پائی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اسے ہم صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ حَكَيْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ رَجُلًا فَقَالَ مَا يَسُرُّنِي أَنِّي حَكَيْتُ رَجُلًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا قَالَتْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ صَفِيَّةَ امْرَأَةٌ وَقَالَتْ بِيَدِہَا ہَكَذَا كَأَنَّہَا تَعْنِي قَصِيرَةً فَقَالَ لَقَدْ مَزَجْتِ بِكَلِمَةٍ لَوْ مَزَجْتِ بِہَا مَاءَ الْبَحْرِ لَمُزِجَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک شخص کی نقل کی تو آپ نے فرمایا: مجھے یہ پسندنہیں کہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے۔میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بے شک صفیہ ایک عورت ہیں،اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا،گویایہ مرادلے رہی تھیں کہ صفیہ پستہ قدہیں۔آپ نے فرمایا:بے شک تم نے اپنی باتوں میں ایسی بات ملائی ہے کہ اگر اسے سمندرکے پانی میں ملادیا جائے تواس کارنگ بدل جائے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْأَقْمَرِ عَنْ أَبِي حُذَيْفَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا أُحِبُّ أَنِّي حَكَيْتُ أَحَدًا وَأَنَّ لِي كَذَا وَكَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حُذَيْفَةَ ہُوَ كُوفِيٌّ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَيُقَالُ اسْمُہُ سَلَمَةُ بْنُ صُہَيْبَةَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں یہ نہیں پسند کرتاکہ میں کسی انسان کی نقل کروں اور مجھے اتنا اور اتنا مال ملے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَيُّ الْمُسْلِمِينَ أَفْضَلُ قَالَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَيَدِہِ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَی

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھاکیاگیا کہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ افضل کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوموسیٰ کی روایت سے اس سند سے صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ عَيَّرَ أَخَاہُ بِذَنْبٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّی يَعْمَلَہُ قَالَ أَحْمَدُ مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ لَمْ يُدْرِكْ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَرُوِيَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّہُ أَدْرَكَ سَبْعِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَاتَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَخَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ رَوَی عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ عَنْ مُعَاذٍ غَيْرَ حَدِيثٍ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے کسی دینی بھائی کو کسی گناہ پرعار دلایا تو اس کی موت نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس سے وہ گناہ صادر ہوجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس کی سندمتصل نہیں ہے،اور خالد بن معدان کی ملاقات معاذ بن جبل سے ثابت نہیں ہے،خالد بن معدان سے مروی ہے کہ انہوں نے ستر صحابہ سے ملاقات کی ہے،اور معاذ بن جبل کی وفات عمر بن خطاب کی خلافت میں ہوئی،اور خالد بن معدان نے معاذ کے کئی شاگردوں کے واسطہ سے معاذ سے کئی حدیثیں روایت کی ہے،۳-احمد بن منیع نے کہا: اس سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ شخص توبہ کرچکا ہو۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ح قَالَ و أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَذَّاءُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُظْہِرْ الشَّمَاتَةَ لِأَخِيكَ فَيَرْحَمَہُ اللہُ وَيَبْتَلِيكَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَمَكْحُولٌ قَدْ سَمِعَ مِنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي ہِنْدٍ الدَّارِيِّ وَيُقَالُ إِنَّہُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا مِنْ ہَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ وَمَكْحُولٌ شَامِيٌّ يُكْنَی أَبَا عَبْدِ اللہِ وَكَانَ عَبْدًا فَأُعْتِقَ وَمَكْحُولٌ الْأَزْدِيُّ بَصْرِيٌّ سَمِعَ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ يَرْوِي عَنْہُ عُمَارَةُ بْنُ زَاذَانَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ تَمِيمِ بْنِ عَطِيَّةَ قَالَ كَثِيرًا مَا كُنْتُ أَسْمَعُ مَكْحُولًا يُسْئِلُ فَيَقُولُ نَدَانَمْ

واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کے ساتھ شماتت اعداء نہ کرو،ہوسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اورتمہیں آزمائش میں ڈال دے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-مکحول کا سماع واثلہ بن اسقع،انس بن مالک اور ابوھند داری سے ثابت ہے،اور یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ان کا سماع ان تینوں صحابہ کے علاوہ کسی سے ثابت نہیں ہے،۳-یہ مکحول شامی ہیں ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے،یہ ایک غلام تھے بعد میں انہیں آزاد کردیاگیا تھا،۴-اور ایک مکحول ازدی بصری بھی ہیں ان کا سماع عبداللہ بن عمر سے ثابت ہے ان سے عمارہ بن زاذان روایت کرتے ہیں۔اس سند سے مکحول شامی کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ ندانم (میں نہیں جانتا) کہتے تھے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ عَنْ يَحْيَی بْنِ وَثَّابٍ عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْمُسْلِمُ إِذَا كَانَ مُخَالِطًا النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَی أَذَاہُمْ خَيْرٌ مِنْ الْمُسْلِمِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَی أَذَاہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ كَانَ شُعْبَةُ يَرَی أَنَّہُ ابْنُ عُمَرَ

یحییٰ بن وثاب نے ایک بزرگ صحابی سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جومسلمان لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتاہے وہ اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں کو برداشت کرتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابن ابی عدی نے کہا: شعبہ کاخیال ہے کہ شیخ صحابی(بزرگ صحابی) سے مراد ابن عمر ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَی مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ ہُوَ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَخْنَسِيِّ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِيَّاكُمْ وَسُوءَ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّہَا الْحَالِقَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَسُوءَ ذَاتِ الْبَيْنِ إِنَّمَا يَعْنِي الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ وَقَوْلُہُ الْحَالِقَةُ يَقُولُ إِنَّہَا تَحْلِقُ الدِّينَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آپسی پھوٹ اوربغض و عداوت کی برائی سے اجتناب کرو کیوں کہ یہ (دین کو) مونڈ نے والی ہے ۱؎،آپسی پھوٹ کی برائی سے مراد آپس کی عداوت اور بغض وحسد ہے اور الحالقۃ مونڈنے والی سے مراد دین کو مونڈنے والی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ قَالُوا بَلَی قَالَ صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ ہِيَ الْحَالِقَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ ہِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتادوں جودرجہ میں صلاۃ،صوم اور صدقہ سے بھی افضل ہے،صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ ضرور بتایئے،آپ نے فرمایا: وہ آپس میں میل جول کرادینا ہے ۱؎ اس لیے کہ آپس کی پھوٹ دین کو مونڈنے والی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: یہی چیز مونڈنے والی ہے۔میں یہ نہیں کہہ رہاہوں کہ سرکا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین کو مونڈ نے والی ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ حَرْبِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ أَنَّ مَوْلَی الزُّبَيْرِ حَدَّثَہُ أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمْ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ ہِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعَرَ وَلَكِنْ تَحْلِقُ الدِّينَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّی تُؤْمِنُوا وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا أَفَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِمَا يُثَبِّتُ ذَاكُمْ لَكُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ قَدْ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِہِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ فَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ عَنْ مَوْلَی الزُّبَيْرِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ الزُّبَيْرِ

زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارے اندر اگلی امتوں کا ایک مرض گھس آیا ہے اور یہ حسد اوربغض کی بیماری ہے،یہ مونڈنے والی ہے،میں یہنہیں کہتا کہ سرکا بال مونڈ نے والی ہے بلکہ دین مونڈنے والی ہے،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ جنت میں نہیں داخل ہوگے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ،اور مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو،اور کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتادوں جس سے تمہارے درمیان محبت قائم ہو: تم سلام کو آپس میں پھیلاؤ۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللہُ لِصَاحِبِہِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَہُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بغاوت اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس کا مرتکب زیادہ لائق ہے کہ اس کو اللہ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے لیے بھی اسے باقی رکھاجائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ الْمُثَنَّی بْنِ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ خَصْلَتَانِ مَنْ كَانَتَا فِيہِ كَتَبَہُ اللہُ شَاكِرًا صَابِرًا وَمَنْ لَمْ تَكُونَا فِيہِ لَمْ يَكْتُبْہُ اللہُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا مَنْ نَظَرَ فِي دِينِہِ إِلَی مَنْ ہُوَ فَوْقَہُ فَاقْتَدَی بِہِ وَمَنْ نَظَرَ فِي دُنْيَاہُ إِلَی مَنْ ہُوَ دُونَہُ فَحَمِدَ اللہَ عَلَی مَا فَضَّلَہُ بِہِ عَلَيْہِ كَتَبَہُ اللہُ شَاكِرًا صَابِرًا وَمَنْ نَظَرَ فِي دِينِہِ إِلَی مَنْ ہُوَ دُونَہُ وَنَظَرَ فِي دُنْيَاہُ إِلَی مَنْ ہُوَ فَوْقَہُ فَأَسِفَ عَلَی مَا فَاتَہُ مِنْہُ لَمْ يَكْتُبْہُ اللہُ شَاكِرًا وَلَا صَابِرًا أَخْبَرَنَا مُوسَی بْنُ حِزَامٍ الرَّجُلُ الصَّالِحُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَقَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا الْمُثَنَّی بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَلَمْ يَذْكُرْ سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ فِي حَدِيثِہِ عَنْ أَبِيہِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: دوخصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص کے اندر وہ موجود ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابرو شاکر لکھے گا اور جس کے اندر وہ موجود نہ ہوں گی اسے اللہ تعالیٰ صابر اور شاکر نہیں لکھے گا،پہلی خصلت یہ ہے کہ جس شخص نے دین کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ دین پرعمل کرنے والے کودیکھا اور اس کی پیروی کی اور دنیاکے اعتبار سے اپنے سے کم حیثیت والے کو دیکھا پھر اس فضل و احسان کا شکر ادا کیا جو اللہ نے اس پر کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر لکھے گا۔اور دوسری خصلت یہ ہے کہ جس نے دین کے اعتبار سے اپنے سے کم اور دنیا کے اعتبار سے اپنے سے زیادہ پرنظر کی پھر جس سے وہ محروم رہ گیا ہے اس پر اس نے افسوس کیا،تو اللہ تعالیٰ اسے صابر اور شاکر نہیں لکھے گا ۱؎۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-سوید بن نصر نے اپنی سند میں عن أبیہ کا ذکر نہیں کیاہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ انْظُرُوا إِلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَی مَنْ ہُوَ فَوْقَكُمْ فَإِنَّہُ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللہِ عَلَيْكُمْ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان لوگوں کی طرف دیکھو جو دنیا وی اعتبار سے تم سے کم ترہوں اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہوں،اس طرح زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کی ناقدری نہ کرو،جو اس کی طرف سے تم پر ہوئی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ ہِلَالٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ قَالَ ح و حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا سَيَّارٌ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ عَنْ حَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ وَكَانَ مِنْ كُتَّابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ مَرَّ بِأَبِي بَكْرٍ وَہُوَ يَبْكِي فَقَالَ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ قَالَ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا أَبَا بَكْرٍ نَكُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ يُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا إِلَی الْأَزْوَاجِ وَالضَّيْعَةِ نَسِينَا كَثِيرًا قَالَ فَوَاللہِ إِنَّا لَكَذَلِكَ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَانْطَلَقْنَا فَلَمَّا رَآہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ مَا لَكَ يَا حَنْظَلَةُ قَالَ نَافَقَ حَنْظَلَةُ يَا رَسُولَ اللہِ نَكُونُ عِنْدَكَ تُذَكِّرُنَا بِالنَّارِ وَالْجَنَّةِ كَأَنَّا رَأْيَ عَيْنٍ فَإِذَا رَجَعْنَا عَافَسْنَا الْأَزْوَاجَ وَالضَّيْعَةَ وَنَسِينَا كَثِيرًا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ تَدُومُونَ عَلَی الْحَالِ الَّذِي تَقُومُونَ بِہَا مِنْ عِنْدِي لَصَافَحَتْكُمْ الْمَلَائِكَةُ فِي مَجَالِسِكُمْ وَفِي طُرُقِكُمْ وَعَلَی فُرُشِكُمْ وَلَكِنْ يَا حَنْظَلَةُ سَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً وَسَاعَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (یہ نبی اکرم ﷺ کے کاتبوں میں سے ایک کاتب تھے)،وہ کہتے ہیں: میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس سے روتے ہوئے گزراتو انہوں نے کہا: حنظلہ! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ میں نے کہا: ابوبکر! حنظلہ تو منافق ہوگیاہے(بات یہ ہے)کہ جب ہم رسول اللہ ﷺکے پاس ہوتے ہیں،اور آپ ہمیں جہنم اورجنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،لیکن جب ہم دنیا وی کاروبار اور اپنے بچوں میں واپس چلے آتے ہیں تو اس نصیحت میں سے بہت کچھ بھول جاتے ہیں،ابوبکر نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارا بھی یہی حال ہے۔چلو ہمارے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس،چنانچہ ہم دونوں چل پڑے،پھر جب رسول اللہ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: حنظلہ! تمہیں کیا ہوگیاہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہوگیا ہے،جب ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں اور آپ ہمیں جہنم اورجنت کی یاد اس طرح دلاتے ہیں گویا کہ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں،لیکن جب ہم دنیا وی کاروبار اوراپنے بال بچوں میں واپس لوٹ جاتے ہیں تو بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔حنظلہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں رہو جس کیفیت میں میرے پاس ہوتے ہو تو یقین جانو کہ فرشتے تمہاری مجلسوں میں،تمہارے راستوں میں اور تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں،لیکن اے حنظلہ! وقت وقت کی بات ہے ۱؎؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّی يُحِبَّ لِأَخِيہِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص مومن کامل نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ انپے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنی ذات کے لیے پسند کرتاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ الْحَجَّاجِ قَالَ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْمَعْنَی وَاحِدٌ عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَوْمًا فَقَالَ يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظْ اللہَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللہَ تَجِدْہُ تُجَاہَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَہُ اللہُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَی أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَہُ اللہُ عَلَيْكَ رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا،آپ نے فرمایا: اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا،تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے،جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو،جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو،اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے،اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے،قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ أَعْقِلُہَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُہَا وَأَتَوَكَّلُ قَالَ اعْقِلْہَا وَتَوَكَّلْ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ يَحْيَی وَہَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُنْكَرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھ دوں پھر اللہ پرتوکل کروں یا چھوڑ دوں پھر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا: اسے باندھ دو،پھر توکل کرو۔ عمرو بن علی الفلاس کہتے ہیں: یحییٰ بن سعید القطان نے کہاکہ ہمارے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث انس کی روایت سے غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ ۲-اسی طرح سے یہ حدیث عمرو بن امیہ ضمری کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَی مَا لَا يَرِيبُكَ فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ وَأَبُو الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيُّ اسْمُہُ رَبِيعَةُ بْنُ شَيْبَانَ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ بُرَيْدٍ فَذَكَرَ نَحْوَہُ

ابوالحوراء شیبان سعدی کہتے ہیں: میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیا چیز یاد کی ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان یاد کیا ہے کہ اس چیز کو چھوڑ دو جوتمہیں شک میں ڈالے اور اسے اختیار کرو جوتمہیں شک میں نہ ڈالے،سچائی دل کو مطمئن کرتی ہے،اور جھوٹ دل کو بے قرار کرتا اور شک میں مبتلا کرتا ہے ۱؎،اور اس حدیث میں ایک قصہ بھی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوالحوراء سعدی کانام ربیعہ بن شیبان ہے۔اس سند سے بھی حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ أَبِي الْوَزِيرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نُبَيْہٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ ذُكِرَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِعِبَادَةٍ وَاجْتِہَادٍ وَذُكِرَ عِنْدَہُ آخَرُ بِرِعَةٍ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا يُعْدَلُ بِالرِّعَةِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ ہُوَ مِنْ وَلَدِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَہُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیاگیا جو عبادت وریاضت میں مشہور تھا اور ایک دوسرے شخص کا ذکر کیاگیا جو ورع و پرہیز گاری میں مشہور تھا،تو آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی بھی عبادت ورع و پرہیز گاری کے برابر نہیں ہوسکتی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَأَبُو زُرْعَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ ہِلَالِ بْنِ مِقْلَاصٍ الصَّيْرَفِيِّ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَكَلَ طَيِّبًا وَعَمِلَ فِي سُنَّةٍ وَأَمِنَ النَّاسُ بَوَائِقَہُ دَخَلَ الْجَنَّةَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ ہَذَا الْيَوْمَ فِي النَّاسِ لَكَثِيرٌ قَالَ وَسَيَكُونُ فِي قُرُونٍ بَعْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ وَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَ أَبِي بِشْرٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص حلال کھائے،سنت پر عمل کرے اور لوگ اس کے شرسے محفوظ ہوں،وہ جنت میں داخل ہوگا،ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسے لوگ تو اس زمانے میں بہت پائے جاتے ہیں؟،آپ نے فرمایا: ایسے لوگ میرے بعد کے زمانوں میں بھی ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اس حدیث کواسرائیل کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔اس سند سے بھی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں محمدبن اسماعیل بخاری سے پوچھا وہ بھی یہ حدیث صرف اسرائیل ہی کی روایت سے جانتے تھے اور ابوبشر کانام انہیں معلوم نہیں تھا۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي مَرْحُومٍ عَبْدِ الرَّحِيمِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ أَعْطَی لِلَّہِ وَمَنَعَ لِلَّہِ وَأَحَبَّ لِلَّہِ وَأَبْغَضَ لِلَّہِ وَأَنْكَحَ لِلَّہِ فَقَدْ اسْتَكْمَلَ إِيمَانَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ

معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کی رضاکے لیے دیا اور اللہ کی رضا کے لیے روکا اور جس نے اللہ کی رضا کے لیے محبت کی،اور اللہ کی رضا کے لیے عداوت ودشمنی کی اور اللہ کی رضا کے لیے نکاح کیا تو یقینا اس کا ایمان مکمل ہوگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی قَالَ: أَخْبَرَنَا شَيْبَانُ،عَنْ فِرَاسٍ،عَنْ عَطِيَّةَ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَدْخُلُ الجَنَّةَ عَلَی صُورَةِ القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ،وَالثَّانِيَةُ عَلَی لَوْنِ أَحْسَنِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ،لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ زَوْجَتَانِ عَلَی كُلِّ زَوْجَةٍ سَبْعُونَ حُلَّةً يَبْدُو مُخُّ سَاقِہَا مِنْ وَرَائِہَا)). ((ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ))

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جنت میں جوپہلا گروہ داخل ہوگا ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی صورت ہوں گے اور دوسرے گروہ کے چہرے اس بہتر روشن اور چمکدار ستارے کی طرح ہوں گے جو آسمان میں ہے،ان میں سے ہر شخص کو دو دو بیویاں ملیں گی،ہربیوی کے بدن پرلباس کے ستر جوڑے ہوں گے،پھربھی اس کی پنڈلی کا گودا باہر سے (گوشت کے پیچھے سے) دکھائی دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي شَبَابَةُ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ ثُوَيْرٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَدْنَی أَہْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً لَمَنْ يَنْظُرُ إِلَی جِنَانِہِ وَأَزْوَاجِہِ وَنَعِيمِہِ وَخَدَمِہِ وَسُرُرِہِ مَسِيرَةَ أَلْفِ سَنَةٍ وَأَكْرَمَہُمْ عَلَی اللہِ مَنْ يَنْظُرُ إِلَی وَجْہِہِ غَدْوَةً وَعَشِيَّةً ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وُجُوہٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَرْفُوعًا وَرَوَاہُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبْجَرَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا وَرَوَی عُبَيْدُ اللہِ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ثُوَيْرٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے کم تر درجے کا جنتی وہ ہوگا جو اپنے باغات،بیویوں،نعمتوں،خادموں اور تختوں کی طرف دیکھے گا جو ایک ہزار سال کی مسافت پر مشتمل ہوں گے،اور اللہ کے پاس سب سے مکرم وہ ہوگا جو اللہ کے چہرے کی طرف صبح وشام دیکھے۔پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائیوُجُوْہٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَۃٌ إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث کئی سندوں سے اسرائیل کے واسطہ سے جسے وہ ثویر سے،اور ثویر ابن عمرسے روایت کرتے ہیں مرفوعا ًآئی ہے۔جب کہ اسے عبدالملک بن جبرنے ثویر کے واسطہ سے ابن عمر سے موقوفاً روایت کیا ہے،اور عبیداللہ بن اشجعی نے سفیان سے،سفیان نے ثویر سے،ثویر نے مجاہد سے اور مجاہد نے ابن عمر سے ان کے اپنے قول کی حیثیت سے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔اس سند سے عبد اللہ بن عمر سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،مگر اسے (راوی نے) مرفوع نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ نُوحٍ الْحِمَّانِيُّ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتُضَامُونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَتُضَامُونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ قَالُوا لَا قَالَ فَإِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ الْقَمَرَ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَا تُضَامُونَ فِي رُؤْيَتِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَہَكَذَا رَوَی يَحْيَی بْنُ عِيسَی الرَّمْلِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ ابْنِ إِدْرِيسَ عَنْ الْأَعْمَشِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَحَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَصَحُّ وَہَكَذَا رَوَاہُ سُہَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ مِثْلُ ہَذَا الْحَدِيثِ وَہُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیاتم چودہویں رات کا چاند دیکھنے میں مزاحمت اور دھکم پیل کرتے ہو؟ کیاتم سورج کو دیکھنے میں مزاحمت اور دھکم پیل کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا: نہیں،آپ نے فرمایا: تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھوگے جس طرح چودہویں رات کے چاند کودیکھتے ہو،اس کودیکھنے میں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں کروگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-یحییٰ بن عیسیٰ رملی اور کئی لوگوں نے اسے اسی طرح عن الأعمش،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،عبداللہ بن ادریس نے اسے عن الأعمش،عن أبی صالح،عن أبی سعید،عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے،۳-ابن ادریس کی حدیث جو اعمش کے واسطہ سے مروی ہے غیر محفوظ ہے،اورابوصالح کی حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے زیادہ صحیح ہے،۴-سہیل بن ابی صالح نے اسے اسی طرح اپنے والد سے،انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔یہ حدیث ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے دوسری سند سے اسی کے مثل مروی ہے،اور وہ صحیح حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يَجْمَعُ اللہُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَطَّلِعُ عَلَيْہِمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ أَلَا يَتْبَعُ كُلُّ إِنْسَانٍ مَا كَانُوا يَعْبُدُونَہُ فَيُمَثَّلُ لِصَاحِبِ الصَّلِيبِ صَلِيبُہُ وَلِصَاحِبِ التَّصَاوِيرِ تَصَاوِيرُہُ وَلِصَاحِبِ النَّارِ نَارُہُ فَيَتْبَعُونَ مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ وَيَبْقَی الْمُسْلِمُونَ فَيَطَّلِعُ عَلَيْہِمْ رَبُّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ أَلَا تَتَّبِعُونَ النَّاسَ فَيَقُولُونَ نَعُوذُ بِاللہِ مِنْكَ نَعُوذُ بِاللہِ مِنْكَ اللہُ رَبُّنَا ہَذَا مَكَانُنَا حَتَّی نَرَی رَبَّنَا وَہُوَ يَأْمُرُہُمْ وَيُثَبِّتُہُمْ ثُمَّ يَتَوَارَی ثُمَّ يَطَّلِعُ فَيَقُولُ أَلَا تَتَّبِعُونَ النَّاسَ فَيَقُولُونَ نَعُوذُ بِاللہِ مِنْكَ نَعُوذُ بِاللہِ مِنْكَ اللہُ رَبُّنَا وَہَذَا مَكَانُنَا حَتَّی نَرَی رَبَّنَا وَہُوَ يَأْمُرُہُمْ وَيُثَبِّتُہُمْ قَالُوا وَہَلْ نَرَاہُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ وَہَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ قَالُوا لَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ فَإِنَّكُمْ لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَتِہِ تِلْكَ السَّاعَةَ ثُمَّ يَتَوَارَی ثُمَّ يَطَّلِعُ فَيُعَرِّفُہُمْ نَفْسَہُ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّبِعُونِي فَيَقُومُ الْمُسْلِمُونَ وَيُوضَعُ الصِّرَاطُ فَيَمُرُّونَ عَلَيْہِ مِثْلَ جِيَادِ الْخَيْلِ وَالرِّكَابِ وَقَوْلُہُمْ عَلَيْہِ سَلِّمْ سَلِّمْ وَيَبْقَی أَہْلُ النَّارِ فَيُطْرَحُ مِنْہُمْ فِيہَا فَوْجٌ ثُمَّ يُقَالُ ہَلْ امْتَلَأْتِ فَتَقُولُ ہَلْ مِنْ مَزِيدٍ ثُمَّ يُطْرَحُ فِيہَا فَوْجٌ فَيُقَالُ ہَلْ امْتَلَأْتِ فَتَقُولُ ہَلْ مِنْ مَزِيدٍ حَتَّی إِذَا أُوعِبُوا فِيہَا وَضَعَ الرَّحْمَنُ قَدَمَہُ فِيہَا وَأَزْوَی بَعْضَہَا إِلَی بَعْضٍ ثُمَّ قَالَ قَطْ قَالَتْ قَطْ قَطْ فَإِذَا أَدْخَلَ اللہُ أَہْلَ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ وَأَہْلَ النَّارِ النَّارَ قَالَ أُتِيَ بِالْمَوْتِ مُلَبَّبًا فَيُوقَفُ عَلَی السُّورِ بَيْنَ أَہْلِ الْجَنَّةِ وَأَہْلِ النَّارِ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَہْلَ الْجَنَّةِ فَيَطَّلِعُونَ خَائِفِينَ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَہْلَ النَّارِ فَيَطَّلِعُونَ مُسْتَبْشِرِينَ يَرْجُونَ الشَّفَاعَةَ فَيُقَالُ لِأَہْلِ الْجَنَّةِ وَأَہْلِ النَّارِ ہَلْ تَعْرِفُونَ ہَذَا فَيَقُولُونَ ہَؤُلَاءِ وَہَؤُلَاءِ قَدْ عَرَفْنَاہُ ہُوَ الْمَوْتُ الَّذِي وُكِّلَ بِنَا فَيُضْجَعُ فَيُذْبَحُ ذَبْحًا عَلَی السُّورِ الَّذِي بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَہْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ لَا مَوْتَ وَيَا أَہْلَ النَّارِ خُلُودٌ لَا مَوْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ رِوَايَاتٌ كَثِيرَةٌ مِثْلُ ہَذَا مَا يُذْكَرُ فِيہِ أَمْرُ الرُّؤْيَةِ أَنَّ النَّاسَ يَرَوْنَ رَبَّہُمْ وَذِكْرُ الْقَدَمِ وَمَا أَشْبَہَ ہَذِہِ الْأَشْيَاءَ وَالْمَذْہَبُ فِي ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ الْأَئِمَّةِ مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَابْنِ عُيَيْنَةَ وَوَكِيعٍ وَغَيْرِہِمْ أَنَّہُمْ رَوَوْا ہَذِہِ الْأَشْيَاءَ ثُمَّ قَالُوا تُرْوَی ہَذِہِ الْأَحَادِيثُ وَنُؤْمِنُ بِہَا وَلَا يُقَالُ كَيْفَ وَہَذَا الَّذِي اخْتَارَہُ أَہْلُ الْحَدِيثِ أَنْ تُرْوَی ہَذِہِ الْأَشْيَاءُ كَمَا جَاءَتْ وَيُؤْمَنُ بِہَا وَلَا تُفَسَّرُ وَلَا تُتَوَہَّمُ وَلَا يُقَالُ كَيْفَ وَہَذَا أَمْرُ أَہْلِ الْعِلْمِ الَّذِي اخْتَارُوہُ وَذَہَبُوا إِلَيْہِ وَمَعْنَی قَوْلِہِ فِي الْحَدِيثِ فَيُعَرِّفُہُمْ نَفْسَہُ يَعْنِي يَتَجَلَّی لَہُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام لوگوں کو ایک وسیع اور ہموارزمین میں جمع کرے گا،پھراللہ رب العالمین ان کے سامنے اچانک آئے گا اورکہے گا: کیوں نہیں ہرآدمی اس چیز کے پیچھے چلاجاتاہے جس کی وہ عبادت کرتاتھا؟ چنانچہ صلیب پوجنے والوں کے سامنے ان کی صلیب کی صورت بن جائے گی،بت پوجنے والوں کے سامنے بتوں کی صورت بن جائے گی اور آگ پوجنے والوں کے سامنے آگ کی صورت بن جائے گی،پھر وہ لوگ اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے لگ جائیں گے اور مسلمان ٹھہرے رہیں گے،پھر رب العالمین ان کے پاس آئے گا اور کہے گا: تم بھی لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں،ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں،ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے،ہم یہیں رہیں گے یہاں تک کہ ہم اپنے رب کودیکھ لیں۔اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے گا اور ان کو ثابت قدم رکھے گا اور چھپ جائے گا،پھر آئے گا اورکہے گا: تم بھی لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں،ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں،ہمارارب اللہ ہے اور ہماری جگہ یہی ہے یہاں تک کہ ہم اپنے رب کو دیکھ لیں،اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے گا اور انہیں ثابت قدم رکھے گا،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیاہم اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا:کیاچودہویں رات کے چاند دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت اور دھکم پیل ہوتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں،اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کے دیکھنے میں اس وقت کوئی مزاحمت اور دھکم پیل نہیں کروگے۔پھر اللہ تعالیٰ چھپ جائے گا پھر جھانکے گا اور ان سے اپنی شناخت کرائے گا،پھر کہے گا: میں تمہارا رب ہوں،میرے پیچھے آؤ،چنانچہ مسلمان کھڑے ہوں گے اور پل صراط قائم کیا جائے گا،اس پر سے مسلمان تیز رفتار گھوڑے اور سوار کی طرح گزریں گے اور گزرتے ہوئے ان سے یہ کلمات اداہوں گے سلّم سلّم (سلامت رکھ،سلامت رکھ)،صرف جہنمی باقی رہ جائیں گے تو ان میں سے ایک گروہ کو جہنم میں پھینک دیاجائے گا،پھر پوچھا جائے گا: کیا توبھر گئی؟ جہنم کہے گی: اور زیادہ،پھر اس میں دوسرا گروہ پھینکا جائے گا اور پوچھا جائے گا: کیاتو بھرگئی؟ وہ کہے گی: اور زیادہ،یہاں تک کہ جب تمام لوگ پھینک دیے جائیں گے تو رحمن اس میں اپنا پیر ڈالے گا اور جہنم کا ایک حصہ دوسرے میں سمٹ جائے گا،پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: بس۔جہنم کہے گی: بس،بس۔جب اللہ تعالیٰ جنتیوں کوجنت میں اور جہنمیوں کو جہنم میں داخل کردے گا،توموت کو کھینچتے ہوئے اس دیوار تک لایا جائے گا جو جنت اورجہنم کے درمیان ہے،پھر کہاجائے گا: اے جنتیو! تووہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے،پھر کہاجائے گا: اے جہنمیو!تو وہ شفاعت کی امید میں خوش ہوکر جھانکیں گے،پھر جنتیوں اور جہنمیوں سے کہاجائے گا: کیا تم اسے جانتے ہو؟ تو یہ بھی کہیں گے اور وہ بھی کہیں گے: ہم نے اسے پہچان لیا،یہ وہی موت ہے جوہمارے اوپر وکیل تھی،پھر وہ جنت اورجہنم کی بیچ والی دیوار پر لٹا کریکبارگی ذبح کردی جائے گی،پھرکہاجائے گا: اے جنتیو! ہمیشہ(جنت میں) رہناہے موت نہیں آئے گی۔اے جہنمیو! ہمیشہ(جہنم میں) رہنا ہے موت نہیں آئے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرم ﷺ سے اسی جیسی بہت سی احادیث مروی ہیں جس میں دیدار الٰہی کا ذکر ہے کہ لوگ اپنے رب کو دیکھیں گے،قدم اور اسی طرح کی چیزوں کا بھی ذکر ہے،۳-اس سلسلے میں ائمہ اہل علم جیسے سفیان ثوری،مالک بن انس،ابن مبارک،ابن عیینہ اور وکیع وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کی روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ حدیثیں آئی ہیں اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں،لیکن صفات باری تعالیٰ کی کیفیت کے بارے میں کچھ نہیں کہا جائے گا،محدثین کا مسلک یہ یہی کہ یہ چیزیں ویسی ہی روایت کی جائیں گی جیسی وارد ہوئی ہیں،ان کی نہ(باطل) تفسیر کی جائے گی نہ اس میں کوئی وہم پیدا کیاجائے گا،اورنہ ان کی کیفیت وکنہ کے بارے میں پوچھاجائے گا،اہل علم نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے اورلوگ اسی کی طرف گئے ہیں،۴-حدیث کے اندر فیعرفہم نفسہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے تجلی فرمائے گا۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ يَرْفَعُہُ قَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُتِيَ بِالْمَوْتِ كَالْكَبْشِ الْأَمْلَحِ فَيُوقَفُ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُذْبَحُ وَہُمْ يَنْظُرُونَ فَلَوْ أَنَّ أَحَدًا مَاتَ فَرَحًا لَمَاتَ أَہْلُ الْجَنَّةِ وَلَوْ أَنَّ أَحَدًا مَاتَ حُزْنًا لَمَاتَ أَہْلُ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم(ﷺ) نے فرمایا: قیامت کے دن موت کو چتکبرے مینڈھے کی طرح لایا جائے گا اور جنت وجہنم کے درمیان کھڑی کی جائے گی پھر وہ ذبح کی جائے گی،اورجنتی وجہنمی دیکھ رہے ہوں گے،سو اگر کوئی خوشی سے مرنے والا ہوتا توجنتی مرجاتے اور اگرکوئی غم سے مرنے والا ہوتا تو جہنمی مرجاتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَہُوَ يَرَی أَنَّہُ كَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَسَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثَ وَرَوَی الْأَعْمَشُ وَابْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَكَأَنَّ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ سَمُرَةَ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ أَصَحُّ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَہُوَ يَرَی أَنَّہُ كَذِبٌ فَہُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ قُلْتُ لَہُ مَنْ رَوَی حَدِيثًا وَہُوَ يَعْلَمُ أَنَّ إِسْنَادَہُ خَطَأٌ أَيُخَافُ أَنْ يَكُونَ قَدْ دَخَلَ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَوْ إِذَا رَوَی النَّاسُ حَدِيثًا مُرْسَلًا فَأَسْنَدَہُ بَعْضُہُمْ أَوْ قَلَبَ إِسْنَادَہُ يَكُونُ قَدْ دَخَلَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ لَا إِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ إِذَا رَوَی الرَّجُلُ حَدِيثًا وَلَا يُعْرَفُ لِذَلِكَ الْحَدِيثِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَصْلٌ فَحَدَّثَ بِہِ فَأَخَافُ أَنْ يَكُونَ قَدْ دَخَلَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے میری طرف منسوب کرکے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ دو جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے حکم سے،حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے،عبدالرحمٰن نے سمرہ سے،اور سمرہ نے نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث روایت کی ہے،۳-اعمش اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے،حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے،عبدالرحمٰن نے علی سے اورعلی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی حدیث جسے وہ سمرہ سے روایت کرتے ہیں،محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح ہے،۴-اس باب میں علی ابن ابی طالب اور سمرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۵-میں نے ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی سے نبی اکرم ﷺ کی حدیث من حدث عنی حدیثا وہو یری أنہ کذب فہو أحد الکاذبین کے متعلق پوچھا کہ اس سے مراد کیا ہے،میں نے ان سے کہا کیا یہ کہ جس نے کوئی حدیث بیان کی اوروہ جانتا ہے کہ اس کی اسناد میں کچھ خطا (غلطی اور کمی) ہے تو کیا یہ خوف وخطرہ محسوس کیاجائے کہ ایساشخص نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث کی زداور وعید میں آگیا۔یا اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں نے حدیث مرسل بیان کی تو انہیں میں سے کچھ لوگوں نے اس مرسل کو مرفوع کردیا یا اس کی اسناد کوہی الٹ پلٹ دیا تویہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی زد میں آئیں گے؟ تو انہوں نے کہا:نہیں۔اس کا معنی (ومطلب) یہ ہے کہ جب کوئی شخص حدیث روایت کرے اور رسول اللہ ﷺ تک اس حدیث کے مرفوع ہونے کی کوئی اصل (وجہ وسبب) نہ جانی جاتی ہو،اور وہ شخص اسے مرفوع کرکے بیان کردے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا فرمایایا ایساکیا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ ایسا ہی شخص اس حدیث کا مصداق ہوگا۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّی ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَعَلَيْكَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ہَذَا عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ فَقَالَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ فَسَلَّمَ عَلَيْہِ وَقَالَ وَعَلَيْكَ قَالَ وَحَدِيثُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ أَصَحُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص مسجد میں آیا (اس وقت) رسول اللہ ﷺ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرماتھے۔اس نے صلاۃ پڑھی پھر آکرآپ کوسلام عرض کیا،رسول اللہ ﷺ نے کہا وعلیک (تم پر بھی سلام ہو)۔جاؤ دوبارہ صلاۃ پڑھو کیوں کہ تم نے صلاۃنہیں پڑھی،پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یحییٰ بن سعید قطان نے یہ حدیث عبیدا للہ بن عمر سے اور عبید اللہ بن عمر نے سعید مقبری سے روایت کی ہے،اس میں انہوں نے عن أبیہ،عن أبی ہریرۃ کہا ہے،اس میں فسلم علیہ وقال: وعلیک (اس نے آپ کو سلام کیا اور آپ نے کہا تم پربھی سلام ہو) کا ذکر نہیں کیا،۳-یحییٰ بن سعید کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ الْأَنْصَارِيُّ مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا بُنَيَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَی أَہْلِكَ فَسَلِّمْ يَكُنْ بَرَكَةً عَلَيْكَ وَعَلَی أَہْلِ بَيْتِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو انہیں سلام کیا کرو،یہ سلام تمہار ے لیے اور تمہارے گھروالوں کے لیے خیر وبرکت کا باعث ہوگا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللہِ أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ ہِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْہِ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ وَكَانُوا تُجَّارًا بِالشَّامِ فَأَتَوْہُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيہِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللہِ وَرَسُولِہِ إِلَی ہِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ السَّلَامُ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْہُدَی أَمَّا بَعْدُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُہُ صَخْرُ بْنُ حَرْبٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیاکہ وہ قریش کے کچھ تاجروں کے ساتھ شام میں تھے کہ ہرقل (شہنشاہ شام) نے انہیں بلابھیجا،تووہ سب اس کے پاس آئے،پھر سفیان نے آگے بات بڑھائی۔کہا: پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا خط منگوایا۔پھر خط پڑھاگیا،اس میں لکھاتھابسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد عبداللہ ورسولہ إلی ہرقل عظیم الروم السلام علی من اتبع الہدی أمابعد: میں شروع کرتاہوں اس اللہ کے نام سے جورحمان (بڑا مہربان) اوررحیم(نہایت رحم کرنے والا)ہے۔یہ خط محمدکی جانب سے ہے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔اور ہرقل کے پاس بھیجاجارہاہے جو روم کے شہنشاہ ہیں۔سلامتی ہے اس شخص کے لیے جو ہدایت کی پیروی کرے۔امابعد: حمد ونعت کے بعد ...الخ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوسفیان کانام صخر بن حرب رضی اللہ عنہ تھا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا سَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ يَبُولُ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْہِ يَعْنِي السَّلَامَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی النَّيْسَابُورِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الضَّحَّاكِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلْقَمَةَ ابْنِ الْفَغْوَاءِ وَجَابِرٍ وَالْبَرَاءِ وَالْمُہَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو اس وقت سلام کیا جب آپ پیشاب کررہے تھے،تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سندسے اسی طرح روایت کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علقمہ بن فغواء،جابر،براء اور مہاجر بن قنفد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاہُ مِنْ مَجْلِسِہِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے اٹھاکر خود اس کی جگہ نہ بیٹھ جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُقِمْ أَحَدُكُمْ أَخَاہُ مِنْ مَجْلِسِہِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيہِ قَالَ وَكَانَ الرَّجُلُ يَقُومُ لِابْنِ عُمَرَ فَلَا يَجْلِسُ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھاکر خود اس جگہ نہ بیٹھ جائے۔ راوی سالم کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما کے احترام میں آدمی ان کے آنے پر اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوجاتاتھا لیکن وہ (اس ممانعت کی وجہ سے) اس کی جگہ نہیں بیٹھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ أَنَّ رَجُلًا قَعَدَ وَسْطَ حَلْقَةٍ فَقَالَ حُذَيْفَةُ مَلْعُونٌ عَلَی لِسَانِ مُحَمَّدٍ أَوْ لَعَنَ اللہُ عَلَی لِسَانِ مُحَمَّدٍ ﷺ مَنْ قَعَدَ وَسْطَ الْحَلْقَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مِجْلَزٍ اسْمُہُ لَاحِقُ بْنُ حُمَيْدٍ

ابومجلز سے روایت ہے کہ ایک آدمی حلقہ کے بیچ میں بیٹھ گیا،تو حذیفہ نے کہا:محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق وہ شخص ملعون ہے جو بیٹھے ہوئے لوگوں کے حلقہ (دائرہ) کے بیچ میں جاکر بیٹھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابومجلز کانام لاحق بن حمید ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَی أَبُو مُحَمَّدٍ صَاحِبُ الدَّقِيقِ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ وَقَّتَ لَہُمْ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً تَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ وَأَخْذَ الشَّارِبِ وَحَلْقَ الْعَانَةِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے لوگوں کے لیے مدت متعین فرمادی ہے کہ ہرچالیس دن کے اندر ناخن کاٹ لیں۔مونچھیں کتروا لیں۔اور ناف سے نیچے کے بال مونڈ لیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ وَنَتْفِ الْإِبْطِ لَا يُتْرَكُ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا قَالَ ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَوَّلِ وَصَدَقَةُ بْنُ مُوسَی لَيْسَ عِنْدَہُمْ بِالْحَافِظِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مونچھیں کترنے،ناخن کاٹنے،زیر ناف کے بال لینے،اور بغل کے بال اکھاڑنے کا ہمارے لیے وقت مقرر فرمادیاگیاہے،اور وہ یہ ہے کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑے رکھیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-صدقہ بن موسیٰ (جوپہلی حدیث کی سند میں) محدثین کے نزدیک حافظ نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَال سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ يَقُولُ بَيْنَمَا النَّبِيُّ ﷺ يَمْشِي إِذْ جَاءَہُ رَجُلٌ وَمَعَہُ حِمَارٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ ارْكَبْ وَتَأَخَّرَ الرَّجُلُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَأَنْتَ أَحَقُّ بِصَدْرِ دَابَّتِكَ إِلَّا أَنْ تَجْعَلَہُ لِي قَالَ قَدْ جَعَلْتُہُ لَكَ قَالَ فَرَكِبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ چلے جارہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص جس کے ساتھ گدھا تھا آپ کے پاس آیا۔اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ سوار ہوجائیے،اور خود پیچھے ہٹ گیا۔تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تو اپنی سواری کے سینے پر یعنی آگے بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہو الاّ کہ تم مجھے اس کا حق دے دو۔یہ سن کر فوراً اس نے کہا:میں نے اس کا حق آپ کو دیدیا۔ پھرآپ اس پر سوار ہوگئے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔اس باب میں قیس بن سعد بن عبادۃ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ زُرْعَةَ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ جَرْہَدٍ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ جَدِّہِ جَرْہَدٍ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِجَرْہَدٍ فِي الْمَسْجِدِ وَقَدْ انْكَشَفَ فَخِذُہُ فَقَال إِنَّ الْفَخِذَ عَوْرَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ مَا أَرَی إِسْنَادَہُ بِمُتَّصِلٍ

جرہد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ مسجد میں جرہد کے پاس(یعنی میرے پاس سے) سے گزرے (اس وقت) ان کی ران کھلی ہوئی تھی تو آپ نے فرمایا: ران بھی ستر (چھپانے کی چیز)ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-میرے نزدیک اس کی سندمتصل نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ جَرْہَدٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِہِ وَہُوَ كَاشِفٌ عَنْ فَخِذِہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ غَطِّ فَخِذَكَ فَإِنَّہَا مِنْ الْعَوْرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

جرہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس سے گزرے اور وہ اپنی ران کھولے ہوئے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنی ران ڈھانپ لو کیوں کہ یہ ستر (چھپانے کی چیز) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَرْہَدٍ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْفَخِذُ عَوْرَةٌ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

جرہد اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ران ستر(چھپانے کی چیز) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں علی اور محمد بن عبداللہ بن جحش سے بھی احادیث آئی ہیں۔اور عبداللہ بن جحش اوران کے بیٹے محمد رضی اللہ عنہما دونوں صحابی رسول ہیں۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي يَحْيَی عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْفَخِذُ عَوْرَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ جَحْشٍ وَلِعَبْدِ اللہِ بْنِ جَحْشٍ صُحْبَةٌ وَلِابْنِہِ مُحَمَّدٍ صُحْبَةٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ران بھی ستر (چھپانے کی چیز)ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ الْمِقْدَامِ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَدْخُلْ الْحَمَّامَ بِغَيْرِ إِزَارٍ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُدْخِلْ حَلِيلَتَہُ الْحَمَّامَ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَجْلِسْ عَلَی مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْہَا بِالْخَمْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ طَاوُوسٍ عَنْ جَابِرٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ صَدُوقٌ وَرُبَّمَا يَہِمُ فِي الشَّيْءِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لَيْثٌ لَا يُفْرَحُ بِحَدِيثِہِ كَانَ لَيْثٌ يَرْفَعُ أَشْيَاءَ لَا يَرْفَعُہَا غَيْرُہُ فَلِذَلِكَ ضَعَّفُوہُ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ پراور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ تہہ بند باندھے بغیر غسل خانہ(حمام) میں داخل نہ ہو،جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہو وہ اپنی بیوی کوغسل خانہ(حمام) میں نہ بھیجے،اورجو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہو وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دورچلتاہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اس سندسے جانتے ہیں،۳-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: لیث بن ابی سلیم صدوق ہیں،لیکن بسا اوقات وہ وہم کرجاتے ہیں،۴-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل کہتے ہیں:لیث کی حدیث سے دل خوش نہیں ہوتا۔لیث بعض ایسی حدیثوں کو مرفوع بیان کردیتے تھے جسے دوسرے لوگ مرفوع نہیں کرتے تھے۔انہیں وجوہات سے لوگوں نے انہیں ضعیف قراردیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي عُذْرَةَ وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی الرِّجَالَ وَالنِّسَاءَ عَنْ الْحَمَّامَاتِ ثُمَّ رَخَّصَ لِلرِّجَالِ فِي الْمَيَازِرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ وَإِسْنَادُہُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَائِمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مردوں اورعورتوں کو حمامات (عمومی غسل خا نوں) میں جاکر نہانے سے منع فرمایا۔پھر مردوں کو تہہ بند پہن کر نہانے کی اجازت دے دی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو ہم صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس کی سند ویسی مضبوط نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ قَال سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ الْہُذَلِيِّ أَنَّ نِسَاءً مِنْ أَہْلِ حِمْصَ أَوْ مِنْ أَہْلِ الشَّامِ دَخَلْنَ عَلَی عَائِشَةَ فَقَالَتْ أَنْتُنَّ اللَّاتِي يَدْخُلْنَ نِسَاؤُكُنَّ الْحَمَّامَاتِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا مِنْ امْرَأَةٍ تَضَعُ ثِيَابَہَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِہَا إِلَّا ہَتَكَتْ السِّتْرَ بَيْنَہَا وَبَيْنَ رَبِّہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوملیح ہذلی سے روایت ہے کہ اہل حمص یا اہل شام کی کچھ عورتیں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا: تم وہی ہوجن کی عورتیں حمامات(عمومی غسل خانوں) میں نہانے جایاکرتی ہیں؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو عورت اپنے شوہر کے گھر کے سوا اپنے کپڑے کہیں دوسری جگہ اتارکر رکھتی ہے وہ عورت اپنے اور اپنے رب کے درمیان سے حجاب کا پردہ اٹھادیتی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَبْيَضَ قَدْ شَابَ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِہُہُ وَأَمَرَ لَنَا بِثَلَاثَةَ عَشَرَ قَلُوصًا فَذَہَبْنَا نَقْبِضُہَا فَأَتَانَا مَوْتُہُ فَلَمْ يُعْطُونَا شَيْئًا فَلَمَّا قَامَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ مَنْ كَانَتْ لَہُ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ ﷺ عِدَةٌ فَلْيَجِئْ فَقُمْتُ إِلَيْہِ فَأَخْبَرْتُہُ فَأَمَرَ لَنَا بِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ بِإِسْنَادٍ لَہُ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ نَحْوَ ہَذَا وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِہُہُ وَلَمْ يَزِيدُوا عَلَی ہَذَا

ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو گوراچٹا دیکھا،آپ پر بڑھاپا آچلاتھا حسن بن علی رضی اللہ عنہما (شکل وصورت میں) آپ کے مشابہ تھے۔آپ نے تیرہ(۱۳)جوان اونٹنیاں ہم کو عنایت کرنے کے لیے حکم صادر فرمایا،ہم انہیں لینے کے لیے گئے ہی تھے کہ اچانک آپ کے انتقال کی خبر آگئی،چنانچہ لوگوں نے ہمیں کچھ نہ دیا،پھر جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے مملکت کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو انہوں نے اعلان کیاکہ رسول اللہ ﷺ سے جس کسی کابھی کوئی عہد وپیمان ہوتو وہ ہمارے پاس آئے(اورپیش کرے) چنانچہ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور انہیں آپ کے حکم سے آگاہ کیا،تو انہوں نے ہمیں ان اونٹنیوں کے دینے کا حکم فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-مروان بن معاویہ نے یہ حدیث اپنی سندسے ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-کئی اور لوگوں نے بھی اسماعیل بن ابوخالد کے واسطہ سے ابوجحیفہ سے روایت کی ہے،(اس روایت میں ہے) وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ہے حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ کے مشابہ تھے۔اور انہوں نے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ حَدَّثَنَا أَبُو جُحَيْفَةَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَكَانَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يُشْبِہُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَ ہَذَا وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبُو جُحَيْفَةَ اسْمُہُ وَہْبٌ السُّوَائِيُّ

ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا ہے،حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ کے مشابہ تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اسی طرح کئی ایک نے اسماعیل بن ابوخالد سے اسی جیسی روایت کی ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کانام وہب سوائی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْوَرَّاقُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ الْمَكِّيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَی اللہِ عَزَّ وَجَلَّ عَبْدُ اللہِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْن عُمَرَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ أَحَبَّ الْأَسْمَاءِ إِلَی اللہِ عَبْدُ اللہِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِي أَسْمَاءً أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللہُ بِيَ الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے کئی نام ہیں:میں محمدہوں،میں احمد ہوں،میں وہ ماحی ہوں جس کے ذریعہ اللہ کفر کو مٹاتاہے،میں وہ حاشر ہوں جس کے قدموں پرلوگ جمع کیے جائیں گے ۱؎ میں وہ عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہ پیداہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں حذیفہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ قَالَ سُئِلَتْ عَائِشَةُ وَأُمُّ سَلَمَةَ أَيُّ الْعَمَلِ كَانَ أَحَبَّ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَتَا مَا دِيمَ عَلَيْہِ وَإِنْ قَلَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مَا دِيمَ عَلَيْہِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوصالح سے روایت ہے کہ ام المومنین عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے پوچھاگیا کہ کون سا عمل رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ پسند تھا؟،ان دونوں نے جواب دیاکہ وہ عمل جوگرچہ تھوڑا ہولیکن اسے مستقل اور برابر کیاجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔ہشام بن عروہ سے مروی ہے،وہ اپنے باپ عروہ کے واسطہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں،وہ کہتی ہیں،رسول اللہ ﷺ کو زیادہ پسند وہ عمل تھا جس پر مداومت برتی جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا عَلَی كَنَفَيْ الصِّرَاطِ زُورَانِ لَہُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ عَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَہُ وَاللہُ يَدْعُوا إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَيَہْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ وَالْأَبْوَابُ الَّتِي عَلَی كَنَفَيْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللہِ فَلَا يَقَعُ أَحَدٌ فِي حُدُودِ اللہِ حَتَّی يُكْشَفَ السِّتْرُ وَالَّذِي يَدْعُو مِنْ فَوْقِہِ وَاعِظُ رَبِّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ قَالَ سَمِعْت عَبْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ زَكَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ يَقُولُ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ الْفَزَارِيُّ خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَكُمْ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَكُمْ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا غَيْرِ الثِّقَاتِ

نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال دی ہے،اس صراط مستقیم کے دونوں جانب دوگھر ہیں،ان گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں،دروازوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں،ایک پکارنے والااس راستے کے سرے پر کھڑا پکاررہاہے،اور دوسرا پکارنے والا اوپر سے پکاررہاہے،(پھرآپ نے یہ آیت پڑھی) وَاللہُ یَدْعُوا إِلَی دَارِ السَّلاَمِ وَیَہْدِی مَنْ یَشَائُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ (اللہ تعالیٰ دارالسلام (جنت کی طرف) بلاتاہے اورجسے چاہتاہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتاہے۔تووہ دروازے جوصراط مستقیم کے دونوں جانب ہیں وہ حدود اللہ ہیں ۱؎ توکوئی شخص جب تک پردہ کھول نہ دیاجائے،حدود اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا اور اوپر سے پکارنے والا اس کے رب کا واعظ ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن کو سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے زکریا بن عدی کو سناوہ کہتے تھے کہ ابواسحاق فزاری نے کہا: بقیہ (راوی) تم سے جو ثقہ راویوں کے ذریعہ روایت کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی روایت نہ لو خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِلَالٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمًا فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ جِبْرِيلَ عِنْدَ رَأْسِي وَمِيكَائِيلَ عِنْدَ رِجْلَيَّ يَقُولُ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ اضْرِبْ لَہُ مَثَلًا فَقَالَ اسْمَعْ سَمِعَتْ أُذُنُكَ وَاعْقِلْ عَقَلَ قَلْبُكَ إِنَّمَا مَثَلُكَ وَمَثَلُ أُمَّتِكَ كَمَثَلِ مَلِكٍ اتَّخَذَ دَارًا ثُمَّ بَنَی فِيہَا بَيْتًا ثُمَّ جَعَلَ فِيہَا مَائِدَةً ثُمَّ بَعَثَ رَسُولًا يَدْعُو النَّاسَ إِلَی طَعَامِہِ فَمِنْہُمْ مَنْ أَجَابَ الرَّسُولَ وَمِنْہُمْ مَنْ تَرَكَہُ فَاللہُ ہُوَ الْمَلِكُ وَالدَّارُ الْإِسْلَامُ وَالْبَيْتُ الْجَنَّةُ وَأَنْتَ يَا مُحَمَّدُ رَسُولٌ فَمَنْ أَجَابَكَ دَخَلَ الْإِسْلَامَ وَمَنْ دَخَلَ الْإِسْلَامَ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّةَ أَكَلَ مَا فِيہَا وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِإِسْنَادٍ أَصَحَّ مِنْ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ سَعِيدُ بْنُ أَبِي ہِلَالٍ لَمْ يُدْرِكْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ

جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا: میں نے خواب دیکھاہے کہ جبرئیل میرے سرکے پاس ہیں اور میکائیل میرے پیروں کے پاس،ان دونوں میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی سے کہہ رہاتھا: ان کی کوئی مثال پیش کرو،تو اس نے آپ ﷺ کومخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ سنیں،آپ کے کان ہمیشہ سنتے رہیں،آپ سمجھیں،آپ کا دل عقل (سمجھ،علم وحکمت) سے بھرارہے۔آپ کی مثال اور آپ کی امت کی مثال ایک ایسے بادشاہ کی ہے جس نے ایک شہر آباد کیا،اس شہر میں ایک گھر بنایا پھر ایک دسترخوان بچھایا،پھر قاصد کو بھیج کرلوگوں کوکھانے پر بلایا،توکچھ لوگوں نے اس کی دعوت قبول کرلی اور کچھ لوگوں نے بلانے والے کی دعوت ٹھکرادی(کچھ پرواہ ہی نہ کی)اس مثال میں یہ سمجھو کہ اللہ بادشاہ ہے،اور دار سے مراد اسلام ہے اور بیت سے مراد جنت ہے اور آپ اے محمد! رسول وقاصد ہیں۔جس نے آپ کی دعوت قبول کرلی وہ اسلام میں داخل ہوگیا اور جواسلام میں داخل ہوگیا وہ جنت میں داخل ہوگیا تو اس نے وہ سب کچھ کھایا جو جنت میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندکے علاوہ دوسری سندوں سے بھی نبی اکرمﷺ سے مروی ہے اور وہ سندیں اس حدیث کی سند سے زیادہ صحیح ہیں،۲-یہ مرسل حدیث ہے۔(یعنی منقطع ہے)۳-سعید بن ابی ہلال نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کو نہیں پایا ہے،۴-اس باب میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔(جوآگے آرہی ہے)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْہُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعِشَاءَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ حَتَّی خَرَجَ بِہِ إِلَی بَطْحَاءِ مَكَّةَ فَأَجْلَسَہُ ثُمَّ خَطَّ عَلَيْہِ خَطًّا ثُمَّ قَالَ لَا تَبْرَحَنَّ خَطَّكَ فَإِنَّہُ سَيَنْتَہِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْہُمْ فَإِنَّہُمْ لَا يُكَلِّمُونَكَ قَالَ ثُمَّ مَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ حَيْثُ أَرَادَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي خَطِّي إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّہُمْ الزُّطُّ أَشْعَارُہُمْ وَأَجْسَامُہُمْ لَا أَرَی عَوْرَةً وَلَا أَرَی قِشْرًا وَيَنْتَہُونَ إِلَيَّ وَلَا يُجَاوِزُونَ الْخَطَّ ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ حَتَّی إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَكِنْ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَدْ جَاءَنِي وَأَنَا جَالِسٌ فَقَالَ لَقَدْ أَرَانِي مُنْذُ اللَّيْلَةَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ فِي خَطِّي فَتَوَسَّدَ فَخِذِي فَرَقَدَ وَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَقَدَ نَفَخَ فَبَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي إِذَا أَنَا بِرِجَالٍ عَلَيْہِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللہُ أَعْلَمُ مَا بِہِمْ مِنْ الْجَمَالِ فَانْتَہَوْا إِلَيَّ فَجَلَسَ طَائِفَةٌ مِنْہُمْ عِنْدَ رَأْسِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَطَائِفَةٌ مِنْہُمْ عِنْدَ رِجْلَيْہِ ثُمَّ قَالُوا بَيْنَہُمْ مَا رَأَيْنَا عَبْدًا قَطُّ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ ہَذَا النَّبِيُّ إِنَّ عَيْنَيْہِ تَنَامَانِ وَقَلْبُہُ يَقْظَانُ اضْرِبُوا لَہُ مَثَلًا مَثَلُ سَيِّدٍ بَنَی قَصْرًا ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً فَدَعَا النَّاسَ إِلَی طَعَامِہِ وَشَرَابِہِ فَمَنْ أَجَابَہُ أَكَلَ مِنْ طَعَامِہِ وَشَرِبَ مِنْ شَرَابِہِ وَمَنْ لَمْ يُجِبْہُ عَاقَبَہُ أَوْ قَالَ عَذَّبَہُ ثُمَّ ارْتَفَعُوا وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ سَمِعْتَ مَا قَالَ ہَؤُلَاءِ وَہَلْ تَدْرِي مَنْ ہَؤُلَاءِ قُلْتُ اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ ہُمْ الْمَلَائِكَةُ فَتَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا قُلْتُ اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا الرَّحْمَنُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی بَنَی الْجَنَّةَ وَدَعَا إِلَيْہَا عِبَادَہُ فَمَنْ أَجَابَہُ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَمْ يُجِبْہُ عَاقَبَہُ أَوْ عَذَّبَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو تَمِيمَةَ ہُوَ الْہُجَيْمِيُّ وَاسْمُہُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّہْدِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ قَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْہُ مُعْتَمِرٌ وَہُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ طَرْخَانَ وَلَمْ يَكُنْ تَيْمِيًّا وَإِنَّمَا كَانَ يَنْزِلُ بَنِي تَيْمٍ فَنُسِبَ إِلَيْہِمْ قَالَ عَلِيٌّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ مَا رَأَيْتُ أَخْوَفَ لِلَّہِ تَعَالَی مِنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء پڑھی۔پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گیے (وہاں) انہیں (ایک جگہ) بٹھادیا۔پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں،اوران سے کہا: ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا۔تمہارے قریب بہت سے لوگ آکر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا،اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ جہاں جانا چاہتے تھے وہاں چلے گئے،اسی دوران کہ میں اپنے دائرہ کے اندر بیٹھا ہواتھا کچھ لوگ میرے پاس آئے وہ جاٹ لگ رہے تھے ۱؎،ان کے بال اور جسم نہ مجھے ننگے دکھائی دے رہے تھے اور نہ ہی (ان کے جسموں پر مجھے) لباس نظر آرہاتھا،وہ میرے پاس آکر رک جاتے اور لکیر کو پار نہ کرتے،پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف نکل جاتے،یہاں تک کہ جب رات ختم ہونے کو آئی تو آپﷺ میرے پاس تشریف لا ئے،میں بیٹھا ہواتھا۔آپ نے فرمایا: رات ہی سے اپنے آپ کو دیکھتاہوں (یعنی میں سونہ سکا) پھر آپ دائرے کے اندر داخل ہوکر میرے پاس آئے۔اور میری ران کا تکیہ بناکرسوگئے،آپ سونے میں خرّاٹے لینے لگتے تھے،تواسی دوران کہ میں بیٹھا ہواتھا اور آپ میری ران کا تکیہ بنائے ہوئے سورہے تھے۔یکایک میں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پایا جن کے کپڑے سفید تھے،اللہ خوب جانتاہے کہ انہیں کس قدر خوبصورتی حاصل تھی۔وہ لوگ میرے پاس آکر رک گئے،ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے سرہانے بیٹھ گئے اور کچھ لوگ آپ کے پائتانے،پھر ان لوگوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا: ہم نے کسی بندے کو کبھی نہیں دیکھا جسے اتنا ملاہو جتنا اس نبی کو ملا ہے۔ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کادل بیدار رہتاہے۔ان کے لیے کوئی مثال پیش کرو (پھرانہوں نے کہا ان کی مثال) ایک سردار کی مثال ہے جس نے ایک محل بنایا،پھر ایک دسترخوان بچھایا اور لوگوں کو اپنے دسترخوان پر کھانے پینے کے لیے بلایا،تو جس نے ان کی دعوت قبول کرلی وہ ان کے کھانے پینے سے فیض یاب ہوا۔اور جس نے ان کی دعوت قبول نہ کی وہ (سردار) اسے سزادے گا پھر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔اور ان کے جاتے ہی رسول اللہ ﷺ بیدار ہوگئے۔آپ نے فرمایا: سنا،کیا کہا انہوں نے؟اور یہ کون لوگ تھے؟ میں نے کہا: اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے۔تم سمجھتے ہو انہوں نے کیا مثال دی ہے؟ میں نے(پھر) کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔آپ نے فرمایا: انہوں نے جومثال دی ہے وہ ہے رحمن (اللہ)تبارک وتعالیٰ کی،رحمن نے جنت بنائی،اور اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی۔تو جس نے دعوت قبول کرلی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جو اس کی دعوت نہ قبول کرے گا وہ اسے عذاب وعقاب سے دوچار کرے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-ا بوتمیمہ: ہجیمی ہیں اور ان کانام طریف بن مجالد ہے،۳-ابوعثمان نہدی کانام عبدالرحمٰن بن مل ہے،۴-سلیمان تیمی جن سے یہ حدیث معتمر نے روایت کی ہے وہ سلیمان بن طرخان ہیں،وہ اصلا ً تیمی نہ تھے،لیکن وہ بنی تیم میں آیا جایاکرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیمی مشہور ہوگئے۔علی ابن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے تھے: میں نے سلیمان تیمی سے زیادہ کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْأُتْرُنْجَةِ رِيحُہَا طَيِّبٌ وَطَعْمُہَا طَيِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ لَا رِيحَ لَہَا وَطَعْمُہَا حُلْوٌ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُہَا طَيِّبٌ وَطَعْمُہَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ رِيحُہَا مُرٌّ وَطَعْمُہَا مُرٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ أَيْضًا

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتاہے سنگترے کی سی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے اور ذائقہ ومزہ بھی اچھا ہے،اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی سی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہے اور مزہ میٹھا ہے۔اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتاہے خوشبودار پودے کی ہے جس کی بو،مہک تو اچھی ہے مزہ کڑوا ہے۔اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتاہے اندرائن (حنظل) (ا یک کڑوا پھل) کی طرح ہے جس کی بو بھی اچھی نہیں اور مزہ بھی اچھا نہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے شعبہ نے قتادہ سے بھی روایت کیاہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الزَّرْعِ لَا تَزَالُ الرِّيَاحُ تُفَيِّئُہُ وَلَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ يُصِيبُہُ بَلَاءٌ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ مَثَلُ شَجَرَةِ الْأَرْزِ لَا تَہْتَزُّ حَتَّی تُسْتَحْصَدَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال اس کھیتی کی سی ہے جسے ہوائیں (ادھرادھر) ہلاتی رہتی ہیں۔(ایساہی مومن ہے) مومن پربلائیں برابرآتی رہتی ہیں،اور منافق کی مثال صنوبر (اشوک) کے درخت کی ہے،وہ اپنی جگہ سے ہلتانہیں جب تک کہ کاٹ نہ دیاجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ مِنْ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُہَا وَہِيَ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ حَدِّثُونِي مَا ہِيَ قَالَ عَبْدُ اللہِ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّہَا النَّخْلَةُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہِيَ النَّخْلَةُ فَاسْتَحْيَيْتُ أَنْ أَقُولَ قَالَ عَبْدُ اللہِ فَحَدَّثْتُ عُمَرَ بِالَّذِي وَقَعَ فِي نَفْسِي فَقَالَ لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَہَا أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: درختوں میں ایک درخت ایساہے جس کا پتّا نہیں جھڑتا،یہ مومن کی مثال ہے تو مجھے بتاؤ یہ کون سا درخت ہے؟ عبداللہ کہتے ہیں: لوگ اسے جنگلوں کے درختوں میں ڈھونڈھنے لگے،اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ کھجور ہے،مجھے شرم آگئی کہ میں (چھوٹا ہوکر بڑوں کے سامنے) بولوں (جب کہ لوگ خاموش ہیں) پھر میں نے(اپنے والد) عمر رضی اللہ عنہ کو وہ بات بتائی جو میرے دل میں آئی تھی،تو انہوں نے کہا(میرے بیٹے) اگر تم نے یہ بات بتادی ہوتی تو یہ چیز مجھے اس سے زیادہ عزیز ومحبوب ہوتی کہ میرے پاس اس اس طرح کا مال اور یہ یہ چیزیں ہوتیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ رَبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ امْرَأَةِ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي لَيْلَةٍ ثُلُثَ الْقُرْآنِ مَنْ قَرَأَ اللہُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ فَقَدْ قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَبِي سَعِيدٍ وَقَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَلَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ أَحْسَنَ مِنْ رِوَايَةِ زَائِدَةَ وَتَابَعَہُ عَلَی رِوَايَتِہِ إِسْرَائِيلُ وَالْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الثِّقَاتِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَنْصُورٍ وَاضْطَرَبُوا فِيہِ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیاتم میں سے کوئی اس بات سے بھی عاجز ہے کہ رات میں ایک تہائی قرآن پڑھ ڈالے؟ (آپ نے فرمایا) جس نےاللہ الواحد الصمدپڑھا (یعنی سورہ اخلاص پڑھی) ا س نے تہائی قرآن پڑھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ہم کسی کونہیں جانتے جس نے زائدہ کی روایت سے بہتراسے روایت کیا ہو،اور ان کی روایت پر ان کی متابعت اسرائیل،فضیل بن عیاض نے کی ہے۔شعبہ اور ان کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے یہ حدیث منصور سے روایت کی ہے اور ان سبھوں نے اس میں اضطراب کا سے کام لیا،۳-اس باب میں ابوالدرداء،ابوسعیدخدری،قتادہ بن نعمان،ابوہریرہ،انس،ابن عمر اور ابومسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ حُنَيْنٍ مَوْلًی لِآلِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ مَوْلَی زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَقْبَلْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فَسَمِعَ رَجُلًا يَقْرَأُ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ اللہُ الصَّمَدُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَجَبَتْ قُلْتُ وَمَا وَجَبَتْ قَالَ الْجَنَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنُ حُنَيْنٍ ہُوَ عُبَيْدُ بْنُ حُنَيْنٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ آیا،آپ نے وہاں ایک آدمی کو قل ہو اللہ أحد اللہ الصمد پڑھتے ہوئے سنا،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: واجب ہوگئی۔میں نے کہا: کیا چیز واجب ہوگئی؟ آپ نے فرمایا:جنت (واجب ہوگئی)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اس حدیث کو صرف مالک بن انس کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ مَيْمُونٍ أَبُو سَہْلٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَرَأَ كُلَّ يَوْمٍ مِائَتَيْ مَرَّةٍ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ مُحِيَ عَنْہُ ذُنُوبُ خَمْسِينَ سَنَةً إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَلَيْہِ دَيْنٌ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنَامَ عَلَی فِرَاشِہِ فَنَامَ عَلَی يَمِينِہِ ثُمَّ قَرَأَ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ مِائَةَ مَرَّةٍ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَقُولُ لَہُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَتَعَالَی يَا عَبْدِيَ ادْخُلْ عَلَی يَمِينِكَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ أَيْضًا عَنْ ثَابِتٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جو شخص ہردن دوسومرتبہ قل ہو اللہ أحد پڑھے گا توقرض کے سوا اس کے پچاس سال تک کے گناہ مٹادیئے جائیں گے۔انس رضی اللہ عنہ اسی سند سے (یہ بھی) مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بستر پر سونے کا ارادہ کرے اور دائیں کروٹ پرلیٹ جائے پھر سو مرتبہ قل ہو اللہ أحدپڑھے تو جب قیامت کا دن آیے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے کہے گا تو اپنی داہنی جانب سے جنت میں داخل ہوجا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث ثابت کی روایت سے جسے وہ انس سے روایت کرتے ہیں غریب ہے،۲-یہ حدیث اس سند کے علاوہ بھی دوسری سند سے ثابت سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ حَدَّثَنَا سُہَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قل ہو اللہ أحد ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ احْشُدُوا فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ قَالَ فَحَشَدَ مَنْ حَشَدَ ثُمَّ خَرَجَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ فَقَرَأَ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ ثُمَّ دَخَلَ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَإِنِّي سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ إِنِّي لَأَرَی ہَذَا خَبَرًا جَاءَ مِنْ السَّمَاءِ ثُمَّ خَرَجَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ فَقَالَ إِنِّي قُلْتُ سَأَقْرَأُ عَلَيْكُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنَّہَا تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُہُ سَلْمَانُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم سب اکٹھے ہوجاؤ کیوں کہ میں تم سب کو تہائی قرآن پڑھ کر سنانے والاہوں،چنانچہ آپﷺکی اس پکار پرجوبھی پہنچ سکا جمع ہوگیا،پھرنبی اکرم ﷺ باہر تشریف لائے،سورہقل ہو اللہ أحدپڑھی اور (حجرہ شریفہ میں) واپس چلے گئے۔تو بعض صحابہ نے چہ میگوئیاں کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ ﷺنے فرمایاتھا: میں عنقریب تمہیں تہائی قرآن پڑھ کر سناؤں گا،میراخیال یہ ہے کہ ایسا اس وجہ سے ہوا ہے کہ آسمان سے کوئی خبر (کوئی اطلاع) آگئی ہے،پھرنبی اکرم ﷺ کمرے سے باہر نکلیاور فرمایا:میں نے کہاتھا میں تمہیں تہائی قرآن پڑھ کر سناؤں گا تو سن لو یہ سورہقل ہو اللہ أحد تہائی قرآن کے برابر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَؤُمُّہُمْ فِي مَسْجِدِ قُبَاءَ فَكَانَ كُلَّمَا افْتَتَحَ سُورَةً يَقْرَأُ لَہُمْ فِي الصَّلَاةِ فَقَرَأَ بِہَا افْتَتَحَ بِقُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ حَتَّی يَفْرُغَ مِنْہَا ثُمَّ يَقْرَأُ بِسُورَةٍ أُخْرَی مَعَہَا وَكَانَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَكَلَّمَہُ أَصْحَابُہُ فَقَالُوا إِنَّكَ تَقْرَأُ بِہَذِہِ السُّورَةِ ثُمَّ لَا تَرَی أَنَّہَا تُجْزِئُكَ حَتَّی تَقْرَأَ بِسُورَةٍ أُخْرَی فَإِمَّا أَنْ تَقْرَأَ بِہَا وَإِمَّا أَنْ تَدَعَہَا وَتَقْرَأَ بِسُورَةٍ أُخْرَی قَالَ مَا أَنَا بِتَارِكِہَا إِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ أَؤُمَّكُمْ بِہَا فَعَلْتُ وَإِنْ كَرِہْتُمْ تَرَكْتُكُمْ وَكَانُوا يَرَوْنَہُ أَفْضَلَہُمْ وَكَرِہُوا أَنْ يَؤُمَّہُمْ غَيْرُہُ فَلَمَّا أَتَاہُمْ النَّبِيُّ ﷺ أَخْبَرُوہُ الْخَبَرَ فَقَالَ يَا فُلَانُ مَا يَمْنَعُكَ مِمَّا يَأْمُرُ بِہِ أَصْحَابُكَ وَمَا يَحْمِلُكَ أَنْ تَقْرَأَ ہَذِہِ السُّورَةَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أُحِبُّہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ حُبَّہَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ثَابِتٍ وَرَوَی مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أُحِبُّ ہَذِہِ السُّورَةَ قُلْ ہُوَ اللہُ أَحَدٌ فَقَالَ إِنَّ حُبَّكَ إِيَّاہَا يُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَشْعَثِ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ بِہَذَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسجد قبا میں ایک انصاری شخص ان کی امامت کرتاتھا،اور اس کی عادت یہ تھی کہ جب بھی وہ ارادہ کرتا کہ کوئی سورت صلاۃ میں پڑھے تو اسے پڑھتالیکن اس سورت سے پہلے قل ہو اللہ أحد پوری پڑھتا،پھر اس کے ساتھ دوسری سورت پڑھتا،اور وہ یہ عمل ہررکعت میں کرتاتھا۔تو اس کے ساتھیوں (مصلیوں) نے اس سے (اس موضوع پر) بات کی،انہوں نے کہا: آپ یہ سورت پڑھتے ہیں پھر آپ خیال کرتے ہیں کہ یہ تو آپ کے لیے کافی نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری سورت (بھی) پڑھتے ہیں،تو آپ یا تو صرف اسے پڑھیں،یا اسے چھوڑدیں اور کوئی دوسری سورت پڑھیں،تو انہوں نے کہا: میں اسے چھوڑ نے والا نہیں،اگر آپ لوگ پسند کریں کہ میں اسے پڑھنے کے ساتھ ساتھ امامت کروں تو امامت کروں گا اور اگر آپ لوگ اس کے ساتھ امامت کرنا پسند نہیں کرتے تو میں آپ لوگوں (کی امامت)کوچھوڑدوں گا۔اور لوگوں کا حال یہ تھا کہ انہیں اپنوں میں سب سے افضل سمجھتے تھے اور ناپسند کرتے تھے کہ ان کے سوا کوئی دوسرا ان کی امامت کرے،چنانچہ نبی اکرمﷺ جب ان لوگوں کے پاس آئے تو انہوں نے آپ کوساری بات بتائی۔آپ نے فرمایا: اے فلاں! تمہارے ساتھی جو بات کہہ رہے ہیں،اس پرعمل کرنے سے تمہیں کیاچیز روک رہی ہے اورتمہیں کیاچیز مجبور کررہی ہے کہ ہررکعت میں تم اس سورت کو پڑھو؟،انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اسے پسند کرتاہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے اور یہ عبیداللہ بن عمر کی روایت سے ہے جسے وہ ثابت سے روایت کرتے ہیں۔انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میں اس سورت کو پسند کرتا ہوں یعنی قل ہو اللہ أحد کو آپ نے فرمایا: تمہاری اس کی یہی محبت وچاہت ہی توتمہیں جنت میں پہنچائے گی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ قَال سَمِعْتُ حَمْزَةَ الزَّيَّاتَ عَنْ أَبِي الْمُخْتَارِ الطَّائِيِّ عَنْ ابْنِ أَخِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ عَنْ الْحَارِثِ قَالَ مَرَرْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ يَخُوضُونَ فِي الْأَحَادِيثِ فَدَخَلْتُ عَلَی عَلِيٍّ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَلَا تَرَی أَنَّ النَّاسَ قَدْ خَاضُوا فِي الْأَحَادِيثِ قَالَ وَقَدْ فَعَلُوہَا قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ أَلَا إِنَّہَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ فَقُلْتُ مَا الْمَخْرَجُ مِنْہَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ كِتَابُ اللہِ فِيہِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ وَہُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْہَزْلِ مَنْ تَرَكَہُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللہُ وَمَنْ ابْتَغَی الْہُدَی فِي غَيْرِہِ أَضَلَّہُ اللہُ وَہُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِينُ وَہُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ وَہُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ ہُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِہِ الْأَہْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِہِ الْأَلْسِنَةُ وَلَا يَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ وَلَا يَخْلَقُ عَلَی كَثْرَةِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُہُ ہُوَ الَّذِي لَمْ تَنْتَہِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْہُ حَتَّی قَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَہْدِي إِلَی الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِہِ مَنْ قَالَ بِہِ صَدَقَ وَمَنْ عَمِلَ بِہِ أُجِرَ وَمَنْ حَكَمَ بِہِ عَدَلَ وَمَنْ دَعَا إِلَيْہِ ہَدَی إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ خُذْہَا إِلَيْكَ يَا أَعْوَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِسْنَادُہُ مَجْہُولٌ وَفِي الْحَارِثِ مَقَالٌ

حارث اعور کہتے ہیں:مسجد میں گیا تو کیادیکھتاہوں کہ لوگ گپ شپ اور قصہ کہانیوں میں مشغول ہیں،میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔میں نے کہا: امیر المومنین! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ لوگ لایعنی باتوں میں پڑے ہوئے ہیں؟۔انہوں نے کہا: کیا واقعی وہ ایسا کررہے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں،انہوں نے کہا: مگر میں نے تو رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب کوئی فتنہ برپاہوگا،میں نے کہا: اس فتنہ سے بچنے کی صورت کیاہوگی؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: کتاب اللہ،اس میں تم سے پہلے کے لوگوں اورقوموں کی خبریں ہیں اور بعد کے لوگوں کی بھی خبریں ہیں،اور تمہارے درمیان کے امور ومعاملات کا حکم وفیصلہ بھی اس میں موجود ہے،اور وہ دوٹوک فیصلہ کرنے والا ہے،ہنسی مذاق کی چیز نہیں ہے۔جس نے اسے سرکشی سے چھوڑدیا اللہ اسے توڑدے گا اورجو اسے چھوڑکر کہیں اورہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کردے گا۔وہ (قرآن) اللہ کی مضبوط رسی ہے یہ وہ حکمت بھراذکر ہے،وہ سیدھا راستہ ہے،وہ ہے جس کی وجہ سے خواہشیں ادھر ادھر نہیں بھٹک پاتی ہیں،جس کی وجہ سے زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں،اور علماء کو (خواہ کتناہی اسے پڑھیں) آسودگی نہیں ہوتی،اس کے باربار پڑھنے اور تکرار سے بھی وہ پرانا (اوربے مزہ) نہیں ہوتا۔اوراس کی انوکھی (وقیمتی) باتیں ختم نہیں ہوتیں،اور وہ قرآن وہ ہے جسے سن کر جن خاموش نہ رہ سکے بلکہ پکار اٹھے: ہم نے ایک عجیب (انوکھا) قرآن سناہے جو بھلائی کا راستہ دکھاتاہے،تو ہم اس پر ایمان لے آئے،جو اس کے مطابق بولے گا اس کے مطابق عمل کرے گا اسے اجرو ثواب دیاجائے گا۔اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے انصاف کیااور جس نے اس کی طرف بلایا اس نے اس نے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔اعور! ان اچھی باتوں کا خیال رکھو ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-اس کی سند مجہول ہے،۳-حارث کے بارے میں کلام کیاگیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خُنَيْسٍ عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا أَذِنَ اللہُ لِعَبْدٍ فِي شَيْءٍ أَفْضَلَ مِنْ رَكْعَتَيْنِ يُصَلِّيہِمَا وَإِنَّ الْبِرَّ لَيُذَرُّ عَلَی رَأْسِ الْعَبْدِ مَا دَامَ فِي صَلَاتِہِ وَمَا تَقَرَّبَ الْعِبَادُ إِلَی اللہِ بِمِثْلِ مَا خَرَجَ مِنْہُ قَالَ أَبُو النَّضْرِ يَعْنِي الْقُرْآنَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَبَكْرُ بْنُ خُنَيْسٍ قَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَتَرَكَہُ فِي آخِرِ أَمْرِہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی بندے کی کوئی بات اتنی زیادہ توجہ اور ہمہ تن گوش ہوکر نہیں سنتا جتنی دورکعتیں پڑھنے والے بندے کی سنتاہے،اور بندہ جب تک صلاۃ پڑھ رہاہوتاہے اس کے سر پر نیکی کی بارش ہوتی رہتی ہے،اور بندے اللہ عزوجل سے (کسی چیز سے) اتنا قریب نہیں ہوتے جتنا اس چیز سے جو اس کی ذات سے نکلی ہے ،ابونضر کہتے ہیں: آپ اس قول سے قرآن مراد لیتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-بکر بن خنیس کے بارے میں ابن مبارک نے کلام کیا ہے اور آخر امر یعنی بعد میں (ان کے ضعیف ہونے کی وجہ سے) ان سے روایت کرنی چھوڑدی تھی،۳-یہ حدیث زید بن ارطاۃ کے واسطہ سے جبیر بن نفیر سے مروی ہے انہوں نے نبی ﷺ سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،عَنْ مُعَاوِيَةَ،عَنِ العَلَاءِ بْنِ الحَارِثِ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْطَاةَ،عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ،قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: ((إِنَّكُمْ لَنْ تَرْجِعُوا إِلَی اللہِ بِأَفْضَلَ مِمَّا خَرَجَ مِنْہُ)) يَعْنِي القُرْآنَ

جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے قرآن سے بڑھ کر کوئی اور ذریعہ نہیں پاسکتے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ نَفَّسَ عَنْ أَخِيہِ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللہُ عَنْہُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَی مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللہُ عَلَيْہِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللہُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيہِ وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيہِ عِلْمًا سَہَّلَ اللہُ لَہُ طَرِيقًا إِلَی الْجَنَّةِ وَمَا قَعَدَ قَوْمٌ فِي مَسْجِدٍ يَتْلُونَ كِتَابَ اللہِ وَيَتَدَارَسُونَہُ بَيْنَہُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْہِمْ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْہُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْہُمْ الْمَلَائِكَةُ وَمَنْ أَبْطَأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ يُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ بَعْضَ ہَذَا الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کی کوئی دنیاوی مصیبت دور کی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کوئی نہ کوئی مصیبت دورفرمائے گا۔اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی۔تو اللہ اس کی دنیا وآخرت میں پردہ پوشی کرے گا،اور جس نے کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کی،تواللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کے لیے آسانی پیدافرمائے گا۔اللہ اپنے بندے کی مددمیں ہوتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتارہتاہے،اور جو ایسی راہ چلتاہے جس میں اسے علم کی تلاش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کاراستہ ہموار کردیتاہے اور جب قوم (لوگ) مسجد میں بیٹھ کرکلام اللہ (قرآن) کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے پڑھتے پڑھاتے(سمجھتے سمجھاتے)ہیں تو ان پرسکینت نازل ہوتی ہے،انہیں رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے۔ملائکہ انہیں اپنے گھیرے میں لیے رہتے ہیں،جس کے عمل نے اسے پیچھے کردیا توآخرت میں اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ایسے ہی کئی رواۃ نے اسی حدیث کی طرح اعمش سے اعمش نے ابوصالح کے واسطہ سے،اورابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۲-اسباط بن محمد نے بھی اعمش سے روایت کی ہے،(اس روایت میں ہے کہ)اعمش کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا گیاہے ۲؎ ابوصالح کے واسطہ سے اورابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں پھراس حدیث کابعض حصہ ذکر کیا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَہِيَ خِدَاجٌ ہِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ قَالَ قُلْتُ يَا أَبَا ہُرَيْرَةَ إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ يَا ابْنَ الْفَارِسِيِّ فَاقْرَأْہَا فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ قَالَ اللہُ تَعَالَی قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُہَا لِي وَنِصْفُہَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقْرَأُ الْعَبْدُ فَيَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَيَقُولُ اللہُ تَبَارَكَ وَتَعَالَی حَمِدَنِي عَبْدِي فَيَقُولُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَيَقُولُ اللہُ أَثْنَی عَلَيَّ عَبْدِي فَيَقُولُ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ فَيَقُولُ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَہَذَا لِي وَبَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْہِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ وَإِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی ابْنُ جُرَيْجٍ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي السَّائِبِ مَوْلَی ہِشَامِ بْنِ زُہْرَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَرَوَی ابْنُ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي وَأَبُو السَّائِبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی وَيَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ الْفَارِسِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنِي أَبِي وَأَبُو السَّائِبِ مَوْلَی ہِشَامِ بْنِ زُہْرَةَ وَكَانَا جَلِيسَيْنِ لِأَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَہِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ أَبِي أُوَيْسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ الْعَلَاءِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے کوئی صلاۃ پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ صلاۃ ناقص ہے،وہ صلاۃ ناقص ہے،نا مکمل ہے ۱؎ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے کہا: ابوہریرہ! میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ انہوں نے کہا: فارسی لڑکے! اسے اپنے جی میں (دل ہی دل میں) پڑھ لیا کرو ۲؎ کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے صلاۃ ۳؎ اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دی ہے۔آدھی صلاۃ میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے،اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو مانگے۔میرا بندہ پڑھتا ہے: الحمدللہ رب العالمین تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری حمد یعنی تعریف کی۔بندہ کہتا ہے: الرحمن الرحیم تو اللہ کہتا ہیـ: میرے بندے نے میری ثنا کی،بندہ مالک یوم الدین کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی اور عظمت اور بزرگی صرف میرے لیے ہے،اور میرے اور میرے بندے کے درمیان إیاک نعبد وإیاک نستعین سے لے کر سورہ کی آخری آیات تک ہیں،اور بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے۔بندہ کہتا ہے إہدنا الصراط المستقیم،صراط الذین أنعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین (ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا،ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-شعبہ،اسماعیل بن جعفر اور کئی دوسرے رواۃ نے ایسی ہی حدیث علاء بن عبدالرحمٰن سے،علاء نے اپنے باپ سے اور ان کے باپ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ابن جریج اور مالک بن انس علاء بن عبدالرحمٰن سے علاء نے ہشام بن زہر کے آزاد کردہ غلام ابو سائب سے اور ابو سائب نے ابوہریرہ سے نبی ﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۴-ابن ابی اویس نے اپنے باپ ابو اویس سے اور ابو اویس نے علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے،انہوں نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے کوئی صلاۃ پڑھی اور اس میں اس نے ام القرآن (سورہ فاتحہ) نہ پڑھی تو یہ صلاۃ ناقص ہے ناتمام (ونامکمل) ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اسماعیل بن ابی اویس کی حدیث میں اس سے زیادہ کچھ ذکر نہیں ہے،میں نے ابو زرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: دونوں حدیثیں صحیح ہیں،اور انہوں نے دلیل دی ابن ابی اویس کی حدیث سے جسے وہ اپنے باپ سے اور ان کے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں۔

أَخْبَرَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَہُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ الْقَوْمُ ہَذَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ وَجِئْتُ بِغَيْرِ أَمَانٍ وَلَا كِتَابٍ فَلَمَّا دُفِعْتُ إِلَيْہِ أَخَذَ بِيَدِي وَقَدْ كَانَ قَالَ قَبْلَ ذَلِكَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللہُ يَدَہُ فِي يَدِي قَالَ فَقَامَ فَلَقِيَتْہُ امْرَأَةٌ وَصَبِيٌّ مَعَہَا فَقَالَا إِنَّ لَنَا إِلَيْكَ حَاجَةً فَقَامَ مَعَہُمَا حَتَّی قَضَی حَاجَتَہُمَا ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي حَتَّی أَتَی بِي دَارَہُ فَأَلْقَتْ لَہُ الْوَلِيدَةُ وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَيْہَا وَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْہِ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ ثُمَّ قَالَ مَا يُفِرُّكَ أَنْ تَقُولَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ فَہَلْ تَعْلَمُ مِنْ إِلَہٍ سِوَی اللہِ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ ثُمَّ تَكَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا تَفِرُّ أَنْ تَقُولَ اللہُ أَكْبَرُ وَتَعْلَمُ أَنَّ شَيْئًا أَكْبَرُ مِنْ اللہِ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَإِنَّ الْيَہُودَ مَغْضُوبٌ عَلَيْہِمْ وَإِنَّ النَّصَارَی ضُلَّالٌ قَالَ قُلْتُ فَإِنِّي جِئْتُ مُسْلِمًا قَالَ فَرَأَيْتُ وَجْہَہُ تَبَسَّطَ فَرَحًا قَالَ ثُمَّ أَمَرَ بِي فَأُنْزِلْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ جَعَلْتُ أَغْشَاہُ آتِيہِ طَرَفَيْ النَّہَارِ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا عِنْدَہُ عَشِيَّةً إِذْ جَاءَہُ قَوْمٌ فِي ثِيَابٍ مِنْ الصُّوفِ مِنْ ہَذِہِ النِّمَارِ قَالَ فَصَلَّی وَقَامَ فَحَثَّ عَلَيْہِمْ ثُمَّ قَالَ وَلَوْ صَاعٌ وَلَوْ بِنِصْفِ صَاعٍ وَلَوْ بِقَبْضَةٍ وَلَوْ بِبَعْضِ قَبْضَةٍ يَقِي أَحَدُكُمْ وَجْہَہُ حَرَّ جَہَنَّمَ أَوْ النَّارِ وَلَوْ بِتَمْرَةٍ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَاقِي اللہَ وَقَائِلٌ لَہُ مَا أَقُولُ لَكُمْ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا فَيَقُولُ بَلَی فَيَقُولُ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ مَالًا وَوَلَدًا فَيَقُولُ بَلَی فَيَقُولُ أَيْنَ مَا قَدَّمْتَ لِنَفْسِكَ فَيَنْظُرُ قُدَّامَہُ وَبَعْدَہُ وَعَنْ يَمِينِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ ثُمَّ لَا يَجِدُ شَيْئًا يَقِي بِہِ وَجْہَہُ حَرَّ جَہَنَّمَ لِيَقِ أَحَدُكُمْ وَجْہَہُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ فَإِنِّي لَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ الْفَاقَةَ فَإِنَّ اللہَ نَاصِرُكُمْ وَمُعْطِيكُمْ حَتَّی تَسِيرَ الظَّعِينَةُ فِيمَا بَيْنَ يَثْرِبَ وَالْحِيرَةِ أَوْ أَكْثَرَ مَا تَخَافُ عَلَی مَطِيَّتِہَا السَّرَقَ قَالَ فَجَعَلْتُ أَقُولُ فِي نَفْسِي فَأَيْنَ لُصُوصُ طَيِّيءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ الْحَدِيثَ بِطُولِہِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْيَہُودُ مَغْضُوبٌ عَلَيْہِمْ وَالنَّصَارَی ضُلَّالٌ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِہِ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے،لوگوں نے کہا: یہ عدی بن حاتم ہیں،میں آپ کے پاس بغیر کسی امان اور بغیر کسی تحریر کے آیا تھا،جب مجھے آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔آپ اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا‘‘ ۱؎۔عدی کہتے ہیں: آپ مجھے لے کر کھڑے ہوئے،اسی اثناء میں ایک عورت ایک بچے کے ساتھ آپ سے ملنے آ گئی،ان دونوں نے عرض کیا: ہمیں آپ سے ایک ضرورت ہے۔آپ ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی ضرورت پوری فرما دی۔پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے لیے لیے اپنے گھر آگئے۔ایک بچی نے آپ کے لیے ایک گدا بچھا دیا،جس پر آپ بیٹھ گئے اور میں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا،آپ نے اللہ کی حمد وثنا کی،پھر فرمایا: ’’(بتاؤ) تمہیں لا إلہ إلا اللہ کہنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود سمجھتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں،آپ نے کچھ دیر باتیں کیں،پھر فرمایا: ’’اللہ اکبر کہنے سے بھاگ رہے ہو؟‘‘ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: نہیں،آپ نے فرمایا: ’’یہود پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں‘‘،اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں تو مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں۔وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا،پھر آپ نے میرے لیے حکم فرمایا: ’’تو میں ایک انصاری صحابی کے یہاں (بطور مہمان) ٹھہرا دیا گیا،پھر میں دن کے دونوں کناروں پر یعنی صبح وشام آپ کے پاس حاضر ہونے لگا۔ایک شام میں آپ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگ چیتے کی سی دھاری دار گرم کپڑے پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے (ان کے آنے کے بعد) آپ نے صلاۃ پڑھی،پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی اور لوگوں کو ان پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا۔آپ نے فرمایا: ’’(صدقہ) دوا گرچہ ایک صاع ہو،اگر چہ آدھا صاع ہو،اگرچہ ایک مٹھی ہو،اگر چہ ایک مٹھی سے بھی کم ہو جس کے ذریعہ سے تم میں کا کوئی بھی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی یا جہنم سے بچا سکتا ہے۔(تم صدقہ دو) چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ چاہے آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ کیوں کہ تم میں سے ہر کوئی اللہ کے پاس پہنچنے والا ہے،اللہ اس سے وہی بات کہنے والا ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں،(وہ پوچھے گا) کیا ہم نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں نہیں بنائیں؟ وہ کہے گا: ہاں،کیوں نہیں! اللہ پھر کہے گا: کیا میں نے تمہیں مال اور اولاد نہ دی؟،وہ کہے گا: کیوں نہیں تو نے ہمیں مال و اولاد سے نوازا۔وہ پھر کہے گا وہ سب کچھ کہاں ہے جو تم نے اپنی ذات کی حفاظت کے لیے آگے بھیجا ہے؟ (یہ سن کر) وہ اپنے آگے،اپنے پیچھے،اپنے دائیں بائیں (چاروں طرف) دیکھے گا،لیکن ایسی کوئی چیز نہ پائے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچا سکے۔اس لیے تم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچانے کی کوشش وتدبیر کرنی چاہیے ایک کھجور ہی صدقہ کر کے کیوں نہ کرے۔اور اگر یہ بھی نہ میسر ہو تو اچھی وبھلی بات کہہ کر ہی اپنے کو جہنم کی گرمی سے بچائے۔مجھے اس کا خوف نہیں ہے کہ تم فقر وفاقہ کا شکار ہو جاؤ گے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا مدد گار ہے،اور تمہیں دینے والا ہے (اتنا دینے والا ہے) کہ ایک ہودج سوار عورت (تنہا) یثرب (مدینہ) سے حیرہ تک یا اس سے بھی لمبا سفر کرے گی اور اسے اپنی سواری کے چوری ہو جانے تک کا ڈر نہ ہوگا ۲؎‘‘عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (اس وقت) میں سوچنے لگا کہ قبیلہ بنی طی کے چور کہاں چلے جائیں گے۳؎؟۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف سماک بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں،۳-شعبہ نے سماک بن حرب سے،سماک نے،عباد بن حبیش سے،اور عباد بن حبیش نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے پوری حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَی صَاحِبِ الْخَضِرِ قَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللہِ سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ قَامَ مُوسَی خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ فَعَتَبَ اللہُ عَلَيْہِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْہِ فَأَوْحَی اللہُ إِلَيْہِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ ہُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ أَيْ رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِہِ فَقَالَ لَہُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَہُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَہُ فَتَاہُ وَہُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَجَعَلَ مُوسَی حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَانْطَلَقَ ہُوَ وَفَتَاہُ يَمْشِيَانِ حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَی وَفَتَاہُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ حَتَّی خَرَجَ مِنْ الْمِكْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ قَالَ وَأَمْسَكَ اللہُ عَنْہُ جِرْيَةَ الْمَاءِ حَتَّی كَانَ مِثْلَ الطَّاقِ وَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَكَانَ لِمُوسَی وَلِفَتَاہُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِہِمَا وَلَيْلَتِہِمَا وَنُسِّيَ صَاحِبُ مُوسَی أَنْ يُخْبِرَہُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَی قَالَ لِفَتَاہُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا ہَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّی جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِہِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيہُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَہُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَہُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ مُوسَی ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِہِمَا قَصَصًا قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَہُمَا قَالَ سُفْيَانُ يَزْعُمُ نَاسٌ أَنَّ تِلْكَ الصَّخْرَةَ عِنْدَہَا عَيْنُ الْحَيَاةِ وَلَا يُصِيبُ مَاؤُہَا مَيِّتًا إِلَّا عَاشَ قَالَ وَكَانَ الْحُوتُ قَدْ أُكِلَ مِنْہُ فَلَمَّا قُطِرَ عَلَيْہِ الْمَاءُ عَاشَ قَالَ فَقَصَّا آثَارَہُمَا حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَأَی رَجُلًا مُسَجًّی عَلَيْہِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْہِ مُوسَی فَقَالَ أَنَّی بِأَرْضِكَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ يَا مُوسَی إِنَّكَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللہِ عَلَّمَكَہُ لَا أَعْلَمُہُ وَأَنَا عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللہِ عَلَّمَنِيہِ لَا تَعْلَمُہُ فَقَالَ مُوسَی ہَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِہِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللہُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا قَالَ لَہُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَكَ مِنْہُ ذِكْرًا قَالَ نَعَمْ فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَی يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِہِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمَاہُمْ أَنْ يَحْمِلُوہُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوہُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَہُ فَقَالَ لَہُ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِہِمْ فَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ أَہْلَہَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْہِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا ہُمَا يَمْشِيَانِ عَلَی السَّاحِلِ وَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِہِ فَاقْتَلَعَہُ بِيَدِہِ فَقَتَلَہُ قَالَ لَہُ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ وَہَذِہِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَی قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَہَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَہْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَہْلَہَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوہُمَا فَوَجَدَا فِيہَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ يَقُولُ مَائِلٌ فَقَالَ الْخَضِرُ بِيَدِہِ ہَكَذَا فَأَقَامَہُ فَقَالَ لَہُ مُوسَی قَوْمٌ أَتَيْنَاہُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْہِ أَجْرًا قَالَ ہَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْہِ صَبْرًا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَرْحَمُ اللہُ مُوسَی لَوَدِدْنَا أَنَّہُ كَانَ صَبَرَ حَتَّی يَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِہِمَا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْأُولَی كَانَتْ مِنْ مُوسَی نِسْيَانٌ قَالَ وَجَاءَ عُصْفُورٌ حَتَّی وَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَہُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللہِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ ہَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَكَانَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَہُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَكَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاہُ الزُّہْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَبَا مُزَاحِمٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ حَجَجْتُ حَجَّةً وَلَيْسَ لِي ہِمَّةٌ إِلَّا أَنْ أَسْمَعَ مِنْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ الْخَبَرَ حَتَّی سَمِعْتُہُ يَقُولُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَقَدْ كُنْتُ سَمِعْتُ ہَذَا مِنْ سُفْيَانَ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ الْخَبَرَ

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتاہے کہ نبی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہماالسلام نہیں ہیں،ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا،میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:’’موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی،ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والاکون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والاہوں،یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا،اللہ نے ان کی سرزنش کی اور ان کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین (دوسمندروں کے سنگم) کے مقام پر ہے،وہ تم سے بڑا عالم ہے،موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! میری ان سے ملاقات کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ نے کہا: زنبیل (تھیلے)میں ایک مچھلی رکھ لو پھر جہاں مچھلی غائب ہوجائے وہیں میرا وہ بندہ تمہیں ملے گا،موسیٰ چل پڑے ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے،موسیٰ نے ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لی،دونوں چلتے چلتے صخرہ (چٹان) کے پاس پہنچے،اور وہاں سوگئے،(سونے کے دوران) مچھلی تڑپی،تھیلے سے نکل کر سمندر میں جاگری،ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مچھلی کے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہاو ٔ کو روک دیا،یہاں تک کہ ایک محراب کی صورت بن گئی اور مچھلی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کا راستہ بن گیا،موسیٰ اور ان کے خادم کے لیے یہ حیرت انگیز چیز تھی،وہ نیند سے بیدار ہوکر باقی دن ورات چلتے رہے،موسیٰ کا رفیق سفر انہیں یہ بتانا بھول گیا کہ فلاں مقام پر مچھلی تھیلے سے نکل کرسمندر میں جاچکی ہے،صبح ہوئی توموسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا: بھئی ہمارا ناشتہ لاؤ،ہم تو اس سفر میں بہت تھک چکے ہیں،ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اس جگہ سے آگے بڑھ جانے کے بعد ہی لاحق ہوئی جس جگہ اللہ نے انہیں پہنچنے کا حکم دیاتھا،غلام نے کہا: بھلا دیکھئے تو سہی (کیسی عجیب بات ہوئی) جب ہم چٹان پر فروکش ہوئے تھے (کچھ دیر آرام کے لیے) تو میں آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھول ہی گیا،اور شیطان کے سوا مجھے کسی نے بھی اس کے یاددلانیسے غافل نہیں کیا ہے،وہ تو حیرت انگیز طریقے سے سمندر میں چلی گئی،موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یہی تووہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے،پھر وہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے پلٹے،وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر چل رہے تھے (تاکہ صحیح جگہ پر پہنچ جائیں) (سفیان (راوی) کہتے ہیں:کچھ لوگ سمجھتے ہیں اس چٹان کے قریب چشمہ حیات ہے،جس کسی مردے کو اس کا پانی چھوجائے وہ زندہ ہوجاتاہے)،مچھلی کچھ کھائی جاچکی تھی۔مگر جب پانی کے قطرے اس پر پڑے تو وہ زندہ ہوگئی،دونوں اپنے نشانات قدم دیکھ کر چلے یہاں تک کہ چٹان کے پاس پہنچ گئے وہاں سر ڈھانپے ہوئے ایک شخص کو دیکھا،موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام عرض کیا،انہوں نے کہا: تمہارے اس ملک میں سلام کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: میں موسیٰ ہوں،(اور میری شریعت میں سلام ہے) انہوں نے پوچھا:بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ کہا: ہاں،انہوں نے کہا: اے موسیٰ اللہ کے (بے شماراور بے انتہاء) علوم میں سے تمہارے پاس ایک علم ہے،اللہ نے تمہیں سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا،اور مجھے بھی اللہ کے علوم میں سے ایک علم حاصل ہے،اللہ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے،جسے تم نہیں جانتے۔موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں تو کیا آپ مجھے اللہ نے آپ کو رشدوہدایت کی جو باتیں سکھائیں ہیں انہیں سکھادیں گے؟ انہوں نے کہا: آپ میرے پاس ٹک نہیں سکتے،اور جس بات کا آپ کو علم نہیں آپ(اسے بظاہر خلاف شرع دیکھ کر) کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا:نہیں،میں ان شاء اللہ جموں(اور ٹکوں) گا اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی (اورمخالفت) نہیں کروں گا۔ان سے خضر (علیہ السلام) نے کہا:اگر آپ میرے ساتھ رہنا ہی چاہتے ہیں تو (دھیان رہے) کسی چیز کے بارے میں بھی مجھ سے مت پوچھیں اور حجت بازی نہ کریں جب تک کہ میں خود ہی آپ کو اس کے بارے میں بتانہ دوں،موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہاں ہاں،(بالکل ایسا ہی ہوگا) پھرخضر وموسیٰ چلے،دونوں سمندر کے ساحل سے لگ کرچلے جارہے تھے کہ ان کے قریب سے ایک کشتی گزری،ان دونوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ ہمیں بھی کشتی پرسوار کرلو،(باتوں ہی باتوں میں) انہوں نے خضر کو پہچان لیا،ان دونوں کو کشتی پر چڑھالیا،اور ان سے کرایہ نہ لیا،مگر خضر علیہ السلام کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف بڑھے اور اسے اکھاڑ دیا،(یہ دیکھ کر موسیٰ سے صبر نہ ہوا) بول پڑے،ایک تویہ (کشتی والے شریف)لوگ ہیں کہ انہوں نے بغیر کرایہ بھاڑا لیے ہمیں کشتی پر چڑھا لیا اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے ان کی کشتی کی طرف بڑھ کر اسے توڑ دیا تاکہ انہیں ڈبودیں،یہ تو آپ نے بڑا برا کام کیا،انہوں نے کہا: کیا میں آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ چکاہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکتے؟ (خاموش نہیں رہ سکتے) موسی علیہ السلام نے کہا: آپ اس پر میری گرفت نہ کریں میں بھول گیا تھا(کہ میں نے آپ سے خاموش رہنے کا وعدہ کررکھاہے) اور آپ میرے کام ومعاملے میں دشواریاں کھڑی نہ کریں،پھروہ دونوں کشتی سے اتر کر ساحل کے کنارے کنارے چلے جارہے تھے کہ اچانک ایک لڑکا انہیں اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا،خضر نے اس کا سرپکڑ ا اور اپنے ہاتھ سے اس کی کھوپڑی سر سے اتار کر اسے مارڈالا،(موسیٰ سے پھر رہانہ گیا) موسیٰ نے کہا: آپ نے بغیر کسی قصاص کے ایک اچھی بھلی جان لے لی،یہ تو آپ نے بڑی گھناونی حرکت کی ہے۔انہوں نے کہا: میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ چکاہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے۔(کچھ نہ کچھ ضرور بول بیٹھیں گے راوی) کہتے ہیں اور یہ تو پہلے سے بھی زیادہ سخت معاملہ تھا،(اس میں وہ کیسے خاموش رہتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (یہ بھول بھی ہوہی گئی) اب اگر میں ا س کے بعد کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھ بیٹھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے،میرے سلسلے میں آپ عذر کو پہنچے ہوئے ہوں گے،پھر وہ دونوں آگے بڑھے،ایک گاؤں میں پہنچ کر گاؤں والوں سے کہا: آپ لوگ ہماری ضیافت کریں مگر گاؤں والوں نے انہیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کردیا،وہاں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو گری پڑتی تھی،راوی کہتے ہیں: جھکی ہوئی تھی تو خضر نے ہاتھ (بڑھاکر) دیوار سیدھی کھڑی کردی۔موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: یہ تو (ایسی گئی گذری) قوم ہے کہ ہم ان کے پاس آئے،مگرانہوں نے ہماری ضیافت تک نہ کی،ہمیں کھلایا پلایا تک نہیں،آپ چاہتے تو ان سے دیوار سیدھی کھڑی کردینے کی اجرت لے لیتے۔خضر علیہ السلام نے کہا: اب آگئی ہے ہماری تمہاری جدائی کی گھڑی،جن باتوں پرتم صبر نہ سکے میں تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتاہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے،ہمارے لیے تو یہ پسند ہوتاکہ وہ صبر کرتے تو ہم ان دونوں کی (عجیب وغریب) خبریں سنتے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’پہلی بار تو موسیٰ علیہ السلام سے بھول ہوئی تھی،آپ نے فرمایا:’’(اسی موقع پر) ایک گوریا آئی اورکشتی کے ایک کنارے بیٹھ گئی پھرسمندر سے اپنی چونچ مارکر پانی نکالا،خضر نے موسیٰ علیہ السلام کو متوجہ کرکے کہا: اس چڑیاکے سمندر میں چونچ مارنے سے جو کمی ہوئی ہے وہی حیثیت اللہ کے علم کے آگے ہمارے اور تمہارے علم کی ہے،(اس لیے متکبر انہ جملہ کہنے کے بجائے اللہ اعلم کہنا زیادہ بہتر ہوتا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: ابن عباس (وَکَانَ أَمَامَہُمْ مَلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِینَۃٍ صَالِحَۃٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلاَمُ فَکَانَ کَافِرًا ۲؎ پڑھاکرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کو زہری نے عبید اللہ بن عتبہ سے عبیداللہ نے ابن عباس سے اورابن عباس نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے واسطہ سے،نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے۔اور اس حدیث کو ابواسحاق ہمدانی نے بھی سعید بن جبیر سے،سعید نے ابن عباس سے اورابن عباس نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے،۳-میں نے ابومزاحم سمر قندی کوکہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے علی ابن مدینی کوسنا وہ کہتے تھے: میں نے حج کیا،اور میرا حج سے مقصد صر ف یہ تھا کہ میں سفیان سے خودسن لوں کہ وہ اس حدیث میں خبر یعنی لفظ ’’اخبرنا‘‘ استعمال کرتے ہیں (یا نہیں) چنانچہ میں نے سنا،انہوں نے حدثنا عمرو بن دینار …‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔اور میں اس سے پہلے بھی سفیان سے یہ سن چکاتھا اور اس میں خبر (یعنی اخبرنا) کا ذکر نہیں تھا۔

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَليٍّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَبَّاسِ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْغُلَامُ الَّذِي قَتَلَہُ الْخَضِرُ طُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’وہ لڑکا جسے خضر علیہ السلام نے مارڈالا تھا پیدا ئشی کافر تھا‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرَ لِأَنَّہُ جَلَسَ عَلَی فَرْوَةٍ بَيْضَاءَ فَاہْتَزَّتْ تَحْتَہُ خَضْرَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’خضر نام اس لیے پڑا کہ وہ سوکھی ہوئی گھاس پر بیٹھے،تو وہ ہری گھاس میں تبدیل ہوگئی‘‘(یہ اللہ کی طرف سے معجزہ تھا)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ الْجَزَرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ يُوسُفَ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَكَانَ تَحْتَہُ كَنْزٌ لَہُمَا قَالَ ذَہَبٌ وَفِضَّةٌ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ يُوسُفَ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ مَكْحُولٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول وَکَانَ تَحْتَہُ کَنْزٌ لَہُمَا ۱؎ کے بارے میں فرمایا:’’کنز سے مراد سونا چاندی ہے‘‘۔اس سند سے یزید بن یزید بن جابرکے واسطہ سے مکحول سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ وَاللَّفْظُ لِابْنِ بَشَّارٍ قَالُوا حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي رَافِعٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي السَّدِّ قَالَ يَحْفِرُونَہُ كُلَّ يَوْمٍ حَتَّی إِذَا كَادُوا يَخْرِقُونَہُ قَالَ الَّذِي عَلَيْہِمْ ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَہُ غَدًا فَيُعِيدُہُ اللہُ كَأَشَدِّ مَا كَانَ حَتَّی إِذَا بَلَغَ مُدَّتَہُمْ وَأَرَادَ اللہُ أَنْ يَبْعَثَہُمْ عَلَی النَّاسِ قَالَ الَّذِي عَلَيْہِمْ ارْجِعُوا فَسَتَخْرِقُونَہُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللہُ وَاسْتَثْنَی قَالَ فَيَرْجِعُونَ فَيَجِدُونَہُ كَہَيْئَتِہِ حِينَ تَرَكُوہُ فَيَخْرِقُونَہُ فَيَخْرُجُونَ عَلَی النَّاسِ فَيَسْتَقُونَ الْمِيَاہَ وَيَفِرُّ النَّاسُ مِنْہُمْ فَيَرْمُونَ بِسِہَامِہِمْ فِي السَّمَاءِ فَتَرْجِعُ مُخَضَّبَةً بِالدِّمَاءِ فَيَقُولُونَ قَہَرْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ وَعَلَوْنَا مَنْ فِي السَّمَاءِ قَسْوَةً وَعُلُوًّا فَيَبْعَثُ اللہُ عَلَيْہِمْ نَغَفًا فِي أَقْفَائِہِمْ فَيَہْلِكُونَ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِہِ إِنَّ دَوَابَّ الْأَرْضِ تَسْمَنُ وَتَبْطَرُ وَتَشْكَرُ شَكَرًا مِنْ لُحُومِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِثْلَ ہَذَا

ابورافع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث میں سے سد (سکندری) سے متعلق حصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’(یاجوج وماجوج اور ان کی ذریت) اسے ہردن کھودتے ہیں،جب وہ اس میں شگاف ڈال دینے کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو ان کا نگراں(جوان سے کام کرارہاہوتاہے) ان سے کہتاہے: واپس چلوکل ہم اس میں سوراخ کردیں گے،ادھر اللہ اسے پہلے زیادہ مضبوط وٹھوس بنادیتاہے،پھر جب ان کی مدت پوری ہوجائے گی اور اللہ ان کولوگوں تک لے جانے کا ارادہ کرے گا،اس وقت دیوار کھودنے والوں کا نگراں کہے گا: لوٹ جاؤ کل ہم اسے ان شاء اللہ توڑ دیں گے،آپ نے فرمایا:’’پھر جب وہ (اگلے روز) لوٹ کر آئیں گے تو وہ اسے اسی حالت میں پائیں گے جس حالت میں و ہ اسے چھوڑ کر گئے تھے ۱؎،پھر وہ اسے توڑ دیں گے،اورلوگوں پرنکل پڑیں گے (ٹوٹ پڑیں گے) ساراپانی پی جائیں گے،لوگ ان سے بچنے کے لیے بھاگیں گے،وہ اپنے تیرآسمان کی طرف پھینکیں گے،تیر خون میں ڈوبے ہوئے واپس آئیں گے،وہ کہیں گے کہ ہم زمین والوں پر غالب آگئے اور آسمان والے سے بھی ہم قوت وبلندی میں بڑھ گئے (یعنی اللہ تعالیٰ سے)پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک کیڑا پیدا کردے گا جس سے وہ مرجائیں گے،آپ نے فرمایا:’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے،زمین کے جانور ان کا گوشت کھاکھاکر موٹے ہوجائیں گے اور اینٹھتے پھریں گے‘‘۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے ایسے ہی جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ ابْنِ مِينَاءَ عَنْ أَبِي سَعْدِ بْنِ أَبِي فَضَالَةَ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ مِنْ الصَّحَابَةِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِذَا جَمَعَ اللہُ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيہِ نَادَی مُنَادٍ مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَہُ لِلَّہِ أَحَدًا فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَہُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللہِ فَإِنَّ اللہَ أَغْنَی الشُّرَكَاءِ عَنْ الشِّرْكِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ

ابوسعید بن ابی فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جس کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ہے جمع کرے گا تو پکارنے والا پکار کرکہے گا: جس نے اللہ کے واسطے کوئی کام کیا ہو اور اس کام میں کسی کو شریک کرلیاہو،وہ جس غیر کو اس نے شریک کیا تھا اسی سے اپنے عمل کا ثواب مانگ لے،کیوں کہ اللہ شرک سے کلی طورپربے زار وبے نیاز ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف محمد بن بکر کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْوَيْلُ وَادٍ فِي جَہَنَّمَ يَہْوِي فِيہِ الْكَافِرُ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا قَبْلَ أَنْ يَبْلُغَ قَعْرَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ویل جہنم کی ایک وادی ہے (اور اتنی گہری ہے کہ) جب کافر اس میں گرے گا تو اس کو تہہ تک پہنچنے سے پہلے گرنے میں چالیس سال لگ جائیں گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم ابن لہیعہ کے سوا کسی اور کو نہیں جانتے کہ وہ اسے مرفوعاً روایت کرتا ہو۔

حَدَّثَنَا مُجَاہِدُ بْنُ مُوسَی الْبَغْدَادِيُّ وَالْفَضْلُ بْنُ سَہْلٍ الْأَعْرَجُ بَغْدَادِيٌّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ أَبُو نُوحٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا قَعَدَ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ لِي مَمْلُوكِينَ يُكَذِّبُونَنِي وَيَخُونُونَنِي وَيَعْصُونَنِي وَأَشْتُمُہُمْ وَأَضْرِبُہُمْ فَكَيْفَ أَنَا مِنْہُمْ قَالَ يُحْسَبُ مَا خَانُوكَ وَعَصَوْكَ وَكَذَّبُوكَ وَعِقَابُكَ إِيَّاہُمْ فَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاہُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِہِمْ كَانَ كَفَافًا لَا لَكَ وَلَا عَلَيْكَ وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاہُمْ دُونَ ذُنُوبِہِمْ كَانَ فَضْلًا لَكَ وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاہُمْ فَوْقَ ذُنُوبِہِمْ اقْتُصَّ لَہُمْ مِنْكَ الْفَضْلُ قَالَ فَتَنَحَّی الرَّجُلُ فَجَعَلَ يَبْكِي وَيَہْتِفُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَمَا تَقْرَأُ كِتَابَ اللہِ وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ الْآيَةَ فَقَالَ الرَّجُلُ وَاللہِ يَا رَسُولَ اللہِ مَا أَجِدُ لِي وَلِہَؤُلَاءِ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ مُفَارَقَتِہِمْ أُشْہِدُكُمْ أَنَّہُمْ أَحْرَارٌ كُلُّہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَزْوَانَ وَقَدْ رَوَی أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَزْوَانَ ہَذَا الْحَدِيثَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرمﷺ کے سامنے آکر بیٹھا،اس نے کہا:اللہ کے رسول! میرے دو غلام ہیں،جومجھ سے جھوٹ بولتے ہیں،میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں،میں انہیں گالیاں دیتاہوں مارتاہوں،میرا ان کا نپٹارا کیسے ہوگا؟ آپ نے فرمایا: انہوں نے،تمہارے ساتھ خیانت کی ہے،اور تمہاری نافرمانی کی ہے تم سے جو جھوٹ بولے ہیں ان سب کا شمار وحساب ہوگا تم نے انہیں جو سزائیں دی ہیں ان کا بھی شمارو حساب ہوگا،اب اگر تمہاری سزائیں ان کے گناہوں کے بقدر ہوئیں توتم اور وہ برابر سرابر چھوٹ جاؤگے،نہ تمہاراحق ان پر رہے گا اورنہ ان کا حق تم پر،اورا گر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہوئی تو تمہارافضل واحسان ہوگا،اور اگر تمہاری سزاان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی تو تجھ سے ان کے ساتھ زیادتی کا بدلہ لیاجائے گا،(یہ سن کر)وہ شخص روتا پیٹتا ہوا واپس ہوا،آپ نے فرمایا: کیاتم کتاب اللہ نہیں پڑھتے (اللہ نے فرمایاہے) وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِنْ کَانَ مِثْقَالَ الآیۃ ۱؎ اس شخص نے کہا: قسم اللہ کی! میں اپنے اورا ن کے لیے اس سے بہتر اورکوئی بات نہیں پاتا کہ ہم ایک دوسرے سے جداہوجائیں،میں آپ کو گواہ بناکر کہتاہوں کہ وہ سب آزاد ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صر ف عبدالرحمٰن بن غزوان کی روایت سے جانتے ہیں،۲-احمدبن حنبل نے بھی یہ حدیث عبدالرحمٰن بن غزوان سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاہِيمُ عَلَيْہِ السَّلَام فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ قَوْلِہِ إِنِّي سَقِيمٌ وَلَمْ يَكُنْ سَقِيمًا وَقَوْلُہُ لِسَارَّةَ أُخْتِي وَقَوْلِہِ بَلْ فَعَلَہُ كَبِيرُہُمْ ہَذَا وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے تین معاملات کے سوا کسی بھی معاملے میں کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا،ایک تو یہ ہے کہ آپ نے کہا:میں بیمارہوں،حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے،(دوسرا) آپ نے سارہ کو اپنی بہن کہا: (جب کہ وہ آپ کی بیوی تھیں) (تیسرا،آپ نے بت توڑا) اور پوچھنے والوں سے آپ نے کہا: بڑے (بت) ان کے اس بڑے نے توڑے ہیں،(ان سے پوچھ لیں) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے،اورابوالزنادکے واسطہ سے ابن ا سحاق کی روایت غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَوَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ وَأَبُو دَاوُدَ قَالُوا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالْمَوْعِظَةِ فَقَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَی اللہِ عُرَاةً غُرْلًا ثُمَّ قَرَأَ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُہُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ أَوَّلُ مَنْ يُكْسَی يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاہِيمُ وَإِنَّہُ سَيُؤْتَی بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَيُؤْخَذُ بِہِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ رَبِّ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَكُنْتُ عَلَيْہِمْ شَہِيدًا مَا دُمْتُ فِيہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْہِمْ وَأَنْتَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ شَہِيدٌ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ فَيُقَالُ ہَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَی أَعْقَابِہِمْ مُنْذُ فَارَقْتَہُمْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ نَحْوَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی كَأَنَّہُ تَأَوَّلَہُ عَلَی أَہْلِ الرِّدَّةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے وعظ ونصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ قیامت کے دن اللہ کے پاس ننگے اور غیر مختون جمع کئے جاؤگے،پھر آپ نے آیت پڑھی کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا ۱؎ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جنہیں سب سے پہلے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم علیہ السلام ہوں گے،(قیامت کے دن) میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے جنہیں چھانٹ کر بائیں جانب (جہنم کی رخ) کردیا جائے گا،میں کہوں گا پرور دگار! یہ تو میرے اصحاب (امتی)ہیں،کہاجائے گا: آپ کو نہیں معلوم ان لوگوں نے آپ کے بعد کیاکیا نئی باتیں (خرافات) دین میں پیدا (داخل) کردیں۔(یہ سن کر) میں بھی وہی بات کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہی ہے وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَا دُمْتُ فِیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِیبَ عَلَیْہِمْ وَأَنْتَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیدٌ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ ۲؎۔کہاجائے گا: یہ وہ لوگ ہیں کہ آپ نے جب سے ان کا ساتھ چھوڑا ہے یہ اپنی پہلی حالت سے پھر گئے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سندسے بھی شعبہ نے اسی طرح مغیرہ بن نعمان سے روایت کی ہے،اس حدیث کو سفیان ثوری نے مغیرہ بن نعمان سے اسی طرح روایت کی ہے،۴-اس سے ان کی مراد اہل رِدّہ یعنی مرتدین کا گروہ ہے ۳؎۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ اخْتَصَمَ عِنْدَ الْبَيْتِ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قُرَشِيَّانِ وَثَقَفِيٌّ أَوْ ثَقَفِيَّانِ وَقُرَشِيٌّ قَلِيلٌ فِقْہُ قُلُوبِہِمْ كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِہِمْ فَقَالَ أَحَدُہُمْ أَتَرَوْنَ أَنَّ اللہَ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ فَقَالَ الْآخَرُ يَسْمَعُ إِذَا جَہَرْنَا وَلَا يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا وَقَالَ الْآخَرُ إِنْ كَانَ يَسْمَعُ إِذَا جَہَرْنَا فَإِنَّہُ يَسْمَعُ إِذَا أَخْفَيْنَا فَأَنْزَلَ اللہُ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْہَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تین آدمی خانہ کعبہ کے قریب جھگڑ بیٹھے،دوقریشی تھے اور ایک ثقفی،یا دو ثقفی تھے اور ایک قریشی،ان کے پیٹوں پر چربی چڑھی تھی،ان میں سے ایک نے کہا: کیاسمجھتے ہوکہ ہم جو کہتے ہیں اللہ اسے سنتاہے،دوسرے نے کہا: ہم جب زورسے بولتے ہیں تو وہ سنتاہے اور جب ہم دھیرے بولتے ہیں تووہ نہیں سنتا۔تیسرے نے کہا: اگروہ ہمارے زور سے بولنے کو سنتاہے تو وہ ہمارے دھیرے بولنے کو بھی سنتاہے،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: وَمَا کُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ یَشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلاَ أَبْصَارُکُمْ وَلاَ جُلُودُکُمْ (فصلت:22) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللہِ كُنْتُ مُسْتَتِرًا بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ فَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِہِمْ قَلِيلٌ فِقْہُ قُلُوبِہِمْ قُرَشِيٌّ وَخَتَنَاہُ ثَقَفِيَّانِ أَوْ ثَقَفِيٌّ وَخَتَنَاہُ قُرَشِيَّانِ فَتَكَلَّمُوا بِكَلَامٍ لَمْ أَفْہَمْہُ فَقَالَ أَحَدُہُمْ أَتَرَوْنَ أَنَّ اللہَ يَسْمَعُ كَلَامَنَا ہَذَا فَقَال الْآخَرُ إِنَّا إِذَا رَفَعْنَا أَصْوَاتَنَا سَمِعَہُ وَإِذَا لَمْ نَرْفَعْ أَصْوَاتَنَا لَمْ يَسْمَعْہُ فَقَالَ الْآخَرُ إِنْ سَمِعَ مِنْہُ شَيْئًا سَمِعَہُ كُلَّہُ فَقَال عَبْدُ اللہِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَأَنْزَلَ اللہُ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْہَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ إِلَی قَوْلِہِ فَأَصْبَحْتُمْ مِنْ الْخَاسِرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ وَہْبِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ نَحْوَہُ

عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں کعبہ کے پردوں میں چھپا ہواکھڑا تھا،تین ناسمجھ جن کے پیٹوں کی چربی زیادہ تھی) آئے،ایک قریشی تھا اور دو اس کے سالے ثقفی تھے،یا ایک ثقفی تھا اوردو اس کے قریشی سالے تھے،انہوں نے ایک ایسی زبان میں بات کی جسے میں سمجھ نہ سکا،ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیاخیال ہے: کیا اللہ ہماری یہ بات چیت سنتاہے؟ دوسرے نے کہا: جب ہم بآواز بلند بات چیت کرتے ہیں تو سنتاہے،اور جب ہم اپنی آواز بلند نہیں کرتے ہیں تو نہیں سنتا ہے،تیسرے نے کہا: اگر وہ ہماری بات چیت کا کچھ حصہ سن سکتاہے تو وہ سبھی کچھ سن سکتاہے،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کا ذکر نبی اکرمﷺسے کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر آیت وَمَا کُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ یَشْہَدَ عَلَیْکُمْ سَمْعُکُمْ وَلاَ أَبْصَارُکُمْ وَلاَ جُلُودُکُمْ(فصلت:22)سے لے کر فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِینَ(فصلت:23) تک نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیںـ:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سندسے سفیان ثوری نے اعمش سے،اعمش نے عمارہ بن عمیرسے اورعمارہ نے وہب بن ربیعہ کے واسطہ سے عبداللہ سے اسی طرح روایت کی۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا سُہَيْلُ بْنُ أَبِي حَزْمٍ الْقُطَعِيُّ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَرَأَ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا قَالَ قَدْ قَالَ النَّاسُ ثُمَّ كَفَرَ أَكْثَرُہُمْ فَمَنْ مَاتَ عَلَيْہَا فَہُوَ مِمَّنْ اسْتَقَامَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ يَقُولُ رَوَی عَفَّانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثًا وَيُرْوَی فِي ہَذِہِ الْآيَةِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا مَعْنَی اسْتَقَامُوا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے آیت إِنَّ الَّذِینَ قَالُوا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (فصلت:30) ۱؎ پڑھی،آپ نے فرمایا: بہتوں نے تو ربنا اللہ کہنے کے باوجود بھی کفرکیا،سنو جو اپنے ایمان پر آخروقت تک قائم رہ کر مرا وہ استقامت کاراستہ اختیار کرنے والوں میں سے ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-میں نے ابوزرعہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ عفان نے عمروبن علی سے ایک حدیث روایت کی ہے،۴-اس آیت کے سلسلے نبی اکرمﷺاور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے استقاموا کا معنی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الْجُدِّيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ وَمَنْصُورٍ سَمِعَا أَبَا الضُّحَی يُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی عَبْدِ اللہِ فَقَالَ إِنَّ قَاصًّا يَقُصُّ يَقُولُ إِنَّہُ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ الدُّخَانُ فَيَأْخُذُ بِمَسَامِعِ الْكُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَہَيْئَةِ الزُّكَامِ قَالَ فَغَضِبَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ إِذَا سُئِلَ أَحَدُكُمْ عَمَّا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ بِہِ قَالَ مَنْصُورٌ فَلْيُخْبِرْ بِہِ وَإِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ اللہُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ عِلْمِ الرَّجُلِ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ اللہُ أَعْلَمُ فَإِنَّ اللہَ تَعَالَی قَالَ لِنَبِيِّہِ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَمَّا رَأَی قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْہِ قَالَ اللہُمَّ أَعِنِّي عَلَيْہِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْہُمْ سَنَةٌ فَأَحْصَتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّی أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَقَالَ أَحَدُہُمَا الْعِظَامَ قَالَ وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ كَہَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاہُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ ہَلَكُوا فَادْعُ اللہَ لَہُمْ قَالَ فَہَذَا لِقَوْلِہِ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَی النَّاسَ ہَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ مَنْصُورٌ ہَذَا لِقَوْلِہِ رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ فَہَلْ يُكْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ قَدْ مَضَی الْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَالدُّخَانُ و قَالَ أَحَدُہُمْ الْقَمَرُ وَقَالَ الْآخَرُ الرُّومُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَاللِّزَامُ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آکرکہا: ایک قصہ گو(واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہاتھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا،جس سے کافروں کے کان بند ہوجائیں گے،اور مسلمانوں کو زکام ہوجائے گا۔مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہوگئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے،(سنبھل کر) بیٹھ گئے۔پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو توا سے بتانی چاہیے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے اللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے) کہنا چاہیے،کیوں کہ یہ آدمی کے علم وجانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے اللہ اعلم(اللہ بہترجانتاہے)،اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِینَ ۱؎ (بات اس دخان کی یہ ہے کہ) جب رسول اللہ ﷺ نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جارہے ہیں توآپ نے کہا: اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر (آپ کی دعا قبول ہوگئی)،ان پر قحط پڑگیا،ہرچیز اس سے متاثر ہوگئی،لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے (اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش ومنصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے)،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی،تو ابوسفیان نے آپ کے پاس آکر کہا: آپ کی قوم ہلاک وبرباد ہوگئی،آپ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرمادیجئے عبداللہ نے کہا: یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَاء بِدُخَانٍ مُّبِینٍ یَغْشَی النَّاسَ ہَذَا عَذَابٌ أَلِیمٌ (الدخان:10-11) ۲؎ کا،منصور کہتے ہیں:یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان رَبَّنَا اکْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ (الدخان:12) ۳؎ کا،تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جاسکے گا؟۔عبداللہ کہتے ہیں: بطشہ،لزام(بدر) اور دخان کا ذکر وزمانہ گزرگیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے،ایک نے کہا: قمر (چاند) کا شق ہونا گزرگیا،اور دوسرے نے کہا: روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-لزام سے مراد یوم بدر ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَلَہُ بَابَانِ بَابٌ يَصْعَدُ مِنْہُ عَمَلُہُ وَبَابٌ يَنْزِلُ مِنْہُ رِزْقُہُ فَإِذَا مَاتَ بَكَيَا عَلَيْہِ فَذَلِكَ قَوْلُہُ عَزَّ وَجَلَّ فَمَا بَكَتْ عَلَيْہِمْ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ وَيَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ہرمومن کے لیے دو دروازے ہیں،ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کے نیک عمل چڑھتے ہیں اور ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کی روزی اترتی ہے،جب وہ مرجاتاہے تو یہ دونوں اس پر روتے ہیں،یہی ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَاء وَالأَرْضُ وَمَا کَانُوا مُنظَرِینَ (الدخان: 29) ۱؎ کامطلب ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے مرفوع صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ حَرَّقَ رَسُولُ اللہِ ﷺ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَّعَ وَہِيَ الْبُوَيْرَةُ فَأَنْزَلَ اللہُ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوہَا قَائِمَةً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللہِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلادئے اور کاٹ ڈالے،اس جگہ کانام بویرہ تھا،اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْتَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ ۱؎ نازل فرمائی ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوہَا قَائِمَةً عَلَی أُصُولِہَا قَالَ اللِّينَةُ النَّخْلَةُ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ قَالَ اسْتَنْزَلُوہُمْ مِنْ حُصُونِہِمْ قَالَ وَأُمِرُوا بِقَطْعِ النَّخْلِ فَحَكَّ فِي صُدُورِہِمْ فَقَالَ الْمُسْلِمُونَ قَدْ قَطَعْنَا بَعْضًا وَتَرَكْنَا بَعْضًا فَلَنَسْأَلَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ ہَلْ لَنَا فِيمَا قَطَعْنَا مِنْ أَجْرٍ وَہَلْ عَلَيْنَا فِيمَا تَرَكْنَا مِنْ وِزْرٍ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوہَا قَائِمَةً عَلَی أُصُولِہَا الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي بِذَلِكَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعَ مِنِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ہَذَا الْحَدِيثَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا کی تفسیر میں فرماتے ہیں:لِینَۃٍ سے مراد کھجور کے درخت ہیں اور وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ (تاکہ اللہ فاسقوں کو ذلیل کرے) کے بارے میں کہتے ہیں: ان کی ذلت یہی ہے کہ مسلمانوں نے انہیں ان کے قلعوں سے نکال بھگایا اور(مسلمانوں کویہودکے) کھجور کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم دیاگیا،تو ان کے دلوں میں یہ بات کھٹکی،مسلمانوں نے کہا: ہم نے بعض درخت کاٹ ڈالے اور بعض چھوڑدیئے ہیں تو اب ہم رسول اللہ ﷺ سے پوچھیں گے کہ ہم نے جو درخت کاٹے ہیں کیا ہمیں ان کا کچھ اجر وثواب ملے گا،اور جو درخت ہم نے نہیں کاٹے ہیں کیا ہمیں اس کا کچھ عذاب ہوگا؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی،مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔بعض اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق: حفص بن غیاث،عن حبیب بن أبوعمارۃ،عن سعیدبن جبیر،مرسلاً روایت کی ہے،اور اس کی سند میں عبداللہ بن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ بَاتَ بِہِ ضَيْفٌ فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَہُ إِلَّا قُوتُہُ وَقُوتُ صِبْيَانِہِ فَقَالَ لِامْرَأَتِہِ نَوِّمِي الصِّبْيَةَ وَأَطْفِئِي السِّرَاجَ وَقَرِّبِي لِلضَّيْفِ مَا عِنْدَكِ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ وَيُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک انصاری شخص کے پاس رات میں ایک مہمان آیا،اس انصاری کے پاس (اس وقت) صرف اس کے اور اس کے بچوں بھرکاہی کھاناتھا،اس نے اپنی بیوی سے کہا(ایساکرو) بچوں کو (کسی طرح) سلادو اور (کھانا کھلانے چلوتو) چراغ بجھادو،اور جوکچھ تمہارے پاس ہووہ مہمان کے قریب رکھ دو،اس پر آیت وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ۱؎ نازل ہوئی ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَہُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِہِ بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءَ جَالِسٌ عَلَی كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَجُثِثْتُ مِنْہُ رُعْبًا فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُونِي فَأَنْزَلَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَی قَوْلِہِ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ قَبْلَ أَنْ تُفْرَضَ الصَّلَاةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَابِرٍ وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا،آپ وحی موقوف ہوجانے کے واقعہ کا ذکر کررہے تھے،آپ نے دوران گفتگو بتایا: میں چلاجارہاتھا کہ یکایک میں نے آسمان سے آتی ہوئی ایک آواز سنی،میں نے سراٹھایا تو کیا دیکھتاہوں کہ وہ فرشتہ جو (غار) حراء میں میرے پاس آیا تھا آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے،رعب کی وجہ سے مجھ پر دہشت طاری ہوگئی،میں لوٹ پڑا (گھر آکر) کہا: مجھے کمبل میں لپیٹ دو،تو لوگوں نے مجھے کمبل اڑھادیا،اسی موقع پر آیت یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ سے وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ۱؎ تک نازل ہوئی،یہ واقعہ صلاۃ فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث یحییٰ بن کثیر نے بھی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کے واسطہ سے جابر سے بھی روایت کی ہے،۳-اور ابوسلمہ کانام عبداللہ ہے۔(یہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے اور ان کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا تھا)۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی عَنْ ابْنِ لَہِيعَةَ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ الصَّعُودُ جَبَلٌ مِنْ نَارٍ يَتَصَعَّدُ فِيہِ الْكَافِرُ سَبْعِينَ خَرِيفًا ثُمَّ يُہْوَی بِہِ كَذَلِكَ فِيہِ أَبَدًا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ وَقَدْ رُوِيَ شَيْءٌ مِنْ ہَذَا عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْقُوفٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صعود جہنم کا ایک پہاڑ ہے،اس پر کافر ستر سال تک چڑھتا رہے گاپھر وہاں سے لڑھک جائے گا،یہی عذاب اسے ہمیشہ ہوتارہے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے مرفوع صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس حدیث کا کچھ حصہ عطیہ سے مروی ہے جسے وہ ابوسعید سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ نَاسٌ مِنْ الْيَہُودِ لِأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ ہَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّكُمْ كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَہَنَّمَ قَالُوا لَا نَدْرِي حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ غُلِبَ أَصْحَابُكَ الْيَوْمَ قَالَ وَبِمَا غُلِبُوا قَالَ سَأَلَہُمْ يَہُودُ ہَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّكُمْ كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَہَنَّمَ قَالَ فَمَا قَالُوا قَالَ قَالُوا لَا نَدْرِي حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا قَالَ أَفَغُلِبَ قَوْمٌ سُئِلُوا عَمَّا لَا يَعْلَمُونَ فَقَالُوا لَا نَعْلَمُ حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا لَكِنَّہُمْ قَدْ سَأَلُوا نَبِيَّہُمْ فَقَالُوا أَرِنَا اللہَ جَہْرَةً عَلَيَّ بِأَعْدَاءِ اللہِ إِنِّي سَائِلُہُمْ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ وَہِيَ الدَّرْمَكُ فَلَمَّا جَاءُوا قَالُوا يَا أَبَا الْقَاسِمِ كَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَہَنَّمَ قَالَ ہَكَذَا وَہَكَذَا فِي مَرَّةٍ عَشَرَةٌ وَفِي مَرَّةٍ تِسْعَةٌ قَالُوا نَعَمْ قَالَ لَہُمْ النَّبِيُّ ﷺ مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ قَالَ فَسَكَتُوا ہُنَيْہَةً ثُمَّ قَالُوا خْبْزَةٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْخُبْزُ مِنْ الدَّرْمَكِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: کچھ یہودیوں نے بعض صحابہ سے پوچھا: کیا تمہارا نبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہم نہیں جانتے مگر پوچھ کر جان لیں گے،اسی دوران ایک شخص نبی اکرم ﷺکے پاس آیا،کہا: اے محمد! آج تو تمہارے ساتھی ہار گئے،آپ نے پوچھا کیسے ہار گئے؟ اس نے کہا: یہود نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارانبی جانتا ہے کہ جہنم کے نگراں کتنے ہیں؟ آپ نے پوچھا انہوں نے کیاجواب دیا؟ اس نے کہا: انہوں نے کہا: ہمیں نہیں معلوم،ہم اپنے نبی سے پوچھ کر بتاسکتے ہیں،آپ نے فرمایا: کیا وہ قوم ہار ی ہوئی مانی جاتی ہے جس سے ایسی چیز پوچھی گئی ہو جسے وہ نہ جانتی ہو اور انہوں نے کہاہوکہ ہم نہیں جانتے جب تک کہ ہم اپنے نبی سے پوچھ نہ لیں؟ (اس میں ہارنے کی کوئی بات نہیں ہے) البتہ ان لوگوں نے تو اس سے بڑھ کر بے ادبی وگستاخی کی بات کی،جنہوں نے اپنے نبی سے یہ سوال کیا کہ ہمیں اللہ کو کھلے طورپر دکھادو،آپ نے فرمایا: اللہ کے ان دشمنوں کو ہمارے سامنے لاؤ میں ان سے جنت کی مٹی کے بارے میں پوچھتا ہوں،وہ نرم مٹی ہے،جب وہ سب یہودی آگئے تو انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! جہنم کے نگراں لوگوں کی کتنی تعداد ہے؟ آپ نے اس طرح ہاتھ سے اشارہ فرمایا: ایک مرتبہ دس (انگلیاں دکھائیں) اور ایک مرتبہ نو (کل ۱۹) انہوں نے کہا:ہاں،(آپ نے درست فرمایا) اب آپ نے پلٹ کر ان سے پوچھا: جنت کی مٹی کا ہے کی ہے؟ راوی کہتے ہیں: وہ لوگ تھوڑی دیر خاموش رہے،پھر کہنے لگے:ابوالقاسم!وہ روٹی کی ہے،آپ نے فرمایا: روٹی میدہ(نرم مٹی) کی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے مجالد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنَا سُہَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْقُطَعِيُّ وَہُوَ أَخُو حَزْمِ بْنِ أَبِي حَزْمٍ الْقُطَعِيُّ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ فِي ہَذِہِ الْآيَةَ ہُوَ أَہْلُ التَّقْوَی وَأَہْلُ الْمَغْفِرَةِ قَالَ قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا أَہْلٌ أَنْ أُتَّقَی فَمَنْ اتَّقَانِي فَلَمْ يَجْعَلْ مَعِي إِلَہًا فَأَنَا أَہْلٌ أَنْ أَغْفِرَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَسُہَيْلٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ تَفَرَّدَ بِہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ ثَابِتٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے آیت کریمہ: ہُوَ أَہْلُ التَّقْوَی وَأَہْلُ الْمَغْفِرَۃِ ۱؎ کے بارے میں فرمایا: اللہ عزوجل کہتا ہے کہ میں اس کا اہل اور سزاوار ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے،تو جو مجھ سے ڈرا اور میرے ساتھ کسی اور کو معبود نہ ٹھہرا یا تو مجھے لائق ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-سہل حدیث میں قوی نہیں مانے جاتے ہیں اوروہ یہ حدیث ثابت سے روایت کرنے میں تنہا(بھی) ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ جُنْدَبٍ الْبَجَلِيِّ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَارٍ فَدَمِيَتْ أُصْبُعُہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللہِ مَا لَقِيتِ قَالَ وَأَبْطَأَ عَلَيْہِ جِبْرِيلُ عَلَيْہِ السَّلَام فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ

جندب بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک غار میں تھا،آپ کی انگلی سے (کسی سبب سے) خون نکل آیا،اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تو صرف ایک انگلی ہے جس سے خون نکل آیا ہے اور یہ سب کچھ جو تجھے پیش آیا ہے اللہ کی راہ میں پیش آیا ہے،راوی کہتے ہیں: آپ کے پاس جبرئیل علیہ السلام کے آنے میں دیر ہوئی تو مشرکین نے کہا: (پروپگینڈہ کیا) کہ محمد (ﷺ) چھوڑدیے گئے،تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے (سورہ والضحیٰ کی) آیت مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلَی ۱؎ نازل فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے شعبہ اور ثوری نے بھی اسود بن قیس سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ قَال سَمِعْتُ رَجُلًا بَدَوِيًّا أَعْرَابِيًّا يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَرْوِيہِ يَقُولُ مَنْ قَرَأَ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ فَقَرَأَ أَلَيْسَ اللہُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ فَلْيَقُلْ بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِكَ مِنْ الشَّاہِدِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا يُرْوَی بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ ہَذَا الْأَعْرَابِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَلَا يُسَمَّی

اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں: میں نے ایک بدوی اعرابی کو کہتے ہوئے سنا،میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اسے روایت کرتے ہوئے سنا ہے،وہ کہتے تھے جو شخص (سورہ) وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ پڑھے اور پڑھتے ہوئے أَلَیْسَ اللہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ تک پہنچے تو کہے:بلی وأنا ذلک من الشاہدین۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسی سند کے ساتھ اسی اعرابی سے ابوہریرہ کے واسطے سے مروی ہے اور اس اعرابی کانام نہیں لیاگیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ قَالَ ذَلِكَ إِبْرَاہِيمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مختار بن فلفل کہتے ہیں: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے کہا: یا خیر البریۃ! اے تمام مخلوق میں بہتر! آپ نے فرمایا: یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا فَدَعَا لَہُ بَدَأَ بِنَفْسِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَأَبُو قَطَنٍ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ الْہَيْثَمِ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں: جب رسو ل اللہ ﷺ کسی کو یاد کرکے اس کے لیے دعاکرتے،تو پہلے اپنے لیے دعاکرتے پھر اس کے لیے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ قَال سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ عَبْدٍ يَقُولُ فِي صَبَاحِ كُلِّ يَوْمٍ وَمَسَاءِ كُلِّ لَيْلَةٍ بِسْمِ اللہِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَہُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَمْ يَضُرَّہُ شَيْءٌ وَكَانَ أَبَانُ قَدْ أَصَابَہُ طَرَفُ فَالِجٍ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَيْہِ فَقَالَ لَہُ أَبَانُ مَا تَنْظُرُ أَمَا إِنَّ الْحَدِيثَ كَمَا حَدَّثْتُكَ وَلَكِنِّي لَمْ أَقُلْہُ يَوْمَئِذٍ لِيُمْضِيَ اللہُ عَلَيَّ قَدَرَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابان بن عثمان کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ایسا کوئی شخص نہیں ہے جو ہر روز صبح و شام کوبِسْمِ اللہِ الَّذِی لاَ یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فِی الأَرْضِ وَلاَ فِی السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ۱؎ تین بار پڑھے اور اسے کوئی چیز نقصان پہنچادے۔ابان کو ایک جانب فالج کا اثر تھا،(حدیث سن کر) حدیث سننے والا شخص ان کی طرف دیکھنے لگا،ابان نے ان سے کہا: میاں کیادیکھ رہے ہو؟ حدیث بالکل ویسی ہی ہے جیسی میں نے تم سے بیان کی ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ جس دن مجھ پر فالج کا اثر ہوا اس دن میں نے یہ دعا نہیں پڑھی تھی،اور نتیجہ یہ ہواکہ اللہ نے مجھ پر اپنی تقدیر کا فیصلہ جاری کردیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَبِي سَعْدٍ سَعِيدِ بْنِ الْمَرْزُبَانِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ ثَوْبَانَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَالَ حِينَ يُمْسِي رَضِيتُ بِاللہِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا كَانَ حَقًّا عَلَی اللہِ أَنْ يُرْضِيَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص شام کے وقت کہاکرے رَضِیتُ بِاللہِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا ۱؎ تو اللہ پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس بندے کو بھی اپنی طرف سے راضی وخوش کردے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَمْسَی قَالَ أَمْسَيْنَا وَأَمْسَی الْمُلْكُ لِلَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ أُرَاہُ قَالَ فِيہَا لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي ہَذِہِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَہَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ ہَذِہِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَسُوءِ الْكِبَرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَإِذَا أَصْبَحَ قَالَ ذَلِكَ أَيْضًا أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ لَمْ يَرْفَعْہُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب شام ہوتی تو نبی اکرم ﷺ کہتے أَمْسَیْنَا وَأَمْسَی الْمُلْکُ لِلَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ،أُرَاہُ قَالَ فِیہَا،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ أَسْأَلُکَ خَیْرَ مَا فِی ہَذِہِ اللَّیْلَۃِ وَخَیْرَ مَا بَعْدَہَا وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ہَذِہِ اللَّیْلَۃِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہَا وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الْکَسَلِ وَسُوئِ الْکِبَرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ۱؎،اور جب صبح ہوتی تو اس وقت بھی یہی دعاپڑھتے،تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ أمسینا کی جگہ أصْبَحْنَا اور أَمْسَی کی جگہ اصبح کہتے وَأَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ (صبح کی ہم نے،اورصبح کی ساری بادشاہی نے،اورساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،شعبہ نے یہ حدیث اسی سند سے ابن مسعود سے روایت کی ہے،اور اسے مرفوعاًروایت نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا سُہَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعَلِّمُ أَصْحَابَہُ يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ اللہُمَّ بِكَ أَصْبَحْنَا وَبِكَ أَمْسَيْنَا وَبِكَ نَحْيَا وَبِكَ نَمُوتُ وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ وَإِذَا أَمْسَی فَلْيَقُلْ اللہُمَّ بِكَ أَمْسَيْنَا وَبِكَ أَصْبَحْنَا وَبِكَ نَحْيَا وَبِكَ نَمُوتُ وَإِلَيْكَ النُّشُورُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کو سکھاتے ہوئے کہتے تھے کہ جب تمہاری صبح ہوتو کہو اللہُمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ ۱؎۔ اور آپ نے اپنے صحابہ کو سکھایا جب تم میں سے کسی کی شام ہو تو اسے چاہیے کہ کہے اللہُمَّ بِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ وَإِلَیْکَ النُّشُورُ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَہُ أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ تَقُولُہَا إِذَا أَوَيْتَ إِلَی فِرَاشِكَ فَإِنْ مِتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ مِتَّ عَلَی الْفِطْرَةِ وَإِنْ أَصْبَحْتَ أَصْبَحْتَ وَقَدْ أَصَبْتَ خَيْرًا تَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ وَوَجَّہْتُ وَجْہِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَہْبَةً إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِي إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَی مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ قَالَ الْبَرَاءُ فَقُلْتُ وَبِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ قَالَ فَطَعَنَ بِيَدِہِ فِي صَدْرِي ثُمَّ قَالَ وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْبَرَاءِ وَرَوَاہُ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ الْبَرَاءِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ إِذَا أَوَيْتَ إِلَی فِرَاشِكَ وَأَنْتَ عَلَی وُضُوءٍ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے کہا: کیا میں تمہیں ایسے کچھ کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تم اپنے بسترپر سونے کے لیے جانے لگو تو کہہ لیاکرو،اگر تم اسی رات میں مرجاؤ تو فطرت پر (یعنی اسلام پر)مروگے اور اگر تم نے صبح کی تو صبح کی،خیر(اجروثواب) حاصل کرکے،تم کہو: اللہُمَّ إِنِّی أَسْلَمْتُ نَفْسِی إِلَیْکَ وَوَجَّہْتُ وَجْہِی إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَی مِنْکَ إِلاَّ إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ ۱؎۔ براء کہتے ہیں: میں نے نبیک الذی أرسلت کی جگہ برسولک الذی أرسلت کہہ دیا تو آپ ﷺ نے میرے سینے پر اپنے ہاتھ سے کونچا،پھر فرمایا:ونبیک الذی أرسلت ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث براء رضی اللہ عنہ سے کئی سند وں سے آئی ہے،۳-اس حدیث کو منصور بن معتمر نے سعد بن عبید ہ سے اورسعد نے براء کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،البتہ ان کی روایت میں اتنا فرق ہے کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ اور تم وضوء سے ہو تو یہ دعا پڑھاکرو،۴-اس باب میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ إِسْحَقَ ابْنِ أَخِي رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا اضْطَجَعَ أَحَدُكُمْ عَلَی جَنْبِہِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ وَوَجَّہْتُ وَجْہِي إِلَيْكَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِي إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَی مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ أُومِنُ بِكِتَابِكَ وَبِرَسُولِكَ فَإِنْ مَاتَ مِنْ لَيْلَتِہِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی داہنی کروٹ لیٹے پھر پڑھے: اللہُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِی إِلَیْکَ وَوَجَّہْتُ وَجْہِی إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَی مِنْکَ إِلاَّ إِلَیْکَ أُومِنُ بِکِتَابِکَ وَبِرَسُولِکَ ۱؎،پھر اسی رات میں مرجائے،تو وہ جنت میں جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ إِذَا أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَكَفَانَا وَآوَانَا فَكَمْ مِمَّنْ لَا كَافِيَ لَہُ وَلَا مُؤْوِيَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پرسونے کے لیے آتے تو کہتے: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَکَفَانَا وَآوَانَا فَکَمْ مِمَّنْ لاَ کَافِیَ لَہُ وَلاَ مُؤْوِیَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَفْتَتِحُ صَلَاتَہُ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ قَالَتْ كَانَ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَہُ فَقَالَ اللہُمَّ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيہِ يَخْتَلِفُونَ اہْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيہِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَہْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

بوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رات میں جب نبی اکرم ﷺ تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنی صلاۃ کے شروع میں کیا پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب رات کو کھڑے ہوتے،صلاۃ شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھتے: اللہُمَّ رَبَّ جِبْرِیلَ وَمِیکَائِیلَ وَإِسْرَافِیلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ أَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیمَا کَانُوا فِیہِ یَخْتَلِفُونَ اہْدِنِی لِمَا اخْتُلِفَ فِیہِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ إِنَّکَ تَہْدِی مَنْ تَشَائُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَالَ يَعْنِي إِذَا خَرَجَ مِنْ بَيْتِہِ بِسْمِ اللہِ تَوَكَّلْتُ عَلَی اللہِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ يُقَالُ لَہُ كُفِيتَ وَوُقِيتَ وَتَنَحَّی عَنْہُ الشَّيْطَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص گھر سے نکلتے وقت:بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ لاَ حَوْلَ وَلا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۱؎ کہے،اس سے کہاجائے گا: تمہاری کفایت کردی گئی،اورتم (دشمن کے شرسے)بچالیے گئے،اورشیطان تم سے دورہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْہِ أَحَدِہِمَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ غَضَبُہُ أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ وَفِي الْبَاب عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَہَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی لَمْ يَسْمَعْ مِنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ مَاتَ مُعَاذٌ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَقُتِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی غُلَامٌ ابْنُ سِتِّ سِنِينَ ہَكَذَا رَوَی شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَرَآہُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی يُكْنَی أَبَا عِيسَی وَأَبُو لَيْلَی اسْمُہُ يَسَارٌ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ أَدْرَكْتُ عِشْرِينَ وَمِائَةً مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے آپس میں گالی گلوج کیا ان میں سے ایک کے چہرے سے غصہ عیاں ہورہاتھا،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں ایک ایسا کلمہ جانتاہوں کہ اگرو ہ اس کلمے کو کہہ لے توا س کا غصہ کافور ہوجائے،وہ کلمہ یہ ہے: أَعُوذُ بِاللہِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں سلیمان بن سرد سے بھی روایت ہے،اور یہ حدیث مرسل (منقطع) ہے۔عبدالرحمٰن بن أبی لیلیٰ نے سفیان سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث روایت کی،۳-عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے معاذ بن جبل سے نہیں سناہے،معاذ بن جبل کا انتقال عمر بن خطاب کی خلافت میں ہواہے،اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب شہید ہوئے ہیں اس وقت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ چھ برس کے تھے۴-اسی طرح شعبہ نے بھی حکم کے واسطہ سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے،۵-عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،اوران کو دیکھا ہے اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی کنیت ابوعیسیٰ ہے اور ابی لیلیٰ کا نام یسار ہے،اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ کے ایک سو بیس صحابہ کو پایا ہے اور دیکھا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عُمَرَ وَہُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَا وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ عَلَی مَيْمُونَةَ فَجَاءَتْنَا بِإِنَاءٍ فِيہِ لَبَنٌ فَشَرِبَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنَا عَلَی يَمِينِہِ وَخَالِدٌ عَلَی شِمَالِہِ فَقَالَ لِي الشَّرْبَةُ لَكَ فَإِنْ شِئْتَ آثَرْتَ بِہَا خَالِدًا فَقُلْتُ مَا كُنْتُ أُوثِرُ عَلَی سُؤْرِكَ أَحَدًا ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أَطْعَمَہُ اللہُ الطَّعَامَ فَلْيَقُلْ اللہُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيہِ وَأَطْعِمْنَا خَيْرًا مِنْہُ وَمَنْ سَقَاہُ اللہُ لَبَنًا فَلْيَقُلْ اللہُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيہِ وَزِدْنَا مِنْہُ وَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيْسَ شَيْءٌ يُجْزِئُ مَكَانَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ غَيْرُ اللَّبَنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ فَقَالَ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَرْمَلَةَ و قَالَ بَعْضُہُمْ عَمْرُو بْنُ حَرْمَلَةَ وَلَا يَصِحُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (دونوں) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے،وہ ایک برتن لے کر ہم لوگوں کے پاس آئیں،اس برتن میں دودھ تھا میں آپ کے دائیں جانب بیٹھا ہواتھا اور خالد آپ کے بائیں طرف تھے،آپ نے دودھ پیا پھر مجھ سے فرمایا: پینے کی باری تو تمہاری ہے،لیکن تم چاہو تو اپنا حق (اپنی باری) خالد بن ولید کو دیدو،میں نے کہا: آپ کا جوٹھا پینے میں اپنے آپ پر میں کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا،پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جسے اللہ کھانا کھلائے،اسے کھاکر یہ دعا پڑھنی چاہیے: اللہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیہِ وَأَطْعِمْنَا خَیْرًا مِنْہُ ۱؎ اور جس کو اللہ دودھ پلائیے اسے کہنا چاہیے اللہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیہِ وَزِدْنَا مِنْہُ ۲؎ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دودھ کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جوکھانے اور پینے (دونوں) کی جگہ کھانے وپینے کی ضرورت پوری کرسکے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض محدثین نے یہ حدیث علی بن زید سے روایت کی ہے،اور انہوں نے عمر بن حرملہ کہاہے۔جب کہ بعض نے عمر بن حرملہ کہا ہے اور عمرو بن حرملہ کہنا صحیح نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ وَحِينَ يُمْسِي سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ مِائَةَ مَرَّةٍ لَمْ يَأْتِ أَحَدٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ بِہِ إِلَّا أَحَدٌ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جوشخص صبح و شام میں سو (سو) مرتبہ: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ کہے،قیامت کے دن کوئی شخص اس سے اچھا عمل لے کر نہیں آئے گا،سوائے اس شخص کے جس نے وہی کہا ہو جو اس نے کہا ہے یا اس سے بھی زیادہ اس نے یہ دعا پڑھی ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ذَاتَ يَوْمٍ لِأَصْحَابِہِ قُولُوا سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ مِائَةَ مَرَّةٍ مَنْ قَالَہَا مَرَّةً كُتِبَتْ لَہُ عَشْرًا وَمَنْ قَالَہَا عَشْرًا كُتِبَتْ لَہُ مِائَةً وَمَنْ قَالَہَا مِائَةً كُتِبَتْ لَہُ أَلْفًا وَمَنْ زَادَ زَادَہُ اللہُ وَمَنْ اسْتَغْفَرَ اللہَ غَفَرَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ کہا کرو،جس نے یہ کلمہ ایک بار کہا اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی،اور جس نے دس بار کہا اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی،اور جس نے سوبار کہا اس کے لیے ایک ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی،اور جو زیادہ کہے گا اللہ اس کی نیکیوں میں بھی اضافہ فرمادے گا،اور جو اللہ سے بخشش چاہے گا اللہ اس کو بخش دے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الثَّعْلَبِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُلًا يَدْعُو وَہُوَ يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْہَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَہُ كُفُوًا أَحَدٌ قَالَ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَقَدْ سَأَلَ اللہَ بِاسْمِہِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِہِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَی قَالَ زَيْدٌ فَذَكَرْتُہُ لِزُہَيْرِ بْنِ مُعَاوِيَةَ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ قَالَ زَيْدٌ ثُمَّ ذَكَرْتُہُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ فَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی شَرِيكٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ وَإِنَّمَا أَخَذَہُ أَبُو إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ

بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو ان کلمات کے ساتھ: اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنِّی أَشْہَدُ أَنَّکَ أَنْتَ اللہُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ ۱؎ دعاکرتے ہوئے سنا تو فرمایا: قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! ا س شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی گئی ہے اس نے وہ دعا قبول کی ہے،اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی گئی ہے اس نے دی ہے۔ زید (راوی) کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث کئی برسوں بعد زہیر بن معاویہ سے ذکر کی تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے یہ حدیث ابواسحاق نے مالک بن مغول کے واسطہ سے بیان کی ہے۔زید کہتے ہیں: پھر میں نے یہ حدیث سفیان ثوری سے ذکر کی تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث مالک کے واسطے سے بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-شریک نے یہ حدیث ابواسحاق سے،ابواسحاق نے ابن بریدہ سے،ابن بریدہ نے اپنے والد (بریدہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے،حالانکہ ابواسحاق ہمدانی نے یہ حدیث مالک بن مغول سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ تَسْأَلُہُ خَادِمًا فَقَالَ لَہَا قُولِي اللہُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ مُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَی أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْءٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِہِ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَيْسَ قَبْلَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ اقْضِ عَنِّي الدَّيْنَ وَأَغْنِنِي مِنْ الْفَقْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہَكَذَا رَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ الْأَعْمَشِ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ ہَذَا وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فاطمہ (بنت رسول) رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک خادم مانگنے آئیں،آپ نے ان سے کہا: تم یہ دعا پڑتھی رہو: اللہُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ،رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ،مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ وَالْقُرْآنِ،فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ،أَنْتَ الأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ،وَأَنْتَ الآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ،وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ،اقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَأَغْنِنِی مِنَ الْفَقْرِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،اور اعمش کے بعض شاگردوں نے اعمش سے ایسے ہی روایت کی ہے،۲-ایسے ہی بعض راویوں نے اعمش سے،اعمش نے ابوصالح سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے،اور انہوں نے اپنی روایت میں ابوہریرہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ لِلَّہِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً غَيْرَ وَاحِدٍ مَنْ أَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ يُوسُفُ وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے ۱؎ نام ہیں،سو میں ایک کم،جو انہیں یاد رکھے وہ جنت میں داخل ہوگا ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یوسف نے کہا: ہم سے بیان کیا عبدالاعلی نے اور عبد الا ٔ علی نے ہشام بن حسان سے،ہشام نے محمد بن سیرین سے،محمد بن سیرین نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی کے مثل روایت کی۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجُوزَجَانِيُّ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِلَّہِ تَعَالَی تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً غَيْرَ وَاحِدٍ مَنْ أَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّةَ ہُوَ اللہُ الَّذِي لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ الْغَفَّارُ الْقَہَّارُ الْوَہَّابُ الرَّزَّاقُ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْخَافِضُ الرَّافِعُ الْمُعِزُّ الْمُذِلُّ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ الْحَكَمُ الْعَدْلُ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ الْحَلِيمُ الْعَظِيمُ الْغَفُورُ الشَّكُورُ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ الْحَفِيظُ الْمُقِيتُ الْحَسِيبُ الْجَلِيلُ الْكَرِيمُ الرَّقِيبُ الْمُجِيبُ الْوَاسِعُ الْحَكِيمُ الْوَدُودُ الْمَجِيدُ الْبَاعِثُ الشَّہِيدُ الْحَقُّ الْوَكِيلُ الْقَوِيُّ الْمَتِينُ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ الْمُحْصِي الْمُبْدِئُ الْمُعِيدُ الْمُحْيِي الْمُمِيتُ الْحَيُّ الْقَيُّومُ الْوَاجِدُ الْمَاجِدُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ الْمُؤَخِّرُ الْأَوَّلُ الْآخِرُ الظَّاہِرُ الْبَاطِنُ الْوَالِيَ الْمُتَعَالِي الْبَرُّ التَّوَّابُ الْمُنْتَقِمُ الْعَفُوُّ الرَّءُوفُ مَالِكُ الْمُلْكِ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ الْمُقْسِطُ الْجَامِعُ الْغَنِيُّ الْمُغْنِي الْمَانِعُ الضَّارُّ النَّافِعُ النُّورُ الْہَادِي الْبَدِيعُ الْبَاقِي الْوَارِثُ الرَّشِيدُ الصَّبُورُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَدَّثَنَا بِہِ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ صَالِحٍ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ صَفْوَانَ بْنِ صَالِحٍ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَا نَعْلَمُ فِي كَبِيرِ شَيْءٍ مِنْ الرِّوَايَاتِ لَہُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ ذِكْرَ الْأَسْمَاءِ إِلَّا فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ رَوَی آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ ہَذَا الْحَدِيثَ بِإِسْنَادٍ غَيْرِ ہَذَا عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَذَكَرَ فِيہِ الْأَسْمَاءَ وَلَيْسَ لَہُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹) نام ہیں جو انہیں شمار کرے (گنے) گا وہ جنت میں جائے گا،اور اللہ کے ننانوے (۹۹) نام یہ ہیں: ہُوَ اللہُ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الرَّحْمَنُ،الرَّحِیمُ،الْمَلِکُ،الْقُدُّوسُ،السَّلاَمُ،الْمُؤْمِنُ،الْمُہَیْمِنُ،الْعَزِیزُ،الْجَبَّارُ،الْمُتَکَبِّرُ،الْخَالِقُ،الْبَارِئُ،الْمُصَوِّرُ،الْغَفَّارُ،الْقَہَّارُ،الْوَہَّابُ،الرَّزَّاقُ،الْفَتَّاحُ،الْعَلِیمُ،الْقَابِضُ،الْبَاسِطُ،الْخَافِضُ،الرَّافِعُ،الْمُعِزُّ،الْمُذِلُّ،السَّمِیعُ،الْبَصِیرُ،الْحَکَمُ،الْعَدْلُ،اللَّطِیفُ،الْخَبِیرُ،الْحَلِیمُ،الْعَظِیمُ،الْغَفُورُ،الشَّکُورُ،الْعَلِیُّ،الْکَبِیرُ،الْحَفِیظُ،الْمُقِیتُ،الْحَسِیبُ،الْجَلِیلُ،الْکَرِیمُ،الرَّقِیبُ،الْمُجِیبُ،الْوَاسِعُ،الْحَکِیمُ،الْوَدُودُ،الْمَجِیدُ،الْبَاعِثُ،الشَّہِیدُ،الْحَقُّ،الْوَکِیلُ،الْقَوِیُّ،الْمَتِینُ،الْوَلِیُّ،الْحَمِیدُ،الْمُحْصِی،الْمُبْدِئُ،الْمُعِیدُ،الْمُحْیِی،الْمُمِیتُ،الْحَیُّ،الْقَیُّومُ،الْوَاجِدُ،الْمَاجِدُ،الْوَاحِدُ،الصَّمَدُ،الْقَادِرُ،الْمُقْتَدِرُ،الْمُقَدِّمُ،الْمُؤَخِّرُ،الأَوَّلُ،الآخِرُ،الظَّاہِرُ،الْبَاطِنُ،الْوَالِیَ،الْمُتَعَالِی،الْبَرُّ،التَّوَّابُ،الْمُنْتَقِمُ،الْعَفُوُّ،الرَّئُوفُ،مَالِکُ الْمُلْکِ،ذُو الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ،الْمُقْسِطُ،الْجَامِعُ،الْغَنِیُّ،الْمُغْنِی،الْمَانِعُ،الضَّارُّ،النَّافِعُ،النُّورُ،الْہَادِی،الْبَدِیعُ،الْبَاقِی،الْوَارِثُ،الرَّشِیدُ،الصَّبُورُ اللہ اسم ذات سب ناموں سے اشرف و اعلی الرحمن بہت رحم کرنے والا الرحیم مہربان الملک بادشاہ القدوس نہایت پاک السلام سلامتی دینے والا المؤمن یقین والا المہیمن نگہبان العزیز غالب الجبار تسلط والا المتکبر بڑائی والا الخالق پیداکرنے والا الباری پیداکرنے والا المصور صورت بنانے والا الغفار بہت بخشنے والا القہار قہر والا الوہاب بہت دینے والا الرزاق روزی دینے والا الفتاح فیصلہ چکانے والا العلیم جاننے والا القابض روکنے والا الباسط چھوڑدینے والا،پھیلانے والا الخافض پست کرنے والا الرافع بلند کرنے والا المعز عزت دینے والا المذل ذلت دینے والا السمیع سننے والا البصیر دیکھنے والا الحکیم فیصلہ کرنے والا العدل انصاف والا اللطیف بندوں پر شفقت کرنے والا الخبیر خبر رکھنے والا الحلیم بردبار العظیم بزرگی والا الغفور بہت بخشنے والا الشکور قدر کرنے والا العلی اونچا الکبیر بڑا الحفیظ نگہبان المقیت طاقت وقوت والا الحسیب حساب لینے والا الجلیل بزرگ الکریم کرم والا الرقیب مطلع رہنے والا المجیب قبول کرنے والا الواسع کشادگی اور وسعت والا الحکیم حکمت والا الودود بہت چاہنے والا المجید بزرگی والا الباعث زندہ کرکے اٹھانے والا الشہید نگراں،حاضر الحق سچا الوکیل کار ساز القوی طاقت ور المتین مضبوط الولی مدد گار و محافظ الحمید زندہ کرنے والا الممیت مارنے والا الحی زندہ القیوم قائم رہنے و قائم رکھنے والا المحیٔ زندہ کرنے والا الممیت مارنے والا الحیّ زندہ القیوم قائم رہنے و قائم رکھنے والا الواجد پانے والا الماجد بزرگی والا الواحد اکیلا الصمد بے نیاز القادر قدرت والا المقتدر طاقت ور پکڑنے والا المقدم پہلا المؤخر پچھلا الا ول پہلا الآخر پچھلا الظاہر ظاہر الباطن پوشیدہ،مخفی الوالی مالک مختار،حکومت کرنے والا المتعالی برتر البر بھلائی والا التواب توبہ قبول کرنے والا المنتقم انتقام لینے والا العفو درگذر کرنے والا الرؤف شفقت والا،مہربان مالک الملک تمام جہاں کا مالک ذوالجلال والإکرام عزت و جلال والا المقسط انصاف کرنے والا الجامع جمع کرنے والا الغنی تونگر و بے نیاز المغنی بے نیاز المانع روکنے والا الضار نقصان پہنچانے والا النافع نفع پہنچانے والا النور روشن،ظاہر الہادی ہدایت بخشنے والا البدیع از سر نو پیداکرنے والا الباقی قائم رہنے والا الوارث وارث الرشید خیر و بھلائی والا الصبور بردبار۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم سے کئی راویوں نے یہ حدیث صفوان بن ابوصالح کے واسطے سے بیان کی ہے،اور یہ حدیث ہم صرف صفوان بن صالح کی روایت سے جانتے ہیں اور صفوان بن صالح محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں،۳-یہ حدیث کئی اورسندوں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے،اور ہم اکثرو بیشتر روایات کو جن میں اسماء الٰہی کا ذکرہے،اس حدیث کے سوا کسی حدیث کو سند کے اعتبار سے صحیح نہیں پاتے،۴-آدم ابن ابی ایاس نے یہ حدیث اس سند کے علاوہ دو سری سند سے ابوہریرہ سے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اور اس میں اسماء (الٰہی) کا ذکر کیا ہے،لیکن اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ لِلَّہِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مَنْ أَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَلَيْسَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ ذِكْرُ الْأَسْمَاءِ وَہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاہُ أَبُو الْيَمَانِ عَنْ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ الْأَسْمَاءَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے(۹۹) نام ہیں جس نے انہیں شمار کیا (یاد رکھا) وہ جنت میں جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث میں اسماء (الٰہی) کا ذکر نہیں ہے،۳-اسے ابوالیمان نے شعیب بن ابی حمزہ کے واسطہ سے ابوالزناد سے روایت کیا ہے اور اس میں اسمائے حسنیٰ کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ أَنَّ حُمَيْدًا الْمَكِّيَّ مَوْلَی ابْنِ عَلْقَمَةَ حَدَّثَہُ أَنَّ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ قَالَ الْمَسَاجِدُ قُلْتُ وَمَا الرَّتْعُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں میں سے کسی باغ کے پاس سے گزرو تو کچھ چرچگ لیا کرو،میں پوچھا: اللہ کے رسول! ریاض الجنۃ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ریاض الجنۃ مساجد ہیں،میں نے کہا اور الرتع کیا ہے،اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلا إِلَہَ إِلا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ کہنا الرتع ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ الْبُنَانِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوا قَالُوا وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ قَالَ حِلَقُ الذِّكْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو تم (کچھ) چر،چُگ لیاکرو ۱؎ لوگوں نے پوچھا ریاض الجنۃ کیا ہے؟آپ نے فرمایا: ذکر کے حلقے اور ذکر کی مجلسیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے جسے ثابت نے انس سے روایت کی ہے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْوَزِيرِ حَدَّثَنَا زَنْفَلُ بْنُ عَبْدِ اللہِ أَبُو عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَمْرًا قَالَ اللہُمَّ خِرْ لِي وَاخْتَرْ لِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَنْفَلٍ وَہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَيُقَالُ لَہُ زَنْفَلُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْعَرَفِيُّ وَكَانَ يَسْكُنُ عَرَفَاتٍ وَتَفَرَّدَ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْہِ

ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کام کا ارادہ کرتے تویہ دعا فرماتے: اللہُمَّ خِرْ لِی وَاخْتَرْ لِی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے۲-اور ہم اسے زنفل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے نہیں جانتے،اوریہ محدثین کے نزیک ضعیف ہیں،اور انہیں زنفل بن عبداللہ عرفی بھی کہتے ہیں،وہ عرفات میں رہتے تھے،وہ اس حدیث میں منفرد ہیں،یعنی یہ روایت صرف انہوں نے ہی بیان کی ہے کسی اور نے نہیں) اورکسی نے بھی ان کی متابعت نہیں کی ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ حَدَّثَنَا أَبَانُ ہُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ حَدَّثَنَا يَحْيَی أَنَّ زَيْدَ بْنَ سَلَّامٍ حَدَّثَہُ أَنَّ أَبَا سَلَّامٍ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْوُضُوءُ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ وَسُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ تَمْلَآَنِ أَوْ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالصَّلَاةُ نُورٌ وَالصَّدَقَةُ بُرْہَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَہُ فَمُعْتِقُہَا أَوْ مُوبِقُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وضو آدھا ایمان ہے،اور الحمد للہ (اللہ کی حمد) میزان کوثواب بھردے گا اورسبحان اللہ اورالحمد للہ یہ دونوں بھردیں گے آسمانوں اور زمین کے درمیان کی جگہ کو یا ان میں سے ہرایک بھردے گاآسمانوں اور زمین کے درمیان کی ساری خلاکو (اجر وثواب سے) صلاۃ نور ہے،اور صدقہ دلیل اور کسوٹی ہے (ایمان کی) اور صبر روشنی ہے اور قرآن تمہارے حق میں حجت ودلیل ہے یا اور تمہارے خلاف حجت ہے۔ہرانسان صبح اٹھ کراپنے نفس کوفروخت کرتاہے چنانچہ یا تو(اللہ کے یہاں فروخت کرکے) اس کو (جہنم سے)آزادکرالیتاہے،یا (شیطان کے ہاں فروخت کرکے)اس کو ہلاکت میں ڈال دیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ أُخْتِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ دَعَا رَسُولُ اللہِ ﷺ بِدُعَاءٍ كَثِيرٍ لَمْ نَحْفَظْ مِنْہُ شَيْئًا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ دَعَوْتَ بِدُعَاءٍ كَثِيرِ لَمْ نَحْفَظْ مِنْہُ شَيْئًا فَقَالَ أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَی مَا يَجْمَعُ ذَلِكَ كُلَّہُ تَقُولُ اللہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْہُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ ﷺ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ ﷺ وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت ساری دعائیں کیں،مگر مجھے ان میں سے کوئی دعا یاد نہ رہی،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! دعائیں تو آپ نے بہت سی کیں مگر میں کوئی دعا یاد نہ رکھ سکا،آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتادوں جو ان سب چیزوں (دعاؤں) کی جامع ہو،کہو:اللہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ ﷺ،وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ ﷺ،وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ،وَعَلَیْکَ الْبَلاَغُ،وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ الْجَحْدَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَعْدَانَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ يُصَلِّي وَقَدْ وَضَعَ يَدَہُ الْيُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ الْيُسْرَی وَوَضَعَ يَدَہُ الْيُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْيُمْنَی وَقَبَضَ أَصَابِعَہُ وَبَسَطَ السَّبَّابَةَ وَہُوَ يَقُولُ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَی دِينِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عاصم بن کلیب بن شہاب کے داداشہاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس گیا،آپ صلاۃ پڑھا رہے تھے،آپ نے اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھاتھا،اور اپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر رکھا،انگلیاں بند کی تھی(یعنی مٹھی باندھ رکھی تھی) اور سبابہ (شہادت کی انگلی) کھول رکھی تھی اور آپ یہ دعاکررہے تھے: یَامُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللہِ الْجَسْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَادَہُ أَوْ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ عَادَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللہِ أَيُّ الْكَلَامِ أَحَبُّ إِلَی اللہِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ مَا اصْطَفَاہُ اللہُ لِمَلَائِكَتِہِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی عیادت کی (یہاں راوی کو شبہ ہوگیا) یا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی عیادت کی،تو انہوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول! کون سا کلام اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ کلام جو اللہ نے اپنے فرشتوں کے لیے منتخب فرمایا ہے (اور وہ یہ ہے) سُبْحَانَ رَبِّی وَبِحَمْدِہِ سُبْحَانَ رَبِّی وَبِحَمْدِہِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَ فِي سَاقَيْ رَسُولِ اللہِ ﷺ حُمُوشَةٌ وَكَانَ لَا يَضْحَكُ إِلَّا تَبَسُّمًا وَكُنْتُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَيْہِ قُلْتُ أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ وَلَيْسَ بِأَكْحَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی دونوں پنڈلیاں مناسب باریکی ۱؎ لیے ہوئے تھیں اور آپ کا ہنسنا صرف مسکرانا تھا،اور جب میں آپ کو دیکھتا تو کہتا کہ آپ آنکھوں میں سرمہ لگائے ہوئے ہیں،حالانکہ آپ سرمہ نہیں لگائے ہوتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ ضَلِيعَ الْفَمِ أَشْكَلَ الْعَيْنَيْنِ مَنْہُوشَ الْعَقِبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کا منہ کشادہ تھا،آپ کی آنکھ کے ڈورے سرخ تھے اور ایڑیاں کم گوشت والی تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ضَلِيعَ الْفَمِ أَشْكَلَ الْعَيْنَيْنِ مَنْہُوشَ الْعَقِبِ قَالَ شُعْبَةُ قُلْتُ لِسِمَاكٍ مَا ضَلِيعُ الْفَمِ قَالَ وَاسِعُ الْفَمِ قُلْتُ مَا أَشْكَلُ الْعَيْنَيْنِ قَالَ طَوِيلُ شَقِّ الْعَيْنِ قَالَ قُلْتُ مَا مَنْہُوشُ الْعَقِبِ قَالَ قَلِيلُ اللَّحْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کشادہ منہ والے تھے،آپ کی آنکھ کے ڈورے سرخ اور ایڑیاں کم گوشت والی تھیں۔شعبہ کہتے ہیں: میں نے سماک سے پوچھا: ضَلِیعُ الْفَمِ کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: اس کے معنی کشادہ منہ کے ہیں،میں نے پوچھا اشکل العین کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: اس کے معنی بڑی آنکھ والے کے ہیں،وہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: مَنْہُوشُ الْعَقِبِ کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: کم گوشت کے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ أَبِي يُونُسَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ كَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِي فِي وَجْہِہِ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَسْرَعَ فِي مِشْيَتِہِ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ كَأَنَّمَا الْأَرْضُ تُطْوَی لَہُ إِنَّا لَنُجْہِدُ أَنْفُسَنَا وَإِنَّہُ لَغَيْرُ مُكْتَرِثٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت کسی کونہیں دیکھا،گویا آپ کے چہرہ پر سورج پھر رہا ہے،اور نہ میں نے کسی کو آپ سے زیادہ تیز رفتار دیکھا،گویا زمین آپ کے لیے لپیٹ دی جاتی تھی،ہمیں آپ کے ساتھ چلنے میں زحمت اٹھانی پڑتی تھی اور آپ کو ئی دقت محسوس کئے بغیر چلے جاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ عُرِضَ عَلَيَّ الْأَنْبِيَاءُ فَإِذَا مُوسَی ضَرْبٌ مِنْ الرِّجَالِ كَأَنَّہُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ وَرَأَيْتُ عِيسَی ابْنَ مَرْيَمَ فَإِذَا أَقْرَبُ النَّاسِ مَنْ رَأَيْتُ بِہِ شَبَہًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَرَأَيْتُ إِبْرَاہِيمَ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِہِ شَبَہًا صَاحِبُكُمْ يَعْنِي نَفْسَہُ وَرَأَيْتُ جِبْرَائِيلُ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِہِ شَبَہًا دِحْيَةُ ہُوَ ابْنُ خَلِيفَةَ الْكَلْبِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انبیاء میرے سامنے پیش کئے گئے تو موسیٰ علیہ السلام ایک چھریرے جوان تھے،گویا وہ قبیلہ شنوء ہ کے ایک فرد ہیں اور میں نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا تو میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والے عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اور میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان سے زیادہ مشابہت رکھنے والا تمہارا یہ ساتھی ہے ۱؎،اور اس سے مراد آپ خود اپنی ذات کو لیتے تھے،اور میں نے جبرئیل علیہ السلام کودیکھا تو جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والے دحیہ کلبی ہیں،یہ خلیفہ کلبی کے بیٹے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ أَبِي الْمُعَلَّی عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ إِنَّ رَجُلًا خَيَّرَہُ رَبُّہُ بَيْنَ أَنْ يَعِيشَ فِي الدُّنْيَا مَا شَاءَ أَنْ يَعِيشَ وَيَأْكُلَ فِي الدُّنْيَا مَا شَاءَ أَنْ يَأْكُلَ وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّہِ فَاخْتَارَ لِقَاءَ رَبِّہِ قَالَ فَبَكَی أَبُو بَكْرٍ فَقَالَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ ہَذَا الشَّيْخِ إِذْ ذَكَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَجُلًا صَالِحًا خَيَّرَہُ رَبُّہُ بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّہِ فَاخْتَارَ لِقَاءَ رَبِّہِ قَالَ فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَہُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ بَلْ نَفْدِيكَ بِآبَائِنَا وَأَمْوَالِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنَّ إِلَيْنَا فِي صُحْبَتِہِ وَذَاتِ يَدِہِ مِنْ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلًا وَلَكِنْ وُدٌّ وَإِخَاءُ إِيمَانٍ وُدٌّ وَإِخَاءُ إِيمَانٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ بِإِسْنَادٍ غَيْرِ ہَذَا وَمَعْنَی قَوْلِہِ أَمَنَّ إِلَيْنَا يَعْنِي أَمَنَّ عَلَيْنَا

ابومعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا تو فرمایا: ایک شخص کو اس کے رب نے اختیار دیا کہ وہ دینا میں جتنا رہنا چاہے رہے اور جتنا کھانا چاہے کھالے یا اپنے رب سے ملنے کو(ترجیح دے) تواس نے اپنے رب سے ملنے کو پسند کیا،وہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ روپڑے،تو صحابہ نے کہا: کیا تمہیں اس بوڑھے کے رونے پر تعجب نہیں ہوتا جب رسول اللہ ﷺ نے ایک نیک بندے کا ذکر کیا کہ اس کے رب نے دوباتوں میں سے ایک کااسے اختیار دیا کہ وہ دنیا میں رہے یا اپنے رب سے ملے،تو اس نے اپنے رب سے ملاقات کو پسند کیا۔ابوبکر رضی اللہ عنہ ان میں سب سے زیادہ ان باتوں کو جاننے والے تھے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا(رسول اللہ ﷺ کی بات سن کر) ابوبکر نے کہا: بلکہ ہم اپنے باپ دادا،اپنے مال سب کو آپ پر قربان کردیں گے،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی آدمی ایسا نہیں جو ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والا ہو اور میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والا ہو،اگر میں کسی کو خلیل (گہرادوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو دوست بناتا،لیکن (ہمارے اوران کے درمیان)ایمان کی دوستی موجود ہے۔یہ کلمہ آپ نے دو یا تین بار فرمایا،پھر فرمایا: تمہارا یہ ساتھی(یعنی خود) اللہ کاخلیل(دوست) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت آئی ہے اور یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث ابوعوانہ کے واسطہ سے عبدالملک بن عمیر سے ایک دوسری سند سے بھی آئی ہے،اور أمن إلینا میں إلی علی کے معنی میں ہے،یعنی مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ قَالَ إِنَّ عَبْدًا خَيَّرَہُ اللہُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَہُ مِنْ زَہْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَہُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَہُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَدَيْنَاكَ يَا رَسُولَ اللہِ بِآبَائِنَا وَأُمَّہَاتِنَا قَالَ فَعَجِبْنَا فَقَالَ النَّاسُ انْظُرُوا إِلَی ہَذَا الشَّيْخِ يُخْبِرُ رَسُولُ اللہِ عَنْ عَبْدٍ خَيَّرَہُ اللہُ بَيْنَ أَنْ يُؤْتِيَہُ مِنْ زَہْرَةِ الدُّنْيَا مَا شَاءَ وَبَيْنَ مَا عِنْدَ اللہِ وَہُوَ يَقُولُ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّہَاتِنَا قَالَ فَكَانَ رَسُولُ اللہِ ہُوَ الْمُخَيَّرُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ ہُوَ أَعْلَمَنَا بِہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِہِ وَمَالِہِ أَبُو بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ لَا تُبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ خَوْخَةٌ إِلَّا خَوْخَةُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے منبر پر بیٹھکر فرمایا: ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ دنیا کی رنگینی کو پسند کرے یا ان چیزوں کو جو اللہ کے پاس ہیں،توا س نے ان چیزوں کو اختیار کیا جو اللہ کے پاس ہیں،اسے سنا تو ابوبکرنے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنے باپ دادااور اپنی ماؤں کو آپ پر قربان کیا ۱؎ ہمیں تعجب ہوا،لوگوں نے کہا: اس بوڑھے کو دیکھو! اللہ کے رسول ایک ایسے بندے کے بارے میں خبردے رہے ہیں جسے اللہ نے یہ اختیار دیا کہ وہ یاتو دنیا کی رنگینی کو اپنالے یا اللہ کے پاس جوکچھ ہے اسے اپنالے،اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء واجداد اور ماؤں کوآپ پر قربان کیا،جس بندے کو اللہ نے اختیار دیا وہ خود اللہ کے رسول تھے،اور ابوبکر اسے ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے،ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والے اور سب سے زیادہ میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والے ابوبکر ہیں،اگر میں کسی کوخلیل (گہرا دوست) بناتا،تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت ہی کافی ہے اور مسجد میں(یعنی مسجد کی طرف) کوئی کھڑکی باقی نہ رہے سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُحْرِزٍ الْقَوَارِيرِيُّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الْأَوْدِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا لِأَحَدٍ عِنْدَنَا يَدٌ إِلَّا وَقَدْ كَافَيْنَاہُ مَا خَلَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّ لَہُ عِنْدَنَا يَدًا يُكَافِيہِ اللہُ بِہَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَا نَفَعَنِي مَالُ أَحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا أَلَا وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی کا ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جسے میں نے چکا نہ دیا ہو سوائے ابوبکر کے،کیوں کہ ان کا ہمارے اوپر اتنا بڑااحسان ہے کہ جس کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن انہیں اللہ ہی دے گا،کسی کے مال سے کبھی بھی مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے،اگر میں کسی کو خلیل(گہرادوست) بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کوخلیل بناتا،سن لو تمہارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ ہُوَ الْأَنْمَاطِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي حَجَّتِہِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَہُوَ عَلَی نَاقَتِہِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُہُ يَقُولُ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِہِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللہِ وَعِتْرَتِي أَہْلَ بَيْتِي قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ وَزَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ قَدْ رَوَی عَنْہُ سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا،آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہوکر خطبہ دے رہے تھے،میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری عترت یعنی اہل بیت ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-زید بن حسن سے سعید بن سلیمان اور متعدد اہل علم نے روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابوذر،ابوسعیدخدری،زید بن ارقم اور حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَصْبَہَانِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ إِنَّمَا يُرِيدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيرًا فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا النَّبِيُّ ﷺ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَہُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَہْرِہِ فَجَلَّلَہُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ ہَؤُلَاءِ أَہْلُ بَيْتِي فَأَذْہِبْ عَنْہُمْ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِيرًا قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأَنَا مَعَہُمْ يَا نَبِيَّ اللہِ قَالَ أَنْتِ عَلَی مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَی خَيْرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَأَبِي الْحَمْرَاءِ وَأَنَسٍ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

نبی اکرم ﷺ کے ربیب (پروردہ)عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت کریمہ إِنَّمَا یُرِیدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ۱؎ نبی اکرم ﷺپر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں اتریں تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپالیا،پھر فرمایا: اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرمادے اور انہیں اچھی طرح پاک کردے،ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں،آپ نے فرمایا: تو اپنی جگہ پر رہ اور توبھی نیکی پر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ،معقل بن یسار،ابوحمراء اور انس رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَالْأَعْمَشُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَا قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِہِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُہُمَا أَعْظَمُ مِنْ الْآخَرِ كِتَابُ اللہِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنْ السَّمَاءِ إِلَی الْأَرْضِ وَعِتْرَتِي أَہْلُ بَيْتِي وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيہِمَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والاہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اوروہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے،اور دوسری میری عترت یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے،یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کو ثر پر میرے پاس آئیں گے،تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کررہے ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَشْعَثِ قَالَ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُلَيْمَانَ النَّوْفَلِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَحِبُّوا اللہَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِہِ وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللہِ وَأَحِبُّوا أَہْلَ بَيْتِي بِحُبِّي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے محبت کرو کیوں کہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہاہے،اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر،اور میرے اہل بیت سے میر ی خاطر۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ ہَانِئِ بْنِ ہَانِئٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ جَاءَ عَمَّارٌ يَسْتَأْذِنُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ ائْذَنُوا لَہُ مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: عمار نے آکر نبی اکرم ﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: انہیں اجازت دے دو،مرحبا مرد پاک ذات و پاک صفات کو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاہٍ كُوفِيٌّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا خُيِّرَ عَمَّارٌ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَرْشَدَہُمَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ سِيَاہٍ وَہُوَ شَيْخٌ كُوفِيٌّ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ النَّاسُ لَہُ ابْنٌ يُقَالُ لَہُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ثِقَةٌ رَوَی عَنْہُ يَحْيَی بْنُ آدَمَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمار کو جب بھی دوباتوں کے درمیان اختیار دیاگیا تو انہوں نے اسی کو اختیار کیا جو ان دونوں میں سب سے بہتر اور حق سے زیادہ قریب ہوتی تھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے عبدالعزیز بن سیاہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،اور یہ ایک کوفی شیخ ہیں اور ان سے لوگوں نے روایت کی ہے،ان کا ایک لڑکا تھا جسے یزید بن عبدالعزیز کہاجاتاتھا،ان سے یحییٰ بن آدم نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبْشِرْ عَمَّارُ تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي الْيَسَرِ وَحُذَيْفَةَ قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عمار! تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث علاء بن عبدالرحمٰن کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ،عبدالرحمٰن بن عمرو،ابو یسر اور حذیفہ رضی اللہ عنہم احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ عِيسَی عَنْ شَرِيكٍ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ عَنْ زَاذَانَ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ لَوْ اسْتَخْلَفْتَ قَالَ إِنْ أَسْتَخْلِفْ عَلَيْكُمْ فَعَصَيْتُمُوہُ عُذِّبْتُمْ وَلَكِنْ مَا حَدَّثَكُمْ حُذَيْفَةُ فَصَدِّقُوہُ وَمَا أَقْرَأَكُمْ عَبْدُ اللہِ فَاقْرَءُوہُ قَالَ عَبْدُ اللہِ فَقُلْتُ لِإِسْحَقَ بْنِ عِيسَی يَقُولُونَ ہَذَا عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ عَنْ زَاذَانَ إِنْ شَاءَ اللہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ حَدِيثُ شَرِيكٍ

حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اپنا جانشین مقرر فرمادیتے،آپ نے فرمایا: اگر میں نے اپنا جانشین مقرر کردیا اور تم نے اس کی نافرمانی کی تو تم عذاب دیئے جاؤ گے،البتہ حذیفہ جو کچھ تم سے کہیں تم ان کی تصدیق کرو،اورجو عبداللہ (بن مسعود) ۱؎ تمہیں پڑھائیں انہیں پڑھ لو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور یہ شریک کی روایت سے ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ جَاءَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيْسَ بِرَاكِبِ بَغْلٍ وَلَا بِرْذَوْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے ۱؎،آپ نہ کسی خچر پر سوارتھے نہ ترکی گھوڑے پر۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ اسْتَغْفَرَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيْلَةَ الْبَعِيرِ خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَمَعْنَی قَوْلِہِ لَيْلَةَ الْبَعِيرِ مَا رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ أَنَّہُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَبَاعَ بَعِيرَہُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَاشْتَرَطَ ظَہْرَہُ إِلَی الْمَدِينَةِ يَقُولُ جَابِرٌ لَيْلَةَ بِعْتُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ الْبَعِيرَ اسْتَغْفَرَ لِي خَمْسًا وَعِشْرِينَ مَرَّةً وَكَانَ جَابِرٌ قَدْ قُتِلَ أَبُوہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ بَنَاتٍ فَكَانَ جَابِرٌ يَعُولُہُنَّ وَيُنْفِقُ عَلَيْہِنَّ وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَبَرُّ جَابِرًا وَيَرْحَمُہُ بِسَبَبِ ذَلِكَ ہَكَذَا رُوِيَ فِي حَدِيثٍ عَنْ جَابِرٍ نَحْوَ ہَذَا

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لیلۃ البعیر (اونٹ کی رات) میں میرے لیے پچیس بار دعائے مغفرت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ان کے قوللیلۃ البعیر اونٹ کی رات سے وہ رات مراد ہے جو جابر سے کئی سندوں سے مروی ہے کہ وہ ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے،انہوں نے اپنا اونٹ نبی اکرمﷺ کے ہاتھ بیچ دیا اور مدینہ تک اس پر سوار ہو کر جانے کی شرط رکھ لی،جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس رات میں نے نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ اونٹ بیچا آپ نے پچیس بار میرے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ اور جابر کے والد عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہما احد کے دن شہید کردیئے گئے تھے اور انہوں نے کچھ لڑکیاں چھوڑی تھیں،جابر ان کی پرورش کرتے تھے اور ان پر خرچ دیتے تھے،اس کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے اور ان پر رحم کرتے تھے،۳-اسی طرح ایک اور حدیث میں جابر سے ایسے ہی مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَی الْحِمَّانِيُّ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ يَا أَبَا مُوسَی لَقَدْ أُعْطِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ابوموسیٰ تمہیں آل داود کی خوش الحانیوں(اچھی آوازوں) میں سے ایک خوش الحانی دی گئی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں بریدہ،ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَہُوَ يَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ فَيَمُرُّ بِنَا فَقَالَ اللہُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشَ الْآخِرَہْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو حَازِمٍ اسْمُہُ سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ الْأَعْرَجُ الزَّاہِدُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے،آپ خندق کھود رہے تھے اور ہم مٹی ڈھورہے تھے،آپ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا: اے اللہ زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے،تو انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقُولُ اللہُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشَ الْآخِرَہْ فَأَكْرِمْ الْأَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَہْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے:اللہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلاَّ عَیْشَ الآخِرَہْ فَأَکْرِمْ الأَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَہْ(بار الٰہا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے،تو انصار ومہاجرین کی تکریم فرما) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جن لوگوں نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّہُ قَالَ: فِي صَلاَةِ الْخَوْفِ قَالَ: يَقُومُ الإِمَامُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ وَتَقُومُ طَائِفَةٌ مِنْہُمْ مَعَہُ،وَطَائِفَةٌ مِنْ قِبَلِ الْعَدُوِّ،وَوُجُوہُہُمْ إِلَی الْعَدُوِّ،فَيَرْكَعُ بِہِمْ رَكْعَةً وَيَرْكَعُونَ لأَنْفُسِہِمْ،وَيَسْجُدُونَ لأَنْفُسِہِمْ سَجْدَتَيْنِ فِي مَكَانِہِمْ،ثُمَّ يَذْہَبُونَ إِلَی مَقَامِ أُولَئِكَ،وَيَجِيئُ أُولَئِكَ،فَيَرْكَعُ بِہِمْ رَكْعَةً وَيَسْجُدُ بِہِمْ سَجْدَتَيْنِ،فَہِيَ لَہُ ثِنْتَانِ وَلَہُمْ وَاحِدَةٌ،ثُمَّ يَرْكَعُونَ رَكْعَةً وَيَسْجُدُونَ سَجْدَتَيْنِ

سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے صلاۃ خوف کے بارے میں کہا کہ امام قبلہ رخ کھڑا ہوگا،اور لوگوں کی ایک جماعت اس کے ساتھ کھڑی ہوگی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے رہے گی اور اس کا رخ دشمن کی طرف ہوگا،امام انہیں ایک رکعت پڑھائے گا،اور دوسری ایک رکعت وہ خوداپنی جگہ پرپڑھیں گے اور خودہی سجدے کریں گے،پھر یہ اُن لوگوں کی جگہ پرچلے جائیں گے اور وہ اِن کی جگہ آجائیں گے،اب امام ایک رکعت انہیں پڑھائے گااور ان کے ساتھ دوسجدے کرے گا،اس طرح امام کی دورکعتیں ہوجائیں گی اور ان کی ایک ہی رکعت ہوگی،پھر یہ ایک رکعت اور پڑھیں گے اور دوسجدے کریں گے۔

قَالَ أَبُو عِيسَی: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: سَأَلْتُ يَحْيَی بْنَ سَعِيدٍ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِي عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: بِمِثْلِ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ و قَالَ لِي يَحْيَی: اكْتُبْہُ إِلَی جَنْبِہِ،وَلَسْتُ أَحْفَظُ الْحَدِيثَ،وَلَكِنَّہُ مِثْلُ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. لَمْ يَرْفَعْہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ،وَہَكَذَا رَوَی أَصْحَابُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ مَوْقُوفًا،وَرَفَعَہُ شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ.

سہل بن ابی حثمہ نبی اکرمﷺ سے یحییٰ بن سعید انصاری کی روایت کی طرح روایت کرتے ہیں،اور مجھ سے یحییٰ (القطان)نے کہا: اس حدیث کواس کے بازو میں لکھ دو مجھے یہ حدیث یاد نہیں،لیکن یہ یحییٰ بن سعید انصاری کی حدیث کی طرح تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے یحییٰ بن سعید انصاری نے قاسم بن محمدکے واسطے سے مرفوع نہیں کیاہے،قاسم بن محمدکے واسطے سے یحییٰ بن سعید انصاری کے تلامذہ نے اِسے اسی طرح موقوفاً روایت کیا ہے،البتہ شعبہ نے اسے عبدالرحمٰن بن قاسم بن محمد کے واسطے سے مرفوع کیاہے۔

وَرَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَنْ مَنْ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ ﷺ صَلاَةَ الْخَوْفِ: فَذَكَرَ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَرُوِي عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی بِإِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةً رَكْعَةً،فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ ﷺ رَكْعَتَانِ وَلَہُمْ رَكْعَةٌ رَكْعَةٌ. قَالَ أَبُوعِيسَی: أَبُو عَيَّاشٍ الزُّرَقِيُّ اسْمُہُ زَيْدُ بْنُ صَامِتٍ

صالح بن خوات ایک ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ صلاۃ خوف ادا کی،پھر انہوں نے اسی طرح ذکر کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-مالک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔۳-نیزکئی لوگوں سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺنے دونوں جماعتوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی،تو آپﷺ کی دورکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی (امام کے ساتھ) ایک ایک رکعت۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِيِّ أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ وَعُبَيْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَخْبَرَاہُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِہِ أَوْ عَنْ شَيْءٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ مَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الظُّہْرِ كُتِبَ لَہُ كَأَنَّمَا قَرَأَہُ مِنْ اللَّيْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَأَبُو صَفْوَانَ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَعِيدٍ الْمَكِّيُّ وَرَوَی عَنْہُ الْحُمَيْدِيُّ وَكِبَارُ النَّاسِ

عبدالرحمٰن بن عبد قاریّ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کوکہتے سناکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ پڑھے بغیر سوجائے،پھر وہ اُسے صلاۃ فجر سے لے کر ظہر کے درمیان تک کسی وقت پڑھ لے تو یہ اس کے لیے ایسے ہی لکھاجائے گا،گویا اس نے اسے رات ہی میں پڑھا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنِي غَالِبٌ الْقَطَّانُ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ ﷺ بِالظَّہَائِرِ سَجَدْنَا عَلَی ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الْحَرِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَقَدْ رَوَی وَكِيعٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم جب دوپہر میں نبی اکرمﷺ کے پیچھے صلاۃ پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر بن عبداللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ ہُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ عَنْ عَلِيٍّ وَعَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا أَتَی أَحَدُكُمْ الصَّلَاةَ وَالْإِمَامُ عَلَی حَالٍ فَلْيَصْنَعْ كَمَا يَصْنَعُ الْإِمَامُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَہُ إِلَّا مَا رُوِيَ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ وَالْإِمَامُ سَاجِدٌ فَلْيَسْجُدْ وَلَا تُجْزِئُہُ تِلْكَ الرَّكْعَةُ إِذَا فَاتَہُ الرُّكُوعُ مَعَ الْإِمَامِ وَاخْتَارَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَنْ يَسْجُدَ مَعَ الْإِمَامِ وَذَكَرَ عَنْ بَعْضِہِمْ فَقَالَ لَعَلَّہُ لَا يَرْفَعُ رَأْسَہُ فِي تِلْكَ السَّجْدَةِ حَتَّی يُغْفَرَ لَہُ

علی اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی صلاۃ پڑھنے آئے اور امام جس حالت میں ہوتو وہ وہی کرے جو امام کررہاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم کسی کونہیں جانتے جس نے اسے مسند کیاہو سوائے اس کے جو اس طریق سے مروی ہے،۲-اسی پراہل علم کا عمل ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب آدمی آئے اور امام سجدے میں ہوتو وہ بھی سجدہ کرے،لیکن جب امام کے ساتھ اس کا رکوع چھوٹ گیاہوتواس کی رکعت کافی نہ ہوگی۔عبداللہ بن مبارک نے بھی اسی کو پسند کیا ہے کہ امام کے ساتھ سجدہ کرے،اوربعض لوگوں سے نقل کیا کہ شاید وہ اس سجدے سے اپنا سر اٹھاتا نہیں کہ بخش دیا جاتا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِاللہِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَی خُفَّيْہِ. قَالَ فَقُلْتُ لَہُ فِي ذَلِكَ؟ فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ فَمَسَحَ عَلَی خُفَّيْہِ . فَقُلْتُ لَہُ: أَقَبْلَ الْمَائِدَةِ أَمْ بَعْدَ الْمَائِدَةِ؟ قَالَ: مَا أَسْلَمْتُ إِلاَّ بَعْدَ الْمَائِدَةِ

شہر بن حوشب کہتے ہیں: میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کودیکھا،انہوں نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔چنانچہ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا: میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا،آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔میں نے ان سے پوچھا: یہ سورہ مائدہ کے نزدول سے پہلے کی بات ہے یا مائدہ کے بعد کی؟ توانہوں نے کہا: میں نے مائدہ کے بعد ہی اسلام قبول کیا تھا ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ مَيْسَرَةَ النَّحْوِيُّ عَنْ خَالِدِ بْنِ زِيَادٍ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ،لاَ نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ

اس سند سے بھی خالد بن زیاد سے اسی طرح مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ہم اسے اس طرح مقاتل بن حیان کی سند سے جانتے ہیں انہوں نے اسے شہر بن حوشب سے روایت کیاہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي سُلَيمُ بْنُ عَامِرٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ سَمِعْتَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَقَالَ اتَّقُوا اللہَ رَبَّكُمْ وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ وَصُومُوا شَہْرَكُمْ وَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ قَالَ فَقُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ مُنْذُ كَمْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ سَمِعْتُہُ وَأَنَا ابْنُ ثَلَاثِينَ سَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سلیم بن عامرکہتے ہیں کہ میں نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: میں نے رسول اللہﷺ کو حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے سنا،آپ نے فرمایا: تم اپنے رب اللہ سے ڈرو،پانچ وقت کی صلاۃ پڑھو،ماہ رمضان کے صیام رکھو،اپنے مال کی زکاۃ اداکرو،اور امیرکی اطاعت کرو،اس سے تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ میں نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا:آپ نے کتنے برس کی عمر میں یہ حدیث رسول اللہﷺ سے سنی ہے؟ توانہوں نے کہا: میں نے آپ سے یہ حدیث اس وقت سنی جب میں تیس برس کا تھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ نِيَارٍ يَقُولُ جَاءَ سَہْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ إِلَی مَجْلِسِنَا فَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَقُولُ إِذَا خَرَصْتُمْ فَخُذُوا وَدَعُوا الثُّلُثَ فَإِنْ لَمْ تَدَعُوا الثُّلُثَ فَدَعُوا الرُّبُعَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْخَرْصِ وَبِحَدِيثِ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَالْخَرْصُ إِذَا أَدْرَكَتْ الثِّمَارُ مِنْ الرُّطَبِ وَالْعِنَبِ مِمَّا فِيہِ الزَّكَاةُ بَعَثَ السُّلْطَانُ خَارِصًا يَخْرُصُ عَلَيْہِمْ وَالْخَرْصُ أَنْ يَنْظُرَ مَنْ يُبْصِرُ ذَلِكَ فَيَقُولُ يَخْرُجُ مِنْ ہَذَا الزَّبِيبِ كَذَا وَكَذَا وَمِنْ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا فَيُحْصِي عَلَيْہِمْ وَيَنْظُرُ مَبْلَغَ الْعُشْرِ مِنْ ذَلِكَ فَيُثْبِتُ عَلَيْہِمْ ثُمَّ يُخَلِّي بَيْنَہُمْ وَبَيْنَ الثِّمَارِ فَيَصْنَعُونَ مَا أَحَبُّوا فَإِذَا أَدْرَكَتْ الثِّمَارُ أُخِذَ مِنْہُمْ الْعُشْرُ ہَكَذَا فَسَّرَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہَذَا يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

عبدالرحمٰن بن مسعود بن نیار کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہماری مجلس میں آئے تو بیان کیا کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے: جب تم تخمینہ لگاؤتوتخمینہ کے مطابق لو اورایک تہائی چھوڑدیاکرو،اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی چھوڑدیاکرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ا س باب میں عائشہ،عتاب بن اسید اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۲-تخمینہ لگانے کے سلسلے میں اکثر اہل علم کاعمل سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پرہے اورسہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہی کے مطابق احمداور شافعی بھی کہتے ہیں،تخمینہ لگانا یہ ہے کہ جب کھجور یا انگور کے پھل جن کی زکاۃ دی جاتی ہے پک جائیں تو سلطان (انتظامیہ) ایک تخمینہ لگانے والے کوبھیجے جواندازہ لگاکربتائے کہ اس میں کتناغلّہ یاپھل ہوگا اور تخمینہ لگانا یہ ہے کہ کوئی تجربہ کار آدمی دیکھ کر یہ بتائے کہ اس درخت سے اتنا اتنا انگور نکلے گا،اور اس سے اتنی اتنی کھجور نکلے گی۔پھر وہ اسے جوڑکر دیکھے کہ کتنا عشر کی مقدار کو پہنچا،تو ان پر وہی عشر مقرر کردے۔اور پھل کے پکنے تک اُن کو مہلت دے،پھل توڑنے کے وقت اپناعشر دیتے رہیں۔پھر مالکوں کو اختیار ہوگا کہ بقیہ سے جو چاہیں کریں۔بعض اہل علم نے تخمینہ لگانے کی تشریح اسی طرح کی ہے،اوریہی مالک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ التَّمَارِ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَبْعَثُ عَلَی النَّاسِ مَنْ يَخْرُصُ عَلَيْہِمْ كُرُومَہُمْ وَثِمَارَہُمْ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ فِي زَكَاةِ الْكُرُومِ إِنَّہَا تُخْرَصُ كَمَا يُخْرَصُ النَّخْلُ ثُمَّ تُؤَدَّی زَكَاتُہُ زَبِيبًا كَمَا تُؤَدَّی زَكَاةُ النَّخْلِ تَمْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی ابْنُ جُرَيْجٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ حَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَحَدِيثُ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ أَثْبَتُ وَأَصَحُّ

عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺلوگوں کے پاس ایک آدمی بھیجتے تھے جو ان کے انگوروں اور دوسرے پھلوں کا تخمینہ لگاتاتھا۔اسی سند سے ہے کہ نبی اکرمﷺنے انگور کی زکاۃ کے بارے میں فرمایا: اس کابھی تخمینہ لگایا جائے گا،جیسے کھجور کالگایاجاتاہے،پھرکشمش ہوجانے کے بعد اس کی زکاۃ نکالی جائے گی جیسے کھجور کی زکاۃ تمر ہوجانے کے بعد نکالی جاتی ہے۔(یعنی جب خشک ہوجائیں) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابن جریج نے یہ حدیث بطریق: ابن شہاب،عن عروۃ،عن عائشۃ روایت کی ہے،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: ابن جریج کی حدیث محفوظ نہیں ہے اور ابن مسیب کی حدیث جسے انہوں نے عتاب بن اسید سے روایت کی ہے زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے۔(بس صرف سنداً،ورنہ ضعیف یہ بھی ہے)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ مُجَالِدٍ،عَنْ الشَّعْبِيِّ،عَنْ جَرِيرٍ،قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:إِذَا أَتَاكُمْ الْمُصَدِّقُ فَلاَ يُفَارِقَنَّكُمْ إِلاَّ عَنْ رِضًا

جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جب زکاۃ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو وہ تم سے راضی اورخوش ہوکرہی جدا ہو

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ دَاوُدَ،عَنْ الشَّعْبِيِّ،عَنْ جَرِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ،بِنَحْوِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ دَاوُدَ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ. وَقَدْ ضَعَّفَ مُجَالِدًا بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ كَثِيرُ الْغَلَطِ

اس سند سے بھی جریر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: داود کی شعبی سے روایت کی ہوئی حدیث مجالد کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،مجالد کو بعض اہل علم نے ضعیف گرداناہے وہ کثیر الغلط ہیں یعنی ان سے بکثرت غلطیاں ہوتی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللہِ ﷺ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُہُ حَتَّی قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ فَتَكَلَّمَ فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِہِ النَّاسَ إِنِّي لَأَرَی مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ قَالَ فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَلَا أَزَالُ أُخْرِجُہُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ صَاعًا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ صَاعٌ إِلَّا مِنْ الْبُرِّ فَإِنَّہُ يُجْزِئُ نِصْفُ صَاعٍ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَہْلُ الْكُوفَةِ يَرَوْنَ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ-جب رسول اللہﷺ ہمارے درمیان موجود تھے-صدقہء فطر ۱؎ میں ایک صاع گیہوں ۲؎ یا ایک صاع جو،یاایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔توہم اسی طرح برابر صدقہء فطرنکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے،توانہوں نے لوگوں سے خطاب کیا،اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتاہوں۔تو لوگوں نے اسی کواختیارکرلیا یعنی لوگ دومدآدھاصاع گیہوں دینے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے ان کا خیال ہے کہ ہرچیز میں ایک صاع ہے،یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہرچیز میں ایک صاع ہے سوائے گیہوں کے،اس میں آدھا صاع کافی ہے،۴-یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا بھی قول ہے۔اور اہل کوفہ کی بھی رائے ہے کہ گیہوں میں نصف صاع ہی ہے۔

حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ مُنَادِيًا فِي فِجَاجِ مَكَّةَ أَلَا إِنَّ صَدَقَةَ الْفِطْرِ وَاجِبَةٌ عَلَی كُلِّ مُسْلِمٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَی حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ أَوْ سِوَاہُ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ وَقَالَ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ مِينَاءَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ بَعْضَ ہَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَنَا جَارُودُ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ہَارُونَ ہَذَا الْحَدِيثَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ایک شخص کو مکہ کی گلیوں میں منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ سنو! صدقۂ فطر ہرمسلمان مرد ہو یا عورت،آزاد ہویا غلام،چھوٹاہو یا بڑا،گیہوں سے دومداور گیہوں کے علاوہ دوسرے غلوں سے ایک صاع واجب ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-عمر بن ہارون نے یہ حدیث ابن جریج سے روایت کی،اور کہا: عباس بن میناء عن النبی ﷺپھرآگے اس حدیث کا کچھ حصہ ذکرکیا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللہِ ﷺ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَی الذَّكَرِ وَالْأُنْثَی وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ قَالَ فَعَدَلَ النَّاسُ إِلَی نِصْفِ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَدِّ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ وَثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ ٔ فطر مرد،عورت،آزاد اور غلام پر،ایک صاع کھجور،یاایک صاع جوفرض کیا،راوی کہتے ہیں: پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کواس کے برابرکرلیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعید،ابن عباس،حارث بن عبدالرحمٰن بن ابی ذباب کے دادا (یعنی ابوذباب)،ثعلبہ بن ابی صعیر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَی كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَی مِنْ الْمُسْلِمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ أَيُّوبَ وَزَادَ فِيہِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَرَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَبِيدٌ غَيْرُ مُسْلِمِينَ لَمْ يُؤَدِّ عَنْہُمْ صَدَقَةَ الْفِطْرِ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ و قَالَ بَعْضُہُمْ يُؤَدِّي عَنْہُمْ وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُسْلِمِينَ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاداور غلام،مرد اورعورت پر فرض کیاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-مالک نے بھی بطریق: نافع،عن ابن عمر،عن النبی ﷺ ایوب کی حدیث کی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں من المسلمین کا اضافہ ہے۔۳-اور دیگرکئی لوگوں نے نافع سے روایت کی ہے،اس میں من المسلمین کا ذکرنہیں ہے،۴-اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس غیر مسلم غلام ہوں تو وہ ان کا صدقہ فطر ادا نہیں کرے گا۔یہی مالک،شافعی اور احمد کا قول ہے۔اوربعض کہتے ہیں کہ وہ غلاموں کا صدقہ فطر اداکرے گا خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں،یہ ثوری،ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ وضاحت ۱؎: اس روایت میں لفظ فَرضَ استعمال ہواہے جس کے معنی فرض اورلازم ہونے کے ہیں،اس سے معلوم ہواکہ صدقہ فطرفرض ہے بعض لوگوں نے فَرضَ کوقَدَّرَکے معنی میں لیاہے لیکن یہ ظاہرکے سراسرخلاف ہے۔ ان لوگوں کا کہناہے کہ روایت میں من المسلمین کی قیداتفاقی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا تَقَدَّمُوا الشَّہْرَ بِيَوْمٍ وَلَا بِيَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُہُ أَحَدُكُمْ صُومُوا لِرُؤْيَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِہِ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ثُمَّ أَفْطِرُوا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا أَنْ يَتَعَجَّلَ الرَّجُلُ بِصِيَامٍ قَبْلَ دُخُولِ شَہْرِ رَمَضَانَ لِمَعْنَی رَمَضَانَ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يَصُومُ صَوْمًا فَوَافَقَ صِيَامُہُ ذَلِكَ فَلَا بَأْسَ بِہِ عِنْدَہُمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے) صوم نہ رکھو ۱؎،سوائے اس کے کہ اس دن ایسا صوم آپڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آرہے ہو ۲؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کرصوم رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی صوم رکھنا بند کرو۔اگر آسمان ابر آلود ہوجائے تو مہینے کے تیس دن شمارکرلو،پھر صوم رکھنا بند کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں بعض صحابہ کرام سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔وہ اس بات کومکروہ سمجھتے ہیں کہ آدمی ماہ رمضان کے آنے سے پہلے رمضان کے استقبال میں صوم رکھے،اور اگر کسی آدمی کا (کسی خاص دن میں) صوم رکھنے کا معمول ہواور وہ دن رمضان سے پہلے آ پڑے توان کے نزدیک اس دن صوم رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَقَدَّمُوا شَہْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ قَبْلَہُ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رمضان سے ایک یادو دن پہلے(رمضان کے استقبال میں)صوم نہ رکھو سوائے اس کے کہ آدمی اس دن صوم رکھتاآرہاہو تو اسے رکھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ شَہْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي بَكْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا قَالَ أَحْمَدُ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ شَہْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ يَقُولُ لَا يَنْقُصَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ شَہْرُ رَمَضَانَ وَذُو الْحِجَّةِ إِنْ نَقَصَ أَحَدُہُمَا تَمَّ الْآخَرُ و قَالَ إِسْحَقُ مَعْنَاہُ لَا يَنْقُصَانِ يَقُولُ وَإِنْ كَانَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ فَہُوَ تَمَامٌ غَيْرُ نُقْصَانٍ وَعَلَی مَذْہَبِ إِسْحَقَ يَكُونُ يَنْقُصُ الشَّہْرَانِ مَعًا فِي سَنَةٍ وَاحِدَةٍ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عید کے دونوں مہینے رمضان ۱؎ اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے (یعنی دونوں ۲۹ دن کے نہیں ہوتے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوبکرہ کی حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،۳-احمدبن حنبل کہتے ہیں: اس حدیث عیدکے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے کامطلب یہ ہے کہ رمضان اورذی الحجہ دونوں ایک ہی سال کے اندرکم نہیں ہوتے ۲؎ اگر ان دونوں میں کوئی کم ہوگا یعنی ایک ۲۹دن کا ہوگا تودوسرا پورا یعنی تیس دن کا ہو گا،۴-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ ۲۹ دن کے ہوں تو بھی ثواب کے اعتبارسے کم نہ ہوں گے،اسحاق بن راہویہ کے مذہب کی روسے دونوں مہینے ایک سال میں کم ہوسکتے ہیں یعنی دونوں۲۹دن کے ہوسکتے ہیں ۳؎۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ عَبْدَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ وَكَانَ يَسْرُدُ الصَّوْمَ فَقَال رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنْ شِئْتَ فَصُمْ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے سفر میں صوم رکھنے کے بارے میں پوچھا،وہ خود مسلسل صوم رکھا کرتے تھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: چاہو تو رکھو اور چاہوتو نہ رکھو ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ کی حدیث کہ حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا،حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس بن مالک،ابوسعیدخدری،عبداللہ بن مسعود،عبداللہ بن عمرو،ابوالدرداء اور حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي رَمَضَانَ فَمَا يَعِيبُ عَلَی الصَّائِمِ صَوْمَہُ وَلَا عَلَی الْمُفْطِرِ إِفْطَارَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ رمضان میں سفر کرتے تونہ آپ صوم رکھنے والے کے صوم رکھنے پر نکیرکرتے اور نہ ہی صوم نہ رکھنے والے کے صوم نہ رکھنے پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ح قَالَ و حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ فَلَا يَجِدُ الْمُفْطِرُ عَلَی الصَّائِمِ وَلَا الصَّائِمُ عَلَی الْمُفْطِرِ فَكَانُوا يَرَوْنَ أَنَّہُ مَنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَحَسَنٌ وَمَنْ وَجَدَ ضَعْفًا فَأَفْطَرَ فَحَسَنٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے تو ہم میں سے بعض صوم سے ہوتے اوربعض صوم سے نہ ہوتے۔تو نہ تو صوم نہ رکھنے والارکھنے والے پر غصہ کرتا اور نہ ہی صوم رکھنے والے نہ رکھنے والے پر،ان کا خیال تھا کہ جسے قوت ہو وہ صوم رکھے تو بہتر ہے،اورجس نے کمزوری محسوس کی اور صوم نہ رکھا توبھی بہترہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ،حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ،وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ،وَعَطَاءِ،وَمُجَاہِدٍ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَعَلَيْہَا صَوْمُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ،قَالَ:أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَی أُخْتِكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَہُ قَالَتْ: نَعَمْ،قَالَ:فَحَقُّ اللہِ أَحَقُّ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرکہا: میری بہن مرگئی ہے۔اس پرمسلسل دوماہ کے صیام تھے۔بتائیے میں کیا کروں؟آپ نے فرمایا: ذرابتا ؤاگر تمہاری بہن پرقرض ہوتا توکیا تم اسے اداکرتیں؟ اس نے کہا: ہاں(اداکرتی)،آپ نے فرمایا: تو اللہ کاحق اس سے بھی بڑاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں بریدہ،ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ،عَنْ الأَعْمَشِ بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: جَوَّدَ أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الأَعْمَشِ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رَوَی غَيْرُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ الأَعْمَشِ،مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي خَالِدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَرَوَی أَبُو مُعَاوِيَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ سَلَمَةَ بْنَ كُہَيْلٍ،وَلاَ عَنْ عَطَاءِ،وَلاَ عَنْ مُجَاہِدٍ،وَاسْمُ أَبِي خَالِدٍ سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ

اس سند سے بھی اعمش سے اسی طرح مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوخالد احمر نے اعمش سے یہ حدیث بہت عمدہ طریقے سے روایت کی ہے،۳-ابوخالدالأحمرکے علاوہ دیگرلوگوں نے بھی اسے اعمش سے ابوخالد کی روایت کے مثل روایت کیا ہے،ابومعاویہ نے اور دوسرے کئی اور لوگوں نے یہ حدیث بطریق: الأعمش،عن مسلم البطین،عن سعیدبن جبیر،عن ابن عباس،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،اس میں ان لوگوں نے سلمہ بن کہیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔اورنہ ہی عطاء اور مجاہدکے واسطے کا،ابوخالد کانام سلیمان بن حیان ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،عَنْ سُفْيَانَ،عَنْ مَنْصُورٍ،عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَصُومُ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلاَّ شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي شَہْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْہُ فِي شَعْبَانَ كَانَ يَصُومُہُ إِلاَّ قَلِيلاً بَلْ كَانَ يَصُومُہُ كُلَّہُ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو لگاتاردو مہینوں کے صیام رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان ۱؎ اوررمضان کے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-اور یہ حدیث ابوسلمہ سے بروایت عائشہ بھی مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں صیام رکھتے نہیں دیکھا،آپ شعبان کے سارے صیام رکھتے،سوائے چنددنوں کے بلکہ پورے ہی شعبان صوم رکھتے تھے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا عَبْدَةُ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ،عَنْ عَائِشَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ: ہُوَ جَائِزٌ فِي كَلاَمِ الْعَرَبِ إِذَا صَامَ أَكْثَرَ الشَّہْرِ أَنْ يُقَالَ صَامَ الشَّہْرَ كُلَّہُ وَيُقَالُ قَامَ فُلاَنٌ لَيْلَہُ أَجْمَعَ وَلَعَلَّہُ تَعَشَّی وَاشْتَغَلَ بِبَعْضِ أَمْرِہِ كَأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَدْ رَأَی كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ مُتَّفِقَيْنِ يَقُولُ إِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّہُ كَانَ يَصُومُ أَكْثَرَ الشَّہْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَقَدْ رَوَی سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.

اس سند سے بھی اسے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن مبارک اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئی مہینے کے اکثر ایام صوم رکھے تو کہا جائے کہ اس نے پورے مہینے کے صیام رکھے،اور کہا جائے کہ اس نے پوری رات صلاۃ پڑھی حالاں کہ اس نے شام کا کھانا بھی کھایا اوربعض دوسرے کاموں میں بھی مشغول رہا۔گویا ابن مبارک دونوں حدیثوں کو ایک دوسرے کے موافق سمجھتے ہیں۔اس طرح اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ اس مہینے کے اکثر ایام میں صوم رکھتے تھے،۲-سالم ابوالنضراوردوسرے کئی لوگوں نے بھی بطریق ابوسلمہ عن عائشہ محمدبن عمروکی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی وَطَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ عَنْ شَيْبَانَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَصُومُ مِنْ غُرَّةِ كُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَقَلَّمَا كَانَ يُفْطِرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ صِيَامَ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَإِنَّمَا يُكْرَہُ أَنْ يَصُومَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ لَا يَصُومُ قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ قَالَ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ا للہ ﷺ ہرماہ کے شروع کے تین دن صوم رکھتے۔اور ایسا کم ہوتا تھا کہ جمعہ کے دن آپ صوم سے نہ ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-شعبہ نے یہ حدیث عاصم سے روایت کی ہے اور اسے مرفوع نہیں کیا،۳-اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اہل علم کی ایک جماعت نے جمعہ کے دن صوم رکھنے کومستحب قراردیا ہے۔مکروہ یہ ہے کہ آدمی صرف جمعہ کو صوم رکھے نہ اس سے پہلے رکھے اورنہ اس کے بعد۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ دَاوُدَ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَحَرَّی صَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ حَفْصَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ سوموار اور جمعرات کے صیام کی تلاش میں رہتے تھے ۱؎۔ اس باب میں حفصہ،ابوقتادہ،ابوہریرہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے اور اس سند سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ وَمُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَصُومُ مِنْ الشَّہْرِ السَّبْتَ وَالْأَحَدَ وَالِاثْنَيْنِ وَمِنْ الشَّہْرِ الْآخَرِ الثُّلَاثَاءَ وَالْأَرْبِعَاءَ وَالْخَمِيسَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَرَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُفْيَانَ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک مہینہ ہفتہ(سنیچر)،اتوار اور سوموار(دوشنبہ) کو اور دوسرے مہینہ منگل،بدھ،اور جمعرات کوصوم رکھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-عبدالرحمٰن بن مہدی نے اس حدیث کو سفیان سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع نہیں کیاہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اعمال سوموار(دوشنبہ) اورجمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں،میری خواہش ہے کہ میراعمل اس حال میں پیش کیاجائے کہ میں صوم سے ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَہَلَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاہُ غَيْرَ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ وَہُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّہُ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُحْرِمَ الرَّجُلُ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے صلاۃ کے بعداحرام باندھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کونہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو،۳-جس چیز کو اہل علم نے مستحب قراردیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی صلاۃ کے بعد احرام باندھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ وَعَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ احْتَجَمَ وَہُوَ مُحْرِمٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ ابْنِ بُحَيْنَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ قَالُوا لَا يَحْلِقُ شَعْرًا و قَالَ مَالِكٌ لَا يَحْتَجِمُ الْمُحْرِمُ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ و قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَالشَّافِعِيُّ لَا بَأْسَ أَنْ يَحْتَجِمَ الْمُحْرِمُ وَلَا يَنْزِعُ شَعَرًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس ۲؎،عبداللہ بن بحینہ ۳؎ اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ بال نہیں منڈا ئے گا،۴-مالک کہتے ہیں کہ محرم پچھنا نہیں لگواسکتا،الایہ کہ ضروری ہو،۵-سفیان ثوری اور شافعی کہتے ہیں: محرم کے پچھنالگوانے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بال نہیں اتارسکتا۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ إِنِّي أُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا،وہ کہہ رہے تھے: میں تیرا بوسہ لے رہاہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے،اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبکر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ فَقَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَلِمُہُ وَيُقَبِّلُہُ فَقَالَ الرَّجُلُ أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ عَلَيْہِ أَرَأَيْتَ إِنْ زُوحِمْتُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَلِمُہُ وَيُقَبِّلُہُ قَالَ وَہَذَا ہُوَ الزُّبَيْرُ بْنُ عَرَبِيٍّ رَوَی عَنْہُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَالزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ كُوفِيٌّ يُكْنَی أَبَا سَلَمَةَ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ رَوَی عَنْہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ تَقْبِيلَ الْحَجَرِ فَإِنْ لَمْ يُمْكِنْہُ وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْہِ اسْتَلَمَہُ بِيَدِہِ وَقَبَّلَ يَدَہُ وَإِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَيْہِ اسْتَقْبَلَہُ إِذَا حَاذَی بِہِ وَكَبَّرَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے حجر اسود کابوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرمﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھاہے۔اس نے کہا: اچھابتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہوجاؤں اور اگرمیں بھیڑ میں پھنس جاؤں؟ تواس پرابن عمر نے کہا: تم(یہ اپنا) اگرمگریمن میں رکھو ۱؎ میں نے نبی اکرمﷺ کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھاہے۔یہ زبیر بن عربی وہی ہیں،جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے،کوفے کے رہنے والے تھے،ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔اوران سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اورائمہ نے روایت کی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے۔ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھولے اوراپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگروہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تواس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے،یہ شافعی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَابَاہَ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِہَذَا الْبَيْتِ وَصَلَّی أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَہَارٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ذَرٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جُبَيْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَابَاہَ أَيْضًا وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ بِمَكَّةَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ وَالطَّوَافِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا طَافَ بَعْدَ الْعَصْرِ لَمْ يُصَلِّ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَكَذَلِكَ إِنْ طَافَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ أَيْضًا لَمْ يُصَلِّ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّہُ طَافَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمْ يُصَلِّ وَخَرَجَ مِنْ مَكَّةَ حَتَّی نَزَلَ بِذِي طُوًی فَصَلَّی بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ

جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اے بنی عبدمناف!رات دن کے کسی بھی حصہ میں کسی کو اس گھرکاطواف کرنے اور صلاۃ پڑھنے سے نہ روکو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جبیرمطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-عبداللہ بن ابی نجیح نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن باباہ سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابن عباس اور ابوذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-مکے میں عصر کے بعد اور فجر کے بعد صلاۃ پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں: عصرکے بعد اورفجرکے بعد صلاۃ پڑھنے اورطواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یہ شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی حدیث ۲؎ سے دلیل لی ہے۔اوربعض کہتے ہیں: اگر کوئی عصرکے بعد طواف کرے تو سورج ڈوبنے تک صلاۃ نہ پڑھے۔اسی طرح اگرکوئی فجر کے بعد طواف کرے تو سورج نکلنے تک صلاۃ نہ پڑھے۔ان کی دلیل عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد طواف کیااور صلاۃ نہیں پڑھی پھر مکہ سے نکل گئے یہاں تک کہ وہ ذی طوی میں اترے تو سورج نکل جانے کے بعد صلاۃ پڑھی۔یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ عِنْدِي وَہُوَ قَرِيرُ الْعَيْنِ طَيِّبُ النَّفْسِ فَرَجَعَ إِلَيَّ وَہُوَ حَزِينٌ فَقُلْتُ لَہُ فَقَالَ إِنِّي دَخَلْتُ الْكَعْبَةَ وَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ فَعَلْتُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَكُونَ أَتْعَبْتُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ میرے پاس سے نکل کر گئے،آپ کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں اور طبیعت خوش،پھرمیرے پاس لوٹ کر آئے،تو غمگین اور افسردہ تھے،میں نے آپ سے (وجہ) پوچھی،تو آپ نے فرمایا: میں کعبہ کے اندرگیا۔اورمیری خواہش ہوئی کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔میں ڈررہاہوں کہ اپنے بعد میں نے اپنی امت کوزحمت میں ڈال دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ فَتَلْتُ قَلَائِدَ ہَدْيِ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ لَمْ يُحْرِمْ وَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا مِنْ الثِّيَابِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا قَلَّدَ الرَّجُلُ الْہَدْيَ وَہُوَ يُرِيدُ الْحَجَّ لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْہِ شَيْءٌ مِنْ الثِّيَابِ وَالطِّيبِ حَتَّی يُحْرِمَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا قَلَّدَ الرَّجُلُ ہَدْيَہُ فَقَدْ وَجَبَ عَلَيْہِ مَا وَجَبَ عَلَی الْمُحْرِمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی ہدی کے قلادے بٹے،پھر آپ نہ محرم ہوئے اورنہ ہی آپ نے کو ئی کپڑا پہننا چھوڑا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ہدی (کے جانور)کو قلادہ پہنادے اوروہ حج کا ارادہ رکھتاہوتو اس پر کپڑاپہننا یا خوشبولگانا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ وہ احرام نہ باندھ لے،۳-اوربعض اہل علم کا کہناہے کہ جب آدمی اپنے ہدی (کے جانور)کو قلادہ پہنادے تو اس پر وہ سب واجب ہوجاتا ہے جو ایک محرم پر واجب ہوتاہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَی رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً فَقَالَ لَہُ ارْكَبْہَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّہَا بَدَنَةٌ قَالَ لَہُ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ ارْكَبْہَا وَيْحَكَ أَوْ وَيْلَكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي رُكُوبِ الْبَدَنَةِ إِذَا احْتَاجَ إِلَی ظَہْرِہَا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَا يَرْكَبُ مَا لَمْ يُضْطَرَّ إِلَيْہَا

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک شخص کو ہدی کے اونٹ ہانکتے دیکھا،تواسے حکم دیا اس پر سوار ہوجا ؤ،اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ہدی کااونٹ ہے،پھر آپ نے اس سے تیسری یا چوتھی بار میں کہا: اس پر سوار ہوجاؤ،تمہارابرا ہو ۱؎ یا تمہاری ہلاکت ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوہریرہ،اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہ میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے ہدی کے جانور پرسوار ہونے کی اجازت دی ہے،جب کہ و ہ اس کامحتاج ہو،یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۴-بعض کہتے ہیں: جب تک مجبور نہ ہوہدی کے جانور پر سوار نہ ہو۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْحَرَشِيُّ الْبَصْرِيُّ،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ،حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ خِلاَسِ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ تَحْلِقَ الْمَرْأَةُ رَأْسَہَا

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنا سر مونڈوائے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ،عَنْ ہَمَّامٍ،عَنْ خِلاَسٍ نَحْوَہُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عَلِيٍّ فِيہِ اضْطِرَابٌ. وَرُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ تَحْلِقَ الْمَرْأَةُ رَأْسَہَا. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لاَ يَرَوْنَ عَلَی الْمَرْأَةِ حَلْقًا. وَيَرَوْنَ أَنَّ عَلَيْہَا التَّقْصِيرَ

اس سند سے بھی خلا س سے اسی طرح مروی ہے،لیکن اس میں انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اضطراب ہے،یہ حدیث حماد بن سلمہ سے بطریق: قتادۃ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عورت کو اپنا سرمونڈانے سے منع فرمایا،۲-اہل علم کااسی پرعمل ہے،وہ عورت کے لیے سرمنڈانے کو درست نہیں سمجھتے ان کا خیال ہے کہ اس پرتقصیر(بال کتروانا)ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ فِي أَيِّ شَہْرٍ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ فِي رَجَبٍ فَقَالَتْ عَائِشَةُ مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَّا وَہُوَ مَعَہُ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ وَمَا اعْتَمَرَ فِي شَہْرِ رَجَبٍ قَطُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ

عروہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا سے پوچھاگیا: رسول اللہﷺ نے کس مہینے میں عمرہ کیاتھا؟ توانہوں نے کہا: رجب میں،اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:رسول اللہﷺ نے جو بھی عمرہ کیا،اس میں وہ یعنی ابن عمر آپ کے ساتھ تھے،آپ نے رجب کے مہینے میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جبیب بن ابی ثابت نے عروہ بن زبیر سے نہیں سنا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اعْتَمَرَ أَرْبَعًا إِحْدَاہُنَّ فِي رَجَبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے چار عمرے کیے،ان میں سے ایک رجب میں تھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الصَّوَّافُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ كُسِرَ أَوْ عَرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْہِ حَجَّةٌ أُخْرَی فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَا صَدَقَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْأَنْصَارِيُّ عَنْ الْحَجَّاجِ مِثْلَہُ قَالَ وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ہَكَذَا رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَرَوَی مَعْمَرٌ وَمُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ہَذَا الْحَدِيثَ وَحَجَّاجٌ الصَّوَّافُ لَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِہِ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَافِعٍ وَحَجَّاجٌ ثِقَةٌ حَافِظٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ رِوَايَةُ مَعْمَرٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ سَلَّامٍ أَصَحُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

حجاج بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس کا کوئی عضوٹوٹ جائے یاوہ لنگڑا ہوجائے تو اس کے لیے احرام کھول دینادرست ہے،اس پر دوسراحج لازم ہوگا ۱؎۔ میں نے اس کا ذکر ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے کیا تو ان دونوں نے کہا کہ انہوں نے (حجاج) سچ کہا۔ اسحاق بن منصورکی سند بھی حجاج رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل روایت ہے البتہ اس میں عن الحجاج بن عمرو قال: قال رسول اللہ ﷺ کے بجائے سمعت ﷺکے الفاظ ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح کئی اور لوگوں نے بھی حجاج الصواف سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-معمر اور معاویہ بن سلام نے بھی یہ حدیث بطریق: یحیی بن أبی کثیر،عن عکرمۃ،عن عبد اللہ بن رافع،عن الحجاج بن عمرو،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۴-اور حجاج الصواف نے اپنی روایت میں عبداللہ بن رافع کا ذکر نہیں کیاہے،حجاج الصواف محدثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں،۵-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ معمر اور معاویہ بن سلام کی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے،۶-عبدالرزاق نے بسندمعمر عن یحییٰ بن ابی کثیر عن عکرمہ عن عبداللہ بن رافع عن حجاج بن عمرو عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ ذَكَرْتُ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ حَاضَتْ فِي أَيَّامِ مِنًی فَقَالَ أَحَابِسَتُنَا ہِيَ قَالُوا إِنَّہَا قَدْ أَفَاضَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَلَا إِذًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا طَافَتْ طَوَافَ الزِّيَارَةِ ثُمَّ حَاضَتْ فَإِنَّہَا تَنْفِرُ وَلَيْسَ عَلَيْہَا شَيْءٌ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ذکر کیا کہ صفیہ بنت حیی منیٰ کے دنوں میں حائضہ ہوگئی ہیں،آپ نے پوچھا: کیا وہ ہمیں (مکے سے روانہ ہونے سے) روک دے گی؟ لوگوں نے عرض کیا: وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں،تورسول اللہﷺ نے فرمایا: تب تو کوئی حرج نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ عورت جب طواف زیارت کرچکی ہو اور پھر اسے حیض آجائے تو وہ روانہ ہوسکتی ہے،طوافِ وداع چھوڑ دینے سے اس پرکوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔یہی سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ فَلْيَكُنْ آخِرُ عَہْدِہِ بِالْبَيْتِ إِلَّا الْحُيَّضَ وَرَخَّصَ لَہُنَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ جس نے بیت اللہ کا حج کیا،اس کا آخری کام بیت اللہ کاطواف (وداع) ہونا چاہئے حائضہ عورتوں کے سوا کہ رسول اللہﷺ نے انہیں رخصت دی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کااسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَرَأَی رَجُلًا قَدْ سَقَطَ مِنْ بَعِيرِہِ فَوُقِصَ فَمَاتَ وَہُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اغْسِلُوہُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوہُ فِي ثَوْبَيْہِ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَہُ فَإِنَّہُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُہِلُّ أَوْ يُلَبِّي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا مَاتَ الْمُحْرِمُ انْقَطَعَ إِحْرَامُہُ وَيُصْنَعُ بِہِ كَمَا يُصْنَعُ بِغَيْرِ الْمُحْرِمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفرمیں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے،آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گر پڑا،اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مرگیا وہمحرم تھا،توآپ ﷺ نے فرمایا: اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے انہی (احرام کے) دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور اس کا سر نہ چھپاؤ،اس لیے کہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوااٹھایاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔یہی سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب محرم مرجاتاہے تواس کا احرام ختم ہوجاتاہے،اور اس کے ساتھ بھی وہی سب کچھ کیاجائے گاجو غیرمحرم کے ساتھ کیاجاتاہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرْخَصَ لِلرِّعَاءِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی ابْنُ عُيَيْنَةَ وَرَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ أَبِيہِ وَرِوَايَةُ مَالِكٍ أَصَحُّ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ لِلرِّعَاءِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑدیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اسی طرح ابن عیینہ نے بھی روایت کی ہے،اورمالک بن انس نے بسندعبداللہ بن ابی بکرعن أبیہ عن ابی البداح بن عاصم بن عدیعن أبیہ عاصم روایت کی ہے،اورمالک کی روایت زیادہ صحیح ہے،۲-اہل علم کی ایک جماعت نے چرواہوں کو رخصت دی ہے کہ وہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ترک کردیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ رَخَّصَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِرِعَاءِ الْإِبِلِ فِي الْبَيْتُوتَةِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَجْمَعُوا رَمْيَ يَوْمَيْنِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ فَيَرْمُونَہُ فِي أَحَدِہِمَا قَالَ مَالِكٌ ظَنَنْتُ أَنَّہُ قَالَ فِي الْأَوَّلِ مِنْہُمَا ثُمَّ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّفْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ

عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اونٹ کے چرواہوں کو (منی میں) رات گزارنے کے سلسلہ میں رخصت دی کہ وہ دسویں ذی الحجہ کو (جمرئہ عقبہ کی) رمی کرلیں۔پھر دسویں ذی الحجہ کے بعد کے دو دنوں کی رمی جمع کرکے ایک دن میں اکٹھی کرلیں ۱؎ (مالک کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ راوی نے کہا)پہلے دن رمی کرلے پھر کوچ کے دن رمی کرے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،اوریہ ابن عیینہ کی عبداللہ بن ابی بکر سے روایت والی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ عَادَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ وَأَنَا مَرِيضٌ فَقَالَ أَوْصَيْتَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ بِكَمْ قُلْتُ بِمَالِي كُلِّہِ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ قُلْتُ ہُمْ أَغْنِيَاءُ بِخَيْرٍ قَالَ أَوْصِ بِالْعُشْرِ فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُہُ حَتَّی قَالَ أَوْصِ بِالثُّلُثِ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَنَحْنُ نَسْتَحِبُّ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ أَنْ يُوصِيَ الرَّجُلُ بِأَكْثَرَ مِنْ الثُّلُثِ وَيَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ الثُّلُثِ قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ فِي الْوَصِيَّةِ الْخُمُسَ دُونَ الرُّبُعِ وَالرُّبُعَ دُونَ الثُّلُثِ وَمَنْ أَوْصَی بِالثُّلُثِ فَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا وَلَا يَجُوزُ لَہُ إِلَّا الثُّلُثُ

سعد بن مالک (سعد بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے میری عیادت فرمائی،میں بیمار تھا۔توآپ نے پوچھا: کیا تم نے وصیت کردی ہے؟ میں نے عرض کیا:جی ہاں(کردی ہے)،آپ نے فرمایا: کتنے کی؟ میں نے عرض کیا: اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی۔آپ نے پوچھا: اپنی اولادکے لیے تم نے کیاچھوڑا؟ میں نے عرض کیا:وہ مال سے بے نیازہیں،آپ نے فرمایا: دسویں حصے کی وصیت کرو۔تو میں برابراسے زیادہ کراتارہا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: تہائی مال کی وصیت کرو،اور تہائی بھی زیادہ ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ تہائی مال کی وصیت بھی زیادہ ہے مستحب یہی سمجھتے ہیں کہ تہائی سے بھی کم کی وصیت کی جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دوسرے اور طرق سے بھی مروی ہے،۳-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔اوران سےوالثلث کثیر کی جگہ والثلث کبیر(تہائی بڑی مقدارہے)بھی مروی ہے،۴-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ اس بات کوصحیح قرارنہیں دیتے کہ آدمی تہائی سے زیادہ کی وصیت کرے اورمستحب سمجھتے ہیں کہ تہائی سے کم کی وصیت کرے،۵-سفیان ثوری کہتے ہیں: لوگ چوتھائی حصہ کے مقابل میں پانچویں حصہ کو اور تہائی کے مقابلے میں چوتھائی حصہ کومستحب سمجھتے تھے،اور کہتے تھے کہ جس نے تہائی کی وصیت کردی اس نے کچھ نہیں چھوڑا۔اور اس کے لیے تہائی سے زیادہ جائزنہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ،حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ وَہَارُونُ بْنُ الْمُغِيرَةِ،عَنْ عَنْبَسَةَ،عَنْ أَبِي حَمْزَةَ،عَنْ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ عَلْقَمَةَ،عَنْ عَبْدِاللہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالنَّعْيَ،فَإِنَّ النَّعْيَ مِنْ عَمَلِ الْجَاہِلِيَّةِ. قَالَ عَبْدُاللہِ: وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: نعی(موت کی خبر دینے) ۱؎ سے بچو،کیونکہ نعی جاہلیت کا عمل ہے۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نعی کا مطلب میت کی موت کا اعلان ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

دَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ،عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،عَنْ أَبِي حَمْزَةَ،عَنْ إِبْرَاہِيمَ،عَنْ عَلْقَمَةَ،عَنْ عَبْدِاللہِ،نَحْوَہُ. وَلَمْ يَرْفَعْہُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَنْبَسَةَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ،وَأَبُو حَمْزَةَ. ہُوَ مَيْمُونٌ الأَعْوَرُ. وَلَيْسَ ہُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عَبْدِاللہِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ النَّعْيَ. وَالنَّعْيُ عِنْدَہُمْ أَنْ يُنَادَی فِي النَّاسِ أَنَّ فُلاَنًا مَاتَ،لِيَشْہَدُوا جَنَازَتَہُ. و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ: لاَ بَأْسَ أَنْ يُعْلِمَ أَہْلَ قَرَابَتِہِ وَإِخْوَانَہُ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ أَنَّہُ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِأَنْ يُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَہُ.

اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے،اورراوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکرنہیں کیا ہے کہ نعی موت کے اعلان کانام ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے،۳-ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں،یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں،۴-بعض اہل علم نے نعی کو مکروہ قراردیاہے،ان کے نزدیک نعی یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیاجائے کہ فلاں مرگیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں،۵-بعض اہل علم کہتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کواس کے مرنے کی خبردی جائے،۶-ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کواس کے اپنے کسی قرابت دارکے مرنے کی خبردی جائے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ الْعَبْسِيُّ عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَی الْعَبْسِيِّ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ إِذَا مِتُّ فَلَا تُؤْذِنُوا بِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَنْہَی عَنْ النَّعْيِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب میں مرجاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔مجھے ڈر ہے کہ یہ بات نعی ہوگی۔کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نعی سے منع فرماتے سنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَإِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ،ابوبکر اور عمرسب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھاہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ عَنْ ہَمَّامٍ عَنْ مَنْصُورٍ وَبَكْرٍ الْكُوفِيِّ وَزِيَادٍ وَسُفْيَانَ كُلُّہُمْ يَذْكُرُ أَنَّہُ سَمِعَہُ مِنَ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ،ابوبکر اور عمرسب کو جنازے کے آگے آگے چلتے دیکھا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ الزُّہْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ أَبَاہُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ ہَكَذَا رَوَاہُ ابْنُ جُرَيْجٍ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَرَوَی مَعْمَرٌ وَيُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَمَالِكٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ وَأَہْلُ الْحَدِيثِ كُلُّہُمْ يَرَوْنَ أَنَّ الْحَدِيثَ الْمُرْسَلَ فِي ذَلِكَ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی و سَمِعْت يَحْيَی بْنَ مُوسَی يَقُولُ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ حَدِيثُ الزُّہْرِيِّ فِي ہَذَا مُرْسَلٌ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَرَی ابْنَ جُرَيْجٍ أَخَذَہُ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی ہَمَّامُ بْنُ يَحْيَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ زِيَادٍ وَہُوَ ابْنُ سَعْدٍ وَمَنْصُورٍ وَبَكْرٍ وَسُفْيَانَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ وَإِنَّمَا ہُوَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ رَوَی عَنْہُ ہَمَّامٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْمَشْيَ أَمَامَہَا أَفْضَلُ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ قَالَ وَحَدِيثُ أَنَسٍ فِي ہَذَا الْبَابِ غَيْرُ مَحْفُوظٍ

ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ،ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمرجنازے کے آگے چلتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث اسی طرح ہے،اسے ابن جریج،زیاد بن سعد اوردیگرکئی لوگوں نے زہری سے ابن عیینہ کی حدیث ہی کی طرح روایت کیا ہے،اورزہری نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد ابن عمرسے روایت کی ہے۔معمر،یونس بن یزید اور حفاظ میں سے اوربھی کئی لوگوں نے زہری سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ جنازے کے آگے چلتے تھے۔زہری کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے چلتے تھے۔ تمام محدّثین کی رائے ہے کہ مرسل حدیث ہی اس باب میں زیادہ صحیح ہے،۲-ابن مبارک کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زہری کی حدیث مرسل ہے،اور ابن عیینہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۳-ابن مبارک کہتے ہیں کہ میراخیال ہے کہ ابن جریج نے یہ حدیث ابن عیینہ سے لی ہے،۴-ہمام بن یحییٰ نے یہ حدیث زیادبن سعد،منصور،بکر اور سفیان سے اور ان لوگوں نے زہری سے،زہری نے سالم بن عبداللہ سے اورسالم نے اپنے والدابن عمر سے روایت کی ہے۔اورسفیان سے مراد سفیان بن عیینہ ہیں جن سے ہمام نے روایت کی ہے،۵-اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،انس کی حدیث اس باب میں غیر محفوظ ہے ۱؎،۶-جنازے کے آگے چلنے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جنازے کے آگے چلنا افضل ہے۔شافعی اور احمد اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ ہَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيہِ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ وَإِنَّمَا يُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ الزُّہْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ أَبَاہُ كَانَ يَمْشِي أَمَامَ الْجَنَازَةِ قَالَ مُحَمَّدٌ ہَذَا أَصَحُّ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ،ابوبکر،عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم جنازے کے آگے چلتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا،توانہوں نے کہا: یہ حدیث غلط ہے اس میں محمد بن بکر نے غلطی کی ہے۔یہ حدیث یونس سے روایت کی جاتی ہے،اوریونس زہری سے (مرسلاً) روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ،ابوبکر اورعمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔زہری کہتے ہیں: مجھے سالم بن عبداللہ نے خبردی ہے کہ ان کے والد جنازے کے آگے آگے چلتے تھے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ زیادہ صحیح ہے۔(دیکھئے سابقہ حدیث ۱۰۰۹)

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكٍ قَال سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي جَنَازَةِ أَبِي الدَّحْدَاحِ وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ لَہُ يَسْعَی وَنَحْنُ حَوْلَہُ وَہُوَ يَتَوَقَّصُ بِہِ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ابودحداح کے جنازے میں تھے،آپ لوٹتے وقت ایک گھوڑے پر سوار تھے جوتیز چل رہاتھا،ہم اس کے اردگرد تھے اوروہ آپ کولے کراچھلتے ہوئے چل رہاتھا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْہَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ عَنْ الْجَرَّاحِ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اتَّبَعَ جَنَازَةَ أَبِي الدَّحْدَاحِ مَاشِيًا وَرَجَعَ عَلَی فَرَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ابودحداح کے جنازہ کے پیچھے پیدل گئے اور گھوڑے پر سوار ہوکر لوٹے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَخَاكُمْ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْہِ قَالَ فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا كَمَا يُصَفُّ عَلَی الْمَيِّتِ وَصَلَّيْنَا عَلَيْہِ كَمَا يُصَلَّی عَلَی الْمَيِّتِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَبِي سَعِيدٍ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو قِلَابَةَ عَنْ عَمِّہِ أَبِي الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَبُو الْمُہَلَّبِ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو وَيُقَالُ لَہُ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا: تمہارے بھائی نجاشی ۱؎ کا انتقال ہوگیا ہے۔تم لوگ اٹھواور ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھو۔تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث ابوقلابہ نے بھی اپنے چچا ابومہلب سے اور انہوں نے عمران بن حصین سے روایت کی ہے،۳-ابومہلب کانام عبدالرحمٰن بن عمرو ہے۔انہیں معاویہ بن عمروبھی کہاجاتاہے،۴-اس باب میں ابوہریرہ،جابر بن عبداللہ،ابوسعید،حذیفہ بن اسید اور جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا لَہَا حَتَّی تُخَلِّفَكُمْ أَوْ تُوضَعَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وَسَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ وَقَيْسِ بْنِ سَعْدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو یہاں تک کہ وہ تمہیں چھوڑ کر آگے نکل جائے یا رکھ دیاجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عامر بن ربیعہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعیدخدری،جابر،سہیل بن حنیف،قیس بن سعد اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ الْحُلْوَانِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا لَہَا فَمَنْ تَبِعَہَا فَلَا يَقْعُدَنَّ حَتَّی تُوضَعَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ فِي ہَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَا مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَلَا يَقْعُدَنَّ حَتَّی تُوضَعَ عَنْ أَعْنَاقِ الرِّجَالِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّہُمْ كَانُوا يَتَقَدَّمُونَ الْجَنَازَةَ فَيَقْعُدُونَ قَبْلَ أَنْ تَنْتَہِيَ إِلَيْہِمْ الْجَنَازَةُ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تواس کے لیے کھڑے ہوجایاکرو۔اور جو اس کے ساتھ جائے وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوسعیدخدری کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے،۲-یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔یہ کہتے ہیں کہ جو کسی جنازے کے ساتھ جائے،وہ ہرگز نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ لوگوں کی گردنوں سے اتار کررکھ نہ دیاجائے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم سے مروی ہے کہ وہ جنازے کے آگے جاتے تھے اور جنازہ پہنچنے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔اوریہی شافعی کاقول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أُدْخِلَ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ وَقَالَ أَبُو خَالِدٍ مَرَّةً إِذَا وُضِعَ الْمَيِّتُ فِي لَحْدِہِ قَالَ مَرَّةً بِسْمِ اللہِ وَبِاللہِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُولِ اللہِ وَقَالَ مَرَّةً بِسْمِ اللہِ وَبِاللہِ وَعَلَی سُنَّةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ أَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا أَيْضًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب میت قبر میں داخل کردی جاتی (اورکبھی راوی حدیث ابوخالد کہتے: جب میت اپنی قبر میں رکھ دی جاتی تو آپ کبھی: بسم اللہ وباللہ وعلی ملۃ رسول اللہ،پڑھتے اورکبھی بسم اللہ وباللہ وعلی سنۃ رسول اللہ ﷺ (اللہ کے نام سے،اللہ کی مدد سے اور رسول اللہ ﷺ کے طریقہ پر میں اسے قبر میں رکھتاہوں) پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی ابن عمر سے مروی ہے،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اوراسے ابوالصدیق ناجی نے بھی ابن عمر سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی اکرمﷺ سے،۳-نیز یہ صدیق الناجی کے واسطہ سے ابن عمر سے بھی موقوفاًمروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْيَتِيمَةُ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِہَا فَإِنْ صَمَتَتْ فَہُوَ إِذْنُہَا وَإِنْ أَبَتْ فَلَا جَوَازَ عَلَيْہَا يَعْنِي إِذَا أَدْرَكَتْ فَرَدَّتْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَی وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي تَزْوِيجِ الْيَتِيمَةِ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْيَتِيمَةَ إِذَا زُوِّجَتْ فَالنِّكَاحُ مَوْقُوفٌ حَتَّی تَبْلُغَ فَإِذَا بَلَغَتْ فَلَہَا الْخِيَارُ فِي إِجَازَةِ النِّكَاحِ أَوْ فَسْخِہِ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ التَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ و قَالَ بَعْضُہُمْ لَا يَجُوزُ نِكَاحُ الْيَتِيمَةِ حَتَّی تَبْلُغَ وَلَا يَجُوزُ الْخِيَارُ فِي النِّكَاحِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَغَيْرِہِمَا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ إِذَا بَلَغَتْ الْيَتِيمَةُ تِسْعَ سَنِينَ فَزُوِّجَتْ فَرَضِيَتْ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَلَا خِيَارَ لَہَا إِذَا أَدْرَكَتْ وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَنَی بِہَا وَہِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ وَقَدْ قَالَتْ عَائِشَةُ إِذَا بَلَغَتْ الْجَارِيَةُ تِسْعَ سِنِينَ فَہِيَ امْرَأَةٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یتیم لڑکی سے اس کی رضامندی حاصل کی جائے گی،اگر وہ خاموش رہی تو یہی اس کی رضامندی ہے،اور اگراس نے انکار کیا تو اس پر(زبردستی کرنے کا)کوئی جواز نہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوموسیٰ،ابن عمر،اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-یتیم لڑکی کی شادی کے سلسلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔بعض اہل علم کا خیال ہے: یتیم لڑکی کی جب شادی کردی جائے تو نکاح موقوف رہے گا۔یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے۔جب وہ بالغ ہوجائے گی،تو اسے نکاح کو باقی رکھنے یا اسے فسخ کردینے کا اختیارہوگا۔یہی بعض تابعین اوردیگرعلماء کابھی قول ہے،۴-اوربعض کہتے ہیں: یتیم لڑکی کانکاح جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے،درست نہیں اور نکاح میں خیارجائزنہیں،اوراہل علم میں سے سفیان ثوری،شافعی وغیرہم کایہی قول ہے،۵-احمداور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ جب یتیم لڑکی نوسال کی ہوجائے اور اس کانکاح کردیاجائے،اور وہ اس پر راضی ہوتونکاح درست ہے اور بالغ ہونے کے بعد اسے اختیارنہیں ہوگا۔ان دونوں نے عائشہ کی اس حدیث سے دلیل لی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جب ان کے ساتھ شب زفاف منائی،تووہ نوبرس کی تھیں۔اور عائشہ رضی اللہ عنہا کاقول ہے کہ لڑکی جب نوبرس کی ہوجائے تو وہ عورت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَہَا وَلِيَّانِ فَہِيَ لِلْأَوَّلِ مِنْہُمَا وَمَنْ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَہُوَ لِلْأَوَّلِ مِنْہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَہُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا إِذَا زَوَّجَ أَحَدُ الْوَلِيَّيْنِ قَبْلَ الْآخَرِ فَنِكَاحُ الْأَوَّلِ جَائِزٌ وَنِكَاحُ الْآخَرِ مَفْسُوخٌ وَإِذَا زَوَّجَا جَمِيعًا فَنِكَاحُہُمَا جَمِيعًا مَفْسُوخٌ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس عورت کی شادی دو ولی الگ الگ جگہ کردیں تو وہ ان میں سے پہلے کے لیے ہوگی،اورجو شخص کوئی چیز دوآدمیوں سے بیچ دے تو وہ بھی ان میں سے پہلے کی ہوگی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔اس سلسلے میں ہمیں علماء کے درمیان کسی اختلاف کاعلم نہیں ہے۔دو ولی میں سے ایک ولی جب دوسرے سے پہلے شادی کردے تو پہلے کانکاح جائز ہوگا،اور دوسرے کا نکاح فسخ قراردیاجائے گا،اور جب دونوں نے ایک ساتھ نکاح (دوالگ الگ شخصوں سے) کیا ہوتو دونوں کانکاح فسخ ہوجائے گا۔یہی ثوری،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ امْرَأَةً مِنْ بَنِي فَزَارَةَ تَزَوَّجَتْ عَلَی نَعْلَيْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَرَضِيتِ مِنْ نَفْسِكِ وَمَالِكِ بِنَعْلَيْنِ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ فَأَجَازَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسٍ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَہْرِ فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْمَہْرُ عَلَی مَا تَرَاضَوْا عَلَيْہِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ لَا يَكُونُ الْمَہْرُ أَقَلَّ مِنْ رُبْعِ دِينَارٍ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْكُوفَةِ لَا يَكُونُ الْمَہْرُ أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاہِمَ

عامربن ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتی مہر پر نکاح کر لیا،تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: کیاتو اپنی جان ومال سے دوجوتی مہر پر راضی ہے؟ اس نے عرض کیا:جی ہاں راضی ہوں۔وہ کہتے ہیں:تو آپ نے اس نکاح کودرست قراردے دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،ابوہریرہ،سہل بن سعد،ابوسعیدخدری،انس،عائشہ،جابر اور ابوحدرد اسلمی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا مہر کے سلسلے میں اختلاف ہے۔بعض اہل علم کہتے ہیں: مہر اس قدر ہو کہ جس پرمیاں بیوی راضی ہوں۔یہ سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۴-مالک بن انس کہتے ہیں: مہر ایک چوتھائی دینار سے کم نہیں ہونا چاہئے،۵-بعض اہل کوفہ کہتے ہیں: مہر دس درہم سے کم نہیں ہونا چاہئے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ عِيسَی وَعَبْدُ اللہِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ قَالَا أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ جَاءَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ إِنِّي وَہَبْتُ نَفْسِي لَكَ فَقَامَتْ طَوِيلًا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللہِ فَزَوِّجْنِيہَا إِنْ لَمْ تَكُنْ لَكَ بِہَا حَاجَةٌ فَقَالَ ہَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تُصْدِقُہَا فَقَالَ مَا عِنْدِي إِلَّا إِزَارِي ہَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِزَارُكَ إِنْ أَعْطَيْتَہَا جَلَسْتَ وَلَا إِزَارَ لَكَ فَالْتَمِسْ شَيْئًا قَالَ مَا أَجِدُ قَالَ فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ قَالَ فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہَلْ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ شَيْءٌ قَالَ نَعَمْ سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاہَا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ زَوَّجْتُكَہَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ الشَّافِعِيُّ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَہُ شَيْءٌ يُصْدِقُہَا فَتَزَوَّجَہَا عَلَی سُورَةٍ مِنْ الْقُرْآنِ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَيُعَلِّمُہَا سُورَةً مِنْ الْقُرْآنِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ النِّكَاحُ جَائِزٌ وَيَجْعَلُ لَہَا صَدَاقَ مِثْلِہَا وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکر عرض کیاکہ میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردیا۔پھروہ کافی دیرکھڑی رہی (اورآپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہ ہو تواس سے میرانکاح کردیجئے۔آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس مہرادا کرنے کے لیے کوئی چیز ہے؟ اس نے عرض کیا: میرے پاس میرے اس تہبندکے سوا کچھ نہیں ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اپنا تہبند اسے دے دو گے تو تو بغیر تہبندکے رہ جاؤ گے۔تو تم کوئی اورچیز تلاش کرو،اس نے عرض کیا: میں کوئی چیز نہیں پارہا ہوں۔آپ نے (پھر)فرمایا: تم تلاش کرو،بھلے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔اس نے تلاش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں،فلاں،فلاں سورہ یادہے اور اس نے چند سورتوں کے نام لیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے تمہاری شادی اس عورت سے ان سورتوں کے بدلے کردی جوتمہیں یادہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شافعی اسی حدیث کی طرف گئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے پاس مہرادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو اور وہ قرآن کی کسی سورہ کو مہر بناکر کسی عورت سے نکاح کرے تو نکاح درست ہے اور وہ اسے قرآن کی وہ سورۃ سکھائے گا،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں:نکاح جائز ہوگا لیکن اسے مہر مثل ادا کرنا ہوگا۔یہ اہل کوفہ،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْقِ مَاءَہُ وَلَدَ غَيْرِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ لِلرَّجُلِ إِذَا اشْتَرَی جَارِيَةً وَہِيَ حَامِلٌ أَنْ يَطَأَہَا حَتَّی تَضَعَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ

رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی (منی) کسی غیر کے بچے کو نہ پلائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ اوربھی کئی طرق سے رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے،۳-اہل علم کاعمل اسی پر ہے۔یہ لوگ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں سمجھتے کہ وہ جب کوئی حاملہ لونڈی خریدے تو وہ اس سے صحبت کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہو جائے،۴-اس باب میں ابوالدرداء،ابن عباس،عرباض بن ساریہ اور ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَقُتَيْبَةُ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قُتَيْبَةُ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ وَقَالَ أَحْمَدُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَی بَيْعِ أَخِيہِ وَلَا يَخْطُبُ عَلَی خِطْبَةِ أَخِيہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ إِنَّمَا مَعْنَی كَرَاہِيَةِ أَنْ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَی خِطْبَةِ أَخِيہِ إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِہِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَی خِطْبَتِہِ و قَالَ الشَّافِعِيُّ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ لَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَی خِطْبَةِ أَخِيہِ ہَذَا عِنْدَنَا إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِہِ وَرَكَنَتْ إِلَيْہِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَی خِطْبَتِہِ فَأَمَّا قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ رِضَاہَا أَوْ رُكُونَہَا إِلَيْہِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَخْطُبَہَا وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ حَدِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ حَيْثُ جَاءَتْ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرَتْ لَہُ أَنَّ أَبَا جَہْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ وَمُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ خَطَبَاہَا فَقَالَ أَمَّا أَبُو جَہْمٍ فَرَجُلٌ لَا يَرْفَعُ عَصَاہُ عَنْ النِّسَاءِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَہُ وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ فَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا وَاللہُ أَعْلَمُ أَنَّ فَاطِمَةَ لَمْ تُخْبِرْہُ بِرِضَاہَا بِوَاحِدٍ مِنْہُمَا وَلَوْ أَخْبَرَتْہُ لَمْ يُشِرْ عَلَيْہَا بِغَيْرِ الَّذِي ذَكَرَتْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سمرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-مالک بن انس کہتے ہیں: آدمی کے اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے کسی عورت کو پیغام دیاہو اوروہ عورت اس سے راضی ہوگئی ہو،تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے،۴-شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کہ آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب آدمی نے کسی عورت کو پیغام بھیجا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہوگئی ہواور اس کی طرف مائل ہوگئی ہو تو ایسی صورت میں کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ اس کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے،لیکن اس کی رضامندی اور اس کا میلان معلوم ہونے سے پہلے اگر وہ اسے پیغام دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس کی دلیل فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر ذکر کیا کہ ابوجہم بن حذیفہ اور معاویہ بن ابی سفیان نے انہیں نکاح کا پیغام دیا ہے توآپ نے فرمایا: ابوجہم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا ڈنڈا عورتوں سے نہیں اٹھاتے (یعنی عورتوں کوبہت مارتے ہیں) رہے معاویہ تو وہ غریب آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے،لہذا تم اسامہ بن زیدسے نکاح کرلو۔ہمارے نزدیک اس حدیث کا مفہوم (اور اللہ بہترجانتاہے) یہ ہے کہ فاطمہ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اپنی رضامندی کا اظہارنہیں کیاتھااور اگروہ اس کا اظہارکردیتیں تو اسے چھوڑکرآپ انہیں اسامہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کا مشورہ نہ دیتے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الْجَہْمِ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَی فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ فَحَدَّثَتْنَا أَنَّ زَوْجَہَا طَلَّقَہَا ثَلَاثًا وَلَمْ يَجْعَلْ لَہَا سُكْنَی وَلَا نَفَقَةً قَالَتْ وَوَضَعَ لِي عَشَرَةَ أَقْفِزَةٍ عِنْدَ ابْنِ عَمٍّ لَہُ خَمْسَةً شَعِيرًا وَخَمْسَةً بُرًّا قَالَتْ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ قَالَتْ فَقَالَ صَدَقَ قَالَتْ فَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ ثُمَّ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ بَيْتَ أُمِّ شَرِيكٍ بَيْتٌ يَغْشَاہُ الْمُہَاجِرُونَ وَلَكِنْ اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَعَسَی أَنْ تُلْقِي ثِيَابَكِ وَلَا يَرَاكِ فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ فَجَاءَ أَحَدٌ يَخْطُبُكِ فَآذِنِينِي فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي خَطَبَنِي أَبُو جَہْمٍ وَمُعَاوِيَةُ قَالَتْ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ لَا مَالَ لَہُ وَأَمَّا أَبُو جَہْمٍ فَرَجُلٌ شَدِيدٌ عَلَی النِّسَاءِ قَالَتْ فَخَطَبَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَتَزَوَّجَنِي فَبَارَكَ اللہُ لِي فِي أُسَامَةَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَہْمِ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَزَادَ فِيہِ فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ ﷺ انْكِحِي أُسَامَةَ حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَہْمِ بِہَذَا

ابوبکر بن ابی جہم کہتے ہیں: میں اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن دونوں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس آئے انہوں نے ہم سے بیان کیاکہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی اورنہ ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا اور نہ کھانے پینے کا۔اور انہوں نے میرے لیے دس بوری غلّہ،پانچ بوری جو کے اور پانچ گیہوں کے اپنے چچازادبھائی کے پاس رکھ دیں،تو میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر آپ سے اس کا ذکر کیا،توآپ نے فرمایا: انہوں نے ٹھیک کیا،اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ام شریک کے گھر میں عدت گزاروں،پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ام شریک کے گھر مہاجرین آتے جاتے رہتے ہیں۔تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو۔وہاں یہ بھی سہولت رہے گی کہ تم (سروغیرہ سے)کپڑے اتاروگی تو تمہیں وہ نہیں دیکھ پائیں گے،پھر جب تمہاری عدت پوری ہوجائے اور کوئی تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے تو مجھے بتانا،چنانچہ جب میری عدت پوری ہوگئی تو ابوجہم اور معاویہ نے مجھے پیغام بھیجا۔میں نے رسول اللہ ﷺ کے پا س آکرآپ سے اس کا ذکر کیاتو آپ نے فرمایا: معاویہ توایسے آدمی ہیں کہ ان کے پاس مال نہیں،اور ابوجہم عورتوں کے لیے سخت واقع ہوئے ہیں۔پھر مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا اور مجھ سے شادی کرلی۔اللہ تعالیٰ نے اسامہ میں مجھے برکت عطافرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اسے سفیان ثوری نے بھی ابوبکر بن ابی جہم سے اسی حدیث کی طرح روایت کیا ہے،اور اس میں انہوں نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ مجھ سے نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تم اسامہ سے نکاح کرلو۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَدَّ ابْنَتَہُ زَيْنَبَ عَلَی أَبِي الْعَاصِي بْنِ الرَّبِيعِ بِمَہْرٍ جَدِيدٍ وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِہِ مَقَالٌ وَفِي الْحَدِيثِ الْآخَرِ أَيْضًا مَقَالٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَسْلَمَتْ قَبْلَ زَوْجِہَا ثُمَّ أَسْلَمَ زَوْجُہَا وَہِيَ فِي الْعِدَّةِ أَنَّ زَوْجَہَا أَحَقُّ بِہَا مَا كَانَتْ فِي الْعِدَّةِ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی لڑکی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نئے مہر اورنئے نکاح کے ذریعے لوٹادیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سند میں کچھ کلام ہے اوردوسری حدیث میں بھی کلام ہے،۲-اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ عورت جب شوہر سے پہلے اسلام قبول کرلے،پھر اس کا شوہر عدت کے دوران اسلام لے آئے تو اس کا شوہر ہی اس کا زیادہ حق دار ہے جب وہ عدت میں ہو۔یہی مالک بن انس،اوزاعی،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَدَّ النَّبِيُّ ﷺ ابْنَتَہُ زَيْنَبَ عَلَی أَبِي الْعَاصِي بْنِ الرَّبِيعِ بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ وَلَمْ يُحْدِثْ نِكَاحًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِہِ بَأْسٌ وَلَكِنْ لَا نَعْرِفُ وَجْہَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَلَعَلَّہُ قَدْ جَاءَ ہَذَا مِنْ قِبَلِ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس چھ سال بعد ۱؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے،لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ مُسْلِمًا عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ جَاءَتْ امْرَأَتُہُ مُسْلِمَةً فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّہَا كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي فَرُدَّہَا عَلَيَّ فَرَدَّہَا عَلَيْہِ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ ہَارُونَ يَذْكُرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ ہَذَا الْحَدِيثَ وَحَدِيثُ الْحَجَّاجِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَدَّ ابْنَتَہُ زَيْنَبَ عَلَی أَبِي الْعَاصِي بِمَہْرٍ جَدِيدٍ وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ قَالَ يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَالْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک شخص نبی اکرمﷺ کے زمانے میں مسلمان ہوکر آیا پھر اس کی بیوی بھی مسلمان ہوکر آگئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس نے میرے ساتھ اسلام قبول کیاتھا۔توآپ اسے مجھے واپس دے دیجئے۔توآپ نے اُسے اسی کو واپس دے دیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-حجاج نے یہ حدیث بطریق عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ عبداللہ بن عمروبن العاص روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص کے ہاں نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹایا،۳-یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے لیکن عمل عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ کی حدیث پر ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ سَعْدٍ وَكَانَتْ خَادِمًا لِلنَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَثَلُ الرَّافِلَةِ فِي الزِّينَةِ فِي غَيْرِ أَہْلِہَا كَمَثَلِ ظُلْمَةِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا نُورَ لَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَہُوَ صَدُوقٌ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا کہ جونبی اکرمﷺکی خادمہ تھیں،وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اپنے شوہرکے علاوہ غیروں کے سامنے بناؤ سنگار کرکے اترا کر چلنے والی عورت کی مثال قیامت کے دن کی تاریکی کی طرح ہے،اس کے پاس کوئی نور نہیں ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو ہم صرف موسیٰ بن عبیدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-موسیٰ بن عبیدہ اپنے حفظ کے تعلق سے ضعیف قرار دیے جاتے ہیں،وہ صدوق ہیں،ان سے شعبہ اورثوری نے بھی روایت کی ہے۔۳-اور بعض نے اسے موسیٰ بن عبیدہ سے روایت کیا ہے،اوراسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللہِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا مَعْنَی كَرَاہِيَةِ الدُّخُولِ عَلَی النِّسَاءِ عَلَی نَحْوِ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَہُمَا الشَّيْطَانُ وَمَعْنَی قَوْلِہِ الْحَمْوُ يُقَالُ ہُوَ أَخُو الزَّوْجِ كَأَنَّہُ كَرِہَ لَہُ أَنْ يَخْلُوَ بِہَا

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے پاس خلوت (تنہائی) میں آنے سے بچو،اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! دیور (شوہر کے بھائی) کے بارے میں کیاخیال ہے؟ آپ نے فرمایا: دیور موت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،جابر اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-عورتوں کے پاس خلوت(تنہائی) میں آنے کی حرمت کا مطلب وہی ہے جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت(تنہائی) میں ہوتاہے تو اس کا تیسرا شیطان ہوتاہے،۴-حمو،شوہر کے بھائی یعنی دیور کو کہتے ہیں،گویا آپ نے دیورکے بھاوج کے ساتھ تنہائی میں ہونے کوحرام قراردیا ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تُؤْذِي امْرَأَةٌ زَوْجَہَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُہُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ لَا تُؤْذِيہِ قَاتَلَكِ اللہُ فَإِنَّمَا ہُوَ عِنْدَكَ دَخِيلٌ يُوشِكُ أَنْ يُفَارِقَكِ إِلَيْنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرِوَايَةُ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ الشَّامِيِّينَ أَصْلَحُ وَلَہُ عَنْ أَہْلِ الْحِجَازِ وَأَہْلِ الْعِرَاقِ مَنَاكِيرُ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو عورت بھی اپنے شوہر کو دنیا میں تکلیف پہنچاتی ہے تو (جنت کی) بڑی آنکھوں والی حوروں میں سے اس کی بیوی کہتی ہے:تو اسے تکلیف نہ دے۔اللہ تجھے ہلاک کرے،یہ تو ویسے بھی تیرے پاس بس مسافر ہے،قریب ہے کہ یہ تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲-اسماعیل بن عیاش کی روایتیں جنہیں انہوں نے اہل شام سے روایت کی ہیں بہتر ہے،لیکن اہل حجاز اوراہل عراق سے ان کی روایتیں منکر ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ بْنِ بَعْكَكٍ قَالَ وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِہَا بِثَلَاثَةٍ وَعِشْرِينَ أَوْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا فَلَمَّا تَعَلَّتْ تَشَوَّفَتْ لِلنِّكَاحِ فَأُنْكِرَ عَلَيْہَا فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ حَلَّ أَجَلُہَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَہُ و قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي السَّنَابِلِ حَدِيثٌ مَشْہُورٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَا نَعْرِفُ لِلْأَسْوَدِ سَمَاعًا مِنْ أَبِي السَّنَابِلِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ لَا أَعْرِفُ أَنَّ أَبَا السَّنَابِلِ عَاشَ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْحَامِلَ الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا إِذَا وَضَعَتْ فَقَدْ حَلَّ التَّزْوِيجُ لَہَا وَإِنْ لَمْ تَكْنِ انْقَضَتْ عِدَّتُہَا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ تَعْتَدُّ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ نے اپنے شوہر کی موت کے تئیس یا پچیس دن بعد بچہ جنا،اور جب وہ نفاس سے پاک ہوگئی تونکاح کے لیے زینت کرنے لگی،اس پر اعتراض کیاگیا،اورنبی اکرمﷺ سے اس کاذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگرو ہ ایساکرتی ہے (تو حرج کی بات نہیں) اس کی عدت پوری ہوچکی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسنابل کی حدیث مشہوراور اس سند سے غریب ہے،۲-ہم ابوسنابل سے اسود کا سماع نہیں جانتے ہیں،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرمﷺ کے بعد ابوسنابل زندہ رہے یانہیں،۴-اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی حدیث روایت ہے،۵-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ حاملہ عورت جس کا شوہرفوت ہوچکاہو جب بچہ جن دے تو اس کے لیے شادی کرنا جائز ہے،اگرچہ اس کی عدت پوری نہ ہوئی ہو۔سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۶-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہوگی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی،پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ أَبَا ہُرَيْرَةَ وَابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ تَذَاكَرُوا الْمُتَوَفَّی عَنْہَا زَوْجُہَا الْحَامِلَ تَضَعُ عِنْدَ وَفَاةِ زَوْجِہَا فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تَعْتَدُّ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ بَلْ تَحِلُّ حِينَ تَضَعُ وَقَالَ أَبُو ہُرَيْرَةَ أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ فَأَرْسَلُوا إِلَی أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ قَدْ وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الْأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِہَا بِيَسِيرٍ فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَمَرَہَا أَنْ تَتَزَوَّجَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سلیمان بن یسار کہتے ہیں: ابوہریرہ،ابن عباس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہم نے آپس میں اس حاملہ عورت کاذکرکیا جس کاشوہرفوت ہوچکا ہو اور اس نے شوہر کی وفات کے بعد بچہ جناہو،ابن عباس رضی اللہ عنہما کاکہناتھا کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہوگی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی،اورابوسلمہ کاکہناتھا کہ جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کی عدت پوری ہوگئی،اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔پھران لوگوں نے (ایک شخص کو)ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے) بھیجا،تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔پھراس نے رسول اللہ ﷺ سے (شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے (دمِ نفاس ختم ہوتے ہی) شادی کرنے کی اجازت دے دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَنْبَأَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْخَزَّازُ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ أَنْبَأَنَا أَبُو سَلَمَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ أَنَّ سَلْمَانَ بْنَ صَخْرٍ الْأَنْصَارِيَّ أَحَدَ بَنِي بَيَاضَةَ جَعَلَ امْرَأَتَہُ عَلَيْہِ كَظَہْرِ أُمِّہِ حَتَّی يَمْضِيَ رَمَضَانُ فَلَمَّا مَضَی نِصْفٌ مِنْ رَمَضَانَ وَقَعَ عَلَيْہَا لَيْلًا فَأَتَی رَسُولَ اللہِ ﷺ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَعْتِقْ رَقَبَةً قَالَ لَا أَجِدُہَا قَالَ فَصُمْ شَہْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لَا أَسْتَطِيعُ قَالَ أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لَا أَجِدُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِفَرْوَةَ بْنِ عَمْرٍو أَعْطِہِ ذَلِكَ الْعَرَقَ وَہُوَ مِكْتَلٌ يَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا أَوْ سِتَّةَ عَشَرَ صَاعًا إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ يُقَالُ سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ وَيُقَالُ سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ الْبَيَاضِيُّ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي كَفَّارَةِ الظِّہَارِ

ابوسلمہ اور محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان کا بیان ہے کہ سلمان بن صخر انصاری رضی اللہ عنہ نے جوبنی بیاضہ کے ایک فر دہیں اپنی بیوی کواپنے اوپرمکمل ماہِ رمضان تک اپنی ماں کی پشت کی طرح(حرام) قراردے لیا۔تو جب آدھا رمضان گزرگیا توایک رات وہ اپنی بیوی سے جماع کربیٹھے،پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اورآپ سے اس کا ذکر کیا،تو آپﷺ نے ان سے فرمایا:تم ایک غلام آزاد کرو،انہوں نے کہا: مجھے یہ میسرنہیں۔آپ نے فرمایا: پھردوماہ کا مسلسل صوم رکھو،انہوں نے کہا: میں اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتاتوآپ نے فرمایا: ساٹھ مسکین کو کھانا کھلاؤ،انہوں نے کہا:میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا،تو آپﷺ نے فروۃ بن عمرو سے فرمایا: اسے یہ کھجوروں کا ٹوکرا دے دو تاکہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھلادے،عرق ایک پیمانہ ہے جس میں پندرہ صاع یاسولہ صاع غلہ آتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-سلمان بن صخرکوسلمہ بن صخربیاضی بھی کہاجاتاہے۔۳-ظہارکے کفارے کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ نِتَاجُ النِّتَاجِ وَہُوَ بَيْعٌ مَفْسُوخٌ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ مِنْ بَيُوعِ الْغَرَرِ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَرَوَی عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ وَغَيْرُہُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَنَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا أَصَحُّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے حمل کے حمل کوبیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے اس حدیث کوبطریق: أیوب،عن سعید بن جبیر،عن ابن عباس روایت کیا ہے۔اور عبدالوھاب ثقفی وغیرہ نے بطریق: أیوب،عن سعید بن جبیر،ونافع،کلاہما عن ابن عمر،عن النبی ﷺ روایت کی ہے۔اوریہ زیادہ صحیح ہے،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔حبل الحبلہ (حمل کے حمل) سے مراد اونٹنی کے بچے کابچہ ہے۔اہل علم کے نزدیک یہ بیع منسوخ ہے اور یہ دھوکہ کی بیع میں سے ایک بیع ہے،۴-اس باب میں عبداللہ بن عباس اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ يَأْتِينِي الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي مِنْ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَہُ مِنْ السُّوقِ ثُمَّ أَبِيعُہُ قَالَ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ

حکیم بن حز ام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا: میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کوبیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی،تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے-حکم ۱۲۳۴میں آرہاہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ نَہَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس چیزکے بیچنے سے منع فرمایا جومیرے پاس نہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: بیع کے ساتھ قرض سے منع فرمانے کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے کہا: اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی کو قرض دے پھر اس سے بیع کرے اور سامان کی قیمت زیادہ لے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی کسی سے کسی چیزمیں سلف کرے اور کہے: اگر تیرے پاس روپیہ فراہم نہیں ہوسکا توتجھے یہ سامان میرے ہاتھ بیچ دیناہوگا۔اسحاق (ابن راھویہ) نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمدنے کہی ہے،۳-اسحاق بن منصور نے کہا: میں نے احمد سے ایسی چیز کی بیع کے بارے میں پوچھا جس کا بائع ضامن نہیں تو انہوں نے جواب دیا،(یہ ممانعت) میرے نزدیک صرف طعام کی بیع کے ساتھ ہے جب تک قبضہ نہ ہویعنی ضمان سے قبضہ مرادہے،اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جواحمدنے کہی ہے لیکن یہ ممانعت ہر اس چیز میں ہے جوناپی یا تولی جاتی ہو۔احمد بن حنبل کہتے ہیں: جب بائع یہ کہے: میں آپ سے یہ کپڑا اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہے۔تو بیع کی یہ شکل ایک بیع میں دوشرط کے قبیل سے ہے۔اور جب بائع یہ کہے: میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ ا س کی سلائی میرے ذمہ ہے۔یابائع یہ کہے: میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ اس کی دھلائی میرے ذمہ ہے،تو اس بیع میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،یہ ایک ہی شرط ہے۔اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جواحمدنے کہی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيہِ حَتَّی ذَكَرَ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قُلْتُ لِأَحْمَدَ مَا مَعْنَی نَہَی عَنْ سَلَفٍ وَبَيْعٍ قَالَ أَنْ يَكُونَ يُقْرِضُہُ قَرْضًا ثُمَّ يُبَايِعُہُ عَلَيْہِ بَيْعًا يَزْدَادُ عَلَيْہِ وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ يُسْلِفُ إِلَيْہِ فِي شَيْءٍ فَيَقُولُ إِنْ لَمْ يَتَہَيَّأْ عِنْدَكَ فَہُوَ بَيْعٌ عَلَيْكَ قَالَ إِسْحَقُ يَعْنِي ابْنَ رَاہَوَيْہِ كَمَا قَالَ قُلْتُ لِأَحْمَدَ وَعَنْ بَيْعِ مَا لَمْ تَضْمَنْ قَالَ لَا يَكُونُ عِنْدِي إِلَّا فِي الطَّعَامِ مَا لَمْ تَقْبِضْ قَالَ إِسْحَقُ كَمَا قَالَ فِي كُلِّ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ قَالَ أَحْمَدُ إِذَا قَالَ أَبِيعُكَ ہَذَا الثَّوْبَ وَعَلَيَّ خِيَاطَتُہُ وَقَصَارَتُہُ فَہَذَا مِنْ نَحْوِ شَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ وَإِذَا قَالَ أَبِيعُكَہُ وَعَلَيَّ خِيَاطَتُہُ فَلَا بَأْسَ بِہِ أَوْ قَالَ أَبِيعُكَہُ وَعَلَيَّ قَصَارَتُہُ فَلَا بَأْسَ بِہِ إِنَّمَا ہُوَ شَرْطٌ وَاحِدٌ قَالَ إِسْحَقُ كَمَا قَالَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ قَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ رَوَی أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَأَبُو بِشْرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَوْفٌ وَہِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ إِنَّمَا رَوَاہُ ابْنُ سِيرِينَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ ہَكَذَا

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیع کے ساتھ قرض جائز نہیں ہے ۱؎،اورنہ ایک بیع میں د وشرطیں جائز ہیں ۲؎ اور نہ ایسی چیز سے فائدہ اٹھاناجائزہے جس کا وہ ضامن نہ ہو ۳؎ اور نہ ایسی چیزکی بیع جائزہے جوتمہارے پاس نہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-حکیم بن حزام کی حدیث حسن ہے(۱۲۳۲،۱۲۳۳)،یہ ان سے اوربھی سندوں سے مروی ہے۔اور ایوب سختیانی اور ابوبشر نے اسے یوسف بن ماہک سے اوریوسف نے حکیم بن حزام سے روایت کیا ہے۔اور عوف اور ہشام بن حسان نے اس حدیث کو ابن سیرین سے اورابن سیرین نے حکیم بن حزام سے اورحکیم بن حزام نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے اوریہ حدیث (روایت) مرسل (منقطع) ہے۔اسے (اصلاً) ابن سیرین نے ایوب سختیانی سے اورایوب نے یوسف بن ماہک سے اوریوسف بن ماہک نے حکیم بن حزام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَعَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ أَبُو سَہْلٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ نَہَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی وَكِيعٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ وَرِوَايَةُ عَبْدِ الصَّمَدِ أَصَحُّ وَقَدْ رَوَی يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَعْلَی بْنِ حَكِيمٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاہَكَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِصْمَةَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ مَا لَيْسَ عِنْدَہُ

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس چیز کے بیچنے سے منع فرمایا ہے جومیرے پاس نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-وکیع نے اس حدیث کو بطریق: یزید بن إبراہیم،عن ابن سیرین،عن أیوب،عن حکیم بن حزام روایت کیا ہے اور اس میں یوسف بن ماہک کے واسطے کاذکر نہیں کیا ہے۔عبدالصمد کی روایت زیادہ صحیح ہے (جس میں ابن سیرین کا ذکر ہے)۔اوریحییٰ بن ابی کثیر نے یہ حدیث بطریق: یعلی بن حکیم،عن یوسف بن ماہک،عن عبداللہ بن عصمۃ،عن حکیم بن حزام،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،۲-اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے،یہ لوگ اس چیز کی بیع کو مکروہ سمجھتے ہیں جو آدمی کے پاس نہ ہو۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ مُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ ہَكَذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَقَ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے جانور کو جانورسے ادھار بیچنے سے منع فرمایاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-حسن کا سماع سمرہ سے صحیح ہے۔علی بن مدینی وغیرہ نے ایساہی کہاہے،۳-اس باب میں ابن عباس،جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا جانور کو جانورسے ادھار بیچنے کے مسئلہ میں اسی حدیث پر عمل ہے۔سفیان ثوری اورا ہل کوفہ کا یہی قول ہے۔احمد بھی اسی کے قائل ہیں،۵-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور کے جانورسے ادھار بیچنے کی اجازت دی ہے۔اوریہی شافعی،اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ الْحَجَّاجِ وَہُوَ ابْنُ أَرْطَاةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَيَوَانُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ لَا يَصْلُحُ نَسِيئًا وَلَا بَأْسَ بِہِ يَدًا بِيَدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو جانورکو ایک جانوروں سے ادھار بیچنا درست نہیں ہے،ہاتھوں ہاتھ (نقد) بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلَادَةً بِاثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فِيہَا ذَہَبٌ وَخَرَزٌ فَفَصَلْتُہَا فَوَجَدْتُ فِيہَا أَكْثَرَ مِنْ اثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَا تُبَاعُ حَتَّی تُفْصَلَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَمْ يَرَوْا أَنْ يُبَاعَ السَّيْفُ مُحَلًّی أَوْ مِنْطَقَةٌ مُفَضَّضَةٌ أَوْ مِثْلُ ہَذَا بِدَرَاہِمَ حَتَّی يُمَيَّزَ وَيُفْصَلَ وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے خیبر کے دن بارہ دینارمیں ایک ہار خریدا،جس میں سونے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے،میں نے انہیں (توڑ کر)جداجدا کیا تومجھے اس میں بارہ دینارسے زیادہ ملے۔میں نے نبی اکرمﷺسے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: (سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار) نہ بیچے جائیں جب تک انہیں جُداجُدانہ کرلیاجائے ۔اسی طرح مؤلف نے قتیبہ سے اسی سند سے حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔یہ لوگ چاندی جڑی ہوئی تلوار یا کمر بند یا اسی جیسی دوسرے چیزوں کودرہم سے فروخت کرنادرست نہیں سمجھتے ہیں،جب تک کہ ان سے چاندی الگ نہ کرلی جائے۔ابن مبارک،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔۳-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا أَصَابَ الْمُكَاتَبُ حَدًّا أَوْ مِيرَاثًا وَرِثَ بِحِسَابِ مَا عَتَقَ مِنْہُ و قَالَ النَّبِيُّ ﷺ يُؤَدِّي الْمُكَاتَبُ بِحِصَّةِ مَا أَدَّی دِيَةَ حُرٍّ وَمَا بَقِيَ دِيَةَ عَبْدٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہَكَذَا رَوَی يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَوْلَہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ و قَالَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ الْمُكَاتَبُ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْہِ دِرْہَمٌ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب مکاتب غلام کسی دیت یا میراث کا مستحق ہوتو اسی کے مطابق وہ حصہ پائے گا جتنا وہ آزاد کیاجاچکا ہے،نیزآپ نے فرمایا: مکاتب جتنا زرِکتابت اداکرچکا ہے اتنی آزادی کے مطابق دیت دیاجائے گا اور جو باقی ہے اس کے مطابق غلام کی دیت دیاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-اسی طرح یحییٰ بن ابی کثیر نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے،۳-اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۴-لیکن خالد الحذاء نے بھی عکرمہ سے (روایت کی ہے مگر ان کے مطابق) عکرمہ نے علی رضی اللہ عنہ کے قول سے روایت کی ہے،۵-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی حدیث پرعمل ہے۔اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کاکہنا ہے کہ جب تک مکاتب پرایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہے،سفیان ثوری،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَخْطُبُ يَقُولُ مَنْ كَاتَبَ عَبْدَہُ عَلَی مِائَةِ أُوقِيَّةٍ فَأَدَّاہَا إِلَّا عَشْرَ أَوَاقٍ أَوْ قَالَ عَشَرَةَ دَرَاہِمَ ثُمَّ عَجَزَ فَہُوَ رَقِيقٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْمُكَاتَبَ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْہِ شَيْءٌ مِنْ كِتَابَتِہِ وَقَدْ رَوَی الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو خطبہ کے دوران کہتے سنا: جو اپنے غلام سے سو اوقیہ (بارہ سودرہم)پرمکاتبت کرے اور وہ دس اوقیہ کے علاوہ تمام اداکردے پھر باقی کی ادائیگی سے وہ عاجز رہے تو وہ غلام ہی رہے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-حجا ج بن ارطاۃ نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ جب تک مکاتب پر کچھ بھی زرکتابت باقی ہے وہ غلام ہی رہے گا۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ نَبْہَانَ مَوْلَی أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كَانَ عِنْدَ مُكَاتَبِ إِحْدَاكُنَّ مَا يُؤَدِّي فَلْتَحْتَجِبْ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی التَّوَرُّعِ وَقَالُوا لَا يُعْتَقُ الْمُكَاتَبُ وَإِنْ كَانَ عِنْدَہُ مَا يُؤَدِّي حَتَّی يُؤَدِّيَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے مکاتب غلام کے پاس اتنی رقم ہوکہ وہ زرکتابت اداکر سکے تو اُسے اس سے پردہ کرنا چاہیے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کااس حدیث پرعمل ازراہ ورع وتقوی اوراحتیاط ہے۔یہ لوگ کہتی ہیں کہ مکاتب غلام جب تک زرکتابت نہ اداکردے آزاد نہیں ہوگا اگرچہ اس کے پاس زرکتابت ادا کرنے کے لیے رقم موجود ہو۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ نَضْلَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ فَقُلْتُ لِسَعِيدٍ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّكَ تَحْتَكِرُ قَالَ وَمَعْمَرٌ قَدْ كَانَ يَحْتَكِرُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّہُ كَانَ يَحْتَكِرُ الزَّيْتَ وَالْحِنْطَةَ وَنَحْوَ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَأَبِي أُمَامَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا احْتِكَارَ الطَّعَامِ وَرَخَّصَ بَعْضُہُمْ فِي الِاحْتِكَارِ فِي غَيْرِ الطَّعَامِ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ لَا بَأْسَ بِالِاحْتِكَارِ فِي الْقُطْنِ وَالسِّخْتِيَانِ وَنَحْوِ ذَلِكَ

معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتاہے ۱؎۔محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے سعید بن المسیب سے کہا:ابومحمد! آپ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معمر بھی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-معمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-سعید بن مسیب سے مروی ہے،وہ تیل،گیہوں اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے،۳-اس باب میں عمر،علی،ابوامامہ،اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ان لوگوں نے کھانے کی ذخیرہ اندوزی ناجائزکہا ہے،۵-بعض اہل علم نے کھانے کے علاوہ دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کی اجازت دی ہے،۶-ابن مبارک کہتے ہیں: روئی،دباغت دی ہوئی بکری کی کھال،اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَی بَيْعِ بَعْضٍ وَلَا يَخْطُبْ بَعْضُكُمْ عَلَی خِطْبَةِ بَعْضٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَسَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَا يَسُومُ الرَّجُلُ عَلَی سَوْمِ أَخِيہِ وَمَعْنَی الْبَيْعِ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ ہُوَ السَّوْمُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور نہ کوئی کسی کے شادی کے پیغام پر پیغام دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور سمرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایاآدمی اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ کرے۔۴-اوربعض اہل علم کے نزدیک نبی اکرمﷺسے مروی اس حدیث میں بیع سے مراد بھاؤ تاؤ اور مول تول ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا أَتَی أَحَدُكُمْ عَلَی مَاشِيَةٍ فَإِنْ كَانَ فِيہَا صَاحِبُہَا فَلْيَسْتَأْذِنْہُ فَإِنْ أَذِنَ لَہُ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيہَا أَحَدٌ فَلْيُصَوِّتْ ثَلَاثًا فَإِنْ أَجَابَہُ أَحَدٌ فَلْيَسْتَأْذِنْہُ فَإِنْ لَمْ يُجِبْہُ أَحَدٌ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ وَلَا يَحْمِلْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ سَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فِي رِوَايَةِ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ وَقَالُوا إِنَّمَا يُحَدِّثُ عَنْ صَحِيفَةِ سَمُرَةَ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی ریوڑ کے پاس (دودھ پینے) آئے تواگران میں ان کا مالک موجود ہوتو اس سے اجازت لے،اگروہ اجازت دے دے تو دودھ پی لے۔اگران میں کوئی نہ ہوتو تین بار آواز لگائے،اگر کوئی جواب دے تو اس سے اجازت لے لے،اور اگر کوئی جواب نہ دے تو دودھ پی لے لیکن ساتھ نہ لے جائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سمرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں عمراور ابوسعیدخدری سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،احمد اوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۴-علی بن مدینی کہتے ہیں کہ سمرہ سے حسن کا سماع ثابت ہے،۵-بعض محدّثین نے حسن کی روایت میں جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے کلام کیا ہے،وہ لوگ کہتے ہیں کہ حسن سمرہ کے صحیفہ سے حدیث روایت کرتے تھے ۲؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ شُعْبَةَ،عَنْ أَبِي عَوْنٍ الثَّقَفِيِّ،عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْيَمَنِ،فَقَالَ: كَيْفَ تَقْضِي؟ فَقَالَ: أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللہِ،قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللہِ؟ قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ؟ قَالَ: أَجْتَہِدُ رَأْيِي قَالَ: الْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللہِ ﷺ.

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے معاذ کو (قاضی بناکر) یمن بھیجا،تو آپ نے پوچھا:تم کیسے فیصلہ کروگے؟ انہوں نے کہا:میں اللہ کی کتاب سے فیصلے کروں گا،آپ نے فرمایا: اگر (اس کا حکم) اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہ ہوتو؟ معاذ نے کہا:تورسول اللہ ﷺ کی سنت سے فیصلے کروں گا،آپ نے فرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی (اس کا حکم) موجود نہ ہوتو؟ معاذ نے کہا:(تب)میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔آپ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو (صواب کی) توفیق بخشی۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالاَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ أَبِي عَوْنٍ،عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو،ابْنِ أَخٍ لِلْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَہْلِ حِمْصٍ،عَنْ مُعَاذٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُہُ إِلاَّ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ. وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ. وَأَبُو عَوْنٍ الثَّقَفِيُّ،اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللہِ

اس سندسے بھی معاذ سے اسی طرح کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲-اور اس کی سندمیرے نزدیک متصل نہیں ہے،۳-ابوعون ثقفی کانام محمدبن عبیداللہ ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الْأَوْدِيِّ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُبَيْلٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَی الْيَمَنِ فَلَمَّا سِرْتُ أَرْسَلَ فِي أَثَرِي فَرُدِدْتُ فَقَالَ أَتَدْرِي لِمَ بَعَثْتُ إِلَيْكَ لَا تُصِيبَنَّ شَيْئًا بِغَيْرِ إِذْنِي فَإِنَّہُ غُلُولٌ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِہَذَا دَعَوْتُكَ فَامْضِ لِعَمَلِكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ وَبُرَيْدَةَ وَالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے (قاضی بناکر) یمن بھیجا،جب میں روانہ ہوا تو آپ نے میرے پیچھے(مجھے بلانے کے لیے) ایک آدمی کو بھیجا،میں آپ کے پاس واپس آیا توآپ نے فرمایا: کیاتم جانتے ہوکہ میں نے تمہیں بلانے کے لیے آدمی کیوں بھیجاہے؟ (یہ کہنے کے لیے کہ) تم میری اجازت کے بغیر کوئی چیز نہ لینا،اس لیے کہ وہ خیانت ہے،اور جوشخص خیانت کرے گا قیامت کے دن خیانت کے مال کے ساتھ حاضر ہوگا،یہی بتانے کے لیے میں نے تمہیں بلایا تھا،اب تم اپنے کا م پر جاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے اس طریق سے بروایت ابواسامہ جانتے ہیں جسے انہوں نے داوداودی سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں عدی بن عمیرہ،بریدہ،مستور بن شداد،ابوحمید اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَمَّتِہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أُمِّہِ عَنْ عَائِشَةَ وَأَكْثَرُہُمْ قَالُوا عَنْ عَمَّتِہِ عَنْ عَائِشَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالُوا إِنَّ يَدَ الْوَالِدِ مَبْسُوطَةٌ فِي مَالِ وَلَدِہِ يَأْخُذُ مَا شَاءَ وَقَالَ بَعْضُہُمْ لَا يَأْخُذُ مِنْ مَالِہِ إِلَّا عِنْدَ الْحَاجَةِ إِلَيْہِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض لوگوں نے عمارہ بن عمیر سے اورعمارہ نے اپنی ماں سے اور ان کی ماں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے،لیکن اکثر راویوں نےعن أمّہ کے بجائے عن عمتہ کہا ہے یعنی عمارہ بن عمیرنے اپنی پھوپھی سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔وہ کہتے ہیں کہ باپ کو بیٹے کے مال میں کلی اختیار ہے وہ جتنا چاہے لے سکتا ہے،۵-اوربعض کہتے ہیں کہ باپ اپنے بیٹے کے مال سے بوقت ضرورت ہی لے سکتا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي الْمُہَلَّبِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَعْتَقَ سِتَّةَ أَعْبُدٍ لَہُ عِنْدَ مَوْتِہِ وَلَمْ يَكُنْ لَہُ مَالٌ غَيْرُہُمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ لَہُ قَوْلًا شَدِيدًا ثُمَّ دَعَاہُمْ فَجَزَّأَہُمْ ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَہُمْ فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ يَرَوْنَ اسْتِعْمَالَ الْقُرْعَةِ فِي ہَذَا وَفِي غَيْرِہِ وَأَمَّا بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ فَلَمْ يَرَوْا الْقُرْعَةَ وَقَالُوا يُعْتَقُ مِنْ كُلِّ عَبْدٍ الثُّلُثُ وَيُسْتَسْعَی فِي ثُلُثَيْ قِيمَتِہِ وَأَبُو الْمُہَلَّبِ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو الْجَرْمِيُّ وَہُوَ غَيْرُ أَبِي قِلَابَةَ وَيُقَالُ مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو وَأَبُو قِلَابَةَ الْجَرْمِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدٍ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک انصاری شخص نے مرتے وقت اپنے چھ غلاموں کوآزاد کردیا جبکہ اس کے پاس ان کے علاوہ کوئی اورمال نہ تھا،نبی اکرمﷺکو یہ خبر ملی تو آپ نے اس آدمی کو سخت بات کہی،پھر ان غلاموں کو بلایا اور دو دوکرکے ان کے تین حصے کئے،پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اورجن(دوغلاموں) کے نام قرعہ نکلاان کو آزاد کردیا اور چار کو غلام ہی رہنے دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوریہ اوربھی سندوں سے عمران بن حصین سے مروی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔اوریہی مالک،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔یہ لوگ یہ اوراس طرح کے دوسرے مواقع پر قرعہ اندازی کو درست کہتے ہیں،۵-اوراہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم قرعہ اندازی کو جائز نہیں سمجھتے،اس موقع پرلوگ کہتے ہیں کہ ہرغلام سے ایک تہائی آزاد کیاجائے گا اور دوتہائی قیمت کی آزادی کے لیے کسب (کمائی) کرایاجائے گا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعَجْمَاءُ جَرْحُہَا جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ عَنْ مَعْنٍ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَتَفْسِيرُ حَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ الْعَجْمَاءُ جَرْحُہَا جُبَارٌ يَقُولُ ہَدَرٌ لَا دِيَةَ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَمَعْنَی قَوْلِہِ الْعَجْمَاءُ جَرْحُہَا جُبَارٌ فَسَّرَ ذَلِكَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا الْعَجْمَاءُ الدَّابَّةُ الْمُنْفَلِتَةُ مِنْ صَاحِبِہَا فَمَا أَصَابَتْ فِي انْفِلَاتِہَا فَلَا غُرْمَ عَلَی صَاحِبِہَا وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ يَقُولُ إِذَا احْتَفَرَ الرَّجُلُ مَعْدِنًا فَوَقَعَ فِيہِ إِنْسَانٌ فَلَا غُرْمَ عَلَيْہِ وَكَذَلِكَ الْبِئْرُ إِذَا احْتَفَرَہَا الرَّجُلُ لِلسَّبِيلِ فَوَقَعَ فِيہَا إِنْسَانٌ فَلَا غُرْمَ عَلَی صَاحِبِہَا وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ وَالرِّكَازُ مَا وُجِدَ فِي دَفْنِ أَہْلِ الْجَاہِلِيَّةِ فَمَنْ وَجَدَ رِكَازًا أَدَّی مِنْہُ الْخُمُسَ إِلَی السُّلْطَانِ وَمَا بَقِيَ فَہُوَ لَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بے زبان (جانور)کازخم رائیگاں ہے،کنویں اور کان میں گرکر کوئی مرجائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱ ؎،اورجاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے۔ مؤلف نے اپنی سندسے بطریق ابن شہاب عن سعید بن المسیب وابی سلمہ عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر عمرو بن عوف مزنی اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-مالک بن انس کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکی حدیث العجماء جرحہا جبار کی تفسیر یہ ہے کہ چوپایوں سے لگے ہوئے زخم رائیگاں ہیں اس میں کوئی دیت نہیں ہے،۴- العجماء جرحہا جبار کی بعض علماء نے یہی تفسیرکی ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ بے زبان جانور وہ ہیں جو اپنے مالک کے پاس سے بدک کربھاگ جائیں،اگر ان کے بدک کر بھاگنے کی حالت میں کسی کو ان سے زخم لگے یا چوٹ آجائے تو جانور والے پرکوئی تاوان نہیں ہوگا۔۵-والمعدن جبار کی تفسیر میں مالک کہتے ہیں: جب کوئی شخص کان کھد وائے اور اس میں کوئی گر جائے تو کان کھود وانے والے پر کوئی تاوان نہیں ہے،اسی طرح کنواں ہے جب کوئی مسافروں وغیرہ کے لیے کنواں کھُدوائے اور اس میں کوئی شخص گرجائے تو کھُدوانے والے پر کوئی تاوان نہیں ہے،۶-وفی الرکاز الخمس کی تفسیر میں مالک کہتے ہیں: رکاز اہل جاہلیت کا دفینہ ہے اگر کسی کو جاہلیت کا دفینہ ملے تو وہ پانچواں حصہ سلطان کے پاس (سرکاری خزانہ میں) جمع کرے گا اورجو باقی بچے گاوہ اس کا ہوگا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللہُ عَنْہُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ عَلَی مُسْلِمٍ سَتَرَہُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللہُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي عَوَانَةَ وَرَوَی أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَكَأَنَّ ہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطَ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ الْأَعْمَشِ بِہَذَا الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مومن سے دنیاکی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دورکی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا،اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا،اللہ بندے کی مددمیں لگا رہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مددمیں لگاہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بطریق: الأعمش،عن أبی صالح،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ ،اور اسباط بن محمد نے اعمش سے روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوصالح کے واسطہ سے بیان کیا گیاہے،انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-ہم سے اسے عبید بن اسباط بن محمد نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والدنے اعمش کے واسطہ سے یہ حدیث بیان کی،۴-اس باب میں عقبہ بن عامر اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُہُ وَلَا يُسْلِمُہُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيہِ كَانَ اللہُ فِي حَاجَتِہِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللہُ عَنْہُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کابھائی ہے ۱؎،نہ اس پرظلم کرتا ہے اور نہ اس کی مددچھوڑتاہے،اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگاہو اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگاہوتاہے،جو اپنے کسی مسلمان کی پریشانی دورکرتاہے اللہ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دورکرے گا،اورجو کسی مسلمان کے عیب پرپردہ ڈالے گا اللہ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ سَمِعَہُ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ أَنَّہُمْ كَانُوا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَأَتَاہُ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ فَقَامَ إِلَيْہِ أَحَدُہُمَا وَقَالَ أَنْشُدُكَ اللہَ يَا رَسُولَ اللہِ لَمَا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللہِ فَقَالَ خَصْمُہُ وَكَانَ أَفْقَہَ مِنْہُ أَجَلْ يَا رَسُولَ اللہِ اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللہِ وَأْذَنْ لِي فَأَتَكَلَّمَ إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَی ہَذَا فَزَنَی بِامْرَأَتِہِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَی ابْنِي الرَّجْمَ فَفَدَيْتُ مِنْہُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ ثُمَّ لَقِيتُ نَاسًا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فَزَعَمُوا أَنَّ عَلَی ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَی امْرَأَةِ ہَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللہِ الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ وَعَلَی ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَی امْرَأَةِ ہَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا فَغَدَا عَلَيْہَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَہَا حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ بِإِسْنَادِہِ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ بِمَعْنَاہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَہَزَّالٍ وَبُرَيْدَةَ وَسَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ وَأَبِي بَرْزَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَمَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَوْا بِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ إِذَا زَنَتْ الْأَمَةُ فَاجْلِدُوہَا فَإِنْ زَنَتْ فِي الرَّابِعَةِ فَبِيعُوہَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ وَرَوَی سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ قَالُوا كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ ہَكَذَا رَوَی ابْنُ عُيَيْنَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَہِمَ فِيہِ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَدْخَلَ حَدِيثًا فِي حَدِيثٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَابْنُ أَخِي الزُّہْرِيِّ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا زَنَتْ الْأَمَةُ فَاجْلِدُوہَا وَالزُّہْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ شِبْلِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَالِكٍ الْأَوْسِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا زَنَتْ الْأَمَةُ وَہَذَا الصَّحِيحُ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ وَشِبْلُ بْنُ خَالِدٍ لَمْ يُدْرِكْ النَّبِيَّ ﷺ إِنَّمَا رَوَی شِبْلٌ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَالِكٍ الْأَوْسِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا الصَّحِيحُ وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَرُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ شِبْلُ بْنُ حَامِدٍ وَہُوَ خَطَأٌ إِنَّمَا ہُوَ شِبْلُ بْنُ خَالِدٍ وَيُقَالُ أَيْضًا شِبْلُ بْنُ خُلَيْدٍ

ابوہریرہ،زیدبن خالد اورشبل رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ یہ لوگ نبی اکرمﷺ کے پاس موجودتھے،اسی دوران آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے دوآدمی آئے،ان میں سے ایک کھڑا ہوااور بولا: اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتاہوں! آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے (یہ سن کر) مدعی علیہ نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا،ہاں،اللہ کے رسول! ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے،اور مجھے مدعابیان کرنے کی اجازت دیجئے،(چنانچہ اس نے بیان کیا) میرا لڑ کااس کے پاس مزدور تھا،چنانچہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ زناکر بیٹھا ۱؎،لوگوں(یعنی بعض علماء) نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم واجب ہے،لہذا میں نے اس کی طرف سے سوبکری اور ایک خادم فدیہ میں دے دی،پھر میری ملاقات کچھ اہل علم سے ہوئی تو ان لوگوں نے کہا: میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی واجب ہے۲؎،اور اس کی بیوی پر رجم واجب ہے۳؎،(یہ سن کر) نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق ہی فیصلہ کروں گا،سوبکری اورخادم تمہیں واپس مل جائیں گے،(اور) تمہارے بیٹے کو سوکوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے اسے شہر بدر کیاجائے گا،انیس! ۴؎ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ،اگروہ زنا کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کردو،چنانچہ انیس اس کے گھر گئے،اس نے اقبال جرم کر لیا،لہذا انہو ں نے اسے رجم کردیا ۵؎۔اس سند سے ابوہریرہ اورزیدبن خالد جہنی سے،اسی جیسی اسی معنی کی حدیث نبی اکرمﷺ سے روایت ہے۔ ا س سند سے بھی مالک کی سابقہ حدیث جیسی اسی معنی کی حدیث روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ اورزید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح مالک بن انس،معمراورکئی لوگوں نے بطریق: الزہری،عن عبید اللہ بن عتبۃ،عن أبی ہریرۃ و زید بن خالد،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،۳-کچھ اور لوگوں نے بھی اسی سند سے ۶؎ نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،اس میں ہے کہ جب لونڈی زنا کرے تواسے کوڑے لگاؤ،پھراگر چوتھی مرتبہ زنا کرے تو اسے بیچ دو،خواہ قیمت میں گندھے ہوئے بالوں کی رسی ہی کیوں نہ ملے،۴-اورسفیان بن عیینہ زہری سے،زہری عبیداللہ سے،عبید اللہ ابوہریرہ،زید بن خالد اورشبل سے روایت کرتے ہیں،ان لوگوں نے کہا: ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے پاس موجودتھے،۵-ابن عیینہ نے اسی طرح دونوں حدیثوں کو ابوہریرہ،زیدبن خالد اورشبل سے روایت کیا ہے،ابن عیینہ کی حدیث میں سفیان بن عیینہ سے وہم ہواہے،انہوں نے ایک حدیث کو دوسری حدیث کے ساتھ خلط ملط کردیا ہے،صحیح وہ حدیث ہے جسے محمد بن ولید زبیدی،یونس بن عبید اورزہری کے بھتیجے نے زہری سے،زہری نے عبیداللہ سے،عبید اللہ نے ابوہریرہ اور زید بن خالدسے اوران دونوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے،آپ نے فرمایا: جب لونڈی زناکرے تو اسے کوڑے لگاؤ،۶-اور زہری نے عبیداللہ سے،عبید اللہ نے شبل بن خالد سے،شبل نے عبداللہ بن مالک اوسی سے اور انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے،آپ نے فرمایا: جب لونڈی زناکرے،۷-اہل حدیث کے نزدیک (شبل کی روایت بواسطہ عبداللہ بن مالک) یہی صحیح ہے،کیونکہ شبل بن خالد نے نبی اکرمﷺ کونہیں پایا ہے،بلکہ شبل،عبداللہ بن مالک اوسی سے اوروہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں،یہی صحیح ہے اور ابن عیینہ کی حدیث غیرمحفوظ ہے،کیونکہ انہوں نے اپنی روایت میں شبل بن حامد کہا ہے،یہ غلط ہے،صحیح شبل بن خالد ہے اورانہیں شبل بن خلیدبھی کہاجاتاہے،۸-اس باب میں ابوبکرہ،عبادہ بن صامت،ابوہریرہ،ابوسعید،ابن عباس،جابربن سمرہ،ہزال،بریدہ،سلمہ بن محبق،ابوبرزہ اورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خُذُوا عَنِّي فَقَدْ جَعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِيلًا الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ ثُمَّ الرَّجْمُ وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ وَغَيْرُہُمْ قَالُوا الثَّيِّبُ تُجْلَدُ وَتُرْجَمُ وَإِلَی ہَذَا ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَغَيْرُہُمَا الثَّيِّبُ إِنَّمَا عَلَيْہِ الرَّجْمُ وَلَا يُجْلَدُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلُ ہَذَا فِي غَيْرِ حَدِيثٍ فِي قِصَّةِ مَاعِزٍ وَغَيْرِہِ أَنَّہُ أَمَرَ بِالرَّجْمِ وَلَمْ يَأْمُرْ أَنْ يُجْلَدَ قَبْلَ أَنْ يُرْجَمَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ

عبا دہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (دین خاص طورپر زنا کے احکام) مجھ سے سیکھ لو،اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ۱؎ راہ نکال دی ہے: شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے،اورکنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺ کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے،ان میں علی بن ابی طالب،ابی بن کعب اورعبداللہ بن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں،یہ لوگ کہتے ہیں: شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اوررجم کیا جائے گا،بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے،اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے،۳-جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اورعمروغیرہ رضی اللہ عنہما شامل ہیں،کہتے ہیں: شادی شدہ زنا کارپر صرف رجم واجب ہے،اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے،اورنبی اکرمﷺسے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعزوغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا،رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا،بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی اوراحمدکا یہی قول ہے ۲؎؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ اسْتُكْرِہَتْ امْرَأَةٌ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَدَرَأَ عَنْہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَدَّ وَأَقَامَہُ عَلَی الَّذِي أَصَابَہَا وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّہُ جَعَلَ لَہَا مَہْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِمُتَّصِلٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيہِ وَلَا أَدْرَكَہُ يُقَالُ إِنَّہُ وُلِدَ بَعْدَ مَوْتِ أَبِيہِ بِأَشْہُرٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنْ لَيْسَ عَلَی الْمُسْتَكْرَہَةِ حَدٌّ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا،تو رسول اللہ ﷺ نے اسے حدسے بری کردیا اورزانی پر حدجاری کی،راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ آپ نے اسے کچھ مہربھی دلایاہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اس کی اسناد متصل نہیں ہے،۲-یہ حدیث دوسری سندسے بھی آئی ہے،۳-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: عبدالجباربن وائل بن حجر کاسماع ان کے باپ سے ثابت نہیں ہے،انہوں نے اپنے والد کازمانہ نہیں پایاہے،کہاجاتاہے کہ وہ اپنے والد کی موت کے کچھ مہینے بعدپیداہوئے،۳-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ جس سے جبراً زناکیا گیا ہو اس پر حدواجب نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ عَطَاءَ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ،عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: إِذَا أَتَيْتُمْ الْغَائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بَوْلٍ،وَلاَ تَسْتَدْبِرُوہَا،وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا قَالَ أَبُو أَيُّوبَ: فَقَدِمْنَا الشَّامَ،فَوَجَدْنَا مَرَاحِيضَ قَدْ بُنِيَتْ مُسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةِ،فَنَنْحَرِفُ عَنْہَا وَنَسْتَغْفِرُ اللہَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْئٍ الزُّبَيْدِيِّ،وَمَعْقِلِ بْنِ أَبِي الْہَيْثَمِ،(وَيُقَالُ مَعْقِلُ بْنُ أَبِي مَعْقِلٍ)،وَأَبِي أُمَامَةَ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ،وَسَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ. وَأَبُو أَيُّوبَ-اسْمُہُ خَالِدُ بْنُ زَيْدٍ-وَالزُّہْرِيُّ-اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ شِہَابٍ الزُّہْرِيُّ-وَكُنْيَتُہُ أَبُو بَكْرٍ. قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللہِ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا مَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: لاَتَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلاَ بِبَوْلٍ،وَلاَ تَسْتَدْبِرُوہَا إِنَّمَا ہَذَا فِي الْفَيَافِي،وَأَمَّا فِي الْكُنُفِ الْمَبْنِيَّةِ لَہُ رُخْصَةٌ فِي أَنْ يَسْتَقْبِلَہَا،وَہَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَہُ اللہُ: إِنَّمَا الرُّخْصَةُ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي اسْتِدْبَارِ الْقِبْلَةِ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ،وَأَمَّا اسْتِقْبَالُ الْقِبْلَةِ فَلاَ يَسْتَقْبِلُہَا،كَأَنَّہُ لَمْ يَرَ فِي الصَّحْرَاءِ وَلاَ فِي الْكُنُفِ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤتوپاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرواورنہ پیٹھ،بلکہ منہ کو پورب یا پچھم کی طرف کرو ۱؎۔ ابوایوب انصاری کہتے ہیں: ہم شام آئے تو ہم نے دیکھاکہ پاخانے قبلہ رخ بنائے گئے ہیں توقبلہ کی سمت سے ترچھے مڑجاتے اورہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی،معقل بن ابی ہیشم (معقل بن ابی معقل) ابوامامہ،ابوہریرہ اورسہل بن حنیف رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابوایوب کی حدیث اس باب میں سب سے عمدہ اورسب سے صحیح ہے،۳-ابوالولیدمکی کہتے ہیں:ابوعبداللہ محمدبن ادریس شافعی کاکہناہے کہ نبی اکرمﷺ نے جویہ فرمایاہے کہ پاخانہ یاپیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرواورنہ پیٹھ،اس سے مرادصرف صحراء (میدان) میں نہ کرنا ہے،رہے بنے بنائے پاخانہ گھر توان میں قبلہ کی طرف منہ کرنا جائزہے،اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہا ہے،احمدبن حنبل کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے پاخانہ یاپیشاب کے وقت قبلہ کی طرف صرف پیٹھ کرنے کی رخصت ہے،رہا قبلہ کی طرف منہ کرنا تو یہ کسی بھی طرح جائزنہیں،گویاکہ (امام احمد) قبلہ کی طرف منہ کرنے کونہ صحراء میں جائزقراردیتے ہیں اورنہ ہی بنے بنائے پاخانہ گھر میں(البتہ پیٹھ کرنے کوبیت الخلاء میں جائزسمجھتے ہیں)۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَقُتَيْبَةُ،قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ إِسْرَائِيلَ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ لِحَاجَتِہِ،فَقَالَ: الْتَمِسْ لِي ثَلاَثَةَ أَحْجَارٍ،قَالَ: فَأَتَيْتُہُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ،فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَی الرَّوْثَةَ،وَقَالَ إِنَّہَا رِكْسٌ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَہَكَذَا رَوَی قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ہَذَا الْحَدِيثَ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ،نَحْوَ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ. وَرَوَی مَعْمَرٌ وَعَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ عَلْقَمَةَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ. وَرَوَی زُہَيْرٌ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ،عَنْ أَبِيہِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ. وَرَوَی زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ،عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ،عَنْ عَبْدِ اللہِ. وَہَذَا حَدِيثٌ فِيہِ اضْطِرَابٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ،قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللہِ: ہَلْ تَذْكُرُ مِنْ عَبْدِ اللہِ شَيْئًا؟ قَالَ: لاَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: سَأَلْتُ عَبْدَاللہِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ:أَيُّ الرِّوَايَاتِ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ أَصَحُّ؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيہِ بِشَيْئٍ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيہِ بِشَيْئٍ. وَكَأَنَّہُ رَأَی حَدِيثَ زُہَيْرٍ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ: أَشْبَہَ،وَوَضَعَہُ فِي كِتَابِ الْجَامِعِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَأَصَحُّ شَيْئٍ فِي ہَذَا عِنْدِي حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ وَقَيْسٍ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ،عَنْ عَبْدِاللہِ،لإِنَّ إِسْرَائِيلَ أَثْبَتُ وَأَحْفَظُ لِحَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ مِنْ ہَؤُلاْءِ،وَتَابَعَہُ عَلَی ذَلِكَ قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: و سَمِعْت أَبَا مُوسَی مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّی يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ مَہْدِيٍّ يَقُولُ: مَا فَاتَنِي الَّذِي فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ إِلاَّلِمَا اتَّكَلْتُ بِہِ عَلَی إِسْرَائِيلَ،لأَنَّہُ كَانَ يَأْتِي بِہِ أَتَمَّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَزُہَيْرٌ فِي أَبِي إِسْحَاقَ لَيْسَ بِذَاكَ لأَنَّ سَمَاعَہُ مِنْہُ بِآخِرَةٍ. قَالَ: و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيَّ،يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتَ الْحَدِيثَ عَنْ زَائِدَةَ وَزُہَيْرٍ فَلاَتُبَالِي أَنْ لاَتَسْمَعَہُ مِنْ غَيْرِہِمَا إِلاَّحَدِيثَ أَبِي إِسْحَاقَ. وَأَبُو إِسْحَاقَ اسْمُہُ: عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللہِ السَّبِيعِيُّ الْہَمْدَانِيُّ. وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيہِ،وَلاَ يُعْرَفُ اسْمُہُ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ قضائے حاجت کے لیے نکلے توآپ نے فرمایا: میرے لیے تین پتھرڈھونڈلاؤ،میں دوپتھراورایک گوبرکا ٹکڑالے کرآپ کی خدمت میں آیا توآپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اورگوبرکے ٹکڑے کو پھینک دیا اورفرمایا: یہ ناپاک ہے ۱؎۔ (ابواسحاق سبیعی ثقہ اورمدلس راوی ہیں،بڑھاپے میں حافظہ میں اختلاط ہوگیا تھا اس لیے جن رواۃ نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ان کی روایت مقبول ہے،اور جن لوگوں نے اختلاط کے بعد سنا ان کی روایت ضعیف،یہ حدیث ابواسحاق سے ان کے تلامذہ نے مختلف انداز سے روایت کی ہے)۔ امام ترمذی نے یہاں ابن مسعود کی اس حدیث کو بسنداسرائیل عن ابی اسحاق عن ابی عبیدہ عن ابن مسعود روایت کرنے کے بعد اسرائیل کی متابعت ۲؎ میں قیس بن الربیع کی روایت کا ذکرکیا ہے،پھربسندمعمروعماربن رزیق عن ابی اسحاق عن علقمہ عن ابن مسعود کی روایت ذکرکی ہے،پھربسندزکریابن ابی زائدہ و زہیرعن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن یز ید عن اسودبن یزید عن عبداللہ بن مسعود روایت ذکرکی اورفرمایا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے،نیز اسرائیل کی روایت کوصحیح ترین قراردیا،یہ بھی واضح کیاکہ ابوعبیدۃ کا سماع اپنے والد ابن مسعود سے نہیں ہے پھروـاضح کیا کہ زہیرنے اس حدیث کو بسندابواسحاق عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن أبیہ عن عبداللہ بن مسعود روایت کیا ہے،گویا کہ محمدبن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح میں اس کو جگہ دے کر اپنی ترجیح کا ذکرکردیا ہے،جب کہ ترمذی کا استدلال یہ ہے کہ اسرائیل و قیس عن أبی اسحاق زیادہ صحیح روایت اس لیے ہے کہ اسرائیل ابواسحاق کی حدیث کے زیادہ حافظ ومتقن ہیں،قیس نے بھی اسرائیل کی متابعت کی ہے،اور واضح رہے کہ زہیرنے ابواسحاق سے آخرمیں اختلاط کے بعد سناہے،اس لیے ان کی روایت اسرائیل کی روایت کے مقابلے میں قوی نہیں ہے۳؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ،فَأَتَی النَّبِيُّ ﷺ حَاجَتَہُ فَأَبْعَدَ فِي الْمَذْہَبِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي قُرَادٍ،وَأَبِي قَتَادَةَ،وَجَابِرٍ،وَيَحْيَی بْنِ عُبَيْدٍ،عَنْ أَبِيہِ،وَأَبِي مُوسَی،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَبِلاَلِ بْنِ الْحَارِثِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَيُرْوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّہُ كَانَ يَرْتَادُ لِبَوْلِہِ مَكَانًا كَمَا يَرْتَادُ مَنْزِلاً. وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الزُّہْرِيُّ.

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا،آپ قضائے حاجت کے لیے نکلے تو بہت دورنکل گئے ۱ ؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن بن ابی قراد،ابو قتادہ،جابر،یحیی بن عبیدعن أبیہ،أبو موسی،ابن عباس اور بلال بن حارث رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئیہیں،۳-روایت کی جاتی ہے کہ نیزنبی اکرمﷺ پیشاب کے لئے اس طرح جگہ ڈھونڈھتے تھے جس طرح مسافر اترنے کے لئے جگہ ڈھونڈھتا ہے۔۴-ابوسلمہ کا نام عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ وَأَنَّہُ مَسَحَ رَأْسَہُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی ابْنُ لَہِيعَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ وَأَنَّہُ مَسَحَ رَأْسَہُ بِمَاءٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْہِ وَرِوَايَةُ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَبَّانَ أَصَحُّ لِأَنَّہُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَخَذَ لِرَأْسِہِ مَاءً جَدِيدًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يَأْخُذَ لِرَأْسِہِ مَاءً جَدِيدًا

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے اپنے سرکا مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن لھیعہ نے یہ حدیث بسندحبان بن واسع عن أبیہ روایت کی ہے کہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور اپنے سر کا مسح اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے کیا،۳-عمرو بن حارث کی روایت جسے انہوں نے حبان سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے ۱؎ کیوں کہ اوربھی کئی سندوں سے عبداللہ بن زید وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سرکے مسح کے لیے نیا پانی لیا،۴-اکثر اہل علم کا عملاسی پر ہے،ان کی رائے ہے کہ سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي ہَاشِمٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ لَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ الْأَصَابِعَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَالْمُسَتَوْرِدِ وَہُوَ ابْنُ شَدَّادٍ الْفِہْرِيُّ وَأبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ يُخَلِّلُ أَصَابِعَ رِجْلَيْہِ فِي الْوُضُوءِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ إِسْحَقُ يُخَلِّلُ أَصَابِعَ يَدَيْہِ وَرِجْلَيْہِ فِي الْوُضُوءِ وَأَبُو ہَاشِمٍ اسْمُہُ إِسْمَعِيلُ بْنُ كَثِيرٍ الْمَكِّيُّ

لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو انگلیوں کا خلال کرو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابن عباس،مستورد بن شداد فہری اورابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۳-اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ وضو میں اپنے پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ وضومیں اپنے دونوں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ وَہُوَ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا تَوَضَّأْتَ فَخَلِّلْ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدَيْكَ وَرِجْلَيْكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو اپنے ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے بیچ خلال کرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ الْفِہْرِيِّ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ إِذَا تَوَضَّأَ دَلَكَ أَصَابِعَ رِجْلَيْہِ بِخِنْصَرِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَہِيعَةَ

مستورد بن شداد فہری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو اپنے دونوں پیروں کی انگلیوں کواپنے خنصر(ہاتھ کی چھوٹی انگلی) سے ملتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اسے ہم صرف ابن لھیعہ کے طریق ہی سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَا حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ہُرْمُزَ ہُوَ الْأَعْرَجُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ ثَوْبَانَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْفَضْلِ وَہُوَ إِسْنَادٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی ہَمَّامٌ عَنْ عَامِرٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ ثَلَاثًا ثَلَاثًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو دودوبار دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-ہم یہ جانتے ہیں کہ اسے صرف ابن ثوبان نے عبداللہ بن فضل سے روایت کیا ہے اور یہ سندحسن صحیح ہے،۴-ھمام نے بسند عامر الا ٔ حول عن عطاء عن ابی ہریرہ روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اعضائے وضو تین تین بار دھوئے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ ح و حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَلَمَةَ مِنْ آلِ ابْنِ الْأَزْرَقِ أَنَّ الْمُغِيرَةَ بْنَ أَبِي بُرْدَةَ وَہُوَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا نَرْكَبُ الْبَحْرَ وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِيلَ مِنْ الْمَاءِ فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِہِ عَطِشْنَا أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہُوَ الطَّہُورُ مَاؤُہُ الْحِلُّ مَيْتَتُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَالْفِرَاسِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَہَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَابْنُ عَبَّاسٍ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِمَاءِ الْبَحْرِ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ الْوُضُوءَ بِمَاءِ الْبَحْرِ مِنْہُمْ ابْنُ عُمَرَ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو ہُوَ نَارٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سمندرکا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا پانی لے جاتے ہیں،اگر ہم اس سے وضو کرلیں تو پیاسے رہ جائیں گے،تو کیا ایسی صورت میں ہم سمندر کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں؟ رسول اللہﷺنے فرمایا: سمندر کا پانی پاک ۱؎ ہے،اور اس کا مردار ۲؎ حلال ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابربن عبداللہ اور فراسی رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے،۳-اور یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثرفقہاء کا قول ہے جن میں ابوبکر،عمراورابن عباس بھی ہیں کہ سمندرکے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں،بعض صحابہ کرام نے سمندرکے پانی سے وضوکومکروہ جاناہے،انہیں میں ابن عمراورعبداللہ بن عمرو ہیں عبداللہ بن عمروکا کہنا ہے کہ سمندرکا پانی آگ ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ وَقَتَادَةُ وَثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَاجْتَوَوْہَا فَبَعَثَہُمْ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ وَقَالَ اشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِہَا وَأَبْوَالِہَا فَقَتَلُوا رَاعِيَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَاسْتَاقُوا الْإِبِلَ وَارْتَدُّوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَأُتِيَ بِہِمْ النَّبِيُّ ﷺ فَقَطَعَ أَيْدِيَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ مِنْ خِلَافٍ وَسَمَرَ أَعْيُنَہُمْ وَأَلْقَاہُمْ بِالْحَرَّةِ قَالَ أَنَسٌ فَكُنْتُ أَرَی أَحَدَہُمْ يَكُدُّ الْأَرْضَ بِفِيہِ حَتَّی مَاتُوا وَرُبَّمَا قَالَ حَمَّادٌ يَكْدُمُ الْأَرْضَ بِفِيہِ حَتَّی مَاتُوا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَنَسٍ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا لَا بَأْسَ بِبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُہُ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے،انہیں مدینہ کی آب وہوا راس نہ آئی،چنانچہ رسول اللہﷺنے انہیں زکاۃ کے اونٹوں میں بھیج دیا اور فرمایا: تم ان کے دودھ اور پیشاب پیو(وہ وہاں گئے اور کھاپی کرموٹے ہوگئے) توان لوگوں نے آپﷺ کے چرواہے کو مارڈالا،اونٹوں کو ہانک لے گئے،اور اسلام سے مرتد ہوگئے،انہیں(پکڑکر)نبی اکرم ﷺکے پاس لایا گیا،آپ نے ان کے ایک طرف کے ہاتھ اوردوسری طرف کے پاؤں کٹوا دیئے،ان کی آنکھوں میں سلائیان پھیردیں اور گرم تپتی ہوئی زمین میں انہیں پھینک دیا-انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ان میں سے ایک شخص کودیکھاتھاکہ (وہ پیاس بجھانے کے لیے)اپنے منہ سے زمین چاٹ رہاتھا یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مرگئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،اور کئی سندوں سے انس سے مروی ہے،۲-اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس جانورکاگوشت کھایاجاتاہواس کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ۱؎)۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَہْلٍ الْأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْتَّيْمِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ إِنَّمَا سَمَلَ النَّبِيُّ ﷺ أَعْيُنَہُمْ لِأَنَّہُمْ سَمَلُوا أَعْيُنَ الرُّعَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَہُ غَيْرَ ہَذَا الشَّيْخِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ وَہُوَ مَعْنَی قَوْلِہِ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ إِنَّمَا فَعَلَ بِہِمْ النَّبِيُّ ﷺ ہَذَا قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الْحُدُودُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے ان کی آنکھوں میں سلائیاں اس لیے پھیریں کہ ان لوگوں نے بھی چرواہوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اوراللہ تعالیٰ کے فرمان والجروح قصاص کا یہی مفہوم ہے،محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے ساتھ یہ معاملہ حدود (سزاؤں)کے نازل ہونے سے پہلے کیا تھا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ وَأَبُو كُرَيْبٍ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَأَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالُوا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَبَّلَ بَعْضَ نِسَائِہِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ قَالَ قُلْتُ مَنْ ہِيَ إِلَّا أَنْتِ قَالَ فَضَحِكَتْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ ہَذَا عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ قَالُوا لَيْسَ فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ و قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ فِي الْقُبْلَةِ وُضُوءٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَإِنَّمَا تَرَكَ أَصْحَابُنَا حَدِيثَ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا لِأَنَّہُ لَا يَصِحُّ عِنْدَہُمْ لِحَالِ الْإِسْنَادِ قَالَ و سَمِعْت أَبَا بَكْرٍ الْعَطَّارَ الْبَصْرِيَّ يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ قَالَ ضَعَّفَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ہَذَا الْحَدِيثَ جِدًّا وَقَالَ ہُوَ شِبْہُ لَا شَيْءَ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يُضَعِّفُ ہَذَا الْحَدِيثَ و قَالَ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَبَّلَہَا وَلَمْ يَتَوَضَّأْ وَہَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا وَلَا نَعْرِفُ لِإِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ سَمَاعًا مِنْ عَائِشَةَ وَلَيْسَ يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ شَيْءٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ نے اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کا بوسہ لیا،پھرآپ صلاۃ کے لیے نکلے اور وضو نہیں کیا،عروہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنی خالہ ام المومنین عائشہ سے) کہا: وہ آپ ہی رہی ہوں گی؟ تووہ ہنس پڑیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-صحابہ کرام اورتابعین میں سے کئی اہل علم سے اسی طرح مروی ہے اوریہی قول سفیان ثوری،اور اہل کوفہ کا ہے کہ بوسہ لینے سے وضو(واجب) نہیں ہے،مالک بن انس،اوزاعی،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ بوسہ لینے سے وضو(واجب) ہے،یہی قول صحابہ اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا ہے۔۲-ہمارے اصحاب نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر جو نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے محض اس وجہ سے عمل نہیں کیا کہ یہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ۲؎،۳-یحیی بن قطان نے اس حدیث کی بہت زیادہ تضعیف کی ہے اورکہاہے کہ یہ لاشیٔ کے مشابہ ہے ۳؎،۴-نیز میں نے محمد بن اسماعیل (بخاری) کوبھی اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا،انہوں نے کہا کہ حبیب بن ثابت کا سماع عروۃ سے نہیں ہے،۵-نیزابراہیم تیمی نے بھی عائشہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کا بوسہ لیا اور وضو نہیں کیا۔لیکن یہ روایت بھی صحیح نہیں کیونکہ عائشہ سے ابراہیم تیمی کے سماع کا ہمیں علم نہیں۔اس باب میں نبی اکرم ﷺسے کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ شَرِبَ لَبَنًا فَدَعَا بِمَاءٍ فَمَضْمَضَ وَقَالَ إِنَّ لَہُ دَسَمًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الْمَضْمَضَةَ مِنْ اللَّبَنِ وَہَذَا عِنْدَنَا عَلَی الِاسْتِحْبَابِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُہُمْ الْمَضْمَضَةَ مِنْ اللَّبَنِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے دودھ پیاتوپانی منگواکر کلی کی اورفرمایا: اس میں چکنائی ہوتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سہل بن سعد ساعدی،اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کی رائے ہے کہ کلی دودھ پینے سے ہے،اور یہ حکم ہمارے نزدیک مستحب ۱؎ ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ فَعَلْتُہُ أَنَا وَرَسُولُ اللہِ ﷺ فَاغْتَسَلْنَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب مردکے ختنہ کامقام (عضوتناسل) عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ) سے مل جائے تو غسل واجب ہوگیا ۱؎،میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے ایساکیا تو ہم نے غسل کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ،عبداللہ بن عمرو اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ وَجَبَ الْغُسْلُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ إِذَا جَاوَزَ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَعَائِشَةُ وَالْفُقَہَاءِ مِنْ التَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِثْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا إِذَا الْتَقَی الْخِتَانَانِ وَجَبَ الْغُسْلُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب مردکے ختنے کامقام عورت کے ختنے کے مقام (شرمگاہ)سے مل جائے تو غسل واجب ہوگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-کئی سندوں سے عائشہ کی نبی اکرم ﷺ مرفوع حدیث مروی ہے کہجب ختنے کا مقام ختنے کے مقام سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتاہے صحابہ کرام میں سے اکثراہل علم کا یہی قول ہے،ان میں ابوبکر،عمر،عثمان،علی اور عائشہ رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں،تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے بھی اکثر اہل علم مثلاً سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کایہی قول ہے کہ جب دونوں ختنوں کے مقام آپس میں چھوجائیں تو غسل واجب ہوگیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ح قَالَ و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ الْمَذْيِ فَقَالَ مِنْ الْمَذْيِ الْوُضُوءُ وَمِنْ الْمَنِيِّ الْغُسْلُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ مِنْ الْمَذْيِ الْوُضُوءُ وَمِنْ الْمَنِيِّ الْغُسْلُ وَہُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے مذی ۱؎ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: مذی سے وضو ہے اورمنی سے غسل ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں مقداد بن اسود اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کئی سندوں سے مرفوعاًمروی ہے کہ مذی سے وضو ہے،اور منی سے غسل ،۴-صحابہ کرام اور تابعین میں سے اکثراہل علم کا یہی قول ہے،اور سفیان،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونِ بْنِ مِہْرَانَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَنَّہَا غَسَلَتْ مَنِيًّا مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَيْسَ بِمُخَالِفٍ لِحَدِيثِ الْفَرْكِ لِأَنَّہُ وَإِنْ كَانَ الْفَرْكُ يُجْزِئُ فَقَدْ يُسْتَحَبُّ لِلرَّجُلِ أَنْ لَا يُرَی عَلَی ثَوْبِہِ أَثَرُہُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْمَنِيُّ بِمَنْزِلَةِ الْمُخَاطِ فَأَمِطْہُ عَنْكَ وَلَوْ بِإِذْخِرَةٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے کپڑے سے منی دھوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے کپڑے سے منی دھوئیان کی کھرچنے والی حدیث کے معارض نہیں ہے ۱؎۔اس لیے کہ کھرچنا کافی ہے،لیکن مرد کے لیے یہی پسند کیاجاتاہے کہ اس کے کپڑے پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہ دے۔(کیونکہ مردکوآدمیوں کی مجلسوں میں بیٹھناہوتا ہے) ابن عباس کہتے ہیں: منی رینٹ ناک کے گاڑھے پانی کی طرح ہے،لہذا تم اسے اپنے سے صاف کرلو چاہے اذخر(گھاس) ہی سے ہو۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ خُصَيْفٍ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَی امْرَأَتِہِ وَہِيَ حَائِضٌ قَالَ يَتَصَدَّقُ بِنِصْفِ دِينَارٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس آدمی کے بارے میں جو اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں جماع کرتاہے فرمایا: وہ آدھا دینار صدقہ کرے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ أَبِي حَمْزَةَ السُّكَّرِيِّ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا كَانَ دَمًا أَحْمَرَ فَدِينَارٌ وَإِذَا كَانَ دَمًا أَصْفَرَ فَنِصْفُ دِينَارٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْكَفَّارَةِ فِي إِتْيَانِ الْحَائِضِ قَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا وَمَرْفُوعًا وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ يَسْتَغْفِرُ رَبَّہُ وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْہِ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ قَوْلِ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ بَعْضِ التَّابِعِينَ مِنْہُمْ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَإِبْرَاہِيمُ النَّخَعِيُّ وَہُوَ قَوْلُ عَامَّةِ عُلَمَاءِ الْأَمْصَارِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب خون سرخ ہو(اورجماع کرلے تو) ایک دینار اور جب زرد ہو تو آدھا دینار (صدقہ کرے) ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-حائضہ سے جماع کے کفارے کی حدیث ابن عباس سے موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح سے مروی ہے،۲-اور بعض اہل علم کایہی قول ہے،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اپنے رب سے استغفار کرے گا،اس پرکوئی کفارہ نہیں،ابن مبارک کے قول کی طرح بعض تابعین سے بھی مروی ہے جن میں سعید بن جبیر،ابراہیم نخعی بھی شامل ہیں۔اور اکثر علماء امصارکایہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا قَالَتْ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِہَا وَلَمْ يَظْہَرْ الْفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي أَرْوَی وَجَابِرٍ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ وَيُرْوَی عَنْ رَافِعٍ أَيْضًا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي تَأْخِيرِ الْعَصْرِ وَلَا يَصِحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةُ وَأَنَسٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ تَعْجِيلَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَكَرِہُوا تَأْخِيرَہَا وَبِہِ يَقُولُ عَبْدُ اللہِ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عصر پڑھی اس حال میں کہ دھوپ ان کے کمرے میں تھی،ان کے کمرے کے اندرکا سایہ پورب والی دیوار پر نہیں چڑھاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،ابو أرویٰ،جابر اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،(اور رافع رضی اللہ عنہ سے عصرکو مؤخر کرنے کی بھی روایت کی جاتی ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے۔لیکن یہ صحیح نہیں ہے،۳-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم نے جن میں عمر،عبداللہ بن مسعود،عائشہ اور انس رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں اور تابعین میں سے کئی لوگوں نے اسی کو اختیار کیاہے کہ عصر جلدی پڑھی جائے اور اس میں تاخیر کرنے کو ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے اسی کے قائل عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّہُ دَخَلَ عَلَی أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي دَارِہِ بِالْبَصْرَةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنْ الظُّہْرِ وَدَارُہُ بِجَنْبِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ قُومُوا فَصَلُّوا الْعَصْرَ قَالَ فَقُمْنَا فَصَلَّيْنَا فَلَمَّا انْصَرَفْنَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّی إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيْ الشَّيْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لَا يَذْكُرُ اللہَ فِيہَا إِلَّا قَلِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ وہ بصرہ میں جس وقت ظہر پڑھ کر لوٹے تو وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر آئے،ان کا گھر مسجد کے بغل ہی میں تھا۔انس بن مالک نے کہا: اٹھوچلوعصرپڑھو،توہم نے اٹھ کر صلاۃ پڑھی،جب پڑھ چکے تو انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: یہ منافق کی صلاۃ ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہے،یہاں تک کہ جب وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے درمیان آجائے تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مارلے،اور ان میں اللہ کو تھوڑا ہی یادکرے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ،حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ،عَنْ أَبِي بِشْرٍ،عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ،عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ،عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِوَقْتِ ہَذِہِ الصَّلاَةِ: كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُصَلِّيہَا لِسُقُوطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَةٍ.

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس صلاۃ ِعشاء کے وقت کولوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں،رسول اللہ ﷺ اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،عَنْ أَبِي عَوَانَةَ،بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ ہُشَيْمٌ،عَنْ أَبِي بِشْرٍ،عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ،عَنْ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِيرٍ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ ہُشَيْمٌ عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ. وَحَدِيثُ أَبِي عَوَانَةَ أَصَحُّ عِنْدَنَا،لأَنَّ يَزِيدَ بْنَ ہَارُونَ رَوَی عَنْ شُعْبَةَ،عَنْ أَبِي بِشْرٍ،نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي عَوَانَةَ.

اس طریق سے بھی ابوعوانہ سے اسی سندسے اسی طرح مروی ہے۔امام ترمذی نے پہلے ابوعوانہ کا طریق ذکرکیا پھرہشیم کے طریق کا اور فرمایا: ابوعوانہ والی حدیث ہمارے نزدیک زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَفْضَلُ صَلَاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي رِوَايَةِ ہَذَا الْحَدِيثِ فَرَوَی مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ وَإِبْرَاہِيمُ بْنُ أَبِي النَّضْرِ عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَرْفُوعًا وَرَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَأَوْقَفَہُ بَعْضُہُمْ وَالْحَدِيثُ الْمَرْفُوعُ أَصَحُّ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تمہاری صلاۃ میں سب سے افضل صلاۃ وہ ہے جسے تم اپنے گھر میں پڑھتے ہو،سوائے فرض کے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عمربن خطاب،جابر بن عبداللہ،ابوسعید،ابوہریرہ،ابن عمر،عائشہ،عبداللہ بن سعد،اور زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم میں اس حدیث کی روایت میں اختلاف ہے،موسیٰ بن عقبہ اور ابراہیم بن ابی نضردونوں نے اسے ابو نضر سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔نیزاسے مالک بن انس نے بھی ابونضرسے روایت کیا،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،اور بعض اہل علم نے اسے موقوف قراردیا ہے جب کہ حدیث مرفوع زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوہَا قُبُورًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تم اپنے گھروں میں صلاۃ پڑھو ۱؎ اور انہیں قبرستان نہ بناؤ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مِسْعَرٍ وَالْأَجْلَحِ وَمَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ ہَذَا السَّلَامُ عَلَيْكَ قَدْ عَلِمْنَا فَكَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ قَالَ قُولُوا اللہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاہِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَبَارِكْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَی إِبْرَاہِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ قَالَ مَحْمُودٌ قَالَ أَبُو أُسَامَةَ وَزَادَنِي زَائِدَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی قَالَ وَنَحْنُ نَقُولُ وَعَلَيْنَا مَعَہُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ وَطَلْحَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَبُرَيْدَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ وَيُقَالُ ابْنُ جَارِيَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَی كُنْيَتُہُ أَبُو عِيسَی وَأَبُو لَيْلَی اسْمُہُ يَسَارٌ

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا،اللہ کے رسول!آپ پر سلام بھیجنا تو ہم نے جان لیاہے ۱؎ لیکن آپ پرصلاۃ(درود) بھیجنے کا طریقہ کیا ہے؟۔آپ نے فرمایا: کہو: اللّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ،وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ،إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ،وَّبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ،وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ،کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ،إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ ۲؎ (اے اللہ! محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرماجیساکہ تونے ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی ہے،یقینا توحمید(تعریف کے قابل) اور مجید(بزرگی والا) ہے،اور محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیساکہ تونے ابراہیم پر برکت نازل فرمائی ہے،یقیناتوحمید(تعریف کے قابل) اورمجید(بزرگی والا) ہے۔ زائدہ نے بطریق اعمش عن الحکم عن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ ایک زائد لفظ کی روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم(درود میں) وعلینا معہم (یعنی اور ہمارے اوپربھی رحمت وبرکت بھیج)بھی کہتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوحمید،ابومسعود،طلحہ،ابوسعید،بریدہ،زیدبن خارجہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تُوَاصِلُوا قَالُوا فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ إِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ إِنَّ رَبِّي يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِي قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا الْوِصَالَ فِي الصِّيَامِ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّہُ كَانَ يُوَاصِلُ الْأَيَّامَ وَلَا يُفْطِرُ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صوم وصال ۱؎ مت رکھو،لوگوں نے عرض کیا: آپ تو رکھتے ہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔میرارب مجھے کھلاتا پلاتاہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوہریرہ،عائشہ،ابن عمر،جابر،ابوسعید خدری،اور بشیربن خصاصیہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ بغیر افطار کیے لگاتارصوم رکھنے کو مکروہ کہتے ہیں،۴-عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ کئی دنوں کوملالیتے تھے (درمیان میں) افطار نہیں کرتے تھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَزَوْجُہَا شَاہِدٌ يَوْمًا مِنْ غَيْرِ شَہْرِ رَمَضَانَ إِلَّا بِإِذْنِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:عورت اپنے شوہر کی موجود گی میں ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور صوم بغیراس کی اجازت کے نہ رکھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیںـ: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عُبَيْدَةَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنَّا نَحِيضُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ نَطْہُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصِّيَامِ وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُعَاذَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَيْضًا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَہُمْ اخْتِلَافًا إِنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصِّيَامَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَعُبَيْدَةُ ہُوَ ابْنُ مُعَتِّبٍ الضَّبِّيُّ الْكُوفِيُّ يُكْنَی أَبَا عَبْدِ الْكَرِيمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ہمیں حیض آتا پھر ہم پاک ہوجاتے تو آپ ہمیں صیام قضاکرنے کا حکم دیتے اور صلاۃقضاکرنے کا حکم نہیں دیتے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ معاذہ سے بھی مروی ہے انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے،۳-اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے،ہم ان کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں جانتے کہ حائضہ عورت صیام کی قضاکرے گی،صلاۃ کی نہیں کرے گی۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَہُ مِثْلُ أَجْرِہِ غَيْرَ أَنَّہُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے کسی صائم کو افطار کرایا تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا،بغیر اس کے کہ صائم کے ثواب میں سے ذرا بھی کم کیاجائے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّہُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ حُبْشِيٍّ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے،سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور ۱؎ کا بدلہ صرف جنت ہے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود کی حدیث حسن ہے،اور ابن مسعود کی روایت سے غریب ہے،۲-اس باب میں عمر،عامر بن ربیعہ،ابوہریرہ،عبداللہ بن حبشی،ام سلمہ اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَازِمٍ كُوفِيٌّ وَہُوَ الْأَشْجَعِيُّ وَاسْمُہُ سَلْمَانُ مَوْلَی عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بے ہودہ بات نہیں کی،اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا ۱؎ تو اس کے گزشتہ تمام گناہ ۲؎ بخش دئے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا وَاللہِ مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ عَزَّی مُصَابًا فَلَہُ مِثْلُ أَجْرِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ عَاصِمٍ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَہُ مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَيُقَالُ أَكْثَرُ مَا ابْتُلِيَ بِہِ عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ بِہَذَا الْحَدِيثِ نَقَمُوا عَلَيْہِ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مصیبت زدہ کی (تعزیت) ماتم پُرسی کی،اسے بھی اس کے برابر اجر ملے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف علی بن عاصم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں،بعض لوگوں نے محمد بن سوقہ سے اسی جیسی حدیث اسی سندسے موقوفاً روایت کی ہے۔اوراسے مرفوع نہیں کیا ہے،۳-کہاجاتاہے کہ علی بن عاصم پرجوزیادہ طعن ہوا،اورلوگوں نے ان پرنکیرکی ہے وہ اسی حدیث کے سبب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُؤَدِّبُ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَتْنَا أُمُّ الْأَسْوَدِ عَنْ مُنْيَةَ بِنْتِ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي بَرْزَةَ عَنْ جَدِّہَا أَبِي بَرْزَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ عَزَّی ثَكْلَی كُسِيَ بُرْدًا فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ

ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی ایسی عورت کی تعزیت(ماتم پُرسی) کی جس کا لڑکامرگیا ہو،تو اسے جنت میں اس کے بدلہ ایک عمدہ کپڑا پہنایاجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس کی سند قوی نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَی،عَنْ سَعِيدٍ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: الْبَغَايَا اللاّتِي يُنْكِحْنَ أَنْفُسَہُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ. قَالَ يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ: رَفَعَ عَبْدُ الأَعْلَی ہَذَا الْحَدِيثَ فِي التَّفْسِيرِ. وَأَوْقَفَہُ فِي كِتَابِ الطَّلاَقِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: زنا کارہیں وہ عورتیں جو گواہوں کے بغیر خود نکاح کرلیتی ہیں۔یوسف بن حماد کہتے ہیں کہ عبدالاعلی نے اس حدیث کوکتاب التفسیرمیں مرفوع بیان کیا ہے اور کتاب الطلاق میں اسے انہوں نے موقوفاً بیان کیا ہے،مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ،مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ،نَحْوَہُ،وَلَمْ يَرْفَعْہُ،وَہَذَا أَصَحُّ . قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ إِلاَّ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِالأَعْلَی،عَنْ سَعِيدٍ،عَنْ قَتَادَةَ مَرْفُوعًا. وَرُوِي عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی،عَنْ سَعِيدٍ ہَذَا الْحَدِيثُ مَوْقُوفًا. وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُہُ: لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِبَيِّنَةٍ. ہَكَذَا رَوَی أَصْحَابُ قَتَادَةَ عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِبَيِّنَةٍ. وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ،نَحْوَ ہَذَا،مَوْقُوفًا. وَفِي ہَذَا الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ،وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ. قَالُوا: لاَ نِكَاحَ إِلاَّ بِشُہُودٍ. لَمْ يَخْتَلِفُوا فِي ذَلِكَ مَنْ مَضَی مِنْہُمْ،إِلاَّ قَوْمًا مِنَ الْمُتَأَخِّرِينَ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ. وَإِنَّمَا اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا إِذَا شَہِدَ وَاحِدٌ،بَعْدَ وَاحِدٍ،فَقَالَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ: لاَ يَجُوزُ النِّكَاحُ حَتَّی يَشْہَدَ الشَّاہِدَانِ مَعًا عِنْدَ عُقْدَةِ النِّكَاحِ. وَقَدْ رَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْمَدِينَةِ إِذَا أُشْہِدَ وَاحِدٌ بَعْدَ وَاحِدٍ فَإِنَّہُ جَائِزٌ،إِذَا أَعْلَنُوا ذَلِكَ. وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَغَيْرِہِ. ہَكَذَا قَالَ إِسْحَاقُ فِيمَا حَكَی عَنْ أَہْلِ الْمَدِينَةِ. وَ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ: يَجُوزُ شَہَادَةُ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ فِي النِّكَاحِ. وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ

اس سند سے بھی سعید بن ابی عروبہ نے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔اوریہی زیادہ صحیح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غیر محفوظ ہے،۲-ہم کسی کونہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو سوائے اس کے جو عبدالاعلیٰ سے مروی ہے انہوں نے سعید بن ابی عروبہ سے اورسعیدنے قتادہ سے مرفوعاً روایت کی ہے،۳-اور عبدالاعلیٰ سے سعید بن ابی عروبہ کے واسطے سے یہ موقوفا بھی مروی ہے۔اور صحیح وہ ہے جوابن عباس کے قول سے مروی ہے کہ بغیرگواہ کے نکاح نہیں،خود ابن عباس کاقول ہے،۴-اسی طرح سے اور کئی لوگوں نے بھی سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح کی روایت موقوفاً کی ہے،۵-اس باب میں عمران بن حصین،انس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۶-صحابہ کرام اورتابعین وغیرہم میں سے اہل علم کااسی پر عمل ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ بغیر گواہ کے نکاح درست نہیں۔پہلے کے لوگوں میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن متاخرین اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے،۷-اہل علم میں اس سلسلے میں اختلاف ہے جب ایک دوسرے کے بعدگواہی دے یعنی دونوں بیک وقت مجلس نکاح میں حاضرنہ ہوں توکوفہ کے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ نکاح اسی وقت درست ہوگا جب عقد نکاح کے وقت دونوں گواہ ایک ساتھ موجود ہوں،۸-اوربعض اہل مدینہ کا خیال ہے کہ جب ایک کے بعد دوسرے کوگواہ بنایاگیاہو تو بھی جائز ہے جب وہ اس کا اعلان کردیں۔یہ مالک بن انس وغیرہ کا قول ہے۔اسی طرح کی بات اسحاق بن راہویہ نے بھی کہی ہے جواہل مدینہ نے کہی ہے،۹-اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ نکاح میں ایک مرد اور دوعورتوں کی شہادت جائز ہے،یہ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ خَشْفِ بْنِ مَالِكٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ قَالَ قَضَی رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي دِيَةِ الْخَطَإِ عِشْرِينَ بِنْتَ مَخَاضٍ وَعِشْرِينَ بَنِي مَخَاضٍ ذُكُورًا وَعِشْرِينَ بِنْتَ لَبُونٍ وَعِشْرِينَ جَذَعَةً وَعِشْرِينَ حِقَّةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو أَخْبَرَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ مَوْقُوفًا وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ عَلَی أَنَّ الدِّيَةَ تُؤْخَذُ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ فِي كُلِّ سَنَةٍ ثُلُثُ الدِّيَةِ وَرَأَوْا أَنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَی الْعَاقِلَةِ وَرَأَی بَعْضُہُمْ أَنَّ الْعَاقِلَةَ قَرَابَةُ الرَّجُلِ مِنْ قِبَلِ أَبِيہِ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّمَا الدِّيَةُ عَلَی الرِّجَالِ دُونَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ مِنْ الْعَصَبَةِ يُحَمَّلُ كُلُّ رَجُلٍ مِنْہُمْ رُبُعَ دِينَارٍ وَقَدْ قَالَ بَعْضُہُمْ إِلَی نِصْفِ دِينَارٍ فَإِنْ تَمَّتْ الدِّيَةُ وَإِلَّا نُظِرَ إِلَی أَقْرَبِ الْقَبَائِلِ مِنْہُمْ فَأُلْزِمُوا ذَلِكَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا: قتل خطا ۱ ؎ کی دیت ۲؎ بیس بنت مخاض۳؎،بیس ابن مخاض،بیس بنت لبون۴ ؎،بیس جذعہ ۵؎ اوربیس حقہ ۶؎؎ ہے ۔ہم کوابوہشام رفاعی نے ابن ابی زائد ہ اورابوخالد احمرسے اورانہوں نے حجاج بن ارطاۃسے اسی طرح کی حدیث بیان کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کوہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں اورعبد اللہ بن مسعود سے یہ حدیث موقوف طریقہ سے بھی آئی ہے،۲-اس باب میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم کایہی مسلک ہے،احمداوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،۴-اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دیت تین سال میں لی جائے گی،ہرسال دیت کا تہائی حصہ لیاجائے گا،۵-اوران کاخیال ہے کہ دیتِ خطاعصبہ پر ہے،۶-بعض لوگوں کے نزدیک عصبہ وہ ہیں جو باپ کی جانب سے آدمی کے قرابت دار ہوں،مالک اور شافعی کایہی قول ہے،۷-بعض لوگوں کاکہناہے کہ عصبہ میں سے جومردہیں انہی پر دیت ہے،عورتوں اوربچوں پرنہیں،ان میں سے ہر آدمی کوچوتھائی دینا رکا مکلف بنایا جائے گا،۸-کچھ لوگ کہتے ہیں: آدھے دینار کا مکلف بنایاجائے گا،۹-اگردیت مکمل ہوجائے گی تو ٹھیک ہے ورنہ سب سے قریبی قبیلہ کو دیکھا جائے گا اور ان کو اس کا مکلف بنایا جائے گا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ أَخْبَرَنَا حَبَّانُ وَہُوَ ابْنُ ہِلَالٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَی عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَی أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوا وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ وَہِيَ ثَلَاثُونَ حِقَّةً وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً وَأَرْبَعُونَ خَلِفَةً وَمَا صَالَحُوا عَلَيْہِ فَہُوَ لَہُمْ وَذَلِكَ لِتَشْدِيدِ الْعَقْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کیا اسے مقتول کے وارثوں کے حوالے کیا جائے گا،اگروہ چاہیں تو اسے قتل کردیں اورچاہیں تو اس سے دیت لیں،دیت کی مقدارتیس حقہ،تیس جذعہ اورچالیس خلفہ ۱؎ ہے اورجس چیزپروارث مصالحت کرلیں وہ ان کے لیے ہے اور یہ دیت کے سلسلہ میں سختی کی وجہ سے ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہَانِئٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ،عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ،عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ جَعَلَ الدِّيَةَ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دیت بارہ ہزاردرہم مقررکی۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ عَمْرِو ابْنِ دِينَارٍ،عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَفِي حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ كَلاَمٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا۔ قَالَ أَبُو عِيسَی: وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا يَذْكُرُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ. وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الدِّيَةَ عَشْرَةَ آلاَفٍ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَہْلِ الْكُوفَةِ. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: لاَ أَعْرِفُ الدِّيَةَ إِلاَّمِنْ الإِبِلِ وَہِيَ مِائَةٌ مِنَ الإِبِلِ أَوْ قِيمَتُہَا.

ہم سے سعید بن عبد الرحمن المخزومی نے بیا ن کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینا رکے واسطے سے بیان کیا،عمروبن دینار نے عکرمہ سے اورعکرمہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے،لیکن انہوں نے اس روایت میں ابن عباس کاذکرنہیں کیا،ابن عیینہ کی روایت میں محمدبن مسلم طائفی کی روایت کی بنسبت کچھ زیادہ باتیں ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہمارے علم میں محمد بن مسلم کے علاوہ کسی نے اس حدیث میں ابن عباس کے واسطہ کاذکر نہیں کیا ہے،۲-بعض اہل علم کے نزدیک اسی حدیث پر عمل ہے،احمداوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،۳-اور بعض اہل اعلم کے نزدیک دیت دس ہزار(درہم)ہے،سفیان ثوری اوراہل کوفہ کا یہی قول ہے،۴-امام شافعی کہتے ہیں: ہم اصلِ دیت صرف اونٹ کو سمجھتے ہیں اور وہ سواونٹ یا اس کی قیمت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَقَ حَدَّثَنَا أَبُو السَّفَرِ قَالَ دَقَّ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ سِنَّ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَاسْتَعْدَی عَلَيْہِ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ لِمُعَاوِيَةَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ ہَذَا دَقَّ سِنِّي قَالَ مُعَاوِيَةُ إِنَّا سَنُرْضِيكَ وَأَلَحَّ الْآخَرُ عَلَی مُعَاوِيَةَ فَأَبْرَمَہُ فَلَمْ يُرْضِہِ فَقَالَ لَہُ مُعَاوِيَةُ شَأْنَكَ بِصَاحِبِكَ وَأَبُو الدَّرْدَاءِ جَالِسٌ عِنْدَہُ فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ سَمِعَتْہُ أُذُنَايَ وَوَعَاہُ قَلْبِي يَقُولُ مَا مِنْ رَجُلٍ يُصَابُ بِشَيْءٍ فِي جَسَدِہِ فَيَتَصَدَّقُ بِہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللہُ بِہِ دَرَجَةً وَحَطَّ عَنْہُ بِہِ خَطِيئَةً قَالَ الْأَنْصَارِيُّ أَأَنْتَ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ سَمِعَتْہُ أُذُنَايَ وَوَعَاہُ قَلْبِي قَالَ فَإِنِّي أَذَرُہَا لَہُ قَالَ مُعَاوِيَةُ لَا جَرَمَ لَا أُخَيِّبُكَ فَأَمَرَ لَہُ بِمَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَا أَعْرِفُ لِأَبِي السَّفَرِ سَمَاعًا مِنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُہُ سَعِيدُ بْنُ أَحْمَدَ وَيُقَالُ ابْنُ يُحْمِدَ الثَّوْرِيُّ

ابوسفرسعیدبن أحمدکہتے ہیں:ایک قریشی نے ایک انصاری کا دانت توڑدیا،انصاری نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے فریادکی،اوران سے کہا: امیرالمومنین! اس(قریشی) نے میرادانت توڑدیا ہے،معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم تمہیں ضرور راضی کریں گے،دوسرے (یعنی قریشی) نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا اصرارکیا اور(یہاں تک منت سماجت کی کہ) انہیں تنگ کردیا،معاویہ اس سے مطمئن نہ ہوئے،چنانچہ معاویہ نے اس سے کہا: تمہارا معاملہ تمہارے ساتھی کے ہاتھ میں ہے،ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺکوکہتے سناہے،میرے کانوں نے اسے سناہے اوردل نے اسے محفوظ رکھا ہے،آپ فرمارہے تھے: جس آدمی کے بھی جسم میں زخم لگے اوروہ اسے صدقہ کردے (یعنی معاف کردے) تو اللہ تعالیٰ اسے ایک درجہ بلندی عطاکرتاہے اور اس کاایک گناہ معاف فرمادیتاہے،انصاری نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے آپ نے سناہے؟ ابوالدرداء نے کہا: میرے دونوں کانوں نے سناہے اورمیرے دل نے اسے محفوظ رکھاہے،اس نے کہا: تو میں اس کی دیت معاف کردیتاہوں،معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن میں تمہیں محروم نہیں کرونگا،چنانچہ انہوں نے اسے کچھ مال دینے کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہمیں یہ صرف اسی سندسے معلوم ہے،مجھے نہیں معلوم کہ ابوسفر نے ابوالدرداء سے سنا ہے،۲-ابوسفرکانام سعید بن احمدہے،انہیں ابن یحمد ثوری بھی کہا جاتا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تَصْحَبُ الْمَلَائِكَةُ رُفْقَةً فِيہَا كَلْبٌ وَلَا جَرَسٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فرشتے مسافروں کی اس جماعت کے ساتھ نہیں رہتے ہیں جس میں کتایا گھنٹی ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،عائشہ،ام حبیبہ اورام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاخْتَبَيْنَا بِہَا وَقُلْنَا ہَلَكْنَا ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولَ اللہِ ﷺ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللہِ نَحْنُ الْفَرَّارُونَ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ الْعَكَّارُونَ وَأَنَا فِئَتُكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ وَمَعْنَی قَوْلِہِ فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً يَعْنِي أَنَّہُمْ فَرُّوا مِنْ الْقِتَالِ وَمَعْنَی قَوْلِہِ بَلْ أَنْتُمْ الْعَكَّارُونَ وَالْعَكَّارُ الَّذِي يَفِرُّ إِلَی إِمَامِہِ لِيَنْصُرَہُ لَيْسَ يُرِيدُ الْفِرَارَ مِنْ الزَّحْفِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک سریہ میں روانہ کیا،(پھر ہم) لوگ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوئے،مدینہ آئے تو شرم کی وجہ سے چھپ گئے اورہم نے کہا: ہلاک ہوگئے،پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا: اللہ کے رسول! ہم بھگوڑے ہیں،آپ نے فرمایا: بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،ہم اسے صرف یزید بن ابی زیاد کی روایت سے جانتے ہیں،۲-فحاص الناس حیصۃ کا معنی یہ ہے کہ لوگ لڑائی سے فرارہوگئے،۳-اور بل أنتم العکارون اس کو کہتے ہیں: جوفرارہوکراپنے امام (کمانڈر) کے پاس آجائے تاکہ وہ اس کی مددکرے نہ کہ لڑائی سے فرارہونے کا ارادہ رکھتا ہو۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ قَدِمَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فَأَتَيْتُہُ فَقَالَ مَنْ أَنْتَ فَقُلْتُ أَنَا وَاقِدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ فَبَكَی وَقَالَ إِنَّكَ لَشَبِيہٌ بِسَعْدٍ وَإِنَّ سَعْدًا كَانَ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ وَإِنَّہُ بُعِثَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ جُبَّةٌ مِنْ دِيبَاجٍ مَنْسُوجٌ فِيہَا الذَّہَبُ فَلَبِسَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَامَ أَوْ قَعَدَ فَجَعَلَ النَّاسُ يَلْمِسُونَہَا فَقَالُوا مَا رَأَيْنَا كَالْيَوْمِ ثَوْبًا قَطُّ فَقَالَ أَتَعْجَبُونَ مِنْ ہَذِہِ لَمَنَادِيلُ سَعْدٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِمَّا تَرَوْنَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

واقد بن عمرو بن سعدبن معاذ کہتے ہیں: انس بن مالک رضی اللہ عنہ (ہمارے پاس) آئے تو میں ان کے پاس گیا،انہوں نے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہوں،انس رضی اللہ عنہ روپڑے اوربولے: تم سعد کی شکل کے ہو،سعد بڑے درازقداورلمبے تھے،نبی اکرمﷺ کے پاس ایک ریشمی جبہ بھیجاگیا جس میں زری کا کام کیا ہوا تھا ۱؎ آپ اسے پہن کر منبر پر چڑھے،کھڑے ہو ے یا بیٹھے تو لوگ اسے چھوکر کہنے لگے: ہم نے آج کی طرح کبھی کوئی کپڑا نہیں دیکھا،آپ نے فرمایا: کیا تم اس پرتعجب کررہے ہو؟ جنت میں سعد کے رومال اس سے کہیں بہترہیں جو تم دیکھ رہے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں اسماء بنت ابی بکر سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ ہَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ فَقَالَ الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللہُ فِي كِتَابِہِ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللہُ فِي كِتَابِہِ وَمَا سَكَتَ عَنْہُ فَہُوَ مِمَّا عَفَا عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُغِيرَةِ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرَوَی سُفْيَانُ وَغَيْرُہُ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَہُ وَكَأَنَّ ہَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ مَا أُرَاہُ مَحْفُوظًا رَوَی سُفْيَانُ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ مَوْقُوفًا قَالَ الْبُخَارِيُّ وَسَيْفُ بْنُ ہَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَاصِمٍ ذَاہِبُ الْحَدِيثِ

سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے گھی،پنیراورپوستین (چمڑے کالباس) کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا،اور حرا م وہ ہے،جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کردیا اورجس چیزکے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کردیاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سندسے مرفوع جانتے ہیں،۲-اسے سفیان نے بسندسلیمان التیمی سے عن أبی عثمان عن سلمان موقوفاً روایت کیا ہے،گویا یہ موقوف حدیث زیادہ صحیح ہے،اس باب میں مغیرہ سے بھی حدیث آئی ہے،۳-میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں اس کو محفوظ نہیں سمجھتاہوں،سفیان نے بسند سلیمان التیمی عن أبی عثمان عن سلمان موقوفاروایت کی ہے،۴-امام بخاری کہتے ہیں: سیف بن ہارون مقارب الحدیث ہیں،اورسیف بن محمدعاصم سے روایت کرنے میں ذاہب الحدیث ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَال سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ مَاتَتْ شَاةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِأَہْلِہَا أَلَا نَزَعْتُمْ جِلْدَہَا ثُمَّ دَبَغْتُمُوہُ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک بکری مرگئی،رسول اللہ ﷺ نے بکری والے سے کہا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ پھرتم دباغت دے کراس سے فائدہ حاصل کرتے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ وَعْلَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَيُّمَا إِہَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَہُرَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا فِي جُلُودِ الْمَيْتَةِ إِذَا دُبِغَتْ فَقَدْ طَہُرَتْ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ الشَّافِعِيُّ أَيُّمَا إِہَابِ مَيْتَةٍ دُبِغَ فَقَدْ طَہُرَ إِلَّا الْكَلْبَ وَالْخِنْزِيرَ وَاحْتَجَّ بِہَذَا الْحَدِيثِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِنَّہُمْ كَرِہُوا جُلُودَ السِّبَاعِ وَإِنْ دُبِغَ وَہُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَشَدَّدُوا فِي لُبْسِہَا وَالصَّلَاةِ فِيہَا قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ إِنَّمَا مَعْنَی قَوْلِ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَيُّمَا إِہَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَہُرَ جِلْدُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُہُ ہَكَذَا فَسَّرَہُ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ و قَالَ إِسْحَقُ قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ إِنَّمَا يُقَالُ الْإِہَابُ لِجِلْدِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ وَمَيْمُونَةَ وَعَائِشَةَ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرُوِيَ عَنْہُ عَنْ سَوْدَةَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يُصَحِّحُ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ وَقَالَ احْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ رَوَی ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ مَيْمُونَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس چمڑے کو دباغت دی گئی،وہ پاک ہوگیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-بواسطہ ابن عباس نبی اکرمﷺ سے دوسری سندوں سے بھی اسی طرح مروی ہے،۳-یہ حدیث ابن عباس سے کبھی میمونہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اور کبھی سودہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے،۴-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو نبی اکرمﷺ سے مروی ابن عباس کی حدیث اور میمونہ کے واسطہ سے مروی ابن عباس کی حدیث کوصحیح کہتے ہوئے سنا،انہو ں نے کہا: احتمال ہے کہ ابن عباس نے بواسطہ میمونہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہو،اورابن عباس نے نبی اکرم ﷺ سے براہ راست بھی روایت کیا،اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵-نضربن شمیل نے بھی اس کا یہی مفہوم بیان کیا ہے،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: نضربن شمیل نے کہا: إہاب اس جانور کے چمڑے کو کہاجاتا ہے،جس کا گوشت کھایاجاتاہے،۶-اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ کہتے ہیں: مردارکاچمڑا دباغت دینے کے بعد پاک ہوجاتاہے ،۷-شافعی کہتے ہیں: کتے اورسورکے علاوہ جس مردارجانورکا چمڑا دباغت دیا جائے وہ پاک ہوجائے گا،انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے،۸-بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں نے درندوں کے چمڑوں کو مکروہ سمجھا ہے،اگرچہ اس کو دباغت دی گئی ہو،عبداللہ بن مبارک،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،ان لوگوں نے اسے پہننے اوراس میں صلاۃ اداکرنے کو براسمجھا ہے،۹-اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے قول أیما إہاب دبغ فقد طہر کامطلب یہ ہے کہ اس جانورکا چمڑا دباغت سے پاک ہوجائے گا جس کا گوشت کھا یاجاتاہے،۱۰-اس باب میں سلمہ بن محبق،میمونہ اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ وَالشَّيْبَانِيِّ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُكَيْمٍ قَالَ أَتَانَا كِتَابُ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنْ لَا تَنْتَفِعُوا مِنْ الْمَيْتَةِ بِإِہَابٍ وَلَا عَصَبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَيُرْوَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُكَيْمٍ عَنْ أَشْيَاخٍ لَہُمْ ہَذَا الْحَدِيثُ وَلَيْسَ الْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُكَيْمٍ أَنَّہُ قَالَ أَتَانَا كِتَابُ النَّبِيِّ ﷺ قَبْلَ وَفَاتِہِ بِشَہْرَيْنِ قَالَ و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ يَذْہَبُ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ لِمَا ذُكِرَ فِيہِ قَبْلَ وَفَاتِہِ بِشَہْرَيْنِ وَكَانَ يَقُولُ كَانَ ہَذَا آخِرَ أَمْرِ النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ تَرَكَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ہَذَا الْحَدِيثَ لَمَّا اضْطَرَبُوا فِي إِسْنَادِہِ حَيْثُ رَوَی بَعْضُہُمْ فَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُكَيْمٍ عَنْ أَشْيَاخٍ لَہُمْ مِنْ جُہَيْنَةَ

عبداللہ بن عکیم کہتے ہیں: ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط آیا کہ تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے ۱؎ اورپٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث عبداللہ بن عکیم سے ان کے شیوخ کے واسطہ سے بھی آئی ہے،۳-اکثراہل علم کااس پر عمل نہیں ہے،۴-عبداللہ بن عکیم سے یہ حدیث مروی ہے،انہوں نے کہا: ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ کاخط آپ کی وفات سے دوماہ پہلے آیا،۵-میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا،احمد بن حنبل اسی حدیث کو اختیارکرتے تھے اس وجہ سے کہ اس میں آپ کی وفات سے دوماہ قبل کا ذکرہے،وہ یہ بھی کہتے تھے: یہ نبی اکرم ﷺ کا آخری حکم تھا،۶-پھراحمدبن حنبل نے اس حدیث کو چھوڑدیا اس لیے کہ راویوں سے اس کی سند میں اضطراب واقع ہے،چنانچہ بعض لوگ اسے عبداللہ بن عکیم سے ان کے جہینہ کے شیوخ کے واسطہ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ عَلَی حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ فَقِيلَ لَہُ إِنَّ ہَذَا يُبَلِّغُ الْأُمَرَاءَ الْحَدِيثَ عَنْ النَّاسِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ قَالَ سُفْيَانُ وَالْقَتَّاتُ النَّمَّامُ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے ایک آدمی گزرا،ان سے کہا گیا کہ یہ شخص حکام کے پاس لوگوں کی باتیں پہنچاتاہے،توحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: چغل خورجنت میں نہیں داخل ہوگا ۱ ؎۔ سفیان کہتے ہیں: قتات نمّام (چغل خور)کو کہتے ہیں۔یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ رَجُلًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي كَبْشَةَ الْأَنَّمَارِيِّ وَاسْمُہُ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: صدقہ مال کو کم نہیں کرتا،اور عفوودرگزر کرنے سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے،اورجوشخص اللہ کے لیے تواضع وانکساری اختیارکرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرمادیتاہے ۱ ؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف،ابن عباس اورابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابوکبشہ انماری کانام عمربن سعدہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَوَی أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ مِنْ الشَّوْكَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيٍّ وَجَابِرٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اسعدبن زرارہ کے بدن کو سرخ پھنسی کی بیماری میں داغا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابی اورجابر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَقَّارِ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ اكْتَوَی أَوْ اسْتَرْقَی فَقَدْ بَرِئَ مِنْ التَّوَكُّلِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے بدن داغایاجھاڑپھونک کرائی وہ تو کل کرنے والوں میں سے نہ رہا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،ابن عباس اورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عُرْوَةَ وَہُوَ ابْنُ عَامِرٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيِّ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ وَلَدَ جَعْفَرٍ تُسْرِعُ إِلَيْہِمْ الْعَيْنُ أَفَأَسْتَرْقِي لَہُمْ فَقَالَ نَعَمْ فَإِنَّہُ لَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْہُ الْعَيْنُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَبُرَيْدَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَيُّوبَ بِہَذَا

عبیدبن رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کو بہت جلدنظربدلگ جاتی ہے،کیا میں ان کے لیے جھاڑ پھونک کراؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،اس لیے کہ اگرکوئی چیز تقدیرپر سبقت کرسکتی تواس پر نظربدضرورسبقت کرتی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث عن أیوب،عن عمرو بن دینار،عن عروۃ بن عامر،عن عبید بن رفاعۃ،عن أسماء بنت عمیس،عن النبی ﷺ کی سند سے بھی مروی ہے،۳-اس باب میں عمران بن حصین اوربریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اس سند سے بھی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَيَعْلَی عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ يَقُولُ أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَہَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ وَيَقُولُ ہَكَذَا كَانَ إِبْرَاہِيمُ يُعَوِّذُ إِسْحَقَ وَإِسْمَعِيلَ عَلَيْہِمْ السَّلَام حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ کے رسول حسن اورحسین رضی اللہ عنہما پریہ کلمات پڑھ کرجھاڑپھونک کرتے تھے: أُعِیذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّۃِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّۃٍ وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لاَمَّۃٍ میں تمہارے لیے اللہ کے مکمل اورپورے کلمات کے وسیلے سے ہرشیطان اورہلاک کرنے والے زہریلے کیڑے اور نظر بد سے پناہ مانگتاہوں،اورآپ فرماتے تھے: اسماعیل اوراسحاق کے لیے اسی طرح ابراہیم علیہم السلام پناہ مانگتے تھے۔اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ سَعِيدٍ الأَشَجُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ السَّكُّونِيُّ،عَنْ مُوسَی بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((إِذَا دَخَلْتُمْ عَلَی المَرِيضِ فَنَفِّسُوا لَہُ فِي أَجَلِہِ فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَرُدُّ شَيْئًا وَيُطَيِّبُ نَفْسَہُ)): ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

-ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم مریض کے پاس جاؤ تو موت کے سلسلے میں اس کا غم دورکرو ۱؎ یہ تقدیر تونہیں بدلتاہے لیکن مریض کا دل خوش کردیتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ،عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ،عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ،عَنْ أَبِي صَالِحٍ الأَشْعَرِيِّ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَادَ رَجُلًا مِنْ وَعَكٍ كَانَ بِہِ فَقَالَ: أَبْشِرْ،فَإِنَّ اللہَ يَقُولُ: ہِيَ نَارِي أُسَلِّطُہَا عَلَی عَبْدِي المُذْنِبِ لِتَكُونَ حَظَّہُ مِنَ النَّارِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کی عیادت کی جسے تپ دق کا مرض تھا،آپ نے فرمایا: خوش ہوجاؤ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کہتاہے: یہ میری آگ ہے جسے میں اپنے گنہگاربندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ یہ جہنم کی آگ میں سے اس کا حصہ بن جائے ۱؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ،قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ،عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ،عَنْ الحَسَنِ قَالَ: ((كَانُوا يَرْتَجُونَ الحُمَّی لَيْلَةً كَفَّارَةً لِمَا نَقَصَ مِنَ الذُّنُوبِ))

حسن بصری کہتے ہیں: ایک رات صحابہ یہ امیدظاہر کررہے تھے کہ بخارچھوٹے گناہوں کے لیے کفارہ ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نَارُكُمْ ہَذِہِ الَّتِي تُوقِدُونَ جُزْءٌ وَاحِدٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ حَرِّ جَہَنَّمَ قَالُوا وَاللہِ إِنْ كَانَتْ لَكَافِيَةً يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ فَإِنَّہَا فُضِّلَتْ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا كُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَمَّامُ بْنُ مُنَبِّہٍ ہُوَ أَخُو وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ وَہْبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہاری(دنیاکی)آگ جسے تم جلاتے ہو جہنم کی أگ کے سترحصوں میں سے ایک ٹکڑا ہے حصہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر یہی آگ رہتی تو کافی ہوتی۔آپ نے فرمایا: وہ اس سے انہترحصہ بڑھی ہوئی ہے،ہر حصے کی گرمی اسی آگ کی طرح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نَارُكُمْ ہَذِہِ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ لِكُلِّ جُزْءٍ مِنْہَا حَرُّہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے،اس کے ہرحصے کی گرمی اسی طرح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوسعید کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَاصِمٍ ہُوَ ابْنُ بَہْدَلَةَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَيْہَا أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّی ابْيَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَيْہَا أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِيَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَةٌ حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ شَرِيكٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ أَوْ رَجُلٍ آخَرَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ فِي ہَذَا مَوْقُوفٌ أَصَحُّ وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ غَيْرَ يَحْيَی بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ عَنْ شَرِيكٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جہنم کی آگ ایک ہزار سال دہکائی گئی یہاں تک کہ سرخ ہوگئی،پھر ایک ہزار سال دہکائی گئی یہاں تک کہ سفید ہوگئی،پھر ایک ہزار سال دہکائی گئی یہاں تک کہ سیاہ ہوگئی،اب وہ سیاہ ہے او ر تاریک ہے۔اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،مگر یہ مرفوع نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ا بوہریرہ کی حدیث موقوف ہی زیادہ صحیح ہے۔میں کسی کو نہیں جانتا ہوں جس نے اسے مرفوع کیا ہو سوائے یحییٰ بن أبی بکیر کے جس نے شریک سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی يَقُولُوا لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ فَإِذَا قَالُوہَا مَنَعُوا مِنِّي دِمَاءَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللہِ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ (جہاد) کروں یہاں تک کہ وہ لاإلہ الااللہ کااقرار کرلیں،پھر جب وہ اس کا اقرار کرلیں تو اب انہوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو مجھ سے محفوظ کرلیا،مگرکسی حق کے بدلے ۱؎،اور ان کا (مکمل) حساب تو اللہ تعالیٰ پرہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-۱س باب میں جابر،ابوسعید اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَہُ كَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِأَبِي بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی يَقُولُوا لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَمَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ عَصَمَ مِنِّي مَالَہُ وَنَفْسَہُ إِلَّا بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلَی اللہِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَاللہِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الزَّكَاةِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللہِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَہُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَی مَنْعِہِ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَوَاللہِ مَا ہُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللہَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَرَوَی عِمْرَانُ الْقَطَّانُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَہُوَ حَدِيثٌ خَطَأٌ وَقَدْ خُولِفَ عِمْرَانُ فِي رِوَايَتِہِ عَنْ مَعْمَرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺکی وفات ہوئی اور آپ کے بعد ابوبکر خلیفہ بنادیے گئے اور عربوں میں جنہیں کفرکرنا تھا کفرکااظہارکیا،توعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا:آ پ لوگوں سے کیسے جنگ (جہاد) کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے: مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ کہیں: لاإلہ الا اللہ،تو جس نے لا إلہ الا اللہ کہا،اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان محفوظ کرلی ۱؎،اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم! میں تو ہراس شخص کے خلاف جہاد کروں گا جو صلاۃ وزکاۃ میں فرق کرے گا،کیوں کہ زکاۃ مال کا حق ہے،قسم اللہ کی! اگر انہوں نے ایک رسی بھی دینے سے انکار کیا جسے وہ رسول اللہ ﷺ کو (زکاۃ میں)دیاکرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر بھی ان سے جنگ (جہاد) کروں گا۔عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے دیکھا: اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کے سینے کو جنگ کے لیے کھول دیا ہے اور میں نے جان لیا کہ یہی حق اور درست ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسی طرح شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے،زہری نے عبیداللہ بن عبد اللہ سے اور عبداللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے،۳-عمران بن قطان نے یہ حدیث معمر سے،معمر نے زہری سے،زہری نے انس بن مالک سے،اور انس بن ماک نے ابوبکر سے روایت کی ہے،لیکن اس حدیث (کی سند) میں غلطی ہے۔(اور وہ یہ ہے کہ) معمرکے واسطہ سے عمران کی روایت کی مخالفت کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْہَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللہِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ کے رب ہونے اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے نبی ہونے پر راضی (اور خوش)ہوا اس نے ایمان کا مزہ پالیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيہِ وَجَدَ بِہِنَّ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ كَانَ اللہُ وَرَسُولُہُ أَحَبَّ إِلَيْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّہُ إِلَّا لِلَّہِ وَأَنْ يَكْرَہَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللہُ مِنْہُ كَمَا يَكْرَہُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس میں تین خصلتیں ہوں گی اسے ان کے ذریعہ ایمان کی حلاوت مل کررہے گی۔(۱) جس کے نزدیک اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں۔(۲) وہ جس کسی سے بھی محبت کرے توصرف اللہ کی رضا کے لیے کرے،(۳) کفر سے اللہ کی طرف سے ملنے والی نجات کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اس طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں گرنا ناپسند کرتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-قتادہ نے بھی یہ حدیث انس کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ تَفَرَّقَتْ الْيَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِينَ أَوْ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَالنَّصَارَی مِثْلَ ذَلِكَ وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاری بھی اسی طرح بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سعد،عبداللہ بن عمرو،اور عوف بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ الْأَفْرِيقِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَيَأْتِيَنَّ عَلَی أُمَّتِي مَا أَتَی عَلَی بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّی إِنْ كَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتَی أُمَّہُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّہُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ ہِيَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْہِ وَأَصْحَابِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مُفَسَّرٌ لَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آچکی ہے،(یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے)یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگراپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیاہوگا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہوگا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہوگا،بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اورمیری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی،اور ایک فرقہ کو چھوڑ کرباقی سبھی جہنم میں جائیں گے،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہوگی؟ آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث جس میں ابوہریرہ کے حدیث کے مقابلہ میں کچھ زیادہ وضاحت ہے حسن غریب ہے۔ہم اسے اس طرح صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَہُ فِي ظُلْمَةٍ فَأَلْقَی عَلَيْہِمْ مِنْ نُورِہِ فَمَنْ أَصَابَہُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ اہْتَدَی وَمَنْ أَخْطَأَہُ ضَلَّ فَلِذَلِكَ أَقُولُ جَفَّ الْقَلَمُ عَلَی عِلْمِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا:اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مخلوق کوتاریکی میں پیداکیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا (یعنی اپنے نور کاپرتو) توجس پریہ نور پڑ گیا وہ ہدایت یاب ہوگیااور جس پر نور نہ پڑا (تجاوز کرگیا) تو وہ گمراہ ہوگیا،اسی لیے میں کہتاہوں کہ اللہ کے علم پر(تقدیرکا) قلم خشک ہوچکاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللہِ عَلَی الْعِبَادِ قُلْتُ اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّہُ عَلَيْہِمْ أَنْ يَعْبُدُوہُ وَلَا يُشْرِكُوا بِہِ شَيْئًا قَالَ أَتَدْرِي مَا حَقُّہُمْ عَلَيْہِ إِذَا فَعَلَوْا ذَلِكَ قُلْتُ اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ أَنْ لَا يُعَذِّبَہُمْ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کاحق کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا: اس کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔(پھر) آپ نے کہا: کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ جب لوگ ایسا کریں تو اللہ پر ان کاکیا حق ہے؟میں نے کہا: اللہ اوراس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: ان کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث متعدد سندوں سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ وَالْأَعْمَشِ كُلُّہُمْ سَمِعُوا زَيْدَ بْنَ وَہْبٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَبَشَّرَنِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّہُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللہِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَی وَإِنْ سَرَقَ قَالَ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ

ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے بشارت دی کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تووہ جنت میں جائے گا،میں نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا: ہاں،(اگرچہ اس نے زنا کیاہواور چوری کی ہو) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوالدرداء سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ زَاذَانَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہُ ثُمَّ كَتَمَہُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس سے علم دین کی کوئی ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ جانتا ہے،پھر وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ كَہْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ لِمَنْ شَاءَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ فَلَمْ يَرَ بَعْضُہُمْ الصَّلَاةَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ إِنْ صَلَّاہُمَا فَحَسَنٌ وَہَذَا عِنْدَہُمَا عَلَی الِاسْتِحْبَابِ

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جونفلی صلاۃ پڑھنا چاہے اس کے لیے ہردو اذان ۱؎ کے درمیان صلاۃ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-صحابہ کرام کے درمیان مغرب سے پہلے کی صلاۃ کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے،ان میں سے بعض کے نزدیک مغرب سے پہلے صلاۃ نہیں،اور صحابہ میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ مغرب سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے،۴-احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں پڑھے تو بہتر ہے،اور یہ ان دونوں کے نزدیک مستحب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ وَعَنْ الْأَعْرَجِ يُحَدِّثُونَہُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ وَمَنْ أَدْرَكَ مِنْ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبِہِ يَقُولُ أَصْحَابُنَا وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَہُمْ لِصَاحِبِ الْعُذْرِ مِثْلُ الرَّجُلِ الَّذِي يَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ أَوْ يَنْسَاہَا فَيَسْتَيْقِظُ وَيَذْكُرُ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِہَا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی،اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-ہمارے اصحاب،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،یہ حدیث ان کے نزدیک صاحب عذرکے لیے ہے مثلاً ایسے شخص کے لیے جوصلاۃ سے سوگیا اورسورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت بیدارہوا ہو یا اُسے بھول گی ہو اور وہ سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت اسے صلاۃ یاد آئی ہو۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ وَہُوَ عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ قَالَ إِنَّ مِنْ آخِرِ مَا عَہِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ اتَّخِذْ مُؤَذِّنًا لَا يَأْخُذُ عَلَی أَذَانِہِ أَجْرًا قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا أَنْ يَأْخُذَ الْمُؤَذِّنُ عَلَی الْأَذَانِ أَجْرًا وَاسْتَحَبُّوا لِلْمُؤَذِّنِ أَنْ يَحْتَسِبَ فِي أَذَانِہِ

عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سب سے آخری وصیت رسول اللہﷺ نے مجھے یہ کی کہ مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے،انہوں نے مکروہ جاناہے کہ موذن اذان پراجرت لے اور مستحب قراردیا ہے کہ مؤذن اذان اجر وثواب کی نیت سے دے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُو أَحْمَدَ وَأَبُو نُعَيْمٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ عَنْ أَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ہَذَا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اذان اور اقامت کے درمیان کی دعارد نہیں کی جاتی۔امام ترمذی کہتے ہیں: انس کی حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَی الْجُمُعَةِ كَفَّارَاتٌ لِمَا بَيْنَہُنَّ مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَنَسٍ وَحَنْظَلَةَ الْأُسَيِّدِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:روزانہ پانچ وقت کی صلاۃ اور ایک جمعہ سے دوسرا جمعہ بیچ کے گناہوں کا کفارہ ہیں،جب تک کہ کبیرہ گناہ سرزدنہ ہوں ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،انس اور حنظلہ اسیدی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ سَكْتَتَانِ حَفِظْتُہُمَا عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ وَقَالَ حَفِظْنَا سَكْتَةً فَكَتَبْنَا إِلَی أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ فَكَتَبَ أُبَيٌّ أَنْ حَفِظَ سَمُرَةُ قَالَ سَعِيدٌ فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ مَا ہَاتَانِ السَّكْتَتَانِ قَالَ إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِہِ وَإِذَا فَرَغَ مِنْ الْقِرَاءَةِ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِذَا قَرَأَ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ وَكَانَ يُعْجِبُہُ إِذَا فَرَغَ مِنْ الْقِرَاءَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّی يَتَرَادَّ إِلَيْہِ نَفَسُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ لِلْإِمَامِ أَنْ يَسْكُتَ بَعْدَمَا يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ الْقِرَاءَةِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَأَصْحَابُنَا

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (صلاۃ میں) دوسکتے ہیں جنہیں میں نے رسول اللہﷺ سے یاد کیاہے،اس پر عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا اور کہا: ہمیں توایک ہی سکتہ یاد ہے۔چنانچہ(سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) ہم نے مدینے میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لکھا،تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ نے(ٹھیک) یاد رکھا ہے۔ سعید بن أبی عروبہ کہتے ہیں:تو ہم نے قتادہ سے پوچھا: یہ دوسکتے کون کون سے ہیں؟ انہوں نے کہا: جب صلاۃ میں داخل ہو تے (پہلا اس وقت) اور جب آپ قرأت سے فارغ ہوتے،پھراس کے بعدکہااور جب ولا الضالین کہتے ۱؎ اور آپ کویہ بات اچھی لگتی تھی کہ جب آپ قرأت سے فارغ ہوں توتھوڑی دیر چپ رہیں یہاں تک کہ سانس ٹھہر جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث آئی ہے،۳-اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ وہ امام کے لیے صلاۃ شروع کرنے کے بعد اور قرأت سے فارغ ہونے کے بعد (تھوڑی دیر)چپ رہنے کو مستحب جانتے ہیں۔اوریہی احمد،اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُنِيرٍ الْمَرْوَزِيُّ قَال سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُكَبِّرُ وَہُوَ يَہْوِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ قَالُوا يُكَبِّرُ الرَّجُلُ وَہُوَ يَہْوِي لِلرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺجھُکتے وقت اللہ اکبر کہتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام اوران کے بعد کے تابعین میں سے اہل علم کا قول یہی ہے کہ رکوع اورسجدہ کے لیے جھکتے ہوئے آدمی اللہ اکبر کہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ وَہُوَ غَيْرُ كَذُوبٍ قَالَ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَرَفَعَ رَأْسَہُ مِنْ الرُّكُوعِ لَمْ يَحْنِ رَجُلٌ مِنَّا ظَہْرَہُ حَتَّی يَسْجُدَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَنَسْجُدَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَمُعَاوِيَةَ وَابْنِ مَسْعَدَةَ صَاحِبِ الْجُيُوشِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبِہِ يَقُولُ أَہْلُ الْعِلْمِ إِنَّ مَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ إِنَّمَا يَتْبَعُونَ الْإِمَامَ فِيمَا يَصْنَعُ لَا يَرْكَعُونَ إِلَّا بَعْدَ رُكُوعِہِ وَلَا يَرْفَعُونَ إِلَّا بَعْدَ رَفْعِہِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَہُمْ فِي ذَلِكَ اخْتِلَافًا

براء بن عازب رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم جب رسول اللہﷺکے پیچھے صلاۃ پڑھتے اورجب آپ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے توہم میں سے کوئی بھی شخص اپنی پیٹھ (سجدے کے لیے) اس وقت تک نہیں جھکاتاتھا جب تک کہ آپﷺ سجدے میں نہ چلے جاتے،آپ سجدے میں چلے جاتے تو ہم سجدہ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-براء رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،معاویہ،ابن مسعدہ صاحب جیوش،اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوریہی اہل علم کہتے ہیں یعنی: جو اما م کے پیچھے ہووہ ان تمام امور میں جنہیں امام کررہاہوامام کی پیروی کرے،یعنی اسے امام کے بعدکرے،امام کے رکوع میں جانے کے بعد ہی رکوع میں جائے اور اس کے سر اٹھانے کے بعدہی اپنا سر اٹھائے،ہمیں اس مسئلہ میں ان کے درمیان کسی اختلاف کاعلم نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ الْحُلْوَانِيُّ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ،عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ،عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلاَءِ،نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ. وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ،وَأَحْمَدُ،وَإِسْحَاقُ: يَرَوْنَ ہَذَا جَائِزًا فِي الْمَكْتُوبَةِ وَالتَّطَوُّعِ. وَرَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ كَامِلٍ أَبِي الْعَلاَءِ مُرْسَلاً

اس سند سے بھی کامل ابوالعلاء سے اسی طرح مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اسی طرح علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔اوربعض لوگوں نے کامل ابوالعلاء سے یہ حدیث مرسلاً روایت کی ہے،۳-شافعی،احمد،اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،ان کی رائے ہے کہ یہ فرض اور نفل دونوں میں جائز ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ عَنْ صَالِحٍ مَوْلَی التَّوْأَمَةِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَنْہَضُ فِي الصَّلَاةِ عَلَی صُدُورِ قَدَمَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ يَنْہَضَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ عَلَی صُدُورِ قَدَمَيْہِ وَخَالِدُ بْنُ إِلْيَاسَ ہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ قَالَ وَيُقَالُ خَالِدُ بْنُ إِيَاسٍ أَيْضًا وَصَالِحٌ مَوْلَی التَّوْأَمَةِ ہُوَ صَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ وَأَبُو صَالِحٍ اسْمُہُ نَبْہَانُ وَہُوَ مَدَنِيٌّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہـ نبی اکرمﷺ صلاۃ میں اپنے دونوں قدموں کے سروں یعنی دونوں پیروں کی انگلیوں پر زور دے کر اٹھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اہل علم کے نزدیک ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی حدیث پر عمل ہے۔خالد بن الیاس محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔انہیں خالد بن ایاس بھی کہاجاتاہے،لوگ اسی کو پسندکرتے ہیں کہ آدمی صلاۃ میں اپنے دونوں قدموں کے سروں پرزور دے کر(بغیربیٹھے) کھڑا ہو۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَيَحْيَی بْنُ مُوسَی وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَہُ الْيُمْنَی عَلَی رُكْبَتِہِ وَرَفَعَ إِصْبَعَہُ الَّتِي تَلِي الْإِبْہَامَ الْيُمْنَی يَدْعُو بِہَا وَيَدُہُ الْيُسْرَی عَلَی رُكْبَتِہِ بَاسِطَہَا عَلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَنُمَيْرٍ الْخُزَاعِيِّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ يَخْتَارُونَ الْإِشَارَةَ فِي التَّشَہُّدِ وَہُوَ قَوْلُ أَصْحَابِنَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃ میں بیٹھتے تواپنا دایاں ہاتھ اپنے(دائیں) گھٹنے پر رکھتے اور اپنے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کے قریب والی انگلی اٹھاتے اور اس سے دعاکرتے یعنی اشارہ کرتے،اور اپنا بایاں ہاتھ اپنے (بائیں) گھٹنے پرپھیلائے رکھتے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عبداللہ بن زبیر،نمیر خزاعی،ابوہریرہ،ابوحمید اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابن عمر کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے عبید اللہ بن عمر کی حدیث سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-صحابہ کرام اورتابعین میں سے اہل علم کا اسی پرعمل تھا،یہ لوگ تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنے کوپسندکرتے اوریہی ہمارے اصحاب کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَہِقْلُ بْنُ زِيَادٍ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ حَذْفُ السَّلَامِ سُنَّةٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ يَعْنِي أَنْ لَا يَمُدَّہُ مَدًّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّہُ أَہْلُ الْعِلْمِ وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّہُ قَالَ التَّكْبِيرُ جَزْمٌ وَالسَّلَامُ جَزْمٌ وَہِقْلٌ يُقَالُ كَانَ كَاتِبَ الْأَوْزَاعِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حذف سلام سنت ہے۔علی بن حجر بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: حذف سلام کامطلب یہ ہے کہ وہ اسے یعنی سلام کو زیادہ نہ کھینچے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہی ہے جسے اہل علم مستحب جانتے ہیں،۳-ابراہیم نخعی سے مروی ہے وہ کہتے ہیں تکبیرجزم ہے اورسلام جزم ہے(یعنی ان دونوں میں مدنہ کھینچے بلکہ وقف کرے)۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَی بْنِ خَلَّادِ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ عَنْ جَدِّہِ عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَيْنَمَا ہُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا قَالَ رِفَاعَةُ وَنَحْنُ مَعَہُ إِذْ جَاءَہُ رَجُلٌ كَالْبَدَوِيِّ فَصَلَّی فَأَخَفَّ صَلَاتَہُ ثُمَّ انْصَرَفَ فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّی ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْہِ فَقَالَ وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَفَعَلَ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلُّ ذَلِكَ يَأْتِي النَّبِيَّ ﷺ فَيُسَلِّمُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَيَقُولُ النَّبِيُّ ﷺ وَعَلَيْكَ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَخَافَ النَّاسُ وَكَبُرَ عَلَيْہِمْ أَنْ يَكُونَ مَنْ أَخَفَّ صَلَاتَہُ لَمْ يُصَلِّ فَقَالَ الرَّجُلُ فِي آخِرِ ذَلِكَ فَأَرِنِي وَعَلِّمْنِي فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أُصِيبُ وَأُخْطِئُ فَقَالَ أَجَلْ إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلَاةِ فَتَوَضَّأْ كَمَا أَمَرَكَ اللہُ ثُمَّ تَشَہَّدْ وَأَقِمْ فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ وَإِلَّا فَاحْمَدْ اللہَ وَكَبِّرْہُ وَہَلِّلْہُ ثُمَّ ارْكَعْ فَاطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ اعْتَدِلْ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ فَاعْتَدِلْ سَاجِدًا ثُمَّ اجْلِسْ فَاطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ قُمْ فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُكَ وَإِنْ انْتَقَصْتَ مِنْہُ شَيْئًا انْتَقَصْتَ مِنْ صَلَاتِكَ قَالَ وَكَانَ ہَذَا أَہْوَنَ عَلَيْہِمْ مِنْ الْأَوَّلِ أَنَّہُ مَنْ انْتَقَصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا انْتَقَصَ مِنْ صَلَاتِہِ وَلَمْ تَذْہَبْ كُلُّہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ رِفَاعَةَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوے تھے،ہم بھی آپ کے ساتھ تھے،اسی دوران ایک شخص آپ کے پاس آیا جو بدوی لگ رہا تھا،اس نے آکرصلاۃپڑھی اور بہت جلدی جلدی پڑھی،پھر پلٹ کر آیا اور نبی اکرمﷺ کو سلام کیا تونبی اکرمﷺنے فرمایا: اورتم پربھی سلام ہو،واپس جاؤ پھر سے صلاۃ پڑھو کیونکہ تم نے صلاۃنہیں پڑھی،تو اس شخص نے واپس جاکر پھرسے صلاۃ پڑھی،پھرواپس آیااورآکر اس نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے پھرفرمایا: اورتمہیں بھی سلام ہو،واپس جاؤ اورپھر سے صلاۃ پڑھو کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی،اس طرح اس نے دوبار یا تین بار کیا ہر باروہ نبی اکرمﷺ کے پاس آکرآپ کو سلام کرتا اورآپ فرماتے:تم پربھی سلام ہو،واپس جاؤ پھر سے صلاۃ پڑھو کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی،تو لو گ ڈرے اوران پر یہ بات گراں گزری کہ جس نے ہلکی صلاۃ پڑھی اس کی صلاۃ ہی نہیں ہوئی،آخر اس آدمی نے عرض کیا،آپ ہمیں (پڑھ کر) دکھادیجئے اور مجھے سکھادیجئے،میں انسان ہی تو ہوں،میں صحیح بھی کرتاہوں اورمجھ سے غلطی بھی ہوجاتی ہے،توآپ نے فرمایا: جب تم صلاۃ کے لیے کھڑے ہو نے کا ارادہ کرو تو پہلے وضوکروجیسے اللہ نے تمہیں وضو کرنے کا حکم دیا ہے،پھر اذان دو اورتکبیر کہو اوراگرتمہیں کچھ قرآن یادہو تو اسے پڑھو ورنہ الحمد للہ،اللہ أکبر اور لا إلہ إلا اللہ کہو،پھر رکوع میں جاؤ اورخوب اطمینان سے رکوع کرو،اس کے بعد بالکل سیدھے کھڑے ہوجاؤ،پھرسجدہ کرو،اورخوب اعتدال سے سجدہ کرو،پھر بیٹھواورخوب اطمینان سے بیٹھو،پھر اٹھو،جب تم نے ایساکرلیا تو تمہاری صلاۃ پوری ہوگئی اور اگرتم نے اس میں کچھ کمی کی تو تم نے اتنی ہی اپنی صلاۃمیں سے کمی کی،راوی (رفاعہ) کہتے ہیں: تویہ بات انہیں پہلے سے آسان لگی کہ جس نے اس میں سے کچھ کمی کی تو اس نے اتنی ہی اپنی صلاۃسے کمی کی،پوری صلاۃ نہیں گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-رفاعہ بن رافع کی حدیث حسن ہے،رفاعہ سے یہ حدیث دوسری سندسے بھی مروی ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اورعماربن یاسر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّی ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فَرَدَّ عَلَيْہِ السَّلَامَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ الرَّجُلُ فَصَلَّی كَمَا كَانَ صَلَّی ثُمَّ جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَسَلَّمَ عَلَيْہِ فَرَدَّ عَلَيْہِ السَّلَامَ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ حَتَّی فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مِرَارٍ فَقَالَ لَہُ الرَّجُلُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَ ہَذَا فَعَلِّمْنِي فَقَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا وَافْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَقَدْ رَوَی ابْنُ نُمَيْرٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَرِوَايَةُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ أَصَحُّ وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ قَدْ سَمِعَ مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَرَوَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ اسْمُہُ كَيْسَانُ وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ يُكْنَی أَبَا سَعْدٍ وَكَيْسَانُ عَبْدٌ كَانَ مُكَاتَبًا لِبَعْضِہِمْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مسجد میں داخل ہوئے اتنے میں ایک اور شخص بھی داخل ہوا،اس نے صلاۃ پڑھی پھرآکر نبی اکرمﷺ کو سلام کیاتوآپ نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:تم واپس جاؤ اورپھر سے صلاۃ پڑھو،کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی،چنانچہ آدمی نے واپس جاکر صلاۃ پڑھی،جیسے پہلے پڑھی تھی،پھر نبی اکرمﷺ کے پاس آکرآپ کو سلام کیا توآپ نے سلام کا جواب دیا اورفرمایا:واپس جاؤ اورپھرسے صلاۃ پڑھو،کیونکہ تم نے صلاۃ نہیں پڑھی،یہاں تک اس نے تین بار ایساکیا،پھراس آدمی نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔لہذاآپ مجھے صلاۃپڑھنا سکھا دیجئے۔آپﷺ نے فرمایا: تم جب صلاۃ کا ارادہ کرو تو اللہ اکبرکہو پھر جوتمہیں قرآن میں سے یاد ہو پڑھو،پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع کی حالت میں تمہیں خوب اطمینان ہوجائے،پھرسراٹھاؤ یہاں تک کہ اچھی طرح کھڑے ہوجاؤ،پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ خوب اطمینان سے سجدہ کرلو،پھر سراٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اسی طرح سے اپنی پوری صلاۃ میں کرو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابن نمیرنے عبیداللہ بن عمرسے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن عن أبیہ نہیں ذکرکیا ہے،۳-یحیی القطان کی روایت میں عبداللہ بن عمرعن سعید بن أبی المقبری عن أبیہ عن أبی ہریرہ ہے،اوریہ زیادہ صحیح۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ سَمِعْتُہُ وَہُوَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَحَدُہُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ يَقُولُ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالُوا مَا كُنْتَ أَقْدَمَنَا لَہُ صُحْبَةً وَلَا أَكْثَرَنَا لَہُ إِتْيَانًا قَالَ بَلَی قَالُوا فَاعْرِضْ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا وَرَفَعَ يَدَيْہِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِہِمَا مَنْكِبَيْہِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْہِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِہِمَا مَنْكِبَيْہِ ثُمَّ قَالَ اللہُ أَكْبَرُ وَرَكَعَ ثُمَّ اعْتَدَلَ فَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَہُ وَلَمْ يُقْنِعْ وَوَضَعَ يَدَيْہِ عَلَی رُكْبَتَيْہِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ وَرَفَعَ يَدَيْہِ وَاعْتَدَلَ حَتَّی يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِہِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ أَہْوَی إِلَی الْأَرْضِ سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ اللہُ أَكْبَرُ ثُمَّ جَافَی عَضُدَيْہِ عَنْ إِبْطَيْہِ وَفَتَخَ أَصَابِعَ رِجْلَيْہِ ثُمَّ ثَنَی رِجْلَہُ الْيُسْرَی وَقَعَدَ عَلَيْہَا ثُمَّ اعْتَدَلَ حَتَّی يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِہِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ أَہْوَی سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ اللہُ أَكْبَرُ ثُمَّ ثَنَی رِجْلَہُ وَقَعَدَ وَاعْتَدَلَ حَتَّی يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِہِ ثُمَّ نَہَضَ ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ حَتَّی إِذَا قَامَ مِنْ السَّجْدَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْہِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِہِمَا مَنْكِبَيْہِ كَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ثُمَّ صَنَعَ كَذَلِكَ حَتَّی كَانَتْ الرَّكْعَةُ الَّتِي تَنْقَضِي فِيہَا صَلَاتُہُ أَخَّرَ رِجْلَہُ الْيُسْرَی وَقَعَدَ عَلَی شِقِّہِ مُتَوَرِّكًا ثُمَّ سَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ وَرَفَعَ يَدَيْہِ إِذَا قَامَ مِنْ السَّجْدَتَيْنِ يَعْنِي قَامَ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ

محمدبن عمروبن عطاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوحمیدساعدی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں سنا (جب) صحابہ کرام میں سے دس لوگوں کے ساتھ تھے،ان میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے،ابوحمید رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ میں تم میں رسول اللہﷺکی صلاۃ کاسب سے زیادہ جانکارہوں،تولوگوں نے کہاکہ تمہیں نہ تو ہم سے پہلے صحبت رسول میسر ہوئی اورنہ ہی تم ہم سے زیادہ نبی اکرمﷺ کے پاس آتے جاتے تھے؟ توانہوں نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ ﷺکاطریقہ صلاۃزیادہ یادہے) اس پر لوگوں نے کہا(اگرتم زیادہ جانتے ہو)توپیش کرو،توانہوں نے کہا: رسول اللہﷺ جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تو بالکل سیدھے کھڑے ہوجاتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے،پھر جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے،پھر اللہ اکبرکہتے اوررکوع کرتے اوربالکل سیدھے ہوجاتے،نہ اپنا سربالکل نیچے جھکاتے اورنہ اوپرہی اٹھائے رکھتے اوراپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے،پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اوراپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع الیدین کرتے) اورسیدھے کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ جسم کی ہرایک ہڈی سیدھی ہوکراپنی جگہ پر لوٹ آتی پھر سجدہ کرنے کے لیے زمین کی طرف جھُکتے،پھر اللہ اکبرکہتے اوراپنے بازوؤں کو اپنی دونوں بغل سے جُدا رکھتے،اوراپنے پیروں کی انگلیاں کھُلی رکھتے،پھر اپنابایاں پیر موڑتے اوراس پر بیٹھتے اورسیدھے ہوجاتے یہاں تک کہ ہرہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آتی،اورآپ اٹھتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ دوسری رکعت سے جب (تیسری رکعت کے لیے) اٹھتے تو اللہ اکبرکہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں کرتے جیسے اس وقت کیا تھا جب آپ نے صلاۃ شروع کی تھی،پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب وہ رکعت ہوتی جس میں صلاۃ ختم ہورہی ہو تو اپنا بایاں پیر مؤخرکرتے یعنی اسے داہنی طرف دائیں پیر کے نیچے سے نکال لیتے اورسرین پر بیٹھتے،پھرسلام پھیرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوران کے قول َرَفَعَ یَدَیْہِ إِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَیْنِ (دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے) کامطلب ہے کہ جب دورکعتوں کے بعد (تیسری رکعت کے لیے)کھڑے ہوتے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ الْحُلْوَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ بِمَعْنَاہُ وَزَادَ فِيہِ أَبُو عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ ہَذَا الْحَرْفَ قَالُوا صَدَقْتَ ہَكَذَا صَلَّی النَّبِيُّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی زَادَ أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ ہَذَا الْحَرْفَ قَالُوا صَدَقْتَ ہَكَذَا صَلَّی النَّبِيُّ ﷺ

محمد بن عمروبن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو دس صحابہ کرام کی موجودگی میں جن میں ابوقتادہ بن ربعی بھی تھے،کہتے سنا،پھر انہوں نے یحییٰ بن سعید کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکرکی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث میں ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے عبدالحمید بن جعفرکے واسطے سے اس لفظ کا اضافہ کیا ہے کہ (نبی اکرمﷺکی صلاۃ والی اس صفت وکیفیت کوسننے والے)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہاکہ آپ نے صحیح کہا،نبی اکرمﷺ اسی طرح صلاۃ پڑھتے تھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ أُنَيْسِ بْنِ أَبِي يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ امْتَرَی رَجُلٌ مِنْ بَنِي خُدْرَةَ وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی فَقَالَ الْخُدْرِيُّ ہُوَ مَسْجِدُ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَقَالَ الْآخَرُ ہُوَ مَسْجِدُ قُبَاءٍ فَأَتَيَا رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي ذَلِكَ فَقَالَ ہُوَ ہَذَا يَعْنِي مَسْجِدَہُ وَفِي ذَلِكَ خَيْرٌ كَثِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ سَأَلْتُ يَحْيَی بْنَ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَحْيَی الْأَسْلَمِيِّ فَقَالَ لَمْ يَكُنْ بِہِ بَأْسٌ وَأَخُوہُ أُنَيْسُ بْنُ أَبِي يَحْيَی أَثْبَتُ مِنْہُ

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی خدرہ کے ایک شخص اور بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص کے درمیان بحث ہو گئی کہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ۱؎ تو خدری نے کہا: وہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد (یعنی مسجد نبوی) ہے،دوسرے نے کہا: وہ مسجد قباء ہے؛ چنانچہ وہ دونوں اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: ’’وہ یہ مسجد ہے،یعنی مسجد نبوی اور اُس میں (یعنی مسجد قبا میں) بھی بہت خیر وبرکت ہے‘‘ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-علی بن عبداللہ بن المدینی نے یحییٰ بن سعید القطان سے (سند میں موجود راوی) محمد بن ابی یحییٰ اسلمی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اُن میں کوئی قابل گرفت بات نہیں ہے،اور اُن کے بھائی انیس بن ابی یحییٰ ان سے زیادہ ثقہ ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ،حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ تَأْتُوہَا وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ،وَلَكِنْ ائْتُوہَا وَأَنْتُمْ تَمْشُونَ،وَعَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا،وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ،وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ،وَأَبِي سَعِيدٍ،وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ،وَجَابِرٍ،وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْمَشْيِ إِلَی الْمَسْجِدِ: فَمِنْہُمْ مَنْ رَأَی الإِسْرَاعَ إِذَا خَافَ فَوْتَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَی،حَتَّی ذُكِرَ عَنْ بَعْضِہِمْ: أَنَّہُ كَانَ يُہَرْوِلُ إِلَی الصَّلاَةِ،وَمِنْہُمْ مَنْ كَرِہَ الإِسْرَاعَ،وَاخْتَارَ أَنْ يَمْشِيَ عَلَی تُؤَدَةٍ وَوَقَارٍ. وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ،وَقَالاَ: الْعَمَلُ عَلَی حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ،و قَالَ إِسْحَاقُ إِنْ خَافَ فَوْتَ التَّكْبِيرَةِ الأُولَی،فَلاَ بَأْسَ أَنْ يُسْرِعَ فِي الْمَشْيِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب صلاۃ کی تکبیر(اقامت)کہہ دی جائے تو (صلاۃمیں سے) اس کی طرف دوڑ کر مت آؤ،بلکہ چلتے ہوئے اس حال میں آؤکہ تم پر سکینت طاری ہو،توجوپاؤاسے پڑھو اورجو چھوٹ جائے،اُسے پوری کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں ابوقتادہ،ابی بن کعب،ابوسعید،زید بن ثابت،جابر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-اہل علم کا مسجد کی طرف چل کر جانے میں اختلاف ہے:ان میں سے بعض کی رائے ہے کہ جب تکبیر تحریمہ کے فوت ہو نے کاڈرہو،وہ دوڑییہاں تک کہ بعض لوگوں کے بارے میں مذکورہے کہ وہ صلاۃ کے لیے قدرے دوڑکرجاتے تھے اوربعض لوگوں نے دوڑکر جانے کومکروہ قراردیاہے اورآہستگی ووقار سے جانے کو پسند کیا ہے۔یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں،ان دونوں کا کہنا ہے کہعمل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ہے۔اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر تکبیر تحریمہ کے چھوٹ جانے کاڈر ہوتودوڑ کر جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ بِمَعْنَاہُ. ہَكَذَا قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ

اس سندسے بھی ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی مفہوم کے ساتھ مروی ہے جیسے ابوسلمہ کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ اسی طرح کہاہے عبدالرزاق نے وہ روایت کرتے ہیں کہ سعیدبن المسیب سے اورسعیدبن مسیب نے بواسطہ ابوہریرہ سے اورابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اوریہ یزید بن زریع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

اس سند سے بھی نبی اکرمﷺسے اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی عَلَی حَصِيرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَّا أَنَّ قَوْمًا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ اخْتَارُوا الصَّلَاةَ عَلَی الْأَرْضِ اسْتِحْبَابًا وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُہُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے چٹائی پرصلاۃ پڑھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں انس اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر اہل علم کا عمل اسی پرہے،البتہ اہل علم کی ایک جماعت نے زمین پر صلاۃ پڑھنے کو استحباباً پسندکیا ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی إِلَی بَعِيرِہِ أَوْ رَاحِلَتِہِ وَكَانَ يُصَلِّي عَلَی رَاحِلَتِہِ حَيْثُ مَا تَوَجَّہَتْ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالصَّلَاةِ إِلَی الْبَعِيرِ بَأْسًا أَنْ يَسْتَتِرَ بِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے اونٹ یا اپنی سواری کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھی،نیز اپنی سواری پر صلاۃ پڑھتے رہتے چاہے وہ جس طرف متوجہ ہوتی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہی بعض اہل علم کا قول ہے کہ اونٹ کو سترہ بناکر اس کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَہَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ أَبَانَ بْنِ يَزِيدَ الْعَطَّارِ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ الْعُقَيْلِيِّ عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ رَجُلٍ مِنْہُمْ قَالَ كَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ يَأْتِينَا فِي مُصَلَّانَا يَتَحَدَّثُ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ يَوْمًا فَقُلْنَا لَہُ تَقَدَّمْ فَقَالَ لِيَتَقَدَّمْ بَعْضُكُمْ حَتَّی أُحَدِّثَكُمْ لِمَ لَا أَتَقَدَّمُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَا يَؤُمَّہُمْ وَلْيَؤُمَّہُمْ رَجُلٌ مِنْہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالُوا صَاحِبُ الْمَنْزِلِ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ مِنْ الزَّائِرِ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَذِنَ لَہُ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِہِ و قَالَ إِسْحَقُ بِحَدِيثِ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ وَشَدَّدَ فِي أَنْ لَا يُصَلِّيَ أَحَدٌ بِصَاحِبِ الْمَنْزِلِ وَإِنْ أَذِنَ لَہُ صَاحِبُ الْمَنْزِلِ قَالَ وَكَذَلِكَ فِي الْمَسْجِدِ لَا يُصَلِّي بِہِمْ فِي الْمَسْجِدِ إِذَا زَارَہُمْ يَقُولُ لِيُصَلِّ بِہِمْ رَجُلٌ مِنْہُمْ

ابوعطیہ عقیلی کہتے ہیں: مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہماری صلاۃپڑھنے کی جگہ میں آتے اورحدیث بیان کرتے تھے توایک دن صلاۃ کا وقت ہوا تو ہم نے ان سے کہاکہ آپ آگے بڑھئے (اورصلاۃپڑھائیے)۔انہوں نے کہا:تمہیں میں سے کوئی آگے بڑھ کر صلاۃپڑھائے یہاں تک کہ میں تمہیں بتاؤں کہ میں کیوں نہیں آگے بڑھتا،میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سناہے: جو کسی قوم کی زیارت کوجائے تو ان کی امامت نہ کرے بلکہ ان کی امامت ان ہی میں سے کسی آدمی کوکرنی چاہئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ صاحب خانہ زیارت کرنے والے سے زیادہ امامت کا حق دار ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب اسے اجازت دے دی جائے تواس کے صلاۃ پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے،اسحاق بن راہویہ نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مطابق کہاہے اور انہوں نے اس مسئلہ میں سختی برتی ہے کہ صاحب خانہ کو کوئی اور صلاۃ نہ پڑھائے اگرچہ صاحب خانہ اسے اجازت دیدے،نیزوہ کہتے ہیں: اسی طرح کا حکم مسجد کے بارے میں بھی ہے کہ وہ جب ان کی زیارت کے لیے آیاہوانہیں میں سے کسی آدمی کوان کی صلاۃ پڑھانی چاہئے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّہُ قَالَ خَرَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ فَرَسٍ فَجُحِشَ فَصَلَّی بِنَا قَاعِدًا فَصَلَّيْنَا مَعَہُ قُعُودًا ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ إِنَّمَا الْإِمَامُ أَوْ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِہِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَإِذَا صَلَّی قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا أَجْمَعُونَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ وَمُعَاوِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَّ عَنْ فَرَسٍ فَجُحِشَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ مِنْہُمْ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَأَبُو ہُرَيْرَةَ وَغَيْرُہُمْ وَبِہَذَا الْحَدِيثِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا صَلَّی الْإِمَامُ جَالِسًا لَمْ يُصَلِّ مَنْ خَلْفَہُ إِلَّا قِيَامًا فَإِنْ صَلَّوْا قُعُودًا لَمْ تُجْزِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ گھوڑے سے گرپڑے،آپ کوخراش آگئی ۱؎ توآپ نے ہمیں بیٹھ کر صلاۃ پڑھائی،ہم نے بھی آپ کے ساتھ بیٹھ کرصلاۃ پڑھی۔پھرآپ نے ہماری طرف پلٹکر فرمایا: امام ہوتا ہی اس لیے ہے یا امام بنایاہی اس لیے گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے،جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو،اور جب وہ رکوع کرے،توتم بھی رکوع کرو،اور جب وہ سراٹھائے توتم بھی سراٹھاؤ،اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے توتم ربنا لک الحمدکہو،اور جب وہ سجدہ کرے توتم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کرصلاۃ پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کرصلاۃ پڑھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابوہریرہ،جابر،ابن عمر اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض صحابہ کرام جن میں میں جابر بن عبداللہ،اسید بن حضیر اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اوریہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی ہے،۴-بعض اہل علم کاکہنا ہے کہ جب امام بیٹھ کرپڑھے تو مقتدی کھڑے ہوکر ہی پڑھیں،اگر انہوں نے بیٹھ کر پڑھی تویہ صلاۃ انہیں کافی نہ ہوگی،یہ سفیان ثوری،مالک بن انس،ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ رَجُلٍ عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ وُضُوءَہُ ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَی الْمَسْجِدِ فَلَا يُشَبِّكَنَّ بَيْنَ أَصَابِعِہِ فَإِنَّہُ فِي صَلَاةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ مِثْلَ حَدِيثِ اللَّيْثِ وَرَوَی شَرِيكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ شَرِيكٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح سے وضوکرے اور پھر مسجد کے ارادے سے نکلے تو وہ تشبیک نہ کرے (یعنی ایک ہاتھ کی اگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست نہ کرے) کیونکہ وہ صلاۃ میں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-کعب بن عجرہ کی حدیث کو ابن عجلان سے کئی لوگوں نے لیث والی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۲-اورشریک نے بطریق: مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ عَنْ أَبِیہِ،عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ،عَنِ النَّبِیِّ ﷺ اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے اورشریک کی روایت غیرمحفوظ ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ وَہُوَ ابْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِقَتْلِ الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ الْحَيَّةُ وَالْعَقْرَبُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَكَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ قَتْلَ الْحَيَّةِ وَالْعَقْرَبِ فِي الصَّلَاةِ و قَالَ إِبْرَاہِيمُ إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دونوں کالوں کویعنی سانپ اوربچھوکو صلاۃ میں مارنے کا حکم دیاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اور ابورافع رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پرہے،اوریہی احمداور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴-اوربعض اہل علم نے صلاۃ میں سانپ اور بچھوکے مارنے کو مکروہ کہاہے،ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ صلاۃ خودایک شغل ہے(اوریہ چیز اس میں مخل ہوگی) پہلا قول (ہی) راجح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ حَتَّی انْتَفَخَتْ قَدَمَاہُ فَقِيلَ لَہُ أَتَتَكَلَّفُ ہَذَا وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صلاۃ پڑھی یہاں تک کہ آپ کے پیرسوج گئے توآپ سے عرض کیاگیا: کیا آپ ایسی زحمت کرتے ہیں حالاں کہ آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دئے گئے ہیں؟ توآپ نے فرمایا: کیا میں شکرگزار بندہ نہ بنوں؟ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللہِ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ سَعْدِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ عَبْدِ اللہِ التِّرْمِذِيِّ حَدِيثًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: فجر کی دونوں رکعتیں دنیا اور دنیا میں جوکچھ ہے ان سب سے بہتر ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابن عمر،اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُصَيْنِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ عَنْ يَسَارٍ مَوْلَی ابْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلَّا سَجْدَتَيْنِ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ إِنَّمَا يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَحَفْصَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَی وَرَوَی عَنْہُ غَيْرُ وَاحِدٍ وَہُوَ مَا اجْتَمَعَ عَلَيْہِ أَہْلُ الْعِلْمِ كَرِہُوا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَّا رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’طلوع فجر کے بعد سوائے دو رکعت (سنت فجر) کے کوئی صلاۃ نہیں‘‘۔اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ طلوعِ فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے دو رکعت سنت کے اور کوئی صلاۃ نہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر کی حدیث غریب ہے،اسے ہم صرف قدامہ بن موسیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں اور ان سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور حفصہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں،۳-اور یہی قول ہے جس پر اہل علم کا اجماع ہے: انہوں نے طلوع فجر کے بعد (فرض سے پہلے) سوائے فجر کی دونوں سنتوں کے کوئی اور صلاۃ پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللہِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَبِلَالٍ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو بِشْرٍ اسْمُہُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ وَاسْمُ أَبِي وَحْشِيَّةَ إِيَاسٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے افضل صیام اللہ کے مہینے ۱؎ محرم کے صیام ہیں اور فرض صلاۃ کے بعد سب سے افضل صلاۃ رات کی صلاۃ (تہجد) ہے۔ اس باب میں جابر،بلال اورابو امامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوبشر کانام جعفر بن ابی وحشیہ ہے اور ابووحشیہ کانام ایاس ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ قَالَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ أَنْصِتْ فَقَدْ لَغَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَی وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ كَرِہُوا لِلرَّجُلِ أَنْ يَتَكَلَّمَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ وَقَالُوا إِنْ تَكَلَّمَ غَيْرُہُ فَلَا يُنْكِرْ عَلَيْہِ إِلَّا بِالْإِشَارَةِ وَاخْتَلَفُوا فِي رَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَرَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي رَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَكَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِہِمْ ذَلِكَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران کسی سے کہا: چُپ رہو تو اس نے لغوبات کی یااس نے اپناجمعہ لغوکرلیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن ابی اوفیٰ اورجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اسی پرعمل ہے،علماء نے آدمی کے لیے خطبہ کے دوران گفتگوکرنامکروہ جاناہے اورکہا ہے کہ اگر کوئی دوسرا گفتگو کرے تو اسے بھی منع نہ کر ے سوائے اشارے کے،۴-البتہ دوران خطبہ سلام کے جواب دینے اورچھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنے کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض اہل علم نے دوران خطبہ سلام کا جواب دینے اورچھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنے کی اجازت دی ہے،احمد اور اسحاق بن راہویہ کایہی قول ہے اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ قراردیا ہے،اوریہیشافعی کاقول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ قَالَ سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيَّ وَبِشْرُ بْنُ مَرْوَانَ يَخْطُبُ فَرَفَعَ يَدَيْہِ فِي الدُّعَاءِ فَقَالَ عُمَارَةُ قَبَّحَ اللہُ ہَاتَيْنِ الْيُدَيَّتَيْنِ الْقُصَيَّرَتَيْنِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَمَا يَزِيدُ عَلَی أَنْ يَقُولَ ہَكَذَا وَأَشَارَ ہُشَيْمٌ بِالسَّبَّابَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

حصین کہتے ہیں کہ بشربن مروان خطبہ دے رہے تھے،انہوں نے دعا ۱؎ کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے،تو میں نے عمارہ بن رویبہ کوکہتے سنا: اللہ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کوغارت کرے،میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھاآپ صرف اس طرح کرتے تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں،اورہشیم نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ،أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ،وَہُوَ ابْنُ زَاذَانَ،عَنْ ابْنِ سِيرِينَ،عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ: أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يُخْرِجُ الأَبْكَارَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضَ فِي الْعِيدَيْنِ،فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الْمُصَلَّی،وَيَشْہَدْنَ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ،قَالَتْ إِحْدَاہُنَّ: يَا رَسُولَ اللہِ! إِنْ لَمْ يَكُنْ لَہَا جِلْبَابٌ؟،قَالَ: فَلْتُعِرْہَا أُخْتُہَا مِنْ جَلاَبِيبِہَا

ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عیدین میں کنواری لڑکیوں،دوشیزاؤں،پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعامیں شریک رہتیں۔ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہوتوکیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی بہن کو چاہئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دے دے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ،عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ،عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ،عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ: بِنَحْوِہِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَحَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ،وَرَخَّصَ لِلنِّسَاءِ فِي الْخُرُوجِ إِلَی الْعِيدَيْنِ. وَكَرِہَہُ بَعْضُہُمْ. وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ: أَكْرَہُ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ،فَإِنْ أَبَتِ الْمَرْأَةُ إِلاَّ أَنْ تَخْرُجَ فَلْيَأْذَنْ لَہَا زَوْجُہَا أَنْ تَخْرُجَ فِي أَطْمَارِہَا الْخُلْقَانِ،وَلاَ تَتَزَيَّنْ،فَإِنْ أَبَتْ أَنْ تَخْرُجَ كَذَلِكَ فَلِلزَّوْجِ أَنْ يَمْنَعَہَا عَنْ الْخُرُوجِ. وَيُرْوَی عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ: لَوْ رَأَی رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَہُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ. وَيُرْوَی عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ أَنَّہُ كَرِہَ الْيَوْمَ الْخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ إِلَی الْعِيدِ

اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور عیدین کے لیے عورتوں کو نکلنے کی رخصت دی ہے،اور بعض نے اسے مکروہ جانا ہے،۴-عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ آج کل میں عیدین میں عورتوں کے جانے کو مکروہ سمجھتاہوں،اگر کوئی عورت نہ مانے اورنکلنے ہی پر بضد ہو توچاہئے کہ اس کا شوہر اسے پرانے میلے کیڑوں میں نکلنے کی اجازت دے اور وہ زینت نہ کرے،اوراگر وہ اس طرح نکلنے پرراضی نہ ہو تو پھر شوہرکو حق ہے کہ وہ اسے نکلنے سے روک دے،۵-عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ ان نئی چیزوں کو دیکھ لیتے جو اب عورتوں نے نکال رکھی ہیں توانہیں مسجد جانے سے منع فرمادیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیاگیا تھا،۶-سفیان ثوری سے بھی نقل کیاگیا ہے کہ آج کل کے دور میں انہوں نے بھی عورتوں کا عید کے لیے نکلنا مکروہ قراردیا ۱؎۔ وضاحت ۱؎ اس بارے میں مروی احادیث کے الفاظ سے عورتوں کو عیدگاہ جانے کی سخت تاکید معلوم ہوتی ہے،ایک روایت میں تواَمَرَنا(ہم کو حکم دیا)کا لفظ ہے،اورایک میں اُمِرْنا(ہم کوحکم دیاگیا)کالفظ ہے،نیز حج اوردیگردنیاوی مجالس میں نکلنے کے سبھی قائل ہیں تو عیدگاہ کے لیے نکلنے کی یہ سارے تاویلات بے کارہیں،ہاں جوشرائط ہیں ان کی پابندی سختی سے کی جائے،نہ کہ مسئلہ اپنی طرف سے بدل دیاجائے،ابن حجرعائشہ رضی اللہ عنہا کے قول پرفرماتے ہیں: نہ تورسول اکرم ﷺ نے دیکھا،نہ ہی منع فرمایا،یعنی عائشہ بھی روک دینے کی بات نہ کرسکیں،کیسے کرتیں؟ بات دینی مسئلہ کی تھی جس کا حق صرف اللہ اوررسول کو ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَافَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ فَكَانُوا يُصَلُّونَ الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ لَا يُصَلُّونَ قَبْلَہَا وَلَا بَعْدَہَا و قَالَ عَبْدُ اللہِ لَوْ كُنْتُ مُصَلِّيًا قَبْلَہَا أَوْ بَعْدَہَا لَأَتْمَمْتُہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سُلَيْمٍ مِثْلَ ہَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ سُرَاقَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَطَوَّعُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَبَعْدَہَا وَقَدْ صَحَّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَقْصُرُ فِي السَّفَرِ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ صَدْرًا مِنْ خِلَافَتِہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا كَانَتْ تُتِمُّ الصَّلَاةَ فِي السَّفَرِ وَالْعَمَلُ عَلَی مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَصْحَابِہِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ إِلَّا أَنَّ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ التَّقْصِيرُ رُخْصَةٌ لَہُ فِي السَّفَرِ فَإِنْ أَتَمَّ الصَّلَاةَ أَجْزَأَ عَنْہُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ،ابوبکر،عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفر کیا،یہ لوگ ظہر اور عصر دو دو رکعت پڑھتے تھے۔نہ اس سے پہلے کوئی صلاۃ پڑھتے اور نہ اس کے بعد۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اگر میں اس سے پہلے یا اس کے بعد(سنت) صلاۃ پڑھتا تو میں ا نہی (فرائض) کو پوری پڑھتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے اس طرح یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ حدیث بطریق:عَنْ عُبَیْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ آلِ سُرَاقَۃَ عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ بھی مروی ہے،۳-اور عطیہ عوفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سفرمیں صلاۃ سے پہلے اور اس کے بعد نفل پڑھتے تھے ۱؎،۴-اس باب میں عمر،علی،ابن عباس،انس،عمران بن حصین اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۵-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ اورابوبکروعمر سفر میں قصر کرتے تھے اور عثمان بھی اپنی خلافت کے شروع میں قصرکرتے تھے،۶-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے،۷-اورعائشہ سے مروی ہے کہ وہ سفر میں صلاۃ پوری پڑھتی تھیں ۲؎،۸-اورعمل اسی پرہے جو نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام سے مروی ہے،یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،البتہ شافعی کہتے ہیں کہ سفرمیں قصر کرنا رخصت ہے،اگر کوئی پوری صلاۃ پڑھ لے تو جائز ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ سُئِلَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ عَنْ صَلَاةِ الْمُسَافِرِ فَقَالَ حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ عُمَرَ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ عُثْمَانَ سِتَّ سِنِينَ مِنْ خِلَافَتِہِ أَوْ ثَمَانِيَ ثَمَانِي فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

ابونضرہ سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مسافر کی صلاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا تو آپ نے دوہی رکعتیں پڑھیں،اورمیں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں،اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں،اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے ابتدائی چھ یاآٹھ سالوں میں کیا تو انہوں نے بھی دوہی رکعتیں پڑھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَإِبْرَاہِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ سَمِعَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الظُّہْرَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَبِذِي الْحُلَيْفَةِ الْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دورکعتیں پڑھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَی مَكَّةَ لَا يَخَافُ إِلَّا اللہَ رَبَّ الْعَالَمِينَ فَصَلَّی رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے،آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔(اس کے باوجود) آپ نے دوہی رکعتیں پڑھیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی صَلَاةَ الْخَوْفِ بِإِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةً وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَی مُوَاجِہَةُ الْعَدُوِّ ثُمَّ انْصَرَفُوا فَقَامُوا فِي مَقَامِ أُولَئِكَ وَجَاءَ أُولَئِكَ فَصَلَّی بِہِمْ رَكْعَةً أُخْرَی ثُمَّ سَلَّمَ عَلَيْہِمْ فَقَامَ ہَؤُلَاءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَہُمْ وَقَامَ ہَؤُلَاءِ فَقَضَوْا رَكْعَتَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی مُوسَی بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مِثْلَ ہَذَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَحُذَيْفَةَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَسَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَأَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيِّ وَاسْمُہُ زَيْدُ بْنُ صَامِتٍ وَأَبِي بَكْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ ذَہَبَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ إِلَی حَدِيثِ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ و قَالَ أَحْمَدُ قَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ صَلَاةُ الْخَوْفِ عَلَی أَوْجُہٍ وَمَا أَعْلَمُ فِي ہَذَا الْبَابِ إِلَّا حَدِيثًا صَحِيحًا وَأَخْتَارُ حَدِيثَ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَہَكَذَا قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ قَالَ ثَبَتَتْ الرِّوَايَاتُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ وَرَأَی أَنَّ كُلَّ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ فَہُوَ جَائِزٌ وَہَذَا عَلَی قَدْرِ الْخَوْفِ قَالَ إِسْحَقُ وَلَسْنَا نَخْتَارُ حَدِيثَ سَہْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ عَلَی غَيْرِہِ مِنْ الرِّوَايَاتِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دوگروہوں میں سے ایک گروہ کوصلاۃِ خوف ایک رکعت پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا،پھر یہ لوگ پلٹے،اور ان لوگوں کی جگہ پرجودشمن کے مقابل میں تھے جاکرکھڑے ہوگئے اورجولوگ دشمن کے مقابل میں تھے وہ آئے تو آپﷺنے انہیں دوسری رکعت پڑھائی پھرآپ نے سلام پھیر دیا،پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اورانہوں نے اپنی ایک رکعت پوری کی۔اور (جو ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) وہ کھڑے ہوئے اورانہوں نے بھی اپنی ایک رکعت پوری کی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اور موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-اس باب میں جابر،حذیفہ،زید بن ثابت،ابن عباس،ابوہریرہ،ابن مسعود،سہل بن ابی حثمہ،ابوعیاش زرقی (ان کانام زید بن صامت ہے) اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-مالک بن انس صلاۃِ خوف کے بارے میں سہل بن ابی حثمہ کی حدیث کی طرف گئے ہیں ۱؎ اور یہی شافعی کابھی قول ہے،۵-احمد کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے صلاۃِ خوف کئی طریقوں سے مروی ہے،اور میں اس باب میں صرف ایک ہی صحیح حدیث جانتاہوں،مجھے سہل بن ابی حثمہ کی حدیث پسند ہے،۶-اسی طرح اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ نے بھی کہاہے۔وہ کہتے ہیں کہ صلاۃِخوف کے بارے میں نبی اکرمﷺ سے روایات ثابت ہیں،ان کا خیال ہے کہ صلاۃِ خوف کے بارے میں جو کچھ بھی نبی اکرمﷺ سے مروی ہے،وہ سب جائز ہے،اور یہ ساری صورتیں خوف کی مقدار پر مبنی ہیں۔اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ ہم سہل بن ابی حثمہ کی حدیث کو دوسری حدیثوں پر فوقیت نہیں دیتے۔

قَالَ قُلْتُ لِقُتَيْبَةَ بْنِ سَعِيدٍ حَدَّثَكُمْ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ شَرَاحِيلَ عَنْ سُمَيِّ بْنِ قَيْسٍ عَنْ سُمَيْرٍ عَنْ أَبْيَضَ بْنِ حَمَّالٍ أَنَّہُ وَفَدَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَاسْتَقْطَعَہُ الْمِلْحَ فَقَطَعَ لَہُ فَلَمَّا أَنْ وَلَّی قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْمَجْلِسِ أَتَدْرِي مَا قَطَعْتَ لَہُ إِنَّمَا قَطَعْتَ لَہُ الْمَاءَ الْعِدَّ قَالَ فَانْتَزَعَہُ مِنْہُ قَالَ وَسَأَلَہُ عَمَّا يُحْمَی مِنْ الْأَرَاكِ قَالَ مَا لَمْ تَنَلْہُ خِفَافُ الْإِبِلِ فَأَقَرَّ بِہِ قُتَيْبَةُ وَقَالَ نَعَمْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ الْمَأْرِبُ نَاحِيَةٌ مِنْ الْيَمَنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبْيَضَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي الْقَطَائِعِ يَرَوْنَ جَائِزًا أَنْ يُقْطِعَ الْإِمَامُ لِمَنْ رَأَی ذَلِكَ

ابیض بن حمال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے جاگیر میں نمک کی کان مانگی تو آپ نے انہیں دے دی،لیکن جب وہ پیٹھ پھیرکرواپس جانے لگے تو مجلس میں موجودایک آدمی نے عرض کیا: جانتے ہیں کہ آپ نے جاگیر میں اُسے کیا دیا ہے؟ آپ نے اُسے جاگیرمیں ایسا پانی دیا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا ہے۔(اس سے برابر نمک نکلتارہے گا) تو آپ نے اس سے اُسے واپس لے لیا،اس نے آپ سے پوچھا: پیلو کے درختوں کی کون سی جگہ(بطور رمنہ) گھیری جائے؟ آپ نے فرمایا: جس زمین تک اونٹوں کے پاؤں نہ پہنچے (جوآبادی اورچراگاہ سے کافی دور ہوں)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابیض کی حدیث غریب ہے،۲-میں نے قتیبہ سے پوچھا کیا آپ سے محمد بن یحییٰ بن قیس مأربی نے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اقرار کیا اور کہا: ہاں،۳-ہم سے محمدبن یحییٰ ابن ابی عمرو نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن یحییٰ بن قیس مأربی نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی،۴-مأرب یمن کاایک خطہ ہے اور اسی کی طرف محمد بن یحییٰ مأربی منسوب ہیں،۵-اس باب میں وائل اوراسماء بنت ابوبکر سے بھی روایت ہے،۶-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کاجاگیر کے سلسلے میں اسی حدیث پرعمل ہے،یہ لوگ امام کے لیے جائزسمجھتے ہیں کہ وہ جس کے لیے مناسب سمجھے اسے جاگیر دے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكٍ قَال سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَقْطَعَہُ أَرْضًا بِحَضْرَمَوْتَ قَالَ مَحْمُودٌ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ عَنْ شُعْبَةَ وَزَادَ فِيہِ وَبَعَثَ لَہُ مُعَاوِيَةَ لِيُقْطِعَہَا إِيَّاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے انہیں حضرموت میں ایک زمین بطور جاگیر دی۔آپﷺ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کوبھیجا تاکہ وہ زمین انہیں بطورجاگیر دے دیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا زَنَتْ أَمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيَجْلِدْہَا ثَلَاثًا بِكِتَابِ اللہِ فَإِنْ عَادَتْ فَلْيَبِعْہَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعَرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَشِبْلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَالِكٍ الْأَوْسِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ رَأَوْا أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ الْحَدَّ عَلَی مَمْلُوكِہِ دُونَ السُّلْطَانِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ بَعْضُہُمْ يُرْفَعُ إِلَی السُّلْطَانِ وَلَا يُقِيمُ الْحَدَّ ہُوَ بِنَفْسِہِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب تم میں سے کسی کی لونڈی زناکرے تو اللہ کی کتاب کے(حکم کے) مطابق تین باراسے کوڑے لگائو ۱؎ اگروہ پھربھی(یعنی چوتھی بار) زناکرے تو اسے فروخت کردو،چاہے قیمت میں بال کی رسی ہی ملے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے،۳-اس باب میں علی،ابوہریرہ،زید بن خالد رضی اللہ عنہم سے اورشبل سے بواسطہ عبداللہ بن مالک اوسی بھی احادیث آئی ہیں،۴-صحابہ میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ سلطان(حاکم) کے بجائے آدمی اپنے مملوک(غلام) پر خودحدنافذ کرے،احمداوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵-بعض لوگ کہتے ہیں: سلطان(حاکم) کے پاس مقدمہ پیش کیاجائے گا،کوئی آدمی بذات خود حد نافذنہیں کرے گا،لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ خَطَبَ عَلِيٌّ فَقَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَی أَرِقَّائِكُمْ مَنْ أَحْصَنَ مِنْہُمْ وَمَنْ لَمْ يُحْصِنْ وَإِنَّ أَمَةً لِرَسُولِ اللہِ ﷺ زَنَتْ فَأَمَرَنِي أَنْ أَجْلِدَہَا فَأَتَيْتُہَا فَإِذَا ہِيَ حَدِيثَةُ عَہْدٍ بِنِفَاسٍ فَخَشِيتُ إِنْ أَنَا جَلَدْتُہَا أَنْ أَقْتُلَہَا أَوْ قَالَ تَمُوتَ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ فَقَالَ أَحْسَنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالسُّدِّيُّ اسْمُہُ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَہُوَ مِنْ التَّابِعِينَ قَدْ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَرَأَی حُسَيْنَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران کہا: لوگو! اپنے غلاموں اورلونڈیوں پر حد قائم کرو،جس کی شادی ہوئی ہو اس پر بھی اور جس کی شادی نہ ہوئی ہو اس پربھی،رسول اللہ ﷺ کی ایک لونڈی نے زنا کیا،چنانچہ آپ نے مجھے کوڑے لگانے کاحکم دیا،میں اس کے پاس آیا تو (دیکھا) اس کو کچھ ہی دن پہلے نفاس کاخون آیاتھا ۱؎ لہذا مجھے اندیشہ ہواکہ اگرمیں نے اسے کوڑے لگائے تو کہیں میں اسے قتل نہ کر بیٹھوں،یا انہوں نے کہا: کہیں وہ مر نہ جائے ۲؎،چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور آ پ سے اسے بیان کیا،تو آپ نے فرمایا: تم نے اچھاکیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَہْدَلَةَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوہُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَالشَّرِيدِ وَشُرَحْبِيلَ بْنِ أَوْسٍ وَجَرِيرٍ وَأَبِي الرَّمَدِ الْبَلَوِيِّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ مُعَاوِيَةَ ہَكَذَا رَوَی الثَّوْرِيُّ أَيْضًا عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی ابْنُ جُرَيْجٍ وَمَعْمَرٌ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَإِنَّمَا كَانَ ہَذَا فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ ثُمَّ نُسِخَ بَعْدُ ہَكَذَا رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوہُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوہُ قَالَ ثُمَّ أُتِيَ النَّبِيُّ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الرَّابِعَةِ فَضَرَبَہُ وَلَمْ يَقْتُلْہُ وَكَذَلِكَ رَوَی الزُّہْرِيُّ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا قَالَ فَرُفِعَ الْقَتْلُ وَكَانَتْ رُخْصَةً وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا نَعْلَمُ بَيْنَہُمْ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ فِي الْقَدِيمِ وَالْحَدِيثِ وَمِمَّا يُقَوِّي ہَذَا مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ أَوْجُہٍ كَثِيرَةٍ أَنَّہُ قَالَ لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللہِ إِلَّا بِإِحْدَی ثَلَاثٍ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالثَّيِّبُ الزَّانِي وَالتَّارِكُ لِدِينِہِ

معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشراب پئے اسے کوڑے لگاؤ،پھراگرچوتھی بار پئے تواسے قتل کردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اسی طرح ثوری نے بطریق: عاصم،عن أبی صالح،عن معاویۃ،عن النبی ﷺروایت کیا ہے،اور ابن جریج اور معمر نے بطریق: سہیل بن أبی صالح،عن أبیہ أبی صالح،عن أبی ہریرۃ،عن النبی ﷺ روایت کیا ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سناہے کہ ابوصالح کی حدیث جو بواسطہ معاویہ نبی اکرمﷺ سے اس سلسلہ میں آئی ہے،یہ ابوصالح کی اس حدیث سے جو بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ،شرید،شرحبیل بن اوس،جریر،ابورمد بلوی اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا ۱؎ پھر اس کے بعدمنسوخ ہوگیا،اسی طرح محمدبن اسحاق نے محمد بن المنکدر،عن جابر کے طریق سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺفرمایا: جوشراب پئے اسے کوڑے لگاؤ،پھر اگرچوتھی بار پئے تواسے قتل کردو،پھراس کے بعدنبی اکرمﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایاگیا جس نے چوتھی بارشراب پی تھی،توآپ نے اسے کوڑے لگائے اورقتل نہیں کیا،اسی طرح زہری نے قبیصہ بن ذؤیب سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے،۵-چنانچہ قتل کا حکم منسوخ ہوگیا،پہلے اس کی رخصت تھی،عام اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے،میرے علم میں اس مسئلہ میں ان کے درمیان نہ پہلے اختلاف تھا نہ اب اختلاف ہے،اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جونبی اکرمﷺ سے بے شمار سندوں سے آئی ہے کہ آپ نے فرمایا: جومسلمان شہادت دیتاہو کہ اللہ کے سواکوئی معبودبرحق نہیں اورمیں اللہ کا رسول ہوں تواس کاخون تین میں سے کسی ایک چیزکی بناپر ہی حلال ہوسکتا ہے: ناحق کسی کا قاتل ہو،شادی شدہ زانی ہو،یا اپنادین(اسلام) چھوڑنے والا(مرتد)ہو۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيْسَ عَلَی خَائِنٍ وَلَا مُنْتَہِبٍ وَلَا مُخْتَلِسٍ قَطْعٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ رَوَاہُ مُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ وَمُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ ہُوَ بَصْرِيٌّ أَخُو عَبْدِ الْعَزِيزِ الْقَسْمَلِيِّ كَذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: خیانت کرنے والے،ڈاکواوراچکے کی سزاہاتھ کاٹنا نہیں ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-مغیرہ بن مسلم نے ابن جریج کی حدیث کی طرح اسے ابوزبیر سے،ابوزبیرنے جابر رضی اللہ عنہ سے اورجابرنے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَہَنَّادٌ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ صَيْدِ الْبَازِي فَقَالَ مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِصَيْدِ الْبُزَاةِ وَالصُّقُورِ بَأْسًا و قَالَ مُجَاہِدٌ الْبُزَاةُ ہُوَ الطَّيْرُ الَّذِي يُصَادُ بِہِ مِنْ الْجَوَارِحِ الَّتِي قَالَ اللہُ تَعَالَی وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنْ الْجَوَارِحِ فَسَّرَ الْكِلَابَ وَالطَّيْرَ الَّذِي يُصَادُ بِہِ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي صَيْدِ الْبَازِي وَإِنْ أَكَلَ مِنْہُ وَقَالُوا إِنَّمَا تَعْلِيمُہُ إِجَابَتُہُ وَكَرِہَہُ بَعْضُہُمْ وَالْفُقَہَاءُ أَكْثَرُہُمْ قَالُوا يَأْكُلُ وَإِنْ أَكَلَ مِنْہُ

-عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بازکے شکار کے متعلق پوچھا؟تو آپ نے فرمایا:وہ تمہارے لیے جو روک رکھے اسے کھاؤ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم اس حدیث کو صرف اسی سندعن مجالد،عن الشعبی سے جانتے ہیں۔۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے،یہ لوگ بازاورشکرے کے شکارمیں مضائقہ نہیں سمجھتے،۳-مجاہدکہتے ہیں: باز وہ پرندہ ہے جس سے شکارکیاجاتاہے،یہ اسجوارح میں داخل ہے جس کا ذکراللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِمیں کیا ہے انہوں نے جوارح کی تفسیرکتے اوراس پرندے سے کی ہے جن سے شکار کیا جاتاہے،۴-بعض اہل علم نے بازکے شکار کی رخصت دی ہے اگرچہ وہ شکارمیں سے کچھ کھا لے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار کے لیے چھوڑا جائے تو وہ حکم قبول کرے،جب کہ بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہاہے،لیکن اکثرفقہاکہتے ہیں: باز کاشکارکھایا جائے گا چاہے وہ شکارکا کچھ حصہ کھالے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ قَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُعَلَّمَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللہِ فَكُلْ مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَی نَفْسِہِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَرَأَيْتَ إِنْ خَالَطَتْ كِلَابَنَا كِلَابٌ أُخَرُ قَالَ إِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللہِ عَلَی كَلْبِكَ وَلَمْ تَذْكُرْ عَلَی غَيْرِہِ قَالَ سُفْيَانُ أَكْرَہُ لَہُ أَكْلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي الصَّيْدِ وَالذَّبِيحَةِ إِذَا وَقَعَا فِي الْمَاءِ أَنْ لَا يَأْكُلَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ فِي الذَّبِيحَةِ إِذَا قُطِعَ الْحُلْقُومُ فَوَقَعَ فِي الْمَاءِ فَمَاتَ فِيہِ فَإِنَّہُ يُؤْكَلُ وَہُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْكَلْبِ إِذَا أَكَلَ مِنْ الصَّيْدِ فَقَالَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْہُ فَلَا تَأْكُلْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي الْأَكْلِ مِنْہُ وَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْہُ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سدھائے ہوئے کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب تم اپنا سدھایا ہواکتاروانہ کرو،اور(بھیجتے وقت اس پر) اللہ کانام(یعنی بسم اللہ) پڑھ لو توتمہارے لیے جوکچھ وہ روک رکھے اسے کھاؤاور اگروہ شکار سے کچھ کھالے تومت کھاؤ،اس لیے کہ اس نے شکاراپنے لیے روکاہے،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگرہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے شریک ہوجائیں؟ آپ نے فرمایا:تم نے اللہ کا نام(یعنی بسم اللہ) اپنے ہی کتے پر پڑھاہے دوسرے کتے پرنہیں۔سفیان (ثوری) کہتے ہیں:آپ نے اس کے لیے اس کا کھانادرست نہیں سمجھا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ذبیحہ اورشکارکے سلسلے میں صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اوردوسرے لوگوں کے نزدیک اسی پرعمل ہے کہ جب وہ پانی میں گرجائیں تو انہیں کوئی نہ کھائے اور بعض لوگ ذبیحہ کے بارے میں کہتے ہیں: جب اس کا گلا کاٹ دیاجائے،پھر پانی میں گرے اورمرجائے تو اسے کھایاجائے گا،عبداللہ بن مبارک کایہی قول ہے،۲-اہل علم کا اس مسئلہ میں کہ جب کتاشکارکاکچھ حصہ کھا لے اختلاف ہے،اکثراہل علم کہتے ہیں: جب کتا شکار سے کھالے تو اسے مت کھائو،سفیان ثوری،عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۳-جب کہ صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں نے کھانے کی رخصت دی ہے،اگرچہ اس میں سے کتے نے کھالیاہو۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ ضَحَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ فَحِيلٍ يَأْكُلُ فِي سَوَادٍ وَيَمْشِي فِي سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے سینگ والے ایک نرمینڈھے کی قربانی کی،وہ سیاہی میں کھاتاتھا،سیاہی میں چلتاتھااورسیاہی میں دیکھتاتھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ہم اس کو صرف حفص بن غیاث ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ كِدَامِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي كِبَاشٍ قَالَ جَلَبْتُ غَنَمًا جُذْعَانًا إِلَی الْمَدِينَةِ فَكَسَدَتْ عَلَيَّ فَلَقِيتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ فَسَأَلْتُہُ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ نِعْمَ أَوْ نِعْمَتِ الْأُضْحِيَّةُ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ قَالَ فَانْتَہَبَہُ النَّاسُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأُمِّ بِلَالِ ابْنَةِ ہِلَالٍ عَنْ أَبِيہَا وَجَابِرٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا وَعُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ ہُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الْجَذَعَ مِنْ الضَّأْنِ يُجْزِئُ فِي الْأُضْحِيَّةِ

ابوکباش کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں تجارت کے لیے جذع یعنی دنبہ کے چھوٹے بچے لایااور بازارمندا ہوگیا ۱؎،لہذا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی،اوران سے پوچھا توانہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے سناہے: بھیڑکے جذع کی قربانی خوب ہے! ابوکباش کہتے ہیں(یہ سنتے ہی) لوگ اس کی خریداری پر ٹوٹ پڑے۔ اس باب میں ابن عباس،ام بلال بنت ہلال کی ان کے والد سے اور جابر،عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم اورایک آدمی جونبی اکرمﷺکے اصحاب میں سے ہیں سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-یہ ابوہریرہ سے موقوفاً بھی مروی ہے،۳-عثمان بن واقدیہ ابن محمدبن زیاد بن عبداللہ بن عمربن خطاب ہیں،۴-صحابہ کرام میں سے اہل علم اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ بھیڑ کا جذع قربانی کے لیے کفایت کرجائے گا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَعْطَاہُ غَنَمًا يَقْسِمُہَا عَلَی أَصْحَابِہِ ضَحَايَا فَبَقِيَ عَتُودٌ أَوْ جَدْيٌ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ ضَحِّ بِہِ أَنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَكِيعٌ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ يَكُونُ ابْنَ سَنَةٍ أَوْ سَبْعَةِ أَشْہُرٍ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّہُ قَالَ قَسَمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ضَحَايَا فَبَقِيَ جَذَعَةٌ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ ضَحِّ بِہَا أَنْتَ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ وَأَبُو دَاوُدَ قَالَا حَدَّثَنَا ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ بَعْجَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَدْرٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِہَذَا الْحَدِيثِ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کردیں،ایک عتود (بکری کا ایک سال کافربہ بچہ) یاجدی ۱؎ باقی بچ گیا،میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا،توآپ نے فرمایا: تم اس کی قربانی خود کرلو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-وکیع کہتے ہیں: بھیڑکاجذع،چھ یا سات ماہ کا بچہ ہوتا ہے۔۳-عقبہ بن عامر سے دوسری سندسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے جانورتقسیم کیے،ایک جذعہ باقی بچ گیا،میں نے نبی اکرمﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا: تم اس کی قربانی خودکرلو۔اس سند سے بھی عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مذکورہ حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ مَوْلَی الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَفَّارَةُ النَّذْرِ إِذَا لَمْ يُسَمَّ كَفَّارَةُ يَمِينٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: غیرمتعین نذر کاکفارہ وہی ہے جوقسم کا کفارہ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنِي أَبِي وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ فَقَالَ إِنْ شَاءَ اللہُ فَلَا حِنْثَ عَلَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُہُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ غَيْرَ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ و قَالَ إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ وَكَانَ أَيُّوبُ أَحْيَانًا يَرْفَعُہُ وَأَحْيَانًا لَا يَرْفَعُہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنَّ الِاسْتِثْنَاءَ إِذَا كَانَ مَوْصُولًا بِالْيَمِينِ فَلَا حِنْثَ عَلَيْہِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی امرپرقسم کھائی اورساتھ ہی ان شاء اللہ کہا،تواس قسم کو توڑ نے کا کفارہ نہیں ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-اس حدیث کو عبیداللہ بن عمروغیرہ نے نافع سے،نافع نے ابن عمرسے موقوفاروایت کیا ہے،اسی طرح اس حدیث کو سالم بن علیہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاًروایت کی ہے،ہمیں نہیں معلوم کہ ایوب سختیانی کے سواکسی اور نے بھی اسے مرفوعاًروایت کیا ہے،اسماعیل بن ابراہیم کہتے ہیں: ایوب اس کو کبھی مرفوعاروایت کرتے تھے اورکبھی مرفوعانہیں روایت کرتے تھے،۳-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۴-اکثراہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ جب قسم کے ساتھ إن شاء اللہ کا جملہ ملاہوتواس قسم کو توڑ نے کا کفارہ نہیں ہے،سفیان ثوری،اوزاعی،مالک بن انس،عبداللہ بن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ حَلَفَ فَقَالَ إِنْ شَاءَ اللہُ لَمْ يَحْنَثْ قَالَ أَبُو عِيسَی سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ ہَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيہِ عَبْدُ الرَّزَّاقِ اخْتَصَرَہُ مِنْ حَدِيثِ مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ قَالَ لَأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَی سَبْعِينَ امْرَأَةً تَلِدُ كُلُّ امْرَأَةٍ غُلَامًا فَطَافَ عَلَيْہِنَّ فَلَمْ تَلِدْ امْرَأَةٌ مِنْہُنَّ إِلَّا امْرَأَةٌ نِصْفَ غُلَامٍ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ قَالَ إِنْ شَاءَ اللہُ لَكَانَ كَمَا قَالَ ہَكَذَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيہِ ہَذَا الْحَدِيثُ بِطُولِہِ وَقَالَ سَبْعِينَ امْرَأَةً وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ لَأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَی مِائَةِ امْرَأَةٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے قسم کھائی اوران شاء اللہ کہا،وہ حانث نہیں ہوا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: اس حدیث میں غلطی ہے،اس میں عبدالرزاق سے غلطی ہوئی ہے،انہوں نے اس کو معمرکی حدیث سے اختصار کردیاہے،معمراس کو بسند ابن طاوس عن أبیہ عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺروایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سلیمان بن داود علیہما السلام نے کہا: (اللہ کی قسم!) آج رات میں ستربیویوں کے پاس ضرورجاؤں گا،ہرعورت سے ایک لڑکا پیدا ہوگا،وہ ستربیویوں کے پاس گئے،ان میں سے کسی عورت نے بچہ نہیں جنا،صرف ایک عورت نے آدھے (ناقص) بچے کو جنم دیا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر انہوں (سلیمان علیہ السلام) نے إن شاء اللہ کہہ دیاہوتا تو ویسے ہی ہوتاجیسا انہوں نے کہاتھا،اسی طرح یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ عبدالرزاق سے آئی ہے،عبدالرزاق نے بسند معمرعن ابن طاوس عن أبیہ روایت کی ہے اس میںعلی سبعین امرأۃ کے بجائے سبعین امرأۃ ہے،یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دیگر سندوں سے آئی ہے،(اس میں یہ ہے کہ) وہ نبی کرم ﷺ سے (یوں) روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سلیمان بن داودنے کہا: آج رات میں سو بیویوں کے پاس ضرورجاؤں گا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لَا وَالْكَعْبَةِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لَا يُحْلَفُ بِغَيْرِ اللہِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللہِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَفُسِّرَ ہَذَا الْحَدِيثُ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ قَوْلَہُ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ عَلَی التَّغْلِيظِ وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَمِعَ عُمَرَ يَقُولُ وَأَبِي وَأَبِي فَقَالَ أَلَا إِنَّ اللہَ يَنْہَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ قَالَ فِي حَلِفِہِ وَاللَّاتِ وَالْعُزَّی فَلْيَقُلْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ الرِّيَاءَ شِرْكٌ وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذِہِ الْآيَةَ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّہِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا الْآيَةَ قَالَ لَا يُرَائِي

سعدبن عبیدہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کوکہتے سنا: ایسانہیں قسم ہے کعبہ کی،تواس سے کہا: غیراللہ کی قسم نہ کھائی جائے،کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سناہے: جس نے غیراللہ کی قسم کھائی اس نے کفرکیایاشرک کیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس حدیث کی تفسیربعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کافرمان فقد کفر أو أشرک تنبیہ و تغلیظ کے طورپر ہے،اس کی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے،نبی اکرمﷺنے عمر کوکہتے سنا: میرے باپ کی قسم،میرے باپ کی قسم! تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ باپ،داداکی قسم کھانے سے منع فرماتاہے،نیز ابوہریرہ کی کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے لات اورعزیٰ کی قسم کھائی وہ لا إلہ إلا اللہکہے،۳-امام ترمذی کہتے ہیں: یہ نبی اکرمﷺکے اس فرمان کی طرح ہے بے شک ریا،شرک ہے،۴-بعض اہل علم نے آیت کریمہ فَمَنْ کَانَ یَرْجُو لِقَائَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا(الکہف: ۱۱۰) کی یہ تفسیرکی ہے کہ وہ ریا نہ کرے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ سَيَّارٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ فَضَّلَنِي عَلَی الْأَنْبِيَاءِ أَوْ قَالَ أُمَّتِي عَلَی الْأُمَمِ وَأَحَلَّ لِيَ الْغَنَائِمَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي ذَرٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي مُوسَی وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَيَّارٌ ہَذَا يُقَالُ لَہُ سَيَّارٌ مَوْلَی بَنِي مُعَاوِيَةَ وَرَوَی عَنْہُ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ بَحِيرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَہُورًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ كَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے انبیاء ورسل پرفضلیت بخشی ہے،(یاآپ نے یہ فرمایا: میری امت کو دوسری امتوں پرفضیلت بخشی ہے)،اورہمارے لیے مال غنیمت کو حلال کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوامامہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوذر،عبداللہ بن عمرو،ابوموسیٰ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: مجھے انبیاء ورسل پرچھ چیزوں (خصلتوں) کے ذریعہ فضیلت بخشی گئی ہے،مجھے جوامع الکلم (جامع کلمات) عطاکئے گئے ہیں ۱؎،رعب کے ذریعہ میری مددکی گئی ہے۲؎،میرے لیے مال غنیمت حلال کیاگیاہے،میرے لیے تمام روئے زمین مسجد اورپاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے ۳؎،میں تمام مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجاگیاہوں اور میرے ذریعہ انبیاء ورسل کا سلسلہ بند کردیا گیاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَی آبِي اللَّحْمِ قَالَ شَہِدْتُ خَيْبَرَ مَعَ سَادَتِي فَكَلَّمُوا فِيَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَكَلَّمُوہُ أَنِّي مَمْلُوكٌ قَالَ فَأَمَرَ بِي فَقُلِّدْتُ السَّيْفَ فَإِذَا أَنَا أَجُرُّہُ فَأَمَرَ لِي بِشَيْءٍ مِنْ خُرْثِيِّ الْمَتَاعِ وَعَرَضْتُ عَلَيْہِ رُقْيَةً كُنْتُ أَرْقِي بِہَا الْمَجَانِينَ فَأَمَرَنِي بِطَرْحِ بَعْضِہَا وَحَبْسِ بَعْضِہَا وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يُسْہَمُ لِلْمَمْلُوكِ وَلَكِنْ يُرْضَخُ لَہُ بِشَيْءٍ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

عمیرمولیٰ ابی اللحم رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:میں اپنے مالکان کے ساتھ غزوئہ خیبرمیں شریک ہوا،انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے میرے سلسلے میں گفتگوکی اورآپ کو بتایا کہ میں غلام ہوں،چنانچہ آپ نے حکم دیااور میرے جسم پر تلوار لٹکادی گئی،میں (کوتاہ قامت ہونے اورتلوار کے بڑی ہونے کے سبب) اسے گھسیٹتاتھا،آپ نے میرے لیے مال غنیمت سے کچھ سامان دینے کا حکم دیا،میں نے آپ کے سامنے وہ دم،جھاڑپھونک پیش کیا جس سے میں دیوانوں کو جھاڑپھونک کرتاتھا،آپ نے مجھے اس کا کچھ حصہ چھوڑدینے اورکچھ یادرکھنے کا حکم دیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ غلام کو حصہ نہیں ملے گا البتہ عطیہ کے طورپر اسے کچھ دیاجائے گا،ثوری،شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ نِيَارٍ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ خَرَجَ إِلَی بَدْرٍ حَتَّی إِذَا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ لَحِقَہُ رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ يَذْكُرُ مِنْہُ جُرْأَةً وَنَجْدَةً فَقَالَ لَہُ النَّبِيُّ ﷺ أَلَسْتَ تُؤْمِنُ بِاللہِ وَرَسُولِہِ قَالَ لَا قَالَ ارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ ہَذَا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا لَا يُسْہَمُ لِأَہْلِ الذِّمَّةِ وَإِنْ قَاتَلُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ الْعَدُوَّ وَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُسْہَمَ لَہُمْ إِذَا شَہِدُوا الْقِتَالَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بدرکے لیے نکلے،جب آپ حرۃ الوبرہ ۱؎ پہنچے تو آپ کے ساتھ ایک مشرک ہو لیا جس کی جرأت ودلیری مشہورتھی نبی اکرمﷺنے اس سے پوچھا:تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں،آپ نے فرمایا: لوٹ جاؤ،میں کسی مشرک سے ہرگز مددنہیں لوں گا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-حدیث میں اس سے بھی زیادہ کچھ تفصیل ہے،۲-یہ حدیث حسن غریب ہے،۳-بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ ذمی کو مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا اگرچہ وہ مسلمانوں کے ہمراہ دشمن سے جنگ کریں،۴-کچھ اہل علم کاخیال ہے کہ جب ذمی مسلمانوں کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوں توان کوحصہ دیاجائے گا

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ جَدِّہِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ قَدِمْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ خَيْبَرَ فَأَسْہَمَ لَنَا مَعَ الَّذِينَ افْتَتَحُوہَا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ مَنْ لَحِقَ بِالْمُسْلِمِينَ قَبْلَ أَنْ يُسْہَمَ لِلْخَيْلِ أُسْہِمَ لَہُ وَبُرَيْدٌ يُكْنَی أَبَا بُرَيْدَةَ وَہُوَ ثِقَةٌ وَرَوَی عَنْہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُہُمَا

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس خیبرآیا،جن لوگوں نے خیبر فتح کیا تھاآپ نے ان کے ساتھ ہمارے لیے بھی حصہ مقررکیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے،اوزاعی کہتے ہیں: گھوڑے کے لیے حصہ مقررکرنے سے پہلے جو مسلمانوں کے ساتھ مل جائے،اس کوحصہ دیاجائے گا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا بَكَّارُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَتَاہُ أَمْرٌ فَسُرَّ بِہِ فَخَرَّ لِلَّہِ سَاجِدًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ بَكَّارِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا سَجْدَةَ الشُّكْرِ وَبَكَّارُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ کے پاس ایک خبرآئی،آپ اس سے خوش ہوئے اوراللہ کے سامنے سجدہ میں گرگئے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اس کو صرف اسی سندسے بکاربن عبدالعزیزکی روایت سے جانتے ہیں،۳-بکاربن عبدالعزیزبن ابی بکرہ مقارب الحدیث ہیں،۴-اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے،وہ سجدہ شکر کودرست سمجھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ قَالَ حَدَّثَنِي صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ الْغَادِرَ يُنْصَبُ لَہُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ حَدِيثِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ فَقَالَ لَا أَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: بے شک بدعہدی کرنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیاجائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-میں نے محمدسے سوید کی اس حدیث کے بارے میں پوچھاجسے وہ ابواسحاق سبیعی سے،ابواسحاق نے عمارہ بن عمیرسے،عمارہ نے علی رضی اللہ عنہ سے اورعلی نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر عہدتوڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا ہوگا،محمد بن اسماعیل بخار ی نے کہا: میرے علم میں یہ حدیث مرفوع نہیں ہے،۳-اس باب میں علی،عبداللہ بن مسعود،ابوسعید خدری اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ عَنْ عِيسَی بْنِ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الطِّيَرَةُ مِنْ الشِّرْكِ وَمَا مِنَّا وَلَكِنَّ اللہَ يُذْہِبُہُ بِالتَّوَكُّلِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَحَابِسٍ التَّمِيمِيِّ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَعْدٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ وَرَوَی شُعْبَةُ أَيْضًا عَنْ سَلَمَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ كَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ يَقُولُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَمَا مِنَّا وَلَكِنَّ اللہَ يُذْہِبُہُ بِالتَّوَكُّلِ قَالَ سُلَيْمَانُ ہَذَا عِنْدِي قَوْلُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَمَا مِنَّا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بدفالی شرک ہے ۱؎۔ (ابن مسعود کہتے ہیں:) ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کے دل میں اس کا وہم و خیال نہ پیداہو،لیکن اللہ تعالیٰ اس وہم و خیال کو توکل کی وجہ سے زائل کردیتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،ہم اسے صرف سلمہ بن کہیل کی روایت سے جانتے ہیں،۲-شعبہ نے بھی سلمہ سے اس حدیث کی روایت کی ہے،۳-امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سلیمان بن حرب اس حدیث میں وَمَا مِنَّا وَلَکِنَّ اللہَ یُذْہِبُہُ بِالتَّوَکُّلِ کی بابت کہتے تھے کہ وَمَا مِنَّا میرے نزدیک عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے،۴-اس باب میں ابوہریرہ،حابس تمیمی،عائشہ،ابن عمراورسعد رضی اللہ عنہم سے بھی روایتیں ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَأُحِبُّ الْفَأْلَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا الْفَأْلُ قَالَ الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ایک کی بیماری دوسرے کولگ جانے اوربدفالی وبدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۱؎ اورمجھ کو فال نیک پسندہے ،لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! فال نیک کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا:اچھی بات۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُعْجِبُہُ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَةٍ أَنْ يَسْمَعَ يَا رَاشِدُ يَا نَجِيحُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کو یہ سننا اچھالگتاتھا کہ جب کسی ضرورت سے نکلیں تو کوئی یاراشدیانجیح کہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو ہَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ أَنَّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ قَالَ كُلُّ مَيِّتٍ يُخْتَمُ عَلَی عَمَلِہِ إِلَّا الَّذِي مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللہِ فَإِنَّہُ يُنْمَی لَہُ عَمَلُہُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيَأْمَنُ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ الْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَجَابِرٍ وَحَدِيثُ فَضَالَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہرمیت کے عمل کا سلسلہ بند کردیاجاتا ہے سوائے اس شخص کے جو اللہ کے راستے میں سرحد کی پاسبانی کرتے ہوے مرے،تو اس کا عمل قیامت کے دن تک بڑھایا جاتا رہے گا اوروہ قبرکے فتنہ سے مامون رہے گا،میں نے رسول اللہ ﷺکویہ بھی فرماتے ہوئے سنا: مجاہدوہ ہے جواپنے نفس سے جہادکرے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-فضالہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عقبہ بن عامراورجابر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ أَنَّ شُرَحْبِيلَ بْنَ السِّمْطِ قَالَ يَا كَعْبُ بْنَ مُرَّةَ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولَ اللہِ ﷺ وَاحْذَرْ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ كَانَتْ لَہُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَحَدِيثُ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ ہَكَذَا رَوَاہُ الْأَعْمَشُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ وَأَدْخَلَ بَيْنَہُ وَبَيْنَ كَعْبِ بْنِ مُرَّةَ فِي الْإِسْنَادِ رَجُلًا وَيُقَالُ كَعْبُ بْنُ مُرَّةَ وَيُقَالُ مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ الْبَہْزِيُّ وَالْمَعْرُوفُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مُرَّةُ بْنُ كَعْبٍ الْبَہْزِيُّ وَقَدْ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَحَادِيثَ

سالم بن ابی جعدسے روایت ہے،شرحبیل بن سمط نے کہا: کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ! ہم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کیجئے اورکمی زیادتی سے محتاط رہئے،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جواسلام میں بوڑھاہوجائے،توقیامت کے دن یہ اس کے لیے نوربن کر آئے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں فضالہ بن عبیداورعبداللہ بن عمروسے بھی احادیث آئی ہیں،۲-کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اعمش نے اسی طرح عمرو بن مرہ سے روایت کی ہے،یہ حدیث منصور سے بھی آئی ہے،انہوں نے سالم بن ابی جعدسے روایت کی ہے،انہوں نے سالم اورکعب بن مرہ کے درمیان سند میں ایک آدمی کو داخل کیا ہے،۳-کعب بن مرہ کوکبھی کعب بن بن مرہ اور مرہ بن کعب بہزی بھی کہا گیا ہے،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَرْوَزِيُّ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ الْحِمْصِيُّ عَنْ بَقِيَّةَ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَنْ شَابَ شَيْبَةً فِي سَبِيلِ اللہِ كَانَتْ لَہُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَحَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ابْنُ يَزِيدَ الْحِمْصِيُّ

عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوشخص اللہ کی راہ میں بوڑھا ہوجائے قیامت کے دن اس کے لیے ایک نورہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَہْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ كَثِيرٍ الْمِصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ أَنَّہُ سَمِعَ سَہْلَ بْنَ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ سَأَلَ اللہَ الشَّہَادَةَ مِنْ قَلْبِہِ صَادِقًا بَلَّغَہُ اللہُ مَنَازِلَ الشُّہَدَاءِ وَإِنْ مَاتَ عَلَی فِرَاشِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَہْلِ بْنِ حُنَيْفٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شُرَيْحٍ وَقَدْ رَوَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شُرَيْحٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شُرَيْحٍ يُكْنَی أَبَا شُرَيْحٍ وَہُوَ إِسْكَنْدَرَانِيٌّ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ

سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جوشخص سچے دل سے شہادت کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے شہداء کے مرتبے تک پہنچادے گا اگرچہ وہ اپنے بسترہی پرکیوں نہ مرے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-سہل بن حنیف کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن شریح کی ہی روایت سے جانتے ہیں،اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن شریح سے عبداللہ بن صالح نے بھی روایت کیا ہے،عبدالرحمٰن بن شریح کی کنیت ابوشریح ہے اوروہ اسکندرانی (اسکندریہ کے رہنے والے) ہیں،۲-اس باب میں معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَی عَنْ مَالِكِ بْنِ يُخَامِرَ السَّكْسَكِيِّ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ سَأَلَ اللہَ الْقَتْلَ فِي سَبِيلِہِ صَادِقًا مِنْ قَلْبِہِ أَعْطَاہُ اللہُ أَجْرَ الشَّہِيدِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص سچے دل سے اللہ کی راہ میں قتل ہو نے کی دعاء مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے شہادت کا ثواب دے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ أَوْ أَيُّ الْأَعْمَالِ خَيْرٌ قَالَ إِيمَانٌ بِاللہِ وَرَسُولِہِ قِيلَ ثُمَّ أَيُّ شَيْءٍ قَالَ الْجِہَادُ سَنَامُ الْعَمَلِ قِيلَ ثُمَّ أَيُّ شَيْءٍ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُورٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھاگیا: کون ساعمل افضل ہے،یا کون سا عمل سب سے بہترہے؟ آپ نے فرمایا:اللہ اور اس کے رسول پرایمان لانا،پوچھاگیا: پھرکون؟ آپ نے فرمایا:جہاد،وہ نیکی کا کوہان ہے۔پوچھاگیا: اللہ کے رسول! پھر کون؟ آپ نے فرمایا: حج مبرور (مقبول)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مرفوع طریقہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ،حَدَّثَنِي أَبِي،عَنْ قَتَادَةَ،حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّةِ يَسُرُّہُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا غَيْرُ الشَّہِيدِ،فَإِنَّہُ يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا يَقُولُ: حَتَّی أُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ فِي سَبِيلِ اللہِ،مِمَّا يَرَی مِمَّا أَعْطَاہُ مِنَ الْكَرَامَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہیدکے علاوہ کوئی جنتی ایسانہیں ہے جو دنیا کی طرف لوٹنا چاہتاہو وہ دنیا کی طرف لوٹناچاہتاہے،کہتاہے: (دل چاہتا ہے کہ) اللہ کی راہ میں دس مرتبہ قتل کیا جاؤں،یہ اس وجہ سے کہ وہ اس مقام کو دیکھ چکاہے جس سے اللہ نے اس کو نوازاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ أَنَسٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلشَّہِيدِ عِنْدَ اللہِ سِتُّ خِصَالٍ يُغْفَرُ لَہُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ وَيَرَی مَقْعَدَہُ مِنْ الْجَنَّةِ وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَيَأْمَنُ مِنْ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ وَيُوضَعُ عَلَی رَأْسِہِ تَاجُ الْوَقَارِ الْيَاقُوتَةُ مِنْہَا خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا وَيُزَوَّجُ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنْ الْحُورِ الْعِينِ وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ مِنْ أَقَارِبِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک شہیدکے لیے چھ انعامات ہیں،(۱) خون کاپہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے،(۲) وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے،(۳) عذاب قبرسے محفوظ رہتاہے،(۴) فزع اکبر (عظیم گھبراہٹ والے دن)سے مامون رہے گا،(۵) اس کے سرپر عزت کا تاج رکھا جائے گاجس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہترہے،(۶) بہتر (۷۲) جنتی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی،اور اس کے ستر رشتہ داروں کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ عَنْ قَزَعَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ لَمَّا بَلَغَ النَّبِيُّ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ مَرَّ الظَّہْرَانِ فَآذَنَنَا بِلِقَاءِ الْعَدُوِّ فَأَمَرَنَا بِالْفِطْرِ فَأَفْطَرْنَا أَجْمَعُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: فتح مکہ کے سال جب نبی اکرمﷺ مرالظہران ۱؎ پہنچے اورہم کو دشمن سے مقابلہ کی خبردی تو آپ نے صوم توڑنے کا حکم دیا،لہذا ہم سب لوگوں نے صوم توڑدیا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمرسے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صُدْرَانَ أَبُو جَعْفَرٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا طَالِبُ بْنُ حُجَيْرٍ عَنْ ہُودِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ جَدِّہِ مَزِيدَةَ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَی سَيْفِہِ ذَہَبٌ وَفِضَّةٌ قَالَ طَالِبٌ فَسَأَلْتُہُ عَنْ الْفِضَّةِ فَقَالَ كَانَتْ قَبِيعَةُ السَّيْفِ فِضَّةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَجَدُّ ہُودٍ اسْمُہُ مَزِيدَةُ الْعَصَرِيُّ

مزیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ مکہ داخل ہوئے اور آپ کی تلوار سونا اورچاندی سے مزین تھی،راوی طالب کہتے ہیں: میں نے ہودبن عبداللہ سے چاندی کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہا: قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہودکے داداکا نام مزیدہ عصری ہے،۳-اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْ فِضَّةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ ہَمَّامٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ قَالَ كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْ فِضَّةٍ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوارکے قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اسی طرح اس حدیث کو ہمام قتادہ سے اور قتادہ انس سے روایت کرتے ہیں،بعض لوگوں نے قتادہ کے واسطہ سے،سعید بن ابی الحسن سے بھی روایت کی ہے،وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی تلوار کے قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْخَيْرُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ الْأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَرِيرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعُرْوَةُ ہُوَ ابْنُ أَبِي الْجَعْدِ الْبَارِقِيُّ وَيُقَالُ ہُوَ عُرْوَةُ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَفِقْہُ ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْجِہَادَ مَعَ كُلِّ إِمَامٍ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ

عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر(بھلائی) بندھی ہوئی ہے،خیرسے مراداجراورغنیمت ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ـ اس باب میں ابن عمر،ابوسعیدخدری،جریر،ابوہریرہ،اسماء بنت یزید،مغیرہ بن شعبہ اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-امام احمدبن حنبل کہتے ہیں،اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جہاد کا حکم ہرامام کے ساتھ قیامت تک باقی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَنَعَ خَاتَمًا مِنْ ذَہَبٍ فَتَخَتَّمَ بِہِ فِي يَمِينِہِ ثُمَّ جَلَسَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ اتَّخَذْتُ ہَذَا الْخَاتَمَ فِي يَمِينِي ثُمَّ نَبَذَہُ وَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَہُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ جَعْفَرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَ ہَذَا مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ أَنَّہُ تَخَتَّمَ فِي يَمِينِہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنائی اوراسے داہنے ہاتھ میں پہنا،پھرمنبرپربیٹھے اورفرمایا:میں نے اس انگوٹھی کواپنے داہنے ہاتھ میں پہناتھا،پھر آپ نے اسے نکال کر پھینکا اورلوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث بواسطہ نافع ابن عمرسے دوسری سند سے اسی طرح آئی ہے،اس میں انہوں نے یہ ذکر کیا کہ آپ نے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنی،۲-اس باب میں علی،جابر،عبداللہ بن جعفر،ابن عباس،عائشہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الصَّلْتِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ نَوْفَلٍ قَالَ رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِہِ وَلَا إِخَالُہُ إِلَّا قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الصَّلْتِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ نَوْفَلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

صلت بن عبداللہ بن نوفل کہتے ہیں: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کوداہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنے دیکھا اور میرا یہی خیال ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: محمدبن اسماعیل بخاری نے کہا: صلت بن عبداللہ بن نوفل کے واسطہ سے محمد بن اسحاق کی روایت حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ يَتَخَتَّمَانِ فِي يَسَارِہِمَا ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

محمد الباقرکہتے ہیں: حسن اورحسین اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي رَافِعٍ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِہِ فَسَأَلْتُہُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ رَأَيْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ جَعْفَرٍ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِہِ وَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ جَعْفَرٍ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِہِ قَالَ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ ہَذَا أَصَحُّ شَيْءٍ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ

حمادبن سلمہ کہتے ہیں: میں نے ابن ابی رافع ۱؎ کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے دیکھاتواس کے بارے میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہاکہ میں نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے دیکھا،عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی اکرم ﷺ اپنے داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: یہ اس باب میں سب سے صحیح روایت ہے جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَوَّرَ صُورَةً عَذَّبَہُ اللہُ حَتَّی يَنْفُخَ فِيہَا يَعْنِي الرُّوحَ وَلَيْسَ بِنَافِخٍ فِيہَا وَمَنْ اسْتَمَعَ إِلَی حَدِيثِ قَوْمٍ وَہُمْ يَفِرُّونَ بِہِ مِنْہُ صُبَّ فِي أُذُنِہِ الْآنُكُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي جُحَيْفَةَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے کوئی تصویربنائی اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیتارہے گا یہاں تک کہ مصوراس میں روح پھونک دے اور وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا،اورجس نے کسی قوم کی بات کان لگاکر سنی حالانکہ وہ اس سے بھاگتے ہوں ۱؎،قیامت کے دن اس کے کان میں سیسہ ڈالا جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،ابوہریرہ،ابوحجیفہ،عائشہ اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ہُوَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ اكْتَحِلُوا بِالْإِثْمِدِ فَإِنَّہُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعْرَ وَزَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَتْ لَہُ مُكْحُلَةٌ يَكْتَحِلُ بِہَا كُلَّ لَيْلَةٍ ثَلَاثَةً فِي ہَذِہِ وَثَلَاثَةً فِي ہَذِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ عَلَی ہَذَا اللَّفْظِ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ نَحْوَہُ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ عَلَيْكُمْ بِالْإِثْمِدِ فَإِنَّہُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعْرَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اثمدسرمہ لگاؤ اس لیے کہ وہ بینائی کو جلابخشتا ہے اورپلکوں کا بال اگاتاہے،نبی اکرمﷺ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس سے آپ ہررات تین سلائی اس (داہنی آنکھ)میں اورتین سلائی اس (بائیں آنکھ) میں سرمہ لگاتے تھے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اس لفظ کے ساتھ صرف عباد بن منصور کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں جابراورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ یہ حدیث کئی سندوں سے نبی اکرمﷺ سے آئی ہے،آپ نے فرمایا: تم لوگ اثمد سرمہ لگاؤ،اس لیے کہ وہ بینائی کو جلابخشتاہے،اور پلکوں کے بال اگاتاہے۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ كُوفِيٌّ حَدَّثَنَا ہُرَيْمُ بْنُ سُفْيَانَ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ عَنْ لَيْثٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ رُبَّمَا مَشَی النَّبِيُّ ﷺ فِي نَعْلٍ وَاحِدَةٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بسااوقات نبی اکرم ﷺ ایک جوتا پہن کر چلتے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا مَشَتْ بِنَعْلٍ وَاحِدَةٍ وَہَذَا أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ مَوْقُوفًا وَہَذَا أَصَحُّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ایک جوتاپہن کر چلیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ روایت زیادہ صحیح ہے ۱؎،۲-سفیان ثوری اورکئی لوگوں نے اسی طرح اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن قاسم کے واسطہ سے موقوف طریقہ سے روایت کیا ہے اور یہ موقوف روایت زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمْرَانَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَہُوَ عَبْدُ اللہِ بْنُ بُسْرٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا كَبْشَةَ الْأَنْمَارِيَّ يَقُولُ كَانَتْ كِمَامُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ بُطْحًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ بُسْرٍ بَصْرِيٌّ ہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُہُ وَبُطْحٌ يَعْنِي وَاسِعَةً

ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی آستینیں کشادہ تھیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث منکرہے،۲-عبداللہ بن بسربصرہ کے رہنے والے ہیں،محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں،یحییٰ بن سعید وغیرہ نے انہیں ضعیف کہا ہے،۳-بطح چوڑی اور کشادہ چیز کو کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ وَأَبُو تُمَيْلَةَ يَحْيَی بْنُ وَاضِحٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَعَلَيْہِ خَاتَمٌ مِنْ حَدِيدٍ فَقَالَ مَا لِي أَرَی عَلَيْكَ حِلْيَةَ أَہْلِ النَّارِ ثُمَّ جَاءَہُ وَعَلَيْہِ خَاتَمٌ مِنْ صُفْرٍ فَقَالَ مَا لِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الْأَصْنَامِ ثُمَّ أَتَاہُ وَعَلَيْہِ خَاتَمٌ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ مَالِي أَرَی عَلَيْكَ حِلْيَةَ أَہْلِ الْجَنَّةِ قَالَ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ أَتَّخِذُہُ قَالَ مِنْ وَرِقٍ وَلَا تُتِمَّہُ مِثْقَالًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مُسْلِمٍ يُكْنَی أَبَا طَيْبَةَ وَہُوَ مَرْوَزِيٌّ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس لوہے کی انگوٹھی پہن کرآیا،آپ نے فرمایا: کیابات ہے میں دیکھ رہاہوں کہ تم جہنمیوں کا زیورپہنے ہو؟ پھر وہ آپ کے پاس پیتل کی انگوٹھی پہن کرآیا،آپ نے فرمایا: کیابات ہے کہ تم سے بتوں کی بدبوآرہی ہے؟ پھر وہ آپ کے پاس سونے کی انگوٹھی پہن کرآیا،تو آپ نے فرمایا: کیا بات ہے میں دیکھ رہاہوں کہ تم جنتیوں کا زیورپہنے ہو؟ اس نے پوچھا: میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ نے فرمایا: چاندی کی اور(وزن میں) ایک مثقال سے کم رکھو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے،۳-عبداللہ بن مسلم کی کنیت ابوطیبہ ہے اوروہ عبداللہ بن مسلم مروزی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَغْلِقُوا الْبَابَ وَأَوْكِئُوا السِّقَاءَ وَأَكْفِئُوا الْإِنَاءَ أَوْ خَمِّرُوا الْإِنَاءَ وَأَطْفِئُوا الْمِصْبَاحَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَفْتَحُ غَلَقًا وَلَا يَحِلُّ وِكَاءً وَلَا يَكْشِفُ آنِيَةً وَإِنَّ الْفُوَيْسِقَةَ تُضْرِمُ عَلَی النَّاسِ بَيْتَہُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (سوتے وقت) دروازہ بند کرلو،مشکیزہ کا منہ باندھ دو،برتنوں کو اوندھا کردو یا انہیں ڈھانپ دواورچراغ بجھادو،اس لیے کہ شیطان کسی بنددروازے کو نہیں کھولتا ہے اورنہ کسی بندھن اوربرتن کو کھولتا ہے،(اورچراغ اس لیے بجھادوکہ) چوہالوگوں کا گھرجلادیتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-جابرسے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۳-اس باب میں ابن عمر،ابوہریرہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سوتے وقت اپنے گھروں میں(جلتی ہوئی) آگ نہ چھوڑو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ لَيَرْضَی عَنْ الْعَبْدِ أَنْ يَأْكُلَ الْأَكْلَةَ أَوْ يَشْرَبَ الشَّرْبَةَ فَيَحْمَدَہُ عَلَيْہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ نَحْوَہُ وَلَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوتا ہے جوایک لقمہ کھاتا ہے یا ایک گھونٹ پیتاہے،تو اس پر اللہ کی تعریف کرتا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-زکریا بن ابی زائدہ سے اسے کئی لوگوں نے اسی طرح روایت کیا ہے،ہم اسے صرف زکریا بن ابی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳-اس باب میں عقبہ بن عامر،ابوسعید،عائشہ،ابوایوب اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ احْتَزَّ مِنْ كَتِفِ شَاةٍ فَأَكَلَ مِنْہَا ثُمَّ مَضَی إِلَی الصَّلَاةِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ

عمروبن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے بکری کی دست کاگوشت چھری سے کاٹا،اوراس میں سے کھایا،پھر صلاۃ کے لیے تشریف لے گئے اوروضونہیں کیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں مغیرہ بن شعبہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْخُزَاعِيُّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلٌ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ عَائِشَةَ وَقَدْ رَوَی يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ تازہ کھجورکے ساتھ تربوز کھاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-بعض لوگوں نے اسے عن ہشام بن عروۃ عن أبیہ عن النبی ﷺ کی سند سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے،اس میں عائشہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے،یزید بن رومان نے اس حدیث کو عروہ کے واسطہ سے عائشہ سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ح و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ بَكْرِ بْنِ أَبِي الْفُرَاتِ عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا أَسْكَرَ كَثِيرُہُ فَقَلِيلُہُ حَرَامٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ وَخَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس چیز کی زیادہ مقدارنشہ پیدا کردے تو اس کی تھوڑی سی مقداربھی حرام ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث جابرکی روایت سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں سعد،عائشہ،عبداللہ بن عمرو،ابن عمراورخوات بن جبیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مَہْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا مَہْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ مَا أَسْكَرَ الْفَرَقُ مِنْہُ فَمِلْءُ الْكَفِّ مِنْہُ حَرَامٌ قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ أَحَدُہُمَا فِي حَدِيثِہِ الْحَسْوَةُ مِنْہُ حَرَامٌ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاہُ لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ وَالرَّبِيعُ بْنُ صَبِيحٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ الْأَنْصَارِيِّ نَحْوَ رِوَايَةِ مَہْدِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ وَأَبُو عُثْمَانَ الْأَنْصَارِيُّ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ سَالِمٍ وَيُقَالُ عُمَرُ بْنُ سَالِمٍ أَيْضًا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہرنشہ آورچیز حرام ہے،جس چیز کا ایک فرق (سولہ رطل) کی مقدار بھر نشہ پیداکردے تواس کی مٹھی بھر مقدار بھی حرام ہے ۱؎،ان میں(یعنی محمد بن بشار اور عبداللہ بن معاویہ جمحی) میں سے ایک نے اپنی روایت میں کہا: یعنی اس کا ایک گھونٹ بھی حرام ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اسے لیث بن ابی سلیم اورربیع بن صبیح نے ابوعثمان انصاری سے مہدی بن میمون کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنِّي كُنْتُ نَہَيْتُكُمْ عَنْ الظُّرُوفِ وَإِنَّ ظَرْفًا لَا يُحِلُّ شَيْئًا وَلَا يُحَرِّمُہُ وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں (اس سے پہلے باب کی حدیث میں مذکور) برتنوں سے منع کیا تھا،درحقیقت برتن کسی چیز کو نہ توحلال کرتے ہیں نہ حرام (بلکہ) ہرنشہ آورچیز حرام ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ الظُّرُوفِ فَشَكَتْ إِلَيْہِ الْأَنْصَارُ فَقَالُوا لَيْسَ لَنَا وِعَاءٌ قَالَ فَلَا إِذَنْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:رسول اللہﷺ نے (ان)برتنوں (کے استعمال)سے منع فرمایاتو انصار نے آپ سے شکایت کی،اورکہا: ہمارے پاس دوسرے برتن نہیں ہیں،آپﷺ نے فرمایا: تب میں منع نہیں کرتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعو د،ابوسعیدخدری،ابوہریرہ اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَيُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي عِصَامٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ ثَلَاثًا وَيَقُولُ ہُوَ أَمْرَأُ وَأَرْوَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاہُ ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ أَبِي عِصَامٍ عَنْ أَنَسٍ وَرَوَی عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ ثُمَامَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ ثَلَاثًا

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ برتن سے تین سانس میں پانی پیتے تھے اورفرماتے تھے: (پانی پینے کا یہ طریقہ) زیادہ خوشگواراورسیراب کن ہوتا ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اسے ہشام دستوائی نے بھی ابوعصام کے واسطہ سے انس سے روایت کی ہے،اورعزرہ بن ثابت نے ثمامہ سے،ثمامہ نے انس سے روایت کی ہے،نبی اکرم ﷺ برتن سے تین سانس میں پانی پیتے تھے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ الْجَزَرِيِّ عَنْ ابْنٍ لِعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا تَشْرَبُوا وَاحِدًا كَشُرْبِ الْبَعِيرِ وَلَكِنْ اشْرَبُوا مَثْنَی وَثُلَاثَ وَسَمُّوا إِذَا أَنْتُمْ شَرِبْتُمْ وَاحْمَدُوا إِذَا أَنْتُمْ رَفَعْتُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَيَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ الْجَزَرِيُّ ہُوَ أَبُو فَرْوَةَ الرُّہَاوِيُّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اونٹ کی طرح ایک سانس میں نہ پیو،بلکہ دویاتین سانس میں پیو،جب پیو تو بسم اللہ کہو اورجب منہ سے برتن ہٹاؤتوالحمدللہ کہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ ہِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيہِنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَی وَلَدِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی الْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ نَحْوَ حَدِيثِ ہِشَامٍ وَأَبُو جَعْفَرٍ الَّذِي رَوَی عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ يُقَالُ لَہُ أَبُو جَعْفَرٍ الْمُؤَذِّنُ وَلَا نَعْرِفُ اسْمَہُ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ يَحْيَی بْنُ أَبِي كَثِيرٍ غَيْرَ حَدِيثٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین دعائیں مقبول ہوتی ہیں ان میں کوئی شک نہیں ہے: مظلوم کی دعا،مسافرکی دعا اوربیٹے کے اوپرباپ کی بددعا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-حجاج صواف نے بھی یحییٰ بن ابی کثیرسے ہشام کی حدیث جیسی حدیث روایت کی ہے،ابوجعفرجنہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے انہیں ابوجعفرمؤذن کہاجاتا ہے،ہم ان کا نام نہیں جانتے ہیں،۲-ان سے یحییٰ بن ابی کثیرنے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا بَشِيرٌ أَبُو إِسْمَعِيلَ وَفِطْرُ بْنُ خَلِيفَةَ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُہُ وَصَلَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جوبدلہ چکائے ۱ ؎،بلکہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو رشتہ ناتا توڑنے پر بھی صلہ رحمی کرے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سلمان،عائشہ اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي قَاطِعَ رَحِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: رشتہ ناتاتوڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ابن ابی عمرکہتے ہیں: سفیان نے کہا: قاطع سے مراد قاطع رحم (یعنی رشتہ ناتا توڑنے والا)ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا يَكُونُ لِأَحَدِكُمْ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ فَيُحْسِنُ إِلَيْہِنَّ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ اسْمُہُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ہُوَ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ وُہَيْبٍ وَقَدْ زَادُوا فِي ہَذَا الْإِسْنَادِ رَجُلًا

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یاتین بہنیں ہوں اوروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرور داخل ہوگا ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوسعید خدری کا نام سعدبن مالک بن سنان ہے،اورسعدبن ابی وقاص کا نام سعد بن مالک بن وہیب ہے،۲-اس حدیث کی دوسری سند میں راویوں نے (سعید بن عبدالرحمٰن اورابوسعید کے درمیان) ایک اورراوی (ایوب بن بشیر) کا اضافہ کیاہے،۳-اس باب میں عائشہ،عقبہ بن عامر،انس،جابراورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ مَسْلَمَةَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ ابْتُلِيَ بِشَيْءٍ مِنْ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَيْہِنَّ كُنَّ لَہُ حِجَابًا مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوشخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو،پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبرکرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ہُوَ الطَّنَافِسِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الرَّاسِبِيُّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ دَخَلْتُ أَنَا وَہُوَ الْجَنَّةَ كَہَاتَيْنِ وَأَشَارَ بِأُصْبُعَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ غَيْرَ حَدِيثٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ و قَالَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَنَسٍ وَالصَّحِيحُ ہُوَ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے دولڑکیوں کی کفالت کی تو میں اوروہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے،اورآپ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی دونوں انگلیوں (شہادت اور درمیانی) سے اشارہ کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-محمد بن عبیدنے محمد بن عبدالعزیز کے واسطہ سے اسی سندسے کئی حدیثیں روایت کی ہے اورسندبیان کرتے ہوے کہا ہے: عن أبی بکر بن عبیداللہ بن أنسحالا نکہ صحیح یوں ہے عن عبیداللہ بن أبی بکر بن أنس)۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَتْ امْرَأَةٌ مَعَہَا ابْنَتَانِ لَہَا فَسَأَلَتْ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُہَا إِيَّاہَا فَقَسَمَتْہَا بَيْنَ ابْنَتَيْہَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْہَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ فَدَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَخْبَرْتُہُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ ابْتُلِيَ بِشَيْءٍ مِنْ ہَذِہِ الْبَنَاتِ كُنَّ لَہُ سِتْرًا مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دوبچیاں تھیں،اس نے (کھانے کے لیے) کوئی چیز مانگی مگرمیرے پاس سے ایک کھجورکے سوااسے کچھ نہیں ملا،چنانچہ اسے میں نے وہی دے دیا،اس عورت نے کھجورکو خودنہ کھاکر اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیااور اٹھ کر چلی گئی،پھرمیرے پاس نبی اکرمﷺ تشریف لائے،میں نے آپ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپ نے فرمایا: جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دوچارہواس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی ۱؎۔اما م ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ سَعِيدٍ الْأَعْشَی عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ كَانَ لَہُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ أَوْ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ صُحْبَتَہُنَّ وَاتَّقَی اللہَ فِيہِنَّ فَلَہُ الْجَنَّةُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس کے پاس تین لڑکیاں،یا تین بہنیں،یا دولڑکیاں،یادوبہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اوران کے حقوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرے تو اس کے لیے جنت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ ﷺ نَبِيُّ التَّوْبَةِ مَنْ قَذَفَ مَمْلُوكَہُ بَرِيئًا مِمَّا قَالَ لَہُ أَقَامَ عَلَيْہِ الْحَدَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ كَمَا قَالَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَابْنُ أَبِي نُعْمٍ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي نُعْمٍ الْبَجَلِيُّ يُكْنَی أَبَا الْحَكَمِ وَفِي الْبَاب عَنْ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی التوبہ ۱؎ ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے غلام یالونڈی پر زناکی تہمت لگائے حالاں کہ وہ اس کی تہمت سے بری ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر حدقائم کرے گا،إلا یہ کہ وہ ویساہی ثابت ہو جیسا اس نے کہاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سوید بن مقرن اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ كُنْتُ أَضْرِبُ مَمْلُوكًا لِي فَسَمِعْتُ قَائِلًا مِنْ خَلْفِي يَقُولُ اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ لَلَّہُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ فَمَا ضَرَبْتُ مَمْلُوكًا لِي بَعْدَ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِبْرَاہِيمُ التَّيْمِيُّ إِبْرَاہِيمُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ

ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اپنے غلام کو ماررہا تھا کہ پیچھے سے کسی کہنے والے کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا: ابومسعودجان لو،ابومسعود جان لو(یعنی خبردار)،جب میں نے مڑکردیکھا تو میرے پاس رسول اللہﷺ تھے آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم پراس سے کہیں زیادہ قادرہے جتنا کہ تم اس غلام پر قادر ہو۔ابومسعودکہتے ہیں: اس کے بعدمیں نے اپنے کسی غلام کو نہیں مارا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَعْلَی عَنْ نَاصِحٍ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَأَنْ يُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَہُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَنَاصِحٌ ہُوَ أَبُو الْعَلَاءِ كُوفِيٌّ لَيْسَ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ بِالْقَوِيِّ وَلَا يُعْرَفُ ہَذَا الْحَدِيثُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَنَاصِحٌ شَيْخٌ آخَرُ بَصْرِيٌّ يَرْوِي عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ وَغَيْرِہِ ہُوَ أَثْبَتُ مِنْ ہَذَا

جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے لڑکے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ دینے سے بہترہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-راوی ناصح کی کنیت ابوالعلاہے،اور یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں،محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں،یہ حدیث صرف اسی سند سے معروف ہے،۳-ناصح ایک دوسرے شیخ بھی ہیں جو بصرہ کے رہنے والے ہیں،عماربن ابوعماروغیرہ سے حدیث روایت کرتے ہیں،اور یہ ان سے زیادہ قوی ہیں۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازُ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَامِرِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازِ وَہُوَ عَامِرُ بْنُ صَالِحِ بْنِ رُسْتُمَ الْخَزَّازُ وَأَيُّوبُ بْنُ مُوسَی ہُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِي وَہَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُرْسَلٌ

عمروبن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: حسن ادب سے بہترکسی با پ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف عامربن ابوعامر خزازکی روایت سے جانتے ہیں،اورعامر صالح بن رستم خزاز کے بیٹے ہیں،۲-راوی ایوب بن موسیٰ سے مراد ایوب بن موسیٰ بن عمروبن سعید بن عاص ہیں،۳-یہ حدیث میرے نزدیک مرسل ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا دَعْوَةٌ أَسْرَعَ إِجَابَةً مِنْ دَعْوَةِ غَائِبٍ لِغَائِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَالْأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ ہُوَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کوئی دعا اتنی جلدقبول نہیں ہوتی ہے جتنی جلدغائب آدمی کے حق میں غائب آدمی کی دعاقبول ہوتی ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-راوی افریقی حدیث کے سلسلے میں ضعیف قراردیئے گئے ہیں،ان کا نام عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَی ظُہُورُہَا مِنْ بُطُونِہَا وَبُطُونُہَا مِنْ ظُہُورِہَا فَقَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ لِمَنْ ہِيَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَأَدَامَ الصِّيَامَ وَصَلَّی لِلَّہِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ ہَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَہُوَ كُوفِيٌّ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ الْقُرَشِيُّ مَدَنِيُّ وَہُوَ أَثْبَتُ مِنْ ہَذَا وَكِلَاہُمَا كَانَا فِي عَصْرٍ وَاحِدٍ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کابیرونی حصہ اندرسے اوراندورنی حصہ باہر سے نظر آئے گا،(یہ سن کر) ایک اعرابی نے کھڑے ہوکرعرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو اچھی طرح بات کرے،کھانا کھلائے،خوب صوم رکھے اوراللہ کی رضا کے لیے رات میں صلاۃ پڑھے جب کہ لوگ سوئے ہوں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں،اسحاق بن عبدالرحمٰن کے حافظے کے تعلق سے بعض محدثین نے کلام کیا ہے،یہ کوفہ کے رہنے والے ہیں،۳-عبدالرحمٰن بن اسحاق نام کے ایک دوسرے راوی ہیں،وہ قرشی اورمدینہ کے رہنے والے ہیں،یہ ان سے اثبت ہیں،اور دونوں کے دونوں ہم عصرہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ و سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَذْكُرُ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ سُفْيَانَ قَالَ قَالَ سُفْيَانُ الظَّنُّ ظَنَّانِ فَظَنٌّ إِثْمٌ وَظَنٌّ لَيْسَ بِإِثْمٍ فَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي ہُوَ إِثْمٌ فَالَّذِي يَظُنُّ ظَنًّا وَيَتَكَلَّمُ بِہِ وَأَمَّا الظَّنُّ الَّذِي لَيْسَ بِإِثْمٍ فَالَّذِي يَظُنُّ وَلَا يَتَكَلَّمُ بِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بدگمانی سے بچو،اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سفیان کہتے ہیں کہ ظن دوطرح کاہوتاہے،ایک طرح کا ظن گناہ کا سبب ہے اورایک طرح کا ظن گناہ کا سبب نہیں ہے،جو ظن گناہ کا سبب ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پرلائے،اورجوظن گناہ کا سبب نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کے بارے میں گمان کرے اور اسے زبان پر نہ لائے۔

حَدَّثَنَا أَبُو ہِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَی أَحَدٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ مَا غِرْتُ عَلَی خَدِيجَةَ وَمَا بِي أَنْ أَكُونَ أَدْرَكْتُہَا وَمَا ذَاكَ إِلَّا لِكَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَہَا وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيَتَتَبَّعُ بِہَا صَدَائِقَ خَدِيجَةَ فَيُہْدِيہَا لَہُنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ کی بیویوں میں سے کسی پر میں اس طرح غیرت نہیں کھاتی تھی جس طرح خدیجہ پر غیر ت کھاتی تھی جب کہ میں نے ان کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا،اس غیرت کی کوئی وجہ نہیں تھی سوائے اس کے کہ آپ ان کوبہت یادکرتے تھے،اوراگرآپ بکری ذبح کرتے تو ان کی سہیلیوں کوڈھونڈتے اورگوشت ہدیہ بھیجتے تھے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ عَلِّمْنِي شَيْئًا وَلَا تُكْثِرْ عَلَيَّ لَعَلِّي أَعِيہِ قَالَ لَا تَغْضَبْ فَرَدَّدَ ذَلِكَ مِرَارًا كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ لَا تَغْضَبْ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو حَصِينٍ اسْمُہُ عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آکرعرض کیا: مجھے کچھ سکھائیے لیکن زیادہ نہ بتائیے تاکہ میں اسے یادرکھ سکوں،آپ نے فرمایا: غصہ مت کرو ،وہ کئی باریہی سوال دہراتا رہا اورآپ ہربار کہتے رہے غصہ مت کرو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوسعید اورسلیمان بن صرد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ تُفَتَّحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ فِيہِمَا لِمَنْ لَا يُشْرِكُ بِاللہِ شَيْئًا إِلَّا الْمُہْتَجِرَيْنِ يُقَالُ رُدُّوا ہَذَيْنِ حَتَّی يَصْطَلِحَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُرْوَی فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ ذَرُوا ہَذَيْنِ حَتَّی يَصْطَلِحَا قَالَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ الْمُہْتَجِرَيْنِ يَعْنِي الْمُتَصَارِمَيْنِ وَہَذَا مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَہْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: پیراورجمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں،اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے والوں کی اس دن مغفرت کی جاتی ہے،سوائے ان کے جنہوں نے باہم قطع تعلق کیا ہے،ان کے بارے میں کہا جاتا ہے،ان دونوں کو لوٹا دو یہاں تک کہ آپس میں صلح کرلیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض روایتوں میں ذروا ہذین حتی یصطلحا (ان دونوں کو اپنے حال پر چھوڑدوجب تک صلح نہ کرلیں) کے الفاظ مروی ہیں،۳-مہتجرینکے معنی المتصارمین (قطع تعلق کر نے والے) ہیں،۴-یہ حدیث اسی روایت کے مثل ہے جو نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے،آپ نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ فِي الْجَدَّةِ مَعَ ابْنِہَا إِنَّہَا أَوَّلُ جَدَّةٍ أَطْعَمَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ سُدُسًا مَعَ ابْنِہَا وَابْنُہَا حَيٌّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ وَرَّثَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ الْجَدَّةَ مَعَ ابْنِہَا وَلَمْ يُوَرِّثْہَا بَعْضُہُمْ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (پوتے کے ترکہ میں)دادی اور اس کے بیٹے کے حصہ کے بارے میں کہتے ہیں: وہ پہلی دادی تھی جسے رسول اللہ ﷺ نے اس کے بیٹے کی موجود گی میں چھٹا حصہ دیا،اس وقت اس کابیٹا زندہ تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ہم اسے صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،۲-بعض صحابہ نے بیٹے کی موجود گی میں دادی کو وارث ٹھہرایاہے اور بعض نے وارث نہیں ٹھہرایاہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَوْسَجَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا مَاتَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَلَمْ يَدَعْ وَارِثًا إِلَّا عَبْدًا ہُوَ أَعْتَقَہُ فَأَعْطَاہُ النَّبِيُّ ﷺ مِيرَاثَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ہَذَا الْبَابِ إِذَا مَاتَ الرَّجُلُ وَلَمْ يَتْرُكْ عَصَبَةً أَنَّ مِيرَاثَہُ يُجْعَلُ فِي بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک آدمی مرگیا اوراپنے پیچھے کوئی وارث نہیں چھوڑا سوائے ایک غلام کے جس کو اس نے آزاد کیاتھا،نبی اکرم ﷺ نے اسی غلام کو اس کی میراث دے دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں اہل علم کاعمل ہے کہ جب کوئی آدمی مرجائے اور اپنے پیچھے کوئی عصبہ نہ چھوڑے تو اس کا مال مسلمانوں کے بیت المال میں جمع کیاجائے گا

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْقَاتِلُ لَا يَرِثُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ لَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِسْحَقُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ قَدْ تَرَكَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ مِنْہُمْ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْقَاتِلَ لَا يَرِثُ كَانَ الْقَتْلُ عَمْدًا أَوْ خَطَأً و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا كَانَ الْقَتْلُ خَطَأً فَإِنَّہُ يَرِثُ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قاتل (مقتول کا) وارث نہیں ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح نہیں ہے،یہ صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے،۲-اسحاق بن عبداللہ بن أبی فروہ (کی روایت) کو بعض محدثین نے ترک کردیاہے،احمد بن حنبل انہیں لوگوں میں سے ہیں،۳-اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے کہ قاتل وارث نہیں ہوگا،خواہ قتل قتلِ عمد ہو یا قتل خطا،۴-بعض اہل علم کہتے ہیں: جب قتل قتلِ خطا ہوتو وہ وارث ہوگا۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَی الثَّمَنَ أَوْ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو خرید نے (اور آزاد کرنے) کا ارادہ کیاتو بریرہ کے گھروالوں نے ولاء (میراث) کی شرط رکھی،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ولاء (میراث)کا حق اسی کو حاصل ہے جوقیمت اداکرے یا آزاد کرنے کی نعمت کا مالک ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْعَطَّارُ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا أَلْوَانُہَا قَالَ حُمْرٌ قَالَ فَہَلْ فِيہَا أَوْرَقُ قَالَ نَعَمْ إِنَّ فِيہَا لَوُرْقًا قَالَ أَنَّی أَتَاہَا ذَلِكَ قَالَ لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَہَا قَالَ فَہَذَا لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بنی فزارہ کے ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکرعرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیوی سے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں،آپ نے پوچھا: وہ کس رنگ کے ہیں؟ اس نے کہا: سرخ۔آپ نے پوچھا: کیا اس میں کوئی مٹمیلے رنگ کابھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں،اس میں ایک خاکستری رنگ کا بھی ہے۔آپ نے پوچھا: وہ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: شایدوہ کوئی خاندانی رگ کھینچ لایاہوگا ۱؎،آپ نے فرمایا: اس لڑکے نے بھی شاید کوئی خاندانی رگ کھینچ لا ئی ہواور کالے رنگ کاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُكَتَّبُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيہَا كَالْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّی إِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فَرَجَعَ فِي قَيْئِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جوشخص ہدیہ دے کر پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتارہے یہاں تک کہ جب وہ آسودہ ہوجائے توقے کرے،پھر اسے چاٹ لے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ حَدَّثَنِي طَاوُوسٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعَانِ الْحَدِيثَ قَالَ لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً ثُمَّ يَرْجِعُ فِيہَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَہُ وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيہَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّی إِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِي قَيْئِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا يَحِلُّ لِمَنْ وَہَبَ ہِبَةً أَنْ يَرْجِعَ فِيہَا إِلَّا الْوَالِدَ فَلَہُ أَنْ يَرْجِعَ فِيمَا أَعْطَی وَلَدَہُ وَاحْتَجَّ بِہَذَا الْحَدِيثِ

عبداللہ بن عمراور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکر مﷺ نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی ہدیہ دے،پھر اسے واپس لے لے،سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کودیتاہے (وہ اسے واپس لے سکتاہے) اور جوشخص کوئی عطیہ دے پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتارہے یہاں تک کہ جب آسودہ ہوجائے توقے کرے،پھر اپنا قے کھالے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شافعی کہتے ہیں: کسی ہدیہ دینے والے کے لیے جائز نہیں کہ ہدیہ واپس لے لے سوائے باپ کے،کیوں کہ اس کے لیے جائز ہے کہ جو ہدیہ اپنے بیٹے کو دیا ہے اسے واپس لے لے،انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْمَوَالِي الْمُزَنِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْہَبٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سِتَّةٌ لَعَنْتُہُمْ وَلَعَنَہُمْ اللہُ وَكُلُّ نَبِيٍّ كَانَ الزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللہِ وَالْمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللہِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوتِ لِيُعِزَّ بِذَلِكَ مَنْ أَذَلَّ اللہُ وَيُذِلَّ مَنْ أَعَزَّ اللہُ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللہِ وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللہُ وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْہَبٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَوْہَبٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَہَذَا أَصَحُّ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھ قسم کے لوگ ایسے ہیں جن پر میں نے،اللہ تعالیٰ نے اور تمام انبیاء نے لعنت بھیجی ہے: اللہ کی کتاب میں اضافہ کرنے والا،اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا،طاقت کے ذریعہ غلبہ حاصل کرنے والا تاکہ ا س کے ذریعہ اسے عزت دے جسے اللہ نے ذلیل کیا ہے،اور اسے ذلیل کرے جسے اللہ نے عزت بخشی ہے،اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا،میرے کنبہ میں سے اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا اور میری سنت ترک کرنے والا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: عبدالرحمٰن بن ابوموالی نے یہ حدیث اسی طرح عن عبیداللہ بن عبدالرحمٰن بن موہب عن عمرۃ عن عائشۃ عن النبی ﷺ کی سند سے روایت کی ہے۔سفیان ثوری،حفص بن غیاث اور کئی لوگوں نے اسے عن عبیداللہ بن عبدالرحمٰن بن موہب عن علی بن حسن عن النبی ﷺ کی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے۔یہ زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ سُلَيْمٍ قَالَ قَدِمْتُ مَكَّةَ فَلَقِيتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ فَقُلْتُ لَہُ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ أَہْلَ الْبَصْرَةِ يَقُولُونَ فِي الْقَدَرِ قَالَ يَا بُنَيَّ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاقْرَأْ الزُّخْرُفَ قَالَ فَقَرَأْتُ حم وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ وَإِنَّہُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ فَقَالَ أَتَدْرِي مَا أُمُّ الْكِتَابِ قُلْتُ اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہُ كِتَابٌ كَتَبَہُ اللہُ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَقَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ الْأَرْضَ فِيہِ إِنَّ فِرْعَوْنَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ وَفِيہِ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَہَبٍ وَتَبَّ قَالَ عَطَاءٌ فَلَقِيتُ الْوَلِيدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ صَاحِبَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَسَأَلْتُہُ مَا كَانَ وَصِيَّةُ أَبِيكَ عِنْدَ الْمَوْتِ قَالَ دَعَانِي أَبِي فَقَالَ لِي يَا بُنَيَّ اتَّقِ اللہَ وَاعْلَمْ أَنَّكَ لَنْ تَتَّقِيَ اللہَ حَتَّی تُؤْمِنَ بِاللہِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّہِ خَيْرِہِ وَشَرِّہِ فَإِنْ مُتَّ عَلَی غَيْرِ ہَذَا دَخَلْتَ النَّارَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللہُ الْقَلَمَ فَقَالَ اكْتُبْ فَقَالَ مَا أَكْتُبُ قَالَ اكْتُبْ الْقَدَرَ مَا كَانَ وَمَا ہُوَ كَائِنٌ إِلَی الْأَبَدِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں کہ میں مکہ گیا تو عطاء بن ابی رباح سے ملاقات کی اور ان سے کہا: ابومحمد! بصرہ والے تقدیر کے سلسلے میں (برسبیل انکار)کچھ گفتگو کرتے ہیں،انہوں نے کہا:بیٹے! کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں،انہوں نے کہا: سورہ زخرف پڑھو،میں نے پڑھا:حم وَالْکِتَابِ الْمُبِینِ إِنَّا جَعَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ وَإِنَّہُ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیمٌ ۱؎ پڑھی،انہوں نے کہا: جانتے ہو أم الکتاب کیاہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں،انہوں نے کہا: وہ ایک کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے پہلے لکھاہے،اس میں یہ لکھا ہواہے کہ فرعون جہنمی ہے اوراس میں تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ ۲؎ بھی لکھاہواہے۔عطاء کہتے ہیں: پھر میں ولید بن عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ملا (ولید کے والد عبادہ بن صامت صحابی رسول تھے) اور ان سے سوال کیا: مرتے وقت آپ کے والد کی کیا وصیت تھی؟ کہا: میرے والد نے مجھے بلایا اور کہا: بیٹے! اللہ سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم اللہ سے ہرگز نہیں ڈر سکتے جب تک تم اللہ پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر ایمان نہ لاؤ۔اگر اس کے سوا دوسرے عقیدہ پرتمہاری موت آئے گی تو جہنم میں جاؤگے،میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور فرمایا: لکھو،قلم نے عرض کیا: کیالکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقدیر لکھو جوکچھ ہوچکا ہے اور جو ہمیشہ تک ہونے والاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ المُنْذِرِ البَاہِلِيُّ الصَّنْعَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَزِيدَ المُقْرِئُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو ہَانِئٍ الخَوْلَانِيُّ،أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الحُبُلِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ: ((قَدَّرَ اللہُ المَقَادِيرَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ)): ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے تقدیر کو زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے لکھاتھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ زِيَادِ بْنِ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَخْزُومِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ جَاءَ مُشْرِكُو قُرَيْشٍ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ يُخَاصِمُونَ فِي الْقَدَرِ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلَی وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مشرکین قریش تقدیر کے بارے میں جھگڑتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو یہ آیت نازل ہوئی یَوْمَ یُسْحَبُونَ فِی النَّارِ عَلَی وُجُوہِہِمْ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ إِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-مذکورہ حدیث مجھ سے قبیصہ نے بیان کی،وہ کہتے ہیں: مجھ سے عبدالرحمٰن بن زید نے بیان کی۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ أَبُو الْمُغِيرَةِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ إِنِّي قُمْتُ فِيكُمْ كَمَقَامِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِينَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِأَصْحَابِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّی يَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَحْلَفُ وَيَشْہَدَ الشَّاہِدُ وَلَا يُسْتَشْہَدُ أَلَا لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِثَہُمَا الشَّيْطَانُ عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَہُوَ مِنْ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہُ وَسَاءَتْہُ سَيِّئَتُہُ فَذَلِكُمْ الْمُؤْمِنُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَاہُ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مقام جابیہ میں(میروالد) عمر رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوے،انہوں نے کہا: لوگو! میں تمہارے درمیان اسی طرح (خطبہ دینے کے لیے) کھڑا ہوا ہوں جیسے رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوتے تھے،آپ ﷺنے فرمایا: میں تمہیں اپنے صحابہ کی پیروی کی وصیت کرتا ہوں،پھر ان کے بعد آنے والوں (یعنی تابعین) کی پھر ان کے بعد آنے والوں(یعنی تبع تابعین)کی،پھر جھوٹ عام ہوجائے گا،یہاں تک کہ قسم کھلائے بغیر آدمی قسم کھائے گا اورگواہ گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے گا،خبردار! جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے،تم لوگ جماعت کولازم پکڑواورپارٹی بندی سے بچو،کیوں کہ شیطان اکیلے آدمی کے ساتھ رہتا ہے،دوکے ساتھ اس کا رہنا نسبۃً زیادہ دورکی بات ہے،جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتاہووہ جماعت سے لازمی طورپر جڑارہے اور جسے اپنی نیکی سے خوشی ملے اورگناہ سے غم لاحق ہوحقیقت میں وہی مومن ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اسے ابن مبارک نے بھی محمد بن سوقہ سے روایت کیا ہے،۳-یہ حدیث کئی سندوں سے عمر کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ مَيْمُونٍ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَدُ اللہِ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد و نصرت) جماعت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنِي الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ ﷺ عَلَی ضَلَالَةٍ وَيَدُ اللہِ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَی النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَسُلَيْمَانُ الْمَدَنِيُّ ہُوَ عِنْدِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُفْيَانَ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَتَفْسِيرُ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ ہُمْ أَہْلُ الْفِقْہِ وَالْعِلْمِ وَالْحَدِيثِ قَالَ و سَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ سَأَلْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ الْمُبَارَكِ مَنْ الْجَمَاعَةُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قِيلَ لَہُ قَدْ مَاتَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قَالَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ قِيلَ لَہُ قَدْ مَاتَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ جَمَاعَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو حَمْزَةَ ہُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ وَكَانَ شَيْخًا صَالِحًا وَإِنَّمَا قَالَ ہَذَا فِي حَيَاتِہِ عِنْدَنَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ میری امت کو یایہ فرمایا: محمد ﷺ کی امت کوگمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا،اللہ کا ہاتھ (اس کی مدد ونصرت) جماعت کے ساتھ ہے،جوشخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-سلیمان مدنی میرے نزدیک سلیمان بن سفیان ہی ہیں،ان سے ابوداود طیالسی،ابوعامر عقدی اورکئی اہل علم نے روایت کی ہے،۳-اہل علم کے نزدیک جماعت سے مراد اصحاب فقہ اور اصحاب علم اوراصحاب حدیث ہیں،۴-علی بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا: جماعت سے کون لوگ مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: ابوبکر وعمر،ان سے کہاگیا: ابوبکر وعمر تو وفات پاگئے،انہوں نے کہا: فلاں اورفلاں،ان سے کہا گیا: فلاں اورفلاں بھی تو وفات پاچکے ہیں توعبداللہ بن مبارک نے کہا: ابوحمزہ سکری جماعت ہیں ۱؎،۵-ابوحمزہ کانام محمدبن میمون ہے،وہ صالح اورنیک شیخ تھے،عبداللہ بن مبارک نے یہ بات ہم سے اس وقت کہی تھی جب ابوحمزہ باحیات تھے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ انْفَلَقَ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اشْہَدُوا قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں چاند(دوٹکڑوں میں) ہوگیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ گواہ رہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،انس اورجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ حَبِيبَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَتْ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ نَوْمٍ مُحْمَرًّا وَجْہُہُ وَہُوَ يَقُولُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ يُرَدِّدُہَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدْ اقْتَرَبَ فُتِحَ الْيَوْمَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ ہَذِہِ وَعَقَدَ عَشْرًا قَالَتْ زَيْنَبُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَفَنَہْلِكُ وَفِينَا الصَّالِحُونَ قَالَ نَعَمْ إِذَا كَثُرَ الْخُبْثُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ جَوَّدَ سُفْيَانُ ہَذَا الْحَدِيثَ ہَكَذَا رَوَی الْحُمَيْدِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ نَحْوَ ہَذَا و قَالَ الْحُمَيْدِيُّ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَفِظْتُ مِنْ الزُّہْرِيِّ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ أَرْبَعَ نِسْوَةٍ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ حَبِيبَةَ وَہُمَا رَبِيبَتَا النَّبِيِّ ﷺ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ زَوْجَيْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَكَذَا رَوَی مَعْمَرٌ وَغَيْرُہُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ حَبِيبَةَ وَقَدْ رَوَی بَعْضُ أَصْحَابِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ

زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ سوکراٹھے تو آپ کا چہرئہ مبارک سرخ تھا اورآپ فرمارہے تھے: لا إلہ إلا اللہ (اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں) آپ نے اسے تین باردہرایا،پھرفرمایا: اس شر (فتنہ) سے عرب کے لیے تباہی ہے جوقریب آگیا ہے،آج یاجوج ماجوج کی دیوارمیں اتنا سوراخ ہوگیا ہے اورآپ نے (ہاتھ کی انگلیوں سے) دس کی گرہ لگائی ۱؎،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ہلاک کردے جائیں گے حالانکہ ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں،جب برائی زیادہ ہوجائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-(سندمیں چارعورتوں کا تذکرہ کرکے) سفیان بن عیینہ نے یہ حدیث اچھی طرح بیان کی ہے،حمیدی،علی بن مدینی اوردوسرے کئی محدثین نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-حمیدی کہتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نے کہا: میں نے اس حدیث کی سند میں زہری سے چارعورتوں کا واسطہ یادکیا ہے: عن زینب بنت أبی سلمۃ،عن حبیبۃ،عن أم حبیبۃ،عن زینب بنت جحش،زینب بنت ابی سلمہ اورحبیبہ نبی اکرمﷺ کی سوتیلی لڑکیاں ہیں اورام حبیبہ اورزینب بنت جحش نبی اکرمﷺ کی ازواج مطہرات ہیں،۴-معمر اور کئی لوگوں نے یہ حدیث زہری سے اسی طرح روایت کی ہے مگراس میں حبیبہ کے واسطہ کاذکرنہیں کیاہے،ابن عیینہ کے بعض شاگردوں نے ابن عیینہ سے یہ حدیث روایت کرتے وقت اس میں ام حبیبہکے واسطہ کا ذکرنہیں کیاہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سَتَخْرُجُ نَارٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ أَوْ مِنْ نَحْوِ بَحْرِ حَضْرَمَوْتَ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ تَحْشُرُ النَّاسَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي ذَرٍّ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت سے پہلے حضرموت یا حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں،آپ نے فرمایا: تم شام چلے جانا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے حسن غریب صحیح ہے،۲-اس باب میں حذیفہ بن اسید،انس،ابوہریرہ اورابوذر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِہِمْ قَوْمٌ يَتَسَمَّنُونَ وَيُحِبُّونَ السِّمَنَ يُعْطُونَ الشَّہَادَةَ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلُوہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ ہِلَالِ بْنِ يَسَافٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَلِيَّ بْنَ مُدْرِكٍ قَالَ و حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ حَدَّثَنَا ہِلَالُ بْنُ يَسَافٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ نَحْوَہُ وَہَذَا أَصَحُّ عِنْدِي مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: تمام لوگوں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں،پھر ان کے بعدآنے والے،پھر ان کے بعدآنے والے،پھر ان کے بعدایسے لوگ آئیں گے جو موٹے تازے ہوں گے،موٹاپاپسندکریں گے اور گواہی طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دیتے پھریں گے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: محمدبن فضیل نے یہ حدیث اسی طرح عن الأعمش،عن علی بن مدرک،عن ہلال بن یساف کی سند سے روایت کی ہے،کئی حفاظ نے اسے عن الأعمش،عن ہلال بن یساف کی سند سے روایت کی ہے،اس میں علی بن مدرک کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔اس سند سے بھی عمران بن حصین سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ میرے نزدیک محمدبن فضیل کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے عمران بن حصین کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِي بُعِثْتُ فِيہِمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ قَالَ وَلَا أَعْلَمُ ذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لَا ثُمَّ يَنْشَأُ أَقْوَامٌ يَشْہَدُونَ وَلَا يُسْتَشْہَدُونَ وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ وَيَفْشُو فِيہِمْ السِّمَنُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن کے درمیان میں بھیجا گیا ہوں،پھر وہ لوگ ہیں جوان کے بعدہوں گے،عمران بن حصین کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے تیسرے زمانہ کاذکرکیا یانہیں،پھر اس کے بعدایسے لوگ پیداہوں گے جن سے گواہی نہیں طلب کی جائے گی پھر بھی گواہی دیتے رہیں گے،خیانت کریں گے امانت دارنہیں ہوں گے اوران میں موٹاپاعام ہوجائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ الدَّجَّالِ فَقَالَ أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ أَلَا وَإِنَّہُ أَعْوَرُ عَيْنُہُ الْيُمْنَی كَأَنَّہَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَحُذَيْفَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَسْمَاءَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَبِي بَكْرَةَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْفَلَتَانِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ سے دجال کے بارے میں پوچھاگیا توآپ نے فرمایا: سنو! تمہارا رب کانا نہیں ہے جب کہ دجال کانا ہے،اس کی داہنی آنکھ انگورکی طرح ابھری ہوئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث عبداللہ بن عمرکی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں سعد،حذیفہ،ابوہریرہ،اسماء،جابربن عبداللہ،ابوبکرہ،عائشہ،انس،ابن عباس اورفلتان بن عاصم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ صَحِبَنِي ابْنُ صَائِدٍ إِمَّا حُجَّاجًا وَإِمَّا مُعْتَمِرِينَ فَانْطَلَقَ النَّاسُ وَتُرِكْتُ أَنَا وَہُوَ فَلَمَّا خَلَصْتُ بِہِ اقْشَعْرَرْتُ مِنْہُ وَاسْتَوْحَشْتُ مِنْہُ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ فِيہِ فَلَمَّا نَزَلْتُ قُلْتُ لَہُ ضَعْ مَتَاعَكَ حَيْثُ تِلْكَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَأَبْصَرَ غَنَمًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَانْطَلَقَ فَاسْتَحْلَبَ ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ فَقَالَ لِي يَا أَبَا سَعِيدٍ اشْرَبْ فَكَرِہْتُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِہِ شَيْئًا لِمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيہِ فَقُلْتُ لَہُ ہَذَا الْيَوْمُ يَوْمٌ صَائِفٌ وَإِنِّي أَكْرَہُ فِيہِ اللَّبَنَ قَالَ لِي يَا أَبَا سَعِيدٍ ہَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُوثِقَہُ إِلَی شَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ لِمَا يَقُولُ النَّاسُ لِي وَفِيَّ أَرَأَيْتَ مَنْ خَفِيَ عَلَيْہِ حَدِيثِي فَلَنْ يَخْفَی عَلَيْكُمْ أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّہُ كَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّہُ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَہُ وَقَدْ خَلَّفْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَدْخُلُ أَوْ لَا تَحِلُّ لَہُ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ أَلَسْتُ مِنْ أَہْلِ الْمَدِينَةِ وَہُوَ ذَا أَنْطَلِقُ مَعَكَ إِلَی مَكَّةَ فَوَاللہِ مَا زَالَ يَجِيءُ بِہَذَا حَتَّی قُلْتُ فَلَعَلَّہُ مَكْذُوبٌ عَلَيْہِ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا سَعِيدٍ وَاللہِ لَأُخْبِرَنَّكَ خَبَرًا حَقًّا وَاللہِ إِنِّي لَأَعْرِفُہُ وَأَعْرِفُ وَالِدَہُ وَأَعْرِفُ أَيْنَ ہُوَ السَّاعَةَ مِنْ الْأَرْضِ فَقُلْتُ تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حج یاعمرہ میں ابن صائد (ابن صیاد) میرے ساتھ تھا،لوگ آگے چلے گئے اورہم دونوں پیچھے رہ گئے،جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تولوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اوراس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا،چنانچہ جب میں سواری سے اتراتو اس سے کہا: اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو،پھراس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اورجاکردودھ نکا ل لایا،پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا: ابوسعید! پیو،لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پیناپسندنہیں کیا،اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے میں کچھ کہتے تھے (یعنی دجال ہے) چنانچہ میں نے اس سے کہا: آج کا دن سخت گرمی کا ہے اس لیے میں آج دودھ پینا بہتر نہیں سمجھتا،اس نے کہا: ابوسعید! میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی سے اپنے آپ کو اس درخت سے باندھ لوں اورگلاگھونٹ کر مرجاؤں یہ اس وجہ سے کہ لوگ جو میرے بارے میں کہتے ہیں،بد گمانی کرتے ہیں،آپ بتائیے لوگوں سے میری باتیں بھلے ہی چھپی ہوں مگر آپ سے تو نہیں چھپی ہیں؟ انصارکی جماعت! کیا آپ لو گ رسول اللہﷺ کی حدیث کے سب سے بڑے جانکارنہیں ہیں؟ کیا رسول اللہﷺ نے (دجال کے بارے میں) یہ نہیں فرمایاہے کہ وہ کافرہے؟ جب کہ میں مسلمان ہوں،کیارسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے؟اس کی اولادنہیں ہوگی،جب کہ میں نے مدینہ میں اپنی اولاد چھوڑی ہے،کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہوگا؟ کیا میں مدینہ کا نہیں ہوں؟ اوراب آپ کے ساتھ چل کر مکہ جارہاہوں،ابوسعیدخدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! وہ ایسی ہی دلیلیں پیش کرتا رہا یہاں تک کہ میں کہنے لگا: شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں،پھر اس نے کہا: ابوسعید! اللہ کی قسم! اس کے بارے میں آپ کو سچی بات بتاؤں؟ اللہ کی قسم! میں دجال کو جانتاہوں،اس کے باپ کو جانتا ہوں اوریہ بھی جانتاہوں کہ وہ اس وقت زمین کے کس خطہ میں ہیتب میں نے کہا: تمہارے لیے تمام دن تباہی ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ لَقِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَاحْتَبَسَہُ وَہُوَ غُلَامٌ يَہُودِيٌّ وَلَہُ ذُؤَابَةٌ وَمَعَہُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَشْہَدُ أَنِّي رَسُولُ اللہِ فَقَالَ أَتَشْہَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ آمَنْتُ بِاللہِ وَمَلَائِكَتِہِ وَكُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا تَرَی قَالَ أَرَی عَرْشًا فَوْقَ الْمَاءِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ تَرَی عَرْشَ إِبْلِيسَ فَوْقَ الْبَحْرِ قَالَ فَمَا تَرَی قَالَ أَرَی صَادِقًا وَكَاذِبِينَ أَوْ صَادِقِينَ وَكَاذِبًا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لُبِسَ عَلَيْہِ فَدَعَاہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَحَفْصَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ابن صائد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملے،آپ نے اسے پکڑلیا،وہ ایک یہودی لڑکا تھا،اس کے سر پر ایک چوٹی تھی،اس وقت آپ کے ساتھ ابوبکراورعمربھی تھے،آپ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟،اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں اللہ،اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں،اس کے رسولوں اوریوم آخرت پرایمان لا یاہوں،نبی اکرمﷺ نے پوچھا:تم کیا دیکھتے ہو؟ ۱؎ اس نے کہا: پانی کے اوپرایک عرش دیکھتاہوں،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم سمندرکے اوپرابلیس کا عرش دیکھتے ہو،آپ نے فرمایا: اوربھی کچھ دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: ایک سچا اوردوجھوٹے یا دوجھوٹے اورایک سچے کو دیکھتاہوں،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس پر معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے ،پھر آپ نے اسے چھوڑدیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عمر،حسین بن علی،ابن عمر،ابوذر،ابن مسعود،جابر اورحفصہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَمْكُثُ أَبُو الدَّجَّالِ وَأُمُّہُ ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَہُمَا وَلَدٌ ثُمَّ يُولَدُ لَہُمَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْءٍ وَأَقَلُّہُ مَنْفَعَةً تَنَامُ عَيْنَاہُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُہُ ثُمَّ نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبَوَيْہِ فَقَالَ أَبُوہُ طِوَالٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ كَأَنَّ أَنْفَہُ مِنْقَارٌ وَأُمُّہُ فِرْضَاخِيَّةٌ طَوِيلَةُ الْيَدَيْنِ فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ فَسَمِعْنَا بِمَوْلُودٍ فِي الْيَہُودِ بِالْمَدِينَةِ فَذَہَبْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّی دَخَلْنَا عَلَی أَبَوَيْہِ فَإِذَا نَعْتُ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِيہِمَا فَقُلْنَا ہَلْ لَكُمَا وَلَدٌ فَقَالَا مَكَثْنَا ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَنَا وَلَدٌ ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلَامٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْءٍ وَأَقَلُّہُ مَنْفَعَةً تَنَامُ عَيْنَاہُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُہُ قَالَ فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِہِمَا فَإِذَا ہُوَ مُنْجَدِلٌ فِي الشَّمْسِ فِي قَطِيفَةٍ لَہُ وَلَہُ ہَمْہَمَةٌ فَتَكَشَّفَ عَنْ رَأْسِہِ فَقَالَ مَا قُلْتُمَا قُلْنَا وَہَلْ سَمِعْتَ مَا قُلْنَا قَالَ نَعَمْ تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ

ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دجال کے باپ اورماں تیس سال تک اس حال میں رہیں گے کہ ان کے ہاں کوئی لڑکا پیدانہیں ہوگا،پھر ایک کانالڑکا پیداہو گا جس میں نقصان زیادہ اورفائدہ کم ہوگا،اس کی آنکھیں سوئیں گی مگردل نہیں سوئے گا،پھررسول اللہﷺ نے اس کے والدین کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس کا باپ دراز قد اوردبلا ہوگا اور اس کی ناک چونچ کی طرح ہوگی،اس کی ماں بھاری بھرکم اورلمبے ہاتھ والی ہوگی،ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے مدینہ کے اندریہود میں ایک ایسے ہی لڑکے کے بارے میں سنا،چنانچہ میں اورزبیربن عوام چلے یہاں تک کہ اس کے والدین کے پاس گئے تو وہ ویسے ہی تھے،جیسا رسول اللہﷺ نے بتایا تھا،ہم نے پوچھا: کیا تمہارا کوئی لڑکا ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے ہاں تیس سال تک کوئی لڑکا پیدانہیں ہوا،پھر ہم سے ایک لڑکا پیداہو ا جس میں نقصان زیادہ اورفائدہ کم ہے،اس کی آنکھیں سوتی ہیں مگراس کا دل نہیں سوتا،ہم ان کے پاس سے نکلے تو وہ لڑکا دھوپ میں ایک موٹی چادرپر لیٹاتھا اورکچھ گنگنا رہا تھا،پھراس نے اپنے سرسے کپڑے ہٹایااورپوچھا:تم دونوں نے کیا کہا ہے؟ ہم نے کہا: ہم نے جو کہا ہے کیاتم نے اسے سن لیا؟ اس نے کہا: ہاں،میری آنکھیں سوتی ہیں،مگردل نہیں سوتا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فِيہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَہُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَہُوَ غُلَامٌ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّی ضَرَبَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ظَہْرَہُ بِيَدِہِ ثُمَّ قَالَ أَتَشْہَدُ أَنِّي رَسُولُ اللہِ فَنَظَرَ إِلَيْہِ ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ أَشْہَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ أَتَشْہَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ آمَنْتُ بِاللہِ وَبِرُسُلِہِ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا يَأْتِيكَ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَہُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ ہُوَ الدُّخُّ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللہِ ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْہِ وَإِنْ لَا يَكُنْہُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِہِ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ يَعْنِي الدَّجَّالَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمربن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے،اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہاتھا،وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہوسکا یہاں تک کہ آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا،پھر فرمایا: کیاتم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا:میں گواہی دیتاہوں کہ آپ امیّوں کے رسول ہیں،پھرابن صیاد نے نبی اکرمﷺ سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لایاہوں،پھر نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا: تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیزآتی ہے؟ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اورایک جھوٹا آتا ہے،پھر نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تمہارے اوپرتیرا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے،پھرآپﷺ نے فرمایا: میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اورآپ نے آیت: یَوْمَ تَأْتِی السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِینٍ ۱؎ چھپالی،ابن صیادنے کہا: وہ (چھپی ہوئی چیز) دخ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پھٹکارہوتجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑادوں،آپﷺ نے فرمایا:اگروہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آسکتے اوراگروہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔عبدالرزاق کہتے ہیں: حقا سے آپ کی مراد دجال ہے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ نَبِيَّ اللہِ ﷺ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَضَحِكَ فَقَالَ إِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ حَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ فَفَرِحْتُ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدَّثَنِي أَنَّ نَاسًا مِنْ أَہْلِ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا سَفِينَةً فِي الْبَحْرِ فَجَالَتْ بِہِمْ حَتَّی قَذَفَتْہُمْ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ فَإِذَا ہُمْ بِدَابَّةٍ لَبَّاسَةٍ نَاشِرَةٍ شَعْرَہَا فَقَالُوا مَا أَنْتِ قَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا فَأَخْبِرِينَا قَالَتْ لَا أُخْبِرُكُمْ وَلَا أَسْتَخْبِرُكُمْ وَلَكِنْ ائْتُوا أَقْصَی الْقَرْيَةِ فَإِنَّ ثَمَّ مَنْ يُخْبِرُكُمْ وَيَسْتَخْبِرُكُمْ فَأَتَيْنَا أَقْصَی الْقَرْيَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُوثَقٌ بِسِلْسِلَةٍ فَقَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ قُلْنَا مَلْأَی تَدْفُقُ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ الْبُحَيْرَةِ قُلْنَا مَلْأَی تَدْفُقُ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ الَّذِي بَيْنَ الْأُرْدُنِّ وَفِلَسْطِينَ ہَلْ أَطْعَمَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ النَّبِيِّ ہَلْ بُعِثَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَخْبِرُونِي كَيْفَ النَّاسُ إِلَيْہِ قُلْنَا سِرَاعٌ قَالَ فَنَزَّی نَزْوَةً حَتَّی كَادَ قُلْنَا فَمَا أَنْتَ قَالَ أَنَا الدَّجَّالُ وَإِنَّہُ يَدْخُلُ الْأَمْصَارَ كُلَّہَا إِلَّا طَيْبَةَ وَطَيْبَةُ الْمَدِينَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ وَقَدْ رَوَاہُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ

فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ منبرپرچڑھے،ہنسے پھرفرمایا: تمیم داری نے مجھ سے ایک بات بیان کی ہے جس سے میں بے حد خوش ہوں اورچاہتاہوں کہ تم سے بھی بیان کروں،انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوارہوئے،وہ کشتی (طوفان میں پڑنے کی وجہ سے) کسی اور طرف چلی گئی حتی کہ انہیں سمندر کے کسی جزیرہ میں ڈال دیا،اچانک ان لوگوں نے بہت کپڑے پہنے ایک رینگنے والی چیزکو دیکھاجس کے بال بکھرے ہوئے تھے،ان لوگوں نے پوچھا: تم کیاہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ (جاسوسی کرنے والی)ہوں،ان لوگوں نے کہا: ہمیں(اپنے بارے میں) بتاؤ،اس نے کہا: نہ میں تم لوگوں کو کچھ بتاؤں گی اورنہ ہی تم لوگوں سے کچھ پوچھوں گی،البتہ تم لوگ بستی کے آخرمیں جاؤ وہاں ایک آدمی ہے،جو تم کو بتائے گا اورتم سے پوچھے گا،چنانچہ ہم لوگ بستی کے آخرمیں آئے تو وہاں ایک آدمی زنجیرمیں بندھاہوا تھا اس نے کہا: مجھے زغر(ملک شام کی ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ،ہم نے کہا: بھرا ہوا ہے اورچھلک رہا ہے،اس نے کہا: مجھے بیسان کے کھجوروں کے بارے میں بتاؤجو اردن اورفلسطین کے درمیان ہے،کیا اس میں پھل آیا؟ ہم نے کہا: ہاں،اس نے کہا: مجھے نبی (آخرالزماں ﷺ) کے بارے میں بتاؤکیا وہ مبعوث ہوئے؟ہم نے کہا: ہاں،اس نے کہا: بتاؤلوگ ان کی طرف کیسے جاتے ہیں؟ ہم نے کہا: تیزی سے،اس نے زورسے چھلانگ لگا ئی حتی کہ آزاد ہونے کے قریب ہوگیا،ہم نے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہاکہ وہ دجال ہے اورطیبہ کے علاوہ تمام شہروں میں داخل ہوگا،طیبہ سے مراد مدینہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث شعبہ کے واسطہ سے قتادہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اسے کئی لوگوں نے شعبی کے واسطہ سے فاطمہ بنت قیس سے روایت کیا ہے ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ أُرَاہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ كَذَبَ فِي حُلْمِہِ كُلِّفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَقْدَ شَعِيرَةٍ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص جھوٹا خواب بیان کرے،قیامت کے دن اسے جوکے درمیان گرہ لگانے پرمکلف کیاجائے گا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ،عَنْ عَبْدِ الأَعْلَی،عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ،عَنْ عَلِيٍّ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ،وَفِي البَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،وَأَبِي ہُرَيْرَةَ،وَأَبِي شُرَيْحٍ،وَوَاثِلَةَ. وَہَذَا أَصَحُّ مِنَ الحَدِيثِ الْأَوَّلِ

اس سندسے بھی علی رضی اللہ عنہ نبی اکرمﷺ کے واسطہ سے اسی جیسی حدیث روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۳-اس باب میں ابن عباس،ابوہریرہ،ابوشریح اورواثلہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ تَحَلَّمَ كَاذِبًا كُلِّفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ وَلَنْ يَعْقِدَ بَيْنَہُمَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص جھوٹاخواب بیان کرے تو قیامت کے دن دوجوکے درمیان گرہ لگانے پر مکلف کیاجائے گا اوروہ ان دونوں کے درمیان گرہ ہرگزنہیں لگاسکے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ كَانَتْ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللہِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَی كَافِرًا مِنْہَا شَرْبَةَ مَاءٍ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دینا کی وقعت اگرایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ الرَّكْبِ الَّذِينَ وَقَفُوا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَلَی السَّخْلَةِ الْمَيِّتَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَتَرَوْنَ ہَذِہِ ہَانَتْ عَلَی أَہْلِہَا حِينَ أَلْقَوْہَا قَالُوا مِنْ ہَوَانِہَا أَلْقَوْہَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ فَالدُّنْيَا أَہْوَنُ عَلَی اللہِ مِنْ ہَذِہِ عَلَی أَہْلِہَا وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْمُسْتَوْرِدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ

مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں بھی ان سواروں کے ساتھ تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس کھڑے تھے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیاتم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیراوربے قیمت ہوگیا تو انہوں نے اسے پھینک دیا،صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کی بے قیمت ہونے کی بنیادہی پر لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے،آپ نے فرمایا: دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیراوربے وقعت ہے جتنا یہ اپنے لوگوں کے نزدیک حقیراوربے وقعت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-مستورد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا مومن کے لیے قید خانہ(جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ وبہار) ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا حُرَيْثُ بْنُ السَّائِبِ قَال سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ حَدَّثَنِي حُمْرَانُ بْنُ أَبَانَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَی ہَذِہِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُہُ وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَہُ وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ حَدِيثُ الْحُرَيْثِ بْنِ السَّائِبِ وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ سَلْمٍ الْبَلْخِيَّ يَقُولُ قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ جِلْفُ الْخُبْزِ يَعْنِي لَيْسَ مَعَہُ إِدَامٌ

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھرہو جس میں وہ زندگی بسرکرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے،اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث حریث بن سائب کی روایت سے ہے،۳-میں نے ابوداود سلیمان بن سلم بلخی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نضر بن شمیل نے کہا: جلف الخبز کا مطلب ہے وہ روٹی ہے جس کے ساتھ سالن نہ ہو۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ ہُبَيْرَةَ عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَی اللہِ حَقَّ تَوَكُّلِہِ لَرُزِقْتُمْ كَمَا يُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَالِكٍ

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اگر تم لوگ اللہ پر توکل(بھروسہ) کرو جیساکہ اس پر توکل(بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتاہے کہ صبح کووہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ أَخَوَانِ عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَكَانَ أَحَدُہُمَا يَأْتِي النَّبِيَّ ﷺ وَالْآخَرُ يَحْتَرِفُ فَشَكَا الْمُحْتَرِفُ أَخَاہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ کے زمانے میں دوبھائی تھے،ان میں ایک نبی اکرمﷺ کی خدمت میں رہتاتھا اور دوسرامحنت ومزدوری کرتاتھا،محنت ومزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نَبْہَانَ بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَةَ الرَّاسِبِيُّ عَنْ أَبِي الْوَازِعِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ يَا رَسُولَ اللہِ وَاللہِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ فَقَالَ انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ قَالَ وَاللہِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ فَقَالَ انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ قَالَ وَاللہِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَی مَنْ يُحِبُّنِي مِنْ السَّيْلِ إِلَی مُنْتَہَاہُ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ شَدَّادٍ أَبِي طَلْحَةَ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو الْوَازِعِ الرَّاسِبِيُّ اسْمُہُ جَابِرُ بْنُ عَمْرٍو وَہُوَ بَصْرِيٌّ

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتاہوں،آپ نے فرمایا: جوکہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو،اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتاہوں،آپ نے فرمایا:جوکہہ رہے ہواس کے بارے میں سوچ سمجھ لو،اس نے پھرکہا: اللہ کی قسم!میں آپ سے محبت کرتاہوں،اسی طرح تین دفعہ کہا تو آپ نے فرمایا: اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہوتو فقر ومحتاجی کاٹاٹ تیاررکھو اس لیے کہ جوشخص مجھے دوست بنانا چاہتاہے اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتناتیزسیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤکے رخ پرنہیں جاتا۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ابوالوازع راسبی کانام جابربن عمرو ہے اوریہ بصری ہیں۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ وَكَرِہْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْہِ النَّاسُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور بدی کے بارے میں سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا:نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جوتمہارے دل میں کھٹک پیداکرے اور لوگوں کا مطلع ہونا تم اس پر ناگوارگزرے ۱؎۔اس سند سے بھی نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،لیکن اس میں سأل رسول اللہ ﷺ کی بجائے سألت رسول اللہ ﷺ ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ قَالَ قَامَ رَجُلٌ فَأَثْنَی عَلَی أَمِيرٍ مِنْ الْأُمَرَاءِ فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ يَحْثُو فِي وَجْہِہِ التُّرَابَ وَقَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوہِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی زَائِدَةُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَحَدِيثُ مُجَاہِدٍ عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ أَصَحُّ وَأَبُو مَعْمَرٍ اسْمُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ سَخْبَرَةَ وَالْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ ہُوَ الْمِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍو الْكِنْدِيُّ وَيُكْنَی أَبَا مَعْبَدٍ وَإِنَّمَا نُسِبَ إِلَی الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ لِأَنَّہُ كَانَ قَدْ تَبَنَّاہُ وَہُوَ صَغِيرٌ

ابومعمرعبداللہ بن سخبرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکرایک امیر کی تعریف شروع کی تو مقداد بن عمروکندی رضی اللہ عنہ اس کے چہرے پرمٹی ڈالنے لگے،اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالدیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-زائدہ نے یہ حدیث مجاہد سے،مجاہدنے ابن عباس سے روایت کی ہے حالاں کہ مجاہد کی روایت جو ابومعمر سے ہے وہ زیادہ صحیح ہے،۳-ابومعمر کانام عبداللہ بن سخبرہ ہے اور مقداد بن اسود مقداد بن عمرو الکندی ہیں،جن کی کنیت ابومعبد ہے۔اسود بن عبد یغوث کی طرف ان کی نسبت اس لیے کی گئی کیوں کہ انہوں نے مقداد کولڑکپن میں اپنا متبنی بیٹا بنالیا تھا،۴-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ سَالِمٍ الْخَيَّاطِ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ نَحْثُوَ فِي أَفْوَاہِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم بے جا تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا أَبُو ظِلَالٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يَقُولُ إِذَا أَخَذْتُ كَرِيمَتَيْ عَبْدِي فِي الدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَہُ جَزَاءٌ عِنْدِي إِلَّا الْجَنَّةَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو ظِلَالٍ اسْمُہُ ہِلَالٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتاہے: جب میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں چھین لیتاہوں تو میرے پاس اس کا بدلہ صرف جنت ہی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَفَعَہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَقُولُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ أَذْہَبْتُ حَبِيبَتَيْہِ فَصَبَرَ وَاحْتَسَبَ لَمْ أَرْضَ لَہُ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ وَفِي الْبَاب عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میں نے جس کی پیاری آنکھیں چھین لیں اور اس نے اس پر صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی تو میں اسے جنت کے سوا اور کوئی بدلہ نہیں دوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ شَفَاعَتِي لِأَہْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہوگی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ شَفَاعَتِي لِأَہْلِ الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ فَقَالَ لِي جَابِرٌ يَا مُحَمَّدُ مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَہْلِ الْكَبَائِرِ فَمَا لَہُ وَلِلشَّفَاعَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہوگی۔ محمد بن علی الباقر کہتے ہیں: مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: محمد! جواہل کبائر میں سے نہ ہوں گے انہیں شفاعت سے کیا تعلق؟۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث جعفر الصادق بن محمد الباقر کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي حَوْضِي مِنْ الْأَبَارِيقِ بِعَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک میرے حوض پر آسمان کے تاروں کی تعداد کے برابر پیالے ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نِيْزَكَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا وَإِنَّہُمْ يَتَبَاہَوْنَ أَيُّہُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَہُمْ وَارِدَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی الْأَشْعَثُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ سَمُرَةَ وَہُوَ أَصَحُّ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز ہر نبی کے لیے ایک حوض ہوگا،اور وہ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے کہ کس کے حوض پرپانی پینے والے زیادہ جمع ہوتے ہیں،اور مجھے امید ہے کہ میرے حوض پر(اللہ کے فضل سے) سب سے زیادہ لوگ جمع ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اشعث بن عبدالملک نے اس حدیث کو حسن بصری کے واسطے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں سمرہ کا ذکر نہیں کیا ہے،یہ روایت زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ ابْتُلِينَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ بِالضَّرَّاءِ فَصَبَرْنَا ثُمَّ ابْتُلِينَا بِالسَّرَّاءِ بَعْدَہُ فَلَمْ نَصْبِرْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تکلیف اورتنگی میں آزمائے گئے تو اس پرہم نے صبر کیا،پھر آپ کے بعد کی حالت میں کشادگی اور خوشی میں آزمائے گئے تو ہم صبر نہ کرسکے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ وَہُوَ الرَّقَاشِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ كَانَتْ الْآخِرَةُ ہَمَّہُ جَعَلَ اللہُ غِنَاہُ فِي قَلْبِہِ وَجَمَعَ لَہُ شَمْلَہُ وَأَتَتْہُ الدُّنْيَا وَہِيَ رَاغِمَةٌ وَمَنْ كَانَتْ الدُّنْيَا ہَمَّہُ جَعَلَ اللہُ فَقْرَہُ بَيْنَ عَيْنَيْہِ وَفَرَّقَ عَلَيْہِ شَمْلَہُ وَلَمْ يَأْتِہِ مِنْ الدُّنْيَا إِلَّا مَا قُدِّرَ لَہُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کا مقصود زندگی آخرت ہو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں استغناء وبے نیازی پیداکردیتاہے،اوراسے دل جمعی عطا کرتا ہے ۱؎،اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہوکر آتی ہے اور جس کا مقصود طلب دنیا ہو،اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتاہے اور اس کی جمع خاطر کو پریشان کردیتاہے اوردنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے لیے مقدر ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ تَعَالَی يَقُولُ يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًی وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ اسْمُہُ ہُرْمُزُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ابن آدم! تومیری عبادت کے لیے یکسو ہوجا،میں تیرا سینہ استغناء وبے نیازی سے بھردوں گا،اور تیری محتاجی دور کروں گا،اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تومیں تیرا دل مشغولیت سے بھردوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّہُمْ ذَبَحُوا شَاةً فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا بَقِيَ مِنْہَا قَالَتْ مَا بَقِيَ مِنْہَا إِلَّا كَتِفُہَا قَالَ بَقِيَ كُلُّہَا غَيْرَ كَتِفِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَيْسَرَةَ ہُوَ الْہَمْدَانِيُّ اسْمُہُ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک بکری ذبح کی،نبی اکرم ﷺ نے پوچھا اس میں سے کچھ باقی ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: دستی کے سوا اور کچھ نہیں باقی ہے،آپ نے فرمایا: دستی کے سواسب کچھ باقی ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ حَدَّثَنَا مُجَاہِدٌ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ أَہْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ أَہْلِ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَی أَہْلٍ وَلَا مَالٍ وَاللہِ الَّذِي لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ إِنْ كُنْتُ لَأَعْتَمِدُ بِكَبِدِي عَلَی الْأَرْضِ مِنْ الْجُوعِ وَأَشُدُّ الْحَجَرَ عَلَی بَطْنِي مِنْ الْجُوعِ وَلَقَدْ قَعَدْتُ يَوْمًا عَلَی طَرِيقِہِمْ الَّذِي يَخْرُجُونَ فِيہِ فَمَرَّ بِي أَبُو بَكْرٍ فَسَأَلْتُہُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللہِ مَا أَسْأَلُہُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ثُمَّ مَرَّ بِي عُمَرُ فَسَأَلْتُہُ عَنْ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللہِ مَا أَسْأَلُہُ إِلَّا لِيُشْبِعَنِي فَمَرَّ وَلَمْ يَفْعَلْ ثُمَّ مَرَّ أَبُو الْقَاسِمِ ﷺ فَتَبَسَّمَ حِينَ رَآنِي وَقَالَ أَبَا ہُرَيْرَةَ قُلْتُ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ الْحَقْ وَمَضَی فَاتَّبَعْتُہُ وَدَخَلَ مَنْزِلَہُ فَاسْتَأْذَنْتُ فَأَذِنَ لِي فَوَجَدَ قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ فَقَالَ مِنْ أَيْنَ ہَذَا اللَّبَنُ لَكُمْ قِيلَ أَہْدَاہُ لَنَا فُلَانٌ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبَا ہُرَيْرَةَ قُلْتُ لَبَّيْكَ فَقَالَ الْحَقْ إِلَی أَہْلِ الصُّفَّةِ فَادْعُہُمْ وَہُمْ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ لَا يَأْوُونَ عَلَی أَہْلٍ وَلَا مَالٍ إِذَا أَتَتْہُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِہَا إِلَيْہِمْ وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْہَا شَيْئًا وَإِذَا أَتَتْہُ ہَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْہِمْ فَأَصَابَ مِنْہَا وَأَشْرَكَہُمْ فِيہَا فَسَاءَنِي ذَلِكَ وَقُلْتُ مَا ہَذَا الْقَدَحُ بَيْنَ أَہْلِ الصُّفَّةِ وَأَنَا رَسُولُہُ إِلَيْہِمْ فَسَيَأْمُرُنِي أَنْ أُدِيرَہُ عَلَيْہِمْ فَمَا عَسَی أَنْ يُصِيبَنِي مِنْہُ وَقَدْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ أُصِيبَ مِنْہُ مَا يُغْنِينِي وَلَمْ يَكُنْ بُدٌّ مِنْ طَاعَةِ اللہِ وَطَاعَةِ رَسُولِہِ فَأَتَيْتُہُمْ فَدَعَوْتُہُمْ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْہِ فَأَخَذُوا مَجَالِسَہُمْ فَقَالَ أَبَا ہُرَيْرَةَ خُذْ الْقَدَحَ وَأَعْطِہِمْ فَأَخَذْتُ الْقَدَحَ فَجَعَلْتُ أُنَاوِلُہُ الرَّجُلَ فَيَشْرَبُ حَتَّی يَرْوَی ثُمَّ يَرُدُّہُ فَأُنَاوِلُہُ الْآخَرَ حَتَّی انْتَہَيْتُ بِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَقَدْ رَوَی الْقَوْمُ كُلُّہُمْ فَأَخَذَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْقَدَحَ فَوَضَعَہُ عَلَی يَدَيْہِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ فَتَبَسَّمَ فَقَالَ أَبَا ہُرَيْرَةَ اشْرَبْ فَشَرِبْتُ ثُمَّ قَالَ اشْرَبْ فَلَمْ أَزَلْ أَشْرَبُ وَيَقُولُ اشْرَبْ حَتَّی قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَجِدُ لَہُ مَسْلَكًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَحَمِدَ اللہَ وَسَمَّی ثُمَّ شَرِبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے،وہ مال اور اہل وعیال والے نہ تھے،قسم ہے اس معبود کی جس کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں،بھوک کی شدت سے میں اپنا پیٹ زمین پر رکھ دیتا تھا اور بھوک سے پیٹ پر پتھرباندھ لیتا تھا،ایک دن میں لوگوں کی گزر گاہ پر بیٹھ گیا،اس طرف سے ابوبکر گزرے تومیں نے ان سے قرآن مجید کی ایک آیت اس وجہ سے پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں لیکن وہ چلے گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لیا،پھر عمر گزرے،ان سے بھی میں نے کتاب اللہ کی ایک آیت پوچھی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں مگر وہ بھی آگے بڑھ گئے اور مجھے اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ پھر ابوالقاسم ﷺ کا گزر ہوا توآپ نے مجھے دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا: ابوہریرہ! میں نے کہا: حاضر ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ساتھ چلو اورآپ چل پڑے،میں بھی ساتھ میں ہولیا،آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے پھر میں نے بھی اجازت چاہی،چنانچہ مجھے اجازت دے دی گئی،وہاں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ پایا،دریافت فرمایا: یہ دودھ کہاں سے ملا؟ عرض کیاگیا: فلاں نے اسے ہدیہ بھیجاہے،آپ ﷺ نے فرمایا: ابوہریرہ! میں نے کہا: حاضر ہوں،آپ نے فرمایا: جاؤ اہل صفہ کو بلالاؤ ،یہ مسلمانوں کے مہمان تھے ان کاکوئی ٹھکانہ نہیں تھا،گھر بار تھا نہ کوئی مال،آپ ﷺ کے پاس جب کوئی صدقہ آتاتھا تو اسے ان کے پاس بھیج دیتے تھے،اس میں سے آپ کچھ نہیں لیتے تھے،اور جب کوئی ہدیہ آتا تو ان کو بلابھیجتے،اس میں سے آپ بھی کچھ لے لیتے،اور ان کو بھی اس میں شریک فرماتے،لیکن اس ذرا سے ددوھ کے لیے آپ کا مجھے بھیجنا ناگوار گذرا اور میں نے (دل میں) کہا: اہل صفہ کا کیا بنے گا؟ اور میں انہیں بلانے جاؤں گا،پھر آپ ﷺ مجھے ہی حکم دیں گے کہ اس پیالے میں جوکچھ ہے انہیں دوں،مجھے یقین ہے کہ اس میں سے مجھے کچھ نہیں ملے گا،حالاں کہ مجھے امید تھی کہ اس میں سے مجھے اتنا ضرور ملے گا جو میرے لیے کا فی ہوجائے گا،لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا،چنانچہ میں ان سب کو بلالایا،جب وہ سب آپ کے پاس آئے اوراپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا: ابوہریرہ! یہ پیالہ ان لوگوں کو دیدو،چنانچہ میں وہ پیالہ ایک ایک کودینے لگا،جب ایک شخص پی کر سیر ہوجاتا تو میں دوسرے شخص کو دیتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ تک پہنچ گیا،ساری قوم سیر ہوچکی تھی (یاسب لوگ سیرہوچکے تھے) پھر آپ ﷺ نے وہ پیالہ لے کر اسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر اپنا سر اٹھایا اور مسکراکرفرمایا: ابوہریرہ! یہ دودھ پیو،چنانچہ میں نے پیا،پھر آپ نے فرمایا: اسے پیو میں پیتا رہا اور آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق لے کر بھیجاہے اب میں پینے کی گنجا ئش نہیں پاتا،پھر آپ نے پیالہ لیا،اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر دددھ پیا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي المَغْرَاءِ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ،عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،قَالَ: إِنَّ المَرْأَةَ مِنْ نِسَاءِ أَہْلِ الجَنَّةِ لَيُرَی بَيَاضُ سَاقِہَا مِنْ وَرَاءِ سَبْعِينَ حُلَّةً حَتَّی يُرَی مُخُّہَا،وَذَلِكَ بِأَنَّ اللہَ يَقُولُ: كَأَنَّہُنَّ اليَاقُوتُ وَالمَرْجَانُ [الرحمن: 58] فَأَمَّا اليَاقُوتُ فَإِنَّہُ حَجَرٌ لَوْ أَدْخَلْتَ فِيہِ سِلْكًا ثُمَّ اسْتَصْفَيْتَہُ لَأُرِيتَہُ مِنْ وَرَائِہِ حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ،عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ،

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنتیوں کی عورتوں میں سے ہرعورت کے پنڈلی کی سفیدی ستر جوڑے کپڑوں کے باہر سے نظر آئے گی،حتی کہ اس کا گودا بھی نظر آئے گا،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: کَأَنَّہُنَّ الْیَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (گویا وہ یاقوت اور مونگے موتی ہیں)یاقوت ایک ایسا پتھر ہے کہ اگر تم اس میں دھاگا ڈال دو پھر اسے صاف کرو تو وہ دھاگا تمہیں باہر سے نظر آجائے گا۔اس سند سے بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ،عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ،((نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ،وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبِيدَةَ بْنِ حُمَيْدٍ)) وَہَكَذَا رَوَی جَرِيرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ [ص:677] حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ،عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ،نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي الأَحْوَصِ ((وَلَمْ يَرْفَعْہُ أَصْحَابُ عَطَاءٍ،وَہَذَا أَصَحُّ))

اس سند سے بھی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،اور اسے (ابوالاحوص نے) مرفوع نہیں کیا،یہ عبیدہ بن حمیدکی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔اسی طرح جریر اورکئی لوگوں نے عطاء بن سائب سے اسے غیر مرفوع روایت کی ہے۔ہم سے قتیبہ نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں: ہم سے جریر نے عطا بن سائب سے ابوالا ٔحوص کی حدیث کی طرح بیان کیا،اور عطا کے (دیگر) شاگردوں نے اسے مرفوع نہیں کیا۔یہی زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ أَوَّلَ زُمْرَةٍ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ضَوْءُ وُجُوہِہِمْ عَلَی مِثْلِ ضَوْءِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ وَالزُّمْرَةُ الثَّانِيَةُ عَلَی مِثْلِ أَحْسَنِ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْہُمْ زَوْجَتَانِ عَلَی كُلِّ زَوْجَةٍ سَبْعُونَ حُلَّةً يُرَی مُخُّ سَاقِہَا مِنْ وَرَائِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا،کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا،ان سے ربیعہ بن عبدالرحمٰن نے،ان سے منبعث کے غلام یزید نے،اور ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے لقطہ کے بارے میں پوچھا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔پھر اس کے بندھن اور برتن کی بناوٹ کو ذہن میں یاد رکھ۔اور اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔اس کا مالک اگراس کے بعد آئے تو اسے واپس کردے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! راستہ بھولی ہوئی بکری کا کیا کیا جائے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو،کیوں کہ وہ یا تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑیئے کی ہوگی۔صحابہ نے پوچھا،یا رسول اللہ! راستہ بھولے ہوئے اونٹ کا کیا کیا جائے؟ آپ اس پر غصہ ہو گئے اور چہرہ ¿ مبارک سرخ ہو گیا (یا راوی نے وجنتاہ کے بجائے) احمر وجہہ کہا۔پھر آپ نے فرمایا،تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر اور اس کا مشکیزہ ہے۔اسی طرح اسے اس کا اصل مالک مل جائے گا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ ہَلْ فِي الْجَنَّةِ مِنْ خَيْلٍ قَالَ إِنْ اللہُ أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ فَلَا تَشَاءُ أَنْ تُحْمَلَ فِيہَا عَلَی فَرَسٍ مِنْ يَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ يَطِيرُ بِكَ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْتَ قَالَ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ ہَلْ فِي الْجَنَّةِ مِنْ إِبِلٍ قَالَ فَلَمْ يَقُلْ لَہُ مِثْلَ مَا قَالَ لِصَاحِبِہِ قَالَ إِنْ يُدْخِلْكَ اللہُ الْجَنَّةَ يَكُنْ لَكَ فِيہَا مَا اشْتَہَتْ نَفْسُكَ وَلَذَّتْ عَيْنُكَ حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْمَسْعُودِيِّ

بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرمﷺ سے پوچھتے ہوئے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیاجنت میں گھوڑے ہیں؟ آپ نے فرمایا:اگر اللہ نے تم کو جنت میں داخل کیا تو تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں سرخ یاقوت کے گھوڑے پرسوار کیاجائے گا،تم جہاں چاہو گے وہ تمہیں جنت میں لے کر اڑے گا،آپ سے ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیاجنت میں اونٹ ہیں؟ بریدہ کہتے ہیں: آپ نے اس کو پہلے آدمی کی طرح جواب نہیں دیا۔آپ نے فرمایا: اگر اللہ نے تمہیں جنت میں داخل کیا تو اس میں تمہارے لیے ہروہ چیز موجود ہوگی جس کی تم چاہت کرو گے اور جس سے تمہاری آنکھیں لطف اٹھائیں گی۔اس سند سے عبد الرحمن بن سابط کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث مروی ہے،اور یہ مسعودی کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،(کیوں کہ اس کا مرفوع متصل ہونا صحیح نہیں ہے)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ سَمُرَةَ الْأَحْمَسِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ وَاصِلٍ ہُوَ ابْنُ السَّائِبِ عَنْ أَبِي سَوْرَةَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أُحِبُّ الْخَيْلَ أَفِي الْجَنَّةِ خَيْلٌ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنْ أُدْخِلْتَ الْجَنَّةَ أُتِيتَ بِفَرَسٍ مِنْ يَاقُوتَةٍ لَہُ جَنَاحَانِ فَحُمِلْتَ عَلَيْہِ ثُمَّ طَارَ بِكَ حَيْثُ شِئْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَلَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَأَبُو سَوْرَةَ ہُوَ ابْنُ أَخِي أَبِي أَيُّوبَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَہُ يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ جِدًّا قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ أَبُو سَوْرَةَ ہَذَا مُنْكَرُ الْحَدِيثِ يَرْوِي مَنَاكِيرَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ لَا يُتَابَعُ عَلَيْہَا

ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس ایک اعرابی نے آکرعرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے گھوڑا پسند ہے،کیا جنت میں گھوڑے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم جنت میں داخل کئے گئے تو تمہیں یاقوت کاگھوڑا دیاجائے گا،اس کے دو پرہوں گے تم اس پر سوار کئے جاؤ گے پھر جہاں چاہوگے وہ تمہیں لے کر اڑے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کی سندزیادہ قوی نہیں ہے۔ہم اسے ابوایوب کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-ابوسورہ،ابوایوب کے بھتیجے ہیں۔یہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔انہیں یحییٰ بن معین نے بہت زیادہ ضعیف قراردیا ہے،۳-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: ابوسورہ منکرحدیث ہیں،یہ ابوایوب رضی اللہ عنہ سے ایسی کئی منکر احادیث روایت کرتے ہیں،جن کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔

حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَی الْقَزَّازُ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَابُ أُمَّتِي الَّذِي يَدْخُلُونَ مِنْہُ الْجَنَّةَ عَرْضُہُ مَسِيرَةُ الرَّاكِبِ الْمُجَوِّدِ ثَلَاثًا ثُمَّ إِنَّہُمْ لَيُضْغَطُونَ عَلَيْہِ حَتَّی تَكَادُ مَنَاكِبُہُمْ تَزُولُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَالَ سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْہُ و قَالَ لِخَالِدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ مَنَاكِيرُ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ دروازہ جس سے میری امت جنت میں داخل ہوگی اس کی چوڑائی تیزرفتار گھوڑسوار کے تین دن کی مسافت کے برابر ہوگی،پھربھی دروازے پرایسی بھیڑبھاڑ ہوگی کہ ان کے کندھے اترنے کے قریب ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تووہ اسے نہیں جان سکے اور کہا: سالم بن عبداللہ کے واسطہ سے خالدبن ابی بکر کی کئی منکر احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ كَالْمُہْلِ قَالَ كَعَكَرِ الزَّيْتِ فَإِذَا قَرَّبَہُ إِلَی وَجْہِہِ سَقَطَتْ فَرْوَةُ وَجْہِہِ فِيہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ وَرِشْدِينُ قَدْ تُكُلِّمَ فِيہِ

ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے قول کالمہل کے بارے میں فرمایا: وہ پانی تلچھٹ کی طرح ہوگا جب اسے (کافر) اپنے منہ کے قریب کرے گا تو اس کے چہرے کی کھال اس میں گرجائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ہم صرف رشد ین بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں،اور رشدین کے بارے میں کلام کیاگیاہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ يَسْتَحْمِلُہُ فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَہُ مَا يَتَحَمَّلُہُ فَدَلَّہُ عَلَی آخَرَ فَحَمَلَہُ فَأَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَأَخْبَرَہُ فَقَالَ إِنَّ الدَّالَّ عَلَی الْخَيْرِ كَفَاعِلِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس سواری مانگنے آیا،تو آپ کے پاس اسے کوئی سواری نہ ملی جو اسے منزل مقصود تک پہنچادیتی۔آپ نے اسے ایک دوسرے شخص کے پاس بھیج دیا،اس نے اسے سواری فراہم کردی۔پھر اس نے آکر آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا: بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے یعنی انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے جسے وہ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں غریب ہے،۲-اس باب میں ابومسعود بدری اور بریدہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ قَال سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْبَدْرِيِّ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ ﷺ يَسْتَحْمِلُہُ فَقَالَ إِنَّہُ قَدْ أُبْدِعَ بِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ائْتِ فُلَانًا فَأَتَاہُ فَحَمَلَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ دَلَّ عَلَی خَيْرٍ فَلَہُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہِ أَوْ قَالَ عَامِلِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُہُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ وَأَبُو مَسْعُودٍ الْبَدْرِيُّ اسْمُہُ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ وَقَالَ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہِ وَلَمْ يَشُكَّ فِيہِ

ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سواری مانگنے آیا،اور کہا: میں بے سواری کے ہوگیا ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا:تم فلاں شخص کے پاس جاؤ،چنانچہ وہ اس شخص کے پاس گیا اور اس نے اسے سواری دے دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے بھلائی کاراستہ دکھا یا تو اسے اتناہی اجر ملتا ہے جتنا کہ اس کے کرنے والے کو ملتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،اور ابومسعود بدری کانام عقبہ بن عمرو ہے۔اس سند سے بھی ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے،اور اس حدیث میں کسی شک کے بغیر مثل أجر فاعلہ کہا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ جَدِّہِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ اشْفَعُوا وَلْتُؤْجَرُوا وَلْيَقْضِ اللہُ عَلَی لِسَانِ نَبِيِّہِ مَا شَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَبُرَيْدٌ يُكْنَی أَبَا بُرْدَةَ أَيْضًا ہُوَ ابْنُ أَبِي مُوسَی الْأَشْعَرِيِّ وَہُوَ كُوفِيٌّ ثِقَةٌ فِي الْحَدِيثِ رَوَی عَنْہُ شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ وَابْنُ عُيَيْنَةَ

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: شفاعت (سفارش) کروتاکہ اجر پاؤ،اللہ اپنے نبی کی زبان سے نکلی ہوئی جس بات (جس سفارش) کو بھی چاہتاہے پوراکردیتاہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ كِفْلٌ مِنْ دَمِہَا وَذَلِكَ لِأَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ أَسَنَّ الْقَتْلَ و قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ سَنَّ الْقَتْلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ سَنَّ الْقَتْلَ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ظلم سے جو بھی خون ہوتاہے اس خون کے گناہ کا ایک حصہ آدم کے (پہلے) بیٹے پر جاتاہے،کیوں کہ اسی نے سب سے پہلے خون کرنے کی سبیل نکالی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اس سند سے بھی ابن مسعود سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اتْرُكُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِذَا حَدَّثْتُكُمْ فَخُذُوا عَنِّي فَإِنَّمَا ہَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلَافِہِمْ عَلَی أَنْبِيَائِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم مجھے چھوڑے رکھو،پھر جب میں تم سے کوئی چیز بیان کروں تو اسے لے لو،کیوں کہ تم سے پہلے لوگ بہت زیادہ سوالات کرنے اور اپنے انبیاء سے کثرت سے اختلافات کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّی تُؤْمِنُوا وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَی أَمْرٍ إِذَا أَنْتُمْ فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ وَشُرَيْحِ بْنِ ہَانِئٍ عَنْ أَبِيہِ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَالْبَرَاءِ وَأنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،تم جنت میں داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم (صحیح معنوں میں) مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے (سچی) محبت نہ کرنے لگو۔کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کرنے لگو توتم میں باہمی محبت پیدا ہوجائے (وہ یہ کہ) آپس میں سلام کوعام کرو(پھیلاؤ) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن سلام،شریح بن ہانی عن أبیہ،عبداللہ بن عمرو،براء،انس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا انْتَہَی أَحَدُكُمْ إِلَی مَجْلِسٍ فَلْيُسَلِّمْ فَإِنْ بَدَا لَہُ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ ثُمَّ إِذَا قَامَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتْ الْأُولَی بِأَحَقَّ مِنْ الْآخِرَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے،پھراگر اس کا دل بیٹھنے کو چاہے تو بیٹھ جائے۔پھر جب اٹھ کر جانے لگے توسلام کرے۔پہلا (سلام) دوسرے (سلام) سے زیادہ ضروری نہیں ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث ابن عجلان سے بھی آئی ہے،ابن عجلان نے بسند سعید المقبری عن أبیہ عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَفْوَانَ أَخْبَرَہُ أَنَّ كَلَدَةَ بْنَ حَنْبَلٍ أَخْبَرَہُ أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ بَعَثَہُ بِلَبَنٍ وَلِبَإٍ وَضَغَابِيسَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَالنَّبِيُّ ﷺ بِأَعْلَی الْوَادِي قَالَ فَدَخَلْتُ عَلَيْہِ وَلَمْ أُسَلِّمْ وَلَمْ أَسْتَأْذِنْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ارْجِعْ فَقُلْ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ صَفْوَانُ قَالَ عَمْرٌو وَأَخْبَرَنِي بِہَذَا الْحَدِيثِ أُمَيَّةُ بْنُ صَفْوَانَ وَلَمْ يَقُلْ سَمِعْتُہُ مِنْ كَلَدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ وَرَوَاہُ أَبُو عَاصِمٍ أَيْضًا عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ مِثْلَ ہَذَا

کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صفوان بن امیہ نے انہیں دودھ،پیوسی اور ککڑی کے ٹکڑے دے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا اور آپ اس وقت مکہ کے اونچائی والے حصہ میں تھے،میں آپ کے پاس اجازت لیے اور سلام کئے بغیر چلاگیاتوآپﷺ نے فرمایا: واپس باہر جاؤ۔پھر کہو السلام علیکم ۔کیا میں اندر آسکتاہوں؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب صفوان اسلام لاچکے تھے۔عمروبن عبداللہ کہتے ہیں: یہ حدیث امیہ بن صفوان نے مجھ سے بیان کی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں کہاکہ یہ حدیث میں نے کلدہ سے سنی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اسے ہم صرف ابن جریج کی روایت ہی سے جانتے ہیں،۳-ابوعاصم نے بھی ابن جریج سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ اسْتَأْذَنْتُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ فِي دَيْنٍ كَانَ عَلَی أَبِي فَقَالَ مَنْ ہَذَا فَقُلْتُ أَنَا فَقَالَ أَنَا أَنَا كَأَنَّہُ كَرِہَ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک قرض کے سلسلے میں جو میرے والد کے ذمہ تھا کچھ بات کرنے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے کہا: کون ہے؟۔میں نے کہا: میں ہوں،آپ نے فرمایا: میں میں (کیاہے؟) ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ عَنْبَسَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَاذَانَ عَنْ أُمِّ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَبَيْنَ يَدَيْہِ كَاتِبٌ فَسَمِعْتُہُ يَقُولُ ضَعْ الْقَلَمَ عَلَی أُذُنِكَ فَإِنَّہُ أَذْكَرُ لِلْمُمْلِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَہُوَ إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ وَعَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمُحَمَّدُ بْنُ زَاذَانَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا۔آپ کے سامنے ایک کاتب بیٹھا ہواتھا۔میں نے سنا آپ اس سے فرمارہے تھے: تم اپنا قلم اپنے کان پر رکھے رہاکرو کیوں کہ اس سے لکھوانے والوں کو آگاہی ویاددہانی ہوجایاکرے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور یہ سند ضعیف ہے،۳-عنبسہ بن عبدالرحمٰن اور محمد بن زاذان،دونوں حدیث بیان کرنے میں ضعیف قراردیئے گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتٌّ بِالْمَعْرُوفِ يُسَلِّمُ عَلَيْہِ إِذَا لَقِيَہُ وَيُجِيبُہُ إِذَا دَعَاہُ وَيُشَمِّتُہُ إِذَا عَطَسَ وَيَعُودُہُ إِذَا مَرِضَ وَيَتْبَعُ جَنَازَتَہُ إِذَا مَاتَ وَيُحِبُّ لَہُ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَالْبَرَاءِ وَأَبِي مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُہُمْ فِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پرحسن سلوک کے چھ عمومی حقوق ہیں،(۱) جب اس سے ملاقات ہوتو اسے سلام کرے،(۲) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے،(۳) جب اسے چھینک آئے (اوروہ الحمد للہکہے) تو یرحمک اللہ کہہ کر اس کی چھینک کا جواب دے،(۴) جب وہ بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کرے،(۵) جب وہ مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ (قبرستان) جائے،(۶) اور اس کے لیے وہی پسندکرے جو اپنے لیے پسند کرتاہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-یہ حدیث متعدد سندوں سے نبیﷺ سے آئی ہے،۳-بعض محدثین نے حارث اعور سے متعلق کلام کیا ہے،۴-اور اس باب میں ابوہریرہ،ابوایوب،براء اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلْمُؤْمِنِ عَلَی الْمُؤْمِنِ سِتُّ خِصَالٍ يَعُودُہُ إِذَا مَرِضَ وَيَشْہَدُہُ إِذَا مَاتَ وَيُجِيبُہُ إِذَا دَعَاہُ وَيُسَلِّمُ عَلَيْہِ إِذَا لَقِيَہُ وَيُشَمِّتُہُ إِذَا عَطَسَ وَيَنْصَحُ لَہُ إِذَا غَابَ أَوْ شَہِدَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ رَوَی عَنْہُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ وَابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کے مومن پرچھ حقوق ہیں،(۱) جب بیمار ہوتو اس کی بیمارپرسی کرے،(۲) جب مرے تو اس کے جنازے میں شریک ہو،(۳) جب دعوت کرے تو قبول کرے،(۴) جب ملے تو اس سے سلام کرے،(۵) جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب د ے،(۶) اس کے سامنے موجود رہے یا نہ رہے اس کاخیرخواہ ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمد بن موسیٰ مخزومی مدنی ثقہ ہیں ان سے عبدالعزیز ابن محمد اورابن ابی فدیک نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا عَطَسَ غَطَّی وَجْہَہُ بِيَدِہِ أَوْ بِثَوْبِہِ وَغَضَّ بِہَا صَوْتَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ کو جب چھینک آتی تھی تو اپنے ہاتھ سے یا اپنے کپڑے سے منہ ڈھانپ لیتے،اور اپنی آواز کودھیمی کرتے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ الْكُوفِيُّ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ مُتَّكِئًا عَلَی وِسَادَةٍ عَلَی يَسَارِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ مُتَّكِئًا عَلَی وِسَادَةٍ وَلَمْ يَذْكُرْ عَلَی يَسَارِہِ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی بائیں جانب تکیہ پرٹیک لگاکر بیٹھے ہوئے دیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس حدیث کوکئی اور نے بطریق:اسرائیل،عن سماک،عن جابربن سمرۃ روایت کی ہے،(اس میں ہے) وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کوتکیہ پرٹیک لگائے ہوئے دیکھا،لیکن انہوں نے علی یسارہ اپنی بائیں جانب تکیہ رکھنے کا ذکر نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ مُتَّكِئًا عَلَی وِسَادَةٍ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو تکیہ پرٹیک لگائے ہوئے دیکھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِي النَّاسِ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الثِّقَاتِ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا قَالَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ غَيْرُ الْمُعْتَمِرِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

اسامہ بن زید اور سعید بن زید رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والاکوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی ثقہ لوگوں نے بطریق: سلیمان التیمی،عن ابی عثمان،عن أسامۃ بن زید رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔اور انہوں نے اس سند میں عن سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کا ذکرنہیں کیا،۳-ہم معتمرکے علاوہ کسی کونہیں جانتے جس نے عن اسامۃ بن زیدو سعید بن زید (ایک ساتھ) کہا ہو،۴-اس باب میں ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔ ابن عمر نے بسند سفیانعن سلیمان التیمی عن ابی عثمان عن اسامۃ بن زیدعن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُتَشَبِّہَاتِ بِالرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ وَالْمُتَشَبِّہِينَ بِالنِّسَاءِ مِنْ الرِّجَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پرجومردوں سے مشابہت اختیارکرتی ہیں اور ان مردوں پر جوعورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ وَأَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُخَنَّثِينَ مِنْ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجِّلَاتِ مِنْ النِّسَاءِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی زنانے (مخنث) مردوں پر،اور مردانہ پن اختیار کرنے والی عورتوں پر۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ كَانَ أَنَسٌ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ وَقَالَ أَنَسٌ إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لَا يَرُدُّ الطِّيبَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ثمامہ بن عبداللہ کہتے ہیں:انس رضی اللہ عنہ خوشبو (کی چیز) واپس نہیں کرتے تھے،اور انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ خوشبو کو واپس نہ کرتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ الْوَسَائِدُ وَالدُّہْنُ وَاللَّبَنُ الدُّہْنُ يَعْنِي بِہِ الطِّيبَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَعَبْدُ اللہِ ہُوَ ابْنُ مُسْلِمِ بْنِ جُنْدُبٍ وَہُوَ مَدَنِيٌّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں (ہدیہ وتحفہ میں آئیں) تو وہ واپس نہیں کی جاتی ہیں: تکئے،دُہن،اوردودھ،دہن (تیل) سے مراد خوشبو ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-عبداللہ یہ مسلم بن جندب کے بیٹے ہیں اور مدنی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلِيفَةَ أَبُو عَبْدِ اللہِ بَصْرِيٌّ وَعَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ عَنْ حَنَانٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّہْدِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا أُعْطِيَ أَحَدُكُمْ الرَّيْحَانَ فَلَا يَرُدَّہُ فَإِنَّہُ خَرَجَ مِنْ الْجَنَّةِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَا نَعْرِفُ حَنَانًا إِلَّا فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّہْدِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ وَقَدْ أَدْرَكَ زَمَنَ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَرَہُ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْہُ

ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو خوشبو دی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے کیوں کہ وہ جنت سے نکلی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-حنان(نام کے) راوی کو ہم صرف اسی حدیث میں پاتے ہیں،۳-ابوعثمان نہدی کانام عبدالرحمٰن بن مل ہے،انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ توپایا لیکن انہیں آپ کا دیدار نصیب نہ ہوا اور نہ ہی آپ سے کوئی حدیث سن سکے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ التَّزَعْفُرِ لِلرِّجَالِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِسْمَعِيلَ ابْنِ عُلَيَّةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُہَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ التَّزَعْفُرِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا آدَمُ عَنْ شُعْبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَمَعْنَی كَرَاہِيَةِ التَّزَعْفُرِ لِلرِّجَالِ أَنْ يَتَزَعْفَرَ الرَّجُلُ يَعْنِي أَنْ يَتَطَيَّبَ بِہِ

-انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو زعفرانی رنگ کے استعمال سے روکا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے (مردوں کو) زعفرانی رنگ کے استعمال سے منع فرمایا ہے،مردوں کے لیے زعفران کے استعمال کی کراہت کامطلب یہ ہے کہ مرد زعفران کی خوشبو نہ لگائیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ قَال سَمِعْتُ أَبَا حَفْصِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَبْصَرَ رَجُلًا مُتَخَلِّقًا قَالَ اذْہَبْ فَاغْسِلْہُ ثُمَّ اغْسِلْہُ ثُمَّ لَا تَعُدْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ بَعْضُہُمْ فِي ہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ عَلِيٌّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ مَنْ سَمِعَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ قَدِيمًا فَسَمَاعُہُ صَحِيحٌ وَسَمَاعُ شُعْبَةَ وَسُفْيَانَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ صَحِيحٌ إِلَّا حَدِيثَيْنِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ زَاذَانَ قَالَ شُعْبَةُ سَمِعْتُہُمَا مِنْہُ بِآخِرَةٍ قَالَ أَبُو عِيسَی يُقَالُ إِنَّ عَطَاءَ بْنَ السَّائِبِ كَانَ فِي آخِرِ أَمْرِہِ قَدْ سَاءَ حِفْظُہُ وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارٍ وَأَبِي مُوسَی وَأَنَسٍ وَأَبُو حَفْصٍ ہُوَ أَبُو حَفْصِ بْنُ عُمَرَ

یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کو خلوق لگائے ہوئے دیکھا ۱؎،تو آپ نے فرمایا:جاؤ اسے دھوڈالو۔پھر دھوڈالو،پھر (آئندہ کبھی)نہ لگاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بعض لوگوں نے عطا بن سائب سے اس حدیث کی اسناد میں اختلاف کیا ہے،۳-علی(ابن المدینی) کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید نے کہا ہے کہ جس نے عطاء بن سائب سے ان کی زندگی کے پرانے(پہلے) دور میں سنا ہے تو اس کا سماع صحیح ہے اور شعبہ اور سفیان ثوری کا عطاء بن سائب سے سماع صحیح ہے مگر دوحدیثیں جو عطاء سے زاذان کے واسطہ سے مروی ہیں تو وہ صحیح نہیں ہیں،۴-شعبہ کہتے ہیں میں نے ان دونوں حدیثوں کو عطاء سے ان کی عمر کے آخری دور میں سناہے۔(اوریہ حدیث ان میں سے نہیں ہے)،۵-کہاجاتاہے کہ عطاء بن سائب کاحافظہ ان کے آخری دور میں بگڑ گیاتھا،۶-اس باب میں عمار،ابوموسیٰ،اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يُحِبَّ أَنْ يَرَی أَثَرَ نِعْمَتِہِ عَلَی عَبْدِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِيہِ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتاہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوالاحوص کے باپ،عمران بن حصین اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ شَيْبَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ النَّحْوِيِّ وَشَيْبَانُ ہُوَ صَاحِبُ كِتَابٍ وَہُوَ صَحِيحُ الْحَدِيثِ وَيُكْنَی أَبَا مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ الْعَطَّارُ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ إِنِّي لَأُحَدِّثُ الْحَدِيثَ فَمَا أَخْرِمُ مِنْہُ حَرْفًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مشیر جس سے مشورہ لیاجاتاہے اس کو امانت دار ہوناچاہئے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-متعدد لوگوں نے شیبان بن عبدالرحمٰن نحوی سے روایت کی ہے،اور شیبان،صاحب کتاب اور صحیح الحدیث ہیں،اور ان کی کنیت ابومعاویہ ہے،۳-ہم سے عبدالجبار بن علاء عطار نے بیان کیا،انہوں نے روایت کی سفیان بن عیینہ سے وہ کہتے ہیں کہ عبدالملک بن عمیر نے کہا: جب میں حدیث بیان کرتاہوں تو اس حدیث کا ایک ایک لفظ(یعنی پوری حدیث) بیان کردیتاہوں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ عَنْ جَدَّتِہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أُمِّ سَلَمَةَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مشیر یعنی جس سے مشورہ لیاجائے اس کوامین ہوناچاہئے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے غریب ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،ابوہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَضَعُ لِحَسَّانَ مِنْبَرًا فِي الْمَسْجِدِ يَقُومُ عَلَيْہِ قَائِمًا يُفَاخِرُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَوْ قَالَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَيَقُولُ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ اللہَ يُؤَيِّدُ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ مَا يُفَاخِرُ أَوْ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَہُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَالْبَرَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَہُوَ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں منبر رکھتے تھے جس پر کھڑے ہوکر وہ رسول اللہﷺ کے لیے فخریہ اشعار پڑھتے تھے۔یا وہ اپنی شاعری کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ کا دفاع فرماتے تھے۔اور رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے: اللہ حسان کی مدد روح القدس (جبرئیل) کے ذریعہ فرماتاہے جب تک وہ (اپنے اشعار کے ذریعہ) رسول اللہ ﷺ کی جانب سے فخر کرتے یا آپ کا دفاع کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔اور یہ حدیث ابن ابی الزناد کی روایت سے ہے۔بیان کیا مجھ سے اسماعیل بن موسیٰ اور علی بن حجر نے اور ان دونوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی الزناد نے بیان کیا اور ابن ابی الزنادنے اپنے باپ ابوالزنادسے،ابوالزنادنے عروہ سے ا ورعروہ نے عائشہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور براء رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْہِ يَمْشِي وَہُوَ يَقُولُ خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِہِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَی تَنْزِيلِہِ ضَرْبًا يُزِيلُ الْہَامَ عَنْ مَقِيلِہِ وَيُذْہِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِہِ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ يَا ابْنَ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَفِي حَرَمِ اللہِ تَقُولُ الشِّعْرَ فَقَالَ لَہُ النَّبِيُّ ﷺ خَلِّ عَنْہُ يَا عُمَرُ فَلَہِيَ أَسْرَعُ فِيہِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ الرَّزَّاقِ ہَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَ ہَذَا وَرُوِيَ فِي غَيْرِ ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَكَعْبُ بْنُ مَالِكٍ بَيْنَ يَدَيْہِ وَہَذَا أَصَحُّ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْحَدِيثِ لِأَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ رَوَاحَةَ قُتِلَ يَوْمَ مُؤْتَةَ وَإِنَّمَا كَانَتْ عُمْرَةُ الْقَضَاءِ بَعْدَ ذَلِكَ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی اکرمﷺ عمرۃ القضا کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔(اے کفار کی اولاد!اس کے (یعنی محمد ﷺ کے) راستے سے ہٹ جاؤ،آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جداکردے گی،ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کردے گی) عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! تم رسول اللہ کے سامنے اوراللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا: انہیں کہنے دو،عمر! یہ اشعار ان (کفار ومشرکین) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ زود اثر ہیں(یہ انہیں بوکھلا کررکھ دیں گے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲-عبدالرزاق نے یہ حدیث معمر سے اورمعمر نے زہری کے واسطہ سے انس سے اسی طرح روایت کی ہے،۳-اس حدیث کے علاوہ دوسری حدیث میں مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺعمرۃ القضاء کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے (اس وقت) کعب بن مالک آپ کے ساتھ آپ کے سامنے موجود تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: بعض محدثین کے نزدیک یہ زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ عبداللہ بن رواحہ جنگ موتہ میں مارے گئے ہیں۔اور عمرۃالقضا اس کے بعد ہوا ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ قِيلَ لَہَا ہَلْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَمَثَّلُ بِشَيْءٍ مِنْ الشِّعْرِ قَالَتْ كَانَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ ابْنِ رَوَاحَةَ وَيَتَمَثَّلُ وَيَقُولُ وَيَأْتِيكَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان سے پوچھا گیا:کیارسول اللہ ﷺ کبھی کوئی شعر بطور مثال اور نمونہ پیش کرتے تھے؟ توانہوں نے کہا: ہاں،رسول اللہ ﷺابن رواحہ کا شعر بطور مثال پیش کرتے تھے،آپ کہتے تھے: وَیَأْتِیکَ بِالأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ ۱؎ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔(زمانہ تمہارے سامنے وہ چیزیں ظاہر اور پیش کرے گاجن سے تم ناواقف اور بے خبر ہوگے،اور تمہارے پاس وہ آدمی خبریں اور اطلاعات لے کر آئے گا جس کو تم نے خرچہ دے کر اس کام کے لیے بھیجا بھی نہ ہوگا)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَريكٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ أَشْعَرُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَتْ بِہَا الْعَرَبُ كَلِمَةُ لَبِيدٍ أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللہَ بَاطِلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُہُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: عرب کا بہترین شعری کلام لبید کایہ شعر ہے: أَلاَ کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلاَ اللہِ بَاطِلُ (سن لو! اللہ کے سوا ہرچیز فانی ہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور اسے ثوری اورا ن کے علاوہ نے بھی عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ جَالَسْتُ النَّبِيَّ ﷺ أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ مَرَّةٍ فَكَانَ أَصْحَابُہُ يَتَنَاشَدُونَ الشِّعْرَ وَيَتَذَاكَرُونَ أَشْيَاءَ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِيَّةِ وَہُوَ سَاكِتٌ فَرُبَّمَا تَبَسَّمَ مَعَہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ زُہَيْرٌ عَنْ سِمَاكٍ أَيْضًا

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے نبی اکرمﷺ کے ساتھ سوبار سے زیادہ بیٹھنے کاشرف حاصل ہے،آپ کے صحابہ شعر پڑھتے(سنتے وسناتے) تھے،اور جاہلیت کی بہت سی باتیں باہم ذکر کرتے تھے۔آپ چپ بیٹھے رہتے اورکبھی کبھی ان کے ساتھ مسکرانے لگتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے زہیر بھی نے سماک سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ وَإِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي تُقْرَأُ فِيہِ الْبَقَرَةُ لَا يَدْخُلُہُ الشَّيْطَانُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔وہ گھر جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ وَإِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَفِيہَا آيَةٌ ہِيَ سَيِّدَةُ آيِ الْقُرْآنِ ہِيَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ وَضَعَّفَہُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ہرچیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے ۱؎ اور قرآن کی چوٹی سورہ بقرہ ہے،اس سورہ میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف حکیم بن جبیر کی روایت سے جانتے ہیں،۳-حکیم بن جبیر کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے اور انہیں ضعیف قراردیا ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْمُغِيرَةِ أَبُو سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْمُلَيْكِيِّ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ مُصْعَبٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ قَرَأَ حم الْمُؤْمِنَ إِلَی إِلَيْہِ الْمَصِيرُ وَآيَةَ الْكُرْسِيِّ حِينَ يُصْبِحُ حُفِظَ بِہِمَا حَتَّی يُمْسِيَ وَمَنْ قَرَأَہُمَا حِينَ يُمْسِي حُفِظَ بِہِمَا حَتَّی يُصْبِحَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ الْمُلَيْكِيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ وَزُرَارَةُ بْنُ مُصْعَبٍ ہُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَہُوَ جَدُّ أَبِي مُصْعَبٍ الْمَدَنِيِّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے سورہ مومن کی (ابتدائی تین آیات) حٰمٓ سے إلیہ المصیر تک اور آیت الکرسی صبح ہی صبح(بیدار ہونے کے بعدہی) پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ شام تک اس کی حفاظت کی جائے گی،اور جس نے ان دونوں کو شام ہوتے ہی پڑھا توان کے ذریعہ اس کی صبح ہونے تک حفاظت کی جائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-بعض اہل علم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر بن ابی ملیکہ کے حافظے کے سلسلے میں کلام کیاہے،۳-زرارہ بن مصعب کا پورا نام زرارہ بن مصعب بن عبدالرحمٰن بن عوف ہے،اور وہ ابومصعب مدنی کے دادا ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ إِسْمَعِيلَ أَبُو عَبْدِ الْمَلِكِ الْعَطَّارِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّہُ حَدَّثَہُمْ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ نَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَأْتِي الْقُرْآنُ وَأَہْلُہُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِہِ فِي الدُّنْيَا تَقْدُمُہُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ قَالَ نَوَّاسٌ وَضَرَبَ لَہُمَا رَسُولُ اللہِ ﷺ ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ مَا نَسِيتُہُنَّ بَعْدُ قَالَ تَأْتِيَانِ كَأَنَّہُمَا غَيَابَتَانِ وَبَيْنَہُمَا شَرْقٌ أَوْ كَأَنَّہُمَا غَمَامَتَانِ سَوْدَاوَانِ أَوْ كَأَنَّہُمَا ظُلَّةٌ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُجَادِلَانِ عَنْ صَاحِبِہِمَا وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ يَجِيءُ ثَوَابُ قِرَاءَتِہِ كَذَا فَسَّرَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ ہَذَا الْحَدِيثَ وَمَا يُشْبِہُ ہَذَا مِنْ الْأَحَادِيثِ أَنَّہُ يَجِيءُ ثَوَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَفِي حَدِيثِ النَّوَّاسِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مَا يَدُلُّ عَلَی مَا فَسَّرُوا إِذْ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ وَأَہْلُہُ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِہِ فِي الدُّنْيَا فَفِي ہَذَا دَلَالَةٌ أَنَّہُ يَجِيءُ ثَوَابُ الْعَمَلِ

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قرآن اور قرآن والا جو دنیا میں قرآن پرعمل کرتاہے دونوں آئیں گے ان کی پیشوائی سورہ بقرہ اور آل عمران کریں گی۔رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سورتوں کی تین مثالیں دیں،اس کے بعد پھر میں ان سورتوں کو نہ بھولا۔آپ نے فرمایا: گویاکہ وہ دونوں چھتریاں ہیں،جن کے بیچ میں شگاف اور پھٹن ہیں،یاگویاکہ وہ دونوں کالی بدلیاں ہیں،یاگویاکہ وہ صف بستہ چڑیوں کا سائبان ہیں،یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں اوران پرعمل کرنے والوں کا لڑجھگڑ کر دفاع وبچاؤ کررہی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-اس باب میں بریدہ اور ابوامامہ سے بھی روایت ہے،۳-اس حدیث کا بعض اہل علم کے نزدیک معنی ومفہوم یہ ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب آئے گا۔اس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کی بعض اہل علم نے یہی تفسیر کی ہے کہ قرآن پڑھنے کا ثواب آئے گا،نواس رضی اللہ عنہ کی نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،مفسرین کی اس تفسیر کی دلیل اوراس کا ثبوت ملتاہے۔نبی اکرمﷺ کے اس قولیَأْتِی الْقُرْآنُ وَأَہْلُہُ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ بِہِ فِی الدُّنْیَا میں اشارہ ہے کہ قرآن کے آنے سے مراد ان کے اعمال کا ثواب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فِي تَفْسِيرِ حَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ مَا خَلَقَ اللہُ مِنْ سَمَاءٍ وَلَا أَرْضٍ أَعْظَمَ مِنْ آيَةِ الْكُرْسِيِّ قَالَ سُفْيَانُ لِأَنَّ آيَةَ الْكُرْسِيِّ ہُوَ كَلَامُ اللہِ وَكَلَامُ اللہِ أَعْظَمُ مِنْ خَلْقِ اللہِ مِنْ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

سفیان بن عیینہ سے روایت ہے،وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث مَا خَلَقَ اللہُ مِنْ سَمَائٍ وَلاَ أَرْضٍ أَعْظَمَ مِنْ آیَۃِ الْکُرْسِیِّ کی تفسیرمیں کہتے ہیں: آیت الکرسی کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق یعنی آسمان وزمین سے بڑھ کر ہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَسَہْلُ بْنُ يُوسُفَ قَالُوا حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْفَارِسِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مَا حَمَلَكُمْ أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَی الْأَنْفَالِ وَہِيَ مِنْ الْمَثَانِي وَإِلَی بَرَاءَةٌ وَہِيَ مِنْ الْمِئِينَ فَقَرَنْتُمْ بَيْنَہُمَا وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَہُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَوَضَعْتُمُوہَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ مَا حَمَلَكُمْ عَلَی ذَلِكَ فَقَالَ عُثْمَانُ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْہِ الزَّمَانُ وَہُوَ تَنْزِلُ عَلَيْہِ السُّوَرُ ذَوَاتُ الْعَدَدِ فَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْہِ الشَّيْءُ دَعَا بَعْضَ مَنْ كَانَ يَكْتُبُ فَيَقُولُ ضَعُوا ہَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيہَا كَذَا وَكَذَا وَإِذَا نَزَلَتْ عَلَيْہِ الْآيَةَ فَيَقُولُ ضَعُوا ہَذِہِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيہَا كَذَا وَكَذَا وَكَانَتْ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا أُنْزِلَتْ بِالْمَدِينَةِ وَكَانَتْ بَرَاءَةٌ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ وَكَانَتْ قِصَّتُہَا شَبِيہَةً بِقِصَّتِہَا فَظَنَنْتُ أَنَّہَا مِنْہَا فَقُبِضَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّہَا مِنْہَا فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَرَنْتُ بَيْنَہُمَا وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَہُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَوَضَعْتُہَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ ہُوَ مِنْ التَّابِعِينَ قَدْ رَوَی عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرَ حَدِيثٍ وَيُقَالُ ہُوَ يَزِيدُ بْنُ ہُرْمُزَ وَيَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ ہُوَ يَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ وَہُوَ مِنْ التَّابِعِينَ وَلَمْ يُدْرِكْ ابْنَ عَبَّاسٍ إِنَّمَا رَوَی عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَكِلَاہُمَا مِنْ أَہْلِ الْبَصْرَةِ وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ أَقْدَمُ مِنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا کہ سورہ انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورہ برأۃ کو جو مئین میں سے ہے دونوں کو ایک ساتھ ملا دیا،اور ان دونوں سورتوں کے بیچ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر بھی نہ لکھی۔اور ان دونوں کو سبع طوال (سات لمبی سورتوں) میں شامل کر دیا۔کس سبب سے آپ نے ایسا کیا؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ پر زمانہ آتا جا رہا تھا اور آپ پر متعدد سورتیں نازل ہو رہی تھیں،تو جب آپ پر کوئی آیت نازل ہوتی تو وحی لکھنے والوں میں سے آپ کسی کو بلاتے اور کہتے کہ ان آیات کو اس سورہ میں شامل کر دو جس میں ایسا ایسا مذکور ہے۔اور پھر جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو آپ فرماتے اس آیت کو اس سورہ میں رکھ دو جس میں اس اس طرح کا ذکر ہے۔سورہ انفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آنے کے بعد شروع شروع میں نازل ہوئی ہیں۔اور سورہ برأت قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے۔اور دونوں کے قصوں میں ایک دوسرے سے مشابہت تھی تو ہمیں خیال ہوا کہ یہ اس کا ایک حصہ (وتکملہ) ہے۔پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ بتائے بغیر کہ یہ سورہ اسی سورہ کا جزو حصہ ہے اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔اس سبب سے ہم نے ان دونوں سورتوں کو ایک ساتھ ملادیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان ہم نے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھا اور ہم نے اسے سبع طوال میں رکھ دیا (شامل کر دیا)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے ہم صرف عوف کی روایت سے جانتے ہیں،جسے وہ یزید فارسی کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں،اور یزید فارسی تابعین میں سے ہیں،انہوں نے ابن عباس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔اور کہا جاتا ہے کہ وہ یزید بن ہرمز ہیں۔اور یزید رقاشی یہ یزید بن اُبان رقاشی ہیں،یہ تابعین میں سے ہیں اور ان کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے۔انہوں نے صرف انس بن مالک سے روایت کی ہے،اور یہ دونوں ہی بصرہ والوں میں سے ہیں۔اور یزید فارسی،یزید رقاشی سے متقدم ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَبِي أَنَّہُ شَہِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ وَذَكَّرَ وَوَعَظَ ثُمَّ قَالَ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ قَالَ فَقَالَ النَّاسُ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ ہَذَا فِي بَلَدِكُمْ ہَذَا فِي شَہْرِكُمْ ہَذَا أَلَا لَا يَجْنِي جَانٍ إِلَّا عَلَی نَفْسِہِ وَلَا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَی وَلَدِہِ وَلَا وَلَدٌ عَلَی وَالِدِہِ أَلَا إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ فَلَيْسَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ مِنْ أَخِيہِ شَيْءٌ إِلَّا مَا أَحَلَّ مِنْ نَفْسِہِ أَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا فِي الْجَاہِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ غَيْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّہُ مَوْضُوعٌ كُلُّہُ أَلَا وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ كَانَ فِي الْجَاہِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ دَمٍ وُضِعَ مِنْ دِمَاءِ الْجَاہِلِيَّةِ دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي لَيْثٍ فَقَتَلَتْہُ ہُذَيْلٌ أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّمَا ہُنَّ عَوَانٍ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْہُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاہْجُرُوہُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْہِنَّ سَبِيلًا أَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلَی نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَی نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَہُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَہُونَ أَلَا وَإِنَّ حَقَّہُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْہِنَّ فِي كِسْوَتِہِنَّ وَطَعَامِہِنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ

سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے،تو آپ ﷺ نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی،اور وعظ ونصیحت فرمائی۔پھر فرمایا: ’’کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقدس والا ہے؟ کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقدس ہے؟ کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقدس والا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! حج اکبر کا دن ہے۔آپ نے فرمایا: ’’تمہارا خون،تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں سب تم پر حرام ہیں جیسے کہ تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے،تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں،سن لو! کوئی انسان کوئی جرم نہیں کرے گا مگر اس کا وبال اسی پر آئے گا،کوئی باپ قصور نہیں کرے گا کہ جس کی سزا اس کے بیٹے کو ملے۔اور نہ ہی کوئی بیٹا کوئی قصور کرے گا کہ اس کی سزا اس کے باپ کو ملے۔آگاہ رہو! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو اسے اس کا بھائی خود سے دے دے۔سن لو! جاہلیت کا ہر سود باطل ہے تم صرف اپنا اصل مال (اصل پونجی) لے سکتے ہو،نہ تم کسی پر ظلم وزیادتی کرو گے اور نہ تمہارے ساتھ ظلم وزیادتی کی جائے گی۔سوائے عباس بن عبدالمطلب کے سود کے کہ اس کا سارا کا سارا معاف ہے۔خبردار! جاہلیت کا ہر خون ختم کر دیا گیا ہے ۱؎ اور جاہلیت میں ہوئے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے،وہ قبیلہ نبی لیث میں دودھ پیتے تھے،تو انہیں قبیلہ ہذیل نے قتل کر دیا تھا،سنو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک (وبرتاؤ) کرو۔کیوں کہ وہ تمہارے پاس بے کس ولاچار بن کر ہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو،مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کر بیٹھیں،اگر وہ کوئی قبیح گناہ کر بیٹھیں تو ان کے بستر الگ کر دو اور انہیں مارو مگر ایسی مار نہ لگاؤ کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو،پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آ جائیں تو ان پر ظلم وزیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو،خبردار ہو جاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں،اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں،تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پرنہ آنے دیں،اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو،اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انہیں اچھا پہناؤ اور اچھا کھلاؤ‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے ابوالا ٔحوص نے شبیب بن غرقدہ سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَبِيہِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ فَقَالَ يَوْمُ النَّحْرِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: حج اکبر کا دن کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نحر (قربانی) کا دن ہے‘‘ ۱؎۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ قَالَ ہَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ لِأَنَّہُ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حج اکبر کا دن یوم النحر ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ روایت محمد بن اسحاق کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیوں کہ یہ حدیث کئی سندوں سے ابواسحاق سے مروی ہے،اور ابواسحاق حارث کے واسطہ سے علی سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔اور ہم کسی کو محمد بن اسحاق کے سوا نہیں جانتے کہ انہوں نے اسے مرفوع کیا ہو،۲-شعبہ نے اس حدیث کو ابواسحاق سے،ابواسحاق نے عبداللہ بن مرہ سے،اور عبداللہ نے حارث کے واسطہ سے علی سے موقوفا ہی روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ وَعَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ بِبَرَاءَةٌ مَعَ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يُبَلِّغَ ہَذَا إِلَّا رَجُلٌ مِنْ أَہْلِي فَدَعَا عَلِيًّا فَأَعْطَاہُ إِيَّاہَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے سورہ برأۃ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجی ۱؎ پھر آپ نے انہیں بلا لیا،فرمایا: ’’میرے خاندان کے کسی فرد کے سوا کسی اور کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جا کر یہ پیغام وہاں پہنچائے (اس لیے تم اسے لے کر نہ جاؤ) پھر آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں سورہ برأۃ دے کر (مکہ) بھیجا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس بن مالک کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ أَبَا بَكْرٍ وَأَمَرَہُ أَنْ يُنَادِيَ بِہَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ ثُمَّ أَتْبَعَہُ عَلِيًّا فَبَيْنَا أَبُو بَكْرٍ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ إِذْ سَمِعَ رُغَاءَ نَاقَةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ الْقَصْوَاءِ فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَزِعًا فَظَنَّ أَنَّہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَإِذَا ہُوَ عَلِيٌّ فَدَفَعَ إِلَيْہِ كِتَابَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يُنَادِيَ بِہَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فَانْطَلَقَا فَحَجَّا فَقَامَ عَلِيٌّ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ فَنَادَی ذِمَّةُ اللہِ وَرَسُولِہِ بَرِيئَةٌ مِنْ كُلِّ مُشْرِكٍ فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْہُرٍ وَلَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفَنَّ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَكَانَ عَلِيٌّ يُنَادِي فَإِذَا عَيِيَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَی بِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (مکہ) بھیجا کہ وہاں پہنچ کر لوگوں میں ان کلمات (سورہ توبہ کی ابتدائی آیات) کی منادی کر دیں۔پھر (ان کے بھیجنے کے فوراً بعد ہی) ان کے پیچھے آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ابوبکر بھی کسی جگہ راستہ ہی میں تھے کہ انہوں نے اچانک رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی قصویٰ کی بلبلاہٹ سنی،گھبرا کر (خیمہ) سے باہر آئے،انہیں خیال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لا رہے ہیں،لیکن وہ آپ کے بجائے علی رضی اللہ عنہ تھے۔علی رضی اللہ عنہ نے آپ (ﷺ) کا خط انہیں پکڑا دیا،اور آپ نے) علی کو حکم دیا کہ وہ ان کلمات کا (بزبان خود) اعلان کر دیں۔پھر یہ دونوں حضرات ساتھ چلے،(دونوں نے حج کیا،اور علی نے ایام تشریق میں کھڑے ہو کر اعلان کیا: اللہ اور اس کے رسول ہر مشرک وکافر سے بری الذمہ ہیں،صرف چار مہینے (سرزمین مکہ میں) گھوم پھر لو،اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے،کوئی شخص بیت اللہ کا ننگا ہو کر طواف نہ کرے،جنت میں صرف مومن ہی جائے گا،علی رضی اللہ عنہ اعلان کرتے رہے جب وہ تھک جاتے تو انہیں کلمات کا ابوبکر رضی اللہ عنہ اعلان کرنے لگتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ قَالَ سَأَلْنَا عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ فِي الْحَجَّةِ قَالَ بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَمَنْ كَانَ بَيْنَہُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ ﷺ عَہْدٌ فَہُوَ إِلَی مُدَّتِہِ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَہُ عَہْدٌ فَأَجَلُہُ أَرْبَعَةُ أَشْہُرٍ وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ وَلَا يَجْتَمِعُ الْمُشْرِكُونَ وَالْمُسْلِمُونَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ وَرَوَاہُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِہِ عَنْ عَلِيٍّ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَہُ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ يُقَالُ عَنْہُ عَنْ ابْنِ أُثَيْعٍ وَعَنْ ابْنِ يُثَيْعٍ وَالصَّحِيحُ ہُوَ زَيْدُ بْنُ يُثَيْعٍ وَقَدْ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ زَيْدٍ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ فَوَہِمَ فِيہِ وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْہِ

زید بن یثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ حج میں کیا پیغام لے کر بھیجے گئے تھے؟ کہا: میں چار چیزوں کا اعلان کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا (ایک یہ کہ) کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف (آئندہ) نہیں کرے گا۔(دوسرے) یہ کہ جس کا فر اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان کوئی معاہدہ ہے وہ معاہدہ مدت ختم ہونے تک قائم رہے گا اور جن کا کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہوگی ۱؎ (تیسرے) یہ کہ جنت میں صرف ایمان والا (مسلمان) ہی داخل ہو سکے گا۔(چوتھے یہ کہ) اس سال کے بعد مسلم ومشرک دونوں حج نہ کر سکیں گے۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث سفیان بن عیینہ کی روایت سے جسے وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح ہے،۲-اسے سفیان ثوری نے ابواسحاق کے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور انہوں نے علی سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔سفیان بن عیینہ نے بسند ابی اسحاق عن زید بن یثیع عن علی اسی طرح روایت کی۔سفیان بن عیینہ نے بسند ابی اسحاق عن زید بن یثیع عن علی اسی طرح روایت کی۔اس سند سے بھی ابواسحاق نے زید بن اثیع کے واسطہ سے علی سے اسی طرح روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عیینہ سے یہ دونوں روایتیں آئی ہیں،۲-کہا جاتا ہے کہ سفیان نے’’عن ابن اثیع‘‘اور ’’عن ابن یثیع‘‘ (’’الف‘‘اور ’’ی‘‘ کے فرق کے ساتھ دونوں) روایت کیا ہے۔اور صحیح زید بن یثیع ہے،۳-شعبہ نے ابواسحاق کے واسطہ سے زید سے اس حدیث کے علاوہ بھی روایت کی ہے جس میں انہیں وہم ہو گیا ہے۔زید بن اثیل کہا،اور ایسا کہنے میں ان کا کوئی متابع (موید) نہیں ہے،۴-اس باب میں ابوہریرہ سے روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّجُلَ يَعْتَادُ الْمَسْجِدَ فَاشْہَدُوا لَہُ بِالْإِيمَانِ قَالَ اللہُ تَعَالَی إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ آمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ إِلَّا أَنَّہُ قَالَ يَتَعَاہَدُ الْمَسْجِدَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَأَبُو الْہَيْثَمِ اسْمُہُ سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدٍ الْعُتْوَارِيُّ وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد کا عادی ہے (یعنی برابر مسجد میں صلاتیں پڑھنے جاتا ہے) تو اس کے مومن ہونے کی گواہی دو‘‘،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ آمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ۱؎۔ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا،اور عبداللہ نے عمر وبن حارث سے،عمر و نے دراج سے،دراج نے ابوالہیثم سے اور ابوالہیثم نے ابو سعید کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے مگر انہوں نے ’’یعمر مساجد اللہ‘‘ کی جگہ ’’یتعاہد المسجد‘‘ کہا کہ وہ مسجد کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتا ہے،۲-یہ حدیث حسن غریب ہے اور ابو الھیثم کا نام سلیمان بن عمرو بن عبدالعتواری ہے وہ یتیم تھے اور ان کی پرورش ابو سعید خدری کی گود یعنی سرپرستی میں ہوئی تھی۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّةَ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِہِ فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِہِ أُنْزِلَ فِي الذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ مَا أُنْزِلَ لَوْ عَلِمْنَا أَيُّ الْمَالِ خَيْرٌ فَنَتَّخِذَہُ فَقَالَ أَفْضَلُہُ لِسَانٌ ذَاكِرٌ وَقَلْبٌ شَاكِرٌ وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِينُہُ عَلَی إِيمَانِہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ فَقُلْتُ لَہُ سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ سَمِعَ مِنْ ثَوْبَانَ فَقَالَ لَا فَقُلْتُ لَہُ مِمَّنْ سَمِعَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ سَمِعَ مِنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَذَكَرَ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ ۱؎ نازل ہوئی،اس وقت ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے،آپ کے بعض صحابہ نے کہا: سونے اور چاندی کے بارے میں جو اترا سو اترا (یعنی اس کی مذمت آئی) اگر ہم جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو اسی کو اپناتے۔آپ نے فرمایا: ’’بہترین مال یہ ہے کہ آدمی کے پاس اللہ کو یاد کرنے والی زبان ہو،شکر گزار دل ہو،اور اس کی بیوی ایسی مومنہ عورت ہو جو اس کے ایمان کو پختہ تر بنانے میں مدد گار ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا کہ کیا سالم بن ابی الجعد نے ثوبان سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں،میں نے ان سے کہا: پھر انہوں نے کسی صحابی سے سنا ہے؟ کہا: انہوں نے جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے سنا ہے اور انہوں نے ان کے علاوہ کئی اور صحابہ کا ذکر کیا۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ يَا عَدِيُّ اطْرَحْ عَنْكَ ہَذَا الْوَثَنَ وَسَمِعْتُہُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَاءَةٌ اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللہِ قَالَ أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَہُمْ وَلَكِنَّہُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَہُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوہُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْہِمْ شَيْئًا حَرَّمُوہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ وَغُطَيْفُ بْنُ أَعْيَنَ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ فِي الْحَدِيثِ

عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا،میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی،آپ نے فرمایا: ’’عدی! اس بت کو نکال کر پھینک دو،میں نے آپ کو سورہ برأۃ کی آیت: اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللہِ ۱؎ پڑھتے ہوئے سنا۔آپ نے فرمایا: ’’وہ لوگ ان کی عبادت نہ کرتے تھے،لیکن جب وہ لوگ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو وہ لوگ اسے حلال جان لیتے تھے،اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو وہ لوگ اسے حرام جان لیتے تھے‘‘ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف عبدالسلام بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں،۳-غطیف بن اعین حدیث میں معروف نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ حَدَّثَہُ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ فِي الْغَارِ لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ يَنْظُرُ إِلَی قَدَمَيْہِ لَأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْہِ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللہُ ثَالِثُہُمَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ ہَمَّامٍ تَفَرَّدَ بِہِ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ حَبَّانُ بْنُ ہِلَالٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ہَمَّامٍ نَحْوَ ہَذَا

ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور نبی اکرم ﷺ دونوں جب غار میں تھے تو میں نے آپ ﷺ سے کہا: اگر ان (کافروں) میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالے تو ہمیں اپنے قدموں کے نیچے (غار میں) دیکھ لے گا۔آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال وگمان ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہو‘‘ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ہمام کی حدیث مشہور ہے اور ہمام اس روایت میں منفرد ہیں،۳-اس حدیث کو حبان بن ہلال اور کئی لوگوں نے اسی کے مانند ہمام سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَيٍّ دُعِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلصَّلَاةِ عَلَيْہِ فَقَامَ إِلَيْہِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْہِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّی قُمْتُ فِي صَدْرِہِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَعَلَی عَدُوِّ اللہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا يَعُدُّ أَيَّامَہُ قَالَ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ يَتَبَسَّمُ حَتَّی إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْہِ قَالَ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ قَدْ قِيلَ لِي اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللہُ لَہُمْ لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَی السَّبْعِينَ غُفِرَ لَہُ لَزِدْتُ قَالَ ثُمَّ صَلَّی عَلَيْہِ وَمَشَی مَعَہُ فَقَامَ عَلَی قَبْرِہِ حَتَّی فُرِغَ مِنْہُ قَالَ فَعُجِبَ لِي وَجُرْأَتِي عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ وَاللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ فَوَاللہِ مَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّی نَزَلَتْ ہَاتَانِ الْآيَتَانِ وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِہِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ فَمَا صَلَّی رَسُولُ اللہِ ﷺ بَعْدَہُ عَلَی مُنَافِقٍ وَلَا قَامَ عَلَی قَبْرِہِ حَتَّی قَبَضَہُ اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن اُبی (منافقوں کا سردار) مرا تو رسول اللہ ﷺ اس کی صلاۃ جنازہ پڑھنے کے لیے بلائے گئے،آپ کھڑے ہو کر اس کی طرف بڑھے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھا نے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ میں لپک کر آپ کے سینے کے سامنے جا کھڑا ہوا،میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی صلاۃ پڑھنے جا رہے ہیں جس نے فلاں فلاں دن ایسا اور ایسا کہا تھا؟ وہ اس کے بے ادبی وبدتمیزی کے دن گن گن کر بیان کرنے لگے،رسول اللہ ﷺ مسکراتے رہے یہاں تک کہ جب میں بہت کچھ کہہ گیا (حدسے تجاوز کر گیا) تو آپ نے فرمایا: ’’(بس بس) مجھ سے ذرا پرے جاؤ عمر! مجھے اختیار دیا گیا ہے تو میں نے اس کے لیے مغفرت طلبی کو ترجیح دی ہے۔کیوں کہ مجھ سے کہا گیا ہے: اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِینَ مَرَّۃً فَلَن یَغْفِرَ اللّہُ لَہُمْ ۱؎ اگر میں جانتا کہ ستّر بار سے زیادہ مغفرت طلب کرنے سے وہ معاف کر دیا جائے گا تو ستر بار سے بھی زیادہ میں اس کے لیے مغفرت مانگتا۔پھر آپ نے عبداللہ بن ابی کی صلاۃ جنازہ پڑھی اور جنازہ کے ساتھ چلے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے،یہاں تک کہ اس کے کفن دفن سے فارغ ہو گئے۔رسول اللہ ﷺ کی شان میں اپنی جرأت وجسارت پر مجھے حیرت ہوئی۔اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ۲؎،قسم اللہ کی! بس تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔وَلاَ تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَی قَبْرِہِ ۳؎ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرنے تک کبھی بھی کسی منافق کی صلاۃ جنازہ نہیں پڑھی،اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أُبَيٍّ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ حِينَ مَاتَ أَبُوہُ فَقَالَ أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْہُ فِيہِ وَصَلِّ عَلَيْہِ وَاسْتَغْفِرْ لَہُ فَأَعْطَاہُ قَمِيصَہُ وَقَالَ إِذَا فَرَغْتُمْ فَآذِنُونِي فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ جَذَبَہُ عُمَرُ وَقَالَ أَلَيْسَ قَدْ نَہَی اللہُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَی الْمُنَافِقِينَ فَقَالَ أَنَا بَيْنَ خِيرَتَيْنِ اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ فَصَلَّی عَلَيْہِ فَأَنْزَلَ اللہُ وَلَا تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِہِ فَتَرَكَ الصَّلَاةَ عَلَيْہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبداللہ بن اُبی کے باپ کا جب انتقال ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے،اور کہا کہ آپ اپنی قمیص ہمیں عنایت فرما دیں،میں انہیں (عبداللہ بن ابی) اس میں کفن دوں گا۔اور ان کی صلاۃ جنازہ پڑھ دیجئے اور ان کے لیے استغفار فرما دیجئے۔تو آپ نے عبداللہ کو اپنی قمیص دے دی۔اور فرمایا: ’’جب تم (غسل وغیرہ سے) فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دو۔پھر جب آپ نے صلاۃ پڑھنے کا ارادہ کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو کھینچ لیا،اور کہا: کیا اللہ نے آپ کو منافقین کی صلاۃ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟ آپ نے فرمایا: ’’مجھے دو چیزوں اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ (ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو) میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا۔چنانچہ آپ نے اس کی صلاۃ پڑھی۔جس پر اللہ نے آیت وَلاَ تُصَلِّ عَلَی أَحَدٍ مِنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَی قَبْرِہِ نازل فرمائی۔تو آپ نے ان (منافقوں) پر صلاۃ جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّہُ قَالَ تَمَارَی رَجُلَانِ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ فَقَالَ رَجُلٌ ہُوَ مَسْجِدُ قُبَاءَ وَقَالَ الْآخَرُ ہُوَ مَسْجِدُ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ ہُوَ مَسْجِدِي ہَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ وَرَوَاہُ أُنَيْسُ بْنُ أَبِي يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دو آدمی اس مسجد کے بارے میں اختلاف کر بیٹھے جس کی تاسیس وتعمیر پہلے دن سے تقویٰ پر ہوئی ہے ۱؎ (کہ وہ کونسی ہے؟) ایک شخص نے کہا: وہ مسجد قباء ہے اور دوسرے نے کہا: وہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد ہے۔تب آپ نے فرمایا: ’’وہ میری یہی مسجد (مسجد نبوی) ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عمران بن ابی انس کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-یہ حدیث ابو سعید خدری سے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی مروی ہے،۳-اسے انیس بن ابی یحییٰ نے اپنے والد سے اور ان کے والد ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ فِي أَہْلِ قُبَاءَ فِيہِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَہَّرُوا وَاللہُ يُحِبُّ الْمُطَّہِّرِينَ قَالَ كَانُوا يَسْتَنْجُونَ بِالْمَاءِ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ فِيہِمْ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَلَامٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’آیت فِیہِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَہَّرُوا وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِینَ ۱؎ اہل قبا کے بارے میں نازل ہوئی۔ان کی عادت تھی کہ وہ استنجا پانی سے کرتے تھے،تو ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-اس باب میں ابو ایوب،انس بن مالک اور محمد بن عبداللہ بن سلام سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ كُوفِيٌّ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْہِ وَہُمَا مُشْرِكَانِ فَقُلْتُ لَہُ أَتَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْكَ وَہُمَا مُشْرِكَانِ فَقَالَ أَوَلَيْسَ اسْتَغْفَرَ إِبْرَاہِيمُ لِأَبِيہِ وَہُوَ مُشْرِكٌ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيہِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ایک شخص کو اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا تو میں نے اس سے کہا: کیا اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہو؟ اس نے کہا: کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی؟ پھر میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ پر یہ آیت نازل ہوئی مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں سعید بن مسیب سے بھی روایت ہے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي غَزْوَةٍ غَزَاہَا حَتَّی كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ إِلَّا بَدْرًا وَلَمْ يُعَاتِبْ النَّبِيُّ ﷺ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْ بَدْرٍ إِنَّمَا خَرَجَ يُرِيدُ الْعِيرَ فَخَرَجَتْ قُرَيْشٌ مُغِيثِينَ لِعِيرِہِمْ فَالْتَقَوْا عَنْ غَيْرِ مَوْعِدٍ كَمَا قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَعَمْرِي إِنَّ أَشْرَفَ مَشَاہِدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي النَّاسِ لَبَدْرٌ وَمَا أُحِبُّ أَنِّي كُنْتُ شَہِدْتُہَا مَكَانَ بَيْعَتِي لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حَيْثُ تَوَاثَقْنَا عَلَی الْإِسْلَامِ ثُمَّ لَمْ أَتَخَلَّفْ بَعْدُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّی كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ وَہِيَ آخِرُ غَزْوَةٍ غَزَاہَا وَآذَنَ النَّبِيُّ ﷺ النَّاسَ بِالرَّحِيلِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِہِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَإِذَا ہُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَہُ الْمُسْلِمُونَ وَہُوَ يَسْتَنِيرُ كَاسْتِنَارَةِ الْقَمَرِ وَكَانَ إِذَا سُرَّ بِالْأَمْرِ اسْتَنَارَ فَجِئْتُ فَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْہِ فَقَالَ أَبْشِرْ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ بِخَيْرِ يَوْمٍ أَتَی عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللہِ أَمِنْ عِنْدِ اللہِ أَمْ مِنْ عِنْدِكَ قَالَ بَلْ مِنْ عِنْدِ اللہِ ثُمَّ تَلَا ہَؤُلَاءِ الْآيَاتِ لَقَدْ تَابَ اللہُ عَلَی النَّبِيِّ وَالْمُہَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوہُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ حَتَّی بَلَغَ إِنَّ اللہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ قَالَ وَفِينَا أُنْزِلَتْ أَيْضًا اتَّقُوا اللہَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللہِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّہِ صَدَقَةً إِلَی اللہِ وَإِلَی رَسُولِہِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَہُوَ خَيْرٌ لَكَ فَقُلْتُ فَإِنِّي أُمْسِكُ سَہْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ قَالَ فَمَا أَنْعَمَ اللہُ عَلَيَّ نِعْمَةً بَعْدَ الْإِسْلَامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللہِ ﷺ حِينَ صَدَقْتُہُ أَنَا وَصَاحِبَايَ وَلَا نَكُونُ كَذَبْنَا فَہَلَكْنَا كَمَا ہَلَكُوا وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ اللہُ أَبْلَی أَحَدًا فِي الصِّدْقِ مِثْلَ الَّذِي أَبْلَانِي مَا تَعَمَّدْتُ لِكَذِبَةٍ بَعْدُ وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللہُ فِيمَا بَقِيَ قَالَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الزُّہْرِيِّ ہَذَا الْحَدِيثُ بِخِلَافِ ہَذَا الْإِسْنَادِ وَقَدْ قِيلَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ عَمِّہِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ كَعْبٍ وَقَدْ قِيلَ غَيْرُ ہَذَا وَرَوَی يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ

کعب بن مالک کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔کیوں کہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیر نے کا تھا،اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے،پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکڑائے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَہُم بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوَی وَالرَّکْبُ أَسْفَلَ مِنکُمْ وَلَوْ تَوَاعَدتَّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیعَادِ وَلَکِن لِّیَقْضِیَ اللّہُ أَمْراً کَانَ مَفْعُولاً (الأنفال: 42) ۱؎ میں فرمایا ہے اور قسم اللہ کی،رسول اللہ ﷺ کے غزوات میں سب سے بڑھ کر غزوہ بدر ہے۔اور میں اس میں شرکت کو عقبہ کی رات میں اپنی بیعت کے مقابل میں قابل ترجیح نہیں سمجھتا۔جب ہم نے اسلام پر عہد ومیثاق لیا تھا۔اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کو چھوڑ کر میں کبھی پیچھے نہیں ہوا یہاں تک کہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آ گیا۔اور یہ آخری غزوہ تھا جس میں آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے،نبی اکرم ﷺ نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کر دیا۔پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی،کہا (رسول اللہ ﷺ کے غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد) میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور مسلمان آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔اور چاند کی روشنی بکھرنے کی طرح آپ نور بکھیر رہے تھے۔آپ جب کسی معاملے میں خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انور دمکنے لگتا تھا،میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔آپ نے فرمایا: ’’کعب بن مالک! اس بہترین دن کی بدولت خوش ہو جاؤ جو تمہیں جب سے تمہاری ماں نے جنا ہے اس دن سے آج تک میں اب حاصل ہوا ہے۔میں نے کہا: اللہ کے نبی! یہ دن مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے یا آپ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے۔پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں لَقَدْ تَابَ اللہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے إِنَّ اللہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ۱؎ تک پہنچے۔آیت اتَّقُوا اللہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَبھی ہمارے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔میں نے کہا: اللہ کے نبی! میری توبہ کی قبولیت کا تقاضہ ہے کہ میں جب بھی بولوں سچی بات ہی بولوں،اور میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر کے خود خالی ہاتھ ہو جاؤں۔آپ نے فرمایا: ’’اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو۔یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔میں نے کہا: تو پھر میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے،اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ نے میری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت مجھے نہیں عطا کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سچ بولا اور جھوٹ نہ بولے کہ ہم ہلاک ہو جاتے جیسا کہ (جھوٹ بول کر) دوسرے ہلاک وبرباد ہو گئے۔اور میرا گمان غالب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچائی کے معاملے میں جتنا مجھے آزمایا ہے کسی اور کو نہ آزمایا ہوگا،اس کے بعد تو میں نے کبھی جھوٹ بولنے کا قصد و ارادہ ہی نہیں کیا۔اور میں اللہ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ وہ باقی ماندہ زند گی میں بھی مجھے جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث زہری سے اس اسناد سے مختلف دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۲-یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حدیث روایت کی گئی ہے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے چچا عبید اللہ سے اور وہ کعب سے،اور اس کے سوا اور بھی کچھ کہا گیا ہے،۳-یونس بن یزید نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے،اور زہری نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے کہ ان کے باپ نے کعب بن مالک سے سن کر بیان کیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَہُ قَالَ بَعَثَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ مَقْتَلَ أَہْلِ الْيَمَامَةِ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَہُ فَقَالَ إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ يَوْمَ الْيَمَامَةِ وَإِنِّي لَأَخْشَی أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ كُلِّہَا فَيَذْہَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ وَإِنِّي أَرَی أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ عُمَرُ ہُوَ وَاللہِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّی شَرَحَ اللہُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَہُ صَدْرَ عُمَرَ وَرَأَيْتُ فِيہِ الَّذِي رَأَی قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّہِمُكَ قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ الْوَحْيَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ قَالَ فَوَاللہِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِنْ ذَلِكَ قَالَ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ ہُوَ وَاللہِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ حَتَّی شَرَحَ اللہُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَہُ صَدْرَہُمَا صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُہُ مِنْ الرِّقَاعِ وَالْعُسُبِ وَاللِّخَافِ يَعْنِي الْحِجَارَةَ وَصُدُورِ الرِّجَالِ فَوَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ بَرَاءَةٌ مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ عَلَيْہِ تَوَكَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جنگ یمامہ کے موقع پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں بلا بھیجا،اتفاق کی بات کہ عمر بن خطاب بھی وہاں موجود تھے،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے ہیں کہتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے بہت سے قرائ (حافظوں) کی ہلاکت ہوئی ہے،اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر ان تمام جگہوں میں جہاں جنگیں چل رہی ہیں قرّاء قرآن کا قتل بڑھتا رہا تو بہت سارا قرآن ضائع ہو سکتا ہے،اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ مکمل قرآن اکٹھا کرنے کا حکم فرمائیں۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میں کوئی ایسی چیز کیسے کروں جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ہے۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ بہتر کام ہے۔وہ مجھ سے یہ بات بار بار کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے بھی اس کام کے لیے شرح صدر عطا کر دیا جس کام کے لیے اللہ نے عمر کو شرح صدر عطا فرمایا تھا۔اور میں نے بھی اس سلسلہ میں وہی بات مناسب سمجھی جو انہوں نے سمجھی۔زید کہتے ہیں: ابوبکر نے (مجھ سے) کہا: تم جو ان ہو،عقلمند ہو،ہم تمہیں (کسی معاملے میں بھی) متہم نہیں کرتے۔اور تم رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی لکھتے بھی تھے،تو ایسا کرو کہ پورا قرآن تلاش کر کے لکھ ڈالو،(یکجا کر دو) زید کہتے ہیں: قسم اللہ کی! اگر مجھ سے پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کہتے تو یہ کام مجھے اس کام سے زیادہ بھاری نہ لگتا،میں نے کہا: آپ لوگ کوئی ایسا کام جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا ہے کیسے (کرنے کی جرأت) کرتے ہیں؟ ابوبکر نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے لیے بہتر ہے۔اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما دونوں مجھ سے بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے سینے کو بھی اس حق کے لیے کھول دیا جس کے لیے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے سینے کو اس نے کھولا تھا،تو میں نے پورے قرآن کی تلاش وجستجو شروع کر دی،میں پرزوں،کھجور کے پتوں،نرم پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے لے کر نقل کر کر کے یکجا کرنے لگا،تو سورہ برأۃ کی آخری آیات لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤفٌ رَحِیمٌ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ۱؎۔مجھے خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس ملیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ حُذَيْفَةَ قَدِمَ عَلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَكَانَ يُغَازِي أَہْلَ الشَّامِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَہْلِ الْعِرَاقِ فَرَأَی حُذَيْفَةُ اخْتِلَافَہُمْ فِي الْقُرْآنِ فَقَالَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِكْ ہَذِہِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ كَمَا اخْتَلَفَتْ الْيَہُودُ وَالنَّصَارَی فَأَرْسَلَ إِلَی حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُہَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّہَا إِلَيْكِ فَأَرْسَلَتْ حَفْصَةُ إِلَی عُثْمَانَ بِالصُّحُفِ فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَی زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَسَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنْ انْسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ لِلرَّہْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثَةِ مَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ فَاكْتُبُوہُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِہِمْ حَتَّی نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ بَعَثَ عُثْمَانُ إِلَی كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِنْ تِلْكَ الْمَصَاحِفِ الَّتِي نَسَخُوا قَالَ الزُّہْرِيُّ وَحَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ فَقَدْتُ آيَةً مِنْ سُورَةِ الْأَحْزَابِ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقْرَؤُہَا مِنْ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ فَالْتَمَسْتُہَا فَوَجَدْتُہَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ فَأَلْحَقْتُہَا فِي سُورَتِہَا قَالَ الزُّہْرِيُّ فَاخْتَلَفُوا يَوْمَئِذٍ فِي التَّابُوتِ وَالتَّابُوہِ فَقَالَ الْقُرَشِيُّونَ التَّابُوتُ وَقَالَ زَيْدٌ التَّابُوہُ فَرُفِعَ اخْتِلَافُہُمْ إِلَی عُثْمَانَ فَقَالَ اكْتُبُوہُ التَّابُوتُ فَإِنَّہُ نَزَلَ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ قَالَ الزُّہْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ كَرِہَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ الْمَصَاحِفِ وَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ أُعْزَلُ عَنْ نَسْخِ كِتَابَةِ الْمُصْحَفِ وَيَتَوَلَّاہَا رَجُلٌ وَاللہِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ وَإِنَّہُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ يُرِيدُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَلِذَلِكَ قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ يَا أَہْلَ الْعِرَاقِ اكْتُمُوا الْمَصَاحِفَ الَّتِي عِنْدَكُمْ وَغُلُّوہَا فَإِنَّ اللہَ يَقُولُ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَالْقُوا اللہَ بِالْمَصَاحِفِ قَالَ الزُّہْرِيُّ فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ كَرِہَہُ مِنْ مَقَالَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ رِجَالٌ مِنْ أَفَاضِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ حَدِيثُ الزُّہْرِيِّ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے،ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آر مینیہ کی فتح میں اور عراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے،حذیفہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا: امیر المومنین! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب (قرآن مجید) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہو جائے (اور آپس میں لڑ نے لگے) جیسا کہ یہود ونصاریٰ اپنی کتابوں (تورات وانجیل اور زبور) کے بارے میں مختلف ہو گئے۔تو عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ (ابوبکر و عمر کے تیار کرائے ہوئے) صحیفے ہمارے پاس بھیج دیں ہم انہیں مصاحف میں لکھا کر آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے،چنانچہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس یہ صحیفے بھیج دیے۔پھر عثمان نے زید بن ثابت اور سعید بن العاص اور عبدالرحمٰن بن الحارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے پاس ان صحیفوں کو اس حکم کے ساتھ بھیجا کہ یہ لوگ ان کو مصاحف میں نقل کر دیں۔اور تینوں قریشی صحابہ سے کہا کہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہو جائے تو قریش کی زبان (ولہجہ) میں لکھو کیوں کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے،یہاں تک کہ جب انہوں نے صحیفے مصحف میں نقل کر لیے تو عثمان نے ان تیار مصاحف کو (مملکت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں) ہر جانب ایک ایک مصحف بھیج دیا۔زہری کہتے ہیں مجھ سے خارجہ بن زید نے بیان کیا کہ زید بن ثابت نے کہا کہ میں سورہ احزاب کی ایک آیت جسے میں رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا اور مجھے یاد نہیں رہ گئی تھی اور وہ آیت یہ ہے مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ ۱؎ تو میں نے اسے ڈھونڈا،بہت تلاش کے بعد میں اسے خزیمہ بن ثابت کے پاس پایا ۲؎ خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کہا یا ابو خزیمہ کہا۔(راوی کو شک ہو گیا) تو میں نے اسے اس کی سورہ میں شامل کر دیا۔زہری کہتے ہیں: لوگ اس وقت (لفظ) تابوہاور تابوت میں مختلف ہو گئے،قریشیوں نے کہا ’’التابوت‘‘ اور زید نے ’’التابوہ‘‘ کہا۔ان کا اختلاف عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’التابوت‘‘ لکھو کیوں کہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔زہری کہتے ہیں: مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے مصاحف لکھنے کو ناپسند کیا اور کہا: اے گروہ مسلمانان! میں مصاحف کے لکھنے سے روک دیا گیا،اور اس کام کا والی وکارگزار وہ شخص ہو گیا جو قسم اللہ کی جس وقت میں ایمان لایا وہ شخص ایک کا فر شخص کی پیٹھ میں تھا (یعنی پیدا نہ ہوا تھا) یہ کہہ کر انہوں نے زید بن ثابت کو مراد لیا۳؎ اور اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود نے کہا: عراق والو! جو مصاحف تمہارے پاس ہیں انہیں چھپا لو،اور سنبھال کر رکھو۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو کوئی چیز چھپا رکھے گا قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہوگا تو تم قیامت میں اپنے مصاحف ساتھ میں لے کر اللہ سے ملاقات کرنا ۴؎ زہری کہتے ہیں: مجھے یہ اطلاع وخبر بھی ملی کہ کبار صحابہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ بات ناپسند فرمائی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔اور یہ زہری کی حدیث ہے،اور ہم اسے صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الْكَرِيمَ ابْنَ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ ابْنِ الْكَرِيمِ يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ قَالَ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ ثُمَّ جَاءَنِي الرَّسُولُ أَجَبْتُ ثُمَّ قَرَأَ فَلَمَّا جَاءَہُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّكَ فَاسْأَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَہُنَّ قَالَ وَرَحْمَةُ اللہِ عَلَی لُوطٍ إِنْ كَانَ لَيَأْوِي إِلَی رُكْنٍ شَدِيدٍ إِذْ قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَی رُكْنٍ شَدِيدٍ فَمَا بَعَثَ اللہُ مِنْ بَعْدِہِ نَبِيًّا إِلَّا فِي ذِرْوَةٍ مِنْ قَوْمِہِ حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ وَعَبْدُ الرَّحِيمِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَ حَدِيثِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَی إِلَّا أَنَّہُ قَالَ مَا بَعَثَ اللہُ بَعْدَہُ نَبِيًّا إِلَّا فِي ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِہِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الثَّرْوَةُ الْكَثْرَةُ وَالْمَنَعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شریف بیٹے شریف (باپ) کے وہ بھی شریف بیٹے شریف (باپ) کے وہ بھی شریف بیٹے شریف باپ کے (یعنی:)یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ۱؎ کی عظمت اورنجابت وشرافت کا یہ حال تھا کہ جتنے دنوں یوسف علیہ السلام جیل خانے میں رہے ۲؎ اگر میں قید خانے میں رہتا،پھر (بادشاہ کا) قاصد مجھے بلا نے آتا تو میں اس کی پکار پر فوراً جا حاضر ہوتا،یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کی طلبی کو قبول نہ کیا بلکہ کہاجاؤ پہلے بادشاہ سے پوچھو! ان محترمات کا اب کیا معاملہ ہے،جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ کا ٹ لیے تھے۔پھر آپ نے آیت: فَلَمَّا جَاءَہُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ اللاَّتِی قَطَّعْنَ أَیْدِیَہُنَّ ۳؎ کی تلاوت فرمائی۔ آپ نے فرمایا: اللہ رحم فرمائے لوط علیہ السلام پر جب کہ انہوں نے مجبور ہوکرتمنا کی تھی: اے کاش میرے پاس طاقت ہوتی،یا کوئی مضبوط سہارامل جاتا۔جب کہ انہوں نے کہا: لَوْ أَنَّ لِی بِکُمْ قُوَّۃً أَوْ آوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِیدٍ ۴؎۔آپ نے فرمایا: لوط علیہ السلام کے بعد تو اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے انہیں ان کی قوم کے اعلیٰ نسب چیدہ لوگوں اور بلند مقام والوں ہی میں سے بھیجے۔فضل بن موسیٰ کی حدیث کی طرح ہی حدیث روایت ہے،مگر (ان کی حدیث میں ذرا سافرق یہ ہے کہ) انہوں نے کہا: مَا بَعَثَ اللہُ بَعْدَہُ نَبِیًّا إِلاَّ فِی ثَرْوَۃٍ مِنْ قَوْمِہِ (اس حدیث میں ذر وہ کی جگہ ثروہ ہے،اورثروۃکے معنی ہیں: زیادہ تعداد)۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں: ثروہ کے معنی کثرت اور شان وشوکت کے ہیں۔ یہ فضل بن موسیٰ کی روایت سے زیادہ اصح ہے اور یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ الْحُدَّانِيُّ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَتْ امْرَأَةٌ تُصَلِّي خَلْفَ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَسْنَاءَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَكَانَ بَعْضُ الْقَوْمِ يَتَقَدَّمُ حَتَّی يَكُونَ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ لِئَلَّا يَرَاہَا وَيَسْتَأْخِرُ بَعْضُہُمْ حَتَّی يَكُونَ فِي الصَّفِّ الْمُؤَخَّرِ فَإِذَا رَكَعَ نَظَرَ مِنْ تَحْتِ إِبْطَيْہِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ نَحْوَہُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا أَشْبَہُ أَنْ يَكُونَ أَصَحَّ مِنْ حَدِيثِ نُوحٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک خوبصورت عورت رسول اللہ ﷺ کے پیچھے (عورتوں کی صفوں میں) صلاۃپڑھا کرتی تھی تو بعض لوگ آگے بڑھ کر پہلی صف میں ہوجاتے تھے تاکہ وہ اسے نہ دیکھ سکیں اور بعض آگے سے پیچھے آکر آخری صف میں ہوجاتے تھے (عورتوں کی صف سے ملی ہوئی صف میں) پھر جب وہ رکوع میں جاتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے اسے دیکھتے،اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِینَ ۱؎ نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں: جعفر بن سلیمان نے یہ حدیث عمرو بن مالک سے اورعمروبن مالک نے ابوالجوزاء سے اسی طرح روایت کی ہے،اور اس میں عن ابن عباس کا ذکرنہیں کیا ہے۔اور اس میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ یہ نوح کی حدیث سے زیادہ صحیح و درست ہو۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ جُنَيْدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لِجَہَنَّمَ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ بَابٌ مِنْہَا لِمَنْ سَلَّ السَّيْفَ عَلَی أُمَّتِي أَوْ قَالَ عَلَی أُمَّةِ مُحَمَّدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جہنم کے سات دروازے ہیں،ان میں سے ایک دروازہ ان لوگوں کے لیے ہے جو میری امت یاامت محمدیہ پر تلوار اٹھائیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف مالک بن مغول کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْحَمْدُ لِلَّہِ أُمُّ الْقُرْآنِ وَأُمُّ الْكِتَابِ وَالسَّبْعُ الْمَثَانِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سورہ الحمد للہ (فاتحہ)،ام القرآن ہے،ام الکتاب (قرآن کی اصل اساس ہے) اور السبع المثانی ہے (بار بار دہرائی جانے والی آیتیں) ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَا أَنْزَلَ اللہُ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ الْقُرْآنِ وَہِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَہِيَ مَقْسُومَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ عَلَی أُبَيٍّ وَہُوَ يُصَلِّي فَذَكَرَ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَطْوَلُ وَأَتَمُّ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ ہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابی بن کعب کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تو رات میں اور نہ ہی انجیل میں ام القرآن(فاتحہ)جیسی کوئی سورہ نازل فرمائی ہے،اور یہ سات آیتیں ہیں جو (ہررکعت میں پڑھی جانے کی وجہ سے) بارباردہرائی جانے والی ہیں،اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان تقسیم ہیں اور میرے بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے۔عبدالعزیز بن محمد نے علاء بن عبدالرحمٰن اورعلاء نے اپنے باپ عبدالرحمٰن سے اورعبدالرحمٰن نے ابوہریرہ سے روایت کی کہ نبی اکرمﷺ اُبی کے پاس گئے،اس وقت وہ صلاۃ پڑھ رہے تھے۔(آگے) انہوں نے اسی کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبدالعزیز بن محمد کی حدیث لمبی اور مکمل ہے اور یہ عبدالحمید بن جعفر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے اور اسی طرح کئی ایک نے علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ بِشْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ لَنَسْأَلَنَّہُمْ أَجْمَعِينَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ قَالَ عَنْ قَوْلِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ وَقَدْ رَوَی عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ بِشْرٍ عَنْ أَنَسٍ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کے قول لَنَسْأَلَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۱؎ کے متعلق فرمایا: یہ پوچھنا لا إلٰہ إلا اللہ کے متعلق ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے لیث بن ابی سلیم کی روایت ہی سے جانتے ہیں،۳-عبداللہ بن ادریس نے لیث بن ابی سلیم سے،اورلیث نے بشرکے واسطہ سے انس سے ایسے ہی روایت کی ہے،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الطَّيِّبِ حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّہُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللہِ ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ ہَذِہِ الْآيَةِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ قَالَ لِلْمُتَفَرِّسِينَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی فراست سے ڈرو کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتاہے،پھر آپ نے آیت إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِینَ ۱؎ تلاوت فرمائی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،بعض اہل علم نے اس آیت إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِینَ کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں اصحاب فراست کے لیے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مَعَہَا خَاتَمُ سُلَيْمَانَ وَعَصَا مُوسَی فَتَجْلُو وَجْہَ الْمُؤْمِنِ وَتَخْتِمُ أَنْفَ الْكَافِرِ بِالْخَاتَمِ حَتَّی إِنَّ أَہْلَ الْخُوَانِ لَيَجْتَمِعُونَ فَيَقُولُ ہَاہَا يَا مُؤْمِنُ وَيُقَالُ ہَاہَا يَا كَافِرُ وَيَقُولُ ہَذَا يَا مُؤْمِنُ وَيَقُولُ ہَذَا يَا كَافِرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ فِي دَابَّةِ الْأَرْضِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (قیامت کے قریب زمین سے) ایک جانورنکلے گا جس کے پاس سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی (مہر) اور موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہوگا،وہ اس عصاسے (لکیر کھینچ کر) مومن کے چہرے کو روشن ونمایاں کردے گا،اور انگوٹھی کے ذریعہ کافر کی ناک پر مہر لگادے گا یہاں تک کہ دسترخوان والے جب دسترخوان پر اکٹھے ہوں گے تو یہ کہے گا: اے مومن اور وہ کہے گا: اے کافر! ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-دابۃ الا ٔرض کے سلسلے میں اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث ابوہریرہ سے مروی ہے جسے وہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں،۳-اس باب میں ابوامامہ اور حذیفہ بن اسید سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ شِہَابٍ الزُّہْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ فِي مُنَاحَبَةِ الم غُلِبَتْ الرُّومُ أَلَا احْتَطْتَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّ الْبِضْعَ مَا بَيْنَ ثَلَاثٍ إِلَی تِسْعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کے (قریش سے) شرط لگانے پر کہا: اے ابوبکر تم نے شرط لگانے میں الم غُلِبَتْ الرُّومُ کی احتیاط کیوں نہ برتی،کیوں کہ لفظ (بضع) تین سے نوتک کے لیے بولاجاتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے جسے زہری عبیداللہ کے واسطہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَہْضَمِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ظَہَرَتْ الرُّومُ عَلَی فَارِسَ فَأَعْجَبَ ذَلِكَ الْمُؤْمِنِينَ فَنَزَلَتْ الم غُلِبَتْ الرُّومُ إِلَی قَوْلِہِ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللہِ قَالَ فَفَرِحَ الْمُؤْمِنُونَ بِظُہُورِ الرُّومِ عَلَی فَارِسَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ كَذَا قَرَأَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ غَلَبَتْ الرُّومُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بدر کی لڑائی کے موقع پر جب رومی اہل فارس پر غالب آگئے تو مومنوں کو اس سے خوشی حاصل ہوئی ۱؎ اس پر یہ آیت: الم غُلِبَتِ الرُّومُسے لے کر یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللہِ ۲؎ تک نازل ہوئی،وہ کہتے ہیں: روم کے فارس پر غلبہ سے مسلمان بے حد خوش ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،ایسے ہی نصر بن علی نے غَلَبَتِ الرُّومُ (غ اور ل کے زبر کے ساتھ) پڑھاہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللہِ تَعَالَی الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَی الْأَرْضِ قَالَ غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ كَانَ الْمُشْرِكُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْہَرَ أَہْلُ فَارِسَ عَلَی الرُّومِ لِأَنَّہُمْ وَإِيَّاہُمْ أَہْلُ الْأَوْثَانِ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْہَرَ الرُّومُ عَلَی فَارِسَ لِأَنَّہُمْ أَہْلُ الْكِتَابِ فَذَكَرُوہُ لِأَبِي بَكْرٍ فَذَكَرَہُ أَبُو بَكْرٍ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَمَا إِنَّہُمْ سَيَغْلِبُونَ فَذَكَرَہُ أَبُو بَكْرٍ لَہُمْ فَقَالُوا اجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ أَجَلًا فَإِنْ ظَہَرْنَا كَانَ لَنَا كَذَا وَكَذَا وَإِنْ ظَہَرْتُمْ كَانَ لَكُمْ كَذَا وَكَذَا فَجَعَلَ أَجَلًا خَمْسَ سِنِينَ فَلَمْ يَظْہَرُوا فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ أَلَا جَعَلْتَہُ إِلَی دُونَ قَالَ أُرَاہُ الْعَشْرَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَالْبِضْعُ مَا دُونَ الْعَشْرِ قَالَ ثُمَّ ظَہَرَتْ الرُّومُ بَعْدُ قَالَ فَذَلِكَ قَوْلُہُ تَعَالَی الم غُلِبَتْ الرُّومُ إِلَی قَوْلِہِ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللہِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ قَالَ سُفْيَانُ سَمِعْتُ أَنَّہُمْ ظَہَرُوا عَلَيْہِمْ يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت الم غَلَبَتِ الرُّومُ فِی أدنیَ الاَرْضِ کے بارے میں کہتے ہیں: غَلَبَتْ اور غُلِبَتْ دونوں پڑھاگیا ہے،کفارو مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس روم پر غالب آجائیں،اس لیے کہ کفارو مشرکین اور وہسب بت پرست تھے جب کہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی اہل فارس پر غالب آجائیں،اس لیے کہ رومی اہل کتاب تھے،انہوں نے اس کا ذکر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے،آپ نے فرمایا: وہ (رومی) (مغلوب ہوجانے کے بعد پھر) غالب آجائیں گے،ابوبکر نے جاکر انہیں یہ بات بتائی،انہوں نے کہا: (ایسی بات ہے تو) ہمارے اور اپنے درمیان کوئی مدت متعین کرلو،اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں تم اتنا اتنا دینا،اور اگر تم غالب آگئے (جیت گئے) تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔توانہوں نے پانچ سال کی مدت رکھ دی،لیکن وہ (رومی) اس مدت میں غالب نہ آسکے،ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات بھی رسول اللہ ﷺ کو بتائی۔آپ نے فرمایا: تم نے اس کی مدت اس سے کچھ آگے کیوں نہ بڑھادی؟ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ کی مراد اس سے دس (سال) تھی،ابوسعید نے کہا کہ بضع دس سے کم کوکہتے ہیں،اس کے بعد رومی غالب آگئے۔(ابن عباس رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے قول الم غُلِبَتِ الرُّومُ سے وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللہِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَائُ تک کا یہی مفہوم ہے،سفیان ثوری کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ وہ (رومی) لوگ ان پر اس دن غالب آئے جس دن بدر کی جنگ لڑی گئی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف سفیان ثوری کی اس روایت سے جسے وہ حبیب بن ابوعمرہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں،جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَی الْأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ فَكَانَتْ فَارِسُ يَوْمَ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ قَاہِرِينَ لِلرُّومِ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ ظُہُورَ الرُّومِ عَلَيْہِمْ لِأَنَّہُمْ وَإِيَّاہُمْ أَہْلُ كِتَابٍ وَفِي ذَلِكَ قَوْلُ اللہِ تَعَالَی وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللہِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَہُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُحِبُّ ظُہُورَ فَارِسَ لِأَنَّہُمْ وَإِيَّاہُمْ لَيْسُوا بِأَہْلِ كِتَابٍ وَلَا إِيمَانٍ بِبَعْثٍ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآيَةَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ يَصِيحُ فِي نَوَاحِي مَكَّةَ الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَی الْأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ لِأَبِي بَكْرٍ فَذَلِكَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ زَعَمَ صَاحِبُكَ أَنَّ الرُّومَ سَتَغْلِبُ فَارِسَ فِي بِضْعِ سِنِينَ أَفَلَا نُرَاہِنُكَ عَلَی ذَلِكَ قَالَ بَلَی وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الرِّہَانِ فَارْتَہَنَ أَبُو بَكْرٍ وَالْمُشْرِكُونَ وَتَوَاضَعُوا الرِّہَانَ وَقَالُوا لِأَبِي بَكْرٍ كَمْ تَجْعَلُ الْبِضْعُ ثَلَاثُ سِنِينَ إِلَی تِسْعِ سِنِينَ فَسَمِّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ وَسَطًا تَنْتَہِي إِلَيْہِ قَالَ فَسَمَّوْا بَيْنَہُمْ سِتَّ سِنِينَ قَالَ فَمَضَتْ السِّتُّ سِنِينَ قَبْلَ أَنْ يَظْہَرُوا فَأَخَذَ الْمُشْرِكُونَ رَہْنَ أَبِي بَكْرٍ فَلَمَّا دَخَلَتْ السَّنَةُ السَّابِعَةُ ظَہَرَتْ الرُّومُ عَلَی فَارِسَ فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی أَبِي بَكْرٍ تَسْمِيَةَ سِتِّ سِنِينَ لِأَنَّ اللہَ تَعَالَی قَالَ فِي بِضْعِ سِنِينَ وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِكَ نَاسٌ كَثِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ

نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِی أَدْنَی الأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ فِی بِضْعِ سِنِینَ نازل ہوئی،اس وقت اہل فارس روم پر غالب وقابض تھے،اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ان پر غالب آجائیں،کیوں کہ رومی اور مسلمان دونوں ہی اہل کتاب تھے،اور اسی سلسلے میں یہ آیت: وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللہِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَائُ وَہُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ۱؎ بھی اتری ہے،قریش چاہتے تھے کہ اہل فارس غالب ہوں کیوں کہ وہ اورا ہل فارس دونوں ہی نہ تواہل کتاب تھے،اور نہ دونوں ہی قیامت پر ایمان رکھتے تھے،جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے اطراف میں اعلان کرنے نکل کھڑے ہوئے،انہوں نے چیخ چیخ کر (بآواز بلند) اعلان کیا،الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِی أَدْنَی الأَرْضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ فِی بِضْعِ سِنِینَ (رومی مغلوب ہوگئے زمین میں،وہ مغلوب ہوجانے کے بعد چندسالوں میں پھر غالب آجائیں گے)توقریش کے کچھ لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آؤ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات پر شرط ہوجائے،تمہارے ساتھی (نبی) کا خیال ہے کہ رومی فارسیوں پر چند سالوں کے اند ر اندر غالب آجائیں گے،کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم سے اس بات پر شرط لگالیں،انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ ہم تیار ہیں،ابوبکر اور مشرکین دونوں نے شرط لگالی،اور شرط کامال کہیں رکھوا دیا،مشرکین نے ابوبکر سے کہا: تم بضع کو تین سے ۹ سال کے اندر کتنے سال پر متعین ومشروط کرتے ہو؟ ہمارے اورا پنے درمیان بیچ کی ایک مدت متعین کرلو،جس پر فیصلہ ہوجائے،راوی کہتے ہیں: انہوں نے چھ سال کی مدت متعین اور مقرر کردی۔راوی کہتے ہیں کہ روم کے مشرکین پر غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے تو مشرکین نے ابوبکر کے بطور شرط جمع کرائے ہوئے مال کو لے لیا،مگر جب ساتواں سال شروع ہوا اور رومی فارسیوں پر غالب آگئے،تو مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر نکتہ چینی کی کہ یہ ان کی غلطی تھی کہ چھ سال کی مدت متعین کی جب کہ اللہ تعالیٰ نے بضع سنین کہاتھا،(اور بضع تین سال سے ۹سال تک کے لیے مستعمل ہوتاہے)۔راوی کہتے ہیں: اس پیشین گوئی کے برحق ثابت ہونے پر بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث نیار بن مکرم کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف عبدالرحمٰن بن ابوالزناد کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا زُہَيْرٌ أَخْبَرَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ قَالَ قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِہِ مَا عَنَی بِذَلِكَ قَالَ قَامَ نَبِيُّ اللہِ ﷺ يَوْمًا يُصَلِّي فَخَطَرَ خَطْرَةً فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ مَعَہُ أَلَا تَرَی أَنَّ لَہُ قَلْبَيْنِ قَلْبًا مَعَكُمْ وَقَلْبًا مَعَہُمْ فَأَنْزَلَ اللہُ مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِہِ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُہَيْرٌ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوظبیان کہتے ہیں کہ ہم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: ذرابتائیں اللہ تعالیٰ کے اس قول مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ ۱؎ کا کیا معنی ومطلب ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نبی اکرم ﷺ ایک دن صلاۃ پڑھ رہے تھے کہ آپ سے کچھ سہو ہوگیا،آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھنے والے منافقین نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں ان کے دودل ہیں ایک تم لوگوں کے ساتھ اور ایک اوروں کے ساتھ ہے۔اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت مَا جَعَلَ اللہُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَیْنِ فِی جَوْفِہِ نازل فرمائی۔اس سند بھی اسی طرح روایت ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عَمِّي أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ سُمِّيتُ بِہِ لَمْ يَشْہَدْ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَكَبُرَ عَلَيَّ فَقَالَ أَوَّلُ مَشْہَدٍ شَہِدَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ غِبْتُ عَنْہُ أَمَا وَاللہِ لَئِنْ أَرَانِي اللہُ مَشْہَدًا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِيمَا بَعْدُ لَيَرَيَنَّ اللہُ مَا أَصْنَعُ قَالَ فَہَابَ أَنْ يَقُولَ غَيْرَہَا فَشَہِدَ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ يَوْمَ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْقَابِلِ فَاسْتَقْبَلَہُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ يَا أَبَا عَمْرٍو أَيْنَ قَالَ وَاہًا لِرِيحِ الْجَنَّةِ أَجِدُہَا دُونَ أُحُدٍ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ فَوُجِدَ فِي جَسَدِہِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ وَطَعْنَةٍ وَرَمْيَةٍ فَقَالَتْ عَمَّتِي الرُّبَيِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ فَمَا عَرَفْتُ أَخِي إِلَّا بِبَنَانِہِ وَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ جن کے نام پر میرانام رکھاگیا تھاجنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے،یہ بات انہیں بڑی شاق اور گراں گزررہی تھی،کہتے تھے: جہاں رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس حاضر وموجود تھے میں اس سے غیرحاضررہا،(اس کا مجھے بے حد افسوس ہے) مگر سنو! قسم اللہ کی! اب اگر مجھے رسول اللہﷺکے ساتھ کسی غزوہ میں شریک ہونے کا موقع ملا تو یقینا اللہ دیکھے گا کہ میں کیاکچھ کرتا ہوں،راوی کہتے ہیں: وہ اس کے سوا اور کچھ کہنے سے ڈرتے (اور بچتے) رہے،پھراگلے سال وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ احد میں شریک ہوئے،سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا ان سے سامنا ہوا توا نہوں نے کہا: ابوعمرو! کہاں کا ارادہ ہے انہوں نے کہا: اے واہ! میں تو احد پہاڑ کے پرے جنت کی خوشبو پارہاہوں پھر وہ لڑے اور اس شان سے لڑے کہ شہید کردیئے گئے،ان کے جسم میں (۸۰)سے کچھ زائد چوٹ تیر ونیزہ کے زخم پائے گئے۔میری پھوپھی ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اپنے بھائی کی نعش صرف ان کی انگلیوں کے پوروں سے پہچان پائی-اسی موقع پر آیت رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلاً ۱؎ نازل ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَمَّہُ غَابَ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ فَقَالَ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُشْرِكِينَ لَئِنْ اللہُ أَشْہَدَنِي قِتَالًا لَلْمُشْرِكِينَ لَيَرَيَنَّ اللہُ كَيْفَ أَصْنَعُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْكَشَفَ الْمُسْلِمُونَ فَقَالَ اللہُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِہِ ہَؤُلَاءِ يَعْنِي الْمُشْرِكِينَ وَأَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ ہَؤُلَاءِ يَعْنِي أَصْحَابَہُ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَلَقِيَہُ سَعْدٌ فَقَالَ يَا أَخِي مَا فَعَلْتَ أَنَا مَعَكَ فَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أَصْنَعَ مَا صَنَعَ فَوُجِدَ فِيہِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ ضَرْبَةٍ بِسَيْفٍ وَطَعْنَةٍ بِرُمْحٍ وَرَمْيَةٍ بِسَہْمٍ فَكُنَّا نَقُولُ فِيہِ وَفِي أَصْحَابِہِ نَزَلَتْ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ قَالَ يَزِيدُ يَعْنِي ہَذِہِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاسْمُ عَمِّہِ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے چچا(انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں غیر حاضرتھے،انہوں نے (افسوس کرتے ہوئے) کہا: اس پہلی لڑائی میں جو رسول اللہ ﷺنے مشرکین سے لڑئی میں غیر موجود رہا،اب اگر اللہ نے مشرکین سے مجھے کسی جنگ میں لڑنے کا موقع دیا تو اللہ ضرور دیکھے گا کہ میں (بے جگری وبہادری سے کس طرح لڑتااور) کیاکرتاہوں۔پھر جب جنگ احد کی لڑائی کا موقع آیا،اور مسلمان (میدان سے) چھٹ گئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ میں تیری پناہ چاہتاہوں اس شر سے جسے یہ لوگ یعنی مشرکین لے کر آئے ہیں اور ان سے یعنی آپ کے صحابہ سے جوغلطی سرزد ہوئی ہے،اس کے لیے تجھ سے معذرت خواہ ہوں،پھر وہ آگے بڑھے،ان سے سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی،سعد نے ان سے کہا: میرے بھائی! آپ جو بھی کریں میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں،(سعدکہتے ہیں:) لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ میں نہ کرسکا،ان کی لاش پر تلوار کی مار کے،نیزے بھونکنے کے اور تیر لگنے کے اسّی(۸۰) سے کچھ زیادہ ہی زخم تھے،ہم کہتے تھے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آیت فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ اتری ہے۔یزید (راوی) کہتے ہیں: اس سے مراد یہ (پوری) آیت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ يَحْيَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی مُعَاوِيَةَ فَقَالَ أَلَا أُبَشِّرُكَ فَقُلْتُ بَلَی قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِنَّمَا رُوِيَ ہَذَا عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيہِ

موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا توانہوں نے کہا: کیا میں تمہیں ایک خوش خبری نہ سنادوں؟ میں نے کہا: ضرور،سنائیے،کہامیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مِمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ فرمایاہے،یعنی جو اپنا کام پورا کرچکے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے صرف اسی سندسے جانتے ہیں،۲-جبکہ یہ حدیث موسیٰ بن طلحہ صرف طلحہ کی حدیث سے روایت کی جاتی ہے،(جوآگے آرہی ہے)

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَی عَنْ مُوسَی وَعِيسَی ابْنَيْ طَلْحَةَ عَنْ أَبِيہِمَا طَلْحَةَ أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالُوا لِأَعْرَابِيٍّ جَاہِلٍ سَلْہُ عَمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ مَنْ ہُوَ وَكَانُوا لَا يَجْتَرِئُونَ عَلَی مَسْأَلَتِہِ يُوَقِّرُونَہُ وَيَہَابُونَہُ فَسَأَلَہُ الْأَعْرَابِيُّ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ سَأَلَہُ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ سَأَلَہُ فَأَعْرَضَ عَنْہُ ثُمَّ إِنِّي اطَّلَعْتُ مِنْ بَابِ الْمَسْجِدِ وَعَلَيَّ ثِيَابٌ خُضْرٌ فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ عَمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ قَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ ہَذَا مِمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ بُكَيْرٍ

طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ نے ایک جاہل دیہاتی سے کہا کہ وہ نبی اکرمﷺ سے مِمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ سے متعلق پوچھے کہ اس سے مراد کیا ہے؟ وہ لوگ خود آپ سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کررہے تھے،وہ آپ کا ادب واحترام کرتے تھے اور آپ سے ڈرتے بھی تھے،اعرابی نے آپ سے پوچھا،مگر آپ نے اعراض کیا،اس نے پھر پوچھا،آپ نے پھر اس کی طرف توجہ نہ دی،اس نے پھر پوچھا: آپ نے پھر بے رخی برتی،پھر میں مسجد کے دروازے سے نمودار ہوا اور (اندر آیا) میں (نمایاں) سبز کپڑے پہنے ہوئے تھا،جب آپ نے مجھے دیکھا تو آپ نے فرمایا: مِمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ سے متعلق پوچھنے والا شخص کہاں ہے؟ اعرابی،(گنوار دیہاتی) نے کہا:اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ شخص(طلحہ) انہی لوگوں میں سے ہے،جنہوں نے اپنے کام اور ذمہ داریاں پوری کردی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف یونس بن بکیر کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بِتَخْيِيرِ أَزْوَاجِہِ بَدَأَ بِي فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنِّي ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا فَلَا عَلَيْكِ أَنْ لَا تَسْتَعْجِلِي حَتَّی تَسْتَأْمِرِي أَبَوَيْكِ قَالَتْ وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَايَ لَمْ يَكُونَا لِيَأْمُرَانِي بِفِرَاقِہِ قَالَتْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللہَ تَعَالَی يَقُولُ يَا أَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَہَا فَتَعَالَيْنَ حَتَّی بَلَغَ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا فَقُلْتُ فِي أَيِّ ہَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَيَّ فَإِنِّي أُرِيدُ اللہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ وَفَعَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا أَيْضًا عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ ﷺ کو حکم دیاگیاکہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں ۱؎ توآپ نے اپنی اس کاروائی کی ابتداء مجھ سے کی:آپ نے کہا: عائشہ! میں تمہارے سامنے ایک معاملہ رکھتاہوں،تم اپنے ماں باپ سے مشورہ لیے بغیر جواب دہی میں جلد بازی نہ کرنا،عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ خوب سمجھتے تھے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی وعلیحدگی اختیار کرلینے کا حکم نہیں دے سکتے تھے۔پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کہتاہے یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا فَتَعَالَیْنَ-حَتَّی بَلَغَ-لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیمًا ۲؎ میں نے کہا: کیامیں اس بارے میں ماں باپ سے مشورہ لوں؟ (نہیں مجھے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں) میں اللہ اور اس کے رسول کو چاہتی ہوں اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہوں،آپ کی دیگر بیویوں نے بھی ویسا ہی کچھ کہاجیسا میں نے کہاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے،زہری نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ الْأَصْبَہَانِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ إِنَّمَا يُرِيدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيرًا فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَہُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَہْرِہِ فَجَلَّلَہُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ ہَؤُلَاءِ أَہْلُ بَيْتِي فَأَذْہِبْ عَنْہُمْ الرِّجْسَ وَطَہِّرْہُمْ تَطْہِيرًا قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأَنَا مَعَہُمْ يَا نَبِيَّ اللہِ قَالَ أَنْتِ عَلَی مَكَانِكِ وَأَنْتِ عَلَی خَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ

نبی اکرمﷺکے پرودہ عمربن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت إِنَّمَا یُرِیدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ۱؎ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تو آپ نے فاطمہ وحسن حسین (رضی اللہ عنہم)کو بلایا اور انہیں ایک چادر کے نیچے ڈھانپ دیا،علی رضی اللہ عنہ آپ کی پیٹھ کے پیچھے تھے آپ نے انہیں بھی چادر کے نیچے کرلیا،پھرفرمایا: اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت،میرے گھروالے،ان سے ناپاکی دورکردے اور انہیں ہرطرح کی آلائشوں سے پوری طرح پاک وصاف کردے،ام سلمہ کہتی ہیں: اور میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ ہی ٹھیک ہو،تمہیں خیر ہی کا مقام ودرجہ حاصل ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے جسے عطاء عمر بن ابی سلمہ سے روایت کرتے ہیں غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْہُرٍ إِذَا خَرَجَ إِلَی صَلَاةِ الْفَجْرِ يَقُولُ الصَّلَاةَ يَا أَہْلَ الْبَيْتِ إِنَّمَا يُرِيدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمْ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيرًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الْحَمْرَاءِ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے سامنے سے چھ مہینے تک گزرتے رہے،جب فجر کے لیے نکلتے تو آپ کا معمول تھا کہ آپ آواز دیتے الصلاۃ یا أہل البیت (اے میرے گھروالو! صلاۃ فجر کے لیے اٹھو) إِنَّمَا یُرِیدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا (اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری نجاست تم سے دور کردے اور تمہیں پورے طورپر پاک کردے۔) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں،۲-اس باب میں ا بوالحمراء،معقل بن یسار اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ لَوْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ كَاتِمًا شَيْئًا مِنْ الْوَحْيِ لَكَتَمَ ہَذِہِ الْآيَةَ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِ يَعْنِي بِالْإِسْلَامِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْہِ يَعْنِي بِالْعِتْقِ فَأَعْتَقْتَہُ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللہَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللہُ مُبْدِيہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللہُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاہُ إِلَی قَوْلِہِ وَكَانَ أَمْرُ اللہِ مَفْعُولًا وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ لَمَّا تَزَوَّجَہَا قَالُوا تَزَوَّجَ حَلِيلَةَ ابْنِہِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَبَنَّاہُ وَہُوَ صَغِيرٌ فَلَبِثَ حَتَّی صَارَ رَجُلًا يُقَالُ لَہُ زَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَأَنْزَلَ اللہُ ادْعُوہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَہُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ فُلَانٌ مَوْلَی فُلَانٍ وَفُلَانٌ أَخُو فُلَانٍ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ يَعْنِي أَعْدَلُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ لَوْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ كَاتِمًا شَيْئًا مِنْ الْوَحْيِ لَكَتَمَ ہَذِہِ الْآيَةَ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْہِ ہَذَا الْحَرْفُ لَمْ يُرْوَ بِطُولِہِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبْدُ اللہِ بْنُ وَضَّاحٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ إِدْرِيسَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اگر رسول اللہ ﷺ وحی کی کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو یہ آیت وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْہِ ۱؎ سے لے کر وَکَانَ أَمْرُ اللہِ مَفْعُولاً تک چھپالیتے،رسول اللہ ﷺ نے جب ان سے (زینب سے) شادی کرلی تو لوگوں نے کہا: آپ نے اپنے (لے پالک) بیٹے کی بیوی سے شادی کرلی،اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ ۲؎ نازل فرمائی،زید چھوٹے تھے تبھی رسول اللہ ﷺ نے انہیں منہ بولا بیٹا بنالیاتھا،وہ برابر آپ کے پاس رہے یہاں تک کہ جوان ہوگئے،اوران کو زید بن محمد کہاجانے لگا،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ادْعُوہُمْ لآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَائَہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِی الدِّینِ وَمَوَالِیکُمْ ۳؎ فلاں فلاں کا دوست ہے اور فلاں فلاں کا دینی بھائی ہے ۴؎،أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِیہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی کا مفہوم یہ ہے کہ پوراانصاف ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔اس سندسے مسروق نے عائشہ سے روایت کی ہے،وہ کہتی ہیں: اگر نبی اکرمﷺوحی میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو آپ یہ آیت وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْہِچھپاتے،(اس روایت میں)یہ حدیث کی پوری روایت نہیں کی گئی ہے ۵؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ لَوْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ كَاتِمًا شَيْئًا مِنْ الْوَحْيِ لَكَتَمَ ہَذِہِ الْآيَةَ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْہِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اگر رسول اللہ ﷺ وحی میں سے کوئی چیز چھپالینے والے ہوتے تو آیت وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْہِ کوچھپاتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَةَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَا كُنَّا نَدْعُو زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ إِلَّا زَيْدَ ابْنَ مُحَمَّدٍ حَتَّی نَزَلَ الْقُرْآنُ ادْعُوہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم زید بن حارثہ کو زید بن محمدکہہ کر ہی پکارتے تھے یہاں تک کہ قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی: ادْعُوہُمْ لآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ فِي قَوْلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ قَالَ مَا كَانَ لِيَعِيشَ لَہُ فِيكُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ

عامر شعبی اللہ کے اس قول مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد زندہ نہ رہنے والی نرینہ اولاد ہے۲؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أُمِّ عُمَارَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ أَنَّہَا أَتَتْ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ مَا أَرَی كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا لِلرِّجَالِ وَمَا أَرَی النِّسَاءَ يُذْكَرْنَ بِشَيْءٍ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ الْآيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَإِنَّمَا نَعْرِفُ ہَذَا الْحَدِيثَ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ام عمارہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرمﷺکے پاس آئیں اورعرض کیا: کیا بات ہے میں ہرچیز مردوں ہی کے لیے دیکھتی ہوں اور عورتوں کا (قرآن میں) کہیں ذکر نہیں ملتا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ آخرآیت تک۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اور یہ حدیث صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللہُ مُبْدِيہِ وَتَخْشَی النَّاسَ فِي شَأْنِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ جَاءَ زَيْدٌ يَشْكُو فَہَمَّ بِطَلَاقِہَا فَاسْتَأْمَرَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللہَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آیت وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللہُ مُبْدِیہِ وَتَخْشَی النَّاسَ ۱؎ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی شان میں نازل ہوئی ہے (ان کے شوہر) زید شکایت لے کر (رسول اللہ ﷺ کے پاس) آئے اور انہوں نے زینب کوطلاق دینے کا ارادہ کرلیا،اس پر انہوں نے نبی اکرمﷺسے مشورہ لیاتو آپ نے فرمایا: أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللہَ ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ فِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَلَمَّا قَضَی زَيْدٌ مِنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَہَا قَالَ فَكَانَتْ تَفْخَرُ عَلَی أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ تَقُولُ زَوَّجَكُنَّ أَہْلُوكُنَّ وَزَوَّجَنِي اللہُ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب یہ آیت فَلَمَّا قَضَی زَیْدٌ مِنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا ۱؎ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بارے میں اتری ہے۔انس کہتے ہیں: چنانچہ اسی بناء پر وہ نبی اکرم ﷺ کی دوسری بیویوں پریہ کہہ کر فخر کرتی تھیں کہ تمہاری شادیاں رسول اللہ ﷺ سے تمہارے گھروالوں (رشتہ داروں) نے کی ہیں،اور میری شادی تو اللہ نے آپ سے ساتویں آسمان پرکردی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أُمِّ ہَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ قَالَتْ خَطَبَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ فَاعْتَذَرْتُ إِلَيْہِ فَعَذَرَنِي ثُمَّ أَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللہُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي ہَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِيِّ الْآيَةَ قَالَتْ فَلَمْ أَكُنْ أَحِلُّ لَہُ لِأَنِّي لَمْ أُہَاجِرْ كُنْتُ مِنْ الطُّلَقَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ

ام ہانی بنت أبی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے شادی کا پیغام دیا،تو میں نے آپ سے معذرت کر لی ۱؎ تو آپ نے میری معذرت قبول کرلی،پھر اللہ نے یہ آیت أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللاَّتِی آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِمَّا أَفَائَ اللہُ عَلَیْکَ وَبَنَاتِ عَمِّکَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِکَ وَبَنَاتِ خَالِکَ وَبَنَاتِ خَالاَتِکَ اللاَّتِی ہَاجَرْنَ مَعَکَ وَامْرَأَۃً مُؤْمِنَۃً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ ۲؎ نازل فرمائی ام ہانی کہتی ہیں کہ اس آیت کی روسے میں آپ کے لیے حلال نہیں ہوئی کیوں کہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی میں (فتح مکہ کے موقع پر) طلقاء آزاد کردہ لوگوں میں سے تھی،(اور اسی موقع پر ایمان لائی تھی)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ہم اس کو سُدّی کی روایت صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَبْدٌ حَدَّثَنَا رَوْحٌ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَہْرَامَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا نُہِيَ رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ أَصْنَافِ النِّسَاءِ إِلَّا مَا كَانَ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ الْمُہَاجِرَاتِ قَالَ لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُہُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَأَحَلَّ اللہُ فَتَيَاتِكُمْ الْمُؤْمِنَاتِ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِيِّ وَحَرَّمَ كُلَّ ذَاتِ دِينٍ غَيْرَ الْإِسْلَامِ ثُمَّ قَالَ وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ وَقَالَ يَا أَيُّہَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللہُ عَلَيْكَ إِلَی قَوْلِہِ خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَحَرَّمَ مَا سِوَی ذَلِكَ مِنْ أَصْنَافِ النِّسَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَہْرَامَ قَالَ سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَذْكُرُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ لَا بَأْسَ بِحَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَہْرَامَ عَنْ شَہْرِ بْنِ حَوْشَبٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کو مومن اورمہاجرعورتوں کے سوا دوسری عورتوں سے شادی کرنے سے روک دیا گیا،(جیساکہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لاَ یَحِلُّ لَکَ النِّسَائُ مِنْ بَعْدُ وَلاَ أَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ إِلاَّ مَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ ۱؎۔ ا للہ نے(نبی کے لیے) تمہاری جوان مومن مسلمان عورتیں حلال کردی ہیں۔اور وہ ایمان والی عورت بھی اللہ نے حلال کردی ہیں جو اپنے آپ کو نبی کو پیش کردے۔اور اسلام کے سوا ہر دین والی عورت کو حرام کردیا ہے۔پھر اللہ نے فرمایا: وَمَنْ یَکْفُرْ بِالإِیمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِینَ ۲؎ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللاَّتِی آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ وَمَا مَلَکَتْ یَمِینُکَ مِمَّا أَفَائَ اللہُ عَلَیْکَ سے لے کرخَالِصَۃً لَکَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ ۳؎ تک،یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے۴؎ اور دوسرے مومنین کے لیے نہیں (ان کا نکاح بغیر مہر کے نہیں ہوسکتا) ان کے علاوہ عورتوں کی اور قسمیں حرام کردی گئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے۔ہم اسے عبدالحمید بن بہرام کی روایت ہی سے جانتے ہیں،۲-احمد بن حنبل کہتے ہیں: عبدالحمید بن بہرام کی شہربن حوشب سے روایات کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَاءٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا مَاتَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حَتَّی أُحِلَّ لَہُ النِّسَاءُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہوچکی تھیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا أَشْہَلُ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَاہُ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَأَتَی بَابَ امْرَأَةٍ عَرَّسَ بِہَا فَإِذَا عِنْدَہَا قَوْمٌ فَانْطَلَقَ فَقَضَی حَاجَتَہُ فَاحْتُبِسَ ثُمَّ رَجَعَ وَعِنْدَہَا قَوْمٌ فَانْطَلَقَ فَقَضَی حَاجَتَہُ فَرَجَعَ وَقَدْ خَرَجُوا قَالَ فَدَخَلَ وَأَرْخَی بَيْنِي وَبَيْنَہُ سِتْرًا قَالَ فَذَكَرْتُہُ لِأَبِي طَلْحَةَ قَالَ فَقَالَ لَئِنْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَيَنْزِلَنَّ فِي ہَذَا شَيْءٌ فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَعَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ يُقَالُ لَہُ الْأَصْلَعُ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرمﷺکے ساتھ تھا۔آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی،وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے،اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے،پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جاچکے تھے،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اورا پنے درمیان پردہ ڈال دیا (لٹکادیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا: توانہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہوتو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہوگا،پھرآیت حجاب نازل ہوئی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَإِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَيُقَالُ الْحَوَارِيُّ ہُوَ النَّاصِرُ سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ الْحَوَارِيُّ ہُوَ النَّاصِرُ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں ۱؎ اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور حواری مدد گار کوکہا جاتا ہے،میں نے ابن ابی عمر کو کہتے ہوئے سنا کہ سفیان بن عیینہ نے کہا ہے کہ حواری کے معنی مددگار کے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ وَأَبُو نُعَيْمٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَإِنَّ حَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَزَادَ أَبُو نُعَيْمٍ فِيہِ يَوْمَ الْأَحْزَابِ قَالَ مَنْ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ قَالَ الزُّبَيْرُ أَنَا قَالَہَا ثَلَاثًا قَالَ الزُّبَيْرُ أَنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں ۱؎،اور ابونعیم نے اس میں یوم الا ٔحزاب (غزوہ احزاب) کا اضافہ کیا ہے،آپ نے فرمایا: کون میرے پاس کا فروں کی خبر لائے گا؟ تو زبیر بولے: میں،آپ نے تین بار اسے پوچھا اور زبیر رضی اللہ عنہ نے ہربار کہا: میں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ صَخْرِ بْنِ جُوَيْرِيَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ أَوْصَی الزُّبَيْرُ إِلَی ابْنِہِ عَبْدِ اللہِ صَبِيحَةَ الْجَمَلِ فَقَالَ مَا مِنِّي عُضْوٌ إِلَّا وَقَدْ جُرِحَ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَتَّی انْتَہَی ذَاكَ إِلَی فَرْجِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ

ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ زبیر نے اپنے بیٹے عبداللہ (رضی اللہ عنہما) کو جنگ جمل کی صبح کو وصیت کی اور کہا: میراکوئی عضو ایسا نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں زخمی نہ ہوا ہو یہاں تک کہ میری شرمگاہ بھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: حماد بن زیدکی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُذْرِيُّ بَصْرِيٌّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اللہُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ إِذَا دَعَاكَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ إِسْمَعِيلَ عَنْ قَيْسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ اللہُمَّ اسْتَجِبْ لِسَعْدٍ إِذَا دَعَاكَ وَہَذَا أَصَحُّ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! سعد جب تجھ سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول فرما ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسماعیل بن ابی خالدسے قیس بن حازم کے واسطہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! سعد جب تجھ سے دعاکریں تو ان کی دعا قبول فرما اور یہ زیادہ صحیح ہے۔(یعنی: مرسل روایت زیادہ صحیح ہے)

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَقْبَلَ سَعْدٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَذَا خَالِي فَلْيُرِنِي امْرُؤٌ خَالَہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ وَكَانَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ مِنْ بَنِي زُہْرَةَ وَكَانَتْ أُمُّ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ بَنِي زُہْرَةَ فَلِذَلِكَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ ہَذَا خَالِي

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ میرے ماموں ہیں،تو مجھے دکھائے کوئی اپنا ماموں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے مجالد ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-سعد بن ابی وقاص قبیلہ بنی زہرہ کے ایک فرد تھے اور نبی اکرم ﷺ کی والدہ محترمہ قبیلہ بنی زہرہ ہی کی تھیں،اسی وجہ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ یہ میرے ماموں ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ وَيَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ سَمِعَا سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ قَالَ عَلِيٌّ مَا جَمَعَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبَاہُ وَأُمَّہُ لِأَحَدٍ إِلَّا لِسَعْدٍ قَالَ لَہُ يَوْمَ أُحُدٍ ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي وَقَالَ لَہُ ارْمِ أَيُّہَا الْغُلَامُ الْحَزَوَّرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ سَعْدٍ

علی بن زید اور یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ان دونوں نے سعید بن مسیب کوکہتے ہوئے سنا کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے سعد کے علاوہ کسی اور کے لیے اپنے باپ اورماں کو جمع نہیں کیا ۱؎،احد کے دن آپ نے سعد سے فرمایا: تم تیر مارو میرے باپ اور ماں تم پر فداہوں،تم تیرمارواے جوان پٹھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث متعدد لوگوں سے روایت کی گئی ہے ان سب نے اسے یحییٰ بن سعید سے،اور یحییٰ نے سعید بن مسیب کے واسطہ سے سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَبَوَيْہِ يَوْمَ أُحُدٍ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْہَادِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن اپنے ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث عبداللہ بن شداد بن ہاد سے بھی روایت کی گئی ہے اور انہوں نے علی بن ابی طالب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْن إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يُفَدِّي أَحَدًا بِأَبَوَيْہِ إِلَّا لِسَعْدٍ فَإِنِّي سَمِعْتُہُ يَقُولُ يَوْمَ أُحُدٍ ارْمِ سَعْدُ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے اپنے باپ اور ماں کو سعد کے علاوہ کسی اور پر فدا کرتے نہیں سنا،میں نے احد کے دن آپ کو فرماتے ہوئے سنا: سعد تم تیر مارو،میرے باپ اور ماں تم پر فداہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ سَہِرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَقْدَمَہُ الْمَدِينَةَ لَيْلَةً قَالَ لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا يَحْرُسُنِيَ اللَّيْلَةَ قَالَتْ فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ سَمِعْنَا خَشْخَشَةَ السِّلَاحِ فَقَالَ مَنْ ہَذَا فَقَالَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا جَاءَ بِكَ فَقَالَ سَعْدٌ وَقَعَ فِي نَفْسِي خَوْفٌ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَجِئْتُ أَحْرُسُہُ فَدَعَا لَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ ثُمَّ نَامَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کسی غزوہ سے مدینہ واپس آنے پر ایک رات نیند نہیں آئی،تو آپ نے فرمایا: کاش کوئی مرد صالح ہوتا جو آج رات میری نگہبانی کرتا،ہم اسی خیال میں تھے کہ ہم نے ہتھیاروں کے کھنکھنا ہٹ کی آواز سنی،تو آپﷺ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ آنے والے نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں،تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا: تم کیوں آئے ہو؟ تو سعد نے کہا: میرے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچے اس لیے میں آپ کی نگہبانی کے لیے آیا ہوں،تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی پھر سوگئے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ دَخَلَ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مُغْضَبًا وَأَنَا عِنْدَہُ فَقَالَ مَا أَغْضَبَكَ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ مَا لَنَا وَلِقُرَيْشٍ إِذَا تَلَاقَوْا بَيْنَہُمْ تَلَاقَوْا بِوُجُوہٍ مُبْشَرَةٍ وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَيْرِ ذَلِكَ قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حَتَّی احْمَرَّ وَجْہُہُ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِہِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِيمَانُ حَتَّی يُحِبَّكُمْ لِلَّہِ وَلِرَسُولِہِ ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّہَا النَّاسُ مَنْ آذَی عَمِّي فَقَدْ آذَانِي فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس غصہ کی حالت میں آئے،میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا،آپ نے پوچھا: تم غصہ کیوں ہو؟ وہ بولے: اللہ کے رسول! قریش کو ہم سے کیا (دشمنی) ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو خوش روئی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اور طرح سے ملتے ہیں،(یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ غصہ میں آگئے،یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا،پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت نہ کرے،پھر آپ نے فرمایا: اے لوگو! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی کیوں کہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ۱؎ ہوتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْعَبَّاسُ مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عباس مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف اسرائیل کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَال سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعُمَرَ فِي الْعَبَّاسِ إِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيہِ وَكَانَ عُمَرُ تَكَلَّمَ فِي صَدَقَتِہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عمر سے عباس کے سلسلہ میں فرمایا: بلا شبہہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتاہے عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺسے ان کے صدقہ کے سلسلہ میں کوئی بات کی تھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُولِ اللہِ وَإِنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيہِ أَوْ مِنْ صِنْوِ أَبِيہِ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي الزِّنَادِ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عباس اللہ کے رسول کے چچا ہیں اور آدمی کاچچا اس کے باپ کے مثل ہوتاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے ابوالزناد کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْہَرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَاءٍ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلْعَبَّاسِ إِذَا كَانَ غَدَاةَ الِاثْنَيْنِ فَأْتِنِي أَنْتَ وَوَلَدُكَ حَتَّی أَدْعُوَ لَكَ بِدَعْوَةٍ يَنْفَعُكَ اللہُ بِہَا وَوَلَدَكَ فَغَدَا وَغَدَوْنَا مَعَہُ وَأَلْبَسَنَا كِسَاءً ثُمَّ قَالَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَوَلَدِہِ مَغْفِرَةً ظَاہِرَةً وَبَاطِنَةً لَا تُغَادِرُ ذَنْبًا اللہُمَّ احْفَظْہُ فِي وَلَدِہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: دوشنبہ کی صبح کو آپ اپنے لڑکے کے ساتھ میرے پاس آئیے تاکہ میں آپ کے حق میں ایک ایسی دعا کردوں جس سے اللہ آپ کو اورآپ کے لڑکے کو فائدہ پہنچائے،پھر وہ صبح کو گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ گئے تو آپ نے ہمیں ایک چادر اڑھادی،پھر دعا کی: اے اللہ! عباس کی اور ان کے لڑکے کی بخشش فرما،ایسی بخشش جوظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے ایسی ہو کہ کوئی گناہ نہ چھوڑ ے،اے اللہ! ان کی حفاظت فرما،ان کے لڑکے کے سلسلہ میں یعنی اس کے حقوق کی ادائیگی کی انہیں خوب توفیق مرحمت فرما۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ الْجَعْدِ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ تَزَوَّجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَدَخَلَ بِأَہْلِہِ قَالَ فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فَجَعَلَتْہُ فِي تَوْرٍ فَقَالَتْ يَا أَنَسُ اذْہَبْ بِہَذَا إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقُلْ لَہُ بَعَثَتْ بِہَذَا إِلَيْكَ أُمِّي وَہِيَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ ہَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ فَذَہَبْتُ بِہِ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَقُلْتُ إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَتَقُولُ إِنَّ ہَذَا مِنَّا لَكَ قَلِيلٌ فَقَالَ ضَعْہُ ثُمَّ قَالَ اذْہَبْ فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا وَمَنْ لَقِيتَ فَسَمَّی رِجَالًا قَالَ فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّی وَمَنْ لَقِيتُ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسٍ عَدَدُ كَمْ كَانُوا قَالَ زُہَاءَ ثَلَاثِ مِائَةٍ قَالَ وَقَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا أَنَسُ ہَاتِ التَّوْرَ قَالَ فَدَخَلُوا حَتَّی امْتَلَأَتْ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ وَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيہِ قَالَ فَأَكَلُوا حَتَّی شَبِعُوا قَالَ فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّی أَكَلُوا كُلُّہُمْ قَالَ فَقَالَ لِي يَا أَنَسُ ارْفَعْ قَالَ فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ قَالَ وَجَلَسَ مِنْہُمْ طَوَائِفُ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ جَالِسٌ وَزَوْجَتُہُ مُوَلِّيَةٌ وَجْہَہَا إِلَی الْحَائِطِ فَثَقُلُوا عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَسَلَّمَ عَلَی نِسَائِہِ ثُمَّ رَجَعَ فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللہِ ﷺ قَدْ رَجَعَ ظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْہِ قَالَ فَابْتَدَرُوا الْبَابَ فَخَرَجُوا كُلُّہُمْ وَجَاءَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حَتَّی أَرْخَی السِّتْرَ وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّی خَرَجَ عَلَيَّ وَأُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْآيَاتُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَرَأَہُنَّ عَلَی النَّاسِ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَی طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاہُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ الْجَعْدُ قَالَ أَنَسٌ أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَہْدًا بِہَذِہِ الْآيَاتِ وَحُجِبْنَ نِسَاءُ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْجَعْدُ ہُوَ ابْنُ عُثْمَانَ وَيُقَالُ ہُوَ ابْنُ دِينَارٍ وَيُكْنَ أَبَا عُثْمَانَ بَصْرِيٌّ وَہُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ رَوَی عَنْہُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے نکاح کیا اور اپنی بیوی (زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا) کے پاس تشریف لے گئے،اس موقع پر میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حیس ۱؎ تیارکیا،اسے ایک چھوٹے برتن میں رکھا،پھر (مجھ سے) کہا: (بیٹے) انس!اسے لے کر رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: اسے میری امی جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑا سا ہدیہ میری طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہے،اللہ کے رسول! میں اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا،میں نے عرض کیا: میری امی جان آپ کو سلام کہتی ہیں اور کہتی ہیں: یہ میری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا ہدیہ ہے۔آپ نے فرمایا: اسے رکھ دو،پھر فرمایا: جاؤ فلاں فلاں،اور فلاں کچھ لوگوں کے نام لیے اور جو بھی تمہیں ملے سب کومیرے پاس بلاکر لے آؤ،انس کہتے ہیں: جن کے نام آپ نے لیے تھے انہیں اور جوبھی مجھے آتے جاتے ملا اسے بلالیا،راوی جعد بن عثمان کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کتنے لوگ رہے ہوں گے؟ انہوں نے کہا: تقریباً تین سو،انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انس (تَور) پیالہ لے آؤ۔انس کہتے ہیں: لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ (چبوترہ) اور کمرہ سب بھر گیا،آپ نے فرمایا: دس دس افراد کی ٹولی بنالو اور ہر شخص اپنے قریب سے کھائے،لوگوں نے پیٹ بھرکر کھایا،ایک ٹولی (کھاکر)باہر جاتی اور دوسری ٹولی (کھانے کے لیے) اندر آجاتی اس طرح سبھی نے کھالیا۔آپﷺ نے مجھ سے کہا: انس: اب (برتن) اٹھالو۔میں نے (پیالہ) اٹھالیا،مگر(صحیح صحیح) بتانہ پاؤں گا کہ جب میں نے پیالہ لاکر رکھا تھا تب اس میں حیس زیادہ تھا یاجب اٹھایا تھا تب؟ کچھ لوگ کھانے سے فارغ ہوکر آپ کے گھر میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔(انہوں نے کچھ بھی خیال نہ کیاکہ) رسول اللہ ﷺ تشریف فرماہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہیں،وہ لوگ رسول اللہ ﷺ پر بوجھ بن گئے،آپ وہاں سے اٹھ کر اپنی دوسری بیویوں کی طرف چلے گئے اور انہیں سلام کیا (مزاج پرسی کی) اور پھر لوٹ آیے،جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ لوٹ آیے ہیں تو انہیں احساس وگمان ہوا کہ وہ لوگ آپ کے لیے باعث اذیت بن گئے ہیں،تو وہ لوگ تیزی سے دروازہ کی طرف بڑھے اور سب کے سب باہر نکل گئے۔رسول اللہ ﷺ آیے دروازہ کا پردہ گرادیا اور خود اندر چلے گئے،میں کمرے میں بیٹھا ہواتھا۔تھوڑی ہی دیر بعد رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپ پریہ آیتیں اتریں پھرآپ نے باہر آکر لوگوں کو یہ آیتیں یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلاَّ أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ ۲؎ آخرتک پڑھ کر سنائیں۔میں ان آیات سے سب سے پہلا واقف ہونے والا ہوں،اور اسی وقت سے رسول اللہ ﷺ کی بیویاں پردہ کرنے لگیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-جعد: عثمان کے بیٹے ہیں،اور یہ بھی کہاجاتاہے کہ یہ دینار کے بیٹے ہیں اور ان کی کنیت ابوعثمان بصری ہے،اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ (قوی) ہیں،ان سے یونس بن عبید،شعبہ اورحماد بن زید نے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ مُجَالِدٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ بَيَانٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ بَنَی رَسُولُ اللہِ ﷺ بِامْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِہِ فَأَرْسَلَنِي فَدَعَوْتُ قَوْمًا إِلَی الطَّعَامِ فَلَمَّا أَكَلُوا وَخَرَجُوا قَامَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مُنْطَلِقًا قِبَلَ بَيْتِ عَائِشَةَ فَرَأَی رَجُلَيْنِ جَالِسَيْنِ فَانْصَرَفَ رَاجِعًا قَامَ الرَّجُلَانِ فَخَرَجَا فَأَنْزَلَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَی طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاہُ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ وَرَوَی ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ ہَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِہِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے ساتھ شادی والی رات گزاری،پھر آپ نے مجھے کچھ لوگوں کوکھانے پر بلانے کے لیے بھیجا۔جب لوگ کھاپی کر چلے گئے،توآپ اٹھے، عائشہ کے گھر کارخ کیا پھرآپ کی نظر دوبیٹھے ہوئے آدمیوں پر پڑی۔تو آپ (فوراً) پلٹ پڑے (انہیں اس کا احساس ہوگیا) وہ دونوں اٹھے اور وہاں سے نکل گئے۔اسی موقع پر اللہ عزوجل نے آیت یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلاَّ أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلَی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ وَلَکِنْ إِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَ مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ نازل فرمائی،اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-بیان کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-ثابت نے انس کے واسطہ سے یہ حدیث پوری کی پوری بیان کی ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُجْمِرِ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ وَعَبْدَ اللہِ بْنَ زَيْدٍ الَّذِي كَانَ أُرِيَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ أَخْبَرَہُ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّہُ قَالَ أَتَانَا رَسُولُ اللہِ ﷺ وَنَحْنُ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ لَہُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ أَمَرَنَا اللہُ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللہِ ﷺ حَتَّی تَمَنَّيْنَا أَنَّہُ لَمْ يَسْأَلْہُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قُولُوا اللہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاہِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِيمَ وَبَارِكْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَی إِبْرَاہِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِيمَ فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عُلِّمْتُمْ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ وَأَبِي سَعِيدٍ وَزَيْدِ بْنِ خَارِجَةَ وَيُقَالُ ابْنُ جَارِيَةَ وَبُرَيْدَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے،آپ سے بشیر بن سعد نے کہا: اللہ نے ہمیں آپ پر صلاۃ (درود)بھیجنے کا حکم دیا ہے۔تو ہم کیسے آپ پر صلاۃ(درود) بھیجیں،راوی کہتے ہیں: آپ (یہ سن کر) خاموش رہے۔یہاں تک کہ ہم سوچنے لگے کہ انہوں نے نہ پوچھا ہوتا تو ہی ٹھیک تھا،پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہو: اللہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ فِی الْعَالَمِینَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ ،اور سلام تو ویساہی ہے جیساکہ تم (التحیات میں) جانتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابوحمید،کعب بن عجرہ اور طلحہ بن عبید اللہ اور ابوسعید خدری اور زید بن خارجہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اورزیدکوابن جاریہ اورابن بریدہ بھی کہا جاتاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ عَوْفٍ عَنْ الْحَسَنِ وَمُحَمَّدٍ وَخِلَاسٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ مُوسَی عَلَيْہِ السَّلَام كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سَتِيرًا مَا يُرَی مِنْ جِلْدِہِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً مِنْہُ فَآذَاہُ مَنْ آذَاہُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالُوا مَا يَسْتَتِرُ ہَذَا التَّسَتُّرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِہِ إِمَّا بَرَصٌ وَإِمَّا أُدْرَةٌ وَإِمَّا آفَةٌ وَإِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَہُ مِمَّا قَالُوا وَإِنَّ مُوسَی عَلَيْہِ السَّلَام خَلَا يَوْمًا وَحْدَہُ فَوَضَعَ ثِيَابَہُ عَلَی حَجَرٍ ثُمَّ اغْتَسَلَ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ إِلَی ثِيَابِہِ لِيَأْخُذَہَا وَإِنَّ الْحَجَرَ عَدَا بِثَوْبِہِ فَأَخَذَ مُوسَی عَصَاہُ فَطَلَبَ الْحَجَرَ فَجَعَلَ يَقُولُ ثَوْبِي حَجَرُ ثَوْبِي حَجَرُ حَتَّی انْتَہَی إِلَی مَلَإٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْہُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ النَّاسِ خَلْقًا وَأَبْرَأَہُ مِمَّا كَانُوا يَقُولُونَ قَالَ وَقَامَ الْحَجَرُ فَأَخَذَ ثَوْبَہُ وَلَبِسَہُ وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا بِعَصَاہُ فَوَاللہِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ عَصَاہُ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَذَلِكَ قَوْلُہُ تَعَالَی يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِيہًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَفِيہِ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام با حیا،پردہ پوش انسان تھے،ان کے بدن کا کوئی حصہ ان کے شرماجانے کے ڈرسے دیکھانہ جاسکتا تھا،مگر انہیں تکلیف پہنچائی جس کسی بھی اسرائیلی نے تکلیف پہنچائی،ان لوگوں نے کہا: یہ شخص (اتنی زبردست) سترپوشی محض اس وجہ سے کررہاہے کہ اسے کوئی جلدی بیماری ہے: یا تو اسے برص ہے،یا اس کے خصیے بڑھ گئے ہیں،یا اسے کوئی اور بیماری لاحق ہے۔اللہ نے چاہا کہ ان پر جو تہمت اور جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان سے انہیں بری کردے۔(تو ہوایوں کہ) موسیٰ علیہ السلام ایک دن تنہا تھے،کپڑے اتار کرایک پتھر پر رکھ کر نہانے لگے،جب نہا چکے اور اپنے کپڑے لینے کے لیے آگے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگا۔موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی اٹھائی،پتھر کو بلانے اور کہنے لگے ثوبی حجر،ثوبی حجر (پتھر: میرا کپڑا دے،پتھر!میراکپڑادے) اور یہ کہتے ہوئے پیچھے پیچھے دوڑتے رہے یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک جماعت (ایک گروہ)کے پاس جاپہنچا،دوسروں نے انہیں (مادرزاد) ننگا اپنی خلقت وبناوٹ میں لوگوں سے اچھا دیکھا۔اللہ نے انہیں ان تمام عیبوں اورخرابیوں سے پاک وصاف دکھادیا جو عیب وہ ان میں بتارہے تھے۔آپ نے فرمایا: پھروہ پتھر رکگیا۔موسیٰ علیہ السلام نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے،پھر اپنی لاٹھی سے پتھر کو پیٹنے لگے۔تو قسم اللہ کی پتھر پرلاٹھی کی مارسے تین،چار یا پانچ چوٹ کے نشان تھے۔یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی اس آیت یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَی فَبَرَّأَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوا وَکَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِیہًا ۱؎ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے مروی ہے،اور اس میں ایک حدیث انس کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ مُرَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ لَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سِدْرَةَ الْمُنْتَہَی قَالَ انْتَہَی إِلَيْہَا مَا يَعْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ وَمَا يَنْزِلُ مِنْ فَوْقٍ قَالَ فَأَعْطَاہُ اللہُ عِنْدَہَا ثَلَاثًا لَمْ يُعْطِہِنَّ نَبِيًّا كَانَ قَبْلَہُ فُرِضَتْ عَلَيْہِ الصَّلَاةُ خَمْسًا وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَغُفِرَ لِأُمَّتِہِ الْمُقْحِمَاتُ مَا لَمْ يُشْرِكُوا بِاللہِ شَيْئًا قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ إِذْ يَغْشَی السِّدْرَةَ مَا يَغْشَی قَالَ السِّدْرَةُ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ قَالَ سُفْيَانُ فَرَاشٌ مِنْ ذَہَبٍ وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِيَدِہِ فَأَرْعَدَہَا و قَالَ غَيْرُ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ إِلَيْہَا يَنْتَہِي عِلْمُ الْخَلْقِ لَا عِلْمَ لَہُمْ بِمَا فَوْقَ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ﷺ (معراج کی رات) سدرۃ المنتہی کے پاس پہنچے توکہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں،یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطانہیں فرمائی تھیں،(۱) آپ پر پانچ صلاتیں فرض کی گئیں،(۲) سورہ بقرہ کی خواتیم (آخری آیات) عطاکی گئیں،(۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا،ان کے مہلک وبھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے،(پھر) ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَی (النجم:16) ۱؎ پڑھ کر کہا السدرہ (بیری کادرخت) چھٹے آسمان پر ہے،سفیان کہتے ہیں: سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پر وانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتاہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ قَالَ سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ عَنْ قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَی فَقَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَأَی جِبْرِيلَ وَلَہُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

شیبانی کہتے ہیں: میں نے زر بن حبیش سے آیت:فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی (النجم:9) ۱؎ کی تفسیر پوچھی توانہوں نے کہا: مجھے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خبردی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل کو دیکھا اور ان کے چھ سو پر تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ لَقِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَعْبًا بِعَرَفَةَ فَسَأَلَہُ عَنْ شَيْءٍ فَكَبَّرَ حَتَّی جَاوَبَتْہُ الْجِبَالُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّا بَنُو ہَاشِمٍ فَقَالَ كَعْبٌ إِنَّ اللہَ قَسَمَ رُؤْيَتَہُ وَكَلَامَہُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوسَی فَكَلَّمَ مُوسَی مَرَّتَيْنِ وَرَآہُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنِ قَالَ مَسْرُوقٌ فَدَخَلْتُ عَلَی عَائِشَةَ فَقُلْتُ ہَلْ رَأَی مُحَمَّدٌ رَبَّہُ فَقَالَتْ لَقَدْ تَكَلَّمْتَ بِشَيْءٍ قَفَّ لَہُ شَعْرِي قُلْتُ رُوَيْدًا ثُمَّ قَرَأْتُ لَقَدْ رَأَی مِنْ آيَاتِ رَبِّہِ الْكُبْرَی فَقَالَتْ أَيْنَ يُذْہَبُ بِكَ إِنَّمَا ہُوَ جِبْرِيلُ مَنْ أَخْبَرَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَی رَبَّہُ أَوْ كَتَمَ شَيْئًا مِمَّا أُمِرَ بِہِ أَوْ يَعْلَمُ الْخَمْسَ الَّتِي قَالَ اللہُ تَعَالَی إِنَّ اللہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ وَلَكِنَّہُ رَأَی جِبْرِيلَ لَمْ يَرَہُ فِي صُورَتِہِ إِلَّا مَرَّتَيْنِ مَرَّةً عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہَی وَمَرَّةً فِي جِيَادٍ لَہُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رَوَی دَاوُدُ بْنُ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ دَاوُدَ أَقْصَرُ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ

عامر شراحیل شعبی کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ملاقات کعب الاحبار سے عرفہ میں ہوئی،انہوں نے کعب سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا توا نہوں نے تکبیرات پڑھیں جن کی صدائے بازگشت پہاڑوں میں گونجنے لگی،ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ہم بنو ہاشم سے تعلق رکھتے ہیں،کعب نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنی رُویت ودیدار کو اور اپنے کلام کو محمد ﷺ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔اللہ نے موسیٰ سے دوباربات کی،اور محمد ﷺ نے اللہ کو دوبار دیکھا۔ مسروق کہتے ہیں: میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا،میں نے ان سے پوچھا: کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: تم نے تو ایسی بات کہی ہے جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں،میں نے کہا: ٹھہریئے،جلدی نہ کیجئے (پوری بات سن لیجئے) پھر میں نے آیت لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی تلاوت کی ۱؎ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:تمہیں کہاں لے جایا گیا ہے؟ (کہاں بہکا دیے گئے ہو؟) یہ دیکھے جانے والے تو جبرئیل تھے،تمہیں جویہ خبردے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ یا جن باتوں کا آپ کو حکم دیاگیاہے ان میں سے آپ نے کچھ چھپالیا ہے،یا وہ پانچ چیزیں جانتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے۔إِنَّ اللہَ عِندَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ الخ (اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور اللہ ہی جانتاہے کہ بارش کب اور کہاں نازل ہوگی) اس نے بڑا جھوٹ بولا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ نے جبرئیل کو دیکھا،جبرئیل کو آپ نے ان کی اپنی اصل صورت میں صرف دومرتبہ دیکھا ہے،(ایک بار) سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک بار جیاد میں (جیاد نشیبی مکہ کا ایک محلہ ہے)جبرئیل علیہ السلام کے چھ سو بازو تھے،انہوں نے سارے افق کو اپنے پروں سے ڈھانپ رکھاتھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: داود بن أبی ہند نے شعبی سے،شعبی نے مسروق سے اورمسروق نے عائشہ کے واسطہ سے،نبی اکرمﷺ سے اس جیسی حدیث روایت کی،داود کی حدیث مجالد کی حدیث سے چھوٹی ہے۔(لیکن وہی صحیح ہے)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمْرِو بْنِ نَبْہَانَ بْنِ صَفْوَانَ الْبَصْرِيُّ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو غَسَّانَ حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَأَی مُحَمَّدٌ رَبَّہُ قُلْتُ أَلَيْسَ اللہُ يَقُولُ لَا تُدْرِكُہُ الْأَبْصَارُ وَہُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ قَالَ وَيْحَكَ ذَاكَ إِذَا تَجَلَّی بِنُورِہِ الَّذِي ہُوَ نُورُہُ وَقَالَ أُرِيَہُ مَرَّتَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عکرمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے،میں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے لاَ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ ۱؎ انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے (تم سمجھ نہیں سکے) یہ تو اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنے ذاتی نور کے ساتھ تجلی فرمائے،انہوں نے کہا: آپ نے اپنے رب کودوبار دیکھاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللہِ وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً أُخْرَی عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہَی فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَی فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَی قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ رَآہُ النَّبِيُّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوسلمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت: وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَی ۱؎ فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَی ۲؎ فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی ۳؎ کی تفسیر میں کہا: نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَابْنُ أَبِي رِزْمَةَ وَأَبُو نُعَيْمٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی قَالَ رَآہُ بِقَلْبِہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی ۱؎ پڑھی،کہا: نبی اکرمﷺنے اپنے رب کو دل کی آنکھ سے دیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَيَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ التُّسْتَرِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ أَدْرَكْتُ النَّبِيَّ ﷺ لَسَأَلْتُہُ فَقَال عَمَّا كُنْتَ تَسْأَلُہُ قُلْتُ أَسْأَلُہُ ہَلْ رَأَی مُحَمَّدٌ رَبَّہُ فَقَالَ قَدْ سَأَلْتُہُ فَقَالَ نُورٌ أَنَّی أَرَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر میں نے نبی اکرمﷺ کو پایا ہوتا تو آپ سے پوچھتا،انہوں نے کہا: تم آپﷺ سے کیا پوچھتے؟ میں نے کہا: میں یہ پوچھتاکہ کیا آپ (محمد ﷺ) نے اپنے رب کودیکھا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے آپ سے یہ بات پوچھی تھی،آپ نے فرمایا: وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی وَابْنُ أَبِي رِزْمَةَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللہِ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی قَالَ رَأَی رَسُولُ اللہِ ﷺ جِبْرِيلَ فِي حُلَّةٍ مِنْ رَفْرَفٍ قَدْ مَلَأَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس آیت: مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی کی تفسیر میں کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے جبرئیل علیہ السلام کو باریک ریشمی جوڑا پہنے ہوئے دیکھا۔آسمان وزمین کی ساری جگہیں ان کے وجود سے بھرگئی تھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنْ تَغْفِرْ اللہُمَّ تَغْفِرْ جَمَّا وَأَيُّ عَبْدٍ لَكَ لَا أَلَمَّا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَقَ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت الَّذِینَ یَجْتَنِبُونَ کَبَائِرَ الإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلاَّ اللَّمَمَ ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے فرمایا: اے رب اگر بخشتاہے تو سب ہی گناہ بخش دے،اور تیرا کون سابندہ ایسا ہے جس سے کوئی چھوٹا گناہ بھی سرزد نہ ہواہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف زکریا بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُولُ اللہُ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَہُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ وَفِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّہَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُہَا وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ وَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيہَا وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنْ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کی ہیں جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ ہی کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آیا ہے،تم چاہوتواس آیت کو پڑھ لو فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ جَزَائً بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۱؎ جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کی (گھنی) چھاؤں میں سوار سوبرس تک بھی چلتا چلاجائے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو،تم چاہو تو آیت کا یہ ٹکڑاوَظِلٍّ مَمْدُودٍ ۲؎ پڑھ لو،جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ برابر دنیا اور دنیا میں جوکچھ ہے اس سے بہتر ہے،چاہو تو دلیل کے طورپر یہ آیت پڑھ لوفَمَنْ زُحْزِحَ عَنْ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ ۳؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّہَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُہَا وَإِنْ شِئْتُمْ فَاقْرَءُوا وَظِلٍّ مَمْدُودٍ وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے،سوار اس کے سایہ میں سوسال تک چلے گا پھربھی اس درخت کے سایہ کو عبورنہ کرسکے گا،اگر چاہو تو پڑھو وَظِلٍّ مَمْدُودٍ وَمَائٍ مَسْکُوبٍ. ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعید خدری سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ قَالَ ارْتِفَاعُہَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَمَسِيرَةُ مَا بَيْنَہُمَا خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ وَارْتِفَاعُہَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ قَالَ ارْتِفَاعُ الْفُرُشِ الْمَرْفُوعَةِ فِي الدَّرَجَاتِ وَالدَّرَجَاتُ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے آیت کریمہ: وَفُرُشٍ مَرْفُوعَۃٍ ۱؎ کے سلسلے میں فرمایا: ان بچھونوں کی اونچائی اتنی ہے جنتا آسمان وزمین کے درمیان کا فاصلہ ہے اور ان کے درمیان چلنے کی مسافت پانچ سوسال کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف رشدین کی روایت سے جانتے ہیں،۲-بعض اہل علم کہتے ہیں:اس حدیث میںارتفاعہا کما بین السماء والأرض کا مفہوم یہ ہے کہ بچھونوں کی اونچائی درجات کی بلندی کے مطابق ہوگی اور ہردودرجے کے درمیان کا فاصلہ اتناہوگا جتناآسمان وزمین کے درمیان کا فاصلہ ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا إسْرَائِيلُ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ قَالَ شُكْرُكُمْ تَقُولُونَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا وَبِنَجْمِ كَذَا وَكَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ وَرَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَی عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے آیت وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُونَ ۱؎ کے متعلق فرمایا: تمہارا شکر یہ ہوتاہے: تم کہتے ہوکہ یہ بارش فلاں فلاں نچھتر کے باعث اور فلاں فلاں ستاروں کی گردش کی بدولت ہوئی ہے۔اس طرح تم جھوٹ بول کر حقیقت کو جھٹلاتے ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،ہم اسے اسرائیل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے مرفوع نہیں جانتے،۲-اس حدیث کو سفیان ثوری نے عبدالاعلی سے،عبدالاعلیٰ نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے،اورعبدالرحمٰن نے علی سے اسی طرح روایت کیاہے،اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِي قَوْلِہِ إِنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إِنْشَاءً قَالَ إِنَّ مِنْ الْمُنْشَآتِ اللَّائِي كُنَّ فِي الدُّنْيَا عَجَائِزَ عُمْشًا رُمْصًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ وَمُوسَی بْنُ عُبَيْدَةَ وَيَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے آیت: إِنَّا أَنْشَأْنَاہُنَّ إِنْشَائً ۱؎ کے سلسلے میں فرمایا: ان نئی اٹھان والی عورتوں میں وہ عورتیں بھی ہیں جو دنیا میں بوڑھی تھیں،جن کی آنکھیں خراب ہوچکی ہوں اور ان سے پانی بہتارہتاہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے مرفوع صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اور موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ ہِشَامٍ عَنْ شَيْبَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ يَا رَسُولَ اللہِ قَدْ شِبْتَ قَالَ شَيَّبَتْنِي ہُودٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلَاتُ وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرَوَی عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ نَحْوَ ہَذَا وَرُوِي عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ شَيْءٌ مِنْ ہَذَا مُرْسَلًا وَرَوَی أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ شَيْبَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ہَاشِمُ بْنُ الْوَلِيدِ الْہَرَوِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ تو بوڑھے ہوچلے؟ آپ نے فرمایا: مجھے سورہ ہود،واقعہ،مرسلات،عم یتسائلون اور سورہ إذا الشمس کوّرت نے بوڑھا کردیا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے ابن عباس کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲-علی بن صالح نے یہ حدیث اسی طرح ابواسحاق سے،اور ابواسحاق نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،۳-اس حدیث کی کچھ باتیں ابواسحاق ابومیسرہ سے مرسلاً روایت کی گئی ہیں۔ابوبکر بن عیاش نے ابواسحاق کے واسطہ سے،ابواسحاق نے عکرمہ سے،اورعکرمہ نے نبی اکرم ﷺ سے شیبان کی اس حدیث جیسی روایت کی ہے جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس روایت میں ابن عباس سے روایت کا ذکر نہیں کیاہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ كُنْتُ مَعَ عَمِّي فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولٍ يَقُولُ لِأَصْحَابِہِ لَا تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ حَتَّی يَنْفَضُّوا وَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لِيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي فَذَكَرَ ذَلِكَ عَمِّي للنَّبِيِّ ﷺ فَدَعَانِي النَّبِيُّ ﷺ فَحَدَّثْتُہُ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَی عَبْدِ اللہِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِہِ فَحَلَفُوا مَا قَالُوا فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ وَصَدَّقَہُ فَأَصَابَنِي شَيْءٌ لَمْ يُصِبْنِي قَطُّ مِثْلُہُ فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ عَمِّي مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ كَذَّبَكَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَمَقَتَكَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ فَبَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَقَرَأَہَا ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللہَ قَدْ صَدَّقَكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ تھا،میں نے عبداللہ بن أبی بن سلول کواپنے ساتھیوں سے کہتے ہوئے سنا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو،جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں،یہاں تک کہ وہ تتربتر ہوجائیں،اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا،میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی تو میرے چچا نے نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کردیا،آپ نے مجھے بلاکر پوچھا تو میں نے آپ کو (بھی) بتادیا،آپ ﷺ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلاکر پوچھا،توانہوں نے قسم کھالی کہ ہم نے نہیں کہی ہے،رسول اللہﷺ نے مجھے جھوٹا اور اسے سچا تسلیم کرلیا،اس کا مجھے اتنا رنج وملال ہواکہ اس جیسا صدمہ،اوررنج وملال مجھے کبھی نہ ہواتھا،میں (مارے شرم وندامت اور صدمہ کے) اپنے گھر میں ہی بیٹھ رہا،میرے چچا نے کہا: تو نے یہی چاہا تھاکہ رسول اللہ ﷺ تمہیں جھٹلا دیں اور تجھ پر خفا ہوں؟ اس پراللہ تعالیٰ نے إِذَا جَاءَکَ الْمُنَافِقُونَ والی سورت نازل فرمائی،تو آپ نے مجھے بلابھیجا (جب میں آیا تو) آپ نے یہ سورہ پڑھ کر سنائی،پھر فرمایا: اللہ نے تجھے سچا قرار دے دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَكَانَ مَعَنَا أُنَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ فَكُنَّا نَبْتَدِرُ الْمَاءَ وَكَانَ الْأَعْرَابُ يَسْبِقُونَّا إِلَيْہِ فَسَبَقَ أَعْرَابِيٌّ أَصْحَابَہُ فَيَسْبَقُ الْأَعْرَابِيُّ فَيَمْلَأُ الْحَوْضَ وَيَجْعَلُ حَوْلَہُ حِجَارَةً وَيَجْعَلُ النِّطْعَ عَلَيْہِ حَتَّی يَجِيءَ أَصْحَابُہُ قَالَ فَأَتَی رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَعْرَابِيًّا فَأَرْخَی زِمَامَ نَاقَتِہِ لِتَشْرَبَ فَأَبَی أَنْ يَدَعَہُ فَانْتَزَعَ قِبَاضَ الْمَاءِ فَرَفَعَ الْأَعْرَابِيُّ خَشَبَتَہُ فَضَرَبَ بِہَا رَأْسَ الْأَنْصَارِيِّ فَشَجَّہُ فَأَتَی عَبْدَ اللہِ بْنَ أُبَيٍّ رَأْسَ الْمُنَافِقِينَ فَأَخْبَرَہُ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِہِ فَغَضِبَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَيٍّ ثُمَّ قَالَ لَا تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ حَتَّی يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِہِ يَعْنِي الْأَعْرَابَ وَكَانُوا يَحْضُرُونَ رَسُولَ اللہِ ﷺ عِنْدَ الطَّعَامِ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ إِذَا انْفَضُّوا مِنْ عِنْدِ مُحَمَّدٍ فَأْتُوا مُحَمَّدًا بِالطَّعَامِ فَلْيَأْكُلْ ہُوَ وَمَنْ عِنْدَہُ ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِہِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ قَالَ زَيْدٌ وَأَنَا رِدْفُ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أُبَيٍّ فَأَخْبَرْتُ عَمِّي فَانْطَلَقَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَرْسَلَ إِلَيْہِ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَحَلَفَ وَجَحَدَ قَالَ فَصَدَّقَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَكَذَّبَنِي قَالَ فَجَاءَ عَمِّي إِلَيَّ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ مَقَتَكَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَكَذَّبَكَ وَالْمُسْلِمُونَ قَالَ فَوَقَعَ عَلَيَّ مِنْ الْہَمِّ مَا لَمْ يَقَعْ عَلَی أَحَدٍ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي سَفَرٍ قَدْ خَفَقْتُ بِرَأْسِي مِنْ الْہَمِّ إِذْ أَتَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ فَعَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْہِي فَمَا كَانَ يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِہَا الْخُلْدَ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَحِقَنِي فَقَالَ مَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قُلْتُ مَا قَالَ لِي شَيْئًا إِلَّا أَنَّہُ عَرَكَ أُذُنِي وَضَحِكَ فِي وَجْہِي فَقَالَ أَبْشِرْ ثُمَّ لَحِقَنِي عُمَرُ فَقُلْتُ لَہُ مِثْلَ قَوْلِي لِأَبِي بَكْرٍ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَرَأَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سُورَةَ الْمُنَافِقِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ (غزوہ بنی مصطلق میں) جہاد کے لیے نکلے،ہمارے ساتھ کچھ اعرابی بھی تھے (جب کہیں پانی نظرآتا)تو ہم ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر حاصل کرلینے کی کوشش کرتے،اعرابی پانی تک پہنچنے میں ہم سے آگے بڑھ جاتے (اس وقت ایسا ہوا) ایک دیہاتی اپنے ساتھیوں سے آگے نکل گیا،جب آگے نکلتا تو حوض کو بھرتا اور اس کے ارد گرد پتھر رکھتا،اس پر چمڑے کی چٹائی ڈال دیتا،پھر اس کے ساتھی آتے،اسی موقع پر انصاریوں میں سے ایک اعرابی کے پاس آیا،اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کردی تاکہ وہ پانی پی لے،مگر اس اعرابی شخص نے پانی پینے نہ دیا،انصاری نے باندھ توڑ دیا اعرابی نے لٹھ اٹھائی اور انصاری کے سرپر مارکراس کا سرتوڑ دیا،وہ انصاری منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا،وہ اس کے (ہم خیال) ساتھیوں میں سے تھا،اس نے اسے واقعہ کی اطلاع دی،عبداللہ بن ابی یہ خبر سن کر بھڑک اٹھا،غصہ میں آگیا،کہا: ان لوگوں پر تم لوگ خرچ نہ کرو جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں جب تک کہ وہ (یعنی اعرابی) ہٹ نہ جائیں جب کہ ان کا معمول یہ تھا کہ کھانے کے وقت وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس اکٹھا ااور موجود ہوتے تھے،عبداللہ بن ابی نے کہا: جب وہ لوگ محمدکے پاس سے چلے جائیں تو محمدکے پاس کھانا لے کر آؤ تاکہ محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھ (خاص) موجود لوگ کھالیں،پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اگر ہم مدینہ (بسلامت) پہنچ گئے تو تم میں جو عزت والے ہیں انہیں ذلت والوں(اعرابیوں) کو مدینہ سے ضرور نکال بھگادینا چاہیے،زید کہتے ہیں: میں سواری پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہواتھا،میں نے عبداللہ بن ابی کی بات سن لی،تو اپنے چچا کو بتادی،چچا گئے،انہوں نے جاکر رسول اللہ ﷺ کو خبردیدی،رسول اللہ ﷺ نے کسی کو بھیج کر اسے بلوایا،اس نے آکر قسمیں کھائیں اور انکار کیا (کہ میں نے ایسی باتیں نہیں کہی ہیں) تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سچا مان لیااور مجھے جھوٹا ٹھہرادیا،پھر میرے چچا میرے پاس آئے،بولے (بیٹے) تو نے کیا سوچاتھا کہ رسول اللہ ﷺ تجھ پر غصہ ہوں اور اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے تجھے جھوٹا ٹھہرا دیا،(یہ سن کر) مجھے اتناغم اور صدمہ ہواکہ شاید اتنا غم اور صدمہ کسی اور کو نہ ہوا ہوگا،میں غم سے اپنا سر جھکا ئے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں چلا ہی جارہا تھاکہ یکایک آپ میرے قریب آئے میرے کان کو جھٹکا دیا اور میرے سامنے مسکرادیئے مجھے اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بدلے میں اگرمجھے دنیا میں جنت مل جاتی توبھی اتنی خوشی نہ ہوتی،پھر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے،مجھ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا: مجھ سے آپ نے کچھ نہیں کہا: البتہ میرے کان پکڑ کر آپ نے ہلا ئے اور مجھے دیکھ کرہنسے،ابوبکر نے کہا: خوش ہوجاؤ،پھر مجھے عمر رضی اللہ عنہ ملے،میں نے انہیں بھی وہی بات بتائی،جو میں نے ابوبکر سے کہی تھی،پھر صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے (صلاۃ فجر میں) سورہ منافقین پڑھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ قَال سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ قَالَ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَہُ فَحَلَفَ مَا قَالَہُ فَلَامَنِي قَوْمِي وَقَالُوا مَا أَرَدْتَ إِلَّا ہَذِہِ فَأَتَيْتُ الْبَيْتَ وَنِمْتُ كَئِيبًا حَزِينًا فَأَتَانِي النَّبِيُّ ﷺ أَوْ أَتَيْتُہُ فَقَالَ إِنَّ اللہَ قَدْ صَدَّقَكَ قَالَ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآيَةَ ہُمْ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ حَتَّی يَنْفَضُّوا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قرآن /قرآن

حکم بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں محمد بن کعب قرظی کو چالیس سال سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے سن رہاہوں کہ غزوہ تبوک میں عبداللہ بن أبی نے کہا: اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والے لوگ ذلت والوں کو مدینہ سے ضرور نکال باہرکریں گے،وہ کہتے ہیں: میں یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا،اور آپ کو یہ بات بتادی (جب اس سے باز پرس ہوئی) تو وہ قسم کھاگیا کہ اس نے تو ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں ہے،میری قوم نے مجھے ملامت کی،لوگوں نے کہا: تجھے اس طرح کی (جھوٹ) بات کہنے سے کیا ملا؟ میں گھر آگیا،رنج وغم میں ڈوبا ہوا لیٹ گیا،پھر نبی اکرم ﷺ میرے پاس آئے یا میں آپ کے پاس پہنچا (راوی کو شک ہوگیا ہے کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے یہ کہا یا وہ کہا) آپ نے فرمایا: اللہ نے تجھے سچا ٹھہرایا ہے یہ آیت نازل ہوئی ہے: ہُمْ الَّذِینَ یَقُولُونَ لاَ تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ حَتَّی یَنْفَضُّوا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ كُنَّا فِي غَزَاةٍ قَالَ سُفْيَانُ يَرَوْنَ أَنَّہَا غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُہَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ الْمُہَاجِرِيُّ يَالِلْمُہَاجِرِينَ وَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ يَالِلْأَنْصَارِ فَسَمِعَ ذَلِكَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ مَا بَالُ دَعْوَی الْجَاہِلِيَّةِ قَالُوا رَجُلٌ مِنْ الْمُہَاجِرِينَ كَسَعَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ دَعُوہَا فَإِنَّہَا مُنْتِنَةٌ فَسَمِعَ ذَلِكَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولٍ فَقَالَ أَوَقَدْ فَعَلُوہَا وَاللہِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللہِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ ہَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ دَعْہُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَہُ وَقَالَ غَيْرُ عَمْرٍو فَقَالَ لَہُ ابْنُہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَاللہِ لَا تَنْقَلِبُ حَتَّی تُقِرَّ أَنَّكَ الذَّلِيلُ وَرَسُولُ اللہِ ﷺ الْعَزِيزُ فَفَعَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم ایک غزوہ میں تھے،(سفیان کہتے ہیں: لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ غزوہ بنی مصطلق تھا)،مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری شخص کے چوتڑ پر لات ماردی،مہاجر نے پکارا اے مہاجرین،انصاری نے کہا: اے انصاریو! یہ (آواز) نبی اکرم ﷺ نے سن لی،فرمایا: جاہلیت کی کیسی پکار ہورہی ہے؟ لوگوں نے بتایا: ایک مہاجر شخص نے ایک انصاری شخص کو لات ماردی ہے،آپ نے فرمایا: یہ (پکار) چھوڑدو،یہ قبیح وناپسندیدہ پکار ہے،یہ بات عبداللہ بن ابی بن سلول نے سنی تو اس نے کہا: واقعی انہوں نے ایسا کیا ہے؟ قسم اللہ کی مدینہ پہنچ کر ہم میں سے عزت دار لوگ ذلیل و بے وقعت لوگوں کو نکال دیں گے،عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس منافق کی گردن اڑادوں،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جانے دو (گردن نہ مارو) لوگ یہ باتیں نہ کرنے لگیں کہ محمد تو اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتا ہے،عمر وبن دینارکے علاوہ دوسرے راویوں نے کہا: عبداللہ بن ابی سے اس کے بیٹے عبداللہ ابن عبداللہ نے (تو یہاں تک) کہہ دیا کہ تم پلٹ نہیں سکتے جب تک یہ اقرار نہ کرلو کہ تم ہی ذلیل ہو اور رسول اللہ ﷺ ہی باعزت ہیں تو اس نے اقرار کرلیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا أَبُو جَنَابٍ الْكَلْبِيُّ عَنْ الضَّحَّاكِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ مَنْ كَانَ لَہُ مَالٌ يُبَلِّغُہُ حَجَّ بَيْتِ رَبِّہِ أَوْ تَجِبُ عَلَيْہِ فِيہِ الزَّكَاةُ فَلَمْ يَفْعَلْ يَسْأَلْ الرَّجْعَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ فَقَالَ رَجُلٌ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ اتَّقِ اللہَ إِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجْعَةَ الْكُفَّارُ قَالَ سَأَتْلُو عَلَيْكَ بِذَلِكَ قُرْآنًا يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْہِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ ہُمْ الْخَاسِرُونَ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ إِلَی قَوْلِہِ وَاللہُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ قَالَ فَمَا يُوجِبُ الزَّكَاةَ قَالَ إِذَا بَلَغَ الْمَالُ مِائَتَيْ دِرْہَمٍ فَصَاعِدًا قَالَ فَمَا يُوجِبُ الْحَجَّ قَالَ الزَّادُ وَالْبَعِيرُ حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي حَيَّةَ عَنْ الضَّحَّاكِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِنَحْوِہِ و قَالَ ہَكَذَا رَوَی سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي جَنَابٍ عَنْ الضَّحَّاكِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَہُ وَلَمْ يَرْفَعُوہُ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَأَبُو جَنَابٍ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ أَبِي حَيَّةَ وَلَيْسَ ہُوَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس کے پاس اتنا مال ہوکہ وہ حج بیت اللہ کو جاسکے یا اس پر اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہو اور وہ حج کو نہ جائے،زکاۃ ادانہ کرے تو وہ مرتے وقت اللہ سے درخواست کرے گا کہ اسے وہ دنیا میں دوبارہ لوٹا دے،ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اللہ سے ڈرو،دوبارہ لوٹادیئے جانے کی آرزو تو کفار کریں گے (نہ کہ مسلمین) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں تمہیں اس کے متعلق قرآن پڑھ کر سناتاہوں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلاَ أَوْلاَدُکُمْ سے وَاللہُ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ۱؎ تک۔ اس نے پوچھا: کتنے مال میں زکاۃ واجب ہوجاتی ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب مال دوسو درہم ۱؎ ہوجائے یا زیادہ،پھر پوچھا: حج کب واجب ہوتاہے؟ کہا: جب توشہ اور سواری کا انتظام ہوجائے۔اس سندسے ضحاک نے ابن عباس کے واسطہ سے،نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی،۲-ایسے ہی روایت کی سفیان بن عیینہ اوردوسروں نے،یہ حدیث ابو جناب سے،ابوجناب نے ضحاک سے،اورضحاک نے ابن عباس سے ان کے اپنے قول سے اور انہوں نے اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے،،اور یہ عبدالرزاق کی روایت کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہے،اور ابوجناب کانام یحییٰ بن ابوحیہ ہے،اور وہ حدیث بیان کرنے میں قوی نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ سُلَيْمٍ قَالَ قَدِمْتُ مَكَّةَ فَلَقِيتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ فَقُلْتُ لَہُ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّ أُنَاسًا عِنْدَنَا يَقُولُونَ فِي الْقَدَرِ فَقَالَ عَطَاءٌ لَقِيتُ الْوَلِيدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللہُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَہُ اكْتُبْ فَجَرَی بِمَا ہُوَ كَائِنٌ إِلَی الْأَبَدِ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَفِيہِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ

عبدالواحد بن سلیم کہتے ہیں:میں مکہ آیا،عطاء بن ابی رباح سے میری ملاقات ہوئی،میں نے ان سے کہا: ابومحمد! ہمارے یہاں کچھ لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں،عطا نے کہا: میں ولید بن عبادہ بن صامت سے ملا،انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے: سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیداکیا (بنایا) پھر اس سے کہا: لکھ،تو وہ چل پڑا،اورہمیشہ ہمیش تک جو کچھ ہونے والاتھا سب اس نے لکھ ڈالا ۱؎۔ اس حدیث میں ایک قصہ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اور اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي قَلْبِہِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہُ وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيہَا حَتَّی تَعْلُوَ قَلْبَہُ وَہُوَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَ اللہُ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ جب کوئی گناہ کرتاہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے،پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفاراور توبہ کرتاہے تو اس کے دل کی صفائی ہوجاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتاہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتاہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے،اور یہی وہ ران ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت کَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ۱؎ میں کیاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ حَمَّادٌ ہُوَ عِنْدَنَا مَرْفُوعٌ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ يَقُومُونَ فِي الرَّشْحِ إِلَی أَنْصَافِ آذَانِہِمْ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،وہ آیت یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ لو گ آدھے کانوں تک پسینے میں شرابور ہوں گے۔ حماد کہتے ہیں: یہ حدیث ہمارے نزدیک مرفوع ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ يَقُومُ أَحَدُہُمْ فِي الرَّشْحِ إِلَی أَنْصَافِ أُذُنَيْہِ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس دن ہر ایک آدھے کانوں تک پسینے میں کھڑا ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے،اور اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ دَرَّاجٍ عَنْ أَبِي الْہَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ سُئِلَ أَيُّ الْعِبَادِ أَفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اللہِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ الذَّاكِرُونَ اللہَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ وَمِنْ الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ لَوْ ضَرَبَ بِسَيْفِہِ فِي الْكُفَّارِ وَالْمُشْرِكِينَ حَتَّی يَنْكَسِرَ وَيَخْتَضِبَ دَمًا لَكَانَ الذَّاكِرُونَ اللہَ أَفْضَلَ مِنْہُ دَرَجَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ دَرَّاجٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے کون سے بندے سب سے افضل اور سب سے اونچے مرتبہ والے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں۔میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں لڑائی لڑنے والے (غازی) سے بھی بڑھ کر؟ آپ نے فرمایا: (ہاں) اگرچہ اس نے اپنی تلوار سے کفار ومشرکین کو مارا ہو،اور اتنی شدید جنگ لڑی ہوکہ اس کی تلوار ٹوٹ گئی ہو،اور وہ خود خون سے رنگ گیا ہو،تب بھی اللہ کا ذکر کرنے والے اس سے درجے میں بڑھے ہوئے ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف درّاج کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِيدٍ ہُوَ ابْنُ أَبِي ہِنْدٍ عَنْ زِيَادٍ مَوْلَی ابْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ وَأَزْكَاہَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ وَأَرْفَعِہَا فِي دَرَجَاتِكُمْ وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالْوَرِقِ وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَہُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ قَالُوا بَلَی قَالَ ذِكْرُ اللہِ تَعَالَی قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ مَا شَيْءٌ أَنْجَی مِنْ عَذَابِ اللہِ مِنْ ذِكْرِ اللہِ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعِيدٍ مِثْلَ ہَذَا بِہَذَا الْإِسْنَادِ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْہُ فَأَرْسَلَہُ

ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے،وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم (میدان جنگ میں) اپنے دشمن سے ٹکراؤ،وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی (یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل) لوگوں نے کہا: ہاں،(ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے،معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: بعض نے یہ حدیث عبداللہ بن سعیداسی طرح اسی سند سے روایت کی ہے،اور بعضوں نے اسے ان سے مرسلاً روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ شَكَتْ إِلَيَّ فَاطِمَةُ مَجْلَ يَدَيْہَا مِنْ الطَّحِينِ فَقُلْتُ لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِہِ خَادِمًا فَقَالَ أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَی مَا ہُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ الْخَادِمِ إِذَا أَخَذْتُمَا مَضْجَعَكُمَا تَقُولَانِ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَأَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ مِنْ تَحْمِيدٍ وَتَسْبِيحٍ وَتَكْبِيرٍ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَلِيٍّ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے آٹا پیسنے کے سبب ہاتھوں میں آبلے پڑجانے کی شکایت کی،میں نے ان سے کہا: کاش آپ اپنے ابوجان کے پاس جاتیں اور آپ ﷺسے اپنے لیے ایک خادم مانگ لیتیں،(وہ گئیں تو) آپ نے(جواب میں) فرمایا: کیا میں تم دونوں کو ایسی چیز نہ بتادوں جو تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر اور آرام دہ ہو،جب تم دونوں اپنے بستروں پر سونے کے لیے جاؤ تو ۳۳-۳۳ بار الحمد للہ اور سبحان اللہ اور ۳۴ بار اللہ اکبر کہہ لیاکرو،اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث ابن عون کی روایت سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث کئی اور سندوں سے علی رضی اللہ عنہ سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا أَزْہَرُ السَّمَّانُ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ تَشْكُو مَجْلًا بِيَدَيْہَا فَأَمَرَہَا بِالتَّسْبِيحِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (آپ کی بیٹی) فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے ہاتھوں میں آبلے پڑجانے کی شکایت کرنے آئیں تو آپ نے انہیں تسبیح (سبحان اللہ) تکبیر (اللہ اکبر) اور تحمید (الحمد للہ) پڑھنے کا حکم دیا۔

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ قَالَ أَشْہَدُ عَلَی أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّہُمَا شَہِدَا عَلَی النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَكْبَرُ صَدَّقَہُ رَبُّہُ فَقَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا وَأَنَا أَكْبَرُ وَإِذَا قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ قَالَ يَقُولُ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا وَحْدِي وَإِذَا قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِيكَ لَہُ قَالَ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا وَحْدِي لَا شَرِيكَ لِي وَإِذَا قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ قَالَ اللہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا لِيَ الْمُلْكُ وَلِيَ الْحَمْدُ وَإِذَا قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِي وَكَانَ يَقُولُ مَنْ قَالَہَا فِي مَرَضِہِ ثُمَّ مَاتَ لَمْ تَطْعَمْہُ النَّارُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ بِنَحْوِ ہَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاہُ وَلَمْ يَرْفَعْہُ شُعْبَةُ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ بِہَذَا

ابومسلم خولانی کہتے ہیں:میں گواہی دیتاہوں کہ ابوسعیدخدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے گواہی دی کہ ان دونوں کی موجود گی میں ر سول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ ۱؎ کہتا ہے تو اس کا رب اس کی تصدیق کرتاہے اورکہتاہے: (ہاں) میرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے،میں ہی سب سے بڑا ہوں،اور جب: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ ۲؎ کہتاہے،توآپ نے فرمایا: اللہ کہتا ہے (ہاں) مجھ تنہا کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں،اور جب کہتا ہے: لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ ۳؎ تواللہ کہتاہے،(ہاں) مجھ تنہا کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں،اور میرا کوئی شریک نہیں ہے،اور جب کہتا ہے: لاَإِلَہَ إِلاَّ اللہُ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الحَمْدُ ۴؎ تو اللہ کہتاہے: کوئی معبودبرحق نہیں مگر میں،میرے لیے ہی بادشاہت ہے اور میرے لیے ہی حمد ہے،اور جب کہتا ہے: لاَإِلَہَ إِلاَّ اللہُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّہِ ۵؎ تو اللہ کہتاہے: (ہاں) میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گناہوں سے بچنے اور بھلے کام کرنے کی قوت نہیں ہے مگر میری توفیق سے،اور آپ فرماتے تھے: جو ان کلمات کو اپنی بیماری میں کہے،اور مرجائے تو آگ اسے نہ کھائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے۔اس سندسے شعبہ نے ابواسحاق سے،ابواسحاق نے اغر ابومسلم سے،اورابومسلم نے ابوہریرہ اور ابوسعید خدری سے اس حدیث کے مانند ہم معنی حدیث روایت کی،اور شعبہ نے اسے مرفوع نہیں کیا۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَنَظَرَ إِلَی جُدْرَانِ الْمَدِينَةِ أَوْضَعَ رَاحِلَتَہُ وَإِنْ كَانَ عَلَی دَابَّةٍ حَرَّكَہَا مِنْ حُبِّہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سفر سے واپس لوٹتے اور مدینہ کی دیوار یں دکھائی دینے لگتیں تو آپ اپنی اونٹنی (سواری) کو (اپنے وطن) مدینہ کی محبت میں تیز دوڑاتے ۱؎ اور اگر اپنی اونٹنی کے علاوہ کسی اور سواری پر ہوتے تو اسے بھی تیز بھگاتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا سَيَّارٌ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أُرِيدُ سَفَرًا فَزَوِّدْنِي قَالَ زَوَّدَكَ اللہُ التَّقْوَی قَالَ زِدْنِي قَالَ وَغَفَرَ ذَنْبَكَ قَالَ زِدْنِي بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي قَالَ وَيَسَّرَ لَكَ الْخَيْرَ حَيْثُمَا كُنْتَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سفر پر نکلنے کا ارادہ کررہاہوں،تو آپ مجھے کوئی توشہ دے دیجئے،آپ نے فرمایا: اللہ تجھے تقویٰ کا زاد سفر دے،اس نے کہا: مزید اضافہ فرمادیجئے،آپ نے فرمایا: اللہ تمہارے گناہ معاف کردے،اس نے کہا: مزیدکچھ اضافہ فرمادیجئے،میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں،آپ نے فرمایا: جہاں کہیں بھی تم رہو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے خیر (بھلائی کے کام) آسان کردے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُسَافِرَ فَأَوْصِنِي قَالَ عَلَيْكَ بِتَقْوَی اللہِ وَالتَّكْبِيرِ عَلَی كُلِّ شَرَفٍ فَلَمَّا أَنْ وَلَّی الرَّجُلُ قَالَ اللہُمَّ اطْوِ لَہُ الْأَرْضَ وَہَوِّنْ عَلَيْہِ السَّفَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سفرپر نکلنے کا ارادہ کررہا ہوں تو آپ مجھے کچھ وصیت فرمادیجئے،آپ نے فرمایا: میں تجھے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتاہوں اور نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں کہیں بھی اونچائی وبلندی پر چڑھو اللہ کی تکبیر پڑھو،(اللہ اکبرکہتے رہو) پھر جب آدمی پلٹ کر سفر پر نکلا تو آپ نے فرمایا: اللہُمَّ اطْوِ لَہُ الأَرْضَ وَہَوِّنْ عَلَیْہِ السَّفَرَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا رَأَی الرِّيحَ قَالَ اللہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِہَا وَخَيْرِ مَا فِيہَا وَخَيْرِ مَا أُرْسِلَتْ بِہِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا فِيہَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِہِ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب ہوا چلتی ہوئی دیکھتے تو کہتے: اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِہَا وَخَیْرِ مَا فِیہَا وَخَیْرِ مَا أُرْسِلَتْ بِہِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّہَا وَشَرِّ مَا فِیہَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِہِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں أبی بن کعب سے بھی روایت ہے اور یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ التَّيْمِيِّ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ نَائِمَةً إِلَی جَنْبِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَفَقَدْتُہُ مِنْ اللَّيْلِ فَلَمَسْتُہُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَی قَدَمَيْہِ وَہُوَ سَاجِدٌ وَہُوَ يَقُولُ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَی نَفْسِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ عَائِشَةَ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ بِہَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَہُ وَزَادَ فِيہِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں سوئی ہوئی تھی،رات میں نے آپ کو اپنی جگہ نہ پاکر آپ کو ادھر ادھر تلاش کیا،ٹٹولا،میرا ہاتھ آپ کے قدموں پر پڑا،اس وقت آپ سجدے میں تھے،اوریہ دعا پڑھ رہے تھے: أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ لاَ أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور یہ حدیث کئی سندوں سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آئی ہے۔لیث نے بیان کیا اور لیث نے یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح راویت کی ہے اور اس میں اتنا اضافہ کیا ہے: وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ(میں تیری پناہ چاہتاہوں تیری ناراضگی سے اور تیری تعریف کا حق ادا نہیں کرسکتا،(جیسی کہ تیری تعریف ہونی چاہیے۔)

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَانَ يُعَلِّمُہُمْ ہَذَا الدُّعَاءَ كَمَا يُعَلِّمُہُمْ السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ انہیں (صحابہ کو) یہ دعا سکھایا کرتے تھے جیسا کہ انہیں قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے: اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَدْعُو بِہَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَی وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ اللہُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَأَنْقِ قَلْبِي مِنْ الْخَطَايَا كَمَا أَنْقَيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ان کلمات کے ذریعہ دعا فرمایاکرتے تھے: اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ،وَفِتْنَۃِ الْقَبْرِ،وَعَذَابِ الْقَبْرِ،وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنَی،وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ،وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ،اللہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَائِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ،وَأَنْقِ قَلْبِی مِنْ الْخَطَایَا کَمَا أَنْقَیْتَ الثَّوْبَ الأَبْیَضَ مِنْ الدَّنَسِ،وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ،اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ عِنْدَ وَفَاتِہِ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الْأَعْلَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو آپ کی وفات کے وقت (یہ دعا) پڑھتے ہوئے سنا ہے: اللہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَأَلْحِقْنِی بِالرَّفِیقِ الأَعْلَی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ قَلَّمَا كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ حَتَّی يَدْعُوَ بِہَؤُلَاءِ الدَّعَوَاتِ لِأَصْحَابِہِ اللہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِہِ جَنَّتَكَ وَمِنْ الْيَقِينِ مَا تُہَوِّنُ بِہِ عَلَيْنَا مُصِيبَاتِ الدُّنْيَا وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَی مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی مَنْ عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا وَلَا تَجْعَلْ الدُّنْيَا أَكْبَرَ ہَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کم ہی ایسا ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی کسی مجلس سے اپنے صحابہ کے لیے یہ دعا کیے بغیر اٹھے ہوں: اللہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا یَحُولُ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَعَاصِیکَ،وَمِنْ طَاعَتِکَ،مَاتُبَلِّغُنَا بِہِ جَنَّتَکَ،وَمِنَ الْیَقِینِ مَا تُہَوِّنُ بِہِ عَلَیْنَا مُصِیبَاتِ الدُّنْیَا،وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْیَیْتَنَا وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنَّا،وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَی مَنْ ظَلَمَنَا،وَانْصُرْنَا عَلَی مَنْ عَادَانَا،وَلاَ تَجْعَلْ مُصِیبَتَنَا فِی دِینِنَا،وَلاَ تَجْعَلِ الدُّنْیَا أَکْبَرَ ہَمِّنَا،وَلاَ مَبْلَغَ عِلْمِنَا،وَلاَتُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لاَ یَرْحَمُنَا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،بعض محدثین نے یہ حدیث خالد بن ابوعمران سے اور خالد نے نافع کے واسطہ سے ابن عمر سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الشَّحَّامُ قَالَ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ سَمِعَنِي أَبِي وَأَنَا أَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْہَمِّ وَالْكَسَلِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ يَا بُنَيَّ مِمَّنْ سَمِعْتَ ہَذَا قُلْتُ سَمِعْتُكَ تَقُولُہُنَّ قَالَ الْزَمْہُنَّ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُہُنَّ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

مسلم بن ابوبکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے:اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْکَسَلِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ۱؎ پڑھتے ہوئے سنا تو کہا: اے بیٹے تونے یہ دعا کس سے سنی؟ میں نے کہا: میں نے آپ کو یہ دعاپڑھتے ہوئے سنی ہے،انہوں نے کہا: انہیں پابندی سے پڑھتے رہاکرو،اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ دعا پڑھتے ہوئے سنا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّہُ قَالَ يَا رَسُولَ اللہِ عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِہِ فِي صَلَاتِي قَالَ قُلْ اللہُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَہُوَ حَدِيثُ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ وَأَبُو الْخَيْرِ اسْمُہُ مَرْثَدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ الْيَزَنِيُّ

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: آپ مجھے کوئی ایسی دعا بتادیجئے جسے میں اپنی صلاۃ میں مانگا کروں ۱؎،آپ نے فرمایا: کہو: اللہُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا وَلاَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِی إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،اور یہ لیث بن سعد کی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ قَالَ جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ فَكَأَنَّہُ سَمِعَ شَيْئًا فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ أَنَا فَقَالُوا أَنْتَ رَسُولُ اللہِ عَلَيْكَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِہِمْ فِرْقَةً ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِہِمْ فِرْقَةً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِہِمْ قَبِيلَةً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِہِمْ بَيْتًا وَخَيْرِہِمْ نَسَبًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبدالمطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں:عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے،گویا کہ انہوں نے کوئی بات سنی (جس کی انہوں نے آپ کو خبردی) نبی اکرم ﷺ منبر پر چڑھ گئے،اور پوچھا: میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول! آپ پر اللہ کی سلامتی نازل ہو،آپ نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں،اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے سب سے بہتر گروہ میں پیدا کیا،پھر اس گروہ میں بھی دوگروہ بنادیئے اور مجھے ان دونوں گروہوں میں سے بہتر گروہ میں رکھا،پھران میں مختلف قبیلے بنادیئے،تومجھے سب سے بہتر قبیلے میں رکھا،پھر انہیں گھروں میں بانٹ دیا تو مجھے اچھے نسب والے بہترین خاندان اور گھر میں پیدا کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ خَلَقَ اللہُ مِائَةَ رَحْمَةٍ فَوَضَعَ رَحْمَةً وَاحِدَةً بَيْنَ خَلْقِہِ يَتَرَاحَمُونَ بِہَا وَعِنْدَ اللہِ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ رَحْمَةً وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ وَجُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سور حمتیں پیداکیں اور ایک رحمت اپنی مخلوق کے درمیان دنیا میں رکھی،جس کی بدولت وہ دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت وشفقت سے پیش آتے ہیں،جب کہ اللہ کے پاس ننانوے (۹۹) رحمتیں ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سلمان اور جندب بن عبداللہ بن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللہِ مِنْ الْعُقُوبَةِ مَا طَمِعَ فِي الْجَنَّةِ أَحَدٌ وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَا عِنْدَ اللہِ مِنْ الرَّحْمَةِ مَا قَنَطَ مِنْ الْجَنَّةِ أَحَدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْعَلَاءِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر مومن کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے یہاں کیسی کیسی سزائیں ہیں تو جنت کی کوئی امید نہ رکھے،اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کتنی وسیع و عظیم ہے تو جنت میں پہنچنے سے کوئی بھی ناامید و مایوس نہ ہو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ہم اسے صرف ابوالعلاء کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ اپنے والد اور ان کے والد ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ حِينَ خَلَقَ الْخَلْقَ كَتَبَ بِيَدِہِ عَلَی نَفْسِہِ إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس نے اپنے آپ سے اپنی ذات پر لکھ دیا (یعنی اپنے آپ پر فرض کرلیا) کہ میری رحمت میرے غضب (غصہ) پر غالب رہے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي الثَّلْجِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَغْدَادَ أَبُو عَبْدِ اللہِ صَاحِبُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَرْبِيٍّ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ وَثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَسْجِدَ وَرَجُلٌ قَدْ صَلَّی وَہُوَ يَدْعُو وَيَقُولُ فِي دُعَائِہِ اللہُمَّ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ أَتَدْرُونَ بِمَ دَعَا اللہَ دَعَا اللہَ بِاسْمِہِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِہِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَنَسٍ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مسجد میں آئے،ایک شخص صلاۃ پڑھ رہاتھا اور دعا مانگتے ہوئے وہ اپنی دعامیں کہہ رہاتھا: اللہُمَّ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِیعُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ ۱؎۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو اس نے کس چیز سے دعا کی ہے؟ اس نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی جائے گی اللہ اسے قبول کرلے گا،اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی جائے گی اسے عطافرمادے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی انس سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَعْمَارُ أُمَّتِي مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَی السَّبْعِينَ وَأَقَلُّہُمْ مَنْ يَجُوزُ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہماری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر (سال) کے درمیان ہیں اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس حد کو پارکریں گے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے یعنی محمد بن عمرو کی روایت سے جسے وہ ابی سلمہ سے اور ابوسلمہ ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں،۲-ہم (ابوسلمہ کی) اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آئی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عَمْرٍو الْفَزَارِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقُولُ فِي وِتْرِہِ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَی نَفْسِكَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی (صلاۃ) وتر میں یہ دعا پڑھتے تھے: اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث علی کی روایت سے حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،یعنی حماد ابن سلمہ کی روایت سے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہِ فَإِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ أَنْ يُسْأَلَ وَأَفْضَلُ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَكَذَا رَوَی حَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ وَقَدْ خُولِفَ فِي رِوَايَتِہِ وَحَمَّادُ بْنُ وَاقِدٍ ہَذَا ہُوَ الصَّفَّارُ لَيْسَ بِالْحَافِظِ وَہُوَ عِنْدَنَا شَيْخٌ بَصْرِيٌّ وَرَوَی أَبُو نُعَيْمٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ رَجُلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَحَدِيثُ أَبِي نُعَيْمٍ أَشْبَہُ أَنْ يَكُونَ أَصَحَّ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے،اور افضل عبادت یہ ہے (کہ اس دعا کے اثر سے) کشادگی (اور خوش حالی) کا انتظار کیا جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حماد بن واقد نے ایسی ہی روایت کی ہے،اور ان کی روایت میں اختلاف کیاگیا ہے،۲-حماد بن واقد یہ صفار ہیں،حافظ نہیں ہیں،اور یہ ہمارے نزدیک ایک بصری شیخ ہیں،۳-ابونعیم نے یہ حدیث اسرائیل سے،اسرائیل نے حکیم بن جبیرسے اور حکیم بن جبیر نے ایک شخص کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،اور ابونعیم کی حدیث صحت سے قریب تر ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ اللہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَالْعَجْزِ وَالْبُخْلِ وَبِہَذَا الْإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ الْہَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ یہ دعا پڑھتے تھے: اللہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْعَجْزِ وَالْبُخْلِ ۱؎۔ اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی آئی ہے کہ آپ پناہ مانگتے تھے بڑھاپے اور عذاب قبر سے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ حَدَّثَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ مَا عَلَی الْأَرْضِ مُسْلِمٌ يَدْعُو اللہَ بِدَعْوَةٍ إِلَّا آتَاہُ اللہُ إِيَّاہَا أَوْ صَرَفَ عَنْہُ مِنْ السُّوءِ مِثْلَہَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ إِذًا نُكْثِرُ قَالَ اللہُ أَكْثَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَابْنُ ثَوْبَانَ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ الْعَابِدُ الشَّامِيُّ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: زمین پر کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جو گناہ اور قطع رحمی کی دعا کو چھوڑ کر کوئی بھی دعا کرتاہو اور اللہ اسے وہ چیز نہ دیتاہو،یا اس کے بدلے اس کے برابر کی اس کی کوئی برائی (کوئی مصیبت) دور نہ کردیتا ہو اس پر ایک شخص نے کہا: تب تو ہم خوب (بہت) دعائیں مانگا کریں گے،آپ نے فرمایا:اللہ اس سے بھی زیادہ دینے والا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا أَنْبَأَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّبِّيُّ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ بِمَكَّةَ حَجَرًا كَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ إِنِّي لَأَعْرِفُہُ الْآنَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مکہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے ان راتوں میں جن میں میں مبعوث کیاگیاتھا سلام کیا کرتاتھا،اسے میں اب بھی پہچانتاہوں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ نَتَدَاوَلُ فِي قَصْعَةٍ مِنْ غَدْوَةٍ حَتَّی اللَّيْلِ يَقُومُ عَشَرَةٌ وَيَقْعُدُ عَشَرَةٌ قُلْنَا فَمَا كَانَتْ تُمَدُّ قَالَ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَعْجَبُ مَا كَانَتْ تُمَدُّ إِلَّا مِنْ ہَاہُنَا وَأَشَارَ بِيَدِہِ إِلَی السَّمَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو الْعَلَاءِ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الشِّخِّيرِ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک بڑے برتن میں صبح سے شام تک کھاتے رہے،دس آدمی اٹھتے تھے اور دس بیٹھتے تھے،ہم نے (سمرہ سے) کہا: تو اس پیالہ نمابڑے برتن میں کچھ بڑھا یا نہیں جاتا تھا؟ انہوں نے کہا: تمہیں تعجب کس بات پر ہے؟ اس میں بڑھایا نہیں جاتا تھا مگر وہاں سے،اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی جانب اشارہ کیا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ ہِشَامٍ سَأَلَ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَأْتِينِي فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَہُوَ أَشَدُّہُ عَلَيَّ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَنْزِلُ عَلَيْہِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ ذِي الْبَرْدِ الشَّدِيدِ فَيَفْصِمُ عَنْہُ وَإِنَّ جَبِينَہُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: آپ کے پاس وحی کیسے آتی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کبھی کبھی وہ میرے پاس گھنٹی کی آواز ۱؎ کی طرح آتی ہے اور یہ میرے لیے زیادہ سخت ہوتی ہے ۲؎ اور کبھی کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی شکل میں آتاہے اور مجھ سے کلام کرتاہے،تو وہ جو کہتا ہے اسے میں یاد کرلیتاہوں،عائشہ کہتی ہیں: چنانچہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سخت جاڑے کے دن میں آپ پر وحی اترتے دیکھی جب وہ وحی ختم ہوتی تو آپ کی پیشانی پر پسینہ آیاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَہِيعَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ قَالَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر مسکرانے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ مِثْلُ ہَذَا حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ إِسْحَقَ السَّيْلَحَانِيُّ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ قَالَ مَا كَانَ ضَحِكُ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِلَّا تَبَسُّمًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

عبداللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ہنسی صرف مسکراہٹ ہوتی تھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح غریب ہے،ہم اسے صرف اسنی سند سے لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَبَسَطْتُ ثَوْبِي عِنْدَہُ ثُمَّ أَخَذَہُ فَجَمَعَہُ عَلَی قَلْبِي فَمَا نَسِيتُ بَعْدَہُ حَدِيثًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کے پاس اپنی چادر پھیلادی،آپ نے اسے اٹھایا اور سمیٹ کر اسے میرے دل پر رکھ دیا،اس کے بعدسے میں کوئی چیز نہیں بھولا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ أَسْمَعُ مِنْكَ أَشْيَاءَ فَلَا أَحْفَظُہَا قَالَ ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُہُ فَحَدَّثَ حَدِيثًا كَثِيرًا فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا حَدَّثَنِي بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بہت سی چیزیں آپ سے سنتا ہوں لیکن انہیں یادنہیں رکھ پاتا،آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ،تو میں نے اسے پھیلادیا،پھر آپ نے بہت سے حدیثیں بیان فرمائیں،تو آپ نے جتنی بھی حدیثیں مجھ سے بیان فرمائیں میں ان میں سے کوئی بھی نہیں بھولا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور ابوہریرہ سے کئی سندوں سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا يَعْلَی بْنُ عَطَاءٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ قَالَ لِأَبِي ہُرَيْرَةَ يَا أَبَا ہُرَيْرَةَ أَنْتَ كُنْتَ أَلْزَمَنَا لِرَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَحْفَظَنَا لِحَدِيثِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ سے کہا: ابوہریرہ! آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہنے والے اور ہم سے زیادہ آپ ﷺ کی حدیثیں یاد رکھنے والے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِيمَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَبِي عَامِرٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَرَأَيْتَ ہَذَا الْيَمَانِيَّ يَعْنِي أَبَا ہُرَيْرَةَ أَہُوَ أَعْلَمُ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنْكُمْ نَسْمَعُ مِنْہُ مَا لَا نَسْمَعُ مِنْكُمْ أَوْ يَقُولُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مَا لَمْ يَقُلْ قَالَ أَمَّا أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ فَلَا أَشُكُّ إِلَّا أَنَّہُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ وَذَاكَ أَنَّہُ كَانَ مِسْكِينًا لَا شَيْءَ لَہُ ضَيْفًا لِرَسُولِ اللہِ ﷺ يَدُہُ مَعَ يَدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَكُنَّا نَحْنُ أَہْلَ بُيُوتَاتٍ وَغِنًی وَكُنَّا نَأْتِي رَسُولَ اللہِ ﷺ طَرَفَيْ النَّہَارِ فَلَا أَشُكُّ إِلَّا أَنَّہُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَا لَمْ نَسْمَعْ وَلَا نَجِدُ أَحَدًا فِيہِ خَيْرٌ يَقُولُ عَلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ مَا لَمْ يَقُلْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ وَقَدْ رَوَاہُ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُہُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ

مالک بن ابوعامرکہتے ہیں کہ ایک شخص نے طلحہ بن عبید اللہ کے پاس آکرکہا: اے ابومحمد! کیا یہ یمنی شخص یعنی ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کا آپ لوگوں سے زیادہ جانکار ہے،ہم اس سے ایسی حدیثیں سنتے ہیں جو آپ سے نہیں سنتے یا وہ رسول اللہ ﷺ پر ایسی بات گھڑکر کہتا ہے جو آپ نے نہیں فرمائی،تو انہوں نے کہا: نہیں ایسی بات نہیں،واقعی ابوہریرہ نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مسکین تھے،ان کے پاس کوئی چیز نہیں تھی وہ رسول اللہ ﷺ کے مہمان رہتے تھے،ان کا ہاتھ (کھانے پینے میں) رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کے ساتھ پڑتاتھا،اور ہم گھر بار والے تھے اور مالدار لوگ تھے،ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس صبح میں اور شام ہی میں آپاتے تھے،اوراس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسی چیزیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں،اور تم کوئی ایسا آدمی نہیں پاؤگے جس میں کوئی خیر ہو اور وہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اسے یونس بن بکیر نے اور ان کے علاوہ دوسرے راویوں نے بھی محمد بن اسحاق سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنِ بِنْتِ أَزْہَرَ السَّمَّانِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ مِمَّنْ أَنْتَ قَالَ قُلْتُ مِنْ دَوْسٍ قَالَ مَا كُنْتُ أَرَی أَنَّ فِي دَوْسٍ أَحَدًا فِيہِ خَيْرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَأَبُو خَلْدَةَ اسْمُہُ خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ وَأَبُو الْعَالِيَةِ اسْمُہُ رُفَيْعٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم کس قبیلہ سے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں قبیلہ دوس کاہوں،آپ نے فرمایا: میں نہیں جانتا تھا کہ دوس میں کوئی ایسا آدمی بھی ہوگا جس میں خیر ہو گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-ابوخلدہ کانام خالد بن دینار ہے اور ابوالعالیہ کا نام رفیع ہے۔

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَی الْقَزَّازُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا الْمُہَاجِرُ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الرِّيَاحِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ بِتَمَرَاتٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ ادْعُ اللہَ فِيہِنَّ بِالْبَرَكَةِ فَضَمَّہُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيہِنَّ بِالْبَرَكَةِ فَقَالَ خُذْہُنَّ وَاجْعَلْہُنَّ فِي مِزْوَدِكَ ہَذَا أَوْ فِي ہَذَا الْمِزْوَدِ كُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْہُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيہِ يَدَكَ فَخُذْہُ وَلَا تَنْثُرْہُ نَثْرًا فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيلِ اللہِ فَكُنَّا نَأْكُلُ مِنْہُ وَنُطْعِمُ وَكَانَ لَا يُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّی كَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّہُ انْقَطَعَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان میں برکت کی دعا فرمادیجئے،تو آپ نے انہیں اکٹھا کیا پھر ان میں برکت کی دعا کی اور فرمایا: انہیں لے جاؤ اور اپنے توشہ دان میں رکھ لو اور جب تم اس میں سے کچھ لینے کا ارادہ کرو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لو،اسے بکھیرو نہیں چنانچہ ہم نے اس میں سے اتنے اتنے وسق اللہ کی راہ میں دیئے اور ہم اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے ۱؎ اور وہ (تھیلی) کبھی میری کمر سے جدا نہیں ہوتی تھی،یہاں تک کہ جس دن عثمان رضی اللہ عنہ قتل کئے گئے تو وہ ٹوٹ کر(کہیں) گر گئی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری سندوں سے آئی ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرَابِطِيُّ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي ہُرَيْرَةَ لِمَ كُنِّيتَ أَبَا ہُرَيْرَةَ قَالَ أَمَا تَفْرَقُ مِنِّي قُلْتُ بَلَی وَاللہِ إِنِّي لَأَہَابُكَ قَالَ كُنْتُ أَرْعَی غَنَمَ أَہْلِي وَكَانَتْ لِي ہُرَيْرَةٌ صَغِيرَةٌ فَكُنْتُ أَضَعُہَا بِاللَّيْلِ فِي شَجَرَةٍ فَإِذَا كَانَ النَّہَارُ ذَہَبْتُ بِہَا مَعِي فَلَعِبْتُ بِہَا فَكَنَّوْنِي أَبَا ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کی کنیت ابوہریرہ کیوں پڑی؟ تو انہوں نے کہا: کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ قسم اللہ کی! میں آپ سے ڈرتاہوں،پھر انہوں نے کہا: میں اپنے گھروالوں کی بکریاں چراتاتھا،میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میں اس کو رات میں ایک درخت پر بٹھا دیتا اور دن میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا،اور اس سے کھیلتا،تو لوگوں نے میری کنیت ابوہریرہ رکھ دی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ وَہْبِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَخِيہِ ہَمَّامِ بْنِ مُنَبِّہٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ لَيْسَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو فَإِنَّہُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لَا أَكْتُبُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں مجھ سے زیادہ کسی کویاد نہیں،سوائے عبداللہ بن عمرو کے کیوں کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ مَنْزِلًا فَجَعَلَ النَّاسُ يَمُرُّونَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ ہَذَا يَا أَبَا ہُرَيْرَةَ فَأَقُولُ فُلَانٌ فَيَقُولُ نِعْمَ عَبْدُ اللہِ ہَذَا وَيَقُولُ مَنْ ہَذَا فَأَقُولُ فُلَانٌ فَيَقُولُ بِئْسَ عَبْدُ اللہِ ہَذَا حَتَّی مَرَّ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَقَالَ مَنْ ہَذَا فَقُلْتُ ہَذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَقَالَ نِعْمَ عَبْدُ اللہِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْرِفُ لِزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ سَمَاعًا مِنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَہُوَ عِنْدِي حَدِيثٌ مُرْسَلٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک منزل پر پڑاؤ کیا،جب لوگ آپ کے سامنے سے گزرتے تو آپ پوچھتے: ابوہریرہ! یہ کون ہے؟ میں کہتا: فلاں ہے،تو آپ فرماتے: کیا ہی اچھا بندہ ہے یہ اللہ کا،پھرآپ فرماتے: یہ کون ہے؟ تو میں کہتا: فلاں ہے تو آپ فرماتے: کیا ہی برا بندہ ہے یہ اللہ کا ۱؎،یہاں تک کہ خالد بن ولید گزرے تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ خالد بن ولید ہیں،آپ نے فرمایا: کیا ہی اچھے بندے ہیں اللہ کے خالد بن ولید،وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،اور ہم نہیں جانتے کہ زید بن اسلم کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نہیں اور یہ میرے نزدیک مرسل روایت ہے،۲-اس باب میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّہُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ أَوْ بِخَيْرِ الْأَنْصَارِ قَالُوا بَلَی يَا رَسُولَ اللہِ قَالَ بَنُو النَّجَّارِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ بَنُو عَبْدِ الْأَشْہَلِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَہُمْ بَنُو سَاعِدَةَ ثُمَّ قَالَ بِيَدِہِ فَقَبَضَ أَصَابِعَہُ ثُمَّ بَسَطَہُنَّ كَالرَّامِي بِيَدَيْہِ قَالَ وَفِي دُورِ الْأَنْصَارِ كُلِّہَا خَيْرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا أَيْضًا عَنْ أَنَسٍ عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں انصار کے بہتر گھروں کی یا انصار کے بہتر لوگوں کی خبر نہ دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: سب سے بہتر بنی نجار ہیں،پھر بنی عبدالاشہل ہیں جو ان سے قریب ہیں،پھر بنی حارث بن خزرج ہیں جو ان سے قریب ہیں،پھر بنی ساعدہ ہیں ۱؎،پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا اوراپنی انگلیوں کوبندکیا،پھر کھولا جیسے کوئی اپنے ہاتھوں سے کچھ پھینک رہاہو اور فرمایا: انصار کے سارے گھروں میں خیر ہے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-انس سے بھی آئی ہے جسے وہ ابواسید ساعدی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَال سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ دُورُ بَنِي النَّجَّارِ ثُمَّ دُورُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْہَلِ ثُمَّ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ ثُمَّ بَنِي سَاعِدَةَ وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ فَقَالَ سَعْدٌ مَا أَرَی رَسُولَ اللہِ ﷺ إِلَّا قَدْ فَضَّلَ عَلَيْنَا فَقِيلَ قَدْ فَضَّلَكُمْ عَلَی كَثِيرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ اسْمُہُ مَالِكُ بْنُ رَبِيعَةَ وَقَدْ رُوِيَ نَحْوَ ہَذَا عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاہُ مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

ابواسیدساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انصار کے گھروں میں سب سے بہتر گھر بنی نجار کے گھر ۱؎ ہیں،پھر بنی عبدالاشہل کے،پھر بنی حارث بن خزرج کے پھر بنی ساعدہ کے اور انصار کے سارے گھروں میں خیر ہے،تو سعد نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کو یہی سمجھ رہاہوں کہ آپ نے ہم پر لوگوں کو فضیلت دی ہے ۲؎ تو ان سے کہاگیا: آپ کو بھی تو بہت سے لوگوں پر فضیلت دی ہے ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابواسید ساعدی کانام مالک بن ربیعہ ہے،۳-اسی جیسی روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوع طریقہ سے آئی ہے،۴-اسے معمر نے زہری سے،زہری نے ابوسلمہ اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور ان دونوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ دِيَارِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انصار کے گھروں میں سب سے بہتر گھر بنی نجار کے گھر ہیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ خَيْرُ الْأَنْصَارِ بَنُو عَبْدِ الْأَشْہَلِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

جابر عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انصار میں سب سے بہتر بنی عبدالا شہل ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْأَزْدِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللہِ ﷺ يَا سَلْمَانُ لَا تَبْغَضْنِي فَتُفَارِقَ دِينَكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ كَيْفَ أَبْغَضُكَ وَبِكَ ہَدَانَا اللہُ قَالَ تَبْغَضُ الْعَرَبَ فَتَبْغَضُنِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَدْرٍ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ أَبُو ظَبْيَانَ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ مَاتَ سَلْمَانُ قَبْلَ عَلِيٍّ

سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سلمان! تم مجھ سے بغض نہ رکھو کہ تمہارا دین ہاتھ سے جاتا رہے،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کیسے آپ سے بغض رکھ سکتاہوں اور حال یہ ہے کہ اللہ نے آپ ہی کے ذریعہ ہمیں ہدایت بخشی ہے،آپ نے فرمایا: تم عربوں سے بغض رکھوگے تو مجھ سے بغض رکھو گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف ابو بدر شجاع بن ولید کی روایت سے جانتے ہیں،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: ابوظبیان نے سلمان کا زمانہ نہیں پایاہے اور سلمان علی سے پہلے وفات پاگئے تھے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عُمَرَ الْأَحْمَسِيِّ عَنْ مُخَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ فِي شَفَاعَتِي وَلَمْ تَنَلْہُ مَوَدَّتِي قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حُصَيْنِ بْنِ عُمَرَ الْأَحْمَسِيِّ عَنْ مُخَارِقٍ وَلَيْسَ حُصَيْنٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ بِذَاكَ الْقَوِيِّ

عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے عربوں کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں شامل نہ ہوگا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہوگی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف حصین بن عمر احمسی کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ مخارق سے روایت کرتے ہیں،اور حصین محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي رَزِينٍ عَنْ أُمِّہِ قَالَتْ كَانَتْ أُمُّ الْحُرَيْرِ إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْ الْعَرَبِ اشْتَدَّ عَلَيْہَا فَقِيلَ لَہَا إِنَّا نَرَاكِ إِذَا مَاتَ رَجُلٌ مِنْ الْعَرَبِ اشْتَدَّ عَلَيْكِ قَالَتْ سَمِعْتُ مَوْلَايَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ ہَلَاكُ الْعَرَبِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي رَزِينٍ وَمَوْلَاہَا طَلْحَةُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ

محمد بن رزین کی والد ہ کہتی ہیں کہ جب کوئی عرب مرتا تو ام جریر پر اس کی موت بڑی سخت ہوجاتی یعنی انہیں زبردست صدمہ ہوتا تو ان سے کہاگیا کہ ہم آپ کودیکھتے ہیں کہ جب کوئی عرب مرتاہے تو آپ کو بہت صدمہ پہنچتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اپنے مالک کو کہتے ہوئے سناہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عربوں کی ہلاکت قرب قیامت کی نشانی ہے۔محمد بن رزین کہتے ہیں: ان کے مالک کانام طلحہ بن مالک ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف سلیمان بن حرب کی روایت سے جانتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی الْأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللہِ يَقُولُ حَدَّثَتْنِي أُمُّ شَرِيكٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ مِنْ الدَّجَّالِ حَتَّی يَلْحَقُوا بِالْجِبَالِ قَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ يَا رَسُولَ اللہِ فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ قَالَ ہُمْ قَلِيلٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

ام شریک رضی اللہ عنہا کابیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ دجال سے بھاگیں گے،یہاں تک کہ پہاڑوں پر جارہیں گے،ام شریک رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول!اس وقت عرب کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: وہ(تعداد میں) تھوڑے ہوں گے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ بَصْرِيٌّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ سَامٌ أَبُو الْعَرَبِ وَيَافِثُ أَبُو الرُّومِ وَحَامٌ أَبُو الْحَبَشِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَيُقَالُ يَافِثُ وَيَافِتُ وَيَفَتُ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سام عربوں کے جد امجد ہیں اور یافث رومیوں کے اور حام حبشیوں کے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور یافث یافِتُ اور یَفِتُ تینوں لغتیں ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ مُوسَی بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْأَنْصَارُ وَمُزَيْنَةُ وَجُہَيْنَةُ وَغِفَارٌ وَأَشْجَعُ وَمَنْ كَانَ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ مَوَالِيَّ لَيْسَ لَہُمْ مَوْلًی دُونَ اللہِ وَاللہُ وَرَسُولُہُ مَوْلَاہُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انصار،مزینہ،جہینہ،غفار،اشجع اور جو قبیلہ ٔ عبدالدار کے ہوں وہ میرے رفیق ہیں،ان کا اللہ کے علاوہ کوئی اور رفیق نہیں،اور اللہ اور اس کے رسول ان کے رفیق ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَسْلَمُ سَالَمَہَا اللہُ وَغِفَارٌ غَفَرَ اللہُ لَہَا وَعُصَيَّةُ عَصَتْ اللہَ وَرَسُولَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسلم کو اللہ صحیح سالم رکھے،غفار کو اللہ بخشے اور عصیہ (قبیلہ)نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ بِہَذَا الإِسْنَادِ: نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُہُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ

اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَی عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَاءِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: سَجَدْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِياقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ وَإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ اور ی إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ میں سجدہ کیا۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ہُوَ ابْنُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ ہِشَامٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: مِثْلَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ: يَرَوْنَ السُّجُودَ فِي إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ وَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ. وَفِي ہَذَا الْحَدِيثِ أَرْبَعَةٌ مِنْ التَّابِعِينَ،بَعْضُہُمْ عَنْ بَعْضٍ

اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔اس حدیث کی سند میں چار تابعین ۱؎ ہیں،جو ایک دوسرے سے روایت کررہے ہیں،۲-اکثر اہل علم کااسی پرعمل ہے،یہ لوگ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْاور اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ میں سجدہ کرنے کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَسْجُدُ فِي ص قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَلَيْسَتْ مِنْ عَزَائِمِ السُّجُودِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ فَرَأَی بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَنْ يَسْجُدَ فِيہَا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّہَا تَوْبَةُ نَبِيٍّ وَلَمْ يَرَوْا السُّجُودَ فِيہَا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سورۂ ص میں سجدہ کرتے دیکھا۔ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یہ واجب سجدوں میں سے نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اس میں اختلاف ہے،صحابہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ اس میں سجدہ کرے،سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔اوربعض کہتے ہیں کہ یہ ایک نبی کی توبہ ہے،اس میں سجدہ ضروری نہیں ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ أَشْعَثَ وَہُوَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يُصَلِّي فِي لُحُفِ نِسَائِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ رُخْصَةٌ فِي ذَلِكَ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہﷺ اپنی بیویوں کی چادروں میں صلاۃنہیں پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-نبی اکرمﷺسے اس کی اجازت بھی مروی ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ سَمِعَ ذَكْوَانَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا تَوَضَّأَ الرَّجُلُ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ لَا يُخْرِجُہُ أَوْ قَالَ لَا يَنْہَزُہُ إِلَّا إِيَّاہَا لَمْ يَخْطُ خُطْوَةً إِلَّا رَفَعَہُ اللہُ بِہَا دَرَجَةً أَوْ حَطَّ عَنْہُ بِہَا خَطِيئَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب آدمی وضو کرے اور اچھی طرح کرے،پھرصلاۃ کے لیے نکلے،اور اُسے صرف صلاۃہی نے نکالا،یا کہا اٹھایا ہو،تو جو بھی قدم وہ چلے گا،اللہ اس کے بدلے ا س کا درجہ بڑھائے گا،یا اس کے بدلے اس کا ایک گناہ کم کرے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ بَشِيرِ بْنِ سَلْمَانَ حَدَّثَنَا خَلَّادٌ الصَّفَّارُ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ النَّصْرِيِّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ سَتْرُ مَا بَيْنَ أَعْيُنِ الْجِنِّ وَعَوْرَاتِ بَنِي آدَمَ إِذَا دَخَلَ أَحَدُہُمْ الْخَلَاءَ أَنْ يَقُولَ بِسْمِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَإِسْنَادُہُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَشْيَاءُ فِي ہَذَا

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جنوں کی آنکھوں اورانسان کی شرمگاہوں کے درمیان کاپردہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی پاخانہ جائے تووہ بسم اللہ کہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔اور اس کی سند قوی نہیں ہے،۲-اس سلسلہ کی بہت سی چیزیں انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بھی نبی اکرمﷺسے مروی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَقَ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْيَمَنِ فَقَالَ لَہُ إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَہْلَ كِتَابٍ فَادْعُہُمْ إِلَی شَہَادَةِ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللہِ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللہَ افْتَرَضَ عَلَيْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْہُمْ أَنَّ اللہَ افْتَرَضَ عَلَيْہِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِہِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِہِمْ فَإِنْ ہُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِہِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّہَا لَيْسَ بَيْنَہَا وَبَيْنَ اللہِ حِجَابٌ وَفِي الْبَاب عَنْ الصُّنَابِحِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو مَعْبَدٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ اسْمُہُ نَافِذٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن (کی طرف اپناعامل بناکر) بھیجا اور ان سے فرمایا: تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جارہے ہو،تم انہیں دعوت دیناکہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں،اگروہ اس کو مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر رات اور دن میں پانچ وقت کی صلاۃ فرض کی ہے،اگر وہ اسے مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکاۃ فرض کی ہے،جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء ومساکین کو لوٹا دی جائے گی ۱؎،اگروہ اسے مان لیں تو تم ان کے عمدہ مال لینے سے اپنے آپ کوبچانا اور مظلوم کی بددعا سے بچنا،اس لئے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں صنابحی رضی اللہ عنہ ۲؎ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَكْثَمَ،حَدَّثَنَا جَرِيرٌ،عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ:لاَ تَصْلُحُ قِبْلَتَانِ فِي أَرْضٍ وَاحِدَةٍ وَلَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ جِزْيَةٌ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک سر زمین پردوقبلے ہونادرست نہیں ۱؎ اورنہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ قَابُوسَ،بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ. وَفِي الْبَاب عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ،وَجَدِّ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِاللہِ الثَّقَفِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِيَ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ النَّصْرَانِيَّ إِذَا أَسْلَمَ وُضِعَتْ عَنْہُ جِزْيَةُ رَقَبَتِہِ. وَقَوْلُ النَّبِيِّ ﷺلَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ إِنَّمَا يَعْنِي بِہِ جِزْيَةَ الرَّقَبَةِ. وَفِي الْحَدِيثِ مَايُفَسِّرُ ہَذَا حَيْثُ قَالَ:إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْيَہُودِ وَالنَّصَارَی،وَلَيْسَ عَلَی الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ

اس سند سے بھی قابوس سے اسی طرح مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس کی حدیث قابوس بن أبی ظبیان سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والدسے اوران کے والدنے نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کی ہے،۲-اس باب میں سعید بن زید اور حرب بن عبید اللہ ثقفی کے دادا سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ نصرانی جب اسلام قبول کرلے تو اس کی اپنی گردن کا جزیہ معاف کردیاجائے گا،اور نبی اکرمﷺکے قوللَیْسَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ عُشُورٌ (مسلمانوں پر عشر نہیں ہے) کا مطلب بھی گردن کا جزیہ ہے،اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت کردی گئی ہے جیساکہ آپ نے فرمایا: عشر صرف یہود ونصاریٰ پر ہے،مسلمانوں پر کوئی عشر نہیں ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَشَجِّ وَعَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَكَأَنَّ ہَذَا أَصَحُّ وَقَدْ صَحَّ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ وَعَلَيْہِ الْعَمَلُ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَہَاءِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس فصل کی سینچائی بارش یا نہر کے پانی سے کی گئی ہو،اس میں زکاۃ دسواں حصہ ہے،اور جس کی سینچائی ڈول سے کھینچ کر کی گئی ہوتو اس میں زکاۃ دسویں حصّے کاآدھایعنی بیسواں حصہ ۱؎ ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں انس بن مالک،ابن عمر اور جابر سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-یہ حدیث بکیر بن عبداللہ بن اشج،سلیمان بن یسار اور بسر بن سعید سے بھی روایت کی گئی ہے،اور ا ن سب نے اسے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،گویا یہ زیادہ صحیح ہے،۳-اور اس باب میں ابن عمر کی حدیث بھی صحیح ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے ۲؎،۴-اور اسی پربیشترفقہاء کا عمل ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَنَّہُ سَنَّ فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرَ وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفَ الْعُشْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہ طریقہ جاری فرمایاکہ جسے بارش یاچشمے کے پانی نے سیراب کیا ہو،یا عثر ی یعنی رطوبت والی زمین ہوجسے پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہوتو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے،اورجسے ڈول سے سیراب کیا جاتا ہواس میں دسویں کاآدھایعنی بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔ ا مام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ بُجَيْدٍ وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللہِ ﷺ أَنَّہَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ الْمِسْكِينَ لَيَقُومُ عَلَی بَابِي فَمَا أَجِدُ لَہُ شَيْئًا أُعْطِيہِ إِيَّاہُ فَقَالَ لَہَا رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنْ لَمْ تَجِدِي شَيْئًا تُعْطِينَہُ إِيَّاہُ إِلَّا ظِلْفًا مُحْرَقًا فَادْفَعِيہِ إِلَيْہِ فِي يَدِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ بُجَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبدالرحمٰن بن بجید کی دادی ام بجیدحوّا رضی اللہ عنہا (جورسول اللہﷺ سے بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے دینے کے لیے میرے پاس کوئی چیزنہیں ہوتی۔(تومیں کیا کروں؟)رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا:اگر اسے دینے کے لئے تمہیں کوئی جلی ہوئی کھُرہی ملے تووہی اس کے ہاتھ میں دے دو ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ام بجید رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،حسین بن علی،ابوہریرہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّہُ حَمَلَ عَلَی فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللہِ ثُمَّ رَآہَا تُبَاعُ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَہَا فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ

عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا،پھر دیکھاکہ وہ گھوڑا بیچا جارہاہے تو اسے خریدنا چاہا،نبی اکرمﷺنے فرمایا:اپنا صدقہ واپس نہ لو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے۔ وضاحت ۱؎: کیونکہ صدقہ دے کرواپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے،ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہاہے،لیکن جمہورنے اسے کراہت تنزیہی پرمحمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں،قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسااوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتاہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتاہے،نیز بظاہریہ حدیث ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیثلا تحل الصدقۃ إلا لخمسۃ لعامل علیہا أو رجل اشتراہا بما...الحدیثکے معارض ہے،تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پرمحمول کی جائیگی اور ابوسعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر،یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ ح قَالَ و أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَاءَةً عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ أَہْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ اسْتَحَبُّوا تَعْجِيلَ الْفِطْرِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگ برابرخیر میں رہیں گے ۱؎ جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے ۲؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ابن عباس،عائشہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوریہی قول ہے جسے صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم نے اختیار کیاہے،ان لوگوں نے افطارمیں جلدی کرنے کومستحب جاناہے اوراسی کے شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِيُّ،حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،عَنْ الأَوْزَاعِيِّ،عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَبِي سَلَمَةَ،عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ: أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُہُمْ فِطْرًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتاہے: مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ،أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ وَأَبُو الْمُغِيرَةِ،عَنْ الأَوْزَاعِيِّ بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

اس سند سے بھی اوزاعی سے اسی طرح مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَی عَائِشَةَ فَقُلْنَا يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَحَدُہُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ قَالَتْ أَيُّہُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ قُلْنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَتْ ہَكَذَا صَنَع رَسُولُ اللہِ ﷺ وَالْآخَرُ أَبُو مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَطِيَّةَ اسْمُہُ مَالِكُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ الْہَمْدَانِيُّ وَيُقَالُ ابْنُ عَامِرٍ الْہَمْدَانِيُّ وَابْنُ عَامِرٍ أَصَحُّ

ابوعطیہ کہتے ہیں کہ میں اورمسروق دونوں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے،ہم نے عرض کیا: ام المومنین! صحابہ میں سے دوآدمی ہیں،ان میں سے ایک افطار جلدی کرتا ہے اورصلاۃ ۱؎ بھی جلدی پڑھتاہے اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے اور صلاۃ بھی دیر سے پڑھتا ہے ۲؎ انہوں نے کہا:وہ کون ہے جو افطار جلدی کرتا ہے اور صلاۃ بھی جلدی پڑھتا ہے،ہم نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعودہیں،اس پر انہوں نے کہا:رسول اللہﷺاسی طرح کرتے تھے اور دوسرے ابوموسیٰ ہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابوعطیہ کانام مالک بن ابی عامر ہمدانی ہے اورانہیں ابن عامر ہمدانی بھی کہاجاتاہے۔اورابن عامرہی زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَيْسَ لِلَّہِ حَاجَةٌ بِأَنْ يَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو (صائم) جھوٹ بولنا اور ا س پرعمل کرنانہ چھوڑے تواللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی بْنُ وَاصِلٍ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ حَدَّثَنَا أَبُو عَاتِكَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ اشْتَكَتْ عَيْنِي أَفَأَكْتَحِلُ وَأَنَا صَائِمٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَلَا يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْبَابِ شَيْءٌ وَأَبُو عَاتِكَةَ يُضَعَّفُ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ فَكَرِہَہُ بَعْضُہُمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر پوچھا: میری آنکھ آگئی ہے،کیا میں سرمہ لگالوں،میں صوم سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں (لگالو)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے،۲-اس باب میں نبی اکرمﷺ سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں،۳-ابوعاتکہ ضعیف قراردیے جاتے ہیں،۴-اس باب میں ابورافع سے بھی روایت ہے،۵-صائم کے سرمہ لگانے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض نے اسے مکروہ قراردیاہے ۱؎ یہ سفیان ثوری،ابن مبارک،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے اور بعض اہل علم نے صائم کو سرمہ لگانے کی رخصت دی ہے اور یہ شافعی کا قو ل ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حَفْصَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ حَفْصَةَ حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلُہُ وَہُوَ أَصَحُّ وَہَكَذَا أَيْضًا رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّہْرِيِّ مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَہُ إِلَّا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ وَإِنَّمَا مَعْنَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يُجْمِعْ الصِّيَامَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فِي رَمَضَانَ أَوْ فِي قَضَاءِ رَمَضَانَ أَوْ فِي صِيَامِ نَذْرٍ إِذَا لَمْ يَنْوِہِ مِنْ اللَّيْلِ لَمْ يُجْزِہِ وَأَمَّا صِيَامُ التَّطَوُّعِ فَمُبَاحٌ لَہُ أَنْ يَنْوِيَہُ بَعْدَ مَا أَصْبَحَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے صوم کی نیت فجر سے پہلے نہیں کرلی،اس کا صوم نہیں ہوا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کوہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،نیزاسے نافع سے بھی روایت کیا گیا ہے انہوں نے ابن عمرسے روایت کی ہے اور اسے ابن عمرہی کا قول قراردیا ہے،اس کا موقوف ہوناہی زیادہ صحیح ہے،اور اسی طرح یہ حدیث زہری سے بھی موقوفاً مروی ہے،ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اسے مرفوع کیا ہے یحیی بن ایوب کے سوا،۲-اس کا معنی اہل علم کے نزدیک صرف یہ ہے کہ اس کا صوم نہیں ہوتا،جو رمضان میں یا رمضان کی قضا میں یا نذر کے صیاممیں صوم کی نیت طلوع فجرسے پہلے نہیں کرتا۔اگر اس نے رات میں نیت نہیں کی تواس کاصوم نہیں ہوا،البتہ نفل صوم میں اس کے لیے صبح ہوجانے کے بعد بھی صوم کی نیت کرنامباح ہے۔یہی شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ ہِشَامٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَہَيْنَاہُ فَأَكَلْنَا مِنْہُ فَجَاءَ رَسُولُ اللہِ ﷺ فَبَدَرَتْنِي إِلَيْہِ حَفْصَةُ وَكَانَتْ ابْنَةَ أَبِيہَا فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَہَيْنَاہُ فَأَكَلْنَا مِنْہُ قَالَ اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرَوَی صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ ہَذَا وَرَوَاہُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَمَعْمَرٌ وَعُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْحُفَّاظِ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَائِشَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ عُرْوَةَ وَہَذَا أَصَحُّ لِأَنَّہُ رُوِيَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ سَأَلْتُ الزُّہْرِيَّ قُلْتُ لَہُ أَحَدَّثَكَ عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ لَمْ أَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ فِي ہَذَا شَيْئًا وَلَكِنِّي سَمِعْتُ فِي خِلَافَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ مِنْ نَاسٍ عَنْ بَعْضِ مَنْ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ عِيسَی بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَقَدْ ذَہَبَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ فَرَأَوْا عَلَيْہِ الْقَضَاءَ إِذَا أَفْطَرَ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور حفصہ دونوں صوم سے تھیں،ہمارے پاس کھانے کی ایک چیز آئی جس کی ہمیں رغبت ہوئی،توہم نے اس میں سے کھالیا۔اتنے میں رسول اللہﷺ آگئے،تو حفصہ مجھ سے سبقت کرگئیں-وہ اپنے باپ ہی کی بیٹی توتھیں-انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم لوگ صوم سے تھے۔ہمارے سامنے کھانا آگیا،تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی توہم نے اُسے کھالیا،آپ نے فرمایا:تم دونوں کسی اور دن اس کی قضا کرلینا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-صالح بن ابی اخضر اور محمد بن ابی حفصہ نے یہ حدیث بسندزہری عن عروہ عن عائشہ اسی کے مثل روایت کی ہے۔اور اسے مالک بن انس،معمر،عبیدا للہ بن عمر،زیاد بن سعد اوردوسرے کئی حفاظ نے بسند الزہری عن عائشہ مرسلاً روایت کی ہے او ر ان لوگوں نے اس میں عروہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے،اور یہی زیادہ صحیح ہے۔اس لیے کہ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے زہری سے پوچھا: کیا آپ سے اسے عروہ نے بیان کیا اورعروہ سے عائشہ نے روایت کی ہے؟ توانہوں نے کہا: میں نے اس سلسلے میں عروہ سے کوئی چیز نہیں سنی ہے۔میں نے سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں بعض ایسے لوگوں سے سنا ہے جنہوں نے ایسے شخص سے روایت کی ہے جس نے اس حدیث کے بارے میں عائشہ سے پوچھا،۲-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے۔ان لوگوں کاکہنا ہے کہ کوئی نفل صوم توڑدے تواس پر قضالازم ہے ۱؎ مالک بن انس کا یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ ہُوَ الْبَطِينُ وَہُوَ ابْنُ أَبِي عِمْرَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيہِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللہِ مِنْ ہَذِہِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَلَا الْجِہَادُ فِي سَبِيلِ اللہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَلَا الْجِہَادُ فِي سَبِيلِ اللہِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ذی الحجہ کے دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل اللہ کوان دنوں سے زیادہ محبوب ہوں،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں جہادکرنابھی نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہادکرنابھی نہیں،سوائے اس مجاہد کے جو اپنی جان اور مال دونوں لے کراللہ کی راہ میں نکلاپھرکسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابوہریرہ،عبداللہ بن عمرو بن العاص اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ وَاصِلٍ عَنْ نَہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَی اللہِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَہُ فِيہَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْہَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْہَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مَسْعُودِ بْنِ وَاصِلٍ عَنْ النَّہَّاسِ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْہُ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ مِثْلَ ہَذَا و قَالَ قَدْ رُوِيَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا شَيْءٌ مِنْ ہَذَا وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ فِي نَہَّاسِ بْنِ قَہْمٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو،ان ایام میں سے ہر دن کاصوم سال بھر کے صیام کے برابر ہے اوران کی ہررات کاقیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-ہم اسے صرف مسعود بن واصل کی حدیث سے اس طریق کے علاوہ جانتے ہیں اور مسعود نے نہّاس سے روایت کی ہے،۳-میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تووہ اسے کسی اور طریق سے نہیں جان سکے،۴-اس میں سے کچھ جسے قتادہ نے بسند سعید بن المسیب عن النبی ﷺ مرسلا ً روایت کی ہے،۴-یحییٰ بن سعید نے نہاس بن قہم پر ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے۔

حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَی الْقَزَّازُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ رَبَّكُمْ يَقُولُ كُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا إِلَی سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِہِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنْ النَّارِ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللہِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ وَإِنْ جَہِلَ عَلَی أَحَدِكُمْ جَاہِلٌ وَہُوَ صَائِمٌ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَسَلَامَةَ بْنِ قَيْصَرٍ وَبَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ وَاسْمُ بَشِيرٍ زَحْمُ بْنُ مَعْبَدٍ وَالْخَصَاصِيَةُ ہِيَ أُمُّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارارب فرماتاہے: ہرنیکی کا بدلہ دس گُنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے۔اورصوم میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔صوم جہنم کے لیے ڈھال ہے،صائم کے منہ کی بوا للہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے،اور اگرتم میں سے کوئی جاہل کسی کے ساتھ جہالت سے پیش آئے اوروہ صوم سے ہوتواسے کہہ دینا چاہئے کہ میں صوم سے ہوں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲-اس باب میں معاذ بن جبل،سہل بن سعد،کعب بن عجرہ،سلامہ بن قیصر اور بشیر بن خصاصیہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بشیر کانام زحم بن معبدہے اور خصاصیہ ان کی ماں ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ عَنْ ہِشَامِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَبَابًا يُدْعَی الرَّيَّانَ يُدْعَی لَہُ الصَّائِمُونَ فَمَنْ كَانَ مِنْ الصَّائِمِينَ دَخَلَہُ وَمَنْ دَخَلَہُ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتاہے۔صوم رکھنے والوں ۱؎ کو اس کی طرف بلایاجائے گا،تو جو صوم رکھنے والوں میں سے ہوگا اس میں داخل ہوجائے گااور جواس میں داخل ہوگیا،وہ کبھی پیاسا نہیں ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَی رَبَّہُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صائم کے لیے دوخوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کرتے وقت ہوتی ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ شَہِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي يَوْمِ النَّحْرِ بَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَنْہَی عَنْ صَوْمِ ہَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صَوْمِكُمْ وَعِيدٌ لِلْمُسْلِمِينَ وَأَمَّا يَوْمُ الْأَضْحَی فَكُلُوا مِنْ لُحُومِ نُسُكِكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ اسْمُہُ سَعْدٌ وَيُقَالُ لَہُ مَوْلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْہَرَ أَيْضًا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَزْہَرَ ہُوَ ابْنُ عَمِّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابوعبیدسعد کہتے ہیں کہ میں عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا،انہوں نے خطبے سے پہلے صلاۃ شروع کی،پھرکہا: میں نے رسول اللہﷺ کو ان دودنوں میں صوم رکھنے سے منع فرماتے سناہے،عیدالفطر کے دن سے،اس لیے کہ یہ تمہارے صیام سے افطار کادن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الا ٔضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ ﷺ كَانَتْ لَبَّيْكَ اللہُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنْ زَادَ فِي التَّلْبِيَةِ شَيْئًا مِنْ تَعْظِيمِ اللہِ فَلَا بَأْسَ إِنْ شَاءَ اللہُ وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَی تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِنَّمَا قُلْنَا لَا بَأْسَ بِزِيَادَةِ تَعْظِيمِ اللہِ فِيہَا لِمَا جَاءَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَہُوَ حَفِظَ التَّلْبِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ ثُمَّ زَادَ ابْنُ عُمَرَ فِي تَلْبِيَتِہِ مِنْ قِبَلِہِ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کا تلبیہ یہ تھا لَبَّیْکَ اللّہُمَّ لَبَّیْکَ،لَبَّیْکَ لاَشَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ،إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ،لاَ شَرِیکَ لَکَ ،(حاضر ہوں،اے اللہ میں حاضر ہوں،حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اورسلطنت بھی،تیرا کوئی شریک نہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،جابر،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا،ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔اوریہی سفیان،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴-شافعی کہتے ہیں: اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کااضافہ کرلے تو کوئی حرج نہیں ہوگا-ان شاء اللہ-لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے تلبیہ پر اکتفاکرے۔ شافعی کہتے ہیں: ہم نے جویہ کہا کہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھالینے میں کوئی حرج نہیں تواس دلیل سے کہ ابن عمرسے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے تلبیہ یادکیا پھر اپنی طرف سے اس میں لَبَّیْکَ وَالرَّغْبَائُ إِلَیْکَ وَالْعَمَلُ (حاضر ہوں،تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لئے ہے) کا اضافہ کیا ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّہُ أَہَلَّ فَانْطَلَقَ يُہِلُّ فَيَقُولُ لَبَّيْكَ اللہُمَّ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ قَالَ وَكَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ يَقُولُ ہَذِہِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَكَانَ يَزِيدُ مِنْ عِنْدِہِ فِي أَثَرِ تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

نافع کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکار تے ہوئے چلے،وہ کہہ رہے تھے: لَبَّیْکَ اللّہُمَّ لَبَّیْکَ،لاَ شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ،إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ،لاَ شَرِیکَ لَکَ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے تھے: یہ رسول اللہﷺ کا تلبیہ ہے،پھر وہ رسول اللہﷺ کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے: لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ،وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْکَ،لَبَّیْکَ وَالرَّغْبَائُ إِلَیْکَ وَالْعَمَلُ(حاضرہوں تیری خدمت میں حاضرہوں تیری خدمت میں اورخوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يَعْقُوبَ الْمَدَنِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ رَأَی النَّبِيَّ ﷺ تَجَرَّدَ لِإِہْلَالِہِ وَاغْتَسَلَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَقَدْ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ الِاغْتِسَالَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے کے لئے اپنے کپڑے اتارے اور غسل کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اہل علم کی ایک جماعت نے احرام باندھنے کے وقت غسل کرنے کو مستحب قرار دیاہے۔یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ الْمُحْرِمُ إِذَا لَمْ يَجِدْ الْإِزَارَ فَلْيَلْبَسْ السَّرَاوِيلَ وَإِذَا لَمْ يَجِدْ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرٍو نَحْوَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا لَمْ يَجِدْ الْمُحْرِمُ الْإِزَارَ لَبِسَ السَّرَاوِيلَ وَإِذَا لَمْ يَجِدْ النَّعْلَيْنِ لَبِسَ الْخُفَّيْنِ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ و قَالَ بَعْضُہُمْ عَلَی حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِذَا لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْہُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَبِہِ يَقُولُ مَالِكٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: محرم کو جب تہبند میسر نہ ہو تو پاجامہ پہن لے اور جب جوتے میسرنہ ہوں توخف (چمڑے کے موزے) پہن لے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس با ب میں ابن عمر اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ جب محرم تہ بند نہ پائے تو پاجامہ پہن لے،اورجب جوتے نہ پائے توخف(چرمی موزے) پہن لے۔یہ احمد کا قول ہے،۴-بعض نے ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث کی بنیاد پر جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہا ہے کہ جب وہ جوتے نہ پائے توخف(چرمی موزے) پہنے اوراسے کاٹ کر ٹخنے کے نیچے کرلے،سفیان ثوری،شافعی،اور مالک اسی کے قائل ہیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ مَكَّةَ نَہَارًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ مکہ میں دن کے وقت داخل ہوئے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَہْبٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَمَلَ مِنْ الْحَجَرِ إِلَی الْحَجَرِ ثَلَاثًا وَمَشَی أَرْبَعًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ الشَّافِعِيُّ إِذَا تَرَكَ الرَّمَلَ عَمْدًا فَقَدْ أَسَاءَ وَلَا شَيْءَ عَلَيْہِ وَإِذَا لَمْ يَرْمُلْ فِي الْأَشْوَاطِ الثَّلَاثَةِ لَمْ يَرْمُلْ فِيمَا بَقِيَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ عَلَی أَہْلِ مَكَّةَ رَمَلٌ وَلَا عَلَی مَنْ أَحْرَمَ مِنْہَا

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل ۱؎ کیا اور چار میں عام چل چلے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۴-شافعی کہتے ہیں: جب کوئی جان بوجھ کر رمل کرناچھوڑدے تواس نے غلط کیا لیکن اس پر کوئی چیز واجب نہیں اور جب اس نے ابتدائی تین پھیروں میں رمل نہ کیا ہوتو باقی میں نہیں کرے گا،۵-بعض اہل علم کہتے ہیں: اہل مکہ کے لیے رمل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر جس نے مکہ سے احرام باندھاہو۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّمَا سَعَی رَسُولُ اللہِ ﷺ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِيُرِيَ الْمُشْرِكِينَ قُوَّتَہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّہُ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَسْعَی بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَإِنْ لَمْ يَسْعَ وَمَشَی بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ رَأَوْہُ جَائِزًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیت اللہ کا طواف کیا اورصفا اور مروہ کے درمیان سعی کی،تاکہ مشرکین کو اپنی قوت دکھاسکیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عبا س رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ،ابن عمراور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صفا ومروہ کے درمیان سعی کرے،اگر وہ سعی نہ کرے بلکہ صفا ومروہ کے درمیان عام چال چلے تو اسے جائز سمجھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْہَانَ قَالَ رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَمْشِي فِي السَّعْيِ فَقُلْتُ لَہُ أَتَمْشِي فِي السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ قَالَ لَئِنْ سَعَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَسْعَی وَلَئِنْ مَشَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَمْشِي وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُہُ

کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہا کوسعی میں عام چال چلتے دیکھاتو میں نے ان سے کہا: کیا آپ صفا ومروہ کی سعی میں عام چال چلتے ہیں؟ انہوں نے کہاـ: اگر میں دوڑ وں تو میں نے رسول اللہﷺ کودوڑتے بھی دیکھا ہے،اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہﷺ کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے،اور میں کافی بوڑھاہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عمر سے اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَيْبَانَ قَالَ أَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ وَنَحْنُ وُقُوفٌ بِالْمَوْقِفِ مَكَانًا يُبَاعِدُہُ عَمْرٌو فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللہِ ﷺ إِلَيْكُمْ يَقُولُ كُونُوا عَلَی مَشَاعِرِكُمْ فَإِنَّكُمْ عَلَی إِرْثٍ مِنْ إِرْثِ إِبْرَاہِيمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ وَابْنُ مِرْبَعٍ اسْمُہُ يَزِيدُ بْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ وَإِنَّمَا يُعْرَفُ لَہُ ہَذَا الْحَدِيثُ الْوَاحِدُ

یزید بن شیبان کہتے ہیں: ہمارے پاس یزید بن مربع انصاری رضی اللہ عنہ آئے،ہم لوگ موقف (عرفات) میں ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جسے عمروبن عبداللہ امام سے دور سمجھتے تھے ۱؎ تویزیدبن مربع نے کہا:میں تمہاری طرف رسول اللہﷺ کا بھیجا ہوا قاصد ہوں،تم لوگ مشاعر ۲؎ پر ٹھہروکیونکہ تم ابراہیم کے وارث ہو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یزید بن مربع انصاری کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسے ہم صرف ابن عیینہ کے طریق سے جانتے ہیں،اورابن عیینہ عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں،۳-ابن مربع کانام یزید بن مربع انصاری ہے،ان کی صرف یہی ایک حدیث جانی جاتی ہے،۴-اس باب میں علی،عائشہ،جبیر بن مطعم،شرید بن سوید ثقفی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ حَدَّثَنَا ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ كَانَ عَلَی دِينِہَا وَہُمْ الْحُمْسُ يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ يَقُولُونَ نَحْنُ قَطِينُ اللہِ وَكَانَ مَنْ سِوَاہُمْ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ أَہْلَ مَكَّةَ كَانُوا لَا يَخْرُجُونَ مِنْ الْحَرَمِ وَعَرَفَةُ خَارِجٌ مِنْ الْحَرَمِ وَأَہْلُ مَكَّةَ كَانُوا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَيَقُولُونَ نَحْنُ قَطِينُ اللہِ يَعْنِي سُكَّانَ اللہِ وَمَنْ سِوَی أَہْلِ مَكَّةَ كَانُوا يَقِفُونَ بِعَرَفَاتٍ فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَالْحُمْسُ ہُمْ أَہْلُ الْحَرَمِ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: قریش اورا ن کے ہم مذہب لوگ-اور یہ حُمس ۱؎ کہلاتے ہیں-مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے: ہم تو اللہ کے خادم ہیں۔(عرفات نہیں جاتے)،اورجوان کے علاوہ لوگ تھے وہ عرفہ میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے آیت کریمہ ثُمَّ أَفِیضُوا مِنْ حَیْثُ أَفَاضَ النَّاسُ (البقرۃ: ۱۹۹) (اورتم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں)نازل فرمائی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اہل مکہ حرم سے باہر نہیں جاتے تھے اور عرفہ حرم سے باہر ہے۔اہل مکہ مزدلفہ ہی میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے: ہم اللہ کے آباد کئے ہوئے لوگ ہیں۔اور اہل مکہ کے علاوہ لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے تواللہ نے حکم نازل فرمایا: تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں حمس سے مراد اہل حرم ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ صَلَّی بِجَمْعٍ. فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِإِقَامَةٍ. وَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فَعَلَ مِثْلَ ہَذَا،فِي ہَذَا الْمَكَانِ

عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا نے مزدلفہ میں صلاۃ پڑھی اورایک اقامت سے مغرب اور عشا کی دونوں صلاتیں ایک ساتھ ملاکر پڑھیں اورکہا: میں نے رسول اللہﷺ کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھاہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ،عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِہِ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: قَالَ يَحْيَی. وَالصَّوَابُ حَدِيثُ سُفْيَانَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي أَيُّوبَ وَعَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ ابْنُ عُمَرَ،فِي رِوَايَةِ سُفْيَانَ،أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ. وَحَدِيثُ سُفْيَانَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ لأَنَّہُ لاَتُصَلَّی صَلاَةُ الْمَغْرِبِ دُونَ جَمْعٍ. فَإِذَا أَتَی جَمْعًا،وَہُوَ الْمُزْدَلِفَةُ،جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ،وَلَمْ يَتَطَوَّعْ فِيمَا بَيْنَہُمَا،وَہُوَ الَّذِي اخْتَارَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ وَذَہَبَ إِلَيْہِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. قَالَ سُفْيَانُ: وَإِنْ شَائَ صَلَّی الْمَغْرِبَ،ثُمَّ تَعَشَّی وَوَضَعَ ثِيَابَہُ،ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعِشَائَ. فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَيْنِ. يُؤَذِّنُ لِصَلاَةِ الْمَغْرِبِ وَيُقِيمُ،وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ. ثُمَّ يُقِيمُ وَيُصَلِّي الْعِشَائَ. وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَرَوَی إِسْرَائِيلُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَبْدِاللہِ وَخَالِدٍ،ابْنَيْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ ہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا. رَوَاہُ سَلَمَةُ بْنُ كُہَيْلٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ. وَأَمَّا أَبُوإِسْحَاقَ فَرَوَاہُ عَنْ عَبْدِاللہِ وَخَالِدٍ،ابْنَيْ مَالِكٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ.

اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ سے اسی کے مثل راویت کرتے ہیں۔محمد بن بشارنے (حدثنا کے بجائے) قال یحیی کہاہے۔اور صحیح سفیان والی روایت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہا کی حدیث جسے سفیان نے روایت کی ہے اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے،اور سفیان کی حدیث صحیح حسن ہے،۲-اسرائیل نے یہ حدیث ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی نے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اورخالدسے اورعبداللہ اورخالدنے ابن عمرسے روایت کی ہے۔اورسعید بن جبیر کی حدیث جسے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،سلمہ بن کہیل نے اسے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے،رہے ابواسحاق سبیعی تو انہوں نے اسے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اورخالدسے اوران دونوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے،۳-اس باب میں علی،ابوایوب،عبداللہ بن سعید،جابر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔اس لیے کہ مغرب مزدلفہ آنے سے پہلے نہیں پڑھی جائے گی،جب حجاج جمع ۱؎ یعنی مزدلفہ جائیں تودونوں صلاتیں ایک اقامت سے اکٹھی پڑھیں اوران کے درمیان کوئی نفل صلاۃ نہیں پڑھیں گے۔یہی مسلک ہے جسے بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے اوراس کی طرف گئے ہیں اوریہی سفیان ثوری کابھی قول ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہے تومغرب پڑھے پھرشام کا کھانا کھائے،اور اپنے کپڑے اتارے پھر تکبیرکہے اور عشا ء پڑھے،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرے۔مغرب کے لیے اذان کہے اور تکبیرکہے اورمغرب پڑھے،پھرتکبیر کہے اور عشاء پڑھے یہ شافعی کاقول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ حَدَّثَنَا عِيسَی بْنُ يُونُسَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًی وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّہُ لَا يَرْمِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ إِلَّا بَعْدَ الزَّوَالِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ دسویں ذی الحجہ کو(ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثر اہل علم کااسی حدیث پر عمل ہے کہ وہ دسویں ذی الحجہ کے زوال بعد کے بعد ہی رمی کرے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَمَی الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ رَاكِبًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَقُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَأُمِّ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَاخْتَارَ بَعْضُہُمْ أَنْ يَمْشِيَ إِلَی الْجِمَارِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَمْشِي إِلَی الْجِمَارِ وَوَجْہُ ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا أَنَّہُ رَكِبَ فِي بَعْضِ الْأَيَّامِ لِيُقْتَدَی بِہِ فِي فِعْلِہِ وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُسْتَعْمَلٌ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دسویں ذی الحجہ کوجمرہ کی رمی سواری پرکی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں جابر،قدامہ بن عبداللہ،اورسلیمان بن عمرو بن احوص کی ماں (رضی اللہ عنہم) سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،۴-بعض نے یہ پسند کیا ہے کہ وہ جمرات تک پیدل چل کر جائیں،۵-ابن عمر سے مروی ہے،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ جمرات تک پیدل چل کر جاتے،۶-ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی کبھار سواری پر رمی اس لیے کی تاکہ آپ کے اس فعل کی بھی لوگ پیروی کریں۔اوردونوں ہی حدیثوں پر اہل علم کا عمل ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا رَمَی الْجِمَارَ مَشَی إِلَيْہَا ذَاہِبًا وَرَاجِعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ و قَالَ بَعْضُہُمْ يَرْكَبُ يَوْمَ النَّحْرِ وَيَمْشِي فِي الْأَيَّامِ الَّتِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَكَأَنَّ مَنْ قَالَ ہَذَا إِنَّمَا أَرَادَ اتِّبَاعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي فِعْلِہِ لِأَنَّہُ إِنَّمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ رَكِبَ يَوْمَ النَّحْرِ حَيْثُ ذَہَبَ يَرْمِي الْجِمَارُ وَلَا يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ إِلَّا جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ جب رمی جمارکرتے،توجمرات تک پیدل آتے جاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-بعض لوگوں نے اسے عبیداللہ (العمری) سے روایت کیاہے،لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے،۳-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۴-بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوسکتا ہے،اور دسویں کے بعد باقی دنوں میں پیدل جائے گا۔گویا جس نے یہ کہاہے اس کے پیش نظر صرف نبی اکرمﷺ کے اس فعل کی اتباع ہے۔اس لیے کہ نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوئے جب آپ رمی جمار کرنے گئے۔اور دسویں ذی الحجہ کوصرف جمرۂ عقبہ ہی کی رمی کرے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يَرَوْنَ الْجَزُورَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَرُوِي عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْجَزُورَ عَنْ عَشَرَةٍ وَہُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ وَاحْتَجَّ بِہَذَا الْحَدِيثِ وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ وَجْہٍ وَاحِدٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال ہم نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ گائے اوراونٹ کو سات سات آدمیوں کی جانب سے نحر(ذبح) کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابوہریرہ،عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے،وہ کہتے ہیں کہ اونٹ سات لوگوں کی طرف سے اورگائے سات لوگوں کی طرف سے ہوگی۔اور یہی سفیان ثوری،شافعی اور احمد کا قول ہے،۴-ابن عباس رضی اللہ عنہا نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ گائے سات لوگوں کی طرف سے اور اونٹ دس لوگوں کی طرف سے کافی ہوگا ۱؎۔یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔ابن عباس کی حدیث کو ہم صرف ایک ہی طریق سے جانتے ہیں۔(ملاحظہ ہوآنے والی حدیث:۹۰۵)

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَحَضَرَ الْأَضْحَی فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً وَفِي الْجَزُورِ عَشَرَةً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہُوَ حَدِيثُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے کہ عیدالا ٔضحی کادن آگیا،چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے،اور یہ حسین بن واقد کی حدیث (روایت) ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ،حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ،عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ،قَالَ: رَفَعَتْ امْرَأَةٌ صَبِيًّا لَہَا إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ،فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللہِ! أَلِہَذَا حَجٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ،وَلَكِ أَجْرٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچّے کورسول اللہﷺ کی طرف اٹھاکرپوچھا: اللہ کے رسول! کیا اس پربھی حج ہے؟آپ نے فرمایا: ہاں،اوراجر تجھے ملے گا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر کی حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا قَزَعَةُ بْنُ سُوَيْدٍ الْبَاہِلِيُّ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ،عَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِاللہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ،نَحْوَہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنَّ الصَّبِيَّ إِذَا حَجَّ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ،فَعَلَيْہِ الْحَجُّ إِذَا أَدْرَكَ. لاَتُجْزِئُ عَنْہُ تِلْكَ الْحَجَّةُ عَنْ حَجَّةِ الإِسْلاَمِ. وَكَذَلِكَ الْمَمْلُوكُ إِذَا حَجَّ فِي رِقِّہِ،ثُمَّ أُعْتِقَ،فَعَلَيْہِ الْحَجُّ إِذَا وَجَدَ إِلَی ذَلِكَ سَبِيلاً. وَلاَ يُجْزِئُ عَنْہُ مَا حَجَّ فِي حَالِ رِقِّہِ . وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ

اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ محمد بن منکدر سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے،۲-اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ بچہ جب بالغ ہونے سے پہلے حج کرلے تو (اس کافریضہ ساقط نہیں ہوگا)جب وہ بالغ ہوجائے گا تو اس کے ذمہ حج ہوگا،کم سنی کا یہ حج اسلام کے عائد کردہ فریضہ حج کے لیے کافی نہیں ہوگا۔اسی طرح غلام کا معاملہ ہے،اگر وہ غلامی میں حج کرچکا ہو پھرآزاد کردیاجائے تو آزادی کی حالت میں اس پر حج فرض ہوگاجب وہ اس کی سبیل پالے،غلامی کی حالت میں کیا ہوا حج کافی نہیں ہوگا۔سفیان ثوری،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ حَجَّ بِي أَبِي مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ أَجْمَعَ أَہْلُ الْعِلْمِ أَنَّ الصَّبِيَّ إِذَا حَجَّ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ فَعَلَيْہِ الْحَجُّ إِذَا أَدْرَكَ لَا تُجْزِئُ عَنْہُ تِلْكَ الْحَجَّةُ عَنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ وَكَذَلِكَ الْمَمْلُوكُ إِذَا حَجَّ فِي رِقِّہِ ثُمَّ أُعْتِقَ فَعَلَيْہِ الْحَجُّ إِذَا وَجَدَ إِلَی ذَلِكَ سَبِيلًا وَلَا يُجْزِئُ عَنْہُ مَا حَجَّ فِي حَالِ رِقِّہِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

سائب بن یزید رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میرے باپ نے حجۃ الوداع میں مجھے ساتھ لے کررسول اللہﷺ کے ساتھ حج کیا،میں سات برس کا تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَطَاءٍ قَالَ و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْہِرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْہَا قَالَ نَعَمْ حُجِّي عَنْہَا قَالَ وَہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکرعرض کیا: میری ماں مرگئی ہے،وہ حج نہیں کرسکی تھی،کیامیں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،تو اس کی طرف سے حج کرلے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ عَنْ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ أَنَّہُ أَتَی النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ قَالَ حُجَّ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِنَّمَا ذُكِرَتْ الْعُمْرَةُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ أَنْ يَعْتَمِرَ الرَّجُلُ عَنْ غَيْرِہِ وَأَبُو رَزِينٍ الْعُقَيْلِيُّ اسْمُہُ لَقِيطُ بْنُ عَامِرٍ

ابورزین عقیلی لقیط بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں،وہ حج و عمرہ کرنے اور سوار ہوکرسفرکرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج اورعمرہ کرلو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-عمرے کا ذکرصرف اسی حدیث میں مذکورہواہے کہ آدمی غیر کی طرف سے عمرہ کرسکتا ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنْ لَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْہُرِ الْحَجِّ وَہَكَذَا فَسَّرَہُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ أَہْلَ الْجَاہِلِيَّةِ كَانُوا لَا يَعْتَمِرُونَ فِي أَشْہُرِ الْحَجِّ فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ رَخَّصَ النَّبِيُّ ﷺ فِي ذَلِكَ فَقَالَ دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ يَعْنِي لَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْہُرِ الْحَجِّ وَأَشْہُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ لَا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُہِلَّ بِالْحَجِّ إِلَّا فِي أَشْہُرِ الْحَجِّ وَأَشْہُرُ الْحُرُمِ رَجَبٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ ہَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے‘‘۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں سراقہ بن جعشم اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔یہی تشریح شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کی ہے کہ جاہلیت کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرتے تھے،جب اسلام آیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا: ’’عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے‘‘،یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،اور اشہر حج شوال،ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں‘‘،کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں حج کا احرام باندھے،اور حرمت والے مہینے یہ ہیں: رجب،ذی قعدہ،ذی الحجہ اور محرم۔صحابہ کرام وغیر ہم میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں ۱ ؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ أَنَّہُ كَانَ يُنْكِرُ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ وَيَقُولُ أَلَيْسَ حَسْبُكُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ حج میں شرط لگانے سے انکارکرتے تھے اورکہتے تھے: کیا تمہارے لیے تمہارے نبی اکرمﷺ کا طریقہ کافی نہیں ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ عَقَلْتَہُ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ أَيْنَ صَلَّی الظُّہْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ قَالَ بِمِنًی قَالَ قُلْتُ فَأَيْنَ صَلَّی الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ قَالَ بِالْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَ افْعَلْ كَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ إِسْحَقَ بْنِ يُوسُفَ الْأَزْرَقِ عَنْ الثَّوْرِيِّ

عبدالعزیزبن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھ سے آپ کوئی ایسی بات بیان کیجیے جو آپ نے رسول اللہﷺ سے یاد کررکھی ہو۔بتائیے آپ نے آٹھویں ذی الحجہ کو ظہر کہاں پڑھی؟انہوں نے کہا: منیٰ میں،(پھر)میں نے پوچھا: اور کوچ کے دن عصر کہاں پڑھی؟کہا: ابطح میں لیکن تم ویسے ہی کرو جیسے تمہارے امراء وحکام کرتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور اسحاق بن یوسف الازرق کی روایت سے غریب جانی جاتی ہے جسے انہوں نے ثوری سے روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی خَبَّابٍ وَقَدْ اكْتَوَی فِي بَطْنِہِ فَقَالَ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا لَقِيَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ الْبَلَاءِ مَا لَقِيتُ لَقَدْ كُنْتُ وَمَا أَجِدُ دِرْہَمًا عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ وَفِي نَاحِيَةٍ مِنْ بَيْتِي أَرْبَعُونَ أَلْفًا وَلَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَانَا أَوْ نَہَی أَنْ نَتَمَنَّی الْمَوْتَ لَتَمَنَّيْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ خَبَّابٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

حارثہ بن مضرب کہتے ہیں: میں خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا،ان کے پیٹ میں آگ سے داغ کے نشانات تھے،توانہوں نے کہا:نہیں جانتاکہ صحابہ میں کسی نے اتنی مصیبت جھیلی ہو جو میں نے جھیلی ہے،نبی اکرمﷺ کے عہد میں میرے پاس ایک درہم بھی نہیں ہوتاتھا،جب کہ اس وقت میرے گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں،اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں موت کی تمنا کرنے سے نہ روکا ہوتا تو میں موت کی تمنا ضرورکرتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-خباب رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،ابوہریرہ،اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِہِ وَلْيَقُلْ اللہُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتْ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُہَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ہرگز کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس پرنازل ہوئی ہوموت کی تمنانہ کرے۔بلکہ وہ یوں کہے:اللّہُمَّ! أَحْیِنِی مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِی،وَتَوَفَّنِی إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِیاے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہترہو،اور مجھے موت دے جب میرے لیے موت بہترہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَی بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَسُعْدَی الْمُرِّيَّةِ وَہِيَ امْرَأَةُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم اپنے مرنے والے لوگوں کو جوبالکل مرنے کے قریب ہوں لا إلہ إلا اللہ کی تلقین ۱؎ کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوسعیدخدری کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،ام سلمہ،عائشہ،جابر،سُعدیٰ مریہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-سُعدیٰ مریہ طلحہ بن عبید اللہ کی بیوی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا حَضَرْتُمْ الْمَرِيضَ أَوْ الْمَيِّتَ فَقُولُوا خَيْرًا فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَی مَا تَقُولُونَ قَالَتْ فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ مَاتَ قَالَ فَقُولِيَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَہُ وَأَعْقِبْنِي مِنْہُ عُقْبَی حَسَنَةً قَالَتْ فَقُلْتُ فَأَعْقَبَنِي اللہُ مِنْہُ مَنْ ہُوَ خَيْرٌ مِنْہُ رَسُولَ اللہِ ﷺ شَقِيقٌ ہُوَ ابْنُ سَلَمَةَ أَبُو وَائِلٍ الْأَسَدِيُّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَانَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُلَقَّنَ الْمَرِيضُ عِنْدَ الْمَوْتِ قَوْلَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا قَالَ ذَلِكَ مَرَّةً فَمَا لَمْ يَتَكَلَّمْ بَعْدَ ذَلِكَ فَلَا يَنْبَغِي أَنْ يُلَقَّنَ وَلَا يُكْثَرَ عَلَيْہِ فِي ہَذَا وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ لَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاةُ جَعَلَ رَجُلٌ يُلَقِّنُہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَأَكْثَرَ عَلَيْہِ فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللہِ إِذَا قُلْتُ مَرَّةً فَأَنَا عَلَی ذَلِكَ مَا لَمْ أَتَكَلَّمْ بِكَلَامٍ وَإِنَّمَا مَعْنَی قَوْلِ عَبْدِ اللہِ إِنَّمَا أَرَادَ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مَنْ كَانَ آخِرُ قَوْلِہِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ دَخَلَ الْجَنَّةَ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: جب تم مریض کے پاس یا کسی مرے ہوے آدمی کے پاس آؤتواچھی بات کہو ۱؎،اس لیے کہ جوتم کہتے ہو اس پر ملائکہ آمین کہتے ہیں،جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا،تومیں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسلمہ کا انتقال ہوگیاہے۔آپ نے فرمایا: تو تم یہ دعا پڑھو: اللّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَلَہُ. وَأَعْقِبْنِی مِنْہُ عُقْبَی حَسَنَۃً (اے اللہ! مجھے اور انہیں معاف فرمادے،اور مجھے ان کا نعم البدل عطافرما) وہ کہتی ہیں: جب میں نے یہ دعاپڑھی تو اللہ نے مجھے ایسی ہستی عطا کردی جو ان سے بہتر تھی یعنی رسول اللہ ﷺکوعطا کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ مستحب سمجھا جاتا تھا کہ مریض کو اس کی موت کے وقت لا إلہ إلا اللہ کی تلقین کی جائے،۳-بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ (میت) اسے ایک بار کہہ دے اور اس کے بعد پھرنہ بولے تو مناسب نہیں کہ اس کے سامنے بار بار یہ کلمہ دہرایا جائے،۴-ابن مبارک کے بارے میں مروی ہے کہ جب ان کی موت کاوقت آیا،تو ایک شخص انہیں لا إلہ إلا اللہ کی تلقین کرنے لگا اور باربارکرنے لگا،عبداللہ بن مبارک نے اس سے کہا: جب تم نے ایک بار کہہ دیا تو میں اب اسی پر قائم ہوں جب تک کوئی اورگفتگو نہ کروں،عبداللہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ ان کی مراد اس سے وہی تھی جو نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ جس کا آخری قوللا إلہ إلا اللہ ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ وَيَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْأَسَدِيِّ قَالَ مَاتَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَہُ قَرَظَةُ بْنُ كَعْبٍ فَنِيحَ عَلَيْہِ فَجَاءَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَيْہِ وَقَالَ مَا بَالُ النَّوْحِ فِي الْإِسْلَامِ أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ نِيحَ عَلَيْہِ عُذِّبَ بِمَا نِيحَ عَلَيْہِ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَأَبِي مُوسَی وَقَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَجُنَادَةَ بْنِ مَالِكٍ وَأَنَسٍ وَأُمِّ عَطِيَّةَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

علی بن ربیعہ اسدی کہتے ہیں:انصار کا قرظہ بن کعب نامی ایک شخص مرگیا،اس پر نوحہ ۱؎ کیاگیاتو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ آئے اور منبر پر چڑھے۔اوراللہ کی حمد وثنا بیان کی پھرکہا: کیا بات ہے؟ اسلام میں نوحہ ہورہاہے۔سنو! میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سناہے: حس پر نوحہ کیاگیا اس پر نوحہ کیے جانے کا عذاب ہوگا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-مغیرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،علی،ابوموسیٰ،قیس بن عاصم،ابوہریرہ،جنادہ بن مالک،انس،ام عطیہ،سمرہ اورابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ وَالْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِيَّةِ لَنْ يَدَعَہُنَّ النَّاسُ النِّيَاحَةُ وَالطَّعْنُ فِي الْأَحْسَابِ وَالْعَدْوَی أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائَةَ بَعِيرٍ مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الْأَوَّلَ وَالْأَنْوَاءُ مُطِرْنَا بِنَوْءٍ كَذَا وَكَذَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی ہیں،لوگ انہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے: نوحہ کرنا،حسب ونسب میں طعنہ زنی،اوربیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانے کاعقیدہ رکھنا مثلاً یوں کہناکہ ایک اونٹ کوکھجلی ہوئی اور اس نے سواونٹ میں کھجلی پھیلادی تو آخر پہلے اونٹ کوکھجلی کیسے لگی؟ اور نچھتروں کا عقیدہ رکھنا۔مثلاًفلاں اورفلاں نچھتر(ستارے) کے سبب ہم پر بارش ہوئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا ہِقْلُ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَنِي أَبُو إِبْرَاہِيمَ الْأَشْہَلِيُّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا صَلَّی عَلَی الْجَنَازَةِ قَالَ اللہُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا قَالَ يَحْيَی وَحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ذَلِكَ وَزَادَ فِيہِ اللہُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَہُ مِنَّا فَأَحْيِہِ عَلَی الْإِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الْإِيمَانِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَعَائِشَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ وَالِدِ أَبِي إِبْرَاہِيمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی ہِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلًا وَرَوَی عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَحَدِيثُ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَعِكْرِمَةُ رُبَّمَا يَہِمُ فِي حَدِيثِ يَحْيَی وَرُوِي عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ أَصَحُّ الرِّوَايَاتِ فِي ہَذَا حَدِيثُ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي إِبْرَاہِيمَ الْأَشْہَلِيِّ عَنْ أَبِيہِ وَسَأَلْتُہُ عَنْ اسْمِ أَبِي إِبْرَاہِيمَ فَلَمْ يَعْرِفْہُ

ابوابراہیم اشہلی کے والد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب صلاۃِ جنازہ پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے: اللّہُمَّ! اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا،وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا،وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا،وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا (اے اللہ! بخش دے ہمارے زندوں کو،ہمارے مردوں کو،ہمارے حاضر کو اورہمارے غائب کو،ہمارے چھوٹے کو اورہمارے بڑے کو،ہمارے مردوں کو اورہماری عورتوں کو)۔یحیی بن ابی کثیرکہتے ہیں: ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے مجھ سے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے:اللّہُمَّ! مَنْ أَحْیَیْتَہُ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِسْلاَمِ. وَمَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِیمَانِ. (اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھ،اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دے) امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوابراہیم کے والد کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہشام دستوائی اورعلی بن مبارک نے یہ حدیث بطریق: یحیی بن أبی کثیر،عن أبی سلمۃ،عن النبی ﷺ مرسلاً روایت کی ہے،اور عکرمہ بن عمارنے بطریق: یحیی بن أبی کثیر،عن أبی سلمۃ،عن عائشۃ،عن النبی ﷺ روایت کی ہے۔عکرمہ بن عمار کی حدیث غیر محفوظ ہے۔عکرمہ کو بسااوقات یحییٰ بن ابی کثیرکی حدیث میں وہم ہوجاتا ہے۔نیزیہ یَحْیَی بْنِ أَبِی کَثِیرٍسے عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ،عَنْ أَبِیہِ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ. کے طریق سے بھی مروی ہے،میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ اس سلسلے میں یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: أبی إبراہیم الأشہلی،عن أبیہ روایت کی ہے سب سے زیادہ صحیح روایت ہے۔میں نے ان سے ابوابراہیم کانام پوچھا تووہ اُسے نہیں جان سکے،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن،عائشہ،ابوقتادہ،عوف بن مالک اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُصَلِّي عَلَی مَيِّتٍ فَفَہِمْتُ مِنْ صَلَاتِہِ عَلَيْہِ اللہُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ وَاغْسِلْہُ بِالْبَرَدِ وَاغْسِلْہُ كَمَا يُغْسَلُ الثَّوْبُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ مُحَمَّدٌ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ ہَذَا الْحَدِيثُ

عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو میت پر صلاۃِجنازہ پڑھتے سناتو میں نے اس پرآپ کی صلاۃسے یہ کلمات یاد کیے:اللّہُمَّ! اغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ وَاغْسِلْہُ بِالْبَرَدِ. وَاغْسِلْہُ کَمَا یُغْسَلُ الثَّوْبُ (اے اللہ! اسے بخش دے،اس پر رحم فرما،اسے برف سے دھودے،اور اسے (گناہوں سے) ایسے دھودے جیسے کپڑے دھوئے جاتے ہیں)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب کی سب سے صحیح یہی حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ بِنْتِ أَزْہَرَ السَّمَّانِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ الرَّاكِبُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ وَالْمَاشِي حَيْثُ شَاءَ مِنْہَا وَالطِّفْلُ يُصَلَّی عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاہُ إِسْرَائِيلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدِ اللہِ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ قَالُوا يُصَلَّی عَلَی الطِّفْلِ وَإِنْ لَمْ يَسْتَہِلَّ بَعْدَ أَنْ يُعْلَمَ أَنَّہُ خُلِقَ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: سواری والے جنازے کے پیچھے رہے،پیدل چلنے والے جہاں چاہے رہے،اور بچوں کی بھی صلاۃ جنازہ پڑھی جائے گی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اسرائیل اوردیگر کئی لوگوں نے اِسے سعید بن عبداللہ سے روایت کیا ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کی صلاۃِ جنازہ یہ جان لینے کے بعدکہ اس میں جان ڈال دی گئی تھی پڑھی جائے گی گو (ولادت کے وقت) وہ رویانہ ہو،احمد او ر اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُنِيرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ ہَمَّامٍ عَنْ أَبِي غَالِبٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَلَی جَنَازَةِ رَجُلٍ فَقَامَ حِيَالَ رَأْسِہِ ثُمَّ جَاءُوا بِجَنَازَةِ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَقَالُوا يَا أَبَا حَمْزَةَ صَلِّ عَلَيْہَا فَقَامَ حِيَالَ وَسَطِ السَّرِيرِ فَقَالَ لَہُ الْعَلَاءُ بْنُ زِيَادٍ ہَكَذَا رَأَيْتَ النَّبِيَّ ﷺ قَامَ عَلَی الْجَنَازَةِ مُقَامَكَ مِنْہَا وَمِنْ الرَّجُلِ مُقَامَكَ مِنْہُ قَالَ نَعَمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ احْفَظُوا وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ہَمَّامٍ مِثْلَ ہَذَا وَرَوَی وَكِيعٌ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ہَمَّامٍ فَوَہِمَ فِيہِ فَقَالَ عَنْ غَالِبٍ عَنْ أَنَسٍ وَالصَّحِيحُ عَنْ أَبِي غَالِبٍ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي غَالِبٍ مِثْلَ رِوَايَةِ ہَمَّامٍ وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي غَالِبٍ ہَذَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ يُقَالُ اسْمُہُ نَافِعٌ وَيُقَالُ رَافِعٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کے ساتھ ایک آدمی کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے۔پھرلوگ قریش کی ایک عورت کاجنازہ لے کرآئے اورکہا: ابوحمزہ! اس کی بھی صلاۃِجنازہ پڑھادیجئے،تو وہ چارپائی کے بیچ میں یعنی عورت کی کمرکے سامنے کھڑے ہوئے،تو ان سے علاء بن زیاد نے پوچھا: آپ نے نبی اکرمﷺ کوعورت اورمرد کے جنازے میں اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھاہے۔جیسے آپ کھڑے ہوئے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں ۱؎۔اورجب جنازہ سے فارغ ہوئے توکہا: اس طریقہ کو یادکرلو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس کی یہ حدیث حسن ہے،۲-اورکئی لوگوں نے بھی ہمام سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔وکیع نے بھی یہ حدیث ہمام سے روایت کی ہے،لیکن انہیں وہم ہوا ہے۔انہوں نے عن غالب عن أنس کہاہے اورصحیح عن ابی غالب ہے،عبدالوارث بن سعید اوردیگرکئی لوگوں نے ابوغالب سے روایت کی ہے جیسے ہمام کی روایت ہے،۳-اس باب میں سمرہ سے بھی روایت ہے،۴-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں۔اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَالْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّی عَلَی امْرَأَةٍ فَقَامَ وَسَطَہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک عورت ۱؎ کی صلاۃِ جنازہ پڑھائی،تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمرکے پاس کھڑے ہوے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-شعبہ نے بھی اسے حسین المعلم سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ عَنْ الْمِنْہَالِ بْنِ خَلِيفَةَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ قَبْرًا لَيْلًا فَأُسْرِجَ لَہُ سِرَاجٌ فَأَخَذَہُ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ وَقَالَ رَحِمَكَ اللہُ إِنْ كُنْتَ لَأَوَّاہًا تَلَّاءً لِلْقُرْآنِ وَكَبَّرَ عَلَيْہِ أَرْبَعًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَيَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ وَہُوَ أَخُو زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَكْبَرُ مِنْہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَقَالُوا يُدْخَلُ الْمَيِّتُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ و قَالَ بَعْضُہُمْ يُسَلُّ سَلًّا وَرَخَّصَ أَكْثَرُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ ایک قبر میں رات کو داخل ہوئے تو آپ کے لیے ایک چراغ روشن کیاگیا۔آپ نے میت کوقبلے کی طرف سے لیا۔اور فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے! تم بہت نرم دل رونے والے،اور بہت زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والے تھے۔اور آپ نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عباس کی حدیث حسن ہے،۲-ا س باب میں جابر اور یزید بن ثابت سے بھی احادیث آئی ہیں اور یزیدبن ثابت،زید بن ثابت کے بھائی ہیں،اور ان سے بڑ ے ہیں،۳-بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ میت کو قبر میں قبلے کی طرف سے اتارا جائے گا ۱؎،۴-بعض کہتے ہیں: پائتانے کی طرف سے رکھ کر کھینچ لیں گے ۲؎،۵-اوراکثر اہل علم نے رات کودفن کرنے کی اجازت دی ہے ۳؎۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح و حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الشُّہَدَاءُ خَمْسٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْہَدْمِ وَالشَّہِيدُ فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ وَجَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ وَخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ وَسُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ وَأَبِي مُوسَی وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شہید پانچ لوگ ہیں: جو طاعون میں مراہو،جو پیٹ کے مرض سے مراہو،جو ڈوب کر مراہو،جو دیوار وغیرہ گرجانے سے مراہو،اور جواللہ کی راہ میں شہید ہواہو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،صفوان بن امیہ،جابر بن عتیک،خالد بن عرفطہ،سلیمان بن صرد،ابوموسیٰ اشعری اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنِ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو سِنَانٍ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ السَّبِيعِيِّ قَالَ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ لِخَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ أَوْ خَالِدٌ لِسُلَيْمَانَ أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ قَتَلَہُ بَطْنُہُ لَمْ يُعَذَّبْ فِي قَبْرِہِ فَقَالَ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ نَعَمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ فِي ہَذَا الْبَابِ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ ہَذَا الْوَجْہِ

ابواسحاق سبیعی کہتے ہیں کہ سلیمان بن صرد نے خالد بن عرفطہ سے (یاخالد نے سلیمان سے) پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے نہیں سنا؟ جسے اس کا پیٹ ماردے ۱؎ اسے قبر میں عذاب نہیں دیاجائے گا تو ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: ہاں(سناہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں یہ حدیث حسن غریب ہے،۲-اس کے علاوہ یہ اور بھی طریق سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ وَالْحَسَنِ ابْنَيْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيہِمَا عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَہْلِيَّةِ زَمَنَ خَيْبَرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ سَبْرَةَ الْجُہَنِيِّ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْءٌ مِنْ الرُّخْصَةِ فِي الْمُتْعَةِ ثُمَّ رَجَعَ عَنْ قَوْلِہِ حَيْثُ أُخْبِرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأَمْرُ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلَی تَحْرِيمِ الْمُتْعَةِ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے خیبر کی فتح کے وقت عورتوں سے متعہ ۱؎ کرنے سے اور گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں سبرہ جہنی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے،البتہ ابن عباس سے کسی قدر متعہ کی اجازت بھی روایت کی گئی ہے،پھرانہوں نے اس سے رجوع کرلیا جب انہیں نبی اکرمﷺ کے بارے میں اس کی خبردی گئی۔اکثر اہل علم کا معاملہ متعہ کی حرمت کا ہے،یہی ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ أَخُو قَبِيصَةَ بْنِ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ مُوسَی بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّمَا كَانَتْ الْمُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْبَلْدَةَ لَيْسَ لَہُ بِہَا مَعْرِفَةٌ فَيَتَزَوَّجُ الْمَرْأَةَ بِقَدْرِ مَا يَرَی أَنَّہُ يُقِيمُ فَتَحْفَظُ لَہُ مَتَاعَہُ وَتُصْلِحُ لَہُ شَيْئَہُ حَتَّی إِذَا نَزَلَتْ الْآيَةُ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُہُمْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَی ہَذَيْنِ فَہُوَ حَرَامٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں تھا۔آدمی جب کسی ایسے شہر میں جاتا جہاں اس کی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ اپنے قیام کی مدّت تک کے لیے کسی عورت سے شادی کرلیتا۔وہ اس کے سامان کی حفاظت کرتی۔اس کی چیزیں درست کرکے رکھتی۔یہاں تک کہ جب آیت کریمہ إِلاَّ عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُہُمْ (لوگ اپنی شرمگاہوں کو صرف دوہی جگہ کھول سکتے ہیں،ایک اپنی بیویوں پر،دوسرے اپنی ماتحت لونڈیوں پر) نازل ہوئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ان دوکے علاوہ باقی تمام شرمگاہیں حرام ہوگئیں۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْيَزَنِيِّ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُہَنِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَی بِہَا مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوجَ حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ إِذَا تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَةً وَشَرَطَ لَہَا أَنْ لَا يُخْرِجَہَا مِنْ مِصْرِہَا فَلَيْسَ لَہُ أَنْ يُخْرِجَہَا وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَرُوِي عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّہُ قَالَ شَرْطُ اللہِ قَبْلَ شَرْطِہَا كَأَنَّہُ رَأَی لِلزَّوْجِ أَنْ يُخْرِجَہَا وَإِنْ كَانَتْ اشْتَرَطَتْ عَلَی زَوْجِہَا أَنْ لَا يُخْرِجَہَا وَذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَبَعْضِ أَہْلِ الْكُوفَةِ

عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ پوری کیے جانے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے تم نے شرم گاہیں حلال کی ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے۔انہیں میں عمر بن خطاب بھی ہیں،وہ کہتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے شادی کی اور یہ شرط لگائی کہ وہ اسے اس کے شہر سے باہر نہیں لے جائے گا تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے باہر لے جائے،یہی بعض اہل علم کا قول ہے۔اور شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۳-البتہ علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کی شرط یعنی اللہ کا حکم عورت کی شرط پر مقدم ہے،گویا ان کی نظر میں شوہر کے لیے اسے اس کے شہر سے باہر لے جانا درست ہے اگرچہ اس نے اپنے شوہرسے اسے باہر نہ لے جانے کی شرط لگارکھی ہو،اوربعض اہل علم اس جانب گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کابھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ وَسَمِعْتُہُ مِنْ عُقْبَةَ وَلَكِنِّي لِحَدِيثِ عُبَيْدٍ أَحْفَظُ قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَقُلْتُ تَزَوَّجْتُ فُلَانَةَ بِنْتَ فُلَانٍ فَجَاءَتْنَا امْرَأَةٌ سَوْدَاءُ فَقَالَتْ إِنِّي قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا وَہِيَ كَاذِبَةٌ قَالَ فَأَعْرَضَ عَنِّي قَالَ فَأَتَيْتُہُ مِنْ قِبَلِ وَجْہِہِ فَأَعْرَضَ عَنِّي بِوَجْہِہِ فَقُلْتُ إِنَّہَا كَاذِبَةٌ قَالَ وَكَيْفَ بِہَا وَقَدْ زَعَمَتْ أَنَّہَا قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا دَعْہَا عَنْكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ دَعْہَا عَنْكَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ أَجَازُوا شَہَادَةَ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ فِي الرَّضَاعِ و قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تَجُوزُ شَہَادَةُ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ فِي الرَّضَاعِ وَيُؤْخَذُ يَمِينُہَا وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا تَجُوزُ شَہَادَةُ الْمَرْأَةِ الْوَاحِدَةِ حَتَّی يَكُونَ أَكْثَرَ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ لَا تَجُوزُ شَہَادَةُ امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ فِي الْحُكْمِ وَيُفَارِقُہَا فِي الْوَرَعِ

عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ایک عورت سے شادی کی تو ایک کالی کلوٹی عورت نے ہمارے پاس آکرکہا: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے،میں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیاکہ میں نے فلاں کی بیٹی فلاں سے شادی کی ہے،اب ایک کالی کلوٹی عورت نے آکرکہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے،وہ جھوٹ کہہ رہی ہے۔آپ نے اپنا چہرہ مجھ سے پھیر لیاتو میں آپ کے چہرے کی طرف سے آیا،آپ نے(پھر) اپنا چہرہ پھیرلیا۔میں نے عرض کیا: وہ جھوٹی ہے۔آپ نے فرمایا: یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ وہ کہہ چکی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔اپنی بیوی اپنے سے علاحدہ کردو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث کو کئی اوربھی لوگوں نے ابن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے اورابن ابی ملیکہ نے عقبۃ بن حارث سے روایت کی ہے اوران لوگوں نے اس میں عبیدبن ابی مریم کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے،نیزاس میں دعہا عنک (اسے اپنے سے علاحدہ کردو) کا ذکربھی نہیں ہے۔اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کااسی حدیث پر عمل ہے۔انہوں نے رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت کو درست قراردیا ہے،۴-ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی شہادت جائز ہے۔لیکن اس سے قسم بھی لی جائے گی۔احمد اوراسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،۵-اور بعض اہل علم نے کہاہے کہ ایک عورت کی گواہی درست نہیں جب تک کہ وہ ایک سے زائدنہ ہوں۔یہ شافعی کا قول ہے،۶-وکیع کہتے ہیں: ایک عورت کی گواہی فیصلے میں درست نہیں۔اوراگر ایک عورت کی گواہی سن کروہ بیوی سے علاحدگی اختیارکرلے تو یہ عین تقویٰ ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَسُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي أَوْفَی وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:اگرمیں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکو سجدہ کرے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں معاذ بن جبل،سراقہ بن مالک بن جعشم،عائشہ،ابن عباس،عبداللہ بن ابی اوفی،طلق بن علی،ام سلمہ،انس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ بَدْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ عَنْ أَبِيہِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا الرَّجُلُ دَعَا زَوْجَتَہُ لِحَاجَتِہِ فَلْتَأْتِہِ وَإِنْ كَانَتْ عَلَی التَّنُّورِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے بلائے تو اسے فوراً آناچاہئے اگر چہ وہ تنور پر ہو۔اما م ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبِي نَصْرٍ عَنْ مُسَاوِرٍ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُہَا عَنْہَا رَاضٍ دَخَلَتْ الْجَنَّةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت مرجائے اور اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَی عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تَجَاوَزَ اللہُ لِأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسَہَا مَا لَمْ تَكَلَّمْ بِہِ أَوْ تَعْمَلْ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا حَدَّثَ نَفْسَہُ بِالطَّلَاقِ لَمْ يَكُنْ شَيْءٌ حَتَّی يَتَكَلَّمَ بِہِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے میری امت کے خیالات کو جودل میں آتے ہیں معاف فرمادیاہے جب تک کہ وہ انہیں زبان سے ادانہ کرے،یا ان پر عمل نہ کرے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ آدمی جب اپنے دل میں طلاق کا خیال کرلے تو کچھ نہیں ہوگا،جب تک کہ وہ منہ سے نہ کہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ ذَوَّادِ بْنِ عُلْبَةَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْمُخْتَلِعَاتُ ہُنَّ الْمُنَافِقَاتُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِہَا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ لَمْ تَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے،اس کی سندقوی نہیں ہے،۲-نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے آپ نے فرمایا: جس عورت نے بلاکسی سبب کے اپنے شوہر سے خلع لیا،تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گی۔

أَنْبَأَنَا بِذَلِكَ بُنْدَارٌ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَہَا طَلَاقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْہَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَيُرْوَی ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ عَنْ ثَوْبَانَ وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ أَيُّوبَ بِہَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْہُ

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے بغیر کسی بات کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور یہ عن ایوب،عن ابی قلابۃ،عن ابی اسماء،عن ثوبان کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے،۳-بعض نے ایوب سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِہِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَا تَسْأَلْ الْمَرْأَةُ طَلَاقَ أُخْتِہَا لِتَكْفِئَ مَا فِي إِنَائِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے کہ جو اس کے برتن میں ہے اُسے اپنے میں انڈیل لے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الصَّنْعَانِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْكَبَائِرِ قَالَ الشِّرْكُ بِاللہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَقَوْلُ الزُّورِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرَةَ وَأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے کبیرہ گناہوں ۱؎ سے متعلق فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا،والدین کی نافرمانی کرنا،کسی کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا(کبائرمیں سے ہیں ۲؎)۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-اس باب میں ابوبکرہ،ایمن بن خریم اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ حَدَّثَنَا يَعْلَی بْنُ عَطَاءٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَدِيدٍ عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اللہُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِہَا قَالَ وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً أَوْ جَيْشًا بَعَثَہُمْ أَوَّلَ النَّہَارِ وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا وَكَانَ إِذَا بَعَثَ تِجَارَةً بَعَثَہُمْ أَوَّلَ النَّہَارِ فَأَثْرَی وَكَثُرَ مَالُہُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَبُرَيْدَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَلَا نَعْرِفُ لِصَخْرٍ الْغَامِدِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَی بْنِ عَطَاءٍ ہَذَا الْحَدِيثَ

صخر غامدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اے اللہ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے ۱؎ صخرکہتے ہیں کہ آپ جب کسی سریہ یالشکرکو روانہ کرتے تو اُسے دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔اور صخرایک تاجرآدمی تھے۔جب وہ تجارت کا سامان لے کر (اپنے آدمیوں کو) روانہ کرتے توانہیں دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔تو وہ مال دار ہوگئے اور ان کی دولت بڑھ گئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-صخر غامدی کی حدیث حسن ہے۔ہم اس حدیث کے علاوہ صخر غامدی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو،۲-اس باب میں علی،ابن مسعود،بریدہ،انس،ابن عمر،ابن عباس،اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ دَبَّرَ غُلَامًا لَہُ فَمَاتَ وَلَمْ يَتْرُكْ مَالًا غَيْرَہُ فَبَاعَہُ النَّبِيُّ ﷺ فَاشْتَرَاہُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ النَّحَّامِ قَالَ جَابِرٌ عَبْدًا قِبْطِيًّا مَاتَ عَامَ الْأَوَّلِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ لَمْ يَرَوْا بِبَيْعِ الْمُدَبَّرِ بَأْسًا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَكَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ بَيْعَ الْمُدَبَّرِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكٍ وَالْأَوْزَاعِيِّ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصارکے ایک شخص نے ۱؎ اپنے غلام کومدبّر ۲؎ بنادیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزا د ہو)،پھر وہ مرگیا،اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔تونبی اکرمﷺنے اسے بیچ دیا ۳؎ اورنعیم بن عبداللہ بن نحام نے اُسے خریدا۔جابر کہتے ہیں: وہ ایک قبطی غلام تھا۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ جابر بن عبداللہ سے اوربھی سندوں سے مروی ہے۔۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔یہ لوگ مدبّر غلام کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۴-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے مدبّرکی بیع کو مکروہ جاناہے۔یہ سفیان ثوری،مالک اور اوزاعی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ يَخْتَارَا قَالَ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا ابْتَاعَ بَيْعًا وَہُوَ قَاعِدٌ قَامَ لِيَجِبَ لَہُ الْبَيْعُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَحَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَسَمُرَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَالُوا الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ لَا بِالْكَلَامِ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا يَعْنِي الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ لِأَنَّ ابْنَ عُمَرَ ہُوَ رَوَی عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَی مَا رَوَی وَرُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوجِبَ الْبَيْعَ مَشَی لِيَجِبَ لَہُ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: بیچنے والا اورخریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کوباقی رکھنے اورفسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کرلیں ۲؎۔ نافع کہتے ہیں:جب ابن عمر کوئی چیز خرید تے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہوجاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہوجائے(اور اختیار باقی نہ رہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوبرزہ،حکیم بن حزام،عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمرو،سمرہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔اور یہی شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ تفرق سے مراد جسمانی جدائی ہے نہ کہ قولی جدائی،یعنی مجلس سے جدائی مرادہے گفتگوکاموضوع بدلنا مرادنہیں،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکے قول مالم یتفرقا سے مرادقولی جدائی ہے،پہلا قول زیادہ صحیح ہے،اس لیے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہی اس کو نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے۔اور وہ اپنی روایت کردہ حدیث کا معنی زیادہ جانتے ہیں اور ان سے مروی ہے کہ جب وہ بیع واجب(پکی) کرنے کا ارادہ کرتے تو (مجلس سے اٹھ کر) چل دیتے تاکہ بیع واجب ہوجائے،۵-ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَہُمَا فِي بَيْعِہِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِہِمَا ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْہِ فِي فَرَسٍ بَعْدَ مَا تَبَايَعَا وَكَانُوا فِي سَفِينَةٍ فَقَالَ لَا أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا وَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَہْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِہِمْ إِلَی أَنَّ الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَہَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ كَيْفَ أَرُدُّ ہَذَا وَالْحَدِيثُ فِيہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ صَحِيحٌ وَقَوَّی ہَذَا الْمَذْہَبَ وَمَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ مَعْنَاہُ أَنْ يُخَيِّرَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِيَ بَعْدَ إِيجَابِ الْبَيْعِ فَإِذَا خَيَّرَہُ فَاخْتَارَ الْبَيْعَ فَلَيْسَ لَہُ خِيَارٌ بَعْدَ ذَلِكَ فِي فَسْخِ الْبَيْعِ وَإِنْ لَمْ يَتَفَرَّقَا ہَكَذَا فَسَّرَہُ الشَّافِعِيُّ وَغَيْرُہُ وَمِمَّا يُقَوِّي قَوْلَ مَنْ يَقُولُ الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ لَا بِالْكَلَامِ حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بائع(بیچنے والا) اورمشتری(خریدار) جب تک جدانہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اورفسخ کردینے کا اختیار ہے،اگر وہ دونوں سچ کہیں اورسامان خوبی اور خرابی واضح کردیں توان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگران دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-اسی طرح ابوبرزہ اسلمی سے بھی مروی ہے کہ دو آدمی ایک گھوڑے کی بیع کرنے کے بعد اس کا مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے،وہ لوگ ایک کشتی میں تھے۔ابوبرزہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ تم دونوں جدا ہو ئے ہواور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: بائع اورمشتری کو جب تک (مجلس سے) جدانہ ہوں اختیار ہے،۳-اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ جدائی قول سے ہوگی،یہی سفیان ثوری کا قول ہے،اوراسی طرح مالک بن انس سے بھی مروی ہے،۴-اور ابن مبارک کا کہنا ہے کہ میں اس مسلک کو کیسے رد کردوں؟ جب کہ نبی اکرمﷺسے واردحدیث صحیح ہے،۵-اورانہوں نے اس کو قوی کہاہے۔نبی اکرمﷺکے قول إلا بیع الخیار کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بیع کے واجب کرنے کے بعد اختیار دے دے،پھر جب مشتری بیع کو اختیار کرلے تو اس کے بعد اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا،اگرچہ وہ دونوں جدانہ ہوئے ہوں۔اسی طرح شافعی وغیرہ نے اس کی تفسیر کی ہے،۶-اور جو لوگ جسمانی جدائی (تفرق بالابدان) کے قائل ہیں ان کے قول کو عبداللہ بن عمرو کی حدیث تقویت دے رہی ہے جسے وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔(آگے ہی آرہی ہے)

أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ وَلَا يَحِلُّ لَہُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَہُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَمَعْنَی ہَذَا أَنْ يُفَارِقَہُ بَعْدَ الْبَيْعِ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَہُ وَلَوْ كَانَتْ الْفُرْقَةُ بِالْكَلَامِ وَلَمْ يَكُنْ لَہُ خِيَارٌ بَعْدَ الْبَيْعِ لَمْ يَكُنْ لِہَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًی حَيْثُ قَالَ ﷺ وَلَا يَحِلُّ لَہُ أَنْ يُفَارِقَہُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَہُ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بائع اورمشتری جب تک جدانہ ہوں ان کو اختیار ہے الا یہ کہ بیع خیار ہو(تب جُداہو نے کے بعدبھی واپسی کا اختیارباقی رہتا ہے)،اور بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے ساتھی (مشتری) سے اس ڈر سے جدا ہوجائے کہ وہ بیع کوفسخ کردے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور اس کا معنی یہی ہے کہ بیع کے بعد وہ مشتری سے جُداہوجائے اس ڈرسے کہ وہ اسے فسخ کردے گا اور اگرجدائی صرف کلام سے ہوجاتی،اور بیع کے بعد مشتری کو اختیار نہ ہوتا تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہوگاجو کہ آپ نے فرمایاہے: بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مشتری سے اس ڈرسے جُداہوجائے کہ وہ اس کی بیع کو فسخ کردے گا۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ اشْتَرَی مُصَرَّاةً فَہُوَ بِالْخِيَارِ إِذَا حَلَبَہَا إِنْ شَاءَ رَدَّہَا وَرَدَّ مَعَہَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں (کئی دنوں سے) روک دیا گیا ہو،تو جب وہ اس کا دودھ دوہے تواسے اختیار ہے اگر وہ چاہے تو ایک صاع کھجور کے ساتھ اس کو واپس کردے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں انس اور ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ اشْتَرَی مُصَرَّاةً فَہُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنْ رَدَّہَا رَدَّ مَعَہَا صَاعًا مِنْ طَعَامٍ لَا سَمْرَاءَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا مِنْہُمْ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَمَعْنَی قَوْلِہِ لَا سَمْرَاءَ يَعْنِي لَا بُرَّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں روک دیاگیا ہو تو اسے تین دن تک اختیار ہے۔اگر وہ اسے واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کوئی غلہ بھی واپس کرے جوگیہوں نہ ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ہمارے اصحاب کا اسی پرعمل ہے۔ان ہی میں شافعی،ا حمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔آپ کے قول لاسمراء کا مطلب لابُرّ ہے یعنی گیہوں نہ ہو۔(کھانے کی کوئی اور چیز ہو،پچھلی حدیث میں کھجور کا تذکرہ ہے)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ فَقَالَ أَنَسٌ احْتَجَمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ وَحَجَمَہُ أَبُو طَيْبَةَ فَأَمَرَ لَہُ بِصَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَكَلَّمَ أَہْلَہُ فَوَضَعُوا عَنْہُ مِنْ خَرَاجِہِ وَقَالَ إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِہِ الْحِجَامَةَ أَوْ إِنَّ مِنْ أَمْثَلِ دَوَائِكُمْ الْحِجَامَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ

حمید کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ سے پچھنا لگانے والے کی کمائی کے بارے میں پوچھاگیا توانس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا،اورآپ کو پچھنا لگانے والے ابوطیبہ تھے،توآپ نے انہیں دوصاع غلہ دینے کا حکم دیا اوران کے مالکوں سے بات کی،توانہوں نے ابوطیبہ کے خراج میں کمی کردی اورآپ نے فرمایا: جن چیزوں سے تم دواکرتے ہوان میں سب سے افضل پچھنا ہے یا فرمایا: تمہاری بہتر دواؤں میں سے پچھنا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے پچھنا لگانے والے کی اجرت کو جائز قرار دیاہے۔یہی شافعی کا بھی قول ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ أَخْبَرَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ زَحْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ لَا تَبِيعُوا الْقَيْنَاتِ وَلَا تَشْتَرُوہُنَّ وَلَا تُعَلِّمُوہُنَّ وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيہِنَّ وَثَمَنُہُنَّ حَرَامٌ فِي مِثْلِ ہَذَا أُنْزِلَتْ ہَذِہِ الْآيَةُ وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَہْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِثْلَ ہَذَا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ وَضَعَّفَہُ وَہُوَ شَامِيٌّ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گانے والی لونڈیوں کونہ بیچواورنہ انہیں خریدو،اور نہ انہیں (گانا) سکھاؤ ۱؎،ان کی تجارت میں خیر وبرکت نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔اور اسی جیسی چیزوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے:وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْتَرِی لَہْوَ الْحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللہِ (اوربعض لوگ ایسے ہیں جو لغوباتوں کو خریدلیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں)(لقمان: ۶)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوامامہ کی حدیث کو ہم اس طرح صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،اوربعض اہل علم نے علی بن یزید کے بارے میں کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے۔اوریہ شام کے رہنے والے ہیں،۲-اس باب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ دَخَلَ حَائِطًا فَلْيَأْكُلْ وَلَا يَتَّخِذْ خُبْنَةً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ وَرَافِعِ بْنِ عَمْرٍو وَعُمَيْرٍ مَوْلَی آبِي اللَّحْمِ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ سَلِيمِ وَقَدْ رَخَّصَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لِابْنِ السَّبِيلِ فِي أَكْلِ الثِّمَارِ وَكَرِہَہُ بَعْضُہُمْ إِلَّا بِالثَّمَنِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جوشخص کسی باغ میں داخل ہو تو (پھل) کھائے،کپڑوں میں باندھ کر نہ لے جائے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث غریب ہے۔ہم اسے اس طریق سے صرف یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲-اس باب مین عبداللہ بن عمرو،عباد بن شرحبیل،رافع بن عمرو،عمیر مولی آبی اللحم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم نے راہ گیر کے لیے پھل کھانے کی رخصت دی ہے۔اور بعض نے اسے ناجائزکہا ہے،الا یہ کہ قیمت اداکرکے ہو۔

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَی عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ كُنْتُ أَرْمِي نَخْلَ الْأَنْصَارِ فَأَخَذُونِي فَذَہَبُوا بِي إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ يَا رَافِعُ لِمَ تَرْمِي نَخْلَہُمْ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ الْجُوعُ قَالَ لَا تَرْمِ وَكُلْ مَا وَقَعَ أَشْبَعَكَ اللہُ وَأَرْوَاكَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ

رافع بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھرمارتاتھا،ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور نبی اکرمﷺکے پاس لے گئے آپ نے پوچھا:رافع!تم ان کے کھجورکے درختوں پر پتھرکیوں مارتے ہو؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے،آپ نے فرمایا: پتھرمت مارو،جو خود بخود گرجائے اسے کھاؤ اللہ تمہیں آسودہ اور سیراب کرے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنْ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ فَقَالَ مَنْ أَصَابَ مِنْہُ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے لٹکے ہوئے پھل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: جو ضرورت منداس میں سے (ضرورت کے مطابق) لے لے اور کپڑے میں جمع کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْمُنَابَذَةِ وَالْمُلَامَسَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ أَنْ يَقُولَ إِذَا نَبَذْتُ إِلَيْكَ الشَّيْءَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ وَالْمُلَامَسَةُ أَنْ يَقُولَ إِذَا لَمَسْتَ الشَّيْءَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ وَإِنْ كَانَ لَا يَرَی مِنْہُ شَيْئًا مِثْلَ مَا يَكُونُ فِي الْجِرَابِ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ وَإِنَّمَا كَانَ ہَذَا مِنْ بُيُوعِ أَہْلِ الْجَاہِلِيَّةِ فَنَہَی عَنْ ذَلِكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیع منابذہ اور بیع ملامسہ سے منع فرمایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوسعید اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے: جب میں تمہاری طرف یہ چیز پھینک دوں تو میرے اور تمہارے درمیان بیع واجب ہوجائے گی۔(یہ منابذہ کی صورت ہے)اور ملامسہ یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے: جب میں یہ چیز چھولوں تو بیع واجب ہوجائے گی اگرچہ وہ سامان کو بالکل نہ دیکھ رہاہو۔مثلا تھیلے وغیرہ میں ہو۔یہ دونوں جاہلیت کی مروج بیعوں میں سے تھیں لہذا آپ نے اس سے منع فرمایا ۱؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ وَالْمُخَابَرَةِ وَالْمُعَاوَمَةِ وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے بیع محاقلہ،مزابنہ ۱؎،مخابرہ ۲ ؎ اور معاومہ ۳؎ سے منع فرمایا،اورآپ نے عرایا ۴؎ کی اجازت دی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ اسْتَقْرَضَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سِنًّا فَأَعْطَاہُ سِنًّا خَيْرًا مِنْ سِنِّہِ وَقَالَ خِيَارُكُمْ أَحَاسِنُكُمْ قَضَاءً قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاہُ شُعْبَةُ وُسُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بِاسْتِقْرَاضِ السِّنِّ بَأْسًا مِنْ الْإِبِلِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَكَرِہَ بَعْضُہُمْ ذَلِكَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض لیا اورآپ نے اُسے اس سے بہتر اونٹ دیا اور فرمایا: تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہترہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اِسے شعبہ اور سفیان نے بھی سلمہ سے روایت کیا ہے،۳-اس باب میں ابورافع رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۴-بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے،وہ کسی بھی عمر کا اونٹ قرض لینے کو مکروہ نہیں سمجھتے ہیں،۵-اور بعض لوگو ں نے اسے مکروہ جاناہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا وَہْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَی رَسُولَ اللہِ ﷺ فَأَغْلَظَ لَہُ فَہَمَّ بِہِ أَصْحَابُہُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ دَعُوہُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا ثُمَّ قَالَ اشْتَرُوا لَہُ بَعِيرًا فَأَعْطُوہُ إِيَّاہُ فَطَلَبُوہُ فَلَمْ يَجِدُوا إِلَّا سِنَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّہِ فَقَالَ اشْتَرُوہُ فَأَعْطُوہُ إِيَّاہُ فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ نَحْوَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے (قرض کا) تقاضہ کیا اورسختی کی،صحابہ نے اسے دفع کرنے کاقصدکیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑدو،کیونکہ حق دار کوکہنے کا حق ہے،پھر آپ نے فرمایا: اسے ایک اونٹ خریدکر دے دو،لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایساہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہترتھا،آپ نے فرمایا: اسی کوخریدکر دے دو،کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہترہوں۔ مولف نے محمد بن بشار کی سند سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللہِ ﷺ بَكْرًا فَجَاءَتْہُ إِبِلٌ مِنْ الصَّدَقَةِ قَالَ أَبُو رَافِعٍ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَہُ فَقُلْتُ لَا أَجِدُ فِي الْإِبِلِ إِلَّا جَمَلًا خِيَارًا رَبَاعِيًا فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَعْطِہِ إِيَّاہُ فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُہُمْ قَضَاءً قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض لیا،پھر آپ کے پاس صدقے کا اونٹ آیاتو آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آدمی کا اونٹ اداکردوں،میں نے آپ سے عرض کیا: مجھے چار دانتوں والے ایک عمدہ اونٹ کے علاوہ کوئی اوراونٹ نہیں مل رہا ہے،تو آپ نے فرمایا: اُسے اسی کو دے دو،کیونکہ لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں سب سے اچھے ہوں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ اللہَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ سَمْحَ الشِّرَاءِ سَمْحَ الْقَضَاءِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ رَوَی بَعْضُہُمْ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يُونُسَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بیچنے،خریدنے اورقرض کے مطالبہ میں نرمی وآسانی کو پسند کرتاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-بعض لوگوں نے اس حدیث کو بسند یونس عن سعیدالمقبری عن ابی ہریرۃ روایت کی ہے،۳-اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَہَّابِ بْنُ عَطَاءٍ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ زَيْدِ بْنِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ غَفَرَ اللہُ لِرَجُلٍ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانَ سَہْلًا إِذَا بَاعَ سَہْلًا إِذَا اشْتَرَی سَہْلًا إِذَا اقْتَضَی قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کوجو تم سے پہلے تھا بخش دیا،جو نرمی کرنے والا تھا جب بیچتااورجب خریدتااورجب قرض کا مطالبہ کرتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے حسن،صحیح،غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللہِ ﷺ قَالَ الْعُمْرَی جَائِزَةٌ لِأَہْلِہَا أَوْ مِيرَاثٌ لِأَہْلِہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَمُعَاوِيَةَ

سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: عمریٰ ۱؎ جس کودیاگیا اس کے گھروالوں کا ہوجاتا ہے،یا فرمایا: عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھروالوں کی میراث ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں زید بن ثابت،جابر،ابوہریرہ،عائشہ،عبداللہ بن زبیر اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَی لَہُ وَلِعَقِبِہِ فَإِنَّہَا لِلَّذِي يُعْطَاہَا لَا تَرْجِعُ إِلَی الَّذِي أَعْطَاہَا لِأَنَّہُ أَعْطَی عَطَاءً وَقَعَتْ فِيہِ الْمَوَارِيثُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ وَرَوَی بَعْضُہُمْ عَنْ الزُّہْرِيِّ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ وَلِعَقِبِہِ وَرُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْعُمْرَی جَائِزَةٌ لِأَہْلِہَا وَلَيْسَ فِيہَا لِعَقِبِہِ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا قَالَ ہِيَ لَكَ حَيَاتَكَ وَلِعَقِبِكَ فَإِنَّہَا لِمَنْ أُعْمِرَہَا لَا تَرْجِعُ إِلَی الْأَوَّلِ وَإِذَا لَمْ يَقُلْ لِعَقِبِكَ فَہِيَ رَاجِعَةٌ إِلَی الْأَوَّلِ إِذَا مَاتَ الْمُعْمَرُ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ الْعُمْرَی جَائِزَةٌ لِأَہْلِہَا وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا مَاتَ الْمُعْمَرُ فَہُوَ لِوَرَثَتِہِ وَإِنْ لَمْ تُجْعَلْ لِعَقِبِہِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: جس آدمی کو عمریٰ دیاگیاوہ اس کا ہے اور اس کے گھروالوں یعنی ورثاء کا ہے کیونکہ وہ اسی کا ہوجاتا ہے جس کو دیاجاتا ہے،عمری دینے والے کی طرف نہیں لوٹتاہے اس لیے کہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں میراث ثابت ہوگئی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اوراسی طرح معمر اوردیگر کئی لوگوں نے زہری سے مالک کی روایت ہی کی طرح روایت کی ہے اوربعض نے زہری سے روایت کی ہے،مگر اس نے اس میں ولعقبہ کا ذکر نہیں کیا ہے،۳-اوریہ حدیث اس کے علاوہ اوربھی سندوں سے جابرسے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: عمریٰ جس کو دیاجاتا ہے اس کے گھروالوں کاہوجاتا ہے اوراس میں لعقبہ کاذکرنہیں ہے۔یہ حدیث حسن صحیح ہے،۴-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے،یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب دینے والایہ کہے کہ یہ تیری عمرتک تیراہے اورتیرے بعدتیری اولاد کا ہے تو یہ اسی کا ہوگا جس کو دیاگیا ہے۔اوردینے والے کے پاس لوٹ کرنہیں جائے گا اور جب وہ یہ نہ کہے کہ(تیر ی اولاد)کابھی ہے تو جسے دیاگیاہے اس کے مرنے کے بعد دینے والے کا ہوجائے گا۔مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے ۱؎،۵-اوردیگرکئی سندوں سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:عمریٰ جسے دیا گیا ہے اس کے گھروالوں کا ہوجائے گا،۶-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔وہ کہتے ہیں: جس کوگھر دیاگیا ہے اس کے مرنے کے بعد وہ گھر اس کے وارثوں کاہوجائے گا اگرچہ اس کے وارثوں کو نہ دیاگیا ہو۔سفیان ثوری،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُہُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدَكُمْ جَارُہُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَہُ فِي جِدَارِہِ فَلَا يَمْنَعْہُ فَلَمَّا حَدَّثَ أَبُو ہُرَيْرَةَ طَأْطَئُوا رُءُوسَہُمْ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ عَنْہَا مُعْرِضِينَ وَاللہِ لَأَرْمِيَنَّ بِہَا بَيْنَ أَكْتَافِكُمْ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَرُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ قَالُوا لَہُ أَنْ يَمْنَعَ جَارَہُ أَنْ يَضَعَ خَشَبَہُ فِي جِدَارِہِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: جب تم میں سے کسی کا پڑوسی اس کی دیوارمیں لکڑی گاڑنے کی اس سے اجازت طلب کرے تو وہ اُسے نہ روکے۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی تو لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے تو انہوں نے کہا: کیا بات ہے،میں دیکھ رہاہوں کہ تم لوگ اس سے اعراض کررہے ہو؟ اللہ کی قسم میں اسے تمہارے شانوں پر مارکرہی رہوں گایعنی تم سے اسے بیان کرکے ہی رہوں گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس اورمجمع بن جاریہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔شافعی بھی اسی کے قائل ہیں،۴-بعض اہل علم سے مروی ہے: جن میں مالک بن انس بھی شامل ہیں کہ اس کے لیے درست ہے کہ اپنے پڑوسی کو دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع کردے،پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللہِ ﷺ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ عَرِّفْہَا سَنَةً ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَہَا وَوِعَاءَہَا وَعِفَاصَہَا ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِہَا فَإِنْ جَاءَ رَبُّہَا فَأَدِّہَا إِلَيْہِ فَقَالَ لَہُ يَا رَسُولَ اللہِ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ فَقَالَ خُذْہَا فَإِنَّمَا ہِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ فَضَالَّةُ الْإِبِلِ قَالَ فَغَضِبَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّی احْمَرَّتْ وَجْنَتَاہُ أَوْ احْمَرَّ وَجْہُہُ فَقَالَ مَا لَكَ وَلَہَا مَعَہَا حِذَاؤُہَا وَسِقَاؤُہَا حَتَّی تَلْقَی رَبَّہَا حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَحَدِيثُ يَزِيدَ مَوْلَی الْمُنْبَعِثِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے لقطہ(گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا،توآپ نے فرمایا: سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ،پھر اس کا سربند،اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو،پھراسے خرچ کرلو اور اگر اس کا مالک آجائے تو اُسے ادا کردو،اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ بکری کاکیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: اسے پکڑکرباندھ لو،کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے،یا تمہارے بھائی کے لیے،یا بھیڑ یے کے لیے۔اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس پر نبی اکرمﷺناراض ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے گال لال پیلا ہوگئے۔یا آپ کا چہرہ لال پیلا ہوگیا اور آپ نے فرمایا: تم کواس سے کیا سروکار؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا اور اس کی مشک ہے ۱؎ (وہ پانی پر جاسکتا ہے اور درخت سے کھاسکتا ہے) یہاں تک کہ اپنے مالک سے جاملے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-زید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-ان سے اوربھی طرق سے یہ حدیث مروی ہے۔منبعث کے مولیٰ یزید کی حدیث جسے انہوں نے زید بن خالد سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،۳-اور ان سے یہ اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ سُئِلَ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ عَرِّفْہَا سَنَةً فَإِنْ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّہَا وَإِلَّا فَاعْرِفْ وِعَاءَہَا وَعِفَاصَہَا وَوِكَاءَہَا وَعَدَدَہَا ثُمَّ كُلْہَا فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُہَا فَأَدِّہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَالْجَارُودِ بْنِ الْمُعَلَّی وَعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ ہَذَا الْحَدِيثُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ وَرَخَّصُوا فِي اللُّقَطَةِ إِذَا عَرَّفَہَا سَنَةً فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُہَا أَنْ يَنْتَفِعَ بِہَا وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ يُعَرِّفُہَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُہَا وَإِلَّا تَصَدَّقَ بِہَا وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَہُوَ قَوْلُ أَہْلِ الْكُوفَةِ لَمْ يَرَوْا لِصَاحِبِ اللُّقَطَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِہَا إِذَا كَانَ غَنِيًّا و قَالَ الشَّافِعِيُّ يَنْتَفِعُ بِہَا وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا لِأَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَصَابَ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ صُرَّةً فِيہَا مِائَةُ دِينَارٍ فَأَمَرَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ أَنْ يُعَرِّفَہَا ثُمَّ يَنْتَفِعَ بِہَا وَكَانَ أُبَيٌّ كَثِيرَ الْمَالِ مِنْ مَيَاسِيرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ فَأَمَرَہُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُعَرِّفَہَا فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُہَا فَأَمَرَہُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يَأْكُلَہَا فَلَوْ كَانَتْ اللُّقَطَةُ لَمْ تَحِلَّ إِلَّا لِمَنْ تَحِلُّ لَہُ الصَّدَقَةُ لَمْ تَحِلَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ لِأَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصَابَ دِينَارًا عَلَی عَہْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَعَرَّفَہُ فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُہُ فَأَمَرَہُ النَّبِيُّ ﷺ بِأَكْلِہِ وَكَانَ لَا يَحِلُّ لَہُ الصَّدَقَةُ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَتْ اللُّقَطَةُ يَسِيرَةً أَنْ يَنْتَفِعَ بِہَا وَلَا يُعَرِّفَہَا و قَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا كَانَ دُونَ دِينَارٍ يُعَرِّفُہَا قَدْرَ جُمْعَةٍ وَہُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہ (گری پڑی چیز)کے بارے میں پوچھاگیاتو آپ نے فرمایا: سال بھراس کی پہچان کراؤ ۱؎،اگرکوئی پہچان بتادے تواسے دے دو،ورنہ اس کے ڈاٹ اورسربندکو پہچان لو،پھر اُسے کھاجاؤ۔پھرجب اس کا مالک آئے تو اُسے ادا کردو۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے،۲-احمدبن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے،۳-یہ ان سے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے،۴-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کوجائز سمجھتے ہیں،جب ایک سال تک اس کا اعلان ہوجائے اور کوئی پہچاننے والانہ ملے۔شافعی،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵-اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کردے۔سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔اوریہی اہل کوفہ کابھی قول ہے،۶-لقطہ اٹھانے والا جب مالدار ہوتو یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں،۷-شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مال دار ہو،اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں،اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اوربہت مالدارتھے،پھربھی نبی اکرمﷺنے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپﷺنے انہیں کھاجانے کا حکم دیا۔(دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے توعلی کے لیے جائز نہ ہوتا،اس لیے کہ علی کو نبی اکرمﷺکے زمانہ میں ایک دینار ملا،انہوں نے(سال بھرتک)اُس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جواسے پہچانتا تو نبی اکرمﷺنے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالاں کہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا،۸-بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہ معمولی ہو تو لقطہ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اوراس کا پہچان کرواناضروری نہیں ۲؎،۹-بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینارسے کم ہوتووہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے،۱۰-اس باب میں ابی بن کعب،عبداللہ بن عمرو،جارود بن معلی،عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ نُمَيْرٍ وَيَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُہَيْلٍ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ فَوَجَدْتُ سَوْطًا قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِہِ فَالْتَقَطْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُہُ قَالَا دَعْہُ فَقُلْتُ لَا أَدَعُہُ تَأْكُلْہُ السِّبَاعُ لَآخُذَنَّہُ فَلَأَسْتَمْتِعَنَّ بِہِ فَقَدِمْتُ عَلَی أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ فَسَأَلْتُہُ عَنْ ذَلِكَ وَحَدَّثْتُہُ الْحَدِيثَ فَقَالَ أَحْسَنْتَ وَجَدْتُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ صُرَّةً فِيہَا مِائَةُ دِينَارٍ قَالَ فَأَتَيْتُہُ بِہَا فَقَالَ لِي عَرِّفْہَا حَوْلًا فَعَرَّفْتُہَا حَوْلًا فَمَا أَجِدُ مَنْ يَعْرِفُہَا ثُمَّ أَتَيْتُہُ بِہَا فَقَالَ عَرِّفْہَا حَوْلًا آخَرَ فَعَرَّفْتُہَا ثُمَّ أَتَيْتُہُ بِہَا فَقَالَ عَرِّفْہَا حَوْلًا آخَرَ وَقَالَ أَحْصِ عِدَّتَہَا وَوِعَاءَہَا وَوِكَاءَہَا فَإِنْ جَاءَ طَالِبُہَا فَأَخْبَرَكَ بِعِدَّتِہَا وَوِعَائِہَا وَوِكَائِہَا فَادْفَعْہَا إِلَيْہِ وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِہَا قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلاتومجھے (راستے میں) ایک کوڑا پڑاملا-ابن نمیرکی روایت میں ہے کہ میں نے پڑا ہوا ایک کوڑا پایا-تومیں نے اُسے اٹھا لیاتوان دونوں نے کہا: اسے رہنے دو،(نہ اٹھاؤ) میں نے کہا:میں اسے نہیں چھوڑسکتاکہ اسے درندے کھاجائیں،میں اسے ضرور اٹھاؤں گا،اور اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔پھر میں ابی بن کعب کے پاس آیا،اور ان سے اس کے بارے میں پوچھا اور ان سے پوری بات بیان کی تو انہوں نے کہا: تم نے اچھا کیا،رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں،میں نے ایک تھیلی پائی جس میں سودینار تھے،اسے لے کرمیں آپ ﷺکے پاس آیا،آپ نے مجھ سے فرمایا: ایک سال تک اس کی پہچان کراؤ،میں نے ایک سال تک اس کی پہچان کرائی لیکن مجھے کوئی نہیں ملاجواسے پہچانتا،پھر میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔آپ نے فرمایا: ایک سال تک اور اس کی پہچان کراؤ،میں نے اس کی پہچان کرائی،پھر اسے لے کر آپ کے پاس آیا۔توآپ نے فرمایا: ایک سال تک اوراس کی پہچان کراؤ ۱؎،اورفرمایا: اس کی گنتی کرلو،اس کی تھیلی اوراس کے سربندکوخوب اچھی طرح پہچان لو اگراسے تلاش کرنے والا آئے اور اس کی تعداد،اس کی تھیلی اوراس کے سربند کے بارے میں بتائے تو اسے دے دو ورنہ تم اسے اپنے کام میں لاؤ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَہَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ سُفْيَانَ،ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ،عَنْ عَلِيٍّ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الطُّہُورُ،وَتَحْرِيمُہَا التَّكْبِيرُ،وَتَحْلِيلُہَا التَّسْلِيمُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَعَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ہُوَ صَدُوقٌ،وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيہِ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: كَانَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ وَالْحُمَيْدِيُّ يَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ،قَالَ مُحَمَّدٌ: وَہُوَ مُقَارَبُ الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ۔

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صلاۃ کی کنجی وضو ہے،اور اس کا تحریمہ صرف اللہ اکبر کہنا ہے ۱ ؎ اورصلاۃ میں جوچیز یں حرام تھیں وہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے ہی سے حلال ہوتی ہیں ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں یہ حدیث سب سے صحیح اور حسن ہے،۲-عبداللہ بن محمد بن عقیل صدوق ہیں۳؎،بعض اہل علم نے ان کے حافظہ کے تعلق سے ان پر کلام کیاہے،میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ احمدبن حنبل،اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ اورحمیدی: عبداللہ بن محمدبن عقیل کی روایت سے حجت پکڑتے تھے،اور وہ مقارب الحدیث ۴؎ ہیں،۳-اس باب میں جابر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجَوَيْہِ الْبَغْدَادِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ،قَالُوُا: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ،حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ قَرْمٍ،عَنْ أَبِي يَحْيَی الْقَتَّاتِ،عَنْ مُجَاہِدٍ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ الصَّلاَةُ،وَمِفْتَاحُ الصَّلاَةِ الْوُضُوءُ

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صلاۃ جنت کی کنجی ہے،اور صلاۃ کی کنجی وضو ہے۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ،عَنْ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَبُولُ قَائِمًا فَلاَ تُصَدِّقُوہُ،مَا كَانَ يَبُولُ إِلاَّ قَاعِدًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَبُرَيْدَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَنَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عَائِشَةَ أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ. وَحَدِيثُ عُمَرَ إِنَّمَا رُوِيَ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ،عَنْ نَافِعٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ عُمَرَ قَالَ: رَآنِي النَّبِيُّ ﷺ-وَأَنَا أَبُولُ قَائِمًا-فَقَالَ: يَا عُمَرُ،لاَ تَبُلْ قَائِمًا،فَمَا بُلْتُ قَائِمًا بَعْدُ. قَالَ أَبُوعِيسَی: وَإِنَّمَا رَفَعَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ أَبِي الْمُخَارِقِ،وَہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ: ضَعَّفَہُ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَتَكَلَّمَ فِيہِ. وَرَوَی عُبَيْدُ اللہِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ: مَا بُلْتُ قَائِمًا مُنْذُ أَسْلَمْتُ. وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ. وَحَدِيثُ بُرَيْدَةَ فِي ہَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَمَعْنَی النَّہْيِ عَنْ الْبَوْلِ قَائِمًا: عَلَی التَّأْدِيبِ لاَ عَلَی التَّحْرِيمِ،وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِنَّ مِنْ الْجَفَاءِ أَنْ تَبُولَ وَأَنْتَ قَائِمٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جوتم سے یہ کہے کہ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے تو تم اس کی تصدیق نہ کرنا،آپ بیٹھ کرہی پیشاب کرتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں عمر،بریدہ،عبدالرحمٰن بن حسنہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث سب سے زیادہ عمدہ اورصحیح ہے،۳-عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ مجھے نبی اکرم ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کرتے ہوئے دیکھاتو فرمایا: عمر! کھڑے ہوکر پیشاب نہ کرو،چنانچہ اس کے بعد سے میں نے کبھی بھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو عبدالکریم ابن ابی المخارق نے مرفوعاً روایت کیاہے اور وہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں،ایوب سختیانی نے ان کی تضعیف کی ہے اور ان پر کلام کیاہے،نیزیہ حدیث عبیداللہ نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب سے اسلام قبول کیاکبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔یہ حدیث عبدالکریم بن ابی المخارق کی حدیث سے (روایت کے اعتبارسے) زیادہ صحیح ہے ۲؎،۴-اس باب میں بریدۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث محفوظ نہیں ہے،۵-کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ممانعت ادب کے اعتبارسے ہے حرام نہیں ہے ۳؎،۶-عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ تم کھڑے ہوکر پیشاب کرو یہ پھوہڑپن ہے ۴؎۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَی الْقَزَّازُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ مَسَحَ رَأْسَہُ بِيَدَيْہِ فَأَقْبَلَ بِہِمَا وَأَدْبَرَ بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِہِ ثُمَّ ذَہَبَ بِہِمَا إِلَی قَفَاہُ ثُمَّ رَدَّہُمَا حَتَّی رَجَعَ إِلَی الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْہُ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْہِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي ہَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ

عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے سرکا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے،یعنی اپنے سرکے اگلے حصہ سے شروع کیا پھرانہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا،پھرآپ نے دونوں پیر دھوئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں معاویہ،مقدام بن معدی کرب اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-اس باب میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے۔اوراسی کے قائل شافعی احمداوراسحاق بن راہویہ ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاودَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ مُصْعَبٍ عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عُتَيِّ بْنِ ضَمْرَةَ السَّعْدِيِّ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ لِلْوُضُوءِ شَيْطَانًا يُقَالُ لَہُ الْوَلَہَانُ فَاتَّقُوا وَسْوَاسَ الْمَاءِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُہُ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ لَأَنَّا لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَہُ غَيْرَ خَارِجَةَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ الْحَسَنِ قَوْلَہُ وَلَا يَصِحُّ فِي ہَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْءٌ وَخَارِجَةُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَصْحَابِنَا وَضَعَّفَہُ ابْنُ الْمُبَارَكِ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: وضو کے لیے ایک شیطان ہے،اسے ولہان کہاجاتاہے،تم اس کے وسوسوں کے سبب پانی زیادہ خرچ کرنے سے بچو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس باب میں عبداللہ بن عمرو اورعبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابی بن کعب کی حدیث غریب ہے،۳-اس کی سند محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے اس لیے کہ ہم نہیں جانتے کہ خارجہ کے علاوہ کسی اور نے اسے مسنداًروایت کیا ہو،یہ حدیث دوسری اورسندوں سے حسن (بصری)سے موقوفاً مروی ہے (یعنی اسے حسن ہی کاقول قراردیاگیاہے) اوراس باب میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی چیز صحیح نہیں اورخارجہ ہمارے اصحاب ۱؎ کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں،ابن مبارک نے ان کی تضعیف کی ہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ قَالَتْ كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللہِ ﷺ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنْ الْجَنَابَةِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَہَاءِ أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَغْتَسِلَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَأُمِّ ہَانِئٍ وَأُمِّ صُبَيَّةَ الْجُہَنِيَّةِ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُہُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھ سے میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اور رسول اللہﷺدونوں ایک ہی برتن سے غسلِ جنابت کرتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثرفقہاء کایہ یقول ہے کہ مرداورعورت کے ایک ہی برتن سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں،۳-اس باب میں علی،عائشہ،انس،ام ہانی،ام حبیبہ،ام سلمہ اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللہِ أَنَتَوَضَّأُ مِنْ بِئْرِ بُضَاعَةَ وَہِيَ بِئْرٌ يُلْقَی فِيہَا الْحِيَضُ وَلُحُومُ الْكِلَابِ وَالنَّتْنُ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ الْمَاءَ طَہُورٌ لَا يُنَجِّسُہُ شَيْءٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ جَوَّدَ أَبُو أُسَامَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ فَلَمْ يَرْوِ أَحَدٌ حَدِيثَ أَبِي سَعِيدٍ فِي بِئْرِ بُضَاعَةَ أَحْسَنَ مِمَّا رَوَی أَبُو أُسَامَةَ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیاگیا: اللہ کے رسول!کیا ہم بضاعہ نامی کنویں ۱؎ سے وضوکریں اورحال یہ ہے وہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں حیض کے کپڑے،کتوں کے گوشت اور بدبودار چیزیں آکر گرتی ہیں؟۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-بئربضاعہ والی ابوسعید خدری کی یہ حدیث جس عمدگی کے ساتھ ابواسامہ نے روایت کی ہے کسی اورنے روایت نہیں کی ہے۳؎،۳-یہ حدیث کئی اور طریق سے ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،۴-اس باب میں ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي قَيْسٍ عَنْ ہُزَيْلِ بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ تَوَضَّأَ النَّبِيُّ ﷺ وَمَسَحَ عَلَی الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالُوا يَمْسَحُ عَلَی الْجَوْرَبَيْنِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ نَعْلَيْنِ إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت صَالِحَ بْنَ مُحَمَّدٍ التِّرْمِذِيَّ قَال سَمِعْتُ أَبَا مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ يَقُولُ دَخَلْتُ عَلَی أَبِي حَنِيفَةَ فِي مَرَضِہِ الَّذِي مَاتَ فِيہِ فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَعَلَيْہِ جَوْرَبَانِ فَمَسْحَ عَلَيْہِمَا ثُمَّ قَالَ فَعَلْتُ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ أَكُنْ أَفْعَلُہُ مَسَحْتُ عَلَی الْجَوْرَبَيْنِ وَہُمَا غَيْرُ مُنَعَّلَيْنِ

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور موزوں اور جوتوں پر مسح کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-کئی اہل علم کایہی قول ہے اور سفیان ثوری،ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاتابوں پرمسح کرے گرچہ جوتے نہ ہوں جب کہ پاتابے موٹے ہوں،۳-اس باب میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت آئی ہے،۴-ابومقاتل سمرقندی کہتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس ان کی اس بیماری میں گیاجس میں ان کی وفات ہوئی تو انہوں نے پانی منگایا،اور وضو کیا،وہ پاتابے پہنے ہوئے تھے،تو انہوں نے ان پر مسح کیا،پھر کہا: آج میں نے ایسا کام کیا ہے جومیں نہیں کرتاتھا۔میں نے پاتابوں پرمسح کیا ہے حالانکہ میں نے جوتیاں نہیں پہن رکھیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَی عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي أَفَأَنْقُضُہُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ قَالَ لَا إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِينَ عَلَی رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ مِنْ مَاءٍ ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَی سَائِرِ جَسَدِكِ الْمَاءَ فَتَطْہُرِينَ أَوْ قَالَ فَإِذَا أَنْتِ قَدْ تَطَہَّرْتِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا اغْتَسَلَتْ مِنْ الْجَنَابَةِ فَلَمْ تَنْقُضْ شَعْرَہَا أَنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُہَا بَعْدَ أَنْ تُفِيضَ الْمَاءَ عَلَی رَأْسِہَا

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا،اللہ کے رسول! میں اپنے سر کی چوٹی مضبوطی سے باندھنے والی عورت ہوں۔کیا غسل جنابت کے لیے اسے کھولا کروں؟ آپ نے فرمایا: تمہاری سر پر تین لپ پانی ڈال لیناہی کافی ہے۔پھر پورے بدن پر پانی بہادو توپاک ہو گئی،یافرمایا:جب تم ایساکرلے توپاک ہوگئی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،اہل علم کااسی پرعمل پرہے کہ عورت جب جنابت کا غسل کرے،اور اپنے بال نہ کھولے تویہ اس کے لیے اس کے بعدکہ وہ اپنے سرپرپانی بہالے کافی ہوجائے گا ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا شَرِيكٌ،عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ،عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ جَدِّہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: تَدَعُ الصَّلاَةَ أَيَّامَ أَقْرَائِہَا الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُ فِيہَا،ثُمَّ تَغْتَسِلُ،وَتَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ،وَتَصُومُ وَتُصَلِّي.

عدی کے داداعبید بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مستحاضہ کے سلسلہ میں فرمایا: وہ ان دنوں میں جن میں اسے حیض آتاہوصلاۃ چھوڑے رہے،پھروہ غسل کرے،اور(استحاضہ کا خون آنے پر) ہر صلاۃ کے لیے وضو کرے،صوم رکھے اور صلاۃ پڑھے ۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،أَخْبَرَنَا شُرَيْكٌ: نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ قَدْ تَفَرَّدَ بِہِ شَرِيكٌ عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ ہَذَا الْحَدِيثِ،فَقُلْتُ: عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ،عَنْ أَبِيہِ،عَنْ جَدِّہِ،جَدُّ عَدِيٍّ مَا اسْمُہُ؟ فَلَمْ يَعْرِفْ مُحَمَّدٌ اسْمَہُ. وَذَكَرْتُ لِمُحَمَّدٍ قَوْلَ يَحْيَی بْنِ مَعِينٍ: أَنَّ اسْمَہُ دِينَارٌ فَلَمْ يَعْبَأْ بِہِ. و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: إِنْ اغْتَسَلَتْ لِكُلِّ صَلاَةٍ ہُوَ أَحْوَطُ لَہَا،وَإِنْ تَوَضَّأَتْ لِكُلِّ صَلاَةٍ أَجْزَأَہَا،وَإِنْ جَمَعَتْ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ أَجْزَأَہَا۔

اس سندسے بھی شریک نے اسی مفہوم کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث میں شریک ابوالیقظان سے روایت کرنے میں منفردہیں،۲-احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ عورت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگروہ ہر صلاۃ کے وقت غسل کرے تو یہ اس کے لیے زیادہ احتیاط کی بات ہے اور اگروہ ہرصلاۃ کے لیے وضو کرے تویہ اس کے لیے کافی ہے اور اگروہ ایک غسل سے دو صلاۃجمع کرے تو بھی کافی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ مُعَاذَةَ أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَتَقْضِي إِحْدَانَا صَلَاتَہَا أَيَّامَ مَحِيضِہَا فَقَالَتْ أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ قَدْ كَانَتْ إِحْدَانَا تَحِيضُ فَلَا تُؤْمَرُ بِقَضَاءٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ أَنَّ الْحَائِضَ لَا تَقْضِي الصَّلَاةَ وَہُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَہَاءِ لَا اخْتِلَافَ بَيْنَہُمْ فِي أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الصَّوْمَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ

معاذۃ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا ہم حیض کے دنوں والی صلاۃ کی قضا کیا کریں؟ توانہوں نے کہا: کیا تو حروریہ ۱؎ ہے؟ ہم میں سے ایک کو حیض آتاتھا تو اُسے قضا کا حکم نہیں دیا جاتاتھا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اور عائشہ سے اور کئی سندوں سے بھی مروی ہے کہ حائضہ صلاۃ قضا نہیں کرے گی،۳-اکثر فقہا کایہی قول ہے۔ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ حائضہ صوم قضا کرے گی اورصلاۃ قضا نہیں کرے گی۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَرَامِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ عَمِّہِ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ مُوَاكَلَةِ الْحَائِضِ فَقَالَ وَاكِلْہَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہُوَ قَوْلُ عَامَّةِ أَہْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بِمُوَاكَلَةِ الْحَائِضِ بَأْسًا وَاخْتَلَفُوا فِي فَضْلِ وَضُوئِہَا فَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُہُمْ وَكَرِہَ بَعْضُہُمْ فَضْلَ طَہُورِہَا

عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے حائضہ کے ساتھ کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ کھاؤ ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب ہے،۲-اس باب میں عائشہ اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اکثر اہل علم کایہی قول ہے: یہ لوگ حائضہ کے ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں جانتے۔البتہ اس کے وضوکے بچے ہوئے پانی کے سلسلہ میں ان میں اختلاف ہے۔بعض لوگوں نے اس کی اجازت دی ہے اوربعض نے اس کی طہارت سے بچے ہوے پانی کو مکروہ کہاہے۔ وضاحت ۱؎: یہ حدیث آیت کریمہ:فَاعْتَزِلُواْ النِّسَاء فِی الْمَحِیضِ [البقرۃ: 222] کے معارض نہیں کیو نکہ آیت میں جدارہنے سے مرادوطی سے جدا رہنا ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا أَتَی أَحَدُكُمْ أَہْلَہُ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيَتَوَضَّأْ بَيْنَہُمَا وُضُوءًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ و قَالَ بِہِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيَتَوَضَّأْ قَبْلَ أَنْ يَعُودَ وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُہُ عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ اسْمُہُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے پھر وہ دوبارہ صحبت کرنا چاہے تو ان دونوں کے درمیان وضو کرلے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت آئی ہے،۲-ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے،۳-عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے،اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے یہی کہاہے کہ جب آدمی اپنی بیوی سے جماع کرے پھر دوبارہ جماع کرنا چاہے تو جماع سے پہلے دوبارہ وضو کرے۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَزْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَہُ بِالتَّيَمُّمِ لِلْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَمَّارٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عَلِيٌّ وَعَمَّارٌ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ التَّابِعِينَ مِنْہُمْ الشَّعْبِيُّ وَعَطَاءٌ وَمَكْحُولٌ قَالُوا التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْہُمْ ابْنُ عُمَرَ وَجَابِرٌ وَإِبْرَاہِيمُ وَالْحَسَنُ قَالُوا التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ لِلْوَجْہِ وَضَرْبَةٌ لِلْيَدَيْنِ إِلَی الْمِرْفَقَيْنِ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكٌ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَقَدْ رُوِيَ ہَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَمَّارٍ فِي التَّيَمُّمِ أَنَّہُ قَالَ لِلْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمَّارٍ أَنَّہُ قَالَ تَيَمَّمْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ فَضَعَّفَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ حَدِيثَ عَمَّارٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي التَّيَمُّمِ لِلْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ لَمَّا رُوِيَ عَنْہُ حَدِيثُ الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ قَالَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مَخْلَدٍ الْحَنْظَلِيُّ حَدِيثُ عَمَّارٍ فِي التَّيَمُّمِ لِلْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ ہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ عَمَّارٍ تَيَمَّمْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ إِلَی الْمَنَاكِبِ وَالْآبَاطِ لَيْسَ ہُوَ بِمُخَالِفٍ لِحَدِيثِ الْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ لِأَنَّ عَمَّارًا لَمْ يَذْكُرْ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَہُمْ بِذَلِكَ وَإِنَّمَا قَالَ فَعَلْنَا كَذَا وَكَذَا فَلَمَّا سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَہُ بِالْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ فَانْتَہَی إِلَی مَا عَلَّمَہُ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ وَالدَّلِيلُ عَلَی ذَلِكَ مَا أَفْتَی بِہِ عَمَّارٌ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ فِي التَّيَمُّمِ أَنَّہُ قَالَ الْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ فَفِي ہَذَا دَلَالَةٌ أَنَّہُ انْتَہَی إِلَی مَا عَلَّمَہُ النَّبِيُّ ﷺ فَعَلَّمَہُ إِلَی الْوَجْہِ وَالْكَفَّيْنِ قَالَ و سَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ عُبَيْدَ اللہِ بْنَ عَبْدِ الْكَرِيمِ يَقُولُ لَمْ أَرَ بِالْبَصْرَةِ أَحْفَظَ مِنْ ہَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَابْنِ الشَّاذَكُونِيِّ وَعَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ الْفَلَّاسِ قَالَ أَبُو زُرْعَةَ وَرَوَی عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثًا

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے تیمم کا حکم دیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عائشہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-یہی صحابہ کرام میں سے کئی اہل علم کا قول ہے جن میں علی،عمار،ابن عباس رضی اللہ عنہم شامل ہیں اور تابعین میں سے بھی کئی لوگو ں کا ہے جن میں شعبی،عطاء اورمکحول بھی ہیں،ان سب کا کہنا ہے کہ تیمم چہرے اوردونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ہی بارمارنا ہے،اسی کے قائل احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں،۴-بعض اہل علم جن میں ابن عمر،جابر رضی اللہ عنہم،ابراہیم نخعی اورحسن بصری شامل ہیں کہتے ہیں کہ تیمم چہرہ کے لیے ایک ضربہ اوردونوں ہاتھوں کے لیے کہنیوں تک ایک ضربہ ہے،اس کے قائل سفیان ثوری،مالک،ابن مبارک اورشافعی ہیں،۵-تیمم کے سلسلہ میں عمارسے یہ حدیث جس میں چہرے اوردونوں ہتھیلیوں کے لیے ایک ضربہ کا ذکرہے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے،۶-عمار رضی اللہ عنہ سے تیمم کی حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ ہم نے نبی اکرم ﷺکے ساتھ شانوں اوربغلوں تک تیمم کیا۔۷-بعض اہل علم نے تیمم کے سلسلہ میں عمارکے چہرے اوردونوں ہتھیلیوں والی حدیث کی تضعیف کی ہے کیونکہ ان سے شانوں اوربغلو ں والی حدیث بھی مروی ہے،۸-اسحاق بن ابراہم مخلدحنظلی (ابن راہویہ) کہتے ہیں کہ چہرہ اور دونوں کہنیوں کے لیے ایک ہی ضربہ والی تیمم کے سلسلہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۹-عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ ہم نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شانوں اوربغلوں تک تیمم کیا چہرے اوردونوں ہتھیلیوں والی حدیث کے مخالف نہیں کیونکہ عمار رضی اللہ عنہ نے یہ ذکرنہیں کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اس کاحکم دیا تھا بلکہ انہوں نے صرف اتناکہاہے کہ ہم نے ایساایساکیا،پھر جب انہوں نے اس بار ے میں نبی اکرم ﷺ سے پوچھاتوآپ نے انہیں صرف چہرے اور دونوں کا حکم دیا،تووہ چہرے اوردونوں ہتھیلیوں ہی پر رک گئے۔جس کی نبی اکرم ﷺ نے انہیں تعلیم دی،اس کی دلیل تیمم کے سلسلہ کا عمار رضی اللہ عنہ کا وہ فتویٰ ہے جسے انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے بعددیا ہے کہ تیمم صرف چہرے اوردونوں ہتھیلیوں ہی کا ہے،اس میں اس بات پردلالت ہے کہ وہ اسی جگہ رک گئے جس کی نبی اکرم ﷺنے انہیں تعلیم دی ۱؎ اورآپ نے انہیں جوتعلیم دی تھی وہ چہرے اوردونوں ہتھیلیوں تک ہی محدودتھی۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْقُرَشِيِّ عَنْ دَاودَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ سُئِلَ عَنْ التَّيَمُّمِ فَقَالَ إِنَّ اللہَ قَالَ فِي كِتَابِہِ حِينَ ذَكَرَ الْوُضُوءَ فَاغْسِلُوا وُجُوہَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَقَالَ فِي التَّيَمُّمِ فَامْسَحُوا بِوُجُوہِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ وَقَالَ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَہُمَا فَكَانَتْ السُّنَّةُ فِي الْقَطْعِ الْكَفَّيْنِ إِنَّمَا ہُوَ الْوَجْہُ وَالْكَفَّانِ يَعْنِي التَّيَمُّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَذِيٌّ صَحِيحٌ

عکرمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے تیمم کے بارے میں پوچھا گیاتوانہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس وقت وضو کا ذکر کیا توفرمایا اپنے چہرے کو اور اپنے ہاتھوں کوکہنیوں تک دھوؤ،اورتیمم کے بارے میں فرمایا: اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرو،اور فرمایا: چوری کرنے والے مردوعورت کی سزا یہ ہے کہ ان کے ہاتھ کاٹ دو توہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں سنت یہ تھی کہ (پہنچے تک) ہتھیلی کاٹی جاتی،لہذا تیمم صرف چہرے اور ہتھیلیوں ہی تک ہوگا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ،حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ،عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ،عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ-وَہُوَ ابْنُ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ-أَخْبَرَنِي نَافِعُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ،قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:أَمَّنِي جِبْرِيلُ عَلَيْہِ السَّلاَم عِنْدَ الْبَيْتِ مَرَّتَيْنِ،فَصَلَّی الظُّہْرَ فِي الأولَی مِنْہُمَا حِينَ كَانَ الْفَيْئُ مِثْلَ الشِّرَاكِ،ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْئٍ مِثْلَ ظِلِّہِ،ثُمَّ صَلَّی الْمَغْرِبَ حِينَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ،وَأَفْطَرَ الصَّائِمُ،ثُمَّ صَلَّی الْعِشَائَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ،ثُمَّ صَلَّی الْفَجْرَ حِينَ بَرَقَ الْفَجْرُ،وَحَرُمَ الطَّعَامُ عَلَی الصَّائِمِ،وَصَلَّی الْمَرَّةَ الثَّانِيَةَ الظُّہْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْئٍ مِثْلَہُ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ،ثُمَّ صَلَّی الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْئٍ مِثْلَيْہِ،ثُمَّ صَلَّی الْمَغْرِبَ لِوَقْتِہِ الأَوَّلِ،ثُمَّ صَلَّی الْعِشَائَ الآخِرَةَ حِينَ ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ،ثُمَّ صَلَّی الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَتِ الأَرْضُ،ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِيلُ،فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! ہَذَا وَقْتُ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ،وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ ہَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَبُرَيْدَةَ وَأَبِي مُوسَی وَأَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَالْبَرَائِ وَأَنَسٍ.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس میری دوبارامامت کی،پہلی بارانہوں نے ظہر اس وقت پڑھی (جب سورج ڈھل گیااور)سایہ جوتے کے تسمہ کے برابرہوگیا،پھرعصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا ۱؎،پھر مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اورصائم نے افطار کرلیا،پھر عشاء اس وقت پڑھی جب شفق ۲؎ غائب ہوگئی،پھرصلاۃِ فجر اس وقت پڑھی جب فجرروشن ہوگئی اورصائم پرکھاناپینا حرام ہوگیا،دوسری بارظہرکل کی عصرکے وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے مثل ہوگیا،پھر عصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے دومثل ہوگیا،پھر مغرب اس کے اوّل وقت ہی میں پڑھی (جیسے پہلی بارمیں پڑھی تھی) پھر عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزرگئی،پھرفجراس وقت پڑھی جب اجالا ہوگیا،پھرجبرئیل نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا:اے محمد! یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقاتِ صلاۃ تھے،آپ کی صلاتوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں ۳؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوہریرہ،بریدہ،ابوموسیٰ،ابومسعود انصاری،ابوسعید،جابر،عمروبن حرم،براء اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَی،أَخْبَرَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ الْمُبَارَكِ،أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ ابْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ،أَخْبَرَنِي وَہْبُ بْنُ كَيْسَانَ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ،عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ،قَالَ:أَمَّنِي جِبْرِيلُ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمَعْنَاہُ،وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ: لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.و قَالَ مُحَمَّدٌ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي الْمَوَاقِيتِ حَدِيثُ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ: وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي الْمَوَاقِيتِ قَدْ رَوَاہُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ،وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ،وَأَبُوالزُّبَيْرِ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ وَہْبِ بْنِ كَيْسَانَ،عَنْ جَابِرٍ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جبرئیل نے میری امامت کی،پھر انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث ذکرکی۔البتہ انہوں نے اس میںلِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ کا ٹکڑا ذکر نہیں کیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ۱؎،اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اوقاتِ صلاۃ کے سلسلے میں سب سے صحیح جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺسے مرفوعا روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ يَا أَبَا ذَرٍّ أُمَرَاءُ يَكُونُونَ بَعْدِي يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ فَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِہَا فَإِنْ صُلِّيَتْ لِوَقْتِہَا كَانَتْ لَكَ نَافِلَةً وَإِلَّا كُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَہُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الصَّلَاةَ لِمِيقَاتِہَا إِذَا أَخَّرَہَا الْإِمَامُ ثُمَّ يُصَلِّي مَعَ الْإِمَامِ وَالصَّلَاةُ الْأُولَی ہِيَ الْمَكْتُوبَةُ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُہُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:ابوذر! میرے بعد کچھ ایسے امراء (حکام) ہوں گے جو صلاۃ کو مارڈالیں گے ۱؎،تو تم صلاۃ کو اس کے وقت پر پڑھ لینا ۲ ؎ صلاۃ اپنے وقت پر پڑھ لی گئی تو امامت والی صلاۃ تمہارے لیے نفل ہوگی،ورنہ تم نے اپنی صلاۃ محفوظ کرہی لی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۲-ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۳-یہی اہل علم میں سے کئی لوگوں کا قول ہے،یہ لوگ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صلاۃ اپنے وقت پر پڑھ لے جب امام اسے مؤخر کرے،پھر وہ امام کے ساتھ بھی پڑھے اور پہلی صلاۃ ہی اکثر اہل علم کے نزدیک فرض ہوگی ۳؎۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ،عَنْ الأَعْمَشِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ،عَنْ يَحْيَی بْنِ الْجَزَّارِ،عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُوتِرُ بِثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً،فَلَمَّا كَبِرَ وَضَعُفَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ الْوَتْرُ بِثَلاَثَ عَشْرَةَ،وَإِحْدَی عَشْرَةَ،وَتِسْعٍ،وَسَبْعٍ،وَخَمْسٍ،وَثَلاَثٍ،وَوَاحِدَةٍ. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ: مَعْنَی مَا رُوِيَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُوتِرُ بِثَلاَثَ عَشْرَةَ. قَالَ: إِنَّمَا مَعْنَاہُ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ،فَنُسِبَتْ صَلاَةُ اللَّيْلِ إِلَی الْوِتْرِ،وَرَوَی فِي ذَلِكَ حَدِيثًا عَنْ عَائِشَةَ. وَاحْتَجَّ بِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ: أَوْتِرُوا يَا أَہْلَ الْقُرْآنِ. قَالَ: إِنَّمَا عَنَی بِہِ قِيَامَ اللَّيْلِ يَقُولُ: إِنَّمَا قِيَامُ اللَّيْلِ عَلَی أَصْحَابِ الْقُرْآنِ

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرمﷺ وتر تیرہ رکعت پڑھتے تھے لیکن جب آپ عمر رسیدہ اور کمزور ہوگئے تو سات رکعت پڑھنے لگے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔۳-نبی اکرمﷺ سے وتر تیرہ،گیارہ،نو،سات،پانچ،تین اور ایک سب مروی ہیں،۴-اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) کہتے ہیں: یہ جو روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ وترتیرہ رکعت پڑھتے تھے،اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تہجد(قیام اللیل) وتر کے ساتھ تیرہ رکعت پڑھتے تھے،تو اس میں قیام اللیل (تہجد)کو بھی وتر کانام دے دیاگیا ہے،انہوں نے اس سلسلے میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک حدیث بھی روایت کی ہے اور نبی اکرمﷺ کے قول اے اہل قرآن!وتر پڑھا کرو سے بھی دلیل لی ہے۔ابن راہویہ کہتے ہیں کہ آپﷺنے اس سے قیام اللیل مرادلی ہے،اور قیام اللیل صرف قرآن کے ماننے والوں پر ہے (نہ کہ دوسرے مذاہب والوں پر)۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ نَامَ عَنْ الْوِتْرِ أَوْ نَسِيَہُ فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ وَإِذَا اسْتَيْقَظَ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جووتر پڑھے بغیر سوجائے،یااسے پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے یاجاگے پڑھ لے ۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيہِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ نَامَ عَنْ وِتْرِہِ فَلْيُصَلِّ إِذَا أَصْبَحَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَبَا دَاوُدَ السِّجْزِيَّ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ الْأَشْعَثِ يَقُولُ سَأَلْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فَقَالَ أَخُوہُ عَبْدُ اللہِ لَا بَأْسَ بِہِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَذْكُرُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللہِ أَنَّہُ ضَعَّفَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ و قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ثِقَةٌ قَالَ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْكُوفَةِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ فَقَالُوا يُوتِرُ الرَّجُلُ إِذَا ذَكَرَ وَإِنْ كَانَ بَعْدَ مَا طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ

زید بن اسلم (مرسلاً) کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جووترپڑھے بغیرسوجائے،اورجب صبح کواٹھے تو پڑھ لے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،۲-میں نے أ بوداود سجزی یعنی سلیمان بن اشعث کو سنا،وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل سے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: ان کے بھائی عبداللہ میں کوئی مضائقہ نہیں،۳-میں نے محمد(بن اسماعیل بخاری) کو ذکر کرتے سنا،وہ علی بن عبداللہ (ابن المدینی) سے روایت کررہے تھے کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کو ضعیف قراردیاہے اور کہاہے کہ(ان کے بھائی) عبداللہ بن زید بن اسلم ثقہ ہیں،۴-کوفہ کے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ آدمی وتر پڑھ لے جب اسے یاد آجائے،گو سورج نکلنے کے بعد یادآئے۔یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں ۲؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَتَخَلَّفْتُ عَنْہُ فَقَالَ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْتُ أَوْتَرْتُ فَقَالَ أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللہِ أُسْوَةٌ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يُوتِرُ عَلَی رَاحِلَتِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِہِمْ إِلَی ہَذَا وَرَأَوْا أَنْ يُوتِرَ الرَّجُلُ عَلَی رَاحِلَتِہِ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لَا يُوتِرُ الرَّجُلُ عَلَی الرَّاحِلَةِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ نَزَلَ فَأَوْتَرَ عَلَی الْأَرْضِ وَہُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَہْلِ الْكُوفَةِ

سعید بن یسار کہتے ہیں: میں ایک سفرمیں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ چل رہاتھا،میں ان سے پیچھے رہ گیا،توانہوں نے پوچھا: تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے کہا: میں وتر پڑھ رہاتھا،انہوں نے کہا: کیا رسول اللہﷺکی ذات میں تمہارے لیے اسوہ نہیں؟ میں نے رسول اللہﷺکوتو اپنی سواری ہی پر وتر پڑھتے دیکھاہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں،ان کا خیال ہے کہ آدمی اپنی سواری پر وتر پڑھ سکتاہے۔اوریہی شافعی،احمد،اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ آدمی سواری پر وتر نہ پڑھے،جب وہ وتر کا ارادہ کرے تو اُسے اُترکر زمین پر پڑھے۔یہ بعض اہل کوفہ کا قول ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَی عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ صِيَامَيْنِ يَوْمِ الْأَضْحَی وَيَوْمِ الْفِطْرِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَعَائِشَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَنَسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالَ وَعَمْرُو بْنُ يَحْيَی ہُوَ ابْنُ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ الْمَازِنِيُّ الْمَدَنِيُّ وَہُوَ ثِقَةٌ رَوَی لَہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَشُعْبَةُ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دوصیام سے منع فرمایا: یوم الأضحی (بقرعید) کے صوم سے اور یوم الفطر(عید) کے صوم سے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عمر،علی،عائشہ،ابوہریرہ،عقبہ بن عامر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۴-عمرو بن یحییٰ ہی عمارہ بن ابی الحسن مازنی ہیں،وہ مدینے کے رہنے والے ہیں اور ثقہ ہیں۔سفیان ثوری،شعبہ اور مالک بن انس نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللہِ بْنُ جَعْفَرٍ،عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ أَنَّہُ قَالَ: أَتَيْتُ أَنَسَ بْنِ مَالِكٍ فِي رَمَضَانَ وَہُوَ يُرِيدُ سَفَرًا وَقَدْ رُحِلَتْ لَہُ رَاحِلَتُہُ وَلَبِسَ ثِيَابَ السَّفَرِ،فَدَعَا بِطَعَامٍ،فَأَكَلَ،فَقُلْتُ لَہُ: سُنَّةٌ،قَالَ: سُنَّةٌ ثُمَّ رَكِبَ

محمد بن کعب کہتے ہیں کہ میں رمضان میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پا س آیا،وہ سفر کاارادہ کر رہے تھے،ان کی سواری پرکجاوہ کساجاچکاتھااوروہ سفر کے کپڑے پہن چکے تھے،انہوں نے کھانا منگایا اور کھایا۔میں نے ان سے پوچھا:یہ سنت ہے؟ کہا:ہاں سنت ہے۔پھروہ سوار ہوئے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ،حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ،قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ،قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ،قَالَ: أَتَيْتُ أَنَسَ بْنُ مَالِكٍ فِي رَمَضَانَ فَذَكَرَ نَحْوَہُ . قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ہُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ ہُوَ مَدِينِيٌّ ثِقَةٌ. وَہُوَ أَخُو إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ وَعَبْدُاللہِ بْنُ جَعْفَرٍ. ہُوَ ابْنُ نَجِيحٍ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللہِ الْمَدِينِيِّ وَكَانَ يَحْيَی بْنُ مَعِينٍ يُضَعِّفُہُ. وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ. وَقَالُوا: لِلْمُسَافِرِ أَنْ يُفْطِرَ فِي بَيْتِہِ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ. وَلَيْسَ لَہُ أَنْ يَقْصُرَ الصَّلاَةَ حَتَّی يَخْرُجَ مِنْ جِدَارِ الْمَدِينَةِ أَوْ الْقَرْيَةِ. وَہُوَ قَوْلُ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِيمَ الْحَنْظَلِيِّ

اس سند سے بھی محمد بن کعب سے روایت ہے کہ میں رمضان میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آیا پھر انہوں نے اسی طرح ذکرکیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اور محمد بن جعفرہی ابن ابی کثیر مدینی ہیں اور ثقہ ہیں اوریہی اسماعیل بن جعفرکے بھائی ہیں اور عبداللہ بن جعفر علی بن عبداللہ مدینی کے والدابن نجیح ہیں،یحییٰ بن معین ان کی تضعیف کرتے تھے،۲-بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ مسافر کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے گھرسے نکلنے سے پہلے افطارکرے لیکن اسے صلاۃقصرکرنے کی اجازت نہیں جب تک کہ شہر یا گاؤں کی فصیل سے باہر نہ نکل جائے۔یہی اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ حنظلی کا قول ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ عَنْ عُمَيْرِ بْنِ مَأْمُونٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ تُحْفَةُ الصَّائِمِ الدُّہْنُ وَالْمِجْمَرُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَيْسَ إِسْنَادُہُ بِذَاكَ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ وَسَعْدُ بْنُ طَرِيفٍ يُضَعَّفُ وَيُقَالُ عُمَيْرُ بْنُ مَأْمُومٍ أَيْضًا

حسن بن علی رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: صائم کا تحفہ خوشبودارتیل اور عود کی انگیٹھی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اس کی سند قوی نہیں ہے،۳-ہم اسے صرف سعدبن طریف کی روایت سے جانتے ہیں،اور ۴-سعد بن طریف ضعیف قراردیے جاتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ قَالَ أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ فَلَمْ يَعْتَكِفْ عَامًا فَلَمَّا كَانَ فِي الْعَامِ الْمُقْبِلِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْمُعْتَكِفِ إِذَا قَطَعَ اعْتِكَافَہُ قَبْلَ أَنْ يُتِمَّہُ عَلَی مَا نَوَی فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِذَا نَقَضَ اعْتِكَافَہُ وَجَبَ عَلَيْہِ الْقَضَاءُ وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَرَجَ مِنْ اعْتِكَافِہِ فَاعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ وَہُوَ قَوْلُ مَالِكٍ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ عَلَيْہِ نَذْرُ اعْتِكَافٍ أَوْ شَيْءٌ أَوْجَبَہُ عَلَی نَفْسِہِ وَكَانَ مُتَطَوِّعًا فَخَرَجَ فَلَيْسَ عَلَيْہِ أَنْ يَقْضِيَ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ذَلِكَ اخْتِيَارًا مِنْہُ وَلَا يَجِبُ ذَلِكَ عَلَيْہِ وَہُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ الشَّافِعِيُّ فَكُلُّ عَمَلٍ لَكَ أَنْ لَا تَدْخُلَ فِيہِ فَإِذَا دَخَلْتَ فِيہِ فَخَرَجْتَ مِنْہُ فَلَيْسَ عَلَيْكَ أَنْ تَقْضِيَ إِلَّا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے،ایک سال آپ اعتکاف نہیں کرسکے تو جب اگلا سال آیا تو آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس بن مالک کییہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲-معتکف جب اپنااعتکاف اس مدت کے پوراکرنے سے پہلے ختم کردے جس کی اس نے نیت کی تھی تواس بارے میں اہل علم کااختلاف ہے،بعض اہل علم نے کہا: جب وہ اعتکاف توڑ دے تو اس پر قضاواجب ہوگی انہوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنے اعتکاف سے نکل آئے تو آپ نے شوال میں دس دن کا اعتکاف کیا،یہ مالک کا قول ہے۔اوربعض کہتے ہیں: اگر اس پراعتکاف کی نذر یاکوئی ایسی چیز نہ ہوجسے اس نے اپنے اوپر واجب کرلی ہواوروہ نفل کی نیت سے اعتکاف میں رہا ہوپھراعتکاف سے نکل آیا ہو تو اس پر قضاواجب نہیں الایہ کہ وہ اپنی پسندسے اسے چاہے اوریہ اس پر واجب نہیں ہوگا۔یہی شافعی کا قول ہے،۳-شافعی کہتے ہیں: ہروہ عمل جس کے کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں تمہیں اختیار ہو جب تم اسے کرناشروع کردوپھر اس کے پورا ہو نے سے پہلے تم اسے چھوڑدو تو اس کی قضا تم پر لازم نہیں ہے۔سوائے حج اور عمرہ کے،۳-اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ وَشَرِيكٌ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَہُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْہِ النَّبِيُّ ﷺ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَاخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي ہَذَا فَقَالَ بَعْضُہُمْ يُصَلَّی عَلَی كُلِّ مَنْ صَلَّی إِلَی الْقِبْلَةِ وَعَلَی قَاتِلِ النَّفْسِ وَہُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَإِسْحَقَ و قَالَ أَحْمَدُ لَا يُصَلِّي الْإِمَامُ عَلَی قَاتِلِ النَّفْسِ وَيُصَلِّي عَلَيْہِ غَيْرُ الْإِمَامِ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خود کشی کرلی،تو نبی اکرمﷺنے اس کی صلاۃِجنازہ نہیں پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض کہتے ہیں کہ ہرشخص کی صلاۃ پڑھی جائے گی جوقبلہ کی طرف صلاۃپڑھتاہو اور خود کشی کرنے والے کی بھی پڑھی جائے گی۔ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۳-اوراحمد کہتے ہیں: امام خود کشی کرنے والے کی صلاۃ نہیں پڑھے گا،البتہ (مسلمانوں کے مسلمان حاکم) امام کے علاوہ لوگ پڑھیں گے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ ہُوَ الْأَحْوَلُ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِيِّ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنَّہُ خَطَبَ امْرَأَةً فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ انْظُرْ إِلَيْہَا فَإِنَّہُ أَحْرَی أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا وَفِي الْبَاب عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِلَی ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَالُوا لَا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْہَا مَا لَمْ يَرَ مِنْہَا مُحَرَّمًا وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ أَحْرَی أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا قَالَ أَحْرَی أَنْ تَدُومَ الْمَوَدَّةُ بَيْنَكُمَا

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک عورت کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا،تونبی اکرمﷺ نے فرمایا:تم اسے دیکھ لو ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-ا س باب میں محمد بن مسلمہ،جابر،ابوحمید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،وہ کہتے ہیں:اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں جب وہ اس کی کوئی ایسی چیزنہ دیکھے جس کا دیکھنا حرام ہے۔یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۴-اور اَحْرَی أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا کے معنی یہ ہیں کہ یہ تم دونوں کے درمیان محبت پیداکرنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ رَأَی عَلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ فَقَالَ مَا ہَذَا فَقَالَ إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَی وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ بَارَكَ اللہُ لَكَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَزُہَيْرِ بْنِ عُثْمَانَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَہَبٍ وَزْنُ ثَلَاثَةِ دَرَاہِمَ وَثُلُثٍ و قَالَ إِسْحَقُ ہُوَ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاہِمَ وَثُلُثٍ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کانشان دیکھاتوپوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کرلی ہے،آپ نے فرمایا: اللہ تمہیں برکت عطاکرے،ولیمہ ۱؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کاہو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،عائشہ،جابر اور زہیر بن عثمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-احمد بن حنبل کہتے ہیں: گٹھلی بھر سونے کا وزن تین درہم اورتہائی درہم وزن کے برابر ہوتاہے،۴-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: پانچ درہم اورتہائی درہم کے وزن کے برابر ہوتاہے۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ،عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ،عَنِ ابْنِہِ،عَنْ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْلَمَ عَلَی صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ بِسَوِيقٍ وَتَمْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے صفیہ بنت حیی کا ولیمہ ستو اور کھجور سے کیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی،حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ،عَنْ سُفْيَانَ،نَحْوَ ہَذَا. وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ،عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ،عَنِ الزُّہْرِيِّ،عَنْ أَنَسٍ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيہِ عَنْ وَائِلٍ عَنِ ابْنِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَكَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُدَلِّسُ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ. فَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْ فِيہِ عَنْ وَائِلٍ عَنْ ابْنِہِ وَرُبَّمَا ذَكَرَہُ.

اس سند سے بھی سفیان سے اسی طرح مروی ہے،اورکئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق: ابن عیینۃ،عن الزہری،عن أنس روایت کی ہے لیکن ان لوگوں نے اس میں وائل بن داود اور ان کے بیٹے کے واسطوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ اس حدیث میں تدلیس کرتے تھے۔کبھی انہوں نے اس میں وائل بن داود عن ابنہ کا ذکر نہیں کیا ہے اور کبھی اس کا ذکر کیا ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ طَعَامُ أَوَّلِ يَوْمٍ حَقٌّ وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّانِي سُنَّةٌ وَطَعَامُ يَوْمِ الثَّالِثِ سُمْعَةٌ وَمَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللہُ بِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ لَا نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زِيَادِ بْنِ عَبْدِ اللہِ وَزِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ كَثِيرُ الْغَرَائِبِ وَالْمَنَاكِيرِ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَذْكُرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ قَالَ وَكِيعٌ زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ مَعَ شَرَفِہِ يَكْذِبُ فِي الْحَدِيثِ

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پہلے روز کا کھانا حق ہے،دوسرے روز کا کھانا سنت ہے۔اور تیسرے روز کا کھاناتومحض دکھاوااورنمائش ہے اور جوریاکاری کرے گا اللہ اسے اس کی ریاکاری کی سزادے گا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود کی حدیث کوہم صرف زیاد بن عبداللہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔اور زیاد بن عبداللہ بہت زیادہ غریب اور منکر احادیث بیان کرتے ہیں،۲-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوسناکہ وہ محمد بن عقبہ سے نقل کررہے تھے کہ وکیع کہتے ہیں:زیاد بن عبداللہ اس بات سے بہت بلندہیں کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ يُقَالُ لَہُ أَبُو شُعَيْبٍ إِلَی غُلَامٍ لَہُ لَحَّامٍ فَقَالَ اصْنَعْ لِي طَعَامًا يَكْفِي خَمْسَةً فَإِنِّي رَأَيْتُ فِي وَجْہِ رَسُولِ اللہِ ﷺ الْجُوعَ قَالَ فَصَنَعَ طَعَامًا ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَدَعَاہُ وَجُلَسَاءَہُ الَّذِينَ مَعَہُ فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ ﷺ اتَّبَعَہُمْ رَجُلٌ لَمْ يَكُنْ مَعَہُمْ حِينَ دُعُوا فَلَمَّا انْتَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ إِلَی الْبَابِ قَالَ لِصَاحِبِ الْمَنْزِلِ إِنَّہُ اتَّبَعَنَا رَجُلٌ لَمْ يَكُنْ مَعَنَا حِينَ دَعَوْتَنَا فَإِنْ أَذِنْتَ لَہُ دَخَلَ قَالَ فَقَدْ أَذِنَّا لَہُ فَلْيَدْخُلْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ

ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوشعیب نامی ایک شخص نے اپنے ایک گوشت فروش لڑکے کے پاس آکر کہا:تم میرے لیے کھانا بناجوپانچ آدمیوں کے لیے کافی ہوکیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے پربھوک کااثردیکھاہے،تو اس نے کھانا تیار کیا۔پھر نبی اکرمﷺ کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔تو اس نے آپ کو اور آپ کے ساتھ جولوگ بیٹھے تھے سب کوکھانے کے لیے بلایا،جب نبی اکرمﷺ (چلنے کے لیے) اُٹھے،تو آپ کے پیچھے ایک اورشخص بھی چلا آیا،جو آپ کے ساتھ اس وقت نہیں تھا جب آپ کو دعوت دی گئی تھی۔جب رسول اللہ ﷺ دروازے پر پہنچے توآپ نے صاحب خانہ سے فرمایا: ہمارے ساتھ ایک اورشخص ہے جو ہمارے ساتھ اس وقت نہیں تھا،جب تم نے دعوت دی تھی،اگر تم اجازت دو تو وہ بھی اندر آجائے؟،اس نے کہا: ہم نے اُسے بھی اجازت دے دی،وہ بھی اندر آجائے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا مُطَرِّفٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو جُحَيْفَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَلِيٍّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ہَلْ عِنْدَكُمْ سَوْدَاءُ فِي بَيْضَاءَ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللہِ قَالَ لَا وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا عَلِمْتُہُ إِلَّا فَہْمًا يُعْطِيہِ اللہُ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ قُلْتُ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ قَالَ الْعَقْلُ وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ وَہُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ و قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ يُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالْمُعَاہِدِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ

ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھاکیا ۱ ؎: امیرالمومنین! کیاآپ کے پاس کاغذمیں لکھی ہوئی کوئی ایسی تحریرہے جو قرآن میں نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں،اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اورجان کو پیدا کیا! میں سوائے اس فہم وبصیرت کے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کے سلسلہ میں آدمی کو نواز تا ہے اور اس صحیفہ میں موجود چیز کے کچھ نہیں جانتا،میں نے پوچھا: صحیفہ میں کیا ہے؟ کہا: اس میں دیت،قید یوں کے آزادکرنے کا ذکراورآپ کا یہ فرمان ہے: مومن کافرکے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳-بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے،سفیان ثوری،مالک بن انس،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،یہ لوگ کہتے ہیں: مومن کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے گا،۴-اوربعض اہل علم کہتے ہیں: ذمی کے بدلے بطور قصاص مسلمان کوقتل کیا جائے گا،لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَأَبُو عَمَّارٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ الدِّيَةُ عَلَی الْعَاقِلَةِ وَلَا تَرِثُ الْمَرْأَةُ مِنْ دِيَةِ زَوْجِہَا شَيْئًا حَتَّی أَخْبَرَہُ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ الْكِلَابِيُّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ كَتَبَ إِلَيْہِ أَنْ وَرِّثْ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ

سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: دیت کی ادائیگی عاقلہ ۱؎ پرہے،اوربیوی اپنے شوہر کی دیت سے میراث میں کچھ نہیں پائے گی،یہاں تک کہ ان کو ضحاک بن سفیان کلابی نے بتایاکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک فرمان لکھا تھا: اشیم ضبابی کی بیوی کو اس کے شوہرکی دیت سے میراث دو ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ وَحَاتِمُ بْنُ سِيَاہٍ الْمَرْوَزِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَہْلٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِيدٌ وَمَنْ سَرَقَ مِنْ الْأَرْضِ شِبْرًا طُوِّقَہُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ وَزَادَ حَاتِمُ بْنُ سِيَاہٍ الْمَرْوَزِيُّ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ قَالَ مَعْمَرٌ بَلَغَنِي عَنْ الزُّہْرِيِّ وَلَمْ أَسْمَعْ مِنْہُ زَادَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِيدٌ وَہَكَذَا رَوَی شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَہْلٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَی سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيہِ سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَہْلٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ شہیدہے ۱؎ اورجس نے ایک بالشت بھی زمین چرائی قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس حدیث میں حاتم بن سیا ہ مروزی نے اضافہ کیا ہے،معمر کہتے ہیں: زہری سے مجھے حدیث پہنچی ہے،لیکن میں نے ان سے نہیں سنا کہ انہوں نے اس حدیث یعنی من قتل دون مالہ فہو شہید(جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے ماراجائے وہ شہیدہے) میں کچھ اضافہ کیاہو،اسی طرح شعیب بن ابوحمزہ نے یہ حدیث بطریق: الزہری،عن طلحۃ بن عبداللہ،عن عبدالرحمٰن ابن عمرو بن سہل،عن سعید بن زید،عن النبی ﷺ روایت کی ہے،نیز سفیان بن عیینہ نے بطریق: الزہری،عن طلحۃ بن عبداللہ،عن سعید بن زید،عن النبی ﷺروایت کی ہے،اس میں سفیان نے عبدالرحمٰن بن عمروبن سہل کاذکرنہیں کیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُطَّلِبِ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِيدٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ لِلرَّجُلِ أَنْ يُقَاتِلَ عَنْ نَفْسِہِ وَمَالِہِ و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ يُقَاتِلُ عَنْ مَالِہِ وَلَوْ دِرْہَمَيْنِ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوے ماراجائے وہ شہیدہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،یہ دوسری سند وں سے بھی ان سے مروی ہے ۲-بعض اہل علم نے آدمی کو اپنی جان ومال کی حفاظت کے لیے دفاع کی اجازت دی ہے،۳-اس باب میں علی،سعید بن زید،ابوہریرہ،ابن عمر،ابن عباس اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: آدمی اپنے مال کی حفاظت کے لیے دفاع کرے خواہ اس کا مال دودرہم ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔

حَدَّثَنَا ہَارُونُ بْنُ إِسْحَقَ الْہَمْدَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَہَّابِ الْكُوفِيُّ شَيْخٌ ثِقَةٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ حَدَّثَنِي إِبْرَاہِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ قَالَ سُفْيَانُ وَأَثْنَی عَلَيْہِ خَيْرًا قَال سَمِعْتُ عَبْدَ اللہِ بْنَ عَمْرٍو يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ أُرِيدَ مَالُہُ بِغَيْرِ حَقٍّ فَقَاتَلَ فَقُتِلَ فَہُوَ شَہِيدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَہُ

عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس آدمی کا ما ل ناحق چھینا جائے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے دفاع کرتاہواماراجائے تووہ شہیدہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِہِ فَہُوَ شَہِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِہِ فَہُوَ شَہِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَہْلِہِ فَہُوَ شَہِيدٌ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ سَعْدٍ نَحْوَ ہَذَا وَيَعْقُوبُ ہُوَ ابْنُ إبرَاہِيمَ بنِ سَعْدِ بنِ إبرَاہِيمَ بنِ عَبدِ الرحمنِ بنِ عَوْفٍ الزُّہْرِيُّ

سعیدبن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے ہوئے سنا: جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیاجائے وہ شہیدہے،جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیاجائے وہ شہیدہے،جواپنی جان کی حفاظت کی خاطرمارا جائے اوہ شہیدہے اورجواپنے اہل وعیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیاجائے وہ شہیدہے ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-ابراہیم بن سعد سے کئی راویوں نے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

حَدَّثَنَا أَزْہَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ ہِلَالٍ عَنْ أَبِي الدَّہْمَاءِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ شُكِيَ إِلَی رَسُولِ اللہِ ﷺ الْجِرَاحَاتُ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ احْفِرُوا وَأَوْسِعُوا وَأَحْسِنُوا وَادْفِنُوا الِاثْنَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ وَقَدِّمُوا أَكْثَرَہُمْ قُرْآنًا فَمَاتَ أَبِي فَقُدِّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلَيْنِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ خَبَّابٍ وَجَابِرٍ وَأَنَسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُہُ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ ہِلَالٍ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عَامِرٍ وَأَبُو الدَّہْمَاءِ اسْمُہُ قِرْفَةُ بْنُ بُہَيْسٍ أَوْ بَيْہَسٍذ

ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: احدکے دن رسول اللہ ﷺ سے زخموں کی شکایت کی گئی ۱؎،آپ نے فرمایا:قبرکھودواوراسے کشادہ اوراچھی بناؤ،ایک قبرمیں دویاتین آدمیوں کو دفن کرو،اورجسے زیادہ قرآن یادہو اسے (قبلہ کی طرف) آگے کرو،ہشام بن عامرکہتے ہیں: میرے والدبھی وفات پائے تھے،چنانچہ ان کو ان کے دو ساتھیوں پر مقدم (یعنی قبلہ کی طرف آگے) کیاگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سفیان ثوری اوردوسرے لوگوں نے اس حدیث کوبسند ایوب عن حمید بن ہلال عن ہشام بن عامر روایت کیا ہے،۳-اس باب میں خباب،جابر اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَال سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللہُ عَلَی رَسُولِہِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْہِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَكَانَتْ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ خَالِصًا وَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَعْزِلُ نَفَقَةَ أَہْلِہِ سَنَةً ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرَوَی سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ

عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسودکے قبیلہ بنی نضیرکے اموال ان میں سے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطور فے ۱؎ عطا کیاتھا،اس کے لیے مسلمانوں نے نہ تو گھوڑے دوڑائے تھے اورنہ ہی اونٹ،یہ پورے کا پورا مال خالص اللہ کے رسول ﷺ کے لیے تھا،رسول اللہ ﷺ اپنے گھروالوں کے لیے اس میں سے ایک سال کا خرچ الگ کرلیتے،پھر جوباقی بچتااسے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑوں اورہتھیاروں میں خرچ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-سفیان بن عیینہ نے اس حدیث کو معمر کے واسطہ سے ابن شہاب سے روایت کیا ہے۔

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ قَالَتْ الْأَعْرَابُ يَا رَسُولَ اللہِ أَلَا نَتَدَاوَی قَالَ نَعَمْ يَا عِبَادَ اللہِ تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللہَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَہُ شِفَاءً أَوْ قَالَ دَوَاءً إِلَّا دَاءً وَاحِدًا قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَمَا ہُوَ قَالَ الْہَرَمُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي خُزَامَةَ عَنْ أَبِيہِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اعرابیوں(بدؤں) نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیاہم (بیماریوں کا) علاج کریں؟ آپ نے فرمایا: ہاں،اللہ کے بندو! علاج کرو،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیداکی ہے اس کی دوابھی ضرور پیداکی ہے،سواے ایک بیماری کے،لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ نے فرمایا: بڑھاپا ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن مسعود،ابوہریرہ،ابوخزامہ عن أبیہ،اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ عَلَيْكُمْ بِہَذِہِ الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ فَإِنَّ فِيہَا شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ إِلَّا السَّامَ وَالسَّامُ الْمَوْتُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْحَبَّةُ السَّوْدَاءُ ہِيَ الشُّونِيزُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم لوگ اس کالے دانہ (کلونجی) کو لازمی استعمال کرو اس لیے کہ اس میں سام کے علاوہ ہربیماری کی شفاء موجود ہے، سام موت کوکہتے ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں بریدہ،ابن عمراور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-الحبۃ السوداء شونیز (کلونجی) کوکہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْہِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمَّادٍ الشُّعَيْثِيُّ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ خَيْرَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِہِ السَّعُوطُ وَاللَّدُودُ وَالْحِجَامَةُ وَالْمَشِيُّ فَلَمَّا اشْتَكَی رَسُولُ اللہِ ﷺ لَدَّہُ أَصْحَابُہُ فَلَمَّا فَرَغُوا قَالَ لُدُّوہُمْ قَالَ فَلُدُّوا كُلُّہُمْ غَيْرَ الْعَبَّاسِ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس چیز سے علاج کرتے ہواس میں سب سے بہترسعوط (ناک میں ڈالنے والی دوا)،لدود،(منہ کے ایک کنارہ سے ڈالی جانے والی دوا)،حجامت (پچھنالگانا) اور دست آور دوا ہے،جب رسول اللہﷺ بیمارہوے توصحابہ نے آپ کے منہ کے ایک کنارہ میں دواڈالی،جب وہ دواڈال چکے توآپ نے فرمایا:موجودلوگوں کے بھی منہ میں دوا ڈالو،ابن عباس کہتے ہیں: عباس کے علاوہ تمام لوگوں کے منہ میں دواڈالی گئی ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنَّ خَيْرَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِہِ اللَّدُودُ وَالسَّعُوطُ وَالْحِجَامَةُ وَالْمَشِيُّ وَخَيْرُ مَا اكْتَحَلْتُمْ بِہِ الْإِثْمِدُ فَإِنَّہُ يَجْلُو الْبَصَرَ وَيُنْبِتُ الشَّعْرَ وَكَانَ لِرَسُولِ اللہِ ﷺ مُكْحُلَةٌ يَكْتَحِلُ بِہَا عِنْدَ النَّوْمِ ثَلَاثًا فِي كُلِّ عَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَہُوَ حَدِيثُ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس چیز سے تم علاج کرتے ہوان میں سب سے بہترمنہ کے ایک کنارہ سے ڈالی جانے والی دوا،ناک میں ڈالنے کی دوا،پچھنا اوردست آوردواہے اورتمہارا اپنی آنکھوں میں لگانے کا سب سے بہترسرمہ اثمدہے،اس لیے کہ وہ بینائی (نظر) کو بڑھاتاہے اوربال اگاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کے پاس ایک سرمہ دانی تھی جس سے سوتے وقت ہرآنکھ میں تین سلائی لگاتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: عباد بن منصورکی یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ،عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ،عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ كَعْبٍ السُّلَمِيِّ،أَنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَخْبَرَہُ،عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي العَاصِ أَنَّہُ قَالَ: أَتَانِي رَسُولُ اللہِ ﷺ وَبِي وَجَعٌ قَدْ كَادَ يُہْلِكُنِي،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: امْسَحْ بِيَمِينِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ وَقُلْ: أَعُوذُ بِعِزَّةِ اللہِ وَقُدْرَتِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ قَالَ: فَفَعَلْتُ،فَأَذْہَبَ اللہُ مَا كَانَ بِي،فَلَمْ أَزَلْ آمُرُ بِہِ أَہْلِي وَغَيْرَہُمْ: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺعیادت کے لیے میرے پاس تشریف لائے،اس وقت مجھے ایسا درد تھا کہ لگتاتھا وہ مارڈالے گا،رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے داہنے ہاتھ سے سات مرتبہ دردکی جگہ چھوؤاوریہ دعاء پڑھوأَعُوذُ بِعِزَّۃِ اللہِ وَقُدْرَتِہِ وَسُلْطَانِہِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت اور طاقت کے وسیلے سے اس تکلیف کے شرسے پناہ مانگتاہوں جو مجھے لاحق ہے۔میں نے ویساہی کیا اوراللہ تعالیٰ نے میری تکلیف دورکردی،چنانچہ میں ہمیشہ اپنے گھر والوں کو اوردوسروں کو یہ دعاء پڑھنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ أَبِي السَّمْحِ عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِنَّ الْحَمِيمَ لَيُصَبُّ عَلَی رُءُوسِہِمْ فَيَنْفُذُ الْحَمِيمُ حَتَّی يَخْلُصَ إِلَی جَوْفِہِ فَيَسْلِتُ مَا فِي جَوْفِہِ حَتَّی يَمْرُقَ مِنْ قَدَمَيْہِ وَہُوَ الصَّہْرُ ثُمَّ يُعَادُ كَمَا كَانَ وَسَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ يُكْنَی أَبَا شُجَاعٍ وَہُوَ مِصْرِيٌّ وَقَدْ رَوَی عَنْہُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَابْنُ حُجَيْرَةَ ہُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُجَيْرَةَ الْمِصْرِيُّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جہنمیوں کے سرپر ماء حمیم (گرم پانی) انڈیلا جائے گا تو وہ (بدن میں) سرایت کرجائے گا یہاں تک کہ اس کے پیٹ تک جاپہنچے گا اور اس کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے اسے کاٹے گا یہاں تک کہ اس کے پیروں (یعنی سرین) سے نکل جائے گا۔یہی وہ صہر ہے(جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے)پھر اسی طرح لوٹا دیاجائے گا جس طرح تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِہِ وَيُسْقَی مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ يَتَجَرَّعُہُ قَالَ يُقَرَّبُ إِلَی فِيہِ فَيَكْرَہُہُ فَإِذَا أُدْنِيَ مِنْہُ شَوَی وَجْہَہُ وَوَقَعَتْ فَرْوَةُ رَأْسِہِ فَإِذَا شَرِبَہُ قَطَّعَ أَمْعَاءَہُ حَتَّی تَخْرُجَ مِنْ دُبُرِہِ يَقُولُ اللہُ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَہُمْ وَيَقُولُ وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُہْلِ يَشْوِي الْوُجُوہَ بِئْسَ الشَّرَابُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَہَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ وَلَا نَعْرِفُ عُبَيْدَ اللہِ بْنَ بُسْرٍ إِلَّا فِي ہَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ رَوَی صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ بُسْرٍ صَاحِبِ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ بُسْرٍ لَہُ أَخٌ قَدْ سَمِعَ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَأُخْتُہُ قَدْ سَمِعَتْ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَعُبَيْدُ اللہِ بْنُ بُسْرٍ الَّذِي رَوَی عَنْہُ صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ہَذَا الْحَدِيثَ رَجُلٌ آخَرُ لَيْسَ بِصَاحِبٍ

ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول وَیُسْقَی مِنْ مَائٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُہُ (ابراہیم:۱۶) کے بارے میں فرمایا: صدید(پیپ) اس کے منہ کے قریب کی جائے گی تو اسے ناپسند کرے گا جب اسے اور قریب کیا جائے گا تو اس کا چہرہ بھن جائے گا اور اس کے سر کی کھال گر جائے گی اور جب اسے پیئے گا تو اس کی آنت کٹ جائے گی یہاں تک کہ اس کے سرین سے نکل جائے گی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَسُقُوا مَائً حَمِیمًا فَقَطَّعَ أَمْعَائَہُمْ (سورۃ محمد:۱۵) (وہ ماء حمیم(گرم پانی) پلائے جائیں گے تو وہ ان کی آنتوں کو کاٹ دے گا) اورا للہ تعالیٰ فرماتاہے وَإِنْ یَسْتَغِیثُوا یُغَاثُوا بِمَائٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوہَ بِئْسَ الشَّرَابُ (الکہف: ۲۹) (اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو تلچھٹ کی طرح ہوگا چہرے کو بھون دے گا اور وہ نہایت برامشروب ہے) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث غریب ہے،۲-اسی طرح محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی سند میں عن عبید اللہ بن بسر کہاہے اور ہم عبید اللہ بن بسر کو صرف اسی حدیث میں جانتے ہیں،۳-صفوان بن عمر نے عبداللہ بن بسر سے جونبی اکرم ﷺ کے صحابی ہیں،ایک دوسری حدیث روایت کی ہے،عبدا للہ بن بسر کے ایک بھائی ہیں جنہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سنی ہے اور ان کی ایک بہن نے بھی نبی اکرم ﷺ سے حدیث سنی ہے۔جس عبید اللہ بن بسر سے صفوان بن عمرو نے یہ حدیث روایت کی ہے،یہ صحابی نہیں ہیں کوئی دوسرے آدمی ہیں۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ المُبَارَكِ قَالَ: أَخْبَرَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الحَارِثِ،عَنْ دَرَّاجٍ،عَنْ أَبِي الہَيْثَمِ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ،قَالَ: كَالمُہْلِ [الكہف: 29] ((كَعَكَرِ الزَّيْتِ،فَإِذَا قُرِّبَ إِلَيْہِ سَقَطَتْ فَرْوَةُ وَجْہِہِ فِيہِ))وَبِہَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((لِسُرَادِقِ النَّارِ أَرْبَعَةُ جُدُرٍ كِثَفُ كُلِّ جِدَارٍ مِثْلُ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ سَنَةً))وَبِہَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((لَوْ أَنَّ دَلْوًا مِنْ غَسَّاقٍ يُہْرَاقُ فِي الدُّنْيَا لَأَنْتَنَ أَہْلَ الدُّنْيَا)): ہَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ،وَفِي رِشْدِينَ مَقَالٌ،وَقَدْ تُكُلِّمَ فِيہِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ،وَمَعْنَی قَوْلِہِ كِثَفُ كُلِّ جِدَارٍ: يَعْنِي غِلَظَہُ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کالمہل یعنی تلچھٹ کی طرح ہوگا جب اسے (جہنمی) اپنے قریب کرے گا تو اس کے چہرے کی کھال اس میں گرجائے گی۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: جہنم کا احاطہ چار دیواریں ہیں اور ہردیوار کی موٹائی چالیس سال کی مسافت کے مانند ہے۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر غساق (جہنمیوں کے مواد) کا ایک ڈول دنیا میں بہادیاجائے تو دنیا والے سڑجائیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-اس حدیث کو ہم صرف رشدین بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں اور رشدین کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے،ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے،۲-رسول اللہ ﷺ کے قول کِثَفُ کُلِّ جِدَارٍ کا مطلب ہے ہردیوار کی موٹائی۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَرَأَ ہَذِہِ الْآيَةَ اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنْ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِي دَارِ الدُّنْيَا لَأَفْسَدَتْ عَلَی أَہْلِ الدُّنْيَا مَعَايِشَہُمْ فَكَيْفَ بِمَنْ يَكُونُ طَعَامَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (آل عمران: ۱۰۲) (تم اللہ سے ڈرنے کی طرح ڈرو اور مسلمان ہی رہتے ہوئے مرو) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر زقوم تھوہڑکا ایک قطرہ بھی دنیا کی زمین میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی معیشت بگڑ جائے،بھلا اس آدمی کا کیا ہوگا جس کی غذا ہی زقوم ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ اشْتَكَتْ النَّارُ إِلَی رَبِّہَا وَقَالَتْ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا فَجَعَلَ لَہَا نَفَسَيْنِ نَفَسًا فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسًا فِي الصَّيْفِ فَأَمَّا نَفَسُہَا فِي الشِّتَاءِ فَزَمْہَرِيرٌ وَأَمَّا نَفَسُہَا فِي الصَّيْفِ فَسَمُومٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ وَالْمُفَضَّلُ بْنُ صَالِحٍ لَيْسَ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ بِذَلِكَ الْحَافِظِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی کہمیرا بعض حصہ بعض حصے کو کھائے جارہاہے لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دوسانسیں مقرر کردیں: ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس جاڑے میں،جہنم کے جاڑے کی سانس سے سخت سردی پڑتی ہے۔اور اس کی گرمی کی سانس سے لوچلتی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث صحیح ہے،۲-ابوہریرہ کے واسطہ سے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے دوسری سندسے بھی مروی ہے،۳-مفضل بن صالح محدثین کے نزدیک کوئی قوی حافظے والے نہیں ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَہِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ وَقَالَ شُعْبَةُ أَخْرِجُوا مِنْ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَكَانَ فِي قَلْبِہِ مِنْ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ شَعِيرَةً أَخْرِجُوا مِنْ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَكَانَ فِي قَلْبِہِ مِنْ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ بُرَّةً أَخْرِجُوا مِنْ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَكَانَ فِي قَلْبِہِ مِنْ الْخَيْرِ مَا يَزِنُ ذَرَّةً و قَالَ شُعْبَةُ مَا يَزِنُ ذُرَةً مُخَفَّفَةً وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنم سے نکلے گا (شعبہ نے اپنی روایت میں کہا ہے: (اللہ تعالیٰ کہے گا) اسے جہنم سے نکال لو) جس نے لا إلٰہ إلا اللہ کہا اور اس کے دل میں ایک جو کے دانہ کے برابر بھلائی تھی،اسے جہنم سے نکالو جس نے لا إلٰہ إلا اللہ کہا،اور اس کے دل میں گیہوں کے دانہ کے برابر بھلائی تھی،اسے جہنم سے نکالو جس نے لا إلٰہ إلا اللہ کہا اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھلائی تھی۔(شعبہ نے کہا ہے: جوار کے برابر بھلائی تھی)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،ابوسعیدخدری اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ عَنْ مُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ يَقُولُ اللہُ أَخْرِجُوا مِنْ النَّارِ مَنْ ذَكَرَنِي يَوْمًا أَوْ خَافَنِي فِي مَقَامٍ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کہے گا: اسے جہنم سے نکال لو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا ایک مقام پر بھی مجھ سے ڈرا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنِّي لَأَعْرِفُ آخِرَ أَہْلِ النَّارِ خُرُوجًا رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنْہَا زَحْفًا فَيَقُولُ يَا رَبِّ قَدْ أَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ قَالَ فَيُقَالُ لَہُ انْطَلِقْ فَادْخُلْ الْجَنَّةَ قَالَ فَيَذْہَبُ لِيَدْخُلَ فَيَجِدُ النَّاسَ قَدْ أَخَذُوا الْمَنَازِلَ فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ يَا رَبِّ قَدْ أَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ قَالَ فَيُقَالُ لَہُ أَتَذْكُرُ الزَّمَانَ الَّذِي كُنْتَ فِيہِ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيُقَالُ لَہُ تَمَنَّ قَالَ فَيَتَمَنَّی فَيُقَالُ لَہُ فَإِنَّ لَكَ مَا تَمَنَّيْتَ وَعَشْرَةَ أَضْعَافِ الدُّنْيَا قَالَ فَيَقُولُ أَتَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ ضَحِكَ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنم سے سب سے آخر میں نکلنے والے آدمی کو میں جانتاہوں،وہ ایسا آدمی ہوگا جو سرین کے بل چلتے ہوئے نکلے گا اور عرض کرے گا: اے میرے رب! لوگ جنت کی تمام جگہ لے چکے ہوں گے،آپ نے فرمایا: اس سے کہاجائے گا: چلو جنت میں داخل ہوجاؤ،آپ نے فرمایا: وہ داخل ہونے کے لیے جائے گا (جنت کو اس حال میں) پائے گا کہ لوگ تمام جگہ لے چکے ہیں،وہ واپس آکر عرض کرے گا: اے میرے رب! لوگ تمام جگہ لے چکے ہیں؟!،آپ نے فرمایا: اس سے کہاجائے گا: کیا وہ دن یاد ہیں جن میں (دنیا کے اندر) تھے؟ وہ کہے گا: ہاں،اس سے کہاجائے گا:آرزو کرو،آپ نے فرمایا: وہ آرزو کرے گا،اس سے کہاجائے گا: تمہارے لیے وہ تمام چیزیں جس کی تم نے آرزو کی ہے اور دنیا کے دس گنا ہے۔آپ نے فرمایا: وہ کہے گا: (اے باری تعالیٰ!)آپ مذاق کررہے ہیں حالاں کہ آپ مالک ہیں،ابن مسعود کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہنستے دیکھا حتی کہ آپ کے اندورنی کے دانت نظر آنے لگے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِنِّي لَأَعْرِفُ آخِرَ أَہْلِ النَّارِ خُرُوجًا مِنْ النَّارِ وَآخِرَ أَہْلِ الْجَنَّةِ دُخُولًا الْجَنَّةَ يُؤْتَی بِرَجُلٍ فَيَقُولُ سَلُوا عَنْ صِغَارِ ذُنُوبِہِ وَاخْبَئُوا كِبَارَہَا فَيُقَالُ لَہُ عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا فِي يَوْمِ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَيُقَالُ لَہُ فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً قَالَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ لَقَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ مَا أَرَاہَا ہَا ہُنَا قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ ضَحِكَ حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنم سے سب سے آخر میں نکلنے اورجنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والے آدمی کو میں جانتاہوں۔ایک آدمی کولایاجائے گا اور اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) کہے گا: اس سے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کے بارے میں پوچھو اور اس کے بڑے گناہوں کو چھپادو،اس سے کہاجائے گا: تم نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے گناہ کئے تھے،تم نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے گناہ کیے تھے؟۔آپ نے فرمایا: اس سے کہاجائے گا: تمہارے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی ہے۔آپ نے فرمایا: وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میں نے کچھ ایسے بھی گناہ کیے تھے جسے یہاں نہیں دیکھ رہاہوں۔ابوذر کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ ﷺ کو ہنستے ہوئے دیکھا حتی کہ آپ کے اندورنیکے دانت نظر آنے لگے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُعَذَّبُ نَاسٌ مِنْ أَہْلِ التَّوْحِيدِ فِي النَّارِ حَتَّی يَكُونُوا فِيہَا حُمَمًا ثُمَّ تُدْرِكُہُمْ الرَّحْمَةُ فَيُخْرَجُونَ وَيُطْرَحُونَ عَلَی أَبْوَابِ الْجَنَّةِ قَالَ فَيَرُشُّ عَلَيْہِمْ أَہْلُ الْجَنَّةِ الْمَاءَ فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ الْغُثَاءُ فِي حِمَالَةِ السَّيْلِ ثُمَّ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ عَنْ جَابِرٍ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:موحدین میں سے کچھ لوگ جہنم میں عذاب دئیے جائیں گے،یہاں تک کہ کوئلہ ہوجائیں گے،پھر ان پر رحمت الٰہی سایہ فگن ہوگی تو وہ نکالے جائیں گے اور جنت کے دروازے پر ڈال دئے جائیں گے۔آپ نے فرمایا: جنتی ان پر پانی چھڑکیں گے تو وہ ویسے ہی اگیں گے جیسے سیلاب کی مٹیوں میں دانہ اگتاہے،پھر وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ دوسری سند سے بھی جابر سے مروی ہے۔

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ يُخْرَجُ مِنْ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَمَنْ شَكَّ فَلْيَقْرَأْ إِنَّ اللہَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ قَالَ ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جہنم سے وہ آدمی نکلے گا جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا،ابوسعیدخدری نے کہا: جس کو شک ہو وہ یہ آیت پڑھےإنَّ اللہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ (النساء: ۴۰) (اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتاہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ أَخْبَرَنَا رِشْدِينُ حَدَّثَنِي ابْنُ أَنْعُمَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ أَنَّہُ حَدَّثَہُ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ قَالَ إِنَّ رَجُلَيْنِ مِمَّنْ دَخَلَ النَّارَ اشْتَدَّ صِيَاحُہُمَا فَقَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ أَخْرِجُوہُمَا فَلَمَّا أُخْرِجَا قَالَ لَہُمَا لِأَيِّ شَيْءٍ اشْتَدَّ صِيَاحُكُمَا قَالَا فَعَلْنَا ذَلِكَ لِتَرْحَمَنَا قَالَ إِنَّ رَحْمَتِي لَكُمَا أَنْ تَنْطَلِقَا فَتُلْقِيَا أَنْفُسَكُمَا حَيْثُ كُنْتُمَا مِنْ النَّارِ فَيَنْطَلِقَانِ فَيُلْقِي أَحَدُہُمَا نَفْسَہُ فَيَجْعَلُہَا عَلَيْہِ بَرْدًا وَسَلَامًا وَيَقُومُ الْآخَرُ فَلَا يُلْقِي نَفْسَہُ فَيَقُولُ لَہُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُلْقِيَ نَفْسَكَ كَمَا أَلْقَی صَاحِبُكَ فَيَقُولُ يَا رَبِّ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا تُعِيدَنِي فِيہَا بَعْدَ مَا أَخْرَجْتَنِي فَيَقُولُ لَہُ الرَّبُّ لَكَ رَجَاؤُكَ فَيَدْخُلَانِ جَمِيعًا الْجَنَّةَ بِرَحْمَةِ اللہِ قَالَ أَبُو عِيسَی إِسْنَادُ ہَذَا الْحَدِيثِ ضَعِيفٌ لِأَنَّہُ عَنْ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ وَرِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ ہُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ عَنْ ابْنِ أَنْعُمَ وَہُوَ الْأَفْرِيقِيُّ وَالْأَفْرِيقِيُّ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنم میں داخل ہونے والوں میں سے دو آدمیوں کی چیخ بلند ہوگی۔رب عزوجل کہے گا: ان دونوں کو نکالو،جب انہیں نکالا جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا: تمہاری چیخ کیوں بلند ہورہی ہے؟ وہ دونوں عرض کریں گے: ہم نے ایسا اس وجہ سے کیا تاکہ تو ہم پر رحم کر۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم دونوں کے لیے ہماری رحمت یہی ہے کہ تم جاؤ اور اپنے آپ کو اسی جگہ جہنم میں ڈال دو جہاں پہلے تھے۔وہ دونوں چلیں گے ان میں سے ایک اپنے آپ کو جہنم میں ڈال دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم کو ٹھنڈا اور سلامتی والی بنادے گااوردوسرا کھڑا رہے گااور اپنے آپ کو نہیں ڈالے گا۔اس سے رب عزوجل پوچھے گا:تمہیں جہنم میں اپنے آپ کو ڈالنے سے کس چیز نے روکا؟ جیسے تمہارے ساتھی نے اپنے آپ کو ڈالا؟ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے امید ہے کہ تو جہنم سے نکالنے کے بعد اس میں دوبارہ نہیں داخل کرے گا،اس سے رب تعالیٰ کہے گا: تمہارے لیے تیری تمنا پوری کی جارہی ہے،پھر وہ دونوں اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند ضعیف ہے،اس لیے کہ یہ رشدین بن سعد کے واسطہ سے مروی ہے،اور رشدین بن سعد محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں،اور رشد ین عبدالرحمٰن بن انعم سے روایت کرتے ہیں،یہ ابن انعم افریقی ہیں اور افریقی بھی محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ ذَكْوَانَ عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَيَخْرُجَنَّ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ النَّارِ بِشَفَاعَتِي يُسَمَّوْنَ الْجَہَنَّمِيُّونَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيُّ اسْمُہُ عِمْرَانُ بْنُ تَيْمٍ وَيُقَالُ ابْنُ مِلْحَانَ

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت کی ایک جماعت میری شفاعت کے سبب جہنم سے نکلے گی ان کا نام جہنمی رکھا جائے گا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہِ عَنْ يَحْيَی بْنِ عُبَيْدِ اللہِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَا رَأَيْتُ مِثْلَ النَّارِ نَامَ ہَارِبُہَا وَلَا مِثْلَ الْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُہَا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ عُبَيْدِ اللہِ وَيَحْيَی بْنُ عُبَيْدِ اللہِ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْحَدِيثِ تَكَلَّمَ فِيہِ شُعْبَةُ وَيَحْيَی بْنُ عُبَيْدِ اللہِ ہُوَ ابْنُ مَوْہَبٍ وَہُوَ مَدَنِيٌّ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے جہنم جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس سے بھاگنے والے سورہے ہیں اور جنت جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی جس کے طلب کرنے والے سورہے ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: اس کو ہم صرف یحییٰ بن عبید اللہ کی سند سے جانتے ہیں اور یحییٰ بن عبید اللہ اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں،ان کے بارے میں شعبہ نے کلام کیا ہے۔یحییٰ بن عبید اللہ کے دادا کانام موہب ہے اور وہ مدنی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَيَدِہِ وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلَی دِمَائِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کرم(ﷺ) نے فرمایا: مسلمان (کامل) وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں،اور مومن (کامل) وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ سمجھیں۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں جابر،ابوموسیٰ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے (بھی) احادیث آئی ہیں،۳-نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ سے پوچھا گیا: سب سے بہتر مسلمان کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی زبان اورہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں

حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِبْرَاہِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الجَوْہَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ،عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ،عَنْ جَدِّہِ أَبِي بُرْدَةَ،عَنْ أَبِي مُوسَی الأَشْعَرِيِّ،أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ أَيُّ المُسْلِمِينَ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَيَدِہِ)): ((ہَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَی عَنِ النَّبِيِّ ﷺ))

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھاگیا کہ مسلمانوں میں کون سا مسلمان سب سے بہترہے؟ آپ نے فرمایا: وہ مسلمان جس کی زبان اورہاتھ (کے شر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوموسیٰ اشعری کی روایت سے جسے وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں صحیح غریب حسن ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ بَزِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَكِيمِ بْنُ مَنْصُورٍ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ أَبِيہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ قِتَالُ الْمُسْلِمِ أَخَاہُ كُفْرٌ وَسِبَابُہُ فُسُوقٌ وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ مِنْ غَيْرِ وَجْہٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مسلمان کا اپنے کسی مسلمان بھائی سے جنگ کرنا کفر ہے اور اس سے گالی گلوج کرنا فسق ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے کئی سندوں سے آئی ہے،۳-اس باب میں سعد اور عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ كُفْرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَی ہَذَا الْحَدِيثِ قِتَالُہُ كُفْرٌ لَيْسَ بِہِ كُفْرًا مِثْلَ الِارْتِدَادِ وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ قَالَ مَنْ قُتِلَ مُتَعَمَّدًا فَأَوْلِيَاءُ الْمَقْتُولِ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءُوا قَتَلُوا وَإِنْ شَاءُوا عَفَوْا وَلَوْ كَانَ الْقَتْلُ كُفْرًا لَوَجَبَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَطَاوُسٍ وَعَطَاءٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ قَالُوا كُفْرٌ دُونَ كُفْرٍ وَفُسُوقٌ دُونَ فُسُوقٍ

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کو گالی گلوج دینا فسق ہے،اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔ ۱مام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-حدیث کے الفاظ قتالہ کفر کا معنی ومرادیہ ہے کہ اسود عنسی کے ارتداد کے کفر جیسا کفرنہیں ہے اور اس کی دلیل نبی اکرمﷺ کی وہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر قتل کردیا گیا ہو تو اس مقتول کے اولیا ووارثین کو اختیار حاصل ہو گا کہ وہ چاہیں تو مقتول کے قاتل کو قصاص میں قتل کردیں اور چاہیں تواسے معاف کردیں اور چھوڑدیں۔اگر یہ قتل کفر (حقیقی) کے درجہ میں ہوتا تو پھر قاتل کا قتل واجب ہوجاتا،۴-ابن عباس،طاؤس،عطاء اور دوسرے بہت سے اہل علم سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں: یہ کفر توہے لیکن کمتر درجے کا کفر ہے،یہ فسق تو ہے لیکن چھوٹے درجے کا فسق ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ وَہُوَ ابْنُ زَاذَانَ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَال سَمِعْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَكَانَ مِنْ أَحَبِّہِمْ إِلَيَّ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَعَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو وَمُعَاذِ ابْنِ عَفْرَاءَ وَالصُّنَابِحِيِّ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعَائِشَةَ وَكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ وَيَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ وَمُعَاوِيَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَہَاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ أَنَّہُمْ كَرِہُوا الصَّلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَأَمَّا الصَّلَوَاتُ الْفَوَائِتُ فَلَا بَأْسَ أَنْ تُقْضَی بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ قَالَ عَلِيُّ ابْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ شُعْبَةُ لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ أَبِي الْعَالِيَةِ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَشْيَاءَ حَدِيثَ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّی تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّی وَحَدِيثَ عَلِيٍّ الْقُضَاةُ ثَلَاثَةٌ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کئی لوگوں سے (جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سناکہ رسول اللہﷺ نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے ۱؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے صلاۃ ۲؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس کی حدیث جسے انہوں نے عمرسے روایت کی ہے،حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں علی،ابن مسعود،عقبہ بن عامر،ا بوہریرہ،ابن عمر،سمرہ بن جندب،عبداللہ بن عمرو،معاذ بن عفراء،صنابحی(نبی اکرمﷺ سے انہوں نے نہیں سناہے) سلمہ بن اکوع،زید بن ثابت،عائشہ،کعب بن مرہ،ابوامامہ،عمرو بن عبسہ،یعلی ابن امیہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر فقہا کا یہی قول ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک اورعصرکے بعد سورج ڈوبنے تک صلاۃ پڑھنے کومکروہ جانا ہے،رہیں فوت شدہ صلاتیں تو انہیں عصر کے بعد یا فجر کے بعد قضا کرنے میں کوئی حرج نہیں،۴-شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف تین چیزیں سنی ہیں۔ایک عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عصر کے بعد صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ سورج نہ ڈوب جائے،اور فجرکے بعدبھی جب تک کہ سورج نکل نہ آئے،اور (دوسری) ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:تم میں سے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہترہوں اور (تیسری) علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ أَخْبَرَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ كَانَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللہِ ﷺ يُمْہِلُ فَلَا يُقِيمُ حَتَّی إِذَا رَأَی رَسُولَ اللہِ ﷺ قَدْ خَرَجَ أَقَامَ الصَّلَاةَ حِينَ يَرَاہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ہُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَدِيثُ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَہَكَذَا قَالَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ إِنَّ الْمُؤَذِّنَ أَمْلَكُ بِالْأَذَانِ وَالْإِمَامُ أَمْلَكُ بِالْإِقَامَةِ

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا مؤذن دیر کرتا اور اقامت نہیں کہتا تھایہاں تک کہ جب وہ رسول اللہﷺ کو دیکھ لیتاکہ آپ نکل چکے ہیں تب وہ اقامت کہتا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اورہم اسرائیل کی حدیث کوجسے انہوں نے سماک سے روایت کی ہے،صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۳-اسی طرح بعض اہل علم نے کہاہے کہ مؤ ذن کو اذان کا زیادہ اختیار ہے ۱؎ اور امام کو اقامت کا زیادہ اختیار ہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ عَنْ جَابِرٍ عَنْ مُجَاہِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ مَنْ أَذَّنَ سَبْعَ سِنِينَ مُحْتَسِبًا كُتِبَتْ لَہُ بَرَاءَةٌ مِنْ النَّارِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ وَثَوْبَانَ وَمُعَاوِيَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَأَبُو تُمَيْلَةَ اسْمُہُ يَحْيَی بْنُ وَاضِحٍ وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ اسْمُہُ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ وَجَابِرُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ ضَعَّفُوہُ تَرَكَہُ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَہْدِيٍّ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ لَوْلَا جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ لَكَانَ أَہْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ حَدِيثٍ وَلَوْلَا حَمَّادٌ لَكَانَ أَہْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ فِقْہٍ

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جس نے سات سال تک ثواب کی نیت سے اذان دی اس کے لیے جہنم کی آگ سے نجات لکھ دی جائے گی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث غریب ہے،۲-اس باب میں عبداللہ بن مسعود،ثوبان،معاویہ،انس،ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اورجابر بن یزید جعفی کی لوگوں نے تضعیف کی ہے،یحیی بن سعید اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے انہیں متروک قراردیا ہے،۴-اگر جابر جعفی نہ ہوتے ۱؎ تو اہل کوفہ بغیر حدیث کے ہوتے،اور اگر حماد نہ ہوتے تو اہل کوفہ بغیر فقہ کے ہوتے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ يَحْيَی بْنِ ہَانِئِ بْنِ عُرْوَةَ الْمُرَادِيِّ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ مَحْمُودٍ قَالَ صَلَّيْنَا خَلْفَ أَمِيرٍ مِنْ الْأُمَرَاءِ فَاضْطَرَّنَا النَّاسُ فَصَلَّيْنَا بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ فَلَمَّا صَلَّيْنَا قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كُنَّا نَتَّقِي ہَذَا عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَفِي الْبَاب عَنْ قُرَّةَ بْنِ إِيَاسٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَفَّ بَيْنَ السَّوَارِي وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ

عبدالحمید بن محمود کہتے ہیں کہ ہم نے امراء میں سے ایک امیرکے پیچھے صلاۃ پڑھی،لوگوں نے ہمیں دوستونوں کے درمیان صلاۃ پڑھنے پرمجبورکردیا ۱؎ جب ہم صلاۃ پڑھ چکے تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم لوگ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اس سے بچتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں قرۃ بن ایاس مزنی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۳-علماء میں سے کچھ لوگوں نے ستونوں کے درمیان صف لگانے کو مکروہ جانا ہے۔احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،اور علماء کچھ نے اس کی اجازت دی ہے ۲ ؎۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِمْعَانَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ نَشَرَ أَصَابِعَہُ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَی غَيْرُ وَاحِدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِمْعَانَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْہِ مَدًّا وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ يَحْيَی بْنِ الْيَمَانِ وَأَخْطَأَ يَحْيَی بْنُ الْيَمَانِ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب صلاۃ کے لیے اللہ اکبرکہتے تو اپنی انگلیاں کھُلی رکھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابوہریرہ کی حدیث حسن ہے،۲-دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق ابْنِ أَبِی ذِئْبٍ،عَنْ سَعِیدِ بْنِ سِمْعَانَ،عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ روایت کی ہے (ان کے الفاظ ہیں) کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃ میں داخل ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح اٹھاتے تھے۔یہ روایت یحیی بن یمان کی روایت سے زیادہ صحیح ہے،یحیی بن یمان کی روایت غلط ہے ان سے اس حدیث میں غلطی ہوئی ہے،(اس کی وضاحت آگے آرہی ہے)۔

قَالَ و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سِمْعَانَ قَال سَمِعْتُ أَبَا ہُرَيْرَةَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْہِ مَدًّا قَالَ أَبُو عِيسَی قَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَہَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَی بْنِ الْيَمَانِ وَحَدِيثُ يَحْيَی بْنِ الْيَمَانِ خَطَأٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ جب صلاۃ کے لیے کھڑے ہوتے تواپنے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح اٹھاتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن عبدالرحمٰن(دارمی) کاکہناہے کہـ یہ یحیی بن یمان کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،اور یحیی بن یمان کی حدیث غلط ہے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَايَةَ عَنْ ابْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ سَمِعَنِي أَبِي وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ أَقُولُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ لِي أَيْ بُنَيَّ مُحْدَثٌ إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ قَالَ وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ كَانَ أَبْغَضَ إِلَيْہِ الْحَدَثُ فِي الْإِسْلَامِ يَعْنِي مِنْہُ قَالَ وَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْہُمْ يَقُولُہَا فَلَا تَقُلْہَا إِذَا أَنْتَ صَلَّيْتَ فَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَغَيْرُہُمْ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَبِہِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ أَنْ يَجْہَرَ بِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالُوا وَيَقُولُہَا فِي نَفْسِہِ

عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے صلاۃمیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے سنا تو انہوں نے مجھ سے کہا:بیٹے!یہ بدعت ہے،اور بدعت سے بچو۔میں نے رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جوان سے زیادہ اسلام میں بدعت کامخالف ہو،میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ،ابوبکر کے ساتھ،عمر کے ساتھ اور عثمان (رضی اللہ عنہم) کے ساتھ صلاۃ پڑھی ہے لیکن میں نے ان میں سے کسی کو اسے (اُونچی آواز سے) کہتے نہیں سنا،توتم بھی اسے نہ کہو ۱؎،جب تم صلاۃ پڑھو توقرأت الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرو۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲-صحابہ جن میں ابوبکر،عمر،عثمان،علی وغیرہ شامل ہیں اوران کے بعدکے تابعین میں سے اکثراہل علم کا عمل اسی پر ہے،اوریہی سفیان ثوری،ابن مبارک،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،یہ لوگ بسم اللہ الرحمن الرحیم زور سے کہنے کو درست نہیں سمجھتے (بلکہ) ان کاکہنا ہے کہ آدمی اسے اپنے دل میں کہے ۲؎۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَی بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ أَبُو عَبْدِ اللہِ الْعَدَنِيُّ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّہْرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي قَتَادَةَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ وَغَيْرُہُمْ قَالُوا لَا تُجْزِئُ صَلَاةٌ إِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ و قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ كُلُّ صَلَاةٍ لَمْ يُقْرَأْ فِيہَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَہِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ وَبِہِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ اخْتَلَفْتُ إِلَی ابْنِ عُيَيْنَةَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَنَةً وَكَانَ الْحُمَيْدِيُّ أَكْبَرَ مِنِّي بِسَنَةٍ و سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ يَقُولُ حَجَجْتُ سَبْعِينَ حَجَّةً مَاشِيًا عَلَی قَدَمَيَّ

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اس کی صلاۃ نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ،عائشہ،انس،ابوقتادہ اورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم جن میں عمر بن خطاب،علی بن ابی طالب،جابر بن عبداللہ اورعمران بن حصین وغیرہم رضی اللہ عنہم شامل ہیں کا اسی پرعمل ہے۔ان لوگوں کاکہناہے کہ سورئہ فاتحہ پڑھے بغیر صلاۃ کفایت نہیں کرتی،علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس صلاۃ میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی گئی وہ ناقص اورناتمام ہے۔یہی ابن مبارک،شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ فَإِنَّہُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ بَعْضِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَہُمْ أَنْ يَقُولَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَيَقُولَ مَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ و قَالَ ابْنُ سِيرِينَ وَغَيْرُہُ يَقُولُ مَنْ خَلْفَ الْإِمَامِ سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِثْلَ مَا يَقُولُ الْإِمَامُ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَإِسْحَقُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب امام سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہُ (اللہ نے اس کی بات سن لی جس نے اس کی تعریف کی) کہے تو تم رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ (ہمارے رب!تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں) کہوکیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہوگیاتو اس کے گزشتہ گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ امام سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد کہے ۱؎ اور مقتدی ربنا ولک الحمد کہیں،یہی احمد کہتے ہیں،۳-اور ابن سیرین وغیرہ کاکہناہے جوامام کے پیچھے (یعنی مقتدی)ہووہ بھی سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد اسی طرح کہے گا ۲؎ جس طرح امام کہے گااور یہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ سَہْلٍ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا سَجَدَ أَمْكَنَ أَنْفَہُ وَجَبْہَتَہُ مِنْ الْأَرْضِ وَنَحَّی يَدَيْہِ عَنْ جَنْبَيْہِ وَوَضَعَ كَفَّيْہِ حَذْوَ مَنْكِبَيْہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي حُمَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَسْجُدَ الرَّجُلُ عَلَی جَبْہَتِہِ وَأَنْفِہِ فَإِنْ سَجَدَ عَلَی جَبْہَتِہِ دُونَ أَنْفِہِ فَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ يُجْزِئُہُ وَقَالَ غَيْرُہُمْ لَا يُجْزِئُہُ حَتَّی يَسْجُدَ عَلَی الْجَبْہَةِ وَالْأَنْفِ

ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنی ناک اور پیشانی خوب اچھی طرح زمین پرجماتے،اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے دور رکھتے،اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کودونوں شانوں کے بالمقابل رکھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوحمید کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عباس،وائل بن حجر اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوراہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی اپنی پیشانی اورناک دونوں پر سجدہ کرے،اور اگر صرف پیشانی پر سجدہ کرے ناک پر نہ کرے تو اہل علم میں سے کچھ لوگوں کاکہنا ہے کہ یہ اسے کافی ہوگا،اورکچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کافی نہیں ہوگا جب تک کہ وہ پیشانی اورناک دونوں پر سجدہ نہ کرے ۱؎۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ عَنْ عُبَيْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْأَقْرَمِ الْخُزَاعِيِّ عَنْ أَبِيہِ قَالَ كُنْتُ مَعَ أَبِي بِالْقَاعِ مِنْ نَمِرَةَ فَمَرَّتْ رَكَبَةٌ فَإِذَا رَسُولُ اللہِ ﷺ قَائِمٌ يُصَلِّي قَالَ فَكُنْتُ أَنْظُرُ إِلَی عُفْرَتَيْ إِبْطَيْہِ إِذَا سَجَدَ أَيْ بَيَاضِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ بُحَيْنَةَ وَجَابِرٍ وَأَحْمَرَ بْنِ جَزْءٍ وَمَيْمُونَةَ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَأَبِي مَسْعُودٍ وَأَبِي أُسَيْدٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَعَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَأَحْمَرُ بْنُ جَزْءٍ ہَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ لَہُ حَدِيثٌ وَاحِدٌ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَقْرَمَ حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ وَلَا نَعْرِفُ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ أَقْرَمَ الْخُزَاعِيِّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرَ ہَذَا الْحَدِيثِ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَبْدُ اللہِ بْنُ أَرْقَمَ الزُّہْرِيُّ صَاحِبُ النَّبِيِّ ﷺ وَہُوَ كَاتِبُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ

عبداللہ بن اقرم خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مقام نمرہ کے قاع(مسطح زمین) میں اپنے والد کے ساتھ تھا،تو(وہاں سے) ایک قافلہ گزرا،کیادیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کھڑے صلاۃ پڑھ رہے ہیں،میں آپﷺ کے دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھ رہاتھا جب آپ سجدہ کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-عبداللہ بن اقرم رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،اسے ہم صرف داود بن قیس کی سند سے جانتے ہیں۔عبداللہ بن اقرم خزاعی کی اس کے علاوہ کوئی اور حدیث جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہو ہم نہیں جانتے،۲-صحابہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔اور عبداللہ بن ارقم زہری نبی اکرمﷺ کے اصحاب میں سے ہیں اور وہ ابوبکر صدیق کے منشی تھے،۳-اس باب میں ابن عباس،ابن بحینہ،جابر،احمر بن جزء،میمونہ،ابوحمید،ابومسعود،ابو اسید،سہل بن سعد،محمد بن مسلمہ،براء بن عازب،عدی بن عمیرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-احمر بن جزء نبی اکرمﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی ہیں اور ان کی صرف ایک حدیث ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَعْتَدِلْ وَلَا يَفْتَرِشْ ذِرَاعَيْہِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ وَأَنَسٍ وَالْبَرَاءِ وَأَبِي حُمَيْدٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ الِاعْتِدَالَ فِي السُّجُودِ وَيَكْرَہُونَ الِافْتِرَاشَ كَافْتِرَاشِ السَّبُعِ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اعتدال کرے ۱؎ اور اپنے ہاتھ کو کتے کی طرح نہ بچھائے ۲؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں عبدالرحمٰن بن شبل،انس،براء،ابوحمید اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کا عمل اسی پر ہے،وہ سجدے میں اعتدال کوپسندکرتے ہیں اورہاتھ کودرندے کی طرح بچھانے کومکروہ سمجھتے ہیں۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَال سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ وَلَا يَبْسُطَنَّ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْہِ فِي الصَّلَاةِ بَسْطَ الْكَلْبِ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سجدے میں اپنی ہیئت درمیانی رکھو،تم میں سے کوئی صلاۃ میں اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھائے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْمَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَأَبِي ہُرَيْرَةَ وَأَبِي ذَرٍّ وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی وَحَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَی ہَذَا الْحَدِيثَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ نَحْوَ رِوَايَةِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَرَوَی سُہَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَہَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا اسْتَحَبُّوا إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ الْمَسْجِدَ أَنْ لَا يَجْلِسَ حَتَّی يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَہُ عُذْرٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَحَدِيثُ سُہَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ خَطَأٌ أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ

ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں پڑھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-محمد بن عجلان اوردیگر کئی لوگوں نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے بھی یہ حدیث روایت کی ہے جیسے مالک بن انس کی روایت ہے،۳-سہیل بن ابی صالح ۲؎ نے یہ حدیث بطریق:عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ الزُّبَیْرِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَیْمٍ الزُّرَقِیِّ،عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺسے روایت کی ہے،۴-یہ حدیث غیر محفوظ ہے اور صحیح ابوقتادہ کی حدیث ہے،اس باب میں جابر،ابوامامہ،ابوہریرہ،ابوذر اور کعب بن مالک سے بھی احادیث آئی ہیں،ہمارے اصحاب کا عمل اسی حدیث پر ہے: انہوں نے مستحب قراردیاہے کہ جب آدمی مسجد میں داخل ہوتو جب تک دورکعتیں نہ پڑھ لے،نہ بیٹھیالایہ کہ اس کے پاس کوئی عذر ہو،۵-علی بن مدینی کہتے ہیں: سُہیل بن ابی صالح کی حدیث میں غلطی ہوئی ہے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللہِ ﷺ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو صَالِحٍ ہَذَا ہُوَ مَوْلَی أُمِّ ہَانِئِ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ وَاسْمُہُ بَاذَانُ وَيُقَالُ بَاذَامُ أَيْضًا

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور قبروں پرمساجد بنانے والے اور چراغ جلانے والے لوگوں پرلعنت فرمائی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ،عَنْ إِسْرَائِيلَ،عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ،عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللہِ ﷺ الْمَدِينَةَ،صَلَّی نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَہْرًا،وَكَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يُحِبُّ أَنْ يُوَجِّہَ إِلَی الْكَعْبَةِ،فَأَنْزَلَ اللہُ تَعَالَی: قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاہَا،فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَوَجَّہَ نَحْوَ الْكَعْبَةِ،وَكَانَ يُحِبُّ ذَلِكَ،فَصَلَّی رَجُلٌ مَعَہُ الْعَصْرَ،ثُمَّ مَرَّ عَلَی قَوْمٍ مِنْ الأَنْصَارِ وَہُمْ رُكُوعٌ فِي صَلاَةِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ،فَقَالَ: ہُوَ يَشْہَدُ أَنَّہُ صَلَّی مَعَ رَسُولِ اللہِ ﷺ،وَأَنَّہُ قَدْ وَجَّہَ إِلَی الْكَعْبَةِ،قَالَ: فَانْحَرَفُوا وَہُمْ رُكُوعٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ،وَابْنِ عَبَّاسٍ،وَعُمَارَةَ بْنِ أَوْسٍ،وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ،وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَحَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ

براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ مدینے آئے تو سولہ یاسترہ ماہ تک آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے صلاۃ پڑھی اور رسول اللہﷺ کعبہ کی طرف رخ کرنا پسندفرماتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ (ہم آپ کے چہرے کو باربارآسمان کی طرف اٹھتے ہوے دیکھ رہے ہیں،اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہوجائیں،اب آپ اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیجئے)نازل فرمائی،توآپ نے اپنا چہرہ کعبہ کی طرف پھیرلیااورآپ یہی چاہتے بھی تھے،ایک شخص نے آپ کے ساتھ عصر پڑھی،پھروہ انصارکے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا اوروہ لوگ عصر میں بیت المقدس کی طرف چہرہ کئے رکوع کی حالت میں تھے،اس نے کہا: میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ اس حال میں صلاۃ پڑھی ہے کہ آپ اپنارخ کعبہ کی طرف کئے ہوئے تھے،تووہ لوگ بھی رکوع کی حالت ہی میں (خانہ کعبہ کی طرف) پھر گئے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-براء کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،ابن عباس،عمارہ بن اوس،عمرو بن عوف مزنی اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ،عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ دِينَارٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،قَالَ: كَانُوا رُكُوعًا فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں وہ لوگ صلاۃِفجر میں رکوع میں تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ،حَدَّثَنَا الْمُقْرِءُ،حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَيُّوبَ،عَنْ زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ،عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ،عَنْ نَافِعٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ نَہَی أَنْ يُصَلَّی فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ فِي الْمَزْبَلَةِ،وَالْمَجْزَرَةِ،وَالْمَقْبَرَةِ،وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ،وَفِي الْحَمَّامِ،وَفِي مَعَاطِنِ الإِبِلِ،وَفَوْقَ ظَہْرِ بَيْتِ اللہِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سات مقامات میں صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا ہے: کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ میں،مذبح میں،قبرستان میں،عام راستوں پر،حمام (غسل خانہ)میں اونٹ باندھنے کی جگہ میں اور بیت اللہ کی چھت پر۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ،حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ،عَنْ زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ،عَنْ دَاوُدَ ابْنِ حُصَيْنٍ،عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مَرْثَدٍ،وَجَابِرٍ،وَأَنَسٍ. أَبُو مَرْثَدٍ اسْمُہُ: كَنَّازُ بْنُ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ إِسْنَادُہُ لَيْسَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ،وَقَدْ تُكُلِّمَ فِي زَيْدِ بْنِ جَبِيرَةَ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَزَيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ الْكُوفِيُّ أَثْبَتُ مِنْ ہَذَا وَأَقْدَمُ،وَقَدْ سَمِعَ مِنْ ابْنِ عُمَرَ. وَقَدْ رَوَی اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ہَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ،عَنْ نَافِعٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ عُمَرَ،عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: مِثْلَہُ. وَحَدِيثُ دَاوُدَ عَنْ نَافِعٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ النَّبِيِّﷺ أَشْبَہُ وَأَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ. وَعَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ الْعُمَرِيُّ ضَعَّفَہُ بَعْضُ أَہْلِ الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہِ،مِنْہُمْ: يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ

اس سند سے بھی اس مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی سند کوئی زیادہ قوی نہیں ہے،زید بن جبیرۃ کے سلسلہ میں ان کے حفظ کے تعلق سے کلام کیاگیاہے،۲-زید بن جبیرکوفی ان سے زیادہ قوی اوران سے پہلے کے ہیں انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ہے،۳-اس باب میں ابومرثد کنّازبن حصین،جابر اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴-لیث بن سعد نے یہ حدیث بطریق: عَبْدِاللہِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِیِّ،عَنْ نَافِعٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ عُمَرَ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ اسی طرح روایت کی ہے۔داود کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: عَنْ نَافِعٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ،عَنْ النَّبِیِّ ﷺ سے روایت کی ہے۔لیث بن سعد کی حدیث سے زیادہ قرین صواب اور زیادہ صحیح ہے،عبداللہ بن عمر عمری کو بعض اہل حدیث نے ان کے حفظ کے تعلق سے ضعیف گردانا ہے،انہیں میں سے یحییٰ بن سعیدالقطان بھی ہیں۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ السَّہْمِيِّ عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہَا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ فِي سُبْحَتِہِ قَاعِدًا حَتَّی كَانَ قَبْلَ وَفَاتِہِ بِعَامٍ فَإِنَّہُ كَانَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِہِ قَاعِدًا وَيَقْرَأُ بِالسُّورَةِ وَيُرَتِّلُہَا حَتَّی تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْہَا وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ حَفْصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَبِيّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ جَالِسًا فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِہِ قَدْرُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ وَرُوِيَ عَنْہُ أَنَّہُ كَانَ يُصَلِّي قَاعِدًا فَإِذَا قَرَأَ وَہُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَہُوَ قَائِمٌ وَإِذَا قَرَأَ وَہُوَ قَاعِدٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَالْعَمَلُ عَلَی كِلَا الْحَدِيثَيْنِ كَأَنَّہُمَا رَأَيَا كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحًا مَعْمُولًا بِہِمَا

ام المو منین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کبھی بیٹھ کرنفل صلاۃ پڑھتے نہیں دیکھا،یہاں تک کہ جب وفات میں ایک سال رہ گیا تو آپ بیٹھ کر نفلی صلاۃ پڑھنے لگے۔اور سورت پڑھتے تو اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ لمبی سے لمبی ہوجاتی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ام سلمہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہے،۳-نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ رات کو بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے اور جب تیس یاچالیس آیتوں کے بقدرقرأت باقی رہ جاتی توآپ کھڑے ہوجاتے اور قرأت کرتے پھر رکوع میں جاتے۔پھردوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔اورآپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے۔اور جب کھڑے ہو کرقرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہوکر کرتے اور جب بیٹھ قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ ہی کرکرتے۔۴-احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دونوں حدیثیں صحیح اورمعمول بہ ہیں ۱؎۔

حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي جَالِسًا فَيَقْرَأُ وَہُوَ جَالِسٌ فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِہِ قَدْرُ مَا يَكُونُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ وَہُوَ قَائِمٌ ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے تو قرأت بھی بیٹھ ہی کر کرتے،پھر جب تیس یاچالیس آیتوں کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ کھڑے ہوجاتے اورانہیں کھڑے ہوکر پڑھتے پھر رکوع اورسجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا ہُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ وَہُوَ الْحَذَّاءُ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَ سَأَلْتُہَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللہِ ﷺ عَنْ تَطَوُّعِہِ قَالَتْ كَانَ يُصَلِّي لَيْلًا طَوِيلًا قَائِمًا وَلَيْلًا طَوِيلًا قَاعِدًا فَإِذَا قَرَأَ وَہُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَہُوَ قَائِمٌ وَإِذَا قَرَأَ وَہُوَ جَالِسٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَہُوَ جَالِسٌ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺکی نفل صلاۃ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا:آپ رات تک کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھتے اوردیرتک بیٹھ کرپڑھتے جب آپ کھڑے ہوکر قرأت کرتے تو رکوع اورسجدہ بھی کھڑے کھڑے کرتے اور جب بیٹھ کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کرہی کرتے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا ہَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ نَہَی رَسُولُ اللہِ ﷺ عَنْ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ فَكَرِہَ بَعْضُہُمْ السَّدْلَ فِي الصَّلَاةِ وَقَالُوا ہَكَذَا تَصْنَعُ الْيَہُودُ و قَالَ بَعْضُہُمْ إِنَّمَا كُرِہَ السَّدْلُ فِي الصَّلَاةِ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْہِ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ فَأَمَّا إِذَا سَدَلَ عَلَی الْقَمِيصِ فَلَا بَأْسَ وَہُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَكَرِہَ ابْنُ الْمُبَارَكِ السَّدْلَ فِي الصَّلَاةِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے صلاۃ میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کوعطاکی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کی ہے عسل بن سفیان ہی کے طریق سے جانتے ہیں،۲-اس باب میں ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔۳-سدل کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں کہ صلاۃ میں سدل کرنا مکروہ ہے،ان کا کہنا ہے کہ اس طرح یہود کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ صلاۃ میں سدل اس وقت مکروہ ہوگا جب جسم پر ایک ہی کپڑا ہو،رہی یہ بات کہ جب کوئی کُرتے کے اوپرسدل کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۲؎ یہی احمد کا قول ہے لیکن ابن المبارک نے صلاۃ میں سدل کو (مطلقاً) مکروہ قرار دیاہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ ہِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَہَی أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَرِہَ بَعْضُ أَہْلِ الْعِلْمِ الِاخْتِصَارَ فِي الصَّلَاةِ وَكَرِہَ بَعْضُہُمْ أَنْ يَمْشِيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا وَالِاخْتِصَارُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَہُ عَلَی خَاصِرَتِہِ فِي الصَّلَاةِ أَوْ يَضَعَ يَدَيْہِ جَمِيعًا عَلَی خَاصِرَتَيْہِ وَيُرْوَی أَنَّ إِبْلِيسَ إِذَا مَشَی مَشَی مُخْتَصِرًا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے کوکھ پرہاتھ رکھ کر صلاۃپڑھنے سے منع فرمایا ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،۳-بعض اہل علم نے صلاۃ میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکروہ قراردیا ہے،اوربعض نے آدمی کے کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چلنے کو مکروہ کہا ہے،اوراختصاریہ ہے کہ آدمی صلاۃ میں اپناہاتھ اپنی کوکھ پر رکھے،یا اپنے دونوں ہاتھ اپنی کوکھوں پر رکھے۔اور روایت کی جاتی ہے کہ شیطان جب چلتاہے تو کوکھ پرہاتھ رکھ کر چلتاہے۔

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ،حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ ہَارُونَ،عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ قَالَ: قُلْتُ لأَبِي: يَا أَبَةِ! إِنَّكَ قَدْ صَلَّيْتَ خَلْفَ رَسُولِ اللہِ ﷺ،وَأَبِي بَكْرٍ،وَعُمَرَ،وَعُثْمَانَ،وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ہَا ہُنَا بِالْكُوفَةِ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ سِنِينَ،أَكَانُوا يَقْنُتُونَ؟ قَالَ: أَيْ بُنَيّ!َ مُحْدَثٌ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْہِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ. و قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: إِنْ قَنَتَ فِي الْفَجْرِ فَحَسَنٌ،وَإِنْ لَمْ يَقْنُتْ فَحَسَنٌ،وَاخْتَارَ أَنْ لاَيَقْنُتَ. وَلَمْ يَرَ ابْنُ الْمُبَارَكِ الْقُنُوتَ فِي الْفَجْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَی: وَأَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ اسْمُہُ: سَعْدُ بْنُ طَارِقِ بْنِ أَشْيَمَ

ابومالک سعدبن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ(طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ) سے عرض کیا: ا بّا جان! آپ نے رسول اللہﷺ،ابوبکر،عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے صلاۃپڑھی ہے اورعلی رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی یہاں کوفہ میں تقریباً پانچ برس تک پڑھی ہے،کیا یہ لوگ(برابر) قنوت (نازلہ) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے!یہ بدعت ہے ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔اورسفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر فجرمیں قنوت پڑھے توبھی اچھا ہے اور اگر نہ پڑھے تو بھی اچھا ہے،ویسے انہوں نے پسنداسی بات کو کیا ہے کہ نہ پڑھے اورابن مبارک فجرمیں قنوت پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے۔

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِاللہِ،حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ،عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ بِہَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَہُ بِمَعْنَاہُ

ابوعوانہ نے ابومالک اشجعی سے اسی سند سے اسی مفہوم کی اسی طرح کی حدیث روایت کی

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ قَال سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ إِنِّي كُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللہُ مِنْہُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِہِ وَإِذَا حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہِ اسْتَحْلَفْتُہُ فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُہُ وَإِنَّہُ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ يَقُولُ مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَہَّرُ ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللہَ إِلَّا غَفَرَ اللہُ لَہُ ثُمَّ قَرَأَ ہَذِہِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ ذَكَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِہِمْ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَأَنَسٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَمُعَاذٍ وَوَاثِلَةَ وَأَبِي الْيَسَرِ وَاسْمُہُ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ مِنْ حَدِيثِ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ وَرَوَی عَنْہُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ فَرَفَعُوہُ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ وَرَوَاہُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمِسْعَرٌ فَأَوْقَفَاہُ وَلَمْ يَرْفَعَاہُ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مِسْعَرٍ ہَذَا الْحَدِيثُ مَرْفُوعًا أَيْضًا وَلَا نَعْرِفُ لِأَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ حَدِيثًا مَرْفُوعًا إِلَّا ہَذَا

اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: میں جب رسول اللہﷺ سے کوئی حدیث سنتا تواللہ اس سے مجھے نفع پہنچاتا،جتناوہ پہنچانا چاہتا۔اور جب آپ کے اصحاب میں سے کوئی آدمی مجھ سے بیان کرتا تو میں اس سے قسم لیتا۔(کیا واقعی تم نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺسے خود سنی ہے؟) جب وہ میرے سامنے قسم کھالیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا،مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ابوبکر نے سچ بیان کیاکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سناہے: جوشخص گناہ کرتاہے،پھر جاکروضو کرتاہے پھرصلاۃ پڑھتاہے،پھراللہ سے استغفار کرتاہے تو اللہ اسے معاف کردیتاہے۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِہِمْ وَ مَنْ یَغْفٍرُ الذُّنُوبَ إلاَّ اللہُ وَ لَمْ یُصِرُّوا عَلَی مَافَعَلُوا وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ (اور جب ان سے کوئی ناشائستہ حرکت یا کوئی گناہ سرزد ہوجاتاہے تو وہ اللہ کو یادکرکے فوراً استغفار کرتے ہیں۔اور اللہ کے سوا کون گناہ بخش سکتاہے،اور وہ جان بوجھ کر کسی گناہ پر اڑے نہیں رہتے۔) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،ہم اسے صرف اسی طریق سے یعنی عثمان بن مغیرہ ہی کی سند سے جانتے ہیں،۲-اوران سے شعبہ اوردوسرے اورلوگوں نے بھی روایت کی ہے ان لوگوں نے اسے ابوعوانہ کی حدیث کی طرح مرفوعاًروایت کیاہے،اوراِسے سفیان ثوری اور مسعر نے بھی روایت کیا ہے لیکن ان دونوں کی روایت موقوف ہے مرفوع نہیں اور مسعر سے یہ حدیث مرفوعاً بھی مروی ہے اور سوائے اس حدیث کے اسماء بن حکم کی کسی اورمرفوع حدیث کا ہمیں علم نہیں،۳-اس باب میں ابن مسعود،ابوالدرداء،انس،ابوامامہ،معاذ،واثلہ،اور ابوالیسر کعب بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا زُہَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ فَأَصَابَنَا مَطَرٌ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ شَاءَ فَلْيُصَلِّ فِي رَحْلِہِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي الْمَلِيحِ عَنْ أَبِيہِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَخَّصَ أَہْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُعُودِ عَنْ الْجَمَاعَةِ فِي الْمَطَرِ وَالطِّينِ وَبِہِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ قَالَ أَبُو عِيسَی سَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ يَقُولُ رَوَی عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثًا و قَالَ أَبُو زُرْعَةَ لَمْ نَرَ بِالْبَصْرَةِ أَحْفَظَ مِنْ ہَؤُلَاءِ الثَّلَاثَةِ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَابْنِ الشَّاذَكُونِيِّ وَعَمْرِو بْنِ عَلِيٍّ وَأَبُو الْمَلِيحِ اسْمُہُ عَامِرٌ وَيُقَالُ زَيْدُ بْنُ أُسَامَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْہُذَلِيُّ

جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ بارش ہونے لگی تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چاہے اپنے ڈیرے میں ہی صلاۃ پڑھ لے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابن عمر،سمرہ،ابولملیح عامر (جنہوں نے اپنے باپ اسامہ بن عمرہذل سے روایت کی ہے) اور عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-بعض اہل علم نے بارش اور کیچڑ میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کی رخصت دی ہے،یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ہُوَ الْعَقَدِيُّ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ يَفْصِلُ بَيْنَہُنَّ بِالتَّسْلِيمِ عَلَی الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَمَنْ تَبِعَہُمْ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُؤْمِنِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَاخْتَارَ إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ أَنْ لَا يُفْصَلَ فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الْعَصْرِ وَاحْتَجَّ بِہَذَا الْحَدِيثِ و قَالَ إِسْحَقُ وَمَعْنَی قَوْلِہِ أَنَّہُ يَفْصِلُ بَيْنَہُنَّ بِالتَّسْلِيمِ يَعْنِي التَّشَہُّدَ وَرَأَی الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ صَلَاةَ اللَّيْلِ وَالنَّہَارِ مَثْنَی مَثْنَی يَخْتَارَانِ الْفَصْلَ فِي الْأَرْبَعِ قَبْلَ الْعَصْرِ

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺعصر سے پہلے چارکعتیں پڑھتے تھے،اور ان کے درمیان: مقرب فرشتوں اور ان مسلمانوں اور مو منوں پرکہ جنہوں نے ان کی تابعداری کی ان پر سلام کے ذریعہ فصل کرتے تھے ۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے۔۲-اس باب میں ابن عمر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) نے عصر سے پہلے کی چار رکعتوں میں فصل نہ کرنے کو ترجیح دی ہے،اورانہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔اسحاق کہتے ہیں: ان کے (علی کے) قول سلام کے ذریعے ان کے درمیان فصل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ دورکعت کے بعد تشہد پڑھتے تھے،اور شافعی اور احمدکی رائے ہے کہ رات اور دن کی صلاۃ دو دورکعت ہے اور وہ دونوں عصر سے پہلے کی چار رکعتوں میں سلام کے ذریعہ فصل کرنے کو پسندکرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ مُوسَی وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَأَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاہِيمَ الدَّوْرَقِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ مِہْرَانَ سَمِعَ جَدَّہُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ رَحِمَ اللہُ امْرَأً صَلَّی قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں ۱؎۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب حسن ہے۔

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ الْعَلَاءِ الْہَمْدَانِيَّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي خَثْعَمٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ سِتَّ رَكَعَاتٍ لَمْ يَتَكَلَّمْ فِيمَا بَيْنَہُنَّ بِسُوءٍ عُدِلْنَ لَہُ بِعِبَادَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ سَنَةً قَالَ أَبُو عِيسَی وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ عِشْرِينَ رَكْعَةً بَنَی اللہُ لَہُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَبِي ہُرَيْرَةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُہُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ الْحُبَابِ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ قَالَ و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ أَبِي خَثْعَمٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَضَعَّفَہُ جِدًّا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اوران کے درمیان کوئی بری بات نہ کی،تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوگا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-عائشہ سے مروی ہے وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس نے مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھیں اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا،۲-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،ہم اسے صرف زید بن حباب عن عمر بن أبی خثعم کی سند سے جانتے ہیں،۳-میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کوکہتے سنا کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکرالحدیث ہیں۔اورانہوں نے انہیں سخت ضعیف کہا ہے۔

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَی بْنُ أَبِي حَيَّةَ عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عِيسَی عَنْ يَحْيَی بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ كَانَ لَہُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوہَا أَجْرُ سَنَةٍ صِيَامُہَا وَقِيَامُہَا قَالَ مَحْمُودٌ قَالَ وَكِيعٌ اغْتَسَلَ ہُوَ وَغَسَّلَ امْرَأَتَہُ قَالَ وَيُرْوَی عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّہُ قَالَ فِي ہَذَا الْحَدِيثِ مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ يَعْنِي غَسَلَ رَأْسَہُ وَاغْتَسَلَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَسَلْمَانَ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي أَيُّوبَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُہُ شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَی بْنُ حَبِيبٍ الْقَصَّابُ الْكُوفِيُّ

اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اورغسل کرایا،اورسویرے پہنچا،شروع سے خطبہ میں شریک رہا،امام کے قریب بیٹھااورغورسے خطبہ سنا اورخاموش رہا تو اُسے اس کے ہرقدم کے بدلے ایک سال کے صیام اوررات کے قیام کا ثواب ملے گا۔ وکیع کہتے ہیں: اس کا معنی ہے کہ اس نے خودغسل کیااور اپنی عورت کو بھی غسل کرایا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-اوس بن اوس کی حدیث حسن ہے،۲-عبد اللہ بن مبارک نے اس حدیث کے سلسلہ میں کہا ہے کہ من غسل واغتسلکے معنی ہیں: جس نے اپنا سردھویااورغسل کیا،۳-اس باب میں ابوبکر،عمران بن حصین،سلمان،ابوذر،ابوسعید،ابن عمر،اورابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ الصَّيْرَفِيُّ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ وَيَحْيَی بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ النَّبِيُّ ﷺ الْمِنْبَرَ حَنَّ الْجِذْعُ حَتَّی أَتَاہُ فَالْتَزَمَہُ فَسَكَنَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَجَابِرٍ وَسَہْلِ بْنِ سَعْدٍ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَمُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ ہُوَ بَصْرِيٌّ وَہُوَ أَخُو أَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلَاءِ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکھجورکے ایک تنے پر (کھڑے ہوکر) خطبہ دیتے تھے،جب آپﷺ نے منبربنالیا تووہ تنا روپڑایہاں تک کہ آپ اس کے پاس آئے اور اُ سے چمٹالیا تو وہ چپ ہوگیا۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن غریب صحیح ہے،۲-اس باب میں انس،جابر،سہل بن سعد،ابی بن کعب،ابن عباس اورام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ أَبِيہِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ عَلَی الْمِنْبَرِ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ہُرَيْرَةَ وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ يَعْلَی بْنِ أُمَيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ وَہُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَقْرَأَ الْإِمَامُ فِي الْخُطْبَةِ آيًا مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وَإِذَا خَطَبَ الْإِمَامُ فَلَمْ يَقْرَأْ فِي خُطْبَتِہِ شَيْئًا مِنْ الْقُرْآنِ أَعَادَ الْخُطْبَةَ

یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کومنبر پرپڑھتے سنا: وَنَادَوْا یَا مَالِکُ ۱؎ (اوروہ پکارکر کہیں گے اے مالک!) امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،اوریہی ابن عیینہ کی حدیث ہے،۲-اس باب میں ابوہریرہ اورجابربن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اہل علم کی ایک جماعت نے امام کے خطبہ میں قرآن کی کچھ آیتیں پڑھنے کو پسندکیاہے ۲؎،شافعی کہتے ہیں: امام جب خطبہ دے اوراس میں قرآن کچھ نہ پڑھے توخطبہ دہرائے۔

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَلْيَتَحَوَّلْ مِنْ مَجْلِسِہِ ذَلِكَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن اونگھے تو اپنی جگہ بدل دے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَی الْفَزَارِيُّ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْحَارِثِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ مِنْ السُّنَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إِلَی الْعِيدِ مَاشِيًا وَأَنْ تَأْكُلَ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ قَالَ أَبُو عِيسَی ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَی ہَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَہْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يَخْرُجَ الرَّجُلُ إِلَی الْعِيدِ مَاشِيًا وَأَنْ يَأْكُلَ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ لِصَلَاةِ الْفِطْرِ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُسْتَحَبُّ أَنْ لَا يَرْكَبَ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ

علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عید کے لیے پیدل جانا اور نکلنے سے پہلے کچھ کھالینا سنت ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱-یہ حدیث حسن ہے،۲-اکثر اہل علم کااسی حدیث پرعمل ہے وہ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی عید کے لیے پیدل جائے اور عید الفطرکی صلاۃ کے لیے نکلنے سے پہلے کچھ کھالے،۳-مستحب یہ ہے کہ آدمی بلاعذر سوار ہوکرنہ جائے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْعِيدَيْنِ وَفِي الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَی وَہَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ وَرُبَّمَا اجْتَمَعَا فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ فَيَقْرَأُ بِہِمَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي وَاقِدٍ وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَہَكَذَا رَوَی سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمِسْعَرٌ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ وَأَمَّا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فَيُخْتَلَفُ عَلَيْہِ فِي الرِّوَايَةِ يُرْوَی عَنْہُ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ عَنْ أَبِيہِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ أَبِيہِ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَلَا نَعْرِفُ لِحَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ رِوَايَةً عَنْ أَبِيہِ وَحَبِيبُ بْنُ سَالِمٍ ہُوَ مَوْلَی النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ وَرَوَی عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَحَادِيثَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ إِبْرَاہِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ نَحْوُ رِوَايَةِ ہَؤُلَاءِ وَرُوِي عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّہُ كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ بِقَافٍ وَاقْتَرَبَتْ السَّاعَةُ وَبِہِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ عیدین اور جمعہ میںسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی اور ہَلْ أَتَاکَ حَدِیثُ الْغَاشِیَۃِ پڑھتے تھے،اور بسا اوقات دونوں ایک ہی دن میں آپڑتے تو بھی انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲-اس باب میں ابوواقد،سمرہ بن جندب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳-اوراسی طرح سفیان ثوری اور مسعر نے بھی ابراہیم بن محمد بن منتشر سے ابوعوانہ کی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۴-رہے سفیان بن عیینہ تو ان سے روایت میں اختلاف پایاجاتا ہے۔ان کی ایک سندیوں ہے:عَنْ إِبْرَاہِیمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ،عَنْ أَبِیہِ،عَنْ حَبِیبِ بْنِ سَالِمٍ [عَنْ أَبِیہِ ۱؎] عَنْ النُّعْمَانِ۔اورہم حبیب بن سالم کی کسی ایسی روایت کونہیں جانتے جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہو۔حبیب بن سالم نعمان بن بشیرکے آزاد کردہ غلام ہیں،انہوں نے نعمان بن بشیر سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔اور ابن عیینہ سے ابراہیم بن محمد بن منتشر کے واسطہ سے ان لوگوں کی طرح بھی روایت کی گئی ہے ۲؎ اورنبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ عیدین کی صلاۃ میں سورہ ق اور اقتربت الساعۃ پڑھتے تھے ۳؎ اوریہی شافعی بھی کہتے ہیں۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِيُّ،حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَی،حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ،عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ الْمَازِنِيِّ،عَنْ عُبَيْدِاللہِ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ عُتْبَةَ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ: مَا كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَقْرَأُ بِہِ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَی؟ قَالَ: كَانَ يَقْرَأُ بِـق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ وَ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ. قَالَ أَبُو عِيسَی: ہَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے ابوواقد لیثی حارث بن عوف رضی اللہ عنہ سے پوچھا: عید الفطر اور عید الا ٔضحیٰ میں رسول اللہﷺ کیا پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ اور اقْتَرَبَتْ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُپڑھتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔